FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حمد و نعت

ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل

 

کس زباں سے میں کروں حمد خدائے قیوم

کام دیتی ہے یہاں پر نہ فراست، نہ علوم

۔ ۔ ۔ ساحل۔ ۔ ۔

 

 

حمد باریِ تعالیٰ

(1)

فہم و ادراک تھک گئے مولا

تو سمجھ سے اس قدر بالا

صرف چھ دن میں لفظ کُن کہہ کر

تو نے پیدا کیے ہیں ارض و سما

تیری قدرت کے شاہکارِ حسیں

پھول، برگِ حنا و موجِ صبا

بحر، دریا، ندی، پہاڑ، دھنک

گلستاں، کھیت، وادی و صحرا

بیج کو قوتِ نمو دے کر

شق کیا ارضِ سخت کا سینا

ساری دنیا کو کر دیا غرقاب

تیرا قہر و جلال ہے ایسا

رس و تبّع و ایکہ، عاد و ثمود

سب کو تیرے عذاب نے گھیرا

سینۂ کوہ چیر کر تو نے

حاملہ اونٹنی کیا پیدا

سرفرازیِ اہلِ حق کے لیے

تیری قدرت سے پھٹ گیا دریا

امر سے اپنے ابنِ مریمؑ کو

کر کے ظاہر، شرف جہاں میں دیا

اپنے محبوبؐ کی دعا سن کر

ماہتابِ حسیں دو ٹکڑے کیا

سر بلندی فقط اسی کو ملی

تیری عظمت کو جس نے پہچانا

تو جو چاہے تو سنگ پانی ہو

تیرے قبضے میں سب ہیں یا اللہ

التجا بس یہی ہے ساحل کی

اِس گنہگار پر کرم فرما

 

(2)

حمد ہے آفتاب کا منظر

گردشِ انقلاب کا منظر

بادلوں کے سیاہ جھرمٹ میں

تیز رو ماہتاب کا منظر

بحرِ پُر شور کے تلاطم میں

لہر و موج و حباب کا منظر

تتلیوں کے پروں کی نقّاشی

حسنِ رنگِ گلاب کا منظر

نرم و نازک ہوا کے کاندھوں پر

اُڑتے پھرتے سحاب کا منظر

اُس کی قدرت کا ہی کرشمہ ہے

موسمِ لاجواب کا منظر

فرش مخمل پہ کروٹیں لیتا

زندگی کے عذاب کا منظر

حالتِ بیکسی میں کانٹوں پر

شوقِ کارِ ثواب کا منظر

ظلمتِ شب میں، گھر کے کونے میں

شمع کے التہاب کا منظر

عہدِ طفلی سے عہدِ پیری تک

نعمتِ بے حساب کا منظر

فکرِ ساحل کو روک دیتا ہے

حیرت و استعجاب کا منظر

(3)

جو پُر یقیں ہیں انھی کو اٹھان دیتا ہے

خدا پرند کو اونچی اڑان دیتا ہے

اسی کا کلمۂ توحید افضل و اعلا

یہ دیکھ روز مؤذّن اذان دیتا ہے

دعائیں مانگ اسی سے تو بے مکانی پر

وہی زمین پہ سب کو مکان دیتا ہے

اگر وہ چاہے ہری کھیتوں کو کر دے تباہ

اُسی کے اِذن پہ فصلیں کسان دیتا ہے

غرور کس لیے تجھ کو ہے خوش کلامی پر

وہ چاہتا ہے تو شیریں زبان دیتا ہے

عطا وہ کرتا ہے جنت کی اُس کو ہر نعمت

جو اُس کے دیں کے لیے اپنی  جان دیتا ہے

اُسی کی ذات پہ ساحل یقین رکھ، ورنہ

وہ انحراف پہ وہم و گمان دیتا ہے

 

 

(4)

خدا قلاّش کو بھی شان و شوکت بخش دیتا ہے

وہی ذراتِ بے مایہ کو عظمت بخش دیتا ہے

وہ شہرت یافتہ کو پل میں کر دیتا ہے رسوا بھی

ذلیل و خوار کو چاہے تو عزت بخش دیتا ہے

کبھی دانشوروں پر تنگ کر دیتا ہے وہ روزی

کبھی جاہل کو بھی انعامِ دولت بخش دیتا ہے

وہ لے کر تاجِ شاہی کو کسی سرکش شہنشاہ سے

کسی کمزور کو دے کر حکومت بخش دیتا ہے

وہی بے چین رکھتا ہے امیرِ شہر کو شب بھر

یقیں کی سیج پر مفلس کو راحت بخش دیتا ہے

فضائے شر میں، کارِ خیر کو ملتی ہے یوں عزت

وہ جب نفرت کے بدلے دل کو چاہت بخش دیتا ہے

سمجھ لیتا ہے ساحلؔ جو بھی اس رازِ مشیت کو

وہ اُس انسان کو نورِ حقیقت بخش دیتا ہے

 

(5)

گردشِ شام اور سحر میں تو

ہر پرندے کے بال و پر میں تو

مور کے پنکھ میں تری قدرت

برق، سیلاب اور بھنور میں تو

تیری توحید کی علامت ہیں

پھول، غنچہ، کلی، ثمر میں تو

ان کی تابندگی ہے امر ترا

لعل و یاقوت میں گہر میں تو

ریگِ صحرا میں، صحنِ گلشن میں

کھیت میں، دشت میں، کھنڈر میں تو

کوئی انکار کر نہیں سکتا

مٹی، پانی، ہوا، شرر میں تو

سارا عالم ہے تیرے قبضے میں

ملک، صوبہ، نگر نگر میں تو

یہ نتیجہ ہے حسنِ فطرت کا

بس گیا ہے مری نظر میں تو

دل میں ساحلؔ کے تو ہی رہتا ہے

اس کی مغموم چشمِ تر میں تو

 

(6)

وجود اُس کا ہے مشک و گلاب سے ظاہر

یہ جگمگائے ہوئے ماہتاب سے ظاہر

جو اُس کے حکم سے روشن ازل سے ہے اب تک

حریفِ ظلمتِ شب، آفتاب سے ظاہر

نسیم، برق، شرر، بادِ تند، قوسِ قزح

شفق، نجوم، خلا و سراب سے ظاہر

بہشت و دوزخ و قہر و جلال، حور و ملک

جزا، سزا و ثواب و عذاب سے ظاہر

منی و علقہ و مضغہ کی پرورش سے عیاں

ضعیفی، طفلی، و عہدِ شباب سے ظاہر

ہر ایک لفظ میں کونین جذب ہے جس کے

اُسی مقدس و اطہر کتاب سے ظاہر

یقین آئے نہ اِن پر تو ہوگا وہ ساحلؔ

بروزِ حشر حساب و کتاب سے ظاہر

 

(7)

مسکراتے ہوئے شہروں کو مٹایا تو نے

اور ویران علاقوں کو بسایا تو نے

رونے والوں کو اچانک ہی ہنسایا تو نے

ہنسنے والوں کو اِسی طرح رُلایا تو نے

ماں کی ممتا میں سما کر سبھی بچوں کو سدا

تھپکی دے دے کے محبت سے سلایا تو نے

وقت پر اپنے گرا بارشِ رحمت بن کر

بحرِ پُر شور سے بادل جو اٹھایا تو نے

اس سے سیراب ہے ہر لمحہ حیاتِ انساں

رحمتِ خاص کا وہ دریا بہایا تو نے

یہ بھی رحمت ہے تری بھیج کے دنیا میں رسولؐ

اپنی توحید کا پیغام سنایا تو نے

تیری توصیف میں یہ مصرعِ ساحل بھی ہے

اس کی رسوائی سے ہر وقت بچایا جائے

 

(8)

کچھ پتھروں کو قیمتی پتھر بنا دیا

قطرے کو تو نے سیپ میں گوہر بنا دیا

یہ بھی اصل میں تری تقدیر کا کمال

جس نے امیرِ شہر کو نوکر بنا دیا

دستِ دعا کو دیکھ کے جب مہرباں ہوا

بے انتہا غریب کو افسر بنا دیا

کل رو رہا تھا جو، ہے وہی آج شادماں

بدتر کو تو نے آن میں بہتر بنا دیا

علما بھی اس کی فکر گم ہوکے رہ گئے

کم علم کو اک ایسا سخنور بنا دیا

اس طرح سے بچا لیا اپنے خلیلؑ کو

نارِ غضب کو پھول کا بستر بنا دیا

جس کو بھی چاہا اس کو دیا عزت و شرف

اور جس کو چاہا اپنا پیمبر بنا دیا

خنجر کو شاخِ گل کی کبھی دی نزاکتیں

اور شاخِ گل کو وقت پہ خنجر بنا دیا

لذت نشاط کی ملی ہر حال میں اسے

ساحلؔ کا تو نے ایسا مقدر بنا دیا

 

(9)

ایک قطرے کو صدف میں زندگی دیتا ہے کون

بن گیا موتی اسے تابندگی دیتا ہے کون

آگیا موسم خزاں کا، موت سب کو آ گئی

مردہ پودوں کو دوبارہ زندگی دیتا ہے کون

بن گئی ہیں پھول سب اپنے چٹکنے کے سبب

لب پہ کلیوں کے اچانک ہی ہنسی دیتا ہے کون

یہ ہیں سب بے جان ان میں جان کیسے آ گئی

تال، سر، لفظ و صدا کو دلکشی دیتا ہے کون

کھو گیا اس کی نوا میں تو مگر یہ بھی تو دیکھ

نالۂ بلبل میں درد و نغمگی دیتا ہے کون

ان کی تابانی سے نظروں کو ہٹا کر یہ بھی سوچ

انجم و شمس و قمر کو روشنی دیتا ہے کون

اپنے شعروں پر ہے ساحلؔ کیوں تجھے اتنا غرور

سوچ کہ شاعر کو ذوقِ شاعری دیتا ہے کون

 

(10)

ردائے ظلمتِ شب پل میں پھاڑ کر تو نے

نکالی گردشِ ایام کی سحر تو نے

میرا عقیدہ ہے، ایسا ہے قادرِ مطلق

جو سنگ ریزے تھے ان کو کیا گہر تو نے

جو مضطرب رکھے اس کو جگر کے ٹکڑے پر

دیا ہے ماں کو وہی عشقِ معتبر تو نے

رسولِؐ صادق و مصدوق و امّی کے ذریعے

بدل دی خیرِ مکمل سے فکرِ شر تو نے

اٹھائی جس پہ، اسے معرفت ملی تیری

عطا کی بندۂ مومن کو وہ نظر تو نے

مرے کریم! ترا شکر اس عنایت پر

دیا ہے مجھ کر ضرورت کا مال و زر تو نے

ہے اعتراف کہ ساحل ہے مطمئن اس میں

دیا ہے اس کو وراثت میں ایسا گھر تو نے

 

(11)

واحد ہے، بے نیاز و بے اولاد و آل ہے

تو ربِ کائنات ہے اور ذوالجلال ہے

ہر شے میں اس جہاں کی جو حسنِ و جمال ہے

تیری ہی صنعتوں کا یہ روشن کمال ہے

احسن ہے کون تیرے سوا خالقین میں

کاریگری میں تیری بڑا اعتدال ہے

سیارے سارے رہتے ہیں اپنی حدود میں

شمسی و قمری نظم ترا بے مثال ہے

اک دوسرے کو لے نہیں سکتے گرفت میں

سیّارگان میں کہاں اتنی مجال ہے

قائم ہے تیرے حکم سے ہی ان کی گردشیں

ورنہ یہ کام اصل میں امرِ محال ہے

یہ التجا ہے حسبِ ضرورت ہی دے اسے

ساحل کا تیرے آگے جو دستِ سوال ہے

 

جھ کو نہیں قبول، مجھی

معبودِ حقیقی

نہیں معبود کوئی

بس اک اللّٰہ معبودِ حقیقی ہے

چراغِ نور ہو جیسے کسی قندیل کے اندر

رکھا ہو ایک شیشے کے کنول میں وہ

ہے شیشے کا کنول شفاف مثلِ کوکبِ پُر نور

وہ روشن روغن زیتون سے ہے جو مبارک اک شجر ہے

ہے اس کی روشنی مشرق کی جانب

اور نہ ہی مغرب کی جانب

وہی ہے حیّ و قیّوم

نہ اس کو اونگھ آتی ہے

نہ اس کو نیند آتی ہے

زمیں اور آسمانوں میں ہے جو کچھ

سب اس کی ملکیت ہے

بغیرِ اذن اس کے کر نہیں سکتا

سفارش کوئی بھی اس سے کسی کے واسطے

ہمارے آگے جو کچھ ہو رہا ہے

ہمارے پیچھے جو کچھ ہو چکا ہے

اسے سب کی خبر ہے

احاطہ کر نہیں سکتا ہے کوئی علم کا اس کے کسی شئی میں

مگر وہ جتنا چاہے

اسی کی حکمرانی ہے زمین و آسمانوں میں

وہ تھکتا ہی نہیں اپنی حکومت کو چلانے میں

وہی ہے اکبر و مولیٰ

وہی سب حاکموں کا حاکمِ اعلا

وہ جس کو چاہتا ہے حکمرانی بخش دیتا ہے

وہ جس سے چاہتا ہے حکمرانی چھین لیتا ہے

وہ جس کو چاہتا ہے عزت و ناموس دیتا ہے

وہ جس کو چاہتا ہے خوار کر دیتا ہے پل بھر میں

وہ جس کو چاہتا ہے سب سے زیادہ رزق دیتا ہے

ہے اس کے ہاتھ میں سب کچھ

وہی ہے حاکمِ اعلا

 

ربِّ کائنات

وہ ابتدا، وہ انتہا

وہی عیاں، وہی نہاں

وہ قادر و حکیم ہے

رحیم ہے، کریم ہے

سمیع اور بصیر ہے

علیم ہے، خبیر ہے

وہ نورِ ارض و آسماں، وہ ربِّ کائنات ہے

عیوب سے منزّہ اور مصفّا اس کی ذات ہے

مقیم ہے وہ عرش پر، بجا یہ بات ہے ، مگر

رگِ گلو سے ہر بشر کی وہ بہت قریب ہے

ہمارے دل کے سارے راز تک سے ہے وہ باخبر

اسی نے پیدا کیں زمین و آسماں کی نعمتیں

ہے اس کے دسترس میں سب کی موت اور زندگی

ہر ایک بیج کو دیا اسی نے قوتِ نمو

اتارتا ہے پانی ہم پہ آسمان سے وہی

زمین و آسماں سے ہم کو رزق کرتا ہے عطا

وہی نظامِ کائنات کا ہے تنہا منتظم

زمیں، فلک، شجر، حجر، نجوم و مہر و کہکشاں

یہ ماہتابِ تیز رو، صبا، گھٹا، چمن، خزاں

یہ صبح و شام کا طلوع اپنے وقتِ خاص پر

یہ بحرِ بیکراں، یہ کوہسار و جوئے مضطرب

سب اس کے زیر حکم ہیں

وہی ہے سب کا حکمراں

تمام حمد اور ستائشوں کا مستحق ہے وہ

اسی کی بندگی کرو، اسی سے التجا کرو

اسی کے سامنے سرِ نیاز کو جھکاؤ تم

شریک مت بناؤ اس کی ذات میں کسی کو تم

یہ انبیا، یہ اولیا، یہ صوفیان با صفا

یہ دیوتا، رشی منی،

سب اس کے بندہ و غلام ہیں یہ خود خدا نہیں

مت ان کے سامنے جھکو

عظیم سے عظیم تر یہ عہد نو کے فتنہ گر

یہ حکمراں، یہ زر پرست

سب اس کے آگے ہیچ ہیں

نہ ان سے التجا کرو

اسی کی بندگی کرو جو ربِ کائنات ہے

اسی سے التجا کرو، وہی ہے سب کا بادشاہ

 

رحمتِ الٰہی

تیری رحمت ہے سب کو گھیرے ہوئے

صبحِ صادق کا چہرۂ خنداں

شامِ رنگیں کا جلوۂ محجوب

فرش کی طرح سے بچھی یہ زمیں

احمریں مہر یہ چمکتا ہوا

جگمگاتا یہ ماہتابِ حسیں

مسکراتے یہ انجمِ تاباں

بادِ صرصر کی شوخیِ پیہم

بحر، دریا، ندی کا آبِ رواں

کوہساروں کے سلسلوں کا سماں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

نغمۂ سرمدی پرندوں کے

پی پپیہے کی، کوک کوئل کی

جاں نوازیِ نالۂ بلبل

رقصِ طاؤس کا حسیں انداز

صحنِ گلشن کی ساری رعنائی

عطر بیزیِ خوشبوئے گلزار

رنگ در رنگ منظرِ دلکش

گل کا رُخ چومتی نسیمِ سحر

کفِ گل پر جمی ہوئی شبنم

تیرے ذوقِ جمال کے شاہد

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

ریشم و اون، اطلس و کمخواب

عنبر و مشک و عطر اور کافور

ننھی منی سی نحل کی تخلیق

چار پایوں کا نفع بخش وجود

باغ میوے کے، کھیت غلے کے

بحرِ پُر جوش کے تلاطم میں

موج کو چیرتے ہوئے یہ جہاز

ریت و ماہی و لولو و مرجاں

نعمتوں کا تری شمار کہاں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

مرسلات و مقسمات کا زور

حاملات اور زاریات کا زور

عاصفات اور ناشرات کا زور

جاریات اور فارقات کا زور

دوش پر ان کے اُڑتے ابرِ کرم

ارض کی تشنگی بجھاتے ہیں

مردہ سبزوں کو لہلہاتے ہیں

بیج کو قوتِ نمو دے کر

پیڑ، پودے، شجر اگاتے ہیں

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

زلزلہ، رعد، برق، قحط، وبا

موج، سیلاب اور طغیانی

کوہساروں میں آتش افشانی

برف باریِ موسمِ سرما

گرم موسم میں چلتی باد سموم

یورشِ آب و باد بارش میں

ہیں بظاہر ترے جلال مگر

سب میں رحمت ہے جلوہ گر تیری

 

قادرِ مطلق

ھوالاول، ھوالآخر، ھوالظاہر، ھوالباطن

خدائے لا یموت و لم یزل وہ ہے

وہی ہے المصوّر، المھیمن

وہی جبّار و قھّار  و سلام  و حیّ و قیّوم

وہی ہے عالم الغیب و شھادہ

رعونت، خودسری، شرک و جہالت حکمراں جب بھی ہوئی ہے

ہوا مجروح جب سینہ تقدس کا کبھی سنگِ ملامت سے

نکالا اس نے ہی فاسد لہو تہذیب کی رگ سے

ثمود و عاد کو، اصحابِ مدین کو

کبھی اصحابِ رس، اصحابِ ایکہ کو

کیا نابود و دنیا سے

دکھاتا ہے کبھی وہ اپنی قدرت کو عصا دے کر

ڈبوتا ہے بنا کر راستہ وہ نیل میں مغرور و سرکش کو

پلٹ دیتا ہے دھرتی کو

الٹ دیتا ہے بستی کو

کچلتا ہے کبھی وہ سر حنین و بدر میں فرعونیت کا اپنی قدرت سے

کبھی وہ ماسکو سے لندن و پیرس کے ٹاور تک

عراق و شام سے افغان و پاکستان و بھارت تک

وہ پنٹاگون سے ارضِ فلسطیں تک

اسی انداز سے تہدید کرتا ہے

ذرا سوچو!

وہی ہے قادرِ مطلق

 

فاتحہ

تعریف تجھی کو زیبا ہے

سبحان اللہ، سبحان اللہ

تو سارے جہاں کا داتا ہے

سبحان اللہ، سبحان اللہ

ہے لطف و عنایت سب پہ تری

یکساں ہے کرم سب پر تیرا

رحمت ہے تری سب کے سر پر

رزاق ہے تو سب کا آقا

تو اول ہے، تو آخر ہے

تو افضل ہے، تو برتر ہے

تو ظاہر ہے، تو باطن ہے

تو مالک روزِ محشر ہے

اے قادر و عادل تیرے سوا

معبودِ حقیقی کوئی نہیں

ہم تیری عبادت کرتے ہیں

ہستی پہ تری ہم کو ہے یقیں

تو ایسی ہدایت دے ہم کو

چلتے ہی رہیں رستہ سیدھا

ان لوگوں کا رستہ دکھلا

جس پر کہ انھیں انعام ملا

اس رہ سے بچا جس پر کہ غضب

ہوتا ہے سدا تیرا نازل

ارماں ہے یہی، حسرت ہے یہی

مل جائے ہمیں سچی منزل

 

مناجات

مری جبیں ہے فقط تیرے آستاں کے لیے

قبول کر لے دعاؤں کو شرمسار نہ کر

۔ ۔ ۔ ساحل۔ ۔ ۔

 

تو میری سوچ کے پودے کو اک شجر کر دے

دعا یہ ہے مرے لہجے کو معتبر کر دے

صدف میں فکر و تخیل کے میں مقید ہوں

مثالِ قطرہ ہوں برسوں سے اب گہر کر دے

صلیب و دار و رسن ہی مرا مقدر ہے

سفر کٹھن ہے کوئی مرا ہم سفر کر دے

بچا لے شر کی تباہی سے تو مجھے یا پھر

مری حیات کے عرصے کو مختصر کر دے

سوائے اس کے مرے دل میں آرزو ہی نہیں

یہی کہ مرکزِ اخلاص میرا گھر کر دے

میں پھنس سکوں نہ کبھی دامِ شر میں دنیا کے

مجھے مقاصدِ ہستی سے باخبر کر دے

اوڑھا دے چادر رحمت عیوبِ ساحل پر

ہے بے اثر یہ نوا، اس کو با اثر کر دے

گھر چکا ہوں میں گناہوں میں خدا

لے لے تو اپنی پناہوں میں خدا

کر حفاظت کہ بہت ہی کم ہے

روشنی میری نگاہوں میں خدا

استقامت دے عزائم کو مرے

خار ہی ہیں راہوں میں خدا

کر عطا اپنی محبت مجھ کو

گم ہے دل من کے اِلاہوں میں خدا

دے ہدایت کہ خوشی ملتی ہے

بدعت و شرک کی باہوں میں خدا

اپنے انجام سے بے حد ڈر کر

آیا ہوں تیری پناہوں میں خدا

قلبِ ساحل کو مصفا کر دے

وہ مقید ہے گناہوں میں خدا

 

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربیّ

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربیّ

ہوا ہے گلشنِ امّید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربیّ

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربیّ

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربیّ

کلائی کفر و ضلالت کی موڑ کر رکھ دیں

نوائے حق کو وہی جاں نثار دے ربیّ

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

مرے خیال کو اتنا نکھار دے ربیّ

بہت برا ہے گناہوں سے حال ساحلؔ  کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربیّ

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

ساری مخلوق کا دراصل ہے تو ہی خالق

آگ نفرت کی ہر اک دل سے بجھا دے مولیٰ

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

 

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

 

اثر پذیر مجھے طرزِ گفتگو دیدے

مرے خدا، مرے لفظوں کو آبرو دیدے

میں تیرے ذکر مسلسل میں ہی رہوں مصروف

دعا یہ ہے تو مجھے ایسی جستجو دیدے

وجود اپنا مٹا دوں تری محبت میں

ہے التماس یہی ایسی آرزو دیدے

وہ جس ے پرچم توحید کو بلند کیا

مری رگوں میں وہی گردشِ لہو دیدے

شجر سکوں کا بنا تخمِ فکر کو میرے

زمیں ہے سخت بہت قوتِ نمو دیدے

تری نوازشِ پیہم رہی ہے ساحل پر

یہ التجا ہے کہ پوتے بھی نیک خو دیدے

 

میرے جنونِ شوق کو ہوش و حواس دے

لہجہ اگر ہو سخت تو اس میں مٹھاس دے

دنیا کے گوشے گوشے میں فصلِ کپاس دے

جو بے لباس ہوں انھیں اچھا لباس دے

ایسی مسرتیں کہ جو ہوں وجہِ گمرہی

مجھ کو نہیں قبول، مجھے دل اداس دے

شدت کی جب لگی ہو مجھے روزِ حشر پیاس

کوثر کے آبِ شیریں کا مجھ کو گلاس دے

نزدیک ترے جب مری حبل الودید کے

تو نورِ معرفت بھی مرے دل کے پاس دے

اس سے زیادہ کچھ نہیں میری ضرورتیں

روزانہ خرچ کے لیے روپیے پچاس دے

ساحل ہے منکرات میں اب تک پھنسا ہوا

میرے کریم اس کو دلِ حق شناس دے

 

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دیدے

پیڑ سرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دیدے

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دیدے

تجھ کو پہچان سکوں دیکھ کے حسنِ فطرت

آنکھ تو دی ہے مگر ایسی نظر بھی دیدے

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دیدے

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دیدے

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دیدے

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دیدے

 

امن عالم کے لیے انسانِ اکمل بھیج دے

العطش کا شور ہے رحمت کے بادل بھیج دے

فکر عاقل سے جہنم بن چکی ہے یہ زمیں

ان کو سمجھانے خدایا کوئی پاگل بھیج دے

عہدِ نو کو روشنی سے جس کی کچھ ہو فائدہ

علم و دانش کا کوئی ماہِ مکمل بھیج دے

جس کو پیتے ہی مجھے ہو معرفت تیری نصیب

ساغرِ عرفاں کی ربی ایسی چھاگل بھیج دے

مسلکِ ذاتی سے ملت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی

اختلاف و نزع کا یا رب کوئی حل بھیج دے

رہ گئی ہے چشم ساحل میں ذرا سی روشنی

اس کی آنکھوں کے لیے نورانی کاجل بھیج دے

 

امن کا سورج پھر چمکا دے یا اللہ

فتنوں کو دنیا سے مٹا دے یا اللہ

حال یہ ہے ہر دل کی بستی اجڑی ہے

اس بستی کو پھر سے بسا دے یا اللہ

تاکہ پھر شانِ عظمت ماضی کی

سوئے ہوئے جذبات جگا دے یا اللہ

جس پر چل کر چین ملے دل کا ہم کو

نیکی کی وہ راہ دکھا دے یا اللہ

دین کے شیدائی تیرے اب لڑتے ہیں

ان کو تو آپس میں ملا دے یا اللہ

جس کو سن کر باطل بھاگا ہے اکثر

پھر ایسی آواز سنا دے یا اللہ

دل سے وہ اپنی غلطی پر نادم ہے

ساحل کے ہر عیب چھپا دے یا اللہ

 

میرے مالک یہ تجھ سے دعا ہے

تجھ سے میری یہی التجا ہے

دل کو تو میرے پاکیزہ کر دے

علم کا نور سینے میں بھر دے

تو بچا لے برائی سے مجھ کو

دے محبت بھلائی سے مجھ کو

راستہ مجھ کو سیدھا بتا دے

ہر غلط راستے سے بچا لے

دور رکھ مجھ کو بغض و حسد سے

دور رکھ مجھ کو ہر فعلِ بد سے

پڑھنے لکھنے کی دے مجھ کو طاقت

تاکہ رکھوں کتابوں سے الفت

دوں غریبوں کو ہر دم سہارا

اور ٹوٹے دلوں کو دلاسا

اپنے ماں باپ سے رکھوں چاہت

دے ہدایت کروں ان کی خدمت

حکم استاد کا اپنے مانوں

سب بزرگوں کو میں دل سے چاہوں

میرے داتا کرم اتنا کر دے

میری جھولی مرادوں سے بھر دے

 

خدایا آرزو میری یہی ہے

یہ حسرت دل میں کروٹ لے رہی ہے

بنوں کمزور لوگوں کا سہارا

دکھی لوگوں کو دوں ہر دم دلاسا

ضعیفوں، بیکسوں کے کام آؤں

غریبوں، مفلسوں کے کام آؤں

میں اپنے دوستوں کا دکھ اٹھاؤں

جو روٹھے ہوں انھیں ہنس کر مناؤں

برائی سے سدا لڑتا رہوں میں

بھلا ہر کام ہی کرتا رہوں میں

ہمیشہ علم سے رکھوں میں الفت

کتابوں سے سدا رکھوں محبت

جو بھٹکے ہوں انھیں منزل دکھاؤں

جو اندھے ہوں انھیں رستہ بتاؤں

کروں ماں باپ کی دل سے میں خدمت

رکھوں استاد سے اپنے محبت

بزرگوں کی نصیحت کو سنوں میں

عمل پھر اس نصیحت پر کروں میں

میں نفرت کے چراغوں کو بجھاؤں

دیا امن و محبت کا جلاؤں

کروں اپنے وطن کی پاسبانی

عطا کرنا مجھے وہ نوجوانی

خدایا آرزو کر دے یہ پوری

یہی بس التجا ہے تجھ سے میری

 

طالوت

خدائے قادر و عادل!

یہ عہدِ نو مزین ہے یقیناً علم و فن سے

مگر در اصل یہ عہدِ جہالت ہے

ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے

اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں

دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے

گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے

علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں

ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں

رخ روحانیت مرجھا رہا ہے

غرور  و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے

حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں

فرائض رو رہے ہیں

ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے

خدائے قادر و عادل!

پھر کسی مفلس کے مسکن سے

کوئی طالوت کر ظاہر

 

التجا

خالقِ کائنات و جن و انس

وحدہٗ لاشریک تیری ذات

تو ہے نباض نبضِ عالم کا

تیرے قبضے میں سب کی موت و حیات

تو نے تخلیقِ کائنات کے بعد

نوعِ انساں کو سرفراز کیا

دے کے اس کو خلافتِ ارضی

اور پہنا کے سر پہ تاجِ شرف

لیکن اے مالک و رحیم و کریم

عصرِ حاضر کے یہ ترے بندے

تیرے انعام سے گریزاں ہیں

تیرے الطاف کے بھی منکر ہیں

کتنے مردود ہیں، رذیل ہیں یہ

پوجتے ہیں بس اپنی دولت کو

ان کا مقصد ہے نفس کی تسکیں

یعنی ذوقِ انا کی خوشنودی

اپنی تسکینِ ذوق کے خاطر

اپنے ہاتھوں سے ہی بشکلِ حسیں

لات و عزیٰ، ہبل تراشے ہیں

اور یہ کور چشم شام و سحر

ان کے آگے جبیں جھکاتے ہیں

ان کی مذموم حرکتوں کے سبب

آج ہر گام پر ہے رقص کناں

بربریت، تشدد و بدعت

جور و ظلم و ستم، دغا بازی

بغض، نفرت، ہوس کی فتنہ گری

خود سری، خویش پروری، چوری

اور پھر یہ بھی اک صداقت ہے

آج ہر گام پر رعونت ہے

ہے چلن عام بے حیائی کا

روحِ انسانیت تڑپتی ہے

ہیں بظاہر جو مصلح و رہبر

اور داعی ہے جو اخوت کے

ان کے سائے میں فتنے پلتے ہیں

صوفی و عالم و خطیب و امام

دین و مذہب کے سائے میں اکثر

تشنگیِ ہوس بجھاتے ہیں

میرے معبود، اے مرے مالک

ایسے ماحول میں مرا جینا

باعثِ صد ملال ہی ہوگا

اک مسلسل عذاب ہی ہوگا

اس لیے ہے یہ التجا مری

علمِ نافع سے تو مرے دل کو

کر دے معمور تاکہ شر سے میں

خود کو محفوظ رکھ سکوں ہر پل

 

نعتیں

ان کی ذاتِ اقدس ہی، رحمتِ مجسم ہے

عرش پر معظّم ہے، اور فخرِ عالم ہے

یہ شرف ملا کس کو، فرش کے مکینوں میں

قدسیوں کی محفل میں، ذکر ان کا پیہم ہے

مخزنِ تقدس ہے، چشم پُر حیا اُن کی

گیسوئے حسیں اُن کا، نرم مثلِ ریشم ہے

قطرۂ عرق روشن، یوں ہے اُن کے چہرے پر

پھول کی ہتھیلی پر، جیسے دُرِّ شبنم ہے

بے مثال سیرت ہے، اُن کی ڈھونڈتے کیا ہو

انبیا میں افضل ہے ا کرم و مُکرّم ہے

اُن کے جہدِ پیہم سے، انقلابِ نو آیا

شرک کو ندامت ہے، اور کفر برہم ہے

اُن کی مدح میں آگے، اور کیا لکھے ساحلؔ

اِس کی عقل ناقص ہے، اِس کا علم بھی کم ہے

 

خوشا ہر گوشۂ سیرت منّور ہے محمدؐ کا

مثالِ آئینہ شفاف پیکر ہے محمدؐ کا

صبا مس ہوکے جب گزرے اسے مستی میں آ جائے

بسا خوشبو میں ایسا جسمِ اطہر ہے محمدؐ کا

اسی سے ماہ و انجم روشنی کی بھیک لیتے ہیں

کچھ اِس انداز سے چہرہ منور ہے محمدؐ کا

لکھیں اس کے سوا تعریف کیا ہم اس کی عظمت کی

ریاضِ خلد دنیا میں فقط گھر ہے محمدؐ کا

تصدق دولتِ کونین ہے جس کے تقدس پر

جہانِ فقر و فاقہ میں وہ بستر ہے محمدؐ کا

***

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

پروف ریڈنگ: جویریہ مسعود، اعجاز عبید