FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

 

حصہ ۱۲:  صافات (۳۷) تا حم السجدہ (۴۱)

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

(۳۷)۔سورۂ اَلصَّافَّاتٍ

 

 (۱۸۲ آیات)

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز وَالصَّافَّاتٍ (قسم ہے صف بستہ فرشتوں کی) سے ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الصَّافَّات ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

آیات کی ترکیب اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے درمیانی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں اللہ کے واحد معبود ہونے پر ایک اور انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کی تائید میں ملاء اعلیٰ کی شہادت پیش کی گئے ہے۔ اور اس حقیقت کو ماننے کے نتیجہ میں مرتب ہونے والی جزا اور نہ ماننے کے نتیجہ میں ملنے والی سزاؤں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ مستقبل کے احوال کی ایک جھلک آج ہی دیکھی جا سکتی ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۱۰ میں اللہ واحد معبود ہونے پر فرشتوں کی شہادت پیش کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ شیطانوں کی پہنچ ملاء اعلیٰ تک نہیں ہے انہیں اس سے دور رکھا گیا ہے۔

آیت ۱۱ تا ۷۴ میں دوسری زندگی کے احوال پیش کیے گئے ہیں۔ ایک طرف غیر اللہ کے پرستاروں کا بہترین انجام۔

آیت ۷۵ تا ۱۴۷ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ ہے جنہوں نے دعوت توحید کو پیش کرتے ہوئے طرح طرح کے مصائب برداشت کیے اور اللہ کی راہ میں زبردست قربانیاں پیش کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کا بہترین صلہ عطا فرمایا۔

آیت ۱۴۹ تا ۱۷۰ میں مشرکین کے باطل عقائد خاص طور سے فرشتوں کے بارے میں غلط تصورات کی تردید کرتے ہوئے فرشتوں کا اپنا بیان پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۱۷۱ تا ۱۸۲ سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں رسول کے لیے نصرت الٰہی اور اللہ کے لشکر یعنی رسول کے پیروؤں کے لیے غلبہ کی خوش خبری دی گئی ہے۔

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ صف بہ صف کھڑے ہونے والے (فرشتوں) کی قسم ۱*۔

۲۔۔۔۔۔۔ اور ڈانٹنے دھتکارنے والوں کی ۲*۔

۳۔۔۔۔۔۔ اور ذکر (الٰہی) کی تلاوت  کرنے والوں کی ۳*

۴۔۔۔۔۔۔ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ۴*

۵۔۔۔۔۔۔ وہ جو آسمانوں اور زمین  اور ان کے درمیان کی موجودات کا رب ہے۔ اور تمام مشرقوں کا رب ۵*

۶۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستارو ں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔ ۶*

۷۔۔۔۔۔۔ اور ہر سرکش شیطان سے اس کو محفوظ کر دیا ہے ، ۷*

۸۔۔۔۔۔۔ وہ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے ان پر مار پڑتی۔ ۸*

۹۔۔۔۔۔۔ وہ دھتکارے جاتے ہیں ۹* اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے ۱۰*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی کچھ اچک لے تو ایک چمکتا شعلہ اس کا پیچھا کر تا ہے ۱۱*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھو کیا ان کو پیدا کرنا مشکل ہے یا جن کو ہم پیدا کر چکے ہیں ان کو پیدا کرنا مشکل تھا ؟ ۱۲*۔ ہم نے ان کو لیسدار مٹی سے پیدا کیا ہے ۱۳*

۱۲۔۔۔۔۔۔ تم تعجب کرتے ہو اور یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ۱۴*

۱۳۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کو نصیحت کی جاتی تو وہ نصیحت قبول نہیں کرتے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

۱۵۔۔۔۔۔۔ اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے ۱۵*

۱۶۔۔۔۔۔۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں اٹھا کھڑا کیا جائے گا ؟

۱۷۔۔۔۔۔۔ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا کو بھی ؟

۱۸۔۔۔۔۔۔ کہو ہاں اور تم ذلیل بھی ہو گے ۱۶*

۱۹۔۔۔۔۔۔ وہ تو ایک ہیں ڈانٹ ہو گی اور دفعۃً وہ (قیامت کا منظر) دیکھنے لگیں گے ۱۷*

۲۰۔۔۔۔۔۔ کہیں گے ہم پر افسوس ! یہ بدلہ کا دن ہے ۱۸*

۲۱۔۔۔۔۔۔ یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جسے تم جھٹلاتے تھے ۱۹*

۲۲۔۔۔۔۔۔ جمع کرو ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو اور ان کو بھی جن کی یہ پرستش کیا کرتے تھے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔ اللہ کو چھوڑ کر (جن کی یہ پرستش کیا کرتے تھے)۔ پھر ان سب کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ ۲۰*

۲۴۔۔۔۔۔۔ اور انہیں (ذرا) ٹھہراؤ۔ ان سے کچھ پوچھنا ہے ۲۱*

۲۵۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے اب تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ ۲۲*۔

۲۶۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ تو آج بڑے فرمانبردار بنے ہوئے ہیں ۲۳*۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم رد و کد کریں گے ۲۴*

۲۸۔۔۔۔۔۔ کہیں گے۔ تم  ہی ہمارے پاس دہنی طرف سے آتے تھے ۲۵*

۲۹۔۔۔۔۔۔ وہ جواب دیں گے نہیں بلکہ تم خود ایمان لانے  والے نہ تھے۔

۳۰۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ تم خود ہی سرکش لوگ تھے ۲۶*

۳۱۔۔۔۔۔۔ بالآخر ہم پر ہمارے رب کا فرمان پورا ہو کر رہا ۲۷*۔ ہم کو (عذاب کا) مزا چکھنا ہی ہو گا۔

۳۲۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے تم کو بہکایا۔ ہم خود بہکے ہوئے تھے ۲۸*

۳۳۔۔۔۔۔۔ اس طرح اس دن وہ سب عذاب میں شریک ہوں گے ۲۹*

۳۴۔۔۔۔۔۔ ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کریں گے ۳۰*

۳۵۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔ اور کہتے ہم ایک دیوانہ شاعر کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ۳۱*

۳۷۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ حق لے کر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی ۳۲*۔

۳۸۔۔۔۔۔۔ اب تم کو درد ناک عذاب کا مزا چکھنا ہے۔

۳۹۔۔۔۔۔۔ اور تم کو اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو ۳۳*۔

۴۰۔۔۔۔۔۔ مگر اللہ کے مخصوص بندے اس سے محفوظ ہوں گے ۳۴*

۴۱۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے مقرر رزق ہو گا۳۵*۔

۴۲۔۔۔۔۔۔ میوے ہوں گے ۳۶* اور انہیں عزت سے سرفراز کیا جائے گا ۳۷*

۴۳۔۔۔۔۔۔ نعمت بھری جنتوں میں۔

۴۴۔۔۔۔۔۔ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ۳۸*

۴۵۔۔۔۔۔۔ بہتی ہوئی شراب کے جام ان کے درمیان گردش میں ہوں گے۔

۴۶۔۔۔۔۔۔ صاف شفاف۔ پینے والوں کے لیے لذت ہی لذت۔

۴۷۔۔۔۔۔۔ نہ اس میں کوئی ضرر ہو گا اور نہ اس سے ان کی عقل جاتی رہے گی ۳۹*۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہیں رکھنے والی اور حسین آنکھوں والی عورتیں ہوں گی ۴۰*

۴۹۔۔۔۔۔۔ گویا وہ انڈے ہیں چھپائے ہوئے ۴۱*

۵۰۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر حال دریافت کریں گے۔

۵۱۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک شخص کہے گا میرا ایک ساتھی تھا۔

۵۲۔۔۔۔۔۔ جو کہا کرتا تھا کیا تم بھی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو ؟ ۴۲*

۵۳۔۔۔۔۔۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن کر رہ جائیں گے تو ہمیں (اٹھا کر) بدلہ دیا جائے گا؟

۵۴۔۔۔۔۔۔ ارشاد ہو گا کیا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ؟ //۴۳*

۵۵۔۔۔۔۔۔ وہ جھانک لے گا تو دیکھے گا کہ وہ جہنم کے بیچ میں ہے //۴۴*

۵۶۔۔۔۔۔۔ وہ کہے گا اللہ کی قسم تو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا۔

۵۷۔۔۔۔۔۔ اگر مریے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی ان لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑ  کر لائے گئے ہیں //۴۵*

۵۸۔۔۔۔۔۔ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اب ہم مرنے والے نہیں ہیں ؟ ۴۶*

۵۹۔۔۔۔۔۔ بس پہلی موت تھی جو آ چکی ۴۷* اور نہ ہمیں کوئی عذاب  دیا جائے گا ۴۸*۔

۶۰۔۔۔۔۔۔ یقیناً یہی بری کامیابی ہے ۴۹*

۶۱۔۔۔۔۔۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ۵۰*۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ یہ ضیافت بہتر ہے یا زقوم کا درخت؟ ۵۱*

۶۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے۔ ۵۲*

۶۴۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ہے ۵۳*

۶۵۔۔۔۔۔۔ اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر ۵۴*۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ وہ اس کو کھائیں گے اور اس سے پیٹ بھریں گے ۵۵*

۶۷۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر ان کی پینے کے لیے گرم پانی دیا جائے گا ۵۶*

۶۸۔۔۔۔۔۔ پھر ان کی واپسی آتش جہنم کی طرف ہو گی ۵۷*

۶۹۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا۔

۷۰۔۔۔۔۔۔ اور یہ ان ہی کے نقش قدم پر دوڑ رہے ہیں ۵۸*

۷۱۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں بھی اکثر لوگ گمراہ ہوئے تھے ۵۹*

۷۲۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان میں خبر دار کرنے والے رسول بھیجے تھے۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ تو دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں خبردار کر دیا گیا تھا۔

۷۴۔۔۔۔۔۔ اس انجام سے اللہ کے مخصوص بندے ہی محفوظ رہے ۶۰*

۷۵۔۔۔۔۔۔ اور نوح۶۱* نے ہمیں پکارا تھا تو کیا ہی خوب ہیں ہم پکار کا جواب دینے والے ۶۲*

۷۶۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو اور اس کے متعلقین کو سخت تکلیف سے نجات دی ۶۳*

۷۷۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی نسل کو باقی رکھا۶۴*۔

۷۸۔۔۔۔۔۔ اور بعد والوں میں اس کے لیے ذکر جمیل باقی رکھا ۶۵*

۷۹۔۔۔۔۔۔ سلام ہے نوح پر دنیا والوں میں۔ ۶۶*

۸۰۔۔۔۔۔۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں۔ ۶۷*

۸۱۔۔۔۔۔۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

۸۲۔۔۔۔۔۔ پھر دوسروں کو ہم نے غرق کر دیا۔ ۶۸ *

۸۳۔۔۔۔۔۔ اور اسی کی جماعت میں سے ابراہیم تھا ۶۹*

۸۴۔۔۔۔۔۔ جب کہ وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا ۷۰*

۸۵۔۔۔۔۔۔ جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو ؟۷۱*

۸۶۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت معبود چاہتے ہو؟ ۷۲*

۸۷۔۔۔۔۔۔ اور رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟ ۷۳*

۸۸۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے ایک نظر تاروں پر ڈالی ۷۴*

۸۹۔۔۔۔۔۔ اور کہا میری طبیعت ناساز ہے ۷۵*

۹۰۔۔۔۔۔۔ تو وہ لوگ اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔

۹۱۔۔۔۔۔۔ پھر وہ چپکے سے ان کے معبودوں کے پاس گیا اور کہا تم لوگ کھاتے نہیں ! ۷۶*

۹۲۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے بولتے بھی نہیں ! ۷۷*

۹۳۔۔۔۔۔۔ پھر ان پر ٹوٹ پڑا اور سیدھے ہاتھ سے ان پر ضربیں لگائیں ۷۸*۔

۹۴۔۔۔۔۔۔ لوگ اس کے پاس دوڑتے ہوئے آئے ۷۹*

۹۵۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا کیا تم لوگ اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو ۸۰*

۹۶۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تم کو بھی اور ان چیزوں کو بھی جن کو تم بناتے ہو ۸۱*

۹۷۔۔۔۔۔۔ انہوں نے (آپس میں) کہا اس کے لیے ایک آتش کدہ بناؤ اور اس کو دہکتی آگ میں جھونک دو ۸۲*

۹۸۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کے ساتھ ایک چال چلنی چاہی مگر ہم نے ان ہی کو نیچا دکھایا ۸۳*۔

۹۹۔۔۔۔۔۔ اور اس نے  کہا میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا ٫۸۴*

۱۰۰۔۔۔۔۔۔ اے مرے رب ! مجھے صالح اولاد عطاء فرما ۸۵*

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کو ایک برد بار لڑکے کی بشارت دی ۸۶*

۱۰۲۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ لڑکا اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا ۸۷* تو اس نے کہا اے میرے بیٹھے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں ۸۸* تو تمہاری کیا رائے ہے ۸۹* اس نے کہا ابا جان! کر گزریے جس کا حکم آپ کو دیا جا رہا ہے۔ آپ انشاء اللہ  مجھے صابر  پائیں گے ۹۰*

۱۰۳۔۔۔۔۔۔ پھر جب دونوں نے اپنے کو (اپنے رب کے) حوالہ کر دیا ۹۱* اور ابراہیم نے اس کو پیشانی کے بل گرا دیا ۹۲*

۱۰۴۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کو آواز دی اے ابراہیم! ۹۳*

۱۰۵۔۔۔۔۔۔ تم نے خواب سچ کر دکھایا ۹۴*۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں ۹۵*۔

۱۰۶۔۔۔۔۔۔ بے شک یہ ایک کھلی آزمائش تھی ۹۶*

۱۰۷۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس (لڑکے) کی جان بچا لی ایک عظیم قربانی کے عوض ۹۷*

۱۰۸۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے بعد والوں میں اس کا ذکر جمیل باقی رکھا۔

۱۰۹۔۔۔۔۔۔ سلام ہے ابراہیم پر۔

۱۱۰۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔

۱۱۱۔۔۔۔۔۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

۱۱۲۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس کو اسحاق کی خوش خبری دی۔ ایک نبی ہو گا صالحین میں سے ۹۸*

۱۱۳۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر بر کتیں نازل کیں ۹۹*۔ اور ان دونوں کی نسل میں سے نیکو کار بھی ہیں اور اپنی جانوں پر صریح ظلم کرنے والے بھی ۱۰۰*

۱۱۴۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے موسیٰ اور ہارون پر فضل کیا۔

۱۱۵۔۔۔۔۔۔ ان کو اور ان کی قوم کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی ۱۰۱*

۱۱۶۔۔۔۔۔۔ اور ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے ۱۰۲*

۱۱۷۔۔۔۔۔۔ ان کو روشن کتاب عطا کی ۱۰۳*

۱۱۸۔۔۔۔۔۔ اور انہیں سیدھے راستہ کی ہدایت بخشی ۱۰۴*

۱۱۹۔۔۔۔۔۔ اور بعد والوں میں ان کا ذکر جمیل باقی رکھا ۱۰۵ *

۱۲۰۔۔۔۔۔۔ سلام ہے موسیٰ اور ہارون پر ۱۰۶*

۱۲۱۔۔۔۔۔۔ اسی طرح ہم نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔

۱۲۲۔۔۔۔۔۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

۱۲۳۔۔۔۔۔۔ اور یقیناً الیاس ۱۰۷* بھی پیغمبروں میں سے تھا۔

۱۲۴۔۔۔۔۔۔ جب اس نے اپنی قوم سے کہا تم لوگ (اللہ سے) ڈرتے نہیں ہو؟ ۱۰۸ّ*

۱۲۵۔۔۔۔۔۔ کیا تم بعل۱۰۹* کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑ دیتے ہو!

۱۲۶۔۔۔۔۔۔ اللہ کو جو تمہارا رب بھی ہے اور  تمہارے اگلے باپ دادا کا بھی ۱۱۰*

۱۲۷۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اسے جھٹلایا تو یقیناً انہیں گرفتار کر کے پیش کیا جائے گا ۱۱۱*

۱۲۸۔۔۔۔۔۔ البتہ اللہ کے خاص بندے اس سے محفوظ ہوں گے ۱۱۲*

۱۲۹۔۔۔۔۔۔ اور بعد والوں میں ہم نے اس ۱۱۳*کا ذکر جمیل باقی رکھا۔

۱۳۰۔۔۔۔۔۔ سلام ہے اِلیاسین پر ۱۱۴*

۱۳۱۔۔۔۔۔۔ ہم نیک عمل لوگوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔

۱۳۲۔۔۔۔۔۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

۱۳۳۔۔۔۔۔۔ اور لوط۱۱۵*بھی رسولوں میں سے تھا۔

۱۳۴۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے اس کو اور اس کے تمام متعلقین کو نجات دی ۱۱۶*

۱۳۵۔۔۔۔۔۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی ۱۱۷*

۱۳۶۔۔۔۔۔۔ پھر باقی سب کو ہم نے ہلاک کر ڈالا ۱۱۸*

۱۳۷۔۔۔۔۔۔ اور تم ان کی (اجڑی ہوئی) بستیوں پر سے گزرتے ہو صبح کو بھی۔

۱۳۸۔۔۔۔۔۔ اور رات بھی ۱۱۹*۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے !

۱۳۹۔۔۔۔۔۔ اور بے شک یونس ۱۲۰* بھی رسولوں میں سے تھا۔

۱۴۰۔۔۔۔۔۔ جب وہ بھاگ کر ایک بھری ہوئی کشتی میں جا پہنچا ۱۲۱*

۱۴۱۔۔۔۔۔۔ پھر (کشتی والوں نے) قرعہ ڈالا تو وہ اس میں مغلوب ہو گیا ۱۲۲ *

۱۴۲۔۔۔۔۔۔ پھر مچھلی نے اسے نگل لیا ۱۲۳* اس حال میں کہ وہ (اپنے ہی کو) ملامت کر رہا تھا۱۲۴*

۱۴۳۔۔۔۔۔۔ اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا ۱۲۵ *

۱۴۴۔۔۔۔۔۔ تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک وہ اس کے پیٹ میں رہتا ۱۲۶*

۱۴۵۔۔۔۔۔۔ پھر ہم نے اس کو ایک چَٹیل زمین پر ڈال دیا اس حال میں کہ وہ نڈھال تھا ۱۲۷*۔

۱۴۶۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس پر ایک بیل دار درخت لگایا ۱۲۸*

۱۴۷۔۔۔۔۔۔ اور اس کو بھیجا ایک لاکھ سے بھی زیادہ لوگوں کی طرف ۱۲۹*

۱۴۸۔۔۔۔۔۔ وہ ایمان لائے لہٰذا ہم نے ایک وقت ک انہیں سامان زندگی دیا ۱۳۰*

۱۴۹۔۔۔۔۔۔ ان سے پوچھو کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ! ۱۳۱*

۱۵۰۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس کے شاہد ہیں ؟ ۱۳۲*

۱۵۱۔۔۔۔۔۔ سنو ، یہ لوگ محض من گھڑت طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔

۱۵۲۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کے اولاد ہے اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔

۱۵۳۔۔۔۔۔۔ کیا اس نے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں پسند کر لیں ؟

۱۵۴۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسا فیصلہ کرتے ہو!

۱۵۵ ۔۔۔۔۔۔کیا تم سوچتے  سمجھتے نہیں ! ۱۳۳ *

۱۵۶۔۔۔۔۔۔ یا پھر  تمہارے پاس واضح حجت ہے۔

۱۵۷۔۔۔۔۔۔ تو پیش کرو اپنی کتاب اگر تم سچے ہو ۱۳۴ *

۱۵۸۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان بھی نسب کا رشتہ جوڑ رکھا ہے۔ اور جنوں کو معلوم ہے کہ وہ گرفتار کر کے پیش کیے جانے والے ہیں  ۱۳۵*

۱۵۹۔۔۔۔۔۔  اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں ۱۳۶ *۔

۱۶۰۔۔۔۔۔۔ بجز اللہ کے خاص بندوں کے  ۱۳۷ *

۱۶۱۔۔۔۔۔۔ پس تم اور وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ ۱۳۸*

۱۶۲۔۔۔۔۔۔ اس سے کسی کو برگشتہ نہیں کر سکتے۔

۱۶۳۔۔۔۔۔۔ مگر انہیں کو جو جہنم میں جانے والے ہیں ۱۳۹ *

۱۶۴۔۔۔۔۔۔ اور ہم میں سے ہر ایک کا مقام مقرر ہے ۱۴۰*

۱۶۵۔۔۔۔۔۔ اور ہم صف بستہ رہنے والے ہیں۔ ۱۴۱*

۱۶۶۔۔۔۔۔۔ اور ہم تسبیح کرنے والے ہیں ۱۴۲*

۱۶۷۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے ۱۴۳*

۱۶۸۔۔۔۔۔۔ اگر ہمارے پاس اگلے لوگوں کی تعلیم ہوتی ۱۴۴*

۱۶۹۔۔۔۔۔۔ تو ہم اللہ کے خاص بندے ہوتے ۱۴۵*

۱۷۰۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اس کا انکار کر دیا تو وہ عنقریب جان لیں گے ۱۴۶ *

۱۷۱۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا فرمان ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لیے پہلے ہی صادر ہو چکا ہے ۱۴۷*

۱۷۲۔۔۔۔۔۔ کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی ۱۴۸*

۱۷۳۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا ۱۴۹*

۱۷۴۔۔۔۔۔۔ تو ان کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لو ایک وقت تک کے لیے ۱۵۰*

۱۷۵۔۔۔۔۔۔ اور دیکھتے رہو۱۵۱*۔ وہ بھی عنقریب دیکھ لیں گے ۱۵۲*

۱۷۶۔۔۔۔۔۔ کیا وہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ؟

۱۷۷۔۔۔۔۔۔ جب وہ ان کے صحن میں اترے گا تو بہت بری ہو گی ان لوگوں کی صبح جن کو اس سے خبر دار کیا جا چکا ہے ۱۵۳*

۱۷۸۔۔۔۔۔۔ تو ان کی طرف سے توجہ ہٹا لو ایک وقت تک کے لیے۔

۱۷۹۔۔۔۔۔۔ اور دیکھتے رہو وہ بھی عنقریب دیکھ لیں گے۔

۱۸۰۔۔۔۔۔۔ پاک ہے تمہارا رب، رب العزۃ ۱۵۴* ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں ۱۵۵*

۱۸۱۔۔۔۔۔۔ اور سلام ہے پیغمبروں پر ۱۵۶*

۱۸۲۔۔۔۔۔۔ اور حمد ہے اللہ رب العالمین کے لیے ۱۵۷*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔ صف باندھ کر کھڑے ہونے والوں سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ اسی سورہ کی آیت ۱۶۵ سے واضح ہے جس میں فرشتوں کا یہ بیان نقل ہوا ہے :

وَ اِنَّا لَنَحْنُ الصَّاقُّوْنَ ” اور ہم ( اللہ کے حضور) صف باندھے کھڑے رہتے ہیں "۔

اور قسم شہادت (گواہی) کے مفہوم میں ہے اور یہ عربی میں بلاغت کا ایک اسلوب ہے۔ ایسے موقع پر قسم کے وہ معنی نہیں ہوتے جو ہم اپنی زبان میں سمجھتے ہیں یعنی کسی کی عظمت کے پیش نظر اس کی قسم کھانا ایسی قسم صرف اللہ ہی کی کھائی جاتی ہے۔

آیت میں مَلَاءِ اعلیٰ (آسمانی دربار) کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے۔ فرشتوں کا اللہ کے حجور صف باندھ کر عجز و نیاز کے ساتھ کھڑے ہو جانا اس بات کی شہادت ہے کہ اللہ ہی ان کے نزدیک لائق عبادت ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتے شیاطین کو ڈانٹتے اور دھتکارتے ہیں وہ ان سرکشوں سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے بلکہ ان کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔

۳۔۔۔۔۔۔ مراد فرشتے ہیں جو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں۔ ذکر کے ساتھ تلاوت کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فرشتوں کے لیے بھی ذکر کے کچھ کلمات مخصوص کر دیے گئے ہیں۔ جس طرح ہمارے لیے سبحان اللہ، الحمد للہ، وغیرہ کلمات مخصوص کر دیے گئے ہیں۔ ذکر کے لیے یہ مخصوص کلمات جو اللہ ہی کے سکھائے ہوئے ہیں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

فرشتے اللہ کے سکھائے ہوئے کلمات کے ساتھ ذکر کا اہتمام کرتے ہیں اس لیے اس کو تلاوت ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ تلاوت ذکر عبادت ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ بات جس پر فرشتوں کی عبادت کو بطور شہادت پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ اور وہی ہے جو عالم بالا میں فرشتوں کا بھی معبود ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔ آسمان و زمین کے درمیان کی موجودات بے حد و حساب ہیں۔ ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ صرف اس کہکشاں میں جس میں ہماری زمین واقع ہے کروڑ ہا تارے پائے جاتے ہیں :

"Our Galaxy is a vast system of 100 billion stars.”

(The Cambridge Ency. of Astronomy. London P. 313)

اتنی وسیع کائنات کا خالق و مالک کون ہے اور اس پر کس کی حکومت قائم ہے ؟ اس سوال کا علمی سطح پر جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ ایک خدا ہی پوری کائنات کا خالق و مالک ہے اور اسی کی حکومت اس پر قائم ہے۔

آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشرق ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہیں۔ اور یہ بات موجودہ علم افلاک Astronomy کی روشنی میں سمجھنا انسان کے لیے آسان ہو گیا ہے۔ جس طرح زمین پر سورج کے طلوع اور غروب سے مشرق اور مغرب بن گئے ہیں اسی طرح دیگر سیاروں پر بھی مشرق و مغرب کا وجود ہے۔ قرآن نے مشرقوں کا رب کہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ کائنات نہایت وسیع ہے اس کو ایک مشرق تک محدود نہ سمجھو اور اس وسیع کائنات کا ایک ہی مالک ہے اور وہ ہے اللہ۔

۶۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان کو تاروں سے اس طرح آراستہ کی۸ا ہے کہ اس کا جمالیاتی منظر نگاہوں کے لیے وجہ کشش بن گیا ہے اور دیکھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی حسن صنعت کا یہ نمونہ پیش کر دیا ہے ؟

۷۔۔۔۔۔۔ یعنی سرکش شیطان جب آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں تاکہ وہ عالم بالا کی خبریں لائیں تو ان کی رسائی آسمان تک نہیں ہو پاتی۔ اس کو شیطانوں کے گھس آنے سے بالکل محفوظ کر دیا گیا ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔ مَلَاءِ اعلیٰ ، سے مراد عالم بالا کا دربار یعنی فرشتوں کی بزم ہے۔ اس بزم کی کوئی بات شیطان سن نہیں سکتے۔ اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ شیاطین آسمان کی خبریں کاہنوں تک پہنچاتے ہیں اور اسی غلط تصور کی بنا پر کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کاہن ہونے کا شبہ ظاہر کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ عالم بالا کی جو خبریں سنا رہے ہیں وہ شیطان کی لائی ہوئی خبریں ہیں جن میں جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اس خیال کی تردید میں یہاں فرمایا گیا ہے کہ شیطان ملاء اعلیٰ کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔ انہیں اس سے دور رکھا گیا ہے۔ اور ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ اگر وہ اس حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی پرواز کے لیے مقرر کی گئی ہے تو ان پر ہر طرف سے مار پڑتی ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتے ان کو دھتکارتے ہیں۔

۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت میں تو ان شیاطین کے ہمیشہ کا عذاب ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔ "شہاب” کے معنی شعلہ کے ہیں اور مراد ستاروں سے نکلنے والے شعلے ہیں۔ کوئی شیطان آسمان کی خبریں لانے کے لیے ستاروں والا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے یعنی اس کی مار اس پر پڑتی ہے اور وہ آگے بڑھ نہیں پاتا۔

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ۔۱۶

۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی انسانوں ، فرشتوں ، جنوں کو جو ہم پیدا کر چکے ہیں تو ان کو عشم سے وجود میں لانا سخت مشکل کام تھا یا انسان کی دوسری تخلیق سخت مشکل کام ہے ؟ اگر پہلی چیز اللہ کے لیے آسان تھی تو دوسری چیز اور بھی آسان ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟

مَنْ عربی میں ذوی العقول کے لیے آتا ہے اس لیے ہم نے اس کی رعایت سے اَمَّنْ خَلَقْنَا کا ترجمہ "یا جن  کو ہم پیدا کر چکے ہیں ان کو ” کیا ہے۔

۱۳۔۔۔۔۔۔ انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے اور جس مٹی سے انسان کا ڈھانچہ بنایا گیا ہے اس کو مختلف حالتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہاں اس کی اس حالت کا ذکر کیا ہے جب کہ پانی سے مل کر لیسدار یعنی چپکنے والی بن گئی تھی۔ اسی سے انسان کا قالب ڈھالا گیا۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر اللہ کی قدرت کی ان کرشمہ سازیوں کو دیکھ کر تمہیں حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اپنی تخلیق کے کیسے اعلیٰ نمونے پیش کر دیے ہیں لیکن ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی قدرت کا مذاق اڑا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنا ممکن نہیں۔

۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ان کے سامنے کوئی ایسی حجت آ جاتی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت پر دلالت کرنے والی ہوتی ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور جب اس کی یہ تاثیر دیکھتے ہیں کہ وہ دلوں کو مسخر کیے جا رہی ہے تو اس کی توجیہ وہ یہ کرتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو اپنا اثر دکھا رہا ہے۔  اس طرح ان پر نہ نصیحت کار گر ہوتی ہے اور نہ حجت۔

۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی تم اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارا غرور ختم ہو چکا ہو گا۔ اور تم اپنے کو بالکل بے بس پاؤ گے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن اللہ کی اپنے بندوں کے لیے ایک ڈانٹ ہو گی کہ اٹھو اور حساب کے لیے میرے حضور حاضر ہو جاؤ۔ اس ڈانٹ کے نتیجے میں سارے مرے ہوئے انسان فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے۔ گویا ایک ڈانٹ تمام انسانوں کو جو سوئے پڑے تھے جگا دے گی اور میدان حشر میں لا کھڑا کرے گی جہاں سب کے سامنے قیامت کا منظر ہو گا۔

۱۸۔۔۔۔۔۔ وہ قیامت کا منظر دیکھ کر اپنے حال پر افسوس کرنے لگیں گے کہ یہ کیا ہوا۔ ہم تو جزا و سزا کو جھٹلاتے رہے اور آج جزا و سزا کا دن برپا ہو گیا۔ اب ہماری شامت آ گئی ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اس وقت ان کو احساس دلایا جائے گا کہ تم تو فیصلہ کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ اب دیکھ لو وہ دن برپا ہو گیا ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ حکم فرشتوں کو ہو گا کہ ظالم لیڈروں اور پیشواؤں کو جمع کرو اور ان کے ساتھیوں اور پیروؤں کو بھی ، نیز ان بتوں کو بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے رہے ہیں۔ پھر سب کو جہنم کی طرف لے جاؤ۔

۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ جہنم کے قریب پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ ان کو ذرا روکو تاکہ ان سے پوچھا جائے۔ جو بات پوچھی جائے گی وہ آگے بیان ہوئی ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں تو تم ایک دوسرے کے مدد گار بنے رہے ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے یک جہتی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اب تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق ہو گئے ہو اور اتنی بڑی مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ اس سوال کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے جس سے ان کی بے بسی ظاہر ہو گی۔

۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں تو وہ اللہ کے نافرمان بنے رہے لیکن آج انہوں نے اپنے کو اللہ کے حوالہ Surrender  کر دیا ہے۔ اب جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اس کی وہ تعمیل کرتے ہیں۔ کہاں گیا اب ان کی آزادی کا غرہ؟

۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ لیڈر عوام کو اور عوام لیڈروں کو ، مذہبی پیشوا اپنے پیروؤں کو اور پیرو اپنے پیشواؤں کو اور شیاطین اپنے چیلوں کو اس چیلے اپنے استادوں کو۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ سہنی طرف سے کے معنی عربی محاورہ کے مطابق  "خیر کی راہ سے "کے ہیں۔ مطلب یہ ہے  کہ ہم تمہارے خیر خواہ بن کر آتے تھے مگر حقیقۃً تم نے ہماری بد خواہی کی۔ تم نے ہمیں سبز باغ دکھائے اور ہم تمہاری باتوں میں آ کر اس انجام کو پہنچ گئے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔ وہ گمراہ کرنے والے کو جواب دیں گے کہ تم کب ایمان لانا چاہتے تھے اگر ایمان لانا ہوتا تو تم لے آتے ہمارا کوئی زور تم پر نہیں تھا کہ تم کو ایمان لانے سے روک دیتے۔ تم خود اپنی سرکدی کے ذمہ دار ہو۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا یہ فرمان کہ شیطان کے پیروؤں کو جہنم کی سزا بھگتنا ہو گی۔

۲۸۔۔۔۔۔۔ وہ اعتراف کریں گے کہ ہم بہکے ہوئے تھے اور جب ہم بہکے ہوئے تھے تو تم کو بھی بہکانے ہی کا کام کرسکتے تھے مگر تم کیوں ہمارے  بہکانے میں آ گئے ؟

۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی لیڈر اور عوام اور پیشوا اور ان کے پرو سب اپنی اپنی گمراہی کے ذمہ دار تھے اس لیے عذاب میں بھی سب شریک ہوں گے۔

عوام بھی نے قصور نہیں ہیں وہ کیوں آنکھیں بند کر کے گمراہ لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں کے پیچھے چلتے رہے تو جس گڑھے میں وہ گریں گے اس گڑھے میں ان کو بھی گرنا ہو گا۔

۳۰۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے کفار مکہ کی طرف کہ ہم ان مجرمین کو بھی جہنم کی سزا دیں گے۔

۳۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کے رسول کو وہ دیوانہ شاعر کہتے تھے۔

۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا پیغمبر حق لے کر آیا تھا اور اس کی ت علیم دوسرے پیغمبروں کی تعلیم سے جو پہلے آ چکے تھے مختلف نہیں تھی کہ ان کے لیے انکار کی کوئی وجہ ہوتی۔ بلکہ اس نے ان رسولوں کی سچائی کا بھی اعلان کیا تھا اور اس کی تعلیم بھی ان کی تعلیم سے بالکل ہم آہنگ تھی نیز وہ ان پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آیا تھا جو ان رسولوں نے اس کے بارے میں دی تھیں۔

۳۳۔۔۔۔۔۔ یعنی تم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی بلکہ تمہارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ تمہیں دیا جائے گا۔

۳۴۔۔۔۔۔۔ مخصوص بندوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت و بندگی کے لیے چن لیا۔ ان پر شیطان کا کوئی داؤ چل نہ سکا اور وہ اللہ کی توفیق سے اسی کے ہو کر رہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن عذاب سے محفوظ ہو گے۔ اور نہ صرف عذاب سے محفوظ  ہوں گے بلکہ جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے بیش بہا انعامات سے نوازے جائیں گے۔

واضح رہے کہ ان انعامات کا وعدہ نام نہاد مسلمانوں سے نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو اپنے ایمان و عمل سے واقعی اللہ کے بندے قرار پائیں گے۔

۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں اپنے رزق کی کوئی فکر نہیں کرنا ہو گی بلکہ انہیں اطمینان ہو گا کہ ان کے لیے رزق مقرر ہے جو ہمیشہ انہیں ملتا رہے گا۔

۳۶۔۔۔۔۔۔ میوؤں کا ذکر یہاں مثال کے طور پر ہوا ہے ورنہ دوسرے مقامات پر کھانے کی دوسری نفیس چیزوں کا بھی ذکر ہوا ہے۔ جنت میں جسم کو قائم رکھنے اور زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ انہیں ایسے جسم مل چکے ہوں گے جن میں کوئی نقص پیدا ہونے والا نہیں۔ وہاں کھانا پینا لذت اور سرور حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔ اسی لیے میوؤں کا ذکر خصوصیت کے ساتھ ہوا ہے۔

۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں صرف کھانے پینے کی اشیاء ہی نہیں ملیں گی بلکہ عزت و سرفرازی بھی حاصل ہو گی

۳۸۔۔۔۔۔۔ جنت میں بیٹھنے کے لیے شاہانہ تخت ہوں گے اور اہل جنت ایک دوسرے  کے سامنے اس طرح بیٹھیں گے کہ گویا انس و محبت کی مجلسیں ہیں۔

۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی شراب دنیوی شراب سے بالکل مختلف ہو گی۔ نہ اس سے درد سر یا کسی اور قسم کا جسمانی ضرر لا حق ہو گا اور نہ عقل میں فتور آئے گا۔ وہ ہر قسم کی خرابی سے پاک ، صاف ستھری اور نہایت لذیذ شراب ہو گی۔ جنت کے اس مشروب کو شراب سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس سے ایک خاص قسم کا سرور اور لذت حاصل ہو گی جس کے سامنے دنیا کی شراب ہیچ ہے۔ گویا دونوں میں ناموں کا اشتراک تو ہے لیکن اپنی نوعیت اور کیفیت پیدا کرنے کے اعتبار سے دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی رفاقت میں ایسی بیویاں ہو ں گی جو غایت حیاء سے اپنی نگاہیں نیچی کیے ہوئے ہوں گی۔ ” عِین” کے معنی بڑی آنکھوں والی کے ہیں جو حسن کی علامت ہے۔

۴۱۔۔۔۔۔۔ ان کی سفید رنگت اور ان کے محفوظ و مستور ہونے کو ان انڈوں سے تشبیہ دی گئی ہے جن کو پرندے اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں۔ عرب کے جاہلی شاعر امرء القیس نے بھی پردہ نشین دوشیزاؤں کے لیے وَ بیضۃِ خِدْرٍ کا کنایہ استعمال کیا ہے ؏

وَبیضۃِ خِدْرٍ لا یُرامُ خِبَاءُھا

۴۲۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا تم بھی قیامت اور دوسری زندگی پر یقین رکھتے ہو؟

۴۳۔۔۔۔۔۔ اس کی بات ابھی پوری نہیں ہونے پائے گی کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کیا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو۔ اگر دیکھنا چاہتے ہو تو تم سب کو اس کا موقع حاصل ہے۔

۴۴۔۔۔۔۔۔ وہ شخص جوں ہی جھانک کر دیکھے گا تو اس کا ساتھی اس جہنم کے درمیان میں دکھائی دے گا۔

معلوم ہوا کہ اہل جنت اگر جہنمیوں کو دیکھنا چاہیں گے توبہ آسانی دیکھ سکیں گے۔ اس کے لیے دوربین وغیرہ اسباب فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

۴۵۔۔۔۔۔۔ وہ جنتی شخص اللہ کا شکر ادا کرے گا کہ یہ اسی کا فضل ہوا کہ میں اپنے ساتھی کے بہکانے میں نہیں آیا۔ آئندہ پیش آنے والے اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرما دیا ہے تاکہ ہر شخص اپنے ساتھی کے معاملہ میں ہوشیار رہے اگر وہ آخرت کا منکر ہے تو اس کے بہکانے میں نہ آئے۔

۴۶۔۔۔۔۔۔ پھر وہ جنتی شخص اہل مجلس سے مخاطب ہو کر کہتے گا کہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ جنت میں ہمیں ابدی زندگی عطاء ہوئی ہے اور موت سے کبھی سابقہ پیش آنے والا نہیں۔ اس طرح سقال کے انداز میں وہ اپنے یقین کا اظہار کرے گا۔

۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں جو موت ہمیں آئی وہ آخری تھی۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ جنت اللہ تعالیٰ کا ابدی انعام ہو گا اس لیے عذاب اور تکلیف کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔

۴۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی کامیابی کہ اس سے بڑھ کر کسی کامیابی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

۵۰۔۔۔۔۔۔ اس جنتی شخص کا بیان اوپر ختم ہوا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو ترغیب ہے کہ وہ اسی کامیابی کے حصول کے لیے کوشش کریں جو انہیں جنت کی طرف لے جانے والے ہوں۔

۵۱۔۔۔۔۔۔ زقوم ایک نہایت کڑوے کسیلے درخت کا نام ہے جو عرب میں تہامہ کے علاقہ میں پایا جاتا تھا۔ جہنم میں جو نہایت تلخ اور زہریلا پھر کھانے کو ملے گا اس کا کچھ اندازہ زقوم کے درخت سے ہو سکتا ہے۔

۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی زقوم کا درخت ظالموں کے لیے وجہ آسمائش ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اس درد ناک سزا کے تصور ہی سے کانپ اٹھیں لیکن وہ مذاق اڑائیں گے کہ خوب ہے آگ میں درخت اگتا ہے !

۵۳۔۔۔۔۔۔ اللہ کی قدرت سے یہ ہر گز بعید نہیں کہ وہ جہنم میں درخت پیدا کر دے اور اس کے بارے میں جو وضاحت ان آیتوں میں کی گئی ہے اس سے یقین اور پختہ ہو جاتا ہے۔ جو درخت جہنم کی تہ سے نکلتا ہو وہ کس غضب کا ہو گا اور کھانے والوں پر کیا آفت لائے گا !

۵۴۔۔۔۔۔۔ شیطان کو اگر چہ انسانوں نے نہیں دیکھا مگر اس کا بھیانک تصور ذہنوں میں موجود ہے۔ اسی لحاظ سے زقوم کے خوشوں کو شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی گئی ہے یعنی نہایت کریہہ منظر اور نفرت انگیز ہوں گے۔

۵۵۔۔۔۔۔۔ دوزخ والے جب بھوک سے بے تاب ہوں گے تو انہیں اپنا پیٹ زقوم کے کڑوے کسیلے پھلوں سے بھرنا ہو گا۔ یہ در حقیقت ان کے برے اعمال کے پھل ہوں گے جو انہیں کھانے کے لیے ملیں گے۔

۵۶۔۔۔۔۔۔ زقوم کا پھل کھانے کے بعد پینے لیے ان کو گرم پانی ملے گا۔

۵۷۔۔۔۔۔۔ جہنم نہایت وسیع ہو گی اور اس کے مختلف حصے مختلف سزاؤں کے لیے مخصوص ہوں گے۔ مجرموں کو جہنم ہی کے ایک حصہ میں کھانے کے لیے زقوم اور پینے کے لیے گرم پانی ملے گا اس کے بعد جہنم کے اس طبقہ میں جہاں شدت سے آگ بھڑک رہی ہو گی اور جس کا نام جحیم ہے انہیں واپس لوٹنا ہو گا۔

۵۸۔۔۔۔۔۔ یہ بات مشرکین مکہ کے بارے میں کہی جا رہی ہے یعنی باوجود اس کے کہ ان کے باپ دادا گمراہ تھے ان کی تقلید کا جنون ان پر ایسا سوار ہے کہ ان کے نقش قدم پر تیزی کے ساتھ چلے جا رہے ہیں۔ آبائی مذہب کی تقلید کا جنون ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بصیرت سے تمام نہیں لیتا۔

۵۹۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی گمراہی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جو مذہب اور کلچر قدیم سے چلا آ رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور اسی سے وابستہ رہنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر مذہبی فرقے وجود میں آ گئے ہیں حالانکہ ماضی میں بھی انسانوں کی بڑی تعداد گمراہ رہی ہے۔ نہ ان کے پاس حق کی حجت تھی اور نہ ان کے پاس ہے حق کی روشنی تو دلیل اور حجت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے نہ کہ اندھی تقلید کے ذریعہ

۶۰۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۳۴۔

۶۱۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ والسلام کی سرگزشت کا وہ حصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں اس اذیت سے نجات دی جا ان کی قوم انہیں حق کی مخالفت میں پہنچا رہی تھی اس عذاب سے بھی کس طرح بچا لیا جو ان کی قوم پر بالآخر آیا نیز ان کو کس طرح اللہ  تعالیٰ نے انعامات سے نوازا۔

حضرت نوح کے سلسلہ کی تفصیلات کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۹۵۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس دعا کی طرف جو نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں ایک طویل عرصہ گزارنے اور ان پر حجت تمام کرنے کے بعد کی تھی جس کا ذکر سورہ قمر آیت ۱۰ میں ہوا ہے۔ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور جس طرح قبول فرمائی وہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ اس کے مخلص بندے جب اس کو پکارتے ہیں تو وہ نہ صرف ان کی پکار کو سنتا ہے بلکہ بہترین طریقہ پر اس کا جواب  دیتا ہے۔ اس میں راہ حق کے مصیبت زدگان کے لیے تسلی کا پورا سامان موجود ہے۔

۶۳۔۔۔۔۔۔ ” اس کے اہل” (متعلقین) سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت نوح پر ایمان لائے تھے اور "کرب عظیم” سے مراد وہ سخت تکلیفیں ہیں جو کافر قوم کی طرف سے انہیں پہنچ رہی تھیں نیز وہ طوفان بھی جو اس قوم پر آیا۔

۶۴۔۔۔۔۔۔ طوفان نے ساری انسانیت کا خاتمہ کر دیا تھا اور صرف وہی لوگ بچا لیے گئے تھے جو حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار تھے اور ایمان لا چکے تھے۔ ان میں بیشتر ان کے گھر کے افراد ہی تھے اور بعد میں حضرت نوح ہی کی اولاد سے جو بچا لیے گئے تھے نسل انسانی کا سلسلہ چلا اور قومیں وجود میں آئیں۔ بائیبل کی رو سے حضرت نوح کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔ سام سے عرب ، روم وغیرہ سیمٹک Semitic قومیں وجود میں آئیں ، حام سے حبشی، مصری وغیرہ اور یافث سے ترک مغل اور یاجوج ماجوج وغیرہ۔  واللہ اعلم۔

۶۵۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جو صلہ ملا وہ ایک تو وہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا یعنی ان ہی کی اولاد سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا اور دوسرا صلہ یہ کہ بعد کے لوگوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا گیا۔ خاص طور سے قرآن پر ایمان لانے والے نہ صرف اچھے کلمات کے ساتھ ان کو یاد کرتے ہیں بلکہ قرآن میں متعدد مقامات پر جس شان سے ان کا ذکر ہوا ہے وہ بار بار ان کی زبان پر آتا رہتا ہے اور وہ ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ یہ تیسرا صلہ ہے جو ان کو دنیا میں ملا کہ وہ سلامتی سے نوازے گئے۔ ان کے دشمن ان کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ دنیا کی بڑی بڑی ملتیں یہود، نصاریٰ، اور مسلمان ان کا احترام کرتے ہیں اور اہل ایمان کے دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں اور ان پر وہ سلام بھیجتے ہیں سلامٌ علیٰ نوح۔

۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ نیک عمل ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ان کے عمل کے اعتبار سے دنیا میں بھی اچھا صلہ دیتا ہے۔

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے کفر کیا تھا ان سب کو غرق کر دیا۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۰۳۔

۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ابراہیم نوح ہی کے دین و ملت سے تعلق رکھتے تھے جو دین نوح کا تھا وہی ابراہیم کا تھا اور اسی گروہ کے فرد تھے جو نوح کا پیرو کار تھا۔

۷۰۔۔۔۔۔۔ یعنی ابراہیم نے اپنے کو اللہ کے سامنے اس طرح پیش کر دیا کہ ان کا دل شرک اور گناہ کی آلائشوں سے پاک تھا۔ فطرت نے جو صحت مند دل ان کو عطا کیا تھا اس کی صحت کو انہوں نے برقرار رکھا اور ہوش سنجھالتے ہی انہوں نے اپنے رب کی بندگی اختیار کی۔

۷۱۔۔۔۔۔۔ یہ اس وقت کی بات ہے جن ابراہیم علیہ السلام نبوت سے سر فراز کیے گئے تھے۔ ان کے باپ آذر بت پرست تھے اور ان کی قوم بھی بت پرست تھی اور بت پرستی بدترین شرک، کھلی گمراہی اور سنگین جرم ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز اس طرح کیا کہ بت پرستی پر ضرب کاری لگائی۔ انہوں نے ان کو دعوت فکر دی کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو کیا وہ واقعی پوجنے کے قابل اور پرستش کے مستحق ہیں ؟

۷۲۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی ایک حقیقی معبود ہے۔ اس کے سوا جس کو بھی  معبود بنا لیا جائے وہ خلاف واقعہ اور من گھڑت معبود ہی ہو گا۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ متعدد خداؤں کا عقیدہ آدمی اس گمان کی بنا پر اختیار  کر لیتا ہے کہ رب کائنات نہ تو براہ راست دعاؤں کو سنتا اور فریاد رسی کرتا ہے اور نہ کائنات کا سارا انتظام وہ اکیلا کر رہا ہے اور نہ ہی وہ تنہا پرستش کا مستحق ہے بلکہ خدائی کو اس نے بانٹ رکھا ہے اور اس بنا پر دوسرے بھی پرستش کے مستحق ہیں۔ یہ رب العالمین کے ساتھ سراسر بد گمانی ہے اور جو شرک اور بت پرستی اختیار کرتا ہے وہ لازماً رب العالمین کی نا قدری کرتا ہے اور اس سے بد گمان ہوتا ہے۔ یہی احساس دلانے کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستوں سے سوال کیا کہ بتاؤ آخر تمہارا رب العالمین کے بارے میں کیا گمان ہے ؟

۷۴۔۔۔۔۔۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ لوگ غالباً کسی کی لیے میں شرکت کی غرض سے شہر کے باہر جا رہے تھے۔ رات ہو گئی اور تارے نمودار ہو گئے تھے۔ انہوں نے ابراہیم(علیہ السلام) کو بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ ان ستارہ پرستوں کو جنہوں نے ستاروں کو خدا مان کر ان کے بت بنا لیے ہیں سبق دینے کا اچھا موقع ہے۔ انہوں نے اول تو ستاروں ایک فکر انگیز نگاہ ڈالی کہ یہ ہیں ان کے خدا جن کی نمائندگی ان کے تراشے ہوئے بت کرتے ہیں ! ان میں خدائی کی کون سی صفت ہے ؟ تعجب ہے ان لوگوں کی عقل پر ! اس کے بعد انہوں نے ساتھ چلنے کے سلسلے میں عذر پیش کر دیا جس کا ذکر آگے ہوا ہے۔

۷۵۔۔۔۔۔۔ یہ عذر حضرت ابراہیم نے اس لیے بھی پیش کر دیا تھا کہ واقعی ان کی طبیعت ناساز تھی اور رات کے وقت باہ جانے میں ان کو تکلیف ہو سکتی تھی اور اس لیے بھی کہ وہ لوگوں کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر بتوں کے خلاف کاروائی کرنا چاہتے تھے۔ یہ کاروائی خاموشی کے ساتھ اکیلے ہی میں کی جا سکتی تھیں اس لیے انہوں نے اپنا اصل عندیہ ظاہر کیے بغیر ناسازی طبع کا عذر پیش کرنے پر اکتفاء کیا۔ مگر مفسرین کی ایک تعداد نے اس عذر کو غیر واقعی سمجھکر اس کی عجیب و غریب تاویلیں کی ہیں۔ وہ تائید میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین موقعوں پر غلط بیانی سے کام لیا تھا جن میں سے ایک یہ موقع ہے جب  انہوں نے کہا اِنّی سَقیم (مری طبیعت ناساز ہے ) (بخاری کتاب الانبیاء)۔

اس حدیث پر ہم تفصیلی گفتگو سورہ انبیاء کے تشریحی نوٹ ۸۰ میں کر چکے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کو بوجوہ صحیح حدیث تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی وجہ نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی ناسازی طبع کے عذر کو جھوٹ پر محمول کیا جائے۔ ایسی بات تو اسی صورت میں کہی جا سکتی ہے جب کہ یہ ثابت ہو جائے کہ ان کی طبیعت اس وقت ناساز نہیں تھی۔ اور جب یہ ثابت نہیں ہے تو ان کے اس بیان کو جو قرآن میں نقل ہوا ہے مطابق واقعہ ہی سمجھنا ہو گا۔

۷۶۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے شہر سے باہر چلے جانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام کو مندر میں داخل ہو کر بتوں کے خلاف کاروائی کرنے کا موقع ملا۔ وہ جب مندر میں داخل ہوئے تو بتوں کے سامنے کھانا رکھا ہوا دیکھا۔ انہوں نے بتوں سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ کھاتے کیوں نہیں ؟ یہ در اصل طنز تھا ان کے پرستاروں پر جو اپنے معبودوں کے سامنے کھانا پیش کرنے کی حماقت کرتے ہیں۔

۷۷۔۔۔۔۔۔ یہ دوسرا طنز تھا ان کے پرستاروں پر کہ جو بول نہیں سکتے ان کو یہ لوگ خدا بنا بیٹھے ہیں !

۷۸۔۔۔۔۔۔ سیدھا ہاتھ زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے پوری طاقت سے بتوں پر ضربیں لگائیں اور ان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ قصہ تفصیل سے سورہ انبیاء میں گزر چکا۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۷۶

۷۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جب لوگ میلے سے لوٹے تو دیکھا بتوں کی یہ درگت بنی ہوئی ہے اور چونکہ ابراہیم علیہ السلام پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ میں تمہارے بتوں کے خلاف کاروائی کروں گا جیسا کہ سورہ انبیاء آیت ۵۷ میں بیان ہوا ہے اس لیے لوگ دوڑتے ہوئے ان کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے پہنچ گئے کہ کیا واقعی انہوں نے ہی یہ حرکت کی ہے۔

۸۰۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم نے ان کو جو جواب دیا وہ سورہ انبیاء  میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان آیتوں میں ان کے جواب کا ایک حصہ پیش کیا گیا ہے۔

حضرت ابراہیم نے بتوں کی بے حقیقی کو واضح کرنے کے لیے یہ سوال قائم کیا کہ اپنے ہی ہاتھوں کی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجنے کا کیا مطلب ؟ ان بتوں میں سے کوئی بھجی خالق نہیں ہے کیونکہ ان کو خود تم نے تراشا ہے پھر وہ خدا اور لائق پرستش کس طرح قرار پائے ؟

۸۱۔۔۔۔۔۔ یعنی خالق تو اللہ ہی ہے تمہارا بھی اور اس مٹی ، پتھر، لکڑی کا بھی جس سے تم بت بناتے ہو۔ اس لیے اللہ کا معبود حقیقی ہونا بالکل واضح حقیقت ہے اور اپنے ہی تراشیدہ بتوں کو معبود بنانا واضح حماقت  ہے۔

۸۲۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس حضرت ابراہیم کے ان سوالوں کا جو دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتے تھے کوئی جواب نہ تھا اور مذہبی تعصب کی بنا ء پر قبول حق  کے لیے بھی آمادہ نہیں تھے اس لیے انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا۔

آتش کدہ بنا نے کی مصلحت یہ رہی ہو گی کہ دیواروں کے اندر آگ تیز بھڑکا۴ی جا سکتی ہے اس کے اندر سے انہیں بھاگنے کا موقع بھی نہیں مل سکے گا اور ان کے خاندان والوں کی نگاہوں سے چھپا کر انہیں لانا اور اس آگ میں جھونکنا آسان ہو گا۔

۸۳۔۔۔۔۔۔ انہوں نے حضرت ابراہیم کو نذر آتش کرنے کی سازش کی تھی مگر جیسا کہ سورہ انبیاء آیت ۶۹ میں بیان ہوا اللہ تعالیٰ نے آگ کو ابراہیم کے لیے ٹھنڈا کر دیا اور وہ صحیح و سلامت رہے۔ اس طرح ان کے دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی اور پست ہو کر رہ گئے۔

۸۴۔۔۔۔۔۔ چونکہ قوم پر اللہ کی حجت پوری طرح قائم ہو چکی تھی اور قوم ان کی جان کے در پے ہو گئی تھی اس لیے حضرت ابراہیم نے ہجرت کا فیصلہ کیا اس ہجرت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ عنکبوت نوٹ ۴۸۔

۸۵۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم عراق سے ہجرت کر کے شام (فلسطین) پہنچ گئے تھے۔ وہاں انہوں نے صالح اولاد کے لیے دعا کی تاکہ وہ ان کی قوت بازو بنے اور دین کی روشنی ان کے ذریعے پھیلے۔

صالح اولاد اللہ کی بڑی نعمت ہے اور دعا جب اولاد کے لیے کی جائے تو صالح اولاد ہی کے لیے کرنا چاہیے۔

۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اسمٰعیل کی جو ابراہیم(علیہ السلام) کے پہلے بیٹے تھے۔ حلیم(بردبار) ہونے کا وصف ان میں بدرجہ اتم موجود تھا جس کا ثبوت ان کی بے مثال قربانی ہے۔

۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ابراہیم کے لیے سہارا بن گیا کہ ان کے ساتھ چل پھر سکے اور ان کے کام میں ہاتھ بٹا سکے۔

۸۸ ۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے لیے تمہیں قربان کر رہا ہوں۔ یہ خواب ایک نبی کا تھا جس میں اللہ کی طرف سے غیبی اشارات ہوتے ہیں اور جو شیطانی وساوس کی آمیزش سے پاک ہوتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم نے اس کو اللہ کی طرف سے اشارہ سمجھا۔

واضح رہے کہ کسی شخص کے لیے خواب کی بنیاد پر کوئی ایسا اقدام کرنا روا نہیں ہے جس کی شریعت اجازت نہ دیتی ہو لیکن انبیاء علیہم السلام کو چونکہ عصمت حاصل ہوتی ہے اس لیے ان کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ خاص بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر بالفرض کوئی نبی خواب کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بر وقت اس کی اصلاح فرماتا ہے۔

۸۹۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے پوچھی کہ ذبح اسی کو کرنا تھا نیز اس لیے بھی کہ اس کے صبر و تحمل کا اندازہ ہو جائے۔

۹۰۔۔۔۔۔۔ یہ تھا بیٹے کا جواب جس کا ایک ایک لفظ ایمان و یقین، خلوص اللہیت ، صبر و تحمل، عزم و حوصلہ اور فدویت و قربانی کے جذبات سے پر تھا۔ اس عزم صمیم کے باوجود انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا تو) کہنا توکل کی اعلیٰ مثال ہے۔

بیٹے کے اس جواب سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت وہ نہ صرف سن تمیز کو پہنچ گیا تھا بلکہ اس میں سوجھ بوجھ بھی پیدا ہو گئی تھی۔

۹۱۔۔۔۔۔۔ اَسْلمَا یعنی دونوں نے اپنے کو اپنے رب کے حوالہ کر دیا اور بلا چون و چرا حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے آمادہ ہو گئے۔ واضح ہوا کہ اسلام کی حقیقت کسی تحفظ کے بغیر اپنے کو اللہ کے حوالہ کر دینا ہے یہاں تک کہ اگر جان قربان کر دینے کا حکم ہو تو اس کی تعمیل سے بھی بندہ دریغ نہ کرے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل (علیہما السلام) ایک ایسے حکم کی تعمیل کر کے جس میں ان کا زبر دست امتحان تھا اسلام کی بلند ترین چوٹی پر پہنچ گئے تھے۔

۹۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اسمٰعیل کو ذبح کر نے کے لیے پیشانی کی بل لٹا دیا۔ ممکن ہے اس کی مصلحت یہ رہی ہو کہ ذبح کرتے وقت چہرہ سامنے نہ رہے۔

۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی ابھی چھری چلانے کی نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ اللہ نے ابراہیم کو پکارا اور ذبح کرنے سے روک دیا۔

۹۴۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم نے خواب میں بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا تھا اور اس اشارہ الٰہی کی تعمیل میں انہوں نے کو۴ی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ ذبح کرنے کا پورا پورا اہتمام کیا اس طرح انہوں نے اپنے خواب کو سچ کر دیکھا یا تھا۔ اب جب کہ کلے پر چھری چلائی جانے والی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا کیونکہ مقصود اسمٰعیل کو خون بہانا نہیں تھا بلکہ یہ دیکھنا تھا کہ اس کڑی آزمائش میں باپ بیٹے پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ اور جب وہ پورے اترے تو اللہ نے ذبح کرنے سے پہلے ہی قربانی قبول کر لی لہٰذا چھری چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ یہ اللہ کی رحمت تھی اور اس کی طرف سے  ادر دانی بھی۔

۹۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ نیکی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ آزمائشوں سے بہ سلامت گزارتا ہے اور عزت و اکرام سے نوازتا ہے۔

۹۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ ابراہیم کی آزمائش اس بات میں کہ وہ اپنے پیارے اور اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور اسمٰعیل کی  آسمائش اس بات میں کہ وہ قربان ہونے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں۔

۹۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے اس کی جان کے فدیہ میں ایک مینڈھا پیش کر دیا کہ اس کو ذبح کر کے اس قربانی کی عظیم یاد گار قائم کی جائے چنانچہ حج کے مناسک میں سے ایک ہم منسک قربانی ہے جو اونٹ ، گائے ، بیل، بکری مینڈھے اور دنبہ میں سے کسی جانور کی کی جاتی ہے نیز عید الاضحیٰ کے موقع پر دنیا بھی میں مسلمان قربانی کرتے ہیں۔  حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی جان کے فدیہ میں اللہ کے حکم سے ایک مینڈھا (کبش) ذبح کیا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے عظیم قربانی کے طور پر قبول فرمایا اور یہ قربانی اس لحاظ سے بھی عظیم قرار پائی کہ اس سنت ابراہیمی کو عظیم یاد گار کے طور پر جاری کر دیا گیا۔ بائیبل کی کتاب پیدائش باب ۲۲ میں مینڈھے کی قربانی کا ذکر ہے۔

قربانی کا یہ واقعہ مکہ میں مروہ پہاڑی پر پیش آیا تھا جو خانہ کعبہ کے پاس واقع ہے اور جس کی سعی کی جاتی ہے دلائل مختصراً درج ذیل ہیں :

۱ ) یہ ایک بے مثال قربانی تھی جس کے لیے موزوں ترین مقام یا تو بیت المقدس ہو سکتا تھا یا مکہ جہاں تک بیت المقدس کا تعلق ہے اس کی تعمیر حضرت ابراہیم کے بہت بعد حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے زمانہ میں ہوئی البتہ مکہ میں بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل (علیہما السلام) کے ہاتھوں ہوئی اس لیے یہ مقدس سر زمین ہی اس قربانی کے لیے موزوں ترین جگہ تھی۔

۲ ) قربانی کا اصل محل بیت اللہ ہے (ثُمَّ مَحِلّھَا اِلَالْبَیْتِ الْعَتِیقِ ۔ سورہ حج : ۳۲ ) اس لیے اس کے جوار میں قربانی ٹھیک اس کے محل میں قربانی ہے۔

۳ ) بائبل میں ہے کہ حضرت ابراہیم کو "موریاہ” کے ملک میں جا کر ایک پہاڑی پر قربانی کرنے کا حکم ہوا تھا (دیکھیے پیدائش باب ۲۲) یہ "موریاہ” کا ملک کون سا ہے اس کی نشاندہی بائیبل والے نہیں کر سکے ہیں چنانچہ بائیبل کا شارح لکھتا ہے

"The land of Moriah cannot be identified.”

(The Interpreter’s own volume Commentary of the Bible P. 18)

"موریاہ” در اصل مروہ کی تحریف ہے اور مروہ پہاڑی مکہ میں بیت اللہ کے پاس واقع ہے جو شعائر اللہ  میں سے ہے۔ اس پہاڑی پر حضرت اسمٰعیل کی قربانی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے مروہ کے بارے میں فرمایا۔

ھٰذَ الْمَنْھَرُ وَکُکَّ فِحَجُ مَکَّۃَ وَ طُرُقُھَا مَنْحَر (مؤطا کتاب الحج) ” یہ قربان گاہ ہے اور مکہ کے تمام چھوٹے اور بڑے راستے قربانی کی جگہیں ہیں "۔

حدیث میں منٰی کو جو منحر (قربانی کی جگہ) قرار دیا گیا ہے و شرعی مصالح کے پیش نظر ہے۔ اول تو منٰی مکہ سے متصل واقع ہے۔ دوسرے حج کے موقعہ پر بڑی تعداد میں جانور ذبح کرنے کے لیے جگہ کا کشادہ ہونا ضروری تھا اس لیے منیٰ میں قربانی کرنا شروع ہوا۔

۹۸۔۔۔۔۔۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم کو اسحاق کی خوش خبری پہلے بیٹے کی پیدائش اور اس کی قربانی کے واقعہ کے بعد دے دی گئی تھی اس لیے جس لڑکے کی قربانی دی گئی تھی وہ حضرت اسمٰعیل ہی ہیں لیکن بائیبل میں حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دیا گیا ہے جو یہود کی تحریف ہے حضرت اسمٰعیل کے ذبیح ہونے کی تائید میں وہ دلائل بھی ہیں جو ہم نے اوپر نوٹ ۹۷ میں پیش کیے اور مزید یہ کہ :

۱ ) بائیبل میں ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کا اکلوتا بیٹا تھا (پیدائش باب۲۲ ) اور کتاب پیدائش باب ۱۶ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہیں تھی اور حضرت ہاجرہ سے اسمٰعیل پیدا ہوئے تھے :۔

” اور ابرام سے ہاجرہ کے ایک بیٹا ہوا اور ابرام نے اپنے اس بیٹے کا نام جو ہاجرہ سے پیدا ہوا اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا۔ ” (پیدائش ۱۵:۱۶، ۱۶)

اور یہ بات بائیبل ہی سے ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل حضرت اسحق سے ۱۴ سال بڑے تھے (پیدائش باب ۱۷ ) اس لیے اکلوتے بیٹے اسمٰعیل ہی ہو سکتے ہیں۔ مگر یہود نے محض تعصب میں اسمٰعیل کی جگہ اسحاق کا نام درج کر دیا۔ یہ ان کی صریح تحریف ہے۔

۲ ) بائیبل میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اسحاق کی ولادت کی خوش خبری دی تو فرمایا :

"تب خدا نے فرمایا کہ بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہو گا تو اس کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس کے اور پر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا "۔ (پیدائش ۱۹:۱۷)۔

یعنی اسحاق کی پیدائش کی خوش خبری کے ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی دی گئی تھی کہ اس کے اولاد ہو گی۔ پھر اسحاق کے اولاد ہونے سے پہلے ان کو ذبح کرنے کا حکم کس طرح دیا جا سکتا تھا ؟ قرآن میں بھی بیان ہوا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی بیوی کو اسحاق کی ولادت کی بشارت دی گئی تو ان سے یعقوب کے پیدا ہونے کی بھی بشارت دی گئی تھی۔

فَبَشَّرْ نَا ھَا بِاِسْحَاقَ وَ مِنْ وَّ رَاءِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ (ہود : ۷۱ ) ” ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی "۔

۳ ) اگر اسحاق ذبیح ہوتے تو بنی اسرائیل میں یہ قربانی ایک شعار کی حیثیت سے باقی رکھی جاتی لیکن ان میں اس قربانی کا شعار کی حیثیت سے باقی نہ رہنا اور عید فسیحکی قربانی جس کا تعلق مصر سے ان کے خروج سے ہے رائج ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ذبیح اسحاق نہیں بلکہ اسمٰعیل تھے کیونکہ حج میں اس قربانی کو شعار کے طور پر باقی رکھا گیا ہے نیز عید الضحیٰ میں بھی۔

۴ ) حضرت اسمٰعیل کے دو وصف قرآن میں ایسے بیان ہوئے ہیں جا نا کے ذبیح ہونے سے بڑی مناسبت رکھتے ہیں۔ ایک ان کا حلیم (برد بار) ہونا (آیت ۱۰۱) اور دوسرا ان کا صادق الوعد (وعدہ کا سچا) ہونا (سورہ مریم آیت ۵۴ ) جب کہ حضرت اسحاق کی صفت علیم(علم والا) بیان ہوئی ہے۔ (سورہ حجر۔ ۵۳)۔

مفسرین نے حضرت اسحاق کی ذبیح ہونے کی تائید میں جو روایتیں نقل کی ہیں وہ معلوم ہوتا ہے اہل کتاب کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کی گ۴ی ہیں مگر جیسا کہ بہ دلائل اوپر واضح کیا گیا اس کی تائید قرآن سے نہیں ہوتی۔

۹۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اسمٰعیل اور اسحاق دونوں پر برکتیں نازل کیں چنانچہ ان دونوں شاخوں سے دو ایسی نسلوں کا سلسلہ چلا جو تاریخ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ حضرت اسمٰعیل سے بنی اسمٰعیل (عرب) کا سلسلہ اور حضرت اسحاق سے بنی اسرائیل کا سلسلہ۔

۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسمٰعیل ہوں یا بنی اسرائیل دونوں میں سے اچھے اور برے لوگ موجود ہیں۔ ایسے بھی جنہوں نے نیکی کو اختیار کر رکھا ہے اور ایسے بھی جو شرک، کفر اور سرکشی کر کے اپنے آپ پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں نسلیں اس لحاظ سے ممتاز ضرور ہیں کہ ان کا سلسلہ دو عظیم شخصیتوں سے چلتا ہے لیکن اللہ کی میزان میں جو چیز وزن رکھتی ہے وہ ہر ایک کا اپنا نیک عمل ہے نہ کہ نسبی شرف۔

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ان تکلیفوں سے جو فرعون انہیں پہنچا رہا تھا۔

۱۰۲۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل مصر میں اگر چہ اقلیت میں تھے اور فرعون نے ان کو موسیٰ اور حضرت ہارون کی رہنما۴ی کو قبول کر لیا تھا اس لیے اللہ کی نصرت ان کے ساتھ تھی اور بالآخر غلبہ ان ہی کو حاصل ہوا۔ فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب مرا اور بنی اسرائیل کو نجات حاصل ہو۴ی۔ اس طرح یہ مظلوم اقلیت پیغمبروں کا ساتھ دینے کی بنا پر فرعون کے مقابلہ میں بھاری ثابت ہوئی۔

۱۰۳۔۔۔۔۔۔ مراد تورات ہے جو ایک روشن کتاب تھی۔

۱۰۴۔۔۔۔۔۔ سیدھا راست اللہ کا دین یعنی اسلام ہے جو کی اولین خصوصیت توحید ہے۔

۱۰۵۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ اور ہارون کا۔ چنانچہ اہل ایمان ان  سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے فرعون پر ہر کوئی لعنت ہی بھیجتا ہے۔

۱۰۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف سے موسٰی اور ہارون کے لیے سلامتی ہے۔ اس میں اہل ایمان کے لیے ترغیب ہے کہ وہ ان پر سلام بھیجیں۔ سلامٌ علیٰ موسیٰ و ہارون۔

۱۰۷۔۔۔۔۔۔ حضرت الیاس کا نام بائیبل میں ایلیاہ (Elijah)  ہے اور وہ بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا زمانہ نویں صدی قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔ بائیبل کی کتاب ۱: سلاطین باب ۱۸ میں ان کا قصہ بیان ہوا ہے۔

۱۰۸۔۔۔۔۔۔ وہ کس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی۔ البتہ بائیبل کے بیان کے مطابق وہ بنی اسرائیل ہی کے ایک گروہ کی طرف بھیجے گئے تھے جو بت پرستی میں مبتلا ہو گیا تھا۔

۱۰۹۔۔۔۔۔۔ "بعل” کے معنی مالک اور سردار کے ہیں لیکن حضرت الیاس کی قوم نے جس بت کو معبود بنا لیا تھا اس کا نام بعل بمعنی رب (Lord)  تھا۔

۱۱۰ ۔۔۔۔۔۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے  اپنی قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی اور یہ واضح حجت پیش کی کہ اللہ جو تم سب کا رب ہے اور بہترین خالق ہے اس کو چھوڑ کر اپنے ہی تراشے ہوئے بت کو معبود بنا نے کے کیا معنی ؟

۱۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی نبی کو جھٹلانے اور بت پر ستی پر قائم رہنے کا لازمی انجام عذاب آخرت ہے۔ قیامت کے دن ایسے لوگ گرفتار کر کے اللہ کے حضور سزا کے لیے پیش کیے جائیں گے۔

۱۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے اللہ ہی کو واحد معبود مان کر اس کی عبادت اور اطاعت کی وہ اس سزا سے محفوظ ہوں گے۔

۱۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی الیاس کا۔

۱۱۴۔۔۔۔۔۔ الیاسین اور الیاس ایک ہی نام کے دو تلفظ ہیں جیسے طور سینا اور طور سینین۔

۱۱۵۔۔۔۔۔۔ لوط علیہ السلام کا قصہ متعدد سورتوں میں گزر چکا۔ یہاں قرآن نے اس واقعہ کی طرف اجمالی اشارہ کر کے مشرکین مکہ کو عبرت دلائی ہے۔

۱۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی لوط کے متعلقین کو جو ایمان لائے تھے عذاب سے بچا لیا۔

۱۱۷۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت لوط کی بیوی تھی جو ایمان نہیں لائی تھی اس لیے پیچھے رہ گئی اور عذاب کی لپیٹ میں آ گئی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۳۲

۱۱۸۔۔۔۔۔۔ مراد حضرت لوط اور ان پر ایمان لانے والے متعلقین کو چھوڑ کر باقی سب لوگ ہیں یعنی ان سب کو جو کافر تھے تباہ کر دیا۔

۱۱۹۔۔۔۔۔۔ قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں بحر مردار کے کنارہ تھیں جن کی طرف سے شام اور فلسطین کو جاتے ہوئے اہل مکہ کا گزر ہوتا تھا اس زمانہ میں تپتی دھوپ میں صحرا کا سفر کرنا مشکل تھا اس لیے لوگ مناسبت سے صبح اور رات کے وقت ان بستیوں پر سے گزرنے کا ذکر ہوا ہے۔ صبح کا ذکر اس لیے مقدم ہوا کہ ان اجڑی ہوئی بستیوں کا مشاہدہ صبح کے اجالا میں اچھی طرح کیا جا سکتا تھا۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۷۵۔

۱۲۰۔۔۔۔۔۔ یونس علیہ السلام کے واقعہ کی تفصیلات کے لیے دیکھیے سورہ یونس نوٹ ۱۴۷ اور سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۷ ، ۱۱۸

۱۲۱۔۔۔۔۔۔ حضرت یونس کو نینویٰ (عراق) کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا۔ ان کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے انہوں نے جب دعوت پیش کی تو ان کی قوم نے انکار کیا۔

حضرت یونس کو جب ان کی طرف سے مایوسی ہوئی تو وہ برہم ہو کر وہاں سے نکل گئے اور غالباً فلسطین کا قصد کیا اور سمندر کی راہ سے یافا پہنچنے کا ارادہ کیا ساحل پر انہیں ایک بھری ہوئی کشتی ملی اور وہ اس میں سوار ہو گئے۔

۱۲۲۔۔۔۔۔۔ کشتی بیچ سمندر کے ڈانوا ڈول ہونے لگی۔ ممکن ہے کیس طوفان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہو۔ کشتی والوں نے بوجھ کو کم کرنا ضروری خیال کیا اور اس کے لیے قرعہ اندازی کی کہ جس کا نام نکل آئے اس کو سمندر کے حوالہ کر دیا جائے۔ اتفاق سے حضرت یونس کا نام نکل آیا اور انہیں سمندر کے حوالے کر دیا گیا۔

۱۲۳۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ایسے اسباب پیدا کیے کہ ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ یہ وھیل یا شارک جیسی کوئی مچھلی رہی ہو گی۔

۱۲۴۔۔۔۔۔۔ یُلم کے معنی ملامت کرنے والے کے ہیں جس طرح مطیع کے معنی اطاعت کرنے والے اور منیب کے معنی رجوع کرنے والے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ مچھلی نے جب حضرت یونس کو نگل لیا تو وہ اپنے قصور پر نادم تھے اور اپنے نفس کو ملامت کر رہے تھے۔

۱۲۵۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ سورہ انبیاء آیت ۸۷ میں گزر چکا حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں تسبیح کی اور یہ تسبیح تھی : لا اِلٰہ الَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّا لِمِیْن (تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پاک ہے تو۔ میں ہی قصور وار ہوں ) اس تسبیح کی برکت سے ان کے لیے نجات کی راہ کھل گئی۔

اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آدمی کسی سخت مصیبت میں پھنس گیا ہو تو اس بابرکت تسبیح کا ورد اس کی دعا کی قبولیت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

واضح رہے کہ حضرت یونس کے مُسَبِّحِیْن (تسبیح کرنے والوں ) میں سے ہونے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں تسبیح کی تھی بلکہ یہ کہ وہ اللہ کے ان بندوں میں سے تھے جو اسی عبادت کرنے والے اور اس کی پاکی بیان کرنے والے ہیں۔ وصف کے ساتھ انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں تسبیح کے کلمات ادا کیے تھے۔

۱۲۶۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اللہ کی تسبیح کی برکت تھی کہ مچھلی نے انہیں اگل دیا ورنہ قیامت تک کے لیے مچھلی کے پیٹ ہی ان کا مدفن بن جاتا۔ آیت کے الفاظ اس مفہوم میں صریح نہیں ہیں کہ وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہتے بلکہ صرف اس معنی میں ہیں کہ وہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی اپنے کلام کے اسرار کو بخوبی جانتا ہے۔

۱۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے حکم سے مچھلی نے یونس (علیہ السلام) کو ساحل کے پاس اگل دیا۔ یہ ساحلی علاقہ ایک چٹیل میدان تھا اور وہ سخت کمزور اور نڈھال ہو گئے تھے۔

۱۲۸۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کی اس بے بسی کو دیکھتے ہوئے ان کو سہارا دیا اور اس چٹیل میدان میں معجزانہ طریقہ پر ان کے پاس بیل دار درخت جس نے سایہ کا کام دیا۔ اس طرح بر وقت انہیں سکون اور راحت ملی۔

۱۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ان کی طبیعت بحال ہوئی تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ جاؤ اس بستی کی طرف جس کی آبادی ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ مراد نینویٰ شہر ے جس کی آبادی اتنی کثیر تھی۔ وہاں حضرت یونس کو اپنے دعوتی مشن کی تکمیل کے لیے دوبارہ بھیجا گیا۔

واضح ہوا کہ حضرت یونس سے جو قصور سرزد ہوا تھا وہ فرائض رسالت کے سلسلے میں تھا اور انہوں نے ارادۃً کوئی گناہ نہیں کیا تھا بلکہ ایک لغزش تھی جو ان سے سر زد ہوئی اور وہ بھی حمیت حق میں لیکن اللہ  کے نزدیک فرائض رسالت کی ادائیگی میں یہ کوتاہی کہ اللہ کے حکم کے بغیر اس بستی کو چھوڑ کر نکل جانا جسپر حجت قائم کرنے کے لیے اس نے انہیں ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا۔ مگر جوں ہی انہیں اپنی لغزش کا احساس ہوا اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ کی تسبیح میں وہ منہمک ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مصیبت سے نجات بخشی اور معجزانہ طور پر ان کی مدد کی۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ رسول اگر چہ معصوم ہوتا ہے یعنی وہ گناہ نہیں کرتا لیکن بشر ہونے کی بنا پر لغزش اس سےسر زد ہو سکتی ہے جس کی اللہ تعالیٰ بر وقت اصلاح فرما دیتا ہے۔ صرف اللہ ہی کی ذات ہے جس سے کوئی خطا نہیں ہوتی۔ وہ پاک اور بے عیب ہے۔

۱۳۰۔۔۔۔۔۔ حضرت یونس جب واپس نینویٰ چلے گئے تو ان کی دعوت کو پوری قوم نے قبول کر لیا اور جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا اور دنیا میں انہیں بر و مند ہونے کا موقع عطا کیا۔

پوری قوم کے رسول پر ایمان لانے کی یہ واحد مثال ہے جو انبیائی تاریخ میں ملتی ہے اور اس کو سورہ یونس کی آیت ۹۸ میں نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔

۱۳۱۔۔۔۔۔۔ مشرکین فرشتوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ کے لیے بیٹے تجویز کیے جائیں یا بیٹیاں دونوں ہی سراسر نا معقول باتیں ہیں لیکن مشرکین عرب کا اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرنا بڑی ہی بھونڈی بات تھی کیونکہ وہ لڑکیوں کو اپنے لیے باعث عار خیال کرتے تھے۔ ان کے اسی بھونڈے پن کو ان پر واضح کرنے کے لیے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ بتاؤ جب تم اپنے لیے بیٹیوں کو نہیں بلکہ بیٹوں کو پسند کرتے ہو تو اللہ کے لیے بیٹیاں کیوں تجویز کرتے ہو؟ جس چیز کو تم گھٹیا سمجھتے ہو اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہوتا؟ یہ ایک طنز ہے جس سے ان کے عقیدہ کی نا معقولیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔

۱۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو آخر معلوم کیسے ہو گیا کہ فرشتے عورتیں ہیں۔ کیا یہ اس کے عینی شاہد ہیں ؟

۱۳۳۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک ایسی بات جو سراسر نا معقول ہے اللہ کی طرف کس طرح منسوب کرتے ہو؟ خدا پر اعتقاد کے معاملہ میں انسان کی اکثر گمراہیاں اس وجہ سے ہیں کہ وہ اللہ کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتا اور ایسی باتوں کو آنکھیں بند کرنے قبول کر لیتا ہے جو صریحاً نام عقل ہوتی ہیں۔ قرآن اس پر سخت گرفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا پر اعتقاد کے معاملہ میں انسان کو ہوش سے کام لینا چاہیے اور کوئی بات اللہ کی طرف منسوب سے پہلے اس کی بخشی ہوئی عقل کی روشنی میں اسے پرکھنا چاہیے۔ اہل مذاہب اگر معقولیت کا ثبوت دیتے تو وہ اعتقادی گمراہیوں میں نہ پڑتے۔

۱۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی گر تمہارے پاس کوئی نقلی دلیل ہے تو وہ پیش کرو۔ نقلی دلیل یہ کہآسمانی کتاب میں خدا کے بارے میں کوئی بات کہی گئی ہو۔ مشرکین مکہ کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی ور نہ کسی آسمانی کتاب میں فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا گیا ہے لہٰذا مشرکین کا یہ اعتقاد نہ عقلی دلیل پر مبنی ہے اور نہ نقلی دلیل پر بلکہ محض من گھڑت بات تھی جو اللہ کی طرف منسوب کر دی گئی تھی۔ مشرکین ہند کا دیویوں کا عقیدہ بھی اس طرف جھوٹ اور باطل ہے کیونکہ اس کی تائید میں نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی۔

۱۳۵۔۔۔۔۔۔ عربوں کی بعض قبائل جنوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ خدا سے نسبی رشتہ رکھتے ہیں اس کی تر دید کرتے ہوئے یہاں فرمایا گیا ہے  کہ جن( یعنی شیاطین جن ) تو قیامت کے دن گرفتار کر کے خدا کے حضور سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں اور وہ خود اپنی اس حیثیت کو اچھی رف جانتے ہیں مگر یہ مشرکین ان شیاطین جن کو خدائی کا مام دے رہے ہیں۔

۱۳۶۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو مشرکین کے فاسد عقیدہ کی تردید کرتا ہے۔

۱۳۷۔۔۔۔۔۔ اس کا تعلق اوپر کی اس آیت سے ہے جس میں جنوں کو گرفتار کر کے پیش کیے جانے کی بات ارشاد ہوئی ہے۔ اس استثناء کا مطلب یہ ہے کہ جنوں میں جو اللہ کے مخلص بندے ہوں گے وہ قیامت کے دن سزا کے لیے پیش نہیں کیے جائیں گے۔ جنوں میں جہاں اکثریت شیاطین کی ہے وہاں اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں جو مؤمن اور صالح ہیں۔

۱۳۸۔۔۔۔۔۔ خطاب مشرکین سے ہے۔

۱۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تم ان ہی لوگوں کو گمراہ کر سکتے ہو اور تمہارے یہ بت بھی ان ہی کی گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ جنہوں نے جہنم کی راہ اختیار کی ہے۔ اللہ کے مخلص بندوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔

۱۴۰۔۔۔۔۔۔ یہ فرشتوں کا بیان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نقل فرمایا ہے سورہ کے آغاز میں جو بات فرشتوں کے بارے میں بیان ہوئی تھی وہی بات ان کی اپنی زبانی ان چند آیتوں میں بیان ہوئی ہے۔

فرشتے کہتے ہیں ہم میں سے ہر ایک کا مقام متعین ہے۔ یعنی جس کو جس خدمت پر مامور کیا گیا ہے اس کو وہی خدمت انجام دینا ہے۔ عبادت کے سلسلے میں بھی اور دوسرے احکام کی بجا آوری کے سلسلہ میں بھی۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے محکوم بندے ہیں اور ہم میں سے جس کی جو ڈیوٹی مقرر کر دی گئی ہے اس کو انجام دینے میں وہ مشغول ہے۔

فرشتوں کے اس بیان سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں یا نہیں خدائی میں کوئی اختیار حاصل ہے۔

۱۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم اللہ کی عبادت میں صفیں باندھ کر کھڑے ہونے والے ہیں۔ عبادت میں صف بندی فرشتوں کی صفت ہے جو اللہ کو نہایت پسند ہے۔ اسی لیے اسلام نے نماز با جماعت میں جو پانچ وقت ادا کی جاتی ہے صف باندھ کر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے۔

۱۴۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم اللہ کی پاکی بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کی پاکی بیان کرنا نہایت اعلیٰ عبادت ہے جسمیں فرشتے مشغول رہتے ہیں۔ یہاں فرشتوں کا بیان ختم ہوا۔

۱۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرکین مکہ کہا کرتے تھے۔

۱۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح یہود و نصاریٰ کو آسمانی کتاب ملی۔ اس طرح اگر ہمیں کوئی آسمانی کتاب ملی ہوتی۔

۱۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی دعویٰ تو ان کا یہ تھا کہ اگر ہمیں کو۴ی آسمانیکتاب ملی ہوتی تو ہم اللہ کے خاص بندے بن گئے ہوتے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس کتاب (قرآن) بھیجی تو وہ اس کے منکر ہو گئے۔

۱۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی بہت جلد انہیں اپنا انجام معلوم ہو جائے گا۔

۱۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی رسولوں سے اللہ کہ یہ وعدہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔

۱۴۸۔۔۔۔۔۔ رسول کو کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے اللہ کی نصرت اسی کے ساتھہوتی ہے چنانچہ رسول کی بات ہمیشہ بلند رہتی ہے اور اس کو عزت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی حجت دل و دماغ کو مسخر کر لیتی ہے اور جب حق و باطل کا مقابلہ ہوتا ہے تو حق جو ہمیشہ رسول کے ساتھ ہوتا ہے غالب آ جاتا ہے۔

۱۴۹۔۔۔۔۔۔ رسول کا ساتھ دینے والے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بالآخر یہی لشکر غالب رہنے والا ہے اور انبیائی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے چنانچہ فرعون کے مقابلہ میں فتح بنی اسرائیل ہی کی ہوئی۔ دوسرے رسولوں کے معاملہ میں بھی یہی ہوا کہ ان کے مخالفین تباہ کر دیے گئے اور اہل ایمان ہی بچا لیے گئے اور بالآخر اقتدار ان ہی کو حاصل ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے بارے میں بھی قرآن کی یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی  اہل ایمان ہی کا لشکر بالآخر کفار پر غالب آ گیا اور سرزمین عرب پراسلام کی حکمرانی قائم ہو گئی۔

۱۵۰۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جب انکار ہی پر چلے ہوئے ہیں تو ان کو ایک وقت تک کے لیے ان کے حال پر چھوڑ دو۔

۱۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی انجام کا انتظار کرو۔

۱۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو بہت جلد اپنے برے انجام سے دوچار ہونا ہو گا چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا اور اہل ایمان کے ہاتھوں کافروں کو موت کے گھاٹ اترنا پڑا یہاں تک کہ ان کا بالکل قلع قمع ہو گیا۔

۱۵۳۔۔۔۔۔۔ جنگ بدر بھی صبح کے وقت ہوئی تھی جس میں اہل ایمان کی تلوار کافروں پر عذاب بن کر نازل ہوئی تھی اور فتح مکہ کا واقعہ بی صبح ہی کے وقت کا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے اور کعبہ کو اپنے قبضہ میں لے کر مسجد حرام میں قیام پذیر ہو گئے اور وہاں سے کافروں کو گرفتار کرنے اور ان کو قتل کرنے کے احکام جاری کیے۔ اس طرح اللہ کا عذاب اہل ایمان کی تلوار کی شکل میں مکہ کے کافروں پر نازل ہوا اور یہ صبح ان کے لیے  بہت بری صبح ثابت ہوئی۔ اس طرح قرآن کی بات حرف بحرف پوری ہوئی۔

۱۵۴۔۔۔۔۔۔ "رب العزۃ” کے معنی ہیں غلبہ والا ، صاحب اقتدار اور رفعت  والا۔

۱۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی ان تمام نقائص” عیوب اور کمزوریوں سے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

۱۵۶۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام پیغمبروں کے لیے اللہ کے پاس امن و سالمتی ہے وہ ہر آفت سے محفوظ ہیں اور اس بات کے مستحق ہیں کہ اہل ایمان کی زبان پر ان کے لیے  سلام کے دعائیہ کلمات ہوں۔ سَلَامٌ عَلیَ الْمُرْسَلِیْنَ۔

۱۵۷۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ نے اپنے رسولوں کی جس طرح نصرت فرمائی ہے اور ان کے لیے آزمائشیں جس طرح ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہوئیں اس پر یقیناً وہ تعریف اور شکر کا مستحق ہے۔

حمد کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فاتحہ نوٹ ۲۔

٭٭٭

 

 

 

 

 (۳۸) سورۂ  ص

 

 (۸۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز حرف "ص” سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "ص” (صاد) ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبوت کے آٹھ دس سال بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

تذکیر ہے اس پہلو سے کہ اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی کیفیت پیدا ہو جائے چنانچہ اس میں انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۱۱ تمہیدی آیات ہیں جن میں قرآن کے کتاب تذکیر ہونے کے پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ جو لوگ اس تذکیر کا اثر قبول نہیں کریں گے وہ اپنے کو برے انجام تک پہنچائیں گے۔

آیت ۱۲ تا ۱۶ میں مختصراً ان قوموں کے انجام سے با خبر کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔

آیت ۱۷تا ۴۸ میں انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے وہ پہلو پیش کیے گئے ہیں جو رجوع و انابت کی بہترین مثال ہیں۔

آیت ۴۹ تا ۶۴ میں اللہ سے ڈرنے والوں اور اس سے سرکشی کرنے سلوں کا الگ الگ اخروی انجام بیان ہوا ہے۔

آیت ۶۵ تا ۸۵ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نذیر (خبردار کرنے ولا)ہونے کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یاد رکھیں ان کے تکبر کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جا ابلیس کے تکبر کا نکلا۔

آیت ۸۶ تا ۸۸ سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں پیغمبر کی مخلصانہ شخصیت ، قرآن کی نصیحت بھری تعلیم اور اس کی دی ہوئی خبر کے لازماً وقوع میں آنے کی طرف اشارات کئے گئے ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ صاد ۱* یاد دہانی سے بھرے قرآن کی قسم ۲* (یہ اللہ کا نازل کیا ہوا ہے)۔

۲۔۔۔۔۔۔ مگر انکار کرنے والے تکبر اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ ۳*

۳۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک رک چکے ہیں۔ وہ اس وقت چیخ اٹھے جب بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی۴*

۴۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ایک خبردار کرنے والا آ گیا۔ اور کافروں نے کہا یہ جادو گر ہے جھوٹا۔

۵۔۔۔۔۔۔ کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ ایک معبود بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۵*

۶۔۔۔۔۔۔ ان کے سردار نکل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ اس بات سے (جو یہ شخص کہہ رہا ہے) مطلوب کچھ اور ہی ہے ۶*

۷۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم نے گزرے ہوئے مذہب والوں میں نہیں سنی ۷*۔ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے۔

۸۔۔۔۔۔۔ کیا ہمارے درمیان اسی شخص پر یاد دہانی نازل کی گئی! ۸* اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ میری یاد دہانی کے برے میں شک میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزا نہیں چکھا ۹*۔

۹۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے غلام اور فیاض رب  کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں ؟ ۱۰*

۱۰۔۔۔۔۔۔ یا یہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی موجودات پر اقتدار رکھتے ہیں ؟ ایسا ہے تو وہ آسمانوں میں چڑھ جائیں ۱۱*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔ یہ (کافر)گروہوں میں سے ایک لشکر ہے جو اسی جگہ شکست کھائے گا۱۲*۔

۱۲۔۔۔۔۔۔  ان سے پہلے قوم نوح اور عاد اور لشکروں والے فرعون نے جھٹلایا تھا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔ اور ثمود اور قوم لوط اور "ایکہ” والوں نے بھی ۱۳* یہ وہ گروہ تھے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ جن میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر واقع ہو گیا۔

۱۵۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایک ہولناک آواز کے منتظر ہیں جس کے بعد ذرا بھی وقفہ ہو گا۱۴*

۱۶۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں اے ہمارے رب! روز حساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلد ہمیں جلد دیدے ۱۵*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔ اے نبی! ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد کا حال بیان کرو جو قوت والا تھا ۱۶*۔ وہ اللہ کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا ۱۷*۔

۱۸۔۔۔۔۔۔ ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ اس کے ساتھ وہ شام کو اور صبح کو تسبیح کرتے۔ ۱۸*

۱۹۔۔۔۔۔۔ اور پرندے بھی جمع ہو کر۱۹*۔ سب اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ۲۰*۔

۲۰۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھی ۲۱*۔ اور اس کو حکمت ۲۲* اور قول فیصل عطا کیا تھا۲۳*

۲۱۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں مقدمہ والوں [L:۸] کی خبر پہنچی ہے ؟  جو دیوار پر چڑھ کر خلوت گاہ میں گھس آئے تھے ۲۴*۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ  کر گھبرا گیا ۲۵*۔ انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم دو فریق مقدمہ ہیں۔ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور نا انصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ دکھائیے ۲۶*۔

۲۳۔۔۔۔۔۔ یہ میرا بھائی ہے۔ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔ اس نے  کہا یہ بھی میرے حوالے کر دے اور بحث میں اس نے مجھے دبا لیا ۲۷*

۲۴۔۔۔۔۔۔ داؤد نے کہ اس نے تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً تم پر ظلم کیا ۲۸* اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۲۹*۔ بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور نیک عمل کرتے ہیں ۳۰*۔

اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں ۳۱* اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اس کی آزمائش کی ہے اور (یہ خیال آتے ہی) اس نے اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے آگے جھک پڑا اور رجوع کیا ۳۲*۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کا قصور معاف کر دیا ۳۳*۔ اور یقیناً اس کے لیے ہمارے پاس تقریب کا مقام اور بہترین ٹھکانا ہے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔ اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ہے ۳۴* لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے ۳۵*۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہے۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے روز حساب کو بھلا دیا۳۶*۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمان و  زمین اور ان کے درمیان کی موجودات کو بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے ۳۷*۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ۳۸*۔ تو ایسے کاروں کے لیے آگ کی تباہی ہے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ کیا ہم متقیوں کو فاجروں جیسا کر دیں گے ؟۳۹*۔

۲۹۔۔۔۔۔۔ یہ بڑی مبارک کتاب ہے جو ہم نے (اے پیغمبر !) تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ وہ اس کی آیتوں میں تدبر (غور) کریں ۴۰* اور عقل رکھنے والے اس سے یاد دہانی حاصل کریں ۴۱*۔

۳۰۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطاء کیا ۴۲* ، بہترین بندہ ۴۳*، (اللہ کی طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا ۴۴*۔

۳۱۔۔۔۔۔۔ جب اس کے سامنے شام کے تربیت یافتہ ۴۵* تیز رو گھوڑے پیش کیے گئے ۴۶*

۳۲۔۔۔۔۔۔ تو اس نے کہا مجھے اس مال سے محبت اللہ کی یاد کی وجہ سے ہے ۴۷*۔ یہاں تک کہ وہ اوٹ میں چھپ گئے ۴۸*۔

۳۳۔۔۔۔۔۔ (اس نے حکم دیا) انہیں میرے پاس واپس لاؤ ۴۹*۔ پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ ۵۰*

۳۴۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا ۵۱*۔

۳۵۔۔۔۔۔۔ اس نے دعا کی میرے رب ! مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو ۵۲*۔ بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی جدھر کا وہ قصد کرتا۵۳*۔

۳۷۔۔۔۔۔۔ اور شیاطین کو اس کے تابع کر دیا ۵۴*۔ ہر قسم کے معمار  ۵۵* اور غوطہ خور ۵۶*۔

۳۸۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۵۷*۔

۳۹۔۔۔۔۔۔ یہ ہماری بخشش ہے بے حساب ۵۸*۔ تو احسان کرو یا روک لو۵۹*۔

۴۰۔۔۔۔۔۔ اور اس کے لیے ہمارے پاس تقرب کا مقام اور بہترین ٹھکانا ہے ۶۰*

۴۱۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے بندے ایوب۶۱* کو یاد کرو۔ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت دکھ اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے ۶۲*۔

۴۲۔۔۔۔۔۔ (ہم نے اس سے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لیے بھی اور پینے کے لیے بھی ۶۳*۔

۴۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو اس کے اہل و عیال عطا کیے اور ان کے ساتھ اتنے اور بھی ۶۴*۔ اپنی رحمت کے طور پر ۶۵* اور دانشمندوں کے لیے یاد دہانی کے طور پر ۶۶*۔

۴۴۔۔۔۔۔۔ اور (ہم نے اس کو ہدایت کی کہ) تنکوں کا ایک مٹھا (گچھا) اپنے ہاتھ میں لے لو اور اس  سے مارو اور اپنی قسم نہ توڑو۶۷*۔ ہم نے اسے صابر پایا۔ بڑا اچھا بندہ۔ اپنے رب کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔

۴۵۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو قوت عمل۶۸* اور بینائی رکھنے والے تھے ۶۹*۔

۴۶۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو خالص کر لیا تھا اس گھر کی یاد دہانی کے لیے ۷۰*۔

۴۷۔۔۔۔۔۔ یقیناً وہ ہمارے ہاں چنے ہوئے نیک بندوں میں سے ہیں۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ اور اسمٰعیل، اَلیَسعَ ،۷۱* اور ذولکفل ۷۲* کو یاد کرو۔ یہ سب نیک بندوں میں سے تھے۔

۴۹۔۔۔۔۔۔ یہ یاد دہانی ہے ۷۳*۔ اور یقیناً متقیوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔

۵۰۔۔۔۔۔۔ ہمیشگی کی جنتیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے ۷۴*۔

۵۱۔۔۔۔۔۔ ان میں وہ تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ بہت سے میوے اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔

۵۲۔۔۔۔۔۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہوں والی۷۵* ہم سن۷۶* عورتیں ہوں گی۔

۵۳۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے حساب کے دن کے لیے وعدہ کیا جا رہا تھا۔

۵۴۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ۷۷*۔

۵۵۔۔۔۔۔۔ یہ ہے (متقیوں کا انجام) اور سرکشوں کے لیے بہت برا ٹھکانا ہے ۷۸*۔

۵۶۔۔۔۔۔۔ جہنم جس میں وہ داخل ہوں گے تو کیا ہی بری جگہ ہے وہ !

۵۷۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ان کے لیے۔ تو وہ اس کا مزا چکھیں یعنی کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کا۔

۵۸۔۔۔۔۔۔ اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کا ۷۹*۔

۵۹۔۔۔۔۔۔ یہ لشکر ہے جو تمہارے ساتھ (جہنم میں) گرنے والا ہے۔ ان لوگوں کے لیے خوش آمدید نہیں۔ یہ آگ میں داخل ہونے والے ہیں ۸۰*۔

۶۰۔۔۔۔۔۔ وہ جواب دیں گے بلکہ تمہارے لیے خوش آمدید نہیں۔ تم ہی نے ہمیں اس انجام کو پہنچایا۸۱*۔ تو بہت برا ہے یہ ٹھکانا۔

۶۱۔۔۔۔۔۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! جن لوگوں نے ہمیں اس انجام کو پہنچایا ان کو دوزخ میں دوہرا عذاب دے ۸۲*۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ اور وہ کہیں گے کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو (یہاں) نہیں دیکھ رہے ہیں جنہیں ہم اشرار میں شمار کرتے تھے ۸۳*۔

۶۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو مذاق بنا لیا تھا یا نگاہیں ان سے چوک رہی ہیں ۸۴*۔

۶۴۔۔۔۔۔۔ بے شک دوزخیوں کی یہ باہمی تکرار ایک امر واقعہ ہے ۸۵*۔

۶۵۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو خبر دار کر دینے والا ہوں۔ اور اللہ واحد و قہار۸۶* کے سوا کوئی معبود نہیں۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ آسمانوں ور زمین اور ان کے درمیان کی ساری موجو دات کا مال۔ غالب اور بخشنے والا۸۷*۔

۶۷۔۔۔۔۔۔ کہو یہ بہت بڑی خبر ہے ۸۸*۔

۶۸۔۔۔۔۔۔ جس سے تم بے توجہی برت رہے ہو ۸۹*۔

۶۹۔۔۔۔۔۔ مجھے ملاء اعلیٰ (عالم بالا والوں) کی کوئی خبر نہ تھی جب وہ جھگڑ رہے تھے۔ ۹۰*

۷۰۔۔۔۔۔۔ میری طرف وحی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ میں کھلا خبر دار کرنے والا ہوں ۹۱*۔

۷۱۔۔۔۔۔۔ جب تمہارے  رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں ۹۲*۔

۷۲۔۔۔۔۔۔ تو جب میں اس کو ٹھیک ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۹۳*تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۹۴*۔

۷۴۔۔۔۔۔۔ سوائے ابلیس۹۵* کے۔ اس نے گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔ ۹۶*۔

۷۵۔۔۔۔۔۔ فرمایا اے ابلیس ! تجھے کس چیز نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں ۹۷* سے پیدا کیا ہے ؟ تو نے گھمنڈ کیا یا تو سرکش ہو گیا ہے۔

۷۶۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے ۹۸*۔

۷۷۔۔۔۔۔۔ فرمایا یہاں سے نکل جا۹۹*۔ تو مردود ہے۔

۷۸۔۔۔۔۔۔ اور تجھ پر میری لعنت ہے روز جزا تک ۱۰۰*۔

۷۹۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میرے رب! مجھے اس دن تک کے لیے مہلت دے جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔

۸۰۔۔۔۔۔۔ فرمایا تجھے مہلت دی گئی ۱۰۱*

۸۱۔۔۔۔۔۔ اس دن تک کے لیے جس کا وقت مقرر ہے ۱۰۲*۔

۸۲۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تیری عزت کی قسم ۱۰۳*۔ میں ان سب کو بہکا کر رہوں گا ۱۰۴*۔

۸۳۔۔۔۔۔۔ بجز تیرے ان بندوں کے جن کو تو نے خالص کر لیا ہو ۱۰۵*۔

۸۴۔۔۔۔۔۔ فرمایا تو حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں ۱۰۶*۔

۸۵۔۔۔۔۔۔ کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب سے بھر دوں گا جوان میں سے تیری پیروی کریں گے ۱۰۷*۔

۸۶۔۔۔۔۔۔ کہو میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ۱۰۸* اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں ۱۰۹*۔

۸۷۔۔۔۔۔۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے تمام دنیا والوں کے لیے ۱۱۰*۔

۸۸۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑی ہی مدت بعد تم اس کی (دی ہوئی) خبر معلوم ہو جائے گی ۱۱۱*۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہے تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ سور یونس نوٹ ۱ اور سورہ عنکبوت نوٹ ۱۔

اس سورہ میں "ص” کا اشارہ "صافات” (گھوڑے ) کی طرف ہے یہ لفظ آیت ۳۱ میں حضرت سلیمان کے گھوڑوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جو ایک امتیازی لفظ (Significant word) ہے یہ حروف جن سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں وہ ان سورتوں کے ساتھ نہ صرف گہری مناسبت رکھتے ہیں بلکہ صوتی لحاظ سے بھی ان سے ہم آہنگ ہیں جن کی وجہ سے کلام میں بڑی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ یہ حروف اپنی اپنی جگہ اس طرح موزوں ہو رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک حف کو دوسرے حف سے بدلنا چاہے تو یہ موزونیت اور یہ صوتی تاثیر باقی نہیں رہے گی۔ مثال کے طور پر آیت "ص” وَلْقُرْآنِ ذِی اذِّکْرِ میں "ص” کی جگہ "ق” رکھا جائے اور سورہ "ق” کی پہلی آیت "ق” وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْد میں "ص” کی جگہ "ص” رکھا جائے تو پڑھنے میں تکلیف بھی محسوس ہو گا اور موزونیت بھی نہیں رہے گی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن معجزانہ کلام ہے۔ جس کا ایک حرف بھی دوسرے حرف سے بدلہ نہیں جا سکتا۔ پھر یہ حروف متعلقہ آیتوں کے ساتھ اس طرح بڑے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو ساقط کر کے آیتوں کو پڑھنا چاہے مثلاً”ص” وَالْقرْآنِ ذِی الذِّکْرِ کی جگہ "وَالقرآن ذِکر” سے سورہ کا آغاز کرنا چاہے تو اسے بڑا خلا محسوس ہو گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حروف مقطعات  قرآن میں یونہی نہیں آئے ہیں بلکہ وہ قرآن کی معجزانہ شان کو ظاہر کرتے ہیں۔

۲۔۔۔۔۔۔ قرآن کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ یاد دہانی سے لبریز ہے۔ یاد دہانی اس بات کی کہ اللہ ہی انسان کا رب ہے ، اس بات کی بھی کہ جزائے عمل ایک حقیقت ہے ، اس بات کی بھی کہ رسولوں کو جھٹلانے والے برے انجام سے دوچار ہوئے ، اس بات کی بھی کہ تمام آسمانی کتابوں کی تعلیم خدائے واحد کی بندگی اور صالح و تقویٰ کی تعلیم تھی نیز اس سبق کی بھی جو اول روز حضرت آدم کو پڑھایا گیا تھا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اس کی پر فریب باتوں میں نہ آنا۔

قرآن کی یہ تذکیر حق و صداقت پر مبنی ہے اور اپنے اندر کمال درجہ کی تاثیر رکھتی ہے اور اس کی یہ امتیازی شان اسے کے کلام الٰہی ہونے ی دلیل ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے یہ تذکیر سے لبریز کتاب اس لیے نازل فرمائی تاکہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں مگر یہ منکرین اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں اور سبق حاصل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ گھمنڈ اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ایک طرف نفس کا غرور انہیں قبول حق سے روکے ہوئے ہے اور دوسری طرف تعصب۔ اور یہی حال موجودہ دور کے منکرین قرآن کا بھی ہے۔ وہ قرآن کی تعلیم سے واقف ہونے کے باوجود اس لیے ٹس سے مس نہیں ہوتے کہ اس کی تعلیم کو قبول کرنے میں وہ اپنی کسر شان سمجھتے ہیں اور مذہبی تعصب بھی ایک ایسے دین کو قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے جوان کے اپنے فرقہ کا دین نہیں ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ان ہلاک شدہ قوموں کا حال یہ رہا کہ پہلے تو انہوں نے نصیحت کو سنی ان سنی کر دیا لیکن جب عذاب نمودار ہوا تو لگے فریاد کرنے۔ مگر مہلت ختم ہو جانے کے بعد وہ عذاب کہاں بچ سکتے تھے۔

۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام معبودوں کو باطل اور صرف ایک اللہ کو معبود حقیقی قرار دیا۔ مشرکین کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ خدا یک کیسے ہو سکتا ہے خدا تو بہت ہونے چاہئیں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ ہزاروں حالانکہ عقل میں نہ آنے والی بات متعدد خداؤں کا تصور ہی ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔ یہ تصویر ہے پیغمبر کے پاس سے سرداروں کے نکل کھڑے ہونے کی اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے کہ وہ آپ کے پاس سے ہٹ جائیں اور اپنے معبودوں پر جمے رہیں کیونکہ بظاہر تو یہ شخص اللہ کو واحد معبود ماننے کی دعوت دے رہا ہے لیکن مقصد کچھ اور ہی ہے یعنی اپنی قیادت کا سکہ جمانا۔

۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارا جو مذہب گزرے ہوئے لوگوں سے چلا آ رہا ہے وہ یہی مشرکانہ مذہب ہے۔ اللہ کو معبود واحد قرار دینے کی بات تو ہم نے ان لوگوں سے نہیں کی۔

مشرکین کی یہ بات سراسر غلط تھی کیونکہ توحید کا واضح ثبوت خانہ کعبہ تھا جس کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام نے کی تھی اور قریش ان ہی کی نسل سے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے بھی توحید کو ماننے والے کچھ نہ کچھ لوگ موجود رہے ہیں۔

۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو اگر کتاب نازل کرنا تھی تو اس نے ہمارے درمیان سے اسی شخص کا انتخاب کیوں کیا اور بڑے بڑے سرداروں کیوں چھوڑ دیا ؟

۹۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ ان لوگوں کو اصلاً اس بات کا یقین ہی نہیں ہو راہ ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی یاد دہانی (کتاب) نازل ہو سکتی ہے اور جب دلائل و شواہد کے باوجود یہ شک میں مبتلا ہیں تو ان کا یہ شک اسی وقت رفع ہو گا جب وہ عذاب کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ ہمارے درمیان سے اس شخص ہی کو رسالت کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔ فرمایا کیا اللہ کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں کہ اللہ ان کی مرضی کے مطابق منصب رسالت کے لیے کسی کا انتخاب کرے۔ اگر واقعہ یہ نہیں ہے اور اللہ کی رحمت کے خزانے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تو پھر وہ اپنی رحمت سے جس کو بھی نوازے کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے ؟ وہ غالب ہے اس لئے اس کا ہر فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور اس میں کسی کی مجال نہیں کہ مداخلت کر سکے اور وہ فیاض ہے اس لیے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے اپنی بخششوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔

۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر آسمان و زمین کا اقتدار ان کو حاصل ہے تو یہ آسمان میں چڑھ کر جاتے کیوں نہیں ؟ اگر یہ باتیں ان کے بس میں نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ نہیں ہیں تو پھر اللہ کے اس فیصلہ کے مقابلہ میں جو اس نے منصب رسالت کے سلسلہ میں فرمایا ہے ان کے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے کا کیا مطلب؟

۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ آج اللہ کے رسول کے مقابلہ میں مکبر بنے ہوئے ہیں لیکن عنقریب وہ وقت آئے گا جب حق و باطل کی جنگ کا میدان گرم ہو گا اس وقت ان منکرین کا لشکر بالکل بے وقعت ہو گا اور اسی مقام پر بری طرح شکست کھائے گا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر ان کافروں کا لشکر بالکل نے وقعت تھا یہاں تک کہ یہ لوگ لشکر اسلام کا مقابلہ ہی نہیں کر سکے۔ اس طرح قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہو کر رہی کہ رسول کے مقابلہ میں کافروں کا یہ لشکر بالآخر شکست کھائے گا ٹھیک اسی طرح جس طرح کافروں کے دوسرے گروہوں نے رسولوں کے مقابلہ میں شکست کھائی تھی۔

۱۳۔۔۔۔۔۔ مراد قوم شعیب ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ حجر نوٹ ۷۷۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ صیحۃ (ہولناک آواز) سے مراد قیامت کا دوسرا صور ہے یہ ہولناک آواز ایسی ہو گی کہ تمام مرے ہوئے لوگ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے تاکہ اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کریں۔ اس ہولناک آواز کے بعد کوئی مہلت اور کوئی وقفہ اٹھ کھڑے ہونے کے نہیں مل سکے گا بلکہ اسی لمحہ حاضر ہونا پڑے گا۔

۱۵۔۔۔۔۔۔ روز حساب کی بات جب ان منکرین کے سامنے کی جاتی تو وہ غیر سنجیدہ ہو جاتے اور کہتے جو عذاب ہمارے حصہ میں آنے والا ہے وہ ہمیں دنیا ہی میں نقد مل جائے تو اچھا ہے۔ قیامت تک کون انتظار کرے گا۔

۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت داؤد کی شخصیت بڑی طاقتور تھی۔ جسمانی لحاظ سے بھی وہ نہایت قوی تھے چنانچہ جالوت جیسے قوی ہیکل کو انہوں نے تنہا ڈھیر کر دیا تھا (سورہ بقرہ آیت ۲۵۱) اور انہوں نے اس جنگ میں بہادری کے جو جوہر دکھانے اس کے نتیجہ میں ان کی شخصیت ابھری۔ پھر ان کے ہاتھ میں لوہا نرم کر دیا گیا تھا اور وہ اس سے زرہیں بناتے تھے۔ اسی طرح وہ سیاسی لحاظ سے بھی کافی طاقتور تھے کیونکہ ان کی سلطنت نہایت مستحکم تھی۔

۱۷۔۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس کے دھیان میں رہنا، ہر معاملہ میں اس کی طرف پلٹنا ، اپنے قصوروں پر اس کے حضور توبہ کرنا اور اس کی عبادت و اطاعت کی راہ اختیار کرنا ہے۔

حضرت داؤد کے ان اوصاف کا بیان کرنے سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ ہلاک شدہ قوموں عاد، ثمود اور فرعون وغیرہ کو اللہ نے قوت والا بنایا تھا مگر انہوں نے اس وقت کے گھمنڈ میں اللہ سے سرکشی کی۔ بخلاف اس کے داؤد (علیہ السلام ) کی شخصیت ایسی ہے کہ نہایت طاقتور ہونے کے باوجود وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ یہ لوگ اگر اس مثالی شخصیت کو سامنے رکھیں تو اپنی مادی طاقت پر اترائیں نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۶۔

۱۹۔۔۔۔۔۔ داؤد علیہ السلام جب اپنے مخصوص لحن کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہوتے تو پہاڑوں سے بھی یہی صدا بلند ہوتی اور پرندوں کے پرے کے پرے جمع ہو کر تسبیح میں نغمہ زن ہوتے۔ اس طرح بڑی پُر کیف فضا بن جاتی۔ یہ اللہ کی طرف سے حضرت داؤد کے حق میں ایک معجزہ کا ظہور تھا۔

۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد ہی نہیں ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اللہ کے دھیان میں مشغول ہو جاتے تھے۔

۲۱۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے ارض مقدس (فلسطین) میں داخل ہونے کے بعد انہیں مسلسل جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور بتدریج وہ فلسطین کے علاقے فتح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت داؤد کے ہاتھوں ایک مضبوط حکومت قائم ہو گئی اور سلطنت کا دائرہ کافی وسیع ہوا۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی فہم اور دانائی۔

۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں دو ٹوک اور فیصلہ کن بات کرنے کی غیر معمولی صلاحیت بخشی تھی اس لئے ان کے کلام میں زبردست تاثیر ہوتی اور فصل مقدمات میں بھی ان کی یہ خصوصیت نمایاں ہوتی۔

۲۴۔۔۔۔۔۔ یہاں ان مقدمہ والوں کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جو یکایک دیوار پھاند کر داؤد علیہ السلام کی خلوت گاہ میں گھس آئے تھے۔

"محراب” سے مراد خلوت گاہ ہے جو عبادت کے لیے مخصوص تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس وقت اہل مقدمہ اندر گھس آئے اس وقت حضرت داؤد عبادت میں مشغول ہوں گے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ وہ بے وقت حضرت داؤد کے پاس پہنچے تھے اور خلوت گاہ (محراب) کا دروازہ بند دیکھ کر دیوار پر سے اندر داخل ہوئے تھے۔ ان کے اس طرح اچانک داخل ہونے سے حضرت داؤد گھبرا گئے کہ معلوم نہیں یہ کس ارادہ سے آئے ہیں۔ ان کی یہ گھبراہٹ بالکل فطری تھی۔

۲۶۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے حضرت داؤد کو اطمینان دلایا کہ ہمارے آنے کی غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو نزاع ہمارے آپس میں ہوئی ہے۔ اس کا آپ فیصلہ کریں۔ مگر ان کی گفتگو کا انداز نا شائستہ تھا چنانچہ انہوں نے یہ سخت الفاظ بے محل استعمال کیے کہ بے انصافی نہ کیجئے جبکہ حضرت داؤد نبی تھے اور ایک نبی کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نا انصافی کرے گا۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ ایک فریق نے مقدمہ اس طرح پیش کیا کہ یہ دوسرا فریق در اصل میرا بھائی ہے اور ننانوے دنبیوں (بھیڑوں ) کا مالک ہے اور میری صرف ایک دنبی ہے جس کے بارے میں اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اس کو بھی اس کے حوالہ کر دوں۔ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے لیکن یہ بحث میں مجھے دبا لیتا ہے اور اس پر آپس میں تکرار ہوتی ہے لہٰذا آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئیے کہ آیا اس کا یہ مطالبہ صحیح ہے یا نہیں۔

واضح رہے کہ فریق ثانی نے فریق اول سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مجھے تو اپنی دنبی بھی دے دے بلکہ مطالبہ یہ کیا تھا اس کو میرے حوالے کر دے تاکہ میں اس کی نگرانی کروں جیسا کہ لفظ اَکْفِلْنِیْھَا (اس کو میری کفالت میں دیدے ) سے ظاہر ہے۔ اس کا ارادہ تو اس دنبی کو ہڑپ کرنے کا ہی رہا ہو گا اسی لیے تو اس کو اس بات پر اصرار تھا کہ وہ دنبی اس کے حوالہ کر دے تاکہ اپنی ننانوے دنبیوں میں اس کو شامل کر لے اور سو کا عدد پورا ہو جائے۔ مگر اس نے اپنی اس حرص کو پورا کرنے کے لیے مطالبہ اس شکل میں پیش کیا کہ وہ اس دنبی کی جو تنہا ہے رکھوالی کرنا چاہتا ہے۔ وہ چونکہ اس کا بھائی تھا اس لیے اس نے زور دیکر کہا ہو گا کہ تو اپنی ایک دنبی کو چَرانے کا اور اس کی حفاظت کا کہاں انتظام کر سکتا ہے۔ میری دنبیوں میں اس کو شامل کر دے تو آسانی سے یہ انتظام ہو جائے گا مگر اس کا بھائی سمجھ گیا کہ اس کی نیت بُری ہے اس لیے وہ اپنی دنبی اس کے حوالہ کرنے سے انکار کرتا رہا۔ مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھ گیا اور تکرار تک نوبت پہنچی تو دونوں فریق فیصلہ کے لیے حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔ دوسرے فریق کی بات بھی یقیناً حضرت داؤد نے سن لی ہو گی کیونکہ کسی منصف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ یک طرفہ بات سن کر فیصلہ کر دے گا لیکن قرآن نے اس کا بیان اس لیے نقل نہیں کیا کہ اس کے بیان سے فریق اول کا دعویٰ غلط ثابت نہیں ہو رہا تھا خاص طور سے اس لیے بھی کہ فریق ثانی (ننانوے دنبیوں کے مالک) کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ یہ دنبی میری ہے جیسا کہ اوپر کے نوٹ میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد نے فیصلہ یہ دیا کہ اس شخص کی ایک دنبی کو اپنی دنبیوں میں شامل کرنے کا فریق ثانی کا مطالبہ سراسر غلط اور اس شخص (فریق اول) کی حق تلفی ہے۔ جب فریق اول اپنی دنبی کو فریق ثانی کے حوالہ نہیں کرنا چاہتا تو اسے اپنی بات پر اصرار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ فیصلہ نہایت معقول اور منصفانہ تھا۔

۲۹۔۔۔۔۔۔ شرکاء عام طور سے ایک دوسرے پر جو زیادتی کرتے ہیں ان کے سلسلہ میں حضرت داؤد نے اس عدالتی رائے کا اظہار کیا (Observed)اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس غریب کی ایک دنبی کو اپنے مال میں شریک کرنے کا مطالبہ اس کو ہڑپ کر جانے کی ایک تدبیر ہے۔

۳۰۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے حضرت داؤد سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ انہیں سیدھی راہ دکھائیں لہٰذا حضرت داؤد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ رہنمائی بھی دی کہ مومنانہ اور صالحانہ زندگی ہی انسانوں کو بندگان خدا کی حق تلفی سے بچاتی ہے۔

۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے ایسے بندے جو اپنے ایمان میں مخلص اور اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں بہت کم ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ایسے لوگ ہر زمانہ میں تھوڑے ہی رہے ہیں کیونکہ اپنے اندر اچھے اوصاف پیدا کرنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور دنیا میں اعلیٰ قسم کی چیزیں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ ہیرے جواہرات نادر الوجود ہیں جب کہ پتھروں کی کوئی کمی نہیں۔ سونا کمیاب ہے جب کہ ہر اسم کی دھات کثیر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ پس اللہ جسے توفیق دے وہی سچا مؤمن اور نیک کردار بن جاتا ہے۔

۳۲۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے بے وقت اور دیوار پھاند کر خلیفہ وقت کی عمارت میں گھس آنے کی جو جسارت کی تھی اور گفتگو کاجو گستاخانہ انداز اختیار کیا تھا اس پر حضرت داؤد نے کمال ضبط اور نہایت تحمل سے کام لیا اور حق و عدل کے ساتھ مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔ ساتھ ہی ان کا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوا کہ مقدمہ والوں کی یہ جسارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے وجہ آزمائش تھی اور جب ایک بیدار مغز انسان کو کوئی ٹھوکر لگتی ہے تو اسے اپنا قصور یاد آ جاتا ہے ، حضرت داؤد کو بھی اس موقع پر اپنا قصور یاد آ گیا چنانچہ وہ فوراً اللہ سے معافی کے طالب ہوئے اس کے آگے جھک کر سجدے میں گر پڑے اور دل کی انابت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔

یہ تھا حضرت داؤد کا مثالی کردار کہ ایک عظیم فرمانروا ہونے کے باوجود ان کے خلوص و للّہیت اور تقویٰ اور انابت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنا احتساب کرتے اور اپنے قصور پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگتے۔

ان کی حکومت (خلافت) میں غریبوں کو انصاف ملتا اور نظام حکومت عادلانہ اس صالح نظام حکومت تھا۔

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت یا سماعت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ تاکہ پڑھنے یا سننے والے پر رجوع و انابت کی کیفیت طاری ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس موقع پر سجدہ کرنا ثابت ہے۔

(بخاری، ابواب سجود القرآن)

۳۳۔۔۔۔۔۔ حضرت داؤد کا قصور کیا تھا اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی لیکن بعد والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرائض خلافت کس انجام دینے کے سلسلے میں ان سے کوئی کوتاہی سرزد ہوئی تھی جس کا احساس ان کو اس موقع پر ہو گیا۔ قرآن نے جب ان کے قصور پر پردہ ڈال دیا ہے تو اس کو کریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن مفسرین نے ان کو کریدنے کی کوشش کی انہوں نے ان آیتوں کی دور افکار تاویلیں کیں اور حضرت داؤد کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو ایک نبی کے شایان شان نہیں ہو سکتیں اور مشہور مفسر ابن جریر طبری نے تو اور یّاہ حِتّی کی بیوی سے حضرت داؤد کے نکاح کا بے ہودہ قصہ نقل کر کے افسوس ناک غلطی کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے۔ اوریّاہ حِتّی کی بیوی سے حضرت داؤد کے نکاح کا قصہ اصلاً بائیبل میں بیان ہوا ہے۔ (۲۔ سموئیل باب ۱۱،۱۲) جو حضرت داؤد پر الزامات اور بہتان سے پر اور اس قدر لغو ہے کہ اس کو نقل کرنے سے ہمارا قلم قاصر ہے۔ سُبْحَانَکَ ھٰذا بُھتان عَظِیْم۔ اسی قصہ کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ راویوں نے پیش کر دیا اور روایتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنے والوں نے اسے قبول کر لیا متعدد مفسرین نے اس کی پر زور تردید بھی کی۔ مثال کے طور پر علامہ رازی نے اپنی تفسیر میں اس قصہ کو نہایت شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی مدلل تردید کی ہے اور علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے : ” اس موقع پر مفسرین نے ایک قصہ بیان کیا ہے جس کا بیشتر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں جس کی اتباع واجب ہو”۔ (تفسیر بن کثیر ،ج ۴ ص ۳۱)

اور مولانا حفظ الرحمٰن صاحب اپنی محققانہ کتاب قصص القرآن میں لکھتے ہیں :

"مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ قرآن عزیز کے اس مقدس اعلان کے باوجود حتّی اور یّاہ کی بیوی کی اس خرافی داستان کو توراۃ اور اسرائیلیات سے لے کر بعض مفسرین نے قرآن عزیز کی تفسیر میں نقل کر دیا اور اسرائیلی بکواس کو بلا دلیل و سند اسلامی روایت کی حیثیت دی۔

ان سادہ لوح بزرگوں نے یہ مطلق خیال نہیں فرمایا کہ جن خرافاتی داستانوں کو آج وہ اسرائیلی روایت کی حیثیت سے قرآن عزیز میں نقل کر رہے ہیں کل وہ آیات قرآنی کی تفسیر و تشریح سمجھی جا کر گمراہی کا سبب ثابت ہوں گی اور حیرت و صد حیرت ہے بعض ان جدید قدیم متکلمین پر جنہوں نے اس قسم کی روایات کو سختی کے ساتھ رد کر دینے اور ان بہتان طرازیوں کو مردود قرار دینے کے بجائے ان روایات کے نیک محمل تلاش کر کے ان کو قابل قبول بنانے کی سعی نا مشکور فرمائی ہے اور بے محل حسن ظن سے کام لے کر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ یہ تاویلات جو اس خرافی روایت کے بارے میں کی جا رہی ہیں ریت کی دیوار اور تار عنکبوت ہیں اور کسی نہ کسی اسلوب کے ساتھ اس کو تسلیم کرنے سے "عصمت انبیاء” جیسے اہم اور بنیادی اسلامی عقیدہ پر ضرب کاری لگتی ہے اور یہ کہ انبیاء و رسل کی جانب اس قسم کے انتساب سے جب کہ قرآن مجید کا دامن پاک اور بے لوث ہے اور وہ اس قسم کی روایات کو بہتان عظیم سمجھتا ہے تو پھر کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی تفسیر میں اس قسم کی خرافات کا تذکرہ کرے ” (قصص القرآن ، ج ۲ ص۱۷۹)

مگر حیرت ہے کہ صاحب تفہیم القرآن نے بائیبل کے اس قصہ کو ریفائنڈ (Refined) کر کے پیش کیا ہے اور توجہ یہ کی ہے کہ :

"معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونا چاہیے۔ اسی خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دیدے۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ ”

(تفہیم القرآن، ج ۴ ص ۳۲۸)

یہ توجیہ بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ بات کہ داؤد علیہ السلام کے دل میں ایک دوسرے شخص کی بیوی سے نکاح کرنے کا خیال پیدا ہوا اور انہوں نے اس کے شوہر سے اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دیدے اخلاقی لحاظ سے نہایت فرو تر بات ہے اور ایک نبی کی طرف ایسی بات منسوب کرنے سے مقام نبوت متاثر ہوتا ہے جب کہ نبی اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر ہوتا ہے اور یہ بات کیسے معلوم ہو گئی کہ حضرت داؤد کے دل میں یہ غلط خیال پیدا ہو گیا تھا۔ شرعی پہلو سے بھی یہ بات قابل اعتراض قرار پاتی ہے کہ کسی شخص سے اس کی بیوی کو طلاق دینے کے لیے کہا جائے تاکہ اس کے طلاق دینے کے بعد وہ اس کی منکوحہ قرار پائے۔ یہ تو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا عمل ہوا جس کو شرعی جواز کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ؟ پھر ایک ایسی بات جو نہ اخلاقاً صحیح ہو سکتی ہے اور نہ شرعاً ایک نبی کی طرف کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے ؟ فاضل مفسر اور دوسرے مفسرین کو یہ سب تکلفات اس لیے کرنا پڑے کہ اللہ نے اپنے بی کے ایک قصور پر پردہ ڈالا تھا اس کو اٹھانے کی انہوں نے ناکام کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے اور اپنے نبی داؤد کو سلام و رحمت سے نوازے۔

۳۴۔۔۔۔۔۔ یہاں خلیفہ کے معنی با اقتدار اور فرمانروا کے ہیں۔ بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں بتدریج جو اقتدار حاصل ہوتا چلا گیا اس نے حضرت داؤد کے زمانہ میں ایک مضبوط حکومت اور مستحکم سلطنت کی شکل اختیار کر لی۔ یہ ایک خالص اسلامی حکومت تھی جس کی زمامِ کار ایک نبی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ خلافت (اسلامی حکومت) اس مملوکیت سے بالکل مختلف تھی جس کی خصوصیات میں آمریت اور خواہش پرستی جیسی چیزیں شامل ہیں۔

(لفظ خلیفہ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فاطر نوٹ ۷۱)

۳۵۔۔۔۔۔۔ اقتدار پا کر انسان حق و عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر من مانی کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ گمراہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی کہ حکومت کے سارے فیصلے حق کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ یہ حضرت داؤد کے واسطہ سے بنی اسرائیل کو مستقل ہدایت تھی کہ جو اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اپنے حاکمانہ اختیارات کو حق و عدل کی بنیاد پر استعمال کریں جس میں شریعت کی تطبیق لازماً شامل ہے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ حق و عدل پر قائم رکھنے والی چیز قیامت کے دن اللہ کے حضور جوابدہی کا یقین ہے۔ اگر اس تصور کا غلبہ دل و دماغ پر نہیں رہا تو خواہشات حاوی ہو جاتی ہیں اور آدمی غلط فیصلے کرنا لگتا ہے اس طرح ہدایت کی راہ اس پر گم ہو جاتی ہے۔

۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کائنات کی تخلیق کا ایک مقصد اور اس کی ایک غایت ہے اور وہ ا ہے جزائے عمل اور اس کے لیے قیامت کے دن اللہ کی عدالت کا برپا ہونا۔

۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کی نشانیوں سے جو اس کائنات کی تخلیق کے عظیم مقصد کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں انکار کرتے ہیں وہی یہ گمان کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی حکیمانہ منصوبہ کار فرما نہیں ہے بلکہ یہ کائنات ایک حادثہ کے طور پر پیدا ہوئی ہے یا ہمیشہ سے یونہی چلی آ رہی ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی سے محروم ہونے کے بعد وہ اس کائنات کے وجود کی کوئی صحیح توجیہ کر نہیں پاتے۔

۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت اور جزا و سزا کے انکار کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی نظر میں مؤمنین صالحین اور مفسدین سب برابر ہیں اور متقیانہ زندگی گزارنے اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ نہ مظلوم کی داد رسی کرنے ولا ہے اور نہ ظالموں کو سزا دینے والا ہے۔ مگر کیا عقل سلیم اور فطرت انسانی اس خیال کی تائید کرتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ نہ عقل سلیم نیک کردار اور بد کردار کو یکساں قرار دیتی ہے اور نہ فطرت انسانی ظالم و مظلوم کو ایک ہی سطح پر رکھتی ہے۔ اور یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وحی الٰہی جزا و سزا کی جو خبر دے رہی ہے وہ بالکل حق ہے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔ قرآن کے مبارک کتاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چشمۂ خیر ہے اور اس کی فیض رسانی کبھی ختم ہونے والی نہیں جو بھی اس میں تدبر کرے گا یعنی صاف ذہن کے ساتھ غور و فکر کرے گا اس کے فیض سے محروم نہیں رہے گا اور جو شخص اس کتاب میں جتنا تدبر کرے گا اتنا ہی وہ فیضیاب ہو گا اور جتنی گہرائی میں جائے گا اتنے ہی علم و معرفت کے موتی چن لے گا۔

قرآن نے غور فکر کی جو دعوت دی ہے اس کے باوجود مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو تلاوت کو کافی سمجھتی ہے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی نتیجہ یہ کہ ان کا تعلق اس کتاب سے بہت کمزور ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی فیض بخشیوں سے انہوں نے اپنے کو محروم کر لیا ہے :

"اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ نے قرآن اس لیے نازل کیا ہے کہ اس کے معانی میں غور و فکر کیا جائے۔ تدبر کے بغیر محض تلاوت کے لیے نازل نہیں کیا ہے "۔ (فتح القدیر ،ج ۴ ص ۴۳۰)

۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اپنی عقل و دانش کا استعمال کریں گے وہ اس کتاب کے مطالعہ سے یاد دہانی اور نصیحت حاصل کریں گے۔ اور قرآن کا اولین مقصد یہی ہے کہ لوگ اس کتاب سے نصیحت پذیر ہوں۔ اور یہ فائدہ ایک عام آدمی بھی اس کا مطالعہ کر کے حاصل کر سکتا ہے بشرط یہ کہ وہ صاف ذہن سے مطالعہ کرے۔

۴۲۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد کو سلیمان جیسا فرزند عطاء کیا۔

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۴۰۱ اور سورہ نمل ۲۱۔

۴۳۔۔۔۔۔۔ اس سے بائیبل کی ان غلط بیانیوں کی خود بخود تردید ہوتی ہے جو حضرت سلیمان کے بارے میں کی گئی ہیں اور جن سیان کی کردار شکنی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین بندہ قرار دیا تو اخلاقی و عملی لحاظ سے جو فرو تر باتیں ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہیں۔

۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی صفت ان میں بدرجہ کمال موجود تھی۔

رجوع کی تشریح اوپر نوٹ ۱۷ میں گزر چکی۔

۴۵۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "الصافات” استعمال ہوا ہے جو ان گھوڑے کے لیے بولا جاتا ہے جو اس طرح کھڑ ے ہوں کہ ان کا اگلا ایک پاؤں اٹھا ہوا اور مڑا ہوا ہو یعنی اس کے سم کا صرف ایک کنارہ زمین پر ہو۔ اس طرز پر گھوڑوں کا کھڑا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک اشارہ پر دوڑنے کیلیے تیار ہیں۔ یہ گھوڑے چونکہ جہاد کیلیے تھے اس لیے ان کو یہ ٹریننگ دے دی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے ہم نے "الصافات” کا ترجمہ تربیت یافتہ گھوڑے کیا ہے۔

۴۶۔۔۔۔۔۔ شام کے وقت کے ذکر سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ گھوڑے جہاد کی مہم پر روانہ ہونے والے تھے کیونکہ صحرا میں سفر زیادہ تر رات میں کیا جاتا تھا۔ اور صبح کے وقت دھاوا بولا جاتا تھا (فَالْمُغِیْراتِ صُبْحاً)ان گھوڑوں کی قسم جو صبح کے وقت دھاوا کر دیتے ہیں۔ سورہ عادیات :۳)

آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس نہایت عمدہ، سبک رو اور تربیت دئے ہوئے (Trained) گھوڑے تھے اور یہ شام کے وقت جب کہ وہ جہاد کی مہم پر روانہ کیے جانے والے تھے حضرت سلیمان کے سامنے پیش کیے گئے۔

بائیبل میں یہ واقعہ تو مذکور نہیں ہے جو قرآن نے یہاں بیان کیا ہے لیکن حضرت سلیمان کے گھوڑوں (Cavalry) کا ذکر موجود ہے : ” اور سلیمان نے رتھ اور سوار (مراد گھوڑے سوار ہیں ) اکٹھے کر لیے۔ اس کے پاس ایک ہزار چار سو رتھ اور بارہ ہزار سوار تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو گھوڑے سلیمان کے پاس تھے وہ مصر سے منگائے گئے تھے اور بادشاہ کے سوداگر ایک ایک جھنڈ کی قیمت لگا کر ان کے جھنڈ کے جھنڈ لیا کرتے تھے۔ ” (۱: سلاطین۱۰: ۲۶ تا ۲۸)۔

۴۷۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان ان گھوڑوں کو جو نہایت عمدہ تھے اور جن کو جنگ کی ٹریننگ بھی دی گئی تھی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مگر اس جنگی طاقت پر جو انہیں فراہم ہوئی تھی اترائے نہیں بلکہ اللہ کو یاد کیا اور فرمایا اس مال سے میری محبت دنیوی شان و شوکت پر فخر کرنے کی غرض سے نہیں ہے بلکہ اللہ کے ذکر کی وجہ سے ہے کہ یہ مال اور یہ طاقت اس کی راہ میں جہاد کرنے کی وجہ سے فراہم کی گئی ہے۔ یعنی کی نگاہ اعلائے کلمۃ اللہ جیسے عظیم مقصد پر تھی نہ کہ اپنی حکومت کی ظاہری شان و شوکت پر۔ اور حضرت سلیمان جیسے عظیم سلطنت کے مالک کا یہ وہ مثالی کردار ہے جو ان کے رجوع و انابت کا ثبوت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وسائل و اقتدار پا کر لوگ گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس کے برخلاف سلیمان (علیہ السلام) نے جو رویہ اختیار کیا وہی رویہ بندوں کے اختیار کرنے کا ہے یعنی اللہ کو ہر موقع پر یاد کرنا اور اس کی طرف رجوع ہونا۔

بعض مفسرین نے عَنْ ذِکْرِ رَبِّی کے معنی "میرے رب کے ذکر سے غافل کر دیا” لئے ہیں اور پھر ان آیتوں کی تاویل میں ایسی باتیں کہی ہیں جو نہ حضرت سلیمان کی شان نبوت سے مناسبت رکھتی ہیں اور نہ ان سے وہ مقصدیت واضح ہوتی ہے جو اس واقعہ میں مضمر ہے اور جس کا ربط اوپر کے سلسلہ بیان سے ہے۔ علامہ رازی نے اپنی تفسیر میں اس تاویل کی مکمل تردید کی ہے اور مولانا مودودی نے بھی تفہیم القرآن میں قوی دلائل سے اس تاویل کی بنیاد پر کہی جانے والی قیاسی باتوں کی تردید کی ہے۔

مفسرین میں اصل اختلاف عربی کے حرف جار”عن” کے معنی متعین کرے کے سلسلہ میں ہو رہا ہے۔ یہ حرف "اس وجہ سے ” (مِن اَجْل) کے معنی میں بھی آتا ہے جیسا کہ عربی کی مستند لغت لسان العرب (جلد ۱۳ ص ۲۹۶) میں بیان ہوا ہے۔ نیز قرآن میں بھی سورہ توبہ آیت ۱۱۴میں "عن” کی وجہ سے ” کے معنی میں استعمال ہوا ہے :

وَمَا کَانَ اسْتغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍ و عَدَ ھا اِیَّا ہُ۔ "اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو مغفرت کی دعا کی تھی وہ اس وعدہ کی وجہ سے تھی جو اس نے کیا تھا”۔

اسی طرح سورہ ہود آیت ۵۳ میں بھی ان ہی وجوہ سے ہم نے آیت کا ترجمہ "مجھے اس مال سے محبت اللہ کی یاد کی وجہ سے ہے ” کیا ہے۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی سلیمان (علیہ السلام) ان گھوڑوں کو محبت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے یہاں تک کہ ان کی دوڑ شروع ہوئی اور وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

"حجاب”کے معنی اوٹ کے ہیں۔ ممکن ہے گھوڑے دوڑتے ہوئے کسی پہاڑ کی اوٹ میں چلے گئے ہوں اور اس وجہ سے نظروں سے غائب ہو گئے ہوں۔

۴۹۔۔۔۔۔۔ جب گھوڑے نظروں سے اوجھل ہو گئے تو حضرت سلیمان نے پھر ان کو واپس بلا لیا تا کہ اپنا دست مبارک ان پر پھیریں۔ یہ بات بعد میں ان کے ذہن میں آئی ہو گی۔

۵۰۔۔۔۔۔۔ جب گھوڑے واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان فرط محبت سے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر اپنا دست مبارک پھیرنے لگے چونکہ یہ جنگی گھوڑے تھے اور جہاد کی مہم پر روانہ ہو رہے تھے اس لیے اپنا دست مبارک ان کے ان اعضاء پر پھیرا جو تلوار کی زد میں آتے ہیں۔ جنگ میں دشمن کی فوجیں گھوڑوں کی گردن پر تلوار چلاتی ہیں یا ان کی کونچیں (ٹانگیں ) کاٹ دیتی ہیں حضرت سلیمان کا ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنا اس بات کی علامت تھا کہ وہ ان کو اللہ کی حفاظت میں دے رہے ہیں۔

۵۱۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو مختلف آزمائشوں سے گزارتا رہا ہے تاکہ وہ ان کے رجوع و انابت میں اور اضافہ ہو اور ان کا مقام اور بلند ہو جائے۔ حضرت سلیمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص آزمائش میں ڈالا تھا جس کی تفصیل قرآن نے نہیں بتلائی بلکہ اشارہ پر اکتفاء کیا کیونکہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ بات کافی تھی۔

آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی کرسی (تخت ) پر غیر معمولی طریقہ سے ایک دھڑ ڈال دیا تھا۔ یہ دھڑ انسان کا ہی رہا ہو گا اور جب حضرت سلیمان نے دیکھا ہو گا کہ میرے تخت پر یہ کون شخص آ کر بیٹھا ہے تو گھبرا گئے ہوں گے لیکن جب انہوں نے قریب سے دیکھا ہو گا تو ایک بے جان انسان کے دھڑ کو دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہو گی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ مگر وہ بیدار دل تھے اس لیے ان کا ذہن فوراً اس بات کی طرف منتقل ہو گیا کہ غیر معمولی طریقہ پر ایک بے جان انسان کے دھڑکا ان کے تخت پر گرا ہونا اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور ہو سکتا ہے یہ آزمائش فرائض سلطنت کو انجام دینے کے سلسلہ میں کسی قصور کی بنا پر ہوئی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں متنبہ کرنا چاہا ہو۔ اس لیے انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ ان کے کردار کی بلندی کا یہی وہ خاص پہلو ہے جس کو یہاں پیش کرنا مقصود ہے۔ ایک عظیم سلطنت کے فرمانروا ہونے کے باوجود ان کے عجز و نیاز کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے قصوروں کی اللہ سے معافی مانگتے اور دل کی انابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے۔

ہم نہیں سمجھتے کہ آیت کے اس ظاہری مفہوم کو چھوڑ کر تاویلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر بعض مفسرین نے آیت کی تاویل میں بے سر و پا قصے نقل کئے ہیں جو اس قدر بے ہودہ ہیں کہ ان کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کرنا بڑی ہی سادہ لوحی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکایتوں اور روایتوں کو قبول کرنے کے معاملہ میں طبری جیسے مفسر کا معیار کتنا گھٹیا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے ان قصوں کو اسرائیلیات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :

” ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ مفسرین نے اس سلسلہ میں سلف کے ایک گروہ سے بکثرت اقوال نقل کئے ہیں جن میں سے اکثر بلکہ تمام تر اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں اور ان میں سے اثر اقوال میں سخت نکارت پائی جاتی ہے۔ ”

(البدایۃ و الجہایتہ ، ج ۲ ص ۲۶ )

اور بعض مفسرین نے بخاری و مسلم کی اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے جس میں حضرت سلیمان کے ایک موقع پر ان شاء اللہ نہ کہنے اور اس کے نتیجہ میں ان کی بیوی سے ناقص بچہ پیدا ہونے کا قصہ بیان ہوا ہے مگر یہ حدیث نکارت (نامناسب باتوں ) سے پُر ہونے کے باوجود اگر بالفرض صحیح تسلیم کر لی جائے تو اس کو اس آیت کی تفسیر نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اس میں اس واقعہ کی طرف سے اشارہ نہیں کیا گیا ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ (عبدالوہاب نجار نے اس حدیث کو بوجوہ ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

قصص القرآن ۳۲۹۔ ۳۳۱ )

۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی حکومت جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے مثال ہو۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا مقبول ہوئی اور ہوا اور جنوں کو ان کے تابع کر دیا گیا جیسا کہ بعد والی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں لیکن جو خصوصیات حضرت سلیمان کی سلطنت کی تھیں وہ ہی ان کا طرہ امتیاز قرار پائیں۔

حضرت سلیمان نے یہ بے مثال حکومت کسی ذاتی غرض سے طلب نہیں کی تھی بلکہ نہایت پاکیزہ جذبات کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ (اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے ) اور اسلامی حکومت کی تمام غیر اسلامی حکومتوں پر برتری ظاہر کرنے کے لیے کی تھی نیز اس لیے بھی کہ اللہ کی قدرت کی کرشمہ سازیوں کا ایک نبی کے حق میں ظہور ہو۔

۵۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۹ اور سورہ سبا نوٹ ۲۳۔

۵۴۔۔۔۔۔۔ مراد سرکش جن ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۰ اور سورہ نمل نوٹ ۲۵۔

۵۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ سبا نوٹ ۲۷۔

۵۶۔۔۔۔۔۔ ایسے جن جو سمندر میں غزوہ لگا کر موتی وغیرہ نکالتے۔

۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی سرکش جن سلیمان (علیہ السلام ) کی قید و بند میں رہتے تھے۔ جن ایک نہ دکھائی دینے والی مخلوق ہے اس لیے ان کو جکڑنے والی زنجیریں بھی مخصوص قسم کی رہی ہوں گی۔

۵۸۔۔۔۔۔۔ بے حساب بخشش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کو اس کا حساب دینا نہیں ہے۔ ایک نبی پر بھی حکومت کے تعلق سے عدل وغیرہ کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا ذکر اوپر آیت ۶۱ میں ہوا ہے اس لیے اس قسم کے معنی لینے کی یہاں گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخشش نہایت وافر اور کثیر ہے۔ قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَاللہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۱۲) اس آیت میں بھی بغیر حساب (بے حساب ) سے مراد کثیر رزق ہے جو اندازوں اور توقعات سے بڑھ کر ہو نہ کہ ایسا رزق جس پر آخرت میں حساب ہونے والا نہ ہو۔

۵۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ان جنوں میں سے جو تمہارے قابو میں کر دئے گئے ہیں جن کو چاہو احسان کر کے چھوڑ دو اور جن کو چاہو خدمت کے لیے روک رکھو۔

۶۰۔۔۔۔۔۔ مراد جنت ہے۔

۶۱۔۔۔۔۔۔ ا ایوَب (علیہ السلام) کے حالات کے بارے میں دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱ تا ۱۱۳۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے دونوں طرح تکلیف پہنچی ہے۔ بیماری کا دکھ بھی اور گھر والوں کے بچھڑنے کا غم بھی۔ یہ تکلیفیں اللہ کی مشیت ہی سے پہنچی تھیں کیونکہ اللہ ہی نفع و نقصان پہنچانے والا ہے اسی لیے حضرت ایوب نے ان تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے اللہ ہی سے فریاد کی لیکن ان کو شیطان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا اس آزمائش میں جو اللہ کی طرف سے تھی شیطان کی شرارت کے نتیجے میں پیش آئی تھی۔ یہ شرارت کیا تھی ہمیں نہیں معلوم۔ ہو سکتا ہے شیطان کے اکسانے پر کسی قبیلہ نے غارت گری کی ہو اور اس میں حضرت ایوب کے گھر والے بچھڑ گئے ہوں۔ اور اس غم میں حضرت ایوب بیمار پڑ گئے ہوں اور اس بیماری نے پھر شدت اختیار کی ہو اس لیے انہوں نے اپنے دکھ اور قلبی تکلیف کا سبب شیطان کو قرار دیا ہو۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔

حضرت ایوب ار چہ سخت بیمار پڑ گئے تھے جس میں ن کے صبر کا امتحان ہوا لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری ہو گئی تھی جس سے نفرت اور کراہیت پیدا ہوتی ہے مثلاً جذام وغیرہ نبی بیمار ہوتا ہے مگر ایسی کسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جاتا کہ لوگ اس کے قریب آنے نہ پائیں کیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف نبوت کا مقام متاثر ہوتا ہے بلکہ دعوت و ارشاد اور اصلاح و تربیت کا کام بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ جس کے لیے ایک نبی بعثت ہوتی ہے۔ بائیبل میں ایوب کے نام سے جو صحیفہ ہے وہ شاعری اور نثر کا مجموعہ ہے جس میں بڑے مبالغہ آمیز انداز میں قصہ گوئی کی گئی ہے۔ اس کے مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کے واقعہ کو بالکل غلط طریقہ پر اور افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ بائیبل کا شارح لکھتا ہے کہ اس کے مصنف کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا۔

"Despite our richer acquaintance with the background of Job, the name of the author remains quite unknown to us”.

(The Interpreters now – Vol. Commentary on the Bible P. 239 (

مگر اہل کتاب سے سن کر راویوں نے بھی حضرت ایوب کے بارے میں عجیب و غریب قصے بیان کیے جو تفسیروں میں نقل ہوئے ہیں ان ناقابل اعتبار قصوں کا شیخ محمد بن ابو شہبہ نے اپنی کتاب الاسرائیلیات و الموضوعات فی کتاب التفسیر میں بڑا اچھا جائزہ لیا ہے۔ لکھتے ہیں

"حقیقت یہ ہے کہ اس قصہ کے تانے بانے نہایت کمزور ہیں اور وہ تنقید کے آگے ٹک نہیں سکتا۔ اس کی تائید نہ عقل سلیم کرتی ہے اور نہ نقل صحیح۔ حضرت ایوب جس مرض میں مبتلا ہوئے تھے وہ نفرت اور کراہیت پیدا کرنے والا نہیں تھا بلکہ ایسا مرض تھا جس کا اثر جلد پرظاہر نہیں ہوتا جیسے رومینٹزم، امراض مفاصل اور ہڈیوں وغیرہ کے امراض”۔ (کتاب مذکور ،ص ۲۸۱)

تعجب ہے کہ صاحب تدبر قرآن نے بھی بائیبل کی کتاب صِفْر ایوب پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی بیماری کے بارے میں بعض نا مناسب باتوں کا ذکر کیا ہے۔

۶۳۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کی دعا سن لی اور ان کو صحت حاصل کرنے کا یہ طریقہ بتایا کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر ماریں جس سے ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گا۔ اس پانی میں غسل بھی کر لو اور اس کو بی بھی لو۔ حضرت ایوب نے اس ہدایت پر عمل کیا اور صحت یاب ہو گئے۔ ٹھنڈے پانی کے چشمہ کا اس طرح جاری ہونا اللہ کی طرف سے اپنے نبی کے حق میں ایک غیر معمولی (خارق عادت ) چیز کا ظہور تھا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل بعض بیماریوں میں شفا یابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

۶۴۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے اسباب کر دئے کہ ان کا بچھڑا ہوا خاندان بھی ان کے پاس واپس آ گیا نیز ان کی بیوی بچوں میں مزید اضافہ ہوا یعنی ان کی تعداد دگنی ہو گئی۔

۶۵۔۔۔۔۔۔ حضرت ایوب جب امتحان میں پورے اترے اور صبر کی اونچی مثال پیش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے اس طرح نوازا کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی چیزیں پالیں بلکہ مزید نعمتیں بھی انہیں حاصل ہو گئیں۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۴۔

۶۷۔۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ حکم کس کو مارنے کے لیے دیا گیا تھا بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوران مرض حضرت ایوب کے صبر میں کوئی مخل ہو رہا تھا اس اور وہ ان ہی کے متعلقین میں سے تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ان کا غلام رہا ہو اور جب اس نے اللہ کے بارے میں شکوہ شکایت کی باتیں کی ہوں تو حضرت ایوب نے غیرت ایمانی کی بنا پر قسم کھا کر کہا ہو کہ اس کی سرزنش کے لیے وہ اس کو کوڑوں سے ماریں گے لیکن صحت بحال ہونے کے بعد اس غلام نے معافی مانگ لی ہو اور بیماری میں ان کی خدمت بھی کرتا رہا ہو اس لیے حضرت ایوب کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہو کہ اگر وہ غلام کو مارتے ہیں تو بدلے ہوئے حالات میں ایک نامناسب صورت ہو گی اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قسم توڑنا ہو گی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لیے یہ تخفیف کر دی کہ وہ تنکوں کا ایک گچھا لے کر اس سے ماریں۔ اس طرح مار بھی نہیں لگے گی اور قسم بھی پوری ہو جائے گی۔ یہ مخصوص صورت حال کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے نرمی اور آسانی کا معاملہ تھا۔ اس سے یہ بات تو نکلتی ہے کہ اگر ایک شرعی حکم کی تعمیل کسی معقول عذر کی بنا پر پوری طرح نہ ہو سکتی ہو تو کم از کم اس کی ظاہری صورت کو ضرور بر قرار رکھا جائے تاکہ تعمیل حکم کا احساس باقی رہے لیکن اس میں حیلوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہ اور ناجائز کو قرار دینے کے لیے جو بدترین حلیے "شرعی حیلوں ” کے نام سے اختیار کئے جاتے ہیں وہ شریعت سے فرار کی بہت بھونڈی شکلیں ہیں۔ اس سلسلہ میں بخری کتاب الْحِیلَ کا مطالعہ کافی مفید ہو گا۔ امام بخاری نے اس میں حدیثوں کے حوالہ سے حیلہ بازی کرنے والوں پر سخت گرفت کی ہے۔

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سب با عمل تھے۔ اپنی قوت اللہ کی عبادت و اطاعت اس کے دین کی دعوت تعلیم و تذکیر اور اس کا بول بالا کرنے میں صرف کی۔

۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ دیدہ بینا رکھتے تھے۔ واقعات کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے اور علم و بصیرت کی روشنی میں چلتے۔

۷۰۔۔۔۔۔۔ اس گھر سے مراد آخرت کا گھر ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام جو آسمان نبوت کے روشن ستارے ہیں۔ آخرت کی ایذا دہانی کے لیے خاص کر لئے گئے تھے وہ خود بھی آخرت کی فکر میں ڈوبے رہتے اور ان کا مشن بھی یہی تھا کہ لوگ نجات اخروی کی فکر کریں اور آخرت کی کامیابی کو اپنا نصب العین بنائیں۔

آخرت کی یاد سہانی انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا نہایت اہم اور امتیازی پہلو ہے مگر موجودہ زمانہ میں جو لوگ دعوت اسلامی کو لیکر اٹھے ہیں وہ آخرت کی یاد دہانی کا کچھ زیادہ اہتمام کرتے دکھائی نہیں دیتے۔

۷۱۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ انعام نوٹ ۱۴۸۔

۷۲۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۶۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نیک بندوں کا جو ذکر ہوا اور ان کے جو احوال سنائے گئے وہ تذکیر (یاد دہانی) کے لیے ہیں۔ محض قصے سنانا مقصود نہیں ہے۔

۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی متقیوں کے استقبال کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہوں گے۔

۷۵۔۔۔۔۔۔ یعنی شرمیلی عورتیں جو اپنے شوہروں کے سوا کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔

۷۶۔۔۔۔۔۔ یعنی سب یکساں عمر کی جو ان عورتیں ہوں گی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی بڑی عمر کی رہی ہوں۔ جنت میں نہ کوئی عورت بوڑھی ہو گی اور نہ کوئی مرد۔ دونوں یکساں جوان ہوں گے۔

۷۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی یہ نعمتیں ان کو ہمیشہ ملتی رہیں گی۔ ان کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

۷۸۔۔۔۔۔۔ اوپر ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا تھا جو اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی بندگی میں زندگی گزارتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جو اس کی عبادت و اطاعت سے منہ ہوڑ کر باغیانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح اخروی انجام کے دونوں رخ پیش کر دئے گئے ہیں تاکہ قرآن کا ہر قاری سوچ لے کہ وہ اپنے لیے کس انجام کو پسند کرتا ہے۔

۷۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اسی قسم کے دوسرے عذابوں کا انہیں مزہ چکھنا ہو گا۔ انسان اگر غور کرے تو اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھے۔

۸۰۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں جہنم میں داخل ہونے والوں کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ سرکش لیڈر اور پیشوا جب جہنم کے قریب پہنچ جائی گے تو دیکھیں گے کہ ان کے پیچھے ان کے پیروؤں (عوام) کا لشکر بھی چلا آ رہا ہے۔ وہ (پیشوا) آپس میں کہیں گے کہ یہ لشکر بھی تمہارے (یعنی ہمارے ) ساتھ جہنم میں گرنے والا ہے۔ ان کے لیے خوش آمدید نہیں یعنی بڑی ذلت کا سامنا ہے۔

۸۱۔۔۔۔۔۔ پیرو (عوام) اپنے پیشواؤں اور لیڈروں کو جواب دیں گے ذلت و رسوائی در اصل تمہارے لئے ہے کیونکہ تم ہی نے ہمیں اس بُرے انجام کو پہنچایا۔ یعنی عوام اپنے گمراہ ہونے کی ذمہ داری اپنے لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں پر ڈالیں گے۔

۸۲۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے رب سے فریاد کریں گے کہ ہمیں جن لوگوں نے گمراہ کیا تھا، ان کو دوہرا عذاب دے کہ ایک عذاب اپنے گمراہ ہونے کا، دوسرا ہمیں گمراہ کرنے کا۔

۸۳۔۔۔۔۔۔ مراد اہل ایمان ہیں جن کو یہ کافر شریر خیال کرتے رہے کیونکہ ان کے نزدیک دین حق کی دعوت فرقہ بندی کی دعوت تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ بت پرستی اور مشرکانہ عقائد کی مخالفت سماج میں پھوٹ ڈالنے کا باعث ہے۔

۸۴۔۔۔۔۔۔ یہ ان کافروں کی طرف سے تعجب کا اظہار ہے کہ آیا ہم نے ان لوگوں کا مذاق بنا لیا تھا جب کہ وہ نیک تھے یا وہ کہیں اور ہیں اور ہماری نگاہیں ان کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان جہنمیوں کو اس وقت اس بات کا احساس ہو گا کہ جن لوگوں کو ہم ان کے ایمان لانے کی بنا پر شریر قرار دیتے رہے۔ وہ واقعی شریر نہ تھے اسی لیے آج وہ ہمارے ساتھ اس انجام کو پہنچنے کے لیے موجود نہیں ہیں۔

۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے کے موقع پر گمراہ لیڈروں اور ان کے پیچھے چلنے والی بھیڑ میں جو بحث و تکرار ہو گی وہ بالکل سچی بات ہے جو لازماً وقوع میں آئے گی اور قرآن اس سے پیشگی آگاہ کر رہا ہے تاکہ لوگ ہوش میں آئیں۔

۸۶۔۔۔۔۔۔ قہار یعنی زبردست جوہر چیز کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے اور کوئی بھی اس کے قابو سے باہر نہیں اور جس کے احکام بزور سب پر نافذ ہوتے ہیں۔

۸۷۔۔۔۔۔۔ اللہ کی یہ معرفت کہ وہ قہار ہے ، کائنات کا مالک ہے اور سب پر غالب ہے دلوں کے اندر اس کا خوف اور تقویٰ پیدا کر دیتی ہے اور اس کی یہ معرفت کہ وہ بخشنے والا ہے بندوں کو اس بات کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی اس سے معافی مانگیں۔

۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کی خبر جب کہ وہ واقعات پیش آئیں گے جو اوپر بیان ہوئے ایک زبردست حادثہ کی خبر ہے۔ ایسی خبر جس کو سنتے ہی لوگوں کو چونک جانا چاہیے۔

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا حال بہت عجیب ہے کہ قیامت کی اتنی زبردست خبر سن کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے اور نجات کی فکر تمہیں لائق نہیں ہوتی۔

۹۰۔۔۔۔۔۔ مراد وہ واقعہ ہے جو آگے بیان ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو فرشتے حکم کی تعمیل کے لیے فوراً آمادہ ہو گئے لیکن ابلیس پر یہ حکم شاق گزرا اس لیے وہ اس مسئلہ میں فرشتوں سے الجھنے اور اپنی منطق چلانے لگا۔ یہ قصہ علم بالا کا ہے جہاں فرشتوں کے ساتھ اس وقت ابلیس بھی موجود تھا اور ان کے درمیان آدم کو سجدہ کرنے کے مسئلہ میں تکرار ہوئی تھی۔

۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ملاء اعلیٰ کی یہ خبریں میرے پاس وحی کے ذریعہ پہنچ رہی ہیں ورنہ میں ان واقعات سے بے خبر تھا اور میرے پاس وحی (اللہ کا پیغام) اس لیے پہنچ رہی ہے کہ میں لوگوں کو خبردار کروں۔

۹۲۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۲۴۔

۹۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۲۷۔

۹۴۔۔۔۔۔۔ یہ سجدہ سجدۂ عبادت سے بالکل مختلف آدم کی صرف تکریم کے لیے تھا جس کا حکم اللہ تعالیٰ ہی نے دیا تھا۔ اس سے بزرگوں اور قبروں کے آ گے تعظیمی سجدہ کرنے کے لیے کوئی سجدہ جواز نہیں کیونکہ اللہ نے نہ بزرگوں کی تعظیم کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ اولیاء کی قبروں کے آگے سجدہ کرنے کا۔

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۴۷۔

۹۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۴۸۔

۹۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ سورہ بقرہ نوٹ ۴۹۔

۹۷۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میں نے آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔ تخلیق آدم کی شان کو واضح کرتا ہے۔ یعنی یہ اللہ کی ممتاز مخلوق ہے جس میں اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت ہوئی ہیں اور ایسی فضیلت اسے مخشی گئی ہے کہ گویا وہ اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

یہاں اللہ کے ہاتھوں کا جو ذکر ہوا ہے تو اس کی کوئی تاویل کرنا صحیح نہیں۔ اللہ نے اپنی معرفت جس طور سے بخشی ہے اس کو اسی طرح قبول کرنا چاہیے۔ سلف کا طریقہ یہی تھا کہ کسی بحث میں پڑے بغیر ان باتوں پر جیسی کہ وہ بیان ہوئی ہیں ایمان لاتے تھے اور سلامتی کی راہ یہی ہے۔

۹۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعرف نوٹ ۱۶۔

۹۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۷۔

۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت تک تجھ پر اللہ کی پھٹکار ہے اور قیامت کا دن تو فیصلہ کا دن ہے۔ اس روز تو قرار واقعی سزا کو پہنچے گا۔

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۸۔

۱۰۲۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن تک۔

۱۰۳۔۔۔۔۔۔ تیری عزت کی قسم یعنی تیری عظمت کی قسم۔

۱۰۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۳۶۔

۱۰۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۳۷۔

۱۰۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا ہر ارشاد سچ، مطابق واقعہ اور حقیقت واقعہ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

۱۰۷۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۲۲۔

یہاں اس واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود منکرین قرآن کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ انسان ہدایت کی راہ اختیار کرے اور منکرین یہ بھی ید رکھیں کہ جس طرح شیطان گھمنڈ کرنے کے نتیجہ میں لعنت کا مستحق ہوا اسی طرح وہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر لعنت ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

۱۰۸۔۔۔۔۔۔ یعنی غیب کی خبروں پر مشتمل اللہ کا یہ پیغام جو میں تمہیں پہنچا رہا ہوں اس پر نہ تم سے کسی معاوضہ کا طالب ہوں اور نہ اس کے پیچھے میری کوئی دنیوی غرض ہے بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور تمہاری خیر خواہی کے لیے بے لوث ہو کر تبلیغ کی یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔

۱۰۹۔۔۔۔۔۔ یعنی میری باتیں بالکل صاف اور بے لاک ہیں۔ بناوٹ کر کے میں نے کوئی بات نہیں کہی ہے اس لیے جن باتوں کی میں خبر دے رہا ہوں ان میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔

۱۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن تمام اقوام عالم کے لیے اللہ کی طرف سے یاد دہانی اور نصیحت کے طور پر نازل ہوا ہے لہٰذا کسی گروہی قومی اور مذہبی تعصب میں مبتلا ہوئے بغیر اس کی تذکیر سے فائدہ اٹھاؤ۔

۱۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن غیب کی جو خبریں دے رہا ہے ان کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی۔ کچھ تو موت کے وقت کھلے گی اور پوری پوری قیامت کے دن جو جلد ہی قائم ہونے والی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۳۹) سورۂ الزُّمر

 

 (۸۸ آیات)

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۷۱ میں کافروں کو جہنم کی طرف زُمَر کی شکل میں گروہ در گروہ ہنکائے جانے اور آیت ۷۳ میں متقیوں کو زمر کی شکل میں یعنی گروہ در گروہ لے جائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سرہ کا نام اَلزُّمَر ہے۔

زمانۂ نزول

 

مکہ کا وسطی دور ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

طاعت و عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہے۔ آیت ۱ تا ۸ میں قرآن کی اس بنیادی تعلیم کو بدلائل پیش کیا گیا ہے کہ دین خالص اللہ ہی کے لیے ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۸ میں قرآن کی اس بنیادی تعلیم کو بدلائل پیش کیا گیا ہے کہ دین خالص اللہ ہی کے لیے ہے۔

آیت ۹ تا ۲۰ میں دونوں گروہوں کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دینِ خالص کا پیرو اور صرف اللہ کا پرستار ہے اور دوسرا وہ جو غیر اللہ کا پرستار ہے۔

آیت ۲۱ تا ۳۵ میں قرآن کی رہنمائی کو قبول کرنے والوں کی خصوصیات اور ان کی جزاء بیان کی گئی ہے اور اس سے اعراض کرنے والوں کو برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔

آیت ۳۶ تا ۵۲ میں اس طور سے فہمائش کی گئی ہے کہ توحید ابھر کر سامنے آئے اور ایمان لانے کا ولولہ پیدا ہو۔

آیت ۵۳ تا ۶۳ میں ان بندگانِ خدا کو جو بے راہ روی میں مبتلا ہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

آیت ۶۴ تا ۷۵ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ توحید کا موقف ہی مضبوط موقف ہے۔ قیامت کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور منکرین اور متقین کے گروہوں کی شکل میں اپنی اپنی منزل کی طرف الگ الگ روانگی اور ان کے آخری انجام کو بیان کیا گیا ہے۔

سونے سے پہلے اس سورہ کی تلاوت کرنا:۔ ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : کانَ النبّیُ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لاَ ینامُ حتیَّ  یَقْرَاءٗ بنی اسرائیل وَالزُّمَر ” نبی صلی اللہ علیہ و سلم سوتے نہ تھے جب تک کہ سورہ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کرتے۔ ” (ترمذی ابواب فضائل القرآن)

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔ اس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی طرف سے ہے ۱ *جو غالب اور حکمت والا ہے ۲*۔

۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف (مقصدِ) حق کے ساتھ اتاری ہے ۳*۔ لہٰذا تم اللہ ہی کی عبادت کرو دین (عاجزی و بندگی) کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ ۴*

۳۔۔۔۔۔۔۔ سنو! خالص دین (بندگی) اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۵* اور جن لوگوں نے دوسرے کار ساز بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ ۶* اللہ یقیناً ان لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ ۷* اللہ کسی ایسے شخص کو راہیاب نہیں کرتا جو جھوٹا اور نا شکرا ہو۔ ۸*

۴۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ بیٹا بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا۔ وہ پاک ہے (اس سے کہ اس کا بیٹا ہو) ۹*۔ وہ اللہ ایک ہے سب پر مضبوط گرفت رکھنے والا۔ ۱۰*

۵۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو با مقصد پیدا کیا ہے ۱۱*۔ وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک وقت مقرر تک چلا جا رہا ہے ۱۲*۔ سنو! وہ غالب ہے معاف کرنے والا ۱۳*۔

۶۔۔۔۔۔۔۔ اس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا ۱۴*۔ اور اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی آٹھ قسمیں (نر و مادہ) پیدا کیں ۱۵*۔ وہ تمہیں تمہارے ماؤں کے پیٹ میں تین تاریکیوں کے درمیان پیدا کرتا ہے ۱۶* ایک خلقت کے بعد دوسری خلقت میں ۱۷*۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ اسی کی فرمانروا ئی ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۱۸* پھر تم کو کہاں پھیرا جا رہا ہے ۱۹* ؟

۷۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم ناشکری کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے (تمہارا محتاج نہیں) اور اپنے بندوں کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرتا ہے ۲۰*۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۲۱*۔ پھر تمہاری واپسی تمہارے رب ہی کی طرف ہے وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ ۲۲* وہ دلوں کا حال جانتا ہے ۲۳*۔

۸۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع ہو کر اسے پکارتا ہے ۲۴*۔ پھر جب وہ اسے اپنی نعمت عطا فرماتا ہے تو وہ اس چیز کو بھول جاتا ہے جس کے لیے وہ پہلے پکار رہا تھا ۲۵*۔ اور اللہ کے ہمسر (برابری کے) ٹھہرانے لگتا ہے ۲۶* تاکہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بھٹکا دے ۲۷*۔ (ایسے شخص سے) کہو اپنے کفر سے تھوڑے دن فائدہ اٹھا لے۔ تو یقیناً دوزخ والو ں میں سے ہے۔ ۲۸*

۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت میں سرگرم رہتا ہے ۲۹* ، آخرت کا اندیشہ رکھتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہے ۳۰* اور وہ جو کافر ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ۳۱*  ان سے پوچھو ۳۲ *کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں یکساں ہو سکتے ہیں ۳۳*؟ یاد دہانی تو اہلِ دانش ہی حاصل کرتے ہیں ۳۴*۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ کہو۔ (اللہ فرماتا ہے) اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو۔ جو لوگ اس دنیا میں نیک بن کر رہے ان کے لیے نیک بدلہ ہے۔ اور اللہ کی زمین کشادہ ہے ۳۵* صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا ۳۶*۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ کہو۔ مجھے حکم دیا گیا ہے میں اللہ ہی کی عبادت کروں دین (طاعت و بندگی) کو اس کے لیے خالص کر کے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے مسلم بنوں ۳۷*۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ کہو اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو مجھے ایک سخت دن ۳۸*  دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں دین (خضوع و بندگی) کو اس کے لیے خالص کر کے ۳۹*۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ تم اس کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ۴۰*۔ کہو حقیقی خسارہ میں رہنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارہ میں ڈالا۔ سنو یہی کھلا خسارہ ہے ۴۱*۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ ان کے لیے آگ کی تہیں ہوں گی اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ۴۲*۔ یہ ہے وہ چیز جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ۴۳*۔ اے میرے بندو! میرا تقویٰ اختیار کرو ۴۴*۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جن لوگوں نے طاغوت ۴۵* کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے ۴۶*۔ تو میرے ان بندوں کو خوشخبری دے دو۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ جو کلام کو توجہ سے سنتے ہیں اور بہترین معنی کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں ۴۷*۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ کیا جس پر عذاب کا فرمان لاگو ہو گیا ہو (اسے کوئی بچا سکتا ہے ؟) کیا تم اسے بچا سکتے ہو جو دوزخ میں جانے والا ہو؟ ۴۸*

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ان کے لیے (ایسی بلند عمارتیں ہوں گی جن میں) بالا خانوں پر بالا خانے بنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کو زمین کے اندر چشموں کی شکل میں جاری کر دیتا ہے پھر اس سے مختلف قسم کی کھیتیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پھر وہ سوکھ جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی ہیں۔ پھر وہ ان کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ یقیناً اس میں یاد دہانی ہے ۴۹*۔ عقل رکھنے والوں کے لیے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو ؟۵۰* تو تباہی ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کے ذکر کی طرف سے سخت ہو گئے ہیں ۵۱*۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے ۵۲*۔ ایک ایسی کتاب جس کی آیتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ۵۳* اور اس قابل ہیں کہ بار بار دہرائی جائیں ۵۴* اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۵۵*۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۵۶*۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے ۵۷* ہے جس کے ذریعے وہ راہیاب کرتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اور جس پر اللہ راہ گم کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا وہ شخص جو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے چہرہ کو سپر بنائے گا ۵۸*۔ (اور وہ شخص جو عذاب سے محفوظ ہو گا دونوں یکساں ہوں گے ؟) اور ظالموں سے کہا جائے گا جو کمائی تم کرتے رہے ہو ۵۹* اس کا مزا چکھو۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے کے لوگ جھٹلا چکے ہیں تو ان پر ایسے رُخ سے عذاب آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزا چکھایا ۶۰* اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ کاش یہ لوگ جانتے !

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کر دی ہیں ۶۱*۔ تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ عربی قرآن ۶۲* جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ۶۳* تاکہ وہ (عذاب سے) بچیں۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک شخص (غلام) کی جس کی ملکیت میں نزاع کرنے والے کئی آقا شریک ہیں اور دوسرا شخص جو پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے ؟ ۶۴* اللہ کے لیے حمد ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۶۵*۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) تم کو بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے ۶۶*۔

(۳۱۔۔۔۔۔۔پھر قیامت کے دن تم لوگ اپنے رب کے حضور اپنا مقدمہ پیش کرو گے ۶۷*۔

۳۲۔۔۔۔۔۔پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ۶۸* اور سچائی ۶۹* جب اس کے پاس آئی تو اسے جھٹلایا۔ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے ؟

۳۳۔۔۔۔۔۔اور جو سچائی لے کر آیا ۷۰* اور جس نے اس کو سچ مانا ۷۱* ایسے ہی لوگ متقی ہیں ۷۲*۔

۳۴۔۔۔۔۔۔ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے یہ جزا ہے نیکو کاروں کی ۷۳*۔

۳۵۔۔۔۔۔۔تاکہ اللہ دور کر دے ان کے بُرے سے بُرے عمل کو اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے ان کی انہیں جزا دے۔ ۷۴*

۳۶۔۔۔۔۔۔کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ تمہیں ان (معبودوں) سے ڈراتے ہیں جو انہوں نے اس کو چھوڑ کر بنا رکھے ہیں ۷۵* اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ ۷۶*

۳۷۔۔۔۔۔۔اور جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ کیا اللہ غالب اور سزا دینے والا نہیں ہے ؟ ۷۷*

۳۸۔۔۔۔۔۔اگر تم ان سے پوچھو آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ کہیں گے اللہ نے کہو پھر تم نے یہ بھی سوچا کہ جن کو تم پوجتے ہو وہ کیا اس تکلیف کو جو اللہ مجھے پہنچانا چاہے دور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر وہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں ؟ ۷۸* کہو میرے لیے اللہ کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

۳۹۔۔۔۔۔۔کہو اے میری قوم کے لوگو! تم اپنی جگہ کام کرو میں اپنی جگہ کام کرتا رہوں گا۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

۴۰۔۔۔۔۔۔کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر کے رکھ دے گا اور وہ عذاب نازل ہوتا ہے جو اس پر قائم رہنے والا ہو گا۔

۴۱۔۔۔۔۔۔اور ہم نے لوگوں کے لیے یہ کتاب تم پر حق کے ساتھ اتاری ہے ۷۹*۔ تو جو ہدایت حاصل کرے گا وہ اپنے ہی لیے کرے گا اور جو گمراہ ہو گا تو اس کی گمراہی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ ۸۰* اور (اے پیغمبر!) تم ان پر ذمہ دار نہیں مقرر کئے گئے ہو۔ ۸۱*

۴۲۔۔۔۔۔۔اللہ ہی جانوں (روحوں) کو قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان (جانوں) کو بھی جن کو موت نہیں آئی نیند کی حالت میں ۸۲*۔ پھر جن کی موت کا فیصلہ وہ کر چکا ہوتا ہے ان کو وہ روک لیتا ہے ۸۳*۔ اور دوسری جانوں (روحوں) کو ایک مقررہ وقت کے لیے واپس بھیج دیتا ہے ۸۴*۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ۸۵*

۴۳۔۔۔۔۔۔کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو (اس کے حضور) سفارشی بنا رکھا ہے کہو کیا وہ اس صورت میں بھی سفارش کریں گے جبکہ وہ نہ کوئی اختیار رکھتے ہوں اور نہ سمجھتے ہوں ؟ ۸۶*

۴۴۔۔۔۔۔۔کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے ۸۷*۔ آسمانوں اور زمین کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

۴۵۔۔۔۔۔۔جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ ۸۸*

۴۶۔۔۔۔۔۔کہو ۸۹* اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ، غائب اور حاضر کے جاننے والے ، تو اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں وہ اختلاف کر رہے ہیں ۹۰*۔

۴۷۔۔۔۔۔۔اور اگر اِن ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اسی کے بقدر اور بھی ہو تو یہ قیامت کے دن بُرے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۹۱*۔ اور اللہ کی طرف سے وہ کچھ ان کے سامنے آئے گا جس کا ان کو گمان بھی نہیں تھا۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ان کی کمائی کے بُرے نتائج ان کے سامنے آئیں گے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں وہ ا ن کو گھیر لے گی ۹۲ *۔

۴۹۔۔۔۔۔۔جب انسان کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت عنایت کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (اپنے) علم کی بنا پر ملی ہے ۹۳*۔ نہیں بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۹۴*۔

۵۰۔۔۔۔۔۔یہی بات ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی کہی تھی مگر انہوں نے جو کچھ کمایا تھا وہ ان کے کچھ کام نہ آیا ۹۵*۔

۵۱۔۔۔۔۔۔اور اپنی کمائی کے برے نتائج ان کو بھگتنا پڑے۔ اور ان لوگوں میں سے بھی جو ظالم میں وہ اپنی کمائی کے بُرے نتائج سے عنقریب دوچار ہوں گے۔ وہ ہمارے قابو سے نکل جانے والے نہیں ہیں۔

۵۲۔۔۔۔۔۔کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے نپا تلا کر دیتا ہے۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ ۹۶*

۵۳۔۔۔۔۔۔(اے نبی!) کہہ دو کہ (اللہ فرماتا ہے) اے میرے بندو ۹۷* جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے ۹۸* اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ سارے گناہ بخش دے گا۔ ۹۹* وہ بڑا معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۵۴۔۔۔۔۔۔اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور اس کے فرمانبردار بنو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تم کو کوئی مدد مل نہ سکے گی۔ ۱۰۰*

۵۵۔۔۔۔۔۔اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین چیز تمہاری طرف نازل ہوئی ہے ۱۰۱* اس کی پیروی کرو قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔

۵۶۔۔۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہنے لگے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کے معاملہ میں کرتا رہا اور میں مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔ ۱۰۲*

۵۷۔۔۔۔۔۔یا کہنے لگے اگر اللہ نے مجھے ہدایت دی ہوتی تو میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔ ۱۰۳*

۵۸۔۔۔۔۔۔یا جب عذاب کو دیکھ لے تو کہنے لگے اگر مجھے (دنیا میں) لوٹنے کا ایک اور موقع مل جائے تو میں نیک عمل کرنے والوں میں سے بن جاؤں۔ ۱۰۴*

۵۹۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں ، میری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں لیکن تو نے ان کو جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔ ۱۰۵*

۶۰۔۔۔۔۔۔اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ ان کے چہرے سیاہ ہیں۔ ۱۰۶* کیا ان تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہیں ؟ ۱۰۷*

۶۱۔۔۔۔۔۔اور اللہ ان لوگوں کو نجات دے گا ۱۰۸* جو متقی بنے رہے ان کے کامیاب ہونے کی بنا پر۔ ان کو نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ و ہ غمگین ہوں گے۔

۶۲۔۔۔۔۔۔اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر وہ چیز پر نگہبان ہے۔ ۱۰۹*

۶۳۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۱۱۰* اور جنہوں نے اللہ کی آیتوں ۱۱۱* کا انکار کیا وہی لوگ گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔

۶۴۔۔۔۔۔۔کہو اے جاہلو! کیا تم مجھے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو؟ ۱۱۲*

۶۵۔۔۔۔۔۔حالانکہ تمہاری طرف بھی اور تم سے پہلے گزرے  ہوئے (انبیاء) کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم گھاٹے میں رہو گے۔ ۱۱۳*

۶۶۔۔۔۔۔۔(لہٰذا غیر اللہ کی عبادت نہ کرو) بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ ۱۱۴*

۶۷۔۔۔۔۔۔ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ ۱۱۵* قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ ۱۱۶* پاک اور برتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔ ۱۱۷*

۶۸۔۔۔۔۔۔اور صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب بیہوش ہو کر گر پڑیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ چاہے ۱۱۸* (کہ بے ہوش نہ ہوں) پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یکایک لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور دیکھنے لگیں گے۔ ۱۱۹*

۶۹۔۔۔۔۔۔زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ،۱۲۰* اعمال کا ریکارڈ رکھ دیا جائے گا، ۱۲۱* انبیاء اور گواہ حاضر کر دیئے جائیں گے ۱۲۲* اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ۱۲۳* اور ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔

۷۰۔۔۔۔۔۔ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کو وہ خوب جانتا ہے۔

۷۱۔۔۔۔۔۔اور کافروں کی طرف گروہ در گروہ ہنکاتے ہوئے لے جایا جائے گا۔ ۱۲۴* یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دئے جائیں گے ۱۲۵* اور اس کے نگراں ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تمہارے رب کی آیتیں تمہیں سنائی ہوں اور تمہارے اس دن کے پیش آنے سے تمہیں ڈرایا ہو؟ ۱۲۶* وہ کہیں گے ضرور آئے تھے لیکن کافروں پر عذاب کا فرمان پورا ہو کر رہا۔ ۱۲۷*

۷۲۔۔۔۔۔۔کہا جائے گا داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں۔ اس میں ہمیشہ رہو گے۔ تو کیا ہی برا ٹھکانہ ہے متکبروں کا ! ۱۲۸*

۷۳۔۔۔۔۔۔اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا ۱۲۹* یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے گئے ہوں گے ۱۳۰* تو اس کے پاسبان ان سے کہیں گے سلام ہو تم پر، اچھے ہو تم، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔ ۱۳۱*

۷۴۔۔۔۔۔۔وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا ۱۳۲* جس نے ہمارے حق میں اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہم کو زمین کا وارث بنایا ۱۳۳* کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں رہیں ۱۳۴*۔ تو کیا خوب اجر ہے (نیک) عمل کرنے والوں کا! ۱۳۵*

۷۵۔۔۔۔۔۔اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے اپنے رب کی حمد و تسبیح کر رہے ہیں ۱۳۶* اور لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا ۱۳۷* اور کہا جائے گا کہ حمد ہے اللہ رب العالمین کے لیے ۱۳۸*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔یعنی اس کتاب کا پیغمبر پر نازل کیا جانا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس میں کسی کا کوئی دخل نہیں ، نہ شیطان کا اور نہ انسان کا۔ یہ آسمان سے اتاری جا رہی ہے نہ کہ پیغمبر اسے تصنیف کر رہے ہیں۔ یہ قرآن کا بہت بڑا دعویٰ ہے جو اس نے بار بار دہرایا ہے تاکہ اس کتاب کو لوگ عام مذہبی کتابوں میں سے ایک کتاب نہ سمجھ لیں بلکہ یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ یہ اللہ کے حضور سے نازل ہوئی ہے اور اس بنا پر وہ نہایت امتیازی شان کی حامل ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ آج دنیا کی کوئی مذہبی کتاب بجز قرآن کے اپنے کو وثوق کے ساتھ اس حیثیت سے پیش نہیں کرتی کہ اس کا نازل کرنے والا اللہ فرمانروائے کائنات ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔اللہ عزیز (غالب) ہے اس لیے اس کا منصوبہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور اس کا فرمان پورا ہو کر رہتا ہے۔ اور وہ حکیم ہے اس لیے اس کی کتاب بھی حکیمانہ شان کی ہے جس کا مشاہدہ اس کتاب میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔” حق کے ساتھ نازل کی ہے ” کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب حق لے کر نازل ہوئی ہے۔ اس کی تعلیم سراسر حق ہے اور باطل کا اس میں ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے اور نہ کوئی بات بے مقصد کہی گئی ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔” دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے ” اس فقرہ میں دین کا لفظ بندگی اور عاجزی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کی تائید قرآن کی ان متعدد آیات سے ہوتی ہے جن میں مشرکین کے اس طرزِ عمل کا ذکر ہوا ہے کہ جب وہ کسی طوفان وغیرہ سے دوچار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے : واِذاَغشِیہَم موجٌ کالظللِ دَعَوُاللّٰہَ مُخلِصِین لَہٗ الدِّیْنَ (لقمان:۳۲) ” اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں دین (عاجزی و بندگی) کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ ”

یہاں "الدین” کا مطلب دل کا عجز و نیاز اور بندگی ہی ہو سکتا ہے اور یہ مشرکین کی نفسیات کی عکاسی ہے جو طوفان کی زد میں آنے کی صورت میں ان میں پیدا ہو جایا کرتی تھیں۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ دل کا عجز و نیاز، عقیدت (Devotion) اور شانِ بندگی خالصۃً اسی کے لیے ہو۔ ایسی عبادت نہیں جس میں دل اللہ کے سوا کسی اور کی طرف جھکا ہوا ہو اور عجز و نیاز اور بندگی کا نذرانہ کسی اور کو بھی پیش کر دیا جائے۔ اللہ اسی عبادت کو قبول فرماتا ہے جو خلوص دل سے خضوع اور بندگی کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے کی گئی ہو یعنی اس عاجزی و بندگی میں نہ ریا وغیرہ کی آمیزش ہو اور نہ غیر اللہ کے لیے کوئی حصہ۔

واضح رہے کہ لغت میں دین کے معنی اطاعت کے ہیں لیکن محض لغت پر انحصار کر کے قرآن کی اصطلاحات کا جامع مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا بلکہ ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کے سلسلے میں قرآن کے استعمالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے اور محلِ کلام کی مناسبت سے مفہوم متعین کیا جائے۔

۵۔۔۔۔۔۔یعنی ایسی بندگی جو ہر قسم کے شرک سے پاک ہو اللہ ہی کے لیے خاص ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور دین (بندگی) کے مفہوم میں جیسا کہ اوپر کے نوٹ میں واضح کیا گیا۔ عاجزی کی وہ کیفیت جو دل میں پیدا ہوتی ہے نیز اپنے بندہ اور غلام ہونے کا احساس شامل ہے۔

۶۔۔۔۔۔۔مشرکین نے فرشتوں کو اپا کارساز بنایا تھا کہ ان کی پرستش کرو وہ ہمارے کام بنا دیں گے ان کا خیال تھا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے فرشتوں کو وسیلہ بنانا ضروری ہے۔ اور فرشتوں کو وسیلہ بنانے کے لیے وہ ان باتوں کو ان کے حق میں روا رکھتے جو اللہ کے لیے خاص ہیں مثلاً ان سے فریاد کرتے ، اپنی حاجتیں ان سے طلب کرتے ، مصیبت میں انہیں پکارتے ، حالانکہ یہ سب باتیں پرستش میں شامل ہیں اور وہ اس کی توجہ یہ کرتے کہ ہم فرشتوں کی پرستش اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ یعنی فرشتوں کی پرستش اللہ کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ ہے اس آیات میں ان کی اس پر فریب توجہ کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی کی پرستش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ وحدہٗ کی براہِ راست اور پورے اخلاص کے ساتھ پرستش کر کے ہی اس کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔

جو توجیہ مشرکینِ مکہ فرشتوں کی پرستش کے سلسلے میں کرتے تھے وہی توجیہ قبر پرست اولیاء اور پیروں کے معاملہ میں کرتے ہیں کہ ہم ان کی نذر و نیاز اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے وسیلہ سے ہماری رسائی خدا تک ہو۔ اگر وہ قرآن کی ان آیتوں کو بغور پڑھتے تو شیطان کے فریب میں مبتلا نہ ہوتے۔

۷۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن اللہ اپنا فیصلہ نافذ کر دے گا۔

۸۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے بارے میں جھوٹ بولنے والے اور اس کے نام سے جھوٹی دینداری چلانے والے اور اس کی نعمتوں کو پا کر کسی اور کا شکر کرنے والے اللہ کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی اس غلط روش کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہ ہو جائیں۔

۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں ہونے کا تصور سراسر باطل ہے۔ بفرض محال وہ بیٹا بنانا چاہتا تو اس کی صورت ہی ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو بیٹے کی حیثیت سے چن لیتا مگر اس صورت میں بیٹا اس کا مملوک اور بندہ ہی رہتا کیونکہ اس کی تمام مخلوق مملوک ہے اور سب اس کے بندے ہیں۔ خدا کا جزء تو وہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ خدا کا نہ کوئی جز ہوتا ہے اور ہ اس سے کوئی چیز خارج ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے۔ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے بھی کسی کو بیٹے کی حیثیت سے نہیں چنا کیوں کہ کسی کو بیٹے کی حیثیت دینا شانِ خداوندی کے خلاف ہے اور اس سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے اور اللہ ہر قسم کی کمزوریوں اور عیبوں سے پاک ہے۔ اس کی شان اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنا لے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔خدا کے اگر اولاد ہوتی تو خدائی بھی منقسم ہو جاتی (بٹ جاتی) مگر خدائی ناقابل انقسام ہے (بٹ نہیں سکتی) وہ اکیلا ہے اور سب پراس کی گرفت مضبوط ہے اس لیے کوئی مخلوق اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ پھر اس کے لیے اولاد ہونے کا تصور کیا معنی رکھتا ہے !

۱۱۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام نوٹ ۱۲۴ اور سورۂ یونس نوٹ ۱۵۔

۱۲۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۸۔

۱۳۔۔۔۔۔۔وہ غالب ہے اس لیے اس کی نا فرمانی سے تمہیں ڈرنا چاہیے اور وہ بخشنے والا ہے اس لیے تمہیں اپنے گناہوں پر اس سے معافی مانگنا چاہیے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔اس آیت میں ثُمَّ (پھر) کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کی قدرت کی اس کرشمہ سازی کو بھی دیکھو کہ اس نے اسی ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۳ اور سورۂ اعراف نوٹ ۲۹۲۔

۱۵۔۔۔۔۔۔اَنعام (مویشی) سے مراد پالتو چوپائے اونٹ، گائے ، بھیڑ اور بکری ہیں اور ان کے نر و مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہوئیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۲۶۱۔

ان مویشیوں کی تخلیق کیلئے اَنْزلْنَا (ہم نے اتارا) کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی تخلیق اس طرح ہوئی گویا وہ ایک نعمت ہے جو انسان کے لیے آسمان سے نازل کی گئی ہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔تین تاریکیوں (اندھیروں) سے مراد تین پردے ہیں۔ پیٹ رحم اور مشیمہ (وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے) یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انسان کا خالق کھلی اور چھپی ، روشن اور تاریک سب چیزوں کا جاننے والا ہے اور اس کی تخلیق کا کام تاریکیوں میں بھی انجام پاتا ہے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔یعنی ان تین پردوں کے درمیان جنین (بچہ) کو خلقت کے مختلف مراحل سے گزارتا رہتا ہے اور اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی ابھی وہ گوشت کا لو تھڑا تھا اور اب اس نے انسانی صورت اختیار کر لی۔

۱۸۔۔۔۔۔۔یہ ساری کارفرمائی جس کا ابھی ابھی ذکر ہوا ہے اللہ ہی کی ہے۔ ان کاموں میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہی تمہارا رب ہے اور وہی پوری کائنات کا فرمانروا ہے۔ اس کے بعد اللہ کے سوا کسی اور کے خدایا معبود ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کا واحد خدا اور معبود ہونا ایک روشن حقیقت ہے جس کا مشاہدہ تم رات دن کرتے ہو پھر کیا چیز ہے جو تمہیں اس حقیقت سے پھیر دیتی ہے ؟ یہ اشارہ ہے شیطان کی طرف جو انسان کو توحید کی راہ سے منحرف کر کے شرک میں پھنسا دیتا ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔ناشکری در حقیقت کفر ہے۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن اس کے دل میں اس کے لیے جذبۂ شکر نہیں ابھرتا یا ان نعمتوں کو وہ کسی اور کی دین سمجھ کر اس کے آگے نذر و نیاز پیش کرنے لگتا ہے تو وہ بہت بڑی ناشکری کرتا ہے جو سراسر کفر ہے۔ ناشکری کا رویہ اختیار کر کے انسان اللہ کا کچھ نہیں بگاڑتا بلکہ اپنے لیے ہی محرومی کا سامان کرتا ہے۔ اللہ اس بات کا ہرگز محتاج نہیں ہے کہ بندے اس کا شکر کریں۔ اللہ کو نہ بندوں کے شکر سے فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ان کی ناشکری سے نقصان۔ یہ حقیقت حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ :

” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس و جن سب سے زیادہ متقی شخص کے برابر ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہ ہو گا۔ اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس و جن سب سے زیادہ فاجر شخص کے برابر ہو جائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ ” (مسلم کتاب البر)

البتہ جو شخص شکر گزاری کا رویہ اختیار کرتا ہے وہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیتا ہے اور اللہ کو اپنے بندوں کے حق میں یہی بات پسند ہے اس لیے اس کی رضا ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو شکر گزار ہوں۔ برخلاف اس کے ناشکری اللہ کو سخت نا پسند ہے اور جو ناشکرے ہوتے ہیں ان کو اللہ کی رضا حاصل نہیں ہوتی۔

۲۱۔۔۔۔۔۔یعنی ہر شخص کو اپنے گناہ کا بوجھ اٹھانا ہے۔ کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہ اپنے سر نہیں لے گا۔ لہٰذا ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور دوسروں کے کہنے پر گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے اس کے اعمال کا دفتر کھول کر رکھ دیا جائے گا۔

۲۳۔۔۔۔۔۔اللہ کو ہر ہر شخص کے دل کا حال معلوم ہے کہ اللہ کے لیے اس کے دل میں شکر کے جذبات ہیں یا ناشکری کے ، ایمان کا ولولہ ہے یا کفر و معصیت اور محبت ہے یا نفرت۔

۲۴۔۔۔۔۔۔یعنی تکلیف میں دل کی ا نابت (رجوع) کے ساتھ اپنے حقیقی رب کو پکارتا ہے اور دعا کرتا ہے۔

۲۵۔۔۔۔۔۔یعنی جب اللہ اس کی تکلیف کو دور فرماتا اور اسے راحت عطا کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ کبھی وہ تکلیف میں مبتلا تھا اور اس کو دور کرنے کے لیے اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ یہ ہے اس کی ناشکری کی مثال۔

۲۶۔۔۔۔۔۔اللہ کے ہمسر ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ جو معاملہ اللہ ہی کے ساتھ کیا جانا چاہیے وہ معاملہ وہ غیر اللہ کے ساتھ بھی کرنے لگتا ہے مثلاً غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، قربانی اور پرستش کے دوسرے مراسم۔

۲۷۔۔۔۔۔۔یعنی خود تو بھٹک ہی گیا۔ دوسروں کو بھی بھٹکا رہا ہے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔ایسے شخص کا ٹھکانہ بالآخر دوزخ ہی بننے والا ہے۔

اس آیات کی رو سے ایسے شخص کو جو بت پرستی اور کھلے شرک اور کفر میں مبتلا ہو اور توحید قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو متنبہ کر دینا چاہیے کہ وہ جہنمی ہے تاکہ اس پر حجت پوری طرح قائم ہو جائے۔

۲۹۔۔۔۔۔۔قانتٌ کے معنی یہاں عبادت میں سرگرم رہنے کے ہیں اور رات کی گھڑیوں میں عبادت الٰہی میں مشغول رہنا ایمان کی اعلیٰ صفت ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ رات میں آدمی زیادہ سے زیادہ جتنی نماز بھی پڑھ لے فضیلت ہی کی بات ہو گی۔ رکعات کی کوئی قید نہیں ہے۔ سورۂ فرقان میں بھی اس صفت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وّ قِیَاماً ” جو اپنے رب کے آگے سجدہ و قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ ”

۳۰۔۔۔۔۔۔یعنی آخرت میں اللہ کے حضور جوابدہی سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہے۔ اس لیے نہ وہ خوش فہمیوں اور آرزوؤں میں جیتا ہے اور نہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے بلکہ اعتدال پر اپنے کو قائم رکھتا ہے

۳۱۔۔۔۔۔۔یہ جملہ عربی کے اسلوبِ بلاغت کے مطابق محذوف ہے یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوا ہے اس لیے ہم نے اسے قوسین میں کھول دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اللہ کے دو بندے جن میں سے ایک اس سے لرزاں رہتا ہے کہ رات میں اپنی نیند اور اپنے آرام کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں سرگرم ہو جاتا ہے اور اس کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو اللہ سے غافل ہے ،اس کی عبادت کی اس کو کوئی پرواہ نہیں اور وہ اس کی ناشکری کرتا ہے تو کیا دونوں اپنے کردار اور انجام کے لحاظ سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو پھر تم اس کی ناشکری کرتے ہوئے کس طرح اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہو کہ کسی نہ کسی کے واسطہ اور وسیلہ سے تمہیں اللہ کا تقرب حاصل ہو جائے گا؟

۳۲۔۔۔۔۔۔یعنی ان منکرین سے پوچھو۔

۳۳۔۔۔۔۔۔علم سے مراد اللہ کی معرفت، مقصدِ زندگی کا شعور، احکامِ الٰہی سے واقفیت اور آخرت کی جزا و سزا سے آگاہی ہے جو شخص یہ علم رکھتا ہے اور جو شخص یہ علم نہیں رکھتا دونوں کس طرح اپنے وصف میں اور اپنے انجام کے اعتبار سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ یہ حقیقی اور بنیادی علم جو انسان کی زندگی کے رُخ کو متعین کر دیتا ہے ہر شخص کے لیے اس کا حصول نا گزیر ہے۔ جو لوگ اس علم سے بے پرواہ ہو کر جو مادی علوم بھی حاصل کرتے ہیں جہالت کی تاریکیوں ہی میں رہتے ہیں اور اپنے برے انجام سے بے خبر، ہوتے ہیں۔

۳۴۔۔۔۔۔۔یعنی ان باتوں کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ عقل کو ایک خول میں بند رکھ کر ان حقیقتوں کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

۳۵۔۔۔۔۔۔اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر خدائے واحد کی عبادت کرنے اور اس سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارنے میں کفار مزاحم ہو رہے ہیں تو اپنے دین اور ایمان کے تحفظ کے لیے کسی دوسرے علاقہ یا ملک کو ہجرت کر کے جا سکتے ہو۔ اس کی زمین کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ نہایت وسیع ہے۔ اور دین کی خاطر وطن چھوڑا جا سکتا ہے لیکن وطن کی خاطر دین نہیں چھوڑا جا سکتا۔

واضح رہے کہ اس زمانے میں ہجرت کے لیے راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور اگر موجودہ زمانہ میں تقریباً مسدود ہیں تو حالات میں زبردست فرق بھی واقع ہوا ہے۔ اس زمانے میں عقیدہ و مذہب کی آزادی نہیں تھی۔ قبیلہ و قوم کے مذہب کو چھوڑ دینے کی بنا پر اکثر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں قانوناً عقیدہ و مذہب کی آزادی حاصل ہے اور تبدیلیِ مذہب کی بنا پر لازماً تشدد کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ اس لیے ہجرت کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے خاص طور سے سیکولر ریاستوں میں جہاں اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی بھی آزادی حاصل ہوتی ہے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔صبر کرنے والوں سے مراد دینِ حق پر ثابت قدم رہنے والے اور راہِ حق کی مصیبتوں اور تکلیفوں کو جھیلنے والے لوگ ہیں۔ اور بے حساب اجر سے مراد بے اندازہ اجر ہے یعنی اتنا بڑا اجر جس کا وہ اندازہ نہیں کر سکتے۔ اردو میں ” بے شمار” کے الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔

یہ ہے صبر کی فضیلت اور قرآن اسی قسم کے اوصاف پیدا کرنے پر زور دیتا ہے اور ان کی بہت بڑی فضیلت بیان کرتا ہے لیکن ضعیف اور موضوع حدیثوں نے چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا اتنا بڑا اجر بیان کر دیا ہے کہ لوگ ان نیکیوں ہی کا اہتمام کرنے لگے اور ان اوصاف کی طرف سے غافل ہو گئے۔ نتیجہ یہ کہ دین کے معاملہ میں وہ توازن برقرار نہیں رہا جو قرآن نے قائم کیا تھا۔ قرآن سے زیادہ ضعیف اور موضوع حدیثوں سے چپک کر رہنے کا یہ زبردست نقصان ہے جو ملت اسلامیہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

۳۷۔۔۔۔۔۔یعنی مجھے حکم ملا ہے کہ کوئی اپنے کو اللہ کے حوالہ کرے یا نہ کرے میں سب سے پہلے اپنے کو اللہ کے حوالہ کروں۔

مسلم یعنی وہ جس نے اللہ کے دین اسلام کو قبول کر کے اپنے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالہ کر دیا۔

۳۸۔۔۔۔۔۔مراد قیامت کا دن ہے۔

۳۹۔۔۔۔۔۔آیت ۸ میں اللہ کی مخلصانہ عبادت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا تھا۔ اس آیت میں اس کی تعمیل کا ذکر ہوا ہے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔یعنی اگر تم اللہ کی مخلصانہ عبادت نہیں کرنا چاہتے تو پھر جس کی چاہو کرو اور اپنے برے انجام کے لیے تیار رہو۔

۴۱۔۔۔۔۔۔دنیا کے فائدہ وقتی ہیں اور جو لوگ آخرت کو نظر انداز کر کے ان ہی کو حاصل کرنے میں عمریں کھپا دیتے ہیں وہ بہت بڑے خسارہ کا سودا کرتی ہیں۔ یعنی دنیا کے عارضی فائدے کی خاطر آخرت کے جاودانی فائدوں سے محرومی کا۔ مگر ایسے لوگ اس فریب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بڑی کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اور موت کے بعد انہیں کسی نقصان سے دو چار ہونا نہیں ہے وہ اپنے اہل و عیال کو بھی دنیا پرستی ہی کی راہ دکھاتے ہیں اور بالعموم وہ ان ہی کے پیچھے چلتے ہیں اس لیے قیامت کے دن ان کے ساتھ ان کے اہل و عیال بھی تباہ ہوں گے۔

۴۲۔۔۔۔۔۔آگ کی تہیں اوپر سے بھی ہوں گی اور نیچے سے بھی۔ اس طرح وہ آگ میں بالکل گھرے ہوئے ہوں گے۔

۴۳۔۔۔۔۔۔یعنی اس انجام سے ڈراتا ہے۔

۴۴۔۔۔۔۔۔یعنی اس انجام سے دو چار ہونا نہیں چاہیے تو پھر اللہ سے ڈرنے اور اس کی نا فرمانی سے بچنے کی روش اختیار کرو۔

۴۵۔۔۔۔۔۔طاغوت کے معنی امام راغب نے جو قرآنی لغت کے امام ہیں اس طرح بیان کئے ہیں۔

والطاغوت عبارۃ عن کل متعد و کل معبود من دون اللّٰہ۔۔۔۔۔۔۔ سمی الساحر والکاہن و الماردمن الجن و الصارف عن طریق الخیر طاغوتاً۔ ” طاغوت سے مراد ہر وہ فرد ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور ہر وہ معبود ہے جو اللہ کے سوا ہو۔ ۔ ۔ ساحر” کاہن” سرکش جن اور خیر کی راہ سے ہٹانے والے کو طاغوت کہا جاتا ہے۔ ” (مفردات راغب ص۳۰۷) مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۵۵

۴۶۔۔۔۔۔۔خوشخبری ان لوگوں کو دی گئی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کریں کہ غیر اللہ کی پرستش و بندگی سے انہوں نے اپنے کو بچا لیا ہے۔

۴۷۔۔۔۔۔۔دانشمندی یہ ہے کہ آدمی اللہ کے کلام کو توجہ سے سنے اور اس کا بہترین مفہوم اخذ کر کے اس کی اتباع کرے۔ ہدایت کی راہ ایسے ہی لوگوں پر کھلتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ بر خلاف اس کے جو لوگ کلام الہی کو توجہ سے نہیں سنتے اور اس کے بہترین مفہوم کو چھوڑ کر اس کو کچھ اور معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بحث میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور غیر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ ہدایت سے محرومی ہے۔

اس آیت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اگر ایک لفظ کے لغت میں کئی معنی ہوں تو سوچنا چاہیے کہ قرآن میں جہاں وہ لفظ استعمال ہوا ہے کس بہترین مفہوم کو ادا کر رہا ہے کیوں کہ اللہ کا کلام اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے اعلیٰ ہی ہو سکتا ہے۔

۴۸۔۔۔۔۔۔یعنی کافر جس پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ لاگو ہو گیا ہو اسے عذاب سے کون بچا سکتا ہے ؟ اللہ کا رسول بھی اسے بچا نہیں سکتا۔ سلامتی اسی میں ہے کہ لوگ عقل سے کام لیں اور اس کلام کی پیروی کریں جو اللہ کا رسول ان کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

۴۹۔۔۔۔۔۔یاد دہانی اس بات کی کہ یہ دنیا سدا بہار نہیں ہے بلکہ اس پر لازماً خزاں آنے والی ہے۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دنیا کی رونق پر اپنی نگاہوں کو نہ جمائے اور اس کی دلفریبیوں پر نہ ریجھے بلکہ آخرت کو مقصود بنا کر دنیا میں ذمہ دارانہ زندگی گزار ے کہ حقیقی اور جاودانی نعمتیں آخرت ہی کی ہیں۔

۵۰۔۔۔۔۔۔سینہ کھول دینے سے مراد مطمئن کر دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا دل بتوفیقِ الٰہی اسلام پر مطمئن ہو گیا ہو اور وہ اس دین کے بارے میں کسی قسم کا شک ، شبہ اور تنگی محسوس نہ کرتا ہو اسے ہدایت کی روشنی حاصل ہوتی ہے اور وہ اس روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے بارے میں تعصب اور عناد کی بنا پر سخت ہو گیا ہو اور وہ اس روشنی سے محروم ہو کر جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو۔ جو نہ اپنے رب کو پہچانتا ہو اور نہ جسے اپنے مقصدِ زندگی کا شعور ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اعمال کے کیا اثرات و نتائج رونما ہونے والی ہیں۔ ان دونوں اشخاص کو اگر ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات اور متضاد طرزِ عمل کی بنا پر یکساں قرار نہیں دیا جا سکتا تو پھر دونوں کا انجام یکساں کیسے ہو سکتا ہے ؟

۵۱۔۔۔۔۔۔کفر اور معصیت پر اصرار کے نتیجہ میں دل سخت ہو جاتے ہیں۔ پھر نہ انہیں اللہ کے ذکر سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ قبولِ حق کی فطری صلاحیت کھو چکے ہوتے ہیں۔ جس طرح سنگلاخ زمین پر پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح ان سنگ دل لوگوں پر قرآن کی تذکیر کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔

۵۲۔۔۔۔۔۔قرآن بہترین کلام ہے کیونکہ یہ اپنے اندر لفظی اور معنوی، ظاہری اور باطنی ہر قسم کی خوبیوں کو لئے ہوئے ہے۔ اس میں بہترین اسلوب میں بہترین بات کہی گئی ہے ، اس کا اندازہ اس قدر موثر ہے کہ دل میں رقت پیدا ہو جاتی ہے اس کی تلاوت عزم و یقین میں پختگی پیدا کرتی ہے اور اس کی سلاست اور روانی حفظ کو آسان بنا دیتی ہے۔ اس کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مومن اُسے بار بار پڑھتے ہوئے بھی نہیں تھکتا۔

حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے :

فَاِنَّ خَیرَ الْحَدِیثِ کتابُ اللّٰہ ” بلا شبہ بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے۔ ” (ریاض الصالحین بروایۃ مسلم)

لہٰذا اس کتاب کی تلاوت اور اس کے مطالعہ کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جانا چاہیے اور یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی۔

۵۳۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کلام اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی کتاب کی شکل میں نازل فرمایا ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور اس کے مضامین میں کمال درجہ کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس کتاب کا موضوع نہایت وسیع الاطراف ہے۔ اس کے باوجود اس کی باتوں میں کہیں تضاد نہیں ہے اور نہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ سے غیر مربوط ہے۔ اس کو جہاں سے بھی پڑھو کلام کی روح ایک ہی ہو گی اور جمال ہر جگہ نمایاں ہو گا۔

۵۴۔۔۔۔۔۔اس کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کی آیتیں مثانی ہیں یعنی اس قابل ہیں کہ بار بار دہرائی جائیں۔ ان کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے سیری نہیں ہوتی اور شوقِ تلاوت اور بڑھ جاتا ہے۔ نمازوں میں آیتیں بار بار پڑھی جاتی ہیں اور ہر وقت ان کے خوشگوار اثرات قلب و ذہن پر مرتب ہوتے ہیں۔

۵۵۔۔۔۔۔۔اللہ سے ڈرنے والے جب کلامِ الٰہی کی سماعت یا تلاوت کرتے ہیں تو اللہ کی عظمت و جلال کے تصور سے ان پر ایسی ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کلام الٰہی کی یہ زبردست تاثیر ہے جو دلوں میں خشیت پیدا کرتی اور اسے پروان چڑھاتی ہے اور یہ خشیت ہی ہے جو انسان کو صالح اور پرہیزگار بناتی ہے۔ خشیت تو قرآن کی مجرد تلاوت سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ جو قرآن کا اعجاز (معجزہ) ہے لیکن رونگٹے کھڑے ہونے کی کیفیت اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جب کہ قرآن کو معنی و مفہوم کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ کے عذاب سے قرآن میں ڈرایا گیا ہے اور جہنم میں سزا بھگتنے والوں کا جو حال اس میں بیان کیا گیا ہے وہ یقیناً رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے لیکن جو شخص ان آیتوں کو سمجھ کر نہ پڑھے اس پر یہ کیفیت کس طرح طاری ہو گی؟ غور کیجئے فہم قرآن سے بے اعتنائی کتنے بڑے خیر سے محرومی کی موجب ہے۔

آیت سے یہ بات واضح ہے کہ خشیتِ الٰہی کا اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور یہی کیفیت مطلوب ہے۔ رہی وجد کی کیفیت تو یہ سراسر تکلف اور صوفیوں کی اختراع (من گھڑت طریقہ) ہے۔ قرآن اس کے ذکر سے خالی ہے اور سیرتِ رسول بھی۔ صحابۂ کرام جن کو قرآن سے زبردست شغف تھا وہ بھی وجد وغیرہ کی کیفیتوں سے نا آشنا تھے۔ صحابۂ کرام کے قرآن کی تلاوت و سماعت کے بارے میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں۔

” وہ نہ چیختے تھے اور نہ تکلف سے کام لے کر کسی مصنوعی کیفیت کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ وہ ثبات، سکون، ادب اور خشیت میں ایسے ممتاز تھے کہ کوئی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکا۔ ” (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۵۱)

۵۶۔۔۔۔۔۔قرآن میں جہاں اللہ کی عظمت و جلال کا بیان ہے وہاں اس کے غفور اور رحیم ہونے کی صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔ اس لیے رونگٹے کھڑے کرنے والی کیفیت سکون میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جب پڑھنے والے کے سامنے اللہ کی جمالی صفات کا ذکر آتا ہے تو اس کا دل پسیج جاتا ہے وہ اللہ سے پر اُمید ہو جاتا ہے اور اس کے جسم پر سکون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اس سکون و طمانیت کے ساتھ وہ اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور اسے بہ کثرت یاد کرنے لگتا ہے۔ گویا ذکرِ الٰہی سے رغبت قرآن سے تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور بڑھتی ہے۔

۵۷۔۔۔۔۔۔کلامِ  الٰہی کی اس تاثیر کو ہدایت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ اثر قبول کیا اس پر ہدایت کی راہ کھل گئی۔

۵۸۔۔۔۔۔۔کافر قیامت کے دن عذاب کی زد سے اپنے کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا پا کر اپنے چہرہ کو سپر بنانے کی کوشش کرے گا مگر وہ عذاب کی زد سے بچ نہ سکے گا۔ اس کی اسی بے بسی کا یہاں ذکر ہوا ہے۔

۵۹۔۔۔۔۔۔انسان کا ہر عمل اپنا ایک اثر اور نتیجہ رکھتا ہے اس لیے اعمال کو کسَب (کمائی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص محسوس کرے گا کہ جو اچھا یا برا عمل اس نے کیا تھا وہ اس کی اچھی یا بری کمائی تھی جو آج اس کو پوری پوری مل رہی ہے۔

۶۰۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کافروں اور فاسقوں کو دنیا میں بھی سزا دیتا رہتا ہے اس سلسلہ میں بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے جو حساب کتاب کے لیے مقرر ہے کیونکر سزا دی جا سکتی ہے ؟ تو در حقیقت سزا دینے کا معاملہ حساب کتاب پر موقوف نہیں ہے۔ یہ اہتمام تو اس لیے ہے کہ اسے مکمل سزا دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کی حجت اس پر قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں کی ہے بلکہ جو کچھ وہ کرتا رہا ہے اسی کا پھل وہ پا رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آخرت کی عدالت برپا ہونے سے پہلے وہ مجرموں کو کوئی سزا نہ دے گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کافر اور مجرم ہیں اس لیے وہ اپنے اس علم کی بنا پر دنیا میں بھی ان کو عذاب کا مزا چکھاتا رہتا ہے جو عذاب کی محض ایک قسط ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کی روحوں کو عالمِ برزخ میں جس کا دوسرا نام قبر ہے عذاب میں مبتلا رکھتا ہے۔ مگر بے بصیرت لوگ قبر کے عذاب کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حساب کتاب سے پہلے عذاب کیسا؟ مگر ان کے اس شبہ کی تردید کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں پر دنیا میں بھی عذاب نازل کرتا رہا ہے اور عذاب کی یہ قسط ان کو حساب کتاب سے پہلے ہی ملتی رہتی ہے۔

۶۱۔۔۔۔۔۔مثالیں بیان کرنے کا مطلب صرف تمثیلیں بیان کرنا نہیں ہے بلکہ وہ واقعات بھی جن میں عبرت کی باتیں بیان ہوئی ہیں مثلاً ان امتوں کا حال جن کے کفر کی وجہ سے ان پر عذاب آیا۔

۶۲۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یوسف نوٹ ۳۔

۶۳۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۱۔

۶۴۔۔۔۔۔۔یہ مثال ہے مشرک اور مؤحِّد (توحید کو ماننے والے) کی اگر ایک غلام کے مالک متعدد ہوں اور ان کے درمیان نزاع ہو تو اس غلام کا کیا حال ہو گا۔ وہ کس کس کی خدمت انجام دے گا اور کس کس کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا؟ بخلاف اس کے اگر ایک غلام کا مالک ایک ہی ہو تو اس کو صرف اسی کی خدمت کرنا ہو گی اور اسی کو اسے خوش کرنا ہو گا۔ جب ان دونوں کا حال یکساں نہیں ہو سکتا تو متعدد خداؤں کا عقیدہ رکھنے والے شخص کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ہر خدا کی پرستش کرے اور اسے خوش کرنے کی کوشش کرے جو ظاہر ہے سخت پریشانی کا موجب ہے کیونکہ ہر خدا کو خوش نہیں کیا جا سکتا بالخصوص جب کہ ان کا اقتدار متضاد نوعیت کا ہو۔ مثلاً اگر ایک جنگ کی دیوی ہے تو دوسری امن کی دیوی، اگر ایک تباہی لانے والا دیوتا ہے تو دوسرا بناؤ کا سامان کرنے والا، اگر ایک دیوی بیماری لائی ہے تو دوسری سکھ بخشتی ہے۔ اگر ایک بارش کا دیوتا ہے تو دوسرا آگ کا بتائیے آدمی کس کس دیوتا کی پوجا کرے اور کس کس کو خوش کرنے کی کوشش کرے۔ ہندوستان کے مشرکانہ مذہب میں تو ان گنت دیوی دیوتا ہیں۔ اس مذہب کے لوگ جتنے بھی دیوی دیوتاؤں کو پوجیں کچھ نہ کچھ تو باقی رہ ہی جائیں گے۔ وہ نہ سب کی پوجا کر سکتے ہیں اور نہ سب کو خوش کر سکتے ہیں۔ پھر ان کو دلی اطمینان اور سکون کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے ؟

برخلاف اس کے توحید کے ماننے والے کو ایک ہی اللہ کی عبادت کرنا ہے اور اسی کی رضا کا طالب بننا ہے اس لیے وہ ذہنی پریشانی سے بچ جاتا ہے ، اس کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور دل کا سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

۶۵۔۔۔۔۔۔یعنی تعریف کا مستحق اللہ ہی ہے جو بڑی خوبیوں والا ہے۔ مگر اکثر لوگ اس روشن حقیقت کو بھی نہیں جانتے اور دوسروں میں خدائی کی صفات کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے گن گانے لگتے ہیں۔

۶۶۔۔۔۔۔۔مطلب یہ ہے کہ اگر اس صریح حجت کے بعد بھی یہ لوگ پیغمبر کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں۔ مرنا تو سب کو ہے پھر یہ لوگ مر کر کہاں جائیں گے ؟ انہیں لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہو گا۔

آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اِنَّکَ مَیّتٌ (تم کو بھی مرنا ہے) جس سے واضح ہوا کہ نبی کی شخصیت بھی موت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ آپ پر بھی موت وارد ہونے والی تھی اور بعد میں وارد ہوئی اور موت روح کی جسم سے جدائی کا نام ہے اس لیے آپ کے جسم میں روح باقی نہیں رہی۔ البتہ عالمِ برزخ میں آپ کی روح یقیناً زندہ ہے اور زندگی بھی نہایت اعلیٰ و ارفع کیوں کہ جب شہداء کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کے زندہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا تو ایک نبی جس کا مرتبہ شہداء سے بہت بلند ہے اس کا عالم برزخ میں زندہ رہنا شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر اس زندگی کو دنیوی زندگی پر ہرگز قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔

۶۷۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے د ن ہر فریق اپنا اپنا مقدمہ اللہ کے حضور پیش کرے گا۔ توحید کے ماننے والے مشرکوں اور کافروں کے خلاف مقدمہ پیش کریں گے اور مشرکین اور کفار اپنے دفاع کی ناکام کوشش کریں گے۔

۶۸۔۔۔۔۔۔اللہ کے بارے میں کوئی بات بھی ایسی کہنا جو خلافِ واقعہ ہے اس پر جھوٹ باندھنا ہے خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے تعلق سے ہو یا اس کے دین کے تعلق سے مثلاً یہ بات کہنا کہ خدا کے بیٹا یا بیٹیاں ہیں یا یہ کہ تمام مذاہب اس کے نزدیک پسندیدہ ہیں یا یہ کہ اس نے اولیاء کو تصرف کے ایسے اختیارات دئے ہیں کہ وہ حاضر و ناظر بھی ہیں اور فریاد رسی بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ اللہ پر جو جھوٹ بھی باندھا جائے زبردست جسارت کی بات ہے اور ایسا شخص حد درجہ غلط کار اور سب سے بڑا ظالم ہے۔

۶۹۔۔۔۔۔۔سچائی سے مرا قرآن ہے۔

۷۰۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کا پیغمبر جو قرآن لے کر آیا۔

۷۱۔۔۔۔۔۔مراد پیغمبر کے پیرو ہیں جو قرآن اور پیغمبر کو سچا مان کر ان پر ایمان لے آئے۔

۷۲۔۔۔۔۔۔یعنی یہی لوگ در حقیقت اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ایمان” تقویٰ اور حسنِ عمل کے اوصاف جن لوگوں نے اپنے اندر پیدا کر لئے وہ اللہ کے ہاں اس طرح فائزِ المرا (اپنے مقصد میں کامیاب) ہوں گے کہ ان کی تمام آرزوئیں پوری ہوں گے اور وہ جو چاہیں گے وہ انہیں ملے گا۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے انہیں تکلیف اور رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے ان کی زندگی اطمینان ، سکون، راحت اور مسرت کی زندگی ہو گی۔

۷۴۔۔۔۔۔۔یہ نیکو کاروں (محسنین) کی جزا بیان ہوئی ہے کہ اگر ایسے شخص سے کوئی بہت برا عمل بھی سر زد ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دے گا اور اس کے بہترین اعمال کی قدر کرتے ہوئے بہترین جزا عنایت فرمائے گا۔ یہ بات ایسے شخص کے لیے جو نیکی کی زندگی گزارتا ہو اتفاقاً سر زد ہونے والے گناہوں کی بخشش کے سلسلہ میں امید کا بڑا سہارا ہے۔

واضح رہے کہ یہ وعدہ ان لوگوں سے نہیں ہے جو مسلمان ہو کر فسق و فجور کی زندگی گزارتے ہیں۔ آیت کے الفاظ فاسقوں اور فاجروں پر کسی طرح چسپاں نہیں ہوتے۔

۷۵۔۔۔۔۔۔یعنی انہوں نے جو جھوٹے معبود بنا کر  رکھے ہیں وہ ان سے تمہیں ڈراتے ہیں کہ کہیں وہ تمہیں آفت اور مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں۔ یہ ان کی محض وہمی باتیں ہیں ورنہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکے نہ بتوں کے اختیار میں اور نہ دیوی دیوتاؤں کے اختیار میں۔

۷۶۔۔۔۔۔۔ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو قاعدہ مقرر کر رکھا ہے اسی کے مطابق آدمی ہدایت پاتا ہے یا گمراہ ہو جاتا ہے۔ کسی گمراہ شخص کو ہدایت دینا کسی کے بس کی بات نہیں اور نہ کسی ہدایت یافتہ کو گمراہ کرنا کسی کے بس کی بات ہے۔ شیطان گمراہی کی طرف بلا تو سکتا ہے لیکن زبردستی کسی کو گمراہ نہیں کر سکتا۔

۷۷۔۔۔۔۔۔اللہ غالب ہے اس لیے اس کے احکام نافذ ہو کر رہتے ہیں اور وہ سزا دینے والا ہے اس لیے جہاں حق و عدل کا تقاضا ہوتا ہے اس کی سزا کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ یہ تنبیہ ہے کافروں اور مشرکوں کو کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ ان کے کفر، شرک اور بغاوت کی سزا نہیں دے گا۔

۷۸۔۔۔۔۔۔یعنی جب تم مانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ ہی ہے نہ کہ بت یا دیوی اور دیوتا پھر نفع و نقصان پہنچانے والے بھی وہی ہے۔ تم نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ اس کے ارادہ کو نافذ ہونے سے کس طرح روک سکتے ہیں ؟ پھر جو ذات حقیقت میں نفع و نقصان پہنچانے والی ہے اس کو چھوڑ کر ان کو نفع و نقصان پہنچانے والا سمجھنا کیسی نا معقول بات ہے۔

۷۹۔۔۔۔۔۔یعنی اس کتاب کا اللہ کی طرف سے نازل ہونا بھی بر حق ہے اور اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ بھی حق ہی حق ہے اور یہ اس لیے نازل کی گئی ہے تاکہ اس کی افادیت عام ہو اور لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں۔

۸۰۔۔۔۔۔۔قرآن جس راہ کی طرف بلا رہا ہے اس کو جو شخص بھی قبول نہیں کرے گا وہ گمراہ ہے اور اس گمراہی کا خمیازہ اسی کو بھگتنا ہو گا۔

۸۱۔۔۔۔۔۔یعنی تم ان کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہو۔

۸۲۔۔۔۔۔۔موت کی حقیقت تو نفس انسانی کی __ جس کا دوسرا نام روح ہے __جسم سے مکمل جدائی ہے۔ اسی سے ملتی جلتی کیفیت نیند میں بھی ہوتی ہے جب کہ تمیز (شناخت) اور فہم و ادراک کی قوتیں معطل ہو جاتی ہیں۔ اس لیے نیند کی حالت کو بھی موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

وَہُوَا الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بالَّلیْلِ ” اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہیں وفات دیتا ہے۔ ” (انعام: ۶۰)

گویا شعور کا غائب ہو جانا نفسِ انسانی کا غائب ہو جانا ہے یہ کس طرح غائب ہوتا اور کہاں جاتا ہے اس سے ہم بالکل لا علم ہیں البتہ قرآن ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ اللہ اسے قبض کرتا ہے اور بے شعوری کی یہ حالت موت کے مترادف ہے۔

۸۳۔۔۔۔۔۔یعنی نیند کی حالت میں جن کی قضا آتی ہے ان کو پھر شعور کی حالت میں نہیں لایا جاتا اور یہ واقعہ ہے کہ کتنے ہی لوگ نیند کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

۸۴۔۔۔۔۔۔یعنی جن کی موت کا فیصلہ نہیں ہو چکا ہوتا ان کا شعور واپس لوٹ آتا ہے اور وہ بیدار ہو جاتے ہیں۔ شعور کی یہ واپسی گویا نفسِ انسانی کی واپسی ہے جو اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔

۸۵۔۔۔۔۔۔نشانیاں اللہ کے کمالِ قدرت کی، نفسِ انسانی پر اس کے اقتدار اور غلبہ کی، اس کے علم اور اس کی رحمت کی نیز اس بات کی کہ زندگی و موت اسی کے ہاتھ میں ہے اور نیند کے بعد بیداری موت کے بعد زندہ ہونے کی واضح مثال بھی ہے اور دلیل بھی۔ لیکن ان نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو غور و فکر کرنے والے یعنی بیدار مغز ہوتے ہیں۔ رہے بے شعور لوگ تو وہ سوتے ہی رہیں گے۔ ان کو ہوش اس وقت آئے گا جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں گے۔

۸۶۔۔۔۔۔۔مراد بت ہیں جن کی پرستش کی ایک توجیہ ان کے پرستار یہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری پرستش سے خوش ہو کر خدا کے حضور ہمارے لیے سفارش کریں گے اور ہمیں مصیبت اور عذاب سے بچا لیں گے اور اگر آخرت برپا ہوئی تو ہمیں پروانۂ نجات دلا کر رہیں گے۔ گویا ان کی پرستش واسطہ اور وسیلہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی نا معقولیت ان پر واضح کرنے کے لیے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ وہ سفارش کس طرح کریں گے جب کہ نہ ان کو سفارش کا کوئی اختیار ہے اور نہ وہ عقل رکھتے ہیں کہ کسی کی پکار سن سکیں اور اس کے حق میں سفارش کر سکیں۔ یہ مٹی اور پتھر کے بت کیا خاک سفارش کریں گے !

۸۷۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کے عذاب سے نجات دلانا کسی کے اختیار میں نہیں۔ کوئی نہیں جو اس کے حضور کسی کو عذاب سے بچانے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے کجا یہ کہ وہ سفارش منوا کر رہے۔

سفارش (شفاعت) کا غلط تصور ہی ہے جو آدمی کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ نجاتِ اخروی کے معاملہ میں بے فکر ہو جاتا ہے۔ قرآن نے جا بجا اس بات کی صراحت کی ہے کہ شفاعت پر تکیہ کئے رہنا صحیح نہیں۔ نجات کا دار و مدار عمل پر ہے۔ شفاعت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو گی اور وہ جن کو اجازت دے گا اور جس وقت دے گا وہ ان کے حق میں شفاعت کر سکیں گے جن کے لیے شفاعت وہ پسند فرمائے گا۔ اور مشرکین کے لیے تو شفاعت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیوں کہ شرک ناقابل معافی گناہ ہے۔

۸۸۔۔۔۔۔۔یہ ہے شرک کرنے والوں کی ذہنیت۔ اللہ کے ذکر سے انہیں دلچسپی نہیں ہوتی۔ جب اس کی وحدانیت کی بات کی جاتی ہے تو وہ ناگواری محسوس کرنے لگتے ہیں اور جب ان کے ٹھہرائے  ہوئے شریکوں کا نام ان کے سامنے آتا ہے تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔

مسلمانوں میں سے بھی وہ لوگ جنہوں نے انبیاء اور اولیاء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے یا رسول اللہ! یا غوث! جیسے نعرے لگانا اور سننا بہت پسند کرتے ہیں لیکن توحید کی باتیں کہ الہ کے سوا نہ کوئی حاضر و ناظر ہے اور نہ غوث (یعنی فریاد کو پہنچنے والا) سننا تک گوارا نہیں کرتے۔

۸۹۔۔۔۔۔۔خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اور آپ کے واسطہ سے اہلِ ایمان سے ہے۔

۹۰۔۔۔۔۔۔یہ دعائیہ انداز میں اللہ پر توکل کا اظہار ہے۔

۹۱۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ نوٹ ۱۲۴۔

۹۲۔۔۔۔۔۔یعنی عذاب۔

۹۳۔۔۔۔۔۔یعنی اپنی قابلیت اور ہنر وغیرہ کی وجہ سے حالانکہ اسے کہنا چاہیے تھا کہ یہ نعمت مجھے اللہ کے فضل اور اس کے احسان کی وجہ سے ملی ہے مگر وہ اپنی قابلیت کے زعم میں اپنے محسن کو بھول جاتا ہے۔ اگر قابلیت کی بنیاد پر آدمی کے لیے دنیوی نعمتیں حاصل کرنا ممکن ہوتا تو کتنے ہی قابل لوگ محروم نہ رہ جاتے اور کتنے ہی ایسے لوگ جو علم اور قابلیت نہیں رکھتے دنیوی مال و متاع کی فراوانی سے بہرہ مند نہ ہوتے۔

۹۴۔۔۔۔۔۔یعنی بہت سے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ نعمتیں اللہ ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتی ہیں اور اس لیے عطاء کی جاتی ہیں تاکہ وہ وجہ آزمائش بنیں کہ ان کو پا لینے کے بعد آدمی اللہ کا احسان مانتا ہے یا نہیں اور اس کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں۔

۹۵۔۔۔۔۔۔یعنی گزری ہوئی قومیں بھی مال و دولت کی فراوانی اور اپنی مادی ترقی کو اپنے ہنر اور سائنس کا نتیجہ قرار دیتی اور ان پر اتراتی رہیں ہیں لیکن جب ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا تو یہ چیزیں ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکیں۔

۹۶۔۔۔۔۔۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ روم نوٹ ۶۶۔

۹۷۔۔۔۔۔۔” اے میرے بندو” سے مراد اللہ کے بندے ہیں نہ کہ رسول کے اور یہ بات نفسِ مضمون سے بھی واضح ہے اور قرآن کے دوسرے بہت سے مقامات سے بھی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یا  عبادی کہہ کر خطاب کیا ہے نیز اس لیے بھی کہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہی ہے کہ تمام انسان اللہ ہی کے بندے ہیں کسی اور کے نہیں۔ پھر اس آیت میں رسول کے بندے مراد لینے کا کیا تک ہے ؟ مگر بدعتی تفسیر میں ایسی بے تکی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں اور بڑی جسارت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ تمام مسلمان حضور کے بندے ہیں جب کہ عربی کی مستند تفاسیر میں سے کسی میں بھی یہ معنی بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اصل میں قرآن کا اسلوب ایجاز (اختصار) کا ہے۔ اس لیے وہ ان الفاظ کو حذف کر دیتا ہے جن پر مضمون دلالت کرتا ہے مگر جو لوگ اپنی بدعتوں کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ الفاظ میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ان کو صدف سے مطلب ہوتا ہے گہر سے نہیں۔

اللہ کے ارشاد کا مطلب بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے گنہگار بندوں سے کہ دو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔

۹۸۔۔۔۔۔۔یعنی گناہ کئے ہیں۔

۹۹۔۔۔۔۔۔یہ گنہگاروں کے لیے نہایت امید افزا پیام ہے۔ گناہ خواہ کیسے ہی بڑے بڑے سر زد ہوئے ہوں۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اصلاح کا موقع باقی ہے۔ اگر توبہ کر کے اپنا طرزِ عمل درست کر لو تو اللہ تمہارے وہ سارے گناہ جو تم سے سر زد ہو چکے ہیں معاف کر دے گا لہٰذا اپنی روش بدلو اور اللہ کی رحمت و مغفرت کے مستحق بنو۔

آیت کا یہ مفہوم بعد والی آیتوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے جن میں اللہ کی طرف رجوع کرنے ، اس کا فرمانبردار بننے اور قرآن کی اتباع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ایسا نہ کرنے پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس لیے اس سیاقِ کلام Context میں آیت کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ جتنے چاہو گناہ کرتے رہو اللہ تعالیٰ سب کو بخش دے گا۔ آیت کا منشاء گنہگار کو گناہ کا لائسنس دینا نہیں بلکہ ان کو توبہ اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہے خاص طور سے مشرکین اور کفار کو جن کی زندگیاں گناہوں سے آلودہ رہی ہیں۔

علامہ ابن کثیر نے اس پر اچھی روشنی ڈالی ہے۔

” یہ آیتِ کریمہ کافروں اور دیگر تمام گناہگاروں کو توبہ و انابت کی دعوت دیتی ہے اور خبر دیتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے تمام گناہ معاف کر دے گاجو گناہوں سے توبہ کریں گے اور ان سے باز آئیں گے خواہ وہ کیسے ہی ہوں اور سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس آیت کو توبہ نہ کرنے والوں پر محمول کرنا صحیح نہ ہو گا۔ کیونکہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جائے گا۔ ” (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص۵۸)

۱۰۰۔۔۔۔۔۔آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اولین مخاطب مشرکین اور کفار ہیں۔ انہیں توبہ کر کے اسلام قبول کرنے (اللہ کا فرمانبردار بننے) کی دعوت دی گئی ہے۔

۱۰۱۔۔۔۔۔۔مراد قرآن ہے۔

۱۰۲۔۔۔۔۔۔یعنی اگر تم نے قرآن کی اتباع نہیں کی تو قیامت کے دن پچھتانا پڑے گا۔ اللہ کے معاملہ میں جس نے بھی کوتاہی کی ہو گی یعنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا ہو گا وہ اس پر افسوس کرے گا اور اس وقت اسے احساس ہو گا کہ قرآن اور اسلام کو مذاق بنا لینا کتنی زبردست غلطی تھی۔

۱۰۳۔۔۔۔۔۔اللہ نے قرآن کے ذریعے تمام انسانوں کی ہدایت کا سامان کر دیا ہے تاکہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اگر اللہ نے مجھے ہدایت دی ہوتی تو میں متقی بن گیا ہوتا۔

۱۰۴۔۔۔۔۔۔یعنی عذاب کو دیکھ لینے کے بعد امتحان کا موقع باقی نہیں رہے گا اور دنیا میں لوٹائے جانے کی تمنا ہرگز پوری نہیں ہو سکے گی لہٰذا چاہیے کہ ہر شخص اللہ کے تعلق سے اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور حق کو قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے میں پس و پیش نہ کرے۔

۱۰۵۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن ان پچھتانے والوں سے کہا جائے گا کہ تم نے ہدایت حاصل کیوں نہیں کی اور نیک کیوں نہیں بنے جب کہ میری آیتیں (احکام) تمہارے پاس پہنچ چکی تھیں ؟ ان کو قبول کرنے میں کیا عذر مانع تھا؟ تم نے تو ان کو جھٹلا دیا تھا اور گھمنڈ کرتے رہے اور اخیر وقت تک انکار (کفر) پر بہ ضد رہے لہٰذا تم اپنے کئے کے ذمہ دار ہو اور اب تمہیں عذاب ہی بھگتنا ہو گا۔

۱۰۶۔۔۔۔۔۔جھوٹ اور پھر وہ اللہ پر بولا جائے چہرہ کی رونق کو ختم کر دیتا ہے اور قیامت کے دن تو اس گناہ کی سیاہی چہرہ کو بالکل سیاہ کر کے رکھ دے گی۔

۱۰۷۔۔۔۔۔۔یعنی جو لوگ اللہ کی بات ماننے کے بجائے اپنی بات پر مصر رہتے ہیں وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے مقابل میں تکبر (بڑائی) کریں ان کا ٹھکانہ بجا طور پر جہنم ہی میں ہو سکتا ہے کیونکہ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ سے بغاوت و سرکشی کی سزا جہنم ہو۔

۱۰۸۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن عذاب سے بچا لے گا۔

۱۰۹۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ ایک ایک چیز کی نگہبانی کر رہا ہے ایک ایک شخص پر وہ نگاہ رکھے  ہوئے ہے۔

۱۱۰۔۔۔۔۔۔یعنی وہی آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک اور متصرف (اپنے اختیارات استعمال کرنے والا) ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس کا ان خزانوں پر اختیار ہو کہ کسی کو کچھ دلا سکے۔ نہ بت، نہ دیو اور نہ ولی۔

۱۱۱۔۔۔۔۔۔آیتوں سے مراد توحید کی نشانیاں بھی ہیں ، اللہ کے احکام بھی اور قرآن کی آیتیں بھی۔

۱۱۲۔۔۔۔۔۔یہ سخت جواب ہے ان جاہلوں کو جو توحید کے دلائل واضح ہو جانے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اصرار کر رہے تھے کہ آپ بھی ان کے بتوں کی پوجا کریں۔ ایسے نادانوں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہوتا ہے اس لیے حکمتِ دعوت کا تقاضا ہے کہ انہیں سخت تنبیہ کی جائے اور جاہل کہہ کر انہیں خطاب کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ممکن ہے وہ چونک جائیں۔

۱۱۳۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب ہے کہ ہم نے تم پر بھی یہ وحی بھیجی ہے اور تم سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان پر بھی یہ وحی بھیجی تھی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے تمام اعمال اکارت جائیں گے اور تم تباہ ہو کر رہ جاؤ گے۔ ہر نبی کو شرک سے بچنے کی اس سختی کے ساتھ جو تاکید کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ شرک ایسا سنگین گناہ ہے کہ اس معاملہ میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک نبی سے بھی شرک کے سر زد ہونے کا احتمال ہوتا ہے بلکہ یہ بات اس لیے ارشاد ہوتی ہے تاکہ شرک کی سزا کے معاملہ میں اللہ کے قانون کا بے لاگ ہونا واضح ہو جائے۔

۱۱۴۔۔۔۔۔۔واضح ہوا کہ اللہ کا شکر گزار وہی ہو سکتا ہے جو صرف اس کی عبادت کرے۔ بت پرست اور مشرک اللہ کا شکر گزار ہرگز نہیں ہو سکتا۔

۱۱۵۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کی عظمت کا صحیح تصور وہ نہ کر سکے اور اس کے مرتبہ کو وہ جان نہ سکے۔

۱۱۶۔۔۔۔۔۔اس سے اللہ کی عظمت کا تصور قائم ہوتا ہے۔ قیامت کے دن زمین کا اس کی مٹھی میں ہونا اور آسمانوں کا اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہونا اس کے کمالِ قدرت اور کمالِ تصرف کا مظہر ہو گا۔ قیامت کے دن جب لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے تو انہیں اللہ کی عظمت کا صحیح اندازہ ہو گا۔ یہاں یہ بحث فضول ہے کہ اللہ کی مٹھی اور ہاتھ سے مراد کیا ہے۔ تاویل کے چکر میں پڑے بغیر مدعا کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے اور مدعا بالکل واضح ہے۔ جہاں تک سلف کا تعلق ہے وہ کہتے تھے کہ اس کلام کا منشا لوگوں کو اللہ کی عظمت اور اس کے جلال سے آگاہ کرنا ہے لیکن وہ اللہ کی مٹھی اور ہاتھ کو مجاز پر محمول نہیں کرتے تھے ساتھ ہی اللہ کو جسم اور اعضاء سے منزہ (پاک) قرار دیتے تھے۔ (دیکھئے تفسیر روح المعانی جزء ۲۴ ص ۲۶) در حقیقت اللہ کی صفات کے معاملہ میں عقیدہ کا مسئلہ بڑا ہی نازک ہے اور بعد والوں نے کلامی (فلسفیانہ) بحثوں میں پڑ کر مسئلہ کو بہت الجھا دیا ہے اس لیے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ آدمی سلف کے طریقہ کو اختیار کرے۔ اور اللہ کے لیے مٹھی ، ہاتھ وغیرہ کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی کوئی تاویل نہ کرتے ہوئے کلام کے اصل مدعا کو سمجھنے کی کوشش کرے۔

آیت کے مدعا کو صحیح مسلم کی حدیث مزید واضح کرتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اس آیت کو منبر پر پڑھا۔ آپ اپنی انگلیوں کو بند کرتے اور کھولتے ہوئے فرما رہے تھے : اللہ آسمانوں اور زمین کو اپنے دونوں ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا میں ہوں اللہ، میں ہوں بادشاہ، عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ منبر نیچے سے ہل رہا ہے یہاں تک کہ مجھے اندیشہ محسوس ہوا کہ کہیں منبر آپ کے ساتھ گر نہ پڑے (مسلم کتاب صفات المنافقین)

۱۱۷۔۔۔۔۔۔جب زمین و آسمان اللہ کے دستِ قدرت میں ہیں تو پھر کسی اور خدا کا وجود کہاں رہا؟

۱۱۸۔۔۔۔۔۔قیامت کا پہلا صور جب پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان کی تمام ذی عقل اور ذی روح مخلوق پر سخت دہشت طاری ہو گی (جیسا کہ سورۂ نمل آیت ۸۷ میں بیان ہوا ہے) اور پھر سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور جو انسان زمین پر ہوں گے وہ سب مر جائیں گے۔ قیامت کی بے ہوشی سے وہی فرشتے اور روحیں مستثنیٰ ہوں گی جن کو اللہ کی مشیت مستثنیٰ قرار دینے کی متقاضی ہو گی۔ اور اس کا علم اللہ ہی کو ہے کہ وہ کن افراد کو مستثنیٰ قرار دے گا۔

۱۱۹۔۔۔۔۔۔دوسرے صور کے تعلق سے انسان کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ پھونکا جائے گا تو تمام انسان فوراً زندہ ہو کر قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرت سے دیکھنے لگیں گے کہ یہ ہم کس عالم میں پہنچ گئے ہیں۔

۱۲۰۔۔۔۔۔۔سورج کی بساط تو پہلے ہی لپیٹی جاچکی ہو گی اس لیے میدانِ حشر میں نئی روشنی کا انتظام ہو گا اور وہ یہ کہ اللہ کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی۔ اس نور کی نسبت اللہ کی طرف کس معنی میں ہے اس کا تعین کرنا ہمارے لیے مشکل ہے کیونکہ یہ محض قیاسی بات ہو گی جس سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ یہ بات بخوبی واضح ہے کہ جب زمین اس روشنی سے جگمگا اٹھے گی تو ہر چیز اپنی اصل حالت میں دکھائی دے گی۔ کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی اور غیر مرئی (جو نہ دیکھی جا سکے) نہیں رہے گی۔ انسان کی نگاہ بھی بہت تیز ہو گی اور جو حقیقتیں اس کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں ان کا وہ عینی مشاہدہ بھی کر لے گا۔

۱۲۱۔۔۔۔۔۔یعنی اللہ کی عدالت برپا ہو گی تمام انسانوں کے اعمال کا ریکارڈ جو دنیا میں فرشتے تیا ر کرتے رہے ہیں سامنے رکھ دیا جائے گا۔

۱۲۲۔۔۔۔۔۔انبیاء عدالتِ الٰہی میں حاضر ہو کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا تھا اور انہوں نے یہ اور یہ جواب دیا۔ دوسرے گواہوں سے مراد انبیاء علیہم السلام کے سچے پیرو ہیں جنہوں نے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دی تھی وہ بھی گواہی دیں گے کہ انہوں نے لوگوں تک دعوت پہنچائی تھی۔

۱۲۳۔۔۔۔۔۔یعنی اعمال کے ریکارڈ اور گواہوں کے بیان کے بعد ہر ہر فرد کے بارے میں فیصلہ چکا دیا جائے گا اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ حق و عدل کے ساتھ فرمائے گا۔

۱۲۴۔۔۔۔۔۔یہ سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں اس وقت کا مشاہدہ کرا دیا گیا ہے جب عدالتِ الٰہی فیصلہ سنا چکی ہو گی اور کافروں کو جہنم کی طرف اور متقیوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ قرآن نے قیامت کے اس واقعہ کی اس طرح عکاسی کی ہے کہ گویا جہنم اور جنت اس دنیا ہی میں بے نقاب ہو کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس سے یقین کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ منطقی استدلال سے نہیں ہو سکتی۔

سورہ کے آغاز اور اس کے مرکزی مضمون کے پیش نظر یہاں کافروں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے توحید کو قبول کرنے اور اللہ کی مخلصانہ عبادت کرنے سے انکار کیا، قرآن اور اس کے پیغمبر کو جھٹلاتے رہے ، آخرت کے انجام کی کوئی پرواہ نہیں کی اور شرک، بت پرستی اور بد عقیدگی میں مبتلا رہے۔

۱۲۵۔۔۔۔۔۔جہنم قید خانہ ہے جس کے دروازے مجرموں کے وہاں پہنچنے پر کھول دئے جائیں گے۔

۱۲۶۔۔۔۔۔۔یعنی جہنم کے دروازوں پر جو فرشتے مامور ہوں گے وہ ان مجرمین سے کہیں گے کہ کیا اللہ کی حجت اس کے رسولوں کے ذریعہ تمہارے پاس پہنچی نہ تھی اور کیا تمہیں اس دن کی پیشی سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا؟ پھر تم کیوں کافر بنے رہے ؟

۱۲۷۔۔۔۔۔۔وہ اعتراف کریں گے کہ اللہ کے رسولوں کے ذریعہ ہم پر حجت قائم ہوئی تھی لیکن عذاب ہمارے لیے مقدر تھا اس لیے ہم حق کا انکار کرتے رہے۔ وہ اپنے جرم کی کوئی توجیہ نہ کر سکیں گے۔ اس لیے اپنی قسمت ہی کو روئیں گے۔

۱۲۸۔۔۔۔۔۔اللہ کے مقابل میں تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم ہے اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔ اتنی کڑی سزا کو سن کر بھی جو لوگ ٹس سے مس نہ ہوں وہ عذاب کو دیکھ کر ہی ہوش میں آ سکتے ہیں۔

۱۲۹۔۔۔۔۔۔کافروں اور متکبروں کے مقابلہ میں متقیوں کا انجام بیان ہوا ہے۔ واضح ہوا کہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کا رویہ تکبر کرنے والوں کے رویہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ گناہ کے ہر کام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ تکبر کرنے والے گناہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

متقیوں کو کامیابی کا فیصلہ جب سنایا جائے گا تو انہیں فرشتے جنت کی طرف لے چلیں گے۔ ان کی یہ روانگی نہایت شاندار طریقہ پر گروہوں کی شکل میں ہو گی۔ گویا متقیوں کے جلوس فرشتوں کے جِلو میں پوری شان و شوکت کے ساتھ ابدی کامیابی کی منزل کی طرف روانہ ہوں گے۔ کتنا دل خوش کن منظر ہو گا وہ!

۱۳۰۔۔۔۔۔۔یعنی جنت کے دروازے ان کے استقبال کے لیے پہلے ہی سے کھول دیئے گئے ہوں گے گویا جنت ان کی منتظر ہو گی۔

۱۳۱۔۔۔۔۔۔جنت کے پاسبان ان گروہوں کا بڑا پر تپاک استقبال کریں گے۔ ان کا خیر مقدم وہ سلام سے کریں گے اور ان کی پاکیزگی اور اچھائی کا ذکر کر کے ان کی قدر افزائی کریں گے۔ وہ انہیں جنت میں داخل ہونے کے لیے کہیں گے اس خوشخبری کے ساتھ کہ یہاں تم ہمیشہ رہو گے۔

۱۳۲۔۔۔۔۔۔جنت میں داخل ہونے والوں کی شان یہ بھی ہو گی کہ وہ اس میں داخل ہوتے ہی اللہ کا شکر ادا کریں گے اور ان کی زبان پر اللہ کے لیے حمد کے کلمات ہوں گے۔

۱۳۳۔۔۔۔۔۔زمین سے مراد جنت کی زمین ہے اور اس کا وارث بنانے کا مطلب اس کا مالک بنا دینا ہے۔

۱۳۴۔۔۔۔۔۔یعنی جنت نہایت وسیع ہو گی اس لیے اپنے محل سے باہر سیر و تفریح کرنے اور قیام کرنے کے پورے مواقع حاصل ہوں گے۔

۱۳۵۔۔۔۔۔۔جنت کے بارے میں بہ کثرت لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ مفت میں ملے گی لیکن یہ آیت اس اصولی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جنت نیک عمل کرنے والوں کو اجر کے طور پر دی جائے گی۔

۱۳۶۔۔۔۔۔۔یعنی قیامت کے دن تم بہ سر چشم دیکھو گے کہ فرشتے اللہ کی عبادت میں سرگرم ہیں۔ وہ عرشِ الٰہی کے گرد حلقہ بنا کر اجتماعی طور پر اللہ کی تسبیح کرنے اور اس کے گن گانے میں مشغول ہیں۔ اللہ کی عظمت اور اس کی شان کو ظاہر کرنے والا یہ منظر کتنا روح پرور ہو گا!

۱۳۷۔۔۔۔۔۔یعنی تمام انسانوں کے درمیان ان کے انجام کے تعلق سے فیصلہ چکا دیا گیا ہو گا اور یہ فیصلہ حق و عدل کی بنیاد پر کر دیا گیا ہو گا جو شخص اپنے عمل کے اعتبار سے جس چیز کا مستحق ہو گا۔ وہی چیز اس کو بدلہ میں دی جائے گی۔ نا انصافی کسی کے ساتھ بھی نہیں ہو گی۔

۱۳۸۔۔۔۔۔۔یعنی تمام لوگوں کو فیصلہ چکا دینے کے بعد صدا اٹھے گی کہ اللہ رب العالمین کے لیے حمد ہی حمد ہے۔ کیونکہ حمد کا حقیقتاً مستحق اللہ ہی ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے اپنی عدالت برپا کر کے جو فیصلے چکا دیئے وہ کمال درجہ عدل پر مبنی تھے نیز اس لیے بھی کہ اس موقع پر اس کے عدل کی صفت ہی ظاہر نہیں ہوئی بلکہ اس کی یہ شان بھی ظاہر ہوئی کہ وہ کمال درجہ کی خوبیوں سے متصف ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴۰) سورۃ المُؤمِنون

 

(آیات: ۸۵)

 

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۲ میں ایک مردِ مومن کا قصہ بیان ہوا ہے جس نے فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ” المومن” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ زر کے متصلاً بعد نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ میں ان لوگوں پر گرفت کی گئی ہے جنہوں نے توحید کے خلاف بحثیں کھڑی کر دی تھیں اور جو رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے تھے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۲ تمہیدی آیات ہیں جن میں اس کتاب کے نازل کرنے والے کی معرفت بخشی گئی ہے۔

آیت ۴ تا ۶ میں اللہ کی آیتوں میں بحثیں کھڑی کرنے والوں کو برے انجام سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

آیت ۷ تا ۹ میں اہل ایمان کو یہ روح پرور خوشخبری سنائی گئی ہے کہ ان کی مغفرت کے لیے فرشتے دعا کرتے ہیں۔

آیت ۱۰ ۲۲ میں کافروں اور مشرکوں کو تنبیہ اور نصیحت ہے۔ آیت ۲۲ تا ۴۶ میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے مقابلہ میں فرعون نے جو کٹ حجتی کی تھی اس کو بیان کیا گیا ہے اور اسی ضمن میں اس مردِ مومن کی دعوتِ ایمانی کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جو اس نے فرعون کے بھرے دربار میں پوری جرأت کے ساتھ پیش کی تھی اور پھر آلِ فرعون کا انجام بھی بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۴۷ تا ۵۵ میں ان لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے جو آنکھیں بند کر کے بڑے بننے والوں کے پیچھے چلتے ہیں ساتھ ہی اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کی مخالفتوں کا کوئی اثر قبول نہ کریں بلکہ اپنے موقف پر جمے رہیں۔

آیت ۵۶ تا ۵۸  میں اللہ کے دین کے معاملہ میں بحث و جدال کرنے والوں کے سامنے بطریق احسن توحید کی حجت پیش کی گئی ہے اور ساتھ ہی کفر و شرک کے برے انجام سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ حا۔ میم ۱*

۲۔۔۔۔۔۔ اس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور علم والا ہے۔ ۲*

۳۔۔۔۔۔۔ گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور بڑے فضل والا ہے ۳*۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ بحثیں کھڑی کرتے ہیں جو کافر ہیں۔۴* بڑے بڑے شہروں میں ان کی آمد و رفت تمہیں دھوکہ میں نہ ڈالے۔ ۵*

۵۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے نوح ۶*کی قوم بھی جھٹلا چکی ہے اور ان کے بعد دوسری قومیں بھی۔ ہر قوم نے اپنے رسول کو اپنی گرفت میں لینا چاہا۔ ۷* باطل کا سہارا لے کر وہ بحثیں کرتے رہے تاکہ اس کے ذریعہ حق کو شکست دیں۔ مگر میں نے ان کو پکڑ لیا۔ تو دیکھو کیسا رہا میرا عذاب !

۶۔۔۔۔۔۔ اسی طرح تمہارے رب کا فرمان ان لوگوں پر لاگو ہو گیا ہے جنہوں نے کفر کیا ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔ ۸*

۷۔۔۔۔۔۔(وہ فرشتے ) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں *۹ اور جو اس کے ارد گرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں !۰* اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ۱۱* اور جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے وہ مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انہیں عذاب جہنم سے بچا۔ ۱۲*

۸۔۔۔۔۔۔اے ہمارے رب! ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ اور ان کو بھی جو ان کے والدین ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے صالح ہوں۔ ۱۳* بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے۔ ۱۴*

۹۔۔۔۔۔۔ اور انہیں برے نتائج سے بچا۔اور جن کو تو نے اس دن برے نتائج سے بچایا ان پر تو نے یقیناً رحم فرمایا۔ ۱۵* یہی بڑی کامیابی ہے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کو پکار کر کہا جائے گا تم اپنے سے جس قدر بیزار ہو اس سے کہیں زیادہ بیزار تم سے اللہ تھا جب کہ تم کو ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔۱۶*

۱۱۔۔۔۔۔۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندگی دی۔ ۱۷* اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ تو کیا یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟

۱۲۔۔۔۔۔۔ تم اس انجام کو اس لیے پہنچے کہ جب اللہ وحدہٗ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور جب اس کے شریک ٹھہرائے جاتے تو تم مانتے تھے۔ ۱۸* اب حکم(فیصلہ) اللہ بلند و برتر ہی کا ہے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔ وہی ہے ۱۹* جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل کرتا ہے۔ مگر یاد دہانی وہی حاصل کرتا ہے جو(اللہ کی طرف)۔ رجوع کرنے والا ہو۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ تو اللہ ہی کو پکارو دین(بندگی) کو اس کے لیے خالص کر کے۔ ۲۰* خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ ۲۱*

۱۵۔۔۔۔۔۔ وہ بلند درجوں والا ۲۲* ،مالکِ عرش ہے۔ ۲۳* اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح(وحی) نازل کرتا ہے ۲۴* تاکہ وہ پیشی کے دن سے خبردار کرے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔ و دن کہ لوگ نکل پڑیں گے۔۲۵* ان کی کوئی بات اللہ سے مخفی نہیں ہو گی۔ آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ واحد قہار کی۔ ۲۶*

۱۷۔۔۔۔۔۔ آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا۔ آج کوئی ظلم نہ ہو گا۔ بیشک اللہ حساب چکانے میں تیز ہے۔ ۲۷*

۱۸۔۔۔۔۔۔ اور ڈراؤ ان کو اس دن سے جو قریب آ لگا ہے۔۲۸* جب کلیجے منہ کو آ لگیں گے اور وہ غم سے گھٹ رہے ہوں گے۔ ظالموں کا نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ سفارشی جس کی بات مانی جائے۔ ۲۹*

۱۹۔۔۔۔۔۔ وہ نگاہوں کی خیانت بھی جانتا ہے۔۳۰* اور وہ باتیں بھی جو سینوں نے چھپا رکھی ہیں۔۳۱* کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں۔ ۳۲* بلا شبہ اللہ ہی سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۳۳*

۲۱۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھ لیتے ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ قوت میں بھی ان سے کہیں بڑھ کر تھے اور زمین پر آثار چھوڑنے کے اعتبار سے بھی ۳۴*۔ مگر اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا اور کوئی نہ تھا جو ان کو اللہ(کی پکڑ) سے بچاتا۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تھے مگر انہوں نے انکار کیا تو اللہ نے ان کو پکڑ لیا۔ یقیناً وہ بڑی قوت والا اور سخت سزا دینے والا ہے ۳۵*

۲۲۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح حجت کے ساتھ بھیجا ۳۶*

۲۴۔۔۔۔۔۔ فرعون، ہامان *۳۷ اور قارون۳۸* کی طرف تو انہوں نے کہا یہ جادوگر ہے جھوٹا۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ ہمارے پاس سے حق لے کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا قتل کرو ان لوگوں کے بیٹوں کا جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دو۔ ۳۹* مگر ان کافروں کی چال اکارت گئی۔ ۴۰*

۲۶۔۔۔۔۔۔ اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کروں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔۴۱* مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے۔ ۴۲* یا زمین میں فساد نہ برپا کرے۔ ۴۳*

۲۷۔۔۔۔۔۔ موسیٰ نے کہا میں نے ہر متکبر(کے شر) سے جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لی۔ ۴۴*

۲۸۔۔۔۔۔۔ اور ایک مرد مومن جو آلِ فرعون میں سے تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے  ہوئے تھا۔۴۵* بول اٹھا کیا تم ایک شخص کو اس بنا پر قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے حالانکہ وہ تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آیا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہوا تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور اگر وہ سچا ہوا تو جس عذاب سے وہ تمہیں ڈرا رہا ہے وہ کسی نہ کسی حد تک ضرور تم کو پہنچ کر رہے گا۔۴۶* اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا اور جھوٹا ہو۔ ۴۷*

۲۹۔۔۔۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو! آج تمہیں حکومت حاصل ہے اور تم اس سرزمین میں غالب ہو لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر ا گیا تو کون ہے جو ہماری مدد کرے گا؟ ۴۸* فرعون نے کہا میں تم کو وہی بات بتاتا ہوں جو میری رائے میں درست ہے اور تمہاری رہنمائی اسی راہ کی طرف کرتا ہوں جو بالکل صحیح ہے۔ ۴۹*

۲۰۔۔۔۔۔۔ اور اس شخص نے جو ایمان لایا تھا کہا *۵۰ اے میری قوم کے لوگو! مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر کہیں وہ دن نہ آ جائے جو(گزری ہوئی قوموں) پر آیا تھا۔

۲۱۔۔۔۔۔۔ ایسا انجام جو قومِ نوح، عاد، ثمود اور ان کے بعد والی قوموں کا ہوا ۵۱* اور اللہ اپنے بندوں پر کوئی ظلم کرنا نہیں چاہتا۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو! مجھے تمہارے بارے میں پکا ر کے دن ۵۲* کا ڈر ہے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اور تم کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔۵۳* اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہو سکتا۔

۲۴۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے یوسف واضح نشانیوں کے ساتھ آئے تھے لیکن تم ان کی لائی ہوئی تعلیمات کے بارے میں شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم کہنے لگے اب ان کے بعد اللہ کوئی رسول ہرگز نہیں بھیجے گا۔ ۵۴* اس طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے جو حد سے گزرنے والا اور شک میں پڑنے والے ہوتے ہیں۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو۔۵۵* یہ بات اللہ اور اہل ایمان کے نزدیک سخت مبغوض ہے۔۵۶* اسی طرح اللہ ہر متکبر و جبار کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ ۵۷*

۲۶۔۔۔۔۔۔ فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تا کہ میں ان راہوں پر پہنچ جاؤں۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ جو آسمانوں کی راہیں ہیں۔ اور موسیٰ کے رب کو جھانک کر دیکھوں ۵۸* میں تو سمجھتا ہوں یہ بالکل جھوٹا ہے۔ اس طرح فرعون کی نگاہ میں اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا اور اسے راہِ راست سے روک دیا گیا۔*۵۹ اور فرعون کی چال تباہی میں پڑ گئی۔ ۶۰*

۲۸۔۔۔۔۔۔ اور اس شخص نے جو ایمان لایا تھا کہا اے میری قوم کے لوگو !۶۱* میری بات مانو میں تمہیں ہدایت کی راہ بتا رہا ہوں۔

۲۹۔۔۔۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو یہ دنیا کی زندگی تو بس تھوڑے فائدے کا سامان ہے اور آخرت ہی مستقل گھر ہے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔ جو برائی کرے گا وہ اسی کے بقدر بدلہ پائے گا اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں وہ بے حساب رزق پائیں گے۔

۴۱۔۔۔۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔ ۶۲*

۴۲۔۔۔۔۔۔ تم مجھے دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے شریک ٹھہراؤں جن کو میں نہیں جانتا(کہ وہ اللہ کے شریک ہیں) ۶۳* اور میں تمہیں اس ہستی کی طرف دعوت دے رہا ہوں جو سب پر غالب اور مغفرت فرمانے والی ہے ۶۴*

۴۲۔۔۔۔۔۔یہ اٹل حقیقت ہے کہ جن(معبودوں۔۔۔۔۔۔ کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو وہ نہ دنیا میں اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں پکارا جائے اور نہ آخرت میں۔ ۶۵* ہم سب کی واپسی اللہ ہی کی طرف ہے اور جو حد سے گزرنے والے ہیں ۶۶* وہ جہنم میں جانے والے ہیں۔

۴۴۔۔۔۔۔۔ تو عنقریب تم یاد کرو گے ان باتوں کو جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔ *۶۷ اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ ۶۸* وہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔

۴۵۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے اس کو ان کی بری چالوں سے بچا لیا ۶۹* اور فرعون والوں کو برے عذاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ۷۰*

۴۶۔۔۔۔۔۔ وہ آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گئی حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔۷۱*

۴۷۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے تو جو لوگ کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم جہنم کے عذاب کا ایک حصہ ہم سے دور کرو گے ؟

۴۸۔۔۔۔۔۔ جو بڑے بن کر رہے تھے کہیں گے ہم سب ہی اس میں ہیں اور اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔۷۲*

۴۹۔۔۔۔۔۔ اور آگ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کی نگرانی کرنے والوں سے کہیں گے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں ایک دن کی تخفیف کر دے۔

۵۰۔۔۔۔۔۔ وہ کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول واضح دلیلیں لیکر نہیں آتے رہے ؟ وہ جواب دیں گے۔ ضرور آتے رہے۔ وہ کہیں گے تو اب تم ہی دعا کرو۔۷۳* اور کافروں کی دعا بالکل اکارت جائے گی۔ ۷۴*

۵۱۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ۷۵* اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ *۷۶

۵۲۔۔۔۔۔۔ جس دن ظالموں کے لیے ان کی معذرت بے سود ہو گی، ۷۷* ان پر لعنت ہو گی اور ان کے لیے برا ٹھکانا ہو گا۔

۵۲۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو ہدایت عطا فرمائی اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔ ۷۸*

۵۴۔۔۔۔۔۔ جو رہنمائی اور یاد دہانی تھی دانشمندوں کے لیے۔

۵۵۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اپنے قصوروں کے لیے استغفار کرو *۷۹(معافی چاہو) اور صبح و شام تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ۔

۵۶۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں میں کسی سند کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو بحثیں کھڑی کرتے ہیں ان کے دلوں میں کِبرْ بھرا ہوا ہے مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں۔۸۰* تو تم اللہ کی پناہ مانگو۔ ۸۱* یقیناً وہ سب کچھ دیکھنے والا اور سننے والا ہے۔

۵۷۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ۸۲*

۵۸۔۔۔۔۔۔ اندھا اور بینا یکساں نہیں ہو سکتے۔ ۸۳* اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا بد عمل لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں۔ مگر تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو۔

۵۹۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

۶۰۔۔۔۔۔۔ تمہارا رب فرماتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت *۸۴ سے سرکشی کرتے ہیں وہ ضرور ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

۶۱۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن بنایا۔*۸۵ اللہ لوگوں پر بڑا مہربان ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ ۸۶* ہر چیز کا خالق۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔پھر تم کدھر بہکائے جاتے ہو۔ ۸۷*

۶۲۔۔۔۔۔۔اسی طرح وہ لوگ بھی بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ ۸۸*

۶۴۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے جائے قرار ۸۹* اور آسمانوں کو چھت بنایا۔۹۰* اور تمہاری صورت گری کی تو اچھی صورتیں بنائیں ۹۱* اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔۹۲* وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ تو بڑا بابرکت ہے اللہ رب العالمین۔

۶۵۔۔۔۔۔۔ وہی زندہ ہے۔۹۳* اس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا اسی کو پکارو بندگی کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ حمد اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ کہو مجھے اس بات سے منع کر دیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلائل آ چکے ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے کو رب العالمین کے حوالہ کر دوں۔ ۹۴*

۶۷۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، ۹۵* پھر نطفہ سے ۹۶*، پھر جمے ہوئے خون سے ۹۷*، پھر وہ تمہیں بچہ کی شکل میں باہر لاتا ہے ۹۸*، پھر وہ تمہیں پروان چڑھاتا ہے تاکہ تم اپنے شباب کو پہنچو، پھر تمہیں عمر دیتا ہے کہ تم بڑھاپے کو پہنچو ۹۹* اور تم میں سے بعض کو اس سے پہلے ہی وفات دی جاتی ہے ۱۰۰* اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ تم وقتِ مقرر کو پہنچ جاؤ۔۱۰۱* اور اس لیے کہ تم سمجھو۔۱۰۲*

۶۸۔۔۔۔۔۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

۶۹۔۔۔۔۔۔ تم نے ان لوگوں کو دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں۔ ۱۰۳* انہیں کہاں پھیرا جا رہا ہے ؟ ۱۰۴*

۷۰۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس کتاب کو جھٹلایا اور ان چیزوں کو بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجی تھیں۔ ۱۰۵* عنقریب وہ جان لیں گے۔ ۱۰۶*

۷۱۔۔۔۔۔۔ جب ۱۰۷* طوق اُن کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں بھی۔(جن سے) ان کو گھسیٹا جائے گا۔

۷۲۔۔۔۔۔۔ کھولتے ہوئے پانی میں پھر آگ میں جھونک دئے جائیں گے۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم شریک ٹھہراتے تھے۔

۷۴۔۔۔۔۔۔ اللہ کو چھوڑ کر۔ وہ کہیں گے کھوئے گئے وہ ہم سے بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو بھی نہیں پکارتے تھے۔ ۱۰۸* اس طرح اللہ کافروں پر راہ گم کر دے گا۔ ۱۰۹*

۷۵۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے اور اکڑتے رہے۔ ۱۱۰*

۷۶۔۔۔۔۔۔ داخل ہو جاؤ جہنم کے دروازوں میں اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ کیا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کا!

۷۷۔۔۔۔۔۔ تو(اے نبی) صبر کرو۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ۱۱۱* یا تو ہم تمہیں اس(عذاب) کا کچھ حصہ جس کا وعدہ ہم ان سے کر رہے ہیں دکھا دیں یا تمہیں وفات دیں ان کی واپسی تو ہماری ہی طرف ہے۔ ۱۱۲*

۷۸۔۔۔۔۔۔(اے نبی) ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے تھے جن میں سے بعض کے حالات ہم تمہیں سناچکے ہیں اور بعض کے حالات نہیں سنائے۔ ۱۱۳* کسی رسول کے بھی بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی(معجزہ) لے آتا۔ ۱۱۴* جب اللہ کا حکم *۱۱۵ آ جائے گا تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس وقت باطل پرست تباہی میں پڑیں گے۔

۷۹۔۔۔۔۔۔ اللہ ہی نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے کہ تم بعض کو سواری کے کام میں لاؤ اور بعض تمہاری غذا کے کام آتے ہیں۔

۸۰۔۔۔۔۔۔ ان میں تمہارے لیے دوسرے فائدے بھی ہیں ۱۱۶* اور(پیدا اس لیے کئے گئے ہیں) تاکہ تم ان کے ذریعہ اس غرض کو پورا کرو جو تمہارے دل میں ہو۔ ۱۱۷* تمہیں ان پر اور کشتیوں پر اٹھایا جاتا ہے۔ ۱۱۸*

۸۱۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی نشانیاں تمہیں دکھا رہا ہے۔ تو تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔ ۱۱۹*

۸۲۔۔۔۔۔۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھ لیتے ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ ۱۲۰* وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے اور قوت میں اور زمین پر آثار چھوڑنے کے اعتبار سے بڑھ کر تھے مگر ان کی یہ کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔

۸۳۔۔۔۔۔۔ جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا ۱۲۱* اور اس عذاب نے ان کو گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

۸۴۔۔۔۔۔۔ جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو بول اٹھے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ان کا انکار کرتے ہیں جن کو ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے۔ ۱۲۲*

۸۵۔۔۔۔۔۔ مگر ان کا ایمان لانا ان کے لیے کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتا تھا جب کہ انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھ لیا۔ ۱۲۳* یہی اللہ کی سنت(قاعدہ) ہے جو اس کے بندوں میں جاری رہی ہے۔ اور اس وقت کا فر تباہ ہو کر رہے۔

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔ "ح” اور "م” الگ الگ حروف ہیں۔ ایسے حروف کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں جن کی تشریح سورۂ بقرہ ۱ اور سورۂ یونس نوٹ ۱ میں گزر چکی۔

"ح” اور "م” کا اشارہ اللہ کے حکیم(حکمت والا) ہونے کی طرف ہے جس کا حوالہ فرشتوں نے اپنی دعاؤں میں دیا ہے اور جس کا ذکر اس سورہ کی آیت ۷ میں ہوا ہے۔ لفظ حکیم کا پہلا حروف "ح” ہے اور آخری حروف "م” گویا یہ حروف اللہ کی معرفت کا نشان ہیں اور اس کی صفتِ حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اس سورہ کے بعد کی چھ متصل سورتوں کا آغاز بھی ان ہی حروف(حم) سے ہوا ہے اور ان سب سورتوں میں اس کی صفتِ حکمت یا اس کے حکیمانہ فیصلوں کا ذکر ہوا ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔ جب یہ کتاب اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو سب کچھ جاننے والی ہے اور جس کے علم کی کوئی انتہا نہیں تو اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا حق اور مطابقِ واقعہ ہونا لازمی اور یقینی بات ہے۔

۲۔۔۔۔۔۔ ان صفات کے ذکر سے مقصود اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ بندے اپنے گناہوں کی اس سے معافی مانگیں کہ وہ توبہ قبول کرتا ہے ، گناہ کے کاموں سے باز رہیں کہ وہ بڑی سخت سزا دیتا ہے اور اس کے فضل کے امیدوار بنیں کہ وہ بڑے فضل والا ہے۔

۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں نے قرآن کے معاملہ میں معقول رویہ اختیار کرنے کے بجائے غیر سنجیدہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے اور انکار ہی کی ٹھان لی ہے وہ اس کی آیتوں پر الٹے سیدھے اعتراضات کرتے ہیں اور بحثیں کھڑی کرتے ہیں۔

آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو قرآن کو سمجھنے کی کوشش تو نہیں کرتے البتہ اس کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کافروں کو جو مادی وسائل حاصل ہوئے ہیں اور وہ اپنی دنیا کو شاندار بنانے کے لیے جو سرگرمی دکھا رہے ہیں اس سے یہ غلط فہمی لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ یہ لوگ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور وہ ان کے کفر اور معصیت کی سزا انہیں نہیں دے گا۔

۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۹۵۔

۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی نصرت ہمیشہ اپنے رسول کے ساتھ رہتی ہے اس لیے اس کے دشمن اس کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکے اور اپنی سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی طرح اس رسول کے معاملہ میں بھی اس کے دشمن اپنے منہ کی کھائیں گے۔

۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے کفر کی وجہ سے بالآخر جہنم میں پہنچنے والے ہیں۔

۹۔۔۔۔۔۔ اس کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم اور چونکہ یہ بات غیب سے تعلق رکھتی ہے اس لیے کسی بحث میں پڑے بغیر اس پر ایمان لانا چاہیے۔

۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی مقرب فرشتے اللہ کی تسبیح و حمد میں سرگرم رہتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تسبیح(اللہ کی پاکی بیان کرنا) اور اس کی حمد و ثنا کس شان کی عبادت ہے۔ اس کا جتنا زیادہ اہتمام کیا جائے اتنا ہی زیادہ اللہ میں دل لگے گا بشرطیکہ یہ صرف زبان کا ورد نہ ہو بلکہ قلب و ذہن بھی اس سے ہم آہنگ ہوں۔

۱۱۔۔۔۔۔۔ اگرچہ فرشتوں پر کتنی ہی حقیقتیں عیاں ہیں مثلاً عرش الٰہی وغیرہ تاہم اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں کتنی ہی باتیں ان کے لیے بھی اسرار ہوں گی اس لیے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ پر ایمان رکھیں اور یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔

۱۲۔۔۔۔۔۔ کتنے بڑے شرف اور سعادت کی بات ہے اہل ایمان کے لیے کہ فرشتے عرشِ الٰہی کے پاس ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں !

واضح رہے کہ فرشتے مغفرت کی یہ دعا نام نہاد مسلمانوں کے لیے نہیں کرتے جو فسق و فجور میں غرق رہتے ہیں بلکہ جیساکہ آیت میں صراحت سے بیان ہوا ہے ان لوگوں کے لیے کرتے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اللہ کے راستے پر چلے یعنی جنہوں نے اپنی اصلاح کی اور راہِ ہدایت پر چلتے رہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ یہاں فرشتوں کی دعا کا ذکر ہوا ہے نہ کہ شفاعت کا اور یہ دعا بھی گروہ مؤمنین کے لیے ہے نہ کہ مخصوص افراد کے لیے۔ شفاعت کا معاملہ تو قیامت کے دن پیش آئے گا اور وہ افراد سے متعلق ہو گا اور اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی شفاعت کے لیے زبان نہیں کھول سکے گا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ رعد نوٹ ۵۵۔

"صالح ہوں ” کی صراحت اس بات کو مزید واضح کرتی ہے کہ فرشتوں کی یہ دعا مومنین صالحین کے لیے ہے جس سے ان کے خلوص و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔ اللہ کی ان صفات کا ذکر اس بات کے اظہار کے لیے ہے کہ فیصلہ تیرے ہی اختیار میں ہے اور تیرا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔

۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تو ان پر رحم فرما کہ قیامت کے دن ان کو برے نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ اس دن کے شدائد سے محفوظ رہیں۔

۱۶۔۔۔۔۔۔ کافر جہنم میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ سے سخت بیزاری محسوس کریں گے کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے کہ ہمیں سنگین سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اس وقت انہیں یاد دلایا جائے گا کہ تمہیں دنیا میں ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تھی مگر تم انکار کرتے تھے۔ اس وقت اللہ کی تم سے بیزاری اس سے زیادہ تھی جتنی آج تمہاری اپنے آپ سے ہے اور جب تم نے ایسا جرم کیا جو اللہ کی بیزاری اور اس کی برہمی کا باعث ہے تو اب اپنے کئے کی سزا بھگتو۔

۱۷۔۔۔۔۔۔ دو مرتبہ کی موت سے مراد ایک تو وہ جسم ہے جو رحمِ مادر میں تخلیق کے ابتدائی مرحلہ میں ہوتا ہے اور ابھی اس میں جان نہیں پڑی ہوتی۔ یہ جسم چونکہ مردہ ہوتا ہے اس لیے اس کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسرے مرتبہ کی موت وہ ہے جب اس کی روح قبض ہوتی ہے۔ اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ اور دو مرتبہ کی زندگی سے مراد ایک تو دنیا کی زندگی ہے اور دوسری قیامت کے دن کی جبکہ مردہ انسان قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۸  اس آیت کی تفسیر کرتی ہے اس میں ارشاد ہوا ہے : وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِکُمْ ثُمَّ اِلَیہِ ترْجَعُوْنَ۔ "تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندگی بخشی پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تم کو زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔”

واضح رہے کہ یہاں صرف جسمانی موت اور جسمانی زندگی کا ذکر ہو رہا ہے۔ رہی عالم برزخ(قبر) کی زندگی تو اس کا تعلق محض روح سے ہے کیونکہ جسم تو فنا ہو جاتا ہے اس لیے اس کی نوعیت اس زندگی کی سی نہیں ہے جو روح کے جسم سے الحاق کی صورت میں ہوتی ہے بلکہ وہ ایک خاص قسم کی روحانی زندگی ہے جس میں روح پر یا تو عذاب ہوتا ہے یا وہ راحت و آسائش میں رہتی ہے۔ لہٰذا اس آیت میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے جو قبر کے عذاب سے انکار کرتے ہیں۔

۱۸۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں توحید سے دلچسپی نہیں تھی البتہ شرک سے بڑی دلچسپی تھی۔ بد عقیدہ لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ان کے سامنے خالص توحید پیش کیجئے تو وہ اس کا انکار کریں گے یا سنی ان سنی کر دیں گے لیکن اگر کوئی گمراہ شخص ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا ذکر کرے تو وہ عقیدت کا اظہار کریں گے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔ اوپر شرک کا انجام بیان ہوا ہے۔ اب توحید کو قبول کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ہی کے بند بن کر اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو اور اسی کی عبادت کرو۔

۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی توحید خالص کو اختیار کرنے میں کافروں اور غیر مسلموں کی ناراضگی مانع نہیں ہونا چاہیے۔ معاملہ اصلاً اللہ سے ہے اس لیے اس کے غضب سے بچنا چاہیے۔

۲۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی شان اور مرتبہ بہت بلند ہے لہٰذا اس کو مخلوق پر قیاس کرنا اور اس کا ہمسر ٹھہرانا سراسر باطل اور اس کی شان میں صریح گستاخی ہے۔

۲۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف نوٹ ۸۲۔

۲۴۔۔۔۔۔۔ روح(وحی) کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نحل نوٹ ۲۔

۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔ دنیا میں جن کو اللہ تعالیٰ نے امانۃ ً اقتدار سپرد کیا تھا ان میں سے اکثر لوگ اپنے کو اقتدار کا مالک سمجھتے رہے اور اپنی بادشاہی اور حاکمیت کے دعویدار بنے رہے۔ لیکن قیامت کے دن جب سوالیہ نشان بن کر یہ صدا بلند ہو گی کہ آج بادشاہی کس کی ہے تو بادشاہت اور حاکمیت کے ان سب دعویداروں کو سانپ سونگھ جائے گا کیونکہ اس روز کسی کے پاس کوئی اقتدار نہ ہو گا۔ سب بے بس بندے کی حیثیت سے اللہ کے حضور حاضر ہوں گے۔ اس وقت صدا بلند ہو گی کہ آج بادشاہی اکیلے اللہ کی ہے جو ایسا زبردست ہے کہ سب اس کے آگے مغلوب ہیں۔

قیامت کے دن تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ اللہ ہی فرمانروائے حقیقی ہے لیکن دنیا میں بھی اس کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے اس لیے اسلام کا مطالبہ ہے کہ ایک اللہ کو فرمانروائے حقیقی تسلیم کرو۔

۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ خیال نہ کرو کہ اربوں اور کھربوں انسانوں کا حساب چکانے میں اللہ کو دیر لگے گی۔ اللہ کو انسانی حاکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔ وہ اگر ہر روز ہزاروں جانوں کو پیدا کرتا ہے اور ہزاروں جانوں کو موت دیتا ہے اور اربوں انسانوں کو بیک وقت رزق دیتا ہے تو اربوں اور کھربوں انسانوں کا بیک وقت حساب چکانا اس کے لیے کیا مشکل ہے۔ وہ بیک وقت لا تعداد انسانوں کی طرف فرداً فرداً متوجہ ہو سکتا ہے اور ان کا الگ الگ حساب لے سکتا ہے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کی گھڑی کو دور نہ سمجھو۔ وہ بہت جلد قائم ہونے والی ہے۔

۲۹۔۔۔۔۔۔ یہ اس فاسد عقیدہ کی تردید ہے کہ فلاں اور فلاں ہماری شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت لازماً مانی جائے گی۔ شفاعت کے اس غلط عقیدہ ہی کی بنا پر لوگ آخرت سے بے پرواہ ہو گئے ہیں۔

۳۰۔۔۔۔۔۔ نگاہوں کی خیانت یہ ہے کہ آدمی چوری چھپے ان چیزوں پر نگاہ ڈالے جن کا دیکھنا منع ہے۔ مثلاً کسی اجنبی عورت کو دیکھنے کے لیے تاک جھانک کرنا، خفیہ طریقہ پر کسی کے ستر پر نگاہ ڈالنا یا فحش مناظر اور تصویریں دیکھنا وغیرہ۔ اگر آدمی اللہ سے ڈرنے والا ہو تو وہ اپنی نگاہوں کو بچائے گا کہ وہ کسی ایسی چیز پر نہ پڑیں جس کا دیکھنا حرام ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اللہ سے کوئی چیز بھی چھپی نہیں رہ سکتی یہاں تک کہ آنکھوں کا چوری چھپے دیکھ لینا بھی۔

۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی دلوں کا حال ، نیت، ارادے قصد، وغیرہ۔

۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جو فیصلہ کا دن ہو گا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جو انسانوں کے اعمال اور ان کے درمیان نزاعات کا فیصلہ چکائے۔

عیسائی حضرت مسیح کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن انسانوں کے درمیان ان کے اعمال کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔(دیکھئے متی ۲۴:۲۱ تا ۴۶) یہ عقیدہ باطل ہے اور قرآن کی یہ ایک آیت ہی اس کی تردید کے لیے کافی ہے۔

۳۳۔۔۔۔۔۔ یہ ذلیل ہے اس بات کی کہ جب اللہ کے سوا کوئی نہیں جو سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہو تو فیصلہ کرنے کا اہل بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔

۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی تمدنی ترقی کے آثار۔ اشارہ ہے قومِ ثمود، مدین وغیرہ کی طرف جن کی تمدنی ترقی کے آثار آج بھی کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔

۳۵۔۔۔۔۔۔ جب یہ حقیقت مشاہدہ میں آ چکی کہ اللہ اس دنیا میں مجرم قوموں کو ان کے جرم کی سزا دیتا ہے تو آخرت کے بارے میں اس خوش فہمی میں رہنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ وہاں بس بخشش ہی بخشش ہو گی اور آدمی کیسا ہی سنگین جرم کر چکا ہو اس کی سزا اس کو ملنے والی نہیں۔

۳۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومنون نوٹ ۴۴۔

۳۷۔۔۔۔۔۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورہ قصص نوٹ ۱۱۔

۳۸۔۔۔۔۔۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ قصص نوٹ ۱۴۲۔

۲۹۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹانے کے لیے بچوں کی پیدائش پر لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم فرعون پہلے بھی جاری کر چکا تھا اور حضرت موسیٰ کی ولادت ایسے ہی حالات میں ہوئی تھی لیکن اب جب کہ حضرت موسیٰ کی دعوت سے فرعون کو خطرہ محسوس ہوا تو اس نے بنی اسرائیل کے نو مولود لڑکوں کو قتل کرنے کا دوبارہ حکم دیا تاکہ یہ اقلیت دب کر رہ جائے اور ان کی تعداد بھی گھٹ جائے۔ یہ تھا فرعون کا سخت متعصبانہ اور ظالمانہ اقدام۔(مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۸۱)

۴۰۔۔۔۔۔۔ فرعون کی یہ چال کامیاب نہ ہو سکی۔ بنی اسرائیل کو اذیت ضرور پہنچی لیکن اہل ایمان ہونے اور رسول کی اتباع کرنے کی بنا پر اللہ کی تائید ان کو حاصل ہوئی اور تباہی سے فرعونیوں ہی کو دو چار ہونا پڑا۔

۴۱۔۔۔۔۔۔ فرعون نے یہ بات اپنے درباریوں سے کہی۔ اس نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ساتھ ہی ان پر یہ طنز بھی کیا کہ وہ اپنے کو بچانے کے لیے اپنے رب کو پکارے۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ اور ان کے رب کا مذاق اڑایا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے بڑے گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا تھا۔

۴۲۔۔۔۔۔۔ دین بدلنے سے مراد عقیدہ و مذہب کی تبدیلی ہے۔ فرعون کی قوم ستارہ پرست تھی۔ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر ستاروں کو دیوی دیوتا بنا رکھا تھا اور وہ فرعون کی بھی پرستش کرتے تھے جو سورج دیوتا کا اوتار ہونے کا دعویدار تھا۔ حضرت موسیٰ کی دعوت توحید، آخرت اور رسالت پر ایمان لانے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی اطاعت میں اپنے کو دینے کی دعوت تھی۔ یہ اللہ کا دین تھا جس کو وہ پیش کر رہے تھے مگر فرعون اس کو کب گوارا کر سکتا تھا کہ اس کی قوم حضرت موسیٰ کے پیش کردہ دین__اسلام__ کو قبول کر لے اس لیے اس نے اپنی قوم کو حضرت موسیٰ کے خلاف اکسایا۔

جمہور مفسرین نے بھی دین کو بدلنے سے مذہب کو بدلنا ہی مراد لیا ہے نہ کہ ” سیاسی نظام” کو بدلنا اور صاحبِ کشاف نے تو قرآن ہی سے یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ: وہ فرعون کی اور اس کے بتوں کی پرستش کرتے تھے اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے وَیَذَرَکَ وَآلِہَتَکَ(وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں۔(اعراف:۱۲۷) (کشاف ج۲ ص ۴۲۲)

اس لیے صاحبِ تفہیم القرآن کی یہ توجیہ کی:

” یہاں دین سے مراد نظامِ حکومت ہے۔ "(تفہیم القرآن ج ۴  ص ۴۰۵) سراسر تکلف ہے۔(مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۸۰)

۴۳۔۔۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سراسر اصلاح کی دعوت تھی مگر فرعون نے ان پر یہ جھوٹا الزام لگایا کہ وہ ملک میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ حضرت موسیٰ کی دعوت اس کی قوم کے درمیان تفرقہ ڈالنے کا باعث ہو گی۔ اگر ایک گروہ حضرت موسیٰ کے دین کو قبول کر لیتا ہے اور دوسرا گروہ اپنے مذہب پر قائم رہتا ہے تو دونوں میں فرقہ وارانہ جذبات پیدا ہوں گے جس کا نتیجہ بدامنی اور خون خرابے کی شکل میں نکلے گا۔

آج کے دور میں بھی خدا بیزار حکومتوں کے سوچنے کا انداز یہی ہے۔ وہ کسی ابھرتی ہوئی اسلامی دعوت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ وہ اس میں فرقہ واریت کی بو محسوس کرتی ہیں اور اسے امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ یہ خطرہ اگر صحیح بھی ہو تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو دعوتِ اسلامی کے مقابلہ میں شر پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اگر ان حکومتوں کی اس منطق کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو دنیا میں کبھی اصلاح کا کوئی کام انجام نہیں پا سکتا۔ پھر کیا لوگوں کو چھوڑ دیا جائے کہ وہ جہنم میں جا گریں اور ان کو اس سے بچانے کی کوئی کوشش نہ کی جائے ؟

۴۴۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے ان مفسدین کے شر سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کی اور اپنے کو اس کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہے توکل کی اعلیٰ مثال۔

۴۵۔۔۔۔۔۔ فرعون کے خاندان میں ایک فرد ایسا نکلا جو حضرت موسیٰ کی دعوت سے متاثر ہو کر ان پر ایمان لے آیا۔ وہ بھی اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا لیکن جب حضرت موسیٰ کے قتل کی باتیں ہونے لگیں تو اس کی غیرتِ ایمانی جوش میں آئی اور اس نے بھرے دربار میں حضرت موسیٰ کی حمایت کی اور نہ صرف حمایت کی بلکہ کھل کر دعوتِ حق بھی پیش کر دی اور اپنی بات کو پیش کرنے کا ایسا انداز اختیار کیا کہ فرعون اور اس کے درباریوں پر اس کی معقولیت ظاہر ہو جائے۔

واضح رہے کہ اسلام ایمان کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کا پہلا رکن ہی کلمۂ شہادت ادا کرنا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ قبولِ اسلام کا اعلان و اظہار ہو اور وہ مسلم سوسائٹی کا فرد قرار پائے۔ البتہ اگر جان کا خطرہ لاحق ہو تو اسلام میں اس بات کی رخصت ہے کہ آدمی وقتی طور پر اپنے ایمان کو چھپائے۔

۴۶۔۔۔۔۔۔ مردِ مومن کے کہنے کا منشاء فرعون کو اقدام قتل سے روکنا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک ایسی بات کہی جو آسانی سے ان لوگوں کی سمجھ میں آ سکتی تھی اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ کا اپنے دعوائے رسالت میں جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہے جو تم انہیں سزا دو۔ اور محض شک کی بنا پر اتنا بڑا اقدام کرنا صحیح نہیں۔ اگر بالفرض وہ جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کا وبال لازماً ان پر پڑے گا لیکن اگر وہ سچے ہیں تو سوچو پھر تمہارے ان کو قتل کرنے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ تم اللہ کے غضب کو دعوت دو گے اور جس عذاب کی وعید حضرت موسیٰ تمہیں سنا رہے ہیں اس کا ایک حصہ تمہیں اس دنیا ہی میں ملے گا۔

۴۷۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ حضرت موسیٰ کو جھٹلانے والوں کی طرف کہ جو لوگ فطری اور اخلاقی حدود کو توڑنے میں بے باک ہوتے ہیں اور ایک رسول کے ذریعے اللہ کی نشانیوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی شبہات میں پڑتے ہیں وہ اللہ کی توفیق اور اس کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔

۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی حکومت اور اقتدار کے گھمنڈ میں نہ رہو۔ اللہ کا عذاب تم پر نازل ہو سکتا ہے جس کے آگے تم بالکل بے بس ہو کر رہ جاؤ گے۔

۴۹۔۔۔۔۔۔ فرعون نے اس مردِ مومن کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ رائے کہ موسیٰ کو قتل کرنا ضروری ہے ایک سوچی سمجھی رائے ہے اور مجھ پر اعتماد کرو کہ میں تمہاری صحیح رہنمائی کر رہا ہوں۔یہ مداخلت فرعون نے اس لیے کی کہ اسے اندیشہ محسوس ہوا کہ اس شخص کی تقریر جو حضرت موسیٰ کا عقیدت مند ہو گیا ہے دربار والوں کو متاثر نہ کر دے۔

۵۰۔۔۔۔۔۔ فرعون کی مداخلت کے بعد اس مردِ مومن نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔

۵۱۔۔۔۔۔۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قومِ نوح، عاد، ثمود نیز قومِ لوط اور قوم شعیب پر ان کے کفر کی وجہ سے جو عذاب آیا اس کو اس وقت کے لوگ مشہور تاریخی واقعات کی حیثیت سے جانتے تھے۔

۵۲۔۔۔۔۔۔ پکار کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے جب کہ ایک پکار پر سب لوگ قبروں سے نکل پڑیں گے۔ سورۂ ق میں ارشاد ہوا ہے :

وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِالْمُنادِی مِن مَّکَانٍ قَرِیْبٍ یوْمَ یَسْمَعُونَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ۔(ق:۴۱،۴۲) ” اور سن لو جس دن پکارنے والا قریبی جگہ سے پکارے گا۔ جس دن لوگ ہولناک آواز سنیں گے حق کے ساتھ۔ وہ(قبروں سے) نکلنے کا دن ہو گا۔”

تَنَادِ باب تفاعل سے ہے اور یہ نداء سے اسی طرح مبالغہ کا صیغہ ہے جس طرح تعالیٰ۔ اس لیے یوم التناد کے معنی ہیں وہ دن جب تمام لوگوں کو پکارا جائے گا کہ اٹھو اور جوابدہی کے لیے اللہ کے حضور حاضر ہو جاؤ)

۵۳۔۔۔۔۔۔ قیامت کا ہولناک منظر دیکھ کر مجرمین اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کریں گے مگر فرشتے ان کو پکڑ لیں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔

۵۴۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت یوسف کی سیرت، تعلیم اور خواب کی تعبیر میں رسالت کی واضح نشانیاں موجود تھیں مگر تم لوگ(مراد فراعنہ اور ان کی قوم) ان کی رسالت کے بارے میں شک ہی میں پڑے رہے یہاں تک کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تمہیں یہ احساس ہوا کہ ہم نے ان کی قدر نہیں کی اور جب ہم نے ایسی بزرگ شخصیت کی قدر نہیں کی تو اب اللہ کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ مگر اللہ نے موسیٰ کو بھیج کر تمہیں سنبھلنے کا دوسرا موقع دیا ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ ان کی قدر کرو مگر تم ہو کہ اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سوچ رہے ہو؟

۵۵۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی ایسی دلیل جو وحی کے ذریعہ ان تک پہنچی ہو۔ مراد کسی نبی کی تعلیم یا کسی آسمانی کتاب کی حجت ہے۔ ایسی کوئی حجت ان لوگوں کے پاس موجود نہیں ہے جس کو یہ قرآن کی آیات کی تردید میں پیش کر سکیں وہ محض وہم و گمان کی بنا پر بحثیں کھڑی کر رہے ہیں۔

۵۶۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ جدال اور اس طرح کج بحثی کرنے والے اللہ کی نظر میں تو مبغوض ہیں ہی اہلِ ایمان بھی ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔

یہ ہے اہل ایمان کا قابل تعریف وصف لیکن موجودہ دور میں ایسے ” مسلمانوں ” کی کمی نہیں جو قرآن کی تعلیمات پر خود ہی معترض ہوتے ہیں اور الٹی سیدھی بحثیں کھڑی کر دیتے ہیں۔

۵۷۔۔۔۔۔۔ متکبر یعنی اللہ کے مقابلہ میں اپنے کو بڑا سمجھنے والا اور جبار کا مطلب ہے زبردست، وہ جو بندگانِ خدا کو اپنی مرضی پر چلانے کے لیے جبر کرے۔ ایسے لوگ قبولِ حق کی فطری صلاحیت کو کھو چکے ہوتے ہیں اس لیے حق کتنا ہی روشن ہو کر ان کے سامنے آ جائے ان کے دل میں نہیں اترتا۔ یہ سب کچھ اس قاعدہ کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے گمراہی کے لیے مقرر کر کھا ہے اور اسی کو دل پر مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۵۸۔۔۔۔۔۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کی باتوں کا مذاق اڑایا اور ان کے رب کی شان میں گستاخی کی جس سے اس کا تکبر پوری طرح ظاہر ہو گیا۔

یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ فرعون نے ہامان کو عمارت تعمیر کرنے کا واقعی حکم دیا تھا تاکہ وہ اس پر چڑھ کر موسیٰ کے رب کو جھانک کر دیکھ لے۔ اس مقصد کے لیے پہاڑوں کی کیا کمی تھی جو عمارت تعمیر کرنے کا وہ حکم دیتا۔ فرعون کے تو ایک ایک لفظ سے طنز ہی کا اظہار ہوتا ہے۔

۵۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کا برا عمل غلط توجیہات کی وجہ سے اس کی نظر میں اچھا عمل بن گیا۔ انسانی فطرت برا عمل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی لیکن جب آدمی کسی با ت کی غلط توجیہ کر کے برائی کے لیے وجہ جواز پیدا کر دیتا ہے تو پھر برا عمل اس کی نظر میں اچھا عمل بن جاتا ہے۔ اور وہ شیطان کے فریب میں آ جاتا ہے۔ پھر شیطان ایسی نظری رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے کہ اس کا راہِ راست پر آنا ممکن نہیں رہتا۔

۶۰۔۔۔۔۔۔ مراد فرعون کے وہ ہتھکنڈے ہیں جن کو وہ حضرت موسیٰ کے خلاف استعمال کرتا رہا لیکن اس کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہ ہو سکی بلکہ الٹ اس کی تباہی کا موجب بنی۔

۶۱۔۔۔۔۔۔ مردِ مومن نے فرعون کے دربار میں اظہارِ حق کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی قوم کے پاس آ کر لوگوں کے سامنے دعوتِ حق پیش کی۔

۶۲۔۔۔۔۔۔ مرد مومن کی یہ دعوت کتنی سادہ اور دل میں اتر جانے والی تھی۔ اس نے اپنی درد بھری آواز میں قوم کے سامنے آخرت کو پیش کیا کہ ہر شخص کو سب سے پہلے اپنی نجاتِ اخروی کی فکر کرنی چاہیے۔

۶۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جب میرے علم میں ہے بات نہیں ہے کہ اللہ کا کوئی شریک ہے تو کیا محض تمہارے کہنے پر اسے بلا دلیل مان لوں ؟

مردِ مومن کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ قومِ فرعون شرک میں مبتلا تھی اور دیوی دیوتاؤں کی پرستار تھی۔

۶۴۔۔۔۔۔۔ یعنی میں اس خدا پر تمہیں ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہوں جو بڑی عظمت والا ہے اور سب کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ اگر وہ غلط طرز عمل سے باز آ جائیں تو وہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور انہیں معاف کر دیتا ہے۔

۶۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو حاجت روائی اور فریاد رسی کے لیے پکارنا ایک بے معنی بات ہے کیونکہ یہ نہ تمہاری پکار سنتے ہیں اور نہ تمہاری حاجت پوری کر سکتے ہیں۔ اور نہ ہی آخرت میں تمہارے لیے سفارش کرسکیں گے۔

۶۶۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح نوٹ ۴۷ میں گزر چکی۔

۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن تم پچھتاؤ گے کہ ہم نے اس شخص کی بات کیوں نہیں مانی جو ہمیں اللہ پر ایمان لانے اور آخرت کے عذاب سے بچنے کی دعوت دے رہا تھا۔

جو لوگ بھی داعیان حق کی نصیحت پر دھیان نہیں دیتے وہ قیامت کے دن یاد کریں گے کہ فلاں شخص ہمیں نصیحت کر رہا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے اس کی نصیحت قبول نہیں کی۔

۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر فرعون مجھے حق گوئی کی سزا دینا چاہتا ہے یا قوم مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہتی ہے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں نے اللہ پر توکل کیا۔ وہ مجھے کامیابی کی منزل پر پہنچائے گا۔

۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ظالم اس مردِ مومن کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ اس نے اپنے کو اللہ کے حوالہ کیا تھا اللہ نے ان کے شر سے اسے محفوظ رکھا۔

عام طور سے دعوتِ حق پیش کرنے میں اندیشے محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر داعی خطرات کی پرواہ نہیں کرتا اور اللہ پر توکل کر کے دعوتِ حق پیش کرتا ہے تو یہ اندیشے غلط ثابت ہوتے ہیں اور تکلیف اسی صورت میں پہنچتی ہے جب کہ اللہ نے لکھ دی ہو۔

۷۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ظہورِ نتائج کا وقت آیا تو عذابِ الٰہی کی لپیٹ میں فرعون اور اس کے اشاروں پر چلنے والے لوگ ہی آ گئے۔ اہل ایمان اس سے بالکل محفوظ رہے۔

۷۱۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں فرعون والوں کے لیے دو عذابوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک وہ جو انہیں صبح و شام دیا جا رہا ہے اور دوسرا وہ جو قیامت کے دن دیا جائے گا۔ پہلا عذاب عالمِ برزخ میں ان کی روحوں کو دیا جا رہا ہے اور وہ آگ کا عذاب ہے۔ رہا دوسرا عذاب تو قیامت کے دن جب وہ زندہ کر دئے جائیں گے تو روح اور جسم دونوں کو عذاب کا مزا چکھنا ہو گا۔ یہ عذاب عالمِ برزخ کے عذاب سے کہیں زیادہ شدید ہو گا۔

صبح و شام سے مراد عالمِ برزخ کے صبح و شام ہیں اور محاورہ میں صبح و شام کے الفاظ روزانہ اور دائمی کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورۂ مریم آیت ۶۲  میں بیان ہوا ہے کہ اہل جنت کو ان کا رزق صبح و شام ملے گا اور آلِ فرعون میں فرعون ، اس کا ظالم خاندان جو حکمراں تھا، اس کا طاغوتی لشکر اور اس کے پیچھے چلنے والے سب شامل ہیں۔

اس آیت سے اور قرآن کی دوسری متعدد آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عالمِ برزخ میں کافروں کی روحوں کو عذاب دیا جاتا ہے مثال کے طور پر سورۂ انفال میں ہے :

"اور اگر تم اس حالت کو دیکھ سکتے جب فرشتے کافروں کی روحوں کو قبض کرتے ہیں۔ وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں چکھو جلنے کے عذاب کا مزہ۔”(انفال: ۵۰)

جب کہ مرنے والے کے جسم پر ہم عذاب کے کوئی آثار نہیں دیکھتے۔ اسی کو حدیث میں عذابِ قبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مگر لفظی بحث میں پڑ کر لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے ثابت نہیں ہے حالانکہ قرآن سے عالم برزخ کا عذاب ثابت ہے اور حدیث میں اس کو قبر کے عذاب سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ قبر کو دیکھ کر انسان کا ذہن بہ آسانی عالم برزخ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور نفسیاتی اعتبار سے قبر عبرت پذیری کی جگہ ہے۔

عذاب قبر کا یہ مطلب نہیں کہ قبر میں جو جسم دفن کیا گیا ہے اس پر عذاب ہو رہا ہے کیوں کہ جسم تو سڑگل کر ختم ہو جاتا ہے ، پھر جو لوگ سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں ان کو مچھلیاں کھا لیتی ہیں اور ان کی قبر نہیں بنتی۔ فرعون کا لشکر بھی سمندر میں غرق ہوا تھا اور ان لوگوں کو قبر نہیں بنی لیکن قرآن کہتا ہے کہ صبح و شام ان پر عذاب ہو رہا ہے۔ اسی طرح جن مردوں کو جلایا جاتا ہے ان کی بھی قبریں نہیں بنتی تو کیا وہ عذابِ قبر سے آزاد ہو گئے ؟ ان سب باتوں کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ عذاب روحوں پر ہوتا ہے نہ کہ مردہ جسم پر اور یہ عالم برزخ میں ہوتا ہے خواہ کسی کی قبر بنی ہو یا نہ بنی ہو۔

حدیث میں آتا ہے :

عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبیُّ صلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ و سلم اِذَا مَاتَ الرَّجُلُ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ اِنْ کَانَ مِنْ اَہْلِ الْجَنَّۃِ فَالْجَنَّۃُ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَہْلِ النَّارِ فالنَّارُ۔ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ ہٰذا مَقْعَدُکَ الَّذِیْ تُبْعَثُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ۔(مسلم کتاب التوبۃ، بخاری کتاب الزہد)

” حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کو صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت کی جھلک دکھائی جاتی ہے اور اگر جہنمی ہے تو جہنم کی جھلک پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن یہی تیرا ٹھکانا ہو گا۔” اور متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا منقول ہوئی ہے : وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذابِ الْقَبْرِ اور میں عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں(بخاری کتاب الدعوات)۔

علامہ ابن کثیر مذکورہ آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” ان کی روحیں صبح و شام آگ پر پیش کی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ پھر جب قیامت کا دن ہو گا تو ان کی روحیں ان کے جسم کے ساتھ آگ میں داخل ہوں گی۔ اسی لیے فرمایا یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ یعنی ایسا عذاب جو درد ناک ہونے کے لحاظ سے شدید تر اور سزا کے اعتبار سے بڑھ کر ہو۔ اور یہ آیت بہت بڑی بنیاد ہے اس استدلال کی جو اہلِ سنت قبر میں عذابِ برزخ کے بارے میں کرتے ہیں۔”(تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۸۱)

یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ آیت میں آگ کے سامنے آلِ فرعون کو پیش کرنے کا جو ذکر ہوا ہے تو اس کا لازمی مطلب عذاب نہیں ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہو تو پھر صبح و شام آگ پر پیش کرنے کا کیا مطلب ہو گا؟ اگر بالفرض آگ کے سامنے انہیں صرف پیش کیا جا رہا ہو اور آگ میں انہیں ڈالا نہ ہو گیا ہو تب بھی آگ کی تکلیف تو ان کو پہنچنے ہی والی اور یہ بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہوئی حالانکہ عربی محاورہ کے اعتبار سے آگ کے سامنے پیش کرنے کا مطلب آگ کا جلانا ہی ہے چنانچہ صاحبِ کشاف نے اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے :

وعرضہم علیہا احراقہم بھا۔ یقال عرض الامام الاساریٰ علی السیف اذا قتلہم(تفسیر کشاف ج ص۴۲۰) ” ان کو آگ پر پیش کرنے کا مطلب آگ سے ان کو جلانا ہے۔ کہا جاتا ہے امام نے قیدیوں کو تلوار پر پیش کیا جبکہ اس نے ان کو قتل کر دیا ہو۔”

رہا یہ سوال کہ حساب سے پہلے عذاب کیسا تو اس کا جواب سورۂ زمر نوٹ ۶۰ میں گزر چکا۔ اس موقع پر یہ نوٹ بھی پیش نظر رہے۔

۷۲۔۔۔۔۔۔ بڑے بننے والوں سے مراد وہ مذہبی پیشوا اور لیڈر ہیں جو خود گمراہ تھے اور عقائد و اعمال میں لوگوں کی غلط رہنمائی کرتے رہے۔ اور کمزور لوگوں سے مراد ان کے دباؤ میں آ کر اور ان کے زیر اثر ان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیشواؤں اور لیڈروں سے جہنم میں جھگڑیں گے کہ تمہارے پیچھے چل کر ہم جہنم میں پہنچ گئے۔ اب تم ہمارے عذاب کا کم از کم ایک حصہ ہی دور کر دو۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم خود جہنم میں سزا بھگت رہے ہیں تمہاری سزا کو ہم کیا دور کر سکتے ہیں اور اللہ ہمارے لیے دائمی سزا کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس طرح وہ اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے۔ قرآن ان کی اس بے بسی کو دنیا ہی میں لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ تاکہ ہر شخص اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور گمراہ پیشواؤں اور لیڈروں کی تقلید نہ کرے۔

۷۳۔۔۔۔۔۔ جہنم میں مسلسل کافروں کو عذاب بھگتنا ہو گا۔ کوئی وقفہ نہ ہو گا جس میں وہ اطمینان کا سان لے سکیں۔ اس لیے وہ جہنم کے نگراں فرشتوں سے کہیں گے کہ وہ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ کم از کم ایک دن کے لیے ان کے عذاب میں کمی کر دے مگر فرشتوں کی طرف سے ان کو مایوس کن جواب ملے گا۔ وہ یہ کہہ کر سفارش کرنے سے معذرت کریں گے کہ رسولوں نے تمہارے سامنے حجت پیش کر دی تھی مگر تم کافر بنے رہے اور کافروں کے لیے کوئی سفارش نہیں کی جا سکتی لہٰذا اب تم ہی دعا کرو۔

۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کافر جو دعا بھی کریں گے اس کی کوئی سنوائی نہیں ہو گی۔

۷۵۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کافروں کے مقابلہ میں رسولوں اور اہل ایمان کی مدد کرتا رہا ہے جس کی واضح مثال حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور بنی اسرائیل کا فرعون کے شکنجہ سے سلامتی کے ساتھ نکل جانا اور بعافیت سمندر کو عبور کرنا ہے جب کہ فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ اللہ کی نصرت رسولوں اور ان کے ساتھی اہل ایمان کے حق میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ نوح ، ہود، صالح علیہم السلام اور دیگر کتنے ہی رسولوں کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے بچا لیا گیا جو ان کی قوموں پر کفر کی پاداش میں آیا اور جس نے ان کو ہلاک کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد زمین میں اقتدار اہل ایمان ہی کو حاصل ہوا۔ اسی طرح اللہ کی نصرت تلوار کی شکل میں بھی ظاہر ہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت داؤد نے جالوت کو قتل کر کے اس کی کافر قوم پر فتح حاصل کر لی، حضرت سلیمان کو کتنی ہی کافر قوموں پر غلبہ حاصل ہوا اور ان کو ایسی سلطنت عطا ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے نصرت الٰہی کی جو بشارت مضمر ہے وہ چند سال بعد غزوۂ بدر کے موقع پر بالکل ظاہر ہو گئی اور پھر فتح مکہ نے اس کا مزید ثبوت بہم پہنچایا یہاں تک کہ پورا عرب آپ کے زیر نگیں ا گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اللہ کی نصرت ہی تھی جس نے ان کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر صحیح سلامت آسمان پر اٹھایا اور دشمنوں کی سازشیں دھری کے دھری رہ گئیں۔ ان کے پیروؤں کے لیے اگرچہ آزمائش کا سلسلہ طویل رہا لیکن ان کی دعوت پھیلتی چلی گئی۔ ان کے دشمن یہود کا زور اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے ذریعہ توڑا اور بالآخر حضرت عیسیٰ کے پیروؤں ہی کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوا۔

۷۶۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن جب کہ اللہ عدالت برپا کرے گا اور رسول اپنی کافر قوموں کے خلاف گواہی دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ اس وقت اللہ کی نصرت بدرجۂ اتم رسولوں اور اہل ایمان کے حق میں ظاہر ہو گی، ان کا موقف ہی صحیح قرار پائے گا اور اس عدالت سے کامیاب ہو کر نکلیں گے۔

۷۷۔۔۔۔۔۔ ظالموں سے مراد کافر ہیں جو حق و عدل سے انحراف کر کے اپنے نفسوں پر ظلم کرتے رہے۔ ان کا کوئی عذر سنا نہیں جائے گا اس لیے کہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہو چکی تھی۔

۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات کا وارث بنایا۔

۷۹۔۔۔۔۔۔ رسول بھی اللہ کا بندہ ہوتا ہے اور ایک بندہ کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اپنے کو کوتاہ کار سمجھے اور اپنے قصوروں کے لیے معافی کا خواستگار ہو خواہ اس کے قصور اس کے علم میں ہوں یا نہ ہوں۔ اس سے عبدیت کا احساس ابھرتا ہے۔ اور بندہ اللہ کی رحمت کا اور زیادہ مستحق ہو جاتا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہوئی کہ آپ اپنے قصوروں کو اللہ سے معافی چاہیں اور آپ کے توسط سے یہی تعلیم اہل ایمان کو دی گئی۔

ایک نبی دانستہ کوئی گناہ نہیں کرتا۔ وہ تو لوگوں کے لیے اپنے عمل سے بہترین اسوہ قائم کرتا ہے اور امانت و صداقت اور تقویٰ اور سیرت کی پاکیزگی نبوت کی لازمی خصوصیت ہوتی ہیں جسے اصطلاحاً” عصمتِ انبیاء” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض مرتبہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں معمولی فروگزاشتیں ان سے ہو جاتی ہیں جن پر وحی الٰہی گرفت کرتی ہے اور وہ فوراً متنبہ ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی چند فروگزاشتیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوئی تھیں ان پر قرآن میں گرفت کی گئی۔ ان کے علاوہ اگر آپ سے کوئی قصور سرزد ہوئے تھے تو وہ آپ کے اور آپ کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے ہمیں نہ اس کا علم ہے اور نہ اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ۔

بعض مفسرین نے "اپنے قصوروں کے لیے استغفار کرو” کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ حکم دراصل آپ کے واسطہ سے آپ کی امت کو دیا گیا ہے۔ مگر یہ تاویل اس لیے صحیح نہیں کہ سورہ محمد میں صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اور اہل ایمان کے قصوروں کے لیے استغفار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے :

وَاسْتَغْفِرْلِذَنْبِکل وَلِلْمُؤمِنیِنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ(محمد:۱۹) ” اور اپنے قصوروں کے لیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرو”

۸۰۔۔۔۔۔۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان کے سامنے جب اس کے رب کا کوئی فرمان آ جائے تو وہ سر تسلیم کرے لیکن جو لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کج بحثی کرنے لگتے ہیں مگر ان کو وہ بڑائی ہرگز حاصل ہونے والی نہیں جس کے خواب وہ دیکھ رہے ہیں۔ ان کو بہت جلد ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

۸۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسے لوگوں کے شر سے تم اللہ کی پناہ مانگو۔

۸۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے مگر اکثر لوگ اتنی واضح بات بھی نہیں سمجھتے۔

موجودہ زمانہ میں تو سائنس نے کائنات کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں۔ ان انکشافات کے پیشِ نظر کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ہم اپنی کہکشاں میں بے شمار ستاروں کو دیکھتے ہیں اور ایسی کئی کہکشائیں کتنے ہی نوری سال کی دوری پر واقع ہیں۔ تو جس ہستی نے اتنی وسیع کائنات پیدا کی اور اس کو ایک نہایت مضبوط نظام میں جکڑ دیا اس کی قدرت سے کوئی بات بھی بعید نہیں۔ وہ مردہ انسانوں کو بھی اٹھا کھڑا کر سکتا ہے اور اس کائنات کی تشکیل نو بھی کرسکتا ہے۔

۸۳۔۔۔۔۔۔ اندھا وہ جو حقیقت کو دیکھ نہیں پاتا اور بینا وہ جو حقیقت کو دیکھ رہا ہے۔ دونوں کا حال کیسے یکساں ہو سکتا ہے ؟

۸۴۔۔۔۔۔۔ دعا کے معنی پکارنے کے ہیں اور درخواست کرنے کے بھی اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ پکارا بھی جائے اللہ ہی کو اور درخواست(دعا) بھی کی جائے اللہ ہی سے کیونکہ پکار کو سننے والا بھی وہی ہے اور دعاؤں کو قبول کرنے والا بھی وہی۔

یہ آیت مزید صراحت کرتی ہے کہ یہ پکارنا اور دعائیں کرنا عبادت ہے لہٰذا یہ باتیں اللہ کے ساتھ مخصوص ہونی چاہئیں۔ اور اگر کسی اور کو اس طرح پکارا گیا جس طرح اللہ کو پکارا جاتا ہے یا اس سے دعائیں مانگی گئیں تو یہ اس کی عبادت ہو گی اور اللہ کی عبادت سے صریح انحراف ہو گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے دعا کو عبادت سے تعبیر فرمایا ہے :

الدُّعَا ہُوَ الْعِبَادَۃُ ” دعا عبادت ہی ہے "(ترمذی کتاب التفسیر)

اس لیے زبان پر یا اللہ، یا رب، یا رحمٰن، یا رحیم جیسے کلمات ہونے چاہئیں لیکن موجودہ دور کے مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یا علی، یا غوث(عبدالقادر جیلانی) اور یا خواجہ کی رٹ لگاتے ہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۲۴۷ ، ۲۴۸۔

۸۵۔۔۔۔۔۔ تاکہ دن کی روشنی میں معاشی دوڑ دھوپ کر سکو۔

۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جس نے تمہاری پرورش کا یہ سامان کیا ہے وہی تمہارا مالک ہے۔

۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جو خالق اور مالک ہے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے مگر تم شیطان کے بہکاوے میں آ کر اتنی واضح حقیقت سے بھی انحراف کرتے ہو۔

۸۸۔۔۔۔۔۔ مراد گزری ہوئی کافر قومیں ہیں۔

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین کو اس قابل بنایا کہ اس میں جنبش نہ ہو اور تم اس پر آسانی سے چل پھر سکو اور چین کے ساتھ رہو بسو۔

۹۰۔۔۔۔۔۔ آسمان کے سلسلہ میں دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۱۔

۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی دیگر جاندار مخلوق کے مقابلہ میں انسان کو بہترین صورت عطا کی۔

۹۲۔۔۔۔۔۔ جانوروں کو کیسی گھٹیا چیزیں کھانے کے لیے ملتی ہیں اور بعض جاندار تو گندگی ہی میں پلتے ہیں لیکن انسان کو کیسی صاف ستھری اور نفیس غذا ملتی ہے۔ یہ اللہ کا انسان پر کتنا بڑا احسان ہے۔

۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی وہی ایک ہے جو ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ رہی اس کی مخلوق تو اس کو جو زندگی ملی ہے اسی کے عطا کرنے سے ملی ہے۔

۹۴۔۔۔۔۔۔ اپنے کو اللہ کے حوالہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پورے شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ مجھے اللہ کے تابع فرمان بن کر رہنا اور اس کی مکمل اطاعت کرنا ہے۔ جو شخص سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے وہ اللہ کی اور صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے کیوں کہ جب اللہ نے کسی اور کی عبادت کرنے سے منع کر دیا ہے تو وہ اتنی بڑی معصیت کا کام کیسے کر سکتا ہے۔ اللہ کی اطاعت اور غیر اللہ کی عبادت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔

۹۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حج نوٹ ۷۔

۹۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حج نوٹ ۸۔

۹۷۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حج نوٹ ۹۔

۹۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حج نوٹ۔۱۲

۹۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حج نوٹ ۱۴ ، ۶۱۔

۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی کو جوانی سے پہلے اور کسی کو بڑھاپے سے پہلے۔

۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس کے لیے جو عمر مقدر ہے وہ اس کو پورا کر لے۔ بالفاظ دیگر آدمی مرتا اسی وقت ہے جب کہ وہ اس مدت کو پورا کر چکا ہو جو اللہ نے اس کے زندہ رہنے کے لیے مقرر کی تھی۔

۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں تخلیق کے ان مرحلوں سے اور اس کے بعد طفولیت، جوانی اور بڑھاپے سے اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم عقل و شعور سے کام لو اور اپنے خالق اور رب کو پہچانو۔

۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے کلام اور اس کے احکام کے بارے میں الٹی سیدھی بحثیں کرتے ہیں۔

۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان پر شیطان کا جادو چل گیا ہے۔ وہ انہیں حق سے پھیر کر ادھر اُدھر بھٹکا رہا ہے۔

۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان تعلیمات کو جن کو لے کر رسول آئے تھے۔

۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ وقت دور نہیں کہ جب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کو انہوں نے جھٹلایا تھا وہ حق تھا۔

۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے۔

۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم جن کا نام جپتے تھے اور جن کو اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے پکارتے تھے ان کا کوئی خدائی وجود نہیں تھا۔ پھر وہ حواس باختہ ہو کر اس بات کی نفی کریں گے کہ ہم سرے سے ان کو پکارتے ہی نہیں تھے۔ اس طرح وہ اپنے معبودوں سے بالکل بے تعلقی کا اظہار کریں گے۔

۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بدحواسی میں مبتلا کرے گا۔

۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اتنی سخت سزا تمہیں اس لیے دی جا رہی ہے کہ دنیا میں تم کو جو نعمتیں حاصل ہوئی تھیں ان پر اتراتے رہے جب کہ ان کے حاصل ہو جانے پر تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح تم اپنے غرور اور گھمنڈ کی وجہ سے حق کی مخالفت کرتے رہے۔ حالانکہ اس کے آگے تمہاری گردنیں جھک جانا چاہیے تھیں۔

۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا یہ وعدہ کہ رسول کو جھٹلانے والی قوم بالآخر عذاب سے دو چار ہو گی۔

۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ یونس نوٹ ۷۵۔

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم میں سے ایک بڑی تعداد رفتہ رفتہ ایمان لے آئی اس لیے اس پر اس طرح کا کوئی عذاب نہیں آیا جیسا کہ گزشتہ قوموں پر آیا تھا بلکہ کافروں کا قلع قمع اہل ایمان کی تلوار کے ذریعہ کیا گیا۔

۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن میں جن انبیاء علیہم السلام کا ذکر ناموں کی صراحت کے ساتھ ہوا ہے وہ ہیں آدم، نوح، ہود، صالح، ادریس، ابراہیم، لوط، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، ایوب، شعیب، موسیٰ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، الیاس ،الیسع، ذوالکلفل، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ ان انبیاء علیہم السلام میں خاصی تعداد رسولوں کی ہے۔ رسول نبی کی بہ نسبت خاص ہے۔ اسے کسی قوم کی طرف پیغام دے کر بھیجا جاتا ہے جب کہ نبی پر وحی تو نازل ہوتی ہے لیکن اس کے سپرد کچھ مخصوص کام ہوتے ہیں مثلاً حضرت آدم نبی تھے جن کا کام اپنی اولاد کی رہنمائی کی حد تک محدود تھا کیوں کہ اس وقت کوئی قوم وجود ہی میں نہیں آئی تھی کہ اس کی طرف رسول بھیجا جاتا۔ اس طرح حضرت خضر کا جن کے نام کی کوئی صراحت قرآن میں نہیں بلکہ حدیث میں ہوئی ہے کارِ نبوت عالمِ اسباب کے بعض اسرار پر سے پردہ اٹھانا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی اصطلاحی معنی میں رسول نہیں ہوتا۔

قرآن نے بیشتر ان ہی پیغمبروں کا ذکر کیا ہے جو اپنی ایک تاریخ رکھتے تھے اور حجت قائم کرنے کے لیے ان ہی کے حالات بیان کرنا مفید ہو سکتا تھا۔ لیکن قرآن صراحت کرتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی پیغمبر بھیجے گئے جن کی بعثت مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں ہوئی۔ ان تمام پیغمبروں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ رہی ان کی تعداد تو نہ قرآن میں تعداد بیان ہوئی ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں۔ جن روایتوں میں انبیاء اور رسولوں کی تعداد بیان ہوئی ہے ان میں سے کوئی بھی صحت کے درجے پر پوری نہیں اترتی۔ اس سلسلہ کی مشہور روایت ابو ذر سے ہے جس کو ابن مرودیہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ہوئے ہیں جن میں سے تین سو تیرہ رسول تھے لیکن اس کا ایک راوی ابراہیم بن ہشام ہے جس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل نے بہت کچھ کلام کیا ہے اور ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوعات(گھڑی ہوئی حدیثوں) میں شمار کیا ہے۔(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۸۶)

۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں آیۃ(نشانی) سے مراد معجزہ ہے اور معجزہ دکھانا کسی رسول کے اختیار کی بات نہیں ہے بلکہ جب اللہ کی حکمت متقاضی ہوتی ہے وہ اپنے رسول کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر کرتا ہے۔

۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ حکم سے مراد فیصلہ کن حکم ہے۔

۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً ان چوپایوں سے دودھ اور مکھن حاصل ہوتا ہے ، ان کو چمڑا اون اور ہڈیاں تمہاری مختلف ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں۔

۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو بار برداری کے کام میں لا سکو اور یہ ایسی اہم ضرورت ہے جس کو تم خود اپنے نفس میں محسوس کرتے ہو۔ اور یہ واقعہ ہے کہ مشینی دور سے پہلے بار برداری کا کام چوپایوں ہی سے لیا جاتا تھا۔ زمین جوتنے اور آبپاشی کی خدمت بھی چوپایوں سے لی جاتی ہے۔

۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کو چوپائے بھی اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں اور کشتیاں بھی۔

۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ چوپائے جن سے تمہارے طرح طرح کے فوائد وابستہ ہیں اور یہ کشتیاں جو تمہیں اٹھائے پھرتی ہیں کیا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ یہ سب تمہاری پرورش کا سامان ہے جو اللہ نے کیا ہے۔ اس کی ربوبیت کی ان صریح نشانیوں کو دیکھتے ہوئے تم اس کے رب حقیقی اور الٰہ واحد ہونے کا کس طرح انکار کرتے ہو؟

۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ان تباہ شدہ قوموں کی طرف جن کی تاریخ اور جن کے آثار سے عبرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مذہب کا جو ناقص علم ان کے پاس تھا اور دنیوی علوم و فنون میں جو درک ان کو حاصل ہو گیا تھا اس پر وہ نازاں ہو گئے اور اس علمِ حقیقی کی قدر نہیں کی جس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جس کی تعلیم وقت کا رسول دے رہا تھا۔

موجودہ دور تو سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے اور آج کا انسان ان مادی علوم و فنون ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے جب کہ اس علم سے وہ حقائق روشن نہیں ہوتے جو علمِ نبوت سے روشن ہوتے ہیں۔ جس علم کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس کی رسائی اس دنیا کے خول سے باہر نہیں ہے۔ اس سے نہ اب تک مقصدِ زندگی کا تعین ہو سکا ہے اور نہ یہ معلوم ہو سکا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے اور نہ ہی یہ اس کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اگر انسان میں یہ احساس جاگ اٹھے تو وہ اس علم کی طرف بڑھے جس سے یہ سب عُقدے حل ہو جاتے ہیں اور قرآن کا قدر داں بن جائے جو علوم و معارف کا خزانہ ہے۔

۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کا عذاب آیا تو اپنے بتوں اور دیوی دیوتاؤں کو بھول گئے۔ اس وقت انہوں نے اللہ کے واحد معبود اور رب ہونے کا اقرار کیا اور اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کا انکار کیا۔

۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عذاب کو دیکھ لینے کے بعد مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور امتحان کا وقت باقی نہیں رہتا اس لیے اس وقت ایمان لانا بے سود ہوتا ہے ایمان وہی معتبر ہے جو عذاب کو دیکھ لینے سے پہلے یا موت کے آنے سے پہلے لایا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

(۴۱) سورۃ حٰم السجدۃ

 

(۵۴ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ کا آغاز حٰم کے حروف سے ہوتا ہے اور آیت ۳۷ *میں اللہ ہی کو سجدہ کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ” حٰم السجدہ” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن کا انکار کرنے والوں کو متنبہ کرنا اور اس پر ایمان لانے والوں کو خوشخبری دینا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۸ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن کی قدر پہچانو۔

آیت ۹ تا ۱۸ میں منکرین کو دعوتِ فکر دی گئی ہے اور وحی و رسالت کو جھٹلانے کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے۔ آیت ۱۹ تا ۲۵ میں اللہ کے دشمنوں کا وہ انجام بیان ہوا ہے جس سے وہ قیامت کے دن دو چار ہوں گے۔

آیت ۲۶ تا ۲۹ میں قرآن کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

آیت ۳۰ تا ۳۶ میں ان لوگوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جو کافروں کی اس ہنگامہ آرائی اور تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔ ساتھ ہی انہیں دعوت کی راہ میں مخالفین سے در گزر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آیت ۳۷ تا ۴۰ میں اللہ کے واحد معبود ہونے اور مُردوں کے اٹھائے جانے پر قادر ہونے کی نشانیاں واضح کی گئی ہیں۔

آیت ۴۱  تا ۴۶ میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کس شان کی کتاب ہے اور منکرین اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں اور اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔

آیت ۴۷ تا ۵۱ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں قرآن کے بارے میں منکرین کے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے پیشین گوئی کی گئی ہے کہ عنقریب اس کی صداقت کی نشانیاں آفاق و انفس میں ظاہر ہوں گی۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حا۔ میم ۱*

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رحمن و رحیم کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ ۲*

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی کتاب جس کی آیتیں کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ ۳ *عربی قرآن۔ ۴ *ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ ۵*

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشخبری دینے والی اور آگاہ کرنے والی۔ ۶ *مگر ان میں سے اکثر لوگوں نے منہ پھیرا اور وہ اس کو سنتے ہی نہیں۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمارے دل اس کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ایک حجاب حائل ہے۔ تو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ۷*

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا اِلٰہ معبود۔ ایک ہی اِلٰہ ہے۔۸ *تو تم سیدھے اسی کا رخ کرو ۹ *اور اس سے معافی چاہو۔ ۱۰ * تباہی ہے مشرکین کے لیے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے ۱۱ *اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ۱۲*

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو اور اس کے ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی؟ وہی تو رب العالمین ہے۔ ۱۳*

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ گاڑ دئے اور اس میں برکتیں رکھیں اور غذائی سامان رکھا۔ ۱۴ *یہ چار دنوں میں ہوا۔۱۵ * (یہ نعمتیں) یکساں ہیں تمام طلب کرنے والوں کے لیے۔ ۱۶*

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھوئیں کی شکل میں تھا۔ ۱۷ *اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا حکم کی تعمیل کرو رضامندی سے یا بغیر رضامندی کے۔ انہوں نے کہا ہم نے تعمیل کی رضامندی سے۔ ۱۸*

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس نے سا ت آسمان بنا دئے دو دنوں میں ۱۹ *اور ہر آسمان میں اس کے احکام وحی کر دیئے۔ ۲۰ *ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے زینت بخشی ۲۱ *اور اس کو محفوظ کر دیا۔ ۲۲ *یہ اس ہستی کی منصوبہ بندی ہے جو غالب اور نہایت علم والا ہے۔ ۲۳*

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر یہ بے رخی برتتے ہیں تو ان سے کہو میں تمہیں اسی طرح کے عذاب سے ڈراتا ہوں جس طرح کا عذاب عاد اور ثمود پر ٹوٹ پڑا تھا۔ ۲۴*

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ان کے رسول ان کے آگے اور پیچھے سے آئے ۲۵ *کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں نے کہا ہمارا رب چاہتا تو فرشتے نازل کرتا۔ لہٰذا ہم اس پیغام کو نہیں مانتے جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے زمین میں گھمنڈ کیا جس کا انہیں کوئی حق نہیں تھا اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے۔ ۲۶ *وہ ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر ہم نے ان پر منحوس دنوں ۲۷ *میں تند ہوا بھیجی ۲۸ *تاکہ انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزا چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہو گا اور وہ کوئی مدد نہ پا سکیں گے۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔رہے ثمود تو ہم نے ان کو راہ دکھائی لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھے پن کو پسند کیا۔ ۲۹ *تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کو ذلت کے تباہ کن عذاب نے پکڑ لیا۔ ۳۰*

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور اللہ سے ڈرتے تھے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن کہ جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کی طرف لے جانے کے لیے اکٹھا کیا جائے گا اور ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ۳۱*

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے ۳۲ *تو ان کے کان ، ا ن کی آنکھیں اور ان کی جلدیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ ۳۳*

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی جلدوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ کہیں گی ہمیں اسی اللہ نے گویا کر دیا جس نے ہر چیز کو گویا کیا ۳۴*___ اسی ۳۵ *نے توم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اب تم اسی کی طرف لوٹائے جا رہے ہو۔ ۳۶*

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم یہ اندیشہ رکھتے نہ تھے کہ تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں تمہارے خلاف گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ گمان کیا تھا کہ اللہ بھی ان بہت سی باتوں کو نہیں جانتا جو تم کرتے ہو۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے بارے میں تمہارا یہی گمان تھا جس نے تم کو ہلاکت میں ڈالا اور تم خسارہ میں پڑ گئے۔ ۳۷*

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر وہ صبر کریں تو جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہے اور اگر وہ معافی مانگیں تو تو انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ ۳۸*

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دئیے تھے جو ان کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے۔ ۳۸ الف *بالآخر ان پر بھی میرا وہ فرمان پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر پورا ہوا تھا۔ ۳۹ *وہ تباہ ہو کر رہے۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو اور اس  (کی تلاوت) میں شور و غل مچاؤ تاکہ تم غالب رہو۔۴۰*

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور جو بدترین کام وہ کرتے رہے ہیں ان کا بدلہ ضرور انہیں دیں گے۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کے دشمنوں ۴۱ *کا بدلہ ہے یعنی جہنم۔ اسی میں ان کے لیے ہمیشگی کا گھر ہو گا۔ یہ سزا ہے اس بات کی کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں ان جنوں اور انسانوں کو دکھا دے۔ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ ہم ان کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالیں گے تاکہ وہ نچلے بن کر رہیں۔ ۴۲*

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں  ۴۳نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر استقامت اختیار کی ۴۴ *یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ ۴۵

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی ہیں۔ ۴۲ *اس میں تمہارا دل جو چاہے گا وہ تمہیں ملے گا اور جو چیز بھی تم طلب کرو گے تمہیں ملے گی۔ ۴۷*

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سامانِ ضیافت ہے اس (ہستی) کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ ۴۸*

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے ، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمین میں سے ہوں۔۴۹*

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی۔ تم برائی کو اس طریقہ سے دور کرو جو سب سے بہتر ہو۔۵۰*اس صورت میں تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان عداوت تھی وہ گویا گہرا دوست بن گیا ہے۔ ۵۱*

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کی توفیق ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ (فہم) ان ہی کو حاصل ہوتا ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں۔۵۲*

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۵۳*

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں۔ ۵۴ *نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ ۵۵*

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر یہ تکبر کرتے ہیں تو۔  (ان پر واضح رہے کہ) جو فرشتے اس کے حضور ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔۵۶*

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین خشک پڑی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آ جاتی ہے اور پھول جاتی ہے۔بلاشبہ جس نے اس کو زندہ کیا وہ مُردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے۔ ۵۷ *یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ہماری آیتوں میں ٹیڑھ نکالتے ہیں ۵۸ *وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ۵۹ *کیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں ڈالا جائے گا یا وہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا؟ جو چاہو کرو۔ ۶۰ *تم جو کچھ کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے یاد دہانی کا انکار کیا جب کہ ان کے پاس آئی وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ ۶۱

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ باطل اس میں نہ اس کے سامنے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔۶۲ *یہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکمت والی اور خوبیوں والی ہے۔

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) تم سے وہی باتیں کہی جا رہی ہیں جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے کہی جاچکی ہیں۔ ۶۳ *بے شک تمہارا رب بڑا معاف کرنے والا بھی ہے اور درد ناک سزا دینے والا بھی۔

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر اتارتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیتیں کھول کر بیان کی گئیں ؟ کلام عجمی اور مخاطب عربی ! ۶۴ *کہو یہ ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفاء ہے۔ ۶۵ *اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہراپن ہے اور وہ  (قرآن) ان کی آنکھوں کے لیے حجاب ہے۔ ۶۶ *(گویا) ان لوگوں کو دور کی جگہ سے پکارا جا رہا ہے۔ ۶۷*

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی تو اس میں اختلاف کیا گیا۔۶۸ *اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ ۶۹ *اور یہ لوگ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ۷۰*

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔ ۷۱ *تمہارا رب بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی کا علم اسی کی طرف لوٹتا ہے۔۷۲ *کوئی پھل اپنے غلاف (شگوفہ) سے باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی اور جنتی ہے مگر اس کے علم میں ہوتا ہے۔ ۷۳ *اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے شریک ؟ ۷۴ *وہ کہیں گے ہم عرض کر چکے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔ ۷۵*

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس سے پہلے جن کو پکارتے رہے ہیں وہ سب ان سے گم ہو جائیں گے ۷۶ *اور وہ جان لیں گے کہ ان کے لیے اب کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بھلائی کی دعا مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے۔ ۷۷*

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچتی ہے ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میں تو اسی کا مستحق ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت قائم ہو گی اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹا یا ہی گیا تو میرے لیے اس کے پاس بھی خوشحالی ہی ہے۔ ۷۸ *تو ہم ان کافروں کو ضرور بتائیں گے کہ انہوں نے کیا اعمال کئے ہیں اور انہیں ہم لازماً سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو جب ہم نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر چلتا ہے۔ اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ۷۹*

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا تو اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو۔ ۸۰*

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق اطرافِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس  ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ حق ہے۔ ۸۱ *کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب ہر چیز کا شاہد ہے۔

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ سنو! یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیشی کے بارے میں شک میں ہیں۔ سن لو! وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ۸۲*

 

                   تفسیر

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح سورۂ مومن نوٹ ۱ *میں گزر چکی۔

اس سورہ میں اللہ کے حکیم ہونے کی صفت آیت ۴۲ *میں بیان ہوئی ہے جس کی طرف یہ حروف اشارہ کرتے ہیں۔

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جس کے ساے ۂ رحمت میں انسان پرورش پا رہا ہے اور جو اپنے مخلص بندوں کو رحمتِ خاص سے نوازتا ہے کی رحمت اس کتاب کے نزول کا باعث ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کتاب سراسر رحمت ہے۔

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ہود نوٹ ۳۔

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کے مخاطب اول عرب تھے اس لیے قرآن عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ دوسری قوموں کے لیے قرآن بالواسطہ حجت ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ عربی میں ہونے کی وجہ سے صرف عربوں پر حجت قائم ہوتی ہے اور دوسروں پر نہیں۔ قیصر و کسرے ٰ کی زبان عربی نہیں تھی مگر ان پر قرآن کے ذریعہ بالواسطہ طور پر حجت قائم کی گئی اور اس زمانہ میں امتِ مسلمہ کے ذریعہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت ہو رہی ہے لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے غیر عربی داں لوگوں کے لیے کس طرح حجت ہو سکتا ہے۔

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کتاب سے علماء اور فضلاء ہی استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور مذہب کے معاملہ میں جہالت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ علم کو بنیاد بناتے ہیں یہ کتاب ان پر ہدایت کی راہ کھول دیتی ہے اور وہ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کتاب ایمان لانے اور راہِ ہدایت پر چلنے والوں کو جاودانی کامیابی کی خوشخبری دیتی ہے اور اس کو ماننے سے انکار کرنے والوں کو دائمی عذاب سے آگاہ کرتی ہے۔

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کا یہ جواب ان کی ڈھٹائی اور تکبر کو ظاہر کرتا ہے۔اور آدمی جب دعوت قرآنی کے مقابلہ میں یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے سننے سمجھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نہیں مانتے تو نہ مانو مگر میرا موقف تم پر واضح رہے کہ نہ میں نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ فرشتہ ہونے کا۔ میں تمہاری ہی طرح گوشت پوست کا انسان ہوں البتہ اللہ نے جو امتیاز مجھے بخشا ہے وہ یہ ہے کہ مجھ پر اس کی وحی نازل ہوتی ہے تاکہ میں اس کا پیغام تمہیں پہنچاؤں اور اس پیغام کا اولین نکتہ یہ ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور وہی تمہارا معبود یعنی عبادت کا مستحق ہے۔

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو، اس کے تابع فرمان بن کر رہو، اسی سے امیدیں وابستہ کرو اور اسی کی رضا کے طالب بنو۔

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب تک جو غلط طرزِ عمل تمہارا رہا ہے اور جن گناہوں کا تم ارتکاب کرتے رہے ہو اس پر اللہ سے معافی کے خواستگار ہو جاؤ۔

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین کا ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے جو اسلام کا نہایت اہم رکن ہے اور پچھلی شریعتوں میں بھی اس کی حیثیت ایک اہم فریضہ کی رہی ہے۔ حضرت اسمعٰیل نے بھی جن کی نسل سے عرب ہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کا تاکیدی حکم دیا تھا ( دیکھئے سورہ مریم آیت ۵۵)۔

واضح رہے کہ شریعت کے مکلف سب ہی لوگ ہیں یعنی احکام الٰہی کی پابندی جس طرح اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اسی طرح مشرکوں اور کافروں پر بھی۔ البتہ کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے مومن ہونا شرط ہے۔ ایمان کے بغیر بڑے سے بڑا نیک عمل بھی اللہ کے ہاں بے وزن ہے لیکن مشرکوں اور کافروں کے شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر ان کے جرم میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ شدید سے شدید تر عذاب کے مستحق ہو جائے ہیں۔ زکوٰۃ اسی طرح عبادت کی ایک شکل ہے جس طرح کہ قربانی نیز یہ محتاجوں اور مسکینوں کا حق بھی ہے جو اللہ نے اموال میں مقرر کیا ہے۔ یہ حق پچھلی شریعتوں میں بھی معروف اور متعین رہا ہے اور مکہ کے ابتدائی دور میں جو شرعی احکام دیئے گئے ان میں بھی زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید اس صراحت کے ساتھ کی گئی تھی کہ یہ ایک متعین حق ہے۔

وَ الَّذِیْنَ فِی اَمْوَالِہِمْ حَقٌ مَعْلُومٌ لِسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (معارج۔۲۴،۲۵) ” جن کے اموال میں حق مقرر ہے مانگنے والوں کا بھی اور جو محروم ہیں ان کا بھی۔”

میں بعد جب مدینہ میں زکوٰۃ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کا موقع آیا تو تفصیلی احکام دیئے گئے۔

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا بلکہ انہیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ دن سے مراد وقت کی وہ مقدار ہے جو اللہ ہی کے علم میں ہے مزید تشریح کے لیے (دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۲) زمین کو دو دن میں پیدا کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین کی تخلیق دو دور میں ہوئی۔ ممکن ہے ایک دور اس کے مادہ کی تخلیق اور اس کے عناصر کی ترکیب میں گزرا ہوا اور دوسرا دور اس کے پرت بننے اور ایک خاص ہیئت اختیار کرنے میں۔ بہر صورت یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ زمین نہ ازلی ہے کہ ہمیشہ سے خود بخود چلی ا رہی ہو اور نہ اتفاقاً وجود میں آئی ہے بلکہ وجود میں لانے سے وہ وجود میں آئی ہے اور اس کو وجود میں لانے والی ہستی اللہ رب العالمین ہی کی ہے جس نے ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت اس کو پیدا فرمایا ہے۔ دو دور میں اس کو پیدا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ نہایت حکیمانہ منصوبہ تھا جس کے نتیجہ میں زمین کا مادہ بتدریج ارتقائی شکل اختیار کرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس نے کرۂ ارضی کی شکل اختیار کر لی۔ تو جس ہستی کی یہ کارفرمائی ہے اس کو خدائے واحد ماننے سے انکار کرنا اور دوسروں کو اس کے برابری کا ٹھہرانا جب کہ ان کا اس کائنات کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں کیسی نادانی کی بات ہے اور کتنی بڑی ظالمانہ حرکت ہے !

اس موقع پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن نہ ارضیات Geology کی کتاب ہے اور نہ فلکیاتAstronomy کی اور نہ ہی طبیعی علوم Physical Sciences کی بلکہ وہ کتاب ہدایت ہے اور ہدایت کے لیے جس حد تک جس علم کی ضرورت تھی قرآن نے اس کو پورا کر دیا ہے۔ کائنات کے آغاز کا مسئلہ ہو یا انجام کا قرآن نے اسی پہلو سے روشنی ڈالی ہے اس لیے متعلقہ آیات کا مطالعہ اسی پہلو سے کرنا چاہیے۔ مگر موجودہ دور میں وہ اصحابِ فکر جو جدید علوم اور سائنسی اکتشافات سے مرعوب ہیں سائنسی نظریات کی تائید میں قرآن کی آیات کو پیش کرنے لگتے ہیں خواہ اس میں ان کو کتنی ہی کھینچ تان کرنا پڑے۔ پھر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کسی بھی آیت کے ذیل میں معلومات کا ڈھیر لگانے سے قرآن کا مطالعہ کرنے والوں کو نظر سے ہدایت اور تذکیر کا پہلو اوجھل ہو جاتا ہے اور ذہن معلومات ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ مادی علوم کے غلبہ کے اس دور میں قرآن کی دعوت پیش کرنے والوں کے لیے تو اس معاملہ میں اختیار برتنا از بس ضروری ہے۔

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکتیں رکھی ہیں کہ انسان کی تمام تمدنی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔ زمین کے اندر مختلف دھاتوں وغیرہ کے ایسے ذخیرے پائے جاتے ہیں جن کو انسان برسہا برس سے نکالے جا رہا ہے اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتے انسانی زندگی کا جن چیزوں پر مدار ہے وہ چیزیں زمین وافر مقدار میں مہیا کرتی ہیں۔ چنانچہ پانی کے چشمے ہر طرف رواں ہیں اور انواع و اقسام کی غذائی اجناس زمین مسلسل اگلتی چلی جا رہی ہے۔ ایک دانہ ڈالو تو زمین سینکڑوں دانے واپس کرتی ہے۔ ایک پودا لگاؤ تو زمین تناور درخت کھڑا کر دیتی ہے اور پھلوں کی شکل میں اپنا تحفہ پیش کرنے لگتی ہے۔ انسانی زندگی کی معیشت کا یہ سامان اور خیر کے یہ خزانے زمین میں کس نے ودیعت کئے ہیں ؟ یہ اصل سوال ہے انسان کے سوچنے کا اور اس کے صحیح جواب ہی پر انسان کے ہدایت پانے کا انحصار ہے۔

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دو دن میں زمین کی تخلیق ہوئی اور دو دن میں پہاڑ کھڑے کئے جانے اور زمین میں غذائی چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیت ودیعت کرنے کا کام انجام پایا۔ اس طرح چار دن یعنی چار دور میں زمین کی تخلیق مکمل ہوئی۔

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین کی یہ نعمتیں کسی مخصوص انسانی گروہ کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی ہیں بلکہ ان کی افادیت عام ہے۔ یہ انسان کی فطرت کی مانگوں کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ ہوا، پانی اور ہر قسم کی زمینی پیداوار تمام انسانوں کے لیے سامانِ معیشت ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس سے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے مگر جس ہستی نے انسان کی طلب کو پورا کرنے کا سامان کیا ہے اس کو عام طور سے لوگ بھول جاتے ہیں۔

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان اور زمین کا مادہ تو ایک ساتھ ہی پیدا کر دیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ انبیاء کی آیت ۳۰ سے واضح ہے لیکن زمین کی تشکیل پہلے کی گئی اور آسمان کی بعد میں۔ جب زمین کی تشکیل ہوئی تو آسمان ایک دھوئیں  ( دخان) کی شکل میں موجود تھا۔ دھوئیں سے گرم گیسHot Gases کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ اسی کی تعبیر ہو۔

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین اور آسمان اگرچہ جمادات ہیں مگر جمادات کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ وہ شعور سے بالکل ہی عاری ہیں۔ ہم ان کے شعور کی کیفیت کو نہیں جانتے لیکن قرآن نے اس کائنات کے جن اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھایا ہے ان سے ہمارے علم میں یہ اضافہ ہو گیا کہ کائنات کی ہر چیز اپنے خالق کو جو اس کا رب بھی ہے پہچانتی ہے ، اس کا حکم سنتی اور اس کی تعمیل کرتی ہے اور اس کی تسبیح اور حمد کرنے میں زمزمہ سنج ہے۔ اس آیت سے مزید یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آسمان و زمین اللہ کے احکام کی تعمیل مجبوری کے درجہ میں ناگواری کے ساتھ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس پر رضامند ہیں۔ اس سے یہ اشارہ خود بخود نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے رب کی اطاعت رضا و رغبت کرنی چاہیے۔

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری نگاہ کی رسائی آسمانِ دنیا تک ہی ہے لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ کائنات اسی حد تک محدود ہے۔ قرآن صراحت کرتا ہے کہ آسمان کے اوپر اور آسمان بھی ہیں۔ آسمان کا جو ابتدائی مادہ تخلیق کیا گیا تھا اس سے سات آسمان اس نے استوار کئے۔ ان سات آسمانوں میں کیا کچھ ہے اللہ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ اس دنیا کی آسمانی فضا میں لا تعداد اجرامِ سماوی کا وجود مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے۔

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے جن قوانین کی انہیں پابندی کرنا ہے اور جو کام اس کی ہدایت کے مطابق انجام دینا ہیں ان کا الہام ان پر کر دیا گیا۔

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تارے آسمان کا پر جمال منظر پیش کرتے ہیں اور مشاہدہ کرنے والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ کیسے کمالات سے متصف ہے وہ ہستی جس نے اتنی حسین و جمیل بزم آراستہ کی۔

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے ایک تو اس پہلو سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ ہیں کہ ان سے نکلنے والے تیز شعلے  (شہاب ثاقب) شیاطین کی آسمان میں پرواز کو روک دیتے ہیں  (دیکھئے سورہ حجر آیت ۱۸ نوٹ ۱۶) اور کچھ دوسرے پہلوؤں سے بھی جو ہمارے علم میں نہیں۔ ممکن ہے ستاروں کے جذب و انجذاب (کشش) کے قانون کے ذریعہ آسمان کی حفاظت کا سامان کر دیا گیا ہو۔ والعلم عنداللہ۔

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کائنات کسی منصوبہ کے بغیر نہ وجود میں آئی ہے اور نہ چل رہی ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت رکھنے والی اور نہایت علم رکھنے والی ہستی کا منصوبہ کارفرما ہے۔ یہ منصوبہ ایک حکیمانہ اسکیم اور ایک با مقصد نظام ہے جس کی ایک غایت ہے۔ اس منصوبہ کو وحی کی روشنی ہی میں سمجھا جا سکتا ہے اور وہ ہے قرآن۔

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ مشرکین ان حقیقتوں کو قبول نہیں کرتے اور توحید کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو انہیں عذاب سے آگاہ کر دو۔

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ رسولوں کے آگے اور پیچھے سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں کے سامنے دعوتِ حق ہر جہت سے پیش کی اور ان کو سمجھانے کی ہر طرح کوشش کی۔

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مادی وسائل کی فراوانی اور اپنی تمدنی ترقی کا غرہ انہیں ایسا رہا کہ وہ اللہ کو بھی بھول گئے۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ ہمارے اوپر ایک زبردست طاقت رکھنے والی ہستی موجود ہے تو اللہ سے ڈرتے اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوتے۔

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ منحوس دنوں سے مراد وہ دن ہیں جب کہ ان کے کفر کی پاداش میں ان کی شامت آئی اور وہ تباہ ہو گئے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اہلِ ایمان کو بھی یہ نحوست لگ جاتی مگر وہ بالکل محفوظ رہے۔ دنوں کے بجائے خود منحوس ہونے کا خیال محض وہمی ہے اور اسلام میں کوئی دن بھی بجائے خود نحس نہیں ہے البتہ جس دن کسی کی شامت اس کے برے اعمال کے نتیجہ میں آئے وہ دن اس کے لیے اس اعتبار سے منحوس قرار پائے گا کہ اسے بر ا انجام دیکھنا پڑا۔

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت تیز ہوا جس نے سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ثمود پر ہدایت کی راہ واضح کر دی تھی لیکن انہوں نے اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اس کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس طرح وہ اندھے بن کر بھٹکتے رہے۔

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ ثمود پر جو عذاب آیا اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورہ اعراف نوٹ ۱۲۳ ، ۱۲۴

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے جرائم کے اعتبار سے ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کے قریب پہنچ جائیں گے۔

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ اور کان گواہی دیں گے کہ ان کو گناہ کے کن کاموں میں استعمال کیا گیا تھا۔ اللہ کی نشانیاں دیکھنے سے آنکھوں کو اور نصیحت کی باتیں سننے سے کانوں کو بند کر لینا سب سے بڑا جرم ہے۔ پھر بھی جن چیزوں کا دیکھنا حرام ہے ان کو دیکھنا اور جن چیزوں کا سننا حرام ہے ان کو سننا کھلی معصیت ہے۔ لہٰذا جن گناہوں کا ارتکاب آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ کیا گیا تھا وہ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں گے اتنا ہی نہیں بلکہ جسم کا رُواں رُواں گواہی دے گا کہ اس کو کس طرح کفر و معصیت کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

معلوم ہوا کہ انسان کے بدن کی جلد(کھال) بڑی حساس ہوتی ہے۔ گویا کہ وہ ٹیپ ہے جو اس کی اس حرکت کو ریکارڈ کر لیتا ہے اور قیامت کے دن یہ ٹیپ اپنا ریکارڈ سنائے گا۔مزید تشریح کے لیے (دیکھئے سورۂ یسٰین نوٹ ۷۰)۔

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن یہ حقیقت بھی بے نقاب ہو گی کہ دنیا میں جو چیزیں بولتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں وہ گویائی سے بالکل محروم نہیں ہیں۔ اس روز ہر چیز ناطق ہو گی۔ زمین اپنے واقعات سنائے گی (سورۂ زلزال) اور انسان کے اعضاء و جوارح بھی بول اٹھیں گے تاکہ انسان کے اعمال کے بارے میں شہادتیں بدرجۂ اتم ادا ہوں۔

موجودہ دور کے انسان کے لیے تو یہ تصور کہ اس کی جلد (کھال) بول اٹھے گی اور اس کے جرائم کی شہادت دے گی کچھ بھی عجیب نہیں ہے کیونکہ آج ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ وہ کسی بھی واقعہ کی بولتی فلم تیار کر لیتا ہے۔

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے پھر اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان شروع ہو جاتا ہے۔

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں اس بات سے انکار تھا کہ تمہاری واپسی اللہ کے حضور ہو گی مگر اب تم دیکھ رہے ہو کہ جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اسی کی طرف تم لوٹ کر آ گئے ہو۔

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہ کرتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ یہ اللہ کی نظروں سے پوشیدہ رہے گا سراسر کفر ہے۔ کوئی گناہ نہ اللہ کی نظر سے پوشیدہ رہ سکتا ہے نہ وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ مگر جب آدمی گناہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے کہ اللہ کی نظر سے یہ پوشیدہ رہے گا۔ پھر جب یہ خیال دل میں جم جاتا ہے تو وہ گناہ پر گناہ کئے چلا جاتا ہے اور بالآخر وہ ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب جہنم میں بہر حال انہیں رہنا ہے چاہے وہ برداشت کریں یا نہ کریں۔ ان کے لیے معافی کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔

۳۸ الف۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد برے ساتھی ہیں۔ انسان جب عقل و شعور سے کام نہیں لیتا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑتا ہے تو شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور گمراہ لوگ اس کے ہم نشین ،رفیق اور مشیر بن جاتے ہیں اور اس کے ذہن کو ایسامتاثر کرتے ہیں کہ باطل عقائد و نظریات اور برے اخلاق و اعمال اس کے لیے پر کشش بن جاتے ہیں۔

آگے اور پیچھے کی ہر چیز کو خوشنما بنا کر دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ برے ساتھی اپنی دلفریب باتوں سے مستقبل کو بھی روشن کر کے دکھاتے ہیں اور ماضی کی گمراہیوں کو بھی اچھے نمونہIdeal کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ آج بھی کتنی ہی قومیں اپنے قدیم کلچر پر فخر کرتی ہیں حالانکہ ان کا کلچر جہالت، بے حیائی اور وہم پرستی کی بدترین مثال ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی مادی ترقی میں اپنے شاندار مستقبل کو دیکھ لیتی ہیں مگر اس کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ: لَأمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِینَ (ص:۸۵) ” میں تجھ سے  (یعنی ابلیس سے ) اور جوا ن میں سے تیری پیروی کریں گے ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔”

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں نے جب دیکھا کہ قرآن دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا ہے اور کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس کے مقابلہ میں ٹک سکے تو وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آئے۔ ان کے لیڈروں نے عوام سے کہا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو مت اور خوب شور مچاؤ تاکہ تم اس آواز کو دبا سکو۔ مگر وہ حق تھا اس کو جتنی دبانے کی کوشش کی گئی اتنا ہی وہ ابھرتا چلا گیا اور آج دنیا بھر میں اس کو اس کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ قرآن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا تاکہ وہ عام لوگوں تک نہ پہنچے یا وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کے دشمن ہوتے ہیں۔

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر جب جہنم میں داخل ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ گمراہ جنوں نے نیز ہمارے پیشواؤں اور لیڈروں نے ہماری بہت غلط رہنمائی کی تھی۔ ان کے گمراہ کرنے سے ہم گمراہ ہوئے۔ اس لیے وہ ان کے خلاف سخت غصہ کا اظہار کریں گے اور اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ ان گمراہ کرنے والوں کو ہمیں دکھا دے تاکہ ہم انہیں جہنم میں پیروں تلے روند ڈالیں اور ذلیل کر کے رکھ دیں۔

دنیا میں کافر اپنے گمراہ پیشواؤں اور لیڈروں سے بڑی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلتے ہیں مگر دوزخ میں پہنچنے کے بعد وہ ان پر لعنت بھیجیں گے اور ان کو کچل دینا چاہیں گے۔

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کا حال اوپر بیان ہوا ہے اب مخلص مومنوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اپنا رب کہنے کا مطلب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا ہے کہ اللہ ہی میرا خالق ، پروردگار، مالک، آقا، معبود، حاکم اور ہادی ہے۔ جو شخص پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے وہ لازماً اپنی اس حیثیت کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ میں اس کی مخلوق، اس کا پروردہ، اس کی مملوک اور اس کا بندہ ہوں۔ میرا کام اس کی عبادت کرنا اس کے احکام کی اطاعت کرنا اور اس کی ہدایت کی پیروی کرنا ہے۔

اور اس بات پر استقامت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک وہ اس پر قائم رہے اور اپنی عملی زندگی میں راست روی اختیار کرے۔ آگے کے مضمون میں جنت کی جو بشارت دی گئی ہے وہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ قرآن نے جا بجا جنت کی بشارت ان لوگوں کو دی ہے جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں۔ اس آیت میں بھی ” جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے” سے ایمان اور ” اس پر استقامت اختیار کی” سے عمل صالح ہی مراد ہے مگر موقع و محل کے لحاظ سے ان کے خاص پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے۔ حدیث میں بھی یہ جو فرمایا گیا ہے کہ مامِن عبد قال لا الٰہ الا اللّٰہ ثم ماتَ علی ذٰلک اِلاَّ دخل الجنۃ  جو بندہ بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کی موت اسی پر ہوتی ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (مسلم کتاب الایمان) تو وہ بھی اسی مفہوم میں ہے اور اپنے تمام تقاضوں کو لئے ہوئے ہے۔ مگر جو لوگ رسمی دینداری کے قائل ہوتے ہیں وہ زبانی جمع خرچ کو کافی خیال کر لیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ان کے اعمال کیسے ہی ہوں محض کلمہ پڑھ لینے سے انہیں جنت مل جائے گی اور دوزخ سے بالکل محفوظ رہیں گے۔

امام رازی اپنی تفسیر میں اِنَّ الَّذِینَ قالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ  (جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"اس سے مراد محض زبان سے کہنا نہیں ہے کیونکہ پھر استقامت کے کوئی معنی نہیں نکلتے لیکن جب ان کے اس قول کے بعد ان کی استقامت کا ذکر ہوا تو اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ قول( یعنی ہمارا رب اللہ ہے کہنا) پورے یقین اور حقیقی معرفت کے ساتھ ادا کرنے کے مفہوم میں ہے۔” (تفسیر کبیر ج ۲۷ ، ص ۱۲۱)

امام رازی نے آگے یہ بھی صراحت کی ہے کہ صحابہ و تابعین کی ایک بڑی تعداد نے استقامت کو اعمالِ صالحہ پر محمول کیا ہے۔

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتوں کا جنت کی بشارت دینے کے لیے نزول ان اہل ایمان ہی پر ہو سکتا ہے جنہوں نے مرتے دم تک استقامت اختیار کی۔ دنیا میں زندگی بھر انسان کا امتحان ہوتا رہتا ہے اور اس میں کامیابی اور ناکامی کے نتائج اسی وقت نکلنا شروع ہوتے ہیں جب کہ امتحان کی گھڑی ختم ہو جاتی ہے اس لیے جب صالح مومنوں کی روح کو قبض۔ کرنے کے لیے فرشتے نمودار ہوتے ہیں تو وہ جنت کی بشارت بھی سناتے ہیں۔

موت کے فرشتوں کو دیکھ کر انسان پر سخت خوف اور دہشت طاری ہوتی ہو گی لیکن صالح مومنوں کو فرشتے اسی لمحے مطمئن کر دیتے ہیں کہ تمہارے لیے خوف کا کوئی موقع نہیں کہ تمہارا مستقبل نہایت شاندار ہے اور دنیا کے چھوٹ جانے کا غم بھی تمہیں لاحق نہیں ہو سکتا کہ تم منزلِ مقصود کو پہنچ رہے ہو۔ خوش ہو جاؤ کہ ہم تمہارے لیے جنت کا مژدۂ جانفزا لیکر آئے ہیں۔

اس آیت میں موت کے وقت کی جو جھلک دکھائی گئی ہے وہ اہلِ ایمان کے لیے بڑی ہی روح پرور ہے !

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ صالح مومنوں کی روح قبض کرتے ہوئے فرشتے اپنا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست تھے یہ اور بات ہے کہ تم ہمیں دیکھ نہ سکتے تھے اور آخرت میں بھی تمہارے دوست ہیں لہٰذا تمہارے لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اطمینان رکھو کہ تم اپنے دوستوں کے درمیان ہی ہو۔

دنیا میں مومنین صالحین کے دوست فرشتے ہوتے ہیں جب کہ کافروں اور فاسقوں کے دوست شیطان ہوتے ہیں۔

فرشتوں کی صالح مومنوں کے ساتھ دوستی بڑی خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ وہ ان کے لیے دعائے رحمت تو کرتے ہی ہیں۔علاوہ ازیں نازک لمحات میں خاص طور سے حق و باطل کی کشمکش کے موقع پر جب کہ قدموں کے ڈگمگا جانے کا خطرہ ہوتا ہے اللہ کے اذن سے وہ ان کی ڈھارس بندھانے کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ ثابت قدم رہیں۔ (دیکھئے سورۂ انفال آیت ۱۲ ،نوٹ ۱۹) اور حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص قضائے شرعی کے عہدے پر اس کی طلب کے بغیر مامور کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو بھیج دیتا ہے جو اسے راہ صواب (صحیح راہ) دکھاتا ہے۔ ترمذی ابواب الاحکام اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والوں کے گرد فرشتے جمع ہو جاتے ہیں (ترمذی ابواب الدعوات)۔

اور آخرت میں فرشتے اہل ایمان کا سلام سے خیر مقدم کریں گے ان سے بالمشافہ گفتگو کریں گے اور جنت میں ان کی رفاقت ان کو حاصل ہو گی۔

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کی اس نمایاں خصوصیت سے اس کی شان کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ گوہر مقصودجس کو حاصل ہوا اس کی تمام خواہشیں پوری ہو گئیں ، اس کی ہر امید بر آئی اور ہر آرزو پوری ہوئی۔ انسان میں فطری طور سے یہ داعیہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز وہ چاہتا ہے وہ اسے ملے اور اس کی آرزوئیں پوری ہوں مگر دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کی ہر خواہش اور ہر تمنا پوری ہوتی ہو۔ اگر آدمی کے پاس دولت کا ڈھیر لگا ہوا ہو یا کسی بڑی سلطنت کا مالک ہو تب بھی اس کو وہ سب کچھ نہیں ملتا جو وہ چاہتا ہے۔ کبھی اسے بیماری پریشان کرتی ہے تو کبھی کسی عزیز کے مرنے کا غم اور کبھی جنگ کا خطرہ۔ معلوم ہوا کہ یہ دنیا ہرگز وہ مقام نہیں ہے جہاں انسان کی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہو سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ دنیا ہی جنت بن جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس داعیہ کے پورا کرنے کا سامان آخرت میں کیا ہے یعنی جنت جہاں اس کی یہ فطری طلب بدرجۂ اتم پوری ہو گی۔

انسان کا یہ فطری داعیہ کہ اس کی تمام خواہشیں پوری ہوں جنت کی طلب اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن جس جنت کا وعدہ اہل ایمان سے کرتا ہے اس کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے لہٰذا منکرین کا جنت کے بارے میں یہ پھبتی چست کرنا کہ دل کے بہلانے کے لیے یہ خیال اچھا ہے سرار جہالت ہے۔ اگر وہ اپنی فطرت کی مانگ پر غور کرے اور جنت کو قرآن کی روشنی میں دیکھے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔

واضح رہے کہ جنت میں جانے والے لوگ نیک صفت اور پاکیزہ خیالات رکھنے والے ہوں گے اس لیے بری خواہش،نا مناسب طلب اور لغو باتوں کا وہاں کوئی وجود ہی نہیں ہو گا۔ پھر وہاں محض لذتِ دہن کا سامان نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ جو چیز بھی وہاں طلب کی جائے گی وہ مہیا ہو جائے گی اس لیے وہاں روحانی غذا کا بھی بھر پور سامان ہو گا۔

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کو جنت کی یہ نعمتیں اس اعزاز و ا کرام کے ساتھ پیش کی جائیں گی کہ وہ گویا شاہی مہمان ہیں جن کی ضیافت کے لیے جنت کا دستر خوان بچھا دیا گیا ہے اور یہ جنت اللہ کی صفتِ مغفرت و رحمت کا مظہر ہو گی۔

جنت کے اس تصور میں جو روحانی حلاوت اور جو کیف و سرور ہے اس کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو ایمان کی لذت سے آشنا ہیں۔

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان ہی لوگوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جنہوں نے ایمان لا کر استقامت اختیار کی کہ وہ حق و باطل کی کشمکش سے گھبراتے نہیں بلکہ کھلے بندوں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں خود نیک عمل کرتے ہیں اور اپنے (مسلم مسلمان) ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

دنیا میں بہ کثرت لوگ اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں نیز مادہ پرستانہ اور دنیا پرستانہ تصورات کے تحت تحریکیں چلاتے ہیں لیکن دعوتِ الی اللہ کے مقابلہ میں یہ سب دعوتیں اور تحریکیں بے حقیقت اور بے وزن ہیں۔ اللہ کی طرف دعوت یعنی اسلام کی طرف لوگوں کو بلانا وہ بہترین بات ہے جس سے بہتر بات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اس حال میں اٹھ کھڑے ہوں کہ اپنے کردار کو انہوں نے سنوارلیا ہو یعنی جن کا کام محض الفاظ بکھیرنا نہیں بلکہ اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے مسلم ہونے کا بھی اظہار و اعلان کرتے ہوں۔

واضح ہو ا کہ اپنے مسلمان ہونے کی حیثیت کو چھپانا صحیح نہیں بلکہ اس کو ظاہر کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ اپنی واقعی حیثیت کا اظہار بھی ہو اور دوسروں کو بھی مسلمان بننے کی ترغیب ہو۔ مگر موجودہ دور میں بہ کثرت مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محض دنیوی مصلحتوں کی خاطر یا جدید تہذیب سے مرعوبیت کے نتیجہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا اظہار ہو چنانچہ نہ ان کے نام سے ان کے مسلمان ہونے کی شناخت ہوتی ہے اور نہ ان کی وضع قطع سے اور نہ ان کی باتوں سے۔ اگر وہ واقعی اسلام کو حق سمجھتے ہیں تو ان میں یہ اخلاقی جرأت کیوں نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نظر میں اپنے کو مشتبہ نہ بنا لیں بلکہ برملا اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کریں۔

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بھلائی اور برائی اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے یکساں نہیں اور جو شخص لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینے اور ان کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہو اس کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ نیکی بدی کو دور کرنے کا ذریعہ ہے جو لوگ برا سلوک کریں ان کے ساتھ بھی وہ اچھا سلوک کرے۔ گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے دے کر نجاست کو نجاست کے ذریعہ نہیں بلکہ پاک پانی ہی کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے۔

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بہترین مثالیں انبیاء اور صالحین کی سیرتوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حضرت یوسف نے کس طرح ان لوگوں کے دل جیت لیے جنہوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی پشت پر آپ کی زبردست اخلاقی قوت تھی جس نے ان لوگوں کو بھی آپ کا دوست بنا دیا جو آپ کے خون کے پیاسے تھے۔

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی برائی کو بھلائی سے دور کرنے کا کا م بڑا صبر آزما ہوتا ہے اس لیے جو لوگ صبر و تحمل سے کام لینا چاہتے ہیں ان ہی کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دیتا ہے اور جن کو یہ سمجھ ملتی ہے وہ بڑے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں کیونکہ آخرت ان کا مقصود اور اللہ کی رضا کا حصول ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مخالفین کی شر انگیز باتوں کا اثر قبول کرنے کے لیے شیطان تمہارے اندر اکساہٹ پیدا کر سکتا ہے مگر تمہیں ایسے موقع پر چوکنا رہنا چاہیے اور جوں ہی تم اپنے اندر کوئی اشتعال محسوس کرو اللہ کی پناہ مانگو، وہ تمہیں شیطان کی اشتعال انگیزی اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ وہ سننے والا ہے اس لیے تمہاری دعا سن لے گا اور وہ جاننے والا ہے اس لیے اسے معلوم ہے کہ کون شر سے بچنا چاہتا ہے۔

اس آیت کا عمومی پہلو بھی ہے جس کی طرف حدیث میں متوجہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب کبھی اپنے کو غصہ کی حالت میں پائے اَعوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَیطنِ الرَّجِیْم  (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ) کہے۔(بخاری کتاب الادب)

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ توحید کی نشانیاں اس کائنات میں بالکل نمایاں ہیں یہ رات اور دن اور یہ سورج اور چاند سب خدائے واحد کے وجود، اس کی قدرتِ کاملہ، اس کے اقتدارِ اعلیٰ اور اس کے رب کائنات ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنے خدا ہونے پر دلالت کرتی ہو۔

۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سجدہ کا مستحق خالق ہے نہ کہ مخلوق، سورج، چاند، ستارے سب بے اختیار مخلوق ہیں اس لیے ان کو سجدہ کرنا ایک بے معنی بات ہے اور یہ سب سے بڑی نا انصافی ہے۔

سورج کے پجاری قدیم زمانے میں بھی بہ کثرت رہے ہیں اور موجودہ زمانہ میں بھی بہ کثرت ہیں۔ خود ہمارے ملک میں سورج کو پوجنے والوں اور اس کے آگے جھکنے والوں کی کمی نہیں مگر یہ سراسر جہالت اور صریح گمراہی ہے۔

سجدہ عبادت کی اعلیٰ شکل ہے اس لیے وہ اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو اسی کو سجدہ کرو۔ اس کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے لیے سجدہ کرنا روا ہو کیوں کہ سب مخلوق ہیں خواہ سورج اور چاند ہوں خواہ کوئی انسان۔

یہ آیت اس بارے میں قطعی ہے کہ کسی بھی مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے اس لیے مذہبی پیشواؤں ، بزرگوں اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ کرنے کے لیے ہرگز وجہ جواز نہیں ہے۔

رہا سجدۂ تعظیمی جو عبادت کے طور پر نہیں بلکہ تعظیم کے طور پر کیا جاتا ہے تو اسلام کی تکمیل شریعت ا س کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ اگر کسی بزرگ شخصیت کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی شخصیت کس کی ہو سکتی تھی۔ مگر آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آپ کا سجدہ کرے۔(ترمذی ابواب النکاح)

اس لیے صحابہ کرام کو نہ تعظیمی سجدہ کرتے تھے اور نہ آپ کے لیے جھکتے تھے۔

واضح رہے کہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا جو حکم فرشتوں اور ابلیس کو دیا گیا تھا اس کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ یعنی وہ عبادت کے طور پر نہیں تھا اور نہ کسی ایسی تعظیم کے لیے تھا جس سے شرک کی راہ کھلتی ہو بلکہ یہ ایک مخصوص حکم تھا جس کے پیچھے عظیم مصلحت کارفرما تھی۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو (سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷)

یہ آیت آیتِ سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا چاہیے۔

۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ مشرکین اللہ کے اس حکم کے مقابلہ میں کہ صرف اللہ ہی کو سجدہ کرو تکبر کرتے ہیں تو کریں اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیں۔ اس سے اس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ اس کے حضور فرشتے ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتے ہیں اور مسلسل تسبیح کرتے رہنے سے ان کو کوئی تکان لاحق نہیں ہوتی۔ جس طرح انسان سانس لیتے ہوئے نہیں تھکتا اسی طرح فرشتے تسبیح کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔

۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے پر استدلال ہے تشریح کے لیے دیکھئے سورہ روم نوٹ ۸۳۔

۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیتوں میں ٹیڑھ نکالنے کا مطلب ان کو الٹے معنی پہنانا، صحیح رُخ سے انہیں پھیرنا، ان کے مفہوم میں شکوک پیدا کرنا اور ان پر اعتراضات وارد کرنا ہے۔

۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے دل کا حال اللہ کو معلوم ہے۔

۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تنبیہ ہے کہ اگر نصیحت کی ان باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر جو چاہو کر گزرو۔ اپنی ہلاکت کے آپ ذمہ دار ہو گے۔

۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کتاب کا انکار کرنے والوں نے اس کو ایک غیر اہم کتاب خیال کیا اور وقعت کی نظر سے نہیں دیکھا حالانکہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ ایک زبردست کتاب ہے جو اپنی حجتِ بالغہ، اپنے حقیقت افروز بیان، اپنی تاثیر کلام اور وجدان سے اپیل کرنے والی باتوں کے ذریعہ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ ایسی طاقتور کتاب ہے کہ اس نے کتنی ہی قوموں کو مسخر کیا اور کتنے ہی ملکوں پر فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کتاب میں سامنے سے باطل کے داخل نہ ہو سکنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ، جن، انسان کوئی بھی اس پر قادر نہیں ہے کہ اس میں کوئی لفظی تغیر کریں۔ وہ قیامت تک لفظًا  بلفظاً محفوظ رہنے والی کتاب ہے اور پیچھے سے اس میں باطل کے داخل نہ ہو سکنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کا نظم ایسا ہے کہ وہ کسی بھی معنوی تحریف کو قبول نہیں کرتا۔ اس کی آیتوں کو ان کے اصل معنی سے ہٹانے کی لاکھ کوشش کی جائے وہ اپنے مفہوم اور مدعا میں بالکل واضح ہیں ، چور دروازے سے باطل عقائد و نظریات کو اس میں داخل کرنے کے لیے کتنا ہی زور لگایا جائے اس میں ہرگز کامیابی ہونے والی نہیں کیونکہ اس کی ہر آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح اور اٹل ہے۔

۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح گزرے ہوئے رسولوں کو ساحر، مجنوں وغیرہ کہا گیا تھا اسی طرح تمہارے بارے میں بھی اے پیغمبر اسی طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔

۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ قرآن عربی زبان ہی میں کیوں نازل ہوا عجمی یعنی غیر عربی زبان میں کیوں نازل نہ ہوا جب کہ تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر قرآن کو کسی غیر عربی زبان میں نازل کیا جاتا تو یہی لوگ اعتراض کرتے کہ ہماری اپنی زبان میں کیوں نہیں نازل کیا گیا کہ اس کی آیتوں کا مفہوم ہم پر واضح ہوتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے جب کہ مخاطب قوم کی زبان عربی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو ماننا نہیں ہے وہ ہر صورت میں اعتراض کرتے ہیں۔

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ عربی زبان وحی الٰہی کے معنی و مفہوم کو ادا کرنے کے لحاظ سے موزوں ترین زبان ہے۔جو لوگ عربی زبان سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ زبان امتیازی خصوصیات کی حامل ہے مثلاً یہ کہ وہ ایک سسٹمیٹک زبان ہے جس میں فعل، اہم فاعل، اسم مفعول وغیرہ کو ایک خاص سانچے (صیغے ) میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس کی نحوی ترکیبوں میں بڑی باقاعدگی ہوتی ہے۔ اس کے بیشتر الفاظ اپنے ابتدائی اور اصل معنیRoot Word کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے ان کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ حقائق و معارف کو ادا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے اس لیے وحی الٰہی کی لطافتوں اور اس کے معنی کی گہرائیوں کو بیان کرنے کی وہ پوری طرح متحمل ہے۔ اس میں جامع کلمات کہے جا سکتے ہیں اور موثر کلام پیش کیا جا سکتا ہے۔ حفظ کے پہلو سے یہ نہایت موزوں زبان ہے اس لیے نزولِ قرآن کے لیے ایک بہترین اور موزوں ترین زبان کا انتخاب ہوا ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ آخری رسول کی بعثت کے لیے مکہ کی مقدس سرزمین کا انتخاب ہوا۔

۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۸۸۔

۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ قرآن پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں وہ قرآن کی نصیحت کو سننے کے لیے بہرے اور اس کی رہنمائی کو دیکھنے کے لیے اندھے ہوتے ہیں وہ جہالت کی جس بیماری میں مبتلا ہیں اس کے لیے قرآن نسخۂ شفا ہے مگر جب وہ اس سے شفا حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے تو جہالت اپنا اثر دکھا کر رہے گی۔

۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا حال یہ ہے کہ انہیں کوئی دور سے پکار رہا ہو جس کی آواز انہیں سنائی نہ دیتی ہو۔ قرآن کی آواز دل لگتی آواز ہے مگر ان کے لیے دور کی آواز بن گئی ہے۔

۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کو تورات عطا ہوئی تھی جو سرتاسر کتابِ ہدایت تھی لیکن بعد میں بنی اسرائیل کے ان علماء نے جو دنیا پرستی اور باہمی عناد میں مبتلا ہو گئے تھے اس میں طرح طرح کے اختلافات پیدا کئے۔ جب انہوں نے تورات کی آیتوں کی غلط تاویلیں کرنا شروع کیں تو نوبت الفاظ کی تحریف تک پہنچ گئی۔ پھر انہوں نے تذکیر اور خاص طور سے آخرت کی جزا و سزا سے متعلق یاد دہانی کو تورات کے صفحات سے غائب کر دیا اور اپنی طرف سے اس میں بہت سے اضافے کئے مثلاً اس میں اپنی بدعات کو داخل کیا، فقہی موشگافیوں کو اس میں جگہ دی اور اپنی یادداشت سے صحیح غلط تاریخی واقعات بھی اس میں نقل کر ڈالے یہاں تک کہ واہیات قصے اور انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کو داغ دار بنانے والی باتیں بھی۔ ان کے یہی اختلافات ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔

۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل کی یہ حرکت تو ایسی تھی کہ اس کا دو ٹوک فیصلہ دنیا ہی میں چکایا جا سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام مذہبی اختلافات کے آخری فیصلہ کے لیے قیامت کا دن مقرر کیا ہے۔ اس روز عدالتِ خداوندی ان تمام امور کا فیصلہ چکا دے گی۔

۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات میں اہل کتاب نے لفظی اور معنوی تحریف کر کے جو اختلافات پیدا کئے اس کی وجہ سے وہ خود اپنی کتاب ہی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ معلوم نہیں بات کیا تھی اور کیا بیان ہوئی ہے۔ کتنی ہی اختلافی باتیں ہیں جن کے بارے میں وہ یقین اور اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے اور اس بنا پر وہ سخت الجھن میں پڑ گئے ہیں۔

۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس طرح کی دوسری بہ کثرت آیات آخرت کی جزا و سزا کے بارے میں اس قاعدۂ کلیہ کو پیش کرتی ہیں کہ نیکی کا اجر اسی شخص کو ملے گا جس نے نیکی کی ہو گی اور برائی کی سزا بھی وہی شخص پائے گا جس نے برائی کی ہو گی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ کسی کی نیکی یا برائی دوسرے کے کھاتہ میں جمع کر لی جائے۔ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے اور اسی کے مطابق اس کو جزا یا سزا پانا ہے۔

جزائے عمل کے سلسلہ میں یہ نہایت اہم اصول ہے جس کو قرآن نے جا بجا وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس سے ایصالِ ثواب کے اس طریقہ کی تردید ہوتی ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے۔ ایک شخص نیکی کا کوئی کام کرتا ہے اور اس کا ثواب اپنے کسی عزیز یا کسی بزرگ کو بخش دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں فلاں اور فلاں شخص کو جو وفات پاچکا ہے اور جس سے مجھے تعلق خاطر ہے یا جس بزرگ کا میں عقیدت مند ہوں اسے ثواب پہنچا رہا ہوں۔ اس تصور کے تحت مرنے والوں کے لیے قرآن خوانی کی جاتی ہے ، تیجا چہلم وغیرہ کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ نیاز اور فاتحہ خوانی ہوتی ہے ” گیارہویں شریف” کا اہتمام کیا جاتا ہے ، دیگیں چڑھائی جاتی ہیں اور نفیس کھانے پکوا کر ان کا ثواب کسی ولی یا پیر کو بخشا جاتا ہے۔ یہ کھانے خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے احباب وغیرہ کو بھی کھلاتے ہیں۔ مُردوں کی طرف سے صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اور مدرسے اور اسپتال وغیرہ بنا کر ان کے نام سے وقف بھی کر دیتے ہیں تاکہ خیر کے ان کاموں کا ثواب ان کو ملتا رہے۔

غرضیکہ ایصال ثواب کے تصور نے شریعت اسلامیہ پر حاشیہ آرائی کا کام کیا ہے اس لیے اس پر گرفت ضروری ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ چند باتیں پیش کریں گے۔

۱۔ ایصالِ ثواب کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت بھی نہیں پیش کی جا سکتی بلکہ بہ کثرت آیات سے جن میں جزا و سزا کے اصول کو پیش کیا گیا ہے اس کی تردید ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ: وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ (آل عمران:۲۵) "ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔”

مگر ایصال ثواب کی صورت میں ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو منتقل ہوا تو اسے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ کہاں ملا؟

لَیسَ لِلانسَانِ الاَّماسَعٰی  (النجم:۳۹) ” انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہو گی۔”

مگر ایصال ثواب کی صورت میں انسان نے جو عمل خیر نہیں کیا اس کا ثواب بھی اسے مل جاتا ہے۔

۲۔ ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے جو قیامت کے دن اعمالِ صالحہ کے بدلہ میں ملے گا جب کہ وہ اللہ کی نظر میں مقبول قرار پائیں گے لیکن جو لوگ ایصال ثوابِ کے قائل ہیں وہ پیشگی ثواب کو اپنا حق قرار دے کر دوسروں کو بخش دیتے ہیں۔ جب کہ ہمیں قطعی طورسے یہی نہیں معلوم کہ ہمارے فلاں عمل پر اللہ کی طرف سے اجر دینے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور وہ ہمارے کھاتے میں جمع ہو گیا ہے لہٰذا ہم یہ پیشگی فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ اس اجر کو دوسرے کے کھاتے میں منتقل کر دیں ؟

۳۔ اجر (محنت کا پھل) اور ثواب (جزائے خیر) کسی عمل کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے ملنے والا انعام ہے اس لیے یہ ایک ناقابل انتقال شئے ہے۔ کوئی شخص نہ اپنی نیکی کا پارسل کسی کو بھیج سکتا ہے اور نہ اپنی بدی کا۔ جس طرح برائی کا وبال کسی کو بخشا نہیں جا سکتا اس طرح نیکی کا ثواب بھی کسی کو بخشا نہیں جا سکتا۔

۴۔کوئی حدیث ایسی نہیں جس میں ایصال ثواب کی ترغیب دی گئی ہو اور جن روایتوں کو ایصالِ ثواب کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے ان سے ایصالِ ثواب ثابت نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر حج فرض ہوا تھا اور وہ اس فرض کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی یا کوئی شخص بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے فریضۂ حج ادا نہیں کر سکتا اور اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی شخص اس کی طرف سے نیابتہً حج کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ نیابت کا مفہوم عَن کے حرف سے بالکل واضح ہے جو اس تعلق سے حدیث میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا: حُجِیّ عَنْہا (بخاری ابواب العمرۃ) "تم اس کی طرف سے حج کرو”

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ سے پوچھا:

یارسولَ اللّٰہ اِنَّ فَریضَۃَ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ فِی الْحَجّ اَدْرَکَتْ اَبیْ شیخًا کَبِیرَا لَایسْتَطِیعُ اَنْ یسْتَوِیَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ فَہَلْ یقْضِی عَنْہُ اِنْ اَحُجُّ عَنْہُ قَالَ نَعَمْ۔(بخاری ابواب العمرۃ) "اے اللہ کے رسول! اللہ نے اپنے بندوں پر حج کا جو فریضہ عائد کیا ہے وہ میرے والد پر فرض ہو گیا ہے اور وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں سواری پر بھی سیدھے بیٹھ نہیں سکتے تو اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟

آپؐ نے فرمایا "ہاں۔”

ظاہر ہے یہ نیابت ہے اور نیابت فریضۂ حج کو ادا کرنے کے سلسلہ میں معذوری کی صورت میں ہے اور یہ ایک مشروط اجازت ہے اس میں ایصال ثواب کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ حج کرو اور اس کا ثواب بخشو۔ اور نہ کسی سوال کرنے والے نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا میں فلاں کے لیے حج کروں یا حج کر کے فلاں کو ثواب بخش دوں۔

نیابتہً حج کرنے کے سلسلے میں امام مالک کی رائے یہ ہے کہ یہ اسی صورت میں کیا جائے جب کہ مرنے والے نے وصیت کی ہو۔اگر اس نے وصیت نہیں کی تھی تو اس کی طرف سے حج نہ کیا جائے۔ (فقہ السنۃ ج۱ ص ۶۳۷) اور یہی رائے زیادہ صحیح معلوم ہوئی ہے کیوں کہ وصیت کی صورت میں مرنے والے کی نیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اس کے مال میں سے حج پر خرچ کرنے کی صورت بھی نکل آتی ہے۔

دوسری روایتیں جو ایصالِ ثواب کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے بعض تو اس مفہوم میں ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی کارِ خیر کی وصیت کی تھی تو اس کے ورثاء اس کو پورا کریں کیوں کہ مرنے والے کو اپنے مال میں ایک تہائی کی حد تک وصیت کرنے کا حق ہے اور بعض روایتیں اسناد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہیں اور جو روایت قرآن کے بیان کردہ قاعدۂ کلیہ کے خلاف ہو وہ ہرگز قابلِ حجت نہیں ہو سکتی۔

۵۔ ایصالِ ثواب کا طریقہ صحابۂ کرام میں رائج نہیں تھا چنانچہ شہدائے احد کے لیے نہ قرآن خوانی کی گئی اور نہ نیاز و فاتحہ۔

۶۔ایصال ثواب کو دعا پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں اس لیے کہ دعا تو اللہ تعالیٰ سے کسی بندہ کے حق میں مغفرت کی درخواست ہے نہ کہ اس کے کسی عمل کے ثواب کی منتقلی۔ اگر دعا کو ایصال ثواب قرار دیا جائے تو پھر بددعا کو بھی ایصالِ عذاب ماننا پڑے گا جب کہ اس کا قائل کوئی نہیں۔ کافروں کے لیے ہدایت کی دعا کی جاتی ہے تو کیا یہ ایصالِ ثواب ہے ؟ اور دعا تو زندہ لوگوں کے لیے بھی کی جاتی ہے پھر کیا ایصالِ ثواب بھی زندوں کے لیے کیا جائے گا؟

۷۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِذا ماتَ الْاِنْسانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَ ثَۃٍ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیۃٍ اَوْ عِلْمٍ ینْفَعُ بِہٖ وَوَلَدٍ صَالحٍ یدْعُوْلَہُمسلم (کتاب الوصیۃ) ” جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے بجز تین چیزوں کے۔ ایک صدقۂ جاریہ دوسرے علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔”

یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جن میں انسان کے اپنے عمل کا دخل ہے۔ صدقۂ جاریہ تو وقف کی صورت میں اسی کا مال ہے ،مفید کتابوں کی تصنیف اور اس قسم کی دوسری علمی خدمات بھی اسی کا عمل ہے جس سے لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ہوتے ہیں اور نیک اولاد کا دعا کرنا اس کے حق میں باعثِ اجر ہے کہ اس نے ان کو دین سکھایا تھا اور ان کی صحیح تربیت کی تھی۔ اس حدیث میں ایصالِ ثواب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو اس کا بھی اس میں ذکر ہوتا۔

۸۔ جو امور خالص تعبدی نوعیت کے ہیں ان میں قیاس اور اجتہاد کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور ثواب کا تعلق چونکہ تعبدی امور سے ہے اس لیے ثواب پہنچانے کا مسئلہ محل اجتہاد نہیں ہے۔

ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جس عمل میں انسان کی اپنی نیت اور اس کی کوشش کا کوئی دخل نہ ہو بلکہ وہ دوسرے کا عمل ہو تو اس کا ثواب اس کو نہیں بخشا جا سکتا۔ قرآن و سنت میں کسی کے عمل کا ثواب کسی کو بخشنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ایصالِ ثواب کے تصور نے کتنی ہی بدعتوں کو رائج کر دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں کے پاس ثواب کا اتنا ذخیرہ کہاں سے ا گیا کہ انہوں نے دوسروں کو تقسیم کرنا شروع کر دیا اور خاص طور سے ان بزرگوں اور اولیاء کو جن کے بارے میں وہ پہلے ہی سے اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ جنتی ہیں۔ اگر ان لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو وہ خود اپنی نجات کی فکر کرتے اور اپنے نیک اعمال کے بارے میں کبھی یہ خیال نہ کرتے کہ وہ زیادہ Surplus ہو گئے ہیں لہٰذا اپنی بعض نیکیوں کا ثواب وہ دوسروں کو الاٹ کرتے پھریں۔

۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس کو اس کی خبر ہو اس لیے اللہ کا رسول بھی اس کا وقت نہیں بتا سکتا۔

۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح پھل شگوفے کے غلاف کو پھاڑ کر نکل آتا ہے اور جس طرح حاملہ بچہ جنتی ہے اسی طرح قیامت بھی دنیا کے خول کو پھاڑ کر نمودار ہو گی اور اس کائنات کے بطن سے ظاہر ہو گی اور جس طرح یہ بات اللہ ہی کے علم میں ہوتی ہے کہ پھل کب وجود میں آئے گا اور کونسی عورت کب حاملہ ہو گی اور کب بچہ جنے گی اسی طرح قیامت کے ظہور کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ ٹھیک اپنے وقت پر ظاہر ہو گی۔

۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدائی میں میرے جو شریک تم نے ٹھہرا رکھے تھے وہ کہا ہیں ؟

۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج ہم میں سے کوئی بھی اس کا دعویدار نہیں ہے کہ اللہ کا اس کے خدائی معاملات میں کوئی شریک ہے۔

۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا تھا اور جن جن کی پرستش وہ کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکے گا۔ سب ہوا ہو جائیں گے۔

۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عام طور سے انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دنیوی نعمتیں مانگتا ہی رہتا ہے۔ اور اپنے لیے راحت اور خوشحالی کا زیادہ سے زیادہ خواہاں ہوتا ہے۔ مال و دولت اور سامانِ دنیا میں اضافہ کے لیے دعائیں کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا لیکن جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کرتا رہے اور دعا کی قبولیت میں تاخیر کی وجہ سے تھک ہار کر بیٹھ نہ جائے بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور دل شکستہ ہونے کے آثار اس پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا یہ حال بھی عجیب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر کے اس کی راحت کا سامان کرتا ہے تو وہ اسے اللہ کا احسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے سامانِ آزمائش خیال کرتا ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت کا غرہ ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں تو اس کا بجا طور پر مستحق ہوں۔ قیامت کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ اول تو وہ قائم ہو گی نہیں اور اگر ہوئی تو میرے رب کے پاس بھی مجھے نعمتیں ہی ملیں گی۔ مطلب یہ کہ کتنے ہی لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب دنیا میں مال و اسباب کی فراوانی انہیں حاصل ہو گئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قیامت کے دن اگر وہ قائم ہو ہی گئی تو انہیں یہ فراوانی حاصل نہیں ہو گی۔ وہ جس طرح دنیا میں آباد رہے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی آباد رہیں گے۔ مگر قیامت کا ایک جھٹکا ہی ان کی اس خوش فہمی کو چور چور کر کے رکھ دے گا۔

۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیسا قدرناشناس ہے انسان کہ جب اللہ تعالیٰ اس پر نوازشیں کرتا ہے تو اپنے رب کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے عملاً بے تعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن مصیبت میں خدا ضرور یاد آ جاتا ہے اور لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

واضح رہے کہ ان آیتوں میں انسان کے مختلف کردار پیش کئے گئے ہیں۔ اپنے رب کے تعلق سے کسی کا ایک کردار ہوتا ہے تو کسی کا دوسرا اور کسی کا اس سے بھی مختلف۔

۸۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کی مخالفت میں اتنی دور تو نہ نکل جاؤ کہ امکان کی حد تک بھی اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہ ہو جاؤ کہ یہ اگر اللہ کی کتاب ہوئی تو پھر اس کا انکار ہمیں کتنا مہنگا پڑے گا۔ ہم اللہ کے حضور اس کے کلام کو رد کرنے کا کیا جواز پیش کر سکیں گے۔ اور پھر اس انکار کی ہمیں کیسی سخت سزا بھگتنا ہو گی۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا جائے کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے یا نہیں۔

۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑی پیشین گوئی ہے جو قرآن نے کی ہے کہ اس کی صداقت کی نشانیاں دنیا کے آفاق پر بھی ظاہر ہوں گی اور انسانی نفوس میں بھی۔اور واقعہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد منکرینِ قرآن ے دیکھ لیا کہ قرآن نے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کے حق میں نصرت الٰہی کی جو پیشین گوئی کی تھی وہ پوری ہوئی۔ اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوا، قرآن کی روشنی میں چلنے والوں کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھ کر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ نہ شاعرانہ کلام ہے اور نہ دیوان پن کی باتیں ہیں اور نہ ہی جادوگری۔ قومیں حلقہ بگوشِ اسلام ہوتی چلی گئیں اور جو کٹر کافر تھے ان کا حشر اس دنیا ہی میں بہت برا ہوا۔ مگر آیت کا مفہوماس حد تک محدود نہیں اس کی صداقت کی نشانیاں قیامت تک ظاہر ہوتی رہیں گی۔

ماضی میں قرآن کی کتنی ہی باتیں انسان کو عجیب معلوم ہوتی تھیں مگر موجودہ دور میں انسان نے ایسی حیرت انگیز چیزیں ایجاد کر لی ہیں کہ قرآن کی کوئی بات بھی عجیب نہیں رہی۔ قرآن نے کہا تھا قیامت کے دن انسان کے اعمال تولے جائیں گے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہو رہی تھی لیکن موجودہ دور میں انسان نے حرارت پیما اور زلزلہ پیما آلات ایجاد کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ کیفیتیں بھی ناپی اور تولی جا سکتی ہیں۔ قرآن نے کہا تھا ہر ہر شخص کے اعمال کا ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے جس میں کوئی بات بھی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی درج ہونے سے نہیں رہتی۔ اس بات کو بھی باور کرنا اس زمانہ کے انسان کے لیے مشکل تھا مگر مائکرو فلم Micro-film کی ایجاد نے اس مسئلہ کو حل کر دیا۔ قرآن نے کہا تھا انسان کے ہاتھ پاؤں اور اس کی جلدیں  (کھالیں ) قیامت کے دن بول اٹھیں گی اور اس کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ لوگوں کے لیے یہ بھی حیرت و استعجاب کی بات تھی مگر بولتی فلموں اور ویڈیو کیسٹ کی ایجاد نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ ممکن ہے۔

قرآن نے کہا تھا سورج، چاند اور ستارے دیوتا نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیدا کردہ ہیں جن کو خاص خدمت میں لگا دیا گیا ہے۔ ماضی کے وہم پرست لوگ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے لیکن سائنس کے اکتشافات نے ان سب کی اصلیت ظاہر کر دی۔ اب انسان کو معلوم ہو گیا کہ سورج میں کیا مادّے پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا درجہ حرارت بھی معلوم کر لیا ہے اور یہ بھی کہ اس کی حرارت کس طرح زمین تک پہنچتی ہے۔ ستارے اور سیارے کس چیزسے بنے ہیں اور وہ کیوں روشنی دیتے ہیں اس کا بھی کھوج لگا کر انسان نے اپنی معلومات میں زبردست اضافہ کر لیا ہے اور چاند پر انسان نے پہنچ کر اس کا عینی مشاہدہ کر لیا کہ یہ مٹی اور پتھر ہی سے بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کی مٹی زمین پر اپنے ساتھ لے آیا تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کا مشاہدہ کریں۔ کیا یہ سب آفاق میں ظاہر ہونے والی اللہ کی نشانیاں نہیں ہیں اور کیا ان باتوں سے مشرکانہ عقائد کی تردید نہیں ہوتی اور خدائے واحد کی قدرتِ کاملہ ار اس کے فرمانروائے کائنات ہونے کا ثبوت نہیں ملتا؟

اسی طرح انسانی نفوس میں بھی وہ نشانیاں ظاہر ہو گئی ہیں جو توحید اور معاد (دوسری زندگی) پر واضح طور سے دلالت کرتی ہیں۔ علم الحیاتBiology اور علم الجنینEmbryology نے انسان کی تخلیق کے بارے میں وہ انکشافات کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مرد کے مادۂ تولید میں جرثومۂ حیاتSpermatozoa کا وجود اور عورت کے مادۂ تولید کا بیضہOvum کی شکل میں ہونا اور دونوں کے ملاپ سے جنین (بچہ) کی تخلیق کا آغاز ہونا پھر اس جرثومہ اور اسی بیضۂ انثی میں جن کو خورد بین کی مدد ہی سے دیکھا جا سکتا ہے موروثی خصوصیاتChromosomes کا موجود ہونا ایک خالق کا خلاقیت کا کتنا زبردست ثبوت ہے۔ اس کی قدرت اور ربوبیت کی ان کرشمہ سازیوں کو دیکھتے ہوئے دوسری زندگی کا یقین پیدا ہو جاتا ہے جس کی خبر قرآن دے رہا ہے۔

اس طرح قرآن کی ایک ایک بات علم کی کسوٹی پر پوری اتر رہی ہے اور اس کی صداقت اور زیادہ روشن ہوتی جا رہی ہے۔ قرآن کی کچھ پیشین گوئیاں ایسی بھی ہیں جو اپنی تعبیر کے لیے وقت کی منتظر ہیں مثلاً یاجوج ماجوج کی یلغار (سورۂ انبیاء آیت ۹۶) اور دابۃ الارضزمین سے ایک عجیب و غریب جانور) کا خروج جو انسان سے باتیں کرے گا سورۂ نمل آیت ۸۲) وغیرہ۔ ان نشانیوں کو قیامت کے قریبی زمانہ میں پیدا ہونے والی نسلیں ہی دیکھ سکیں گی۔

۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام نشانیوں کے باوجود جن کا ذکر اوپر ہوا آج بھی اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور پیشی کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں من مانی کرنے کے لیے انہیں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ وہ ہستی جس نے انہیں پیدا کیا ہے محیطِ کل ہے۔ اس کے علم اور اس کے قابو سے کوئی چیز بھی باہر نہیں اس لیے اس کے بندوں کی اس کے حضور پیشی لازمی ہے۔ وہ اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے۔

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید