FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جہانِ گم گشتہ

 

حصہ اول۔ افسانے

 

 

نگہت سلیم

 

’جہان گم گشتہ‘ ناولٹ پر مشتمل اس کتاب کا دوسرا حصہ  پہلے ہی شائع کیا جا چکا ہے

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول ۔۔۔ افسانے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ سوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

مانوس اجنبی کہانیاں ۔۔۔ خالدہ حسین

 

دیو قامت تخلیق کاروں کے عہد میں زندہ رہنا بیک وقت انتہائی خوش نصیبی اور اذیت ناک آزمائش ہے۔ ہمارا عہد قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا عہد ہے۔ (میں صرف اردو فکشن کی بات کر رہی ہوں) اگر مجموعی طور پر تخلیقی ماحول کو لیں تو اس میں منیر نیازی ایسا کم یاب شاعر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ سو ایسے لوگوں میں اپنی تخلیقی کاوشوں کا دیا جلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جب قارئین پر اُن لوگوں کا جادو چل رہا ہو تو کسی دوسرے کی کیا گنجائش، مگر تخلیقی تحریک کسی ظن و تخمین کی پابند نہیں ہوتی وہ اپنی سی کر گزرتی ہے۔ تناور درختوں کے سائے میں چھوٹے چھوٹے پودے بھی سر اٹھاتے اور رفتہ رفتہ بڑھتے پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ مستقل طور پر جڑ پکڑ لیتے ہیں۔

اُردو افسانے میں بھی وقتاً فوقتاً جگنو چمکتے دمکتے رہتے ہیں یہ نثری ادب کی مقبول ترین صنف ہونے کے باعث بہت جلد موضوعِ گفتگو بن جاتی ہے۔ کوئی لکھنے والا اپنے منفرد اسلوب کے باعث اپنا آپ منواتا چلا جاتا ہے۔ میں کوئی مفکر یا ادبی وکیل نہیں ہوں کہ ہر دم ادب کی نشو و نما کی فکر میں مبتلا رہوں۔ میری ضرورت یا خواہش صرف اچھی تحریر ہے جہاں بھی جس صنف میں بھی مل جائے اس لیے کہ ادب میرے نزدیک انسان کو زندہ رہنے کا حوصلہ اور آشوبِ ہستی کو تسلیم کرنے کا ظرف عطا کرتا ہے یہ انسانی زندگی کی چمک دمک کی تہہ میں مسلسل اُبلتی تاریکی کو کھیل کا لازمی حصّہ باور کرا کے اس کو برداشت کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔

نگہت سلیم کی کہانیاں ہمیں یہی پیغام دیتی ہیں۔ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز۔ اگر آپ ادب کو محض وقت گزاری اور تفریح کا ہتھکنڈا نہیں سمجھتے بلکہ اس کے ذریعے اپنے ماحول کو بہتر طور پر سمجھنے کی امید میں کوئی کتاب ہاتھ میں پکڑتے ہیں تو آپ کو یقیناً ” جہانِ گم گشتہ” کی کہانیاں مایوس نہیں کریں گی اور ہر کہانی اپنے اختتام پر یہ سرگوشی کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا ہوتا ہے۔

ان کہانیوں کا کینوس بہت وسیع اور بعض اوقات نامانوس بھی ہو جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ لکھنے والی ان تمام معاملات کو کسی ایک مقام یا زمین سے مخصوص نہیں سمجھتی ہے بلکہ جانتی ہے کہ یہ ہر جگہ ہر مقام اور ہر وقت کے معاملات ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ان افسانوں میں زمانے کی بھی کوئی قید نہیں ہے بلکہ یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ معاملات نہ جانے کب سے شروع ہوئے اور ان کا سلسلہ نجانے کہاں تک چلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ نگہت ہمیں اپنے افسانوں کے ذریعے بتاتی ہے کہ قدرت نے یہ دنیا کتنی وسیع بنائی ہے مگر انسان نے اسے انسان پر تنگ کر دی ہے۔

ایک آزاد سائیکی کس طرح انواع و اقسام کی پابندیوں میں زنجیر کی جاتی ہے اور اس کو تحفّظ کا نام دیا جاتا ہے۔ ……مِری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ” کوئلہ بھئی نہ راکھ” میں مولوی صاحب کے فتراک میں جو تین بیٹیاں اور ایک بیوی ہے، اسی تحفّظ کی اسیر نظر آتی ہیں۔ قدرت کی تخلیق کردہ اس لا محدود دنیا میں ایک دم گھوٹتا گم سم مقام ہے جو اپنی تنگی میں زنداں کو مات کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس تمام صورت حال میں کوئی بھی دشمن اور بد نیت نہیں۔ یہ ایک ان دیکھا آہنی شکنجہ ہے جس میں ایک طاقتور گروہ دوسرے کمزور اور اپنے رحم و کرم پر پڑے گروہ کو گرفتار کر لیتا ہے۔ اور پھر اس میں مقید لوگ اس قید کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ دروازے کھلے ملنے پربھی اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے اور اسی طرزِ زندگی کو جاری رکھتے بلکہ ورثہ کی صورت دے دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اذیت ناک صورت حال تصور میں نہیں آ سکتی۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نگہت سلیم بڑے ضبط و تحّمل اور فنی سوجھ بوجھ کے ساتھ کہانی کو اس قیامت خیز انجام تک پہنچاتی ہے اور مولوی صاحب کی بیٹی بالکل انہی کی طرح لوگوں کو پڑیوں میں کامرانیوں کا سفوف باندھ باندھ کے دیئے جاتی ہے جس سے وہ خود محروم ہے۔

یہ کہانیاں متمّدن شہری اور دیہاتی دونوں طرح کی زندگی پر محیط ہیں۔ کہیں آپ کو مخلوقِ خدا سے کلبلاتی شہری آبادی نظر آتی ہے تو کہیں پہاڑوں کی سر سبز وادیاں اور بلند و بالا درخت ہواؤں میں جھومتے ہیں۔ ماحول کا یہ تنوع ان کہانیوں کا ایک اہم جزو ہے۔

"محبت اور طاعون” میں جدید تنگ عمارات میں رہنے والے لوگ ہیں جن کی الماریاں ملبوسات اور قیمتی اشیاء سے لدی ہیں مگر چوہے صرف اور صرف کتابیں کترتے اور غارت کرتے ہیں اوراس معاشرے سے علم کو مفقود اور دولت کو موجود کرنے کے درپے ہیں۔ مگر "جشن مرگ” میں پہاڑوں کی کھلی فضا اور گھنے سر سبز جنگل ہیں۔ کبھی تاروں بھرے آسمان کی وسعتیں آپ کے سامنے آ جاتی ہیں اور کبھی انسانی ہاتھ کے سجائے گھر اور ان کے خانۂ باغ جن میں گلِ مہر جھومتے ہیں۔ فطرت کے ساتھ نگہت کی یہ وابستگی شاید وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحت الشعوری تمنا ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر عورت کے لیے وسعت اور آزادی کا استعارہ بن جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ نگہت نے پاکستانی یا برّصغیر کے معاشرے میں اس گھٹن کو خاص موضوع بنایا ہے جو عورت کے حصے میں آئی ہے۔ شاید ادبی نقاد اس کو نسائی حسّیت کا شاخسانہ قرار دیں مگر میرے نزدیک یہ ایک انسانی صورتِ حال ہے جو ہمارے معاشرے کے کسی بھی فرد پر عائد ہو سکتی ہے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک احساس مجھے یہ بھی ہے کہ نگہت نے شاید شعوری طور پر اپنی کہانیوں کا ماحول بہت گمبھیر رکھا ہے۔ اس میں انسان کی روز مرّہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور محرومیوں پر فوکس نہیں کیا گیا جو جدید اردو افسانے کا امتیاز ہے۔۔ سن ساٹھ سے چلنے والے اس افسانے نے زندگی کی عام معمولی اور ناقابلِ توجہ اشیاء اور واردات کو اہمیت دے کر اسے شان و شکوہ عطا کیا۔ انگریزی میں یہ جیمز جوائس اور اردو میں انتظار حسین کے فن کی خصوصیت ہے روسی ادب میں چیخوف نے بھی عام زندگی سے فنی بصیرت کشید کی۔

مگر ہر رجحان اپنی مدت پوری کر کے پس منظر میں جانا شروع کر دیتا ہے یوں بھی بڑے لکھنے والے اپنا انداز اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور نئے لوگوں کو میدان میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ اب افسانہ زندگی کی گری پڑی چیزوں کے ساتھ وابستگی توڑ کے بڑے موضوعات کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اس کو آپ کلاسیکی رنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔

نگہت کے ہاں آپ کو یہ کلاسیکی رنگ نظر آئے گا۔ اس سلسلے میں اس کا ناولٹ، ” جہانِ گم گشتہ” نہایت اہم ہے۔ یہ ہماری تاریخ کے ایک ایسے دلدوز سانحے کو موضوع بناتا ہے جس کی اذیت کبھی کم ہوئی نہ ہو گی۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جس سے اب تک لہو ٹپکتا ہے اور ٹپکتا رہے گا۔ بڑے بڑے سانحات اپنے ساتھ ناقابلِ فہم وجوہات اور شاخسانے لے کر آتے ہیں جنھیں تاریخ مدّتوں سلجھاتی رہتی ہے۔

"سقوطِ ڈھاکہ” جس قدر اہم اور بڑا سانحہ تھا اس حساب سے اس پر بہت کم لکھا گیا۔ نگہت نے بڑی جرأت مندی اور تخلیقی بصیرت کے ساتھ اس پر قلم اٹھایا ہے یہ اس کی فنی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک ٹھوس اجتماعی واقعہ کو اس نہج سے تخلیقی پیرایہ بخشا کہ اس کی واقعیت پر کوئی حرف نہ آتے ہوئے ایک ماورائی کیفیت چاروں کھونٹ چھائی نظر آتی ہے۔ ابتدا میں یہ کہانی ایک کابوسی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ابتدائیہ شہر راولپنڈی کے تاریخی پس منظر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے گلی کوچوں کا تذکرہ ہمیں دور دراز زمانوں میں لے جاتا ہے۔ مگر اچانک کچھ بھٹکے، شکست خوردہ پریشان و پشیمان کردار ظہور کرتے ہیں اور ہماری تاریخ کا ایک اندوہناک دروازہ وا ہو جاتا ہے۔ یہ ہزیمت زدہ تین افراد کی کہانی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا سات پردوں میں چھپا دیا جانے والا سانحہ ہے جس کے بارے میں کبھی سر عام کھل کے گفتگو نہ ہوئی۔ ستاون کی جنگِ آزادی کا بخت خان ہتھیار نہیں ڈالتا اور جنگلوں بیابانوں میں نکل جاتا ہے مگر ڈھاکہ کا کرنل جلال شکست کا ناسور دل پر لئے تمام زندگی ایک نائٹ میئر کی صورت بسر کرتا ہے۔ خادم خوش فہم اور بد نصیب عوام کا وہ نمائندہ ہے جو اپنے دشمن کے بارے میں کسی واضح نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتا اور اپنی تباہی قبول کرنے پر مجبور ہے۔

میرے نزدیک یہ کہانی اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل کرنے کی مستحق ہے۔

اسی نہج پر اپنی دوسری طویل کہانی ” آسیبِ مُبَرم” میں نگہت نے ایک اور بہت بڑا موضوع اٹھایا ہے۔ انسانی معاشرے کی عجیب خصلت ہے وہ کسی بھی مختلف فرد کو قبول نہیں کرتا اور اس کے لیے زندگی جہنم بنا دیتا ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ قدرت ہر نا انصافی کی بڑی فراخدلی سے تلافی کرتی ہے۔ کسی ایک نقص کا شکار انسان غیر معمولی صلاحیت سے مالا مال کر دیا جاتا ہے مگر آس پاس بسنے والے اُس جوہرِ قابل کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔

"حلقہ مِری زنجیر کا”۔۔۔۔۔۔۔ شرفِ انسانی اور احترام آدمیت کے تصّور پر ایک کاری ضرب ہے۔ نگہت اپنی اسی رستی بستی، خوش و خرم، چمکتی دمکتی دنیا کے ایک ایسے تاریک گوشے سے پردہ اٹھاتی ہے کہ ہم فوراً آنکھیں ڈھانپ لینا چاہتے ہیں۔ نہیں نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟؟ ہمارے آس پاس، ہمارے پہلو ہی میں ایسے منطقے ہیں جہاں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح خریدے بیچے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جن کی نسلیں وجود میں آنے سے قبل ہی پا بہ زنجیر ہوتی ہیں۔ شیدی غلاموں کی یہ کہانی جہاں ہمیں تلخ حقائق کی خبر دیتی ہے وہیں نہایت فن کارانہ جزئیات نگاری کے ذریعے ایک جیتا جاگتا ماحول تخلیق کرنے کی مثال بھی پیش کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کہانی ختم ہونے پر جب ہم جبرو استبداد کے اس ماحول سے نکلتے ہیں تو کھل کر سانس لیتے اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش یہ محض کہانی ہو۔۔۔۔۔۔۔

کہانی کے کلاسیکی انداز کی طرف مراجعت میں نگہت سلیم کی قصّہ نگاری ایک اہم قدم ہے اس کا مقصد ہماری آپ کی جانی بوجھی زندگی کے کچھ ایسے واقعات اور کرداروں کو سامنے لانا ہے جو ہمیں بتاتے ہیں کہ "سب اچھا نہیں ہے "۔ نیکی، انصاف یہاں تک کہ محبت کے زعم میں ہم ایک دوسرے کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہانیاں ایک سوالیہ نشان بنی ہمارے راستے میں کھڑی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ زبان و بیان کی تمام تر متانت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔

ان کہانیوں کا تنوع ہمیں بتاتا ہے کہ نگہت نے اپنے آپ کو کسی ایک میدان تک محدود نہیں رکھا۔ دروں بینی کے ایک طویل وقفے کے بعد اردو افسانہ خارجی دنیا کے ساتھ تخلیقی رابطے دریافت کر رہا ہے۔ اِس مجموعے کی کہانیاں ہمیں یہی بتاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اجتماعی حسیّت رکھنے والوں کی تحریر پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک علمی سطح کا ہونا لازمی ہے۔ نگہت کی کہانیاں مقبول ادب میں شاید شامل نہ ہو پائیں مگر وہ اہم کہانیوں کی صف میں ضرور جگہ پائیں گی۔

تو بس ہم سمجھ لیتے ہیں کہ اب افسانہ کلاسیکی مزاج کی طرف مائل ہے یہ اثرات زیر نظر مجموعے کے اسلوب میں نظر آئیں گے۔۔۔۔۔۔۔ تو اب نگہت کی نثر پر بھی بات ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ جدید اردو افسانے کی زبان بول چال کے بہت قریب ہے اس میں عربی فارسی کی بجائے پاکستان کی مقامی زبانیں اور رنگ و آہنگ زیادہ ہے۔ اگر ہم اپنے دور کے آئیکون انتظار حسین کی نثر دیکھیں تو اس میں بھی بول چال کا آہنگ اور ہندی کے اثرات زیادہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کہیں انھوں نے داستانوی رنگ اپنایا ہے وہ الگ بات مگر ناولوں اور عام زندگی سے متعلق افسانوں کی زبان بول چال کے بہت قریب اور اسی حساب سے بہت جاندار ہے۔

نگہت کی زبان کلاسیکیت کی طرف مائل ہے جس میں فارسی کا رنگ چوکھا ہے۔ یوں کہہ لیجے کہ وہ ایک حد تک مشکل زبان لکھتی ہے۔ بعض مقامات پر تو مجھے بھی لغت کی مدد لینی پڑی مگر یہ اسلوب اس کی کہانیوں کے لیے نہایت مناسب نظر آتا ہے۔ اسی لیے اس کی کہانیاں ایک خاص علمی سطح رکھنے والوں کے لیے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ آج کے دور میں ہم کسی کی تحریر سے کچھ سیکھ سکیں۔

 

 

خالدہ حسین

(تَمغۂ حُسنِ کار کردگی)

 

 

 

 

 

جشن مرگ

 

یہ واقعہ نو برس پرانا ہے، لیکن میں آج بھی اسے بہت وضاحت سے دُہرا سکتا ہوں۔ انسانی زندگی پر وقت، جگہ اور مادہّ عجیب طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم وقت کو صرف ایک رُخ سے دیکھ پاتے ہیں اور عمر بھر اس کی گنتی کرتے رہتے ہیں۔ دوسری چیز جگہ یا فاصلہ ہے جس کی حقیقت ایک ہی دائرے کے گرد چکر لگانے سے زیادہ نہیں ہے اور پھر مادہّ جس کا اندازہ ہم ناپ ناپ کے لگاتے ہیں۔ یہ اکائیاں ہمیں تھکاتی ہیں، ہمارے گزرنے کا احساس دلاتی ہیں۔ دادا کہتے تھے، قدرت بہت فطین ہے، وہ اپنے تخلیقی و کیمیائی اجزا کو بار بار استعمال میں لاتی ہے، انھیں ضائع نہیں ہونے دیتی۔ شاید دادا یہ راز پا گئے تھے اسی لئے انھوں نے خود کو ضائع ہونے سے بچا لیا لیکن میرے ماں باپ کو کبھی یہ پتا نہیں چل سکا کہ دادا میرے سر پر ایک جادوئی چھڑی گھما کے خود میرے اندر حلول کر گئے ہیں۔ یہ جادوئی چھڑی ان کے روزنامچے پر مشتمل ایک دستی تحریر کردہ کتاب تھی۔

اُس وقت میں مغرب کی ایک معروف جامعہ میں اعلیٰ سند کے حصول کے لئے کوشاں تھا جب مجھے اطلاع ملی کہ دادا اپنے آخری ایّام گاؤں میں گزارنے پر مصر ہیں، پھر معلوم ہوا وہ چند دن وہاں رہ کے اِس بود و نمود سے پردہ کر گئے ہیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اب میری خاک کے مقدر میں تا حیات اِس گاؤں کی اُترائیوں، پہاڑیوں اور جنگلوں میں رقصاں ہونا لکھا  جا چکا ہے۔ کس طرح مجھ پر الف لیلوی دنیاکے دروازے بند ہوئے، کیونکر میں ایک دور افتادہ مقام کا دہقانی بنا۔ میری روح کے اجزائے ترکیبی میں شامل کون سا جزو اثر انگیزی میں غالب آ گیا؟ آج نو برس بعد بھی میں ان سوالوں کے جواب نہیں پا سکا ہوں لیکن اس تبدیلی کا محرک اس واقعے کو قرار دیتا ہوں جس سے دادا کا روزنامچہ ایک ڈور کی طرح بندھا ہوا ہے۔

وطن واپسی پر میرے ماں باپ نے نہایت بے دلی سے مجھے ایک سیاہ رنگ کی ملگجی سی کتاب دی جو ایک روزنامچہ تھا اور کہا کہ تمھارے دادا تمھارے لئے اور تو کچھ نہیں بس یہی چھوڑ گئے ہیں۔ مجھے دادا سے ہمیشہ محبت رہی۔ اپنے گھرانے کی مغربی بود و باش اور روز و شب کی بے معنی تگ و دو نے مجھے بچپن ہی میں احساسِ تنہائی دیا تھا۔ لیکن دادا کی زنبیل میں میرے لئے صدیوں پُرانی کہانیاں تھیں اور بہت سے ایسے خواب تھے جنھیں فقط لطفِ زندگی بنایا جا سکتا ہے۔

ان دنوں یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ مجھے اپنی اعلیٰ سند کی قیمت کہاں اور کتنی لگانی ہے، میرے پاس کچھ وقت تھا جسے میں مکمل فراغت سے گزارنا چاہتا تھا۔ ایسے میں دادا کے روزنامچے سے بہتر ہمدم کون ہو سکتا تھا۔ دادا نے اپنے لکھے ہر صفحے پر مجھے مخاطب کیا تھا۔۔۔ انھوں نے لکھا تھا کہ۔۔۔۔۔۔

"میں چاہتا تھا کہ میں جہاں گرد بنوں اور قدرت کا تماشا دیکھوں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں چاہتا تھا کہ ہم سب مل کے اپنے گاؤں میں زندگی گزاریں لیکن تمھارے باپ نے کہا، ’یہ غیر متمدن علاقہ ہے۔‘ میں نے کہا، ’تمدن کا تعلق زمین سے نہیں انسانوں سے ہوتا ہے، اگر ہم چاہیں تو۔۔۔۔۔! ‘

لیکن تمہارا باپ امکانات کو حقیقت میں ڈھالنے کی سعی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے آرام دہ زندگی کی خاطر ہم نے بڑے شہر کا رخ کیا جہاں ہماری روحیں سارنگی سے طبلہ بن گئیں۔ ہم اس شور میں کب ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہمیں پتا نہ چلا۔ میں چاہتا ہوں تم مجھے ڈھونڈ لو۔۔۔۔ انسان کبھی کبھی ہجر میں نئے قیام کی طرف مڑ جاتا ہے یا خود اپنے اندر سے ہجرت کر جاتا ہے، اس فاصلے کو صرف تم طے کر سکتے ہو اور اس کے لیے تمہیں میرے گاؤں آنا ہو گا جہاں تمہارے بچپن کے ابتدائی دن اور وہ تمام بھرپور دن جنہیں میں ہمیشہ کے لیے قائم رکھنا چاہتا تھا، آج بھی تمہیں اس گھر میں ملیں گے جس کا دروازہ ہلکے سرخ رنگ کی مہاگنی سے بنا ہے۔ استوائی جنگل کے جھنڈ سے نکل کے جب روئیدگی آئے اور تمہیں فضا میں آڑو، خوبانیوں اور سیبوں کی مہک مسحور کرنے لگے تو سمجھ لینا کہ اس مظہری دنیا میں وہ مقام آ گیا ہے جہاں سے میرا تمہارا ما بعد الطبیعاتی رابطہ سہل ہو جائے گا۔ ”

میں نے چرمی سفری تھیلے میں کچھ ضروری سامان اور دادا کی ڈائری رکھی اور پہاڑوں کے اُس طویل سلسلے کی طرف چل پڑا جس کے کشادہ دامن سے لپٹی وادیاں عہدِ سیلمانی کی کہانیاں سناتی ہیں۔ وہ غیر معروف اور دنیا سے تقریباً کٹا ہوا علاقہ تھا۔ مجھے آج بھی یا دہے، ایک مسافر گاڑی نے مجھے تنگ اور نیم پختہ سڑک پر اتارا اور دیکھتے ہی دیکھتے تہ در تہ پھیلے پہاڑی درّوں میں طاؤسِ بلقیس کی طرح غائب ہو گئی۔ میں اُس جنّاتی مقام پر فطرت کے جاہ و چشم کو محسوس کر کے سہم گیا تھا۔ میرا خیال تھا ہوائی مستقر سے علاقے تک کا راستہ شام سے پہلے طے ہو جائے گا لیکن پہاڑوں پر چھائے بادل، سمے کی رفتار اور فضا کی نقرئی سبز رنگت کو یوں اپنے اندر جذب کر رہے تھے کہ ہر شے کسی جادوئی پنجے میں جاتی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اب فاصلے کو ناپے بغیر چلنا ہے۔ کوہِ سبز پر پہنچ کے جو اُترائی آئے گی وہی علاقہ طلسم آباد ہے۔ راستے میں ملنے والے چروا ہے نے تنبیہی انداز میں کہا کہ اُترائی سے پہلے بڑا جنگل آتا ہے لہٰذا رات مجھے پہاڑی پر گزارنی چاہیے اور پھر میں اُس سرائے میں تھا جس کے ڈھنڈار کمرے میں بوسیدہ خاکستری تپائی پر قدیم جسیم ڈیوٹ کی بھڑکتی لو آسیبی ہیولے بنا رہی تھی۔ وہ سرائے ایسے رخ پر تھی کہ اُترائی میں آباد علاقہ صاف نظر آ سکتا تھا۔ دور چند گھروں کی ٹھٹھرتی زرد روشنی کی آڑی ترچھی لکیریں سہمی سہمی زندگی کا پتا دے رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا مجھے ان گھروں میں سے ایک گھر میں جانا ہے جہاں سالوں سے کسی نے روشنی نہیں کی ہو گی، جہاں آتے جاتے موسموں نے اپنی بے شمار نشانیاں دفن کر دی ہوں گی۔ مجھے نہیں یاد۔۔۔ وہ کوئی جھونکا تھا یا فریبِ خیال، عقب سے دادا کا لہجہ گونجا تھا۔۔۔

"۔ تو تم آ گئے؟”

میں تیزی سے پلٹا، جھولنے والی کرسی کے ڈھانچ پر میرا کوٹ پڑا تھا جس پر بارش کے قطرے چمک رہے تھے، کیا وہاں کوئی تھا۔۔۔۔۔؟ میں اخروٹ کی لکڑی سے بنے دروازے کو کھول کر اس نیم روشن کشادہ جگہ پر آ گیا جس کے فرش کے نیچے بھٹیوں میں سوکھی لکڑیاں سلگ رہی تھیں۔ ترکستانی قالین پر اصفہانی سماوار کے گرد سبز قہوے کے فنجان رکھے تھے اور سرائے کا مالک بھیڑ کی اون سے بنی ٹوپی اور گرم چادر لپیٹے، تنور سے خوبانی کے آٹے کی گرم خوشبو دار روٹیاں نکال رہا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ بوڑھا منگول بہت پُر شکوہ تھا۔ اس کی عمر اس پر یوں سج رہی تھی جیسے وہ فقط اسی عمر کو بسر کرنے اس جہانِ رنگ و بو میں آیا ہو۔ مجھے وہ شخص بھی نہیں بھولا جو سرائے میں مجھ سے پہلے موجود تھا جس نے قہوہ پینے کے بعد اپنی تُوتک اٹھا لی تھی، پہلے آہستہ پھر بہت زور سے اس کے سوراخوں میں پھونک مار کے وہ انگلیوں کے دروبست سے کسی قدیمی گیت کے سُر نکالنے لگا۔ چند لمحوں بعد لکڑی کا خرادا توتک اور وہ جوانِ رعنا یک جان و ہم ذات ہو چکے تھے۔ گیت کی بُنت نے ہمارے اطراف اَن دیکھا محمل اِستادہ کر دیا تھا جس میں ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ لیکن اپنے آپ سے دور نکل گئے تھے۔

برشگال کی رات اور توتک کے سُروں کا طلسماتی مرکب کیا کم تھا کہ میں نے دادا کا روزنامچہ بھی کھول لیا، لکھا تھا:

"میرے پوتے۔۔۔۔۔ میرے سکندر میرے لفظوں میں مجھے تلاش کرو اور اُس محبت کو بھی جو میں نے تم سے کی۔۔۔۔۔ ان ہری بھری چراگاہوں میں میری سانسیں آج بھی موجود ہیں جو میں نے لا حاصلی کے بوجھ تلے لی تھیں۔ میرے جسم کی راجدھانی میں فقط ایک جگہ سجی رہ گئی ہے وہ ہے میرا دل۔۔۔۔۔ جو اس روزنامچے میں یاں واں بکھرا نظر آئے گا۔ ”

میں نے توتک کے سُروں میں دادا کی آنکھیں یاد کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے لکھا تھا، "لوگ آخری عمر کے تحفظ کے لیے مال و منال جمع رکھتے ہیں جب کہ آخر آخر میں محبت کی ضرورت رہ جاتی ہے، محبت جسے روز تازہ کرنے کے لیے لہو کا چھڑکاؤ ضروری ہے اور چھڑکاؤ کے لیے صحیح وقت اور صحیح مقدار کا تعین لازمی ہے لیکن ہر کسی کی حسّیات میں اتنی پیمائشوں کے آلے کہاں موجود ہوتے ہیں، کبھی کبھی تو انسان تا حیات محبت کرنے اور کروانے کے ہنر سے ناواقف رہتا ہے۔ بہر طور ایسے میں کہ جب آگے دیکھنا مشکل ہو جائے اور مڑ کے تکنا ہی روز و شب کا عمل بن جائے تب گزرے موسموں کے راز پانے اور پچھتاووں کی گرہیں کھولنے میں وقت اچھا کٹتا ہے۔ ”

میں اپنے تختِ خواب پر آ گیا تھا اور اب پچھتاووں کی گرہیں کھول رہا تھا۔ گزرے برسوں میں، میں نے ان کی رسمی سی خیریت دریافت کی تھی اور بھول گیا تھا کہ انسانی زندگی میں مہلت کم سے کم ہوتی ہے۔ میں خود سے عہد کرنے لگا۔ میں صبح تاخیر کیے بنا وادیِ طلسم آباد جاؤں گا، سرخ مہاگنی کا دروازہ کھولوں گا۔ لا حاصلی کے بوجھ تلے دبی ان کی سانسیں محسوس کروں گا۔ ان کی قبر پر جاؤں گا جسے وقت کے گردباد نے بے نشاں کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ میں نے روزنامچے کے کھلے اوراق کو اپنے سینے پر رکھ لیا تھا۔ ہیبت ناک پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر وادیوں میں پھیلے سبزے تک ہر شے غنودہ ہونے لگی۔

وہ رات کا آخری پہر تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ قشرِ ارض مرتعش ہو رہی ہے، پل دو پل میں لکڑی کے تختوں سے بنی سرائے لڑکھڑانے لگی۔ میں کمرے سے نکلا۔ بوڑھے منگول نے مجھے دیکھتے ہی میرا بازو پکڑ کے باہر کی جانب گھسیٹا۔ اس کی ترچھی آنکھوں میں خوف تھا اور کلّے کی ہڈی زیادہ ابھری ہوئی لگ رہی تھی۔

توتک والا بڑبڑایا، "ہبوطِ ارضی! ! ”

"نہیں۔۔۔۔۔ زلزلہ ہے۔ ” بوڑھے منگول نے کہا، "شاید اس کا زور وادی پر ہے۔۔۔۔۔ ”

"وادی! "۔۔۔۔ یک دم میرے دماغ کا حسّیاتی حصہ چوکنا ہو گیا۔

ہم تینوں سرائے کے باہر پہاڑی پر کھڑے ہو گئے۔ چوٹی آہستہ آہستہ لرز رہی تھی لیکن ہم اندھیرے میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اترائی میں آباد وادی کی زرد روشنیوں کو بجھتے اور آہ و فغاں کے طوفان کو اٹھتے دیکھ رہے تھے۔ قدرت کتنی قاہر ہے، کس طرح انسان کو اس کے بے بس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ زمین کی رگوں کو کھینچتی دُہری لہریں متوازی چلتی ہوئی طبقِ اوّل پر پہنچ کر شدید جھٹکوں کی صورت اختیار کر رہی تھیں اور وادی کا تار و پود مسل رہی تھیں، یہ سب کچھ ہوتا رہا، ہم تین اجنبی دہشت زدہ سے کھڑے دیکھتے رہے۔ ان لوگوں کے لیے اپنے لہو کو پانی ہوتا محسوس کرتے رہے جنہیں ہم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں مٹتا دیکھ کے خود مٹے جا رہے تھے۔ قدرت اپنے فیصلوں پر عمل کرنے میں دیر نہیں کیا کرتی ہے۔ چند لمحوں تک اَجل برے دنوں کی گردش کے ساتھ ہم رقص رہی پھر سکوتِ مرگ تھا۔

سورج کی اوّلین کرنیں پڑتے ہی ہم تینوں وادی میں اترے۔ اب وہاں ایک مرفوع اور غیر پیوستہ تودۂ زمین تھا۔ وادی اندر کی جانب سکڑ گئی تھی۔ بیس گھرانوں پر مشتمل زندگی کہیں نہیں تھی۔ خاموشی تھی، حیرانی تھی۔

گردا گرد پھیلے کئی ایکڑ جنگلات جو عمارتی لکڑی پر مشتمل تھے، تباہ ہو چکے تھے۔ مویشی ہلاک ہو گئے تھے اور چراگاہی زمینوں پر بھدّی، زرد خاکستری دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ لکڑی کے ٹوٹے تختوں اور کثیر الزاویاتی پتھروں کے درمیان کسی کا آدھا چہرہ، کسی کی متوحش آنکھیں، کوئی خوابوں بھرا کاسۂ سر دکھائی دیتا تو ہم اس کی طرف لپکتے لیکن ہمیں کسی الجھتی ٹوٹتی سانس کی ڈور نہ ملی۔ سورج کی حدّت سے شاخِ کوہ پر جما پالا قطرہ قطرہ گریہ و زاری کرنے لگا۔ تنگ گھاٹیوں سے اطراف کی وادیوں کے لوگ دھیرے دھیرے آنا شروع ہو گئے تھے۔ کسی نے کہا ایسی قیامتِ صغریٰ چند سالوں کے وقفے سے کسی نہ کسی وادی میں آتی رہتی ہے۔ کسی نے بتایا ہلکے ہلکے جھٹکے تو سال بھر سے آ رہے تھے۔ بالآخر ایک مختصر امدادی جماعت پہنچی جس نے تربیت یافتہ کتوں کی مدد سے ملبے کے نیچے دبی لاشیں نکالنی اور زندوں کی تلاشِ بے سود کرنی شروع کی۔ ساری آبادی پتھروں سے کچلی ہوئی تھی جیسے کسی دیو ہیکل مخلوق نے ان پر سنگ باری کی ہو۔ آہ و فغاں کرنے کو کوئی باقی نہ بچا تھا۔

مدفون وادی میرے لیے پومپیائی شہر بن چکی تھی۔ جس کی تعمیر کا نقشہ دادا کے روزنامچے میں موجود تھا۔ مجھے اب بھی مہاگنی کے سرخ دروازے کی تلاش تھی۔ میرا دل ماننے کو تیار نہ تھا کہ دادا کی قبر شگافی وادی کی تہوں میں گم ہو چکی ہے۔ دادا سمجھتے تھے کہ اس قدیم بودھ علاقے میں آنے والے مسلمان راجے اور ان کی رانیاں اپنی تہذیب کی شمعوں سے وادی کو تاریخ میں امر کر دیں گی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ کس طرح یہاں آریائی بسے، کیونکر منگول ہجرت کر کے آئے ان کی آپس کی دشمنیوں نے آبادی کو کتنا نقصان پہنچایا پھر بالآخر انہوں نے انسانی بقا کی خاطر انتقام کی روایت کو ترک کیا، آپس میں شادیاں کیں۔ لیکن انتقام ان کے خون میں رچا ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح انتقام لے ہی لیتے تھے چاہے بیس برس بعد لیں۔ دادا کو ان لوگوں کی منتقم المزاجی پسند نہیں تھی۔ دادا کو کیا معلوم تھا کہ ایک سماوی لمحہ انہیں یکجہتی کی ایسی مثال بنا گیا ہے کہ ایک سو پچیس نفوس پر مشتمل آبادی قدم سے قدم ملائے ملکِ عدم سدھار گئی۔ اب وہاں شاخ بریدہ گلِ لالہ تھے، ہر سو داغ ہی داغ۔

شام کے اندھیرے میں لاشیں دفنائی جا رہی تھیں بقیہ تلاش اگلے دن پر مؤخر ہوئی۔ لوگ منتشر ہونے لگے جب دریا کا شور اور وادی کا سناٹا نبرد آزما ہوئے۔ ہمیں اپنے ہی قدموں کی چاپ چونکا نے لگی تب سرائے کا مالک، توتک والا اور میں سرائے کی طرف پلٹے۔ پہاڑی پر چڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ زندگی کی منظّم اور ناقابلِ فہم ترکیب کس طرح لمحے کے ہزارویں حصے میں منتشر ہو جاتی ہے، کس طرح کروڑہا سالمات کے خمیر سے اٹھنے بڑھنے والی زندگی بالآخر مٹی میں اتر کے مٹی ہو جاتی ہے۔ جی چاہتا تھا ان روحوں سے مکالمہ کروں جو ناگہاں ادھڑ جانے والے اپنے جسدوں کو حیرانی سے تک رہی ہوں گی اور خیاطِ ازل کی سوئی آسمان کی کسی پرت میں گم ہو گی۔

جس بستی کو دیکھنے کے لیے میں چاند تاروں کو مسخر کرنے والی دنیا سے آیا تھا وہ اب دادا کے روزنامچے میں، توتک والے کی یادوں میں یا بوڑھے منگول کی آنکھوں کی نمی میں باقی رہ گئی تھی اور ان تینوں حوالوں سے میری وابستگی عجب رنگ اختیار کر رہی تھی۔

وہ رات، پہلی رات سے مختلف اور بھاری تھی۔ اچانک نیم خوابیدگی میں مجھے ایک نئے زیاں کا احساس ہوا۔ دادا نے بچپن میں مجھے شہزادے اور پری کی کہانی سنائی تھی۔ اب ان کے روزنامچے میں درج ایسی ہی کہانی مجھے یاد آ رہی تھی۔ میں اندھیرے میں بستر پر چت لیٹا ہوا تھا اور روزنامچے کے بارہا پڑھے اور ازبر کیے ہوئے لفظوں کو کچھ ان کے، کچھ اپنے حساب سے جوڑ جمع کر رہا تھا جس کی ہیئتِ ترکیبی یوں میرے ذہن کی تختی پر اُترنے لگی:

"تم محبت کے اسرار جاننا چاہو تو آریائی نسل کے اس شخص سے ضرور ملنا جو محبت میں آسمان کو چھو لینے کو قوت رکھتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بہت سے لوگوں کے لیے مشکل ہے کہ جس طرح زمین کی کشش کا مقابلہ کرنے کے لیے خلائی جہاز کو زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح محبت کی کشش سے یک طرفہ اثر پذیر ہوتے ہوئے زیادہ تیاگ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خود کو ایندھن بنانے والے نہیں جانتے کہ اس عمل میں راکھ ہو جانے پر نیا ققنس جنم لے گا یا صرف راکھ رہ جائے گی۔ جب تم اس شخص سے ملو تو اصل نتیجے تک پہنچنے کی سعی کرنا، شاید تم پر فطرت کے کچھ راز منکشف ہوں۔۔۔۔ ”

دکھ کی نئی لہر نے مجھے بستر سے اٹھا کے بٹھا دیا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں دادا کے کندھے پر سر رکھے بیٹھا ہوں۔ میں نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا شاید میں کہہ رہا تھا:

"دادا۔۔۔۔۔ تمہارے لفظوں کے رنگ رس میری دسترس سے دور ہو گئے ہیں۔ رنگریز کی تمام دکان الٹ گئی ہے۔ خاک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اترنے والا کاسۂ سر کسی دیوانے کا ہے یا فرزانے کا۔۔۔۔۔ ”

مجھے محسوس ہوا جیسے دادا میرے اندر رو رہے ہیں، جیسے میں، میں نہیں ہوں۔ مجھے یہ سوچ کر لایعنیت کا احساس ہوا کہ میں دادا کی قبر کو دیکھنے یہاں آیا تھا۔ مجھے اپنی ہر شے کہیں پیچھے رہ جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ایسا لگا جیسے میری شکل، میرے خیال، چال ڈھال، دکھ محسوس کرنے کا انداز، سب دادا جیسے ہو گئے ہیں۔ میں ان کی طرح انسانوں کی ساختیات کی بجائے ان کے قوام پر غور کرنے لگا ہوں۔ کیا میں ان کا نقشِ ثانی تھا یا وہ کسی شعوری کوشش سے مجھے اپنا جیسا ڈھال گئے تھے؟ میں نے قصد کیا کہ صبح دادا کی نظر سے وادی کی باقیات دیکھوں گا۔

٭٭٭

 

وہ جنگل وادی سے ذرا ہٹ کے تھا۔ وہاں شکستہ غیر پیوستہ درختوں کے جھاڑ تھے جن سے مردہ جنگلی پتوں کی مہک اٹھ رہی تھی۔ جنگل کے پرندے جو زلزلے کی دہشت سے اڑ گئے تھے، اب تک لوٹ کے نہیں آئے تھے۔ ٹوٹی جڑی شاخوں سے لٹکتے گھنٹی نما جنگلی پھول ہوا کی تالی سے باہم ٹکرا رہے تھے۔ عجائب و غرائب سے آراستہ ماحول مجھے وحشت زدہ کرنے لگا۔ اچانک ٹوٹی شاخوں کے جھنڈ سے ایک سہما پرندہ پھڑپھڑاتا ہوا نکلا۔ میری نگاہ اس طرف گئی، مجھے محسوس ہوا جیسے وہاں کوئی ہے۔ میں توتک والے کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔ کسی قدیمی درخت کی چوڑی محراب نما شاخ کے حصار میں ایک دُبلا پتلا انسانی جسم راج ہنس کی مانند پھنسا ہوا تھا، ہم تیزی سے اس کی طرف لپکے۔ رات بھر گرنے والے پالے نے اس کا جسم نیلا کر دیا تھا لیکن وہ زندہ تھا۔ حیرت اور خوشی سے ہماری چیخیں نکل گئیں۔ ہم لوگوں کو مدد کے لیے پکارنے لگے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہم اس شخص کو جھاڑیوں سے نکالنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ وہ فلک سے گرے تارے کی طرح بکھرا ہوا تھا۔ اس کی پسلیاں سردی سے جڑ گئی تھیں اور دانت بج رہے تھے۔ ابتدائی طبی امداد ملنے کے بعد اس کے اوسان بحال ہوئے۔ وہ کس تیزی سے مربوط و منظّم ہوا اسے بھی خبر نہ ہوئی۔ وہ بوڑھے منگول کے ہاتھ کا بنا گرم قہوہ پی رہا تھا۔ ہم اسے یک ٹک دیکھ رہے تھے اور منتظر تھے کہ اب وہ آبادی کے بارے میں سوال کرے گا لیکن وہ ہم سے تو کیا تباہ شدہ بستی سے بھی بے نیاز تھا۔۔۔۔ جب کچھ ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو اٹھا اور اسی اجڑے جنگل کی طرف جانے لگا۔ میں نے بڑھ کے اسے روکا، "تمہیں معلوم ہے تمہارا گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے زندگی تو کجا قبروں کے نشان بھی نہیں رہے۔۔۔۔! ”

اس نے لاتعلقی سے مجھے دیکھا پھر اعتماد سے لبریز لہجے میں بہت دھیرے سے بولا:

"ایسا تو ہونا ہی تھا۔ "اور چیڑ کے درختوں کی طرف چل دیا۔ میں عجب خجالت سے پلٹا۔ امدادی جماعت کے لوگ اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہو گئے تھے۔ سرائے کا مالک  جا چکا تھا اور توتک والا۔۔۔۔۔؟ شاید وہ پہلے ہی چلا گیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں عجیب و غریب صورتِ حال میں پھنس گیا ہوں۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

"تو۔۔۔ تم۔۔۔ جانتے تھے کہ ایسا ہو گا۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔ یعنی کہ وادی تباہ ہو جائے گی۔۔۔۔۔؟”میں اس کے روبرو آ گیا۔

اس نے اپنی شارک جیسی سرد اور بے رحم آنکھیں مجھ پر مرکوز کر دیں یوں کہ لمحے بھرکو مجھے اپنے اندر زلزلے کی تھرتھراہٹ محسوس ہوئی پھر مجھے باور ہوا کہ اس کی آنکھوں کی یاد کے ساتھ تمام تر تباہی کی یاد کو دُہرایا جا سکتا ہے۔ وہ آریائی خدوخال کا شخص تھا۔ اس کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کے چہرے پر نوجوانی کے بیتے دن ٹھہرے ہوئے لگتے تھے، البتہ جسم اور چال ڈھال نے ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن ہر جنبش اشراف سے اس کے تعلق کی مظہر تھی۔ وہ کچھ دیر یوں کھڑا رہا جیسے کوئی فیصلہ کر رہا ہو۔ آہستہ آہستہ اس کی نگاہ اوپر اٹھتی چلی گئی۔ میں نے محسوس کیا، اس کا زاویۂ نظر پہاڑی چوٹی پر بنی عبادت گاہ نہیں ہے، وہ جہاں دیکھ رہا تھا، وہاں تک میں نہیں دیکھ سکتا تھا پھر اس نے یوں سر جھکایا اور ایسی محویت سے جھکایا جیسے اپنی نوکیلی نگاہ سے دنیا کی بنیاد میں پڑی مٹی کھرچنے لگا ہو۔ کچھ دیر کے لیے مجھے ہر شے متحجرات میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئی، حتیٰ کہ میں بھی اور وہ بھی۔۔۔۔۔ بالآخر اس کے نیلے ہونٹوں میں جنبش ہوئی، وہ کسی مکالماتی معرفت سے گزرتا ہوا، مجھ تک پہنچا اور بولا:

"محبت کرنے والے کی بد دعا سوئے ہوئے اجگر کی طرح ہوتی ہے جو کسی بھی لمحے جاگ کے سب کچھ نگل سکتا ہے۔ ”

یک دم مجھے رات کو دُہرائے گئے دادا کے روزنامچے کے اوراق یاد آ گئے۔ کیا انہوں نے اسی شخص کے بارے میں لکھا تھا۔

میں کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ایک بعید از قیاس محبت کا رازِ سربستہ شکرے کی نوکیلی چونچ کی طرح مجھے ٹھونگیں مار رہا تھا۔

وہ جنگل سے گزرنے والے ایک پہاڑی چشمے کے قریب بیٹھ گیا تھا۔ شایداسے میری موجودگی ناگوار نہیں تھی۔

"کیا تمہیں کسی کے مرنے کا غم نہیں؟”

"کیا آبادی میں کوئی تمہارا بھی تھا؟”

میرے سوالوں کی پٹاری اس کے لیے اتنی ہی غیر اہم ثابت ہوئی جتنی کہ خارجی دنیا۔

"تم جانتے ہو مرنے والے اپنے پیچھے یہ خواہش چھوڑ جاتے ہیں کہ انہیں بھلایا نہ جائے۔ "کچھ سکوت کے بعد میں نے پھر راگنی چھیڑی۔

"انہیں کون بھول سکتا ہے۔۔۔۔ ” اس نے برجستگی سے جواب دیا۔

میں چونکا۔۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا، اب وہ بات کرنے پر آمادہ ہے۔

اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور بولا:

"جب رات ہو جائے تب تم تاروں کو غور سے دیکھنا۔ تمہیں محسوس ہو گا وہ بھی ہمیں دیکھتے ہیں۔ جب ہم پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو ان میں سے کوئی کوئی سرخ ہو جاتا ہے، جب ساری دنیا ہمیں چھوڑ دیتی ہے اور ہم تنہا رہ جاتے ہیں تو یہ ہم سے باتیں کرتے ہیں، جب ہم ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں تو ان میں سے جو ہمارا دوست ہوتا ہے وہ بھی ٹوٹ کر بکھرنے لگتا ہے، اُس رات بھی ایسا ہوا تھا۔ "اس نے گردن اتنی جھکا لی کہ ٹھوڑی اس کے سینے سے جا لگی۔

"تو کیا وادی میں زلزلہ نہیں آیا تھا، یہ تباہی تارا ٹوٹنے سے ہوئی تھی؟” میں نے پوچھا۔

"ہاں۔ ” اس نے براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھا۔

میں نے محسوس کیا اس کا تیقن اور میرا تشکیک کا عمل ایک ہی لمحے میں حلول کر گئے ہیں۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے بھی مجھ جیسا راز دار پہلی بار ملا تھا۔ وہ بولا:

"جس نوجوان کو سب نے چھوڑ دیا تھا وہ جنگل میں تنہا بیٹھا تھا۔ اس کا دکھ اس کے دوست تارے سے دیکھا نہ گیا اور وہ ٹوٹ کے جشن بھری وادی پر گر پڑا۔ چشمِ زدن میں ڈھول باجوں کی آواز ختم ہو گئی۔ ” پھر وہ رکا، اس نے میری اپنائیت کی تصدیق چاہنے کے لیے مجھے پھر غور سے دیکھا اور راز داری سے بولا، "تم بھی تاروں سے دوستی کر لو۔ وہ انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ "اب کسی تامّل کے بغیر وہ اٹھا اور جنگل کی ایک ویران پیچیدہ پگڈنڈی کی طرف بڑھ گیا۔ میں شکست خوردہ لمحے میں ٹھہرے اُس شخص کی پرچھائیں کو پتوں کے پیچھے غائب ہوتا دیکھتا رہا۔

"سچ ہے، اس جہاں میں کوئی شے اپنی حالتِ محض میں نہیں ہے۔ ” میں نے سوچا۔

جب میں واپس سرائے پہنچا تو دیکھا توتک والا اپنے مختصر سے تھیلے میں سامان رکھ رہا تھا۔۔۔ کہنے لگا، "اب یہاں کیا رکھا ہے جس دوست سے ملنے آتا تھا وہی نہ رہا۔ ”

"ہاں سوائے اُس جنگل والے کے۔ ” میں بے اختیاری میں بڑبڑایا۔

"وہ دیوانہ”۔۔۔۔۔ توتک والا ہنسا۔ "وادی والوں کو کہتا تھا کہ میری بد دعا سے تم سب خاک ہو جاؤ گے۔ اگر یہ سب اس کی بد دعا تھی تو بیس برس لگے اس بد دعا کو۔۔۔۔ لیکن اِس میں اُس کی اپنی عمر بھی تو خاک ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اس کے لیے وہ خود اور وادی بیس سال پہلے کے زمانے میں ٹھہری ہوئی ہے۔ ” توتک والا تھیلا ایک طرف رکھ کے توتک صاف کرنے لگا۔

"آہ۔۔۔۔ تو گویا خود نگری کے کھیل میں مبتلا اس شخص کے لیے وقت اتنا بے برکت ہو گیا تھا کہ اس کے سر پر پاؤں رکھ کر کچلتا چلا گیا اور اسے خبر ہی نہ ہوئی۔ ” میں نے کہا۔

"کبھی دیوانوں کو بھی پتا چلتا ہے؟” توتک والا بولا، "اسے تو بس ایک ہی خبط تھا کہ وادی والوں کو اپنی بد دعا کے اثر میں دیکھے۔ ”

"لیکن کیوں؟” میں نے پوچھا۔

توتک والا توتک رکھ کے میرے پاس آ بیٹھا، اور بولا۔۔۔۔

"میرے دوست نے بتایا تھا، وہ لڑکی یہاں ہجرت کر کے آنے والی رانیوں کے گھرانے سے تھی۔ اس جنگل والے نے اپنے ایک منگول دوست کو راز دار بنا لیا جو لکڑی کا بڑا تاجر تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ منگول کی دولت نے لڑکی کو اور لڑکی کے حسن نے منگول تاجر کو تذبذب میں ڈال دیا تھا۔ جنگل والا اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود اس شطرنج میں ہار گیا۔ وادی والے بھی اس کی سادگی کی وجہ سے اس کا ساتھ نہ دے سکے۔ پھر شادی کی جشن والی رات یہ شخص وادی چھوڑ کے اپنے آبائی جنگل چلا گیا اور لوٹ کے وادی میں نہیں آیا۔ ”

دادا کے روزنامچے کے ادھورے کردار کی ازلی و ابدی مثلث بنا کر توتک والا  جا چکا تھا۔ مجھے اس مثلث سے دلچسپی نہ تھی۔ مجھے تو اس دیوانے کے تیقن نے تشکیک کے رانگ میں پگھلایا ہوا تھا۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ وہ حیاتِ گزشت بسر کرنے والا مکمل طور پر دیوانہ نہیں ہے اور یہ بھی کہ وہ بے حد ذمہ داری سے اس تباہی کو اپنے سر لے رہا ہے۔ یہ ایک جزوی دیوانگی ہے یا مکمل سپردگی۔

انسانوں کے لیے تین زمانے بنائے گئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ سمجھوتے سے بالا ہو کر جینے والوں کے ہاں زمانوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ شاید اس کے ہاں بھی زمانوں کا توازن بگڑ گیا ہے، میں نے سوچا یک دم میرے ذہن میں کوندا سا لپکا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھ سے کہا ہو کہ اس کے ہاں زمانوں کا توازن بگڑا نہیں ہے بلکہ زمانے باہم ہو کے ایک قوت کے ساتھ اس سے جڑ گئے ہیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ مجھے کسی کی ضرورت ہے جو مجھ سے بات کر کے مجھے سوچوں کے اژدحام سے نکالے۔ میں نے دادا کا روزنامچہ اٹھا لیا اور صفحے الٹنے پلٹنے لگا۔ لکھا تھا:

"حیوانی سطح پر زندگی کا سب سے بڑا مقصد زندگی کو آگے چلانا سمجھا جاتا ہے لیکن انسان اس سطح سے بہت اوپر کی مخلوق ہے۔ وہ اپنے اندر ایسے کرشمے دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ قدرت اس کی ہم رکاب ہو جاتی ہے۔ بات فقط تار جوڑنے کی ہے۔ ”

اگلے دن میں بھی جانے کا قصد کر چکا تھا لیکن جانے سے پہلے ایک دفعہ اور اُس سے ملنا چاہتا تھا۔ میں اُس کے آبائی جنگل کی طرف نکل گیا۔ پتوں کی سرسراہٹ میں، طاقت کا احساس دلانے والی اور اخروٹ اور چلغوزے کی لکڑی پیدا کرنے والی زمین پر کہیں بھی وہ نہیں تھا۔ اس شجریاتی فضا میں ایسا سکوتِ مرگ تھا جیسے مدتوں اس سے کوئی ہم کلام نہ ہوا ہو۔

بالآخر میں ٹوٹی ہڈیوں، شکستہ کھوپڑیوں اور مٹی میں رُلتی آنکھوں والی بے چراغ بستی میں آ گیا۔ مجھے دور سے محسوس ہوا کہ اجتماعی مقابر کے پاس کوئی ہے۔ وہ یوں بیٹھا تھا جیسے اُس پر تنویمی کیفیت طاری ہو۔ اُس نے گھٹنوں میں منہ چھپایا ہوا تھا، اس کی لمبی لمبی ٹانگیں کسی قدیم درخت کی جڑیں لگ رہی تھیں جو زمین کو زلزلے سے بچانے کے لیے گہرائی تک اتر گئی ہوں۔ اس کے کمزور بازوؤں کی رگیں، وریدیں یوں ابھری ہوئی تھیں جیسے ابھی ان سے شاخیں پھوٹیں گی اور اپنے آپ میں دفن شدہ زمین گل و گلزار ہو جائے گی۔ میں نے اسے بتانا چاہا کہ میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ میں اس کے قریب پہنچ کے اچانک دور ہٹا، ایک لمحے کو مجھے محسوس ہوا کہ وہ زیرِ زمین کسی کی آہ و فریاد سن رہا ہے۔ پھر مجھے یوں لگا کہ وہ کسی ایسے عمل سے گزر رہا ہے جس میں فطین قدرت اپنے تخلیقی و کیمیاوی اجزا کو مختلف ڈھنگ سے بار بار استعمال میں لاتی ہے۔

میری واپسی کے ہر قدم کے ساتھ ہوا سرد ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دور جانے کے بعد میں نے پلٹ کر دیکھا، شام کے ملگجے میں وہ مجھے زمین میں خوفناک داغ ڈال دینے والے ٹوٹے تارے کی طرح دکھائی دیا۔ کچھ اور آگے جا کر میں پھر پلٹا، اسے دیکھا، اب مجھے پوری قوت سے کسی نے محسوس کروایا کہ وہ ٹوٹے تارے جیسا شخص، وہ گزشتہ زمانے میں منجمد شخص کسی نا دریافت عمل سے گزرتے ہوئے پھولوں اور ستاروں کے مابین مواصلاتی نظام کی طرح معلوم و نامعلوم سمتوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔

٭٭٭٭

 

 

 

 

محبت اور طاعون

 

رات کے آخری پہر کھڑکھڑاہٹ بڑھنے لگی یوں لگا جیسے کوئی بہت بڑی قوت سب کچھ تاخت و تاراج کرنے کے درپے ہے۔ شہربانو بستر پر مزید دُبک گئی۔ وہ بہت دیر سے ایسی آوازیں سن رہی تھی جو اس سے قبل اس نے نہیں سنی تھیں۔ سماعت کو یکسو کرنے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ آوازیں اس کی کتابوں کی الماری سے آر ہی ہیں۔ بمشکل تمام اس نے ہمت کی اور بستر سے لگا بّتی کا بٹن دبا دیا۔ روشنی ہوتے ہی آوازیں دب گئیں لیکن بّتی بند ہوتے ہی پھر وہی کھڑ بڑ۔

شہر بانو سرکاری جامعہ میں تاریخ کی استاد تھی۔ اسے اپنے مضمون سے عشق تھا اس نے اقوامِ عالم کی تواریخ پر مشتمل نادر و نایاب کتب جمع کر رکھی تھیں۔ صبح وہ اُٹھی تو رات کی کسلمندی باقی تھی لیکن تجسّس نے الماری تک جانے پر آمادہ کیا۔ جیسے ہی اس نے الماری کھولی خاکستری، سفید، سیاہ رنگ کے چوہے ٹڈی دَل کی طرح اس کے پاؤں کے بیچ سے نکل نکل کر بھاگے۔ ان کی قوتِ شامہ ان کے بدنوں سے پھوٹی پڑ رہی تھی اور وہ کانپتی مونچھوں اور بال بھری دُموں سے اپنے وجود کی حرکت کو نمایاں کر رہے تھے۔ ان کی گہری چمک دار آنکھوں کا اسرار بتاتا تھا کہ وہ بہت کچھ ملیا میٹ کر دینا چاہتے ہیں گویا مفسد روحیں ان کے اندر حلول کر گئی ہوں۔

حکیم دینِ محمد مسجد سے واپس آ چکے تھے۔ حسبِ معمول ان کے شاگرد بھی ان کے ساتھ ہی نماز ادا کر کے آئے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے دیوان خانے کو مطب بنا رکھا تھا۔ یہی وقت ان کے درس و تدریس کا ہوتا تھا، اس کے بعد تو مریضوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ وہ شہر کے معروف حکیمِ حاذق تھے۔ انہیں باتوں ہی باتوں میں علم منتقل کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔ اس وقت بھی ان کے سامنے قدیم حکما و اطبا کی کتابیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ بتا رہے تھے کہ "حکیم اشرق بو علی سینا نے تشریح الاعضا کے معاملے میں قدیم اطبا کا تتبع کیا ہے لیکن ’کلیاتِ قانون‘ میں انہوں نے قدما کے خلاف سب سے پہلے فلسفے کو طب سے علاحدہ کیا۔ ”

اس وقت دیوان خانہ کاسنی، سنامکی، زعفران، اجوائن اور مختلف قسم کی پسی ہوئی یا سالم جڑی بوٹیوں سے مہک رہا تھا کہ انہیں اپنی اکلوتی چہیتی اولاد شہر بانو کی چیخیں سنائی دیں۔ وہ چاندی کی موٹھ والی چھڑی ایک طرف دھر کے اُٹھے اور شہر بانو کے کمرے کی طرف لپکے۔ شاگرد بھی حیران و پریشان ہوئے۔ شہر بانو نے انہیں دیکھتے ہی زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ وہ فرش پر یوں بیٹھی تھی جیسے کوئی ثروت مند رات ہی رات میں لٹ کے کنگال ہو گیا ہو۔ حکیم صاحب کے بار بار پوچھنے پر اس نے کتابوں کی الماری کی طرف اشارہ کیا اور بولی،

” بابا جان! تاریخِ عالم کی وہ کتب جو میں نے برسوں میں جمع کی تھیں انہیں وہ ایک ہی رات میں چٹ کر گئے۔ ”

"کون؟”

"چوہے۔۔۔۔ ”

"چوہے۔۔۔؟ "حکیم صاحب نے آس پاس دیکھا، چوہے کہیں نہیں تھے۔

"بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چھپ گئے ہیں لیکن میری کتابیں۔ دنیا بھر کی تواریخ پر لکھی گئی وہ نادر و نایاب اور مستند کتابیں، اب کہاں ملیں گی۔ آپ دیکھیں وہ کترنیں۔۔۔۔۔۔ ”

حکیم صاحب الماری کے قریب گئے۔ کچھ کتابیں جلد کی طرف سے کچھ درمیان سے یوں کتری ہوئی تھیں کہ اب ان کے جڑنے کا امکان نہیں تھا۔ انہوں نے تاسف سے انہیں دیکھا لیکن بیٹی کو تسلی دینے کی خاطر پلٹتے ہوئے ہنس دیے اور بولے۔

"بیٹی، تاریخ کبھی مستند نہیں ہوتی۔ ہر قوم کا مورّخ اسے اپنے نکتۂ نگاہ اور مفاد کے پیشِ نظر تحریر کرتا ہے۔ تم چاہو تو یہ کام تم بھی کر سکتی ہو۔ اب پڑوس میں دیکھ لو۔ ان کے مورّخوں کا ایک گروہ تاریخ کو روشن خیالی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ دوسرا انتہا پسندی کی طرف گھسیٹ رہا ہے۔ ”

"اور بابا ہم؟” شہر بانو نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

” ہم! "وہ پھر ہنسے،

"ہم تو راہِ گم کردہ ہیں، ہماری تاریخ کے کئی صفحے گم گشتہ اور بریدہ۔۔۔۔۔۔۔۔

انہوں نے ہاتھ پکڑ کر بیٹی کو اٹھایا اور خود دیوان خانے کی طرف جانے لگے جہاں ان کے شاگرد منتظر تھے۔

"بابا! کیا ہم تاریخ کے بغیر ہیں؟” شہر بانو نے ڈوبتے لہجے میں پوچھا۔

” نہیں۔۔۔۔۔۔۔ "وہ جاتے جاتے رکے اور بولے ” اس کے شعور کے بغیر ہیں۔ البتہ تاریخ کے بغیر وہ ہے جسے سب سلام کرنے پر مجبور ہیں۔ ”

سارا دن اضطراب کے اَن دیکھے بگولے میں پھنس پھنس کر گزرا۔ اس نے تیمور سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن گردشی فون بند تھا اور اسپتال سے یہی جواب ملتا کہ ڈاکٹر صاحب مصروف ہیں۔ وہ ساری دنیا سے بھی بات کر کے مطمئن نہیں ہو سکتی تھی، لیکن تیمور۔ اس سے گفتگو کا لطف کچھ ایسا تھا جیسے اس کے نفس میں تیمور کی روح کے تانے بانے بُنے ہوں اور لفظ ان سے ٹکرا کر جھنکار پیدا کر رہے ہو۔ وہ جانتی تھی کہ محبت محض تصوراتی جذبہ ہوتا تو لوگ صدیوں سے اب تک اس میں مبتلا نہ ہوتے۔ لیکن وہ محبت کو اس کی فطرت کے مطابق بعید از قیاس اور رازِ سر بستہ بنانا نہیں چاہتی تھی۔ اسے آسان زندگی پسند تھی۔ اسے معلوم تھا، تیمور بھی محبت کی اذیت سے گزرنے والوں میں سے نہیں ہے۔

حکیم دین محمد کے بچپن کے ایک دوست قریبی ضلعے میں مقیم تھے، وہ بہت بڑے زمیندار تھے، ان کا بیٹا اعلیٰ اسناد کے حصول کے لئے سمندر پار گیا ہوا تھا۔ دونوں دوست دوستی کو رشتہ داری میں بدلنا چاہتے تھے لیکن تیمور کے دخل در معقولات نے حکیم صاحب کو آزردہ کر دیا تھا۔ انھیں اپنے زمیندار دوست کے بیٹے پر تو اعتماد تھا مگر تیمور کی مغربی وضع قطع اور خیالات سے انھیں کراہَت آتی تھی اور ہر قسم کی غیر شرعی اشیا کے استعمال و اعمال کی چھاپ اس پر نظر آتی تھی۔ تیمور بھی حکیم صاحب کو دیکھتے ہی مشکی گھوڑے کی طرح بدک جاتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اکیسویں صدی میں حکیم کا کیا کام۔ تیمور کا فلسفٔہ محبت شہر بانو کے فلسفۂ محبت سے اتنا ہی مختلف تھا جتنا مرد کافلسفہ عورت کے فلسفے سے مختلف ہوتا ہے۔

لیکن جب شہر بانو نے اسے باور کرا لیا کہ بابا محبت کو گناہ کی ترغیب کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے، لہٰذا ممکن ہے کہ اسے بہت جلد زمیندار کی بہو بن کے جانا پڑے، تب تیمور کو عجلت میں منگنی کی انگوٹھی خریدنی پڑی۔ حکیم صاحب کے لئے شہر بانو کا یہ کہنا ناکافی تھا کہ "دو رُوحوں کی یگانگت بڑی بات ہے۔ ” البتہ یہ جملہ اثر انگیز تھا کہ "ورنہ عمر تو بغیر کسی ساتھ کے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ ” وہ سمجھ گئے تھے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، سو انھوں نے طوعاً و کرہاً یہ رشتہ قبول کر لیا تھا۔

ڈاکٹر تیمور کے پاس صبح سے ایک ہی مرض میں مبتلا مریضوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ شدید بخار کی لپیٹ میں آئے مریضوں کی بغل میں، کان کے پیچھے، ران پر یا نرم گوشت کے کسی حصّے پر گلٹی نمودار ہو رہی تھی جس کے گرد ورم تھا اور آس پاس کا حصّہ سبز مٹیالا ہو رہا تھا۔ مریضوں کی مسلسل قے سے پورا ماحول متعفن تھا۔ کچھ کے جسم میں خون جمنے کی وجہ سے کالے دھبے پڑ رہے تھے۔ کچھ کو خفقان اور بے ہوشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ایک سیاہ موت ہر سُو رقصاں تھی۔ اسپتال میں ہنگامی صورتِ حال کا اعلان ہو گیا تھا۔ بمشکل چند لمحے نکال کے ڈاکٹر تیمور نے شہر بانو کا نمبر ملایا۔ جس وقت فون کی گھنٹی بجی، شہر بانو برقی نشریاتی رابطے کے پردۂ تصویر پر چوہوں کے غول کو شہر بھر میں دوڑتا دیکھ رہی تھی۔

"تیمور تم خود تو خیریت سے ہو نا؟ یہاں بہت بھیانک خبریں نشر ہو رہی ہیں "، وہ بولی

"ہاں "۔ تیمور نے پژمردگی سے کہا۔ "شہر بھر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے تم اپنا خیال رکھنا…..گھر سے باہر نہیں نکلنا اور اپنے حکیمِ حاذق باپ سے کہنا کہ وہ گھر کے اندر کھلے مطب کو تالا ڈال دیں مریضوں کو اندر نہ آنے دیں "۔

"لیکن تم؟”

"مجھے حفاظتی تدابیر معلوم ہیں لیکن تمہارے حکیمِ حاذق کو نہیں۔ ”

وہ دیوان خانے کی طرف دوڑی جہاں بابا کے شاگرد اور جڑی بوٹیاں کوٹنے والے لڑکے بیٹھے تھے اور بابا اپنی کرّاری آواز میں ان سے مخاطب تھے۔

"کیا تمہیں معلوم ہے کہ طاعون ایک بڑا عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا۔ جب خدا چاہتا ہے کہ اپنی قضا و تقدیر کا نفاذ فرمائے تو اُن اسبابِ شرور کی معرفت، اس کے تصّور اور اس کی ارادت سے بندے کے قلب کو غافل کر دیتا ہے۔ پھر اسے اس کا شعور ہی نہیں رہتا، نہ کبھی اس کے ازالے کا اسے ارادہ ہی ہوتا ہے اور پھر باری تعالیٰ کی قضا و تقدیر کے احکام پورے ہو جاتے ہیں۔ بہر حال جوہر ہوا میں فسادِ وبا کا پھوٹ پڑنا طاعون کا ایک قوی سبب ہے۔ ”

"حکیم صاحب……کیا اس کا کوئی خاص زمانہ ہوتا ہے کوئی وقت؟” …… ایک سہمے ہوئے شاگرد نے سوال کیا۔

"نہیں۔ عفونت اور زہریلی ردات وقت اور زمانے کی پابند نہیں ہوتی لیکن بقول بقراط خریف میں امراض کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں عطاروں، گورکنوں، غسالوں، کفن برداروں، کفن فروشوں کی چاندی خریف کے موسم میں ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ موت کا موسم ہوتا ہے، اس موسم میں امراض کثرت سے پھیلتے ہیں ” پھر وہ گلا کھنکھار کر بولے:

"چلو میرے بچو اٹھو…… ہم گلی گلی محلّے محلّے جائیں گے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کی ترکیب بتائیں گے۔ ان سے کہیں گے کہ وہ اپنے بدن سے رطوباتِ فضلیہ کو نکالنے کی سعی کریں اور غذا کی مقدار کم سے کم کر دیں۔ ”

حکیم دین محمد اپنے قافلے کو لے کر باہر نکل گئے۔ شہر بانو آڑ میں کھڑی دیکھتی رہ گئی۔ اسے اپنے باپ کی سادگی پر رحم آیا۔ اس نے سوچا ابنِ آدم چوہوں سے زیادہ حریص ہے۔ اپنے حصّے سے زیادہ رزق پیٹ میں بھرنے یا اسے ضائع کر دینے کا متمنی…… کون بھلا اس کے باپ کی بات مانے گا۔

برقی نشریاتی رابطے کے پردۂ تصویر پر ہنگامی خبریں تسلسل سے آ رہی تھیں۔ مختلف علاقوں میں چوہوں کی یلغار دکھائی جا رہی تھیں۔ کچھ چوہے درخت پر چڑھ کر فصلوں کو خراب کر رہے تھے۔ کچھ بادامی اور سبزی مائل چوہے کھیتوں میں اپنی دُم شاخ سے لپیٹ کے لٹکے ہوئے غلّہ کتر رہے تھے۔ گھریلو چوہوں نے الگ قیامت ڈھائی تھی۔ اجناس کے علاوہ استعمال کی اشیا تک برباد کر دی تھیں۔ دریائی چوہے دریاؤں کے کناروں پر بنے بلوں سے باہر نکل آئے تھے اور اپنے نارنجی رنگ کے دانتوں سے پودے کتر رہے تھے۔ جنگلی چوہوں نے گھاس، بیج پھلوں کی گٹھلیاں ہضم کر لی تھیں اور یہ مفسد چوہے اب شہروں کا رُخ کر رہے تھے۔ کترنیے ایک بہت بڑی قوت بن کر اُبھر رہے تھے، ان کے چھینی نما اگلے دانت اور تین سے پانچ انگلیوں والے پنجے خوف اور تباہی کی علامت بن چکے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ساری دنیا کو ہڑپ کر جائیں گے۔

اب پردۂ تصویر پر منظر بدلنے لگے …… ایک شہر سے دوسرا شہر، ایک ملک سے دوسرا ملک پھر ایک براعظم سے دوسرا براعظم…… کترنیے بحرِ منجمد شمالی سے لے کر دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے دکھائی دینے لگے، ان کی ترت پھرت کے آگے زمینیں سکڑنے لگیں، براعظم معدوم ہونے لگے۔

شہر بانو نے دیکھا، اب پردۂ تصویر پر قیمتی تیل سے بھرے بڑے بڑے کنستر دکھائے جا رہے تھے جن میں بے شمار سفیدموٹے بھّدے چوہے اپنی خاردار دُمیں لٹکائے بیٹھے تھے۔ جب ان کی دُمیں تیل میں لتھڑ جاتیں تو وہ انھیں چاٹ لیتے۔ لمحوں میں کنستر کے کنستر خالی ہونے لگے۔ انھیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ بس کیمرے کی آنکھ تھی جو خاموشی سے دیکھ اور دکھا رہی تھی۔ اچانک خاموشی ٹوٹی اور پس منظر میں ایک کُرلاتی آواز گونجی۔

"ناظرین، اس وقت ہماری دنیا تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ہر چھ میں سے ایک شخص بھوک سے میرا مطلب ہے طاعون سے مر رہا ہے۔ آج دنیا کے دو سو پچیس امیر ترین افراد کی دولت دنیا کی سینتالیس فیصد آبادی کی دولت سے زیادہ ہے۔ معاف کیجے میں نے غلط صفحہ اُٹھا لیا تھا۔ ”

چوہوں کے پس منظر میں بولتی آواز کچھ دیر رُکی۔ کاغذوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی پھر وہی لہجہ گونجا…… "در اصل ہم اپنے ناظرین کو بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا کے دو سو پچیس امیر ترین افراد، معاف کیجے دو سو پچیس کروڑ چوہوں نے دنیا کی سینتالیس فیصد آبادی کا رزق چٹ کر لیا ہے یا کُتر کے برباد کر دیا ہے یہ کترنیے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ ”

اب ہنگامی نشریات کچھ دیر کیلئے معطل ہوئیں اور پردۂ تصویر پر چند مشہور و معزز شخصیات نظر آئیں جو لوگوں کو مختلف پہلوؤں سے اصل صورتِ حال بتانے آئی تھیں۔ ایک بولا

"یہ تباہی طاعون کی وجہ سے نہیں، ان چند سرمایہ داروں کی وجہ سے آئی ہے جو نظامِ معیشت کو اپنی لونڈی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ” دوسرے نے جذباتی انداز میں ہاتھ ہلائے اور کہا "تباہی کی وجوہات واضح ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دنیا کے کئی خطّے جنگی جنون کی زد میں ہیں جس سے دنیا بھر کی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور مہذب اقوامِ عالم اس بحث میں الجھی ہوئی ہیں کہ کون سے ہتھیار استعمال کریں، کون سے نہیں۔۔۔۔ ” تیسرے نے کہا، "یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ چوہوں نے، اور ان کے پسوؤں سے پھیلنے والے طاعون نے، ایک نئے انداز سے معیشت پر حملہ کیا ہے۔ تیل کے وہ کنویں جو ابھی کھدے نہیں۔ ان تک بھی چوہے پہنچ چکے ہیں۔ ”

درمیان میں بیٹھا ہوا میزبان ان کی آپس میں الجھنے والی بحث کو سمیٹنے کی ناکام سعی میں خاصا احمق لگ رہا تھا، بالآخر اسے بھی دو لفظ بولنے کا موقع ملا اور وہ بولا،

"اس کا کوئی حل؟ کوئی حل۔۔۔۔؟”

"رزق کی مساوی تقسیم۔۔۔۔ ” پہلی شخصیت نے انگشت شہادت اُٹھا کے تیقن سے کہا۔

"مساوات کا نعرہ یا تو سیاست داں ووٹ کی خاطر لگاتا ہے یا اوسط درجے سے کم مالی حالت رکھنے والا عام شہری۔۔۔۔ ورنہ مساوات پر مبنی یوٹوپیا کا وجود ممکن نہیں ہے۔ ” دوسری شخصیت نے طنز بھری نظروں سے پہلی شخصیت کے معمولی لباس کو دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنے قیمتی کوٹ کا کالر چھوا۔

رات ہو گئی تھی۔ تیمور اور اس کے ساتھی ڈاکٹر طاعون کے مریضوں کو فوری طبی امداد دیتے دیتے نڈھال ہو گئے تھے۔ اسپتال کا مردہ خانہ ان مریضوں سے بھر گیا تھا، جن کے جسم پر نکلنے والی گلٹیاں سیاہ رنگ کی تھیں۔ تیمور اپنے کمرے میں بیٹھا کرسی کی پشت سے سر ٹکائے سستا رہا تھا کہ اچانک اس کے سامنے کوئی سیاہ شے لہراتی ہوئی گزری، اس نے تھکن سے مندی آنکھیں پوری طرح کھولیں۔ وہ ڈاکٹر فریحہ تھی جس نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کا سفید کوٹ اس کے بازو پر لٹک رہا تھا۔ تیمور کے ڈاکٹر دوست پرویز نے تیمور کی محویت دیکھی تو کھنکھارا اور بولا، "یہ ڈاکٹر فریحہ بھی چلتا پھرتا طاعون ہے۔ ”

"کیا مطلب ” تیمور نے پوچھا۔

"جب سے اس اسپتال میں اس کی ملازمت شروع ہوئی ہے اور تمہیں پتا چلا ہے کہ اس کا باپ ایک مشہور صنعت کار ہے اور شہر کے وسط میں اس کیلئے عظیم الشان ذاتی اسپتال تعمیر کروا رہا ہے، تب سے تمہارے اندر بھی طاعون کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو تمھیں باقاعدہ خفقان کے دورے بھی پڑتے ہیں۔ ”

تیمور ہنس دیا "تو گویا تمھیں صرف میری خبر ہوتی ہے کبھی تم نے اس کے مرض کی بھی تشخیص کی ہے؟”

"بھئی اگر آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے تو بے چاری شہر بانو کس مقام پر کھڑی ہے؟” پرویز نے پوچھا۔

"شہر بانو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں رہتی ہے جنھیں چوہے کُتر چکے ہیں اور اس کا حکیمِ حاذق باپ جالینوس کے زمانے میں رہتا ہے کہ جب تشخیصِ مرض کا انحصار تمام تر نبض کی حرکات دیکھنے پر تھا۔ جبکہ میں اس زمانے میں ہوں ….جہاں جراثیم طبّی تجربہ گاہوں میں شیشے کی نلکیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ ہمارے زمانے، ہماری سمتیں کتنی مختلف ہیں۔ ”

"اور محبت؟” ڈاکٹر پرویز نے پوچھا۔

"محبت! ” تیمور نے گہری سانس لی۔ "محبت تو بس محبت ہوتی ہے وہ کوئی ذمہ داری تو نہیں ہوتی جس سے دستبردار ہونے سے پہلے قانون اور شرع کا سامنا کرنا پڑے۔ ”

ڈاکٹر پرویز نے دیکھا، ڈاکٹر تیمور کی سیاہ آنکھیں چوہوں کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں پھر وہ کرسی سے اُٹھا اور اس نے کھلے فرش پر یوں ہلکی سی چھلانگ لگائی جیسے کوئی چوہا زندگی کی یکسانیت توڑنے کے لئے لگاتا ہے۔

شہر بانو کے گھر کے آگے ایک باغ تھا اور اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ دنیا کا آخری گھر ہو۔ وہ اکثر باغ میں ٹہلنے نکل آتی تھی۔ لیکن اس دن اسے باغ میں دیکھ کے بابا کے زمیندار دوست کے باغات یاد آ گئے۔ پھلوں سے لدے پھندے نہایت منافع بخش باغات اور بے حساب مربعے۔ اس نے سوچا، ان باغات اور مربعوں سے سال میں کتنی آمدنی ہو جاتی ہو گی۔ زمیندار صاحب کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کے لگتا ہے جیسے وہ نوابوں سے کم درجے کی زندگی تو نہیں گزارتے ہوں گے اور یہ راج پاٹ ان کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے ہی کے حصّے میں آئے گا۔ پھر اسے تیمور کا خیال آیا، سرکاری اسپتال کے ایک معمولی ڈاکٹر کی تنخواہ کتنی ہو گی؟ اس نے سوچا کیا گھر کی گاڑی چلانے کے لئے مجھے تمام عمر کند ذہن لڑکیوں کو تاریخ کے کھنڈرات سے بوسیدہ اوراق نکال نکال کر پڑھانے ہوں گے؟؟ پھر اسے بابا کی باتیں یاد آئیں۔ ایک دن انھوں نے کہا تھا، جس طرح زندگی اور موت دو سہیلیاں ہیں، انگلیاں تھام کے چلنے والی۔ اسی طرح محبّت کی بھی کچھ ہم جولیاں ہوتی ہیں جن کے بغیر وہ تنہا رہ جاتی ہے اُن میں تم حسن و جوانی کو شامل کر لو یا سیم و زر کو لیکن تم محبّت کو مادّیت سے جڑا ہوا ہی پاؤ گی۔ بابا کیا پتے کی بات کہتے ہیں، وہ خود سے بولی۔ آخر کو انہوں نے قدیم حکما و اطبا کو ازبر کر رکھا ہے۔ پھراسے تیمور کا خیال آیا۔ طاعون کی وبا پھیلے بہت روز گزر گئے تھے اور وہ ملنے نہیں آیا تھا، نہ ہی فون پر رابطہ کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے طاعون ہو گیا ہو۔ پھر اس نے سوچا، اگر وہ اتنے مریضوں کے درمیان سے زندہ بچ نکلا لیکن محبت کے محاذ پر ہار گیا تو کیا وہ مفتوح ہو گا؟ لیکن تاریخ نے اسے سکھایا تھا کہ جنگ کے اختتام پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ میں فاتح در اصل کوئی نہیں ہے، دونوں ہی مفتوح ہیں۔

ہوا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ شہر بانو گھر کے اندر آ گئی۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے سنگھار میز پر رکھی تیمور کی تصویر کو بغور دیکھا جو عجیب سی لگ رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا جیسے تیمور کے اگلے دانت کترنیے کی طرح چھینی نما ہو گئے ہیں۔ یک دم اسے اپنی انگلیوں میں کھجلی سی محسوس ہوئی۔ اس نے منگنی کی انگوٹھی کو گھمایا، اس کے نیچے گلٹی نمودار ہو رہی تھی پھر اسے اپنی انگلیاں چوہوں کے پنجوں کی طرح مڑتی ہوئی دکھائی دیں، شدت سے اس کا جی چاہا کہ وہ ڈھیروں کڑکڑاتے کرنسی نوٹوں کو اِن پنجوں میں دبوچ لے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماہِ بے سایہ

 

میں نے آ ہنی دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ حیرت کے ساتھ مجھے تشویش ہوئی کہ کھلے دروازے سے کوئی بھی اندر آ سکتا تھا۔ گھر کے بیرونی حصّے میں قدم رکھتے ہی مجھے یوں لگا جیسے صدیوں پرانی کسی پراسرار حویلی میں نابینا بھوت منڈلا رہے ہوں آدم نہ آدم زاد۔۔۔ باغ کی سوکھی زرد گھاس میرے پاؤں تلے چرمرانے لگی میں نے دیکھا اطراف ٹنڈ منڈ درخت اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے، صرف املتاس تھا جس کے سنہرے پھولوں کی لمبی نازک ڈالیاں لہرا رہی تھیں اور خوشے زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔

کیا اِس گھر میں فصلِ گُل اس طرح آتی تھی۔۔۔۔؟ میں نے قدم بڑھائے تو وسیع راہداری سے گزرنے والا ایک انسانی سایہ اونچے ستون کی آڑ میں ہو گیا یکدم میرے عقب سے کسی نے احتجاجی لہجے میں کہا۔۔۔۔ "او۔۔۔۔ جی کون ہے؟”

میں نے مڑ کے دیکھا وہ نصیراں تھی میری ماں کی پُرانی خادمہ۔

"ارے۔۔۔۔۔ چھوٹی بی بی آپ؟

آؤ نا۔۔۔۔ باہر کیوں کھڑی ہو؟؟ کتنے سال لگا دیئے آنے میں "۔۔۔۔! !

"ماں کہاں ہیں۔۔۔۔؟”

"وہ اندر ہوں گی۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔! ”

"یا پھر۔۔۔۔؟؟”

"گلِ مہر کی جھاڑی کے پاس۔۔۔۔ ”

میں نے بے اختیار باغ کے مشرقی حصے کو دیکھا جہاں گلِ مہر کے سرخ نارنجی پھول شاخوں کے سرے پر جھولتے تھے لیکن اب تو وہاں آک کی جھاڑیاں تھیں۔

"میں بیگم صاحبہ کے کھانے کے لئے کچھ لینے قریبی بازار تک گئی تھی ویسے تو میں دروازہ بند کر کے ہی جاتی ہوں۔ "۔۔۔ وہ صفائی پیش کرنے لگی۔۔۔۔

اور میں ماں کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔ اچانک میری نگاہ ایک کبِرسن عورت پر پڑی جس کی جلد چمپئی نہیں تھی، زرد اور مرجھائی ہوئی تھی۔ جس کے بال نفیس جوڑے میں بندھے ہوئے نہیں تھے، خزاں زدہ جھاڑی کی طرح بکھرے بے رونق تھے، اس کے جسم پر خوبصورت قیمتی ساڑھی کی بجائے خادمہ کے لباس سے زیادہ میلے اور بوسیدہ کپڑے تھے۔

"ماں۔۔۔۔ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے "۔۔۔۔ میں ان کی طرف لپکی۔

انہوں نے سراسیمگی سے مجھے دیکھا۔ پھر نصیراں کے بازوؤں میں چھپنے کی کوشش کرنے لگیں۔

نصیراں انہیں سنبھالتے ہوئے اندر لے گئی، میں اس کے اشارے پر وہیں رُک گئی تھی، کچھ دیر بعد وہ آئی، میں تب بھی ستون کے پاس حیران کھڑی تھی اس نے میرا سامان اٹھایا اور بولی

"چھوٹی بی بی میں آپ کا کمرہ صاف کر دیتی ہوں۔ ”

٭٭٭

میں اُس وقت مشی گن کے ایک کتب خانے سے باہر نکل رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے عجلت میں کندھے پر پڑے چرمی تھیلے میں ہاتھ ڈالا۔۔۔۔ سڈنی سے میری بہن کا فون تھا۔

"صبا۔۔۔۔ تم نے پاکستان میں ماں سے آخری بات کب کی تھی۔۔۔۔؟”

میں ہڑ بڑا سی گئی۔۔۔۔ "کیوں۔۔۔۔ خیریت؟؟ ماں کو کیا ہوا۔۔۔۔؟”

"رابطہ نہیں ہو رہا ہے "۔۔۔۔ وہ تشویش سے بولی۔۔۔

"فون کی گھنٹی جاتی ہے کوئی اٹھاتا نہیں۔۔۔۔ نامعلوم فون خراب ہے یا۔۔۔۔! ”

"شاید وہ خالہ کے ہاں گئی ہوں۔۔۔۔ کچھ دنوں کے لئے "۔۔۔۔ میں نے کہا

"صبا۔۔۔ تمہارے دماغ کا رس تمہارے تحقیقی مقالے نے نچوڑ لیا ہے تمہیں یہ بھی یاد نہیں کہ پچھلے برس خالہ کا انتقال ہو چکا ہے۔۔۔۔ ”

"اوہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ اچھا تم۔۔۔۔ بھائیوں سے پوچھ کے دیکھ لو۔۔۔۔ شاید کبھی انہیں ماں کی یاد آئی ہو۔۔۔۔ "میں نے تجویز دی۔

"وہ دونوں۔۔۔۔ کینیڈا۔۔۔۔ کبھی یورپ۔۔۔۔ اور نجانے کہاں سفر میں رہتے ہیں انہیں اپنے کاروبار اور غیر ملکی بیویوں سے فرصت ہی نہیں۔۔۔۔ اور میں۔۔۔۔ تم تو جانتی ہو بچے، شوہر، گھر داری، ساس کے احکامات۔۔۔۔ بس تم ہو جو تنہا ہو، آزاد، خود مختار، تم نے بیکار خود کو تین برس کے لئے پڑھائی میں پھنسا لیا۔۔۔۔ میں بھی کئی برس سے وطن نہ جا سکی۔۔۔۔ خیر تم تو جانے کی تیاری کرو۔۔۔۔ کوئی ایسا رشتہ دار بھی نہیں جس سے ماں کی خیریت پوچھی جا سکے۔۔۔۔ ”

"ہاں میں "۔۔۔۔ میں نے کشادہ سڑک پر رواں حیاتِ تازہ پر نظریں گھمائیں۔

"جاؤں گی وطن "۔۔۔۔! !

"وطن نہیں۔۔۔۔ ماں کے پاس۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔ جلدی جاؤ۔۔۔۔ انہیں کچھ ہو نہ گیا ہو۔ وہاں تو ایک پرانی خادمہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور وہ بھی نجانے۔۔۔۔۔ ”

اُف۔۔۔۔ کیوں نہیں سمجھتی میری بہن۔۔۔۔ میں نے سوچا۔۔۔۔ میری سند کے حصول میں چند ماہ باقی ہیں اتنے اہم مرحلے پر کیسے چلی جاؤں۔۔۔۔؟ اور میرے بھائی۔۔۔۔ ان کی بے حسی دیکھ کے تو لگتا ہی نہیں کہ وہ میری ماں کی اولاد ہیں، ماں نے انہیں ہم سے زیادہ چاہا تھا۔

واپسی کا قصد کرتے کرتے چند ماہ اور لگ گئے، اب تین برس بعد میں نے اس گھر میں قدم رکھا تھا یہ گھر جہاں محبت کے خالص ہونے کی ضمانت کبھی کسی نے نہ دی تھی لیکن ایسا وقت بھی نہیں آیا تھا۔

شاید وہ زوالِ قمر کی رات تھی، نصیراں برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھی نپے تُلے انداز سے ماں کے متعلق بتا رہی تھی، اس کی گفتگو سے لگ رہا تھا جیسے اتنے سالوں میں ماں نے اپنا شعور اس کے اندر انڈیل دیا ہو۔۔۔۔ اس کے لہجے میں اداسی، خفگی، سرزنش سب کچھ تھا وہ بولی "چھوٹی بی بی۔۔۔ بیگم صاحبہ۔۔۔۔ سب سے زیادہ فون آپ کے دونوں بھائیوں کو کرتی تھیں اس کے بعد روتی تھیں وہ انہیں فون پر نہیں ملتے تھے۔۔۔۔ آپ کبھی جلدی میں بات کرتیں اور کبھی آپ کا فون بند ہوتا۔۔۔۔ بڑی بی بی کی باتوں میں زیادہ ذکر ان کی اپنی مصروفیات اور گھر گرہستھی کا ہوتا۔۔۔۔۔ بیگم صاحبہ کہتی تھیں کہ بی بی اپنے گھر میں اتنی خوش ہیں کہ لمبی لمبی باتوں کے بعد بس ایک آدھ جملے میں ماں کا حال پوچھ کے فون بند کر دیتی ہیں، پھر ایک دن فون کٹ گیا اور یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔۔۔۔ مالی بہت پہلے گھر چھوڑ کے چلا گیا تھا باغ کا حال آپ نے دیکھ لیا ہے۔۔۔۔۔ میں تو بے گھر، بے در تھی یہاں رہنا میری مجبوری تھی محبت نہیں۔۔۔۔ محبت کا رشتہ تو آپ لوگوں نے نبھانا تھا۔۔۔۔۔! ”

پھر نیم روشنی میں وہ خاموشی سے اٹھی اور ماں کے کمرے کے فرش پر سونے کے لئے چلی گئی۔۔۔۔ میں بجھے ٹوٹے قمقموں میں اُس گھرکو تلاش کرنے لگی جو کبھی ہم سب کا تھا۔

٭٭٭

اُس وقت میں بارہویں جماعت کی طالبہ تھی جب بابا نے یہ خوبصورت اور کشادہ گھر لیا تھا، میری ماں کی حسِ لطیف نے انہیں کبھی چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ انہوں نے اس گھر میں آتے ہی اس کی بے رنگ چٹیل زمین کو اپنے ہاتھوں سے لگائے پودوں اور درختوں سے سرسبز کر دیا۔۔۔۔۔۔ ہمارے گھر کی راتیں موگرا، رات کی رانی اور چنبیلی سے مہکتی تھیں اور دن ہارسنگھار کے سرخی مائل نارنجی خوشبو دار گچھوں، چمپا کے زرد پھولوں، گڑھل کی سرخ جھاڑی اور سرس کے برگ ریز درخت کے ساتھ اترتا تھا۔

اُن دنوں ہم سب بہت خوش تھے۔۔۔۔۔۔

پھر اچانک معلوم ہوا ہمارے ماں باپ میں ذہنی رفاقت تو کبھی تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔ بس ایک ناٹک تھا جسے ہم دیکھتے تھے ایک تیسرے فریق نے بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔

اس انکشاف کو سب سے پہلے ماں نے حقیقت کے طور پر تسلیم کیا۔ نجانے کب سے ان کی حسّیات بابا کے تعاقب میں ہراساں افتاں و خیزاں تھیں۔ ہماری لا علمی کی وجوہات میں ماں کا حد سے بڑھا ہوا نظم و ضبط شامل تھا۔ پھر یوں ہوا کہ بابا نے اپنی نئی شادی کا اعلان اور ہم سب سے علیحدگی کا فیصلہ اکٹھا ہی سنا دیا ہمیں پہلی دفعہ پتہ چلا کہ کوئی تعلق کس طرح دل میں زخموں کی کھیتی اُگا سکتا ہے۔ رگِ جاں سے خون کھینچ کھینچ کے پروان چڑھتی یہ کھیتی کب اندھیرے جنگل کی طرح تناور ہوئی ہمیں پتہ ہی نہ چلا لیکن ماں کے ظاہری نظم و ضبط میں کوئی فرق نہ آیا یہی توقع انہوں نے ہم سب سے بھی کی تاکہ جگ ہنسائی ہمارے سر نہ جھکا سکے۔ ماں خود کو مضبوط ثابت کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے اپنے خاندانی جاہ و حشم کے قصّے سنانے لگیں، پھر انہوں نے قابل رشک حافظے کا سہارا لیتے ہوئے اپنے مطالعے کے بیان کو شخصیت کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا، ملنے جلنے والے لوگ ان کی اعلیٰ تعلیم اور مطالعے کا چرچا کرنے لگے۔ ماں، ادیانِ عالم، تاریخ، فلسفہ، سائنس، سیاست غرض کہ تمام بڑے اور بنیادی علوم پر یوں سیر حاصل گفتگو کرتیں کہ سننے والے حیران رہ جاتے۔ ہم مطمئن تھے کہ ماں کا دل لگا ہوا ہے۔ ان کے چاروں بچوں میں صرف میں تھی جو ان کے ہاتھ آ جاتی تھی وہ مجھے اسلام کی نشاۃ الثانیہ، مغلوں کی تاریخ، قدیم تہذیبوں کی کہانیاں اور دنیا کے عظیم ناولوں کی بابت بتاتیں۔ کبھی راہداری سے گزرتے دیکھ کے مجھے بلاتیں اور باغ میں نئی کھلی کونپلیں دکھاتیں۔ پودوں کی افزائش، بیجوں کی ساخت اور موسموں کی فصل کے بارے میں بتاتیں۔۔۔۔ آج بھی لگتا ہے جیسے میں نے خود کچھ نہیں پڑھا، صرف ان سے سنا ہی سنا ہے، مجھے احساس تھا کہ میں ان کی چہیتی اولاد کبھی نہیں رہی، انہیں ہمیشہ شبہ رہا کہ میں ان کی شخصیت سے متاثر نہیں ہوں۔ وہ اپنی تینوں بڑی اولادوں کو اپنا وفادار سمجھتی تھیں۔

وقت کروٹ بدلنے لگا۔ میری بڑی بہن شادی کے بعد سڈنی چلی گئی۔ ماں کے لیے اس کی جدائی سہنا آسان نہ تھا، پھر دونوں بھائی ماں کو سنہرے خواب دکھا کے اور اپنے حسین مستقبل کے واسطے دے کے ایسے گئے کہ پلٹ کے نہیں آئے۔۔۔۔۔

جب مجھے مشی گن یونیورسٹی میں داخلہ ملا اور میں نے ماں کو یہ خبر سنائی تو ان کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا، انہوں نے جن نگاہوں سے مجھے دیکھا انہیں میں کبھی بھلا نہ سکی۔۔۔۔۔۔

علم کی جستجو مجھے ورثے میں ملی تھی اور محبت۔۔۔۔۔! ہماری وراثت میں محبت کہیں نہیں تھی۔ ہم جدید دنیا سے باخبر تھے اور ایک دوسرے سے بے خبر۔۔۔۔۔ اب مجھے یاد آتا ہے کہ ماں کے کچھ خط ملے تھے جن کے مختصر جواب میں نے کبھی فون پر دیئے اور کبھی نہیں۔۔۔۔۔ پھر یہ سلسلہ یوں منقطع ہوا کہ مجھے اپنے تحقیقی مقالے کے لیے سفر کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

اگلے دن کی صبح میں نے ماں کو غسل کے بعد عمدہ لباس زیب تن کروایا پھر ان کے قریب بیٹھ کے خوش کن یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے محسوس ہوا جیسے میں ایسے ڈوبتے شخص کو زیرِ گرداب پکار رہی ہوں جس نے ڈوبنے سے پہلے بہت آوازیں دی ہوں اور اب ایسی ہار مانی ہو کہ کنارے اور بھنور کا امتیاز مٹ گیا ہو۔

بچپن میں میرے پاس سوال ہی سوال تھے اور ان کے پاس مدلّل و مفصّل جواب۔۔۔۔ سو میں نے ایک کھسیاہٹ زدہ شخص کی طرح ان کے حافظے پر دستک دینے کی خاطر ان کے پسندیدہ موضوعات پر بے سر و پا گفتگو شروع کر دی۔ تاریخ کا وہ حسین و منّور دور جسے ہم نشاۃ الثانیہ کہتے ہیں، ماں اسے سرمدی اور یگانہ کہتی تھیں اس پر گفتگو کرنے بیٹھتیں تو اوراقِ پارینہ خود بخود کھلتے چلے جاتے تھے لیکن اب اس موضوع پر انہیں لاتے ہوئے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں تاریخ کے کسی تاریک و قبیح دور میں حیران و سرگرداں پھر رہی ہوں۔

میں جانتی تھی وہ مثالیت پسند رہی ہیں، یہ رویّہ انسان کو مشقت اور کبھی کبھی یاسیت کی طرف لے جاتا ہے۔ کیا وہ یاسیت کے جالے میں پھنس کے سب کچھ بھول چکی ہیں۔۔۔۔۔ کاش وہ ایک عام سی عورت ہوتیں۔

٭٭٭

دماغی امراض کے ماہر کے سامنے ماں کے طبّی معائنے کی تفصیل تھی اور میں اک جاں گسل مرحلے سے گزر رہی تھی،

بالآخر وہ بولا۔۔۔۔۔ ” ان کے دماغ کے اندر اعصابی ریشوں کی گرہیں بن گئی ہیں۔۔۔۔۔ ”

"وجہ۔۔۔۔۔؟” حسبِ عادت میں نے سوال کیا۔

"بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔ خون کی رگوں کی صلابت، کوئی چوٹ، کبَر سنی کے نقائص کا جینیات پر اثر انداز ہونا۔۔۔۔۔ ایک توانا ذہن مختلف حالات سے نبرد آزما ہوتا ہے اس پر قابو بھی پا لیتا ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل اس کے ساتھ کیا ہو جائے۔۔۔۔۔ اس کی ذہانت و فطانت اور حافظے میں محفوظ عمر بھر کا خزانہ تاراج و برباد ہو جاتا ہے۔ انسان کے مقدر میں بہت سی ایسی چیزیں لکھی گئی ہیں جو اس پر کھل نہیں پاتیں۔ کھل سکتی نہیں۔۔۔ لیکن خیر۔۔۔۔ الزہائمر مرض پر مسلسل تحقیق ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ ”

"الزہائمر "۔۔۔۔۔ میں بڑبڑائی۔۔۔ دماغی امراض کے ماہر کا تمام فلسفہ لمحے بھر میں تحلیل ہو گیا جو در حقیقت وہ ہمدردی کے طور پر مجھے اس جھٹکے سے بچانے کے لیے سنا رہا تھا۔ اس نے میرے زرد ہوتے چہرے کو دیکھا اور موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ "اچھا تو آپ مشی گن یونیورسٹی میں سماجیات کی طالبہ تھیں۔۔۔۔۔ آپ کی تحقیق کا موضوع کیا تھا۔۔۔۔؟”

میں اسے بتانے لگی یکدم میری زبان میں ہکلاہٹ آ گئی۔۔۔ نہیں معلوم میں اس اچانک ہکلاہٹ سے شرمندہ ہوئی یا مجھے یہ بتانے میں جھجھک محسوس ہوئی کہ میں ترقی یافتہ دنیا میں خاندانی اور سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت کے موضوع پر کام کر رہی تھی۔ اُس پل پوری قوت سے مجھے محسوس ہوا کہ میرا مقالہ غیر اہم ہو گیا ہے۔

"کیا۔۔۔۔۔ ماں۔۔۔ ٹھیک ہو جائیں گی؟؟” میں نے جواب دیئے بنا سوال کیا۔

وہ ہنسا۔۔۔۔۔ عجیب سی ہنسی تھی۔ ” یہ تو آپ جانتی ہیں کہ امریکہ میں الزہائمر عام ہے۔ ”

"میں یہاں کی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ ”

"ہاں۔۔۔۔۔ یہ مرض تقریباً پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ میں واضح طور پر مریضہ کی صحت کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔۔۔۔۔ در اصل یہ پیچیدہ اور غارت گر مرض ہے۔۔۔۔۔ آپ کو اور آپ کے رشتہ داروں کو چاہیے کہ مریضہ کو زیادہ سے زیادہ اپنی قربت اور محبت کا احساس دلائیں۔۔۔۔۔ اس مرض میں چونکہ حافظے اور خیالات کا ادراک قائم رکھنے والے اعصابی تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اس لیے قوت فیصلہ، محویت اور الفاظ کے استعمال کی قابلیت کم ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری ابھی اسرارِ سربستہ ہے مریضہ کو قدم قدم پر سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! ”

٭٭٭

 

آک کی جھاڑیوں کے پاس آرام دہ کرسی پر ماں بیٹھی تھیں گم صم سی۔ نصیراں نے بتایا ماں کی پسندیدہ جگہ یہی ہے وہ سمجھتی ہیں کہ گلِ مہر کی جھاڑیاں اب بھی تر و تازہ ہیں۔۔۔۔۔ میں انہیں وہیں چھوڑ کے گھر کا چکر لگانے لگی جگہ جگہ چوہوں کے بل، گلہریوں، پرندوں کے ٹھکانے اور مکڑیوں کے جالے تھے۔ جیسے کوئی مقام آسیب کی زد میں آیا ہوا ہو۔

کئی کمرے قفل زدہ تھے کھلے کمروں کا سامان گرد و غبار سے اَٹا ہوا تھا۔۔۔ ماں کے کمرے سے ملحق ان کا ذاتی کتب خانہ تھا جو کشادہ تھا اور اس کی کھڑکیاں باغ میں کھلتی تھیں۔ کتب خانے کا دروازہ کھول کے میں اندر داخل ہوئی تو روشندانوں میں بنے گھونسلوں سے پرندے نکل کر پھڑپھڑائے۔ اچانک کمرہ روشن ہو گیا میں چونکی، نصیراں میرے عقب میں تھی۔۔۔۔۔۔

"بتّی جلا دی ہے بی بی۔۔۔۔ شام ہونے والی ہے۔۔۔۔۔۔ ”

"یہ کمرہ کب سے نہیں کھلا؟” میں نے قیمتی کتابوں کو گرد میں گم پایا۔

"جب سے بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی ہے۔”

"اچھا تم جاؤ۔۔۔۔۔ ” میں نے کہا اور کتابیں دیکھنے لگی۔ بڑی بڑی الماریوں میں تاریخ و ادب، مذہب و فلسفہ پر کتب بھری پڑی تھیں جنہیں پڑھ پڑھ کے وہ مجھے بتاتی تھیں کہ دنیا کی بڑی جنگوں نے کس طرح اقوامِ عالم کے مقدر کو تبدیل کیا، آج میری ماں ان کتابوں سے رابطہ توڑ چکی تھیں اور اس مقدر سے وابستہ ہو گئی تھیں جو در اصل ان کا نہیں تھا ہم سب نے انہیں یہاں تک پہنچایا تھا۔ میں کتابوں کی گرد جھاڑنے لگی اچانک مجھے خیال آیا کیا ماں نے خود پر علم و فضل کی چادر ڈال رکھی تھی۔۔۔۔؟؟جس کی اوٹ میں چھپ کر وہ دنیا سے اپنی محرومیاں چھپانا اور خود کو مضبوط ظاہر کرنا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اندر سے بہت کمزور تھیں۔۔۔۔۔ شاید نہیں۔۔۔۔۔ شاید ہاں۔۔۔۔۔

ایک عام انسان کی طرح انہیں بھی فطری اور حقیقی رشتوں کی ضرورت تھی ہم نے انہیں اپنی خود غرضی کے سبب مضبوط تصّور کر لیا تھا۔ اب وہ ہڈیوں، پٹھوں اور مردہ ہوتے رگ و ریشوں سے ڈھکی ایک ہستی رہ گئی تھیں۔ انہیں درد کے بغیر دردِ لا دوا لاحق ہو گیا تھا۔ ان کی نزاع میں مبتلا محبت کو جگانا مجھ اکیلی کے بس میں نہ تھا، سو میں نے یہ جانتے ہوئے کہ کوئی نہیں آئے گا پھر بھی بہن بھائیوں کو ماں کی کیفیت بتا دی تھی۔

مجھے اقرار ہے کہ میری محبت میں قوت نہیں تھی میں جو شعورِ ذات کی خاطر ترقی یافتہ ملکوں میں رہی تھی میں کہ جس کے نزدیک توسیعِ ذات ہی حاصلِ حیات تھا میں خود پر جدید افق کے دروازے کھلے دیکھنا چاہتی تھی لیکن مواصلات کا پہلا دروازہ جس سے پہلی بار میں نے جھانکنا سیکھا تھا اسے بھلا دیا تھا۔۔۔۔۔ بس یہی کتب خانہ تھا جو ماں تک پہنچنے کا روحانی سہارا بن سکتا تھا۔ اچانک میری نگاہ ایک سرخ مخملیں ڈبے پر پڑی جو خاصا بڑا تھا جس کا سنہری قفل کھلا ہوا تھا۔ میں اس کا ڈھکنا اٹھانے کو تھی کہ عقب سے نصیراں حسبِ معمول دیومالائی کہانیوں کے پراسرار کردار کی طرح نمودار ہوئی۔

"بی بی۔۔۔۔۔ آپ کب سے یہاں کھڑی ہیں میرا مطلب ہے بہت گرد و غبار ہے۔۔۔۔۔ ”

"یہ کیا ہے۔۔۔۔ ” میں نے سرخ ڈبے کی طرف اشارہ کیا

"یہ بیگم صاحبہ کے مردہ خطوں کا ڈّبہ ہے۔۔۔۔! ”

"مردہ خط”۔۔۔۔؟میں حیران رہ گئی۔

"جب وہ ٹھیک تھیں تو کہتی تھیں کہ ڈاکخانے میں ایک جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں وہ خط جمع کر لیے جاتے ہیں جن کا کوئی پتہ نہیں ہوتا جن کا جواب نہیں آنا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ ”

” اوہ۔۔۔۔ تو کیا؟”۔۔۔۔۔۔ میں بڑبڑائی۔

"بی بی۔۔۔۔۔ آپ لوگ بہت مصروف تھے آپ کے پتے بھی تبدیل ہوتے رہتے تھے بیگم صاحبہ فون کرتیں تو سب جلدی میں جواب دیتے خط لکھتیں تو جواب نہیں آتا تھا۔ اس لیے انہوں نے سب کے نام خط لکھ لکھ کے اس "مردہ خطوں کے ڈّبے ” میں بند کر دیئے، اِسے دیکھ کے وہ ہنستی تھیں، کبھی روتی تھیں، اب تو مدت ہوئی خاموش ہو گئی ہیں اس طرف آتی ہی نہیں۔ ”

رات کے کھانے کے بعد جب ماں سو گئیں۔ نصیراں بھی سو گئی تب میں نے کتب خانے کی روشنیاں جلائیں اور "مردہ خطوں کی دنیا ” میں داخل ہو گئی۔ یہ ایک الگ جہان تھا جسے ہم میں سے کسی نے دریافت کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ بند لفافوں میں خط تھے جن پر ٹکٹ چسپاں تھے پتے درج تھے بس انہیں ڈاکخانے نہیں بھیجا گیا تھا۔ ہم چاروں بہن بھائیوں کے نام لکھے گئے خط، الگ الگ خانوں میں سلیقے سے تاریخ وار رکھے ہوئے تھے۔ میں نے صرف اپنے نام کے خط اٹھا لیے انہیں ابتدائی تاریخوں سے پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔ تمام عمر میں بدگماں رہی کہ ماں مجھے کم چاہتی ہیں لیکن ان خطوط میں محبت کا جو دریا بہہ رہا تھا اس کا میٹھا پانی میری زندگی کے ہر بنجر راستے کو سیراب کرنے کو بہت تھا میں ہی دریا کی مخالف سمت بھاگتی رہی۔

آخری خطوں میں لکھے گئے ایک جملے کے سیاق و سباق سے واضح ہوتا تھا غالباً یہ جملہ اور خطوں میں بھی ہے جو یہ تھا۔

"میرے اور موت کے درمیان حائل زندگی معدوم ہو رہی ہے میں چاہتی ہوں ایک بار تم سے مل لوں۔۔۔۔۔۔ ”

جانے کیا سوچ کے میں نے اپنے لیے لکھے گئے خطوں کے جواب تحریر کرنا شروع کر دئیے۔ رات کب گزری مجھے اندازہ نہ ہوا کتب خانے کی گھڑی لمحۂ پارینہ میں ٹھہری ہوئی تھی، جب سارے جواب مکمل ہو گئے تو ہر جواب کے ساتھ میں نے اَس کا خط نتھی کر دیا۔

٭٭٭

صبح میں اٹھی تو کمرہ دھوپ سے بھر چکا تھا، ماں ناشتہ کر چکی تھیں، میں نے ناشتے سے فارغ ہو کے انہیں تلاش کیا وہ باغ میں اپنی پسندیدہ جگہ پر مل گئیں۔ آک کی نرم اور کاگ دار چھال سفید روئیں سے ڈھکی ہوئی تھی اور ہلکے جامنی سفید پھول کھلے تھے۔ میرے ہاتھ میں ان کے خطوط کے ساتھ وہ جواب تھے جو رات بھر میں نے آنسوؤں کی بوچھاڑ میں لکھے تھے۔

زمین پر املتاس کے پیلے پھولوں کی چادر بچھی تھی زرد رو گھاس نے فضا کو مزید بوجھل کر دیا تھا اور اطراف سوکھے پتوں میں ہوا سنسناتی پھر رہی تھی ماں کے کپڑے پہلے کی طرح ملگجے اور بال بے ترتیب تھے، ان کی گود میں خزاں رسیدہ پتے رکھے ہوئے تھے نصیراں نے بتایا تھا کہ اب ان کی دن بھر کی مصروفیت یہی ہے کہ وہ زرد پتوں کو چن چن کر گود میں رکھتی ہیں۔

میں ان کے قریب جا کے بیٹھ گئی اور آہستگی سے خطوط کے جواب ان کی گود میں رکھ دیئے، پھر بولی۔۔۔۔ "ماں۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔۔ وقت گزر جائے تو بات کی اہمیت نہیں رہتی۔۔۔۔ میں نے بہت دیر کر دی ہے۔۔۔ تلافی ممکن نہیں۔۔۔ لیکن میری خواہش ہے میرے جواب آپ صرف دیکھ لیں اور اگر مجھ سے یہ جواب سن لیں تو میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ”

انہوں نے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھا لیکن خطوط کی جانب متوجہ نہ ہوئیں۔ کچھ دیر ایسی گزری جو میرے ارادے سے باہر، ان کی لاتعلقی سے ماورا تھی۔۔۔۔ بس مجھے محسوس ہوا کہ میری آرزو مندانہ نگاہوں میں کچھ ایسا ہے جس سے ان کے برف جیسے وجود میں حرارت کی رمق پیدا ہوئی، پھر بیٹھے بیٹھے ان کا جسم انجانی تھرتھراہٹ کی زد میں آیا ان کی آنکھوں میں شناسائی کی خفیف سی چمک بہت دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی میری خوش گمانی نے دیکھا کہ ان کی واپسی کے قدم لرزتے کانپتے اٹھ رہے ہیں۔

میں نے بڑھ کے انہیں سہارا دینا چاہا، اچانک اطراف سنسناتی ہوا کی شوریدگی نے کسی آسیبی سازش سے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔۔ کیا میں چند لمحوں کے لئے کسی فریب خیال میں آ گئی تھی کیونکہ اب ان کا چہرہ پہلے کی طرح سپاٹ تھا اور نگاہوں میں اجنبیت تھی اچانک وہ اپنی آرام دہ کرسی سے بے حد آہستگی سے کھڑی ہو گئیں ان کی گود میں رکھے زرد پتے، خط اور ان کے جواب زمین پر گر گئے پھر زمین پر پڑے زرد پتوں کے ساتھ مل کے اڑنے لگے میں انہیں آک کی جھاڑیوں میں اٹکتا اور کانٹے دار گھاس سے لپٹتا دیکھتی رہی بے بسی سے میں نے ان کی طرف دیکھا۔ میری ماں خود بھی ایک زرد پتہ لگ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

کوئلہ بھئی نہ راکھ

 

برآمدے میں کھجور کے باندوں سے بُنی تین چارپائیاں ایک دوسرے سے جڑی پڑی تھیں جن پروہ تینوں بہنیں ظاہر سو رہی تھیں۔ آگے کچا دالان تھا جس کی کیاریوں میں موگرے اور رات کی رانی کی جھاڑیاں تھیں، کچھ ہٹ کے کچنار اور شہتوت کے درخت تھے اور ان کے اوپر اوندھی تھالی جیسا آسمان تھا جس پر رات کو ہیرے موتی جیسے تارے ان کے دالان میں جمع ہو جاتے تھے گویا رات ان تینوں کے لیے تاروں کی سحر آگیں روشنی، پھولوں کی مدھر خوشبو اور خوابوں کی ریشمی ردائیں لے کر آتی تھی۔ مستطیل برآمدے کے دوسرے کونے کی نصف لمبائی میں ایک چوکور رقبہ تھا جسے مولوی عبدالرشید نے حجرے کا نام دے رکھا تھا۔ اس میں سائلوں کے آنے سے پہلے عورتوں کے لیے درمیان میں پردہ لٹکا دیا جاتا تھا۔ گھر کے مغربی حصّے میں دیگر ضروریات کے لیے کچی پکی کوٹھری نما جگہیں تھیں۔ برآمدہ اور دالان تینوں بہنوں کی راجدھانی تھا۔ مولوی عبدالرشید اس طرف بہت کم اٹھتے بیٹھتے تھے۔ دن میں بھی وہ حجرے والے دروازے سے آتے جاتے تھے۔ دالان والے دروازے پر تالا پڑا رہتا تھا۔ بہ ظاہر یہ دونوں حصے محدود قطعۂ ارضی پر مشتمل ایک ہی گھر کے تھے لیکن ان کی باطنی فضا ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ زمانے کا تغّیر کسے کہتے ہیں، اس کا اندازہ اس گھر کے دیوار و در کو نہیں تھا لیکن آج شام سے پہلے کام ختم کر کے جانے والے مزدور اس گھر کے نقشے میں ایک تبدیلی کر گئے تھے۔ مولوی عبد الرشید کے حکم پر ایک چوبی ٹھاٹر نے پورے برآمدے کو بند کر دیا تھا البتہ مولوی عبدالرشید نے اپنی تینوں جوان بیٹیوں کو بہ قدرِ ضرورت سانس لینے کے لیے دام نما چوبیں ٹھاٹر چوڑے سوراخوں والا لگوا دیا تھا اور ساتھ ہی حکم دیا تھا کہ کل سے اس پر پردہ ڈال دیا جائے۔

بستر پر تا دیر ایک کروٹ پڑے رہنے کے باوجود صالحہ کو محسوس ہوا کہ عفیفہ جاگ رہی ہے اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ صابرہ بھی جاگ رہی ہو گی صابرہ کو دبک کر رہنے کی عادت تھی۔ اکثر وہ آدھی سانس لیتی یا سانس روکے رکھتی، شاید ہوا کا گزر اس کے پھیپھڑوں کے آخری سرے تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ اب تو اس چوبیں ٹھاٹر نے ہوا، خوشبو اور روشنی کا راستہ بھی روک دیا تھا۔ صالحہ نے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ تاروں کی چمکتی کرنوں سے کچے دالان تک ہر شب دیکھے ہزارہا شبوں میں دیکھے خواب کی رہ گزر بن گئی تھی۔ اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ مولوی عبدالرشید کی دنیا کی تنگ و تاریک گلیاں تاریخ کے عبرت آموز قلعوں کی طرح مسمار ہوتی گئیں اور صالحہ کا تکیہ تختِ سلیمان بن گیا۔ اس نے خود کو حوضِ خاص کے قریں پایا جو کنول کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دنیا کے عجائب و غرائب سے مماثل کسی عظیم سلطنت کی حسین ترین شہزادی کے روپ میں وہ کھڑی تھی۔ تاج نما کلاہ سر پر تھا۔ کار چوبی کی پشواز ٹخنے تک جھکی جاتی تھی۔ گلے میں سچے موتیوں کی مالائیں، ہاتھ میں مرصع کنگن، بازوبند اور محراب کی مانند ٹیکا اس کی چمکتی پیشانی کو چوم رہا تھا۔ پازیب سے سجے پاؤں اور جواہرات ٹکی زیر پائی ہر قدم کو وارفتگی دے رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ تاروں کی رہ گزر سے اترنے والا شہزادہ ماورائی دنیا کی حد پار کرتا کہ مولوی عبدالرشید کی جگر کر کُولتی آواز سے دیوار و در تڑخنے لگے۔

"اٹھو نصیب ماریو۔۔۔۔ فجر کی اذان ہو رہی ہے۔ رات کی گاڑی پہنچ چکی ہو گی، مسافر آتا ہی ہو گا۔۔۔ ”

صالحہ نیم خوابی میں ہڑبڑا سی گئی۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ اپنے خستہ، رنگ اڑے لباس پر گئی۔ اسے درست کرتی وہ اٹھی۔ صابرہ اس سے پہلے بستر سے کھڑی ہو چکی تھی اور عفیفہ آنکھیں ملتے ہوئے اپنے باپ کو ناپسندیدگی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ تینوں جانتی تھیں مولوی عبدالرشید پہلی اذان پر کبھی نہیں اٹھتے تھے لیکن بھتیجے کے آنے کی دہشت نے انھیں رات بھر چین سے سونے نہ دیا تھا۔ آنے والے وقت نے ان کے گرد شک و شبہات کے ہزاروں کنکھجورے چھوڑ دیے تھے جو اب ان کا مقدر تھے۔ ایک مدت بعد انھیں اپنی مرحومہ بیوی کی گہری سوچتی آنکھیں اور آخری دموں تک کی لب بستگی یاد آتی رہی۔ وہ گزرے وقت کی اذیت میں یوں گرفتار ہوئے جیسے ماضی سے کسی نے پھندا پھینک کے انھیں ایک زمانے کی دوری سے کھینچ لیا ہو۔ یہ احساس کسی ظاہری توجیہ کے بنا ان پر طاری تھا کہ وہ آخر آخر تک اپنی مرحومہ بیوی کی سوچ میں ڈوبی آنکھوں میں موجزن اسرار اور خاموش ہونٹوں کے طلسم کو کبھی دریافت نہیں کر سکے تھے۔ ان کے شکوک اور پھر ظلم و جبر بھی ان کی مردانہ اَنا کو تشفی نہ دے سکے تھے۔ وہ ان سے نفرت کرتی تھی، کسی اور کو چاہتی تھی، کیا حقیقت تھی جیسے بتائے بنا وہ مر گئی۔ اس کا اس راز کو لے کر دفن ہو جانا مولوی عبدالرشید کے لیے سانحہ تھا، اس کا مرنا نہیں۔۔ ایک مدت بعد پھر وہی ان جانا خوف، نفرت کی آمیزش کے ساتھ ان پر حاوی تھا۔ ان کی بیوی کا پَرتو لیے تین متحرک لاشیں ان کی ناگوار ذمے داری تھیں جن کی نگرانی کے کٹھن احساس سے ان کا دم گھٹا جا رہا تھا۔

٭٭٭

چند دن قبل مولوی عبدالرشید کو اپنے چچا زاد بھائی کا خط ملا تھا جس میں لکھا تھا کہ ان کا بیٹا اپنی تعلیم کے سلسلے میں اسی شہر میں آ رہا ہے اور مولوی عبدالرشید کے گھر قیام کرے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا اجنبی شہر میں قیام و طعام کی سہولت سے محروم نہ رہے۔ یہ خواہش کسی اور نے کی ہوتی تو مولوی عبدالرشید کے دروازے پر انکار کا قفل آویزاں ہو جاتا لیکن یہ وہ خط تھا جس نے ان کے گرد سینکڑوں رسیدوں کا بگولہ بنا دیا۔ یہ رسیدیں ان ارسال کردہ رقوم کی تھیں جو مولوی عبدالرشید کے چچا ان کی بیوہ ماں کو خرچے کے لیے ہر ماہ ڈاک سے بھیجا کرتے تھے۔ ان رسیدوں کے حاشیے پر کبھی خیریت کے دو بول نہ لکھے ہوتے۔ مولوی عبدالرشید خیرات کی طرح دیے گئے ان پیسوں کو تمام عمر نہ بھولے حالاں کہ خیرات تو وہ اب بھی کھاتے تھے اور بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ پورا ہفتہ جمعرات کے دن کے انتظار میں گزرتا کہ جب سائلوں کے گھر سے انواع و اقسام کے کھانے آتے تھے لیکن اس خیرات کو لوگ نذرانے کے طور پر دیتے، کبھی کسی نے ان کی حیثیت کو نہیں ٹٹولا تھا۔ مولوی عبدالرشید کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کے چچا زاد نے آخر کیا سوچ کے ان پر حق جتایا ہے۔ کیا وہ اپنے باپ کی بھیجی رقوم کا حساب چکتا کروانا چاہتا ہے یا رشتے داری کے حسنِ سلوک کا متقاضی ہے لیکن ایسا تو جب ہی ہوتا کہ جب وہ انھیں برابری کا درجہ دیتا۔ بہر طور افتاد تو پھر افتاد ہے کسی بہانے آئے، انہوں نے سوچا۔

صابرہ اور صالحہ نے دو دن پہلے چوبارا صاف کر دیا تھا جو چو طرفی ہوا سے صحرا کا کوئی ٹکڑا بنا ہوا تھا۔ کھلی جگہ اور سیڑھیوں پر کبوتروں کی بیٹیں جم گئیں تھیں جنھیں دونوں نے بہت محنت سے صاف کیا۔ گھر کا یہ حصہ صرف اس لیے ناقابلِ استعمال بنا ہوا تھا کہ چوبارے میں آنے جانے سے بے پردگی نہ ہو۔ صحن میں پڑی جھلنگا چارپائی کو صالحہ نے کس کر اپنی چارپائی سے بدل لیا اور اپنی چارپائی جو بہتر حالت میں تھی، چوبارے میں ڈال دی۔ صابرہ نے ایک پرانی سی تپائی پر کڑھا ہوا میز پوش بچھا دیا۔ اس سے زیادہ کیا کیا جا سکتا تھا۔ اور تو اور چوبی ٹھاٹر کے نصب ہونے کے بعد دالان کا وہ مختصر حصہ جہاں صبح پھول رات کو تارے نظر آتے تھے، مہمان ہی کا ہو چلا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاشت کے قریب، اس گھر کے جوہڑ کے ٹھہرے پانی جیسے ماحول میں کنکر پڑا۔ مولوی عبدالرشید کے چچا زاد کا بیٹا شہریار پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے اسے حجرے ہی میں روک لیا۔ سرسری سی خیریت دریافت کر کے وہ اسے بتانے لگے کہ چوبارے میں اس کے رہنے کا معقول انتظام کیا گیا ہے۔ کھانے کے وقت اسے حجرے میں آنا ہو گا لیکن دالان والے دروازے سے نکل کے، گھوم کے۔ گھر کے اندرونی حصے میں اس کی آمدو رفت ممنوع ہے۔ وہ سر نہوڑائے سنتا رہا۔ اپنا سفری تھیلا تھام کے اس نے اٹھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ مولوی عبدالرشید جس بات کو سب سے پہلے کہنا چاہتے تھے اور کہہ نہ پار ہے تھے، یکایک بولے،

"وہ تمہاری سگی بہنیں نہیں ہیں کہ ان سے تم ہم کلام ہو سکو۔۔ وہ تم سے پردہ کریں گی۔۔ تم بھی احتیاط کرنا۔۔ ”

٭٭٭

مولوی عبدالرشید کے حجرے کے درمیان پردہ لٹکا ہوا تھا۔ پردے کے پرلی طرف عورتیں تھیں۔ مرد سائلوں کی جانب مولوی عبدالرشید بیٹھے تھے۔ بخورات سلگ رہے تھے۔ مختلف قسم کی تسبیحیں، منکے، گنڈے رکھے تھے، قریب ہی ہرے رنگ کا ڈبا تھا جس میں ہر سائل تعویذ لینے کے بعد کچھ نہ کچھ ڈالتا ہوا اٹھتا تھا۔ مولوی عبدالرشید کے عقب میں بھی ایک دبیز پردہ پڑا تھا جس کی اوٹ میں صالحہ موجود تھی۔ جب سے ان کی بینائی متاثر ہوئی تھی صالحہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر تعویذ گنڈے بنا کر دیتی جاتی تھی۔ اب تو اس نے اس کام میں پُرکاری حاصل کر لی تھی۔ مولوی عبدالرشید کے لیے آہستہ آہستہ وہ ایسی لاٹھی بن گئی تھی جس کے بنا چلنے کا تصور بھی ان کے لیے سوہانِ روح تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ وہ ان کی نظر میں معتبر ہو گئی تھی۔ اس کی حیثیت وہی تھی جو دوسری بیٹیوں کی۔

جس وقت شہریار اچانک حجرے میں داخل ہوا، ایک سبزہ رنگت نوجوان تعویذِ حُب لینے کے لیے طالب و مطلوب کے نام بتا رہا تھا۔ مولوی عبدالرشید نے ناگواری سے شہریار کو دیکھا پھر نام لکھے کاغذ کو پردے کے نیچے سرکاتے ہوئے سرگوشی کی، "صالحہ بی بی، نقش برائے حُب تیار کر کے موم جامہ کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اور اگلے سائل کو آئندہ آمد پر کوری ہانڈی، ہرا کپڑا اور چوکور کیلیں لانے کی ہدایت کرنے لگے۔ سائل کے کھسکتے ہی ایک اور سائل آگے کو آیا اور بولا "سرکار! آپ نے گیارہ فلیتے چنبیلی کے تیل میں جلانے کے لیے دیے تھے جو میں نے جلا دیے لیکن کام۔۔۔۔۔؟؟”

مولوی عبدالرشید نے برہمی سے اسے دیکھا اور بولے، ” میں نے تم سے یہ بھی کہا تھا کہ بکری کے شانے کی ہڈی پر نقش لکھا جائے گا اس کے بعد اسے کسی پرانی قبر میں دفن کیا جائے گا اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔۔۔ انتظام نہیں کر سکتے تو۔۔۔۔ "جملہ ادھورا چھوڑ کے وہ سائل کو دیکھنے لگے۔

"نہیں نہیں، آپ کے کہنے کے مطابق پیسے لایا ہوں۔ "سائل نے رقم ان کے ہاتھ میں دبا دی۔ مولوی عبدالرشید کے چہرے پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتی سلوٹیں ایک ہی ساعت میں تحلیل ہو گئیں۔

سائلوں کے جانے کے بعد بھی شہریار وہیں بیٹھا رہا۔ ایک سترہ اٹھارہ برس کا زنگی نوجوان دوڑ دوڑ کے حجرے کا بکھرا سامان سمیٹ رہا تھا۔ اس کے گھنگھریالے سیاہ بال اس کی چمکتی سیاہی مائل پیشانی پر جھکے ہوئے تھے۔ مولوی عبدالرشید کھنکھارے اور شہریار کو مخاطب کر کے بولے، ” یہ میرا شاگرد ہے۔ اس کے مرحوم باپ نے اسے میرے حوالے کر دیا تھا۔ سودا سلف لا دیتا ہے۔ صبح سے شام تک یہیں ہوتا ہے۔ رات کو اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ ”

شہریار نے دیکھا پردے اور گدیاں سمیٹتے ہوئے لڑکے کی نگاہ بار بار گھر کے اندرونی حصے کی طرف جاتی تھی۔ بہت دیر بعد وہ پردہ بھی سمٹا جس کے عقب سے مولوی عبدالرشید بنے بنائے تعویذ گنڈے لے رہے تھے لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔

٭٭٭

شہریار کو آئے کئی روز گزر گئے تھے۔ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایسے تماشا گھر میں بیٹھا ہے جہاں کچھ کٹھ پتلیاں پردے کے پیچھے اور کچھ سامنے ہیں لیکن سب گونگی ہیں۔ اس رات گھٹن کا احساس زیادہ بڑھا تو اس نے چوبارے کا دروازہ اور کھڑکیاں کھول دیں۔ بے دلی سے کھلی کتابوں کو دیکھتے ہوئے اسے مزید مطالعے کے لیے چائے پینے کی خواہش ہوئی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور سوچا مولوی عبدالرشید سو چکے ہوں گے، بہتر ہو گا کہ چائے کے کسی کھوکھے کا رخ کیا جائے۔ وہ دبے قدموں سیڑھیاں اترنے لگا۔ خلافِ توقع دالان کے آس پاس اک زنگولہ سا اس کے نیم خوابیدہ وجود سے ٹکرایا۔

رام کرے کہیں نیناں نہ الجھیں

ان نینن کی بان بری ہے

الجھے نیناں سلجھائے نہ سلجھیں

رام کرے کہیں۔۔۔۔

"ہش ہش۔۔۔ ” اچانک چند آوازوں نے سُر تال کو دبایا۔

"کوئی اِدھر کو آ رہا ہے۔۔۔ "سہمی سہمی سی سرگوشی ہوئی۔

"کوئی کیا آپا، وہی مہمان ہے مُوا۔ ”

” شہریار آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا اور چوبی ٹھاٹر کے قریب رک گیا پھراس نے ہلکا سا کھنکھارا۔

"کیا بات ہے؟” ایک شوخ آواز نے پوچھا۔

"جی کچھ نہیں۔۔۔۔ بس ذرا پڑھائی صحیح نہیں ہو پا رہی ہے۔ ایک پیالی چائے۔۔۔ میرا مطلب ہے اگر مشکل نہ ہو تو۔۔۔۔ کیا مل سکتی ہے؟”

دبی دبی سی ہنسی کی آواز آئی۔ نجانے کون تھی پھر انھی میں سے کسی نے ملائم سی سرگوشی کی، "بابا کو پتا چل گیا تو؟”

چند ثانیے سکوت رہا جیسے ان کے لئے گویائی سے زیادہ خاموشی مؤثر ہو، پھر سوچ میں ڈوبی ٹھہری ٹھہری سی ایک اور آواز آئی، ” میں چائے بنا کے لاتی ہوں۔ ”

"کیا کہہ رہی ہو صالحہ؟ بابا کو پتا چل گیا تو دالان میں بنی بھٹی سلگا کے ہم تینوں کو اس میں جھونک دیں گے۔ "احتجاجی لہجہ گونجا۔

"واہ بڑی آپا، انھیں کیسے پتا چلے گا۔ ” وہی شوخ آواز آئی، "ابھی میں گا رہی تھی، کیا انھیں پتا چلا؟؟ اور میں تو روز گاتی ہوں۔ "پھلجھڑیوں جیسے لہجے میں بولتی وہ ٹھاٹھر کے قریب آ گئی۔

کچھ دیر بعد شہریار کو تازہ چائے کی مہک محسوس ہوئی۔ کسی نے سرگوشی میں پوچھا "پیالی باہر کیسے دوں؟”

دوسری بولی، "ٹھاٹھر کا دروازہ نہ کھولنا، بابا کو پتا چل جائے گا۔ اس کے درز سے دے دو۔ "چائے کی پیالی لرزتی کانپتی ٹھاٹھر کے چوکور سوراخ سے نمودار ہوئی۔ شہریار نے بڑھ کر اسے پکڑا، دینے والا ہاتھ تیزی سے پیچھے ہو گیا۔

"شکریہ۔ "وہ بولا اور وہیں کھڑے ہو کے چائے پینے لگا۔

"قریبی رشتہ داری کے باوجود ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ ” شہریار نے بہت سوچ کے کہا۔ شوخ آواز والی لڑکی نے ادھ کھلے پردے کو تھوڑا اور کھسکایا اور بولی، ” تو اس میں ایسی کیا مشکل ہے، اب جان لو۔ ”

"ہش۔۔۔۔ چپ کر۔ بابا نے سن لیا تو۔۔۔۔؟” پیچھے سے کسی نے تنبیہ کی۔

"جی میرا نام عفیفہ ہے۔ ” وہ بدستور وہیں کھڑی رہی۔ "ہم تین بہنیں ہیں۔ میں سب سے چھوٹی ہوں۔ بڑی صابرہ آپا اور منجھلی صالحہ آپا ہیں۔ ”

شہریار خاموشی سے چائے پیتا رہا۔

"کچھ اپنے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ "عفیفہ نے پوچھا۔

"میں۔۔۔۔؟” اس نے نیم اندھیرے میں اندر جھانکنے کی نیت کی۔

” میں شہریار ہوں، آپ کے رشتے کے چچا کا بیٹا۔ علمِ کیمیا کا طالب علم ہوں، اس مضمون میں تحقیق کر رہا ہوں۔ کچھ تحقیقی کام باقی ہے جسے آپ کے شہر میں مکمل کرنے آیا ہوں۔ ”

"کیا پڑھنے کیا کرنے آئے ہیں؟” عفیفہ بولی۔

” اب چپ بھی کر جا چھوٹی، باتوں کی آواز بابا تک پہنچ سکتی ہے۔ "غالباً یہ صابرہ کی آواز تھی، شہریار نے چائے کی خالی پیالی احتیاط سے اندر بڑھائی اور بولا، ” زندگی کو زندگی کی طرح گزاریے۔ کبھی کبھی حالات اتنے برے نہیں ہوتے جتنے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ گھپ اندھیرے میں بھی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ہوتی ہے جیسے اس چوبیں ٹھاٹر کی یہ چوڑی درزیں۔۔۔ جن میں سے آپ لوگوں نے مجھے چائے دی۔۔۔۔ ”

پھر مڑتے ہوئے اس نے الوداعی انداز میں ہاتھ ہلایا اور کہا، ” اچھا، عفیفہ بی بی! اپنی پڑھائی کے بارے میں پھر کبھی بتاؤں گا۔۔۔۔ اور ہاں چائے بنانے والی اپنی آپا سے پوچھنا کہ اتنی عمدہ چائے کیا کبھی کبھی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔؟”

٭٭٭

مولوی عبدالرشید مسجد کے پیش امام مولوی فخر الدین سے بعد مدت ملاقات کے لئے گئے تھے۔ شہریار حسبِ معمول صبح کا نکلا ہوا تھا۔ عفیفہ نے برآمدے کی کھونٹی سے ٹنگے پنجرے میں بند رنگ برنگی چڑیوں کو دانہ ڈالا اور چارپائی پر گم صم صالحہ کے پاس آ کے بیٹھ گئی۔

"چھوٹی آپا! ” وہ سوچتے ہوئے بولی، "رات کو۔۔۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟”

"کیا؟”

"یہی کہ زندگی کو زندگی کی طرح گزارو۔۔۔۔ تو کیا ہم اور طرح گزارتے ہیں؟”

"دیکھ عفیفہ! تو زیادہ نہ بولا کر، نہ ہی سوچا کر، رات کو کس طرح پَٹر پَٹر بول رہی تھی۔ "صابرہ نے ڈانٹا۔

"بڑی آپا! میں تمہاری طرح سہم سہم کے نہیں جینا چاہتی۔ میں ہنسنا چاہتی ہوں خوش رہنا چاہتی ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔ ” وہ صالحہ کے قریب کھسک آئی پھر سرگوشی میں بولی، ” چھوٹی آپا! تم سائلوں کے لیے تعویذ بناتی ہو، یہ حُب کیا ہے؟”

صالحہ نے نگاہ بھر کے اسے دیکھا پھر چوبیں ٹھاٹر کے پار اس آسمان کو تکنا چاہا جو ہر شب اسے تاروں کی رہ گزر سے خوابوں کے محل سرا میں لے جاتا تھا۔

"بولو نا چھوٹی آپا! تم تو تعویذ گنڈے بنانے کے لیے کتابیں بھی پڑھتی ہو۔ ” وہ پھر بولی۔

"ان کتابوں میں ایسی باتوں کا جواب نہیں ہوتا، لیکن ایک بہت اچھی سی کتاب میں، میں نے پڑھا تھا کہ حُب یعنی محبت حب سے ماخوذ ہے اور حَب کے معنی گڑھا، جس میں پانی بہت ہو، پانی نظر کی راہ میں حائل ہو اور آنکھ اس میں نہ دیکھ سکتی ہو، اسی طرح جب محبت دل میں جا گزیں ہو کے دل کو لبریز کر دیتی ہے تو اس میں بجز محبوب کسی شے کے لیے جگہ نہیں رہتی۔ ”

"چھوٹی آپا! کتنی پیاری بات پڑھی تم نے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب محبت ہو جائے تو دل میں خوف کی بھی جگہ نہیں رہتی، مولوی عبدالرشید کے خوف کی بھی نہیں۔ "عفیفہ بولی۔

"عفیفہ! ” صابرہ اتنے زور سے چلّائی کہ اسے خود اپنی آواز پر یقین نہ آیا۔ صالحہ بھی جیسے نیم خوابیدگی سے چونک اٹھی۔ دونوں بہنوں نے ایک دوسرے کو حیرت اور سراسیمگی سے دیکھا۔

اس رات حسبِ معمول مولوی عبدالرشید کے حجرے سے ان کے فلک شگاف خرّاٹوں کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنے فرشی بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے اور مولوی فخر الدین کی باتوں کو ذہن میں دُہرا دُہرا کے پانی میں گھلی مٹی کی طرح اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے تھے، مولوی فخر الدین جو مولوی عبدالرشید سے دوچار سال بڑے تھے، چیچک رُو اور پھینے ناک نقشے کے فربہ اندام، کہنہ سال، لیکن بات کرتے تو معلوم ہوتا کہ ان کی نگاہ جہاں جہاں تک پہنچتی ہے وہاں وہاں تک ان کی حرم سرائے کی وسعت ہے۔ تین شادیاں کرنے کے بعد تینوں بیویوں کو ملکِ عدم بھیج چکے تھے۔ اب فارغ البال ہو کے چوتھی شادی کو شرعی حکم کہہ کے خود پہ لازم کیے بیٹھے تھے۔ انھیں مولوی عبدالرشید سے ہمدردی تھی کہ انھوں نے دوسری شادی تک نہ کی۔ مولوی عبدالرشید انھیں کیسے بتاتے کہ وہ پہلی بیوی کی موت کے سال ہا سال بعد بھی اُس یاد سے آزاد نہ ہو پائے تھے جو شک، نفرت اور احساسِ کمتری کے تانے بانے سے بُنی ہوئی تھی۔ البتہ مولوی فخر الدین نے یہ کہہ کر اس احساس کو مہمیز دی تھی کہ تین جوان بیٹیوں کو گھر میں بٹھائے رکھنا اور ایک نوجوان نامحرم کا اسی گھر میں موجود ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ کسی سنجیدہ، پختہ عمر مرد کو دیکھ کر کم از کم پہلوٹھی کی بیٹی کو رخصت کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے رشتے کے لیے انھیں بلا اکراہ و اجبار سوچنے کا مشورہ دیا۔

اُن تینوں کو یہ ادراک نہ تھا کہ کچھ ہے جو معمول سے ہٹ کر ہے لیکن معمول بنتا جا رہا ہے۔ رات جب گہری اور راز دار ہونے لگتی تب وہ اپنے اپنے خوف کی چادر احتیاط سے سرکا دیتیں۔ شہریار چوبارے سے اتر کے قدیم داستان گو کی طرح لب و لہجے کا طلسم پھونکتا اور وہ تینوں بہنیں چوبی ٹھاٹر میں اپنی اپنی انگلیاں پھنسائے، اس کی باتوں کے جگنو پکڑنے کی کوشش کرتیں۔ اس کے لفظ تھے یا انوکھے جہانوں کے مقفل دروازوں کی کنجیاں۔ وہ جو کچھ کہتا وہ اسے پوری طرح نہ سمجھ کے بھی سمجھنے کا تیقن رکھتیں۔ اور صبح اٹھ کے بہانے بہانے سے ان باتوں کو دُہراتیں۔ شروع شروع میں ان سب کو لگتا تھا جیسے ساری دنیا الف لیلہ کی داستان ہے پھر آہستہ آہستہ وہ انھیں اُن باتوں کی طرف لانے لگا جن سے دنیا کے حسن کا غازہ اترتا دکھائی دیتا تھا۔

وہ چودھویں کی رات تھی۔ پورا دالان چاندنی میں نہایا ہوا اور رات کی رانی سے مہکا ہوا تھا یوں جیسے اس چھوٹے سے دالان میں قدرت نے بیش بہا انعام رکھ دیے ہوں۔ شہریار نے ٹھاٹر کو انگلیوں سے بجایا۔

"کیا مولوی عبدالرشید کے تینوں اہرام اپنے اپنے صحراؤں میں موجود ہیں؟”

عفیفہ نے پردہ کھسکایا اور بولی، "آپ ہمیں اہرام کیوں کہتے ہیں؟”

"تم لوگ اہراموں کی طرح ساکت و صامِت جو رہتی ہو۔۔۔۔ ویسے بھی دنیا کے عجائبات میں شامل اہرام اب صرف تین رہ گئے ہیں اور تین بھی کیا رہ گئے ہیں، مولوی عبدالرشید کے بنائے ہوئے پنجرے میں منتقل ہو گئے ہیں۔ "ایسا کہتے کہتے وہ شوخی سے ہنس دیا پھر ٹھاٹر کے اندر جھانکتے ہوئے بولا،

"آج مولوی صاحب کسی سائل سے موٹی سی رقم پکڑ کے اس کے لئے چلّہ کاٹنے قبرستان گئے ہوئے ہیں، رات مُردوں کے ساتھ ہی بسر کریں گے تو ایسے میں کیوں نہ اِس چاندنی کا لطف لیا جائے۔ ”

ٹھاٹر کے قریب آتی صابرہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ عفیفہ نے ملتجی نگاہوں سے بہنوں کو دیکھا۔ صالحہ کی گہری سوچتی آنکھوں میں لمحے بھر کو تاروں کی کرنیں اتریں پھر وہ مڑی اور دیوار کی کگر پر رکھی تالے کی کنجی لے آئی۔

"یہ کیا کر رہی ہو؟” صابرہ نے احتجاجی سرگوشی کی۔

"کوئی حرج نہیں! ” وہ آہستگی سے بولی۔

"یہ ہوئی نا بات! ” شہریار نے دروازہ کھلتے ہی نعرہ لگایا۔

صالحہ نے لرزتے پاؤں دالان کی منڈیر پر رکھے۔ اس کے پیچھے دونوں بہنیں بھی جھجکتے ہوئے آ گئیں۔ وہ مبہوت ہو کے انھیں دیکھنے لگا۔

"میں نے چچی بتول کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بہت حسین اور ذہین تھیں، بس مقدر کی لاٹھی ان پر الٹی پڑ گئی۔ تم تینوں اپنی ماں کی طرح خود کو حالات کے حوالے نہ کرنا۔ ”

"پھر کیا کریں؟” عفیفہ نے حسبِ عادت سوال کیا۔

"حالات سے جنگ۔ ” وہ بولا۔

"مات ہو گئی تو؟” صالحہ نے پوچھا۔

"تو۔۔۔! "وہ ایک پاؤں پر گھوما، "کم از کم تمھیں یہ ملال تو نہیں ہو گا کہ تم نے ڈوبتے وقت ہاتھ پاؤں بھی نہیں مارے۔۔۔ ”

پھر وہ کچنار کے درخت کی گہری بھوری چکنی چھال سے پشت ٹکائے کھڑا ہو گیا۔ قریب ہی مٹی کا ٹوٹا پھوٹا چولھا اور مخدوش ہوتا تندور تھے۔

"یہ کیا ہے؟” اس نے پوچھا۔

"جب جلانے کا تیل ختم ہو جاتا ہے تب بڑی آپا اس چولھے کو مٹی سے لیپ کر کوئلوں پر کھانا پکاتی ہیں۔ "عفیفہ نے بتایا۔

"واہ، کوئلوں پر پکے کھانے کا سواد ہی اور ہوتا ہے، شاید اس لیے کہ کوئلے ہیروں کی محروم شکل ہوتے ہیں۔۔۔۔ وہ سوچ میں ڈوبی آواز میں بولا۔

"کیا مطلب؟” صالحہ نے دھیمے سے پوچھا۔

” مطلب یہ کہ کوئلوں پر کھانا پکاتے ہوئے کبھی تم میں سے کسی کو خیال آیا کہ اگر کوئلہ، کوئلہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟”

” ظاہر ہے کوئلہ، کوئلہ ہی ہوتا۔ "صالحہ نے ہمت کر کے جواب دیا۔

وہ ہنسا، ” بات یہی سمجھنے والی ہے صالحہ بی بی، کوئلے اور ہیرے کے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو بس ذرا سی آنچ کی کمی بیشی کا۔۔۔۔ یہی ذرا سی کسر ان کے مقدر بدل دیتی ہے۔ ” اس نے صالحہ کو بغور دیکھا۔ یکایک وہ خود سے الجھتی ہوئی دکھائی دی۔

"صالحہ بی بی! زیادہ نہ سوچو۔ اچھا سنو، میں سمجھاتا ہوں کہ ہیرا کاربن کی شکل ہے اور کاربن زمین کی گہرائیوں میں دباؤ اور حرارت کی وجہ سے ہیرے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگر دباؤ اور آنچ میں تھوڑی سی کسر رہ جائے تو یہ محض کوئلہ رہ جاتا ہے اور جلانے کے کام آتا ہے۔ تم عورتوں کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ ” وہ ہنسا۔ اس کی ہنسی میں تمسخر اور خود پسندی کا اُبال تھا۔

پھر وہ بولا، "زیادہ تر عورتیں صرف کوئلہ رہ جاتی ہیں اور حالات کے الاؤ کا ایندھن بن جاتی ہیں، جب کہ کچھ عورتیں چاہتی ہیں کہ مرد ان کے لیے الیکٹران مائیکرو سکوپ بن جائیں اور بہت احتیاط سے انھیں دباؤ اور آنچ سے باہر نکالیں۔ ”

علمیت کا زعم اور مردانہ برتری کا احساس اس پر غالب تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ان کی موجودگی سے غافل ہو گیا ہے۔ وہ آگے جھک کے ہلکا سا مڑا اور بولا، "مرد ایک خود غرض حکمران ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تھوڑی سی بے احتیاطی ہیرے کی شکل تبدیل کر سکتی ہے۔ ” پھر جیسے ایک سایہ سا اس کے چہرے پر آیا، "مرد در اصل عورت سے خوفزدہ رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زمین کی گہرائی میں دبے ہیرے کبھی کبھی آتش فشاں سے سطحِ زمین پر آ جاتے ہیں۔ ” بولتے بولتے یک دم ٹھٹھک کے وہ رکا اور اس نے خود سے مہجور ایک دوسرے سے جڑ کے کھڑی ان تین لڑکیوں کو دیکھا پھر اپنے آپ کو ان سے ارفع محسوس کرتے ہوئے ہم دردانہ لہجے میں بولا، ” تم تینوں کبھی کسی الیکٹران مائیکروسکوپ کا انتظار نہ کرنا۔ ہو سکے تو اپنی عقل کو اپنا مرشد بنا لینا۔ اس کے بِنا دنیا نرک ہے۔ ”

"لیکن ہم اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ "صالحہ نے کہا۔

وہ ہنسا، "میں تو ایک کیمیا داں ہوں، تمہیں صرف فارمولے بتا سکتا ہوں۔۔۔۔ مضبوط تو تمہیں خود بننا ہو گا صالحہ بی بی۔ مولوی عبدالرشید کے پنجرے میں تا حیات رہو گی تو گھٹ کے مر جاؤ گی، اور جو باہر نکلو گی تو ہر قدم پر چپٹے سر اور خم دار دانتوں والے سؤر، لمبے کانوں والے چرخ اور لگڑ بگھے ملیں گے جو شکار کو بھگا بھگا کر ادھ موا کر دیتے ہیں اور پھر زندہ شکار کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ ”

صالحہ نے سنہری چاندنی میں سیاہی کی آمیزش کو محسوس کیا اور اس میں کھڑے اس ہیولے کو دیکھاجس کی باتوں کو وہ اپنی بہنوں سمیت اتنی راتوں سے سن رہی تھی اور ان میں روشنی ڈھونڈ رہی تھی لیکن اُس لمحے اسے دیکھ کے ذہن میں کوندا سا لپکا۔ اس نے سوچا چیتے جیسی تابع داری اور وحشت کا امتزاج لیے یہ شخص آخر سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ کون ہے؟ کیا ہے؟ ہمیں کس سمت ہنکالنا چاہتا ہے؟کیا یہ سب اس کے لیے محض شغل ہے؟

"اچھا، تو پھر صحیح راستہ کیا ہے؟ ” صابرہ جو اس کی باتوں میں سر تا پا ڈوبی ہوئی تھی، سہمے سہمے لہجے میں پوچھ بیٹھی۔ شہریار کو توقع نہ تھی کہ صابرہ بھی کوئی سوال کر سکتی ہے۔ اس نے ٹھٹھک کے اسے دیکھا پھر بولا۔

"صابرہ بی بی! تم اس گھٹی ہوئی چہار دیواری کے اندر کیوں کر صحیح یا غلط کا تعین کر پاؤ گی۔ یہ انتہا پسندوں کا معاشرہ ہے، یہاں ایک طرف مولوی عبدالرشید جیسے لوگ ہیں جو صرف نیم پڑھے لکھوں میں نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں بھی پائے جاتے ہیں یہ لوگ عورت کو فقط محکوم و مظلوم رعیت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف عورت کی آزادی کے نام پر خون پیتی وہ امر بیلیں ہیں جن میں آہ و گریہ کرنے والی عورتیں پھنس کے فقط مظلومیت کا اشتہار بن جاتی ہیں۔ اپنی زمین اپنا آسمان خود چھیننا پڑتا ہے صابرہ بی بی! ”

٭٭٭

مولوی عبد الرشید کے حجرے میں زنگی نوجوان سر نہوڑائے بیٹھا تھا۔ خیال کی کسی پُر قوت رَو، نے اسے اطراف سے بیگانہ کر دیا تھا۔ صبح حسبِ معمول اس نے گھر کا سودا سلف لا دیا تھا۔ حجرے کو سائلوں کے لیے آراستہ کر دیا تھا لیکن کوئی کمی تھی جو کلیجے کو بھینچے جا رہی تھی۔ شہریار حجرے میں داخل ہوا تب بھی زنگی نوجوان اپنے استغراق سے باہر نہیں آیا۔ اچانک شہریار کو حجرے کا درمیانی پردہ ہلتا دکھائی دیا۔ وہ بیرونی دروازے پر ٹھٹھک گیا۔ زنگی نوجوان برق رفتاری سے اٹھ کے پردے کے قریب آیا۔ دونوں طرف سرگوشیوں کا تبادلہ ہوا۔ شہریار کا تجسس دیدنی تھا۔ وہ کون تھی؟ یک دم اسے عقب میں آہٹ سنائی دی۔ مولوی عبد الرشید تنگ گلی میں اپنی کھَڑَاؤں کی کھڑ کھڑاہٹ سمیت حجرے کے دروازے کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔ شہریار نے خلافِ معمول لہک کے انہیں سلام پیش کیا۔ اس کا تیر نشانے پر لگا۔ زنگی نوجوان بوکھلا کر پردے کے پاس سے تیزی سے ہٹا۔

رات چوبارے کی سیڑھیاں اترتے ہوئے شہریار کو سسکیاں سنائی دیں۔ وہ ششدر سا چوبیں ٹھاٹر کے قریب آیا۔ پردہ حسبِ معمول اَدھ کھلا نہیں تھا۔ شہریار دم سادھے کھڑا رہا،ادھورے ٹوٹے بے ربط جملوں کے درمیان آہ و بکا تھی۔ شاید یہ صابرہ کی آواز تھی۔

"میں کچھ کر بیٹھوں گی۔ ” اس نے کچھ ایسا ہی کہا۔

شہریار چوبارے میں واپس آ گیا۔ چو طرفی ہوا سے لکڑی کی ٹوٹی ادھ جڑی کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ اس نے سوچا کیا ایسا ہوتا ہے کہ واقعات بعد میں رونما ہوں لیکن ان کے اثرات پہلے سے مرتب ہو جائیں، جیسے۔۔۔ جیسے اس گھر کی فضا، جو نامحسوس طریقے سے بدل رہی ہے۔

تین راتیں گزر گئیں کوئی اَن جانا احساس تھا جو پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ وہ کئی بار چوبارے سے اترا پھر پلٹا۔ وہ چوتھی رات تھی۔ شہریار نے کتاب پڑھتے پڑھتے تکان سے آنکھیں موند لیں۔ کتاب اس کے سینے پر رکھی تھی اور ہاتھ پیشانی پر دھرا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے لکڑی کے دیمک زدہ نیم وا دروازے میں ہلکی سی چرچراہٹ ہوئی ہے۔ نیم خوابیدگی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا وہ اٹھ بیٹھا۔

"کون؟” اس نے آنکھیں مَلتے ہوئے پوچھا۔

"میں۔۔۔ ” سہمی سی سرگوشی ہوئی۔

"صالحہ؟” وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا، "تم یہاں؟”

"بہت مجبور ہو کے آئی ہوں، اتنے حیران نہ ہو کہ شرمندگی سے میں کچھ کہہ نہ سکوں۔ ” وہ بولی۔

” کہو۔۔۔۔ اچھا اطمینان سے بیٹھ کر کہو۔ ” شہریار نے خالی بستر پر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ نہیں بیٹھی، البتہ اس نے اپنی پشت موڑ لی پھر بہت دیر بعد ٹھہر ٹھہر کے بولی، "بابا نے صابرہ کی شادی۔۔۔۔ مسجد کے پیش امام سے طے کر دی ہے پرسوں نکاح ہے۔ ”

” یہ تو اچھی خبر ہے۔ ” وہ بولا۔

"وہ۔۔۔۔ عمر میں بابا سے بھی بڑا ہے۔ اس کا اخلاق کردار کچھ بھی ایسا نہیں کہ اسے برداشت کیا جا سکے۔ مشہور ہے کہ اس نے اپنی پہلی تین بیویوں کو اذیت دے دے کر مار دیا تھا۔ ”

"اوہ۔۔۔۔ چچا کو یہ سب معلوم ہے؟”

"ظاہر ہے۔ ”

"اچھا تم فکر نہ کرو، میں چچا کو سمجھاؤں گا۔ ”

” وہ نہیں مانیں گے۔ لیکن اگر۔۔۔ تم۔۔۔۔ ”

"ہاں، کہو۔ ” وہ دو قدم آگے آیا۔

"تم ہمیں اتنی اچھی باتیں بتاتے ہو، ہمت دیتے ہو، کیا تم۔۔۔ میرا مطلب ہے تم۔۔۔۔ صابرہ کو سہارا دے سکتے ہو؟”

شہریار اچھل کے پیچھے ہٹا جیسے کسی بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔

"میں۔۔۔۔؟؟” وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔ "یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔۔۔ پتا نہیں میرے والدین مجھے یہ اختیار دیں کہ نہ دیں۔۔۔۔ ”

"اور اگر تمہیں اختیار حاصل ہو تو؟”

"تو میں تمہیں منتخب کروں گا۔ "شہریار اپنے کہے پر خود حیران سا ہوا۔

وہ اس کی طرف پلٹی اور بولی، ” یہی سمجھ لو کہ تم نے مجھے منتخب کیا۔۔۔۔ میری بہن کو بچا لو یہ تمہارا احسان ہو گا۔ "وہ دبے قدموں آئی تھی لیکن واپسی پر اس نے گونجتی آہٹوں کا خیال نہ کیا۔

اُس گھر کے دالان میں ایسا کُسوف تھا کہ ہر شے اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ صابرہ کی رخصتی نے گھر بھر میں اک ہول سا بھر دیا تھا یوں لگتا تھا جیسے ابھی کسی جواں مرگ کا لاشہ اٹھا ہے۔

اُن دنوں شہریار اپنی پڑھائی میں بہت مصروف نظر آتا تھا۔ چوبارے سے کم ہی اترتا۔ عفیفہ پنجرے میں بند رنگین چڑیوں کو کئی کئی گھنٹے تکتی رہتی اور صالحہ کچے سوت لے کر ان میں گرہیں لگاتی پھونکتی جاتی۔ سائلوں کے لئے گنڈے تیار کرتی ہوئی سوچتی کہ وہ ایسا کوئی تعویذ گنڈا صابرہ کے لیے کیوں نہ بنا سکی جو اسے نرک میں جانے سے روک لیتا۔

٭٭٭

بعد کئی راتوں کے وہ رات آئی جب شہریار چوبی ٹھاٹر کے پاس آ کے کھڑا ہوا۔ برآمدے میں بچھے تین بستروں میں ایک خالی تھا۔ دوسرے پر عفیفہ دُبکی پڑی تھی۔ صالحہ ٹھاٹر سے جڑی کھڑی تھی اور محویت سے ستاروں کو تک رہی تھی۔

"میں۔۔۔ جا رہا ہوں۔۔۔۔ صالحہ! ” اس نے دھیرج سے کہا۔

صالحہ لاتعلق سی کھڑی رہی۔

"میری پڑھائی تقریباً مکمل ہو گئی ہے۔ ” کچھ دیر بعد وہ بولا۔

خاموشی ایک بوجھل احساس کی طرح اس کے اندر اترنے لگی۔ بالآخر اسے احساس ہو گیا کہ در حقیقت اسے کیا کہنا چاہیے۔ وہ رک رک کے بولا،

” جو کچھ ہوا۔۔۔۔ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ ”

صالحہ کچھ دیر یوں ہی کھڑی رہی پھر تقریباً سرگوشی میں بولی، "تم چاہتے۔۔۔۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ ”

” میں اسے نہیں بچا سکا، لیکن یہ کوشش کر سکتا ہوں کہ تم۔۔۔۔ اس دلدل سے باہر نکل سکو۔ شاید شاید۔۔۔۔ میں ایسا کر سکوں۔ ” پھر جیسے کسی خیال میں ڈوبا ڈوبا بولا، ” میں تمہیں خط لکھوں گا۔۔۔۔۔ ”

صبح تڑکے جب فجری پُروا میں خنکی تھی، شہریار نے گھر سے نکلتے ہوئے مڑ کے الوداعی نگاہ ڈالی اور سوچا موہن جودڑو کے زمانے کی پتلی سی بند گلی میں بنا یہ کوٹھڑی نما گھر جس کی عمودی سیڑھی کے اوپر گھوڑوں کے اصطبل سے بدتر چوبارہ ہے جہاں میں نے اتنے دن جانے کس طرح گزارے، اس کی سیلن زدہ باس مجھے عمر بھر نہیں بھولے گی، پلستر اکھڑی دیواروں پر پڑی جھوجھا چقیں میری یادوں سے ٹکراتی رہیں گی۔ مولوی عبدالرشید کی خشمگیں نگاہیں اور ان تینوں سہمی لڑکیوں کی بے بسی زندگی کا اعتبار چھینتی رہے گی۔ پھر اس نے سر کو یوں جھٹکا جیسے کوئی اَن دیکھا لدا بوجھ اس گلی میں پھینک رہا ہو اور عجلت سے کھلی سڑک کی طرف مڑ گیا۔

مولوی عبدالرشید نے زندگی میں اتنی سبکی کبھی محسوس نہ کی تھی۔ وہ صالحہ اور عفیفہ کی التجا پر پیش امام فخر الدین کے ہاں جاتے لیکن صابرہ سے ملے بنا آنا پڑتا۔ پیش امام انہیں خوب صورتی سے ٹال دیتا۔ نہ انہیں صابرہ سے ملنے دیتا نہ ہی صابرہ کو میکے آنے دیتا۔ کئی مہینے گزر گئے تھے کوئی خیر خبر ہی نہ ملتی تھی۔ مولوی عبدالرشید نے بیٹیوں سے ہمیشہ فاصلہ رکھا تھا اس لیے نہ اپنا دکھ ان سے کہہ سکتے تھے نہ ان کا دکھ سننا چاہتے تھے۔ عفیفہ دن رات منہ لپیٹے بستر پر پڑی رہتی۔ ایک دن چوبی ٹھاٹر کو بغور دیکھتے دیکھتے اسے یاد آیا، شہریار نے کہا تھا، گھپ اندھیرے میں بھی روشنی کی کوئی نہ کوئی کرن ہوتی ہے۔ وہ تیزی سے پلٹی اور حجرے کی طرف لپکی۔ صالحہ نے دیکھا اس کے چہرے پر چمک تھی۔ جب وہ واپس آئی تو بولی، "زنگی کو میں نے بڑی آپا کی خیریت پوچھنے کے لیے بھیج دیا ہے۔ ”

صالحہ حیرت سے اسے تکنے لگی۔ "چھوٹی! ایک طرف بابا کا غصّہ دوسری طرف پیش امام کے پہرے۔۔۔۔ تیری یہ حرکت صابرہ کو یا تجھے مہنگی نہ پڑے۔ ”

شام گئے زنگی نے مولوی عبدالرشید سے چھپ کے یہ اطلاع دی کہ صابرہ کئی روز سے بسترِ علالت پر بے حال پڑی ہے۔ پیش امام اس پر شک کرتا ہے، مارتا پیٹتا ہے اور کسی سے ملنے جلنے نہیں دیتا۔ آخر میں اس نے اٹک اٹک کے یہ بھی بتا دیا کہ پیش امام نے اسے گھر کے اندر دیکھ لیا تھا وہ بمشکل وہاں سے بھاگا ہے۔

دونوں بہنیں رات بھر منہ چھپائے سسکتی رہیں۔ اگلی صبح دن چڑھے صالحہ نے زنگی کے جانے کا ذکر کیے بنا مولوی عبدالرشید کو آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ چند دنوں کے لیے صابرہ کو گھر لے آئیں لیکن پیش امام کا سرد اور بے مہر رویہ ان کے ارادے کو پسپا کرتا رہا۔

یہ کوئی تیسرے دن کی بات تھی، مولوی عبدالرشید سائلوں میں گھرے بیٹھے تھے کہ پیش امام کا شاگرد حواس باختہ سا آیا اور ان کے کان میں کچھ کہہ گیا۔ ایک لمحے کو ان کے بدن میں تھرتھراہٹ ہوئی پھر بمشکل وہ اٹھے اور گرتے پڑتے پیش امام کے گھر پہنچے۔ دروازے پر جمع لوگوں نے انہیں تھامنا چاہا لیکن وہ اپنی آنکھوں سے یقین کر لینا چاہتے تھے پیش امام انہیں دیکھتے ہی بڑھا اور ان کے ہاتھ تھام کے زنان خانے میں لے گیا جہاں ایک کھرّی کھاٹ پر سفید چادر اوڑھے صابرہ لیٹی تھی۔

پیش امام نے اپنی دو پلی ٹوپی ہاتھ سے جمائی اور شانے پر پڑے خانے دار صافے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے مسکینی سے کہا، "مولوی صاحب، میری گر ھستی اُجڑ گئی۔۔۔۔ اُس نے جانے میں بہت جلدی کی۔ ”

مولوی عبدالرشید اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور دھم سے فرش پر بیٹھ گئے۔

"لوگ کہتے ہیں کہ میں نے اسے مارا۔۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے مولوی عبدالرشید؟”

پیش امام معصومیت اور شرافت کا مرقع بنتے ہوئے بولے، "میں تو مسجد کا پیش امام ہوں، لوگوں کو نیکی کی راہ دکھاتا ہوں۔۔۔۔ اپنے ہاتھ کسی کے خون میں کیسے رنگ سکتا ہوں۔ میں نے تو بس غصّے میں ہلکا سا دھکا دیا تھا۔۔۔۔ اس کا سر کسی نوکیلی شے سے ٹکرایا اور پھٹ گیا۔ چند لمحے بھی نہ لگے اسے۔۔۔ جانے کیا سوچتی رہتی تھی۔ چپ چپ رہتی تھی۔ کبھی کبھی تو مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میں نے کسی مری ہوئی عورت سے شادی کر لی ہے۔ جس کی ٹھہر ٹھہر کے چلتی سانس بھی بس دکھاوے کے لیے ہے۔ ” پھر اپنی آنکھوں کو رگڑ کے وہ ان کے قریب کھسک آئے اور سرگوشی میں بولے،

” کہیں آپ نے تو ظلم نہیں کر ڈالا۔۔۔۔؟ اس کی مرضی کے خلاف تو شادی نہیں کر دی تھی؟کسی اور کے ساتھ اس کا کوئی معاملہ تو نہیں تھا؟ میرا مطلب ہے، وہ پہلے دن سے ناخوش تھی۔ ”

پیش امام کا ایک ایک لفظ مولوی عبدالرشید کے اندر دھمال ڈالنے لگا۔ اس دھمال کی زد میں جانے کیسے انہیں اپنی مرحومہ بیوی کی سوچوں میں ڈوبی آنکھیں سامنے آتی محسوس ہوئیں، ذہن کے کسی خفتہ کونے سے کسی نامعلوم احساس کی ٹھنڈی لہر ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی اور ان کا پورا بدن یوں کپکپانے لگا جیسے قربِ مرگ کے لمحے انہیں چھو کے گزرے ہوں۔

٭٭٭

رات گہری ہو گئی تھی۔ صالحہ بستر پر آنکھیں موندے پڑی تھی۔ مغرب سے پہلے صابرہ کے چہلم کی نیاز فاتحہ دلا دی گئی تھی۔ صالحہ کو یہ سانحہ ایک بھیانک خواب کی طرح لگ رہا تھا لیکن اس کی تمام تر حسّیات عفیفہ پر مجتمع تھیں۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ شام سے پہلے عفیفہ نے اپنے کپڑوں کی ایک گٹھڑی تیار کر لی ہے۔ اس نے اسے سائلوں والی صندوقچی سے پیسے نکالتے ہوئے بھی دیکھ لیا تھا۔ جب عفیفہ اس کی پائینتی پر آ کے بیٹھی تب بھی صالحہ سوتی بنی رہی۔

عفیفہ نے اپنے سرد ہوتے ہوئے ہاتھ آہستگی سے اس کے پاؤں پر رکھ دیے اور بولی، "چھوٹی آپا، مجھے معاف کر دینا۔۔۔۔ میں بڑی آپا کی طرح کسی حیوان کے ہاتھوں ایسی تکلیف دہ موت مرنا نہیں چاہتی۔۔۔۔ میں تمہاری طرح تعویذِ حُب لکھ لکھ کے محبت کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔۔ میں زندگی کو زندگی کی طرح بسر کرنا چاہتی ہوں۔ ”

صالحہ کے آنسو تکیے میں جذب ہونے لگے۔ حجرے میں مولوی عبدالرشید کے خرّاٹے گونج رہے تھے۔ صالحہ نے سر کو ہلکا سا اٹھایا عفیفہ حجرے کے دروازے کی چٹخنی بہت آہستگی سے کھول چکی تھی۔ صالحہ دبے پاؤں اٹھی، اس نے جھانکا۔ دروازہ کھلتے ہی گلی کے کھمبے میں لگے بلب کی زرد روشنی میں اسے زنگی کی کشادہ پیشانی پر گھنگرالے بال لہراتے ہوئے نظر آئے پھر اس نے دیکھا زنگی نے تیزی سے عفیفہ کے ہاتھ سے کپڑوں کی گٹھڑی لی اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھاما اور وہ دونوں تیزی سے گلی میں غائب ہو گئے۔

٭٭٭

دس روز ہو گئے تھے مولوی عبدالرشید بخار کی بھٹی میں سلگ رہے تھے۔ نیم غنودگی میں وہ کچھ ناقابلِ فہم جملے بڑبڑاتے رہتے۔ عفیفہ رسوائی کا جو بگولا خاک اڑانے کو چھوڑ گئی تھی اس سے محفوظ رہنے کے لیے انہوں نے مشہور کر دیا تھا کہ اسے کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ صابرہ کی موت پر بہت دل گرفتہ تھی لیکن زنگی۔۔۔۔؟ وہ بھی ایسی صورتِ حال میں ایک سوال تھا۔ اس کے لیے انہوں نے نجانے کیا، کچھ کہا، اب انہیں خود بھی یاد نہیں تھا۔ صالحہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ خود سے غافل ہوتے جار ہے ہیں۔ چند پرانے سائل ان کے لیے دوا دارو لا دیتے، ان کی خدمت گاری کر جاتے۔

وہ ایک شکر دوپہر تھی کہ ڈاکیے نے حجرے کے دروازے کے اندر خط سرکایا۔ مولوی عبدالرشید بے سدھ بستر پر پڑے تھے۔ صالحہ انہیں پانی دینے آئی تو خط دیکھ کے پہلے حیران ہوئی پھر فرطِ مسرت سے اس کے ہاتھ لرزنے لگے برآمدے کی طرف آ کے اس نے بے چینی اور تجسس سے لفافہ کھولا۔ شہریار نے لکھا تھا، "میں ملک سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔۔ میں بہت آگے کا مسافر ہوں۔۔۔ پڑاؤ کو منزل نہیں بنا سکتا۔۔۔۔ ”

وہ گم صم کھڑی رہی پھر اس نے چولہے کے لپکتے شعلوں میں خط رکھ دیا جو اس خاموشی سے جلا کہ راکھ بھی نظر نہ آئی لیکن اس نے خود کو سنگلاخ گہرائیوں میں دباؤ اور آنچ کی کمی بیشی کے تصادم میں مبتلا پایا۔

وہ رات ہر اذیت ناک لمحے کا حوالہ لے کر آئی تھی۔ صالحہ کو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا کے آخری حصّے میں کھڑی ہے۔ وہ حصّہ ایک پیالے کی مانند ہے جس کی گہرائی میں وہ خود ہے، اطراف میں کتیّ، لگڑ بھگڑ، چپٹے سر اور خم دار دانتوں والے سور، افق تا افق پھیلی چمگادڑیں۔۔۔۔ اور گھر کے اندر حجرے کے فرشی بستر پر سسکتے مولوی عبدالرشید۔

مولوی عبدالرشید کی سانس کی ڈوری میں جانے کیسی گرہ پڑ گئی تھی جو کھل ہی نہ پا رہی تھی۔ ناچار صالحہ نے دروازے سے باہر جھانکا۔ بند گلی کے ایک طرف دیوار تھی دوسری طرف سناٹا۔ وہ پھر ان کے پاس آ کے بیٹھ گئی اور چمچے سے ان کے منہ میں پانی ڈالنے لگی۔ ان کی آنکھیں چڑھ رہی تھیں، حلق میں خرخراہٹ تھی، موت کا گھنگھرو بج رہا تھا لیکن ایسی جان کنی کی حالت میں بھی وہ صالحہ کو یک ٹک دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا جو نجانے کسی دکھ کا رکا ہوا سمندر تھا یا موت ان کے جسم کو نچوڑ رہی تھی۔ صالحہ تمام رات ان کے سرہانے بیٹھی رہی آخری پہر اس کی تھکن اور نیند سے بوجھل آنکھوں پر جیسے صابرہ نے ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے چونک کے دیکھا۔ اسے ایک ہیولہ سا باہر کی طرف تحلیل ہوتا نظر آیا۔ وہ دوڑ کے برآمدے میں آئی۔ چوبی ٹھاٹر سے پرے دالان میں کوئی جیسے ابھی ابھی گزرا تھا۔

"صابرہ! دیکھو۔۔۔۔ میں کتنی اکیلی ہوں۔ "وہ ہذیانی انداز میں چلائی۔ اچانک اس کے ہونٹ اور نظریں ساکت ہو گئیں۔ دالان میں اسے ماں کے سفید براق دوپٹے کا پلّو لہراتا نظر آیا۔ تازہ گیلی کیاریوں سے خاموشی سے موتیے کی کلیاں چنتی ماں۔۔۔۔ لب بستہ، لسان آنکھوں والی پُر تمکنت سی ماں۔۔۔۔ پھر اس نے دیکھا وہ تینوں بہنیں دالان کے ایک سرسبز حصّے میں ایک منڈیر پر سر جوڑے بیٹھی ہیں اور اپنے اپنے خوابوں میں ایک دوسرے کو حصّہ دار بنا رہی ہیں۔ صابرہ خود کو پَری دیکھنا چاہتی ہے جو داستانوں کی سرزمین پر آزادانہ اڑ سکے۔ صالحہ نے اپنے آپ کو شہزادی بنا کے محل سرا کے حوضِ خاص کے پاس بٹھا دیا ہے اور عفیفہ ماں سے جھانسی کی رانی کی کہانی سننے کے بعد مچل رہی ہے کہ وہ جھانسی کی رانی ہی بنے گی۔ بغاوت اس کی سرشت میں جانے کہاں سے آئی تھی۔ یہ جھانسی کی رانی کی کہانی تھی یا شہریار کے طلسم جیسے لفظ کہ عفیفہ اس عقوبت خانے کو پھلانگ گئی۔ اس کے جانے کے بعد مولوی عبدالرشید رات کے وقت بھی گھر کا دروازہ بند کرنا بھول جاتے تھے۔ لیکن اُس رات کے آخر آخر وہ پہرہ داری سے قطعاً بے نیاز ہوئے۔

صبح ہوتے ہی سائلوں کا ہجوم گھر کے دروازے پر تھا۔ صالحہ کو پتا ہی نہ چلا کہ مولوی عبدالرشید کے سفرِ آخرت کو کس طرح اُن کے عقیدت مندوں نے سہل کیا۔

٭٭٭

ایک اکیلا جھینگر دالان میں کہیں آس پاس تھا۔ اس کی آواز سناٹا توڑنے کو کافی تھی۔ ایسی یک سُو اور پختہ آواز، وہ محویت سے سننے لگی۔ مولوی عبدالرشید کے چالیسویں تک سائلوں کے گھر سے ایک یا دو وقت کا کھانا آ جاتا تھا۔ وہ رات سے بھوکی بیٹھی تھی۔ کئی بار بہانے بہانے سے اس نے راشن کے خالی ڈبوں کو الٹ پلٹ کے دیکھا تھا۔ جلانے کا تیل بھی ختم ہو گیا تھا۔ دالان میں کچنار کی بنفشی رنگ کلیاں اور ادھ کھلے پھول آندھی سے خاک پر گر گئے تھے وہیں صابرہ کے ہاتھ کا بنایا ٹوٹا پھوٹا کچی مٹی کا چولھا تھا۔ صالحہ نے اس کے اندر جمع زرد پتے اور کوڑا کرکٹ نکالا۔ گیلی مٹی کا لیپ لگایا پھر شہتوت کی خستہ سوکھی لکڑیاں جمع کر کے چولھے میں سلگا دیں۔ پکانے کو کچھ نہ تھا لیکن چالیس دن بعد بھی چولھا ٹھنڈا پڑا رہے، یہ اسے اچھا نہ لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی لکڑیوں سے سرخ آتشیں شعلے لپکنے لگے۔ کچھ دیر بعد اکّا دکّا چنگاریاں اڑاتے کوئلے رہ گئے۔ ان چنگاریوں کے بیچوں بیچ ماں کا چاندی کا آویزہ لہرایا۔ صابرہ کی رکی رکی سانسوں کی آواز آئی پھر یکا یک کوئی کوئلہ اپنی ہی حدّت میں تڑخا اور عفیفہ کے سُر گونجے:

رام کرے کہیں نیناں نہ الجھیں

وہ آزادی کی خواہش میں اپنے پاؤں میں جانے کتنے آبلے ڈال چکی ہو گی، کہاں کہاں بھٹک رہی ہو گی؟ صالحہ نے سوچا اور سلگتے کوئلے کو چمٹی سے پکڑ کے دیکھتے ہوئے بڑبڑائی، "شہریار! تم میں اور مولوی عبدالرشید میں بس یہی فرق تھا کہ مولوی عبدالرشید جیسے لوگ عورت کو بیڑیاں ڈال کے رکھتے ہیں کہ ان کے پاؤں بھاگنے کے تو کیا چلنے کے بھی قابل نہ رہیں اور تم جیسے مرد۔۔۔۔۔ لمبے کانوں والے چرخ اور لگڑ بھگڑ کی طرح اپنے شکار کو بھگا بھگا کے ادھ موا کر دیتے ہیں "۔

پھر وہ اٹھی۔۔۔۔ اس نے گھر بھر کا بے مقصد چکر لگایا۔ یکایک اسے عفیفہ کی رنگین چڑیوں کا خیال آیا۔ وہ تیزی سے ان کی طرف آئی اور پنجرہ کھول دیا۔ چڑیاں آزاد فضا کی مقناطیسی لہریں محسوس کر کے ٹھٹکیں پھر پھدک پھدک کے باہر کی طرف لپکیں اور ایک ایک کر کے اڑ گئیں۔ وہ انہیں اڑتا دیکھتی رہی۔ بہت مدت بعد سکون کی موج سی اندر اتری پھر وہ ٹھاٹر کی بیرونی سمت کھڑی ہو گئی اور تصور کرنے لگی کہ شہریار رات کو اسی جگہ آ کے کھڑا ہوتا تھا۔ اسے اس کا انداز یاد آیا، قدیم زمانے کے قصّہ گو ساحر جیسا۔۔۔۔ صالحہ نے سوچا کسی کسی کے لیے سب کچھ آسان ہوتا ہے، محبت کرنے نہ کرنے کا اختیار، مشکل باتوں کو سمجھنے سمجھانے اور پھر ان سے بے نیاز ہو جانے کا کھیل۔ دالان میں تیز ہوا کا جھونکا آیا اور زرد پتے گرنے لگے۔ وہ خود سے ماورا ہو کے شہریار سے ہم کلام ہوئی، "شہریار تم یہاں کیوں آئے؟ تم نے وہ تمام باتیں ہمیں کیوں بتائیں جو ہمارے لیے نہیں تھیں۔ وہ کچھ جو ہم تینوں بہنیں نہیں جانتی تھیں ادھورا ادھورا جان گئیں اور اس میں الجھ گئیں۔۔۔۔ ادھورا جاننے سے نہ جاننا بہتر تھا۔۔۔۔ نہ ہم ہم ہی رہیں نہ وہ بن سکیں جو تم نے بتایا۔۔۔۔ تمہارے دادا نے ہمارے بابا کو چند روپے ماہانہ کی جو خیرات کچھ برس دی تھی اس رقم کو تم نے کس ہنر مندی سے سود سمیت ہم سے وصول کیا ہے، تین زندگیاں الٹ پھیر میں ڈال دیں۔ تم کہتے تھے کہ تم کیمیا دان ہو۔۔۔۔۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہ تھا کہ کاربن کبھی کبھی کوئلہ بنتا ہے نہ ہیرا۔۔۔۔۔ ”

دور سڑک سے آتی گاڑیوں، خوانچہ فروشوں، فقیروں کی ملی جلی آوازیں ایک غبار کی صورت پھیل رہی تھیں۔ یکایک اس کے گھر کے سناٹے میں کوئی پتھر پڑا۔ حجرے والے دروازے پر آہستہ آہستہ دستک ہو رہی تھی۔ وہ سہم سی گئی۔ دستک پھر ہوئی اور ہوتی چلی گئی۔ وہ تھمے تھمے قدموں سے حجرے میں آئی اور دروازے کی سیدھ میں بنی سلاخوں والی کھڑکی سے جڑ کے کھڑی ہو گئی۔

"بی بی! مجبور سائل آئے ہیں، کیا حکم ہے؟” باہر سے رکی رکی سی آواز آئی۔ وہ حیران سی ہوئی۔ دستک پھر ہوئی۔ اس نے کھڑکی کی درز سے جھانکا، گلی میں سائلوں کی قطار تھی۔ آس نراس میں جھولتے، خوابوں کی بھیک مانگتے سائل جو قرض لے کر بھی اسے نذرانہ دے سکتے تھے تا کہ وہ انہیں سنہری خواب بیچ سکے۔

"بی بی! ہم جانتے ہیں کہ تعویذ گنڈے آپ ہی بناتی تھیں۔۔۔۔۔ آپ کے ہاتھ میں اثر ہے "۔

"آپ فکر نہ کریں، مرد سائل ایک طرف ہو جائیں گے۔ درمیان میں پردہ ہو گا۔ آپ کا احترام ہم پرلازم ہے "۔

"بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہتے چشمے کو بے فیض نہیں ہونا چاہیے "۔

سائلوں کی فریاد بھری پکاریں تھیں، اس نے سوچا۔۔۔۔ کیا میں بھی مولوی عبدالرشید کی طرح خوابوں کی منڈی سجا کے بیٹھ جاؤں؟ اپنے مسائل حل نہ کر سکنے کی نا طاقتی کے باوجود ان کے مسائل حل کرنے کی انہیں یقین دہانی کراؤں؟؟ تعویذ گنڈوں کی صورت ان کے خواب گروی رکھ کے اپنا چولھا جلاؤں یا اس پنجرے میں بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر جاؤں یا پھر زندہ رہنے کی سعیِ میں باہر نکلوں جہاں چپٹے سر اور نوکیلے دانتوں والے سور اور ہُو کتے لگڑ بھگڑ ہوں۔

"بی بی۔۔۔ کیا حکم ہے؟سائل ٹھہریں یا۔۔۔۔۔۔ ”

خاموشی۔۔۔۔ لمبی خاموشی۔۔۔۔۔ ازل سے ابد تک بندھی خاموشی کی ڈور، سوالوں کی گرہیں پڑی اس ڈور میں صالحہ الجھ گئی۔ ان گرہوں سے خود کو آزاد کرتے کرتے کوئی ایسا لمحہ آیا کہ سوچنے الجھنے کا عمل تھم گیا اس کی ساکت و صَامت اور نقاہت سے بے دم انگلیوں میں حرکت سی پیدا ہوئی اس نے بے ارادہ اپنے سر پر دوپٹے کا پلّو ڈالا اور آہستگی سے حجرے کے دروازے کا کنڈا کھول دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

زنگاری

 

وہاں کے رہنے والوں نے ایسی باتیں صرف قصّوں میں سنی تھیں۔ شاید پہلے کبھی ایسا ہوا ہو مگر کسی کو یاد نہ تھا۔ کھیت، کھلیان، پنگھٹ، مزار، برگد سب مہر بہ لب تھے۔ ابھی فیصلہ ہونا تھا۔ سب کو انتظار تھا۔ بہت کچھ گزر چکا تھا۔ بہت کچھ گزرنا تھا۔ گمان کی آخری حد پہ کھڑی میراں نے وریام اور شمشاد کو پیغام بھجوایا۔۔۔

"آ کے مل لیں۔ ” مگر دونوں میں سے کوئی اب تک نہ آیا تھا۔ گلیوں، چوپالوں اور بیٹھکوں میں اس کا نا کردہ گناہ کسی زنگولے کی مانند رقصاں تھا۔

ملنگ شاہو چوپال کے قریب بوڑھے برگد تلے ایک پردیسی مجذوب کے مزار پر دھمال ڈال رہا تھا۔

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

دئیے منڈیروں پر جلنے کو تھے کہ شمشاد آئی۔ چہرے پر عجب سی دمک۔ ہونٹوں پر غیر مرئی تبسم۔۔۔۔۔۔۔ میراں تو سمجھی تھی کہ اس کی سہیلی اس کے غم میں پیلی پڑ گئی ہو گی لیکن۔۔۔۔۔ یہ رنگ بھی قدرت کا عجب اسرار ہیں۔۔۔

وہ بولی "وریام گلی کے پچھواڑے ہے۔ تیرے لیے جانا مشکل ہو گا۔۔۔۔۔۔ کچھ کہنا ہو تو بتا۔ ”

"ایک دفعہ ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ ” میراں اپنی گھٹی گھٹی آواز سن کر خود حیران رہ گئی۔

شمشاد کی آنکھوں میں امڈتے تمسخر نے کہا۔۔۔۔۔ اب فائدہ؟۔۔۔۔۔ لیکن وہ آگے کو چلی اور میراں پیچھے پیچھے۔

اس کی اونچی پگ کا طنطنہ اب بھی ویسا ہی تھا۔ میراں کو لگا جیسے وریام اپنی سفید گھوڑی پر سوار ہو کے نیزے کا رخ اس کی جانب کرنے کو ہے۔ وہ اس کے قریب ٹھہر گئی اور شمشاد کچھ پیچھے۔۔۔۔

وریام کی چپ اس کے دل میں اَنّی کی طرح اترنے لگی۔ آخر وہ خود بولی۔

"فیصلہ جانے کیا ہو؟ لیکن سب جانتے ہیں میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔۔۔۔۔ ”

وہ خاموش رہا۔

وہ پھر بولی۔۔۔۔۔۔ "تو کیا کہتا ہے وریامے؟”

وہ اب بھی خاموش تھا۔ میراں نے دیکھا اس کی نظریں اِدھر اُدھر بھٹک رہی تھیں اور چہرہ ٹھہرے پانی کی طرح۔۔۔۔۔ وہ اپنی اونچی پگ سنبھالنے لگا۔ پھر کھنکھارتے ہوئے بولا،

” کوئی اتنا زور آور نہیں ہوتا کہ مقدر سے لڑ سکے۔ ”

"تو کیا۔۔۔۔۔ تو میرا ساتھ۔۔۔۔؟؟۔ ” وہ بھک منگی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔

” میں چاہتا تو ہوں کہ تیرا ساتھ نبھاؤں لیکن یہ لوگ! ”

"بس کر وریامے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہی غافل تھی۔ کوچ کی آواز نہ سن سکی۔ میرا پنّوں تو دور نکل چکا ہے۔۔۔۔۔ ”

اتنا کہہ کے وہ پلٹ گئی۔ فیصلے سے پہلے فیصلہ ہوا۔ شاید وہ کسی گمان میں تھی۔ مگر ہوائے دوستاں تو رُخ بدل چکی تھی اور سناٹا ایسا کہ اپنی ہی آواز نفس لرزا دے۔

کبھی کبھی کسی خانہ بدوش قافلے کا پڑاؤ ادھر ہوتا تو جیسے راتیں جاگ اٹھتیں۔ الاؤ کے درمیان قافلے کے ساتھ بستی والے بیٹھ جاتے اور ان سے دور دراز زمینوں کے قصّے سنا کرتے۔

سرد راتوں میں کھلے آسمان کے نیچے جب آتش اپنا سحر جگائے تو آس پاس بیٹھے ہوؤں کی روحیں پل دو پل اپنے مکان سے باہر آ جاتی ہیں۔ زمین و زماں سے وراء، وریام اور میراں کی روحیں جب الاؤ کے گرد رقصاں ہوتیں تو انہیں نہ شمشاد کا خاکستر چہرہ دکھائی دیتا اور نہ ہی میراں کے بھائی سجاول اور خالہ زاد سکینہ کے انجان رستے پر نگاہ جاتی۔ بستی والے ملنگ شاہو کے دھمال میں محو ہوتے۔ اس کی جوانی اور عالمِ سرشاری پر قافلے والے حیران ہو کے پوچھتے "یہ ملنگ پیدائشی ایسا ہے یا بعد میں؟۔۔۔۔۔۔۔ ”

"اللہ لوک ہے اللہ لوک۔ "بستی کے بزرگ سوال کی کنجی دور پھینک دیتے۔۔۔۔۔۔ اور قافلے کا سردار افریقہ کے مخصوص رقص کا ذکر چٹخارے لے کر سنانے لگتا کہ جب چودھویں کی رات کو اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے انسانی جان کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تو شرط یہ ہوتی ہے کہ قربان کیا جانے والا غیر قبیلے سے ہو۔۔۔۔۔

میراں لرز جاتی اور شکر کرتی کہ اس کی بستی میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔

جب خانہ بدوش عورتیں صحرائی گیت الاپتیں جس کا مطلب کچھ یوں ہوتا کہ رات میں چمکنے والے تاروں کا بھید کوئی کوئی جانتا ہے، تو وہ سوچ میں ڈوب جاتی۔۔۔۔۔ اور کسی شام گھنے کھیتوں کے درمیان گزرتے ہوئے وریام سے پوچھتی۔۔۔۔ "ہمارے مقّدر کے تارے ایک ہی سمت میں ہیں یا دور دور کھڑے ہیں۔۔۔۔ ”

وہ حیران ہوتا۔ ایسی باتیں وہ کیسے سوچ لیتی ہے۔ پھر ہنس دیتا۔ "کہیں تو انہی سوچوں میں نہ رہ جانا اور میں۔۔۔۔۔۔ "وہ چونک اٹھتی اور اسے جملہ پورا نہ کرنے دیتی۔

وہ صبح بستی پر رات کی طرح طلوع ہوئی۔

سجاول اور سکینہ رات کے کسی پہر بستی چھوڑ گئے تھے۔ کھوجی بھی ان کا نشان نہ پا سکے۔ قیامت ہی قیامت کو جنم دیتی ہے۔ شام ابھی پوری طرح بجھنے نہ پائی تھی کہ سکینہ کے خاندان کے مرد سجاول کے گھر حملہ آور ہوئے۔ وہ چار اسلحہ بردار مرد تھے۔ میراں کے بوڑھے ماں باپ ان کے قدموں پر گر کر بیٹے کے گناہ کی معافی مانگتے رہے لیکن گھڑ سوار۔۔۔ بھائی کے جرم میں بہن کو آنگن سے گھسیٹ کر لے گئے۔ نہتے ہاتھ والوں میں وریام بھی تھا جسے اپنی نیزہ بازی پر، اپنی شجاعت پر بڑا مان تھا لیکن آتشیں اسلحے کے آگے ڈٹ جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔

اس نے بین کرتے ہجوم میں خود کو چھپا لیا۔

بستی کا بھیم بھرم خاک ہو گیا تھا۔ میراں کی چیخوں کی بازگشت، اس کے ماں باپ کی فریادیں، رات بھر بستی میں گونجتی رہیں۔۔۔۔۔۔ سب جاگتے رہے۔ میراں نہیں لوٹی۔ وریام کبھی بے چینی سے سکینہ کی بستی کی جانب تکتا، کبھی باہم مشورہ کرتے خمیدہ کمر بوڑھوں کی سن گن لیتا۔ بادام و سرس کی خوشبوئیں بھیس بدل کے  جا چکی تھیں۔ سبز پگڈنڈیوں کے بیچ سے آتی میراں کی سرگوشیاں وریام کے آس پاس گھیرا ڈال رہی تھیں۔ چوپال کے بڑوں نے سکینہ کے خاندان والوں سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ تیسرے دن نیم بے ہوش میراں کھیتوں میں مل گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی لاش ملتی لیکن اس کی سانس کی ڈوری نے اس کے ماں باپ اور وریام سمیت تمام بستی کو الجھا دیا۔

ہوش میں آنے کے بعد میراں کو سب سے پہلے وریام کا خیال آیا۔۔۔۔۔ اپنی ہمزاد شمشاد کا خیال آیا لیکن جب وقت کے سدھے گھوڑے کی باگ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو مٹی میں رلنا ہی پڑتا ہے۔ منظر وہی تھے لیکن بدل چکے تھے۔ لوگ وہی تھے مگر ان کے چہروں پر لکھی تحریریں اور تھیں۔ تین دن میں تو اس کے ماں باپ بھی عہد فراعنہ کی پتھریلی مورتیوں میں ڈھل چکے تھے۔ اب بستی میں کوئی تازہ کھدا گڑھا، کوئی اندھا کنواں ہی اس کا منتظر ہو سکتا تھا۔

رسوائی کے زہر کو مارنے کے لیے زہر مہرے کی ضرورت تھی اور زہر مہرہ بننا آسان تو نہیں۔

وریام نے اپنی کلف لگی پگ درست کی اور چوپال سے اٹھ آیا۔ بھلا اس کے ماں باپ اکلوتے چاند کا گہن کیسے برداشت کر سکتے تھے۔

دلوں کے بھید گہرے تھے اور وقت کا ہرکارہ چوٹ پر چوٹ لگا رہا تھا۔

بالآخر فیصلہ ہوا۔ کہنے کو تو اس کے حق میں ہوا۔۔۔۔۔ کوئی تازہ گڑھا نہیں کھدا۔۔۔۔۔ کوئی اندھا کنواں نہیں بھرا۔ البتہ رسوائی کے زہر کو مارنے کے لیے ایک زہر مہرہ ہاتھ آ گیا۔

ملنگ شاہو۔۔۔۔۔ بس وہی ایک زہر مہرہ تھا پوری بستی میں۔۔۔۔ وہ یہ بھی نہ کہہ سکی کہ ہر ہر نفس پہ موت لکھنے کی بجائے ایک بار سج دھج سے موت کا انتظام کر دو۔ وہ لہولہان پاؤں لیے جلتے صحرا میں بھاگتی رہی۔ اس کا ستارہ وریام کے ستارے سے بہت دور تھا۔ پھر ایک مدار میں دونوں کیسے آتے۔ اس کاوہ غم جو بستی والوں سے اوجھل تھا اس کے دل کے زانو پہ سر رکھے روتا رہا۔ روہی کے صحرا اور دور افتادہ جنگلوں اور گہرے پانیوں کی پراسراریت اس کے وجود میں اترتی چلی گئی۔ وہ ایسی مٹی کی مانند گھلنے لگی جس کے گھلنے کا علم پاس والی زمین کو بھی نہیں ہوتا۔

یہی ملنگ شاہو تھا جس کے لیے وہ وریامے سے کہتی تھی، "اس بیچارے کو تو پتا ہی نہیں کہ انسان کے نصیب میں مزارکے علاوہ بھی کچھ ہوتا ہے۔ ”

دھمال ڈالتے ڈالتے اچانک وہ چونک اٹھتا اور میراں کے قریب آ کے راز داری سے بس اتنا کہتا۔۔۔۔۔۔ "تاروں سے ان کا بھید لے لو۔ ”

پھر ایک دن وہ بھی ہوا جس کا ہونا باقی تھا۔

پوری بستی زنگاری ہو گئی!

ہوائے چَرخ کچھ اس رخ پہ چلی کہ گلیاں اور چوبارے نیلے تھوتھے میں نہا گئے۔ وہ بستی والے جو پہلے دن اس کے دکھ میں روئے تھے مگر اس کے آنے کے بعد انہوں نے اپنے چہروں پر بیگانگی کی تختیاں لٹکا لی تھیں اب اپنے دلوں پر جمے زنگ کو انہوں نے اپنے چہروں پر مل لیا تھا۔ زنگاری چہرے والوں کی بارات ڈھول باجوں کی گونج میں بڑھتی آ رہی تھی۔۔۔۔۔

بارات کا دولہا سفید گھوڑی پر اونچی پگ لیے وریام تھا۔ اس کے ساتھ والی گھوڑی دلہن شمشاد کی تھی۔ جس کے پھولوں اور مہندی کی مہک سبز پگڈنڈیوں تک پھیل گئی تھی۔ وریام نے گھڑی دو گھڑی میراں کو دیکھا جو غم کی سیاہ بدلی میں گہنائی ہوئی تھی اور سر پر پرانی پھٹی اوڑھنی ڈالے میلے ننگے پاؤں لیے مزار والے برگد کے نیچے بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے زنگاری چہروں کو دیکھ رہی تھی۔

باراتی رقصاں تھے۔ افریقہ کے جنگلی قبیلے کا رقص جاری تھا۔ بھینٹ کے لیے انہوں نے میراں کو منتخب کیا تھا۔ اپنی ہی بستی کے انسان کو۔۔۔۔ رقص میں ملنگ شاہو بھی شامل تھا۔

یکایک ڈھول باجوں کی آواز گھٹنے کی بجائے بڑھنے لگی۔ اتنا بڑھی اتنا بڑھی کہ میراں کو کھیتوں سے، سبز پگڈنڈیوں سے، گلیوں، چوباروں، پنگھٹ سے، اور پھر خود اپنے اندر سے ڈھول بجنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ قیامت اٹھاتی یہ آواز اس کی روح کے تاروں سے الجھ گئی۔ وہ سحر زدہ سی اٹھی اور دھمال ڈالتے ملنگ شاہو کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ پل دو پل اسے تکتی رہی۔ پھر اسی کی طرح دھمال ڈالنے لگی اور بے خود ہو کر باراتیوں کے رقص میں شامل ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

آسماں نے بچھا رکھا تھا دام

 

وہ دونوں دور آ چکے تھے۔ اب خطرہ نہیں تھا۔ ریل کا رات بھر کا سفر انہیں شہر کی حدود سے باہر لے آیا تھا۔ کاکو ڈبوں کے درمیانی راستے کے فرش پر اکڑوں بیٹھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی سیاہ اور غیر معمولی چمکتی ہوئی آنکھوں والا کاکو گھنٹوں گم سم کیفیت کے بعد اچانک سیامی بلّی کی طرح چونک پڑتا اور شاہ عالم کو یوں دیکھتا جیسے اسے اس کے بچھڑ جانے کا خوف لاحق ہو۔

"کاکو۔۔۔۔۔ کیا وہ ہمیں تلاش کریں گے؟” شاہ عالم نے پوچھا۔ لمبے پتلے سیاہی مائل جسم کی چوڑی بے ہنگم ہڈیوں پر منڈھی چمڑے جیسی کھال میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ وہ حسبِ عادت خاموش بیٹھا رہا، پھر جیسے شاہ عالم کی نظریں اپنے چہرے سے ہٹانے کی خاطر دھیمے سے بولا، "انہیں کیا غرض؟” اور دوبارہ اپنی مخصوص کیفیت میں چلا گیا۔ کاکو کے اندر کوئی اجنبی روح تھی جو اس کے بدن سے مماثلت نہ رکھتی تھی۔ اس کے گھنٹوں عالمِ استغراق میں بیٹھے رہنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کوئی تپسیا کر رہا ہو۔

اس رات کا اندھیرا تمام راتوں سے زیادہ گہرا تھا۔ شاہ عالم پہلی بار گاڑی میں بیٹھا تھا۔ ریل کی چھک چھک کا ردم اس کے وجود میں کوئی انجانا سرور گھول رہا تھا۔ بہت دور ستارے تھے جو کھڑکی سے جھانک جھانک کر ہنس رہے تھے کہ وہ اُن سے باخبر ہیں مگر کائنات کی پراسراریت میں کوئی چیز تھی جو اس احساس کو ان کے گرد خوشبو کی طرح پھیلا رہی تھی کہ وہ جس سفر پر نکلے ہیں وہ نروان کا ہے اور یہ ریل سدھارتھ کے خاص گھوڑے کنتکا کی طرح ہے جو انہیں ان دیکھی منزل کی جانب لے جار ہی ہے مگر سدھارتھ کون تھا؟ کاکو یا شاہ عالم؟۔

"ہم کون ہیں کاکو؟” یتیم خانے کے گندے فرش کو ٹاٹ کے ٹکڑے سے رگڑتے ہوئے شاہ عالم اکثر پوچھا کرتا تھا۔

"ہم سماج کی نالیوں میں بہتے وہ کیڑے ہیں جن سے تعفّن پھیلتا ہے "۔ کاکو جواب دیتا۔ وہ شاہ عالم سے چھ سال بڑا تھا۔ وہ اکثر چپ رہتا لیکن کبھی بولتا تو چونکا دیتا تھا۔ مہتمم اس کی کاٹ دار باتوں کے سبب اسے ناپسندکرتے تھے وہ کون تھا یہاں کیسے آیا کسی کو یاد نہ تھا۔ اس کا نام کبیر درج تھا لیکن اسے کسی نے نام سے نہ پکارا تھا سب کو یقین تھا کہ وہ اپنی کم خوراکی، کم خوابی اور استخوانی ہیئت کی بناء پر بہت جلد مر جائے گا۔ خود اسے یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے لیکن اس کی روح یہاں رہنا چاہتی ہے۔ کوئی سوال تھا جس کی گرہ میں اس کی روح الجھ گئی تھی اور اب رہائی حاصل کرنے سے پہلے اسے ایک بہتر اور خالی مسکن درکار تھا۔ جہاں بیٹھ کر اسے اُس گرہ کو کھولنے کی مہلت حاصل ہو۔

ریل گاڑی رک گئی تھی۔ نسبتاً ویران جگہ تھی۔ اسٹیشن کا بورڈ بھی نہیں تھا۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ دونوں اتر گئے۔ شاید وہ دسمبر کے آخری دن تھے زرد پتوں کا جال زمین پر بچھا تھا۔ ہوا میں اضطراب کی سی کیفیت تھی مگر وہ دونوں مطمئن تھے۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا فیصلہ تھا جو خوف اور انبساط کی ملی جلی کیفیت پیدا کر رہا تھا۔

کچرے سے کاغذ چن چن کر بیچتے ہوئے انہیں بہت دن ہو گئے تھے۔ کچھ رنگین اور صاف کاغذ وہ رکھ لیا کرتے اور رات کو کسی کھمبے کی روشنی میں انہیں پڑھنے کی کوشش کرتے۔ یتیم خانے میں دی گئی تعلیم ان کی واحد خوشگوار یاد تھی۔ پھر ایک دن کچرے سے انہیں ایک بوسیدہ سی ادھوری کتاب ملی، جس میں مقدرات کا ذکر تھا۔ عہدِ عتیق کی برباد تہذیبوں کے کھنڈرات میں بھٹکتی روحوں کا احوال تھا۔ انسان کی ازلی و ابدی محرومیوں پر اٹھائے گئے کچھ سوال تھے۔۔۔۔ یہ سب کچھ ان دونوں کی سمجھ میں تو نہ آتا تھا لیکن حرف حرف ان کی روح میں جذب ہوتا جاتا تھا۔ وہ کتاب دونوں کی دوست بن گئی۔ دونوں کا خیال تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ اس کا مفہوم پا لیں گے۔

ایک روز کچرے کے ڈھیروں میں کاغذ ناپید تھے۔ بھوک جب ان کی آنتیں چبانے لگی تو مجبور ہو کر وہ پرانی کتابوں کی ایک دکان میں گھس گئے اور اپنی کتاب پیش تختے پر رکھ دی۔ دکان کا بوڑھا مالک بھی کسی بوسیدہ کتاب کی مانند تھا، تھکا تھکا سا اور وقت سے بہت پیچھے رہ جانے والا۔ وہ ہنسنے لگا، کبھی انہیں دیکھتا اور کبھی کتاب کو۔ شاید وہ مدتوں بعد ہنسا تھا، اس لیے ہنستا چلا گیا۔

بوڑھا اپنی نوجوانی میں جہاں گرد رہ چکا تھا۔ ان دونوں کو دکان پر نوکر رکھ لینے کے بعد اس نے یہی بتایا تھا۔ وقت نے اسے کب اور کہاں ٹھوکر ماری، یہ اسے یاد نہیں تھا۔ عمر کی کچھ نقدی عجلت میں گر گئی تھی یا پھر منسوخ ہو گئی تھی۔ اب جو وقت اس کے ہاتھ میں تھا اس کی قدر و قیمت بازار میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ جی رہا تھا بس جئے جا رہا تھا۔ ان دونوں کے آنے سے پرانی کتابوں کی دکان میں جو کسی قدیم پراسرار قلعے کا تہہ خانہ لگتی تھی، کچھ روشنی سی پھیلنے لگی تھی۔ کاکو زیادہ وقت دکان کے ایک کونے میں بیٹھا سوچتا ہوا گزار دیتا۔ شاہ عالم پرانی کتابوں کی جھاڑ پونچھ کرتا۔ بوڑھے جہاں گرد کے ساتھ گاہکوں سے نبٹتا، پھر خالی وقت میں کوئی کتاب لے کے بیٹھ جاتا اور پڑھنے کی کوشش کرتا۔ پڑھے گئے لفظ رات کو خواب میں مجسم ہو کر اس کے گرد ناچنے لگتے تھے۔ سویرے اٹھتے ہی وہ کاکو سے بہت سے سوال کرتا۔ اسے یقین تھا کہ خاموشی کے خول میں بند کاکو کے وجود میں ایسی بھیانک چیخیں ہیں جن کی گونج سے آتش فشاں ابل سکتے ہیں۔ شاہ عالم کو کاکو کے بغیر اپنا وجود نامعلوم سمت کی ان دیکھی کھونٹی پر ٹنگا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

وہ شام ان کے درمیان ٹھہر گئی تھی۔ کتابوں کی دکان سے نکل کر وہ ایک ویران باغ کی بینچ پر جا بیٹھے۔ کاکو نے غور سے پہلی بار دیکھا تو شاہ عالم اسے ایک مضطرب نوجوان لگا، شاہ عالم چونک اٹھا، کاکو مسکرا رہا تھا، شاید پہلی مرتبہ اس نے کاکو کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن یہ مسکراہٹ اس کے چہرے کو بھیانک بنا رہی تھی۔ "کاکو مجھ سے باتیں کرو۔۔۔۔۔ میں تم سے محروم ہوں۔۔۔۔۔ یہ محرومی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ "شاہ عالم دکھ سے بولا۔۔۔۔ "مجھے بے چارگی سے نفرت ہے کچھ کر سکتے ہو تو کرو”۔۔۔۔ کاکو سختی سے بولا۔

مگر کیا۔۔۔۔۔۔؟

"اپنے نام کے معنی سمجھو شاہ عالم، یہ نام اس تختی سے اترا ہے جس میں تمہارے نام کے علاوہ کچھ اور بھی لکھا جانا تھا لیکن وہ خالی ہے اسے تم نے بھرنا ہے۔ ”

"کاکو۔۔۔۔۔ میں اپنی تقدیر۔۔۔۔۔۔ ”

شاہ عالم نے اسے پہلی مرتبہ اتنی تیزی سے حرکت کرتے دیکھا تھا۔ باغ کی زمین پر اس کے قدموں کے نیچے خزاں رسیدہ پتے چر چرا رہے تھے اور وہ آسمان کو تک رہا تھا۔ "یہ ایک ایسی سازش ہے جو روزِ ازل ہمارے خلاف کی گئی ہے "۔۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔

"مگر کاکو۔ ہم کیا کر سکتے ہیں "۔۔۔۔ شاہ عالم بھی کھڑا ہو گیا۔

"سب کچھ۔۔۔۔۔ "وہ گہری اور مضبوط آواز میں بولا۔

"ڈرے سہمے بے چارگی کے مارے لوگوں کو کوئی تو بتائے۔۔۔۔ کوئی تو بتائے ”

وہ مٹھیاں بھینچتا آگے بڑھا اور ایک درخت کے تنے سے سر ٹکرانے لگا۔

"کاکو۔۔۔۔۔۔۔ ” شاہ عالم نے بڑھ کر اسے پکڑ لیا۔

"کچھ کہو کاکو۔۔۔۔ کچھ بولو۔۔۔۔ میں تم سے تمام باتیں سننا چاہتا ہوں تم جانتے ہو کہ تم میرے لیے کیا ہو؟”۔۔۔۔

کاکو مڑا۔ اب اس کے ہونٹوں پر پھر وہی مسکراہٹ تھی معنی خیزاور پراسرار۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھوں کی روشنی آگ کی طرح خاکستر کر دینے والی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا سارا وجود نچڑ کر اس کی آنکھوں میں آ گیا ہو۔۔۔۔۔ شاہ عالم گھبرا کے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔

"ہاں۔۔۔۔۔ "وہ گہری اور گمبھیر آواز میں بولا۔۔۔۔۔ "مگر تم نہیں جانتے کہ تم میرے لیے کیا ہو؟”

"میں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ کاکو؟؟”شاہ عالم بے یقینی کی سی کیفیت میں اس کے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ کاکو نے اسے اٹھا کر کھڑا کیا وہ فراعنۂ مصر کے تخت پر متمکن کوئی مغرور اور خود پسند فرعون لگ رہا تھا۔ جسے اپنے ہونے کا یقین ہو اور یقین بھی ابد تک پھیلا ہوا۔

"کوئی راستہ ہے جسے دریافت کرنا ہے۔۔۔۔ اسے پانے کے لیے ہم دونوں کو ایک ہونا پڑے گا۔۔۔۔ ” کاکو نے کہا۔

"ایک۔۔۔۔؟؟” شاہ عالم حیرانی سے بولا۔

"ہاں۔۔۔۔ پاؤں تمہارے ہوں گے اور سر میرا۔ اس طرح ہم ایک ہو جائیں گے۔ پھر تمہارے پاؤں راستے پرچلیں گے اور میرا سر اُس راستے کی نشاندہی کرے گا۔۔۔۔۔ ”

٭٭٭

بوڑھے جہاں گرد نے بڑبڑاتے ہوئے کاکو کے سامنے سے پھٹے کاغذوں کے ڈھیر کو ہٹایا۔ ” میں نہیں جانتا کہ تم دونوں کیا چاہتے ہو۔ اس دکان پر میں ایک دیوانہ کافی نہیں تھا جو تم دو کا بھی اضافہ ہو گیا”۔۔۔۔۔ وہ کتابوں کی الماریوں کی طرف آیا جہاں شاہ عالم کسی جنونی کی طرح کتابوں کو الٹ پلٹ رہا تھا۔

"کیوں بیٹا۔۔۔۔ یہ سارا سارا دن تم ان بوسیدہ کتابوں میں کیا تلاشتے ہو اور رات رات بھر وہ کون سی باتیں لکھتے ہو جنہیں پڑھتے ہی کاکو پھاڑ دیتا ہے۔۔۔۔ ”

شاہ عالم نے ذرا کی ذرا رک کے اسے دیکھا اور بولا۔۔۔۔ "بابا جی تم سے کہا نا۔۔۔۔ کہ تمہارا کام میں پورا کر دیا کروں گا، بس تم کچھ پوچھا نہ کرو۔۔۔۔۔ ”

"کاکو کیا ازل سے ابد تک بہنے والا دھارا، ہمیں یونہی نیست و نابود کرتا رہے گا ”

وہ بے قراری سے اس کے پاؤں کے پاس آ کے بیٹھ گیا۔

کاکو خاموش رہا اور شاہ عالم اس کا چہرہ تکتا رہا۔ بالآخر کاکو بولا "۔۔۔۔ تم ان کتابوں کا سہارا مت لو۔۔۔۔۔ علم کے گرز سے مارے جاؤ گے "۔

"مگر کاکو۔۔۔۔ ہم سے پہلے بھی تو لوگ ہوں گے جو بقا کی خاطر۔۔۔۔؟”

کاکو نے اس کی بات کاٹی۔۔۔۔ "سارا مسئلہ ہی بقا کا ہے۔۔۔۔ "پھر یک بیک وہ اندیشوں کے جال میں پھنس گیا اس نے شاہ عالم کے دونوں کندھے پکڑ لیے۔ "میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔۔۔۔ کہیں تم اس راستے پر نہ نکل جاؤ جہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے رستے کی تو سمت ہی اور ہے۔۔۔۔ ” بولتے بولتے اس کی آنکھوں میں پھر وہی تند و تیز چمک کوندی۔ "اس رستے پر کبھی کوئی چلا ہی نہ ہو گا "۔۔۔۔۔

"مگر کاکو۔۔۔۔ یہ رستہ نجات کا تو نہیں۔۔۔۔ ”

"نجات "۔۔۔۔ کاکو زور سے دھاڑا۔ "کسے چاہیے نجات؟؟؟میں اپنے ہونے کا پتہ چاہتا ہوں "۔۔۔۔ کاکو نڈھال ہو کے ایک طرف لڑھک گیا۔ شاہ عالم نے کاکو کے لاغر بدن کو اپنے کندھے سے لگایا اور بولا ” کاکو۔۔۔۔ میں تمہیں اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں اپنی زندگی تمہارے نام کر چکا ہوں۔۔۔۔ میں نے تمہارے سوا کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔ کسی کو دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔۔۔۔ تم جو چاہو گے میں کروں گا۔ ”

کاکو نے سر اٹھایا اور بولا۔۔۔۔ "میرے بھائی۔۔۔۔ میرے بیٹے۔۔۔۔ میری روح۔ جو کچھ میں ہوں وہ تم ہو جو کچھ تم ہو وہ میں ہوں۔۔۔۔ ہمارے حصے میں کچھ ایسی غلطیاں آئی ہیں جو ہم نے نہیں کیں، لیکن ہمیں بھگتنا ہیں تو پھر کیوں نہ ہم بغاوت کریں۔۔۔ ایک ایسی بغاوت جو انسان کو اس کی محرومیوں پر نادم رکھنے کی بجائے سر اٹھا کے بات کرنے کا حوصلہ دے، آؤ کوئی ایسا کام کریں کہ موت کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے بچ جائیں۔۔۔۔۔ ”

شاہ عالم نے اس کا پنجر نما ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا "کاکو۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی مرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔ میں تمہارے ذہن کی وہ قیمت لگاؤں گا کہ رہتی دنیا اسے ادا کرتی رہے گی اور پھر بھی تمہاری مقروض رہے گی۔ ” کاکو نے سکون سے لمبی سانس کھینچی۔

وہ لکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

اس کے ایک ہاتھ میں قلم تھا اور دوسرے میں کاکو کا نحیف لرزتا ہاتھ۔ رات کا پچھلا پہر ماں کی یاد کی طرح گداز و بے قرار تھا۔ ان دونوں کے قریب پھٹے کاغذوں کا ڈھیر تھا جو شاہ عالم نے لکھے اور کاکو نے ناپسند کر کے پھاڑ دیئے۔ لیکن اب وہ گھڑی آ گئی تھی کہ جب ذہن و دل کے بند دروازوں کے پٹ قیدی پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگے تھے۔ ازلی وہ ابدی محرومیوں کی تنگ گلی سے وہ ایک دوسرے کو سہارا دیتے گزر رہے تھے۔

"لکھو۔۔۔۔ کہ مقدر۔۔۔۔ انسان کے خلاف کی گئی ایک سازش کا نام ہے "۔۔۔۔ کاکو نے کہا۔ شاہ عالم تیزی سے لکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ ” مقدر مطلق العنان بادشاہتوں کا وہ مکرو فریب ہے جو انہوں نے بے بس رعایا کو فلاکتوں میں مبتلا رکھنے کے لیے دیا۔۔۔۔۔ جنہوں نے اپنے من پسند سیاسی و معاشی نظام کو قائم رکھنے کے لیے نادار اور افلاس کے مارے لوگوں کو یقین دلایا کہ لوحِ تقدیر پر ان کے لیے سوائے صبر و قناعت کے کچھ نہیں لکھا۔۔۔۔ چند لوگوں کو صرف چند لوگوں کو، غیب سے یہ اجارہ داری دی گئی ہے کہ وہ مقدر کے نام پر جبرو تسلط اور بے چارگی و بے اختیاری کا کھیل جاری رکھیں۔ لکھو۔۔۔۔ لکھو۔۔۔۔ کہ انسان کے مقدر میں بالآخر بے چارگی ہی کیوں لکھی جاتی ہے۔۔۔۔۔ ”

کاکو ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ شاہ عالم لکھ رہا تھا۔ رات ششدر و حیران کھڑی تھی۔ بوڑھے جہاں گرد کی مدد سے ان کی نامکمل کتاب کی قسطیں ایک رسالے میں چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ اس انوکھے موضوع نے لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مقدرات کی زد میں آئے ہوئے محروم لوگوں نے اپنی ناتمام اور مجروح تمناؤں کا ذکر پڑھ کے الفاظ میں گھلے آنسوؤں کی نمکینی کو اپنے غم کا ہم ذائقہ پایا تھا۔

شاہ عالم خوش تھا۔۔۔۔۔ "کاکو۔۔۔۔۔ یہ وہ تخلیقی کارنامہ ہو گا جو ہمیشہ کے لیے تمہیں اور مجھے زندہ رکھے گا”۔۔۔۔ اس نے کہا لیکن کاکو کے چہرے کی پر اسراریت روز بروز گہری ہوتی جا رہی تھی۔ وہ گھنٹوں اکڑوں بیٹھے بیٹھے اچانک دونوں ہاتھ غیبی سمت بڑھا دیتا۔ کبھی کبھی وہ ہوا میں یوں مّکے مارتا جیسے کسی ان دیکھے دروازے پر دستک دے رہا ہو۔ اس کا نحیف بدن ہلکے ہلکے لرزتا رہتا۔ شاہ عالم سے اتنی قربت کے باوجود کاکو نے اپنے بارے میں اسے کبھی کچھ نہیں بتایا تھا سوائے اس کے کہ اس نے زندگی میں تین مرتبہ خود کشی کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ کوششیں ناکام نہیں ہوئیں بلکہ وہ تینوں دفعہ تھوڑا تھوڑا مرا تھا، لیکن موت کا کچھ حصہ باقی ہے جس نے اسے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس لیے کہ وہ آدھی زندگی اِس دنیا میں گزار رہا ہے اور آدھی اُس دنیا میں۔ نہ یہاں کے منظر وہ پوری طرح دیکھ سکتا ہے نہ وہاں کے منظر اس پر مکمل طور پر کھلتے ہیں۔ تب شاہ عالم پر منکشف ہوا کہ وہ اسے کیوں اتنا چاہتا ہے۔ عالمِ ناسوت اور عالمِ اعراف کے درمیان اٹکے ہوئے اس ہیولے کو اپنی بے بسرعمر کی گٹھڑی رکھنے کے لیے کسی کا شانہ درکار تھا۔۔۔۔

اب وہ دونوں بوڑھے جہاں گرد کے کوٹھڑی نما گھر میں رہنے لگے تھے۔ جس کی خستہ حالی سے جہاں گرد کو گزرے وقت کی وہ سرائے یاد آ جاتی تھی جو کسی نامعلوم مقام کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تھی۔ اس نے اسی سرائے کی طرح لکڑیوں کا ایک آتش دان بنایا تھا۔

یخ بستہ شام بے مہر وقت کی طرح منہ موڑنے کو تھی اور سلگتی لکڑیوں کے شعلوں سے کوٹھڑی کی بوسیدگی پر عجیب و غریب سائے لرزنے لگے تھے۔ کاکو بہت دیر سے ان سایوں کو دیکھ رہا تھا اور شاہ عالم اسے کتاب کا لکھا جانے والا دوسرا حصہ پڑھ کے سنا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جس میں روحوں کا ایک اجتماع خدا کے سامنے مقد رات کے نظام کو بدلنے کی تحریک پیش کرتا ہے اور مقدر کے نام پر ملنے والی محرومیوں کا جواز مانگنے کی جسارت کرتا ہے۔ اچانک شاہ عالم پڑھتے پڑھتے خاموش ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے کاکو کی نگاہیں اجنبی سمت مرکوز ہیں۔ اچانک ہی اس کا چہرہ چمک اٹھتا جلد ہی ڈوبتی لو کی طرح مدھم ہو جاتا۔ یوں لگتا جیسے وہ کوئی کھیل دیکھ رہا ہے۔ پھر بے اختیار وہ بول اٹھا۔۔۔۔۔ "معلوم اور نامعلوم کے درمیان جو فاصلہ ہے اسے طے کرو میرے عزیز۔۔۔۔ تا کہ رازِ سربستہ پا سکو۔ ”

"لیکن کاکو۔۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے جو ہم لکھ رہے ہیں وہ ہو بھی سکے ” اس نے کسی انجانی دہشت میں خود کو مبتلا پایا۔۔۔۔

"ہاں۔۔۔۔ کیوں نہیں "۔۔۔۔ کاکو نے بہت اعتماد سے کہا اور آگ سے بننے والے سائے دیکھتا رہا۔۔۔۔ "جب میں وہاں جاؤں گا تو یہ جسارت کروں گا۔۔۔۔ اور تم سے رابطہ رکھنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈوں گا۔۔۔۔ پھر تمہیں بتاتا رہوں گا۔ "وہ اسی کیفیت و بے خودی میں بولتا رہا۔۔۔۔

شاہ عالم نے اکثر و بیشتر محسوس کیا تھا کہ کاکو چارپائی پر گھنٹوں بے سدھ پڑا رہنے کے بعد اچانک اٹھ بیٹھتا ہے اور حیات بعد از مرگ کے معاملات جوش و خروش سے بیان کرنے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ شاہ عالم کو ایسا محسوس ہوتا جیسے کاکو کا کوئی قریبی عزیز ابھی ابھی اس سے بچھڑا ہے۔ نیند میں چلنے والے مریض جیسی کیفیت کے ساتھ کاکو گرد و پیش سے بے نیاز ہو کر سماعت و بصارت سے وراء ہو کے کسی گزرے زمانے میں پہنچ جاتا۔ ایسے میں شاہ عالم اس کی باتیں غور سے سننے کی کوشش کرتا لیکن اسے ان بے ربط جملوں کے ٹوٹے سرے جوڑنے میں بہت دقت ہوتی۔ اچانک یہ سلسلہ موقوف ہو جاتا اور کاکو لاتعلق سا ہو کے سر جھکا کے اکڑوں بیٹھ جاتا۔ شاہ عالم کے استفسار پر وہ اپنی کیفیت اورا پنی باتوں سے لاعلمی کا اظہار کرتا۔۔۔

کتاب کا دوسرا حصہ چھپتے ہی دبی دبی چہ مگوئیاں بلند آوازوں میں بدل گئیں مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات اٹھے اور رسالے کے مدیر نے آئندہ قسطیں چھاپنے سے انکار کر دیا۔ یہ صورتِ حال شاہ عالم کے لیے پریشان کن تھی، لیکن کاکو جس کیفیت میں مبتلا ہو چکا تھا اس سے واپس آنا اس کے بس میں نہ تھا۔ البتہ کتاب کے بنیادی موضوع پر وہ اب بھی شاہ عالم کی مدد کرتا، لیکن شاہ عالم کواس کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا۔۔۔۔۔ بوڑھا جہاں گرد کچھ روٹھا روٹھا سا تھا۔۔۔۔ کاکو کو تو وہ نیم دیوانہ سمجھتا تھا لیکن شاہ عالم کے متعلق اس کا خیال تھا کہ اس نے اس کی دکان سے کئی قابل قدر کتابیں پڑھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بوڑھے جہاں گرد نے اسے اپنی مسافتوں کے احوال گھنٹوں سنائے تھے۔ انجان جزیروں اور بے آباد بستیوں سے لے کے حیرت انگیز ترقیوں اور سلطنتوں کے بننے بگڑنے کے عمل تک، دنیا کے کتنے نشیب و فراز سے اسے آگاہ کیا تھا اس کا خیال تھا کہ اس سب کے باوجود وہ کسی ایسے رستے پر عمل داری کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے جو ادھورے علم کے شر سے نکلتا ہے۔ بوڑھا جہاں گرد ملول تھا کہ اس کی نیکیوں کا غلط استعمال کیا گیا۔۔۔۔

لیکن شاہ عالم کے لیے کاکو ہی ہر سوال کا جواب تھا۔ کاکو جو اس کے لیے سادھو تھا سنت تھا درویش تھا مرشد تھا۔ اسے تو بس اتنا یاد تھا کہ کاکو نے کہا تھا کہ محروم لوگوں نے نیکی کو ابدی رنگوں میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے یہ ابدی رنگ انسان کی ابدی محرومی سے بنے ہوں۔۔۔۔۔

اس دن کاکو کا چہرہ خلاف معمول چمک رہا تھا اور آنکھیں اس سے زیادہ لو دے رہی تھیں۔ وہ ہوش مند دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔ اس نے شاہ عالم کو اپنے پاس بٹھایا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے بولا۔۔۔۔۔۔

"میرا کتبہ تیار کر دو، دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ”

شاہ عالم نے اپنا ہاتھ تیزی سے چھڑایا وہ لرز رہا تھا۔

"کاکو۔۔۔۔ تمہارے بغیر میں۔۔۔۔ ”

کاکو مسکرایا۔۔۔۔۔ "تمہاری اور میری روح ایک ڈور میں بندھی ہوئی ہے۔ میں کہیں چلا جاؤں تم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ "کتبے کی تحریر کاکو نے لکھوائی تھی۔۔۔۔۔۔

"اے یہاں سے گزرنے والو۔۔۔۔۔ اپنی امیدیں ترک نہ کرنا۔ جب میرے اور اس کے درمیان سے پردہ ہٹے گا تو میں انسان کی ازلی و ابدی محرومیوں پر اس سے ضرور سوال کروں گا۔۔۔۔ میں مقدرات کی غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج کروں گا۔۔۔۔ تم سے پہلے کے لوگ میرے ساتھ ہوں گے اور تم بھی جب ایک دن آؤ گے تو ان سوالوں کے جواب ہر سواد شہر پر مرتسم پاؤ گے "۔۔۔۔

کتبے کو دیکھ کے کاکو کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک پیدا ہوئی۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ اس نے گہری مگر دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔ "ہم نے اس دنیا کو بے چارگی اور بے بسی کی دلدل سے نکالنا ہے ان ازلی و ابدی فیصلوں کے خلاف دنیا والوں کو یکجا کرنا ہے جوان کے حق میں نہیں ہوئے "پھر وہ بولا۔۔۔۔ ” میں کتاب کا آخری حصہ وہاں جا کے لکھواؤں گا اور اسی آخری حصے میں بے چارگی سے نجات کا راز ہو گا۔۔۔۔ ”

"لیکن کاکو” شاہ عالم اندیشوں میں گھرا ہوا تھا "اگر اگر تم مجھ تک نہ پہنچ سکے تو۔۔؟”کمرے میں چند ساعتوں کے لیے ہیبت ناک خاموشی چھائی پھر یکا یک کاکو چلّایا۔

"تم تک پہنچنے کاکوئی راستہ تو ہو گا۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی۔۔۔۔ "۔۔۔۔

شاہ عالم اٹھ کے اس کے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ "کاکو۔۔۔۔ میں اپنی تمام تر حسیات کو چوکنا رکھوں گا۔ میں ہر پل تمہارا منتظر رہوں گا۔ ”

٭٭٭

وہ رات ہزار راتوں سے زیادہ گہری اور پراسرار تھی۔ زمین کے ہر آباد وبے آباد قریے پر سوسن کے پھول اگ آئے تھے۔ جو ایک ہی طرح کی سرگوشی کر رہے تھے ہواؤں کے جھکّڑ جہاں گرد کی چھوٹی سی کوٹھڑی کے گرد دیو ہیکل بگولوں کی صورت ناچ رہے تھے۔ اتنا شور تھا مگر پھر بھی تہہ خاک موجود خاموشی اپنا راج پاٹ دکھا رہی تھی۔ کاکو کا ہاتھ شاہ عالم کے ہاتھ میں تھا۔ جہاں گرد کوٹھڑی کے ایک کونے میں بیٹھا کاکو کے گرد دھمال ڈالتی اجل کے ٹل جانے کی دعا کر رہا تھا۔ کاکو کی آنکھیں چھت پر ٹکی ہوئی تھیں، چھوٹی چھوٹی سیاہ چمک دار آنکھوں میں ایسی وحشت ناک اور پراسرار چمک تھی کہ شاہ عالم کے بدن کا رواں رواں لرز رہا تھا۔۔۔۔ "کاکو۔ تم کس حال میں ہو۔۔۔۔ کیا تم بہت تکلیف میں ہو کاش تمہارے بدلے میں جا سکتا۔۔۔۔۔ ”

کاکو بمشکل مسکرایا۔۔۔۔ اور سرگوشی میں بولا۔۔۔۔ "نہیں۔۔۔۔ جانا صرف مجھے ہے بہت دور کا سفر ہے مگر تم سے ملنے میں آتا رہوں گا تم وہ سب لکھ دینا جو میں نے تمہیں بتایا۔۔۔۔۔ ”

آتش دان میں آگ جل رہی تھی ہوائیں درختوں سے سر ٹکرا رہی تھیں جنگلی جانوروں کے رونے کی آوازیں تیز ہوتی گئیں شاہ عالم نے آہستگی سے کاکو کا یخ بستہ ہاتھ بستر پر رکھ دیا۔۔۔۔

کاکو کی موت تھی یا کسی خاموش سمندر کی تہیں یک دم اپنی جگہ سے کھسک گئی تھیں۔ کسی گمشدہ دنیا میں اِستادہ چٹانیں چٹخ گئی تھیں وہ نہ سمجھ آنے والی پراسرار دنیا کی تہوں کو کھرنچنے میں اس کا ساتھی تھا۔ شاہ عالم کو اپنی انگلیاں کمزور ہوتی محسوس ہوئیں۔

شاہ عالم کا بس چلتا تو وہ کاکو کی تجہیز و تکفین کی رسومات عہد عتیق کی مصری قوم کی طرح کرتا لوبان کی دھونی دیتا خوشبو دار مسالوں کا سفوف جسد مردہ میں بھرتا اس کی ممی بناتا تابوت پر سونے چاندی کے پانی سے منظر کشی کرتا اور ممی کو تابوت میں بند کر کے کسی پراسرار اہرام کے اندر ترشے شاہی مقبرے میں پتھر کے مسطبوں سے دفن کر دیتا۔ مگر ایسا سب کچھ نہ تھا۔۔۔۔

سیاہ مقدری میں نقرئی خواب بے رحم دشمنوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔ شاہ عالم نے اس پسماندہ نواحی علاقے سے باہر ایک چھوٹے سے جنگل میں اپنے ہاتھ سے قبر کھودی۔ کتبہ لگایا۔ کاکو کو لحد میں اتارا اور خاک کو خاک اوڑھا دی۔

یہ کیسی پر ہول تنہائی تھی۔ لگتا تھا جیسے کائنات کی ہر شے رخ موڑ کے کھڑی ہو گئی ہے۔ لوحِ محفوظ پر گری سیاہی شاہ عالم کے اندر اترنے لگی۔ وہ ادھوری کتاب اٹھائے گورستان آ گیا۔ پوری دنیا انسانوں سے خالی تھی چہار دانگ میں تنہائی کا کافور سلگ رہا تھا اس نے کاکو کی قبر کو بوسہ دیا۔۔۔

بلھّے شاہ اساں مرنا ناہیں

گور پیا کوئی ہور

رات بھر وہ قبر کے پاس بیٹھا رہا۔ پتوں کی سر سراہٹ میں آہٹیں تھیں۔ دھیمے سروں میں بہنے والی ہوا میں سرگوشیاں تھیں۔ ستارے تھے یا کسی کی آنکھیں موتی موتی کر کے آسمان کی چادر پر ٹانک دی گئی تھیں۔ وہ انتظار کے عمل سے گزر رہا تھا۔ بالآخر تھک کے اس نے قبر پر سر رکھ دیا اور سو گیا۔

جیسے بحری جہاز لنگر کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔ ویسے ہی شاہ عالم کاکو کے سہارے جی رہا تھا۔ اور اسے کاکو سے ایک انجانی قوت ملتی تھی۔ اب وہ تنہائی اور دیوانگی کے پانیوں میں اترتا جا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن کاکو نے اپنی محرومیوں کو قوت بنانے کے خبط میں اسے ایسے مہین اور نوکیلے تار پر کھڑا کر دیا تھا جس پر کوئی بڑے سے بڑا بازی گر بھی نہیں چل سکتا تھا۔ جس ماورائی اسرار کو پانے کی دھن میں کاکو اپنی ہی آتش میں بھڑک کے خاکستر ہو گیا تھا اس کا سرا کہیں نہیں ملتا تھا۔ بوڑھے جہاں گرد کے لئے اب شاہ عالم کا وجود ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔ زمانے بھر کی لعن طعن سے وہ بے حد خائف تھا اس نے شاہ عالم کو مجبور کیا کہ اس راستے کو ترک کر دے۔

رات گہری تھی اوراس کا سکوت بامعنی تھا۔ شاہ عالم خاموشی سے بستر سے اٹھا اس نے دیکھا، بوڑھا جہاں گرد دنیا و مافیہا سے بے خبر سو رہا ہے۔ اس نے کتاب قلم اور ایک چراغ لیا، کوٹھری پر الوداعی نگاہ ڈالی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔

چاند کی ٹھنڈی روشنی ماحول کو پُر فریب بنا رہی تھی۔ شاہ عالم کا کو کی قبر پر سر رکھ کر نیم دراز ہو گیا اور چند قدم دور کہنہ سال برگد کی ہلتی لرزتی گرتی شاخیں دیکھنے لگا۔ جو کاکو کی انگلیوں سے مشابہ تھیں۔ وہ انگلیاں جو قلم تھامنا چاہتی تھیں لیکن کسی انجانی شدت میں مبتلا رہتے ہوئے اس مشقت سے بچنا بھی چاہتی تھیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے زیر زمین پھیلی برگد کی جڑیں کاکو کے جسد مردہ کو ہلکورے دے رہی ہیں اور تہہ خاک جاری مکالمے سطح پر لٹکتی شاخوں میں منتقل کرتی جا رہی ہیں۔ پھر رات کا کوئی ایسا پہر آیا کہ جب منطقہ ثقل کی ہر شے غنودہ ہو گئی۔ انہی ساعتوں میں شاہ عالم انتظار کی نامعلوم سولی سے اترا اور پھر نہیں معلوم کس طرف کھنچتا چلا گیا، بس ایسا تھا جیسے روح پر سے کوئی چولا سا اتر جائے اور سماوی کھڑکی نیم وا ہو جائے۔ اس نے دیکھا۔۔۔۔ ایک اندھیری تنگ گلی ہے جس میں کاکو ایڑیاں رگڑتا ہوا گزر رہا ہے۔ لگتا تھا جیسے جہان در جہان گزر جائیں گے اور وہ گلی ختم نہ ہو گی۔ لیکن۔۔۔۔ یکبارگی ایک اینٹ سرکی اور نور کی لکیر اندر اتر آئی۔ پھر اس نے دیکھا، کاکو کی نحیف ایڑیوں میں جان سی پڑ گ      ئی ہے۔ اب وہ سیدھا کھڑا ہے اور نور کی لکیر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آگے دروازے ہیں بے گنتی اور مقفل۔۔۔۔ پھر ایک دروازہ کھلا اندر کچھ نہ تھا صرف ایک کتاب رکھی تھی۔ کاکو بے بصارت تھا۔ شاہ عالم نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں روشنی کے دو نقطے اٹکائے گئے اور کتاب اسے تھما دی گئی۔ کتاب پر کاکو کا اصلی اور مکمل نام درج تھا اور اس کے آخری صفحے پر ایک کنجی لٹک رہی تھی۔ کاکو نے اپنی معصوم اور بے ضرر زندگی کی محرومیوں سے مرقع کتاب پر سر رکھ دیا تھا۔ جب اس نے سر اٹھایا توپوری کتاب آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ اب کاکو کے ہاتھ میں وہ چمکتی ہوئی کنجی تھی جس پر نور سے "محبت” لکھا تھا اس نے کنجی کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کے روبرو افلاک میں ملفوف پر اسرار دنیائیں تھیں۔ شاہ عالم حیران تھا کہ جان کنی کی سی کیفیت میں عمر بسر کرنے والا ناتواں کاکو کیسا توانا نظر آ رہا تھا۔ لگتا تھا، جیسے ابھی وہ بڑھے گا اور اپنی کنجی سے کوئی قفل کھول دے گا۔ کاکو کے قدموں کی بڑھتی دھمک اسے اپنی کنپٹی پر پڑتی محسوس ہوئی اور یکلخت اس کے ہاتھ سے کوئی ڈور سی چھوٹی۔۔۔۔ وہ ہڑ بڑا کے اٹھا برگد کے پتوں میں سر سراہٹیں تھیں اور تمام سمتوں سے یکبارگی سکون آمیز گہری سانسوں کی آوازیں آر ہی تھیں۔

***

تشکر: مصنفہ جنوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

حصہ اول ۔۔۔ افسانے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ دوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ سوم

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل