FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

ترکی حور

 

 

               آغا حشر کاشمیری

مشمولہ ’اردو پلے‘ مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق

 

 

 

 

 

 

 

ڈراما ترکی حور ۱۹۲۲ء؁ میں میڈن تھیٹرز لمٹیڈ کی  اوریجنل پارسی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے تصنیف کیا گیا۔

 

پلاٹ  : (قسطنطنیہ کے ایک امیر کبیر فرید بے کا داماد عارف، امیر زیاد کی صحت میں مے نوشی  اور   بے راہ روی کا عادی بن جاتا ہے۔ بدمستی کے عالم میں اپنی بیوی رشیدہ  اور   خسرو فرید بے کے ساتھ بدکلامی کرتا ہے۔ فرید بے اس پر خفا ہو کر عارف کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے لیکن نیک  اور   وفا شعار بیوی اس حالت میں بھی شوہر کا ساتھ دیتی  اور   باپ کو چھوڑ کر عارف کے ساتھ ہوٹل میں رہنے لگتی ہے۔ ایک دن عارف ہوٹل کے منیجر سے کسی بات پر لڑ پڑتا ہے  اور   پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر ہتھکڑی پہننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ عارف کو نمک حلال بوڑھا ملازم ایاز اس کے ضمانت کا انتظام کر کے حوالات سے چھڑاتا ہے۔ عارف کی آوارگی  اور   فضول خرچی بڑھتی جاتی ہے  اور   آخرکار  بدخواہ و خودغرض دوستوں ناظم  اور  غانم کے مشورے سے ساری جائداد کوڑیوں کے مول فروخت کر دیتا ہے۔ یہ کل رقم بری صحبت میں برباد ہوتی ہے۔ اس عرصہ میں وفادار ایاز ۲۵ ہزار روپیہ کی رقم خاندان کو تباہی سے بچانے کے لیے عارف کی تجوری سے غائب کر لیتا  اور  کہیں چھپا دیتا ہے مگر  عارف سوتے سے جاگ اٹھتا ہے  اور  ایاز کو پکڑ کر روپیہ طلب کرتا ہے۔ اس کے انکار کرنے پر ایاز  کو ہنٹروں سے مارتا ہے  اور   پھر پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس طرح بے گناہ ایاز کو چھ ماہ کے لیے قید با مشقت کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

 

          عارف کا دوست  امیر زیاد، رشیدہ کو دھوکے سے بلا کر اس کی عزت پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر  وہ مردانہ وار مقابلہ کرتی  اور  آبرو بچا کر وہاں سے نکل جاتی ہے۔ رشیدہ کا نیک دل بھائی بہن کو سمجھاتا ہے، کہ اس آوازہ منش شوہر کا ساتھ چھوڑ کر مصائب برداشت کرنے سے باز آئے  اور   ہمارے ساتھ آرام سے رہے۔ رشیدہ انکار کرتی ہے۔ عارف انور کو رشیدہ سے باتیں کرتے سن لیتا ہے  اور  اسے سخت سست کہہ کر گھر سے نکال دیتا ہے۔ بعد میں انور بہن کی مصیبتوں کو دیکھ کر عارف سے چوری چھپے رشیدہ کو خرچ کے لیے پانچ سو روپے دیتا ہے لیکن عارف ان روپوں کو دیکھ کر رشیدہ کے چال چلن پر شبہ کرتا ہے۔ اس دوران عارف ساری پونجی لٹا کر مفلس و قلاش ہو جاتا ہے  اور رشیدہ محلہ والوں کے کپڑے سی کر تنگی ترشی سے گھر کا خرچ چلاتی ہے۔ عارف بیوی پر چھری سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیتا ہے، وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ایک لڑکی لیلیٰ کی مدد سے اس موقعہ پر پولیس بلا لی جاتی ہے۔ عارف کو گرفتار ہوتا ہے۔ مگر  رشیدہ ہوش میں آ کر پولیس کو بیان دیتی ہے کہ مجھے عارف نے چھری نہیں ماری، ترکاری کاٹتے ہوئے لگ گئی ہے۔ عارف کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ اس اثنا میں انور آ کر عارف کو پانچ روپیہ کے راز سے آگاہ کرتا  اور  لعنت ملامت کرتا ہے۔ عارف کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ بیوی سے معافی مانگتا  اور  بد چلنی سے توبہ کرتا ہے۔ اس موقعہ پر ایاز جیل سے رہا ہو کر آتا  اور   ۲۵ ہزار روپیہ کی رقم جواس نے کہیں زمین میں دفن کر رکھی تھی مالک کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔ اس کھیل کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں)

 

 

 

 

ایکٹ پہلا

 

سین دوسرا

محل فرید بے

 

(رشیدہ مغموم ہے ایاز اس کے پاس کھڑا ہے۔ )

ایاز     :شب بھرکا جاگا ہوا چاند ستاروں کی روشنی گل کر کے سو گیا۔ رشیدہ بیٹی ساری رات آنکھوں میں گزار دی۔

رشیدہ  :ایاز بابا!انتظار کرتے کرتے ستاروں کی آنکھیں پتھرا گئیں مگر  وہ ابھی تک نہ آئے۔

ایاز     :شام سے صبح ہو گئی۔ کب تک جاگو گی۔ جاؤ ذرا آرام کر لو۔

رشیدہ  :آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا، وہ رات کو کبھی گھر سے باہر نہیں رہے۔

ایاز     :میری گود میں پل کر جوان ہوئے ہیں، مجھے ان کی نیکی  اور   شرافت پر بھروسہ ہے۔ گھبراؤ نہیں، کوئی کام ہو گیا ہو گا۔

رشیدہ  :بابا! مجھے جاگتے میں ڈراؤنے خواب نظر آ رہے ہیں۔ جی میں ہول پھرتے ہیں، آخر وہ کہاں ہیں ؟

ایاز     :کل شام گھر سے کس کے ساتھ گئے تھے ؟

رشیدہ  :غانم کے ساتھ۔

ایاز     :کیا کہوں، غانم آپ کا دور کا رشتہ دار ہے مگر  مجھے اس کا چال چلن ٹھیک نہیں لگتا۔

رشیدہ  :وہ تو اسے رشتہ دار ہی نہیں اپنا سب سے بڑا خیر خواہ دوست بھی سمجھتے ہیں۔

ایاز     : (طنزیہ) دوست کے پردے میں دشمن۔ ۔ ۔ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ عارف میاں کو خبردار بھی کر چکا ہوں کہ یہ غانم دوستی کے غلاف میں چھپی ہوئی تلوار ہے۔ آج جھک کر ملے گا  اور   کل گلا کاٹ کر الگ ہو جائے گا۔

(فرید بے آتا ہے۔ )

فرید بے        :بس آج سب ختم ہو گیا۔ عزت آبرو خاک میں مل گئی۔

رشیدہ  : (گھبرا کر کھی ہو جاتی ہے) ابا جان! کیا ہوا؟ بتائیے ؟

فرید    :کیا نہیں ہوا۔

رشیدہ  :وہ کہاں ہیں ؟ان کی کوئی خبر؟

فرید    :میں دیوان خانہ کی کھڑی سے سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا کہ ایک کار دروازے پر آ کر رکی۔

رشیدہ  : اور ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ ؟

فرید    :کار کا پٹ کھلا۔ ۔ ۔ اندر سے پہلے غانم اترا،  اور  پھر اس نے ہاتھ پکڑ کر عارف کو اتارا۔

رشیدہ  :یا اللہ خیر۔ ۔ ۔ ان کو کیا ہوا؟

ایاز     :وہ آ گئے حضور؟

فرید    :ہاں۔ ۔ ۔ آ گیا۔ ۔ ۔ مگر  کس حال میں ؟

رشیدہ  : (گھبرا کر) کس حال میں ؟ان کے دشمنوں کو کیا ہوا؟

فرید    :عقل سے خارج۔ ۔ ۔  نشہ میں چور۔

رشیدہ/ایاز     : (ایک ساتھ) کیا نشہ میں ؟

فرید    :بد ذات غانم کی دوستی کا پہلا پھل۔

رشیدہ  :ابا جان!وہ ایسا نہیں کر سکتے، شاید آپ کو شبہ ہوا ہے۔

(عارف لڑکھڑاتا ہوا اندر آتا ہے سب دیکھ کر رنج  اور  حیرت سے اسے تکتے ہیں۔ عارف لڑکھڑاتا ہے۔ ایاز آگے بڑھ کر اسے سنبھالنے لگتا ہے۔ )

ایاز     :میرے آقا!

عارف  : (نشہ میں) ہٹ جاؤ۔

فرید    :افسوس!ان آنکھوں کو یہ دن بھی دیکھنا تھا۔

رشیدہ  :ہائے میرے اللہ یہ کیا۔

عارف  : (ہنس کر) سب کچھ گھوم رہا ہے۔ زمین آسمان۔ ۔ ۔ گھر۔ ۔ ۔ تم سب۔

فرید    :عارف۔ مجھے امید تھی کہ دنیا میں ٹھوکریں کھانے کے بعد اب تم سنبھل کر چلو گے۔ مگر  آج معلوم ہوا کہ بربادی کا آخری راستہ بھی اختیار کر لیا۔

عارف  :جی ہاں !میں نے ریس میں دولت لٹائی۔ لیکن آپ کی نہیں وہ دولت میری تھی، بزرگ سمجھ کر معاف کرتا ہوں، آئندہ ایسے سخت الفاظ نہ کہئے گا۔

رشیدہ  :یہ آپ کسے کہہ رہے ہیں ؟

عارف  :آپ کے والد بزرگوار کو۔

(ہنستا ہے۔ )

فرید    :کیا کہوں۔ ۔ ۔ کن لفظوں میں اس نالائقی پر ملامت کروں۔ نادان! بد چلن دوستوں کے نرغے میں تو نے عزت  اور  شرافت ڈبوئی۔ اپنی ہی نہیں اپنے ساتھ اس بے زبان کی زندگی بھی برباد کی۔

(رشیدہ روتی ہے۔ )

عارف  :کیا فرمایا۔ میں تو کچھ نہیں سمجھا۔

فرید    :میں نے شریف خاندان کا نیک فرد سمجھ کر اس کا ہاتھ تیرے ہاتھ میں دیا تھا۔ اگر جانتا کہ تو ایک دن دولت، عزت، شرم و حیا سب سے مفلس ہو جائے گا تو۔

عارف  : (کھڑا ہوتا ہے) تو مجھ سے شادی کرنے کے بدلے کسی سونے کے بت کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دیتے۔

رشیدہ  : (چیخ کر روہانسی آواز میں) عارف۔ ۔ ۔ ہوش میں آؤ۔

فرید    :ہوش کھو چکا ہے۔ نہ زبان قابو میں ہے نہ دماغ۔

ایاز     :عارف میاں ! ہوش میں آئیے۔ یہ آپ کے بزرگ ہیں۔

عارف  :میں رشتے  اور  بزرگی کا لحاظ کر رہا ہوں، انھیں اپنی عزت کا پاس ہے تو خاموش رہیں۔

فرید    :خاموش ہی رہنا ہو گا، یہ حالت نہ دیکھ سکتا ہوں نہ برداشت کر سکتا ہوں، مگر  ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ زندگی کے درخت پر زہر چھڑکنے سے باز آ۔

(جاتا ہے۔ )

(عارف ہنستا ہے۔ )

 

 

 

ایکٹ دوسرا

 

سین چوتھا

ہوٹل کا کمرہ

 

 (رشیدہ خاموش غمگین بیٹھی نظر آتی ہے۔ پھر اٹھ کر کھڑکی کی طرف جاتی، باہر دیکھتی  اور   مایوس ہو کر پلٹتے ہوئے کہتی جاتی ہے۔ )

 

رشیدہ  :’’زبان تھک گئی، لفظ ختم ہو گئے۔ آنکھوں کے چشمے آنسو بہا بہا کر سوکھ گئے، لیکن افسوس عارف نظر اٹھا کر اپنے خوف ناک انجام کی طرف نہیں دیکھتے۔ ابھی تک گھر نہیں آئے۔ جانے اس وقت کہاں ہوں گے۔ کوئی آ رہا ہے۔ شاید آ گئے۔ انھی کی آواز۔ یہ کس سے جھگڑا کر رہے ہیں۔ ‘‘

(عارف  اور  انور داخل ہوتے ہیں۔ )

عارف  :اتنی دیر سے کان کھاتے رہے۔ کہہ دیا کہ میں اپنے برے بھلے کو خود سمجھتا ہوں۔ اب زبان سے چھری کٹاری برسانا بند کرو۔

انور    :بھائی جان نصیحت اپنوں ہی کوکی جاتی ہے۔

عارف  :یہ نصیحت کا نہیں اعتراض  اور  حملے کا لہجہ ہے۔

انور    :آپ کی رائے بھی آپ کی طرح غلطی کے راستے پر ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں محبت سے۔ دل کے دکھ سے اوب سے کہتا ہوں۔

عارف  :جب تمہارے والد نے داماد  اور  بیٹی سے قطع تعلق کیا تھا، اس وقت آ کر انھیں نصیحت نہیں کی تھی، آج مجھے سمجھانے آئے ہو۔ میری نظر میں تمہاری نصیحت اتنی ہی حقیر ہے، جتنے تمہارے باپ بے رحم!

رشیدہ  :عارف!

انور    :آپ میرے بزرگ والد کی شان میں سخت  اور  کڑوے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔

عارف  :سچے الفاظ کڑوے ہی ہوتے ہیں۔

انور    :میرے صبر کا امتحان نہ لیجئے۔

عارف  :میں اوپر سے فرشتہ  اور  اندر سے شیطان نہیں ہوں، میرا دل  اور   زبان ایک ہے، اگر تم صاف  اور  سچ سن سکتے ہو تو یہاں ٹھہرو، نہیں سن سکتے تو۔ ۔ ۔

رشیدہ  :یہ کیا کہہ رہے ہو  اور  کس سے کہہ رہے ہو؟

عارف  :رشیدہ میں دولت لٹاتا ہوں اپنی، جوا  اور  سٹہ کھیلتا ہوں اپنے پیسہ سے مجھ میں دنیا بھرکی برائیاں ہیں، اگر تم کو اس برے شوہر کے ساتھ جینا مرنا ہے تو جس طرح باپ کو چھوڑ دیا اسی طرح آج بھائی کو بھی چھوڑ دینا ہو گا۔

رشیدہ  :میرے بھائی کا قصور؟

عارف  :شوہر کا حکم!

انور    :رشیدہ!یہ باپ سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے، ابھی اس سے بھی بد تر دن  اور   سخت حکم سنو گی!

عارف  :تم محبت کو نفرت کا سبق پڑھا رہے ہو، میں کہتا ہوں یہاں سے چلے جاؤ۔

رشیدہ  :بھائی جان! جو نصیب دکھائیں گے وہ دیکھنا ہو گا۔

انور    :بدنصیب بہن!مصیبت آنے سے پہلے انسان کی عقل خراب ہو جاتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ایک دن یہ دیوانہ پن اس خاندان کی شرم، آبرو ڈبو کر تمہیں بھی اس گھر سے نکال باہر کرے گا۔

رشیدہ  :بھائی!عورت بیاہ کا جوڑا پہن کر شوہر کے گھر میں آتی ہے،  اور  کفن پہن کر شوہر کے گھر سے باہر ہوتی ہے۔

انور    :اچھا تو خدا کی مرضی۔ تم آنے والی مصیبتوں پر رونا  اور  بدقسمت باپ بھائی تمہاری بدنصیبی پر روئیں گے۔

(انور چلا جاتا ہے  اور رشیدہ رونے لگتی ہے۔ )

عارف  :آنسو بہا رہی ہو۔ بھائی سے جدا ہونے کا اتنا غم  اور  ان کے ہاتھوں شوہر کی بے عزتی کی کوئی پرواہ نہیں۔

رشیدہ  : (آنسو پونچھتے ہوئے) یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟

عارف  :ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہوں۔

رشیدہ  :خدا کے لیے ذرا انصاف کیجئے آپ کے حکم  اور  آپ کی عزت پر میں نے باپ، بھائی، اپنے بیگانے سب کا ساتھ قربان کر دیا  اور  اب بھی آپ یہ سوچتے ہیں ؟

عارف  :پھر دکھ کا ہے کا ہے ؟ہنسو! خوش رہو! بلائیں ٹلیں۔

(ہنستا ہے۔ )

رشیدہ  : (تلملا کر مضمحل انداز میں مسکراتی ہے) میں بہت خوش ہوں۔

(ایاز آتا ہے۔ )

ایاز     : (عارف سے) حضور!یہ کیا؟ خود میاں انور سے سنا، پھر بھی یقین نہیں آتا۔ کیا آپ نے سچ مچ اپنے بھائی  اور  ہمدرد کو گھر میں آنے سے منع کر دیا؟

عارف  :ہاں !وہ اسی سلوک کے قابل ہیں۔

ایاز     :افسوس!آپ اپنے سچے خیرخواہوں، بزرگوں، عزیزوں کی نصیحت سے برا مانتے ہیں۔ جا گئے، خدا کے لیے جاگیے۔ باپ دادا کا مکان  اور   باغیچہ بیچ کر سوا لاکھ آئے تھے ان میں سے بھی چند دنوں میں صرف پچیس تیس ہزار باقی رہ گئے ہو ں گے۔ یہ بھی خدانخواستہ ان یار مار ساتھیوں کے غلط مشوروں سے ختم ہو جائیں گے۔

عارف  :تمہاری بلاسے۔

ایاز     :میرے منہ میں خاک، اس کے بعد باقی زندگی کس سہارے سے کٹے گی۔ یہ دولت کی جونک، دسترخوان کے کتے، دوست آشنا سب منہ پھیر کے بھاگ جائیں گے۔ عزت  اور  چین دونوں خطرے میں ہیں۔ اللہ کے واسطے (ہاتھ جوڑ کر) اب بھی مان جائیے بڑے حضور  اور   انور میاں کو منا لائیے  اور  ان کے مشورہ سے کوئی اچھا کاروبار کر لیجئے۔

عارف  :بکو مت! میں سٹے کے سنہری کاروبار سے اپنی کھوئی دولت دوبارہ پیدا کرنا چاہتا ہوں،  اور  میرے ہمدرد، میرے غم خوار دو ست اس کوشش میں میرے ساتھ ہیں، مجھے کل کی کوئی فکر نہیں۔

(جاتا ہے۔ )

رشیدہ  :جو تھا غلطی سے کھو چکے  اور  جو رہ گیا ہے وہ بھی غلط رائے  اور   جھوٹی امید میں کھو دینا چاہتے ہیں۔

ایاز     :بہو بیگم، دعا کے سوا کوئی بس بھی تو نہیں۔

رشیدہ  :ایاز بابا۔ ۔ ۔ تم گھرکے بزرگ ہو۔ خاندان کے خیرخواہ ہو۔ ۔ ۔  بچاؤ۔ اس تباہی  اور   مستقبل کی تاریکی سے بچاؤ۔

ایاز     :انھوں نے بزرگوں کی نصیحت  اور  ادب سے منہ پھیر لیا۔ میری التجائیں ٹھکرا دیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

رشیدہ  :جس طرح ہو سکے یہ بچی کھچی پونجی بچاؤ۔

ایاز     :اگر قسمت مہربانیوں کی قیمت مانگتی ہے تومیں تمہاری  اور  عارف میاں کی بہتری کے لیے اس دنیا کی کمائی ہوئی ساری نیکیاں  اور  اس دنیا کی جنت نذر کرنے کو تیار ہوں۔ میری بچی! کہو میں کیا کروں ؟

رشیدہ  :میں کیا بتاؤں، جو ممکن ہو، جو تم سے ہو سکے۔

ایاز     :اچھا!اب تم جاؤ، آرام کرو، میں اپنی سی کر گزرنے کی سوچتا ہوں۔

رشیدہ  :خدا تمہارا مددگار ہو۔

(جاتی ہے۔ )

ایاز     : (علیحدہ خود سے)’’شاید جو میں سوچتا ہوں، وہی یہ بھی چاہتی ہے۔ سب کچھ جا چکا ہے۔ ۔ ۔ تھوڑا وقت  اور   تھوڑی رقم جو باقی ہے، یہ بھی اڑ گئی تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ۔ ۔ کیا کروں۔ ۔ ۔ بس یہی آخری راستہ ہے۔ ‘‘

(جاتا ہے۔ )

(پردہ)

 

 

 

ایکٹ تیسرا

 

سین چوتھا

خواب گاہ

 

          (عارف سو رہا ہے، اس کے پلنگ کے پاس تجوری ہے۔ ایاز منہ سر لپیٹے اندر آتا ہے۔ آہستہ آہستہ چل کر چاروں طرف دیکھتا  اور  عارف پر نظر ڈال کر تجوری کی طرف بڑھتا ہے۔ عارف کروٹ بدلتا ہے۔ ایاز سہم کر ایک طرف بیٹھتا ہے۔ پھر  اٹھ کر تجوری کھولتا  اور  نوٹوں کی گڈیاں، نکال کر رومال کی گٹھری بھر لیتا ہے، کچھ سوچتا ہے  اور  جلدی سے باہر چلا جاتا ہے۔ گٹھری باہر رکھ کر اندر آتا ہے، ایک گڈی نوٹوں کی لیے ہوئے ہے۔ گڈی تجوری میں رکھ کر اپنے آپ آہستہ آہستہ بڑبڑاتا ہے : ’’ارادہ تو تھا کہ لٹانے کے لیے ایک کوڑی بھی نہ چھوڑوں، مگر  ڈر ہے کہ ناگہانی آفت سے ان کا دماغ نہ الٹ جائے اس لیے کچھ رقم واپس تجوری میں رکھ دیتا ہوں۔ ‘‘ ایاز تجوری بند کرتا ہے، کھٹ سے آواز ہوتی ہے۔ عارف کی آنکھ کھل جاتی ہے  اور  وہ اک دم گھبرا کر اٹھتا ہے۔ )

 

عارف  :کون؟کون؟ چور۔ ڈاکو؟(ایاز کو دیکھ کر) ایاز!تو  اس وقت یہاں ؟ (ایاز رک کر خاموش کھڑا ہے۔ عارف گھبرا کر پلنگ کے نیچے آتا  اور   لپک کر تجوری کھول کے دیکھتا ہے) یہ کیا۔ ۔ ۔ ؟ نوٹوں کی بیس گڈیوں میں سے تجوری میں صرف ایک گڈی۔ ۔ ۔ (گڈی باہر نکال کر ایاز سے) بتا!باقی نوٹ کہاں ہیں ؟ ایاز!۔ ۔ ۔ سنتا نہیں۔ ۔ ۔  میں پوچھتا ہوں کہاں ہیں نوٹ؟

ایاز     :میں نہیں جانتا۔

عارف  :سانپ کی طرح آ کر سوئے ہوئے مالک کو اندھیرے میں ڈسنا جانتا ہے۔ لیکن نوٹوں کا حال نہیں جانتا۔ بتا تجوری سے نوٹ کہاں گئے ؟

ایاز     :تجوری میں ان لوگوں کے روپئے ہوئے ہیں جن کوکل کی فکر ہوتی ہے۔ اپنے نوٹ غانم کی جیب  اور   سٹے کے بازار میں تلاش کیجئے۔

عارف  :نمک حرام۔ کمینے۔ تو نے میرے روپئے نہیں چرائے، بلکہ ڈوبتے کا سہارا، پیاسے کا پانی  اور  بیمار سے زندگی چھین لی۔

عارف  : (جھنجھوڑتا ہے) آستین کے سانپ۔ ۔ ۔ زہر کی چھری۔ ۔ ۔  نوٹ نکال (تھپڑ مارتا ہے۔ ) معلوم ہوا کہ لوہے کو نرم کرنے کے لیے آگ میں تپانا ہو گا۔

ایاز     :تمہیں میری خدمت کی لاج نہ ہو، لیکن مجھے تمہارے نمک کی شرم ہے مار ڈالو۔ ۔ ۔ میں اپنا خون تک معاف کرتا ہوں۔

عارف  :کمینے ! ایسی ہی شرم ہے تو روپئے واپس دے دے۔

(رشیدہ آتی ہے۔ )

(عارف ایاز کو مارتا ہے۔ )

رشیدہ  :کیا ہوا؟ارے۔ ۔ ۔  جس کی گود میں پلے اس سے یہ سلوک کیا کرتے ہو۔ ٹھہرو!

عارف  :رشیدہ ہٹ جاؤ۔ اس نمک حرام نے ہمیں بھیک منگوانے کے لیے تمام روپئے چوری کر لیے۔

رشیدہ  :چوری کی؟

عارف  :ہاں!

رشیدہ  :ایاز بابا نے ؟

عارف  :ہاں ہاں ! اس شیطان نے فرشتہ کا چہرہ لگا کر ہمیں ٹھگ لیا۔

رشیدہ  :ناممکن۔ ۔ ۔ ان کے دل میں دغا بازی نہیں آ سکتی۔

عارف  :ابھی پتہ چل جائے گا، پولیس کا ہنٹر کھائے گا تو سب کچھ اگل دے گا۔ ذلیل۔ کمینے۔ چل!

(دھکے دیتا ہے۔ )

رشیدہ  :ٹھیرو۔ عارف خدا کے لیے ٹھہرو۔ ۔ ۔ ایسا غضب نہ کرو۔

عارف  :چپ رہو۔ اس نے جیسا کیا ہے۔ اس کی سزا بھگتنے دو۔

(عارف، ایاز کو پکڑ کے باہر لے جاتا ہے رشیدہ گھبراتی ہے۔ )

(پردہ)

 

 

 

ایکٹ تیسرا

 

سین چھٹا

عارف کا معمولی گھر

 

 (مضمحل  اور  بیمار رشیدہ کپڑے سی رہی ہے۔ انور آتا ہے۔ )

 

انور    :دکھوں کے بوجھ سے ہلکان نظر آ رہی ہو پھر بھی کہتی ہو کہ اچھی ہوں۔

رشیدہ  :بھائی جان! جس حال میں بھی ہوں اچھی ہوں۔ بیٹھئے!

انور    :میں اس گھر میں قدم نہ رکھنے کا عہد توڑ کر تمہاری محبت سے مجبور ہو کر آیا ہوں۔ اب بھی عقل سے کام لو،  اور  اس احمق شوہر کا ساتھ چھوڑ کر گھر چلو۔

رشیدہ  :بھائی جان!معاف کیجئے، وہ کچھ بھی ہیں میرے لیے مذہب  اور   خدا کے نام کی طرح قابل عزت ہیں۔

انور    :تم کبھی نہ سمجھو گی۔ قسمت نے تمہاری عقل پر تالا لگا دیا ہے۔ اچھا یہ لو۔

(ایک سو روپیہ کا نوٹ جیب سے نکال کر دیتا ہے۔ )

رشیدہ  :یہ کیا ہے ؟

انور    :یہ سو روپئے وقت  اور  ضرورت کے لیے رکھ چھوڑو۔

رشیدہ  :معاف کرنا میں ان کی اجازت کے بغیر یہ نہیں لے سکتی۔ میری محنت کے پیسے میری ضرورت کے لیے کافی ہیں۔

انور    :یہ کسی غیر کا روپیہ نہیں ہے، اسے لوٹا کر مجھے  اور  دکھ نہ دو۔ میں وقت بے وقت اسی طرح آ کر تمہیں دیکھتا رہوں گا۔ کیا کروں، مجبوری ہے، اچھا چلتا ہوں، پھر آؤں گا۔

رشیدہ  : (اداس ہو کر) نہیں بھیا! مجھے معاف کیجئے۔

(نوٹ لوٹاتی ہے۔ )

انور    :اسے رکھ لو رشیدہ!خدا حافظ۔

(جاتا ہے۔ )

رشیدہ  :بھائی جان! سنئے، سنئے تو۔ ۔ ۔

(نوٹ کو دیکھتی ہے۔ )

(سوچتی ہے۔ )

’’اسے کیا کروں۔ کہاں سے آیا؟ کس نے دیا؟ میرے حکم کے بغیر کیوں لیا؟ ان کے غصہ کی گرج  اور  سوالوں کا کیا جواب دوں گی؟ نہیں ! یہ نوٹ ضرور واپس کر دوں گی!‘‘

(پلنگ کی طرف جاتی ہے  اور  تکیہ کے غلاف میں نوٹ چھپا دیتی ہے۔ )

رشیدہ  : (جلدی سے سنبھل کر) خدایا! پھروہی حالت؟

عارف  :لالچی، خودغرض، مطلب پرست، مجھے وہم بھی نہ تھا کہ سب کے سب طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں گے۔ (پلنگ پر بیٹھتے ہوئے)  اور   وہ بے ایمان سچی دوستی کا دم بھرتا تھا۔ اب بات کرنے سے کتراتا ہے۔ شکایت کرو تو کہتا ہے ’’کیا تم چاہتے ہو کہ جیسے ایک اندھا دوسرے اندھے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ بھیک مانگتا ہے۔ میں بھی ویسے ہی تمہارے ساتھ اندھے بن کر ’’ایک روٹی‘‘ کی صدا لگاتا  پھروں۔ ۔ ۔ ‘‘ بے شرم مکار!

رشیدہ  :کس پر ناراض ہو رہے ہو؟

عارف  :غانم  اور  اس کے سارے کمینے ساتھی۔ ۔ ۔ سب خودغرض۔

رشیدہ  :شکر ہے آپ کو آج یہ معلوم تو ہو گیا۔

عارف  :میں نے ان کو ہزاروں کھلائے پلائے، آج یہ مجھے منہ نہیں لگاتے۔

رشیدہ  : اور  آپ نے آج بھی پی لی، صبح میں نے منت کی تھی تو آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اب نہیں پیوں گا۔

عارف  :کیسے نہ پیوں ؟

رشیدہ  :کیوں ؟

عارف  :رشیدہ!شروع میں بھول سے پی لی۔ پھر دوستوں کی خوشی کے لیے پی، اس کے بعد زندگی کا مزا سمجھ کر پیتا رہا ہوں  اور   اب زندگی کا غم غلط کرنے کو پیتا ہوں۔ نہ پیوں گا تو مصیبت پاگل کر دے گی۔

رشیدہ  : اور  مجھے آپ کی یہ حالت دیوانہ بنا دے گی۔

عارف  : (سر پکڑ کر) اف سر پھٹنے لگا۔ بہت درد ہے۔ کچھ پیسے ہیں تو دو۔

رشیدہ  :پیسے کہاں سے لاؤں ؟گھر میں فاقہ ہے۔ بے چاری لیلیٰ ابھی کرتے لے کے جائے گی تو شام کو کھانے کو دام آئیں گے۔

عارف  :بہانہ کیوں کرتی ہو، صاف کیوں نہیں کہتیں کہ مجھے شوہر پیارا نہیں پیسہ پیارا ہے۔

رشیدہ  :یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟۔ ۔ ۔ آپ سے کون سی چیز بڑھ کر ہے۔

عارف  :قسمت بدل گئی، دنیا بدل گئی  اور  اب دیکھتا ہوں کہ تم بھی بدلتی جاتی ہو۔

رشیدہ  :خفا ہو گئے، کچھ پیسے پڑے ہیں، ابھی لائے دیتی ہوں۔

(جاتی ہے۔ )

عارف  : (خود سے) یہ ہمیشہ تکیہ میں پیسے رکھا کرتی ہے، دیکھوں شاید بھول میں کچھ پڑے رہ گئے ہوں۔

(تکیہ کو جھاڑتا ہے، نوٹ گرتا ہے۔ )

(حیرت سے)

’’یہ کیا؟نوٹ؟ایک سو کا نوٹ؟ جس کے پاس تن ڈھانکنے کو کپڑا  اور   پیٹ بھر اناج کا بھی سہارا نہ ہو، اس کے پاس اتنے روپئے کہاں سے آئے ؟۔ ۔ ۔  سمجھ گیا۔ ۔ ۔ نیکی  اور  شرافت کا ملمع  اتر کر بے وفائی کا کھوٹ ظاہر ہو گیا۔‘‘

(سر پکڑ بیٹھ جاتا ہے۔ )

رشیدہ  : (آ کر) سرکا درد بڑھ جائے گا۔ دماغ کو آرام دو۔ اتنا کیوں سوچ رہے ہو؟

عارف  :سوچ رہا ہوں کہ اندھیرے میں چھری مارنے والے دشمن  اور   پارسا بن کر بے وفائی کرنے والی بیوی دونوں میں سے کون بڑا قاتل ہے۔

رشیدہ  :یہ اس وقت کیا دل لگی سوجھی آپ کو!

عارف  : (کھڑا ہوتا ہے) دل لگی؟ عزت  اور   شرافت کا خون ہو جانے پربھی دل لگی کی سوچتی ہے۔

رشیدہ  :ناراض نہ ہو، یہ پیسے حاضر ہیں۔

عارف  :معصوم بننے کی کوشش نہ کر مکار، دغا باز۔

رشیدہ  :حدسے گزرے ہوئے نشے  اور  غصے میں جس زبان سے کبھی ’’تو‘‘ کہہ کر نہیں پکارا۔ اسی زبان سے آج مجھے گٍا لیاں نکل رہی ہیں، ایسا کون سا قصور ہوا ہے۔

عارف  :چاند پوری روشنی اندھیری رات میں  اور   بیوی کی پارسائی مفلسی میں ظاہر ہوتی ہے۔ قصور مجھ سے پوچھتی ہے۔ مجھ سے نہیں اپنے بے وفا دل سے پوچھ  اور  دل کسی دوسرے کے پاس ہو تو، اس کے دیے ہوئے اس نوٹ سے پوچھ۔

رشیدہ  : (منہ پھیر کر خود سے) بھائی انور کا نوٹ؟ ہائے وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔

عارف  :کیوں ؟چپ کیوں ہو گئی؟ابھی جھوٹی باتیں بنا کر مجھے پیسوں پر ٹال رہی تھی، پھر یہ سو روپیہ کا نوٹ کہاں سے آیا؟۔ ۔ ۔ جواب دے۔ ۔ ۔

رشیدہ  :عارف! میں قسم کھاتی ہوں، وہم نہ کرو۔ ۔ ۔ یہ نوٹ میرے بار بار۔ ۔ ۔

عارف  :جھوٹی قسمیں نہ کھا۔ گھر، سکھ، دولت سب کچھ کھو دینے کے بعد میرے پاس صرف بیوی کا پیار رہ گیا تھا، تو نے وہ بھی دوسروں کودے کر مجھے کنگال کر دیا۔ ۔ ۔ بے حیا۔ ۔ ۔ بے شرم۔ ۔ ۔ تیری اس زندگی سے موت بہتر ہے۔ ۔ ۔ تیری آنکھوں کی حیا  اور  دل میں وفا مر گئی، لے تو بھی مر۔

(دوڑ کر اپنے تکیے کے نیچے سے چھری نکالتا ہے۔ )

رشیدہ  : (چیخ کر) سنو!عارف، تم غلط سمجھ رہے ہو۔ میں بتاتی ہوں۔

(عارف رشیدہ پر چھری سے وار کرتا ہے وہ زخمی ہو کر بے ہوش ہو جاتی ہے  اور  زمیں پر گرتی ہے۔ )

(انور داخل ہوتا ہے  اور  یہ حالت دیکھ کر گھبراتا ہے۔ )

انور    :وحشی انسان۔ ۔ ۔

(عارف کے ہاتھ سے چھری چھین لیتا ہے۔ )

(رشیدہ کو دیکھ کر)

خدایا۔ ۔ ۔ یہ کیا۔ ۔ ۔ خون۔ ۔ ۔ ؟جنونی قاتل یہ تو نے کیا کیا؟

(لیلیٰ اندر آتی ہے  اور  یہ منظر دیکھ کر رشیدہ کی طرف دوڑتی ہے۔ )

لیلیٰ     :ہائے اللہ۔ ۔ ۔ رشیدہ باجی۔ ۔ ۔

(عارف سے)

ظالم خونی یہ کیا غضب کیا؟

(باہر جاتے ہوئے)

ٹھہرئیے میں ابھی پولیس بلائے لاتی ہوں۔

(انور اٹھ کر عارف کی طرف آتا ہے  اور  اسے جھنجھوڑتا ہے۔ )

انور    :ظالم۔ ۔ ۔ اس معصوم بدنصیب نے تیرا کیا بگاڑا تھا۔ خونی۔ بول!

عارف  : (انور سے الگ ہو کر) غیر مرد سے روپئے لے کر شوہر کی عزت آبرو کا سودا کرنے والی بیوی معصوم نہیں کہلاتی۔

انور    :تو کیا اس نے ایسا کیا؟

عارف  :ہاں!

انور    :ثبوت؟

عارف  :یہ نوٹ۔

انور    :جلد باز احمق! خرچ کی تکلیف دیکھ کر میں آج یہ روپئے اس کو زبردستی دے گیا تھا۔

عارف  :یہ جھوٹ ہے۔

انور    :نوٹ کی پشت پرمیرا نام لکھا ہوا ہے۔ (قریب جا کر نوٹ کی پشت دکھا کر) یہ دیکھ!

(پولیس افسر اور   ایک سپاہی لیلیٰ کے ساتھ آتے ہیں۔ )

لیلیٰ     :یہ ہے قاتل۔ ۔ ۔ انسپکٹر صاحب!

انور    :یہ چھری ہے، جس سے اس نے اپنی بے گناہ بیوی کو مارا ہے۔

انسپکٹر  :آپ مقتولہ کے کون ہیں ؟

انور    :بدقسمت بھائی۔

انسپکٹر  : (سپاہی سے) مقتول۔ ۔ ۔ گواہ۔ ۔ ۔ ثبوت۔ ۔ ۔ سب موجود ہیں۔ مجرم کو ہتھکڑی لگاؤ۔

انور    :اس بدنصیب نے امیر باپ کی بیٹی ہو کر شوہر کی مرضی کے لیے سکھ، چین، باپ، بھائی سب کو چھوڑا۔ ۔ ۔ فاقے کیے۔ ۔ ۔   اور  ناشکرے انسان نے اس کی محبت  اور   خدمت کا یہ صلہ دیا۔

انسپکٹر  :افسوس ہے (سپاہی سے) مجرم کو تھانے لے چلو۔ ۔ ۔ مقتولہ کی لاش ہسپتال لے جانا ہو گی۔

(انور اور  لیلیٰ رشیدہ کے قریب جاتے ہیں۔ لیلیٰ رو رہی ہے، رشیدہ کروٹ لیتی ہے۔ )

انور    :یہ ابھی زندہ ہے ؟۔ ۔ ۔ رشیدہ!

لیلیٰ     :رشیدہ باجی۔ ۔ ۔  باجی!

رشیدہ  : (نحیف آواز میں) عارف۔ ۔ ۔ سنو تو۔ ۔ ۔  میں بتاتی ہوں۔

(آنکھیں کھول کر سب کو دیکھتی ہے۔ )

انور    :رشیدہ!

رشیدہ  : (اٹھ بیٹھتی ہے۔ )

(گھبرا کر اٹھتی ہے  اور  عارف کی طرف جاتی ہے۔ )

انور    :قتل کے جرم میں۔

رشیدہ  :قتل؟انھوں نے کیا؟۔ ۔ ۔ کیسے ؟

انسپکٹر  : (دیوار کو دیکھتے ہوئے) جی ہاں ! آپ پراس نے چھری سے حملہ کیا ہے۔

رشیدہ  :نہیں۔ ۔ ۔ یہ جھوٹ ہے۔

انور    :رشیدہ! کیا ابھی تک شوہر کی وفاداری کا پاگل پن نہیں گیا؟

رشیدہ  :لیکن بھائی جان!انھوں نے چھری نہیں ماری۔

انسپکٹر  :پھر آپ زخمی کیسے ہوئیں۔ ؟

رشیدہ  : (سوچ کر) میں اس چھری سے ترکاری کاٹ رہی تھی۔ بیماری میں کمزوری سے چکر آ گیا، گر گئی، چھری اچانک لگ گئی  اور  میں زخمی ہو گئی۔

انور    :انسپکٹر صاحب!یہ شوہر کی جان بچانے کے لیے بہانہ کر رہی ہے۔ ۔ ۔  یہ بالکل جھوٹ ہے۔

انسپکٹر  :میں سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ مگر  مجبور ہوں۔ ۔ ۔ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ ہتھکڑی کھول دو۔

(سپاہی عارف کے ہاتھ سے ہتھکڑی کھولتا ہے۔ )

عارف  :یہ جھوٹ بول رہی ہے !انسپکٹر صاحب! یہ خون میں نے کیا ہے۔ مجھے لے چلو۔

رشیدہ  :نہیں، نہیں !یہ پریشانی میں بہک رہے ہیں۔

انسپکٹر  : (سپاہیوں سے) آؤ چلیں (انور سے) معاف کیجئے، آپ کو تکلیف ہوئی۔

انور    :شکریہ!تکلیف تو آپ کو ہوئی۔ خواہ مخواہ۔

انسپکٹر  :یہ ہمارا فرض ہے۔

(جاتے ہیں۔ )

انور    : (عارف سے) بدنصیب انسان! اب بھی آنکھیں نہ کھلیں ؟

عارف  :کھل گئیں۔ ۔ ۔ بھائی!سچ مچ میری آنکھیں کھل گئیں۔ ۔ ۔  ہوش آ گیا۔ ۔ ۔ رشیدہ مجھے معاف کر دو۔

رشیدہ  :میں آپ کی گنہ گار ہوں۔

انور    :خدا تمہارا مددگار ہو!

(پردہ)

***

ماخذ: اردو ڈراما کی ارتقاء، عشرت رحمانی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، مسلم یونیورسٹی مارکیٹ، علی گڈھ

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل جن کے توسط سے وہ ان پیج فائل فراہم ہوئی جس سے یہ کتاب ترتیب دی گئی۔

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید