FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حمد و مناجات (شرعی روشنی میں)

               منظور الحسن منظور

۱۵ الفنسٹن روڈ، کھڑکی، پونے  ۴۱۱۰۰۳(مہاراشٹر)

دعا، مناجات، التجا، گزارش، دہائی، فریاد، معاونت یا استعانت یہ سارے  الفاظ فکری لحاظ سے  ایک ہی قبیل کے  ہیں۔ معمولات زندگی میں اگرچہ تقاضائے  بشری کے  تحت عدل و انصاف اور اپنے  حقوق کے  تحفظ کی خاطر متعلقہ، افسران و صاحب اقتدار کے  پاس داد گستری کے  لئے  جانا پڑتا ہے  لیکن جب ان الفاظ کا رشتہ براہ راست خالق کائنات سے  وابستہ ہوتا ہے  تو نہ صرف ان کا احاطہ فکر وسیع و آفاقی ہو جاتا ہے  بلکہ ان میں  عقیدتوں  کی پاکیزگیوں  کے  ساتھ ادب و احترام کی نازکی اور روحانی لطافت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت جو بھی ان الفاظ کے  معنی، مطالب اور دعا مانگنے  کے  آداب جانتا ہے  اور اللہ تعالیٰ کونہ صرف اس کے  ایک ذاتی نام سے  پہچانتا بلکہ اس کے  سینکڑوں  صفاتی نام یعنی ۹۹ اسمائے  حسنیٰ سے  بھی واقفیت اور ان کے  روحانی اثرات پر مکمل یقین اور اعتقاد رکھتا ہو تو ایسا  خدا شناس شخص وہ چاہے  حالت عشرت میں اپنی جھونپڑی میں رہتا ہو یا دولت سے  بھرے  محلوں  میں، وہ آقا ہویا غلام، دہقان و کسان ہو یا  امیر ذیشان، قلندر ہو کہ سکندر، شاہ ہو کہ گدا، ڈاکٹر،عالم، انجینئر یا سائنسداں  ہو یا ناخواندہ سیدھا سادھا ملازمت پیشہ انسان۔ ان کی زندگی کے  تمام گوشے، سکھ دکھ، اونچ نیچ، دھوپ چھاؤں  یہاں  تک کہ فرط انبساط اور دلفگار غم میں  بھی آپ کو ان میں  ایک ایسی دلربائی یکساں  کیفیت نظر آئے  گی جو حمد  و مناجات کے  منکر لوگوں  سے  بالکل جدا اور پرکشش نظر آئے  گی اور ان کے  چہروں  پر قلب مطمئنہ کا جلال یکساں  نظر آئے  گا۔ یہ ہر حال میں راضی بہ رضا رہیں گے۔ خوش و خرم ہیں  تو الحمد اللہ کہہ کر اس رحمن و رحیم کے  احسان کو جتائیں  گے  اور اگر مصائب و مشکلات میں گھرے  ہوئے  ہونگے  تو اس وقت بھی فرخندہ جبیں  سے  مرضی مولا از ہمہ اولیٰ کہہ کر اپنے  صبر و استقامت کا اظہار کریں  گے۔ یہی بات انہیں  کفر و شرک سے  بچائے  رکھتی ہے  جو حاصل عبادت ہے۔ اس کے  برعکس وہ لوگ جو دعا اور حمد و مناجات کے  منکر ہیں  یا صرف روایتی طور پر دعائیں  پڑھتے  ضرور ہیں  لیکن ان کی روحانی ضرورت، اہمیت اور مطالب سے  ناواقف محض ہیں  انہیں  آپ زندگی کے  کسی بھی اعلیٰ، با اثر اور با اقتدار حالت میں  دیکھئے  یا تونگری میں بام عروج پر، یہ کبھی سکون و راحت میں مطمئن نظر نہ آئیں  گے  کیونکہ ان کے  دلوں  میں  ایک اللہ کے  ڈر کی بجائے  اس دنیائے  فانی کے  سینکڑوں  ڈر، خوف، دہشت، وحشت اور وساوس نے  جگہ بنا رکھی ہے  جو انہیں  ہمیشہ بے  چین اور بے  قرار رکھتی ہے۔ بمقابلہ ان کے  اہل دعا کی مطمئن اور پراعتماد زندگی کا بڑا سربستہ راز یہ ہے  کہ بس ایک اللہ کے  ڈر اور محبت کو دل میں  بسالو اور دنیا کے  سارے  مادی ڈر اور خوف وحشت سے  نجات پالو۔ جو مانگنا ہو وہ اسی خالق کائنات سے  مانگو اور در در کاسۂ گدائی لے  کر پھرنے  سے  بچے  رہو، ساری توقعات اسی رب کریم سے  وابستہ رکھ کر ساری دنیا سے  بے  نیاز ہو جاؤ ا ور ببانگ دہل کہو کہ:

دامن حسن ازل ہے  جس کے  قبضے  میں  مدام

اس کے  ہاتھوں  میں خدائی قبضے  میں مدام

آستان ناز پر جس کی جبیں  ہے  سجدہ تو کیا

اس کو کوئی تاج سلطانی بھی پہنائے  تو کیا؟

یہ انداز زندگی اللہ کے  انہی نیک اور مخلص بندوں  کو حاصل ہے  جو قرآن حکیم کی حسب ذیل آیات پر ایمان لائے  ہوئے  ہیں  اور اس پر عمل کرتے  ہیں :

(۱)        (اللہ)دعا قبول کرتا ہے  بے  بس بے  قرار کی، جب وہ اسے  پکارتا ہے (سورۂ نمل:۶۲)

(۲)       رب نے  کہا مجھ سے  دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں  گا۔ (المومن:۶۰)

(۳)      کہیے  کہ میرا پروردگار تمہاری پروا نہیں  کرتا، اگر تم دعا نہ مانگو۔ (الفرقان:۷۷)

دعا اور حمد و مناجات  پر عبادت کی روح اور مغز ہے۔ وہ بندے  جو اپنی عبادت کے  بعد اللہ رب العزت کو حاضر و ناظر جان کر عجز و انکسار اور خلوص دل سے  مناجات اور اپنی عافیت کے  لیے  دعا نہیں  مانگتے  اس مالک حقیقی کی تعریف و توصیف بیان نہیں  کرتے  تو اللہ تعالیٰ نہ ان کی نماز و عبادت کا محتاج ہے  نہ ان کی نذر و نیاز کا بلکہ ایسے  لوگ بارگاہ الٰہی میں  مغرور، خود سر، گستاخ، بے  ادب، بے  روح و مردہ انسان کی مصداق ہیں۔ نہ صرف اللہ تعالیٰ ہمیں حمد و مناجات کرنے  کی تاکید دیتا ہے  بلکہ ہمارے  پیغمبر خاتم المرسلینؐ بھی ہمیں  ہدایت دیتے  ہیں کہ:

 ’’اللہ نے  فرمایا ہے  کہ میرے  بندو! تم میں  سے  ہر ایک گمراہ ہے  سوا اس کے  جس کو میں  ہدایت دوں۔ پس تم مجھ ہی سے  ہدایت طلب کرو کہ میں  تمہیں  ہدایت دوں۔ میرے  بندو! تم میں سے  ہر ایک بھوکا ہے  سوا اس شخص کے  جس کو میں  کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے  ہی روزی مانگو تومیں تمہیں  روزی دوں۔ میرے  بندو!تم میں سے  ہر ایک ننگا ہے  سوا اس کے  جس کو میں  پہناؤں۔ پس تم مجھ ہی سے  لباس مانگو تاکہ میں تمہیں  پہناؤں۔ میرے  بندو!تم رات میں بھی گناہ کرتے  ہو اور دن میں بھی۔ مجھ ہی سے  مغفرت چا ہو میں  تمہیں  بخش دوں  گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم)

اللہ کے  مقربین اور صالحین بندوں  کا یہ کہنا ہے  کہ بارگاہ الٰہی میں  مناجات کرنے  کے  لیے  یہ ضروری ہے  کہ اس کی شروعات حمد باری تعالیٰ سے  ہو اور اپنے  مدعائے  دل کے  مطابق اللہ تعالیٰ کے  مختلف اسمائے  حسنیٰ کو بھی دہراتے  رہیں۔ قرآن حکیم بھی ایسے  ہی طرز بیان کی تلقین کرتا ہے۔ مناجات کا اسلوب ایسا ہو کہ اس میں  بندہ اللہ کو ’’علی کل شیئٍ قدیر‘‘ تسلیم کر کے  اپنی عاجزی، انکسار، بے  کسی اور مجبوریوں  کا اظہار کرے  اور پھر اپنا مدعائے  دل کچھ ایسے  خشوع و  خضوع اور دل گداز انداز میں پیش کرے  کہ اللہ کو اس بندۂ عاجز پر رحم آ جائے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے  بذات خود برائے  تعلیم و تربیت ایسی ان گنت آیات اور حمد و مناجات کے  مکمل مرقع پیش کئے  ہیں  جن میں  سے  سورۃ فاتحہ کو ایسا مقام ارفع حاصل ہوا ہے  کہ ہر  نماز چاہے  وہ سنت و فرض ہو یا واجب و نفل ہو، ان کی شروعات اسی سورۃ فاتحہ سے  ہونی چاہئے  ورنہ وہ نماز ناقابل قبول ہو گی۔ کیونکہ اس میں  حمد اور مناجات دونوں  کا بڑا دلکش اور روحانی امتزاج ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ سے  روایت ہے  کہ نبی کریمؐ نے  فرمایا:

 ’’سورہ فاتحہ ام القرآن ہے  اس جیسی افضل کوئی سورۃ نہ اس سے  پہلے  توریت میں نازل ہوئی اور نہ انجیل میں ‘‘ (ترمذی)

اسی سورۃ فاتحہ کی عظمت سے  متعلق اللہ رب العزت نے  فرمایا:

 ’’(اے  میرے  پیارے  نبیؐ)ہم نے  دی ہیں تجھ کو سات آیتیں، بار بار دہرائے  جانے  والی اور قرآن۔ ‘‘ (الحجر:۸۷)

اسی سورۃ فاتحہ کی آیات سے  متعلق حدیث قدسی ہے  کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے :

 ’’جب کوئی نمازی الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے  تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ میری تعریف کی۔ اور جب نمازی الرحمن الرحیم کہتا ہے  تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ میرے  بندے  نے  میری توصیف کی اور جب نمازی مالک یوم الدین کہتا ہے  تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ میرے  بندے  نے  میری بزرگی بیان کی اور اپنے  سب کام میرے  سپرد کر دئیے۔ نمازی جب ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھتا ہے  تو اللہ فرماتا ہے  یہ میرے  اور میرے  بندے  کا آپس کا معاملہ ہے۔ میرا بندہ جو سوال کرے  گا وہ اس کو ملے  گا۔ پھر جب نمازی یہ پڑھتا ہے  اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین۔ تو اللہ فرماتا ہے  کہ یہ سب میرے  اس بندے  کے  لئے  ہے  اور یہ جو کچھ طلب کرے  گا وہ اسے  دیا جائے  گا۔ قرآنی مناجات کا  یہ بھی ایک انداز ہے  جو دور حاضر کی فریاد اور داد خواہی معلوم ہوتی ہے۔

٭         ’’پروردگار!ہماری گرفت نہ کرنا، اگر بھول جائیں  ہم۔ پروردگار! اور ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا جس کے  اٹھانے  کی ہم میں  طاقت نہیں  اور ہمیں  معاف کر اور ہمیں  بخش دے  اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے۔ تو ظالم کافروں  کے  مقابلے  میں  ہماری مدد فرما۔ ‘‘ (البقرہ:۲۸۶)

٭         ’’اے  رب ہمارے  نہ آزما ہم  پر زور اس ظالم قوم کا اور چھڑا دے  ہم کو ان کافروں  سے۔ ‘‘ (یونس:۸۵)

٭         ’’اے  اللہ مت جانچ ہم پر ان کافروں  کو اور ہم کو معاف کریا اللہ تو ہی زبردست حکمت والا ہے۔ (الحشر:۵)

یہ سب التجائیں  رسول ا کرم ؐ نے  معراج میں  بارگاہ الٰہی میں پیش کی تھی۔ (طبری و مودودی)

روزمرہ کی زندگی میں روز و شب پڑھی جانے  والی اور قہر آلودہ مشکلات میں پیش کی جانے  والی قرآنی مناجات اور وہ ادعیہ ماثورہ جو سرکار دو عالمؐ سے  منقول ہیں بڑی افادیت کی حامل ہیں  جس کا جاننا ہر مومنین  و مومنات کے  لئے  بہت ضروری ہے۔ بارگاہ الٰہی میں  صدق دل سے  خشوع و خضوع کے  ساتھ مناجات کرنے  اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں  مانگنے  کی فضیلت سے  متعلق صحیح بخاری، مسلم اور ترمذی و ابن ماجہ میں  ایسی بیسیوں  حدیثیں  ہیں۔ ان میں  سے  صرف چند حدیثوں  کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

(۱)        نبی کریمؐ نے  فرمایا دعا مانگنا بعینہ عبادت کرنا ہے  پھر آپ نے  بطور دلیل قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:(ترجمہ) ’’اللہ نے  فرمایا ہے  مجھ سے  دعا مانگا  کرو میں  تمہاری دعا  قبول کرونگا۔ بے  شک جو لوگ (از راہ تکبر)مجھ سے  دعائیں  نہیں مانگتے  عبادت سے  سرتابی کرتے  ہیں  وہ ضرور جہنم میں داخل ہوں  گے  ذلیل و خوار ہو کر۔ ‘‘

(۲)       رسول اللہ نے  فرمایا:قضا و قدر سے  بچنے  کے  لئے  کوئی تدبیر فائدہ نہیں  دیتی۔ ہاں  اللہ اس آفت و مصیبت میں  بھی نفع پہنچاتا ہے۔ جو نازل ہو چکی اور اس مصیبت میں بھی جو  ابھی تک نازل نہیں ہوئی اور بے  شک بلا نازل ہونے  کو ہوتی ہے  کہ اتنے  میں  دعا اس سے  جا ملتی ہے۔ پس قیامت تک (بلا اور دعا) میں  کشمکش ہوتی رہتی ہے۔ (اور انسان دعا کی بدولت اس بلاسے  بچ جاتا ہے۔)

(۳)      خاتم المرسلینؐ نے  فرمایا:جو شخص(از راہ تکبر) اللہ تعالیٰ سے  دعا نہیں  مانگتا اللہ اس سے  ناراض ہوتا ہے۔

(۴)      آں  حضرتؐ نے  ارشاد فرمایا:جو شخص یہ چاہے  کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں  سختیوں  اور مصیبتوں  کے  وقت قبول فرمائے  اس کو چاہئے  کہ فراخی اور خوشحالی میں بھی کثرت سے  دعا مانگا کرے۔

(۵)      رسول ا کرمؐ نے  ارشاد فرمایا کہ:دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے  اور آسمان و زمین کانور۔

جلیل القدر اولیاء کے  ملفوظات میں  اس بات کی وضاحت نہایت ہی تفصیل سے  کی گئی ہے  کہ اللہ کے  بندوں  کو زندگی میں پیش آنے  والی مختلف ضرورتوں  کے  حل، بہت سی رکاوٹوں  سے  نجات اور اپنی کئی جائز تمناؤں  کی حصول یابی کی حاجت ہوتی ہے۔ اسی طرح آسمانی و زمینی آفات، مشکلات، بلیات، فتنہ و فساد اور قتل و غارتگری کے  تدارک و دفع کی خاطر بے  چین و بے  قرار رہتے  ہیں  انہیں  چاہئے  کہ قرآنی دعاؤں  کے  ساتھ حسب موقعہ ایسی بے  شمار دعائیں  اور مناجات احادیث کی کتابوں  میں موجود ہیں جو سرکار دو عالمؐ سے  منقول ہیں  انہیں  بطور دعا پڑھیں  اور ساتھ ہی ساتھ پیش آمدہ ان آفات کے  انسداد کے  لئے  مناسب عملی جدوجہد بھی جاری رکھیں۔ چونکہ قرآنی دعائیں  تو  اللہ کا کلام ہیں  ہی اور دعائیں  ماثورہ حبیب اللہؐ کا کلام ہے۔ اس سے  بڑھ کر پر اثر، مقدس اور معتبر کلام اور کس کا ہو سکتا ہے  اس لئے  ہدایت ہے  کہ اپنی حسب ضرورت دعائیں  اور مناجات قرآن اور ادعیہ ماثورہ ہی سے  اخذ کر کے  اور ان کے  تراجم کو دل  و دماغ میں  رکھ کر نماز کے  فوراً بعد مانگی جائیں۔ جن میں  قبولیت کا اثر بدرجہ غایت موجود ہوتا ہے  کیونکہ یہ اللہ و رسولؐ کا کلام مقدس ہے۔

انفرادی طور پر ہر شخص کی ضروریات اور مشکلات مختلف ہوتی ہیں  وہ اپنی دعائیں  مسجد یا گھر میں  علیحدہ طور پر مانگ سکتا ہے۔ لیکن امت اسلامیہ کے  اجتماعی اعمال و کردار کے  پیش نظر ان کی اجتماعیت کو مربوط و مستحکم کرنے  کے  لیے  ہر با جماعت نماز کے  بعد امام مسجد کو چاہئے  کہ بہ  آواز بلند نہایت ہی خشوع و خضوع کے  ساتھ حسب ضرورت اجتماعی دعائیں  مانگے  اور دعا کے  اختتام پر تمام مقتدی بہ آواز بلند آمین ثم آمین کہیں۔ یہ اجتماعی عمل نبی کریمؐ نے  جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ احزاب(خندق) کے  علاوہ تمام غزوات سے  پہلے  مجاہدین صحابہ کرامؓ کے  ساتھ مل کر کیا ہے۔ یہ اجتماعی عمل سنت رسولؐ کی ایک بہت بڑی اور اہم کڑی ہے۔ جس میں  قرآنی اسرار اور روحانی رموز کا ایک ایسا بحر بیکراں  ہے  جس کے  اور چھور کا پتا چلانا مشکل ہے۔ کتب اور احادیث اور سیرت پاکؐ میں  مرقوم ہے  کہ ایسے  قہر آلودہ حالات میں  آپؐ نے  ہر نماز فجر کے  فرض نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے  اٹھنے  کے  بعد کھڑے  کھڑے  دعائے  قنوت نازلہ پڑھ کر سجدے  میں  جانے  کی ہدایت کی ہے (مزید تفصیلات کے  لئے  اپنے  امام مسجد سے  پوچھ لیجئے) اجتماعی حمد و مناجات کا یہی تو وہ پراسرار فلسفہ ربانی ہے  جس نے  تمام دنیا کے  مسلمانوں  کو دور حاضرہ کے  انتہائی تباہ کن حالات میں  بھی اپنے  ایمان و یقین پر قائم اور مستحکم رکھا ہے۔

اس ضمن میں  اگر میں  حسب ذیل افسوس ناک واقعہ یہاں  نہ لکھوں  تو یقیناً یہ ایک علمی خیانت ہو گی۔ قارئین اسے  غور سے  پڑھیں  اور سوچیں  کہ ہم تاریخ کے  کس ہیبت ناک دور سے  گزر رہے  ہیں  کہ ہمارا طریقہ عبادت اور اجتماعیت بھی اب دیگر اقوام کو کھٹکنے  لگا ہے  اور وہ ہمیں  اس سے  باز رکھنا چاہتے  ہیں۔ اپنے  حج بیت اللہ کے  دوران ذی الحجہ ۱۴۲۳ھ ماہ فروری ۲۰۰۲ء میں مکمل ایک مہینے  تک میرا قیام مکہ معظمہ میں رہا۔ مناسک حج کی تکمیل کے  بعد میرے  بیشتر اوقات کعبۃ الہ ہی میں  گزرے۔ اس دوران جملہ نماز پنج گانہ بشمول نماز جمعہ امام کعبہ ہی کے  اقتدا میں پڑھی۔ یہ عالمی سیاست کا ایک ایسا تکلیف دہ دور تھا کہ عراق پر امریکہ کے  پہلے  حملے  کے  زخم ابھی تازہ ہی تھے  اور دوسرے  تباہ کن حملے  کی تیاریاں  جاری تھیں۔ امریکی بمباروں  سے  افغانستان خون میں  سراپا غلطاں  ہو چکا تھا۔ فلسطین کے  مسلمانوں  پر صیہونی عذاب کی خبریں  ہر روز اخباروں  میں  آ رہی تھیں۔ ۲۸ فروری سے  ہندوستان میں گجرات کے  مسلمانوں  کے  قتل عام کی خبروں  نے  تمام زائرین حرم کو بے  چین کر رکھا تھا۔ مذہب اور دل کا تقاضہ بھی تھا کہ نماز کے  بعد امام کعبہ بھی ان مصیبت زدہ مسلمانوں  کی نجات اور راحت کے  لئے  رب کعبہ سے  گڑگڑا کر دعائیں  مانگے  لیکن میرے  لئے  یہ بات انتہائی روحانی اذیت کا باعث بنی رہی کہ امام کعبہ نے  اس ایک مہینے  میں  کسی ایک نماز میں بھی اس عالمی قتل و غارت گری کے  انسداد کے  لئے  اللہ تعالیٰ سے  اجتماعی دعائیں  نہیں  مانگیں۔ امام کعبہ کی اس غیر متوقع اور غیر شرعی حرکت پر میں  نے  جب وہاں  کے  مقتدر و معتبر مقامی حضرات سے  استفسار کیا تو انھوں  نے  بڑے  رازدارانہ انداز میں  بتایا کہ فروری ۱۹۷۹ء میں  ایران میں  اسلامی انقلاب آنے  کے  بعد اس کے  اثرات کو وسیع ہونے  سے  روکنے  کے  لئے  امریکہ نے  سعودی حکومت کو سخت تاکید دی کہ حج بیت اللہ ہر مسلمان کی انفرادی عبادت ہے  اسے  عملاً و قولاً عالمی اجتماعیت سے  بچائے  رکھے۔ اس لئے  اس تعلق سے  کعبۃ اللہ میں  اب اجتماعی دعائیں  نہیں  ہوتیں !گویا سعودی حکومت نے  کعبۃ اللہ میں بھی امریکہ اسلام نافذ کیا ہے۔ میں  نے  اپنی تازہ تصنیف ’’سرود جاوداں ‘‘ کے  صفحہ ۱۰۲ پر ’’حج بیت اللہ میں  اجتماعی دعاؤں  کی اہمیت‘‘ کے  عنوان سے  اس موضوع پر ایک توجہ طلب مضمون لکھا ہے۔

مناجات کی اہمیت اور اس کے  روحانی اثرات سے  متعلق سرکار مدینہ محمد   مصطفی ﷺ کی حیات طیبہ میں کئی تاریخی واقعات موجود ہیں  جن کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اسی نقطہ نظر سے  اس تاریخی واقعہ کو بھی پڑھئے  جو آج کے  حوصلہ فرسا اور پر فتن دور سے  بڑی گہری مماثلت رکھتا ہے :

شوال   ۵ھ میں  مدینہ منورہ کے  اطراف کے  یہودیوں، منافقوں  اور مکہ کے  قریشیوں  نے  ایک بہت بڑا لشکر جرار لے  کر مدینہ منورہ پر حملہ کر دیا یہ لشکر کفار عددی اور عسکری لحاظ سے  اہل مدینہ کے  مقابلے  میں کئی گناہ بڑھ چڑھ کر تھا۔ نبی کریمؐ نے  حضرت سلمان فارسیؓ کے  مشورے  سے  شہر مدینہ کے  اطراف خندق کھود کر مسلمانوں  کو شہر میں  محصور و محفوظ کر لیا تھا۔ تاریخ میں  یہ غزوۂ احزاب یا خندق کے  نام سے  مشہور ہے۔ ان احتیاطی تدابیر کے  باوجود افواج کفار نے  مسلمانوں  کو ہر سمت سے  کچھ ایسے  انداز سے  گھیر رکھا تھا کہ ان کی نقل و حرکت کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ایسے  مشکل اور ہمت شکنی حالات میں بھی اللہ رب العزت نے  نہ صرف بذریعہ وحی حضورؐ پر مندرجہ ذیل آیات حمد و مناجات نازل فرمائی بلکہ حضورؐ اور مسلمانوں  کی ہمت افزائی اور انہیں  مصیبت میں ثابت قدم رہنے  کی تلقین کرتے  ہوئے  یہ تاریخی خوش خبری بھی سنائی کہ یقین رکھو مسلمانوں  کی سلطنت وسیع ہو کر ایک طرف روم اور دوسری طرف فارس تک پہنچ جائیں  گی۔ قرآنی حمد و مناجات کی آیات یہ تھیں :

 ’’(ترجمہ)اے  اللہ! تو ہی ملک کا مالک ہے  تو جسے  چاہے  ملک دے  دیتا   ہے  اور جس سے  چاہے  ملک چھین لیتا ہے  اور جسے  چاہے  عزت دیتا ہے  اور  جسے  چاہے  ذلت دیتا ہے۔ تیرے  ہی ہاتھوں  میں  بھلائی ہے۔ بے  شک تو ہی ہر چیز  پر قادر ہے۔ تورات کودن میں  بدل دیتا ہے  اور دن کو رات میں۔ تو زندہ کو مردہ سے  نکالتا ہے  اور مردہ کو زندہ سے  اور جسے  چاہتا ہے  بے  حساب رزق دیتا ہے۔ ‘‘ (العمران:۲۶۔ ۲۷)

سلطان مدینہؐ  ہر نماز کے  بعد یہ دعا بلند آواز سے  بڑے  خشوع و خضوع کے  ساتھ پڑھتے  تھے  اور سارے  مقتدی صحابہؓ آمین کہتے  تھے۔

مورخین لکھتے  ہیں  کہ افواج کفار کے  محاصرے  کو ۲۵ دن سے  زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا کہ حکم الٰہی سے  اچانک ایک رات سخت آندھی آئی جس میں  سردی اور کڑک اور چمک بھی غضب کی تھی اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دیتا تھا۔ آندھی کے  زور سے  دشمنوں  کے  خیمے  الٹ گئے  اور ان کے  اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ سہ نہ سکے۔ راتوں  رات ہر ایک نے  اپنے  گھر کی راہ لی اور صبح جب مسلمان اٹھے  تو میدان میں  ایک بھی دشمن موجود نہ تھا۔

بالکل اسی انداز کا ایک اور تاریخی واقعہ ۱۴ویں  صدی عیسوی  کے  معروف علامہ امام محمد   بن محمد   الحزری شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی تالیف ’’حصن حصین‘‘ (مضبوط قلعہ) میں لکھا ہے  کہ میری کتاب کی تالیف مکمل ہوتے  ہی ہماری پرامن بستی اچانک خونخوار تیموری افواج کے  نرغے  میں  آ گئی۔ ہم ایک غیر فوجی چھوٹے  سے  قلعے  میں محصور ہو گئے۔ قتل و غارت گری پر آمادہ تیموری فوج نے  قلعے  کو چاروں  طرف سے  گھیر لیا۔ اب قلعے  میں پناہ گزیں  نہتے  لوگوں  کے  پاس اس مصیبت سے  نجات پانے  کے  لئے  سوا اس کے  کوئی اور حل نہیں  تھا کہ ہم بے  چوں  و چرا ظالم تیموریوں  کے  ہاتھوں  قتل ہو جائیں  کیونکہ نہ ہم فوجی مزاج کے  لوگ تھے  نہ مقابلے  کے  لئے  ہمارے  پاس آلات حرب تھے۔ اس بلائے  ناگہانی سے  نجات پانے  کے  لئے  قلعے  میں  محصور لوگوں  کے  ساتھ میں  نے  بھی اپنی کتاب میں  مرقومہ مناسب اور حسب حال دعائیں  ماثورہ کا ورد شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے  راہ نجات کے  لئے  اجتماعی دعائیں  مانگتے  رہے۔ ہماری مناجات کا اختتام کچھ اس طرح کی مناجات پر ہوا کرتا تھا۔

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریمؐ۔ اے  اللہ تیرے  یہ محتاج بندے  کلمہ توحید کا وسیلہ لے  کر تیری بارگاہ میں  آئے  ہیں۔ ہم تیرے  کرم کے  امیدوار ہیں تیرے  سوا ہمیں  اس ظالم اور مردم آزار افواج(تیموری) سے  کوئی نجات نہیں  دے  سکتا۔ اس ناگہانی مصیبت میں  ہم پر لطف و کرم فرما۔ ہم حمد و ثنا کرتے  ہیں  اس اللہ کی جس نے  دعا کو قضا کے   رد کرنے  کا وسیلہ بنایا ہے۔ المختصر مولف کتاب کا کہنا ہے  کہ ہمارا یہ اجتماعی عمل ہر شب جاری تھا کہ ایک روز خواب میں  سردار انبیاؐ کی زیارت ہوئی۔ میں نے  دیکھا کہ میں  حضورؐ اقدس کے  بائیں  جانب بیٹھا ہوا ہوں (عربی روایات کے  مطابق پناہ دہندہ جس شخص کو اپنی پناہ میں  لیتا ہے  خود اس کی دائیں  طرف ہو جاتا ہے  اور اس کو اپنی بائیں  جانب لے  لیتا ہے) ہماری مصیبت کا حال پوچھنے  پر میں  نے  نہایت ہی ادب سے  کہا کہ حضورؐ ہم کمزور و ناتواں  اس ظالم قوم کا مقابلہ نہیں  کر سکتے  ہمارے  لئے  ان مصائب سے  نجات پانے  کی اللہ سے  دعا فرمائیے  تو رسول اللہؐ نے  ہمارے  لئے  دعا کی۔ جمعرات کی شب میں  نے  یہ خواب دیکھا اور اتوار کی رات کونہ معلوم کیا ہوا کہ دشمن قلعے  کا محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ (یہ واقعہ مختلف کتابوں  میں  مختلف تفصیلات کے  ساتھ لکھا گیا ہے۔)

بہرکیف غزوۂ احزاب میں  بغیر جنگ لڑے  جب لشکر کفار میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہو گیا اور سالار جنگ سلطان مدینہ محمد   مصطفیؐ اور مجاہدین صحابۂ کرامؓ کو بھی اللہ تعالیٰ کی بروقت امداد غیبی پرسکون قلب حاصل ہوا تو مالک کائنات نے  ان پریشان کن اور تکلیف دہ واقعات کی یاددہانی کراتے  ہوئے  اللہ جل  شانہ سے  امداد طلبی کی افادیت کو واضح کرتے  ہوئے  سورہ احزاب کی ان آیات کو نازل فرمایا۔ ان آیات مقدسہ کا ترجمہ پڑھنے  سے  پہلے  آپ ان کی شان نزول کو بھی ملاحظہ فرمائیں  تاکہ مناجات کرنے  والوں  کے  ذہن میں  قانون الٰہی کی یہ شرطیں  بھی آ جائیں  کہ اپنے  مقاصد کی حصول یابی کے  لئے  حتی الامکان جدوجہد، ثابت قدمی، مومنانہ فراست و حکمت، بلا شک و شبہات اللہ کی داد گستری پر یقین اور حالات کے  تقاضوں  پر گہری نظر کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جیسے  سرور کائنات نے  غزوۂ احزاب اور صلح حدیبیہ کے  وقت اپنی مومنانہ فراست و حکمت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اجتماعی مصائب اور آفات کو اجتماعی نقطہ نظر سے  ہی دیکھنا چاہئے  انفرادی جوش و خروش سے  نہیں۔ اگر اس نقطہ نظر سے  آپ ہندوستانی مسلمانوں  کے  مصائب اور عالم اسلام کی تباہی و بربادی کا گہرا مطالعہ اور محاسبہ کریں  گے  تو یہ جان کر بڑا افسوس ہو گا کہ ہمارے  بیشتر مسائل اجتماعی فکر و نظر سے  حل کرنے  کی بجائے  انفرادی انا اور بدحواس جوش و خروش کے  حوالے  کئے  گئے  اور نتیجتاً سوا نقصان کے  ہمارے  ہاتھ کچھ نہ لگا۔ المختصر مناجات الٰہی میں ایمان باللسان کے  ساتھ تصدیق بالقلب اور منزل مقصود کی سمت پر عزم  گامزنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔

سورۂ احزاب کی آیات کاشان نزول بھی ملاحظہ فرمائیے  جواس وقت کے  منکرین دعا کی منافقانہ حرکتوں  سے  متعلق ہے۔ تمام مفسرین قرآن اور سیرت نگاروں  نے  مناجات کی روحانی اثر آفرینی کو ظاہر کرنے  کے  لئے  اس واقعہ کو تفصیل سے  بیان کیا ہے۔ بطور اختصار یہاں  ہم ’’مشتے  نمونہ از خروارے ‘‘ کے  مصداق مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا ایک مختصر سا اقتباس پیش کرتے  ہیں  جو ہمارے  موضوع ’’مناجات کی اثر آفرینی‘‘ کے  لئے  کافی ہے :

 ’’یہ آندھی اس وقت نہیں  آئی تھی جبکہ دشمنوں  کے  لشکر مدینے  پر چڑھ آئے  تھے۔ بلکہ اس وقت آئی تھی جب محاصرے  کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے  والی ’’فوجوں ‘‘ سے  مراد وہ مخفی طاقتیں  ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے  اشارے  پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں  کو ان کی خبر تک نہیں  ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے  ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے  لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں  کام کرتی ہیں  وہ اس کے  حساب میں  نہیں آتیں، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں  کی کارفرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں  چونکہ اللہ تعالیٰ کے  فرشتوں  کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں، اس لئے  ’’فوجوں ‘‘ سے  مراد فرشتے  بھی لئے  جا سکتے  ہیں۔ ‘‘

یہ آندھی تو بحکم الٰہی دشمنوں  کے  محاصرے  کے  دوسرے  یا تیسرے  دن بھی آ سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کو چونکہ ان کمزور ایمان والوں  کو جانچنا اور منافقین کی حرکتوں  کو اجاگر کرنا تھا(جیسا کہ عراق پر امریکہ کے  حملے  کے  دوران ہماری آنکھوں  میں بے  بسی کے  آنسو اور بیشتر عرب مملکتوں  کے  لب پر برادران یوسفؑ کی طرح کامیابی کی منافقانہ مسکراہٹ نمایاں  تھی) جو مجاہدین اسلام کی صفوں  میں  گھس کر فکری انتشار پھیلا رہے  تھے  اور قرآن کی دعائیہ آیات کو مضحکہ خیز بتا کر مسلمانوں  کو محاذ جنگ سے  پرے  ہٹ کر اپنے  اپنے  گھروں  کو لوٹ آنے  کی ترغیب دے  رہے  تھے۔ یہاں  تک کہ مختلف بہانے  بتا کر کئی لوگ اس اندیشے  کے  پیش نظر صادق العقیدہ مسلمانوں  کی صفوں  سے  یہ کہہ کر نکل آئے  کہ اب مسلمانوں  کو افواج کفار کے  ہاتھوں  شکست فاش سے  کوئی بچا نہیں  سکتا اور یہ کہ سرور عالم سرکار مدینہؐ مجاہدین اسلام کو ایسے  تشویشناک حالت میں  بھی روم و فارس فتح کرنے  کی جو خوش کن پیشن گوئیاں  کر رہے  ہیں  وہ محض(نعوذ باللہ) دھوکا اور فریب ہے۔ دعا مناجات کے  منکرین موجودہ دور میں  بھی یہی حرکتیں  کر کے  سادہ لوح مسلمانوں  کو بہکا رہے  ہیں  کہ اب دعا و مناجات میں اثر نہیں  رہا لیکن یہی لوگ قبولیت دعا و مناجات کی شرعی شرائط سے  نہ واقف ہیں اور نہ اس کی تعلیم دیتے  ہیں  انہی کے  لئے  علامہ اقبال نے  کہا ہے  کہ:

 ’’رہ گئی رسم اذاں  روح بلالی نہ رہی‘‘

مذکورہ قرآنی آیات کا ترجمہ یہ ہے :

 ’’اے  لوگو!جو ایمان لائے  ہو یاد کرو اللہ کے  احسان کو جو(ابھی ابھی) اس نے  تم پرکیا ہے  جب لشکر تم پر چڑھ آئے  توہم نے  ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں  روانہ کیں  جوتم کو نظر نہ آتی تھیں۔ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جوتم لوگ (کھلے  چھپے)اس وقت کر رہے  تھے۔ جب وہ اوپر سے  اور نیچے  سے (یعنی اوپر نجد اور خیبر اور نیچے  مکہ معظمہ) تم پر چڑھ آئے۔ جب خوف کے  مارے  آنکھیں  پتھرا گئیں۔ کلیجے  منہ کو آ گئے  اور تم لوگ اللہ کے  بارے  میں  طرح طرح کے  گمان کرنے  لگے۔ اس وقت ایمان لانے  والے  خوب آزمائے  گئے۔ ‘‘

بارگاہ الٰہی میں  بصد خلوص، مناجات کرنے  اور اس مجیب الدعوات کی جانب سے  شرف قبولیت حاصل کرنے  والے  یہ چند تاریخی واقعات تھے  جو قارئین کی طمانیت قلب کی خاطر یہاں  پیش کئے  گئے  ہیں۔ اگر رسالے  کے  صفحات میں اتنی گنجائش، راقم الحروف کے  قلم میں  توانائی اور اس کے  قبضہ قدرت میں  حسب ضرورت ایسی ہی فرصت کی فراوانی ہوتی تو اللہ کے  مقربین و صالحین کے  ملفوظات سے  ایسے  سینکڑوں  تاریخی واقعات اخذ کر کے  یہاں  پیش کئے  جا سکتے  تھے۔ لیکن اب ہم دعا اور حمد و مناجات کے  ان خارجی پہلوؤں  کو نمایاں  کرنے  کے  بعد ان کے  داخلی روحانی گوشوں  پر روشنی ڈال کر اپنی بات کو مختصر کرنا چاہتے  ہیں۔ اگر آپ کسی بھی حمد و مناجات کو غور سے  پڑھیں گے  تو ان کے  طرز بیان میں  ایک خاصی قابل قدر روحانی بات آپ کو نظر آئے گی کہ قرآن حکیم اور رسول اللہؐ کی بیشتر دعائے  مسنونہ کا آغاز لفظ ’’اللّٰھُم‘‘ یا ’’ربنا‘‘ سے  ہوا ہے۔ دونوں  الفاظ کے  معنی اے  ہمارے  پیارے  اللہ ہے  اور مناجات میں حمد و ثنا کو شامل کرنے  کے  لئے  حسب حال اسماء الحسنی کو بھی داخل کیا گیا ہے۔ یہی حمد و مناجات کے  ایسے  روحانی سرچشمے  ہیں جن سے  فیوض و برکات کی نورانی کرنیں  ہمیشہ جھلکتی رہتی ہیں اور اہل دعا انہی سے  فیضیاب ہوتے  رہتے  ہیں۔ آئیے  ہم ان الفاظ کے  روحانی رموز کو بھی سمجھنے  کی کوشش کریں گے :

اسماء الحسنیٰ:یہ اللہ تعالیٰ کے  صفاتی نام ہیں  جن کا ذکر قرآن و حدیث میں بھی آیا ہے۔ عام طور پر ان کی تعداد ۹۹ پر سب علمائے  دین کا اتفاق ہے۔ جبکہ بعض علماء کے  نزدیک یہ تعداد ۱۵۸ سے  لے  کر ایک ہزار تک بھی ہے۔ قرآن مجید میں ان ناموں  کے  بارے  میں  ارشاد ہے :

 ’’اللہ کے  سب نام اچھے  ہیں  اس لئے  اسے  اچھے  ہی نام سے  پکارو۔ ‘‘ (اعراف:۱۸)

یہ تمام نام اللہ کی ذات لاشریک ہی کی غمازی کرتے  ہیں۔ اسلام وہ پہلا مذہب ہے  جس نے  خدائے  واحد کی ذات کی تبلیغ کی اور اسے  ’’اللہ‘‘ کہا یہ اس کا ذاتی نام ہے۔ امام غزالیؒ اس بات کو بہتر نہیں  سمجھتے  کہ اللہ تعالیٰ کے  جو صفاتی نام قرآن و حدیث میں مروج ہیں ان کے  علاوہ بھی کوئی بندہ اپنی جانب سے  کوئی نیا صفاتی نام تشکیل دے۔ اس میں  خطرہ ہے۔ اسماء الحسنیٰ کے  شارحین اور صوفیائے  کرام کی ہدایت ہے  کہ مناجات کرتے  وقت بندہ اپنے  حسب حال اللہ کے  صفاتی ناموں  کو بھی حمد و ثنا کے  طور پر مناجات میں شامل کرے۔ عربی کے  علاوہ اپنی زبان میں  بھی حمد کی جا سکتی ہے  مگر اس کے  لب و لہجہ میں خشوع و خضوع کے  ساتھ عاجزی و انکساری بھی ہو مصنوعی پن اور بے  دلی نہ ہو کیونکہ اللہ کی حمد و ثنا بھی دعا ہی کا جزو ہے۔ علم الٰہیات میں  دعا ایک ایسی صنف ہے  جس کے  متعلق تاکیداً کہا گیا ہے  کہ غیراللہ کو سجدہ کرنا ہی شرک نہیں  بلکہ خدا کے  سوا کسی دوسری ہستی سے  دعا مانگنا یا اس کو اپنی مدد کے  لئے  پکارنا بھی شرک ہے  کیونکہ دعا کرنا بھی عبادت ہے۔ دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس بات پر اہل دعا کا ایمان و یقین ہونا بہت ضروری ہے  البتہ بندے  کو چاہئے  کہ وہ اللہ سے  ہمیشہ اچھا گمان اور خیر کی توقع رکھے  اس لئے  کہ رحمن و رحیم اللہ کی پر عظمت اور کریمانہ صفات ہیں۔

ال۔۔ لّٰ۔۔ ہ:قرآن حکیم کی بیشتر دعائیں  اسی کلمہ (اللّٰھُمَّ)سے  شروع ہوتی ہیں چونکہ یہ خالق کائنات کا ذاتی نام(اللہ)ہے  اس لئے  ہر ایک دعا اور مناجات میں  اس کی حیثیت مرکزی قوت (Power Generator)  جیسی ہوتی ہے۔ اس کے  معنی ہیں  اے  تمام تر اعلی ٰ و اکمل صفات کے  مالک، اس لئے  یہ کلمہ بظاہر تو صرف کلمۂ ندا ہے۔ مگر در حقیقت اللہ جل شانہ کی اعلیٰ درجہ کی تعریف اور حمد و ثنا بھی ہے  اور انتہائی عجز و انکسار کا بھی اس میں  اظہار ہے  اسی لئے  اللہ تعالیٰ نے  حمد و ثنا کے  اہم ترین مواقع پر اپنے  نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسی کلمے  کے  پڑھنے  کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے :اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء۔ یہ نام ہے  اس مالک کائنات کا جو ازل سے  ہے  اور ابد تک رہے  گا۔ قرآن حکیم میں یہ نام ۲۶۹۷  بار مذکور ہوا ہے۔ اللہ کے  مقربین بندوں  نے  اس نام کی ایک عجیب و غریب اور ایسی خاصیت بھی بتائی ہے  جو دنیا کی کسی اور زبان کے  لفظ میں  نہیں  ملتی:

 ’’اس اسم ذات کا ایک ایک حرف اللہ کے  ذاتی نام کی طرف ہی جاتا ہے۔ جیسے  ’’اللّٰہ‘‘ کا الف گرا دینے  سے  ’’لِلّٰہ‘‘ رہ جاتا ہے  اور ’’لِلّٰہ‘‘ کا لام گرا دینے  سے ’’لَہ‘‘ بن جاتا ہے  اور ’’لَہ‘‘ کا لام گرا دینے  سے  صرف ’’ہ‘‘ رہ جاتا ہے۔ یعنی وہ ذات غیب الغیب جو لفظ، حرف اور معنی و خیال سے  پاک ہے۔ ‘‘

اس لئے  بیشتر محققین دین اس اسم ذات کو اسم اعظم تسلیم کرتے  ہیں  کیونکہ مذکورہ بالا صفت اللہ کے  صفاتی ناموں  میں بھی نہیں  ہے  اگر ان میں  سے  اس طرح حرف گرا دئے  جائیں  تو وہ اسم بے  معنی ہو جاتا ہے۔ جیسے  ’’رحیم‘‘ کی رے  اور ’’کریم‘‘ کا کاف اسی لئے  بقول حضرت علی کرم، اللہ کے  ذاتی نام کے  بارے  میں  دیگر تمام وصفی نام متحیر ہیں  اور زبانوں  کے  قواعد گم ہو کر رہ گئے  ہیں۔ اسی لئے  صوفیائے  کرام کے  کئی سلسلوں  میں  اسی نام کو عظیم ترین حمد و مناجات اور اسم اعظم قرار دے  کر دل کی کثافتوں  کو دور کرنے  اور روحانی لطافتیں  حاصل کرنے  کے  لئے  اپنے  پیروکاروں  کو روز و شب ہر سانس میں اسی نام کے  ورد کرنے  کا درس دیا جاتا ہے۔ جس کی ترکیب یوں  بتائی جاتی ہے  کہ سانس اندر لیتے  وقت صرف ’’الّٰل‘‘ کہیں  اور وہی سانس باہر چھوڑتے  وقت اس نام کا بقیہ ’’ہ‘‘ اس طرح دہرائیں  کہ قریب بیٹھنے  والے  کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ ذکر اللہ جاری ہے۔ اللہ کے  مقربین و صالحین صوفیائے  کرام نے  اسی عمل کو کہیں  ذکر قلبی یا ذکر حق کہا ہے  تو کہیں   ذکر خفی کا بھی نام دیا ہے  کیونکہ یہ عمل بلا کسی تکلیف اور تکلف کے  جاری رہتا ہے  اور کوئی شے  اس کے  کرنے  میں مانع نہیں  ہوتی۔ حضرت فرید الدین عطارؒ اسی کی تعریف میں کہتے  ہیں

:

ذکر حق آمد غذا ایں  روح را

مرہم آمد ایں  دل مجروح را

اللہ کا ذکر اس روح کے  لئے  غذا ہے

 اور اس زخمی دل کے  لئے  مرہم ہے

اور حضرت مولانا رومیؒ فرماتے  ہیں :

خود چہ شیرین ست نام پاک تو

خوشتر از آب حیات ادراک تو

تیرا پاک نام خود کتنا میٹھا ہے

 اور تیرا ادراک آب حیات سے  بدرجہا اچھا ہے

قرآن و حدیث کے  حوالے  سے  خاقانیؒ  کا یہ اعتراف ہے  کہ:

پس از سی سال ایں  معنی محقق شد بخاقانی

تیس سال بعد یہ حقیقت خاقانی پر ظاہر ہوئی

دے  با باد حق بودن بہ از ملک سلیمانی

کہ ایک پل کے  لئے  اللہ کا ذکر کرنا ملک سلیمان سے  بہتر ہے

اسی طرح حضرت سعدیؒ اور حکیم سنائی نے  بھی اللہ کے  نام کوہی بذات خود بہترین حمد و مناجات کہا ہے  اور اسی کو ’’سلطان الاذکار‘‘ کے  نام سے  یاد کیا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ(اللہ) اسلام سے  پہلے  کسی اور ہستی کے  لئے  کبھی استعمال نہیں ہوا۔ یہ بھی اسی لفظ کا اعجاز ہے  کہ کلمۂ طیبہ لا الہٰ الا اللہ کے  تمام حروف اور الفاظ اسی نام سے  نکلتے  ہیں۔ اللہ کی ذات مطلق سے  متعلق خلق قرآن کا تاریخی فتنہ سرد ہونے  کے  بعد بھی یونانی فلسفہ اور عجمی اثرات نے  اگرچہ مسلمانوں  کو صراط مستقیم سے  بھٹکانے  کی حتی الامکان کوششیں  کیں  لیکن دعا دیجئے  ہمارے  علمائے  دین مبین، مفسرین قرآن، محدثین عظام اور ائمہ اربعہ کو جن کی تعلیمات نے  بروقت امت اسلامیہ کی رہبری کی اور اپنی ذمہ داریوں  کو بحسن و خوبی نبھایا۔ اب جدید سائنس نے  بھی اس امر کا اعتراف کر لیا ہے  کہ موجودہ دور میں  ہر نئی تحقیق سابقہ سائنسی مفروضات کی نفی کرنے  لگی ہے  اس لئے  اب سائنس کے  کسی بھی اصول اور قوانین کو حتمی حیثیت حاصل نہیں  ہے۔ اب تک جنہیں  اللہ کے  وجود سے  بھی انکار تھا وہ بھی وجود خالق کائنات کو تسلیم کرنے  لگے  ہیں۔ ان میں  البرٹ آئن سٹائن، مشہور فلسفی جوڈ اور کئی ملحد سائنس داں  بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید کے  پیش کردہ تصور الوہیت اور اسماء الحسنیٰ کو صفات الٰہیہ سے  تعبیر کرنے  سے  ذات باری کا ایک ایسا تصور قائم ہو جاتا ہے  جو ہر لحاظ سے  مکمل، مرغوب، مطلوب اور ادراک و وجدان کے  مطابق ہے  اور ا س طرح ایمان باللہ ایک اصول حیات کی صورت میں دلوں  میں گہری جگہ پا لیتا ہے۔

لفظ اللہ سے  متعلق قرآن و احادیث کی ان تشریحات کی روشنی میں  سوچئے  کہ کوئی مصیبت زدہ بندہ اگر اپنی لاعلمی کی وجہ سے  صرف اتنا بھی کہہ دے  کہ ’’یا اللہ!میری مدد فرما‘‘ تو گویا اس نے  اللہ کی حمد و مناجات کی اور اس مالک حقیقی کو اپنی امداد کے  لئے  پکارا جس کے  ذاتی و صفاتی نام قرآن نے  گنوائے  ہیں۔

یہی وجہ ہے  کہ لفظ ’’اللہ‘‘ با شعور مسلمانوں  کی روزمرہ کی زندگی اور اسلامی معاشرے  کی تہذیب و تمدن پر ایسا چھایا ہوا ہے  کہ اگر کہیں  اس کا خاطر خواہ عکس نظر نہ آئے  تو دینی فکر و نظر کے  حامل لوگ ان بے  شعور لوگوں  کے  معیار دین و تہذیب کوشک و شبہات کی نظروں  سے  دیکھنے  لگتے  ہیں  کیونکہ اس کا مظاہرہ صرف ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ اور وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ پرہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اسلامی معاشرے  کا یہ خاصہ ہے  کہ

٭ کسی کام کی ابتدا کرے  تو کہے، بسم اللہ۔

 ٭ وعدہ کرے  تو کہے، انشاء اللہ۔

٭ کسی خوبی کی تعریف کرے  تو کہے، سبحان اللہ۔

٭کوئی تکلیف پیش آئے  تو کہے، جزاک للہ۔

٭ کسی سے  اپنی خیر و عافیت کا ذکر کرے  تو کہے، الحمد اللہ۔

 ٭جانے  انجانے  میں  گناہ سرزد ہو تو کہے، استغفراللہ۔

 ٭ کسی کو رخصت کرے  تو کہے،فی امان اللہ،

٭نا زیبا کلمات زبان و قلم  پر آئے  تو کہے، نعوذ باللہ اور

 ٭ اگر کسی کی موت کی خبر سنے  تو کہے، انا للہ و انا اللہ راجعون۔ وغیرہ وغیرہ۔

دعا میں سید الانبیاؐ کا وسیلہ:دراصل یہ کوئی متنازعہ فی مسئلہ نہیں  ہے  کہ بارگاہ الٰہی میں  دعا اور مناجات حبیب اللہ محمد   مصطفی کے  وسیلے  سے  کی جائے  یا نہیں ؟جو لوگ علم ’’توحید و رسالت‘‘ کی گہرائی و گیرائی اور اس کی بصیرت سے  ناآشنا ہیں  وہی لوگ نہ صرف دعا کے  منکر ہیں  بلکہ دعا میں  رسول اللہؐ کا وسیلہ یا سفارش سے  بھی انکار کرتے  ہیں جبکہ حدیث میں  ہے  کہ حضورؐ نے  فرمایا: ’’دعا اللہ تعالیٰ سے  حجاب میں ہے  جب تک مجھ پر درود نہ بھیجا جائے۔ ‘‘ (بیہقی) دعا میں  حضورؐ کا وسیلہ تو ہمارے  ائمۂ اربعہ اور صالحین و صدیقین کا اسوۂ حسنہ ہے۔ دعا میں نبی کریمؐ (جن پر اللہ اور اس کے  فرشتے  بھی درود و سلام بھیجتے  ہیں) کا وسیلہ لینا بعینہ اسی طرح کا ہے  جیسے  خانہ کعبہ کی عمارت خالق و مخلوق کے  درمیان عبادت کے  لئے  رابطہ ہے۔ توحید و رسالت کے  یہ روحانی نکات جن کی سمجھ سے  بعید ہیں  انہیں  صرف یہ مختصر سی بات کہہ کر یہ دقیق موضوع ختم کیا  جاتا ہے  کہ دعا میں  حضورؐ کا وسیلہ نبی کریمؐ کی تعظیم، رسول اللہؐ کی محبت، ختم المرسلین کی الفت اور سرکار مدینہؐ سے  وارفتگی کا اظہار دراصل خوشنودیِ پروردگار ہے۔ اس کے  بغیر دعاؤں  کو بھی شرف قبولیت حاصل نہیں  ہوتا اس کے  مستند شرعی ثبوت خود ہمارے  امام اعظم حضرت ابو حنیفہؒ کے  مندرجہ ذیل چند نعتیہ اشعار ہی کافی ہیں :

انت الذی لما توسل آدمؑ

من زلۃ بک فار وھو ابک

آپؐ وہ ہیں  کہ جب حضرت آدمؑ نے  آپؐ کا توسل اختیار کیا اپنی لغزش معاف کرنے  میں  تو کامیاب ہو گئے۔

وبک الخلیل دعا فعادث نارہ

برداو قد خمدث بنور سناک

اور آپؐ ہی کے  وسیلے  سے  حضرت ابراہیمؑ نے  دعا کی تو ان کی آگ سرد ہو گئی وہ آپ کے  نور کی برکت تھی۔

وکذاک موسیٰؑ لم یزل متوسلاً

بک فی القیمٰ۔ ۃ محتمی بحماک

اور اسی طرح حضرت موسیٰؑ بھی آپ کاؐ وسیلہ اختیار کرتے  رہے  اور قیامت میں بھی آپؐ کی حمایت طلب کریں  گے۔

خیال رہے  کہ حدیث رسولؐ کے  مطابق نور محمد  ؐ کی تخلیق حضرت جبریلؑ  و آدمؑ سے  پہلے  ہو چکی تھی۔ اسی بات پر مزید ثبوت کے  لئے  یہ اقتباسات بھی ملاحظہ فرمائیے  کہ سردار اولیا حضرت غوث الاعظمؒ بھی اپنی نعت پاک میں  شفاعت کے  لئے  حضورؐ کا وسیلہ طلب کرتے  ہیں :

ہر کس بہ جہاں  گناہگار ست

گشتہ بہ شفاعت تو مغفور

دنیا میں  سبھی گنہگار ہیں  آپؐ کی شفاعت ہی سے  وہ بخشے  جائیں گے۔

گناہ بے  حد من بیں  تو یا رسول اللہ

شفاعتے  بکن وہ محوکن خیالاتم

یا رسول اللہ میں بے  حد گنہگار ہوں  میری شفاعت فرمائیے  اور میرے  وسوسوں  کو ختم کیجئے۔

المختصر اللہ تعالیٰ سے  دعا میں  رسول اللہؐ کا وسیلہ لینا ہی علم الٰہیات کا ایسا جامع و بلیغ اور عظیم فلسفہ ہے  جس نے  کفر و شرک کے  در آنے  کی تمام راہیں  بند کر رکھی ہیں۔

دعائیں  روحانی قوتوں  کا سرچشمہ ہیں :یہ کہنا زیادہ صحیح نہیں  ہے  کہ کچھ لوگ دعا سے  یکسر انکار کرتے  ہیں۔ دراصل موجودہ دور میں  یہ رجحان ہمارے  چند مذہب بیزاران  ادباء و شعرا کی دین ہے  جو ادب میں  جدیدیت اور ترقی پسندی کا پرچم لہرائے  ہوئے  نوجوان نسل کو اس طرح کی فکر و نظر دیتے  رہتے  ہیں  کہ:

 ’’وہ (بے  دین) لوگ جب بیدار ہو گئے  تو انھوں  نے  چاند ستاروں  پر کمندیں  ڈالیں  اور جب آپ (اہل دین) خواب غفلت سے  بیدار ہوئے  تو صرف دعا کے  لئے  اپنے  کندھوں  تک ہاتھ اٹھا کر رہ گئے۔ ‘‘

اس طرح دعا سے  متعلق مغربی مادہ پرستی اور روس کی اشتراکیت سے  متاثر نوجوانوں  میں  یہ ذہنی مرض پیدا ہوا کہ دعا مذہباً یا خانقاہی نظام کا ایک ایسا جمود پرور نشہ ہے  جو آدمی کو کارزار زندگی میں  بے  عمل اور جدوجہد سے  عاری بنا کر ناکارہ کر دیتا ہے۔ دعا سے  متعلق اگر آپ ایسے  منفی رجحانات رکھنے  والوں  کا نفسیاتی مطالعہ کریں  گے  تو یہ پوشیدہ حقائق بھی نمایاں  ہو جائیں  گے  کہ مسلم نوجوانوں  میں  یہ ذہنی مرض موجودہ دور کی مسلمانوں  کی پسماندگی، اجتماعی طور سے  ہر محاذ پر شکست فاش، کھلے  عام مسلمانوں  کی تباہی و بربادی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے  رحمتوں  کے  نزول سے  یکسر مایوسی، قنوطیت اور احساس کمتری سے  پیدا ہوا ہے  اور وہ یہ سوچنے  پر تقاضائے  بشری کے  تحت مجبور ہو گئے  ہیں  کہ یہ دعا،استغفار اور اللہ تعالیٰ سے  امداد طلبی بے  سود اور تضیع اوقات ہیں۔ حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں  جنھوں  نے  مسلمانوں  کی موجودہ اجتماعی مایوسی، معاشی بدحالی، معاشرتی گمراہی، سیاسی بے  وقعتی اور علم و عمل میں  پسماندگی کا مطالعہ قرآن و حدیث کی روشنی میں  کبھی نہیں  کیا ہے۔ انہیں  یہ بھی معلوم نہیں  کہ اللہ کی رحمتوں  سے  نا امیدی بقول قرآن کفر و گمراہی ہے۔ ان کا اس پر بھی ایمان و یقین نہیں ہے  کہ وہ مستجیب الدعوات ہی حل المشکلات، دافع البلیات، قاضی الحاجات اور مسبب الاسباب ہے۔ وہ اس حقیقت سے  بھی ناواقف ہیں کہ موجودہ دور کی ہزاروں  بربادیوں  کے  نرغے  میں گھرے  ہونے  کے  باوجود یہ امت مسلمہ اپنے  اسلامی تشخص کے  ساتھ آج جس حال میں  بھی زندہ ہے  اور اسی نظام حیات کے  ساتھ زندہ رہنے  کی جدوجہد جاری رکھے  ہوئے  ہے۔ یہ چند صالحین و صادقین اور مخلص لوگوں  کی دعاؤں  کا طفیل ہے  جو اللہ کی رحمتوں  کے  نزول کا سلسلہ جاری رکھے  ہوئے  ہیں۔ ورنہ اس کرۂ زمین پر مسلمانوں  کے  علاوہ اگر کسی اور قوم و ملت پر ایسے  ہی مصائب ٹوٹتے  جو ہم  پر کھلے  عام ہو رہے  ہیں  تو وہ قوم کبھی کی بے  نام و نشان ہو کر رہ جاتی۔

بہرکیف یہ دعائیں  ہی اجتماعی زندگی کی وہ شاہ کلید ہے  جو بندوں  کو عمل اور جدوجہد کے  لئے  ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور روحانی طور پر ترغیب دلاتی رہتی ہیں۔

٭         دعائیں  پاکیزگی کو پھیلاتی اور برائیوں  کو روکتی ہیں۔

٭         بقول قرآن حکیم دعائیں  تقدیریں  بدلنے  کی بھی قوت رکھتی ہیں۔

٭         مصائب میں دعاؤں  سے  بڑھ کر کسی بات میں  یہ وصف نہیں ہے  جو آپ کو صبر کی قوت اور سکون قلب عطا کرے۔

٭         دعائیں  گمراہی سے  روک کر صراط مستقیم کی سمت رہنمائی کرتی ہیں

٭         دعائیں  ان مصائب سے  بھی آپ کی حفاظت کرتی ہیں  جن کے  وارد ہونے  کا آپ کو علم نہیں  ہے۔

٭         مومنانہ فہم  و فراست دعاؤں  کی روحانی دین ہے۔

٭٭٭

ماخذ: حمد و مناجات نمبر۔ ماہنامہ ’قرطاس‘، ناگپور

تشکر محمد رفیع الدین ولد شرف الدین ساحلؔ، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور جن کے توسط سے ان پیج فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید