FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

خاقان ساجد کے بارہ افسانے

خاقان ساجد


ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

سوز دروں

اسے توقع تو تھی مگر یقین سے کچھ کہنا مشکل تھا۔ کمپی ٹیشن ہی بہت تھا۔ آخری وقت تک امید و بیم کی سولی پر لٹکا رہا۔ دفترسے اس نے دو روز کی رخصت لے لی تھی۔ اچھی یا بری خبر وہ اپنے گھر پر ہی سننا چاہتا تھا۔
دوپہر دو بجے کے قریب ایک سینیئر نے فون پر خوش خبری سنائی تو سرشاری و شادمانی کی ایک لہر ایکا ایکی سارے وجود میں دوڑ گئی۔ احساس تفاخر سے سینہ تن گیا۔ قد آدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھتے ہوئے مسکرا کرکہا:
” Old chap! you really deserved it! "
اپنی سرکاری کوٹھی میں وہ اس وقت اکیلا تھا۔ دونوں بیٹے اور بیوی سکول گئے ہوئے تھے۔ وہ بیکن ہاؤس میں پڑھاتی تھی۔ بے چینی سے ان کا انتظار کرنے لگا تاکہ خوشی کی یہ خبر شیئر کر سکے۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد ایک بے نام سی اداسی اس کے قلب و ذہن پر چھانے لگی۔ بالکل ایسے جیسے سورج ڈوبتے ہی تاریکی آسمان کے زینے سے دھیرے دھیرے نیچے اترتی اور زمین کی ہر شے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ماضی کی ایک تلخ یاد نے اسے آزردہ کر دیا تھا۔
ابھی وہ افسردگی کی لپیٹ میں آیا ہی تھا کہ سیاہ رنگ کی اسٹاف کار کوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ بیوی بچوں کی جھلک دیکھتے ہی ساری اداسی کافور ہو گئی۔ اس نے انہیں پورچ ہی میں جا لیا اور خوش خبری سنا ڈالی۔ لڑکوں نے جب سناکہ بابا جنرل بن گئے ہیں، تو دونوں نے یا ہو کا نعرہ بلند کیا۔ بیوی بے پایاں مسرت سے رونے لگی۔ جب بھی اسے کوئی خوشی ملتی، وہ اس کا اظہار رو کر کرتی تھی۔
وہ اندر داخل ہوئے تو فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ دوست احباب کی جانب سے مبارک باد کی کالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ ایک کال اٹینڈ کر کے فارغ ہوتا تو دوسری آ جاتی۔ بیوی سارے گھر میں دوڑی پھر رہی تھی۔ نوکروں کو ہدایات دے رہی تھی کہ جلدی باہر لان میں بہت سی کرسیاں لگوائیں۔ شام پڑتے ہی افسران اپنی بیگموں سمیت مبارک دینے پہنچنے لگیں گے۔ چائے کے انتظام کے لئے اس نے میس سیکریٹری کو فون کروا دیا تھا اور مٹھائی کا ٹوکرا لانے کے لئے ڈرائیور کو ’’فریسکو سویٹس‘‘ روانہ کر دیا تھا۔
مبارک باد دینے والوں کی آمد کا سلسلہ عصر کی نماز سے شروع ہوا اور عشاء تک جاری رہا۔ اس دوران پھر یاسیت کی کیفیت عود کر آئی۔ وہ بظاہر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ہر ایک سے مل رہا تھا، مگر اندر سے دکھی تھا۔ وہ حسرت و یاس کی جس حالت سے گزر رہا تھا، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا۔ اس کی بیوی بھی نہیں۔
رات گئے جب آخری مہمان کو رخصت کر کے وہ اپنی خواب گاہ میں آیا تو خاصا تھکا ہوا تھا۔ مگر اس کی جواں سال بیوی اب بھی فریش دکھائی دیتی تھی۔ خواب گاہ میں خاوند کی آمد سے پہلے ہی اس نے شب خوابی کا مہین لباس پہن لیا تھا اور بستر پر نیم دراز تھی۔ ٹیبل لیمپ کی ہلکی اور ٹھنڈی روشنی میں کمرے کا ماحول بہت رومان پرور لگ رہا تھا۔ وہ جب سلیپنگ سوٹ پہن کر بستر پر لیٹا تو وہ اس کے قریب کھسک آئی۔ یوڈی کلون کی لطیف سی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ بیوی کی شوخ آنکھوں میں چھپا پیغام اس نے پڑھ لیا تھا، مگر تھکاوٹ کا عذر کر کے کروٹ بدل لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
مگر نیند آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی۔
بائیس سال پہلے جب وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تو وہ پچیس چھبیس برس کا دبلا پتلا اور سانولا سا کپتان تھا جبکہ زارا بائیس تئیس سال کی اپنے حسن پر نازاں ایک خود پسند لڑکی۔ یہ ایک ارینجڈ میرج تھی مگراس کا محرک زارا سے اس کی مجنونانہ محبت تھی۔
نیلی آنکھوں اورسنہرے بالوں والی اس گوری چٹی، پر کشش لڑکی کو جب اس نے پہلی بار دیکھا تو آنکھیں جھپکنا بھول گیا۔
’’الٰہی! اگر تو ایسی من موہنی صورتیں بنانے پر قادر ہے تو تو خود کس قدرحسین ہو گا!‘‘
بے ساختہ یہ کلمات اس کے لبوں سے پھسل پڑے تھے۔
وہ دو سہیلیوں کے ساتھ صنعتی نمائش دیکھنے آئی تھی اورسبھی مردوں، بالخصوص نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ دیگر نوجوانوں کی طرح وہ بھی تھوڑا فاصلہ رکھ کر مسمرائزڈ معمول کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ جب شوفر ڈرائیون مرسڈیز میں بیٹھ کر وہ اپنے گھر روانہ ہوئی تو اس کی سوزوکی بھی تعاقب میں تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے پتا چلا لیا کہ گاڑی جس بنگلے میں داخل ہوئی ہے، وہ وزارت دفاع کے جوائنٹ سیکریٹری کا گھر ہے۔ تیسرے چوتھے روز والدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیج دیا۔ جواب ملا کہ ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ جلد شادی کا ارادہ نہیں ہے۔
’’نا صرف لڑکی بلکہ اس کی ماں بھی خود پسندی اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کی بیماری میں مبتلا ہے۔‘‘ماں نے متنبہ کیا۔ ’’نعمان بیٹا! حسن پرنہ جاؤ، یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے۔‘‘
مگر اس کے سرپر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ فیصلہ سنا دیا کہ شادی کرے گا تو صرف زارا سے۔ ورنہ ساری عمر کنوارا رہے گا۔ والدہ نے اس کی ضد دیکھی تو وعدہ کیا کہ وہ ہفتے عشرے کے بعد ایک کوشش اور کریں گی۔ مگر اسے بہت جلدی تھی۔ خود میدان عمل میں کودنے کی ٹھان لی۔ پہلے پہل تو اس نے کپتان کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ مگر جب صبح و شام اسے یونیورسٹی اور گھر کے گرد منڈلاتے دیکھا تو ایک دن پوچھ لیا۔
’’کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’فقط آپ کی نگاہ کرم!‘‘
’’میں فلرٹ کرنے والے لڑکوں کو پسند نہیں کرتی۔‘‘
’’فلرٹ کون کر رہا ہے۔ میں انتہائی سنجیدہ ہوں۔ والدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیجا تھا۔ شاید آپ کو یاد نہیں۔‘‘
’’انہیں جو جواب دیا گیا تھا وہ شاید آپ کو یاد نہیں۔‘‘
’’یاد ہے اور منہ زبانی یاد ہے۔ مگر قبول نہیں۔ بندہ شادی آپ ہی سے کرے گا، ورنہ کنوارہ مر جائے گا!‘‘
’’پرانا ڈائیلاگ ہے۔ صبیحہ اور سنتوش کی کسی فلم کا۔۔‘‘
’’محترمہ۔ آپ میری محبت کا مذاق نہ اڑائیں، بے شک آزما لیں۔ میں کڑی سے کڑی آزمائش پر پورا اتروں گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ آج پوری رات میری کوٹھی کے گیٹ کے سامنے بیٹھ کر گذار دو تو مجھے یقین آ جائے گا کہ تم واقعی مجھ سے سچی محبت کرتے ہو۔‘‘
دسمبر کی طویل رات اور اسلام آباد کی کڑاکے دار سردی۔ مگر گرمیِ عشق نے اسے سرخرو کیا۔ اونی شلوار قمیص اور فوجی جیکٹ زیب تن کر کے سر پر پٹی کی ٹوپی پہنی اور گردن کے گرد گرم مفلر لپیٹ لیا۔ ہاتھ میں ڈنڈا اور ٹارچ پکڑ کر چوکیدار کا روپ دھارا اور گاہے گلی کا چکر کاٹ کر اور گاہے سڑک کنارے آگ تاپتے ہوئے رات گزار دی۔ زارا نے کھڑکی کا پردہ سرکا کر جب بھی دیکھا، اسے کوٹھی کے سامنے موجود پایا۔ اگلے روز اس نے داد طلبی کے لئے فون کیا تو ہنستے ہوئے بولی۔
’’میں بھول گئی تھی کہ فوجی افسر کے لئے یہ سرے سے کوئی آزمائش ہی نہیں۔ کاکول اکیڈمی میں تم لوگوں کو کھلے آسمان تلے رات بھر جاگنے اور ریگنگ کرنے کا خوب تجربہ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’پھر یہ کہ تمہارے لئے یہ روٹین میٹر تھا، اس لئے کچھ اور کر کے دکھاؤ۔‘‘
اس نے اگلے روز خون سے لکھا ہوا لو لیٹر بھیجا تو کہنے لگی:
’’مجھے کیا پتا۔ یہ تمہارا خون ہے یا کوئی معصوم کبوتر تمہاری چالاکی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔۔‘‘
’’اچھا! جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا۔‘‘ اس نے شکستہ دل کے ساتھ کہا اور فون بند کر دیا۔
اسی شب اس نے بلیڈ سے اپنی کلائی کی نس کاٹ کر نیچے سادہ کاغذ رکھ دیا۔ سیاہی مائل سرخ گاڑھا خون ساری رات قطرہ قطرہ اس کاغذ پر ٹپکتا رہا۔ صبح سویرے خون میں تر کاغذ لفافے میں بند کر کے اسے پوسٹ کر دیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ نقاہت سے دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک کزن بر وقت سی ایم ایچ نہ پہنچاتا تو شاید آج لوگ اسے شہید محبت کے لقب سے یاد کر رہے ہوتے۔
ماں اپنے لخت جگر کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔ زارا کے گھر جا کر فریادی لب و لہجے میں کہا ’’ کیا آپ میرے بچے کی جان لے کر راضی ہوں گے۔ آخر چاہتے کیا ہیں؟ بیٹی کہیں تو بیاہنی ہے۔ ہم آسودہ حال، شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔ بیٹا ماشاء اللہ کپتان ہے، آگے بھی اس کی ترقی کے چانس ہیں۔ بیشک پتہ کروا لیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ آپ کی لڑکی کو دل و جان سے چاہتا ہے۔ اسے بہت خوش رکھے گا۔‘‘
اس بار ان کا رویہ قدرے حوصلہ افزا تھا۔ کہنے لگے ’’ہمیں سوچنے کے لئے تھوڑا وقت چاہئے۔‘‘
چوتھے پانچویں دن زارا کے والد نے اس سے ملاقات کی، جس کے بعد رشتہ منظور ہو گیا۔
شادی کے بعد وہ اسے ہنی مون پر یورپ لے گیا۔ یہ تیس روز اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت اور ناقابل فراموش دن تھے۔ وہ لندن، پیرس، روم، میلان، وینس اور فلورنس میں سیاحوں کے لئے پرکشش، ہرمشہور مقام پر گئے۔ بکھنگم پیلس، مومی مجسموں کا عجائب گھر، پکاڈلی سرکس، آئفل ٹاور، شانزے لیزے، ویٹی کن کے قدیم گرجا گھر، فلورنس کے میوزیم، وینس کی نہریں، پیسا کا ٹیڑھا مینار، جھیل نیپلز، پمپئی کے کھنڈرات اورسمندرکے کنارے کیپری پہاڑ پر آباد کیپری کارومان پرور شہر۔ زارا کی معیت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ اس کی زندگی کا قیمتی سرمایہ تھا۔ ایک ایسا خزانہ جسے آج بھی اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں چھپا رکھا تھا۔ وہ جہاں جاتے زارا نو بیاہتا جوڑوں کے Rituals کی ادائیگی ہرگز نہ بھولتی۔ روم کے فواروں میں اس نے دلہنوں کو اپنے اور شوہر کے ناموں کے سکے پھینکتے دیکھا تو خود بھی ایسا کرنے کو مچل اٹھی۔ پیرس کا پیگال چرچ دیکھنے گئی تو اپنے اور اس کے نام کی موم بتی جلائے بغیر باہر نہیں نکلی۔ ہر نئی جگہ وہ کسی نہ کسی دیوار، پہاڑی پتھر یا درخت کے تنے پرزارا+نعمان، ضرور لکھتی تھی۔ نیچے کوئی نہ کوئی خوبصورت جملہ یا ریمارک درج ہوتا۔ وہ کشتیوں اور گنڈولوں میں دریا کی سیر کرتے ہوئے ان کے چوبی تختوں، راستے میں آنے والے پلوں کے ستونوں اور ساحلوں کی گیلی ریت پربھی اپنا اور اس کا نام رقم کیا کرتی۔ کیپری پہاڑ پر کھڑے ہو کر اس نے دور تک پھیل ہوئے خوبصورت شہر پر نگاہ ڈالی اور ایک بڑی چٹان پرZara loves Nauman لکھ کر نیچے تاریخ ڈال دی۔ کہنے لگی:
’’میں یہاں اپنی محبت کی گواہی رقم کر رہی ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ کبھی قسمت دوبارہ ہمیں اس خوبصورت شہر اور پہاڑ پر لائی تواس چٹان پر میری تحریر کا کوئی نہ کوئی نقش ضرور باقی ہو گا۔‘‘
مگر یہ موقع کبھی نہیں آیا۔ جب وقت اور حالات نے کروٹ لی تو دیواروں، پتھروں، درختوں، کشتیوں اور گنڈولوں، پلوں کے ستونوں اورساحلوں کی ریت پر لکھی ہوئی کوئی تحریر اور کیپری پہاڑ کی چٹان پر لکھی ہوئی محبت کی کوئی گواہی انہیں ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا نہیں سکی۔۔
وہ ہنی مون کی چھٹیاں گزار کرواپس پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی یونٹ سیاچن جا رہی ہے۔
اس نے سنا تو رو دی۔
’’میں تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گی۔ کئی سرونگ جنرل پاپا کے دوست ہیں۔ ان سے کہہ کر تمہاری پوسٹنگ راولپنڈی کی کسی یونٹ میں کروا دوں گی۔‘‘
’’کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ میں آزمائش کی گھڑی میں اپنی یونٹ کو چھوڑ کر تمہارے پہلو سے لگ کر بیٹھ جاؤں؟ ایسی شرمناک حرکت کرنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’اگروہاں تمہیں کچھ ہو گیا تو؟‘‘
’’اگرسب افسروں کی بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں توہم لڑ چکے جنگیں!‘‘
’’انسانوں سے جنگ لڑی جا سکتی ہے، موسم سے نہیں۔ جانتے ہو وہاں کیا ہوتا ہے؟ دشمن سے لڑتے ہوئے جانیں نہیں جاتیں، شدید سردی سپاہیوں کو مار ڈالتی ہے۔ بعض تو عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ فراسٹ بائٹ کی وجہ سے۔۔‘‘
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرا ایمان ہے کہ میری تقدیرمیں اگر کوئی مصیبت لکھی ہوئی ہے تو میں اس سے بچ نہیں سکتا، خواہ کسی محفوظ قلعے میں خود کو قید کر لوں۔ تدبیر سے انسان کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ البتہ دعا سے ضرور اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروائی جا سکتی ہے۔ تم میرے لئے دعا کرتی رہنا۔ انشاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
وہ دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔ آخر اس نے آنسو پونچھ ڈالے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
’’معلوم ہے تم سے پہلی بار ملنے کے بعد تمہارے بارے میں پاپاکے کیا تاثرات تھے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کہنے لگے۔ نعمان بہت ٹیلنٹڈ لڑکا ہے، کاکول سے سورڈآف آنر (Sword of Honour) لے چکا ہے۔ اب تک کے سارے کورسوں میں ٹاپ پوزیشن لی ہے۔ ساری اے سی آرز (ACRs) آؤٹ اسٹینڈنگ ہیں۔ بہت آگے جائے گا۔ دیکھنا ایک روز یہ جنرل بنے گا۔۔‘‘
’’لپیٹو بھئی، لپیٹو!‘‘ وہ ہنسا۔
’’سچ مچ! انہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا۔ آخراتنا تجربہ ہے ان کا۔ کئی جنرل ان کے قریبی دوست ہیں۔ ان کی اسی بات کو سن کر تو میں نے شادی کے لئے ہاں کی تھی، ورنہ میں نہیں تھی کسی للو پنجو سے کپتان کو گھاس ڈالنے والی۔۔‘‘
وہ اس کی بات سن کرتا دیر ہنستا رہا۔ پھر بولا:
’’میں تو سمجھا تھا، میری قربانیاں رنگ لائیں۔ خون سے بھرا ہوا میرا خط دیکھ کر تم مجھ سے شادی پر آمادہ ہوئی تھیں۔۔‘‘
’’میں کبھی کسی کی اموشنل بلیک میلنگ emotional black mailing میں نہیں آتی۔۔۔‘‘
اسی اثناء میں اچانک ایک دوست ملنے آ گیا اور بات ادھوری رہ گئی۔
سیاچن گلیشیئر۔۔ دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ، ایک سرد جہنم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہٹ دھرم دشمن اپنی سپاہ کو شدید سرد موسم میں وہاں بٹھا کر آخر حاصل کیا کر رہا ہے؟ یہ موسم سے جنگ تھی، مد مقابل سے نہیں۔ اسے بتایا گیا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت سے یہ بے آباد برفانی علاقہ مسلمہ طور پر پاکستان کے کنٹرول میں رہا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما اس علاقے میں آنے کے لئے سفری دستاویزات اور اجازت نامے پاکستان ہی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ پھر خدا جانے تین دہائیوں کے بعد دشمن کو اچانک یہ خیال کیسے آیا تھا کہ یہ علاقہ اس کی ملکیت ہے؟ بہر کیف پاک فوج کی جوابی کاروائی نے دشمن کی مزید پیش قدمی روک دی تھی۔ اپنے دفاع کو مضبوط بنانا اور موقع پاتے ہی کھوئی ہوئی چوکیوں کو دشمن سے واپس چھیننا، اس کی یونٹ کا مشن تھا۔
آخر ایک روز پلٹن کو وہ موقع میسر آ ہی گیا۔ منصوبہ پہلے سے تیار تھا۔ اس مشن کی تکمیل کے لئے وہ اپنا نام شروع دن سے والنٹیئرز کی لسٹ میں لکھوا چکا تھا۔ جونہی دیوالی کے روز دشمن کی چوکی پر نفری کم ہونے کی اطلاع موصول ہوئی، اس سمیت پانچ فوجیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے رسے سے لٹکا کر باری باری اس چوٹی پر کامیابی سے اتار دیا گیا۔ دشمن کے ڈیوٹی پر موجود سپاہیوں نے شدید مزاحمت کی۔ رائفلوں اور مشین گنوں سے ایک دوسرے پر گولیوں کی بوچھاڑ کے بعد سنگینوں سے لڑائی ہوئی۔ جب ہیلی کاپٹر چھٹے اور آخری جوان کو اتار رہا تھا اس وقت اس پر ایک راکٹ داغا گیا اور وہ فضا ہی میں تباہ ہو گیا۔ رسی سے لٹکا ہوا جوان کئی سو فٹ گہری کھائی میں جا گرا۔ اس سوئی سائیڈ مشن کی کامیابی کے امکانات دس فی صد سے بھی کم تھے مگر اللہ نے ان کے نصیب میں فتح لکھ دی تھی۔ اس روز اس چوٹی پر صرف دو آدمی زندہ بچے۔ وہ خود اور اس کا وائرلیس آپریٹر، سپاہی پائندہ خان۔ دشمن کا ایک لفٹین اور دس سپاہی مارے گئے تھے۔ پائلٹ سمیت اس کے اپنے پانچ ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ وہ خود بری طرح زخمی تھا۔ اس کی دائیں ٹانگ پر مشین گن کی بوچھاڑ پڑی تھی۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ سپاہی پائندہ خان نے اس کی ٹانگ پر شیل ڈریسنگ باندھ کر خون کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی مگر بے سود۔ بٹالین کمانڈر کو وائرلیس پر مشن کی کامیاب تکمیل کی اطلاع دیتے ہوئے وہ صرف اتنا کہہ پایا۔
"Sir, we have achieved it!”
اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہیں رہا۔
جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے خود کو سی ایم ایچ راولپنڈی کے آفیسر وارڈ میں پایا۔ اس کی فراسٹ بائٹ سے متاثر زخمی ٹانگ گھٹنے سے ذرا نیچے کاٹ دی گئی تھی۔ دائمی معذوری کے خیال نے اسے وقتی طور پر غم زدہ ضرور کیا، مگر یہ خبر اس کے لئے باعث طمانیت تھی کہ چوٹی اب پاک فوج کے مستحکم قبضے میں ہے۔ مفتوحہ چوکی کا نام اس کے نام کی نسبت سے ’’نعمان پوسٹ‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر نے ہائی کمان سے اسے بہادری کا اعلیٰ فوجی اعزاز عطا کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
اسے دیکھنے، اس کی بیمار پرسی اور تیمار داری کے لئے گھر والے، عزیز و اقارب، دوست، کولیگ، جونئیر و سینئر افسر اور جوان بڑی تعداد میں آئے۔ اس کے بیڈ کے سرہانے پھولوں کے ان گنت بوکے، دعائیہ کارڈ، پھلوں کی ٹوکریاں اور تحفے پڑے ہوئے تھے۔ مگر وہ جس کا منتظر تھا وہ نہیں آئی۔ اس کی شریک زندگی، اس کی زارا، اسے ایک بار بھی دیکھنے نہیں آئی تھی۔ اس کی ساس اور سسر صاحب ضرور آئے مگر تھوڑی دیر رک کر اور اسے دلاسا دے کر چلے گئے۔ اسے بتایا گیا کہ زارا کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ سخت شاک میں ہے۔ اسی سبب وہ اسے ساتھ نہیں لائے۔ مگر آہستہ آہستہ اصل حقیقت اس پر کھلنے لگی۔ وہ اسے فون کرتا تو اٹینڈ نہ کرتی، گھر والے بہانہ کر دیتے کہ دوا کھا کر سوئی ہوئی ہے۔ اس کے عجیب و غریب رویے نے اسے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ براہ راست تو نہیں، مگر ادھر ادھر سے اس کے والدین کو باور کرا دیا گیا کہ یہ شادی مزید نہیں چل سکے گی۔ اس کے والدین ان لوگوں کی منت سماجت کرنے ان کے گھر پہنچ گئے، مگر آگے سے معذرت خواہانہ سا جواب ملا کہ اگر ان کی اکلوتی بیٹی ایک معذور شخص کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تو وہ اسے مجبور نہیں کر سکتے۔ مہینہ بھر بعد جب وہ ابھی پوری طرح صحت یاب بھی نہ ہوا تھا، اسے زارا کی طرف سے خلع کا نوٹس موصول ہو گیا۔
علیحدگی سے پہلے، اس کی خواہش پر اس نے بمشکل ایک مرتبہ اس سے ملنے کی حامی بھری اور وہ بھی بس کھڑے کھڑے۔ چٹان جیسا مضبوط کپتان اسے دیکھ کر سسک پڑا۔
’’ میری غلطی تو بتاؤ زارا۔۔ آخر میرا قصور کیا ہے؟ کہاں گئے تمہارے محبت کے دعوے، تمہاری الفت کی وہ سب گواہیاں جو تم ہنی مون کے دوران پتھروں، درختوں اور ساحلوں کی ریت پر لکھتی رہیں؟‘‘
’’آئی ایم سوری نعمان! تم خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہو۔ میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں۔ جذبات سے زیادہ عقل کو اہمیت دیتی ہوں۔ خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔
I had married a future general , not a disabled captain!
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹی اور اپنے باپ کی مرسڈیز میں جا بیٹھی۔ وہ اس کی جاتی ہوئی گاڑی کو دور تک دیکھتا رہا۔
مہینوں وہ صدمے کی کیفیت سے دوچار رہا، پھر رفتہ رفتہ خود کو سنبھال لیا۔
زارا سے بندھن ٹوٹنے کے بعد اس نے ہمیشہ کے لئے شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ اس کی یونٹ اب ملک کی ایک دور دراز چھاؤنی میں تھی۔ وہ میس میں تنہا رہتا اور پیشہ ورانہ فرائض سے جو وقت بچتا، اسے گالف کھیلنے یا کتب بینی میں صرف کر دیتا۔ فوج کے ماہر ڈاکٹروں نے امپورٹڈ مصنوعی ٹانگ لگا کر اسے چلنے پھرنے، حتیٰ کہ بھاگنے دوڑنے کے قابل بنا دیا تھا۔ سرسری نظر سے دیکھنے والا بالکل نہیں جان پاتا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔
اپنی وردی پر جرنیلی کے بیج سجانے کے لئے اس نے برسوں جان توڑ محنت کی تھی۔ یہ آرزو کہ وہ جرنیل بن کر رہے گا، اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا تھا۔ ایک سوز دروں تھا جو اسے مسلسل کچوکے لگاتا رہتا۔ جرنیلی یوں ہی تو نہیں مل جاتی۔ بالخصوص ایسے افسر کو جو ایک ٹانگ سے معذور بھی ہو۔ مگر وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ معذوری کو اس نے کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔ برسہا برس تک اس نے جنگلوں، میدانوں، صحراؤں، سنگلاخ پہاڑوں اور برف پوش وادیوں میں اپنی پلٹن کے شانہ بشانہ ہر طرح کی عسکری خدمات سرانجام دیں۔ وہ اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ بہت سے صحت مند افسروں اور جوانوں سے زیادہ تیز بھاگتا تھا۔ اسالٹ کورس، فیلڈ فائرنگ، روٹ مارچ، کراس کنٹری ریس، غرضیکہ ہر ایونٹ میں شمولیت اس نے خود پر لازم ٹھہرا لی تھی۔ سینئر افسران اس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ذہانت، محنت و لگن اور جوش و جذبے کے معترف تھے۔ جونیئر افسر اور جوان بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہوا وہ آج میجر جرنل کے عہدے تک آ پہنچا تھا۔
بارہ برسوں پر محیط تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد نکاح ثانی کا فیصلہ اسے با امر مجبوری کرنا پڑا۔ بسترمرگ پر پڑی ضعیف والدہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو انکار کا یارا نہ رہا۔ ماں کی پسند، عمر میں اس سے پندرہ سال چھوٹی بیوی بہت سمجھ دار اور اچھی شریک زندگی ثابت ہوئی۔ وہ نا صرف اس سے پیار کرتی تھی بلکہ اس کا احترام بھی کرتی تھی۔ وہ بھی اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کی کوشش کرتا تھا۔
رات کے پچھلے پہر نیم خوابیدہ بیوی نے شوہر کے منہ سے بڑبڑاہٹ سنی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔
’’زارا۔ دیکھو میں۔۔ میں جنرل بن گیا ہوں۔ پلیز مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔ پلیز ڈونٹ لیو می!‘‘
وہ کہنی کے بل اوپر اٹھی اور اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ آنسوؤں کی پتلی دھار اس کی آنکھ کے گوشے سے نکل کر رخسار پر بہہ رہی تھی اور وہ گہری نیند سویا ہوا تھا۔
٭٭٭

کباڑیا

چھاؤنی کی حدود سے باہر مضافات کی طرف جانے والی سڑک کے ارد گرد، جہاں کبھی سرسبز کھیت اور اینٹ گارے سے بنے اکا دکا مکانات ہوا کرتے تھے، وہاں اب بے ہنگم رہائشی کالونیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ سڑک کے دونوں جانب دور تک ہر طرح کی دکانیں، گودام، سی این جی اسٹیشن، تعمیراتی سامان کے بڑے بڑے سٹور اور ماربل فیکٹریاں بن گئی تھیں۔ راجا مشکور کا ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ بھی یہیں واقع تھا۔ پندرہ سولہ مرلے کے پلاٹ کے ایک تہائی حصے پر چند بڑے بڑے کمروں اور برآمدے پر مشتمل سادہ سی عمارت ہر طرح کے فرنیچر، برقی آلات، انواع و اقسام کے آرائشی سامان اور الم غلم اشیاء سے بھری ہوئی تھی۔ برآمدے میں گتے اور کاغذ کی ردی کے ڈھیر لگے رہتے۔ جبکہ صحن لوہے اور پلاسٹک کی بے کار چیزوں، کانچ کی بوتلوں اور ٹین ڈبوں سے اٹا پڑا تھا۔ کباڑ کے انبار ہمالہ آثار کے ساتھ جستی چادروں سے بنے شیڈ کے نیچے تلائی کے دو بڑے کانٹے اور باٹ رکھے تھے۔ اسی جگہ 70 سی سی کی ایک پھٹیچر موٹر سائیکل چھوٹے اسٹینڈ پر ترچھی کھڑی ہوتی۔ قریب ہی تین ٹانگوں والی کرسی پر بیٹھ کر سر تا پا لنڈے میں ملبوس راجا مشکور گاہکوں کی راہ تکا کرتا۔ سرسری نگاہ سے دیکھنے پر وہ خود بھی ارد گرد ڈھیر کاٹھ کباڑ کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ کرسی کی چوتھی ٹانگ لگوانے کی اس نے ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔ کئی برسوں سے اینٹیں جوڑ کر اسے سہارا دے رکھا تھا۔ کوئی بے تکلف بیوپاری یا گاہک اس حوالے سے عار دلاتا تو ہنستے ہوئے جواب دیتا:
’’اوجی! کام ہی چلانا ہے ناں! پانچ سالوں سے بہترین کام چل رہا ہے۔ ورنہ صحیح سلامت نئی کرسیاں اندر ڈھیر پڑی ہیں۔۔۔‘‘
’’کام ہی چلانا ہے ناں۔‘‘موصوف کا تکیہ کلام تھا اور اس کی مخصوص ذہنی ساخت، سوچ اور اپروچ کا مظہر۔ کام چلاؤ جی، کام چلنا چاہئے، گزارا کرو جی۔۔ اس طرح کے جملے کثرت سے بولتا۔ ’’سودا‘‘ کا لفظ بھی گفتگو میں بہت زیادہ استعمال کرتا۔ سودا ڈن ہو گیا، سودا فٹ ہو گیا، سودا خراب ہو گیا، سودا برابر آ گیا۔۔
عمر تیس برس سے زیادہ نہیں ہو گی۔ صحت اور صورت شکل بھی اچھی تھی مگر پھر بھی اپنے حلیے اور لباس پر بالکل توجہ نہ دیتا۔ شیو اکثر بڑھی رہتی۔ کئی کئی دن نہائے ہوئے گزر جاتے۔ اس کی تمام تر دلچسپیاں کاروبار تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ گھریلو سامان اور کباڑ کی فروخت یا خریداری کے لئے آنے والوں کا برابر گرم جوشی سے استقبال کرنے کے لئے ہمہ وقت مستعدرہتا۔ رہائش بھی کباڑ خانے کے ایک کمرے میں اختیار کر رکھی تھی۔ گھر بسانے کا جھمیلا ہی نہیں پالا تھا۔ جونہی کوئی گاہک احاطے میں قدم رکھتا اسے دیکھ کر لگا بندھا خیر مقدمی کلمہ ادا کرتا:
’’بسم اللہ۔ آؤ جی۔‘‘
کوئی مجبور انسان ایک ہزار روپے کی چیز بیچنے آتا تو اسے سو روپے کی پیش کش کرتے ہوئے کہتا:
’’کام چلاؤ جی۔‘‘
وہ احتجاج کرتا تو جواب دیتا:
’’اور کیا دوں؟ آخر مجھے بھی اپنا کام چلانا ہے!‘‘
خریدار کو چیز بیچتے ہوئے اس کی گفتگو اس قسم کی ہوتی:
’’یہ دیکھیں بالکل نئی نکور ہے۔ شو روم سے ہزار بارہ سو سے کم میں نہیں ملے گی۔ میں نے نو سو روپے میں خریدی ہے۔ آپ مجھے منافع نہ دیں۔ اپنا کام چلائیں۔۔‘‘
قدرت بعض لوگوں کو کسی مخصوص کام کے لئے دنیا میں بھیجتی ہے۔ راجا انہی میں سے ایک تھا۔ وہ فطری کباڑیا تھا۔ اگر خمیر میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ گھرکے عسرت زدہ ماحول نے پوری کر دی تھی۔ ابھی ماں کے بطن ہی میں تھا کہ باپ نے دنیا سے منہ موڑ لیا۔ جوان بیوہ اور نومولود یتیم کے ساتھ رشتہ داروں نے وہی سلوک روا رکھا جو اس معاشرے کا عام چلن ہے۔ جب کسی نے سر پر ہاتھ نہیں رکھا تو نادار عورت نے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنے کے لئے چھاؤنی کی دو تین کوٹھیوں میں کام شروع کر دیا۔ اکلوتے بچے کو پال پوس کر جوان کرنا اس کا واحد مقصد حیات تھا۔
ماں جو مشقت کرتی تھی اس سے دو وقت کی روٹی تو میسر آ جاتی تھی مگر دیگر ضروریات زندگی کے لئے اترنوں پر انحصار کرنا پڑتا۔ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں ضرورت کی ہر شے رحم دل اور فیاض بیگمات کی بخشی ہوئی تھی۔ راجا جب پانچ چھ سال کا ہوا تو ایک بیگم صاحبہ کے سمجھانے بجھانے اور ذاتی کوشش سے اسے سرکاری سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس کی سکول یونیفارم، بستہ، کتابیں، عام کپڑے اور کھلونے بھی بیگمات کی عطا ہوتے۔ اس طرح اس نے نو جماعتیں پاس کر لیں۔ سکول آتے جاتے یا یونہی آوارہ پھرتے ہوئے اسے جہاں کہیں کوئی گری پڑی چیز ملتی اسے اٹھا لیا کرتا۔ یوں اس کے ذاتی اثاثے میں پرفیوم کی خالی خوش نما شیشیاں، ہر برانڈ کے سگریٹ کی ڈبیاں، رنگین تصویروں والی ماچسیں، کاسمیٹکس کی خوبصورت پیکنگز، چینی کے دیدہ زیب ٹوٹے ہوئے گل دان، استعمال شدہ مار کر اور بال پین، لوہے کے چھوٹے چھوٹے بے کار پرزے اور ایک دو مقناطیس بھی شامل ہو گئے تھے۔ بچپن میں اس نے ایک فوجی افسر کے بچے کی استعمال شدہ ٹرائیسکل چلائی تھی۔ جب دسویں میں پہنچا تو کہیں سے ایک پرانی بائیسکل بھی مل گئی۔ اس وقت تک اسے ردی اخبار، کاپیاں، کتابیں، گتے اور خالی بوتلیں بیچنے کا خاصا تجربہ ہو چکا تھا۔ جب کوٹھیوں سے لائی ہوئی انواع و اقسام کی بے کار چیزیں ذرا زیادہ جمع ہو جاتیں تو ماں بیٹا محلے کے کباڑیے کے ہاتھ بیچ آتے تھے۔ کبھی اپنا پسندیدہ مشروب فانٹا پینے کو جی چاہتا تو وہ خو دبھی سٹاک میں سے کوئی چیز اٹھا کر کباڑ خانے جا پہنچتا۔ دسویں جماعت میں ترقی پانے تک خان کباڑیے سے اس کی اچھی خاصی بے تکلفی ہو گئی تھی۔ اس کے مشورے پر وہ فارغ اوقات میں نزدیکی گنجان آباد بستیوں کا سائیکل پر چکر لگانے لگا۔ ابتداء میں جھجک اور شرم مانع ہوئی مگر جلد ہی گلی خالی پا کر صدا لگانے لگا:
’’چھان بورا بیچ، سوکھی روٹی بیچ، ردی اخبار بیچ، ٹین ڈبہ، لوہا پرانا، نائیلون کی جوتیاں بیچ۔۔‘‘
جب خان کی دی ہوئی نقدی ختم ہو جاتی اور سائیکل کے کیرئیر پر لٹکائے ہوئے دونوں بورے بھر جاتے تو وہ واپسی کی راہ لیتا اور کمیشن وصول کر کے شاداں و فرحاں گھر لوٹ جاتا۔ جلد ہی پیسوں کی کشش نے اسے سکول کا راستہ بھلا دیا۔ اس نے کباڑ خانہ چلانے کے لئے کاروباری رموز اتنی جلدی سیکھ لئے کہ ذاتی کاروبار کے خواب دیکھنے لگا۔ یہ سوچ کر اکثر حیرت میں ڈوب جاتا کہ کوڑیوں کے مول خریدی ہوئی اشیاء فوراً دگنے پیسوں میں کیسے بک جاتی ہیں! بڑے بڑے بیوپاریوں کے کارندے خود ہی مال اٹھانے کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ نقد و نقدی ادائیگیاں ہوتی ہیں اور فٹافٹ مال ٹھکانے لگ جاتا ہے!
تیس برس کی عمر کو پہنچنے تک راجا اپنا ذاتی کباڑ خانہ کامیابی سے چلانے لگا تھا۔ اگلے دو سالوں میں اس نے ’’آرکو آکشن مارٹ‘‘ کی بنیاد ڈالی تو اس کا بینک بیلنس اتنی تیزی سے بڑھا کہ وہ خود بھی حیران رہ گیا۔ ماں نے گذشتہ پانچ چھ سالوں سے کوٹھیوں میں کام چھوڑ کر مصلا بچھا لیا تھا۔ مگر خوش حالی آنے کے با وصف طبعاً شکر گزار عورت اپنی محسن اور مہربان بیگمات کو نہیں بھولی تھی۔ وہ ان سے ملنے اکثر بنگلوں پر جایا کرتی۔ بیگموں کو بتاتی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کے لئے بے حد بے قرار ہے۔ خود راجا کا انگ انگ عورت، عورت پکارتا تھا۔ مگر کاروباری مصروفیات اور روز افزوں ترقی نے اسے اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ اس لازمے پر سوچنے کی اسے فرصت ہی نہ ملتی۔ ماں کبھی یہ قصہ چھیڑ بیٹھتی تو شادی کے لئے ضروری بری کے جوڑوں، طلائی زیورات اور ولیمے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے حوصلہ ہار جاتا۔ بیوی کو دو وقت کھانا کھلانے پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر شادی کے جملہ مصارف کا سوچ کر جان نکلنے لگتی تھی۔
راجا دھیلا بھی خرچ کرنے لگتا تو پہلے دس مرتبہ سوچتا۔ اس کا قول تھا کہ چیز اولاً ضرورت کے تحت خریدنی چاہئے، قصداً یا محض شوقیہ ہرگز نہیں۔ دوئم جس شے کی ضرورت ہو اگر وہ اچھی حالت میں سیکنڈ ہینڈ مل جائے تو نئی پر پیسہ برباد کرنا نری حماقت ہے۔ کسی دوست کو کوئی نئی شے خریدتے دیکھتا تو ناصحانہ انداز میں کہتا:
’’سیکنڈ ہینڈ سے کام چلاؤ جی۔۔ نئی کیا کرنی ہے۔ خواہ مخواہ کا خرچہ ہی ہے۔۔‘‘
اس کے اپنے استعمال میں جتی چیزیں تھیں سبھی سیکنڈ ہینڈ تھیں۔ موبائل فون، کلائی گھڑی، بٹوہ، موٹرسائیکل، پلنگ، ٹی وی ٹرالی، ٹی وی، الماری، قالین، پردے اور برتن سب پرانے تھے۔ حتیٰ کہ تن کے کپڑے بھی ہاتھی چوک کے قریب واقع ’’کراؤن امپورٹڈ کلودنگ سنٹر‘‘ سے خریدا کرتا۔
اپنی مستحکم مالی حیثیت کا بھید اس نے اپنی ماں کو بھی نہیں دیا تھا۔ اس نے باور کر لیا تھا کہ بیٹے کا کاروبار بظاہر پھیلا ہوا لگتا ہے، آمدن اتنی نہیں ہے۔ ایک روز مارٹ کے قریب ہی وہ بدنصیب عورت سڑک کے حادثے میں شدید زخمی ہوئی اور اگلے ہی روز بیٹے کا گھر بسانے کی حسرت دل میں لئے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی۔ تعزیت کے لئے قریبی رشتہ دار اور برادری کے لوگ آئے تو راجا نے ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اپنایا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ غربت کے دنوں میں جب ان لوگوں کی مدد کی ضرورت تھی تو کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا تھا۔ اب وہ آسودہ حال ہے تو سب خواہ مخواہ بڑھ چڑھ کر اپنائیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعید نہیں کہ قریبی تعلقات استوار کرنے کی آڑ میں مال ہتھیانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں۔ صرف حلیمہ نامی ایک عورت اسے پر خلوص لگتی، جو اس کی رشتے کی خالہ تھی۔ وہ مرنجاں مرنج عورت اس کے کباڑ خانے کے قریب کرائے کے مکان میں رہتی تھی۔ سڑک سے گزرتے ہوئے اکثر احوال پوچھنے آ جاتی۔ اسے دیکھ کر راجا کو اپنی مرحومہ ماں یاد آنے لگتی۔ ماسی حلیمہ بھی امیروں کی کوٹھیوں میں کام کر کے گزر اوقات کرتی تھی۔ راجا فارغ ہوتا تو اس کے سامنے پلاسٹک کی کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر بیٹھ جاتی۔ چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کرتی اور پھر دعائیں دے کر رخصت ہو جاتی۔
راجا نے بارہا محسوس کیا تھا کہ ماسی جب بھی اس کے سامنے آ کر بیٹھتی ہے، اس کی کرسی کے نیچے جڑی ہوئی اینٹوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہے۔ بالآخر ایک روز دل کی بات اس کی زبان پر آ ہی گئی:
’’مشکور پتر۔ اب تم اتنے بڑے سیٹھ بن گئے ہو۔ اپنے بیٹھنے کے لئے نئی کرسی ہی خرید لو۔۔‘‘
راجا مسکرایا:
’’ماسی پہلی بات تو یہ ہے کہ میں سیٹھ ویٹھ بالکل نہیں ہوں۔ بس سمجھو کام چل رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سی نئی کرسیاں اندر پڑی ہیں۔ فرنیچر کی مرمت اور پالش کرنے والے کاریگر بھی شو روم کے پچھلے حصے میں کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس کرسی میں کوئی خرابی نہیں۔ اس کی سیٹ اور بیک میں بہترین فوم اور لیدر استعمال کیا گیا ہے۔ پانچ چھ سال سے فسٹ کلاس کام چل رہا ہے۔ جب یہ بیچاری مجھے کچھ نہیں کہتی تو میں اسے کیوں رد کروں؟‘‘
ماسی حلیمہ مسکرائی اور کسی گہرے خیال میں گم ہو گئی۔ قدرے توقف کے بعد کہنے لگی:
’’اچھا میں چلتی ہوں۔ تمہاری یہ جگہ بڑی ہی ٹھنڈی ہے۔ مجھے تو کمنی لگ گئی ہے!‘‘
اگلی صبح ابھی راجا بستر میں نیم دراز چائے پینے میں مشغول تھا کہ ماسی دوبارہ آ ٹپکی۔ راجا اس کی بے وقت اور غیر متوقع آمد پر حیران ہوا۔ اس کے چہرے پر فکر اور گومگو کی کیفیت دیکھ کر پوچھنے لگا:
’’ماسی خیر ہے نا؟‘‘
’’میرے پاس کچھ گھریلو سامان ہے جسے بیچ کر نئی نٹنگ مشین خریدنا چاہتی ہوں۔ اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو چل کر دیکھ لو۔‘‘
ماسی نے سادگی سے کہا۔
راجا ہنسنے لگا:
’’بس ماسی! میں تو گھبرا ہی گیا تھا تمہیں پریشان دیکھ کر۔ لو چائے پیو۔۔‘‘پھر کہنے لگا ’’ماسی! میں کباڑیا ہوں۔ میرا تو کام ہی سیکنڈ ہینڈ مال ٹھکانے لگانا ہے۔ اس پیشے میں سوئی سے لے کر بحری جہاز تک ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ بس جیب میں پیسہ ہونا چاہئے۔ ادھرسودا برابر آتا ہے، ادھر ڈن ہو جاتا ہے!‘‘
ماسی کی آنکھوں میں امید کی کرن نے چمک ماری۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کی جگہ نا امیدی کی دھند نے لے لی۔ چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتار کر بولی:
’’مشکور پتر! تم بڑی ہمت والے ہو۔ اللہ تجھے بحری جہاز خریدنے کی توفیق بھی ضرور دے گا۔ میرا مسئلہ حل کر دو تو تجھے دعا دوں گی۔۔ صبح صبح تکلیف دی ہے۔‘‘
راجا اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
’’کوئی بات نہیں ماسی۔ میں ٹرایڈنٹ کو کک مارتا ہوں۔ ابھی چلتے ہیں۔ اللہ کرے تیرا کام بن جائے اور میرا بھی۔ بالکل نئی نٹنگ مشین اندر رکھی ہوئی ہے۔ فکر نہ کرو صرف سودا ڈن ہونے کی دیری ہے۔۔‘‘
فرنیچر بہت معمولی قسم کا تھا۔ ویسے نیا مگر رگڑیں لگی ہوئیں۔ ایک ڈبل بیڈ، ایک صوفہ، ایک سنگھار میز اور برتنوں کے لئے چھوٹا سا شوکیس۔ سنٹرل ٹیبل زیر استعمال تھی۔ سارا سامان بارہ مربع فٹ کے کمرے میں ٹھنسا ہوا تھا۔ راجا نے گہری کاروباری آنکھوں سے اندازہ لگا لیا کہ سارا فرنیچر چالیس پچاس ہزار روپے دے سکتا ہے۔۔ ماسی کو دیکھ کر چونکہ ماں یاد آ جاتی ہے اس لئے پچیس فی صد یعنی دس بارہ ہزار کی رقم پیش کرنے سے خیر سگالی کا جذبہ خوب فروغ پائے گا۔ وہ ماسی کے ساتھ دروازے کی طرف پیٹھ کئے فرنیچر دیکھنے میں منہمک تھا کہ سینٹر ٹیبل پر برتن رکھنے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے چودھویں کا چاند کمرے میں طلوع ہو گیا ہو۔ بھرے بھرے جسم والی ایک خوبصورت اور پر شباب لڑکی ڈریسنگ سٹول پر بیٹھی دو پیالیوں میں چائے انڈیل رہی تھی۔ اس کے بدن سے پھوٹنے والی نسوانی کشش کی توانا لہریں راجا کا دل گرمانے لگیں۔ لڑکی نے ایک بار بھی پلکوں کی چلمن اٹھا کر اس کی جانب نہیں دیکھا تھا۔ مگر راجا کی نس نس سے ایک گرسنہ آنکھ پوری رغبت سے اسے تاڑ رہی تھی۔
’’یہ میری بیٹی کلثوم ہے۔‘‘ ماسی نے دھیرے سے کہا۔
راجا کو متوجہ پا کر لڑکی لجا گئی اور چائے انڈیل کر دروازے کی طرف لپکی۔ سرو قد لڑکی کا بدن پشت سے انتہائی پر کشش تھا۔ مگر یہ دیکھ کر راجا کو شدید ذہنی جھٹکا لگا کہ لڑکی ایک ٹانگ سے لنگڑاتی ہے۔ اس نے حیرت سے ماسی کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ بے کس عورت کی رنگت زرد پڑ چکی ہے اور وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں لے کر چبانے لگی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں تاجر حضرات دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ کائیاں اور معاملہ رس ہوتے ہیں۔ راجا کباڑیا جو عام تاجروں کا بھی باپ ثابت ہوا تھا فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔
ماسی حلیمہ ہلدی چہرے اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہہ رہی تھی:
’’بدنصیب کو بچپن میں پولیو ہو گیا تھا۔ ورنہ میری بچی کو اللہ نے ہزار صفتیں دی ہیں۔ اتنی سگھڑ بیٹی کوئی کوئی ہو گی۔ میں نے پائی پائی جوڑ کر اس کی شادی کی تھی۔ حرام زادہ جی پی او میں ڈاکیا ہے۔ چھ مہینے بعد ہی ماں کی باتوں میں آ کر اس نے شہدی کو طلاق دے دی۔‘‘ ماسی کے حلق سے چیخ سی نکلی۔ وہ رو رہی تھی۔
راجا کو ماسی پہ ترس بھی آیا اور پیار بھی۔ اس کے کاندھے کے گرد بازو ڈال کر ساتھ لگاتے ہوئے بولا:
’’ماسی تم میری ماں بجا ہو۔ مت روؤ۔ بس ڈن ہی سمجھو۔۔!‘‘
ماسی کی بلا جانے کہ ڈن کیا ہوتا ہے۔ وہ سمجھی کہ یونہی سعادت مندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم ہمدردانہ لب و لہجہ محسوس کر کے اس کی ڈھارس بندھی اور وہ دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھنے لگی۔
راجا آہستہ آہستہ اس کے کندھے دباتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ سیکنڈ ہینڈ ہے تو کیا ہے؟ بالکل نئی جیسی ہے۔۔ ایک ٹانگ میں لنگ سہی مگر میاں بیوی کے باہمی تعلق میں ٹانگ کا عمل دخل ہی کیا ہے؟ میرے پاس کہاں اتنا وقت ہوا کرے گا کہ فوجی افسروں کی طرح بیگم کو ہمراہ لئے شام کو واک کے لئے نکلوں۔ ایسی بیوی بہت بڑی نعمت ثابت ہو گی جو کہیں آنے جانے سے گھبرائے اور گھر بیٹھنا پسند کرے۔ مجھے کام چلانا ہے اور وہ انشاء اللہ خوب چلے گا۔۔ اب یہ ہے کہ ماسی بات وارے کی کرے تو سودا ڈن کروں۔‘‘
راجائی سوچوں کا سلسلہ تب منقطع ہوا جب ماسی نے دوبارہ لب کشائی کی۔
’’جب سے اللہ بخشے سکینہ فوت ہوئی ہے، مجھے بھی وہم ہونے لگا ہے کہ میں جلد مر جاؤں گی۔ بیٹی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بیٹے کو تو پروا ہی نہیں۔ جب کا نائیک بنا ہے چھٹی کم کم ہی آتا ہے۔ سوات میں ڈیوٹی ہے۔ چار چھ مہینے بعد چند روز کے لئے آئے بھی تو میری بہو، پنج پھلاں رانی، اسے ساتھ لے کر ماں کے پاس کہوٹہ چلی جاتی ہے۔ آج کل بھی دونوں وہیں گئے ہوئے ہیں۔ میری اپنی کمائی اتنی ہے کہ ہم ماں بیٹی کا خرچہ پورا ہو جاتا ہے۔ بیٹے سے میں کچھ نہیں لیتی۔ لیکن میری بہو کو نند سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ ظالم بدبخت بات کرتے ہوئے ذرا نہیں سوچتی۔ کہتی ہے وہ ساری زندگی لنگڑی کو کہاں سنبھالتی پھرے گی۔ حالانکہ میری بچی نے دستکاری سکول سے کام سیکھا ہوا ہے۔ ٹنچ بھاٹہ میں ریڈی میڈ کپڑوں کی بڑی دکانیں ہیں۔ میں نے دو چار دکانداروں سے بات کی ہوئی ہے۔ سوچتی ہوں میں مر گئی تو وہ اپنے ہنرسے گھر بیٹھی روزی کما لیا کرے گی۔۔‘‘
ماسی حلیمہ دل کی بات زبان پر لانے کی بجائے ادھر ادھر کی ہانک رہی تھی۔ زخم خوردہ ماں کے لئے اپنے منہ سے بیٹی کے رشتے کی بات کرنا اتنا سہل نہیں تھا۔ بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب کلثوم کنواری تھی تو درجنوں رشتے آتے تھے، مگر اکثر لوگ واپس مڑ کر نہیں دیکھتے تھے۔ آخر منتوں مرادوں کے بعد رشتہ ہوا بھی تو ایسا کہ کاش کبھی نہ ہوتا۔ اب تو طلاق کا داغ بھی لگ چکا ہے۔ اس معاشرے میں اچھی بھلی لڑکیوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کیا خبر کیا جواب سننے کو ملے؟ ادھر راجا کو بے چینی لگی ہوئی تھی کہ ماسی سیدھی سیدھی بات کیوں نہیں کر رہی۔ چالاک ذہن خود اسے پہل کاری سے روک رہا تھا۔ تاجرانہ ذہنیت اس پہلو پر غور ہی نہیں کر رہی تھی کہ ماں کا دل انکار سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ جب صبر کا یارانہ رہا تو وہ بول اٹھا:
’’ماسی!ہم دونوں خواہ مخواہ فضول باتیں کر رہے ہیں۔ تمہارا اور میر ادونوں کا کام چل سکتا ہے۔ ہم دونوں کے لئے یہ سودا وارے کا ہے۔ اس لئے ڈن کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے۔۔۔ جن کپڑوں میں تمہاری بیٹی بیٹھی ہے، مولوی کو بلا کر انہی کپڑوں میں میرے ساتھ کلمے پڑھواؤ۔۔ یہ سامان جہیز بھی ادھر ہی جائے گا جہاں مشین پڑی ہے۔ نٹنگ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھلا میں اسے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتا؟ تم اپنی بیٹی کو ظالم بہو سے بچاؤ۔۔‘‘
ماسی حلیمہ نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے راجا کا سر دونوں ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا اور بولی:
’’اللہ تجھے بڑے بخت لگائے گا۔ انشاء اللہ ایک دن تو بحری جہاز بھی ضرور خریدے گا!‘‘
٭٭٭

صحبت بہ اہل دل

میں بہت رنجیدہ تھا۔ باس سے دفتری معاملہ پر معمولی سی تکرار ہوئی تھی جس کی پاداش میں اس نے میرا تبادلہ مری سے ملتان کر یا تھا۔ میری کیفیت اس شخص کی سی تھی جسے جنت سے دیس نکالا دے کر جہنم میں جھونکا جا رہا ہو۔
میں گذشتہ پانچ سال سے مری میں تعینات تھا۔ ملکۂ کوہسار اور گلیات سے مجھے عشق تھا۔ یہاں کے سربلند پہاڑ، ان کے سینے پر سر رکھ کر سوئی ہوئی سڑکیں، چیل اور دیودار کے گھنے جنگل اور ان سے سرگوشیاں کرتے سرمئی بادل میرے من کو بھا گئے تھے۔ یہاں کا خوبصورت رومان پرور موسم مجھے افسانہ لکھنے پر اُکساتا تھا۔ پی سی بھوربن کی کافی شاپ میں کسی ہمدم دیرینہ کے ساتھ بیٹھ کر کافی پینا، کلب سینڈوچ کھانا اور دنیا بھر کے ادب پر گفتگو کرنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ وہاں مناف جیسے مصور نے بھی ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وہاں آنے والے سیاحوں کی فرمائش پر وہ ان کے چار کول سکیچ منٹوں میں سکالٹر شیٹ پر بناتا اور خاصے نوٹ اور داد سمیٹتا تھا۔ ادھر پر ہجوم مال پر بہتا زندگی کا دھارا، بے فکرے نوجوانوں کی ہلڑ بازیاں، نوخیز لڑکیوں کی جھینپی جھینپی مسکراہٹیں، جہاں دیدہ عورتوں کی ملامت آمیز گھوریاں، سڑک پر سرکتی ہوئی بادلوں کی مہین چادر اور اس کے پلو سے بندھی محبتوں کی کہانیاں، سب کچھ کتنا اچھا اور دل فریب تھا۔ میں نے دل ہی دل میں ہمیشہ کے لیے اس شہر میں بس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چنانچہ جب میرے زود رنج اور سخت گیر باس نے یہ ستم ڈھایا تو میں بلبلا اُٹھا۔
میں نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے، اپنے مزاج کے برخلاف باس سے معذرت تک کی، چند سینئرز سے سفارش بھی کروائی مگر سنگ دل شخص کا ذرا دل نہ پسیجا۔ آخر حضور والا کا سالا بروئے کار آیا۔ اس کی جانب سے یہ مژدۂ جاں فزا سننے کو ملا کہ بھائی جان نے مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ وہاں چلا جائے، چارج لے لے، جلد ہی واپس بلا لوں گا۔
موت سامنے نظر آ رہی ہو تو انسان بخار پر راضی ہو جاتا ہے۔
میں مہینہ بھر بعد واپسی کی اُمید پر ملتان جانے کی تیاری کرنے لگا۔
جاتے ہوئے اہلیہ اور بچوں کو ان کے ننھیال میں چھوڑنا تھا۔ وہ گڑھی شاہو میں رہتے ہیں۔ قریب ہی نہر کے پاس دھرم پورہ میں نور والوں کا ڈیرہ ہے۔ میں گاہے وہاں حاضری دیتا ہوں۔ بابا جی فضل شاہ صاحبؒ یہاں آرام فرما رہے ہیں۔ ان کو سلام کرنے جاتا ہوں۔ عصر کے بعد وہاں گیا۔ دل کا حال ابھی کہا نہیں تھا کہ کسی نے کان میں سرگوشی کی:
’’شہر تو لوگوں سے ہوتے ہیں۔‘‘
پلٹ کر دیکھا۔ میں وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ فاتحہ کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور لب سی کر چلا آیا۔
چہار تحفہ است از ملتان، گرد، گرما، گدا و گورستان۔ یہ کہاوت جیسی سنی تھی، پہلی نظر میں شہر کو میں نے ویسا ہی پایا۔ خیبر میل سہ پہر کے وقت ملتان پہنچی تھی۔ پھر بھی اس بلا کی گرمی تھی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔ ایئر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ سے باہر قدم رکھا تو سر چکرا گیا۔ ایک قلی نے میرا بیگ جھپٹ لیا۔ اس کے تعاقب میں مجھے تیز چلنا پڑا۔ سٹیشن کی عمارت سے باہر نکلا تو چلچلاتی دھُوپ میں دھُواں اُگلتے رکشوں کا شور طبیعت پر مزید ستم ڈھانے لگا۔ ہر رکشا ڈرائیور سواری بٹھانے میں دوسروں سے سبقت لے جانے میں کوشاں تھا، مگر من مانے کرائے پر۔ دو تین میری جانب بھی لپکے، مگر وہ جو کرایہ طلب کر رہے تھے، میری دانست میں یکسر ناجائز تھا۔ اس لیے میں نے معذرت کر لی۔
چند قدم دُور درختوں کے نیچے ایک رکشا سب سے الگ تھلگ کھڑا تھا۔ میرے قدم خودبخود اُس کی جانب اُٹھ گئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک دھان پان سا باریش بابا بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے سلیٹی رنگ کی چار خانے کی دھوتی اور ململ کا سفید کرتا پہن رکھا تھا، جو پسینے میں بھیگ کر اس کے استخوانی بدن سے چپکا ہوا تھا۔ اس کے سر پر سفید رنگ کا ڈھیلا صافہ تھا۔ پاؤں میں پلاسٹک کی سوفٹی چپل۔ اردگرد کے ماحول سے اس کی بے نیازی دیکھ کر میں مخمصے میں پڑ گیا کہ رکشا اس کا ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو شاید گرمی یا کسی اور وجہ سے وہ سواری بٹھانے کے موڈ میں نہیں۔ میں نے جھجکتے ہوئے سوال کیا:
’’بابا! فورٹ کالونی چلیں گے؟‘‘
’’انشاء اللہ ضرور چلیں گے۔ نوکری جو کرنی ہے۔ جدھر کوئی کہتا ہے چل دیتے ہیں۔‘‘
اس نے ہشاش بشاش لہجے میں جواب دیا۔
’’کرایہ کیا لیں گے؟‘‘
’’جو آپ کا دل چاہے دے دینا‘‘
میں نے سوچا، بابا انہی روایتی رکشا ڈرائیوروں میں سے ہے، جو سواری سے زیادہ کرایہ بٹورنے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ منزل پر پہنچ کر سواری اخلاقی دباؤ میں نہ آئے اور ان کی توقع کے مطابق کرایہ ادا نہ کرے تو جھگڑنے لگتے ہیں۔ بہتر ہے پیشگی کرایہ طے کر لیا جائے۔
’’نہیں۔ آپ کرایہ بتا دیں۔‘‘
’’سرکار کہہ جو دیا، جتنا دل ہوا اتنا دے دینا۔ میں نے جھگڑا تھوڑی کرنا ہے۔‘‘
’’اچھا، میں تو پھر پچیس روپے دوں گا۔ آپ لے لیں گے؟‘‘
میں نے تنک کر کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ فورٹ کالونی تک جائز کرایہ پچاس روپے بنتا ہے۔ میں تو محض اُسے زیر کرنا چاہتا تھا۔ مگر توقع کے برعکس اس نے مجھے چاروں شانے چت کر دیا۔
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اتنا ہی کرایہ بنتا ہے تو پھر پچیس بھی ٹھیک ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ تو گیا مگر کچھ شرمندہ سا تھا۔ میرا ضمیر مجھے کچوکے لگا رہا تھا کہ میں نے خواہ مخواہ اس غریب کے پچیس روپے مار لیے ہیں۔
بابے نے جب رکشا چلایا ہے تو مجھے یوں لگا جیسے میں پھولوں کے ہنڈولے میں ہوں، جو ہوا کے دوش پر اُڑا چلا جا رہا ہے۔ سڑک جگہ جگہ سے اُدھڑی ہوئی تھی مگر مجھے کوئی دھکا لگ رہا تھا، نہ جھٹکا۔ اس کا رکشا عام رکشوں کی نسبت خاصا آرام دہ تھا۔ علاوہ ازیں عقبی شیشے کے ساتھ اس نے موتیا کے ہار لٹکا رکھے تھے، جس کے سبب رکشے کی اندرونی فضا معطر اور خوشگوار ہو گئی تھی۔۔۔ وہ خود بھی ہشاش بشاش دکھائی دے رہا تھا اور زیرلب نعت شریف گنگناتے ہوئے رکشا چلا رہا تھا۔ میرے جی کا ملال پہلے سے سوا ہوا جا رہا تھا۔ جب مجھ سے یہ بوجھ سہارنا مشکل ہو گیا تو میں نے آگے ہو کر اُسے مخاطب کیا:
’’بابا جی! ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ضرور پوچھیں۔‘‘
اس نے عقبی شیشے سے میری آنکھوں میں جھانکا۔
’’باقی رکشا والے پینسٹھ، ستر کی بات کر رہے تھے۔ میں نے پچیس روپے کہے، آپ پھر بھی مان گئے۔ کس بات نے آپ کو میری بات ماننے پر مجبور کیا؟‘‘
وہ مسکرایا۔
’’صوفی صاحب! سارا کھیل ہی ماننے اور منوانے کا ہے۔ آدمی مان لے یا منوا لے۔ جہاں منوانے کی پوزیشن نہ ہو وہاں مان جانا بہتر ہوتا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر لمحہ بھر کے لیے میرا پورا وجود سُن ہو گیا۔ میں گنگ اور دم بخود تھا۔
’’کس طرف مڑنا ہے؟‘‘
اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ دیکھا تو رکشا فورٹ کالونی کے مرکزی گیٹ پر پہنچ چکا تھا۔
میں نے ہاتھ سے دائیں جانب اشارہ کر دیا۔
پھر میں اسے کبھی بائیں، کبھی دائیں موڑتا رہا اور وہ بلا حجت تعمیل کرتا رہا یہاں تک کہ میری رہائش گاہ آ گئی۔
’’بابا جی ایک چھوٹی سی عرض کرنی ہے۔‘‘
نیچے اُتر کے میں نے لجاجت سے کہا۔
’’اگر آپ مان لیں تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
میرے دل پر پڑنے والا بار اور احساسِ ندامت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ’’نہیں سرکار! آپ افسر لوگ ہیں۔ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ جائیں اپنا وقت بچائیں۔ ہم نے تو نوکری کرنی ہے۔ ابھی آپ کی، کی ہے۔ اب کسی اور کی کریں گے۔‘‘
میرے پیہم اصرار پر کہ سامنے گھنا سایہ دار دخت ہے، چند منٹ کے لیے سستا لیں اور ٹھنڈا پانی پی لیں، وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔
’’یہ تو کرائے میں نہیں مُکا تھا۔‘‘
’’بالکل! یہ واقعی ہمارے درمیان طے نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ مان لیں گے تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ یوں بھی حدیث ہے کہ کسی کی دعوت ردّ نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
’’شریعت دی اڑنگی توں چنگی لا لینا اے۔‘‘
اس نے خوش دلی سے کہا اور رکشے سے نیچے اُتر آیا۔
اردلی رکشا کی آواز سن کر باہر آ گیا تھا۔ میں نے اسے دو کرسیاں لانے اور شربت بنانے کی ہدایت کی۔
جب ہم بیٹھ گئے تو میں نے کہا:
’’بابا جی! ماننے اور منانے کا گُر کہاں سے ہاتھ آیا؟‘‘
’’اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔‘‘
اس نے آہ بھری۔
’’شور کوٹ میں ایک بزرگ ہیں۔‘‘
’’حیات ہیں یا وصال فرما گئے؟‘‘
’’وصال ہو یا حیات، فقیروں کے لیے ایک ہی بات ہے۔
مرشد سدا حیاتی باہو
اوہو خضر خوازہ ہو
’’وہ شور کوٹ میں ہیں۔ ان کی عمر سو سال ہے۔‘‘
’’کیا اُنہوں نے ڈیوٹی لگائی ہے، اتنی گرمی میں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ وہ مسکرایا: ’’سائیں کی بات ماننے کا اپنا ہی لُطف ہے۔ اُنہوں نے حکم فرمایا تھا کہ ملتان بہت پیاری جگہ ہے۔ اولیاء اللہ کا شہر ہے۔ وہاں جا کر لوگوں کی خدمت کرو۔ کوئی جو دے، لے لو۔ تکرار نہ کرو۔ اقرار کو اختیار کرو۔ تکرار اور انکار سے ابلیس اور اقرار سے انسان بنتا ہے۔‘‘
میرا وجود ایک بار پھر سُن ہو گیا۔
’’۔۔۔ تب سے کوشش کر رہا ہوں کہ سائیں سے کیا ہوا وعدہ پورا کر سکوں۔ صوفی صاحب دُعا کریں کہ ثابت قدم رہوں۔ وعدہ نبھا سکوں۔‘‘
مجھے گم صم دیکھ کر اس نے میرا گھٹنا دبایا اور کہنے لگا:
’’صوفی صاحب! میری گٹھڑی تو آپ نے کھلوا لی۔ پھولوں کی ڈالی اُٹھائے پھرتے ہو، ہمیں بھی تو اس کی زیارت کرواؤ۔‘‘
میں نے بابا فضل شاہؒ کی چند باتیں اُسے سنائیں تو وہ آبدیدہ ہو گیا۔
پھر اس نے حضرت سلطان باہوؒ کے یہ اشعار ترنم سے سنائے اور مجھے بھی رُلا ڈالا:
الف اللہ چنبے دی بوٹی، مرشد من وِچ لائی ہُو
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ہُو
اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پھلاں پر آئی ہُو
چر جگ جیوے مرشد باہو، جیں بوٹی من لائی ہو
جب ہم اس کلام کے سحر اور سرور سے باہر نکلے تو وہ مجھ سے پوچھنے لگا:
’’صوفی صاحب کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ نہ میں سیر نہ پا چھٹاکی، نہ پوری سرسائی ہُو
نہ میں تولا نہ میں ماشا، گل رتیاں تے آئی ہُو
’’ہاں! سب اس کے فضل کے محتاج ہیں۔۔۔ سبھی!‘‘
اس نے آہ بھری۔ پھر رمزیہ انداز میں پوچھا۔
’’یہ پکا ٹھکانا ہے یا مہمان ہو؟‘‘
’’مہمان تو ہم سبھی ہیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رُکے ہیں۔ میں شاید زیادہ دیر رُکوں۔‘‘
’’کہاں کے ارادے ہیں؟‘‘
چل بھلیا چل اوتھے چلیے جتھے لوکی سارے انھّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی ساہنوں منّے
اس نے شعر کا دوسرا مصرعہ دہرا دیا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر اُٹھ کھڑا ہوا:
’’اچھا صوفی صاحب! اب اجازت دیں، ہمارے اور تمہارے بچھڑنے کا ویلا ہو گیا ہے۔ مجھے کسی اور کا بوجھ اُٹھایا ہے اور آپ کو اپنے بال بچوں کی نوکری کرنی ہے۔‘‘
میں نے بٹوے سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔
’’ٹھنڈے درخت کے نیچے بٹھایا، ساہ کڈھایا اور لال شربت (روح افزا) بھی پلایا اور اب دگنے پیسے۔ آپ نے تو پچیس کا وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’بابا جی، پہلے بھی آپ نے مانی ہے، اب بھی مان جائیں۔ مجھے منوانے کی عادت ہے، آپ کو مان جانے کی۔‘‘
’’چلو پھر بھی شکر ہے، آپ کو منوانے کا وَل تو آتا ہے۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولا۔
اس کے بعد ہم بے اختیار بغل گیر ہو گئے۔ میری بانہوں کے حصار میں ہڈیوں کا ڈھانچا تھا، ہلکا پھلکا۔ میں نے اسے خود سے الگ کر کے بڑی عزت سے رکشے میں بٹھایا۔
اس نے رکشا سٹارٹ کیا تو میں نے پوچھا۔
’’آپ کا رات کا ٹھکانا کہاں ہے؟‘‘
’’ریلوے سٹیشن کے قریب میدان میں تپڑی واسوں کی جھگیاں ہیں، ان میں ایک جھگی کے باہر میرا رکشا بھی کھڑا ہوتا ہے۔‘‘
’’وہاں آؤں تو کیا نام لے کر پوچھوں؟‘‘
’’پوچھنا کہ بابا رکشے والا کہاں ہے، نشان دہی ہو جائے گی۔‘‘
’’وہ جانے لگا تو دل ایک دم اُمنڈا کہ وہ نہ جائے۔ میں نے بے اختیار ہاتھ کا اشارہ کیا تو رکشا ٹھہر گیا۔
’’کیا کوئی اُدھار باقی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ بس پوچھنا تھا کہ وہاں ڈیرہ لگانے کا یہی سبب ہے ناں کہ بقدرِ ضرورت کھا لیا کہ یہ ڈھانچا چلتا پھرتا رہے۔۔۔ جو بچ رہا تپڑی واسوں کے بچوں کو کھلا دیا، موج کرا دی۔۔۔؟‘‘
اس کے لبوں پر مخصوص مسکراہٹ پھیل گئی۔ منہ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر رکشا ہوا ہو گیا۔
جب میں پلٹا تو سرشار تھا۔ یکایک مجھے یوں لگا جیسے لُو کے تھپیڑے، بادِ بہاری کا رُوپ دھارنے لگے ہیں۔ دھرتی پر ابر سایہ فگن ہے اور دھوپ کی تمازت راحت بخش چھاؤں میں بدل گئی ہے۔ ملتان مری بن گیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بہار آفریں ہو گیا ہے۔ میں ایسے شہر کو چھوڑ کر واپس کیسے جا سکتا تھا؟
٭٭٭

تہ سنگ

اسکول یونیفارم میں ملبوس مغموم اور اداس پپو خاصی دیر سے سیڑھیوں والے پُل پر کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔ بائیں رخسار پر تھپڑ کا نشان تھا جسے وہ بار بار سہلاتا۔ گاہے دائیں ہاتھ کی پشت سے اپنی ناک رگڑتا اور آنکھوں میں اُمنڈنے والے آنسو پونچھنے لگتا۔ اُس کی پشت پر بھاری بستہ جھول رہا تھا جس میں تیسری جماعت کی کتابیں اور کاپیاں ٹھنسی ہوئی تھیں۔
جاڑوں کے دن تھے اور صبح کا وقت۔ اردگرد کی ہر چیز ٹھٹھری ہوئی تھی۔ اسٹیشن کی عمارت، کالونی کے کوارٹر، شیشم کے درخت، بجلی کے کھمبے، ریل کے سگنل، وہ بے شمار پٹڑیاں جو پُل کے نیچے کھلے میدان میں بچھی ہوئی تھیں، اور ان پر خاموش کھڑے ڈبے، سب سکڑے سکڑے دکھائی دے رہے تھے۔ مشرقی کیبن کے قریب بھاپ سے چلنے والا ایک مہیب کالا انجن، جو غالباً شنٹنگ کیلئے آیا تھا، اپنی چمنی سے گاڑھا گاڑھا دھواں اُگل رہا تھا۔ یہ دھواں عجیب عجیب شکلیں بناتا ہوا آہستہ آہستہ کہر کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔ ماحول میں بے نام سی اُداسی گھلی ہوئی تھی۔
یہ ایک بڑا ریلوے جنگشن تھا، جہاں سے چھ سات لائینیں مختلف سمتوں میں نکلتی تھیں۔ دن رات کے مختلف اوقات میں بیسیوں مسافر گاڑیاں اور ایکسپریس ٹرینیں اس کے کشادہ اور طویل پلیٹ فارموں پر رُکتیں اور سینکڑوں مسافروں کو اگلتی اور نگلتی ہوئی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہو جاتیں۔ مال گودام کے آہنی شیڈ کے نیچے غلے کی بوریوں، کپاس کی گانٹھوں، فروٹ کی پیٹیوں اور نوع بہ نوع مال اسباب کے انبار لگے رہتے۔ لوکو شیڈ سے لے کر ریلوے یارڈ تک اور مال گودام کے اطراف سارا دن شنٹنگ میں مصروف انجنوں کی چھک چھک سنائی دیتی۔ آتشی اینٹیں بنانے والی فیکٹری کی چمنیوں سے ہمہ وقت سیاہ دھواں نکلتا رہتا۔
جنگشن پر کام کرنے والے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ اُن کی رہائش کیلئے اسٹیشن کے شمال اور جنوب میں دو بڑی کالونیاں تعمیر کی گئی تھیں جنہیں سیڑھیوں والا ایک آہنی پُل آپس میں ملاتا تھا۔
پپو اُسی پل پر کھڑا تھا۔ وہ اپنے کتے کے غم میں آنسو بہا رہا تھا جسے اُس کے باپ نے، جو مال گودام کی واچ اینڈ وارڈ فورس میں وارڈن تھا، نجس گردانتے ہوئے غائب کر دیا تھا۔ یہ کتا اُسے پلیٹئر صاحب نے دیا تھا۔ وہ اُس کے دوست اور ہم جماعت شیری کے ابو تھے۔
اسٹیل گرے کلر کے سوٹ، نکٹائی اور ہیٹ میں ملبوس گورے چٹے اور قد آور پلیٹئر صاحب پپو کو بہت اچھے لگتے۔ ان کی پتلی کمانی والی گول شیشوں کی عینک، اُس کے عقب سے جھانکتی ہوئی چمکدار آنکھیں، کرسٹل کے دستے والی خوشنما چھڑی، جسے وہ فٹ پاتھ پر آہستہ بجاتے بجاتے ہوئے پیدل دفتر جاتے اور بچوں کی طرح معصوم اور گول مٹول چہرے پر رونق افروز دوستانہ مسکراہٹ، اس کے دل کو بھا گئی تھی۔ وہ جب انہیں سڑک سے گزرتے دیکھتا تو کھیل کود چھوڑ کر ادب سے سلام کرتا۔ جواباً وہ شفقت آمیز گرم جوشی سے قدرے بلند آہنگ میں، الفاظ کو کھینچ کر ’’بیٹا وعلیکم اسلام‘‘ کہتے۔ اکثر وہ اس سے ہاتھ بھی ملاتے۔ وہ ایک شفیق اور مہربان انسان تھے۔ افسرانہ اکڑفوں ان میں نام کو نہیں تھی۔ پپو حسرت سے سوچتا۔ کاش! پلیٹئر صاحب ہی اس کے ابو ہوتے۔
اپنا لڑاکو اور ہتھ چھٹ ابا اسے قطعاً پسند نہیں تھا۔ وہ بیوی اور بچوں سے نہایت درشتی سے پیش آتا اور ذرا سی بات پر تھپڑ جڑ دیتا۔ نرمی اور گداز پن اسے چھو کر نہیں گزرا تھا۔ جب سے اس نے ایک متشدد مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی، گھر والوں پر ایک نئی قسم کا قہر ٹوٹنے لگا تھا۔ یہ غلط ہے، وہ ممنوع ہے، یہ حرام ہے، وہ ناجائز ہے۔ گھر میں ہر وقت یہی لیکچر چلا کرتا۔ بیوی شاہ پور کے ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ دبی زبان میں شریعت میں دی گئی آسانیوں اور رخصتوں کا ذکر کرتی تو اسے بُری طرح جھڑک دیتا۔ زور دے کر کہتا کہ شریعت میں کوئی چیز غلط ہوتی ہے یا صحیح۔ درمیانی راستہ کوئی نہیں ہوتا۔ اٹھتے بیٹھتے اسے یاد دلاتا کہ وہ غیرت مند نیازی گھرانے میں بیاہی ہوئی ہے جس کی عورتیں آواز کا بھی پردہ کرتی ہیں۔ انہیں بخار چڑھے تو مرد ڈاکٹر کو اپنی نبض پر ہاتھ رکھنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ کالا فیشنی برقعہ پہننا نری بے غیرتی ہے۔ اصل پردہ ٹوپی والاسفید برقعہ ہے۔ لیکن خبردار! اس پر بھی کوئی بیل، بوٹا یا گل کاری نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ سب مردوں کو لبھانے کے حیلے ہیں۔ ویسے جب کپڑا، لتہ اور جوتی گھر بیٹھے مل رہی ہو تو عورت کو گھر سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
دو کمروں کے چھوٹے سے کوارٹر میں بیوی عملاً ایک قیدی کی سی زندگی بسر کر رہی تھی۔ قیدیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اس کے سرے سے کوئی حقوق نہیں تھے۔ حق زوجیت البتہ وہ باقاعدگی سے ادا کرتا۔ قدرت اس فرض شناسی پر ہر سال مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے اسے ایک اور فرزند بطور انعام عطا کر دیتی۔ پپو کو ملا کر سات بیٹے کوارٹر کی رونق بڑھا رہے تھے۔ سوائے پپو کے، سب کے سب باپ کی ڈٹو کاپی تھے۔
عید کی آمد آمد تھی۔ پانچوں بڑے بچے ساتھ لئے وہ جوتوں کی دکان پر گیا۔ دکاندار سے اچھی بھلی شناسائی تھی۔ وہ جوتے پہناتے ہوئے سادگی اور بھولپن میں یہ کہہ بیٹھا کہ نیازی صاحب! باقی بچے تو ہو بہو آپ کی تصویر ہیں۔ مگر یہ بچہ (پپو) آپ پر نہیں ہے۔ اپنی ماں پر گیا ہو گا؟ یہ سننا تھا کہ موصوف کا پارہ چڑھ گیا۔ حالتِ غضب میں اسے فرش پر پٹخا اور سینے پر چڑھ کر گلا دبوچ لیا۔
’’سچ سچ بتا بے غیرت انسان! تم نے اس کی ماں کو کب اور کہاں دیکھا ہے؟‘‘
اپنے مخصوص علاقائی اور سماجی پسِ منظر کی بدولت بہت انا پرست واقع ہوا تھا۔ وہ بغیر مطلب کے کسی سے سلام بھی نہیں لیتا تھا۔ ایک دفعہ ٹرین پر سفر کرنا مقصود تھا۔ گاڑی کے قریب پلیٹ فارم پر ایس۔ ٹی۔ ای (اسپیشل ٹکٹ ایگزیمینر) کو کھڑے دیکھا تو اس کے پاس چلا گیا۔
’’اسلام علیکم۔ باؤ ایس گڈی نال تُو ہیں؟‘‘ (باؤ صاحب! اس گاڑی کے ساتھ آپ ہیں؟ )
جب اس نے نفی میں جواب دیا تو تاسف سے بولا:
’’وت میں تن ہنجے پیا سلام کریناں!‘‘ (پھر میں تجھے بلا وجہ سلام کر رہا ہوں!)
ٹرین پر چڑھا تو ایک ہی سیٹ خالی نظر آئی۔ اس پر کسی مسافر کا رو مال پڑا تھا۔ اسے ہٹا کر بیٹھنے لگا تو ساتھ والے مسافر نے کہا:
’’جناب! یہاں بندہ بیٹھا ہوا ہے۔‘‘
’’تا میں بندہ ناں؟‘‘ اسے گھورتے ہوئے الٹا سوال کر دیا۔
وہ بے چارہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
ہر شخص اس سے کنی کتراتا۔ گھر میں داخل ہوتا تو بچے اِدھر اُدھر چھپ جاتے۔ پپو گھر کے ماحول سے اس قدر بددل تھا کہ زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزار دیتا۔
کوارٹروں سے تھوڑے فاصلے پر ریلوے کے افسروں کی کوٹھیاں تھیں۔ پلیٹئر صاحب اپنی فیملی کے ساتھ وہیں مقیم تھے۔ درختوں، پھولوں، پنجروں اور جھولوں سے سجی ان کی خوبصورت کوٹھی اسے جنت سے کم نہ لگتی۔ وہ شیری کے ساتھ اس کے سبزہ زاروں میں کھیلتا۔ کھانے کے لئے اسے اچھی اچھی چیزیں مل جاتیں۔ شیری کی دونوں باجیاں اس سے بہت پیار کرتیں۔ شیری کی امی بھی محبت سے پیش آتیں۔ اس کی دادی جان سے وہ مزیدار کہانیاں سنتا۔ کوٹھی کے سبھی مکین اس کی نظروں میں طلسم ہو شربا کی کہانیوں کے جادوئی کردار تھے۔ ہر ایک کا اپنا منفرد شوق تھا۔ پلیٹئر صاحب نے پنجروں میں طرح طرح کے خوبصورت پرندے پال رکھے تھے۔ ایک بڑے تالاب میں بطخیں، راج ہنس اور پیلیکان تیرتے رہتے۔ ان کی ایک پالتو کتیا بھی تھی جس کا نام ایلس تھا۔ روسی نسل کی لمبے سفید بالوں والی کتیا حیرت انگیز کرتب دکھاتی تھی۔ پھینکا ہوا گیند بھاگ کر اُٹھا لانا، جمپ لگا کر رِنگ کے اندر سے گزر جانا، ناک پر رکھا ہوا روٹی کا ٹکڑا اوپر کو اچھالنا اور چٹاخ کی آواز سے منہ میں پکڑ لینا، کرسی پر انسان کی طرح بیٹھ جانا۔ بڑی نجمی باجی کی ایک بہت پیاری سیامی بلی تھی۔ اس کا رنگ سلور گرے اور آنکھیں پیلی تھیں جن کے گرد کالے ڈورے غضب ڈھاتے۔ اس کا نام سونو تھا۔ وہ سبز ساٹن کے جھالر دار غلاف والی ٹوکری میں آرام دہ گدیلوں پر سوئی رہتی یا نجمہ باجی کے پاؤں میں لوٹتی نظر آتی۔ نجمہ باجی مصورہ بھی تھیں۔ ڈرائنگ روم، بیڈ روم اور کوٹھی کے برآمدوں میں جگہ جگہ ان کی بنائی ہوئی تصویریں آویزاں تھیں۔ جب وہ لان میں رکھے ایزل پر کینوس چڑھائے رنگوں اور برشوں سے کوئی پینٹنگ بنانے میں مشغول ہوتیں تو وہ پاس کھڑا ہو کر بڑے غور سے سارے عمل کا جائزہ لیتا۔ انہیں دیکھ دیکھ کر وہ بھی تصویریں بنانا سیکھ گیا تھا۔ صلاحیت تو اس میں پہلے سے تھی۔ کوارٹروں کی دیواروں پر کوئلے اور چاک سے تصویریں بنایا کرتا۔ باجی نے حوصلہ افزائی کی تو اس میں نکھار پیدا ہو گیا۔ ایک روز اس نے باجی کو بہت اچھی تصویر بنا کر دکھائی تو انہوں نے شاباش دی اور انعام میں رنگوں کی ڈبیا اور پنسلیں دیں۔ وہ چہکتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور ماں کو دکھائیں۔ وہ خوش تو ہوئی مگر اسے منع کیا کہ باپ کو ہرگز نہ دکھائے۔ وہ تصویر کشی کے سخت خلاف تھا۔
چھوٹی سلمیٰ باجی کو موسیقی سے لگاؤ تھا۔ وہ سارادن ڈیک پر گانے سنا کرتی۔ وہ ستار بجانا بھی سیکھ رہی تھی۔ آبنوسی رنگت کا ایک ادھیڑ عمر استاد ہفتے میں تین بار سبق دینے آتا۔ لان میں بچھے تخت پوش پر ستار کندھے سے لگائے، غلافی آنکھیں موندے، اپنی مخروطی انگلیوں سے تاریں چھیڑتی ہوئیں سلمیٰ باجی پپو کو بہت پیاری لگتیں۔ ایک دفعہ اس نے یونہی گھر میں کہہ دیا کہ وہ سلمیٰ باجی سے ستار بجانا سیکھ رہا ہے۔ اس پر ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’بھوتنی دا! اب یہ میراثی بنے گا۔‘‘ باپ پپو کی ماں سے مخاطب ہوا ’’اس کا قصور نہیں۔ جب شکل نانکوں پر ہے تو کام بھی انہی جیسے کرے گا۔ کہلاتے تم لوگ بھی نیازی ہو مگر مجھے یقین ہے کہیں نہ کہیں پیوند کاری ضرور ہوئی ہے۔۔۔۔‘‘
بیوی کا چہرہ غیرت سے سُرخ ہو گیا۔ کہنے لگی:
’’وہ لوک فنکار جس کی کیسٹیں تم بڑے شوق سے سنتے تھے، تمہارا رشتہ دار ہے میرا نہیں۔ تم نے ایک بار مجھے خود بتایا تھا!‘‘
’’وہ تو میں نے یونہی کہا تھا۔ ٹہور بنانے کے لئے۔‘‘ وہ کھسیانا ہو گیا ’’خیر چھوڑو۔ وہ میرا زمانۂ جاہلیت تھا۔ تم اس اُلو کے پٹھے کو سمجھاؤ کہ موسیقی ہمارے مذہب میں حرام ہے۔‘‘
’’اچھا! جن ولیوں اور صوفیوں نے قوالی ایجاد کی، اسے دین کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا، انہوں نے حرام فعل کیا؟ بتاؤ اللہ نے اپنے پیغمبر حضرت داؤدؑ کو سریلی آواز کیوں عطا کی تھی۔۔؟‘‘
’’بس بس! زیادہ بقراطیاں نہ جھاڑ۔ یہ دین شریعت کے معاملے ہیں جو تیری عقل میں نہیں آ سکتے۔ بجائے اُسے سمجھانے کے فضول بحث کر رہی ہے‘‘۔
’’چلو میں ہی فضول بحث کر رہی ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جو بات تم خود پینتیس سال میں سمجھے، وہ اس معصوم کو آٹھ سال کی عمر میں سمجھانا چاہتے ہو؟‘‘
جب اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو وہ پپو کو جھاڑنے لگا۔
’’مت جایا کر، ان دوزخیوں کی کوٹھی میں۔ وہ خود تو گمراہ ہیں، تمہیں بھی کر دیں گے۔ کان کھول کر سن لے، دوبارہ اُدھر گیا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘
پپو جانتا تھا کہ باپ یونہی بولتا رہتا ہے۔ اس نے اس کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے اُڑا دی۔
پلیٹئر صاحب کی کتیا پورے دنوں پر آئی تھی۔ اس لئے اس کی خوب خدمت ہو رہی تھی۔ کوٹھی کے پچھواڑے ڈربے میں فورسڈ ریسٹ (Forced Rest) پر تھی۔ اس کے چیک اَپ کیلئے ایک نوجوان ویٹنری ڈاکٹر باقاعدگی سے آتا تھا۔ چند روز بعد اس نے چھ بچوں کو جنم دیا۔ ماں کے وجود سے لپٹے تھنوں سے لپر لپر دودھ پی رہے تھے۔ کچھ ہی عرصے میں بڑے ہو گئے اور لان میں دوڑنے لگے۔ ان کے جسم پر پشم جیسے سفید لمبے بال اُگ آئے۔ جب پلیٹئر صاحب ان پلوں کو دوست احباب میں بانٹنے لگے تو پپو نے بھی ایک پلے کی فرمائش کر دی۔ پلیٹئر صاحب نے اسے دے دیا۔
چونکہ پپو نے دادی جان سے اصحاب کہف کا قصہ سُن رکھا تھا اس لئے اُس نے کُتے کا نام قطمیر رکھ دیا۔ وہ اسے کاندھے پر اُٹھائے اُٹھائے پھرتا۔ اپنے ہاتھ سے اُسے دودھ پلاتا اور اس سے بہت پیار کرتا۔
اس کا باپ ایک ماہ کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے والٹن چلا گیا تھا۔ جب وہ لوٹا تو اُس نے صحن کے کونے میں مٹی اور اینٹوں سے بنا کھُڈا دیکھا۔ اس میں ایک پلا سو رہا تھا۔۔
’’یہ کتورا گھر میں کون لایا ہے؟‘‘اُس نے درشت لہجے میں سوال کیا
’’پپو کو پلیٹئر صاحب نے دیا ہے۔‘‘ بیوی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
’’کدھر ہے وہ خبیث؟‘‘
’’ذرا باہر نکلا ہے‘‘۔
’’تم نے اسے یہ نجس جانور رکھنے کی اجازت کیوں دی؟ جانتی نہیں ہو جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔‘‘
’’رحمت کا فرشتہ تو پہلے بھی اس گھر میں کبھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ بُڑبڑائی۔ پھر کسی موہوم امید پر لجاجت آمیز لہجے میں کہنے لگی:
’’پپو دے پیو! کبھی تو بچوں کا دل رکھنے کے لئے تھوڑی سی نرمی دکھا دیا کرو۔ دین میں بڑی گنجائش ہے۔ شکار اور رکھوالی کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہے‘‘
’’تم اپنی بک بک بند کرو۔ یہاں کونسا خزانہ ہے جس کی رکھوالی کرے گا۔‘‘
وہ اسے جھاڑ پلا کر بڑے بیٹے کی طرف مڑا ’’طاہری! یہ کتا غائب کر دو۔ دو منٹ کے اندر۔ دوبارہ مجھے یہ پلید یہاں نظر نہ آئے۔‘‘
پھر اسے قریب بلا کر کان میں کچھ کہا۔ اس نے سعادت مندی سے سر ہلایا اور پلے کو اُٹھا کر کوارٹر سے باہر نکل گیا۔
کتا کل سے غائب تھا۔ پپو اسے دیوانوں کی طرح تلاش کر رہا تھا۔ کل سے اُس نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ آج صبح جب وہ اسکول جانے سے بھی انکاری ہو گیا تو باپ بپھر گیا۔ اس کے منہ پر ایک زناٹے کا تھپڑ مار کر اُسے اسکول کے راستے پر چھوڑا اور خود بکتا جھکتا ڈیوٹی پر چلا گیا۔
مشرقی سمت سے اسٹیشن کی حدود میں ایک ایکسپریس ٹرین داخل ہو رہی تھی۔ پلیٹ فارم پر ایک عجیب سی افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ بھاگتے ہوئے قلی، بولائے ہوئے خوانچہ فروش، گھبرائے ہوئے مسافر۔ مرد، عورتیں اور بچے۔ پُل کے اوپر بھی لوگوں کی آمد و رفت بڑھ گئی تھی۔
پڑوسیوں کا بچہ ٹیڈی ادھر سے گزرا تو پپو کو دیکھ کر رُک گیا:
’’میں بتاؤں تمہارے ابے نے کتا کدھر کیا ہے؟ مال گاڑی کے ڈبے میں ڈلوایا ہے جو کراچی جا رہی تھی!‘‘ اس نے پپو پر جیسے کوئی بم گرا دیا۔
’’جھوٹ مت بولو‘‘ پپو نے بے یقینی سے کہا
’’سچ کہہ رہا ہوں۔ اللہ کی قسم۔ قرآن کی قسم!‘‘
یہ سن کر پپو نے اسٹیشن کی طرف دوڑ لگا دی۔ دو منٹ بعد وہ اس پلیٹ فارم پر تھا جہاں کراچی جانے والی ایکسپریس ٹرین کھڑی تھی۔
اب پپو کا باپ مدت سے عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر بیٹھا دھاڑیں مار مار کر ایک ہی دُعا مانگتا ہے:
’’میکو ہک واری مینڈا پپو ملاؤ ہا۔ میں اُس کوں داہ کتے گھن دیساں!‘‘
(مجھے ایک بار میرے پپو سے ملا دو۔ میں اسے دس کتے لے دوں گا) –
٭٭٭

مس چودھری

میں اس قدر ذہنی تناؤ کا شکار تھی کہ لگتا تھا میرا برین ہیمبرج ہو جائے گا۔ رو رو کر دُعائیں مانگتی کہ میرا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔ یا کوئی ایسا بندہ قصبے میں وارد ہو جو بدمعاش مچھل کو نکیل ڈال سکے۔ اس نے ہمارا جینا حرام کر رکھا تھا۔
میں، مس نائلہ اور مس صدف دوسرے شہروں سے تعلق رکھتی تھیں۔ روزانہ سفر کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے ہم نے اسکول کے پچھواڑے دو کمروں کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ وہ بدمعاش ہماری گلی ہی میں رہتا تھا۔ اسکول جاتے ہوئے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتیں تو خون خشک ہونے لگتا۔ اس سے سبھی ڈرتے تھے۔ دیکھنے میں خاصا ڈراؤنا سا تھا۔ لمبا تڑنگا، کالا سا۔ حبشیوں جیسے نقوش، موٹی موٹی سُرخ ڈوروں والی آنکھیں جیسے کسی مشتعل بیل سے مستعار لے کر چہرے پر فٹ کر لی ہوں۔ اس نے یہ بڑی بڑی مونچھیں پال رکھی تھیں جنہیں ہر وقت بل دیتا رہتا۔ نام عبدالمجید تھا مگر گل مچھوں کی بنا پر اسے سب مچھل کہتے تھے۔ عمر پینتیس چھتیس سال ہو گی۔ گھر میں اس کی اچھی بھلی قبول صورت بیوی تھی اور تین کم سن بچے۔ جوان بیوہ بہن اور والدین ساتھ رہتے تھے۔ ہائشی مکان کے علاوہ اس سے متصل دو دوکانیں اس کی ذاتی ملکیت تھیں۔ گویا شرافت کی زندگی گزارنے کے جملہ اسباب موجود تھے مگر بدبخت شریفوں کی روش پر چلنے اور کوئی حلال ذریعۂ رزق اپنانے پر آمادہ نہیں تھا۔ منشیات، ناجائز اسلحہ اور جعلی کرنسی کا دھندا کرتا تھا۔ اس کاروبار کے سلسلے میں مہینے میں پندرہ بیس دن پشاور اور قبائلی علاقے میں گزارتا۔ جب گھر آیا ہوتا تو زیادہ وقت دکانوں کے اوپر چوبارے پر دکھائی دیتا جس کا رُخ ہمارے اسکول کی جانب تھا۔ اسے اس نے بالا خانہ بنا رکھا تھا۔ گھر کے کسی فرد کو چوبارے پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
ہمارے اسکول کی عمارت نہایت خستہ حال تھی۔ خاص طور پر سردیوں میں چھوٹی کلاسوں کی بچیوں کو سین زدہ کمروں میں بٹھانا صریحاً ظلم لگتا۔ باہر دھُوپ میں ان کی کلاس لیتے ہوئے میں حتی الوسع کوشش کرتی کہ اوپر چوبارے کی طرف نگاہ نہ اُٹھاؤں۔ لیکن بھولے سے بھی نگاہ اُٹھ جاتی تو وہ نامراد کوئی فحش اشارہ کر دیتا۔ پہلے پہل میں نے یہی سمجھا کہ فقط میں ہی اُس کی بے ہودگی کا نشانہ بنتی ہوں۔ مگر جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بھی سامنے آ جائے وہ خبیث معاف نہیں کرتا۔ جا بجا خارش کرتا ہے اور معنی خیز حرکات سے بیمار ذہن کی گندگی اچھالنے لگتا ہے۔ باہمی مشورے کے بعد ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ باہر اکٹھی کلاسیں لگائیں گی اور دوبارہ اس نے کوئی بے ہودہ اشارہ کیا تو خاموش نہیں رہیں گی۔
ایک دن جب ہم تینوں نے پہلی، دوسری اور تیسری جماعت باہر صحن میں لگا رکھی تھی، وہ بدمست انسان دھوتی بنیان میں نمودار ہوا اور فحش حرکتیں شروع کر دیں۔ ہم نے تینوں جماعتوں کی بچیوں کو اندر بھیج دیا اور خود چار دیواری کے قریب چلی گئیں۔ وہاں سے ہمارا اور اس کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ پچاس فٹ ہو گا۔ میں نے اُونچی آواز میں اُسے مخاطب کیا: ’’کچھ شرم کرو۔ تمہارے گھر میں ماں، بہن نہیں ہے؟‘‘
بڑی بے ہودگی سے ہنستے ہوئے بولا:
’’بالکل ہیں۔ مگر وہ گھر پر ہی رہتی ہیں۔ دو ٹکے کی نوکری کے لیے باہر ماری ماری نہیں پھرتیں۔ تمہیں مہینے کی جتنی تنخواہ ملتی ہے اس سے ڈبل مجھ سے لے لیا کرو اور مہینے میں بس ایک دو مرتبہ میرے چوبارے پر۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کر۔ لعنتی۔ کتے!‘‘
میں نے چِلّا کر کہا اور اپنی جوتی اُتار کر تلوا دکھا دیا۔ مس نائلہ اور صدف نے بھی میری پیروی کی۔ ہمارا خیال تھا کہ جوتیاں دکھانے پر غیرت کھائے گا اور پسپائی اختیار کرے گا۔ مگر اس بے شرم شخص نے یک لخت انسان سے حیوان کا رُوپ دھار لیا۔
ہماری تو چیخیں نکل گئیں۔ دوڑتی ہوئی ہیڈ مسٹریس کے کمرے میں پہنچیں اور رو رو کر رُوداد سنائی کہ کیسے شیطنت کو بے لباس ہوتے دیکھا ہے۔ میڈم نے اُٹھ کر دفتر کا دروازہ بھیڑ دیا۔ شیلف سے جگ گلاس اُٹھا کر اپنے ہاتھ سے باری باری ہمیں پانی پلایا۔ پھر یاس انگیز لہجے میں کہنے لگیں:
’’کیا بتاؤں۔ تم سے پہلے میں خود سب کچھ بھگت چکی ہوں۔ میرے ابا جی نے تھانے جا کر رپورٹ کی تو ایس ایچ او نے کہا: ’بزرگو! اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ شریف لوگ بدمعاشوں کے منہ نہیں لگتے۔ بیٹی سے کہیں اپنے منہ دھیان نوکری کرے۔ رپورٹ درج کروانے کی ضد کریں گے تو میں ابھی منشی کو حکم دیتا ہوں، لیکن بعد میں بھگتنا آپ ہی نے ہے۔ مچھل جیسے لوگوں کے ہاتھ بڑے لمبے ہوتے ہیں۔ ہم آپ کی بیٹی کے لیے چوکی تو نہیں بٹھا سکتے۔ آگے آپ سیانے بیانے ہیں۔‘‘
میں نے اباجی کو روتے دیکھا تو میرا کلیجہ پھٹ گیا۔ دل میں فیصلہ کر لیا کہ پنی آگ میں خود ہی جلنا ہے۔ دم سادھے اس دنیا میں دوزخ کا سا عذاب سہہ رہی ہوں۔ خاوند مفلوج ہو کر چارپائی پر پڑا ہے۔ چار کم سن بچوں کی کفالت کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ اس معاشرے میں شریف انسان کی رتی بھر وقعت نہیں۔ کبھی تو ایمان ہی متزلزل ہونے لگتا ہے۔ کیا ہمیں تا ابد غنڈوں، بدمعاشوں اور زور آوروں کے رحم و کرم پر ہی جینا ہے؟ مجھے پتا ہے سٹاف نے میرے نام ڈال رکھے ہیں۔ سڑیل، بھیڑی بوتھی اور میڈم قبضی۔ مگر کیا کروں۔ میں اس حرام زادے کا بگاڑ ہی کیا سکتی ہوں۔ تم بھی نظریں نیچی کر کے نوکری کرو۔ دل کو سمجھا لو کہ مچھل ایک ذہنی مریض ہے۔ شکر کرو چند روز کے لیے آتا ہے اور دفع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ صرف استانیوں ہی کو چھیڑتا ہے۔ لڑکیوں کے سامنے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرتا۔ ورنہ اب تک شہر میں فساد برپا ہو جاتا اور ہمارے خواہ مخواہ کے بکھیڑے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ سکینڈل بن جاتے۔‘‘
میڈم نے اپنی بے بسی کا رونا رو کر ہمیں وقتی طور پر لاجواب کر دیا۔
یہی دن تھے جب مس چودھری کا تبادلہ گجرات سے ہمارے اسکول میں ہوا۔ وہ استانی عمر میں ہم سے دو چار سال ہی بڑی ہو گی۔ اونچی لمبی، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں والی قبول صوت اور بڑی سی جی دار لڑکی تھی۔ بلکہ اسے عورت کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ویسے نسوانیت سے زیادہ اس کی شخصیت سے ایک مہربان مرد کی سی وجاہت جھلکتی تھی۔ اس نے رُخصتی سے پہلے ہی طلاق لے لی تھی۔ اس کا آوارہ مزاج چچا زاد جس سے بی اے کے نتائج آنے سے پہلے نکاح ہوا تھا، کسی بد چلن عورت کے ساتھ ملوث پایا گیا تو مس چودھری سیخ پا ہو گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ شریعت کے مطابق ازدواجی زندگی گزارنے کی ضرورت تو با کردار لوگوں کو ہوتی ہے۔ بدکردار انسان سے نکاح جیسا مقدس بندھن باندھنا اسے کیموفلاج کی سہولت مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ مس چودھری نے بغاوت کی تو مرد کی غیرت جاگ اُٹھی۔ اپنے تئیں باور کر لیا کہ عورت ذات ہی تو ہے اور پھر نکاح کا شرعی اور قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ کسی نہ کسی طرح جوہر مردانگی سے اس اتھری گھوڑی کی اَکڑ توڑ دی جائے تو تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ خاندان میں کسی بزرگ کا ماتم ہوا تو موقع پا کر حضرتِ مرد گھر میں گھس آئے۔ رُخصتی کا تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے شبِ زفاف منانے پر تُلے تو منکوحہ سے سر پھڑوا بیٹھے۔ بھلا ہو برادری والوں کا، جنہوں نے اس بدمعاش کا ساتھ نہیں دیا بلکہ تھپڑ جوتے مار کر طلاق لکھوا لی۔
یہ قصہ زندہ دل اور بے تکلف مس چودھری نے خوب مرچ مصالحہ لگا کر ہمیں خود سنایا تھا۔ وہ بھی ہم تینوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہنے لگی تھی۔ اس کی آمد سے پہلے ہم ایک طرح سے قیدیوں کی سی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی کنڈیاں تالے لگا لیتیں مگر پھر خواہ مخواہ لرزتی رہتیں۔ وہ آئی تو ہماری ہمت بندھ گئی اور ہمیں بھی ہنسنا کھیلنا یاد آ گیا۔ اسکول میں غیر نصابی سرگرمیوں کا آعاز بھی اُسی کے دم سے ہوا۔ بزمِ ادب، تقریری مقابلے، پی ٹی اور چھٹی کے بعد بیڈ منٹن کھیلی جاتی جس میں ہم جیسی استانیاں جو عیال داری کے جھن جھٹوں سے آزاد تھیں، اور کچھ بڑی کلاسوں کی لڑکیاں حصہ لیتیں۔ مس چودھری کمر سے دوپٹہ باندھ کر جوش و خروش سے بیڈ منٹن کھیلتی اور کھیل کے دوران بے ساختہ داد، جوشیلے نعرے اور پُر لطف جملے اُچھالتی تو کملائے ہوئے چہرے بھی کھِل اُٹھتے۔ اس نے آتے ہی اسکول کی یاس زدہ فضا کو محسوس کر لیا تھا۔ اس کے استفسار پر ہم نے اپنے اوپر بیتنے والی ہر بات بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ اس نے سب کچھ نہایت سکون سے سنا۔ پھر کچھ سوچ کر مسکرائی:
’’ہم ایک بدکردار اور بے اصل شخص کے خوف سے اپنی زندگیاں کیوں غارت کریں؟ خوش رہا کرو۔ کچھ وقت دو۔ ہو سکتا ہے کچھ بندوبست ہو جائے۔‘‘
اس کی آمد تو خوش گوار ہوا کا جھونکا تھا ہی، ان دنوں قسمت بھی ہم پر کچھ مہربان سی لگتی تھی۔ اُڑتی ہوئی خبر سننے کو ملی کہ مچھل پشاور میں پابند سلاسل ہو گیا ہے۔ یہ مژدہ سن کر اسکول کی فضا پر چھائی ہوئی رہی سہی اُداسی بھی چھٹنے لگی او ہمارے چہروں کی رونق پوری طرح بحال ہو گئی۔
سالانہ امتحانات ہوئے تو ہمارے اسکول کے نتائج غیر متوقع طور پر بہت اچھے آئے۔ ہمیں یقین ہونے لگا کہ ہم بھی زندہ ہیں۔
مس چودھری ڈیل ڈول کے اعتبار ہی سے پنجاب کی جٹی نہیں تھی بلکہ وہ روحانی طور پر بھی بڑی مضبوط تھی۔ ان تھک اور خوش باش۔ جس لڑکی کا دل چاہتا اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہو جاتی۔ جس طالبہ کو کسی مضمون میں اضافی توجہ کی ضرورت ہوتی، وہ مس چودھری کو مدد کے لیے ہر دم آمادہ پاتی۔ سبھی لڑکیاں اس کی طرف کھنچی چلی جاتی تھیں۔ ہماری رہائش گاہ پر بھی پڑھنے کے لیے آ جایا کرتیں۔ کیا سکول اور کیا گھر ہر جگہ رونق لگی رہتی۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے ایک قابلِ بھروسہ سرپرست ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اسکول کی ہیروئن بن چکی تھی۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر داخلے اور باقاعدہ پڑھائی شروع ہوئی تو مس چودھری نے پہلی جماعت کا چارج رضاکارانہ طور پر لے لیا۔ وہ چھوٹی بچیوں کے ساتھ یوں پیش آتی جیسے ان کی ماں ہو۔ بچیاں اس کی صحبت میں خوش رہتیں۔ ذرا بھی اکتاہٹ محسوس کرتیں تو وہ انہیں صحن میں لے جا کر کھیل کود میں لگا دیتی۔ شازیہ نام کی ایک پھول سی بچی کو وہ ہر وقت ساتھ لگائے رکھتی تھی۔ کلاس روم میں بھی اپنے پاس بٹھائے رکھتی۔ ایک دو مواقع پر مجھے خیال بھی آیا کہ اس کے بارے میں پوچھوں لیکن پھر یہ سوچ کر رُک گئی کہ پہلی سے آخری کلاس تک، ہر بچی کے ساتھ اس کا برتاؤ مشفقانہ ہی تو ہے۔ ایسے میں اس بچی کے بارے میں متجسس ہونے کا کیا جواز ہے؟
ایک روز صبح ہم نے چوبارے پر چارپائی بچھی ہوئی دیکھی تو ہول اُٹھے لگا کہ وہ شیطان جیل سے چھوٹ کر واپس نہ آ گیا ہو۔ گھر والوں کا تو یوں بھی چوبارے پر داخلہ ممنوع تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کئی بار نگاہیں اوپر اُٹھیں۔ غور سے دیوار کے خانوں میں سے دیکھا تو چارپائی پر لمبا تڑنگا بندہ سویا ہوا نظر آیا۔ کھلے در سے صرف چارپائی کی پائنتی اور سوئے ہوئے شخص کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ مچھل ہی ہے۔ مس چودھری کو بتایا تو وہ ایسے کھِل اُٹھی جیسے کوئی سگا رشتے دار عرصے بعد ملنے آ گیا ہو۔
اس روز صحن میں بیٹھنے کے لیے موسم ساز گار نہیں تھا۔ اس لیے کلاسیں کمروں میں لگی ہوئی تھیں۔ ہم اپنے اپنے کلاس روم میں چلی گئیں۔ میری میز دروازے کے سامنے تختۂ سیاہ کے آگے رکھی تھی۔ وہاں سے چوبارہ واضح دکھائی دیتا تھا۔ میں نے دائیں جانب گردن گھمائی تو کیا دیکھتی ہوں کہ مس چودھری نے چوبارے کے بالکل قریب دیوار کے ساتھ پہلی جماعت کی کچھ بچیوں کو کھڑا کر رکھا ہے اور انہیں اُونچی آواز میں سبق یاد کروا رہی ہے۔ میں اسے واضح طور پر سن سکتی تھی۔
’’جب تک ایک سے پچاس تک گنتی یاد نہیں ہو جاتی، آج کسی کو بھی چھٹی نہیں ملے گی۔‘‘
بچیاں سائے میں تھیں۔ جبکہ وہ چوبارے کی جانب رُخ کیے دھُوپ میں کھڑی تھی۔ ایک تو اس کا جسم ویسے ہی تنومند اور پُر کشش تھا۔ پانچ فٹ نو انچ قد۔ چوڑا بھرپور سینہ، اور بھرے بھرے کولہے۔ اس پر جب وہ کمر کے گرد کس کر دوپٹہ باندھ لیتی تو قیامت ڈھانے لگتی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آواز سن کر چار پائی پر سویا ہوا شخص اُٹھ بیٹھا ہے۔ لمحہ بھر بعد وہ دھوتی اڑستا ہوا کھلے در کے سامنے آیا۔ مس چودھری کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ اُبھری اور وہ جھانگوں میں خارش کرنے لگا۔ مس چودھری نے اوٹ میں کھڑی بچیوں کو اباؤٹ ٹرن ہونے کا کاشن دیا۔ جونہی انہوں نے
دیوار کی طرف رُخ کر کے زور زور سے گنتی دہرانی شروع کی، مس چودھری نے آگے بڑھ کر ایک بچی کو بائیں ہاتھ کی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے اٹھائے ہوئے وہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹی اور اپنے دائیں پیر کی جوتی اتار کر تلوے کا رُخ مچھل کی طرف کر دیا۔ میری سانس حلق میں اٹکنے لگا۔ میں اضطراری حالت میں لپک کر دروازے میں آ گئی۔ جیسا کہ توقع تھی، اس پلید انسان نے پھر وہی شرم ناک حرکت کی۔ جونہی وہ بے ستر ہوا، مس چودھری نے بچی کو اُٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا۔ یہ وہی شازیہ نامی بچی تھی جسے وہ ہر وقت انگلی سے لگائے پھرتی تھی۔ وہ معصوم تو غالباً اپنی اچانک اکھاڑ پچھاڑ میں اوپر نہیں دیکھ پائی تھی مگر جونہی مچھل کی نگاہ اس پر پڑی، وہ بجلی کی سی تیزی سے مڑا اور غائب ہو گیا۔
بعد میں عقدہ کھلا کہ شازیہ مچھل کی بیٹی ہے جسے مس چودھری نے بڑی رازدای سے اپنی ذاتی کاوشوں کے بل بوتے پر پہلی جماعت میں داخل کروایا تھا۔ مچھل کی طویل غیر حاضری کے دوران وہ کئی مرتبہ اس کے گھر گئی تھی اور اس کی بیوی اور ماں سے دوستی کر لی تھی!
اس واقعہ کے بعد ہمیں مچھل دوبارہ کبھی چوبارے پر دکھائی نہیں دیا۔
ہفتوں بعد جمعہ کے روز ہم چاروں اسکول سے قدرے لیٹ چھٹی کر کے گھر واپس جا رہی تھیں۔ بازار سے گزرتے ہوئے مسجد کے دروازے کے پاس ایک اونچا لمبا کالا سا آدمی کھڑا نظر آیا۔ سر پر نماز والی سفید ٹوپی، چھوٹی سی داڑھی، قینچی سے کتر کر باریک کی ہوئیں مونچھیں۔۔۔ ہم پر نگاہ پڑتے ہی وہ تیزی سے پلٹا اور مسجد میں گھس گیا
٭٭٭

لوٹ آؤ

لندن کے گنجان آباد علاقے میں واقع اس پاکستانی ریستوران کو دیکھتے ہی مجھے لکشمی چوک کا وہ ہوٹل اور اس کا بوڑھا مالک یاد آ گیا جس کے تکے کھلانے کے لئے عاطف بٹ مجھے بڑے اصرار سے لے گیا تھا۔
عاطف بٹ میرا دوست تھا۔ سال بھر پہلے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اتفاقاً اس سے ہیلو ہائے ہوئی تھی جو رفتہ رفتہ گہری دوستی میں ڈھل گئی۔ گذشتہ ماہ میں چھوٹی بہن فاطمہ کی شادی میں شرکت کے لئے وطن لوٹا تو اس سے ملاقات کرنے خصوصی طور پر لاہور گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ سارا دن اپنی گاڑی میں اِدھر اُدھر گھماتا رہا۔ شام ہوئی تو تکے کھلانے لکشمی چوک لے گیا۔
لاہور کے اس مشہور چوک میں جہاں فلم کمپنیوں کے دفاتر اور سینما گھر برساتی کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے ہیں، چھوٹے بڑیبے شمار ہوٹل ہیں جہاں چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، سیخ کباب، تکے، گردے کپورے، نہاری، حلیم اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے دستیاب ہیں۔ یہ ہوٹل کسی پہلوان کی توند کی مانند اپنی مقر رہ حدود سے تجاوز کر کے سڑک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لوگ گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں اور گرد و غبار سے بے نیاز، سڑک کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر شکم سیر ہوتے ہیں اور خدا جا نے بیمار کیوں نہیں ہوتے …
ہم جب وہاں پہنچے تو اندھیرا خاصا پھیل چکا تھا مگر برقی قمقموں کی روشنی نے اندھیرے کی بساط یوں لپیٹ ڈالی تھی جیسے ہمارے ملک میں جمہوریت کا بستر گول کیا جاتا ہے۔ عاطف بٹ نے ایک سینما کے پہلو میں گاڑی روکی اور قریبی ہوٹل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
’’لو چن جی۔ یہ ہے وہ ہوٹل جس کے تکے پورے لہور میں مشہور ہیں۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ ایسے لذیذ تکے تم نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھائے ہوں گے۔‘‘
’’یار یہاں تو بڑا رش ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملے گی۔‘‘
’’او چن جی! فکر کیوں کرتے ہو۔ مالک اپنا واقف کار ہے۔ تم بیٹھو میں تِنی مِنٹی میز خالی کرواتا ہوں۔‘‘
وہ گاڑی سے اُتر کر ہوٹل میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سڑک کنارے ایک میز ہمارے لئے خالی ہو چکا تھا۔ اس نے ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ آدمی سے میرا تعارف کروایا جو حلیے اور بات چیت سے ہوٹل کا مالک لگ رہا تھا۔
’’حاجی صاحب! یہ میرا دوست یعقوب ہے۔ مجھ سے ملنے لندن سے خاص طور پر آیا ہے۔‘‘
پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’یہ حاجی فاروق بٹ ہیں، اس ہوٹل کے مالک اور لہور کے سب سے بڑے کاریگر۔ ان کے مقابلے کے تکے پورے لہور بلکہ پاکستان میں بھی کوئی نہیں بنا سکتا۔‘‘
’’او رین دیو جی۔۔۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر عاجزانہ مسکراہٹ ابھری۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا:
’’باؤ جی بیٹھو، میں آپ کے لئے شپیشل تکے بنواتا ہوں۔ آخر آپ میرے تنویر کے شہر سے آئے ہیں۔‘‘
وہ اندر گیا تو میں نے عاطف سے پوچھا:
’’یہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
عاطف کے ہونٹوں پرافسردہ سی مسکراہٹ ابھری۔ کہنے لگا:
’’ بیچارے کا اکلوتا بیٹا تنویر لندن میں رہتا ہے۔ وہاں اس نے اسی قسم کا ہوٹل بنایا ہوا ہے۔ وہ باپ سے ناراض ہو کر سات آٹھ سال پہلے لندن چلا گیا تھا۔ آج تک واپس نہیں آیا۔‘‘
’’ناراضی کی کیا وجہ تھی۔۔۔؟‘‘
میں نے سلاد کی پلیٹ سے کھیرے کا قتلہ اُٹھا تے ہوئے پوچھا۔
’’وہ ایک میم سے شادی پر بضد تھا، مگر یہ راضی نہیں تھا۔ میم یہاں برطانوی قونصلیٹ میں کام کرتی تھی۔ چنانچہ اس نے باپ سے بالا بالا شادی کی اور میم کے ساتھ لندن چلا گیا۔‘‘
’’آئی سی۔۔۔‘‘
’’اب بیچارا اکلوتے بیٹے کے غم میں گھل رہا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں۔ وہ بیاہی ہوئی ہیں۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اوپر چوبارے میں اکیلا رہتا ہے۔‘‘
عاطف نے دوسری منزل کی طرف اشارہ کیا۔
ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ ویٹر تکے لے آیا۔ میں نے چکھے تو عاطف بٹ کے دعوے کی صداقت کا قائل ہونا پڑا۔
’’یار! اس کے تکے تو واقعی لاجواب ہیں!‘‘
’’چن جی! اس بندے کے ہاتھ میں جادو ہے۔ ایویں سارا لہور پاگل نہیں ہو
گیا۔‘‘ اس نے سر دھنتے ہوئے کہا۔
’’ہور باؤ جی! کوئی کمی بیشی تو نہیں؟‘‘
تھوڑی دیر بعد اس نے خود آ کر پوچھا۔ پھر مجھ سے کہا۔
’’باؤ جی! جانے سے پہلے ذرا مجھ سے مل کر جائیے گا۔‘‘
’’ضرور۔۔۔‘‘ میں نے عاطف کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
عاطف نے ویٹر سے بل طلب کیا تو معلوم ہوا کہ حاجی صاحب نے منع کیا ہے۔ ہمیں اٹھتے دیکھ کر وہ ہماری طرف آیا تو عاطف نے کہا۔
’’حاجی صاحب یہ زیادتی ہے۔۔۔‘‘
’’زیادتی کیسی۔ آپ کے دوست پہلی دفعہ آئے ہیں۔ یہ ہمارے مہمان ہیں۔‘‘ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’آپ نے نام کیا بتایا تھا۔ بیٹا جی۔؟‘‘
’’یعقوب۔۔۔‘‘
’’بیٹھو۔۔۔‘‘
اس نے ہمیں دوبارہ بیٹھنے کی دعوت دی۔ قدرے توقف کے بعد مجھ سے کہا:
’’باؤجی! آپ میرے بیٹے جیسے ہو۔ میرا تنویر آپ سے دو چار سال ہی بڑا ہو گا۔ وہ ایک میم سے شادی کرنا چاہتا تھا، جس پر میں راضی نہیں تھا۔ آپ خود لندن میں رہتے ہو۔ آپ کو خوب علم ہو گا کہ انگریز عورتیں اپنے بندے کے ساتھ کتنی کُو وفادار ہوتی ہیں۔ میں نے اسے منع کیا۔ تھوڑا غصہ بھی کر لیا۔ ایک آدھ چپیڑ بھی بندہ اولاد کو لگا ہی دیتا ہے۔ اس بات سے ناراض ہو گیا۔ باہر و بار میم سے شادی کی اور لندن چلا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ او خدا دا بندہ واپس نئیں جے آیا۔‘‘
اتنا کہہ کر اس کی سانس پھول گئی۔ اس نے چند لمبے اورگہرے سانس لئے اورسلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’بیٹا جی! آپ لندن میں رہتے ہو۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس سے جا کر ملیں اور اسے سمجھائیں کہ وہ ناراضی ختم کرے اور لہور واپس آ جائے۔ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ بیوی پہلے فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا اور بیمار ہوں۔ میرا جگر خراب ہو گیا ہے۔ میو ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے آپریشن کرانے کو کہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آپریشن جلدی نہ ہوا تو میری جان بھی جا سکتی ہے۔ بیٹا! اسے بولنا زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ بوڑھے باپ کو اور نہ ستائے۔ واپس آ جائے۔‘‘
وہ روہانسا ہو گیا۔
’’اسے کہنا میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔ مجھے اس کی گوری بیوی بھی قبول ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ سات آٹھ سال ٹپا گئی ہے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں کہ میمیں اپنے خاوندوں کی وفادار نہیں ہوتیں۔۔۔‘‘
اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے دوبارہ سانسیں استوار کیں اور جیب سے ایک کاغذ نکال کر مجھے دیتے ہوئے بولا:
’’میں نے اس رقعے میں اس کے لئے سب کچھ لکھ دیا ہے۔ آپ بس اسے یہ رقعہ دے دینا۔‘‘
وہ ایک تہہ کیا ہوا لکیر دار کاغذ تھا جسے ٹیپ لگا کر عجلت میں بند کیا گیا تھا۔ اس پر مکتوب الیہ کا پتا ندارد تھا۔
میں نے کہا:
’’بزرگو! آپ نے رقعے پر کوئی ایڈریس وغیرہ تو لکھا نہیں۔‘‘
’’بیٹا جی تنویر کا پتا تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ بس یہ علم ہے کہ اس نے وہاں لندن میں، جہاں پاکستانی اور انڈین رہتے ہیں، ایک ہوٹل بنایا ہوا ہے۔ کاریگر کا بیٹا کاریگر ہی ہوتا ہے نا جی۔‘‘
وہ مسکرایا۔
’’وہ بھی ادھر تکے کباب ہی بناتا ہے۔ سُنا ہے اس کے تکوں کی پورے لندن میں دھوم ہے۔ انگریز بھی آ کر کھاتے ہیں!‘‘
اس کے لہجے میں فخر جھلکنے لگا۔
’’ہوٹل کا نام بھی نہیں معلوم آپ کو؟‘‘
’’نہیں بیٹا جی۔‘‘
’’اس طرح تو ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
میں نے عاطف کی طرف دیکھا۔ اس نے میرا کندھا دبایا۔
’’تم کوشش کر دیکھنا۔ آگے اللہ مالک ہے۔‘‘
’’ہاں جی اللہ مسب الاسباب ہے!‘‘
حاجی صاحب نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بڑے سوز سے کہا۔
میں نے رقعہ اپنے بٹوے میں ڈال لیا اور ہم دونوں اجازت طلب کر کے وہاں سے اٹھ گئے۔
جب میں لندن واپس گیا تو کام کے بکھیڑوں میں مجھے یہ بات بھول ہی گئی۔ چند ہفتے بعد ایک ویک اینڈ پر میں کسی کام سے ساؤتھ لندن گیا تو بازار میں گھومتے ہوئے ایک پاکستانی ریستوران کے بورڈ پر میری نگاہ پڑی۔ یہ درمیانے درجے کا ایک صاف ستھرا ریستوران تھاجس کے نیون سائن پر جلی حروف میں ’’بٹ جی تکہ ہاؤس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بورڈ پڑھتے ہی میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور حاجی فاروق بٹ کا سراپا میری نظروں کے سامنے آ گیا۔ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا۔
’’باؤ جی میرا کام یاد ہے ناں۔‘‘
میں نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر شیشے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو گیا۔ سہ پہر تین بجے کا وقت تھا، لیکن اِکا دُکا لوگ اب بھی لنچ کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اچٹتی ہوئی نگاہ گاہکوں پر ڈالی اور استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔ فرنچ کٹ داڑھی اور سنہری فریم کے چشمے والا نوجوان کلرک فون پر مصروف تھا۔ فارغ ہو کر میری طرف متوجہ ہوا:
’’مے آئی ہیلپ یو؟‘‘
’’دیکھیے یہاں کوئی تنویر بٹ صاحب ہیں۔۔۔ لاہور کے رہنے والے؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ اس ریستوران کے مالک ہیں۔‘‘
اس نے متانت سے جواب دیا۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں نے جلدی سے کہا:
’’پلیز ان سے میری ملاقات کروا دیں۔ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ میرے پاس ان کے لئے ایک میسج ہے‘‘
’’ آپ کا نام؟‘‘
’’یعقوب۔ میں وکٹوریہ انٹرپرائزز میں کلرک ہوں۔ تنویر صاحب مجھے نہیں جانتے۔ آپ انہیں صرف اتنا بتا دیں کہ میں لاہور سے آیا ہوں اور ان کے والد صاحب کی طرف سے ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘
اس نے انٹر کام پر دو تین بٹن دبائے اور کسی شخص سے دھیمے لہجے میں بات کرنے لگا۔ ہینڈ سیٹ نیچے رکھ کر اس نے بائیں جانب سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’اوپر تشریف لے جائیں۔۔۔ بالکل سامنے ہی دفتر کا دروازہ ہے۔‘‘
اس کا شکریہ ادا کر کے میں نے زینہ طے کیا اور دفتر کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ داخلے کی اجازت ملی تو میں اندر چلا گیا۔ سامنے بڑی سی خوبصورت میز کے پیچھے گردشی کرسی پر ایک وجیہہ اور خوش لباس مرد بیٹھا تھا۔ اس کی عمر چونتیس پینتیس سال ہو گی۔ اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں سونے کی انگوٹھی تھی جس میں کوئی قیمتی پتھر جڑا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور مصافحہ کر کے صوفے پر بیٹھنے کی دعوت دی۔
’’آپ میرے ابا جی کا کوئی پیغام لائے ہیں؟‘‘
اس نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔
’’جی۔۔۔ میرے پاس ان کا دیا ہوا یہ رقعہ ہے۔‘‘
میں نے بٹوے کے اندر سے مڑا تڑا کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’میں اپنے دوست کے ساتھ ان کی دوکان پر تکے کھانے گیا تھا۔ تب انہوں نے مجھے یہ رقعہ دیا تھا۔‘‘
اس نے آہستگی سے اسے کھولا اور ٹیبل لیمپ کی روشنی میں پڑھنے لگا۔ اس لمحے میں نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ جتنی دیر وہ رقعہ پڑھتا رہا اس کے چہرے پر نوع بہ نوع تاثرات ابھرتے رہے۔ کبھی اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آتیں، کبھی ہونٹ بھینچ لیتا اور کبھی زیر لب مسکرا نے لگتا۔ پھر یکدم اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ اس نے رقعہ تہہ کیا اور مجھ سے بولا:
’’ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ابا جی کا پیغام مجھ تک پہنچا دیا۔ آپ ان سے مل کر آئے ہیں، کیسے ہیں وہ۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔‘‘
میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
’’وہ بہت بیمار ہیں۔۔۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بیمار جگر کا آپریشن بروقت نہ ہوا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ پتہ نہیں آپ مجھے یہ حق دیں گے یا نہیں۔۔۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنے ابا جی سے ناراضی ختم کر دیں۔۔۔ اور پاکستان جا کر ان سے مل لیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ایک گہری سانس لی۔ ’’لگتا ہے ابا جی نے آپ کو ہر بات بتائی ہے۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’انہوں نے یہ تو نہیں بتایا ہو گا کہ انہوں نے مجھے خود دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا اور کہا تھا کہ ساری عمر مجھے اپنی شکل نہ دکھانا؟ ابا جی اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کریں گے، مجھے ہی برا بنائیں گے۔‘‘
’’چلیں کوئی بات نہیں۔ وہ بزرگ ہیں، آپ کا حج کعبہ ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی زیادتی کی بھی ہے تو اب خاصے نادم ہیں۔‘‘
میں نے صلح جوئی کی کوشش کی۔
’’اب آپ بھی غصہ جانے دیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ میں اس پر غور کروں گا۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بالآخر وہ نرم لہجے میں بولا۔
’’آئی ایم ساری! مجھے باتوں میں محو ہو کر یہ خیال ہی نہیں رہا کہ آپ کو چائے پانی ہی پوچھ لوں۔ آپ نے کھانا کھایا ہے؟‘‘
’’ مگر مجھے کوئی خاص بھوک محسوس نہیں ہو رہی۔ آپ تکلف نہ کریں۔‘‘
’’تکلف تو جناب آپ برت رہے ہیں۔‘‘
وہ مسکرایا۔
’’اگرچہ لنچ کا وقت گزر چکا ہے لیکن آدھے گھنٹے میں تکے تیار ہو سکتے ہیں۔ اسی بہانے میں بھی لنچ کر لوں گا۔ آج کام میں کھُبے رہنے کی وجہ سے لنچ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔‘‘
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘
’’میرا خیال ہے پہلے ایک ایک سافٹ ڈرنک ہو جائے۔‘‘
اس نے انٹرکام پر ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
جب ہم لنچ کے لئے بیٹھے تو وہ مجھے بتانے لگا کہ دیار غیر میں اپنا مقام بنانے کے لئے اسے کتنی جد و جہد کرنا پڑی۔ وہ مختلف ہوٹلوں میں بیرا گیری کرتا رہا تھا اور کئی جگہوں پر بطور باورچی کام کیا تھا۔ جس ریستوران کا اب وہ مالک تھا، یہیں اس نے کبھی پلیٹیں بھی دھوئی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک سیلف میڈ آدمی تھا۔ کھانے کے دوران اس نے اچانک مجھ سے سوال کیا:
’’آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو میرے ریستوران کے تکے کیسے لگے ہیں؟‘‘
’’بہت اچھے ہیں۔ بالکل آپ کے ابا جی کے تکوں جیسے!‘‘
’’ نہیں!‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’میرا خیال ہے میں دوبارہ پیدا ہو کر بھی تکے بناؤں تو اپنے ابا جی جیسے نہیں بنا سکتا!‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں یکایک آنسو امنڈ آئے، جنہیں اس نے رو مال نکال کر پونچھ ڈالا۔ یہ اس کے دل میں چھپی ہوئی اپنے والد کی محبت تھی جو آنسوؤں کی صورت بہہ نکلی تھی۔
میں نے کہا:
’’مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے ابا جی سے بہت محبت ہے اور آپ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے۔۔۔‘‘
اس نے اعتراف کیا۔
’’تو پھر۔۔۔ تو پھر ان سے دُور رہنے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ ان سے کیوں نہیں ملتے۔۔۔؟‘‘
’’میں آج تم سے سچ بولوں گا۔‘‘
اس نے سر جھکا کر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میرا دل بہت دفعہ ابا جی کو ملنے کے لئے تڑپا۔ مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں ان کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ در اصل جس کی خاطر میں نے ان کی ناراضی مول لی تھی، وہ دو سال پہلے مجھ سے بے وفائی کر کے اپنے ایک ہم وطن کے ساتھ مانچسٹر چلی گئی۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘
میرے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کے بعد ہمارے درمیان خاموشی کا ایک طویل وقفہ حائل ہو گیا۔ وہ اداس تھا اور سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ رہا میں تو میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا:
’’ دنیا میں ہر والد کی بات اکثر درست کیوں ثابت ہوتی ہے؟‘‘
کافی دیر بعد اس نے مہر سکوت توڑی۔
’’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بہت جلد اپنے ابا جی سے ملنے لاہور جاؤں گا۔‘‘
اس نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘
’’بلکہ یہ میرا خیال ہے، میں اپنی بیٹی کو لے کر مستقل پاکستان ہی چلا جاؤں گا۔ اس کا یہاں کے مادر پدر آزاد ماحول میں پلنا بڑھنا قطعاً ٹھیک نہیں۔۔۔‘‘
میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اس نے ویٹر کو برتن سمیٹنے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں میز سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جب میں اس سے رخصت لے کر واپس آیا تو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میری تھوڑی سی کوشش باپ بیٹے کی ناراضی دُور کرنے کا سبب بن گئی ہے۔
رات کو میں یاہو میسنجر پر لاگ ان ہوا تو میرا دوست عاطف بٹ بھی آن لائن تھا۔ میں نے اسے فوراً پیغام دیا:
’’عاطف! تم میری طرف سے حاجی فاروق بٹ صاحب کو خوشخبری سناؤ کہ میں نے ان کے بیٹے تنویر کو ڈھونڈ لیا ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی ان سے ملنے پاکستان جائے گا۔‘‘
’’چن جی! اب انہیں اس کی ضرورت نہیں رہی۔۔‘‘
اس نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا۔
’’بے چارے حاجی صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ آج عصر کے بعد ان کا جنازہ تھا۔‘‘
٭٭٭

آدہا آدہا

صادقے نے سوچا، عجیب بے مہر دن چڑھا ہے۔ حرام ہے جو صبح سے ایک پیسے کی بوہنی ہوئی ہو۔
سارا دن وہ میاں میرؒ کے مزار کے سامنے اپنے گل فروشی کے اڈے پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا تھا۔ جب سورج ڈوباتوحسب معمول مال روڈ پر واقع نہر کے پل پر آ گیا، مگر پیہم کوشش کے باوجود ابھی تک ایک ہار نہیں بکا تھا۔
گل فروشی کے لیے یہ بہترین وقت تھا۔ جونہی رات کا ڈولا اُترتا، مال کی رونقیں دوبالا ہو جاتیں۔ چم چم کرتی گاڑیوں میں سجی سنوری بیگمات اور حسین و خوش ادا دوشیزائیں سیر سپاٹے یا شبینہ دعوتوں میں شرکت کے لیے نکلتیں تو مشامِ جاں کو معطر کر دینے والے پھول دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک اور ہاتھوں میں لپک پیدا ہوتی۔ فوٹریس سے شاپنگ یا ہوٹلنگ کر کے لوٹنے والے جوڑے بھی مزید لطف و کرم کی جستجو میں موتیا کے ہار اور گجرے ضرورخریدتے۔ لیکن آج نرم ہوا کے ہاتھوں خوشبو کا سندیسہ پا کر بھی کسی خوش ذوق کے دل میں پھول لینے کی آرزو پیدا نہیں ہو رہی تھی۔
کچھ دیر مزید خواری کے بعد اس نے پھول ململ کے گیلے کپڑے میں لپیٹے اور اپنی خستہ حال سائیکل کے پیڈل مارتا، نہر کے ساتھ ساتھ، اپنی بستی کی سمت روانہ ہوا۔
رات اپنے ماتھے پر تاروں کا جھومر سجائے دھرتی کے رخسار پر پیار سے جھکی ہوئی تھی۔ نہر کے سبک رو پانی میں اس کے سحر انگیز حسن کا عکس رقص کر رہا تھا۔ مگر صادقا اس دلفریب منظر سے بے نیاز اپنی ہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں چلا جا رہا تھا۔ اس کے ذہن کے گنبد میں ایک ہی واہمہ کسی چمگادڑ کی طرح بار بار چکر کاٹ رہا تھا۔
’’تُو نے صبح ماں کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یہ اسی کی سزا ہے۔ جلدی گھر پہنچ اور ماں کے پیر پکڑ لے۔ جانتا نہیں ماں روٹھ جائے تو رب بھی روٹھ جاتا ہے۔‘‘
صادقا اپنی بیوہ ماں سے بہت محبت کرتا تھا۔ مفلسی اور بیماری کی رگیدی ہوئی عورت کا بطن نشتر سے چیرا گیا تو اسے دنیا میں پہلا سانس نصیب ہوا۔ اسے پالنے کے لئے بھی محنت کش ماں کو بڑے جتن کرنے پڑے۔ شرابی باپ تو گویا اسے دنیا میں لانے کی عیاشی کر کے اپنے تئیں سرخرو ہو چکا تھا۔ اس ہڈ حرام کی مثال کھجور کے پیڑ جیسی تھی جو دھوپ لگے تو سایہ نہیں دیتا اور بھوک لگے تو پھل دست رس سے دُور۔ ستم گر جب تک جیا بیوی کے لئے باعث آزار ہی بنا رہا۔ وہ دن کے اجالے میں اسے سب کے سامنے بے رحمی سے مار پیٹ کر اپنی مردانگی کا اظہار کرتا۔ مگر جب رات اپنے پر پھیلاتی اور خلقت چُپ کی لوئی اوڑھ کر سو جاتی توکپی چڑھا کر مطلب براری کے لئے اس کے پاؤں پڑ جاتا۔ دھتکار اور خود غرضانہ پیار کے دو پاٹوں کے بیچ پستا ہوا اس کا لاغر وجود موت و زیست کے درمیان کسی خلا میں معلق ہو کر رہ گیا تھا۔ فرشتۂ اجل اس ظالم کو اچانک ہی نہ آ دبوچتا تو خدا جانے بیچاری کا کیا حشر ہوتا۔
دشتِ زیست کی باقی مسافت اس نے اکیلے ہی طے کی۔ نکاح ثانی کا طوق گلے میں ڈالنے کا تصور ہی اسے لرزا کر رکھ دیتا تھا۔ جو راستہ اس نے منتخب کیا وہ دشوار تھا اور پر خار بھی۔ مگر بیٹے کی صورت میں ایک نخل امید اس آبلہ پا کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتا رہا۔ اپنی ذات پر جھیلے ہوئے جورو ستم کا لاشعوری ردّ عمل ہی ہو گا کہ وہ اسے پڑھا لکھا کر پولیس انسپکٹر بنانا چاہتی تھی۔ مگر وہ پرلے درجے کا نا لائق اور کند ذہن نکلا۔ اس نے بڑی مشکل سے پرائمری پاس کی اور پھر ماسٹر وں کی مار سے ڈر کر بھاگ نکلا۔ ماں کی یہ خواہش تو تشنۂ تکمیل ہی رہی کہ وہ اپنے کندھوں پر پھول سجائے، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ پھول بیچنے والا بن گیا۔
اب ماں کے من میں نئی آرزو کی کونپل پھوٹی۔ چاند سی بہو کی تلاش اسے کشاں کشاں خادو کمہار کے در پر لے گئی۔ اس کی بڑی بیٹی پروین کے حسن کا بڑا چرچا تھا۔ چاک سے اُترے ظروف کے درمیان بیٹھی وہ خود بھی کسی مشاق فنکار کی صناعی کا شاہکار دکھائی دیتی۔ ماں نے جھولی پھیلائی تو واجبی رد و قدح کے بعد سات بچیوں کے بوجھ تلے دبے باپ نے ہاں کر دی۔
وہ بڑے شگنوں سے بہو کی ڈولی گھر لائی۔ گلی محلے کی عورتوں کے سامنے اس کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی۔ بات بات پرصدقے واری جاتی۔ مگر چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق جلد ہی ساس بہو کے درمیان نوع بہ نوع اختلافات جنم لینے لگے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث و تکرار روز مرہ کا معمول بن گئی۔ صادقا دونوں کی چخ چخ سے ناکوں ناک آیا ہوا تھا۔ آج صبح جونہی ملا کھڑا شروع ہوا، صادقے کا میٹر گھوم گیا۔ بیوی کو تو وہ اکثر ہی ڈانٹتا تھا، آج ماں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ روزانہ نور پیر کے ویلے گھر میں کیا تماشا شروع کر دیتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس بہو کو چند مہینے پہلے خود پسند کر کے، بڑے ارمانوں سے بیاہ کر لائی اور صبح شام جس کے قصیدے پڑھتی تھی، اب اسی میں دنیا جہان کے کیڑے نظر آنے لگے ہیں؟ سعادت مند بیٹا جو ماں کے سامنے آنکھ نہ اُٹھاتا تھا، سُرخ ڈیلے نکال کر گُستاخ لہجے میں بولا تو ماں برداشت نہ کر سکی اور چادر میں منہ چھپا کر زار زار رونے لگی۔ صادقے نے بے پرواہی سے دروازہ پٹخا اور بکتا جھکتا باہر نکل گیا۔ مگر اب بار ندامت سے اس کی کمر ٹوٹ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر ماں سے اپنی تقصیر کی معافی مانگنا چاہتا تھا۔ ریلوے پھاٹک پار کر کے وہ پٹڑی کے ساتھ نشیبی راستے پر اُترا تو افغانیوں کے ٹال پر رکھوالی کے لئے بندھے ہوئے خونخوار کُتے اسے دیکھ کر بھونکنے لگے۔ صادقے نے ایک موٹی سی گالی ان کی طرف اچھالی اور کیبن کے قریب سے گزر کر اپنی بستی میں داخل ہو گیا۔
پٹڑی کے دونوں اطراف دُور تک کچے پکے مکانوں اور گھاس پھونس کے جھونپڑوں کا لا متناہی سلسلہ تھا جہاں شہر بھر کے مزدور، محنت کش، کوچوان۔ رکشہ ڈرائیور،ٗ مکینک اور خوانچہ فروش رہائش پذیر تھے۔ ریلوے کے کاغذوں میں یہ بستی ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتی تھی۔ جب کبھی حکام خوابِ خرگوش سے بیدار ہوتے تو بستی کے مکینوں پر ’’کلین اپ اپریشن‘‘ کا قہر ٹوٹ پڑتا۔ احتجاجی دھرنے، جلسے جلوس اور خود سوزیاں رنگ لاتیں تو مسمار شدہ گھروں کے ملبے سے تعمیر نو کا عمل شروع ہو جاتا۔ آبادی کے بیچ جا بجا کیمیکل کے گودام تھے جن سے زہریلے دخان اٹھتے رہتے۔ قریبی لوکو ورکشاپ کی چمنیاں ہمہ وقت زہریلا دھواں اگل کر پہلے سے مسموم شدہ فضا کو مزید زہر آلود بنا ڈالتیں۔ پٹڑی کے قریب جو جگہیں ہنوز خالی تھیں وہاں کارپوریشن نے کچرا گھر بنا کر تعفن کے پھیلاؤ میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ سارا دن لاتعداد چیلیں، کوے، کتے، بلیاں اورافلاس زدہ انسا نر زق کی تلاش میں ان کچرا گھروں کے ارد گرد منڈلایا کرتے اور کنٹینروں میں قید غلاظت دُور دُور تک پھیلانے کا سبب بنتے۔ اگر پٹڑی سے دن رات گزرتی ریل گاڑیوں اور شنٹنگ میں مصروف انجنوں کا شور بھی اہل بستی پر نازل ہونے والے عذابوں میں شمار کر لیا جاتا تو ان کا کیس اس قابل ضرور بنتا تھا کہ روز محشر مولا کریم سے انہیں بغیر حساب بخش دینے کی پر زور اپیل کی جائے .
گھر کے دروازے پر پہنچ کر صادقے نے حسبِ عادت سائیکل کی گھنٹی بجائی۔ پھر نیچے اُتر کر اگلے پہیے سے کواڑ دھکیلا، مگر خلافِ معمول دروازہ بند ملا۔ دستک دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ماں نے کنڈی کھولی۔
’’سلام ماں جی!‘‘ اس نے ادب سے کہا اور گدی کے نیچے ہاتھ ڈال کر سائیکل اندر دھکیلی۔
’’والیکم سلام۔‘‘ ماں نے بے دلی سے جواب دیا اور سلیپر گھسیٹتی برآمدے میں بچھی چارپائی پر جا لیٹی۔
سائیکل دیوار کے ساتھ ٹکا کر اس نے دستی نلکے سے منہ لگا کر پانی پیا اور قمیض کے کف سے منہ پونچھتا ماں کی طرف بڑھا۔
’’تو ابھی تک مجھ سے ناراض ہے؟‘‘ وہ پائینتی بیٹھ کر بڑے دلار سے بولا۔
ماں نے لبوں پر چُپ کا جندرا ڈال لیا مگر اس کی آنکھوں میں لرزتے ہوئے آنسوؤں کی چمک صادقے کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
’’ مجھے معاف کر دے ماں۔ لگتا ہے میری باتوں سے تجھے بہت دکھ پہنچا ہے۔‘‘اس نے ماں کے پاؤں پکڑ لئے۔ ’’میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم دونوں سلوک و اتفاق سے رہو۔ ہمارے گھر میں بھی سکھ چین ہو۔ میں ساری دیہاڑ کا تھکا ہوا گھر واپس آتا ہوں تو تم دونوں کی روٹھی ہوئی شکلیں دیکھ کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے بھی یہی دیکھتا ہوں کہ تم دونوں میں لڑائی ہو رہی ہے اور گلی محلے کے لوگ ہنس رہے ہیں کہ صبح صبح دنگل شروع ہے!‘‘
’’دنگل تمہاری چہیتی کی حرکتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔!‘‘
ماں پھنکاری اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’اب تم تھکے ہارے باہر سے آئے ہو۔ اس کا فرض نہیں بنتا کہ اٹھ کر کنڈی کھولے۔ تمہارے آگے روٹی رکھے۔ لیکن نہیں۔ بیگم صاب بن کر سوئی ہوئی ہے۔ اس کی جوتی کو بھی پرواہ نہیں۔ پرواہ میرے بچے اسی کو ہوتی ہے جس نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر تکلیف سے جنا ہوتا ہے!‘‘
’’تمہیں تو پتا ہے ماں آج کل اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ لیڈی ڈاکٹر نے آرام کا مشورہ دیا ہے۔‘‘ اس نے بیوی کا دفاع کیا۔
’’بس بس! رہنے دے یہ چونچلے۔ انوکھا بچہ نہیں جننے لگی!‘‘
وہ باورچی خانے کا رُخ کرتے ہوئے تلخی سے بولی۔
’’میں نے روٹی نہیں کھانی۔ دوست کے ساتھ کھا لی تھی۔‘‘ صادقے نے اسے منع کیا۔
’’سچ کہہ رہا ہے؟‘‘ ماں نے اسے شبہ بھری نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں ماں۔ تیری قسم۔‘‘
اس نے یقین دلایا تو ماں رک گئی۔
کمرے سے پروین کی کھانسی کی آواز بلند ہونے لگی تھی۔ اس میں پوشیدہ تنبیہ کو بھانپ کر صادقا اٹھ کھڑا ہوا اور جمائی لیتے ہوئے بولا۔
’’اچھا ماں! میں اب آرام کرتا ہوں۔ سخت نیند آ رہی ہے۔‘‘
وہ کمرے میں داخل ہوا تو بیوی منہ پھلائے بیٹھی نظر آئی۔ اسے یہ رنج تھا کہ صادقا جو صبح ماں کے سامنے سانپ بن کر پھنکار رہا تھا، رات پڑتے ہی کیچوا کیوں بن گیا تھا؟ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے اسے ہزار جتن کرنے پڑے۔ خدا خدا کر کے اس معاملے سے گلو خلاصی ہوئی تو وہ پسینے میں بھیگی ہوئی قمیص اتار کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ چند لمحوں بعد اس کے خراٹے کمرے میں گونجنے لگے۔
ابھی سورج کا انار چھوٹے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ساس بہو کے درمیان پھر جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔ صادقے کی نیند اچاٹ ہو گئی۔ بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے رب کریم سے فریاد کی۔
’’مولا! تو ہی انہیں ہدایت دے۔ میرے سمجھانے کا تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا!‘‘
کچھ دیر وہ یونہی کسل مندی سے کروٹیں بدلتا رہا۔ جب فطری تقاضے نے مجبور کیا تو چار پائی کے نیچے پڑی سوفٹی چپل پاؤں میں اڑس کر باہر نکلا۔ اسے دیکھ کر دونوں نے مصلحتاً سیز فائر کر لیا۔ وہ انہیں قہر آلود نگاہوں سے گھورتا ہوا سیڑھیوں کے نیچے بنی تنگ سی لیٹرین میں گھس گیا مگر دھیان ادھر ہی تھا۔ جملہ فطری مراحل کے دوران بھی مسلسل اصلی و نقلی کھانسی کا غلغلہ بلند کر کے گوش بر آواز ہونے کا تاثر دیتا رہا۔ لیٹرین سے نکل کر اس نے چارپائی کھرے کے سامنے کھڑی کی اور اس پر بستر کی میلی چادر ڈال کر عارضی غسل خانہ تیار کیا۔ پھر دستی نلکے کے نیچے نہانے بیٹھ گیا۔ اس دوران پروین نے دھلی ہوئی شلوار میں ازار بند ڈالا اور اسے چارپائی پر لٹکا کر ناشتہ بنانے کی غرض سے باورچی خانے میں چلی گئی۔ جب صادقا نہا دھو کر پیڑھی پر آ بیٹھا تو اس نے توے سے پراٹھا چنگیر میں اتارا اور اس پر آم کا اچار ڈال کر خاوند کے سامنے رکھا۔ وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ چائے کا پیالہ پی کر جب اٹھنے لگا تو پروین نے پوچھا:
’’دوپہر کے لئے ایک پراٹھا ساتھ نہ باندھ دوں؟‘‘
’’ہے تو باندھ دے۔‘‘
’’ہے کیوں نہیں۔‘‘
وہ بڑی اپنائیت سے بولی تو صادقے نے اسے غور سے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھا
’’پینو! یہ بتا، تمھیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟‘‘
’’ یہ تُو کیوں پوچھ رہا ہے، آج؟‘‘ وہ اچھنبے سے بولی۔
’’پوچھنا ضروری ہے۔‘‘ وہ یاس بھرے لہجے میں کہنے لگا ’’میرا خیال ہے جس عورت کو اپنے خاوند سے واقعی محبت ہوتی ہے۔ اسے ہر وقت احساس رہتا ہے کہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے خاوند پریشان ہو۔‘‘
’’تو میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
صادقے نے گہری سانس لی۔ ’’ماں سے آڈا نہ لگایا کر۔ بزرگوں کو نہیں سمجھایا جا سکتا۔ کم از کم تو ہی احساس کر لے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اپنے سائیکل کی طرف بڑھا اور اسے کپڑے سے صاف کرنے لگا۔ پروین خاموشی سے کھانا باندھنے لگی۔ مگر وہ اندر ہی اندر اس نصیحت پر پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
ماں کو حوائج ضروریہ نے منظر سے وقتی طور پر غائب کر دیا تھا۔ صادقا سائیکل لے کر باہر نکلا تو وہ فراغت پا کر باورچی خانے کی طرف بڑھی۔ بہو نے اس کے لئے ناشتہ بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور اپنا ناشتہ لے کر کمرے میں چلی گئی تھی۔ خالی چنگیر اور چائے کا خالی پتیلا دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا:
’’میں تمھیں اس لئے بہو بنا کر نہیں لائی تھی کہ تو رانی بن کر رہے، اور میرا پُتر تیری ناز برداریوں میں لگا رہے۔۔۔‘‘
’’نی بڈھیئے پھاپھا کٹنیئے! میرا خاوند میری ناز برداریاں کیوں نہ کرے۔ تم نے کبھی اپنے خصم سے ناز برداریاں نہیں کروائی تھیں۔ آخر تمہیں ساڑا کس بات کا ہے، مجھ سے جلتی کیوں ہو؟‘‘ بہو نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’تجھ سے جلتی ہے میری جوتی! حرام زادیے، تیری بے جا فرمائشوں کی وجہ سے وہ روز بارہ بارہ، چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ صحت دیکھی ہے اس کی؟ نچوڑا ہوا نمبو لگنے لگا ہے۔ یہ دیکھ۔ رحم کر اس پر۔۔۔‘‘ ساس نے تالی بجانے کے انداز میں ہاتھ جوڑے۔
’’جب شادی ہوئی تھی، اس وقت بھی کوئی شہزادہ گل فام نہیں تھا۔‘‘ بہو نے ہاتھ نچائے۔
’’جب اس کے چونچ جیسے منہ پر چار لڑیوں کا سہرا ڈال کر، تم اس کی بارات لائی تھیں تو سہیلیوں نے جو مخول کئے تھے وہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا۔ تیلا، سوکھا گنا اور پتہ نہیں کیا کیا نام رکھے تھے سب نے۔‘‘
’’تو نہیں بیٹھنا تھا ناں ڈولی میں۔ ماں سے کہنا تھا کہ تجھے کوئی رس دار گنا ڈھونڈ دے۔۔۔‘‘
’’دیکھ، دیکھ۔ میری ماں بہشتن تک نہ پہنچ۔‘‘
’’بہشتن! سبحان اللہ! جیسی تو بہشتن ہے، ویسی ہی وہ بھی ہو گی۔ دن بھر چڈّے کھلار کر چار پائی پر پڑے رہنا تیری گھٹی میں داخل ہے۔ وضو نہ غسل، نماز نہ روزہ۔ گندی، بے شہرتی!‘‘
’’تو ہے گندی! تو ہے بے شہرتی اور بے غیرت! بیٹے اور بہو کے غسلوں کا حساب رکھنے والی! تو نے میرا منہ کھلوا ہی دیا ہے تو پھر سنیں گوانڈنیں۔۔۔‘‘
وہ دونوں اطراف دیواروں کے ساتھ چارپائیاں کھڑی کر کے، لڑائی کا تماشا دیکھنے والی ہمسائیوں سے مخاطب ہوئی۔
’’نی اڑیو! یہ عورت میری ساس نہیں سوکن ہے! ہم میاں بیوی جب کمرے کی کنڈی لگا کر، پنکھا چلا کر سوتے ہیں تو یہ مارے حسد کے باہر سے بجلی کا فیوز نکال دیتی ہے! اس سے کہو، اگر اس بڑھاپے میں بھی اس کے دل میں کوئی حسرت باقی رہ گئی ہے تو مجھے صادقے سے طلاق دلوا کر خود اس سے نکاح پڑھوا لے!‘‘
’’توبہ توبہ! یا اللہ توبہ!‘‘ کئی عورتوں نے بہو کی زبان درازی پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے چارپائیوں سے چھلانگیں لگا دیں۔ ساس، بہو کے اس وار کی تاب نہ لا سکی اور غش کھا کر گر پڑی۔ مودے کوچوان کی بیوی جو ان کے دروازے کا ٹاٹ پکڑے کھڑی تھی، اسے گرتے دیکھ کر چلائی:
’’ہائے میں مر گئی! نی گشتیو، نٹھ کے آؤ۔ ماسی سکینہ نوں کج ہو گیا جے!‘‘
ہمسائیاں دوڑی آئیں۔ انہوں نے اسے اٹھا کر چار پائی پر ڈالا اور چمچ سے منہ میں پانی ڈالنے لگیں۔ مگر اسے ایسا دندل پڑا کہ کھلنے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔ مودے کوچوان کی بیوی نے بستی کے واحد ’’ ڈاکٹر‘‘ جھجے کمپاونڈر کی طرف بچہ دوڑایا۔ گلی کی نکڑ پر اس کا کلینک تھا۔ وہ فوراً آ پہنچا۔ اس کی مساعی سے آدھے گھنٹے کے اندر صادقے کی ماں کی طبیعت بحال ہو گئی۔ کلینک لوٹتے ہوئے بزرگ کمپاؤنڈر نے ساس اور بہو دونوں کو نصیحت کی۔
’’ نیک بختو! لڑائی جھگڑا چھوڑ دو۔ تم دونوں کی چپقلش بازی سے صادقا اعصابی مریض بنتا جا رہا ہے۔ جب بھی مجھ سے ملتا ہے، کوئی سکون آور گولی مانگتا ہے۔ سوچو۔ اسے کچھ ہو گیا تو تم دونوں کا کیا بنے گا؟‘‘
رات ہوئی اور صادقا واپس آیا تو گلی میں لکن میٹی کھیلنے والے بچوں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ اس نے غصے میں آ کر بیوی کو پیٹ ڈالا۔ صبح سویرے وہ روٹھ کر میکے چلی گئی۔ ساس نے برملا اظہارِ مسرت کیا کہ اچھا ہے خود ہی دفع ہو گئی ہے۔ اب میں صادقے کے لئے نئی دلہن لاؤں گی اور اس کو پکا کاغذ بھجواؤں گی۔
صادقا چند روز تو غصے میں بپھرا پھرتا رہا، مگر آہستہ آہستہ اس کے غضب کا لاوا ٹھنڈا پڑ گیا۔ بیوی کے بغیر گھر اسے سونا سونا لگتا۔ خالی بستر بچھو کی طرح کاٹتا۔ وہ اسے منا کر واپس لانا چاہتا تھا مگر ماں کے سامنے اظہار کرتے ڈرتا تھا۔ ایک روز ہمت کر کے مدعا زبان پر لایا ہی تھا کہ ماں نے سر پیٹ ڈالا۔
’’پھر اس بد ذات کے عشق کا بھوت تیرے سر پر چڑھ بیٹھا ہے؟ میرے لئے اس گشتی نے اتنی گندی زبان استعمال کی۔ اس کے بعد بھی تم اسے بسانا چاہتے ہو؟ یاد رکھو۔ اب وہ یہاں رہے گی یا میں۔ اگر تم اسے واپس لائے، تو میں یہ گھر چھوڑ کر کہیں چلی جاؤں گی!‘‘
’’کیسی باتیں کر رہی ہو ماں۔ گھر چھوڑ کر جائیں تمہارے دشمن۔‘‘
’’آمین۔۔۔!‘‘ ماں کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
صادقے کی ہنسی چھوٹ گئی۔
’’پتہ نہیں۔ تم نے اس نمانی کو اپنا دشمن کیوں سمجھ لیا ہے؟‘‘
’’وہ نمانی نہیں، بڑی کتی چیز ہے۔ سائیں کالے سے ٹونہ کرواتی رہی ہے کہ تم مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ میں کس طرح یہ حرکت برداشت کر سکتی ہوں۔۔۔؟‘‘
’’اگر اس نے واقعی ٹونہ کروایا تھا تو میں تم سے جدا کیوں نہیں ہوا؟‘‘ صادقے نے بھنویں اچکائیں۔
’’میں نے جوابی ٹونہ جو کروایا تھا۔۔۔‘‘
’’ چلو حساب برابر ہو گیا! اب یہ قصہ ختم کرو۔‘‘ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’یہ قصہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتا‘‘۔ ماں نے گہری سانس لی ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس گھر میں میرا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ سمجھتی ہے، اب تم پر میرا کوئی حق باقی نہیں رہا۔ سارے حق اسی کے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں دونوں کا برابر کا حق ہے۔۔۔‘‘ صادقا جھجے کمپاؤنڈر سے سنے ہوئے جملے تھیٹر کے کسی ایکٹر کی طرح دہرانے لگا۔۔۔ ’’تم دونوں کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ تمھیں اپنا اپنا حق ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھے رہ کر حاصل کرنا ہے۔ میں اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے تو رہا کہ ایک کے ساتھ تم رہو اور دوسرے کے ساتھ میری بیوی‘‘۔
اس نے قدرے توقف کیا اور لجاجت سے بولا:
’’ماں! میں چاہتا ہوں کہ تو پینو کو معاف کرد ے۔ مجھے یقین ہے مہینہ بھر باپ کے در پر پڑے رہنے سے اس کی عقل ٹھکانے آ گئی ہو گی۔‘‘
’’اس طرح سے تو میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ اسے گوانڈنوں کے سامنے مجھ سے معافی مانگنا ہو گی۔۔۔‘‘ ماں نے نتھنے پھیلائے۔
’’ اچھا میں اسے کہوں گا کہ تم سے معافی مانگے۔۔۔‘‘ صادقے نے یقین دہانی کروائی۔
تھوڑی بحث و تکرار اورمنت سماجت کے بعد ماں مان گئی۔ اسی شام صادقا سسرال گیا اور بیوی کو منا کر لے آیا۔ اگلے دن کا بیشتر حصہ دونوں عورتوں کے مابین گلے شکوے دُور کرانے میں گزرا۔ ماں کی خواہش کے مطابق معافی تلافی بھی ہو گئی۔ جب جمعرات آئی تو صادقا داتا صاحبؒ کے مزار پر سلام کرنے گیا اور وہاں گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ آئندہ اس کی ماں اور بیوی میں کبھی جھگڑا نہ ہو۔ لڑائی کے تصور ہی سے اس کے دل میں ہول اٹھنے لگتا تھا۔
دعا کی برکت سے چند دن امن سے گزرے گئے۔ مگر پھر ایک روز ساس بہو میں ایسی زور دار لڑائی ہوئی کہ سارا محلّہ اکٹھا ہو گیا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں اور ایک دوسری کے بال نوچ ڈالے۔ اس روز صادقے کی طبیعت ناساز تھی اور وہ گھر پر ہی تھا۔ ماں اور بیوی کو باہم دست و گریباں دیکھ کر وہ ایسا دل گرفتہ ہوا کہ خاموشی سے باہر نکلا اور شنٹنگ کرتے ہوئے انجن کے سامنے چھلانگ لگا دی۔ تیز رفتار انجن کے بے رحم پہیوں نے اس کے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے۔
’’صادقے نے خود کشی کر لی، صادقے نے خود کشی کر لی۔۔۔‘‘ ایک عینی شاہد زور سے چلُّایا۔
عورتیں، مرد، بچے سب ریلوے لائن کی طرف دوڑ پڑے۔ ان میں صادقے کی ماں اور بیوی بھی شامل تھیں۔ جب دونوں نے اس کی کٹی ہوئی لاش دیکھی تو سینہ کوبی کرنے لگیں۔
’’اب کیوں روتی ہو؟‘‘ جھجا کمپاؤنڈر گلو گیر آواز میں بولا۔۔۔‘‘
’’اُٹھا لو آدھا آدھا۔۔‘‘
٭٭٭

زر خرید

سیانوں نے سچ کہا ہے:
’’بڈھے کی مرے نہ جورو، بالے کی مرے نہ ماں۔‘‘
دونوں کے لئے زندگی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بالک سے زیادہ بالی کو ماں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر بوڑھے کے لئے بیوی کی جدائی سہنا دُشوار ہوتا ہے تو جوان مرد کے لئے یہ سانحہ کسی عذاب سے کم نہ ہو گا۔
نورخاجان پر جب یہ آفت ٹوٹی تو وہ تیس بتیس برس کا بھرپور جوان مرد تھا۔ بے چاری پلوشا جو بالک پن کے دور سے گزر رہی تھی ماں کی ممتا ہی نہیں، محافظت کے اس فطری حصار سے بھی محروم ہو گئی جو بچیوں کو فقط مائیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔
بیوی بچوں اور خاندان کے بیشتر افراد کو جنت کی راہ دکھا کر جب اس نے کارپٹ بمبوں کی زد پر آئی ہوئی اپنی سرزمین کو خیرباد کہا تو کم سن پلوشا اس کے کندھوں پر سوار تھی۔
دربدری کا دور اذیت ناک بھی تھا اور طویل بھی مگر بالآخر تمام ہوا۔ اب وہ میدانی علاقے کے ایک بڑے شہر میں اپنے ہم وطنوں کی بستی میں رہتا تھا اور روزگار سے لگا ہوا تھا۔ کپڑے کی تھوک مارکیٹ میں مدینہ کلاتھ ہاؤس سے نت نئے ڈیزائن کا کپڑا بائیسکل پر لاد کر مضافات کی طرف پھیری پر نکل جاتا اور اپنے مخصوص لب و لہجے میں صدا لگاتا:
’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔ باڑے کا ودیا کاپڑا۔‘‘
جس مرد نے برسوں پر محیط بھرپور ازدواجی زندگی گزاری ہو اس کے لئے مجرد رہ کر نفس کشی کرنا اتنا سہل نہیں ہوتا۔ خصوصاً نورخاجان جیسا مردجس کی ترکیب عنصری میں نفس بہیمی کی آمیزش کرتے ہوئے قدرت نے زیادہ ہی فیاضی برتی ہو، ہر وقت ہڑک میں مبتلا رہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آتش شوق کو ہر رُخ سے ہوا مل رہی تھی۔ تھوک مارکیٹ جاتے ہوئے شہر کے انتہائی با رونق بازار سے گزرتا تو ایک سے ایک سجی سنوری عورت نظر آتی۔ مال بیچتے ہوئے بھی زیادہ واسطہ صنف نازک ہی سے پڑتا۔ اور جب واپس بستی میں پہنچتا تو پڑوس میں مقیم بابا سیاف کی بیٹی پری گل ٹاٹ کی اوٹ سے جلوہ دکھاتی۔ ایک شعلہ سا لپک جاتا۔
جھونپڑی میں ایک طرف گیارہ سالہ پلوشا نیند میں ڈوبی گڑیوں کے خواب دیکھ رہی ہوتی تو دوسری جانب اس کا باپ نورخاجان بے چینی سے کروٹیں بدل رہا ہوتا۔ پری گل تخیل کے دوش پر پرواز کرتی ہوئی اس کی آغوش میں آن گرتی تو ایک ولولۂ تازہ سے وصال کے مراحل طے کرتا اور مد ہوش ہو کر سو جاتا۔ اگلی صبح آنکھ کھلتی تو کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگی ہوتی۔۔ کانوں میں اپنی ہی صدا کی بازگشت سنائی دینے لگتی۔ ’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔۔‘‘دل و دماغ پر محرومی کا احساس قہر بن کر نازل ہوتا۔ ناحق غسل واجب ہو جاتا۔ ازسرنوحساب جوڑنے بیٹھ جاتا۔ جان توڑ مزدوری کر کے بھی وہ ابھی تک چالیس ہزار ہی جمع کر پایا تھا۔ بابا سیاف’ نو نقد نہ تیرا ادھار، جیسی ضرب المثل کا ایمان کی حد تک قائل تھا۔ ستر ہزار سے ایک پیسہ کم کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ اپنی جمع شدہ رقم اس نے بابا سیاف ہی کے پاس امانتاً رکھ چھوڑی تھی تاکہ اسے حوصلہ رہے۔ لیکن پری گل کا ہاتھ تبھی اس کے ہاتھ میں آنا تھا جب باقی رقم بھی ادا کر دی جاتی۔ پری گل کے شباب کا یہ عالم تھا جیسے پھل زیادہ پکنے پر پھوٹنے اور رس ٹپکانے لگے۔ نورخاجان کا پیمانۂ صبر لب ریز ہو رہا تھا، مگر کیا کرتا۔ مجبور تھا۔ رہ رہ کر دل میں وسوسے سر اُٹھاتے کہ کوئی اور طلب گار پہل نہ کر جائے۔ بستی میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ڈر تھا تو مقامی امیر زادوں سے جو گوری چمڑی پر مر مٹتے تو بے دریغ خرچ کر ڈالتے۔ بیشتر حرام کاری کے لئے ہر دم تیار دکھائی دیتے۔ جنہیں شریعت کا کچھ پاس تھا ان کے لئے دام چکا کر معین مدت کے لئے حبالۂ عقد میں لے آنے کا در کھلا ہوا تھا۔ نورخاجان کو ہر دو سے شدید نفرت محسوس ہوتی۔ وہ انہیں حرام خور کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتا اور دست بہ دعا رہتا کہ بابا سیاف کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہ آئے۔ اگرچہ وہ ابھی تک اپنے اسی موقف پر قائم تھا کہ شریعت کے برخلاف نہیں جائے گا مگر تا بہ کجا۔ اس کے کئی ہم جلیس مرغیاں ذبح کرنے کی بجائے بڑے مزے سے انڈے کھائے جا رہے تھے۔۔
جورو کی موت کا سانحہ ایک بڈھے پر بھی گزر چکا تھا۔ بوڑھا بونگ بھی نہیں بلکہ بوبک۔ پچاس کے پیٹے میں ہو گا مگر بتایا کرتا کہ اگلے سال چالیس کا ہو جائے گا۔ گذشتہ کئی سالوں سے تا حال اگلا سال اس کی عمر کو چھُو ہی نہیں پا رہا تھا۔ ذات کا جھبیل اور پیشے کے اعتبار سے ملاح۔ تاہم کشتی کھینا چھوڑ رکھا تھا۔ جب سے بیلہ اور کچے کا علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ بنا تھا، اس کے تینوں بیٹے بھی کہنے کو ملاح اور مچھیرے تھے لیکن نہ جانے کیسے اور کہاں سے دولت میں خوب ہاتھ رنگ رہے تھے۔ بیٹوں کی اُچھلتی کمائی اس کی جیب میں بھی آئی تو یاد آ گیا کہ وہ سندھ کے کسی شاہی خاندان کا سپوت ہے، جس کے آباء و اجداد بہت پہلے نقل مکانی کر کے ادھر آباد ہو گئے تھے۔ اپنی تئیں شہزادہ سمجھ کر جام کہلانے لگا۔ کوئی نام پوچھتا تو مونچھوں پر بل دے کر بڑے فخر سے کہتا:
’’سائیں۔ جام سجن نام ہے میرا۔‘‘
ویسے اس قبیلے کو سندھ سے یقیناً کبھی کوئی نسبت رہی ہو گی کیونکہ وہ گھر میں جو بولی بولتے تھے اس کا غالب عنصر سندھی پر مشتمل تھا۔
سجن خاصا شوقین مزاج تھا۔ چہرے کی سانولی جلد اور زُلفیں چپڑ کر، آنکھوں میں سرمہ لگا کر مونچھوں کوبل دیتا ہوا پوری سج دھج سے نکلتا۔ سر پر بڑے بانکپن سے پگڑی باندھی ہوئی ہوتی۔ مچھیروں کی بستی سے باہر سڑک کے کنارے چھپر ہوٹل پر آن بیٹھتا۔
نورخا جان پر جلد از جلد مال اکٹھا کرنے کی دھُن سوار تھی۔ اس لئے مال بیچنے کے لئے اکثر بہت دُور نکل جاتا۔ ہفتے عشرے میں دریا کے قریب واقع مچھیروں کی بستی کا بھی چکر ضرور لگایا کرتا۔ سجن سے اس کی اچھی خاصی گپ شپ ہو گئی۔ وہ کھانے اور چائے سے اس کی تواضع ضرور کرتا۔ کئی باراسے اپنے گھر بھی لے گیا اور بلا ضرورت کپڑا خریدا۔ نورخا جان دیکھتا کہ اس کے گھر میں بڑی قیمتی اشیاء رکھی ہیں۔ اندازہ لگاتا کہ اس کے بیٹے خاصے مالدار ہیں۔ گھر میں سجن کی بوڑھی والدہ البتہ تنہا بیٹھی نظر آتی۔ ایک بار اس سے پوچھ ہی لیا کہ بیٹوں کی شادی کیوں نہیں کی: ’خان! بیٹے میرے پورے نواب ہیں۔ شاہی خون ہے۔ بستی اور آس پاس کے علاقے سے بڑے رشتے آئے۔ مانتے ہی نہیں۔ سچی بات بول دوں؟‘‘
نورخاجان نے استفسار طلب نگاہیں سجن کے چہرے پر جمائیں تو وہ کہنے لگا:
’’جب سے تم لوگ اس علاقے میں آئے ہو اور تمہاری لڑکیوں نے مقامی گھر آباد کئے ہیں، میرے بیٹوں کے بھی دماغ خراب ہو گئے ہیں۔ تم اپنی بستی میں کسی سیبات کرو ناں۔۔‘‘
نورخا جان نے جام سے اس کے بیٹوں کی عمریں پوچھیں تو اس نے بتایا کہ بڑا پچیس، منجھلا بائیس اور چھوٹا انیس سال کا ہے۔ ذرا توقف کے بعد بولا:
’’شادیاں تو تینوں کی کروں گا مگر پہلے صرف بڑے کی۔ کم بخت جس طرح پیسہ کماتے ہیں اسی طرح برباد بھی کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کس کے لئے جمع کریں۔ ابھی میرے پاس ایک کے لئے ہیں لیکن مجھے پتا ہے بڑے کی شادی ہوتی گئی تو دوسرے دونوں بھی چند دن میں دولت کا ڈھیر لگا دیں گے۔‘‘
نورخا جان مزید دس ہزار روپے پس انداز کر چکا تو بابا سیاف کے حوالے کرنے اس کے گھر جا پہنچا۔ پری گل سے نگاہیں چار ہوئیں تو اس نے آنکھوں سے پیغام دیا کہ اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا۔
بابا سیاف کہنے لگا:
’’نورخا جان! ہم وطن واپس جائے گا۔ مجبوری ہے۔ لیکن پہلے پری گل کا فرض ادا کرے گا۔ تمہیں تو پتا ہے وہاں کا حالات بہت خراب ہے۔ بیٹی کو ساتھ نہیں لے جائے گا۔ ابھی انارگل نے صاف صاف بول دیا کہ دس ہزار وہ لے گا تو ساتھ والا گاؤں کا زمیندار ہے۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا بات ہو گیا ہے۔ نوے ہزار ہم کو ملے گا۔ تم کو پتا ہے کہ تھوڑا کوشش کرے تو پری گل جیسا لڑکی کا شادی اس ملک میں دو اڑھائی لاکھ روپے ولور پر کرنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن سچی بات ہے بیٹی کو غیروں میں دوں، دل نہیں مانتا۔ حالانکہ یہ بات اسلام کے خلاف ہے۔ مگر اللہ ہم کو معاف کر دے۔ بس تم ایک آدھ ہفتے میں نوے ہزار پورا کر دو، نہیں تو اپنی امانت ابھی واپس لے لو۔ اللہ کے حکم سے ہم شریعت پر چلے گا۔۔‘‘
نورخاجان کا دماغ سُن ہو کر رہ گیا۔ اس کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ آنکھیں کھولے، منہ پھاڑے بابا سیاف کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے بوڑھے کے دعوے کی سچائی پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چھوڑ کوئی دو دینے والا بھی پہنچ سکتا تھا۔ بستی میں کئی بچولیے اب خاصے سرگرم تھے۔ اب تک وہ آس پڑوس میں یہ تاثر قائم رکھنے میں کامیاب رہا تھا کہ اس نے بابا سیاف کو خرچہ مرچہ دے دیا ہے اور کسی بھی وقت دو بول پڑھوا کے پری گل کو اپنے گھر لا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسی نے اس سے پیشتر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کی تھی مگرجس بات کا خدشہ تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھارے سامنے کھڑی تھی۔
رات اس نے کانٹوں پر بسر کی۔ بیداری میں پری گل کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے سرسراتا رہا اور پل بھر کے لئے آنکھ لگی تو عالم رویا میں وہ اس کی بانہوں کے حصار میں تھی۔ آج بہت عرصے کے بعد اس نے چرس کا دم بھی لگایا۔ ایک ایک پائی کا حساب لگاتا رہا۔ اس کے پاس ایساکوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے اتنی جلدی مزید چالیس ہزار روپے کا بندوبست ہو سکتا۔ خود کو لاکھ سمجھایا کہ پری گل کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے مگر یہ اس کے بس میں کہاں تھا؟ وہ جب سے اس کے حواس پر چھائی تھی فرصت کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اس کے ساتھ خلوت میں نہ گزارا ہو۔۔ وہ تو اپنے ملک اور ذات پر ٹوٹنے والی قیامت کے دُکھ بھی اس آس میں بھلا بیٹھا تھا کہ وہ راحت جاں عنقریب اس کے پہلو میں ہو گی۔
دن طلوع ہوا تو اس نے ٹوٹے ہوئے جسم کے ساتھ بائیسکل نکالی اور کپڑوں کا بنڈل کیریئر پر باندھ کر نکل پڑا۔ آج اس کے حلق سے آواز بھی ٹھیک طرح سے برآمد نہیں ہو رہی تھی۔ راہ میں آنے والی بستیوں میں نیم دلی سے مختصر سی صدا لگائی: ’’کاپڑا جی کاپڑا۔‘‘
پہلے جیسے ترنگ تھی اور نہ چوکسی۔ کسی گلی یا ڈیرے کی طرف نہیں مڑا۔ اِدھر اُدھر دھیان تک نہیں دیا کہ شاید کوئی بُلا ہی رہا ہو۔ کہیں رُکے بغیر تیز تیز پیڈل مارتا سیدھا نکلتا چلا گیا۔۔ اسے پتا ہی تب چلا جب مچھیروں کی بستی میں داخل ہو گیا۔
’’کاپڑا لے لو کاپڑا۔۔‘‘
سجن کے گھر کے سامنے پہنچ کر اس نے صدا لگائی۔ خلاف عادت وہ اس کے گھر کے سامنے سائیکل سے اُترا نہیں بلکہ زمین پر پاؤں ٹکائے کھڑا رہا۔ اسی اثنا میں گھر سے یکے بعد دیگرے تین مسلح نوجوان باہر نکلے اور تیز قدموں سے دریا کی جانب بڑھ گئے۔ باپ کی طرح ان کی رنگت سانولی تھی مگرجسم مضبوط۔ نین نقش عام سے، جیسے قدیم مقامی نسل کے ہوتے ہیں۔ ان کے پیچھے جام سجن بھی باہر آیا۔ نورخاجان کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور بیٹوں کو پکار کر پوچھا:
’’واپس کب تک ہو گی؟‘‘
بڑے نے بایاں ہاتھ فضا میں بلند کر کے نفی میں ہلایا گویا بتانا مقصود ہو کہ کوئی پتا نہیں۔ کسی نے پلٹ کر باپ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
جام سجن نے آگے بڑھ کر نورخاجان سے ہاتھ ملایا اور اسے گھر کے اندر لے گیا۔ پلنگ پر بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا:
’’کیا بات ہے خان آج کچھ بجھے بجھے دکھائی دیتے ہو؟‘‘
قدرے توقف کے بعد پوچھنے لگا۔ ’’اچھا پہلے یہ بتاؤ، کیا کھاؤ پیو گے۔۔؟‘‘
اس سے پیشتر کہ وہ کوئی جواب دیتا، سجن نے سامنے دیوار کے ساتھ نصب پڑچھتی کی طرف قدم بڑھائے۔ اس پر گھاس پیال سے بنا ہوا ایک پٹارا پڑا تھا۔ اس میں ہاتھ ڈال کر اس نے ایک لفافہ نکالا اور میز پر رکھتے ہوئے کہا:
’’لو کھاؤ۔ تلی ہوئی مچھلی ہے اور مرغ بھی۔۔ ساتھ کیا پیو گے؟‘‘
’’جو مرضی ہے پلا دو۔ آج سب کچھ پی لے گا۔۔ شراب، بھنگ، چرس، پوڈر موڈر۔۔۔‘‘
نورخاجان کا جواب سن کر سجن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ ایک لحظے کو کچھ سوچا اور کونے میں دھری جستی پیٹی پر رکھے صندوق کا ڈھکنا اُٹھا کر اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے لگا۔ واپس پلٹا تو ایک بوتل اس کے ہاتھ میں تھی جواس نے سامنے میز پر رکھ دی۔
*۔۔۔ *۔۔۔ *
پچھتر ہزار روپے نقد، بیس تولے کے طلائی زیورات اور سات قیمتی جوڑے اور جوتے جام سجن نے نورخاجان کے سامنے رکھے تو اس کی آنکھوں کی پُتلیاں پھیل گئیں۔ جام سجن اپنے میزبان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا:
’’خان۔ تم ذرا بھی فکر نہ کرو۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ تمہاری بیٹی وڈیریوں سے بھی زیادہ عیش کرے گی۔ گھر میں کپڑا زیور اس سے دس بیس گنا زیادہ پڑا ہے۔ اپنی مرضی سے پہنے اوڑھے۔ جو بات منہ سے نکالے گی پوری کریں گے۔‘‘
نورخاجان بولا:
’’بس ہم نے تم کو اپنا بڑا بھائی مان لیا ہے۔ پلوشا جیسا ہمارا بیٹی ویسا تمہارا۔ تین چار مہینے میں بارہ سال کا ہو جائے گا۔ یارا ہم کو اپنی بیٹی سے بہت پیار ہے۔ ہم اس کا باپ بھی ہے اور ماں بھی۔ ذرا اس کا زیادہ زیادہ خیال رکھنا۔ چھوٹے سے نکاح ہو جائے تو اچھا ہے۔ نہیں تو بڑے سے بھی خیر ہے۔ اللہ کا حکم ہے۔ شریعت کے برخلاف نہیں۔۔ بس یارا۔ تم ابھی جلدی جلدی اس کو لے جاؤ۔ نہیں تو ہمارا ایمان کمزور ہو جائے گا۔‘‘ سجن نے اس کے شانوں پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور تسلی آمیز لہجے میں کہا:
’’خان۔ تمہاری بچی اتنی خوش رہے گی کہ تم کو بھی بھول جائے گی۔ یہ جام سجن کا تم سے وعدہ ہے۔ اچھا۔۔ بلاؤ اسے۔ کہاں ہے؟ میں نے باہر کرائے کی گاڑی کھڑی کر رکھی ہے۔‘‘
نورخاجان اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
’’بس میں ابھی لایا اس کو۔ بابا سیاف کے گھر تیار ہو رہی ہے۔‘‘
نورخاجان اب حوصلے میں تھا۔ جب جام سجن رخصت ہونے لگا تو اس کی قریب ہو کر آہستگی سے بولا:
’’جس بیٹے سے نکاح ہو جائے، اس کو سختی سے بول دو کہ ذرا زیادہ خیال رکھے۔۔‘‘
پلوشا ان بچوں میں سے تھی جن کی زندگی محرومیوں اور نارسائیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں بھی کبھی پوری نہیں ہو سکی تھیں۔ مناسب خوراک، ڈھنگ کا لباس اور رہنے کو ایسی جگہ جہاں موسموں کی شدت سے محفوظ رہا جا سکے، ایسی نعمتیں تھیں جن کا اسے صحیح طور پر ادراک بھی نہ تھا۔ اس کے نزدیک تو وہ عورتیں بھی بڑی خوش نصیب تھیں جنہیں پانی جیسی نعمت با آسانی دستیاب ہو۔ بے وطنی کے دور، اس سے پہلے جنگ کی تباہ کاری اور در بدری نے اس ننھی جان سے اس کے خواب بھی چھین لئے تھے۔ وطن، گھربار، عزیز و اقارب، بہن بھائی اور ماں کی ممتا تو جنگ کے عفریت نے نگلی تھی مگر ایک خوبرو عورت کے لئے اس کے باپ کی جنون کی حدوں کو چھوتی ہوئی لٹک نے اسے شفقت پدری سے بھی محروم کر ڈالا تھا۔ وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ لڑکیوں کی شادی ہو جائے تو ان کی بہت سی خواہشیں پوری ہونے لگتی ہیں۔ پاس پڑوس میں کئی کم سن بچیوں کی بھی شادیاں ہو گئی تھیں۔ چنانچہ اب اس کی باری آئی تھی تو وہ جو اپنی فطرت میں بھی معصوم تھی، ڈھیروں کپڑے، نئے جوتے، طلائی زیورات اور بناؤ سنگھار کی بہت سی چیزیں دیکھ کر نہال ہو گئی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ کم عمر لڑکیوں کو بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ بھی بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی حیرت کی بات ہرگز نہیں تھی۔
گھر پہنچنے تک سجن کی ذات میں پوشیدہ درندہ پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔ ہڑک دماغ کو چڑھی تو بستی میں قدم رکھتے ہی اپنی قبیل کے چند لوگ اکٹھے کئے اور مولوی کی مٹھی گرم کر کے اسے ساتھ لے آیا۔ نکاح کی رسم شروع ہونے ہی والی تھی کہ غیر متوقع طور پر اس کے تینوں بیٹے اپنے مشن سے قبل از وقت ہی لوٹ آئے۔ بستی میں انہوں نے یوں بھی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ ان کے ایک اشارۂ ابرو پرسارے مہمان چشم زدن میں گھر سے نکل گئے۔
*۔۔۔ *۔۔۔ *
پری گل کیا گھر میں آئی نورخاجان کی زندگی ہی بدل گئی۔ اسے خیال آتا کہ عالمی طاقت اس کے ملک پر حملہ نہ کرتی تو لطف و کرم اور کیف و سرور میں ڈوبے یہ لمحے اسے کبھی نصیب نہ ہوتے۔ تباہ حال بستیاں، اپنے ہم وطنوں اور پیاروں کی لاشیں، ذہن کے پردے پر نقش سب روح فرسا مناظر دھُندلا گئے۔ اس نے بڑی جان توڑ مزدوریاں کی تھیں۔ اب وہ کچھ عرصہ آرام کرنا چاہتا تھا۔ بابا سیاف کو نوے ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد بھی خاصی معقول رقم اس کے پاس بچ رہی تھی، اس لئے پری گل کے ساتھ بھرپور انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔
حیوانی جذبہ قدرے ماند پڑا تو نورخاجان کو بیٹی کی یاد ستانے لگی۔ وہ اس سے ملنے کی غرض سے مچھیروں کی بستی جا پہنچا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سامنے صحن میں پلوشا زرق برق لباس پہنے، سونے سے لدی پھندی پیڑھے پر بیٹھی تھی۔ دادی اس کے سر میں کنگھی کر رہی تھی۔ باپ پر نگاہ پڑتے ہی وہ کھل اٹھی۔ آگے بڑھ کر بے تابانہ لپٹ گئی۔
نحیف بڑھیا کے پوپلے منہ سے چند مبہم سے خیر مقدمی لفظ نکلے۔ باپ اور بیٹی دونوں نے اندر کمرے کا رُخ کیا۔ نورخاجان دو متضاد کیفیات کا شکار نظر آتا تھا۔ بیٹی کو دیکھ کر وہ بظاہر خوش تھا مگر اندر سے کچھ زخمی اور ملول بھی۔ پلنگ پر بیٹھ کر بیٹی کو پہلو سے لگایا اور دُلار سے پوچھا:
’’میرا بچہ خوش ہے؟‘‘
’’ہاں بابا۔ سب لوگ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’کدھر ہے سب؟‘‘ اس نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’تینوں شکار پر گئے ہیں۔ صبح مجھ سے پوچھا کہ آج کیا کھانا ہے تو میں نے تیتر کے لئے بول دیا۔ ابھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’سجن کدھر ہے؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
پلوشا قدرے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتانے لگی:
’’پتا نہیں بابا وہ کدھر چلا گیا۔ جس روز میں ادھر آئی تو جھگڑا ہو گیا۔ میں تو ادھر اسی پلنگ پر تھی اور چھوٹا منٹھار میرے پاس تھا۔ ساتھ والے کمرے میں رات کو باپ اور دونوں بیٹے کچھ دیر جھگڑتے رہے۔۔ یہ جب آپس میں بات کرتے ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آتی۔ پھر خاموشی ہو گئی اور دادی کے رونے کی آواز آئی تو بڑے نے زور سے کچھ کہا۔ وہ ایکدم چپ ہو گئی۔ اس دن سے آج تک میں نے سجن کو نہیں دیکھا۔‘‘
نورخاجان کے چہرے سے پریشانی جھلکنے لگی۔ لمحہ بھر توقف کے بعد پوچھا:
’’تمہاری شادی چھوٹے سے ہوئی ہے؟‘‘
’’بابا مجھے کوئی کچھ بتاتا ہی نہیں۔ دادی کو پوچھوں تو سر پر پیار کرتی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر آسمان کی طرف دیکھتی ہے۔ پھر جھولی پھیلا کر دعا کرتی ہے۔۔ تینوں بھائی پیار تو بہت کرتے ہیں مگر یہ پوچھوں تو ہنسنے لگتے ہیں۔۔‘‘
نورخاجان کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ کچھ کہنا چاہا مگر حلق میں پھانس لگ گئی۔ کسی اندرونی بے چینی کے زیر اثر یکدم اُٹھ کھڑا ہوا۔ پلوشا نے اچنبھے سے کہا:
’’بابا بیٹھو ناں۔ وہ ابھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
’’نہیں میرا بچہ۔ ایک ضروری کام یاد آ گیا۔۔‘‘ وہ جیسے ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’پھر آؤں گا۔۔ تم اپنا خیال رکھنا۔‘‘
٭٭٭

انڈس ڈالفن

ہم نے تاری ماموں کو باگڑ جی کے جنگل میں جڑی بوٹیاں تلاش کرتے پایا۔ ان کے بائیں کندھے سے ایک بڑا سا تھیلا جھول رہا تھا۔ انواع واقسام کے پھول، پھلیاں، بوٹیاں اور پتیاں اس تھیلے سے جھانک رہی تھیں۔
سندھ ساگرکے سیلابی ریلوں نے جنگل کی ترائی میں ایک وسیع و عریض جھیل تشکیل دی تھی۔ موسم سرما کا آغاز ہوتا تو سائبیریا سے ہزاروں لاکھوں پرندے سندھ دھرتی کی جانب ہجرت کرتے۔ منچھر، کلری، ہالیجی، حمل اور ڈرگ جیسی بڑی جھیلوں سمیت ان گنت چھوٹی جھیلیں، تالاب اور ٹوبے ان کا مسکن بنتے۔ باگڑ جی کی جھیل میں بھی بے انت پرندے آ بسیرا کرتے۔ مرغابیاں، کونجیں، قازیں، سارس، سرخاب، راج ہنس، بگلے، نیل کنٹھ، جل ککڑیاں، جل کوے، ماہی خور، کاکروٹ، شارکیں، تلیر۔۔۔۔ شکاری حضرات جی بھر کر ان کا شکار کرتے۔
سرور بھائی اور میں بھی اس روز شکار کھیلنے نکلے تھے اور اب واپس آ رہے تھے۔
دن بھر کا تھکا ماندہ سورج اپنی بوجھل آنکھ سے جھیل اور جنگل پر الوداعی نگاہ ڈال رہا تھا۔ سیاہی مائل سبزدرختوں کی چوٹیوں پرشفق کی سرخی یوں چمک رہی تھیں جیسے سہاگنوں نے مانگ میں سیندھور بھرا ہو۔۔ جھیل کے پانی میں گھل کر یہی لالی ایسا سماں باندھ رہی تھی جیسے قدرت نے اپنی کھٹالی سے ڈھیر سارا پگھلا ہوا سونا اس ذخیرۂ آب میں انڈیل دیا ہو۔
اس روزسرور بھائی نے پہلی بار اپنی شکاری جیپ باہر نکالی تھی، اس لئے بڑی لہر میں تھے۔ انہوں نے جنگ عظیم دوم کی یادگار یہ پرانی جیپ جب نیلامی میں خریدی تو نہایت خستہ حالت میں تھی۔ میانی روڈ کے ایک ماہر مستری نے نیا انجن ڈال کر اور ضروری مرمت اور رنگ روغن کر کے اسے قابل رشک شکاری جیپ میں بدل ڈالا۔ گہرے نیلے رنگ، خوش نما پیلی بتیوں، ریڈیل ٹائروں اور عمدہ پوشش سے مزین اس کھلی جیپ کی پچھلی نشستوں کے نیچے دو عدد لمبوترے چوبی بکس فٹ تھے۔ ایک میں ویبلے اینڈ اسکاٹ کی دو نالی بندوقیں، کارتوسوں کے ڈبے اور شکاری چاقو رکھنے کی جگہ تھی۔ دوسرے میں لوہے کی سیخیں، ماچسیں، کیتلی، تھرمس، مگ، پلیٹیں، مرچ مصالحے، چینی پتی اور خشک دودھ۔ الغرض اسے شکار کے تمام تر لوازمات سے مزین ایک مکمل جیپ کہا جا سکتا تھا۔
سرور بھائی نے تاری ماموں کے عین عقب میں بریک لگائی تو وہ بری طرح چونکے۔ مگر ہمیں دیکھا تو کھل اٹھے:
’’ارے بھانجو، یہ تم ہو؟ واہ! بڑی شاندر جیپ ہے۔ نئی خریدی ہے؟‘‘
’’نئی ہی سمجھیں ماموں۔ ذرا معائنہ کریں، کیسی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر سرور بھائی انہیں جیپ کی ایک ایک چیز دکھانے لگے۔
’’زبردست ہے! مبارک ہو بھئی۔ میں اسے’’پرنسس آف ولڈرنیس‘‘ کا خطاب عطا کرتا ہوں۔ مگر پہلے میں اس کی مٹھائی کھاؤں گا۔۔‘‘
’’شکاری جیپ کی مٹھائی نہیں کھلائی جاتی ماموں۔ آپ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور اس پر کئے ہوئے شکار کی دعوت اڑائیں۔۔‘‘
سرور بھائی چہکے۔
ان کی کھٹارا موٹرسائیکل جیپ میں لاد کر اور انہیں ساتھ بٹھا کر جب ہم باگڑ جی کی حدود سے باہر نکلے تو سورج ڈوب چکا تھا۔
جنگل کے اختتام پر جہاں چھوٹی سڑک مرکزی شاہراہ سے بغل گیر ہوتی، ایک کھلا میدان تھا۔ وہاں جنگل سے کاٹی گئی سوختہ اور عمارتی لکڑی کے ڈھیر لگے رہتے۔ میدان کے ایک طرف لکڑیوں کی حفاظت پر مامور چوکیداروں کی گھانس پھونس سے بنی جھونپڑیاں تھیں اور دوسری جانب ایک ڈھابہ جہاں ٹرک ڈرائیور اور بیوپاری کھانا کھاتے اور چائے پیتے۔ ڈھابے کا مالک کھانڈو اور اس کا بارہ تیرہ سالہ لڑکا ساجن ہمارے واقف کار تھے۔ شکار پر جاتے ہوئے ہم ان سے چائے کا تھرمس بھرواتے اور واپسی پر اکثر شکار کئے ہوئے پرندوں کا گوشت پکواتے۔ کھانڈو بڑا ماہر باورچی تھا۔ شکار کا گوشت بھوننے اور پکانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
کھانڈو اور ساجن نے ہمیں دیکھا تو سب کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکے۔ ہم نے شکار شدہ مرغابیاں، تلیر اور جل ککڑیاں ان کے حوالے کیں اور خود ڈھابے کے باہر بچھی چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔
میں نے تاری ماموں کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ وہ ہماری امی کی سگی خالہ کے بیٹے تھے۔ کبھی مرچنٹ نیوی میں سیلر تھے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو حکمت سیکھی اور پھر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ پہلے پہل روہڑی ریلوے اسٹیشن کے باہر مجمع لگا کر دیسی دوائیاں بیچتے تھے۔ ان کے سامنے زمین پربیس پچیس کھلی تھیلیاں کینوس کے بچھونے پر ترتیب سے دھری ہوتیں۔ کسی میں املتاس کی پھلیاں ہوتیں، کسی میں سمندری گھاس، بعض میں تونبے بھرے ہوتے اور کئی میں چہار مغز، ہلیلہ، ہرمل، مصطگی، تباشیر، دارچینی، پھٹکڑی، سچے موتی اور سیپ۔ قریب ہی کانسی کے ایک بڑے لگن میں مکڑی کے سائز سے لے کر کیکڑے کے حجم برابر زندہ پہاڑی بچھو ہوتے۔ دوسرا لگن تیل میں تر بتر سانڈوں سے بھرا ہوتا۔ کانچ کی چند بڑی شیشیاں اور مرتبان بھی ایک قطار میں سجے ہوتے۔ ان میں سپرٹ کے اندر محفوظ کئے ہوئے رنگ برنگے مردہ سانپ ہوتے۔ ماموں کا پالتواژدہا زمین پر آہستہ آہستہ رینگ رہا ہوتا۔ وہ پہلے اپنی پاٹ دار آواز میں سانپوں کے بادشاہ گگاپیر کی داستاں سناتے۔ جب تماشائیوں کا مجمع لگ جاتا تو نہایت چالاکی سے بات کا رخ پوشیدہ اور پیچیدہ بیماریوں کی طرف موڑ دیتے اور وہ دوائیں فروخت کرنے لگتے جو ان کے استاد ستر سالہ سنیاسی باوا اجمیری نے تیار کی ہوتیں۔
سنیاسی باوا اجمیری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ ان کی وفات کے بعد تاری ماموں نے میانی روڈ پر واقع ان کا مطب سنبھال لیا۔ وہ زنانہ و مردانہ پوشیدہ امراض کے ماہر حکیم مانے جاتے۔ روہڑی اور سکھر کے عیاش وڈیروں اور رئیسوں میں وہ اپنے تیر بہ ہدف شاہی نسخوں کی بدولت خاصے مقبول تھے۔ تاہم اہل محلہ اور خاندان کے لوگ انہیں اچھی نظر سے نہ دیکھتے۔ وجہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی عاشق مزاجی تھی۔ پتہ نہیں ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ عورتیں ان پر ریجھ جاتیں۔ وہ جھٹ انہیں پیام عقد دے ڈالتے۔ چار سے کم بیویاں رکھنا خلاف مردانگی سمجھتے۔ ہاؤس فل کا بورڈ لگا ہونے کے با وصف کوئی نہ کوئی ویکنسی یوں نکلتی رہتی کہ چاروں کو واجبی نان و نفقہ دے کر ایک ہی چھت تلے رہنے پر مجبور کرتے۔ جب یہ سعی باہم سر پھٹول اور فساد کا باعث بنتی تو زیادہ فسادی عورت کو شرعی حق مہر ادا کر کے چلتا کرتے۔ بعض تنگ آ کر خود خلع لے لیتیں۔ بیمار بیوی کو ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے پاس بغرض علاج لے جانا کسر شان اور باعث عار سمجھتے تھے۔ مہلک امراض کا خود علاج کرنے کی کوشش میں دو بیویاں اگلے جہان روانہ کر چکے تھے۔
خود کو گھریلو کشیدگی سے بچانے کا نسخہ انہوں نے یہ ڈھونڈا کہ مطب کے عقبی حصے میں پارٹیشن کروا کر ایک کمرہ بنا لیا۔ اس میں ایک نواری پلنگ پر آرام کیا کرتے۔ سرہانے کی طرف دیوار گیر الماری طبی، نفسیاتی، جنسی، ادبی، تاریخی اور دینی کتب و رسائل سے اٹی پڑی تھی۔ پائنتی کی جانب ایک پرانا چھ سیٹر صوفہ بچھا تھا۔ فارغ وقت میں اس پر بیٹھ کر دوستوں یاروں کے ساتھ بیت بازی، لطیفہ گوئی اور گپ شپ میں مشغول رہتے یا تاش اور شطرنج کی بازی لگاتے۔ ہارنے والی پارٹی پر لازم ہوتا کہ سب کے لئے مرغ کڑاہی، تکے کباب اور نان رائتے پر مشتمل کھانا منگوائے۔ گاہے وہسکی کا دور بھی چلتا۔ پچاس سالہ آزاد منش، بذلہ سنج تاری ماموں اچھی خوراک، شاہی نسخہ جات اور احتیاط سے لگائے ہوئے عمدہ خضاب کے بل بوتے پر اصل عمر سے دس برس چھوٹے لگتے۔ سماجی دباؤ اور طبعی بزدلی کے سبب فقط ایک شادی پر اکتفا کرنے والے شرفاء کو ایسا آدمی بھلا کیسے پسند آ سکتا تھا؟
ہم نے جب سے شعور کی منزل پر قدم رکھا تھا، ابا جان کو ان سے برگشتہ ہی پایا۔۔ وہ ان کو اس قدر ناپسند کرتے کہ ان سے ملنا تو درکنار ان کی کسی خوشی غمی میں بھی شریک نہ ہوتے۔ اپنے کسی فنکشن میں انہیں کبھی مدعو نہ کرتے۔ وہ ڈھیٹ ہو کر کبھی خود ملنے گھر چلے آتے تو غیروں کی طرح انہیں بیرونی بیٹھک میں بٹھاتے۔ امی اور پھپھو کو ان سے باقاعدہ پردہ کرنے کا حکم تھا۔ تاہم میں اور سرور بھائی ابا جان سے چوری ان سے مل لیا کرتے۔
گرمیوں کے دنوں میں کالج سے لوٹتے ہوئے میں اور سرور بھائی اکثر ان کے مطب پر تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے رک جاتے۔ تاری ماموں ’ بسم اللہ میرے بھانجے آئے۔۔‘ کا نعرہ بلند کر کے ہمیں آگے بڑھ کر سینے سے لگاتے۔ کمرے میں بٹھا کر شربت صندل پلاتے۔ گھر بار کی خیریت پوچھتے اور امی جان اور خاص طور پر ابا جان کو سلام پہچانے کی تاکید کرتے (جو ہم کبھی نہ پہنچاتے)۔ ماموں کو ’’شمع‘‘ لاہور اور ’’نقاد‘‘ کراچی میں چھپنے والے معمے حل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ان رسائل کا تازہ شمارہ آیا ہوتا تو ہمیں معمے حل کرنے کے لئے بٹھا لیتے۔ معموں کے کمپائلر بڑے کایاں لوگ ہوتے ہیں۔ ہماری مشترکہ ذہانت نے البتہ متعدد مواقع پر ان کی چالاکی کو مات دی تھی۔ ماموں کو کئی بار انعامات ملے۔ اس میں سے ہمارا حصہ انہوں نے خوش دلی سے دیا۔ ہم دونوں نے شطرنج اور تاش انہی سے سیکھی۔ فنکاری سے پتے بانٹتے کا گر بھی سیکھا تاکہ چاروں یکے اور بادشاہ اپنے یا پارٹنر کے حصے میں آ جائیں۔۔ ہم ان کی الماری میں دھری کتابوں سے بھی خوب استفادہ کرتے۔ ایک دفعہ ہم دونوں ان کی آنکھ بچا کر ایک جنسی کتاب پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے دیکھ لیا۔ ہم نے جھینپ کر کتاب واپس رکھی تو یہ تبصرہ کرتے ہوئے مطب میں چلے گئے:
’’بھانجو! کچھ کام صرف کرنے کے ہوتے ہیں، پڑھنے کے نہیں۔۔‘‘
کھانڈو اور ساجن نے ڈھابے کے عقبی حصے میں مخصوص جگہ پر خشک لکڑیاں اور ٹہنیاں جلا کر الاؤ روشن کر دیا تھا۔ وہ شکار کو صاف کر کے، انہیں آئل اور مصالحہ لگا کر اور سیخوں میں پرو کر الاؤ کے قریب زمین میں گاڑ چکے تھے۔ جب بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو فضا میں پھیلی تو ہم اٹھ کر الاؤ کے پاس آ گئے۔ ساجن نے جھٹ تین چار کرسیاں اور ایک میز وہاں لگا دی اور کھانے کے برتن سجانے لگا۔ کھانڈو نے تیار سیخوں کو جانچا اور بھنے ہوئے پرندے سیخوں سے اتار اتار کر ٹرے بھرنے لگا۔ ساتھ گرما گرم تندوری نان، دہی رائتہ اور سلاد تھا۔ سرور بھائی نے ایک تھیلے سے وہسکی کی بوتل نکال کر کھولی تو تاری ماموں کی باچھیں کھل گئیں:
’’واہ بھانجے! آج تو تم نے عید کروا دی۔۔‘‘
’’آپ کی دعوت کریں اور وہسکی نہ ہو۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تاری ماموں!‘‘
سرور بھائی مسکرائے اور دو گلاسوں میں ایک ایک پیگ وہسکی انڈیل کر پانی ملانے لگے۔ میں بوجوہ شراب سے اجتناب کرتا ہوں۔ اس لئے میں نے سیون اپ منگوا لی۔
کھانا بہت مزے دار اور وافر تھا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ ساجن اور کھانڈو نے بھی۔
درختوں کے عقب سے پورا چاند ہمیں جھانک رہا تھا۔ چاندنی اور وہسکی بادہ کشوں پر ایک خاص طرح کا موڈ طاری کر دیتی ہے۔ ان کے پرانے دکھ درد جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ اپنے ناکام معاشقوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے ہیں۔ کامیاب معرکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بے تحاشا ہنستے ہیں۔ بسا اوقات وہ اپنے سینوں میں دفن ایسے راز بھی اگل دیتے ہیں جو بقائمی ہوش و حواس کسی کے سامنے کبھی ظاہر نہ کریں۔
سرور بھائی اور تاری ماموں اسی ترنگ میں تھے۔
’’ ماموں! آپ نے شادیاں تو بہت کیں۔ کیا کبھی کوئی سچا عشق وشق بھی کیا؟‘‘ سرور بھائی نے سوال کیا۔
’’ہاں! ایک لڑکی سے واقعی سچی محبت ہوئی تھی مجھے۔۔‘‘
’’کون تھی، کیا نام تھا اس کا؟‘‘
’’ ایک ملاح کی بیٹی تھی۔ حلیمہ نام تھا، مگر میں اسے پیار سے انڈس ڈالفن کہا کرتا۔۔‘‘
کھانڈو بجھتے ہوئے الاؤ میں جھونکنے کے لئے سرسوں کے سوکھے ہوئے جھاڑ اور خاردار درختوں کی کچھ خشک ٹہنیاں اٹھائے ہماری طرف آ رہا تھا۔ انڈس ڈالفن کا لفظ کان میں پڑا تو کہنے لگا:
’’سائیں! انڈس ڈالفن بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔۔‘‘
’’ تم انڈس ڈالفن کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’سائیں! سندھو دریا کی جل پری ہے۔۔‘‘
’’جل پری نہیں ہے گھامڑ، ایک قسم کی مچھلی ہے۔‘‘ میں نے تصحیح کی۔
’’ سائیں ہم نے تو یہی سنا ہے کہ جل پری ہے۔ اکیلا دکیلا ماچھی بیڑی میں کہیں دور نکل جائے تو یہ اسے پانی میں سے آواز دیتی ہے۔ ایسا جادو ہے اس کی آواز میں کہ سننے والا آواز کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ پھر یہ اسے اپنی دنیا میں لے جاتی ہے۔ سندھو دریا کے نیچے جل پریوں کی سلطنت ہے۔۔‘‘
’’اچھا! تم بھی تو پہلے بیراج پر چوکیداری کرتے تھے۔ تمہیں کوئی جل پری نہیں ملی؟‘‘ میں نے مذاق کیا۔
’’سائیں، ہمارا ایسا نصیب کہاں!‘‘ اس نے آہ بھری۔۔ ’’جل پری کی جگہ اللہ سائیں نے ایک جلی ہوئی پری ضرور پلے باندھی ہے۔ یہ کالا کلوٹا چھوکرا اسی سے تو ہے!‘‘ اس نے ساجن کی طرف اشارہ کیا۔
میری ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ یہ بھی پورا بھانڈ ہے۔‘‘ میں نے سرور بھائی اور تاری ماموں کو مخاطب کیا۔
کھانڈو پھول گیا۔ کہنے لگا:
’’ سائیں، جل پری میرے ایک ماچھی دوست کو ساتھ لے گئی تھی۔ آپ سنیں تو پورا قصہ سناؤں۔‘‘
’’مختصر کر کے سنا دو۔۔‘‘ سرور بھائی نے جواب دیا۔
’’سائیں۔ میرا دوست سادھ بیلا کے نزدیک جال پھینک رہا تھا کہ جل پری نے اسے آواز دی۔ وہ بیڑی اور جال وہیں چھوڑ کر دریا میں کود گیا۔ گھر والوں نے سمجھا پانی میں ڈوب کر مر کھپ گیا ہو گا مگر چھ مہینے بعد لوٹ آیا۔ سائیں وہ بتاتا تھا کہ ایک بہت حسین جل پری اسے اپنے ساتھ اپنی سلطنت میں لے گئی اور اس سے شادی کر لی۔ کسی کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ لوگ اسے دیوانہ سمجھتے۔ وہ ہر وقت جل پری کی باتیں کرتا رہتا اور اس سے جدائی کے غم میں روتا رہتا تھا۔ اسی دکھ میں گھل گھل کر جلدی ہی فوت ہو گیا بے چارہ۔ اسی نے راز کی یہ بات بتائی تھی کہ جل پری سے ملاپ بوڑھے مرد کے لئے اکسیر ہے۔ وہ پھر سے جوان ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دو ماچھی دوستوں کا تو کام ہی یہی ہے۔ زندہ جل پری پکڑو اور منہ مانگے داموں بوڑھے رئیسوں اور وڈیروں کو بیچ دو۔۔ سائیں بڑی مانگ ہے اس کی۔۔‘‘
’’ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔۔۔‘‘
سرور بھائی نے کھانڈو کی بات سن کر لہک لہک کر یہ شعر پڑھنا شروع کیا تو ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’ اب میں سمجھا کہ دریائے سندھ سے اندھی ڈالفن کی نسل اس قدر تیزی سے ناپید کیوں ہو رہی ہے۔‘‘ انہوں نے دیدے گھمائے۔۔
ماموں بولے:
’’ڈالفن کی چربی اور تیل تو طلاء اور مردانہ طاقت کی دوائیں بنانے میں کام آتا ہے مگر اس غریب سے جفتی کر کے بوڑھا مرد جوان ہو جاتا ہے یہ سفید جھوٹ ہے۔ مگر بعض لوگ اسے سچ مانتے ہیں۔ مجھے خود ایک بوڑھے وڈیرے کو دیکھنے کا موقع ملا جو اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر خطرناک انفیکشن کروا بیٹھا تھا۔۔۔‘‘
’’ماموں، آپ اپنے عشق کی داستان سنانے لگے تھے۔۔‘‘
میں نے انہیں یاد دلایا تو وہ جیسے کہیں کھو گئے۔
ہوا کے جھونکے الاؤ کی آگ کو بھڑکا رہے تھے۔ سرسوں کے سوکھے جھاڑ تڑتڑ کی آوازیں پیدا کرتے ہوئے تیزی سے جل رہے تھے۔ ان سے اٹھنے والی چنگاریاں جگنو بن کر فضا میں اڑ رہی تھیں۔
ماموں نے کہانی شروع کی جو میں اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں:
انیس بیس سال پہلے میں گرمیوں میں صبح سویرے جھلی بند پر سیر کیا کرتا تھا۔ ایک روز کافی دور نکل گیا۔ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ افق کے کنارے پرمگر ہلکی سی لالی نمودار ہو چکی تھی۔ کچے میں دریا کے متوازی گارے اور گھاس پھونس کے درجنوں جھونپڑا نما مکانات تھے۔ ان کے مکین ابھی خال خال ہی بیدار ہوئے تھے۔ گھاٹ پر کئی طرح کی کشتیاں بہتے پانی میں کھڑی ہولے ہولے ڈول رہی تھیں۔ بجرے، کونتل، پتیلو، کٹار۔۔۔ صبح کی مدھم روشنی میں ان کے مستول، پتوار، رسیاں اور بادبان بڑے خستہ اور بوسیدہ دکھائی دے رہے تھے۔
میں آخری بجرے کے پاس پہنچا تو دریا میں کچھ ہی دور مجھے انڈس ڈالفن کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے ابھی ابھی پانی میں غوطہ لگایا تھا۔ یہ مچھلی عام طور پر کنارے کے قریب آنے سے اجتناب کرتی ہے۔ گہرا پانی ہی اس کے لئے محفوظ اور اسے مرغوب بھی ہے۔ کبھی کوئی بھولی بھٹکی ڈالفن کم گہرے پانی یا کسی نہر میں جا نکلے تو جلد ہی شکار ہو جاتی ہے۔ میں ٹھٹک کر رک گیا تاکہ دیکھ سکوں کہ وہ دوبارہ سطحِ آب پر آتی ہے یا نہیں۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے سر تھوڑا باہر نکالا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پانی کی سطح پر سنہری بالوں کا ایک گچھا سا تیر رہا ہے۔ پھر ایک حسین نسوانی وجود نے اپنے بھرپور جوبن سمیت پانی سے ظہور کیا۔ لمحہ بھر کے لیے مجھے یہ گمان ہوا کہ میں کوئی جل پری دیکھ رہا ہوں۔ وہ دلکش نقوش اور متناسب بدن کی مالکہ ایک نہایت خوبصورت اور پر کشش لڑکی تھی جو صبح سویرے دریا میں مزے سے نہا رہی تھی۔ اس کی عمر بمشکل اٹھارہ، انیس سال ہو گی۔ اس نے پانی میں ڈبکی لگائی اور کسی ماہر تیراک کی مانند پہلو کے بل تیرنے لگی۔ ایک دو منٹ بعد سیدھی ہوئی اورکسی مچھلی کی طرح سہولت سے تیرتی ہوئی کچھ دور تک گئی۔ پھر الٹی ہو کر اپنے پتلے اور لمبے بازوؤں کے چپو چلاتی کنارے کی سمت آنے لگی۔ قریب پہنچ کر وہ سیدھی ہوئی اور میری جانب رخ کر لیا۔ تعجب خیز بات یہ تھی کہ وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں پوری طرح کھول کر مجھے دیکھ رہی تھی مگر ذرا لجا شرما نہیں رہی تھی۔۔۔ میں اپنی جگہ ساکت اور مبہوت کھڑا اسے دیکھے جا رہا تھا۔ میرا دل نامعلوم مسرت سے کانپ رہا تھا۔
دفعتاً مجھے اپنے عقب میں کھٹکا محسوس ہوا اور ایک غصیلی مردانہ آواز سنائی دی:
’’او بے شرم انسان! ہٹ یہاں سے۔ کیا گھر میں تمہاری کوئی ماں بہن نہیں۔ اندھی معصوم چھوکری پر بری نظر ڈالتے ہو۔۔۔‘‘
’’یہ اندھی ہے؟‘‘ میں نے صدمے کی کیفیت میں اس ادھیڑ عمر اور ناتواں ملاح سے پوچھا جو میلی بنیان اور چار خانے کی لنگی پہنے میرے پیچھے کھڑا تھا۔ اس کی گدلی آنکھوں میں غصہ بھرا ہوا تھا۔
’’بولا تو ہے۔۔‘‘
’’مم، میں۔۔ معافی چاہتا ہوں۔ میں نے ڈالفن مچھلی کے دھوکے میں اسے دیکھا تھا۔ کوئی بری نیت نہیں تھی میری۔۔‘‘ میں نے جلدی سے صفائی پیش کی۔ ’’آپ کی بیٹی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
ہماری باتیں سن کر لڑکی نے پانی میں غوطہ لگایا اور زیر آب تیرتی ہوئی بجرے کے عقب میں چلی گئی تھی۔ میں نے ملاح سے دوبارہ معافی مانگی تو وہ نرم پڑ گیا۔
’’میں حکیم ہوں۔ اگر تمہاری بیٹی پیدائشی اندھی نہیں ہے تو میں اس کا علاج کر سکتا ہوں۔ بینائی واپس آ جائے گی۔ فکر نہ کرو میں علاج کے پیسے نہیں لوں گا۔۔‘‘ میں نے پر خلوص پیش کش کی۔
’’پیسے کیوں نہیں لو گے، کیا مجھ سے تمہاری کوئی رشتے داری ہے؟‘‘ ملاح تنک کر بولا۔
’’ دو وجہوں سے پیسے نہیں لوں گا۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میں غریبوں کا علاج مفت کرتا ہوں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ انجانے میں مجھ سے جو گناہ سر زد ہوا ہے اس کا ازالہ ایک نیکی سے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
الغرض میں نے ایسی ہی چند چکنی چپڑی باتوں سے سادہ لوح ملاح کو شیشے میں اتار لیا اور روزانہ اس کی جھونپڑی کا چکر لگانے لگا۔ مقصد اس حسینہ کا دیدار تھا جسے دیکھے بغیر اب مجھے چین نہیں پڑتا تھا۔ لڑکی جس کا نام حلیمہ تھا تیراکی کی حد درجہ شوقین تھی۔۔ اس کی بینائی سلب ہونے کا سبب دریائے سندھ کے پانی میں پائی جانے والی آلودگی تھی، جس کے باعث اب تو انڈس ڈالفن کی پوری نسل اندھی ہو چکی ہے۔ مقام شکر تھا کہ اس کی آنکھیں ابھی ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ پرہیز اور علاج سے بینائی لوٹنے کے روشن امکانات موجود تھے۔ میں نے لڑکی اور اس کے باپ کو یہ بات سمجھائی تو حلیمہ بینائی واپس آنے کی امید میں تیراکی سے اجتناب کرنے لگی۔ میں نے جم کر اس کا علاج کیا۔ صبح و شام آنکھیں دھونے کے لئے خالص عرق گلاب دیا اور انفیکشن ختم کرنے کے لئے آزمودہ انگریزی گولیاں پڑیوں کی شکل میں پیس کر کھلائیں۔ لیبل اتار کر اچھے آئی ڈراپس بھی دئیے اور بینائی تیز کرنے کا سرمہ بھی دیا۔ بہت جلد اس کی بینائی کافی حد تک بحال ہو گئی۔
حلیمہ جسے میں پیار سے انڈس ڈالفن کہتا، مجھے اتنی اچھی لگتی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ لیکن میں نے ابھی تک کھل کر اس سے اظہار محبت نہیں کیا تھا۔ اس کا باپ در اصل، سائے کی طرح اس کے ساتھ لگا رہتا۔ میں نے حلیمہ کی آنکھوں میں بھی اپنے لئے محبت کے چراغ جلتے دیکھے۔ یہ حقیقت میرا حوصلہ بڑھاتی کہ یہ آگ یک طرفہ نہیں ہے۔ ایک روز میں نے فیصلہ کیا کہ حلیمہ کے باپ سے بات کر کے عاشقی کو قید شریعت میں لے آؤں۔ میری عمر تیس سال سے اوپر ہو چکی تھی مگر ہنوز میں کنوارا تھا۔
میں نے موقع پا کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ادھیڑ عمر ملاح نے تحمل سے میری بات سنی اور سنجیدہ لہجے میں کہا:
’’ سائیں۔ آپ اچھے آدمی ہو۔ آپ نے ہم پر احسان بھی کیا ہے مگر ہماری مجبوری ہے۔ حلیمہ وڈیرے علی نواز کی امانت ہے۔ اس نے ہمیں بہت پیسہ دیا۔ کشتی لے کر دی۔ کچے میں جس زمین پر ہم بیٹھے ہیں یہ بھی اسی کی ملکیت ہے۔۔ جلد ہی یہ اس کی دلہن بننے والی ہے۔۔‘‘
وڈیرے علی نواز کا نام سن کر میں چونک گیا۔ اروڑ کا وہ بوڑھا وڈیرا میرے استاد حکیم سنیاسی باوا اجمیری مرحوم کے وقت سے ہمارے شاہی نسخوں کا شیدائی تھا۔
میں جانتا تھا کہ طاقتور وڈیرے کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں۔ مایوس اور دل برداشتہ ہو کر چلا آیا، مگر مجھے ایک پل کے لئے قرار نہیں تھا۔ ہر وقت اپنی محبوبہ کا سراپا اور من موہنی صورت نگاہوں میں پھرتی رہتی۔ تنہائی میں اسے یاد کر کے آہیں بھرتا اور آنسو بہاتا۔ میرے ذہن نے اس دوران کئی بار یہ شیطانی منصوبہ بنایا کہ آئندہ وہ کوئی معجون یا کیپسول منگوائے تو ان میں زہر ملا دوں۔۔ مگر یہ شیخ چلی کا منصوبہ ہی رہا۔ اگر پکڑا جاتا تو مجھ میں سولی چڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔
ایک دن صبح سویرے میں نے مطب کھولا ہی تھا کہ ایک پجیرو جیپ دروازے کے سامنے رکی اور ایک رائفل بردار نوجوان نیچے اترا۔ میں اسے جانتا تھا۔ وہ وڈیرے علی نواز کا آدمی تھا۔ اس نے بتایا کہ وڈیرا شدید بیمار ہے۔ اس نے مجھے بلا بھیجا ہے۔
اروڑ میں نارو نہر کے کنارے وڈیرے کی بڑی سی حویلی تھی۔ میں ایک مرتبہ پہلے بھی وہاں جا چکا تھا۔ ہم حویلی پہنچے تو اس نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا۔ وہ بستر پرنیم دراز بری طرح کراہ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ زیر ناف ایک پھوڑا نکل آیا تھا جو پک گیا ہے اور اس میں پیپ بھری ہے۔ اس کی وجہ سے بخار چڑھ گیا ہے اور پیشاب کی نالی میں بھی شدید جلن ہے۔ پیشاب کرتے ہوئے جلن ناقابل برداشت ٹیسوں میں بدل جاتی ہے۔ میں نے معائنہ کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ وہ ایک خطرناک جنسی بیماری میں مبتلا ہے۔ میں نے سبب جاننے کے لئے تھوڑا کریدا تو اس نے اعتراف کیا کہ اس نے کھوئی ہوئی جوانی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ایک تالاب میں زندہ ڈالفن مچھلی پال رکھی تھی۔۔۔!
اس کی حالت نہایت خراب تھی۔ انفیکشن پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ تھا۔ ضروری تھا کہ اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جائے اور کسی ماہر ڈاکٹر سے انگریزی علاج کروایا جائے۔۔ مگر میں نے اسے یہ مشورہ دینے کی بجائے جھوٹی تسلی دی کہ اس بیماری کا تیر بہدف نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اللہ نے چاہا تو پہلی خوراک ہی سے افاقہ ہو گا۔۔
میں نے واپس پہنچ کر اسے جان بوجھ کر غلط دوائی بھیج دی۔ یہ درد کش دوا تھی۔ اس کے استعمال سے سوزش میں کمی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں نے دو وجوہات سے ایسا کیا تھا۔ پہلی یہ کہ وہ میرا رقیب تھا۔ میں اپنی راہ کا کا نٹا صاف کرنا چاہتا تھا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ میں بے زبان مخلوق کے ساتھ بد فعلی کرنے والے بڈھے غنڈے کا علاج کر کے اسے مزید بد فعلیوں کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
چوتھے پانچویں دن مجھے اطلاع ملی کہ وڈیرا علی نواز مر گیا ہے۔ اسے ایک روز پہلے اسپتال منتقل کیا گیا تھا مگر تب بہت دیر ہو چکی تھی۔
’’راہ کا کانٹا صاف ہونے کے بعد کیا آپ نے انڈس ڈالفن۔۔ میرا مطلب ہے حلیمہ سے بیاہ رچایا؟‘‘
سرور بھائی نے بے تابانہ سوال کیا۔
’’ کہاں یار۔ باپ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا وڈیرا حق نواز اس کا دعوے دار بن بیٹھا اور چند دن بعد وہ حویلی منتقل ہو گئی۔۔‘‘
تاری ماموں نے سرد آہ بھری اور یاس بھری نظروں سے بجھتے ہوئے الاؤ کو دیکھتے ہوئے بولے:
’’ایک جرعہ اور پلا بھانجے۔۔!‘‘
٭٭٭

دعا

مائی جنداں کو انہیں پکارنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی۔ مرغیاں اس کے ہاتھوں میں چنگیر دیکھ کر خود ہی دوڑی چلی آئیں۔ کچھ یوں کہ آدھا راستہ پنجوں کے بل طے کیا، تاکہ جلدی پہنچیں اور دوسریوں کی نسبت زیادہ حصہ وصول کریں۔ انہیں باسی روٹی کے ٹکڑے ڈالتے ہوئے غریب بیوہ افسردگی سے سوچنے لگی:
’’بس چار ہی باقی رہ گئی ہیں۔ ایک جنگلی بلے نے پھاڑ کھائی۔ ایک تاری کو ٹھنڈ لگی تو یخنی بنانے کے لئے ذبح کرنا پڑی اور ایک رات کو جیون جوگے، جیون خان اور اس کے بیلی کی خاطر پکانا پڑی ہے۔۔۔ مگراس کا مجھے کوئی غم نہیں۔ وہ نمانا پہلی بار میرا مہمان بنا ہے۔ ہمیشہ اسی نے مجھے دیا ہے۔ آج تک لیا کچھ نہیں۔ کپڑے لتے، اناج اور نقدی سے مدد کرتا رہتا ہے۔ شاداں کی شادی کے موقع پر چار ریشمی جوڑے، سونے کی بالیاں اور ڈھیر سارے پیسے بھی دئیے۔ میرے سر کا سائیں بھی زندہ ہوتا تو اس سے زیادہ کبھی نہ کر سکتا۔۔‘‘
چنگیر سنبھال کر وہ بھینس کی کھرلی کی جانب چل دی تاکہ اسے چارہ ڈال سکے۔
سورج شرینہہ کے اونچے پیڑ کے عقب میں چمک رہا تھا۔ فضا میں ڈنگروں کے پیشاب، گوبھر، بھس اور کھلی کی بو رچی ہوئی تھی۔ جب وہ بھینس کو چارہ ڈال رہی تھی تو تھان پر بندھا جیون خان کا گھوڑا کنڈا کر کے، گردن کو قوس نما بناتے ہوئے، نتھنوں سے پھرر پھر رکی آوازیں نکالنے لگا۔
’’ڈالتی ہوں، تجھے بھی ڈالتی ہوں!‘‘
وہ ڈنگر بولی سمجھ کر آپی آپ ہنسنے لگی۔ اس کے منہ میں دو ہی دانت تھے۔ جب وہ ہنستی تو اس کے پوپلے منہ سے ہنسی کم اور تھوک آمیز ہوا زیادہ خارج ہوتی۔
جانوروں کو چارہ ڈالنے سے فراغت پا کر وہ کھرے میں بیٹھ گئی اور رات کے جوٹھے برتن راکھ سے مانجھنے لگی۔ اسی اثنا ء میں صحن کا دروازہ دھڑ سے کھلا اور اس کی بڑی بیٹی حفظاں کا آٹھ نو سالہ بیٹا تاری دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔
’’نانی پلس! نانی پلس!‘‘
وہ اپنی گھگھو جیسی آواز میں جیسے کوئی خبر نشر کر رہا تھا۔
لمحہ بھر کے لئے مائی جنداں کا ذہن ماؤف ہو گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ پوری ہوش مندی سے اسے پھٹکارنے لگی:
بوتھاڑ بند کر! دانتوں تلے زبان دے!‘‘
برتن وہیں چھوڑ کر اس نے رسی سے میلی چادر اتار کر اپنا مہندی سے رنگا ہوا سر ڈھانپا اور صحن کے اس کونے کی طرف لپکی جہاں چھکڑے کا پرانا پہیہ دیوار کے ساتھ ٹکا ہوا تھا۔ قریب ہی تندور کا چبوترہ تھا۔ اس پر چڑھ کر اس نے سوکھے کھیتوں کی طرف نگاہ دوڑائی تو دل دھک سے رہ گیا۔
کچی سڑک پر پولیس کا گھوڑ سوار دستہ دھول اڑاتا گاؤں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ تھری ناٹ تھری بندوقوں سے مسلح پولیس کے جوانوں نے خاکی برجسیں، طرے دار پگڑیاں اور لس لس کرتے کالے چمڑے کے لانگ بوٹ پہن رکھے تھے۔ ان کے کیل کانٹے سے لیس، سجے سجائے صحت مند گھوڑے، دلکی چال کی ٹاپ دیتے، لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہے تھے۔
’’میرے مولا رحم کر!‘‘
وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے گڑگڑائی۔
وہ دعا بھی کرتی جاتی اور مضطرب نگاہوں سے کبھی پولیس اور گاہے اس کوٹھڑی کی طرف بھی دیکھتی جاتی، جس میں جیون خان اور اس کا ساتھی سوئے ہوئے تھے۔ اگر پولیس کا دستہ سر پر نہ پہنچ چکا ہوتا تو وہ دونوں کو خبردار کر دیتی۔ راہ فرار اختیار کرنے میں ان کی پوری مدد کرتی۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ سوائے دعا کے۔
دریائے جہلم اور چناب کے درمیان واقع گوندل بار کا علاقہ کچھ عرصہ سے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ انگریز سرکار نے مجرموں کی بیخ کنی کے لئے دور افتادہ دیہات کے لئے گھوڑ سوار پولیس کے خصوصی دستے تشکیل دئیے تھے۔ یہ دستے وقتاً فوقتاً متاثرہ دیہات کا گشت کرتے تھے تاکہ رہزن، فراری، ہتھیاچاری اور اسی قبیل کے دیگر مجرم علاقے میں پاؤں نہ جما سکیں۔ جس گھوڑ سوار دستے کو دیکھ کر مائی جنداں کی روح فنا ہو رہی تھی، وہ معمول کی گشت پر تھا۔ سپاہیوں کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ گاؤں کے دیگر مکانوں سے ہٹ کر، دھریک اور شرینہہ کے درختوں میں گھرا جو کچا مکان ہے، اس کے اندرپولیس کو بیسیوں وارداتوں میں مطلوب جیون خان ڈاکو اپنے ساتھی سمیت آرام کر رہا ہے۔
جیون خان جو خوف اور دہشت کی علامت تھا۔
جیون خان جو موت سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے سوتا اور اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے بیدار ہوتا تھا۔
وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ اس لئے غربت و افلاس کے رگیدے ہوئے مزدور اور دہقان اس کی مخبری کرتے تھے نہ اس کی خلاف گواہی دیتے تھے۔
گھوڑسواروں کا دستہ گاؤں سے باہر پیپل والے تالاب کے پاس رک گیا۔
گاؤں کی عورتیں اور الھڑ مٹیاریں پولیس کے جوانوں کے جمال کا نظارہ کرنے کے لئے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مرد بھی کسی، درانتی چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو گئے۔ بچے تالاب کے اونچے کنارے پر جمع ہو کر قدرے اشتیاق اور یک گونہ خوف کے مارے ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے۔
گاؤں کا سفید پوش نمبرداردستے کے استقبال کے لئے سب سے پہلے وہاں پہنچا ہوا تھا۔
دفعتاًسپاہیوں نے حوالدار کے حکم پر اپنی رائفلیں آسمان کے رخ سیدھی کیں اور ’’دستہ فائر!‘‘ کے کاشن پر ایک ساتھ ایک ایک روند ہوا میں فائر کر دیا۔
عورتوں اور بچوں نے ٹھائیں، ٹھائیں کی آوازوں سے سہم کر کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ درختوں پر بیٹھی ہوئی گھگھیاں، لالیاں، چڑیاں، طوطے اور کوے پر پھڑپھڑا کر فضا میں اڑ گئے اور ان کی چیخ و پکار سے ایک کہرام مچ گیا۔ گاؤں کے کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
فائر کے بعد سپاہیوں نے اپنی اپنی رائفل زین کی بائیں جانب سخت چمڑے کی میان میں نال کے بل ڈال دی۔ کچھ اس طرح کہ ساری رائفل مستور فقط اس کا دستہ باہر دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے بعد وہ کسی سے بات چیت کئے بغیر اگلے گاؤں کی سمت روانہ ہو گئے۔
چند جوشیلے لڑکے ان کے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگے۔ تین چار کتے بھی بھونکتے ہوئے گھوڑ سواروں کے پیچھے لپکے۔ مگر جلد ہی لڑکے تھک گئے اوران کے کتے بھی۔
ادھر مائی جنداں کے مکان کی کوٹھڑی پر موت کی خاموشی طاری تھی۔
وہ تندور کے چبوترے سے اتر کر کوٹھڑی کی جانب لپکی۔ دو بار دستک دینے پر جیون خان کے دوست نے دروازہ کھولا تو وہ ہانپتی ہوئی آواز میں بولی:
’’پلس کا دستہ آیا تھا۔ فائر انہوں ہی نے کیا تھا!‘‘
وہ مسکرایا۔
’’ہمیں اندازہ ہو گیا تھا۔ کیا پلسیے دفعان ہو گئے؟‘‘
’’ہاں، چبہ پھلروان کی طرف چلے گئے ہیں۔۔۔‘‘
’’یہ لوگ اسی طرح اپنی کاروائیاں ڈالتے ہیں۔‘‘ وہ جماہی لیتے ہوئے بولا ’’ہم جیسوں سے ٹکر لینے کی ان میں جرأت ہی نہیں۔ تم اپنا کام کرو۔ ہم تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘
روانگی کا وقت آیا تو گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے جیون خان نے سونے کا ایک قیمتی لاکٹ بڑی بے نیازی سے مائی جنداں کی طرف اچھالا۔
’’ ماسی! یہ رکھ لو۔ تمہاری خدمت کا انعام ہے۔‘‘
طلائی لاکٹ پا کر مائی جنداں کی باچھیں کھل گئیں۔ اپنی میلی چادر بازوؤں پر پھیلا کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اسے دعا دی:
’’شالا نظر نہ لگی! شالا لمی حیاتی ہووی! مولا تجھے پلس سے بچا کے رکھے! تیرا ہر ڈاکا کامیاب ہو۔۔۔‘‘
٭٭٭

ڈالی

نیا سال بھی دبے پاؤں گزرتاجا رہا تھا مگر سردار کی یورپ یاترا سے واپسی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اس کی عدیم الفرصتی کے سبب قبیلے کی بیسیوں کنواریاں، بیاہ کے انتظار میں بابل کی دہلیز پر بیٹھی، لو کی ماری امبیوں کی طرح پیلی پڑ رہی تھیں۔ سبھی چپکے چپکے شہید بابا کی زیارت پر جا کر اشک بار آنکھوں سے دعائیں مانگتیں کہ سردار جلدی لوٹ آئے تاکہ ان کی دلی مرادیں بر آنے کی صورت پیدا ہو۔
بارگاہ ایزدی میں سب سے زیادہ عرضیاں بابا بالاچ کی پوتی حجی نے ڈالی تھیں جسے پُنل سے ایسی محبت تھی جیسی چکوری کو چاند سے اور تتلی کو پھول سے ہوتی ہے۔ دونوں کے والدین ان کے سنجوگ پر آمادہ تھے۔ بس سردار کی آمد کا انتظار تھا جسے ڈالی پیش کئے بغیر قبیلے کی کسی کنواری کے ہاتھ پیلے نہیں کئے جا سکتے تھے۔
خدا خدا کر کے وہ مبارک دن طلوع ہوا تو شادی کی امیدوار دوشیزاؤں کے رخساروں پر شفق کی لالی جھلکنے لگی۔ حجی پر تو شادئ مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ پُنل سامنے ہوتا تو وہ خوشی سے دیوانی ہو کر اس کی گردن میں جھول جاتی مگر وہ گاؤں سے بہت دُور کسی نامعلوم مقام پر تھا۔ دونوں نے کئی ماہ سے ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھی تھی۔
اس روز گاؤں میں میلے کا سماں تھا۔ چہار اطراف سے قبائلی مرد، عورتیں اوربچے روایتی ملبوسات زیب تن کئے ٹریکٹر ٹرالیوں، اونٹوں اور خچروں پر سوار ہنستے گاتے چلے آ رہے تھے۔ جن کے گھر زیادہ دُور نہیں تھے وہ پا پیادہ پہنچ رہے تھے۔ الغوزے کی دھن اور ڈھولک کی تال پر رقص جاری تھا۔ کچھ لوگ کلا شنکوفوں سے ہوائی فائرنگ کر کے مسرت کا اظہار کر رہے تھے۔ تقریب کے لئے سردار کی حویلی کے سامنے کھلے میدان میں شامیانے اور قناتیں لگا کرکشادہ پنڈال سجایا گیا تھا۔ عام شرکاء کے لئے فرشی نشست اور عمائدین کے لئے اطراف میں کرسیوں کا انتظام تھا، جبکہ سردار کی خاطر ایک چبوترے پر سُرخ غالیچہ بچھا کر آرام دہ مخملیں منقش کرسی رکھی گئی تھی۔ شادی کی امیدوار کنواریاں گھونگٹ نکالے، اپنے والدین یا سرپرستوں کے ساتھ، چبوترے کے عین سامنے دو قطاروں میں سمٹ کر بیٹھی تھیں۔ ان کے دل انجانے اندیشوں اور وسوسوں سے دھک دھک کر رہے تھے۔
طویل انتظار کے بعد سردار کی آمد کا غلغلہ بلند ہوا۔ ہٹو بچو کی صداؤں اور مسلح محافظوں کے جلو میں شاندار پوشاک میں ملبوس وجیہہ اور با رعب سردار اپنی نشست پر جلوہ افروز ہوا تو منتظم نے تقریب کے باقاعدہ آغاز کی اجازت طلب کی۔ سردار نے با وقار انداز میں سر کو خفیف سی جنبش دی۔
سب سے پہلے ایک نہایت خستہ حال بوڑھا، سانولے رنگ کی مدقوق سی لڑکی کا ہاتھ پکڑے سردار کے روبرو حاضر ہوا۔ لڑکی بری طرح سہمی ہوئی تھی اور تپ لرزاں کے مریض کی طرح کانپ رہی تھی۔ بوڑھے نے ڈرتے ڈرتے، ڈالی کا تھال آگے کیا۔ ایک واقف حال تند خو کارندہ، جو وصولی پر مامور تھا، مستعدی سے اٹھا اور تھال پر پڑا ہوا کپڑا ہٹا کر، نتھنے پھلاتا، اپنی جگہ واپس جا بیٹھا تاکہ سردار سو سوکے چند میلے نوٹوں اور چاندی کے پرانے زیورات پر مشتمل حقیرسا نذرانہ اچھی طرح دیکھ لے۔ مگر سردار نے خلاف توقع ڈالی پر سرسری نگاہ ڈالی اور تھال پر ہاتھ رکھ کر بطور برکت قبولیت کا عندیہ دے دیا۔ اتنی کم ڈالی پر آج تک کسی لڑکی کو براہ راست پیا گھر رخصتی کا پروانہ نہیں ملا تھا۔ اس مہربانی پر بوڑھے کا جھریوں بھرا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے اپنے استخوانی بازو آسمان کی طرف بلند کر کے پوپلے منہ سے سردار کو ڈھیروں دعائیں دیں اور بیٹی کو لے کر رخصت ہوا۔
اس کے بعد درجنوں ڈالیاں پیش کی گئیں۔ قبائلی اپنی حیثیت سے بڑھ کر نذرانے لائے تھے تاکہ سردار کو راضی کیا جا سکے۔ عام دستور یہ تھا کہ جن کی ڈالی معقول نہ ہوتی، سردار انہیں بیٹی کا گھونگٹ اٹھا کر چہرہ نمائی کا حکم دیتا۔ لڑکی اگر پسند آ جاتی تو وہ ڈالی چھوڑ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا۔ اس کا مفہوم یہ ہوتا تھا کہ جب لڑکی دلہن بنے گی تو اس کی شب زفاف سردار کی خواب گاہ میں گزرے گی۔
قبیلے کے سردارکا یہ مسلمہ حق صدیوں سے رائج چلا آ رہا تھا۔
آخر میں بابا بالاچ نے اپنی بیوہ بہو اور لاڈلی پوتی حجی کے ساتھ سردار کی خدمت میں حاضری دی۔ تھال میں رکھی ہوئی رقم اس کی استطاعت سے کہیں زیادہ تھی جسے وہ بھاری سود پر ساہوکار سے لایا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ سردار اس کی ڈالی بخوشی قبول کر لے گا۔ مگر سردار کی عقابی نگاہوں نے پردے میں چھپی حجی کا حسن تابناک تاڑ لیا۔ اب اس کے لئے ڈالی میں کوئی کشش باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے اپنا بے پناہ اشتیاق آواز کی گھمبیرتا میں ملفوف کر کے، چہرہ نمائی کا حکم صادر کیا۔
بابا بالاچ کا منہ ایک ثانیے کے لئے اندھیری گھپا کی طرح کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ ماں کا کلیجہ جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ ایک اہلکار نے ڈپٹ کر سردار کا حکم دوہرایا تو وہ جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے ہڑبڑا کر بیدار ہوئی اور ہاتھ بڑھا کر بیٹی کا گھونگٹ کھول دیا۔ حجی کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑ گیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے زمین کی بساط اس کے پیروں کے نیچے سے کھینچ لی ہے اور وہ نیچے ہی نیچے کسی گہری پاتال میں گرتی جا رہی ہے۔
سردار نے حجی کے ٹھنڈے پسینے میں تر بتر خوبصورت چہرے اور بے ترتیب سانس سے زیرو زبر ہوتے سینے کے اُبھاروں کو پُر شوق نگاہوں سے پرکھا اور زیر مونچھ مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
اس شام عورتوں کی ہر منڈلی اور مردوں کے سارے حجروں میں یہی بات موضوع گفتگو تھی۔
اکثر عورتیں آپس میں ٹھٹھے مار کر اس رائے کا اظہار کر رہی تھیں کہ شادی کی پہلی رات پنل جیسے گنوار اور بے ڈھنگے نوجوان کی بجائے، سردار جیسے وجیہہ، طاقت ور اور تجربہ کار مرد کا قرب حجی کے لئے زیادہ پر مسرت اور رومان انگیزثابت ہو گا۔ وہ زندگی بھر اس رنگین اور سنگین شب کی یادیں بھول نہیں پائے گی۔
جہاں دیدہ بوڑھے غریب بالاچ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے جو سا ہوکار کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو گیا تھا۔
نوجوانوں کو پُنل سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی جسے شادی کی پہلی ہی رات ناقابلِ بیان کرب اور شدید احساس محرومی سے دوچار ہونا تھا۔
بابا بالاچ اور اس کی بہو نے تو حقیقت حال کو قبول کر لیا مگر حجی کی حالت قابل رحم تھی۔ رو رو کر اس کی نرگسی آنکھیں بوٹی کی طرح لال ہو گئی تھیں۔ ماں جب اسے سمجھا سمجھا کر عاجز آ گئی تو چاچی وزیراں کو بلا بھیجا۔ وہ جوانی میں اس نوع کے تجربے سے گزر چکی تھی۔ وہ آئی تو حجی نیم تاریک کوٹھڑی میں میلا سا کمبل اوڑھے چارپائی پر اوندھی پڑی تھی۔ اس کی دبی دبی سسکیاں کمرے کی بوجھل فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ ’
’ہاں حجی کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ سرہانے بیٹھ کر پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
’’میں مر جاؤں گی لیکن خود کو سردار کے حوالے نہیں کروں گی…‘‘ وہ بلکنے لگی۔
’’ جذباتی باتیں مت کرو۔ تمہارے ساتھ کچھ نیا نہیں ہونے جا رہا۔ یہ صدیوں پرانی روایت ہے۔‘‘
’’نہیں چاچی! میں پُنل کی امانت ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی مرد ہاتھ نہیں لگا سکتا…‘‘ وہ سر پٹکنے لگی۔
’پھر وہی احمقانہ باتیں …‘‘ چاچی وزیراں اسے ڈانٹنے لگی۔ ’’نادان۔ تم کیا سمجھتی ہو، تم پُنل کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہو گی…؟‘‘
’’میرا پُنل ایسا نہیں ہے۔‘‘ اس نے قطعیت سے کہا۔
’’خدا تمہاری خوش گمانی کی لاج رکھے۔ لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا کاہر مرد عورتوں کے معاملے میں کتے سے زیادہ حریص اور بلے سے زیادہ موقع شناس ہوتا ہے۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتی ہو چاچی ….؟‘‘ وہ زچ ہو گئی۔
’’ میں تمہیں یہ سمجھانے آئی ہوں کہ عفت اور عصمت کا فضول تصور اپنے دماغ سے جھٹک دو۔ یقین کرو سردار نے تمہارا انتخاب کر کے تمہاری عزت افزائی کی ہے۔ خواہ ایک رات کے لئے ہی سہی تم غربت و محرومی کے منحوس سائے سے دور، جنت جیسی نعمتوں اور آسائشوں سے پر خوبصورت خواب گاہ میں، خوشبو میں بسے خوبرو مرد کے وصل کا ذائقہ چکھو گی۔ اگلی صبح وہ تمہیں بڑی عزت سے قیمتی تحائف، زیورات اور ریشمی جوڑے دے کر رُخصت کر دے گا۔ .تمہارے لئے وہ رات ہمیشہ کے لئے ایک حسین خواب بن جائے گی۔ تمہاری اولاد بھی اس بات پر فخر کیا کرے گی کہ اس کی رگوں میں اعلا نسل کا خون دوڑ رہا ہے ….‘‘
وہ دیر تک طرح طرح کی دلیلیں دے کر اسے رام کرتی رہی۔ جب اس نے محسوس کیا کہ حجی کچھ نرم پڑ گئی ہے تو چادر سنبھالتی ہوئی اپنے گھر چلی گئ.
جب سے حکومت نے اس دُوراُفتادہ پسماندہ علاقے میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اور اپنی حاکمیت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا، سردار کو اپنی سرداری پر خطرات کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے تھے۔ تعلیم اور ترقی کے ممکنہ نتائج کو بھانپ کرسر کردہ سرداروں نے سرجوڑے تو مسلح مزاحمت کا فیصلہ ہوا۔ رعیت کو باور کرایا گیا کہ یہ جد و جہد مقامی وسائل کو غیروں کے قبضے سے واگزار کرانے کی سعی ہے۔ قبائل کی عزت، غیرت اور حمیت انہیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ وہ اغیار کے زیر تسلط زندگی بسر کریں۔ فراری کیمپ میں زیر تربیت جنگجوؤں میں پُنل بھی شامل تھا۔ اس کی ٹریننگ مکمل ہوئی تو دیگر سا تھیوں کے ساتھ اسے ایک خاص مشن پر بھیجا گیا۔ مخبروں کی اطلاع کے مطابق آئندہ رات ایک فوجی قافلہ شاہراہ سے گزرنے والا تھا۔ اسے ایک خطرناک پہاڑی موڑ پر گھات لگا کر تباہ کرنا تھا۔
وہ دن چڑھے گھر پہنچا تو نکاح کی تیاریاں مکمل تھیں۔ لیکن یہ جان کر اس کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی کہ آج شب اس کی دلہن کی ڈولی سردار کی حویلی میں جائے گی۔
اس نے رنج و غم سے بوجھل دل کے ساتھ ایجاب و قبول کی کاروائی میں حصہ لیا اور طے شدہ ملن گاہ کی راہ لی۔
ڈبل کیبن میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھات کے مقام کی طرف جاتے ہوئے وہ گاؤں کے سامنے سے گزرا۔ حجی کے گھر سے ڈھولک بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ عورتیں رخصتی کے گیت گا رہی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی گرم گرم سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل رہا ہو۔ لمحہ بھر کے لئے اس کا جی چاہا کہ چلتی گاڑی سے چھلانگ لگائے اور حجی کو لے کر کہیں دُور پہاڑوں میں رو پوش ہو جائے۔ لیکن وہ اپنے کمزور ارادے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ ایک بار اس کے دل سے بدعا نکلی کی خدا کرے قیامت خیز زلزلہ آئے اور سارا گاؤں ملیامیٹ ہو جائے، صرف وہ اور حجی زندہ بچیں۔ مگر فطرت نے، جو ازل سے بقائے برتر کے اصول پر عمل پیرا ہے، اس کی بچگانہ خواہش پر مسکرانے پر اکتفا کیا۔
دھیان بٹانے کے لئے وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔
دن بھر کا تھکا ماندہ سورج پہاڑوں کے عقب میں منہ چھپا رہا تھا۔ خانہ بدوشوں کا ایک قافلہ، جو لق و دق وادی میں انجانی منزل کی سمت محو سفر تھا، شب بسری کے لئے کھلے میدان میں پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ مرد خیمے گاڑ نے میں مگن تھے۔ جبکہ عورتیں اور بچیاں خشک جھاڑیاں اور گھاس اکٹھا کر رہی تھیں تاکہ آگ جلا کر رات کا کھانا تیار کر سکیں۔ خانہ بدوشوں کے پالتو کتے اِدھر اُدھر بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی تھوتھنیاں آسمان کی طرف بلند کر کے کسی غیر مرئی شے کا منہ چڑاتے اور پھر بھونکنے لگتے۔ جب انہوں نے گاڑی دیکھی
تو باؤلے ہو گئے اور بھونکتے ہوئے اس کا تعاقب کرنے لگے۔ وہ اس وقت تک نہیں ٹلے جب تک گاڑی نے گاؤں کی حدود کو پیچھے نہ چھوڑ دیا۔
موقعہ پر پہنچ کر کمانڈر نے سڑک پر بارودی سرنگ نصب کرنے کی ذمہ داری اسے سونپی اور باقی ساتھیوں کو ضروری ہدایات دینے لگا۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے انہوں نے گھات کی تیاری مکمل کر لی۔ اب انہیں فوجی قافلے کا انتظار تھا۔
پُنل ایک چٹان سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ دُور آسمان پر تارے بکھرے ہوئے تھے۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے اپنی قسمت پر غور کرنے لگا۔ کتنا بدنصیب تھا وہ۔ غلامی کی کیسی غیر مرئی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کے اختیار، ارادے، امنگوں اور آرزوؤں کا مالک سردار تھا۔ اس کی مجبوری اور بے بسی کی انتہا یہ تھی کہ عین اپنی شادی کے دن وہ سردار کے حکم کی تعمیل میں جان ہتھیلی پر رکھے، اس ویرانے میں پڑا تھا اور سردار۔۔۔ سردار اس کی حق حلال کی بیوی کے ساتھ شب باشی کی تیاری کر رہا تھا۔۔
اس کا خون کھولنے لگا۔
اسی لمحے کمانڈر کے سٹیلائٹ فون کی گھنٹی بجی اور وہ کسی سے محو گفتگو ہو گیا۔ فون بند ہوا تو وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:
’’شہر کی جانب سے سردار کی گاڑی آ رہی ہے۔ پُنل بارودی سرنگ ہٹا دو۔ گاڑی گزر جائے تو دوبارہ لگا دینا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ پُنل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر نشیب میں اُترتے ہوئے جواب دیا۔
سڑک پر پہنچ کر وہ رکا اور مڑ کر اوپر دیکھا۔ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک سفاک چمک پیدا ہوئی۔ وہ زیرلب مسکرایا اور بارودی سرنگ وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا
٭٭٭


بھوبل

رات بوڑھی ہو چکی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ درخت جھاڑیاں مکان سیاہ عفریتوں کی طرح پیچھے کو بھاگ رہے تھے۔ اندھیرا جیسے اونگھ رہا تھا۔ مجھے تھکن سی محسوس ہونے لگی۔ گاڑی اسی بے ڈھنگی رفتار سے پٹڑیاں بدل رہی تھی۔ میں نے ثریا کی طرف دیکھا وہ بے سُدھ پڑی سو رہی تھی۔ ننھا ارشد اس کے سینے سے لپٹا ہوا تھا۔ تینوں بچیاں دوسری سیٹ پر بے ترتیب پڑی تھیں۔ میں سگریٹ پھونکتا رہا اور سوچتا رہا کہ ثریا بہت پیار کرنے والی بیوی ہے اور بہت اچھی ماں بھی۔ میں نے پھر اُسے نظر بھر کے دیکھا۔ کتنی آسودگی اور اطمینان تھا اس کے چہرے پر۔ ویسا ہی جیسا منزل پر پہنچے کسی مسافر کے چہرے پر ہوتا ہے۔ گاڑی آہستہ ہو رہی تھی۔ ملتان آ گیا تھا۔ مسافر اُترے، چڑھے ہمارے ڈبے میں کوئی نہیں آیا۔ گاڑی روشنیوں کو پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ملتان دُور ہوتا جا رہا تھا۔ ملتان جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جہاں میرا سکول تھا، کالج تھا، گھر تھا، محلے کے لوگ تھے اور خالہ جہاں آرا اور ان کی بیٹی زہرہ تھی۔ وہی زہرہ جو قلفیاں تو مجھ سے لے کر کھاتی تھی مگر ڈولی میں کسی اور کی جا بیٹھی۔ خودغرض کہیں کی! کہتی تھی صرف تیرے نام کی مہندی رچاؤں گی اور جونہی میں جیل گیا کسی اور سے شادی رچا لی۔ میرے دل میں تلخی کا احساس جاگ اُٹھا۔
گاڑی پھر رُک گئی تھی۔ ہوائیں خاموش تھیں۔ میرے دل میں آندھیاں چلتی رہیں۔ گاڑی پھر چل پڑی۔ ہاں تو زہرہ نے کسی اور کا گھر بسا لیا اور میرا دل اُجاڑ دیا تھا۔ مجھے اس دن پولیس نہ پکڑتی تو ایسا ہرگز نہ ہوتا۔ نہ میں اس دن جلوس کا تماشا دیکھنے کھڑا ہوتا نہ پولیس کے لاٹھی چارج سے بھگدڑ مچتی نہ میں گرفتار ہو کر جیل پہنچتا اور نہ زہرہ کسی دو ٹکے کے کلرک سے بیاہی جاتی۔ مگر قصور شاید میرا ہی تھا کیونکہ میں تو ان دنوں دو ٹکے کا کلرک بھی نہیں تھا۔ بلکہ کلرک بننے کے لیے جوتیاں چٹخاتا پھر رہا تھا۔
اس دن میں ایک دفترے سے ’’کل آنا‘‘ کا سندیسہ لیے واپس آ رہا تھا۔ زہرہ کے سکول کے پاس جلوس نظر آیا تو میں کھڑا ہو گیا۔ چھٹی ہونے میں ایک گھنٹہ پڑا تھا۔ اماں نے مجھے جو تین روپے دئیے تھے اس میں سے سوا روپیہ ہی بچا تھا۔ چار آنے کے میں نے دل چاول کھا لیے اور باقی جیب میں رکھ لیے کیونکہ زہرہ قلفیاں بہت کھاتی تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ایک دم بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس پیچھے بھاگی میں اس طرح کھڑا تھا کہ نکلنے کا راستہ نہ تھا اور پتا اس وقت چلا جب پولیس نے میرے سمیت دس بیس کو اپنی ویگن میں بھر لیا۔ میرا واویلا کسی نے نہ سنا۔ میری تو سائیکل بھی وہیں رہ گئی تھی اور زہرہ کے سکول میں چھٹی ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے بال نوچ لیے۔
میں نے دو دن کچھ کھایا نہ پیا۔ بس آنسو پیتا اور غم کھاتا رہا۔ اماں کیا سوچتی ہوں گی۔ زہرہ نے تو رو رو کر آنکھیں سُرخ کر لی ہوں گی۔ مگر انہیں کون بتاتا کون تسلی دیتا۔ دوسرے دن ہمیں ایک شخص ملنے آیا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا۔ درمیانی عمر کا بھاری بھرکم شخص تھا۔ اسے دو پولیس والے ہمارے قریب چھوڑ گئے تھے۔ اُس نے دونوں کو بیس بیس روپے دے کر چلتا کیا۔ وہ کسی پارٹی کا کارکن تھا۔ میں نے اپنی بے گناہی کے بارے میں اسے بتانا چاہا مگر افضل نے اشارے سے مجھے چپ کرا دیا۔ وہ بولتا رہا، ہم سنتے رہے۔ اس نے ہماری جلد رہائی کا وعدہ کیا اور یہ بھی کہا کہ جیل میں رہنے تک ہمیں تین سو روپے ماہوار ملتے رہیں گے۔
دوسرے دن ماں آ گئی۔ اس نے رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا۔ نہ جانے کہاں کہاں روئی ہو گی۔ وہ روتی رہی، میں چُپ رہا۔ میں نے اُسے رونے دیا۔ سوچا ذرا بوجھ ہلکا کر لے تو بتاؤں گا کہ مجھے جیل میں بیٹھے بیٹھے کیسی اچھی نوکری مل گئی ہے۔ مگر اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں اُبھرا۔ وہ روتی رہی اور آنسو بہاتی ہوئی چلی گئی۔ میں نے افضل کے دامن میں مُنہ چھپا لیا۔
ایک سال گزر گیا۔ ہم میں سے آدھوں کی رہائی ہو گئی تھی۔ کچھ دوسری جیلوں میں منتقل ہو گئے تھے مگر مجھے لینے کوئی نہ آیا۔ میری ماں خیراتی ہسپتال میں خون تھوک تھوک کر مر گئی مگر کسی نے نہ سوچا کہ اس کی کھلی آنکھیں کسی کی راہ تکتی ہیں اور زہرہ کسی اور کی ڈولی میں جا بیٹھی اور کسی نے شہنائیوں کی چیخیں نہ سنیں۔۔۔
پھر افضل بھی چلا گیا۔ جاتے ہوئے مجھے تسلیاں دے رہا تھا مگر مجھے بیزاری سی ہونے لگی۔ کوئی بات اچھی نہیں لگتی تھی۔
وقت جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ اب میں لاہور جیل میں تھا۔ پھر وقت کے گندے اور ٹھہرے ہوئے پانی میں کہیں سے پتھر آ گرا۔ میری ضمانت ہو گئی تھی۔ وہ کون ہو سکتا تھا۔ جسے مجھ سے ایسی ہمدردی تھی۔ مجھے رہائی مل گئی مگر میں اُسے نہ دیکھ سکا۔ اُس نے کہا تھا کہ وہ گیٹ پر ہی موجود ہو گا مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ باہر کی دنیا بڑی عجیب لگ رہی تھی۔ دو سال کے بعد آزاد فضا میں سانس لیا تھا۔ مجھے بے اختیار اپنے مُحسن پر پیار آنے لگا۔ مگر یہ سب یک لمحاتی تھا۔ اگلے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس نے تو مجھے گھر بدر کر دیا تھا۔ مجھ سے میرا ٹھکانہ چھین لیا تھا۔ دو وقت کی روٹی چھین لی تھی۔ باہر کی دنیا میں میرے لیے رہ ہی کیا گیا تھا۔ جوں جوں سوچتا گیا اس سے پیار کا احساس کم ہوتا گیا۔ نفرت بڑھتی رہی۔ جی چاہا ابھی کسی کا سر پھوڑ کر واپس ہو لوں مگر پھر ماں کا چہرہ سامنے آ گیا جو ہمیشہ ایسے کاموں سے روکتی تھی۔ میری آنکھیں دھُندلانے لگیں۔
آج دوسرا دن تھا۔ میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ ایک چھوٹی سی پوٹلی جس میں کچھ کپڑے اور پیسے تھے، رات کسی نے سوتے میں اُچک لی تھی۔ آنتوں میں بُری طرح اینٹھن ہو رہی تھی۔ میں راوی کی طرف نکل گیا۔ زندگی بڑی بے کیف اور پھیکی لگ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے جی چاہا کہ اپنا بوجھ لہروں کے حوالے کر دوں۔ قریب تھا کہ میں ایسا کر گزرتا کہ دفعتاً مجھے اپنے قریب آہٹ سی محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا کوئی سزا یافتہ مجرم ہو گا کیونکہ ان میں سے کئی میری جیل کی زندگی کی وجہ سے مجھے اپنا ساتھی بننے کی دعوت دے چکے تھے۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ وہ افضل تھا۔ میں نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔
اس نے مجھے یاد دلایا۔ مجھے جھنجھوڑا۔ مجھے طمانچے مارے۔ بزدلی کے طعنے دئیے مگر میں بے حس بنا رہا۔ وہ سمجھا میں اس سے ناراض ہوں صفائیاں پیش کرتا رہا کہ اگر چچی کی طبیعت اچانک خراب نہ ہو جاتی تو وہ مجھے جیل ضرور لینے آتا۔ میں نے اس سے کچھ نہیں کہا کچھ نہ پوچھا۔ مجھے تو اپنی ہی خبر نہیں تھی۔ وہ روتا رہا۔ میں اسے ایک ٹک دیکھا کیا۔ مجھے اپنا وجود بے وزن لگ رہا تھا۔ وہ مجھے تقریباً اُٹھا کر اپنی کار تک لایا۔ گاڑی کہاں کہاں سے گزری مجھے کچھ ہوش نہیں۔ گھر میں کون کون تھا مجھے یاد نہیں۔ میں نے تو اپنا تماشا بنا لیا تھا۔ سب کچھ بے معنی سا لگتا تھا۔ افضل نے ان دنوں مجھے خوب رُلایا تھا۔ میری ماں کی موت اور میری بے گناہی کا خوب تذکرہ کیا تھا۔ زہرہ کا میں نے اسے نہیں بتایا تھا۔ بتاتا بھی تو وہ کیا کر لیتا۔ جب وہ خود ہی کچھ نہ کر سکی۔ آنسو میری آنکھ سے نکل کر ہاتھوں پر گرے تو میں چونک گیا۔
ثریا ابھی تک سو رہی تھی۔ رات ویسی ہی سیاہ تھی اور گاڑی کا انجن چیخ رہا تھا۔
پھر ثریا سے میری شادی ہو گئی۔ وہ افضل کی سالی اور اس کے چچا کی لڑکی تھی۔ وہی تو تھی جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دیکھتی تھی کہ لحاف کہیں میرے بستر سے نیچے تو نہیں گر گیا۔ میں نے کپڑے بدلے ہیں یا نہیں۔ کھانا کھایا ہے یا بھوکا ہی سو گیا ہوں۔ میں جو سارا دن کوچہ گردی کرتا تھا جب رات گئے گھر آتا تو وہی میرے لیے کھانا گرم کرتی اور مجھے زبردستی کھلاتی تھی۔ جب میں نہ کھاتا تو خود بھی نہ کھاتی تھی۔ میں انہیں کیا کہتا۔ وہ جو میرا اتنا خیال رکھتے تھے۔ چچی اپنی جگہ۔ افضل، رقیہ، سب۔ افضل جب شام کو دکان سے آتا تو میرے لیے خوشبوئیں، کپڑے نہ جانے کیا کیا اُٹھا لاتا۔ مگر میں ہمیشہ اس وقت غائب ہوتا۔ مجھ سے کبھی اس کا شکریہ بھی ادا نہ ہوا۔ بس مجھ سے اس کا سامنا نہیں ہو پاتا تھا۔ چچا کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ وہ فوت ہوئے تو افضل کو لاہور آ کر ان کا ٹائروں کا کاروبار سنبھالنا پڑا تھا۔ ملتان میں وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس رہتا تھا جو آج کل گلف میں تھا۔ ایک دو بار اس نے مجھے دکان پر لے جانے کی کوشش کی مگر مجھے اس کے پیار اور لگاؤ سے وحشت سی ہونے لگتی تھی۔ کبھی کبھی میرا جی چاہتا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں منہ کر جاؤں۔ مگر پھر ثریا پاؤں کی زنجیر بن جاتی تھی۔ اور پھر یوں ہوا کہ مجھے افضل کے سامنے اور ان سب لوگوں کی محبتوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ثریا سے میری شادی ہو گئی اور میں نے افضل کے ساتھ دکان پر جانا شروع کر دیا۔ شاید اسی طرح ان کی محبتوں کا خراج ادا ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔
مجھے وہ رات ابھی تک یاد ہے۔ وہ رات میں نے سگریٹ پھونک پھونک کر گزاری تھی۔ بڑی اندھیری رات تھی۔ میرے نصیبوں کی طرح سیاہ۔ ہواؤں نے اس رات خوب خوب بین کیے۔ کھڑکیوں سے سر پٹک پٹک کر روئیں۔ جب دُور کہیں کتے بھونکتے تو اُڑتے پتوں کی سرسراہٹ سے ایسے لگتا جیسے ان گنت چڑیلیں بال کھولے نوحہ کناں ہوں۔ میری اپنی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے اور سینے میں جیسے آندھیاں چل رہی تھیں۔ میں نے اس لال گٹھڑی کی طرف دیکھا جسے ثریا کہتے تھے۔ ایک پل کے لیے وہ غائب ہو گئی تھی اور وہاں زہرہ آ بیٹھی تھی۔ اس کی شوخ نگاہیں مجھے اپنے پاس بلا رہی تھیں۔ میں اس کے پاس جا بیٹھا۔ اسے دیکھتا رہا۔ اسے چھونا چاہا تو وہ غائب ہو گئی۔ وہاں صرف ثریا تھی۔ میرا بڑھا ہوا ہاتھ نیچے آ گیا۔ وہ پریشان ہو گئی۔ سمجھی میری طبیعت خراب ہے۔ میرا سر دبانے لگی۔ میں نے اپنا سر اس کی گود میں دے دیا۔ وہ میرا سر دباتی رہی۔ میں سگریٹ پھونکتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
ایسی کئی راتیں گزر گئیں۔ بہت دن گزر گئے۔ رفتہ رفتہ سب احساس مٹ گئے۔ اب تو بچے بھی بڑے ہو گئے تھے۔ بڑی بیٹی عذرا تیرہ سال کی تھی۔ لبنیٰ گیارہ سال کی اور آمنہ سات سال کی۔ ارشد ابھی دو سال کا تھا۔ ثریا بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی۔ بچوں کی تربیت اس نے بہت اچھے طریقے سے کی تھی۔ عذرا تو بالکل اپنی ماں پر گئی تھی۔ اب وہ آٹھویں میں پڑھتی تھی۔
گاڑی رُکی تو میرے خیالات کی رو بھی تھم گئی۔ گاڑی رحیم یار خان پہنچ چکی تھی۔ ہلکی ہلکی سفیدی پھیل رہی تھی۔ چائے والوں کے شور سے ثریا اور ارشد جاگ گئے تھے۔ بچیاں ابھی تک سو رہی تھیں۔ انہیں بھی اٹھایا۔ ان کے لیے ناشتہ لیا اور خود چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پرانے اخبار پر نظر دوڑانے لگا۔ دھیان پھر زہرہ کی طرف چلا گیا۔ اب تو اس کے بچے بھی کافی بڑے ہو گئے ہوں گے اور اس کا خاوند شاید وہ اب ہیڈ کلرک ہو گیا ہو۔ رقابت کا جذبہ پھر سر اُٹھانے لگا۔ اب اگر اسے معلوم ہو کہ میں کاروبار کرتا ہوں اور میرے پاس رہنے کو بنگلہ اور آنے جانے کے لیے کار ہے تو حیران تو ضرور ہو گی۔ اور شاید پچھتائے بھی۔ یہ سب لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ مطلب کی بنی ہوئی مورتیاں۔ وعدے کسی اور سے، شادی کسی اور سے کرتی ہیں۔
ثریا نے خود بھی کپڑے بدل لیے تھے اور بچوں کو بھی تیار کر دیا تھا۔ اب وہ مجھے آواز دے رہی تھی۔ میں نے بھی لباس تبدیل کیا۔ گاڑی روہڑی کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ ثریا کی خالہ اور خالو ہمیں لینے آ گئے تھے۔ وہ تو کئی دفعہ ہمارے یہاں آ چکے تھے مگر ہم پہلی بار آئے تھے۔ اس لیے بہت زیادہ دعوتیں ہوئیں۔ تقریباً ہفتے بعد واپسی کا پروگرام بنا۔ اس دوران دو دفعہ افضل کا فون آ چکا تھا۔ وہ لوگ بہت اُداس تھے۔ بمشکل اجازت ملی وہ لوگ ہمیں اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔ وہی راستہ تھا۔ وہی گاڑیاں، وہی لوگ۔ روہڑی میں پروگرام بنا کہ واپسی پر کچھ دیر ملتان ٹھہرا جائے۔ ثریا حیران تو ضرور ہوئی مگر وہ جانتی تھی کہ مجھے اپنا پرانا گھر اور محلہ دیکھنے کی کتنی آرزُو تھی۔ اس لیے وہ بخوشی رضامند ہو گئی۔ بچیاں بھی خوش تھیں۔
ملتان کافی بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ سترہ سال کچھ کم نہیں ہوتے۔ ہمارے محلے میں کافی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ جب ہم تانگے سے اُترے تو آس پاس کی کھڑکیوں سے کئی چہروں نے ہمیں جھانکا۔ ہمارا مکان جو ایک کمرے اور کچے صحن پر مشتمل تھا قرض خواہوں نے نیلام کروا دیا تھا۔ اب وہاں کوئی اور رہ رہا تھا۔ یہ بات ہمیں خالہ جہاں آرا نے بتائی جو اب بہت زیادہ بوڑھی ہو گئی تھیں۔ وہ میری ماں کی یاد میں آنسو بہا رہی تھیں۔ ثریا بھی رو رہی تھی۔ بچیاں بھی مغموم تھیں۔ زہرہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ شاید اپنے سسرال میں ہو گی۔ مگر پھر خالہ جہاں آراء کے پاس کون رہ رہا تھا؟ گھر کی حالت کافی سدھری ہوئی تھی۔ سامان بھی پہلے سے زیادہ تھا۔ اشیا کا قرینہ کسی دوسرے کی موجودگی کا پتہ دیتا تھا۔ میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دفعتاً کمرے کے دروازے پر کھٹکا سا ہوا۔ میں نے پیچھے دیکھا تو ساکت رہ گیا۔ وہاں زہرہ کھڑی تھی۔ وہ بھی جیسے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ مجھے اپنی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی دفعتاً خالہ جہاں آرا کی آواز گونجی۔
’’زہرہ بیٹی! آگے آؤ، دیکھو تو کون آیا ہے؟ یہ آصف ہے زینب کا بیٹا۔‘‘ مگر وہ وہیں چپ چاپ کھڑی رہی۔ مجھے لگا جیسے وہ زہرہ نہیں ہے۔ زہرہ تو مجھے دیکھ کر کھل اُٹھتی تھی مگر وہ تو مرجھائی ہوئی تھی۔ زہرہ کا رنگ تو میدے جیسا تھا مگر اس کے چہرے پر ہلدی سی ملی ہوئی تھی۔ زہرہ کی تو سیاہ گھنیری زُلفیں تھیں مگر اس کے بالوں میں دھوپ اُتر آئی تھی۔
دفعتاً اس کے ہونٹ ہلے شاید اس نے سلام کیا تھا۔ پھر وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اس نے میری خیریت پوچھی۔ میں نے ثریا کو اس کے بارے میں بتایا۔ زہرہ اس دوران چپ رہی پھر میں نے زہرہ کو ثریا کے متعلق بتایا وہ سنتی رہی اور ویران آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ مجھے ایسا لگا جیسے ٹمٹماتے اور بجھتے ہوئے دئیے کی لَو کچھ دیر کے لیے تھم گئی ہو۔ اس کے چہرے پر ایسے ہی تاثر تھے۔ پھر ایسی کیفیت اُبھری جیسے دئیے کی لَو تھرتھرا رہی ہو اور پھر مجھے اس کی آنکھوں میں دھُوئیں سے لہراتے نظر آئے۔ اس کے لبوں پر بجھی بجھی سی مسکراہٹ تھی۔ مجھ سے وہاں بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے زہرہ سے اس کی شادی کا تذکرہ نہیں کیا۔ خالہ جان اور ثریا کی وجہ سے جھجک محسوس ہو رہی تھی۔ خالہ جہاں آراء نے بتایا کہ زہرہ سکول میں سروس کرتی ہے شام کو گھر میں بچوں کو پڑھاتی ہے۔ بے چاری تھک جاتی ہے۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی ظاہر ہے کلرک کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے مگر اسے کس نے کہا تھا کہ کلرک سے شادی کرے۔ دو دن میرا انتظار نہ کر سکتی تھی۔ خودغرض۔ اب بھگتے بیٹھ کر۔ اب میری بیوی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ شاید اس کی قسمت پر رشک کر رہی ہو۔ رشک کیا۔ جل رہی ہو گی۔ اور پھر میں نے اس کو جلانے کے لیے ثریا سے خوب خوب باتیں کیں۔ بچوں سے بات بے بات پیار جتلایا۔ اسے خوب خوب دِکھایا سمجھتی کیا تھی اپنے آپ کو۔ کیا وہی رہ گئی تھی اس دنیا میں۔۔۔ پھر محلے کی کچھ عورتیں آ گئیں۔ جہاں آراء ان کے ساتھ مصروف ہو گئیں۔ میں باہر نکل آیا۔ سوچا چند پرانے شناساؤں سے مل لوں۔ لوگوں سے ملتے گھومتے پھرتے شام ہو گئی جب واپس آیا تو اندھیرا کافی پھیل چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ کچھ دیر نیچے بیٹھا پھر اوپر آ گیا۔ زہرہ ہمسایوں کے ہاں چلی گئی تھی۔ ہمارے بستر اوپر ہی بچھے تھے۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد ثریا سو گئی مگر مجھے نیند نہیں آئی۔ زہرہ آ کر سامنے کھڑی ہو جاتی تھی۔ یہی چھت تھی جہاں میں اور وہ تپتی دوپہروں میں گھنٹوں باتیں کیا کرتے تھے۔ یہیں ہم دونوں ملتے تھے اور نصیب ملانے کی باتیں کرتے تھے۔ اور یہیں اپنے آپ کو ایک دوسرے کی ہاتھوں کی لکیروں میں تلاش کرتے تھے۔ دل میں اِک ٹیس سی اُٹھی۔ میں کروٹیں بدلتا رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اب بھی میرے دل کے کسی گوشے میں موجود تھی مگر اعتماد کے شیشے کو تو اسی نے چکناچور کیا تھا مگر اس کی حالت بتاتی تھی کہ وہ اب بھی خوش نہیں ہے۔ نہ جانے اس کا خاوند کیسا تھا؟ وہ ہمیں نہیں ملا تھا۔ شاید کہیں باہر ہو اور اس کے بچے؟ اور مجھے ایک دم خیال آیا کہ زہرہ کے بچے تو کہیں دکھائی ہی نہیں دئیے تھے! شاید اسے یہی غم ہے۔ میں نے سوچا تبھی تو میرے بچوں کو اتنے پیار سے دیکھتی تھی۔
آج زہرہ نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی تھی اور مجھے بھی ثریا کی وجہ سے جھجک رہی تھی لیکن میں اس سے باتیں ضرور کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اس سے بہت سے شکوے کرنا تھے۔ اگر وہ میرا کچھ انتظار کر لیتی اور مجھے ذرا بھی اُمید ہوتی تو میں سیدھا ملتان واپس آتا۔ مگر اس نے تو میرا انتظار ہی نہیں کیا تھا۔ بلکہ میری گرفتاری کے صرف چار ماہ بعد شادی کر لی تھی۔ ہاں۔ بالکل چوتھے ماہ منیر مجھ سے ملنے آیا تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا۔ زہرہ اسے بھی بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ تھی ہی ایسی۔۔۔ ایک روز وہ مجھے ملنے آیا۔ جب جانے لگا تو میں نے اسے ایک بند لفافہ دیا کہ کسی طرح زہرہ کو سکول کے باہر دے دے۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد وہ دوبارہ ملنے آیا تو مجھے اُس کے چہرے کا کرب نہیں بھولتا۔ اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔ خط مجھے واپس کرتے ہوئے وہ مجھ سے آنکھیں نہ ملا پا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ادھر کیا ہو گا۔ مجھ سے آگے نہ سنا گیا۔ میری آنکھیں جلنے لگیں۔ وہ نہ جانے کب واپس چلا گیا۔۔۔
سگریٹ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے دوسری سُلگا لی۔ ساڑھے گیارہ ہو گئے تھے مجھے سخت پیاس لگ رہی تھی۔ حلق میں جیسے کانٹے چُبھ رہے تھے۔ میں پانی پینے کی غرض سے نیچے چلا گیا۔ سیڑھیوں کے ساتھ ہی غسل خانہ تھا۔ ٹونٹی سے تھوڑا پانی پیا۔ جی چاہا تھوڑی دیر زہرہ سے باتیں کروں شاید وہ جاگ رہی ہو۔ مگر دفعتاً خالہ جہاں آرا جو سامنے برآمدے میں سو رہی تھیں کروٹیں بدلنے لگیں۔ میں غسل خانے میں گھس گیا۔ شاید وہ جاگ گئی تھیں۔ میں کافی دیر دم سادھے اندر کھڑا رہا۔ پھر خود ہی باہر آ گیا آخر اس میں ایسی بات ہی کیا تھی۔ کوئی کسی بھی ضرورت کے تحت نیچے آ سکتا ہے۔ لیکن میرا خدشہ بے بنیاد رہا۔ وہ بے خبر سو رہی تھیں۔ زہرہ کی چارپائی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ صحن میں اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا غور سے دیکھا۔ برآمدے کے ایک کونے میں ایک چارپائی نظر تو آئی مگر وہ خالی تھی۔ زہرہ وہاں نہیں تھی۔ شاید وہ کمرے میں سونے کی عادی ہو یا شاید کسی ضرورت کے تحت اُٹھی ہو۔ سوچا کچھ دیر رکوں اور انتظار کروں۔ مگر پھر مجھے کچھ اچھا نہ لگا اور میں واپس پلٹ آیا۔۔۔ بہت آہستگی سے سیڑھیوں پر قدم رکھتا میں اوپر جانے لگا مبادا ثریا کی آنکھ کھل جائے مگر اگلے ہی لمحے مجھے رُکنا پڑا۔ زہرہ میری چارپائی کے قریب کھڑی اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس کی پشت میری طرف تھی۔ جی چاہا جلدی سے اس کے پاس جا پہنچوں۔ مگر پھر ثریا کا سراپا میری نظروں میں گھوم گیا اور میں اُلٹے پاؤں نیچے آ گیا۔ میرا دل بُری طرح دھڑک رہا تھا۔ میں نے جلدی سے صحن کا دروازہ کھولا اور باہر آ گیا۔
باہر کی ہوا لگی تو سانسیں بحال ہوئیں۔ میں کافی دیر سڑکوں پر بے مقصد گھومتا رہا۔ چوک میں سینما کے پاس چند ہوٹل اور دکانیں ابھی تک کھلی ہوئی تھیں۔ کچھ دیر ادھر بیٹھا، چائے پی، سگریٹ لیے اور واپس پلٹ آیا۔ ایک بج رہا تھا۔ میں نے صحن کے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے زہرہ کی چارپائی کی طرف نہیں دیکھا۔ خاموشی سے صحن پار کر کے اوپر آ گیا۔
ثریا ابھی تک بے خبر سو رہی تھی۔
صبح ہم جاگے تو سورج کا انار چھوٹ رہا تھا۔ جلدی جلدی تیار ہوئے اور ناشتے کی میز پر آ گئے۔ ناشتے پر زہرہ نے کافی اہتمام کیا تھا۔ فارغ ہو کر میں تانگہ لینے چلا گیا۔ سوا چھ بجے تھے۔ گاڑی ساڑھے سات بجے آنی تھی۔ تانگہ باہر کھڑا کیا اور میں خود سامان لینے اندر آ گیا۔ زہرہ ابھی تک چولہے میں لکڑیاں جھونک رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے بُری طرح پانی بہہ رہا تھا۔ ثریا نے پوچھا۔
’’تمہاری آنکھیں بہت دُکھتی ہیں۔ بہت پانی بہہ رہا ہے ان سے؟‘‘
’’ہاں وہ۔ وہ گیلی لکڑی دھُواں دینے لگی تھی نا۔ اس۔ اس لیے۔‘‘
اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں مزید دھُندلا گئیں۔ مجھ سے ادھر دیکھا نہ گیا میں جلدی سے باہر آ گیا۔ خالہ جہاں آراء دروازے تک آئیں اور دعاؤں سے ہمیں رخصت کیا۔ وہ دونوں دروازے میں کھڑی رہیں یہاں تک کہ تانگہ گلی کا موڑ مُڑ گیا۔
گاڑی لاہور کی طرف رواں دواں تھی۔ ثریا خالہ جہاں آراء اور زہرہ کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔
’’آخر اس زہرہ کو اپنی ماں پر ترس کیوں نہیں آتا۔ ماں نے منتیں کی ہیں رو رو کر سمجھایا ہے مگر کہتی ہے کہ زندگی بھر شادی نہیں کروں گی۔ اب تو ماں بھی سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہے۔‘‘
اور مجھے ایسے لگا جیسے گاڑی پٹڑی پر نہیں میرے سینے پر چل رہی ہو۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل