FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حقوقِ انسانی کا تحفظ

               ابو البرکات اصلاحی 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

انسانی جان و خون کا احترام

اس کائنات کے اول انسان آدم علیہ السلام تھے۔ وہ اللہ کے نبی بھی تھے۔ ان کے اور ان کے بعد دنیا میں جتنے بھی انبیاء آئے سبھی کے یہاں انسانی جان کے احترام کا عقیدہ و تصور موجود تھا۔ انسانوں میں سے سب سے اول قاتل آدم کے بیٹے قابیل کو اس کا شعور نہ تھا کہ قتل کے بعد بھائی کی نعش کس طرح چھپانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیج کر بھائی کی نعش کو ٹھکانے لگانے کی ترکیب بتائی تھی اس وقت بھی دوسرے بھائی ہابیل کو انسانی جان کی حفاظت و احترام کے متعلق اللہ کی ہدایت کا علم تھا۔ اسے احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی انسان کی جان لینا اس کا نہیں رب العالمین کا حق ہے۔

اس کے حق کو اپنے ہاتھ میں لینا اللہ کے اختیارات میں مداخلت، بغاوت اور باعث گناہ و عذاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قابیل کی نذر بارگاہ خداوندی میں مقبول نہ ہوئی اور ہابیل کی قبول ہو گئی تو اس نے بھائی کو ضد و حسد میں ہلاک کر ڈالنے کی دھمکی دی۔ اس وقت ہابیل نے جان دے دینا گوارا کر لیا لیکن بھائی کو جان سے مار ڈالنے کی جرأت نہیں کی۔ قرآن میں ہے ہابیل نے بھائی کے اسے قتل کر دینے کی دھمکی پر جواباً کہا: اللہ متقیوں ہی کی نذر قبول کرتا ہے اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ( مائدہ آیت: 30 )

بنی اسرائیل انبیاء کی اولاد ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے ہوئے میثاق کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرماتا ہے: ہم نے ان سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو گے۔ والدین اور قرابت داروں اور یتیموں و مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرو گے۔ لوگوں کے ساتھ بھلی بات بولو گے۔ نماز قائم کرو گے زکوٰة دو گے مگر کچھ تھوڑے ہی لوگوں کے سوا تم لوگ اپنے میثاق سے پھر گئے۔ اور یاد کرو ہم نے تم سے پختہ وعدہ و عہد لیا تھا کہ تم آپس میں خون خرابہ نہ کرو گے۔ اور نہ ہی لوگوں کو گھروں سے بے گھر کرو گے۔ تمہیں یہ میثاق تسلیم تھا اور تم ہی اس کے شاہد و گواہ تھے۔

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات انبیائی مشن کی تکمیل ہیں۔ آج نہیں، آج سے چودہ سو سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے شد و مد کے ساتھ انسانی خون کے احترام کا عقیدہ و تصور دنیا کے سامنے پیش کیا اور ہر ایک کے حقوق و فرائض اور ان کی ذمہ داریاں بتائیں۔ سارے انسانوں کو ایک مرد و عورت آدم و حوا کی اولاد قرار دیا۔ کالے گورے مشرق و مغرب، عرب و عجم کا فرق و امتیاز مٹا دیا اور سارے انسانوں کو عزت و امن کی زندگی گزارنے کی تعلیم دی۔ آپ نے نہ صرف انسانوں کے حقوق بتائے بلکہ جانور اور دوسری مخلوقات کے بھی حقوق بتائے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی آپ نے جانوروں کے متعلق بتایا کہ ان کا حق ہے کہ انہیں پیٹ بھر کر کھلایا جائے۔ ان پر زیادہ سختی نہ کی جائے ان پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انہیں بھوکا پیاسا نہ رکھا جائے۔

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے۔ تو سامنے ایک اونٹ نظر آیا جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رونے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری جوان آیا وہ کہنے لگا اللہ کے رسول! میرا ہے۔ فرمایا کہ تم ان جانوروں کے سلسلے میں جن کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے اللہ سے نہیں ڈرتے۔ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا مارتا اور تھکاتا ہے۔ ( ابوداود 2549 )

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت نے ایک بلی کو باندھ دیا۔ وہ بلی بندھے بندھے مر گئی۔ اس کے سبب وہ عورت عذاب کے مستحق گردانی گئی اور جہنم میں ڈال دی گئی۔ آپ نے فرمایا اس عورت نے دوران قید نہ اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ ہی اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہ لیتی۔ ( بخاری و مسلم )

جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جو دین و شریعت جانوروں تک پر مہربان ہو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دین انسانوں پر کیوں نہ مہربان ہو گا اور ان کی زندگیوں کو مامون و محفوظ بنانے کی کوشش کیوں نہ کرے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں اپنے تاریخی خطبہ میں فرمایا:

تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روندی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کر دئیے گئے۔ اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے- یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہیں ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کر دیا- اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔

آپ نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کے خطبہ میں بھی فرمایا…. سنو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے اور وہ تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

ان کے علاوہ اور بھی احادیث ہیں جن میں انسان کی زندگی کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ اور قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک انسان کو ناحق قتل کر دینا سارے انسانوں کو قتل کر دینے کے مترادف ہے اور ایک انسان کو زندہ رہنے دینا اس کی جان بچانا سارے ہی لوگوں کی جان بچانے اور زندہ رہنے دینے کے مترادف ہے۔

سورہ مائدہ میں فرمایا:

من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا ( 32 )

’’ جس نے کسی انسان کو کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ ‘‘

انسانی جان کی اتنی قیمت و اہمیت کو سورہ بقرہ کی آیات ( 178,179) بھی ظاہر کرتی ہیں جن کے آخر میں فرمایا گیا ہے

 ولکم فی القصاص حیوة یاولی الالباب لعلکم تتقون

’’ عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے‘‘

یہ زندگی، اس طرح ہے کہ جب انسانی جان کا احترام نہ کرنے والے قاتل کی جان اس کے قتل کے بدلے میں لے لی جاتی ہے ایک تو یہ کہ اس قاتل کے شر اور قتل کے خطرے سے دوسرے لوگ محفوظ ہو جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس قاتل کے قتل کا منطقی اور یقینی انجام دیکھ کر دوسرے لوگ قتل کے جرم کے ارتکاب سے ہر ممکن طور پر بچتے ہیں اس طرح یہ قصاص فرد، سماج و معاشرے کے لیے زحمت کے بجائے زندگی اور رحمت بن جاتا ہے۔

حقوق انسانی کا تحفظ

حقوق انسانی کا تحفظ صرف اسلام اور اسلامی اعتقادات و تصورات کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ کسی اور ذریعہ، کسی اور عقیدہ و قانون سے نہیں۔ اسلامی عقیدہ و تصور میں دنیا بھر کے سارے انسان ایک مرد و عورت آدم و حوا کی اولاد ہیں جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے۔

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے گروہ اور قبیلے صرف اس لیے بنا دئیے ہیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو کہ فلاں گروہ فلاں قبیلے ہیں۔ بحیثیت انسان کسی کو کسی بھی انسان پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب کے حقوق یکساں ہیں اور سب کے لیے میزان و انصاف ایک ہے۔ اگر کسی کو کسی پر عزت و عظمت، بزرگی و برتری اخلاقی طور پر حاصل ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ اور خشیت الٰہی ہے۔ جو کوئی بھی تقویٰ اختیار کرے گا وہ اللہ اور لوگوں کی نظروں میں زیادہ عزت و توقیر کا مستحق ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی احادیث میں اسی طرح کی باتیں بتائی ہیں ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر بجز تقویٰ کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ اس طرح کی باتوں کو اگر دل سے مان لیا جائے سب کو ایک آدم کی اولاد، ایک خاندان اور ایک کنبہ کے افراد تسلیم کر لیا جائے تو دنگے فساد میں بڑی حد تک کمی ہو سکتی ہے اور سماج و معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اسلام نے چھوٹے بڑے، امیر و غریب، مرد و عورت، ماں باپ، بھائی بہن، شوہر و بیوی، حاکم و رعایا وغیرہ سب کے حقوق بتا دئیے ہیں اور اخلاقی و قانونی طور پر ان کی بجا آوری پر زور دیا۔ ان حقوق کو ہمیں آج بھی ادا کرنا ہے۔ ان کی بجا آوری ہی آج دنیا میں انصاف اور امن و امان کی ضمانت ہے۔

ٹھوس بنیاد کا فقدان

اقوام متحدہ کے ’’ حقوق انسانی‘‘ کی ادائیگی میں ایک بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ حقوق انسانی کا تعین اور ان کے نفاذ کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے جس کے ذریعہ حقوق انسانی کا صحیح صحیح تعین کیا جا سکے جب کہ اسلام کے پاس ان کے لیے ایمان و عقیدے کی ٹھوس بنیادیں ہیں۔ حقوق انسانی کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ سارے انسانوں کو ایک خدا کی مخلوق اور ایک آدم کی اولاد سمجھا جائے۔ اور انسانوں میں رنگ و نسل، قوم و وطن اور کالے گورے کا فرق و امتیاز نہ کیا جائے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو یکساں حقوق کے تعین اور ان پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہیں اور قوموں و ملکوں میں خون و خرابہ کا باعث بنتی ہیں۔

 

ویٹو کی بالادستی دوسری بڑی رکاوٹ

انسانی حقوق کی ادائیگی میں دوسری بڑی رکاوٹ ویٹو پاور کا حق و اختیار ہے۔ ویٹو اقوام متحدہ کے یکساں حقوق و مساوات کے دعوے دار اور ضد ہے۔ ویٹو پاور رکھنے والی طاقتیں کسی بھی مسئلہ کو جو ان کے مفاد اور ان کی مرضی و منشا کے موافق نہ ہو۔ حل ہونے نہیں دیتیں الجھائے اور لٹکائے رہتی ہیں جنرل اسمبلی کی اکثریت اگر کوئی قرار داد پاس بھی کر دے تو یہ اپنا ویٹو استعمال کر کے اسے کالعدم اور بے وزن کر دیتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل، مساوات اور حقوق انسانی کے دعوے کے پیچھے ویٹو کی بالادستی اور حکمرانی چھپی ہوئی ہے وہ ممالک جو اس حق سے محروم ہیں اور اقوام متحدہ سے منسلک ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں انہیں اپنے اشتراک، انسلاک و الحاق کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ وہ اس صورت حال سے مطمئن اور خوش ہیں یا وہ اس کی اصلاح اور اس میں تبدیلی چاہتے ہیں اگر وہ تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس فرق و امتیاز کو روانہ رکھنے والوں کا ساتھ نہ دیں اور اسے ختم کرائیں۔

 

انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار امریکہ کا عمل

امریکہ آج کی دنیا میں اپنے پروپیگنڈے کے زور پر حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار بنا ہوا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کا احترام نہیں کرتا وہ اپنے مقابل میں دیگر قوموں و ملکوں کے انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ انسانی حقوق کو پامال کرنے اور کمزوروں اور چھوٹے ملکوں پر ظلم و زیادتی کرنے میں سب سے آگے ہے۔ قدیم عرب میں رواج تھا اور آج بھی بہت سی جگہوں پر ایسا ہی ہے۔ طاقتور فرد، قبیلہ و ملک اپنے مقابل میں کمزور فرد، قبیلہ و ملک کو اپنے برابر حقوق نہیں دیتا۔ اگر کسی کمزور فرد، قبیلہ یا ملک نے کسی طاقتور فرد قبیلہ و ملک کے کسی فرد یا کچھ افراد کو قتل کر دیا ہے تو طاقتور فرد، قبیلہ و ملک قاتل فرد یا افراد کے قتل پر ( برابری کی بنیاد پر ) اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے مقتول کی اپنے اعتبار سے قیمت لگاتا ہے اور ایک یا گنتی کے چند افراد کے بدلے میں قاتل کے گھر، خاندان اور قوم و قبیلے کے سینکڑوں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جب کہ اسلام ایسے اندھے انتقام و بدلے کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی قتل کیا جائے گا قاتل کے گھر، خاندان و قبیلے کے دوسرے اور سینکڑوں افراد نہیں۔

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے جو کچھ کیا۔ دنیا میں تباہیاں مچائیں، جانوں کو تلف کیا۔ کیا ان کی طرف سے انسانی حقوق کا یہی احترام ہے؟

خود ہمارے ملک برصغیر میں بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ اکثریت کا ایک طاقت ور طبقہ انسانی حقوق کا احترام اور پرواہ نہیں کرتا۔ بہانے ڈھونڈھ کر بلکہ بہانے بنا کر اقلیتوں کو ہلاک کرتا، ان کے گھروں اور ان کی دکانوں کو جلا دیتا اور ان کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ اقلیت کے ایک فرد، یا چند افراد نے کوئی غلطی یا زیادتی کی ہو تو اسے یا انہیں پکڑ کر مقدمہ چلا کر، جرم ثابت ہونے پر اسے یا انہیں سزا دلانے کے بجائے قانون و اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے اقلیتوں پر ہلہ بول دیتا ہے۔ ان کو مارتا اور ان کی بہنوں و بیٹیوں کو بے عزت کرتا ہے۔ انسانی خون اور انسانی حقوق کا کسی کو پاس و خیال نہیں رہتا۔ طاقتور اپنی من مانی کرتا ہے اور من مانی کرنے والا آزاد پھرتا ہے۔ انسانی حقوق کا احترام صرف کمزوروں کے لیے ہے ان کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہونے پائے۔ اور وہ جائے تو وہ بھرپور سزا پائیں۔

 

اسلام کسی کو ویٹو کا حق نہیں دیتا

اسلام توحید، رسالت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور آخرت پر ایمان کے عقیدے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے ساتھ عدل و مساوات کا قائل ہے۔ وہ کسی کو بھی ویٹو کا حق و اختیار نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ سارے انبیاء کے سردار، خاتم النبیین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں الا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو کوئی استثنائی حق دیا ہو۔

چوری کے ایک کیس میں ایک معزز خاتون کو سزا سے اسے مستثنیٰ کر دینے کی سفارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش لے کر آنے والے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو برہمی کی نظر سے دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دے کر لوگوں کو اکٹھا کیا۔ پھر فرمایا: تم سے پہلے کی امتیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ وہ کم درجہ کے لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دیتی تھیں اور اونچے درجہ کے لوگوں کو چھوڑ دیتی تھیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ اور پھر اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

جنگ بدر کے قیدیوں کا معاملہ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فدیہ لے کر آزاد کر دینے کا مشورہ قبول کیا۔ فی کس چار ہزار درہم سے لے کر ایک ہزار درہم تک فدیہ بھجوا کر مکہ والے اپنے عزیزوں و رشتہ داروں کو چھڑایا۔ ان قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب مکہ میں ابھی تک انہی کے پاس ہیں۔ زینب نے اپنے شوہر ابوالعاص کو چھڑانے کے لیے جو مال بھیجا اس میں وہ ہار بھی تھا جسے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ابوالعاص کے پاس رخصت کرتے وقت دیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہو گئی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ویٹو پاور نہیں ہے کہ داماد کو آزاد کر دیں، ہار بیٹی کو واپس کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو مشورہ دیتے اور ان سے نرمی سے کہتے ہیں مناسب سمجھو تو زینب کا ہار اسے واپس کر دو کیوں کہ یہ اس کے پاس اس کی ماں کی یادگار ہے۔ لوگوں نے بخوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو قبول کیا اور ابوالعاص کو چھوڑ دیا گیا۔ اس نے واپس جا کر حضرت زینب کو مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا اور اس واقعہ کے چھ برس بعد مسلمان ہو گئے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ امیر المومنین تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ۔ مسلمانوں میں سب سے اونچے مقام و مرتبے پر فائز۔ مگر انہیں بھی کوئی ویٹو پاور حاصل نہیں۔ وہ بھی کسی امتیازی حق و سلوک کے مستحق نہیں۔

ایک بار جمعہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کچھ دیر سے پہنچے۔ منبر پر تشریف لائے تو لوگوں نے دیکھا آپ دو نئے کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ ہمیں یہ بتائیے آپ نے سب کو ایک ایک کپڑا تقسیم کیا ہے۔ آپ کو یہ دو کپڑے کیسے مل گئے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس صرف ایک ہی کپڑا تھا جو آج عام مسلمانوں کے برابر مجھے بھی ملا ہے۔ دوسرا کپڑا مطلق نہیں تھا۔ پھر اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کر کے فرمایا: وہ کپڑا جسے ہم نے ازار بنا لیا ہے کیا وہ تمہارے حصہ کا کپڑا نہیں ہے؟ انہوں نے کہا اللہم نعم۔ جی ہاں وہ میرا ہی ہے۔ ( صفوة الصفوہ ج اول 215، سیرت عمر رضی اللہ عنہ لابن الجوزی 127 )

اس طرح کے اور واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کے نظام عدل و مساوات میں تمام انسانوں کے حقوق یکساں ہیں۔ ان میں کسی طرح کی تفریق نہیں۔ اور نہ ہی کسی کو ویٹو کا حق و اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے ذریعہ دوسروں کو دبا دے یا دوسروں سے زیادہ حق حاصل کر لے۔

 

اقوام متحدہ چھوٹے ممالک کے لیے غیر مفید

اقوام متحدہ اس لیے وجود میں آیا تھا کہ اس کے ذریعہ کوئی کمزور ملک طاقتور ملک کے ہاتھوں نقصان نہ اٹھا سکے۔ کوئی طاقتور ملک کسی کمزور ملک کو اپنی جارحیت کا نشانہ نہ بنا سکے۔ اقوام متحدہ اس کے لیے ڈھال بنے۔ کوئی حملہ آور ہو تو وہ سب مل کر اس کا دفاع کرے۔ طاقتور کی جارحیت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور اسے کامیاب نہ ہونے دے۔ لیکن یہاں اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے سب کچھ ہوا اور ہو رہا ہے۔ افغانستان و عراق کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں ان پر غاصبانہ قبضہ ہوا۔ بڑی بے دردی و بے رحمی سے انسانی جان و اموال کا اتلاف ہوا۔ اس موقع پر، اقوام متحدہ، کا رول ایک تماشائی کے سوا اور کچھ نہ تھا اور نہ ہے۔

اب ایسی اقوام متحدہ کی کیا ضرورت ہے؟ جو کچھ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے ہو رہا تھا۔ وہی سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ بلکہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ بدتر اور منظم انداز میں ہو رہا ہے پہلے بھی طاقتور ملک کمزور اور چھوٹے ملکوں پر چڑھ دوڑتے تھے۔ تخت تاراج کر دیتے تھے۔ انہیں کسی اور سے سمجھنے بوجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ وہی سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ بڑے و طاقتور ملک اسی سابقہ اصول و طریقے پر کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل جب چاہتا اور جدھر چاہتا ہے فلسطینیوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ گھروں و آبادیوں کو ویرانوں میں بدل دیتا ہے۔ زندوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے اور امریکہ کے سیاہ و وحشیانہ کارنامے تو آپ افغانستان و عراق وغیرہ میں دیکھ رہے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے۔ اور وہ شتر بے مہار بنا ہوا ہے۔

 

امریکہ کا اقوام عالم پر حکمرانی کرنے کا طریقہ کار

دنیا کو اپنی محکومی میں اپنی مرضی و خواہش کے مطابق چلانے کا امریکہ کا طریقہ کار جو میں سمجھتا ہوں کچھ اس طرح ہے:

جو ممالک اس کے اشاروں پر نہ چلیں اس کے مفادات کو اپنے مفادات پر مقدم نہ رکھیں ان میں آپس میں اختلاف و خلفشار پیدا کر دو۔ انہیں آپس میں ٹکرا دو اور ایسے لوگوں کو آگے بڑھاؤ اور جیت دلاؤ جو تمہارے لیے زیادہ مفید اور کار آمد ہوں۔ ان پر مختلف الزامات لگا کر، انہیں ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کر دو۔ اس سے بات نہ بنے تو انہیں اقوام متحدہ کی چوکھٹ تک کھینچ لاؤ۔ اور اپنے حواریوں و موالیوں کے ذریعہ ان کے خلاف قراردادیں پاس کرا کے ان پر اقتصادی، معاشی سماجی پابندیاں لگوا کر ان کا ناطقہ بند کر دو۔ وہ بھوکوں مریں گے، پریشان ہوں گے تو ان کی تم سے بغاوت اور تمہاری حکم عدولی کا سارا نشہ ہرن ہو جائے گا اور اس سے بھی بات نہ بنے تو ان کے خلاف فوج کشی کر کے ان پر قبضہ کر لو۔ ان کے دانشوروں کو ٹھکانے لگا دو اور ان کے بے عقلوں، غداروں اور ملت فروشوں کو کاٹھ کے الو اور مٹی کے مادھو بنا کر اقتدار کی کرسیوں پر بٹھا دو۔ وہ وہی بولیں گے جو تم ان سے بلواؤ گے۔ وہ وہی کہیں گے جو تم ان سے کہلواؤ گے۔

میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر اسلامی ممالک نے دنیا کے سامنے ’’ اقوام متحدہ‘‘ کا بدل ’’ عالمی اسلامی حقوق انسانی کونسل‘‘ کی صورت میں پیش نہ کیا اور دنیا کو اسلام کا سب سے بہترین نظام عدل و مساوات نہ دیا تو افغانستان و عراق، لیبیا اور شام و ایران ہی نہیں دنیا کے سبھی مسلم ملک ایک ایک کر کے امریکہ کی عالمی خدائی کی شان پر بھینٹ چڑھیں گے اور ان ہی مرحلوں سے گزریں گے جن کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے۔ اہل حق مارے جائیں گے اور کچل دئیے جائیں گے۔ اہل باطل، ملک و ملت فروش اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ وہ نام کے حکمراں ہوں گے۔ حکم سپرپاور اور بڑی طاقتوں کا چلے گا۔ ان سے یہ کہا جائے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔

 

مسلم عالمی حقوق انسانی کونسل کے قیام کی ضرورت

آج کی دنیا میں توحید و آخرت کا عقیدہ رکھنے والے، آسمانی کتابوں قرآن اور فرشتوں پر ایمان لانے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا آخری رسول تسلیم کرنے والے ممالک کی ایک ’’ عالمی اسلامی حقوق انسانی کونسل‘‘ کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔ دنیا کے اندر ساٹھ پیسنٹھ جتنے بھی مسلم ممالک ہیں وہ ایک شیرازہ میں منسلک و متحد ہو جائیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں اقوام متحدہ کے طرز و انداز پر ایک عالمی مسلم کونسل بنا لیں اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنے معاملات طے کریں تو ان شاء اللہ ان کے معاملات و مسائل حل ہو جائیں گے اور ان کی پریشانیاں بھی دور ہو جائیں گے اور دوسرے بھی حصول انصاف کے لیے ان کے پاس آئیں گے۔ اور دنیا کے مسائل حل کرنے میں انہیں اپنا تعاون دیں گے۔

موجودہ وقت اور حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ مسلم ممالک کے دکھ درد کا علاج نہیں۔ اس کے پاس نہ ان کے مسائل کا حل ہے اور نہ ہی ان کے لیے وہاں امن و انصاف ہے۔ ان کے لیے صرف ذلت و رسوائی، تباہی و بربادی اور غلامی و محکومی ہے۔ مسلمان ہر حال میں انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں چاہے ان کے حق کا فیصلہ اپنے کسی قریبی عزیز و رفیق کے خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو۔ اگر وہ ایسا کر لیں تو ان شاء اللہ وہ مرجع خلائق اور محبوب کائنات بن جائیں گے۔

سورہ انعام آیت 153 میں فرمایا گیا ہے

’’ جب بات کہو انصاف کی کہو، چاہے معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔ ‘‘

سورہ مائدہ آیت42 میں ہے کہ

’’ اگر ( یہود ) تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کر دو تو یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘

سورہ مائدہ آیت 8میں فرمایا گیا ہے

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر سیدھے راستے پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب بات ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

اس کونسل و تنظیم کے اصلی و بنیادی ارکان صرف وہ مسلم ممالک ہو سکتے ہیں جو توحید و آخرت کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ورسول تسلیم کرتے ہیں۔ اللہ کے فرشتوں، آسمانی کتابوں، خاص کر آخری کتاب ہدایت قرآن پر ایمان رکھتے ہوں۔ یہی اس کے بنیادی ممبر ہو سکتے ہیں۔ اور یہی لوگ نظام عالم کو کتاب و سنت کی روشنی میں عدل و امن کے ساتھ چلا سکتے ہیں۔

دیگر ممالک جو توحید اللہ اور آخرت میں حساب و کتاب اور جزا و سزا کے عقیدے پر ایمان نہیں رکھتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا آخری نبی ورسول اور قرآن کو اللہ کی آخری کتاب تسلیم نہیں کرتے اور فرشتوں کو اللہ کی مرضیات و احکام کے تابع فرمان بندے نہیں مانتے وہ اس تنظیم و کونسل کے بنیادی و اصلی رکن نہیں بن سکتے۔ لیکن عدل و انصاف کے حصول کے لیے ان سے منسلک رہ سکتے، ان سے تعاون لے سکتے اور ان کا تعاون کر سکتے ہیں۔

اللہ مسلمانوں کو عدل و انصاف کا داعی و نقیب اور حقوق انسانی کا محافظ و نگہبان بنائے۔ آمین

٭٭٭

ماخذ:

ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4،  5،  جنوری فروری 2008 ء

http://www.ahlehadith.com/mazameendetailb3ed.php?mid=90&cid=28

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید