FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جنگل ہرا ہے

 

 

 

                محمد انور خالد

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

 

 

 

’ریت آئینہ ہے‘ کے بعد کی نظمیں

 

 

 

 

 

 

پہلے جی بھر کے دیکھ لینے دو

 

پہلے جی بھر کے دیکھ لینے دو

پھر کہانی بھی میں سناؤں گا

رات جنگل کی شاہزادی کو

ایک کمسن اداس چرواہا

اصطبل میں گھسیٹ لایا تھا

یہ کہانی بھی میں سناؤں گا

پہلے جی بھر کے دیکھ لینے دو

اس کی آنکھوں نے دن نہیں دیکھے

اس کو بارش اداس کرتی تھی

اس کو دلدل سے خوف آتا تھا

یہ اُسی واپسی کا قصہ ہے

ورنہ جنگل میں کیا برائی تھی

ایک کٹیا تھی اک بچھونا تھا

اور جنگل کی شاہزادی کو

ایک کمسن اداس چرواہا

اصطبل میں گھسیٹ لایا تھا

یہ کہانی بھی میں سناؤں گا

پہلے چہرہ تو دیکھ لینے دو

٭٭٭

 

 

 

 

جواں بخت کے لیے ایک نظم

 

خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا

تیری جاگیر میں لکّھا ہے یہ شیشے کا بدن

پرِ طاؤس قلم، طرۂ پیچیدہ پر

بے سبب جھاگ اڑاتے ہوئے دریا کی طرح ٹوٹ کے آیا ہوا دل

خوش ہو اے بخت کہ اب رختِ سفر باندھنا ہے

اب نہیں باندھنا دیوار سے دروازے کو

سر سے دستار نہیں باندھنی، دستار میں سر باندھنے ہیں

طرۂ پُر پیچ کے پیچ

خوش ہو اے بخت کہ دستار میں سر باندھنے ہیں

یہ کوئی بات نہیں ہے کہ بدن چھوڑ دیے جائیں گلی کوچوں میں

اور اک پالکی بیٹھے ہوئے شاعر کو کوئی کاسۂ سر

چُور شکستوں سے ملے

اب کے ایسا نہیں ہو گا کہ بدن چھوڑ دیے جائیں گلی کوچوں میں

اب کے جب شہر بسیں گے

تو ہر اک گھر میں ہوا دان کے ساتھ

ایک مینارِ خموشی بھی یقیناً ہو گا

اور آنگن میں ہری گھاس بچھی ہو گی

کئی مرثیہ خواں در پہ ملازم ہوں گے

بخت اے بخت اٹھا تیغ و تبر چوب و علَم سیف و کتاب

اور اس کوے خرابی میں جو جانا ہے تو جاتے جاتے

باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا نہیں اے طرفہ کلاہ

ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر کوئی سر

٭٭٭

 

 

 

 

 

خضر سلطان برادر جواں بخت کے لیے ایک نظم

 

خضر سلطان زمانہ تجھے زندہ رکّھے

شوقِ مجہول جسے لے گیا جنگل کی طرف

اس کی وحشت تو گئی

دشت میں قیس ہوا گھوم کے فرہاد کے پار

جس نے توڑے ہوں نوالے وہی پتھر توڑے

خضر سلطان نہیں توڑیو پتھر سے گلاب

انگلیاں دستِ حنائی سے لہو کھیلتی ہیں

خضر سلطان الگ آئنہ

عکس سے سو بار الگ

ایک سُو بیٹھ رہو

یہ جو شہزادیاں پتھر سی ہوئی بیٹھی ہیں

ان سے کچھ کھیل کرو

جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں، کہانی میں تمھیں

برق رفتار لکھیں گے یہی دنیا والے

اور یہ بھی کہ گھڑی بھر کے لیے

تم نے تلوار اٹھائی تھی تو کچھ بات تو تھی

خضر سلطان کوئی بات تو ہوتی ہے سبھی دشت کے دیوانوں میں

اور ان میں بھی جنھیں

شوقِ مجہول اڑا لے گیا جنگل کی طرف

اور وحشت بھی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

بس اک سانس نہیں آئی

 

بس اک سانس نہیں آئی

آدھی رات گزرتی تھی اور آدھے دن کا نصف

ہوا میں تھا جب پوری سانس نہیں آئی

سب کھیل کہانی ختم،

ہوا کی جنگل بانی ختم، سمندر کی آشفتہ بیانی ختم

ذرا سی سانس نہیں آئی

اب جاگنا بے مصرف ٹھہرا

اب سونے میں کوئی حرج نہیں

اب فرصتِ وصل و فراق بہت

اب سارے پچھلے کاموں میں، تم یاد کرو، جو رہتے تھے

سب کرنے ہیں

دروازے، کیلیں، شہتیریں، چوکھٹ، دیوار

پرانی چھت کا ٹوٹا حصہ جوڑ کے گھر بن سکتا ہے

تم اس گھر میں رہ سکتی ہو

میں اس کا نگران مقر ر ہو سکتا ہوں

تیز نشیلی سانسوں میں

سب عدم وجود بھلایا جا سکتا ہے

اب سب کچھ پہلے کی طرح، یا کچھ بہتر

بروقت مکمل ہو سکتا ہے

سارے کام سپھل ہو سکتے ہیں

بس اک سانس کو دھیان میں رکھنا

عین فراق و وصل کے بیچ

نشیلی سانسوں کے جنگل میں

بس اک سانس نہیں آئی تو کیا ہو گا

یہ بدن تو کافی دیر تلک اپنی گرمائش رکھتا ہے

بس اک سانس نہیں آتی ہے

سو جاتی ہے، کھو جاتی ہے، تیز ہوا میں

ہو جاتی ہے ساری کھیل کہانی ختم

ہوا کی جنگل بانی ختم، سمندر کی آشفتہ بیانی ختم

ذرا سی سانس نہیں آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر جگہ عورتیں

 

ہر جگہ عورتیں

جتنی لاشیں نکالی گئیں اتنی ہی عورتیں

ان کے چاروں طرف ایک پر ایک گرتی ہوئی

جیسے ملبے پہ اک اور ملبہ

ہوا رک گئی ہے

چٹانوں پہ چلتی ہوئی سرسراتی ہوا رک گئی

یہ شہر ایک آثار کے درمیاں رک گیا ہے

کوئی شہر گرتا ہے جب بھی

تو اک آن میں گھر سے نکل آتی ہیں

وصل کی دھند میں کھوئی جاتی ہوئی

دھوپ میں کسمساتی ہوئی

آئنہ بند لیٹی پڑی ادھ کھلی عورتیں

گھر سے باہر نکل آتی ہیں

ایک پر ایک گرتی ہوئی

جیسے ملبے پہ اک اور ملبہ

ہوا رک گئی ہے

یہ شہر ایک آثار بنتے ہوئے رک گیا ہے

تباہی کے لمحے پہ ٹھہری ہوئی چپ گھڑی رک گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میں مر جاتا تو اچھا تھا

 

تمھاری آخری آواز سے لنگر کے اٹھنے تک کا

جو وقفہ تھا، ہم اس میں

کوئی دم مر گئے ہوتے تو اچھا تھا

یہ کشتی ڈوب جائے گی

مری وحشت تمھاری نیم آزردہ ہنسی کے بوجھ سے اک دن،

زمانے کو پتا تھا،

یہ کشتی ڈوب جائے گی

کئی تختے کئی ٹوٹے ہوئے تختوں کو لے کر مختلف سمتوں میں چل دیں گے

تمھاری ساحلی کھڑکی سے گہرے پانیوں تک

ایک دنیا ڈوبتی ہو گی

مگر میں جھیل جاؤں گا

میں سہہ لوں گا تمھاری آخری آواز اور لنگر کا اٹھنا

اور منظر ڈوبنے کا ایک عالم کے

میں سہہ لوں گا

میں سب کچھ جھیل جاؤں گا

مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا

میں مر جاتا تو اچھا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

منیرہ سورتی کی مغفرت کا مسئلہ

                (گجرات سے ایک نظم)

 

منیرہ سورتی کاٹی گئی تہہ دار اندھیرے میں

اسے موڑا گیا نچلے بدن سے

ان رسیلے زاویوں میں

جن کی تہہ داری مسلّم ہے

منیرہ سورتی نے ایک لمحے کے لیے پوری حیاتی میں

اذیت ناک لذت کا مزہ چکّھا

ہم اس کی مغفرت کے واسطے پھر بھی دعا کرتے رہیں گے

مستقل گہرے اندھیرے میں

وہ پورے ہوش میں تھی جب اٹھائی جا رہی تھیں

اس کے ہر جانب سے لاشیں

اور وہ مردہ نہیں تھی

وہ پورے ہوش میں تھی

اس کی آنکھیں دیکھتی تھیں ہر طرف

جب میں نے ان کی پتلیاں دیکھیں

وہ پورے ہوش میں تھی، اور مری بالکل نہیں تھی

آخری جھٹکے سے پہلے تک

منیرہ سورتی کی مغفرت فی الواقعہ اک مسئلہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تری ماں تجھ کو روئے ابنِ مقنع

 

تری ماں تجھ کو روئے ابنِ مقنع

چاند پچھلی رات کا پورا نہیں تھا

پہ تم پیغمبری کے زعم میں اندھے کنویں سے

چاند کا ست کھینچتے تھے اور بہت خوش تھے

اگر دو ڈول پانی کا نکل آتا تو اس میں کیا برائی تھی

ہم اس تہذیب کے مارے ہوئے ہیں

جس میں ہر شے اپنی غایت سے الگ ہے

شاعری جادوگری ہے

کچھ نہیں کہنا

ہوا کی اوڑھنی میں نور و نکہت کے ستارے ٹانکنے ہیں

گفتگو بازار کی شے ہے

کتابوں میں جو ہے، ہے

لڑکیوں نے خطِ نوری میں مجھے لکّھا

کہ گھر آتے ہوئے جو لوگ جنگل رک گئے تھے

کھمبیاں اُگ آئی ہیں ان کے بدن پر

ایسا ناہموار مصرع لڑکیوں نے خطِ نوری میں لکھا مجھ کو

تری ماں تجھ کو روئے

شہر جنگل ہو گئے ہیں

دھوپ میں آزار ہے

بارش جلاتی ہے

سمندر پوچھنے آتا ہے، کَے گھر رہ گئے ہیں

آسمانی گھنٹیوں کے شور میں کیسا لگے گا شورِ گریہ

گرد ساحل ریت کے طوفان میں کیسا لگے گا

لڑکیاں کیسی لگیں گی آئنوں کے سامنے ہنسی ہنساتی

قصرِ عالیشاں، منقّش بام و در، نقشین چوبی کھڑکیاں

گہرے سمندر کی طرف کھلتی ہوئی

اور شہر دریا بُرد ہونے جا رہا ہے

ابنِ مقنع تجھ کو روئیں

تیرے سارے ڈھور ڈنگر، بال بچے، بیویاں، لڑکے، کنیزیں

ایک جیتی جاگتی تہذیب

جس میں ہر شے اپنی غایت سے الگ ہے

گفتگو بازار کی شے ہے

کتابوں میں جو ہے، ہے

تری ماں تجھ کو روئے ابنِ مقنع

٭٭٭

 

 

 

 

 

عدالت نے زلیخا کو بلایا ہے

 

عدالت نے زلیخا کو بلایا ہے

ابویوسف پرانا چوبدار، اپنی طرف کا

جیب و دامن کی شکایت درج کرنے جا رہا تھا

گھر نہیں پہنچا

عدالت نے بلایا ہے

عدالت نے زلیخا کو بلایا ہے

زلیخا جانتی ہے پیش و پس دامانِ یوسف کا

محبت میں کہاں تک دستِ نوآموز کی حد ہے

زلیخا جانتی ہے

کچھ نہیں کہتی

عدالت میں

ابویوسف ہمیشہ کی طرح جی ہار جاتا ہے

زلیخا جیت جاتی ہے ہمیشہ کی طرح

ساری عدالت،

پورا قصہ جیب و دامن کا

ابویوسف کی ساری فوجداری

 

ابویوسف فقیہِ بے بدل عامل مہندس

رصد گاہوں کا رسیا

دشتِ غربت میں زلیخا وار پھرتا ہے

عدالت جانتی ہے، کچھ نہیں کہتی

زلیخا جانتی ہے

کچھ نہیں کہتی

ابویوسف کا دل سب جانتا ہے

کچھ نہیں کہتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں نے تحریر کیا

 

میں نے گرتی ہوئی دیوار پہ تحریر کیا

جس نے آثارِ صنادید لکھی ہو وہی اسبابِ بغاوت لکّھے

اس سے پہلے مگر اک رسمِ ملاقات بھی ہے

یہ بڑھاپے کی سزا ہے کہ جوانی کا عذاب

طشت میں پھول ہیں اور سر پہ سفر کا سورج

اور جو باقی ہے وہ عیّار کی زنبیل میں ہے

میں محلّات وعمارات سے تجرید کِیا

جس نے تاریخِ فرشتہ لکّھی

وہی دربارِ عزازیل کا قصہ لکّھے

خطِ کو فی میں لکھے شام کے بازار کا حال

نسخ میں فلسفہ و فکر کی تنسیخ لکھے

خطِ عارض میں لکھے حلقۂ گردن کی گرفت

اُسی گردن کی جو عیّار کی زنبیل میں ہے

میں نے زنبیل پہ تحریر کیا

جس نے آثارِ صنادید لکھی ہو وہی اسبابِ بغاوت لکّھے

٭٭٭

 

 

 

 

بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ ہرا جنگل ہے

 

بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ ہرا جنگل ہے

آسماں گیر درختوں نے نظر کی حد کو

روک رکّھا ہے کہ اب آنکھ زمیں پر اترے

بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ ہوا پاگل ہے

اسی موسم میں کسی شاخِ گرہ دار کے بیچ

وہ بدن جھول گیا

جس نے تلوار کو گردن میں حمائل نہ کیا

وہ بدن جھول گیا شاخِ گرہ دار کے بیچ

بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ کہانی نہ رہی

قصہ گر ختم ہوئے قصۂ طولانی سے

ہم نے گرتی ہوئی تہذیب کی مشکیں کس دیں

ہم اجل دیدہ، پدرسوختہ، آوارہ نصیب

ہم نکالے ہوئے، پھینکے ہوئے، بھاگے ہوئے لوگ

ہم جسے یاد کریں اُس کی قضا آتی ہے

ہم جسے یار کریں اُس کی خبر کوئی نہیں

بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ غنیمت ہے بدن

شاخِ گرہ دار کے بیچ

ورنہ ہم سوختہ جاں، شعلہ نصیب

ہم جسے یاد کریں اُس کی قضا آتی ہے

ہم جسے یار کریں اُس کی خبر کوئی نہیں

٭٭٭

 

اداس لڑکیاں

 

اداس لڑکیاں

اجل دریدہ و سحرزدہ ستم نصیب آئنے کے آس پاس لڑکیاں

اداس لڑکیاں

تمام رات آفتاب ان کے انتظار میں رکا رہا

کہ سو سکیں

تمام دن خزاں کی دھوپ ان کے گھر سے دور

خیمہ زن رہی

کہ تیز روشنی سے مضطرب نہ ہوں

نہیں گری کسی شجر سے کوئی شاخ ٹوٹ کر

اداس لڑکیوں کے صحن میں نہیں گری

کہیں سے ایک اینٹ بھی نہیں ہلی

سیاہ و سرخ بام و در

سفید پتھروں پہ زرد پانیوں کا عکس

اور آئنے کے آس پاس لڑکیاں

اداس لڑکیاں

اب ان کو ان کے گھر روانہ کیجیے

نشانِ راہ خود ہی چل پڑے تو پھر نشانِ راہ کس طرح بنے

یہ خانہ زاد عورتیں

اب ان کو ان کے گھر تُرنت بھیجیے

یہ زندگی کی سِل پہ پس چکیں تو رنگ آئے گا

عدم نصیب عورتیں عدم کا راستہ بتائیں گی

یہ آئنے کے اُس طرف گئیں تو آئنے کا ماجرا سنائیں گی

اداس عورتیں سفر کے راز لے کے آئیں گی

سفرنصیب عورتیں، اجل نشان عورتیں، عدم نژاد عورتیں

سو ایسا کیا ضرور ہے کہ ان کے قتل کی سزا بھی قتلِ عمد ہو

٭٭٭

 

 

 

 

مفاہمت ایک ویران راستہ ہے

 

ندیم ورّاق خطِ طومار میں لکھے تھا

کہ کھنچ گئی ہے بہت کہانی

اگرچہ انجام سامنے تھا

بحقِ سرکار ضبط میری متاعِ ہستی

ندیم ورّاق خطِ گل میں یہ لکھ رہا تھا

کہ بجھ گئی لالٹین

بارش بھی آنے والی ہے

رات کی نیند کے پرندے سیاہ جنگل میں چیختے ہیں

میں رنگ برساؤں گا زمیں پر

میں بادلوں کا سیاہ آندھی کا سرخ

بجلی کا نقرئی رنگ برساؤں گا زمیں پر

زمین پر آبلے پڑیں گے کہ پانیوں کے محل بنیں گے

میں خطِ عارض میں اپنے چہرے کے نیل لکّھوں گا آسمانی عبارتوں میں

میں وہ کہانی لکھوں گا جس کا انجام میں نے پہلے ہی لکھ دیا ہے

میں بے حسی کی زبان میں

لمس کو باصرہ پہ حاوی نہیں لکھوں گا

میں نیند لکھوں تو لوگ خوابوں میں ڈر کے اٹھیں

میں خطِ معکوس میں لکھا ہوا حرفِ ربط

جو آئنہ پڑھے تو غبار ہو جائے

خطِ معکوس میں لکھے تھا ندیم ورّاق

خطِ معکوس میں لکھے تھا

مفاہمت زندگی کا ویران راستہ ہے

کہ میزکرسی کے ساتھ اک اور میزکرسی

یہ میں ہوں یہ میرا دوست جس پر بہت بھروسا

٭٭٭

 

 

 

 

جان کہانی بند کرو

 

جان کہانی بند کرو دروازہ گرنے والا ہے

کچی بیل نے تھام رکھا ہے چیڑ کے بھاری دروازے کو

زرد گلاب نے روک رکھا ہے جنگل کو دیوار کے ساتھ

اتنے سارے زرد گلاب

یہ گھر ہے، ایسابھی گھر ہوتا ہے

کوہِ سفید پر جست کی خالی مسجد

ڈھیروں برف کے پھول

شہزادی کو تکلے کا اک گھاؤ بہت تھا

سو گیا سارا شہر

کہانی کا در کھلا ہوا ہے

کوٹ کشن میں رادھا روز اِک شو کرتی ہے

جان کہانی بند کرو

جب شہزادے قتل ہوئے تھے

تم نے پھول نہیں بھیجے تھے

اک تصویر روانہ کی تھی

اور پھر رقص میں شرکت کرنے چلے گئے تھے

اب آئے ہو

پوچھتے ہو قصہ اس گھر کا جس میں زرد گلاب تھے

اور دروازہ گرنے والا تھا

جان کہانی بند کرو

٭٭٭

 

 

 

 

گلابی لڑکیاں

 

گلابی لڑکیاں جاڑوں کی لہریں

بدن کامل جہانِ آرزو ہے

بہت کھوئے گئے لوگ اس نگر میں

گلابی لڑکیاں نیلے گھروں میں شوخ رنگوں سے

ہدایت نامۂ آوارگی تحریر کرتی ہیں

بہت سنسان راتوں میں بہت انجان سوتی ہیں

گلابی لڑکیاں جاتی نہیں گھر سے

مگر دوچار گھر دوچار گلیاں

چند زیریں راستے

ناپختہ دیواروں کی میلی اوٹ میں

اپنے کیے پر مطمئن

گوری گلابی لڑکیاں

کچے مکانوں میں بہت آسودہ رہتی ہیں

اب ان کے ساتھ چلیے اور سو رہیے

محبت گھرگرھستی کے پرانے چوکھٹے میں دیر تک محفوظ رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وصل قسمت میں نہیں

 

صاحب الزنج امیر الامرا شیخِ حزیں

وصل قسمت میں نہیں

میاں مسکین کے کوچے میں کہیں

عشق کا نام نہیں

ہجر کو لوگ ملاقات کا ڈر کہتے ہیں

وصل سے بھاگتے ہیں

یہ اماوس کی پہر رات سے جاگی ہوئی رات

خود کو ہم پایۂ مہتاب کہا چاہتی ہے

اور سرِشام ہی سو جاتی ہے

گھر کا گھر جانتا ہے آمدِ باراں کے طفیل

ایک سیلابِ بلا ابرِ گہر بار میں ہے

پھر بھی دل ساعتِ باراں میں بہت روتا ہے

صاحب الزنج امیرالامرا شیخِ حزیں

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

وصل قسمت میں نہیں

اور دل ساعتِ باراں میں بہت روتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

زینت محل یہ وقت ملاقات کا نہیں

 

زینت محل یہ وقت ملاقات کا نہیں

شہزادے قتل ہو گئے، شہزادیاں گئیں

جاٹوں نے ٹاٹ ڈال کے ان کو دکھائی آگ

اب جو نہیں ہے قصہ کہانی میں آئے گا

زنیت محل چراغ میں بتی پڑی نہیں

اور سو گیا ہے گھر

اب جو اٹھے گا بھوک سے کیا زہر کھائے گا

دروازہ توڑ گھر میں گھس آئے ہیں مرد و زن

اب کون تیرے سننے سنانے میں آئے گا

زینت محل یہ رات اندھیرے میں جائے گی

’ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے ‘

شہزادہ ذی وقار تو جنگل کو جائے تھا

شہزادی پائیں باغ کے جھولے میں مر گئی

زینت محل چلو کہ چراغی کے واسطے

ہم سرزمینِ بلخ و بخارا اٹھا کے لائیں

اک خالِ سبز ہے رخِ گلنار پر غضب

اک طوفِ کوے مرگ و ملامت ہے جاں کے ساتھ

اک اسپ ہے سوار سے آگے بڑھا ہوا

زینت محل تمام خرابی ہے دل کے ساتھ

دل گرد بادِ سیلِ قیامت، بلائے زرد

اک اسپ ہے سوار سے آگے بڑھا ہوا

اک تیرہ شب ہے اور گھنے جنگلوں کی ہے

زینت محل یہ رات یہ درماندگی کی رات

زینت محل یہ رات ملاقات کی نہیں

یہ وقت ہے شکستنِ گل ہائے ناز کا

’یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے ‘

’گلشن میں بندوبست برنگِ دگر ہے آج

قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج‘

٭٭٭

 

 

 

 

کلہاڑی آج تک پہچانی جاتی ہے

 

کلہاڑی اپنے پھل سے اور سرسوں پھول سے پہچانی جاتی ہے

سو ہم نے کچھ یہاں کھویا نہ پایا

عدالت زادۂ زنجیر نے مجھ کو بنایا آدمی زادہ

سو میں جیسا بھی ہوں اپنی طرح ہوں

کہ جنگل آگ سے اور آگ اپنی ہار سے پہچان پاتی ہے

کہ ہر شے جس طرح پہلے کہیں تھی پھر وہیں ہو گی

محبت یار کو لوٹائی جائے گی

عداوت بھائی کو، اور دوستی اپنی جگہ محفوظ ہو گی

صرف میں پتھر کی صورت

اسے بیگانگی کی آگ دینا

کلہاڑی اپنے سر سے اور لڑکی پاؤں سے پہچانی جاتی ہے

سو اس کو روک لیتے ہیں زمیں زادے

خود اپنے بازوؤں میں

پاؤں سے نیچے دبا کر

خاک پر ہم اس کا بڑھنا روک دیتے ہیں

مگر یہ منھ چڑھی، مٹی اڑاتی کھیلتی

کچی منڈیریں پھاندتی جاتی ہوئی لڑکی کسی سے کب رکی ہے

محبت اصطلاحاً چاہنا ہے

اور کس نے کس کو چاہا

کلہاڑی جانتی ہے

یا جو اپنے گھر نہیں پایا گیا

جس رات بارش ہو رہی تھی

اور جنگل رقص میں تھا

تیز بوچھاروں کی زد میں

دو بدن پاگل ہوئے تھے

جب کلہاڑی نے انھیں دو بار کاٹا

تیز بارش، دھند، چادر، چاردیواری

کلہاڑی نے مگر سب کچھ بہت تفصیل سے دیکھا

کلہاڑی اپنا منصب جانتی ہے

ہر اپنا فیصلہ نافذ بھی کرتی ہے

یہ کچی شاخ والی، سبک، روشن، ہلالی، نرم پتری

بانس سے پیوستہ

کافی ہے کسی عورت کے دل پر اپنا پہلا حرف لکھنے کو

کلہاڑی نے مگر جنگل نہیں دیکھا

کچی شاخ والی اوڑھنی کے ساتھ آویزاں کلہاڑی جیسی شے نے

آج تک جنگل نہیں دیکھا

درختوں میں ہزار آسیب

سوکھی جھاڑیوں میں آگ

مٹی میں نمک

سَو مسئلے ہیں

کلہاڑی نے ابھی جنگل نہیں دیکھا

کلہاڑی بس اسی سے آج تک پہچانی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ابومسلم خراسانی کے لیے ایک نظم

 

ابومسلم خراسانی

اب آدھی رات ہے، گھر جا کے دیکھیں

کس کا آنا رہ گیا ہے

سو دھماکے دس نمازی ایک مسجد

ریاضی کی مساواتیں یہ مجھ سے حل نہیں ہوں گی

ابومسلم خراسانی

ابومسلم ہماری آنکھ کی شہتیر سے وہ گھاس کا تنکا بھی بھاری تھا

جو آسودہ ہوا شبنم سے

جب اس کی طراوت گھاس سے نیچے نہیں پہنچی

تہہِ خاک اس قدر آسودۂ افلاک

ابومسلم خراسانی

ابومسلم خراسانی چراغِ گل رخاں لاؤ

بیاضِ دلبراں لاؤ

یہ کیا بسیارگوئی

سو دھماکے دس نمازی ایک مسجد بیس لاشیں

ریاضی کی مساواتیں، ابو موسیٰ سے پوچھو، کیسے حل ہوں گی

کہ ہم کُل آٹھ تھے

دو گھر گئے

دو راہ میں ہیں

دو کا آنا رہ گیا ہے

دو کسی کروٹ نہیں سوتے

طراوت گھاس کی جاتی نہیں محراب سے چھت تک

ابومسلم یہ ہم دو اور ہیں جن کو مساواتیں بنانی ہیں

سو اس کو یوں بناتے ہیں

ابومسلم خراسانی برابر مَیں

ابومسلم خراسانی برابر مَیں ابومسلم خراسانی

برابر مَیں

کہ آخر میں عدد بس ایک رہ جاتا ہے ابجد کے طریقے سے

٭٭٭

 

 

 

 

چٹان پر ہنس رہی ہے لڑکی

 

چٹان پر ہنس رہی ہے لڑکی

سنہرے بالوں سے کھیلتی ہیں

جنوب کی رس بھری ہوائیں

شمال کے برف زار اندر

چٹان پر ہنس رہی ہے لڑکی

میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں

تمام عالم کے خواب

باتیں جہان بھر کی

کنارِ دریا میں اس کو مشعل بدست بدمست دیکھتا ہوں

یہ شہر جلتا ہوا نہ رہ جائے، دھیان رکھنا

یہ ایک عالم کو راکھ کرتا ہوا نہ رہ جائے

دھیان رکھنا

چٹان پر ہنس رہی ہے لڑکی

اور ایک عالم لرز رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے

(افتخار جالب کے لیے ایک نظم)

 

پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے جن کے ہوتے

دھوپ آنگن میں اتر آتی تھی بادل کی طرح

نرم، خوش رنگ، خوش اطوار

بہت دیر ہوئی

اب کہیں کوئی نہیں

پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے آباد جزیروں کی طرح

جن کو دریافت کیا جاتا تھا

جن کے آباد خرابے میں رہا جاتا تھا

پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے خاموش اداس

ایک سو بیٹھ گئے، صبح ہوئی، شام ہوئی

حلقہ زن بیٹھ گئے شعلۂ ناپید کے بیچ

پھر سمندر سے گرجتی ہوئی بارش آئی

اور منڈیروں کے تلے بیٹھنے والا لڑکا

خاک میں خاک ہوا

کھیتیاں ڈھے گئیں، بارش نے زمینیں کھا لیں

دل محرّر ہے سو کاغذ پہ مکاں رکھتا ہے

کوئی رویا نہ ہنسا

کہیں آیا نہ گیا

پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے ہنستے ہوئے، روتے ہوئے،

آباد، خراب

اے رفیقِ شبِ آزار و الم

پہلے ہر شہر میں کچھ لوگ ہوا کرتے تھے

اب کہیں کوئی نہیں

دھوپ سے رنگ اڑا جاتا ہے میدانوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

حسن کوزہ گر پر ایک اور نظم

 

حسن کوزہ گر عشرتِ خواب سے بے طرح مست اٹّھا

نیا دن نئی بادشاہت

میں عطّار یوسف کی دکّان سے دیکھتا تھا

حسن کوزہ گر بے طرح مست و شاداں

(محبت زدہ لوگ پہلے تو ایسے نہیں تھے )

خیابانِ حافظ کے ہر کاخ و کو پر نظر ڈالتا

حجلۂ نیم روشن کے نیچے

ذرا دیر رکتا

زمین و زماں دست و بازو میں جیسے بھرے

مست فرحاں حسن کوزہ گر

عشرتِ خواب سے مست اٹّھا

کہاں کی جہاں زاد، کیسی محبت

یہ تنّور کی پھونکنی زندگی

سانس لینے کے مشکل عمل میں

یونہی خالی خالی گزر جائے گی

حسن کوزہ گر کو خبر دو

حسن کوزہ گر شہرِ بے نام کا مرد

جس کی جوانی کا ہر دن نیا دن نئی بادشاہت

خیالوں کے جنگل کی خودرو محبت

کفِ پا سے لے کر سرِ خود نِگر تک

حسن کوزہ گر سے حسن کوزہ گر تک

جہاں زاد کے عشق میں ہے

حسن کوزہ گر کو خبر دو

تنوروں میں مٹی بھری ہے

جہاں خوابِ عشرت کا سامان تھا

نیند پاگل ہوا بن کے پھرتی ہے

آنکھوں کے روزن میں مٹی ہے

میں سوختہ بخت دکّانِ عطّار یوسف

سے سب دیکھتا تھا

حسن کوزہ گر کم سے کم ایک شب

نیند سے بے طرح مست فرحاں نہ اٹّھے

تو اس کو خبر ہو

کہاں کی جہاں زاد، کیسی محبت

تنوروں میں مٹی بھری ہے

حسن کوزہ گر سوختہ بخت سچ کہہ رہی تھی

یہ کیسا خیال آفریں عشق تھا

جب حسن کوزہ گر

اپنے کچے گھروندے سے نکلا تو وحشت زدہ

خاک بر سر، بہت سوختہ

اک تصور میں اڑتا ہوا

جیسے تاریخ اس کو بہائے لیے جا رہی ہو

حسن کوزہ گر ایسا ہوتا نہیں ہے

کہیں کوئی لکھتا نہیں داستاں ان گھروں کی

جہاں لوگ غفلت میں سوتے ہیں

وحشت میں اٹھتے ہیں

بے حال و بدمست

دامن کشیدہ، تخیل کی جولانیوں سے

بہت دور، ساحل کی بھیگی ہوئی ریت پر آرمیدہ

حسن کوزہ گر، خاک بر سر، زمیں زاد

کچے گھڑے کی طرح

سرد پانی میں گھلتا ہوا

سرد پانی میں تحلیل ہوتی ہوئی زندگی

حسن کوزہ گر کی گواہی

کہ دریا تو رکتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عزیزی ابنِ یعقوبی

 

عزیزی ابنِ یعقوبی

زمیں جب گھومتی ہے اپنے محور پر

تو دن اور رات ہوتے ہیں

کبھی سورج نہیں ہلتا

کسی کی رات کو دن سے بدلنے

یا کسی کے روزِ روشن کو شبِ اندیشہ و آزار میں تبدیل کرنے

سو بعقوبہ میں جو کچھ ہو رہا ہے

عزیزی ابنِ یعقوبی

نتیجہ ہے کسی ایسی ہی خواہش کا

کہ سورج رات دن چاروں طرف سے گھوم کر

روشن کرے ہم کو

جو اپنی ضد پہ قائم ہیں

کہ سورج کیوں نہیں ہلتا

اندھیرا پھیلتا جاتا ہے کیوں اس کنجِ عزلت میں

عزیزی ابنِ یعقوبی

بہت سا گھومنا پڑتا ہے تب جا کر

ذرا سی روشنی ملتی ہے دنیا کو

کبھی سورج نہیں ہلتا، عزیزی ابنِ یعقوبی

٭٭٭

 

 

 

 

ہم وہ تھے

 

ہم وہ تھے جنھوں نے اپنی آنکھیں بیچ کر پلکیں خریدیں

اور بازو بیچ کر بیلوں کی جوڑی

اور جوڑی بیچ کر اک اسپِ تازہ

اور گھوڑے بیچ کے سوئے

سمندر لوگ تھے اور دکانِ کوزہ گر میں چھپ کے رہتے تھے

سو مٹی کھا گئی ہم کو

 

یہ دل اک طفلکِ شمشیرزن

شہزادۂ آفت رسیدہ

کاش اس کو کوئی سمجھاتا

محبت چاہتوں کے موج میلے میں

کسی کو ڈھونڈ لینے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بات صرف اتنی ہے

 

بات صرف اتنی ہے

کل جہاں سمندر تھا، اب وہاں چٹانیں ہیں

اس چٹان کو سننا

تم کو یاد آئے گی

ساحلوں کی طغیانی

سخت اور پتھریلی، کھردری چٹانوں سے

دور ہٹ گیا پانی

دور ہو گیا پانی

یہ تو خیر ہونا تھا

سو یہ ہو رہا آخر

شاعروں کو اس میں بھی ایک دن نظر آیا

اک جدائی کا عالم

اس طرح نہیں ہوتا

اس طرح کہ ہر منظر

ہجر کے تکلف سے

معتبر نہیں ہوتا

یہ علیحدگی جاناں، ہجر سے الگ کچھ ہے

 

بات صرف اتنی ہے

کل جہاں پہ ہم تم تھے

اب وہاں پرندوں نے

گھونسلا بنایا ہے

نرم اور لچکیلا سلسلہ بنایا ہے

یہ بناؤ کا عالم شوق سے الگ کچھ ہے

تم سنگھار کرتے تھے بارشوں کے موسم میں

بارشوں کے موسم میں

جب گھنی سیاہی ہو

پیڑ کا اکھڑ جانا

ڈوبتے مسافر کو دکھ بھرا نہیں لگتا

اک شکست کے آگے اک شکست کا رونا مرثیہ نہیں ہوتا

ہر گزشتنی جاناں، واقعہ نہیں ہوتا

بات صرف اتنی ہے

بارشوں کے موسم میں دو شکستہ جسموں کا

پیڑ سے کہیں لگ کر ایک ساتھ ہو جانا

وصل سے الگ کچھ ہے

شاعروں سے کیا پوچھیں

شاعروں کو کیا معلوم

بات صرف اتنی ہے

کل جہاں سمندر تھا، اب وہاں چٹانیں ہیں

٭٭٭

ماخذ

http://www.adbiduniya.com/2016/06/ret-aaina-hai-by-muhammad-anwar-khalid.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید