FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

دو پلے

 

انقلاب کے بعد

اور  

لہو پکارے گا آستیں کا

 

 

 

               سید معز الدین احمد فاروق

 

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘، ’اردو پلے‘  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

ضروری ہدایات

 

٭       ڈرامے میں بار بار منظر بدلتا ہے۔ اس لیے پردہ نہ گرایا جائے۔ اسٹیج پر اندھیرا کر دینا کافی ہے۔

٭       اسٹیج پر کم سے کم سامان رکھا جائے تاکہ منتقل کرنے میں سہولت ہو اور دیر تک اندھیرا نہ کرنا پڑے۔

٭       ایوان کے اجلاس کے دوران اراکین کی پشت ناظرین کی جانب ہونی چاہئے تاکہ ناظرین بھی ایوان کے اراکین میں شامل ہو جائیں۔ لیکن مکالمے اسٹیج ہی سے بولے جائیں گے۔

 

کردار

 

علامہ اجتہادی

علامہ تنگ نظری

علامہ گنجائشی

سردار

باغی

مالک

بوڑھا

منشی

پولیس

ایک شخص

دوسرا شخص

بچہ

شخص

لڑکا ، عورت مالکن ، عورت ملازمہ ،  نیا آدمی ،  انگریز

منظر     :ڈریم لینڈ میں انقلاب آ چکا ہے اور ملک کے مذہبی رہنما علامہ تنگ نظری ایوان سے مخاطب ہیں۔

 

 

 

 

علامہ     :ملک میں انقلاب آ چکا ہے اور انقلابی نسل اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہے۔ لیکن ہم اسے کامیابی نہیں سمجھتے۔ جب تک ہم اپنے مذہبی قانون کے نفاذ میں کامیاب ہو جائیں۔ اس قانون کے تحت ہم نے جو پالیسی وضع کی ہے اس کا مختصراً تعارف میں ضروری سمجھتا ہوں۔ وزارت داخلہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں نظم و ضبط قائم کریں اور باغیوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں۔ جگہ جگہ صلوٰۃ کمیٹیاں بنائی جائیں اور نماز کو ہر شخص کے لئے ضروری قرار دیا جائے۔ نہ پڑھنے کی صورت میں سزا دی جائے۔ وزارت قانون سے کہا گیا ہے کہ اخلاقی جرائم پر عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ وزارت خارجہ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ پڑوسی ممالک سے بہتر سے بہتر تعلقات قائم کئے جائیں اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو نظر انداز کیا جائے اور اختلاف کی صورت میں چشم پوشی سے کام لیا جائے۔ اب میں آپ تمام حضرات کی توجہ ملک کی معاشی اور اقتصادی پالیسی کی طرف مبذول کرتا ہوں۔ جو ہمارے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں جو سرمایہ دار طبقہ ہے اس نے ملک بہت کچھ دیا ہے۔ ہر آزمائش کی گھڑی میں قوم کو منظم کرنے اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں اس طبقہ نے ہمارا ہر لحاظ سے ساتھ دیا ہے اور ان کی جو کچھ ملکیتیں ہیں، جو کچھ کارخانے، زمینیں ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ جس سے ا نہیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان کا مذہبی حق ہے کہ یہ ملکیتیں ا نہیں کے قبضہ میں رہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے حاصل ہونے والا سارا سرمایہ ا نہیں کا ہو گا بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ملکیت ا نہیں کی ہو گی اور اس سے حاصل ہونے والے سرمائے کا مقررہ حصہ حکومت کا ہو گا۔ جو قومی خزانے میں جمع کیا جائے گا۔

(علامہ گنجائشی کھڑے ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں۔)

گنجائشی  :مجھے آپ کی رائے سے اختلاف ہے۔

علامہ     :مذہبی رہنما ہیں اور ان کی رائے سے اختلاف کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔

گنجائشی  :وہ صحیح ہے لیکن قومی پالیسی عوام کے مفاد کے خلاف ہو گی تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی۔

علامہ     : آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

گنجائشی  :میں ذاتی ملکیتوں کو بحال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

علامہ     :لیکن مذہبی قانون اجازت دیتا ہے۔

گنجائشی  :مذہبی قانون میں اجتہاد ضروری ہو گیا ہے۔

علامہ     :یہ قانون بہت واضح ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔

گنجائشی  :گنجائش ہمیں پیدا کرنی ہو گی۔

علامہ     :اس کی وجہ۔

گنجائشی  :ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں اب وہ اخلاق نہیں رہے جو پہلے تھے۔

علامہ     :اخلاق سے اس کا کیا تعلق۔ ہم اقتصادی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ اخلاق کی نہیں۔ آپ موضوع سے ہٹ گئے ہیں۔

گنجائشی  :جہاں تک ذاتی ملکیتوں کی اجازت کا سوال ہے۔اس سے انسانی اخلاق کا زبردست تعلق ہے اب وہ زمانہ نہیں رہا جب لوگ خود بھوکے رہ کر دوسرے کو کھانا کھلاتے تھے۔ اب تو آدمی سرمایہ کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے۔ اب وہ دوسرے کی جان لے کر بھی سرمایہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم نے انسان کو انسان کے سپرد کر دیا تو انسان انسان کی جان کا دشمن ہو جائے گا۔ انسان انسان کا استحصال کرے گا۔ انسان انسان پر ظلم کرے گا اور اس ظلم و استحصال سے روکنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔

علامہ     : آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا اس خوف سے کہ انسان انسان کا استحصال کرے گا۔ہم ذاتی ملکیتوں کو انسان سے چھین لیں۔

گنجائشی  :جی بالکل۔ میرا یہی خیال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف یہی نہیں کہ ذاتی ملکیتوں کو حکومت کی تحویل میں لئے جانے کے بعد انسان پر ہونے والے ظلم اور استحصال کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ بلکہ وہ تمام عیاشیوں اور فحاشیوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ جو یہ سرمایہ دار مذہبی قوانین کی آڑ میں کرتے ہیں۔

علامہ     :گنجائشی! آپ کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ آپ مذہبی قانون کے خلاف لب کشائی کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا مذہبی قانون ذاتی ملکیت کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے بعد گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔ اختلاف کی۔

گنجائشی  :میں جانتا ہوں کہ ہمارا مذہبی قانون ذاتی ملکیتوں کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس میں لچک ہے۔ اس میں اجتہاد کی بھی گنجائش ہے۔ حالات، رجحانات، میلانات میں زبردست تبدیلیوں کے ساتھ۔ مذہبی قانون میں لچک اور اجتہاد ضروری ہو گیا ہے۔ میں وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے یہ تبدیلی لا کر رہوں گا۔ میں اس کا فیصلہ کر چکا ہوں۔

علامہ     :(غضبناک ہو کر فرماتے ہیں ) میں اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرتا ہوں اور غور کرتا ہوں کہ آیا علامہ گنجائشی وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھالنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ (اراکین سے مخاطب ہو کر) میں آپ کو مطلع کروں گا کہ آئندہ اجلاس کب ہو گا اور وزارت خزانہ کا قلم دان علامہ گنجائشی ہی کے سپرد ہو گا یا کسی اور کے۔

(اراکین سر جھکائے آہستہ آہستہ اٹھنے لگتے ہیں کہ اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو جنگل کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ بہت مدھم روشنی میں باغی گروہ کے سپاہی جنگل میں فوجی مشقیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد باغی گروہ کا سردار اپنے محافظ دستے کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور تالی پیٹتا ہے۔ تمام باغی اس کے اطراف جمع ہو جاتے ہیں۔ وہ ان سے مخاطب ہوتا ہے۔)

سردار   :میرے  بہادر سپاہیو ہماری جو جنگ علامہ کی حکومت کے خلاف شروع ہوئی ہے اس کے مقصد سے تو تم واقف ہو۔ تم جانتے ہو کہ ہم نے علامہ تنگ نظری کے خلاف ہتھیار کیوں اٹھائے ہیں۔ علامہ کی حکومت ایک کٹر مذہبی حکومت ضرور ہے۔ ہمیں ان کی مذہبیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اعتراض ہے تو صرف ان کے نظریہ پراور وہ یہ کہ وہ مذہب کو سیاست سے جوڑتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی اور اندرونی معاملہ ہے اس کے سرے سیاست اور حکومت سے نہیں ملانے چاہئیں حالات صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ ہماری فتح و کامیابی یقینی ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ علامہ گنجائشی نے بھرے ایوان میں علامہ تنگ نظری کو للکارا ہے اور بہت کھل کر ذاتی ملکیت کی مخالفت کی ہے اور ملکیتوں کو حکومت کی تحویل میں لے لئے جانے کی کھل کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ ہم یہی تو چاہتے تھے کہ علماء میں پھوٹ ڈال کسی ایک عالم ملا لیں۔ تاکہ عالم کے خلاف عالم کو استعمال کیا جا سکے۔ میں نے اپنے بہادر سپاہیوں کو بھیجا ہے کہ وہ جس طرح بھی ممکن ہو علامہ گنجائشی کو ہمارے بیرکوں (Barracks) تک پہنچا دیں۔

(کچھ باغیوں کے ساتھ علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔باغی سردار جھک کر سلام کرتا ہے اور بہت احترام کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔)

گنجائشی  :مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔

باغی سردار         : آپ تو یہ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم لوگ کون ہیں۔

گنجائشی  :بہت اچھی طرح، پیپلز لبرشن آرمی کے باغی۔

باغی سردار         :خوب پہچانا آپ نے۔

گنجائشی  :مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے۔

باغی سردار         :تاکہ علامہ تنگ نظری کے خلاف جہاد میں آپ ہمارا ساتھ دے سکیں۔

گنجائشی  :یہ جنگ تم نے ان کے خلاف کیوں چھیڑ رکھی ہے۔ وہ تو ملک کے مذہبی قائد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

باغی سردار         :یہی تو وجہ ہے ہمارے جنگ چھیڑ دینے کی ہم مذہب کو سیاست سے علیحدہ ایک طاقت سمجھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اسے سیاست جیسی غلاظت سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے۔

گنجائشی  : جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سردار   :ہمارا عقیدہ ذرا مختلف ہے۔

گنجائشی  : آپ کا کیا عقیدہ ہے۔

سردار   :ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ملک کی سیاست کا تعلق ٹھوس مادی حقائق سے ہونا چاہئے۔ بے روزگاری، افلاس، بڑھتی ہوئی آبادی، طبقاتی امتیازات کا حل روحانی ذرائع سے نہیں مادی ذرائع ہی سے ممکن ہے۔

گنجائشی  :اور روحانیت کے بغیر مادی ذرائع بے سود ہیں۔

سردار   :وہ کیسے۔

گنجائشی  :بغیر اخلاق کے آپ دنیا کا کوئی مادی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکتے اور اخلاق کی بنیاد ہے خوف خدا۔

سردار   :اخلاق کی اصلاح ذاتی اصولوں کی بنیاد پربھی ہو سکتی ہے۔

گنجائشی  :یہ ایک یوٹوپیا ہے۔ جسے آج تک کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ لیکن روحانی ذرائع سے نفس اور اخلاق کی اصلاح ہوتے ہوئے انسانوں نے مشاہدہ بھی کیا ہے اور تجربہ بھی۔

سردار   :تو پھر آپ کو علامہ سے کیا بیر ہے۔ آپ نے بھرے ایوان میں ان کی مخالفت کیوں کی۔

گنجائشی  :میں طبقاتی سماج پر یقین نہیں رکھتا میں تمام انسانوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ذاتی ملکیت انسان اور انسان میں امتیاز کی دیوار کھڑی کرتی ہے۔ میں تمام ملکیتوں کو قومی تحویل میں لینا چاہتا ہوں۔ تاکہ ان کی آمدنی تمام انسانوں کی بقا اور ترقی کے لئے ان پر مساویانہ خرچ کی جائے۔

سردار   :ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں۔

گنجائشی  :لیکن تم میں اور مجھ میں فرق ہے۔ تم عقیدہ کی بنیاد ہی سے انکار کرتے ہو اور میں عقیدے میں اجتہاد کا قائل ہوں۔

سردار   :اگر میں آپ کے عقیدے کو تسلیم کر لوں تو آپ ہماری مدد اور سرپرستی قبول کریں گے۔

گنجائشی  :اس کے لئے مجھے سوچنے کا موقع دیجئے۔

سردار   :کب تک۔

گنجائشی  :کم از کم ایک ماہ تک۔

سردار   :ہمیں منظور ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ ہماری یہ ملاقات کسی پر ظاہر نہیں ہونی چاہئے۔(باغی گروہ سے مخاطب ہو کر)ا نہیں بڑے عزت و احترام کے ساتھ لے جاؤ اور ایک ماہ تک دوسری ملاقات کا انتظار کرو۔ گنجائشی کی آنکھوں پرپٹی باندھ دی جاتی ہے اور ا نہیں باغی لیڈر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ گنجائشی کے چلے جانے کے بعد ۔

ایک باغی           :سردار!یہ بھی تو قریب قریب وہی چاہتا ہے جو علامہ تنگ نظری چاہتا ہے۔ یہ بھی مذہب کو سیاست میں گھسیٹے گا۔ صرف ذاتی ملکیتوں کو قومی تحویل میں لینے سے کیا ہو گا؟ ہمارا مقصد تو سیاست کو مذہب سے مکمل طور پر آزاد کر دینا ہے۔

سردار   :ارے بے وقوفو!اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ علامہ کو انقلاب لانے تک ساتھ رکھنا ہے کیونکہ ان کے بغیر عوام کی تائید اور حمایت ممکن نہیں۔ ایک مرتبہ انقلاب آ گیا تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکیں گے۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو علامہ تنگ نظری کا حجرہ دکھائی دیتا ہے۔ علامہ تنگ نظری مذہبی سیاست سے متعلق درس دے رہے ہیں اور تمام علماء ان کے ارد گرد جمع ہے۔ کچھ دیر درس جاری رہتا ہے۔ ختم ہونے کے بعد تمام علماء آہستہ آہستہ اٹھ کر جانے لگتے ہیں۔)

علامہ تنگ نظری:اجتہادی مجھے آپ سے صرف بات کرنی ہے۔ تمام علماء چلے جاتے ہیں لیکن علامہ اجتہادی ٹھہر جاتے ہیں۔

(تمام علماء کے چلے جانے کے بعد ۔)

تنگ نظری        :مجھے آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔

اجتہادی:بندہ حاضر ہے۔

تنگ نظری        :وزارت خزانہ کے متعلق آپ نے کچھ سوچا ہے۔

اجتہادی:اس وزارت خزانہ سے متعلق کیا سوچنا ہے ایک صاحب صلاحیت شخص کو آپ وزیر بنا چکے اب تبدیلی کی کیا ضرورت؟

تنگ نظری        :بڑا تعجب ہے؟ہمارے بنیادی عقائد کو؟ٹھیس پہنچانے کے بعد بھی آپ سمجھتے ہیں کہ وہی وزیر خزانہ رہیں گے۔ بھرے ایوان میں اس شخص نے مذہبی قانون کو للکارا ہے۔

اجتہادی:میں نہیں سمجھتا کہ علامہ گنجائشی جیسا ذمہ دار عالم مذہبی قانون کی کسی زاویے سے بھی مخالفت کر سکتا ہے۔

تنگ نظری        :سب کچھ ہو جانے پربھی آپ کو یقین نہیں آتا۔

اجتہادی:ہرگز نہیں۔

تنگ نظری        : آپ جانتے ہیں کہ وہ عالم ہوتے ہوئے ذاتی ملکیت کی مخالفت کرتا ہے اور  آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ تمام ملکیتوں کو قومی تحویل میں لے لینے کی بات کرتا ہے۔

اجتہادی:میں جانتا ہوں۔

تنگ نظری        :پھر بھی آپ اسے مذہب دشمن نہیں سمجھتے۔ آخر ہمارے باغی پیپلز لبرشن مو ومنٹ اور ان صاحب میں فرق کیا رہ گیا ہے۔ دونوں وی راگ الاپ رہے ہیں۔

اجتہادی:زمین و آسمان کا فرق ہے ان دونوں میں۔ علامہ ا نہیں سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ گنجائشی آپ کے دشمن نہیں آپ کے دوست ہیں۔

تنگ نظری        :کیا فرق پایا ان میں اور باغیوں میں آپ نے؟وہ دہرئیے بھی تو یہی کہتے ہیں۔

اجتہادی:یہی فرق پایا ہے میں نے ان دونوں میں کہ باغی دہرئیے ہیں۔ وہ مذہب سے منکر ہے۔ لیکن گنجائشی نہ صرف یہ کہ مذہب پر پختہ یقین رکھتا ہے بلکہ وہ ایک جید عالم بھی ہے۔ علامہ گنجائشی نے جو کچھ کہا ہے وہ مذہب کے بنیادی عقائد سے انکار و اعتراض نہیں بلکہ مذہب میں اجتہاد ہے۔

تنگ نظری        :کیا آپ بھی اس اجتہاد پر یقین رکھتے ہیں۔

اجتہادی:میرا تو لقب ہی اجتہادی ہے۔

تنگ نظری        :اجتہاد کو آپ کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔

اجتہادی:اس لئے کہ ہمارے عقائد حالات اور تقاضوں کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہیں۔

تنگ نظری        :یہ آپ نے کیسے کہہ دیا۔ ہمارے عقائد تو عین حالات کے مطابق ہیں۔ ہمارا مذہب تو دین فطرت ہے۔

اجتہادی:صرف ایک طفلی تسلی ہے۔ جو یہ کہہ کر ہم اپنے دل کو دیتے ہیں۔ اگر ان عقائد کو قانون کی شکل میں ہم نے نافذ کیا تو مجھے ڈر ہے کہ دنیا کی نظروں میں ہم مذاق نہ بن جائیں۔ ہم عورتوں کے پردے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ کیسے کیسے مظالم توڑے جاتے ہیں اس صنف نازک پر ہر گز نہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عورتوں کا مقام ان کا گھر ہے اور یہ ناقصات العقل ہیں۔ جب کہ عورتیں دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ پردہ ناگزیر ہے۔ لیکن اس پردے کے اہتمام سے ان کی تعلیم بے سہارا ہو جانے کی صورت میں یا خود داری کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اس صنف نازک کے لئے روزگار بھی تو ضروری ہے۔ کیا ہمارے مذہبی قانون میں اس کی گنجائش ہے؟ہم نے مذہبی ٹیکس وصول کرنے کا شعبہ قائم کر دیا ہے۔ لیکن آمدنی کا صحیح تخمینہ لگانے کا ذریعہ ہمارے پاس کیا ہے؟ہم عورتوں کو طلاق دیئے جانے کو مرد کا مذہبی حق سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا ہم طلاق کے ساتھ عورت کی جوانی بھی اسے لوٹا سکتے ہیں اور بغیر کسی جواز کے طلاق دے دینے کی صورت میں مرد کے لئے کون سی سزا تجویز کرتا ہے۔ ہمارا قانون ہم ذاتی ملکیتوں کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن مظلوم طبقے کے استحصال کو روکنے کے لئے کیا کچھ کرتا ہے۔ ہمارا عقیدہ اور ہمارا مذہبی قانون؟ علامہ یہ ابھرتے ہوئے مسائل ہیں۔ جن کا حل اجتہاد کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ مذہبی قانون، مذہبی قانون کہنے سے کام نہیں چلے گا۔

(علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔)

گنجائشی  :میں بھی تو یہی کہتا ہوں۔ میں نے کہاں اس سے اختلاف کیا ہے۔ لیکن مجھے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں جب بات کرتا ہوں تو آپ جذبات میں آ جاتے ہیں۔ آپ غور ہی نہیں کرتے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔

اجتہادی:مجھے اجازت دیجئے۔

(سلام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔)

گنجائشی  :میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا کہ ہمارا مذہبی قانون حالات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ اس قانون کا نفاذ ہو گیا اور وقت کے تقاضوں کو پورا نہ کر سکا۔ یاد رکھئے کہ ہمارے ماتھے پریہ ایسا کلنک ہو گاجو کبھی دھل نہیں سکے گا۔ جب یہی بات اجتہادی کہتے ہیں تو آپ کی نظر میں قابل غور ہوتی ہے اور جب میں کہتا ہوں تو آپ کابینہ سے برطرف کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ میں اپنے نظریات کے لئے کابینہ بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ لیکن آپ یقین مانئے کہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔

تنگ نظری        :اجتہادی جس اجتہاد سے متعلق کہہ رہے تھے وہ خواتین کی آزادی ان کے حقوق کے تحفظ اور ان کی تعلیم اور ملازمت میں ان کے لئے مواقع پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں۔ لیکن آپ جو اجتہاد چاہتے ہیں۔ وہ دراصل اقتصادی نظام کے بنیادی اصولوں کی تجدید ہے۔ اقتصادی نظام بہت واضح ہے۔ اس میں مزید تجدید و اجتہاد کی گنجائش نہیں۔

گنجائشی  :یہ گنجائش ہمیں پیدا کرنی ہو گی۔ ہمارے نوجوان بے روزگار ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ تعلیم حاصل کریں نہ کریں لیکن ان کی روزی کا ذمہ تو حکومت کا ہونا چاہئے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا ذمہ لے نہیں سکتی تو یہ حکومت کس کام کی۔

تنگ نظری        :روزی کا دینا اللہ کے اختیار میں ہے؟

گنجائشی  :تو حکومت بھی اللہ ہی کے اختیار میں رہنے دیجئے۔ اقتدار کو سنبھالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

تنگ نظری        : آپ کی گفتگو کا انداز بہت غلط ہے۔ آپ حفظ مراتب کا لحاظ نہیں کرتے۔

گنجائشی  :کرتا ہوں لیکن دن کی روشنی سے انکار نہیں کر سکتا۔

تنگ نظری        :دن کی یہ کون سی روشنی ہے۔ آپ صاف صاف کہئے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔

گنجائشی  :انڈسٹریل انقلاب آ جانے کے بعد حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ ہم سائنسی ذرائع سے کروڑوں روپیہ کما سکتے ہیں اور اس دولت کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کر سکتے ہیں۔ ہم کارخانوں اور زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے لیں۔ تو فرق کیا پڑتا ہے۔

تنگ نظری        :فرق تو بہت پڑتا ہے۔ سرکاری تحویل میں لینے کے لئے مذہبی قانون میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہو گی اور اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ذاتی ملکیتوں کے ہوتے ہوئے بھی تو انسان پرورش پا رہا ہے۔

گنجائشی  :جی ہاں پرورش توپا رہا ہے۔ لیکن بڑی ذلتوں اور تکلیفوں کے ساتھ۔ آپ نہیں جانتے علامہ کہ یہ ذاتی ملکیتیں کیسے کیسے انسان کا استحصال کر رہی ہیں اور ا نہیں کن کن صورتوں میں مظالم کا شکار بنا رہی ہیں۔ اگر آپ بھیس بدل کر چلنے کے لئے تیار ہوں تو میں آپ کو بتلاؤں گا ذاتی ملکیتوں کے سبب انسان کس حال میں زندگی گذار رہے ہیں۔

تنگ نظری        :میں بالکل تیار ہوں۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو اسٹیج دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے۔ ایک حصہ میں روشنی بہت دھیمی ہے۔ جہاں علامہ تنگ نظری اور گنجائشی فقیروں کا لباس اوڑھے اسٹیج کی دائیں جانب دیکھتے نظر آتے ہیں اور بار بار تبدیل ہوتے ہوئے مناظر اسٹیج کی بائیں جانب نظر آ رہے ہیں۔ دائیں جانب آخر تک دھیمی روشنی میں یہ دونوں حضرات بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور بائیں جانب ہر منظر کے بعد اندھیرا ہو جاتا ہے اور ہر روشنی میں ایک نیا منظر ابھرتا ہے۔

دائیں جانب روشنی ہوتی ہے تو ایک کارخانہ دکھائی دیتا ہے۔ جس میں پس منظر سے مشین چلنے کی آواز ابھرتی ہے اور کچھ مزدور ہاتھ کی حرکت سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مشین چلانے میں مصروف ہیں۔ ایک بوڑھا کام نہیں کر رہا ہے۔ صرف بیٹھا ہوا مشینوں کی جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ کارخانے کا مالک راؤنڈ پر ہے۔ وہ چند ساتھیوں کے ساتھ قریب آتا ہے۔ تمام کام کا معائنہ کرتا ہے اور بوڑھے سے مخاطب ہوتا ہے۔)

مالک     :کیوں تو یہاں کیسے بیٹھا ہے۔ کام نہیں کرنا ہے تجھے۔

بوڑھا    :(ہاتھ جوڑ کر) مالک میرے  ہاتھ میں رعشہ ہو گیا ہے۔ کام کرنے کے قابل نہیں ہوں۔

مالک     :(حقارت کے ساتھ) تو یہاں کیوں آتا ہے گھر جا کر بیٹھ۔

بوڑھا    :گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ سرکار میں بیٹھ جاؤں گا توا نہیں کھلائے گا کون۔

مالک     :جب تو کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے تو یہاں بھی تجھے کام کیسے ملے گا۔ منشی جی!

منشی      :جی سرکار!

مالک     :اس کا حساب کر دو۔

منشی      :جی بہتر ہے سرکار۔

مالک     :اور یاد رکھو کل سے یہ بوڑھا کارخانے میں نظر نہ آنے پائے۔ خوامخواہ دوسروں کے کام میں بھی حرج ہوتا ہے۔

(بوڑھا قدموں پر گر جاتا ہے۔)

بوڑھا    :سرکار۲۰سال سے میں آپ کی سیوا کر رہا ہوں۔ کچھ تو سوچئے۔ میرے  بچے چھوٹے ہیں۔ آپ اس طرح نکال باہر کریں گے تو ا نہیں کون پالے گا سرکار۔

(کارخانے کا مالک جوتے کی ٹھوکر سے اسے علاحدہ کرتا ہے اور تیز تیز قدموں سے چلا جاتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو وہی بوڑھا بھیک مانگتے دکھائی دیتا ہے۔ ایک پولیس وردی میں آتا ہے۔)

پولیس   :کیوں تجھے معلوم نہیں بھیک مانگنا قانون کے خلاف ہے۔

بوڑھا    :(طنزیہ ہنسی کے ساتھ) یہ قانون مجھے بھیک مانگنے سے روکتا ہے۔ لیکن جب مجھے بھوک لگتی ہے تو یہ قانون مجھے روٹی نہیں دیتا۔

پولیس   :(گرفتار کرتا ہے ) چلو تھانے وہاں بتاتا ہوں تم کو حساب۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے جب روشنی ہوتی ہے تو ایک بوڑھا سامان پیٹھ پر لادے اسٹیج کے وسط میں لڑکھڑاتا ہوا آتا ہے اور بری طرح گرتا ہے۔ سامان بھی بکھر جاتا ہے۔)

سامان کا مالک     :کیا ہو گیا بابا۔

بوڑھا    :کچھ نہیں صاحب ذرا چکر آ گیا تھا۔ کل سے کھانا نہیں کھایا اس لئے۔

سامان کا مالک     :بوڑھے بھی تو ہو گئے ہیں بابا سامان اٹھتا نہیں ہے تو یہ حمالی کیوں کرتے ہو؟

بوڑھا    :حمالی نہیں کروں گا تو کھاؤں گا کیا سرکار!حمالی کر کے تو بھوکا مر رہا ہوں۔

سامان کا مالک     :چلو اٹھو!

(ہاتھ پکڑ اٹھاتا ہے اور سامان جمع کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک نوجوان ہاتھ کی حرکت سے اور پس منظر کی آواز سے ہینڈلوم چلاتا دکھائی دیتا ہے اچانک کھانسی اٹھتی ہے اور اٹھتے اٹھتے یہ حال ہو جاتا ہے کہ مارے کھانسی کے لوٹنے لگتا ہے۔ اس کے قریب بیٹھا ہوا ایک شخص سہارا دے کر اسے بٹھاتا ہے۔)

ایک شخص         :تم ڈاکٹر کو کیوں نہیں بتاتے اتنی کھانسی کیوں اٹھتی ہے تمہیں۔

دوسرا شخص        :بتا چکا ہوں بھیا۔

ایک شخص         :تو علاج نہیں ہوا تمہارا۔

دوسرا شخص        :اب میں کیا بتاؤں۔ خیر تم سے چھپاؤں بھی کیسے۔(روتا ہے ) بھیا مجھے ٹی بی ہو گیا ہے۔ میرے  پھیپھڑے بیکار ہو گئے ہیں۔

ایک شخص         :ارے۔۔۔ تو علاج نہیں کرواتے اس کا۔

دوسرا شخص        :نہیں۔۔۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ موت ہی اس کا علاج ہے۔

پہلا شخص           :علاج کیوں نہیں ہے۔ کون سی بیماری ہے جس کا علاج نہیں ہے۔شفا دینا نہ دینا تو اس کے اختیار میں ہے۔(آسمان کی طرف شارہ کرتا ہے۔) لیکن علاج تو کرنا ہی چاہئے۔

دوسرا شخص        :علاج۔۔۔؟(ہنستا ہے )میں مزدور آدمی میرے  پاس پیسے کہاں ہیں۔ چل! کا م شروع کر دے۔

(دونوں پھر کپڑا بننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک لڑکا کسی سجے سجائے ڈرائنگ روم میں جوتے کو پالش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا بچہ ا سکول کا یونیفارم پہنے داخل ہوتا ہے۔کوئی کتاب تلاش کرتا ہے۔ کتاب مل جاتی ہے تو وہ خوشی خوشی جانے لگتا ہے۔)

دوسرا بچہ           :خیرو! میں ا سکول جا رہا ہوں میرے  کپڑوں کو استری کر دینا اور ہاں تو نے ابھی تک پونچھا نہیں لگایا۔

پہلا بچہ  :ہاں مالک!لگا دوں گا۔

دوسرا بچہ           :کیا لگا دوں گا لگا دوں گا کرتا ہے۔ کام تو ہوتا نہیں تجھ سے۔ بس کھانا خوب یاد رہتا ہے۔

(دوسرا بچہ چلا جاتا ہے۔)

پہلا بچہ  :(ناظرین سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ) یہ بھی ایک بچہ ہے اور میں بھی ایک بچہ ہوں۔ جب یہ بچہ ا سکول جاتا ہے تو میرے  بیتے ہوئے دن میرے  سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی سج دھج کرا سکول جایا کرتا تھا۔ اگر میرے  والدین ریل کے حادثے میں ہلاک نہ ہوتے تو آج میں بھی اسی طرح ا سکول جاتا۔ ان لوگوں نے ہمدردی کا جھوٹا اظہار کرتے ہوئے مجھے اپنے گھر بلا لیا۔ نہیں بلا نہیں لیا بلکہ خرید لیا۔ روٹی کے چند سوکھے ٹکڑوں کے بدلے۔

(ایک شخص تیز تیز قدموں سے اندر داخل ہوتا ہے۔)

شخص    :ارے ابھی تک جوتے پالش نہیں ہوئے۔ بس دل سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ حرام خور! ایک چانٹا رسید کرتا ہے کتنی دیر لگائے گا جلدی کر۔

لڑکا       :کر تو رہا ہوں بابو جی۔

(بچہ جوتے پالش کرنے لگتا ہے۔ اسٹیج کے بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایک عورت پھٹے حال برتن مانجھتے دکھائی دیتی ہے۔ سامنے برتنوں کا ڈھیر ہے۔ دوسری عورت بہت قیمتی لباس میں داخل ہوتی ہے۔)

دوسری عورت    :ارے۔ سارا کام پڑا ہے اور تو ابھی تک برتن ہی مانجھ رہی ہے۔

پہلی عورت         :برتن تو بہت ہے بائی جی!ایک کام پورا ہو جائے تبھی تو دوسرا کام کروں۔

دوسری عورت    :حرام زادی!زبان چلانا تو خوب جانتی ہے۔ پر کام نہیں کر سکتی۔ صبح سے برتن ہی مانجھ رہی ہے۔ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا تو کام نہیں کر سکتی۔

پہلی عورت         :ایک کام تو پورا کر لوں بائی! دوسرے کام بھی ہو جائیں گے۔

دوسری عورت    :پھر ٹرٹر شروع کر دی تو نے چل نکل یہاں سے بد تہذیب بدتمیز!(بال پکڑ کر اٹھاتی ہے اور کھینچتے ہوئے لاتی ہے اور باہر ڈھکیل دیتی ہے۔) نکل یہاں سے کم بخت آئندہ قدم مت رکھنا یہاں۔

( بائیں جانب اندھیرا ہو جاتا ہے۔ اسٹیج کی دائیں جانب جہاں دھیمی روشنی ہے۔ آخر تک اندھیرا نہیں ہوتا۔ علامہ تنگ نظری، علامہ گنجائشی فقیروں کا لباس پہنے بیٹھے ہوئے ہیں۔

گنجائشی  :علامہ دیکھا آپ نے اپنے عوام کا حال کن کن شکلوں میں ان کا استحصال ہو رہا ہے اور کیا کیا مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ ان تمام مظالم کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ میں آپ سے تین سوالات کرتا ہوں اور  آپ بھرے ایوان میں اس کا جواب دیجئے۔

۱۔        کیا ہمارا مذہب ایسے اقتصادی نظام کی حمایت نہیں کرے گا۔ جس میں بلا تخصیص ہر شخص کو آبرومندانہ زندگی گزارنے کا موقع ملے؟

۲۔       کیا ہمارا نظام اس کی اجازت دے گا کہ انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کا استحصال ہوتا رہے؟

۳۔       کیا ہمارا مذہب ایسے نظام کے راستے میں مانع ہو گا جس میں تمام انسانوں کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کا یکساں موقع ملے۔

آپ اپنے عوام کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے۔ اب میں ایوان میں آپ کا جواب سننے کے لیے بے چین ہوں۔قیامت کے روز یہ مظلوم طبقے ہمارا دامن پکڑ کر ہم سے سوال کریں گے کہ تم حاکم تھے سب کچھ کر سکتے تھے تم نے ہمیں ظلم اور استحصال سے آزاد کیوں نہیں کیا تو ہمارے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے۔؟

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو بہت دھیمی روشنی میں پیپلز لبریشن آرمی کے باغی فوجی مشقیں اور نشانہ بازی کی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہیلی کوپٹر کے اترنے کی آواز آتی ہے اور باغی گروہ کے سردار کے ساتھ کوئی شخص جو شکل و صورت سے کسی اور ملک کا معلوم ہوتا ہے۔ داخل ہوتا ہے۔ وہ دونوں ایک ایک باغی سپاہی کے پاس جاتے ہیں اور ان کا نشانہ دیکھتے ہیں۔ پھر ان کے ہتھیار بندوقیں وغیرہ باری باری ان سے لے کر بغور دیکھتے ہیں۔ پھر واپس آ کر کسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔)

نیا آدمی:ٹمارا ٹیاری بھوت اچی۔ ٹماراڈسپیلین بھی بھوت اچا۔ پر تم کچھ نہیں کر سکٹا۔

سردار   :ہم تو بغاوت کی پوری تیاری کر چکے ہیں۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔

نیا آدمی:نہیں ایسا مسٹیکMistake  کبھی نہیں کرنا۔ ابھی ٹم بھوت کمزور ٹمارا آدمی بھوت کمزور۔

سردار   :ایسی بات نہیں آپ تو نشانہ بازی بھی دیکھ چکے ہیں۔

نیا آدمی:وہ سب ٹھیک ہے۔ پر پبلک علامہ کے ساتھ ہے۔

سردار   :پبلک اوپنین کے بدلنے میں کتنا ٹائم لگے گا۔

نیا آدمی:بہت ٹائم۔ وہ پبلک کاسپریچول ہیڈ ہے اس کو کچھ ہوا توپبلک ٹم کو فینش کر دے گا۔

سردار   :مگر ہمارے پاس اگر آپ کے ملک سے اور ہتھیار آ گئے تو پبلک کو سپرس کرنا بہت آسان ہے۔

نیا آدمی:رانگ ایک دم رانگ بولتا ہے ٹم۔ پبلک کو سپرس کرنے کا نائیں سکٹا۔

سردار   : آپ یقین مانئے ہمارے پاس اگر ہتھیار زیادہ ہوں تو انقلاب لانا بہت آسان ہے۔ ہتھیار ہمیں مل نہیں رہے ہیں۔ سرحدوں پر پہرے سخت کر دئیے گئے ہیں اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے ہتھیار منگوانے کا۔

نیا آدمی:سیکوریٹی فورس سے کیا ہوتا ہے۔ ہم ٹم کو ہیلی کوپٹر سے ویپن بھجوائے گا۔ پر سپریمو کا حکم ہے کہ تم علامہ اجتہادی کو گولی مار ڈو۔ وہ پبلک میں بہت پاپولر ہے اس کی موت کے ساتھ علامہ کا صفایا ہو جائے گا۔

سردار   : آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی علامہ گنجائشی کو ہم نے ملا لیا ہے۔ علامہ اجتہادی کو بھی ملا لیں گے۔

نیا آدمی:علامہ گنجائشی کو ملا لو وہ یوں بھی علامہ کے against  میں ہو گیا ہے پر علامہ اجتہادی بہت dangerous  آدمی ہائے۔ وہ ٹمارارلیجین religion کو موڈرنائز کرنے کی بات کرتا ہائے۔

سردار   :تو یہ تو اچھی بات ہے۔ وہ بھی ہماری طرح سوشلیسٹ ہے۔ وہ بھی ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔

نیا آدمی:نائیں رلیجین کو موڈرنائز کرنے والا پرانے رلیجین پربلیوbelieve  کرنے والے سے زیادہ ڈینجرس ہوتا ہے۔ ٹم  سمجھتا نائیں ہائے۔ رلیجین موڈرنائز ہو گیا تو تمہارا سوشیلزم فینش ہو جائے گا۔

سردار   :ہم اسے ملا لیں گے تو وہ اپنے آئیڈیلسideals  بھی بدل دے گا۔

نیا آدمی:نائیں وہ بہت ڈوگ میٹک ہائے اس کو فینش کر دو۔ سپریمو کا آرڈر ہائے۔

سردار   :سپریمو کا حکم۔

(دونوں اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ ان دونوں کی گفتگو کے دوران باغی فوج کے سپاہی نشانہ بازی کی مشق کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان دونوں کے اسٹیج سے چلے جانے کے بعد اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو علامہ تنگ نظری، علامہ اجتہادی، علامہ گنجائشی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔)

تنگ نظری        :میں نے کل اپنے عوام کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں مجھے اعتراف ہے کہ ہمارے اقتصادی نظام میں بنیادی تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔

اجتہادی: آپ تو اقتصادی تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ میں تو عرض کر چکا کہ پورے نظام ہی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضروری ہے۔

گنجائشی  :وہ تبدیلیاں تو حالات کے ساتھ ساتھ خودبخود ہو جائیں گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی نظام میں کوئی تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک ہماری مذہبی حکومت اس سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔

اجتہادی:دوسری تبدیلیوں کے متعلق آپ نے کیسے فرما دیا کہ خودبخود آ جائیں گی۔ خواتین کی آزادی کا مسئلہ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

تنگ نظری        :خواتین کی آزادی کے کیا معنی؟ کیا عورتیں پردے کو ترک کر دیں؟

گنجائشی  :نہیں ان کے یہ معنی نہیں ہیں۔ بلکہ پردے کی پابندی تو لازمی ہے ہی لیکن خواتین پر ہونے والے مظالم کا تدارک تو ہونا ہی چاہئے۔ ان کے لئے روزگار مہیا کرنا ہو گا اور مردوں سے علیحدہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کرنا ہو گا۔ یہ سب ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اجتہادی:خواتین ہی کی تعلیم کا کیا سوال؟ہمیں پورے ملک سے جہالت کو دور کرنا ہے۔

تنگ نظری        :تعلیم کا بھی خوب ذکر چھیڑا آپ نے (ملازم چائے لاتا ہے۔ سب چائے پینے لگتے ہیں۔) تعلیم تو ہماری روایتی تعلیم ہو گی۔ ہمارا مذہب ہے ہماری مذہبی تعلیم۔

اجتہادی:جی نہیں تعلیمی پالیسی ہمیں نئے سرے سے مرتب کرنی ہو گی۔ مادی حقائق پر جو تحقیقات ہو رہی ہیں۔ بلاشبہ وہ بھی انسان کی ان بے پناہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ جس کا مشاہدہ مطالعہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے۔

گنجائشی  :مادی علوم سے محرومی ہی کاتو نتیجہ ہے جو ہم آج تک اپنے اقتصادی نظام تک کو تبدیل نہیں کر سکے۔ جو مادی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اجتہادی:مادی علوم سے محرومی کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ دنیا کے مظالم پر مغرب کے نظرئیے غالب آتے چلے جاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔

تنگ نظری        :انشاء اللہ میں ان تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتا ہوں اور ایک جامع منصوبہ تیار کر کے ایوان کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو علامہ تنگ نظری بے چینی سے ٹہلتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے کسی کے منتظر ہوں۔ کچھ دیر بعد علامہ گنجائشی داخل ہوتے ہیں۔)

تنگ نظری        : آپ نے کچھ سنا؟

گنجائشی  :جی؟

تنگ نظری        :میں نے کہا آپ تک کچھ خبر پہنچی ہے؟

گنجائشی  :میں سمجھا ہی نہیں۔

تنگ نظری        :بھئی اجتہادی کے متعلق کچھ خبر ملی آپ کو۔

گنجائشی  :جی نہیں؟خیریت توہے۔

تنگ نظری        :اسی لئے تو آپ کا اس قدر بے چینی سے منتظر ہوں۔ خبر ملی ہے کہ اجتہادی کو باغیوں نے اغوا کر لیا ہے۔

گنجائشی  :کیا یہ خبر صحیح ہے۔

تنگ نظری        :بالکل۔۔۔ ان کے ملازم کے سامنے ا نہیں اغوا کیا گیا۔

گنجائشی  :وہ کیسے۔

تنگ نظری        :بس سنا ہے۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تھے دعا مانگ رہے تھے کہ باغیوں کے کچھ نوجوان اسٹین گن سے مسلح گھر میں داخل ہوئے اور علامہ کو اپنی موٹر میں بٹھا کر لے گئے۔ ہم اپنے نظام کو مرتب ہی کرنے میں لگے رہے اور باغیوں کو شر انگیزی کا موقع مل گیا۔ میں نے آپ کو اسی لئے زحمت دی ہے کہ پیپلز آرمی کی سرگرمیاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ ان کی سرکوبی ضروری ہے۔ ہم نے سنا ہے ہمارے کچھ لوگ اور مختلف مقامات سے اغوا کئے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ تخریبی کاروائیاں بھی ملک میں بڑھ چکی ہیں۔ میں نے فوج کو حکم دے دیا ہے کہ سخت سے سخت قدم اٹھانے کے لئے تیار رہے۔

گنجائشی  :اتنی جلد بازی سے کام مت لیجئے۔ یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا۔

تنگ نظری        :میرے  پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ باغیوں کی سرکوبی ضروری ہو گئی ہے۔

گنجائشی  : آپ نے بجا فرمایا۔ لیکن ہم باغیوں پر حملہ کہاں کریں گے۔ وہ تو پورے ملک میں بکھرے پڑے ہیں اور ان کا سردار کہاں ہے ہمیں کوئی علم نہیں۔ اندھیرے میں تیر چلانے سے کیا فائدہ۔

تنگ نظری        :کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔ باغیوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک ان کی مدد کر رہا ہے۔ معلوم نہیں اجتہادی کس حال میں ہے۔ خدا خیر کرے۔

گنجائشی  :میں ایک بڑی راز کی بات آپ کو بتلاتا ہوں۔ لیکن آپ اسے راز ہی رکھیں۔

تنگ نظری        :ایسی کون سی بات ہے۔

گنجائشی  :باغی مجھے بھی لے جا چکے ہیں۔

تنگ نظری        :(چونک کر)کیا کہا۔؟

گنجائشی  :جی ہاں۔ باغی مجھے بھی لے جا چکے ہیں۔

تنگ نظری        :تو آپ نے مجھ سے کیوں چھپائے رکھا۔

گنجائشی  :مجھے موقع کا انتظار تھا۔

تنگ نظری        :(غصہ سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔) یہ بہت غلط کیا آپ نے میں اسے غداری سمجھتا ہوں۔ آخر مجھ سے آپ نے چھپایا؟مجھ سے؟

گنجائشی  : آپ بیٹھ تو جائیے۔ میں آپ کو بتلاتا ہوں صورت کیا ہے۔

تنگ نظری        :لیکن مجھ سے چھپایا آپ نے؟

گنجائشی  :جی ہاں آپ سے چھپایا۔ آپ بیٹھ جائیے میں بتلاتا ہوں۔(غصہ سے بیٹھ جاتے ہیں۔) باغیوں کو ایسے علماء کی تلاش ہے۔ جو بظاہر تو حکومت کے ساتھ ہیں۔ لیکن دل میں اس سے بد ظن ہیں۔

تنگ نظری        :یعنی آپ میری حکومت سے بد ظن ہیں؟ علامہ اجتہادی بد ظن ہیں۔؟

گنجائشی  : آپ مجھے بات تو کرنے دیجئے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم بد ظن ہیں۔ اس لئے ہمیں لے جاتے ہیں۔

تنگ نظری        :کیوں؟کیوں لے جاتے ہیں؟

گنجائشی  :اس لئے کہ ہمیں ملا لیں اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہمیں استعمال کریں۔ آپ بالکل جلد بازی سے کام نہ لیجئے۔ باغیوں کو اس کا پورا یقین ہے کہ میں ا نہیں کا آدمی ہوں۔

تنگ نظری        :ا نہیں یہ یقین کیسے ہو گیا۔ آپ تو میرے  مشیروں میں میری کابینہ میں شامل ہیں۔

گنجائشی  :وہ یقین ا نہیں ایسے ہو گیا کہ میں نے بھرے ایوان میں آپ کی مخالفت کی تھی اور ذاتی ملکیتوں کو قومی تحویل میں لئے جانے کی درخواست کی تھی۔ وہ سمجھے کہ میں ترقی پسند ذہن رکھتا ہوں۔ اشتراکی ہوں اور موجودہ مذہبی حکومت کا مخالف ہوں۔ وہ اجتہاد کے مفہوم سے بے گانہ ہیں۔ وہ مذہب کی تجدید کو نہیں سمجھتے۔ وہ ہراس شخص کو اشتراکی سمجھتے ہیں۔ جو ذاتی ملکیتوں کی مخالفت کرے۔ علامہ!ہم علماء میں فروعی اختلافات ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات میں چشم پوشی سے کام لینے کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف گروہ بناتے ہیں اور دشمن اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

تنگ نظری        :جی!تو!آگے کہئے۔

گنجائشی  :تو میں یہ عرض کر رہا تھا۔۔۔ دیکھئے آپ جذبات میں آ جاتے ہیں۔ پہلے مجھے کہنے دیجئے۔ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں۔ پھر کہتے رہئے گا۔ جو کچھ آپ کو فرمانا ہے۔

تنگ نظری        :ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ فرمائیے۔

گنجائشی  :تو مجھے وہ لوگ اغوا کر کے لے گئے تھے۔ میں ان کے سردار سے بھی مل آیا ہوں۔

تنگ نظری        :یعنی۔۔۔ یعنی ان کے سردار سے یعنی۔۔۔ یعنی ان کے باغیوں کے سردار سے۔۔۔ آپ مل چکے ہیں۔ بہت خوب۔بہت خوب۔ خوب حق وفاداری نبھایا آپ نے ہمیں خبر بھی نہیں اور  آپ باغی سردار سے بھی مل آئے۔

گنجائشی  :اجی مولانا! پہلے سنئے میں کیا کہتا ہوں۔ پھر گل افشانی فرمائیے۔

تنگ نظری        :اجی اب کیا رہ گیا ہے سنانے کے لئے باغیوں کے سردار سے مل آئے آپ اور ہمیں خبر تک نہیں۔

گنجائشی  :اچھا تو یہی ٹھیک ہے۔ میں باغی سردار سے مل آیا ہوں۔ میں غدار ہوں۔ باغیوں سے ملا ہوا ہوں اور  آپ کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہوں۔ اپنی پولیس کو حکم دیجئے کہ مجھے گرفتار کرے۔

تنگ نظری        :خیر۔ خیر۔ پھر آگے کہیے کیا ہوا۔

گنجائشی  :جی نہیں اب میں بالکل نہیں کہوں گا۔

تنگ نظری        :اجی جانے دیجئے۔ کہئے کیا ہوا۔

گنجائشی  :پہلے وعدہ کیجئے آپ اخیر تک کچھ نہیں کہیں گے۔

تنگ نظری        :ہاں بھئی وعدہ کیا میں نے اب تو کہئے۔

گنجائشی  :تو سنیے۔ جس دن ایوان کا اجلاس ہوا اس کے تیسرے روز نہیں (کچھ سوچتا ہے۔) ہاں ہاں تیسرے ہی روز تو۔

تنگ نظری        :ہاں بھئی چلئے۔ تیسرے روز آگے کہیے۔

گنجائشی  :توتیسرے روز وہ اغوا کر کے جیپ میں بٹھا کر مجھے سردار کے پاس لے گئے۔ باغی سردار بڑا خونخوار معلوم ہوتا ہے۔ بڑی گرجدار آواز ہے۔ لیکن چہرے سے بڑا منحوس معلوم ہوتا ہے۔ بڑا شقی القلب اور جاہل ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کیا میں دراصل علامہ کا مخالف ہوں۔ میں نے مصلحتاً کہہ دیا حقیقت تو یہی ہے اور نہ صرف یہ کہ میں مخالف ہوں بلکہ میری دلی خواہش ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے۔ باغی سردار نے کہا بہتر ہے آپ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیے۔ اگر انقلاب لانے میں ہم کامیاب ہو گئے تو علامہ سے چھینا ہوا اقتدار ہم دوسرے علامہ یعنی آپ ہی کو سونپیں گے۔ میں تو خوب سمجھتا تھا ان کی چالوں کو۔ میں نے یہ تو یقین دلا ویا کہ میں آپ کا سخت ترین دشمن ہوں۔ لیکن ان کے ساتھ شامل ہونے سے متعلق میں نے یہ کہہ دیا کہ یہ پیش کش زیر غور رہے گی اور ایک ماہ بعد جواب دیا جائے گا۔ اب آپ سے کہنا یہ ہے کہ ایک ماہ بعد وہ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔ راستہ تو مجھے معلوم نہیں اور نہ وہ مقام معلوم ہے جہاں ان کا سردار رہتا ہے۔ کیونکہ وہ میری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر لے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی خفیہ طریقے سے میرا پیچھا کرے تو وہاں تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ ایک ماہ پورا ہونے میں چار روز باقی ہیں۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔

تنگ نظری        : آپ یہ فرمائیے کہ کیا آپ ان کا اتنا اعتماد حاصل کر چکے ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی رہے توا نہیں وہ اپنا آدمی سمجھیں گے۔

گنجائشی  :بالکل! بلکہ ان کو تو یقین ہو گا کہ اگر میں ان میں شامل ہو گیا تو صرف میں نہیں بلکہ آپ کی حکومت کی اچھی خاصی تعداد ان میں شامل ہو جائے گی۔ آخر میں بھی تو وزیر ہوں۔ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔؟

تنگ نظری        :تو بہتر ہے۔ میرے  ذہن میں ایک ترکیب ہے۔ ہماری فوج کا ایک بڑا دستہ آپ کے ساتھ ہو گا۔ جو ظاہر ہے مسلح بھی ہو گا۔ آپ یہ تاثر دیں گے کہ دستہ ہتھیاروں کے ساتھ باغیوں سے جا ملے گا۔ پٹیاں تو سب کی آنکھوں پر باندھ دی جائیں گی۔ لیکن ہمارا کوئی جاسوس آپ کا پیچھا کرے گا۔ فضائی راستہ سے بھی اور بری راستہ سے بھی اس کا انتظام ہو جائے گا۔ ٹھکانہ معلوم ہو گیا تو باہر سے ہماری فوج حملہ کر دے گی اور اندر تو ایک دستہ آپ کے ساتھ موجود ہے ہی۔ مطلب تو آپ خوب سمجھ گئے ہوں گے۔ غداروں کی سرکوبی کے بعد ایوان کا اجلاس ہو گا۔ اراکین کو ایک خوش خبری کے بعد دوسری خوش خبری دی جائے گی یعنی اجتہاد کے بعد نئے نظام کا اعلان کر دیا جائے گا۔

گنجائشی  :بہتر ہے۔ مقابلے کی تیاری کیجئے۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو دھیمی روشنی میں باغیوں کے سپاہی تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔ علامہ گنجائشی کے ساتھ ان کی فوج کے نوجوان مسلح داخل ہوتے ہیں۔ پٹیاں کھول دی جاتی ہے۔ سامنے ایک ستون سے علامہ اجتہادی بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک باغی ان کی طرف نشانہ لگا رہا ہے۔)

علامہ گنجائشی       :ا نہیں مت مارو۔ (سپاہی رک جاتا ہے ) ا نہیں چھوڑ دو۔(باغی سردار کو ایک جانب لے جا کر) یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اس شخص کے پاس تو علامہ کا وہ راز پوشیدہ ہے جو میرے  پاس بھی نہیں۔ پہلے ہم اگلوا لیں گے پھر جو آپ کی مرضی۔

سردار   :بہتر ہے۔(باغیوں سے )ا نہیں کھول دوکال کوٹھری میں بند کر دو۔

(باغی اجتہادی کو کھول کر اندر لے جاتے ہیں۔ اجتہادی حقارت سے گنجائشی کی طرف دیکھتا ہے اور تھوک دیتا ہے۔)

اجتہادی:علامہ نے بھی کیسے کیسے سانپ اپنی آستین میں پال رکھے ہیں۔

(باغی کھینچتے ہوئے اجتہادی کو اندر لے جاتے ہیں۔)

سردار   :ہمارے مہمانوں کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کرو۔

( باغی سپاہی شربت کے گلاس لئے داخل ہوتے ہیں اور باری باری سب کو پیش کرتے ہیں کہ اچانک سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے باغی سردار سراسیمگی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگنے لگتے ہیں کہ ڈریم لینڈ کی فوجیں داخل ہو جاتی ہیں۔ باغی ہتھیار اٹھائے بھاگتے ہیں تو گنجائشی کی آواز گونجتی ہے۔)

گنجائشی  :خبردار!جو کسی نے ہلنے کی کوشش کی تم چاروں طرف سے گھر چکے ہو۔ اگر ہتھیار اٹھانے کی کوشش کی تو بھون دیئے جاؤ گے۔

(سب باری باری ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ فوج ا نہیں چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو ایوان کا اجلاس ہو رہا ہے۔ امام علامہ تنگ نظری درمیان میں خاموش بیٹھے ہیں اور دائیں جانب علامہ اجتہادی ہیں۔ بائیں جانب علامہ گنجائشی بیٹھے ہیں۔ اس وقت علامہ اجتہادی کھڑے ہوتے ہیں اور وہ ایوان سے مخاطب ہیں۔)

اجتہادی:ملک کے باغیوں کی سرکوبی کی خبر تو آپ کو اخبارات اور ریڈیو سے مل ہی چکی ہو گی۔ دوسری خوش خبری یہ ہے کہ ہمارا نیا اقتصادی نظام جو ہمارے نئے نظام کی بنیاد ہو گا مرتب ہو چکا ہے۔ جس کا اعلان کرنے کے لیے میں آپ حضرات سے مخاطب ہوں پیشتر اس کے کہ میں نئے اقتصادی نظام کا اعلان کروں۔ میں یہ عرض کر دوں کہ اس اقتصادی نظام کو مرتب کرنے کے لئے امام وقت نے رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں بنفس نفیس اپنے عوام کے حالات کا مشاہدہ کیا ہے۔ مختلف صورتوں سے ان کا استحصال ہوتے ہوئے دیکھا۔ ان پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھا۔ جس کی ظاہر ہے بنیادی وجہ اقتصادی ہی تھی۔ ڈریم لینڈ کا کوئی شہری اپنی زندگی کی بنیادی ضرورت کے پورا کرنے میں دوسرے شہری کا محتاج ہے۔ تو میں ایک جھوٹے اقتصادی نظام ہی کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ عوام زندگی کی بنیادی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے امام کی اجازت سے میں نے اپنے مذہبی قانون میں کچھ اجتہادات کئے ہیں۔ امام نے خود اجتہاد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ کچھ علماء کو اس سے اختلاف تھا۔ اس لئے انھوں نے یہ ذمہ داری میرے  سپرد کی۔ پہلا اجتہاد تو یہ ہے کہ تمام زمین اور کارخانے ذاتی ملکیتوں سے نکال کر قومی تحویل میں لے لئے گئے ہیں۔

(اس اعلان کے ساتھ ہی ایوان میں شور برپا ہو جاتا ہے اور بری طرح ہوٹنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اس ہنگامے میں کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ صرف چند آوازیں دبی دبی سنائی دیتی ہیں۔)

’’مذہبی قانون میں اجتہاد ممکن نہیں ہے۔‘‘

’’اپنی بکواس بند کیجئے۔‘‘

’’ہمیں آپ کے اس اجتہاد سے اتفاق نہیں ہے۔‘‘

’’مذہب میں اجتہاد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

’’یہ اجتہاد نہیں بکواس ہے۔‘‘

(علامہ تنگ نظری خاموش ہیں۔ علامہ گنجائشی بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اجتہادی اور گنجائشی دونوں اس ہنگامے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔)

اجتہادی:خاموش رہیے۔ خاموش رہیے۔

(شور برابر بڑھ رہا ہے۔)

میں کہتا ہوں خاموش ہو جائیے۔ میری آواز کو دبانے کی کوشش نہ کیجئے۔ یہ آواز نہیں دبنے والی۔

(شور بڑھ رہا ہے۔)

خاموش ہو جائیے اجتہاد ہو چکا ہے۔ امام وقت نے خود اجتہاد کی اجازت دی ہے۔ اب یہ آواز نہیں دبائی جا سکتی۔ خاموش ہو جائیے۔

(شور برابر بڑھ رہا ہے۔)

پردہ اچانک گر جاتا ہے

***

ماخذ:’’بس اسٹاپ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

لہو پکارے گا آستیں کا

 

 

 

منظر    :پردہ اٹھتا ہے تو انسپکٹر گپتا پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ دیر بعد انسپکٹر خان داخل ہوتے ہیں  اور  سیلوٹ کرتے ہیں۔

 

گپتا     :بھئی وہ ڈکیتی کیس کی فائل تمہارے پاس ہے۔

خان    :جی ہاں۔ (الماری کا تالا کھولتا ہے  اور  فائل نکال کر دیتا ہے) آپ نے فائل دیکھی ہے سر۔

گپتا     :ہاں دیکھی تھی۔

خان    :حیرت ہے ڈاکوؤں کی اتنی ہمت ہو گئی کہ شہر کے بیچوں بیچ ڈا کہ ڈالتے ہیں  اور   بچ کر نکل جاتے ہیں۔

گپتا     :ہاں پولیس چوکنا نہ ہو تو  سب کچھ ہو سکتا ہے۔

خان    :لیکن اس میں پولیس کا کیا قصور۔ ہمیں کیا خبر کہ ڈاکہ پڑنے والا ہے۔

گپتا     :بس یہی تو قصور ہے پولیس کا کہ اسے یہ خبر نہیں کہ ڈا کہ پڑنے والا ہے۔

خان    :آپ کا خیال ہے سر ڈاکو پکڑے جا سکیں گے۔

گپتا     :کیوں نہیں۔ پولیس کے ہاتھ بہت لانبے ہیں۔ مسٹر خان اس کے ہاتھوں سے کسی کا یوں بچ نکلنا اتنا آسان نہیں ہے۔ (آواز دیتا ہے) کالو!کالو!

(دوڑتا ہوا آتا ہے۔ )

کالو     :جی صاحب۔

گپتا     :پانی دینا۔

کالو     :اچھا صاحب۔

(جانے لگتا ہے۔ )

گپتا     : (روکتے ہوئے)  اور  سنو۔

کالو     :جی صاحب۔

(رک جاتا ہے۔ )

گپتا     :باہر ہوٹل میں دو چائے کا آڈر دینا۔

کالو     :اچھا صاحب۔

(چلا جاتا ہے۔ )

گپتا     :کیوں مسٹر خان بہت دیر کر دی آپ نے۔

خان    :ہاں سروہ رانی چوک میں جو پولیس فائرنگ ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں انکوائری ہو رہی ہے نا آپ ہی نے تو کہا تھا سر کہ آج صبح اسپاٹ پر جانا ہے۔ وہیں گیا تھا۔

گپتا     :ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا۔ جسٹس دیسائی آئے تھے تحقیق کے لئے ؟

خان    :جی سر۔ انکوائری کے دوران کہہ رہے تھے کہ پولیس کی زیادتی تھی۔

(لڑکا داخل ہوتا ہے۔ ہاتھ میں چھیکا ہے جس میں چائے دو گلاس، پانی دو گلاس رکھے ہیں۔ نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ دونوں چائے پیتے پیتے باتیں کرتے ہیں۔ )

گپتا     :ہاں بھائی(طنزیہ کے ساتھ) ہر جگہ پولیس ہی کی زیادتی ہوتی ہے۔

خان    : (ہنستا ہے) سر!پولیس اپنی مرضی سے تو گولی نہیں چلاتی۔

گپتا     :یہ انہیں سوچنا چاہئے!

خان    :تو گولی عام حالات میں کہاں چلاتی ہے۔ لیکن جب ہر شخص قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پرتلا ہوا تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

گپتا     :صحیح کہتے ہیں آپ۔

خان    :آپ کو پتہ ہے سرکہ گولی کن حالات میں چلائی گئی۔ لوگ اس وقت دفتر کو باہر سے بند کر کے آگ لگا رہے تھے جبکہ کام والا عملہ بڑی تعداد میں اندر موجود تھا۔ کئی لوگوں کی جانوں کا سوال تھا۔

گپتا     :مسٹر خان پولیس بہت مظلوم طبقہ ہے۔ یہ گولی چلائے تب بھی مجرم  اور   نہ چلائے تب بھی مجرم ہے۔

خان    :ایسا کیوں ہوتا ہے سر!؟

گپتا     :اس لئے کہ پولیس خادم تو جنتا کی ہے۔ لیکن نوکر حکومت کی ہے۔

خان    :تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

گپتا     :فرق پڑتا ہے مسٹر خان۔ ۔ ۔ بہت فرق پڑتا ہے۔ حکومت اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے گولی چلواتی ہے  اور  مخالف پارٹی کے لوگ ہر وقت گولی چلنے کے منتظر رہتے ہیں۔ عوام کے ساتھ جھوٹی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں  اور   حکومت مخالف پارٹی کو مقبول ہوتے ہوئے دیکھ کر انکوائری کمیشن بٹھاتی ہے۔ پولیس کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ اس طرح پولیس ہمیشہ دو پایوں کے بیچ پیستی ہے۔ ایک طرف مخالف پارٹی  اور  عوام تو دوسری طرف حکومت۔

خان    : (ہنس کر کہتا ہے) تو پولیس گولی چلاتی ہی کیوں ہے انکار کیوں نہیں کر دیتی۔

گپتا     :پولیس کی آزاد قوت ہے کہاں مسٹر خان نوکر تو ہمیشہ نوکر ہی ہوتا ہے۔

(اس درمیان لڑکا آتا ہے  اور   چائے  اور  پانی کا گلاس لے کر چلا جاتا ہے۔ )

خان    :آخر اس مسئلے کا حل۔

گپتا     :حل کیوں نہیں ہے۔

خان    :وہ کیا۔

گپتا     :پولیس کو ایک آزاد قوت ہونی چاہئے۔ جو اپنے کئے کی خود ذمہ دار ہو۔

خان    :تو اس سے کیا ہو گا۔

گپتا     :اس سے یہ ہو گا مسٹر خان کہ قانونی دائرے میں رہتے ہوئے  اور   عوام کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے پولیس کو ہر قدم اٹھانے میں پوری آزادی ہو گی۔

خان    :تب تو اس پر من مانی کرنے کا الزام بھی لگایا جا سکتا ہے۔

گپتا     :وہ تو آج بھی لگایا جا رہا ہے۔

خان    :پھر بھی کوئی روک تو ہونی ہی چاہئے۔

گپتا     :عدالت کے دروازے کھلے ہیں۔ اس سے بڑ اور روک کونسی ہو گی۔

(اچانک ایک ملزم جس کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ دوڑتا ہوا آتا ہے۔ وہ ہانپ رہا ہے  اور  گپتا کے قدموں میں لوٹ جاتا ہے۔ پیچھے دو ایک پولیس کانسٹبل جواس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔ )

ملزم    :بس بہت ہو گیا۔ اتنا ظلم مت کرو۔ اتنا مت مارو مجھے۔ مجھے تم کیوں مارتے ہو۔ میں نے کیا کیا ہے ؟

(گپتا کا چہرہ سخت ہو جاتا ہے  اور  وہ اس کے دونوں کالر پکڑ کر اٹھاتا ہے  اور  کہتا ہے۔ )

گپتا     :تو پھر کہہ کیوں نہیں دیتا کہ تیرے ساتھ کون کون تھے ؟

ملزم    :مجھے نہیں معلوم۔ میں نہیں جانتا۔

گپتا     : (پولیس والوں کو ڈانٹتا ہے) اتنا کیوں مار رہے ہو اس بے چارے کو چلے جاؤ یہاں سے۔ وہ لوگ چلے جاتے ہیں۔ (گپتا نرمی سے پوچھتا ہے۔ )  اور  بتاؤ تمہیں مارا نہیں جائے گا۔ تمہارا نام تک کسی کو معلوم نہیں ہو گا۔ بتا دو اور  کون کون ساتھ تھے تمہارے اس ڈکیتی میں۔

ملزم    :مجھے کچھ نہیں معلوم۔ میں کچھ نہیں جانتا۔

گپتا     :دیکھو تم بتا دو گے تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا  اور  کسی کو یہ خبر تک نہ ہو گی کہ کس نے بتایا۔ اپنی جان کے دشمن مت بنو۔ اپنا نہیں تو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کاتو خیال کرو۔

ملزم    :میں کہہ چکا ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

گپتا     : (چہرہ سرخ ہو جاتا ہے) چیخ کر کہتا ہے۔ لے جاؤ اس کو۔

(پولیس مین دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ گپتا ملزم کو زور کا چانٹا مارتا ہے۔ )

(ملزم گرتا ہے۔ )

گپتا     : (پولیس والوں سے) اتنا  مارو سالے کو کہ یا تو قبول کر لے یا مر جائے۔

(پولیس والے گھسیٹتے ہوئے اسے لے جاتے ہیں۔ )

گپتا     : (خان سے) دیکھا انسپکٹر تم نے یہ اسی ڈکیتی کیس کا ملزم ہے۔ جو گاؤں ہی کا رہنے والا ہے  اور  گاؤں کے لوگوں نے اسے ڈا کہ ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن مانتا ہی نہیں۔ خوب پٹائی ہو رہی ہے۔ سالے کی مگر قبول ہی نہیں کرتا اپنے جرم کو۔ اب اگر مارتے ہوئے یہ مرگیا سالا تو دیکھنا پولیس ہی ذمہ دار ٹھہرے گی۔

(فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ خان فون اٹھاتا ہے۔ )

فون کی آواز   :بھئی انسپکٹر گپتا ہے۔ ؟

خان    :جی ہاں۔

(گپتا کو ریسیور دیتا ہے۔ )

گپتا     :ہلو۔ ۔ ۔ میں گپتا بول رہا ہوں۔

آواز   :میں ڈپٹی پولیس کمشنر انیل شرما بول رہا ہوں۔

گپتا     : (سنبھل کر) یس Yes Sir   سر۔

آواز   :بھئی وہ سوسائیڈ کیس کا کیا ہوا۔ کچھ انکوائری بڑھی آگے۔

گپتا     :جی نہیں سر۔ ۔ ۔ وہ کیس بھی پینڈنگ ہے۔

آواز   :کیوں ؟

گپتا     :سر۔ پولیس کمشنر کے آڈرس ہیں کہ ڈکیتی کیس کی تحقیقات سے پہلے مکمل کی جائے۔

آواز   :ڈکیتی کیس؟کون سا ڈکیتی کیس۔

گپتا     :سروہ۔ ۔ ۔ جو بینک میں ڈا کہ پڑا تھا۔

آواز   :اچھا۔ اچھا۔

گپتا     :جی وہی۔

آواز   :دیکھو سب سے پہلے سوسائیڈ کیس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میری نظر میں وہ کیس سب سے زیادہ اہم ہے۔

گپتا     :لیکن میں کیا کر سکتا ہوں سر۔ پولیس کمشنر صاحب کے آڈرس ہیں۔

آواز   :جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔ پولیس کمشنر صاحب سے میں بات کر لوں گا یہ میرے اسپیشل آڈر ہے۔ سمجھے سب سے پہلے سوسائیڈ کیس کا فائل کھولو۔ اس کیس کی تحقیقات اس ہفتہ مکمل ہو جانی چاہئے۔

گپتا     :لیکن سر۔ پولیس کمشنر صاحب نے تو کہا ہے کہ ڈکیتی کیس کی تحقیقات مکمل کرنے سے پہلے کوئی فائل نہیں کھلے گا۔

آواز   :دیکھو کچھ ثبوت میرے ہاتھ لگے ہیں۔ اس کیس کی فائل کھولنا ضروری ہو گیا ہے۔ کمشنر صاحب سے میں بات کر لوں گا۔

گپتا     :Ok  سر۔ تھینک یوThank You۔

(گپتا ریسیور رکھتا ہے۔ )

خان    :کیوں کیا کہہ رہے تھے ڈپٹی کمشنر صاحب۔

گپتا     :میرا تو دماغ خراب ہو گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سے کیس کی انکوائری پہلے شروع کروں۔ ڈکیتی کیس کی یا سوسائیڈ کیس کی۔

خان    :بھئی اس میں الجھنوں کی بھلا کیا بات ہے۔ جس کیس کو تم زیادہ اہم سمجھتے ہو اس کی انکوائری پہلے کرو۔

گپتا     :بس یہی تو مشکل ہے۔ اہم تو ڈکیتی کا کیس ہے کمشنر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کیس کی انکوائری پہلے ہونی چاہئے۔ یار مجھے تو شبہ ہوتا ہے آخر ڈپٹی کمشنر انیل شرما کی اس مخصوص کیس میں اتنی دلچسپی لینے کی وجہ آخر کیا ہو سکتی ہے ؟

خان    :No Sir  شبہ مت کرنا۔ اتنا آئیڈیل پولیس آفیسر تو پورے ڈپارٹمنٹ میں نہیں ہے۔ ناز کرتا ہے پولیس ڈپارٹمنٹ اس کی ایمانداری پر۔ اب رہی دلچسپی لینے کی بات تو کچھ ثبوت ملے ہونگے انہیں ا س کیس سے متعلق۔

گپتا     :ہاں یہی تو کہہ رہے تھے۔

خان    :آخر وہ کیس ہے کیا۔

گپتا     :ارے کچھ نہیں انسپکٹر۔ انیتا نامی ایک عورت نے اپنے شوہر کے ظلم سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ بس ڈپٹی کمشنر شرما جی کو یہ شبہ ہو گیا کہ لڑکے کو جہیز نہ ملنے کی شروع ہی سے شکایت رہی تھی۔ یہ سوسائیڈ نہیں مرڈر تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ڈکیتی جیسے صاف کھلے ہوئے  اور  اہم کیس کو چھوڑ کر سوسائیڈ جیسے مشتبہ کیس کا فائل کھولا جائے۔ بتاؤ اب اس کی بھی کوئی تک ہے۔

خان    :شوہر کا کیا نام ہے اس عورت کے ؟

گپتا     :راکیش شرما۔ راکیش شرما۔

خان    :اچھا۔

(پھر فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ )

گپتا     :اوں ہوں !پھر لگتا ہے انہیں کا فون ہے۔

(خان ہنستا ہے  اور  اٹھ کر باہر چلا جاتا ہے۔ )

گپتا     : (ریسیور اٹھاتا ہے) ہلو۔ ۔ ۔

آواز   :Yes  پولیس اسٹیشن۔

گپتا     :ہاں میں چوکی محلہ کی پولیس چوکی سے انسپکٹر گپتا بول رہا ہوں۔

(اس دوران ایک شخص میلے کچیلے کپڑوں میں پھٹے حال بال بکھرے ہوئے بالکل پاگلوں کی طرح اندر آتا ہے  اور  زمین پر خاموش بیٹھ جاتا ہے۔ )

آواز   : (بہت گھبرائی ہوئی تیز تیز)انسپکٹر! سیٹھ دھرم دیال کے گھر ڈا کہ پڑ گیا ہے۔ فوراً پولیس فورس بھیجئے۔

گپتا     :Ok  (فون رکھ کر دوڑتا ہے) انسپکٹر خان۔ انسپکٹر خان۔

خان    : (تیز تیز اندر آتا ہے) Yes Sir۔

گپتا     :دیکھو سیٹھ دھرم دیال کے گھر ڈاکہ پڑ گیا ہے فوراً پولیس فورس لے کر وہاں پہنچو۔

خان    :سیلوٹ کرتا ہے  اور  بہت تیزی سے باہر نکل جاتا ہے۔

گپتا     : (جس نے ریسیور صرف ٹیبل پر رکھا تھا اٹھاتا ہے  اور   کہتا ہے) پولیس فورس فوراً پہنچ جائے گی۔ (رجسٹر کھولتا ہے) کتنے بجے ڈا کہ پڑا۔ ۔ ۔  اچھا۔ ۔ ۔  (لکھتا ہے) آپ کا فون نمبر کیا ہے۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔

(لکھتا ہے۔ )

(پولیس کا سائیرن بہت دور تک سنائی دیتا ہے۔ اس دوران لکھ کر گپتا رجسٹر بند ہی کرنا چاہتا ہے کہ سامنے بیٹھا ہوا آدمی جو پاگلوں کی طرح ہے رجسٹر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ )

آدمی   :ایک رپورٹ  اور  لکھوانی ہے انسپکٹر۔

انسپکٹر  : (بہت بگڑ کر) کیا؟

آدمی   :ایک رپورٹ  اور  لکھوانی ہے۔

گپتا     : (بگڑ کر) کون سی رپورٹ۔

آدمی   :چوری کی رپورٹ۔

گپتا     : (بہت ذلت سے اس کی طرف دیکھتا ہے) کہاں ہوئی ہے چوری۔

آدمی   :فٹ پاتھ پر۔

گپتا     :فٹ پاتھ پر۔ ؟

آدمی   :ہاں کوئی میری ایک روٹی چرا کر لے گیا۔

گپتا     :روٹی؟ تو پاگل ہو گیا ہے۔ ایک روٹی کی چوری کی رپورٹ لکھوں نکل جا یہاں سے۔

آدمی   : (رجسٹر چھین کر زور سے پٹختا ہے) تمہیں لکھنا پڑے گا۔ انسپکٹر تمہیں لکھنا پڑے گا۔ سیٹھ دھرم دیال کے ہاں ڈا کہ پڑتا ہے تو رپورٹ لکھتے ہو اور  میری روٹی چوری ہو جاتی ہے تو رپورٹ نہیں لکھ سکتے۔

گپتا     :اس کے ہاں لاکھوں کی چوری ہوئی ہے۔

آدمی   :اس کے ہاں تو لاکھوں کی چوری ہوئی ہے۔ لیکن میرا تو سب کچھ ہی چوری ہو گیا ہے۔ دھرم دیال کے ہاں لاکھوں کی چوری ہونے کے بعد کروڑوں موجود ہے  اور  میری ایک روٹی چوری ہو جانے کے بعد کچھ بھی نہیں۔

گپتا     : (کانسٹبل کو آواز دیتا ہے) راجو۔ راجو اس پاگل کو باہر نکالو۔

(راجو ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا اسے باہر لے جاتا ہے  اور  وہ آدمی چیختا جاتا ہے۔ )

آدمی   :تم کو لکھنا پڑے گا انسپکٹر۔ تم کو لکھنا پڑے گا۔ یہ ظلم ہے انسپکٹر یہ ظلم ہے۔

(بہت دور تک اس کی آواز آتی ہے۔ انسپکٹر کرسی میں دھنس جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر انیل شرما پولیس کے عملے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ گپتا کھڑا ہو جاتا ہے  اور  سیلوٹ کرتا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :اس سوسائیڈ کیس کا کیا ہوا آپ نے خبر تک نہیں بھجوائی!

گپتا     :سر شہر میں ڈاکے پر ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ پہلے بنک پر ڈا کہ پڑا۔ پھر سیٹھ دھرم دیال کے گھر پر۔ میں اس کی Enquiry   میں پڑا رہا۔ ایک قصہ تمام ہو تو  دوسرا فائل کھلے۔

ڈپٹی کمشنر       :میں بار بار آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ کو سارے کام چھوڑ کر یہ کام کرنا ہے۔ لیکن آپ ہیں کہ کوئی رسپانس Response   ہی نہیں دیتے۔

گپتا     :سوری سر۔ آپ کہیں  اور  ہم Follow   نہ کریں یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن اس جھگڑے سے پیچھا تو چھوٹے۔

ڈپٹی کمشنر       :اچھا سنا ہے۔ ڈکیتی کیس کے سلسلے میں کوئی آدمی پکڑا گیا ہے۔ جس کا نام رمیش ٹھاکر ہے ؟

گپتا     :جی سر!ہم ہر طرح سے کوشش کر کے تھک گئے لیکن وہ اس جرم کا اعتراف ہی نہیں کرتا۔ میں نے خود سختی سے محبت سے ہر طرح اس سے اگلوانے کی کوشش کی۔ لیکن ہارگیا۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں سر! وہ کچھ اگلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ تو مار مار کر اسے مار ڈالیں۔

ڈپٹی کمشنر       :میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔

گپتا     :Yes Sir  !

(ڈپٹی کمشنر کہتے کہتے اس کمرے کی جانب مڑ جاتا ہے۔ جہاں اس مجرم کو رکھا گیا ہے۔ گپتا ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ لیکن ڈپٹی کمشنر روک دیتا ہے  اور  کہتا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :میرے ساتھ کوئی چلے گا نہیں۔ انسپکٹر۔

(سب رک جاتے ہیں۔ اس دوران گپتا کمرے میں ٹہلتا رہتا ہے کہ اچانک انسپکٹر خان داخل ہوتا ہے۔ )

خان    :کیوں کوئی انسپکشن Inspection   کے لئے آیا ہے کیا؟

گپتا     :ہاں ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہیں۔

خان    :اندر کیا کر رہے ہیں ؟

گپتا     :کچھ نہیں وہ ڈکیتی کیس میں جو پکڑا گیا ہے نا رمیش ٹھا کراس سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے تنہائی میں۔

کان    :اچھا۔

(اچانک لوگوں کا شور سنائی دیتا ہے اس شور میں صرف ایک جملہ صاف سنائی دیتا ہے۔ ٹھا کر کو چھوڑ دو۔ ٹھا کر بے گناہ ہے۔ ہم ٹھا کر کو چھڑا کر لے جائیں گے۔ پتھر مارنے کی آوازیں۔ دو تین پتھر پولیس چوکی کے اندر آتے ہیں۔ ایک پتھر گپتا کے سر  پر لگتا ہے وہ سر پکڑ لیتا ہے۔ خان اس کی طرف دوڑتا ہے۔ لیکن وہ اشارے سے اسے روکتا ہے  اور   کہتا ہے۔ )

گپتا     :تم ڈپٹی کمشنر صاحب سے کہو کہ وہ فوراً پچھلے دروازے سے نکل جائیں Public Violence  پر اتر آئی ہے۔

(شور برابر سنائی دیتا ہے۔ گپتا دوڑ کر فون کرتا ہے۔ )

گپتا     :پبلکPublic   نے پولیس تھانے پر حملہ کر دیا ہے۔ یہاں پولیس کے عملے کی کمی ہے۔ پولیس فورس فوراً روانہ کیجئے۔

(اس دوران پولیس کمشنر خان کے ساتھ باہر آ چکا ہے۔ وہ گرجدار آواز میں کہتا ہے۔ اس کی آواز سے اس کا اعتماد ظاہر ہو رہا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :پولیس کی کوئی ضرورت نہیں۔

(فون آگے بڑھ کر ہاتھ سے لے لیتا ہے۔ مجمع قابو میں آ گیا ہے۔ پولیس فورس نہ بھیجیں۔ )

گپتا     :یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر!ہماری جانوں کو خطرہ ہے یہاں۔

ڈپٹی کمشنر       :کسی کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ تم دیکھتے جاؤ انسپکٹر۔

(ڈپٹی کمشنر باہر نکل جاتا ہے  اور  فوراً بعد ہی اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :Stop it, ……. Stop it, …….  خاموش ہو جائیے میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنے آیا ہوں۔

(ڈپٹی کمشنر کی آواز ان سب آوازوں پر بھاری ہے۔ آوازیں بند ہو جاتی ہے۔ جب خاموشی ہو جاتی ہے تو گپتا  اور  خان بھی باہر نکل جاتے ہیں۔ اب اسٹیج بالکل خالی ہے۔ صرف ایک نوکر دروازے کے قریب کھڑا ہے۔ جوگھبرا گھبرا کر باہر بار بار دیکھ رہا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :آپ لوگ کیا چاہتے ہیں۔

(اچانک پھر شور شروع ہو جاتا ہے۔ رمیش بے گناہ ہے۔ اسے پولیس کو چھوڑنا ہو گا۔ )

ڈپٹی کمشنر       :آپ جانتے ہیں کہ شہر میں جگہ جگہ ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ خود آپ کی جانیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں بہت سے ایسے لوگوں کو پولیس کی حراست میں لینا ہے جس سے پولیس انکوائری کو آگے بڑھایا جا سکے۔ رمیش کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ میں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ آپ یقین رکھئے۔ وہ جب تک یہاں ہے ہمارا مہمان ہے۔

(فضا خاموش ہو جاتی ہے  اور  ڈپٹی کمشنر گپتا  اور   خان کے ساتھ آتا ہے  اور   کہتا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :مجھے جو باتیں کرنی تھیں رمیش سے کر چکا۔ اب اس پر کوئی سختی نہیں ہو گی  اور  جن لوگوں کو گواہی سے اسے پکڑا گیا تھا ان پر کڑی نظر رکھو۔ وہ شہر سے باہر نہ جانے پائے۔

گپتا     :لیکن سر!وہ ڈکیتی میں شریک تھا۔ اس پر سختی کرنی ہی ہو گی۔ ورنہ کیس آگے کیسے بڑھے گا۔

ڈپٹی کمشنر       :انسپکٹر وہ کرنا ہے تمہیں صرف جو میں کہتا ہوں  اور  تمہیں صرف دو کام کرنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ رمیش کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے  اور   دوسرے یہ کہ سیتا سوسائیڈ کیس کی تفتیش شروع کر دو۔ اس سلسلہ میں C.I.D. Department  بھی حرکت میں آ چکا ہے۔

گپتا     :Ok  سر!

(ڈپٹی کمشنر اپنے عملے کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد گپتا سوسائیڈ کیس کی فائل نکالتا ہے  اور  اسے پڑھنا شروع کرتا ہے۔ خان بھی بازو میں بیٹھا فائل دیکھ رہا ہے گاندھی ٹوپی لگائے ہوئے ایک شخص اندر داخل ہوتا ہے۔ جبہ کرتا، دھوتی  اور   بنڈی پہنے ہوئے ہیں ہاتھ میں لکڑی ہے۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتا ہے۔ انسپکٹر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ وہ بیٹھ جاتا ہے  اور   کہتا ہے۔ )

آدمی   : (ہکلاتے ہوئے)میں ایک ش۔ ش۔ ش۔ شکایت لے کر آیا ہوں۔

گپتا     :وہ کیا۔ ؟

آدمی   :ہمارے محلے میں جوش۔ ش۔ ش۔ شراب کا  اور  ج۔ ج۔ ج جوئے کا اڈہ کئی سال سے چل رہا ہے اسے ہٹانے کے بارے میں آپ نے کچھ س۔ س۔ س۔ سوچا نہیں ابھی تک۔

گپتا     :جو شکایت ہے Writing   میں دیجئے۔

آدمی   :اجی چھوڑئیے Writing Vaiting   کو۔ Writing   دیئے ہوئے س۔ س۔ س سال بھر ہو گیا ہے۔ اب جوک۔ ک۔ ک کاروائی کرنی ہے وہ کیجئے۔ ش۔ ش۔ ش۔ شریف لوگوں کا رہنا مشکل ہو گیا ہے اس علاقے میں۔

خان    :م۔ م۔ م مشکل ہو گیا ہے توہم کیا کریں۔ آپ کوتوWriting   میں دینا پڑے گا۔

گپتا     :ہنسی آتی ہے۔ لیکن رومال سے چھپا لیتا ہے۔

آدمی   :دیکھئے آپ کو تو م۔ م۔ م۔ مذاق سوجھ رہی ہے۔ لیکن آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ میں ج۔ ج۔ ج جنتا کا سیوک ہوں۔ میں آپ کی ش۔ ش۔ ش شکایت اوپر تک کر سکتا ہوں سمجھے۔

(یہ کہہ کر جھٹکے سے اٹھتا ہے  اور  جانے لگتا ہے۔ کچھ دیر بعد فوراً رک جاتا ہے۔ جیسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔ پھر پلٹتا ہے  اور  کہتا ہے دیکھئے میرا بیٹا گاندھی باغ میں ش۔ ش۔ ش شراب کی دوکان چلا رہا ہے۔ تو اسے پولیس پریشان کر رہی ہے۔ اب لائسنس نہیں ہے تو کیا ہوا لائسنس مل جائے گا۔ آپ ذرا سپھارس (سفارش) کر دیں تو۔ ۔ ۔ )

خان    :کیوں سیوک جی وہاں ش۔ ش۔ ش شریف نہیں رہتے کیا؟

آدمی   :ہنھ(مونھ بناتا ہے)  اور  جانے لگتا ہے کہ ایک فقیر ایک میلا جھبہ پہنے سرپر عمامہ باندھے  اور  ہاتھ میں کاسہ لئے داخل ہوتا ہے  اور  اچانک آدمی سے کہتا ہے اللہ کے نام پہ دیدے اللہ تیرا بھلا کرے بابا۔ آدمی اپنی دونوں جیبیں سنبھالتا ہوا باہر بہت تیزی سے نکل جاتا ہے۔ آدمی اندر میز تک آتا ہے  اور   پھروہی آواز لگاتا ہے۔ اللہ کے نام دیدے۔ اللہ تیرا بھلا کرے بابا۔

گپتا     :ارے تجھے اندر کس نے آنے دیا چل نکل باہر۔

(فقیر دروازے تک جاتا ہے۔ باہر جھانک کر دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر ہر کھڑکی کے پاس جاتا ہے  اور   جھانکتا ہے اس دوران انسپکٹر بہت حیرت سے اس کی ان حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔ پھر جب یقین ہوتا ہے کہ کوئی نہیں ہے تو سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ )

گپتا     :یہ کیا بدتمیزی ہے۔ یہ پولیس اسٹیشن ہے تیرا۔ ۔ ۔

فقیر    : (اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھتے ہوئے) ش ش شCID   انسپکٹر سین گپتا۔

(اپنا Identity   آئیڈینٹٹی کارڈ دکھاتا ہے۔ )

گپتا     :او، آئی ایم سوری I am sorry Sir   میں نے پہچانا ہی نہیں۔

فقیر    :دیکھو مجھے فوراً نکل جانا چاہئے۔ کوئی دیکھ نہ لے۔ میں سیتا سوسائیڈ کیس کے سلسلے میں بھیجا گیا تھا۔ ساری انکوائری مکمل ہو چکی ہے  اور   تمام Details   ڈیٹیلس میں ڈپٹی کمشنر صاحب کودے چکا ہوں۔ تم سے صرف یہ کہنا ہے جن لوگوں کی گواہی پر ٹھاکر کو پولیس نے حراست میں لیا ہے ان پر کڑی نظر رکھو۔ وہ چاروں روز رات کے دو تین بجے راکیش شرما کے گھر جاتے ہیں۔ وہاں کیا باتیں ہوتی ہیں اس کا پتہ لگانا مشکل ہے کیونکہ دو ایک ساتھی اس دوران باہر گشت کرتے ہیں۔ خیر ڈپٹی کمشنر شرما کہہ رہے تھے کہ اس کا پتہ لگانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اٹھتا ہے  اور  جاتے جاتے پھر رک جاتا ہے  اور  قریب آ کر کہتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہے اس دوران راکیش شرما  اور  اس کے پڑوسیوں کو اتنے جھٹکے دوکہ اسے یہ یقین ہو جائے کہ اس کے خلاف کیس ثابت ہو چکا ہے۔ پولیس اسٹیشن بار بار بلانے کے علاوہ تم جس جس طریقے سے انہیں Harass   کر سکتے ہو مایوس ہونے کی حد تکHarass   کرو۔

گپتا     :تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ اپنے جرم کا اعتراف کر لے گا۔

فقیر    :ڈپٹی کمشنر صاحب کے آڈرس ہیں تم اتنا ہی کرو جتنا تمہیں کہا جا رہا ہے۔

(یہ کہہ کر فقیر اٹھتا ہے  اور  زور سے آواز لگاتا ہے۔ اللہ کے نام پہ دیدے بابا اللہ تیرا بھلا کرے  اور   باہر چلا جاتا ہے۔ )

گپتا     : (انسپکٹرخان سے) ہاں تو  راکیش شرما کے پڑوسی کا کیا نام تھا۔ ؟

خان    : (فوراً فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے  اور  کہتا ہے) شیام ورما۔

گپتا     :ٹھیک ہے تو پہلے شام ورما ہی کو بلایا جائے۔

(یہ کہتے ہوئے اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد روشنی ہوتی ہے تو گپتا فون پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ )

گپتا     :کون ڈپٹی کمشنر صاحب؟Yes Sir۔

فون    :دیکھو کیس کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے۔ کل فائل کے ساتھ پولیس کمشنر کے دفتر ٹھیک گیارہ بجے پہنچ جاؤ۔ ٹھیک اسی وقت مجرم پولیس کمشنر کے سامنے ہو گا۔ میں کمشنر سے وقت لے چکا ہوں۔ یاد رکھو ٹھیک گیارہ بجے۔

(اسٹیج پر اندھیرا ہو جاتا ہے۔ یا پردہ بھی گرایا جا سکتا ہے۔ جب روشنی ہوتی ہے تو پولیس کمشنر کا دفتر دکھائی دیتا ہے۔ شہر کا بڑا نقشہ دیوار پر ٹنگا ہوا ہے۔ دو تین الماریاں کونے میں رکھی ہیں۔ بڑی بڑی تصویریں دیواروں پر آویزاں ہیں۔ اسٹیج کے بائیں جانب میز ہے۔ جس پر ٹیلیفون ضروری فائلیں ترتیب کے ساتھ رکھی ہیں۔ نیچے فرش بچھا ہے۔ میز کے سامنے دو تین کرسیاں پڑی ہیں۔ میز کے پیچھے ایک نہایت آرام دہ کرسی ہے جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو کسی بڑے افسر کی کرسی ہونی چاہئے۔ پولیس کمشنر پیچھے ہاتھ باندھے بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ اچانک ڈپٹی کمشنر انیل شرما داخل ہوتے ہیں۔)

ڈپٹی کمشنر       :میں اندر آ سکتا ہوں۔

کمشنر    :Yes! Come in

(ڈپٹی کمشنر بہت خاموش ہیں۔ چہرے پر ملال ہے۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان ہے۔ لباس بہت شوخ ہے۔ چہرے پر سختی کا اظہار ہو رہا ہے۔ بال بڑے بڑے ہیں۔ وضع قطع سے نہایت درجہ بد تہذیب معلوم ہوتا ہے۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ پولیس کمشنر کے قریب پہنچتے ہیں۔ نوجوان بہت بے تکلفی سے سلام کرتا ہے Good Morning Sir  پولیس کمشنر خاموش رہتے ہیں۔ نوجوان ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے۔ پولیس کمشنر ہاتھ نہیں بڑھاتے  اور   اسے گھورتے ہیں۔ اسی دوران پولیس بندوقوں سے لیس تمام دروازوں میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ نوجوان کو شبہ ہوتا ہے۔ وہ پہلے تو پولیس کمشنر کی طرف غور سے دیکھتا ہے۔ پھر دروازے کی جانب دیکھتا ہے  اور  پھر ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے۔ )

نوجوان:ڈیڈی آپ نے تو کہا تھا کہ مجھے آپ کمشنر صاحب سے ملانے لے جا رہے ہیں ؟

(پولیس کمشنر طنزاً مسکراتا ہے  اور  اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ باقی سب ہی لوگ کھڑے رہتے ہیں۔ اسی اثنا میں ایک پولیس آفیسر داخل ہوتا ہے۔ سیلوٹ کرتا ہے۔ فائل میز پر رکھ دیتا ہے  اور  نوجوان کے قریب کھڑا ہو جاتا ہے۔ نوجوان بہت گھبرایا سا نظر آ رہا ہے پھر ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے۔ )

نوجوان:ڈیڈی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ مجھے کمشنر صاحب سے ملنے لے جا رہے ہیں۔ مگر یہاں تو۔

کمشنر    :You are under arrest Mr. Sharma

نوجوان: (ڈپٹی کمشنر انیل شرما کو دیکھ کر) یہ سب کیا ہو رہا ہے ڈیڈی۔

ڈپٹی کمشنر       : (انہی جملوں کو دہراتا ہے)You are under arrest Mr. Sharma

نوجوان:آخر کس بات پر مجھے arrest   کیا جا رہا ہے۔

کمشنر    :ایک معصوم عورت کے قتل  اور  ڈکیتی کے جرم میں۔

نوجوان:معصوم کے قتل  اور  ڈکیتی کے جرم میں۔

(تھوڑی دیر خاموشی رہتی ہے۔ اس دوران نوجوان تمام دروازوں کی طرف باری باری دیکھتا ہے کہ ہر دروازے پر مسلح پولیس کھڑی ہے تو پولیس کمشنر کی جانب دیکھتا ہے  اور  کہتا ہے۔ )

نوجوان:آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے۔

ڈپٹی کمشنر       :ثبوت۔ ۔ ۔  ثبوت تمہاری وہ باتیں ہیں جو ۱۸/نومبر کی رات کو تم نے مجھ سے کی تھیں۔

نوجوان:اس رات میں نے آپ سے کوئی بات نہیں کی۔ میں ملا تک نہیں آ پ سے۔

ڈپٹی کمشنر       :پھر سننا چاہو گے ٹیپ ریکارڈ نکالتا ہے  اور  اسے آن On   کرتا ہے۔

(آواز سنائی دیتی ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر کی آواز      :میں جانتا ہوں کہ پچھلے دس برسوں سے تم میرے  اور  میں تمہارے لئے اجنبی ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں بیٹے کہ میں نے تمہاری حرکتوں کو کبھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ تم سے نفرت ہی کرتا رہا۔ لیکن پھر بھی میں تمہارا باپ ہوں۔ برے وقتوں میں تمہارا ساتھ ہی دیتا یہ کیسے ممکن تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ پولیس تمہیں پریشان کرتی رہی۔ جھٹکے دیتی رہی  اور   تم ملے تک نہیں۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارا باپ پولیس افسر ہے  اور  کتنا ہی سنگین جرم کیوں نہ ہو وہ اسے دبا سکتا ہے۔

نوجوان:ہاں ڈیڈی!مجھے پتہ تھا۔ لیکن میں ڈرتا تھا کہ میرے آدرش وادی باپ مجھے دھکے دے کر باہر نکال دے۔ میں سہمتا تھا کہ اتنے بڑے جرائم کا اعتراف آپ کے سامنے کیسے کروں گا۔ آپ تو مجھے دھکے مارکر باہر نکال دیں گے۔ میں بہت ڈرتا تھا آپ سے اسی لئے میں آپ سے ملا نہیں۔

ڈپٹی کمشنر کی آواز      :خیر جو ہو گیا سو گیا۔ اب مجھ سے یہ کہو کہ ان جرائم کی تفصیل کیا ہے  اور   کہنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ بات کو بالکل ٹھیک ٹھیک بتا دینا ہے تمہیں۔ ورنہ تم سمجھ لو کہ پولیس تمہارے خلاف سارے ثبوت اکٹھا کر چکی ہے  اور   تم مجرم ثابت ہو چکے ہو۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس وقت بھی تم پولیس کی حراست میں ہو۔ تم شہر سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔ اب ایک ہی راستہ رہ گیا ہے تمہارے چھوٹنے کا کہ جو بات بالکل ٹھیک ٹھیک ہے تم مجھ سے بتا دو۔ تا کہ میں اس کیس کو دبا سکوں یا کچھ  اور رنگ دے سکوں۔

نوجوان کی آواز: (گھبراتے ہوئے)ہاں ڈیڈی میں بہت غلطیاں کر چکا ہوں۔ اب کوئی غلطی نہیں ہو گی۔ میں آپ کو سب کچھ بتلا دیتا ہوں۔ سب کچھ۔ ۔ ۔  سنیتا جل کر نہیں مری، ڈیڈی اسے میں نے مار ڈالا۔ میں اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس کے چہرے سے بھی مجھے نفرت تھی۔ میں  اور  کر بھی کیا سکتا تھا۔ مجھے ڈھیر سا جہیز چاہئے تھا۔ جواس کے پاس نہیں تھا۔ اس رات جب میں گھر لوٹا تو وہ سو رہی تھی۔ میں نے موقع کو غنیمت جان کر اس کا گلا دبا دیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ اس کے بعد اس کی لاش کو اتنی بری طرح جھلسا دیا کہ پہچانی نہ جا سکے۔ اس لاش کو میں نے پوسٹ مارٹم کے قابل بھی نہ رکھا۔ اسی رات میں نے اپنا بستر باندھا  اور   دوسرے شہر چلا گیا۔ تا کہ مجھ پر شبہ نہ ہو سکے۔ جب صبح لوٹا تو اس کے جل کر مرنے کی خبر پھیل چکی تھی۔

ڈپٹی کمشنر کی آواز      :کیسے پھیل چکی تھی۔ ؟

نوجوان:گھرکا ملازم مجھ سے پہلے گھر پہنچ گیا تھا۔ بس اس کے شور مچانے سے سب کو معلوم ہو گیا۔

ڈپٹی کمشنر کی آواز      : اور  ڈکیتی کا کیا معاملہ ہے۔

نوجوان:اس جرم کے بعد گویا جرائم کی طرف میرے قدم خودبخود اٹھنے لگے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں ڈیڈی کہ میرے چاردو ست تھے جو شہر کے چھٹے ہوئے بدمعاش تھے۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ کروڑوں روپئے حاصل کر لیں  اور  وہ ڈاکہ ڈالنے کے علاوہ ممکن نہ تھا۔ کیس کو دبانے کے لئے بھی روپیوں کی ضرورت تھی۔ ہم نے منظم طور پر ڈاکے ڈالنے شروع کئے۔ ہر بینک پر ڈاکہ ڈالا، ہر سرمایہ دار کو لوٹا، یہاں تک کہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ وہ سب کچھ ہم ہی نے کیا ڈیڈی ہم ہی نے کیا۔ میں  اور   میرے چاردو ست۔

(پولیس کمشنر اٹھتا ہے ٹیپ ریکارڈ بند کرتا ہے  اور  کہتا ہے میں بتاؤں وہ آپ کے چاردو ست کون تھے۔ (زور سے تالی بجاتا ہے) پولیس کانسٹبل چاروں کولے کر اسٹیج پر آتا ہے۔ یہ تھے وہ آپ کے چار ساتھی۔ کیوں ؟ چاروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں  اور  جس بے گناہ کو ان چار کی گواہی کی وجہ سے پکڑا گیا تھا  اور  جس کی بیوی  اور  بچے کو تم نے اغوا کر لیا  اور  دھمکی دی تھی کہ اگر وہ زبان کھولے گا تو تم انہیں مار ڈالو گے۔ انہیں بھی دیکھتے جاؤ۔ (پھر تالی پیٹتا ہے۔ )رمیش ٹھاکر  اور  اس کی بیوی اپنے گود میں بچے کو لئے دوسرے دروازے سے اسٹیج پر آتے ہیں۔ )

(اچانک نوجوان بازو میں کھڑے ہوئے پولیس افسر کے پٹے سے پستول نکال کراس کی گردن پر رکھ دیتا ہے  اور  کہتا ہے۔ )

نوجوان:ہینڈز اپ!

(سب ہاتھ اوپر کر دیتے ہیں۔ )

نوجوان:اگر کسی نے ہلنے کی کوشش کی تو گولی ماردو ں گا۔

(آگے بڑھ کر ٹیپ ریکارڈ اٹھاتا ہے  اور  کہتا ہے۔ )

نوجوان:کیوں ڈیڈی!اس پر بڑا  ناز تھا آپ کو اب لائیے گا ثبوت کہاں سے لاتے ہیں۔ اب اس کے چاروں دوست بھی اس کے ساتھ ہولیتے ہیں  اور  وہ اس پولیس افسر کی گردن پر بندوق رکھے ہوئے پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے۔

(اچانک پچھلے دروازے سے انسپکٹر گپتا داخل ہوتے ہیں  اور   نوجوان کی گردن پر پستول رکھ دیتے ہیں۔ )

گپتا     :پستول پھینک دو۔ ورنہ بھون کر رکھ دوں گا۔ (زور سے کہتے ہیں) پھینک دو پستول۔

(نوجوان گھبرا کر پستول پھینک دیتا ہے۔ پولیس دوڑ کر ان سب کو گرفتار کر لیتی ہے۔ )

پولیس کمشنر     :یہ تم لوگوں کے قاتل  اور  ڈاکو ہونے کا ایک  اور   ثبوت تھا۔ لے جاؤ ان بدمعاشوں کو۔

(پولیس ان سب کولے جاتی ہے۔ جب وہ سب چلے جاتے ہیں تو کچھ دیر خاموشی رہتی ہے۔ پھر ڈپٹی کمشنر انیل شرما جیب سے رومال نکالتا ہے  اور  اپنے آنسو پونچھتا ہے۔ )

پولیس کمشنر     :آپ نے وہ کام کیا ہے مسٹر شرما جس کی تعریف میری قدرت سے باہر ہے۔ اپنے پورے کیریئر میں میں نے ایسا آئیڈیل افسر نہیں دیکھا جو اصول کی خاطر اپنے بیٹے کو ہتھکڑی پہنا دے۔ میں جانتا ہوں آپ کو بہت دکھ ہے۔ اپنے آنسو پونچھ لیجئے۔

ڈپٹی کمشنر       :مجھے بیٹے کے گرفتار ہونے پر افسوس نہیں ہے۔ مجھے افسوس س بات پر ہے کہ گرفتار ہونے والا مجرم میرا بیٹا ہے۔

کمشنر    :آپ کے دل پر بوجھ نہ ہو تو ایک بات کہوں آپ سے۔

ڈپٹی کمشنر       :فرمائیے۔

کمشنر    :اس پورے کیس میں ایک راز دار کو آپ نے راز میں رکھا۔

ڈپٹی کمشنر       :وہ کون سر؟

کمشنر    :آپ کا پرانا وفادار ملازم شنکر جو آپ کے بیٹے کے گھر ملازم تھا  اور   جس نے سب سے پہلے آپ کو اس سارے راز سے آگاہ کیا۔ جس نے سب سے پہلے آپ کے گھر رات کے ۱۱!بجے سہمے سہمے آ کر پوری داستان سنائی تھی  اور  وہ داستان یہ تھی۔

(کیسٹ نکالتا ہے  اور   ٹیپ میں فکس کر کے اسے آن(On)   کرتا ہے۔ )

(ٹیپ کی آواز)

ملازم   :آپ چھوٹے سرکار کو سمجھائیے بڑے مالک اب تو  خون کرتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ نہیں کانپتے۔

ڈپٹی کمشنر کی آواز      :کیوں کیا ہوا؟

ملازم   :ایک بات ہو تو بتاؤں۔

ڈپٹی کمشنر       :صاف صاف کیوں نہیں کہتا کیا بات ہے ؟

ملازم   :انھوں نے سنیتا بیٹی کی ہتیا کر ڈالی۔ تومیں نے آپ سے چھپائے رکھا۔ لیکن اب تو وہ ڈاکے بھی ڈالنے لگے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر       :سنیتا تو جل کر مری تھی۔

ملازم   :نہیں بڑے سرکار اس بچاری کا گلا دبا کر مارا چھوٹے مالک نے۔ جب وہ گلا دبا رہے تھے تو اتفاق سے میں کمرے میں چلا گیا۔ انھوں نے کہا اس بارے میں زبان کھولی تو تیرے پورے گھرکو صاف کر دوں گا۔

(کمشنر ٹیپ بند کرتا ہے۔ )

ڈپٹی کمشنر       :آپ کو کیسے معلوم ہوا سر؟

کمشنر    :آپ کو شاید معلوم نہیں شرما۔ اس وقت تک ایک پاگل آپ کے گھر میں گھس آیا تھا  اور   آپ نے مار کر اسے باہر نکالا تھا۔

ڈپٹی کمشنر       :جی مجھے یاد ہے۔

کمشنر    :لیکن جب آپ کی نظر اس پاگل پر پڑی تب وہ پاگل آپ کی ساری باتیں ریکارڈ کر چکا تھا  اور   حیرت تو یہ ہے کہ وہی پاگل انسپکٹر گپتا کی پولیس چوکی کا معائنہ کرنے بھی پہنچا تھا۔ لیکن وہ اسے نہیں پہچان سکے۔

گپتا     :کون سا پاگل سر!؟

کمشنر    :جب دھرم دیال کے ہاں ڈاکہ پڑا  اور  آپ رجسٹر میں نوٹ کرنے کے بعد رجسٹر بند کرنے لگے تو یاد ہے ایک پاگل نے آپ کے رجسٹر پر ہاتھ رکھ دیا  اور  کہا کہ ایک رپورٹ  اور  لکھنی ہے۔ فٹ پاتھ سے کسی نے میری روٹی چرا لی  اور  آپ نے دھکے دے کر اسے چوکی سے نکلوا دیا۔

گپتا     :جی ہاں۔ مجھے یاد ہے سر۔

پولیس کمشنر     :پتہ ہے وہ پاگل کون تھا۔

(سب ایک ساتھ) کون؟

پولیس کمشنر     : اور  وہ پاگل میں تھا۔

(سب اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ )

(پردہ گر جاتا ہے۔ )

***

ماخذ:’’بس اسٹاپ‘‘

٭٭٭

مشمولہ ’اردو ڈرامے‘ اور ’اردو پلے‘  ،  مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

فائل کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید