FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تنقیدی نگارشات

 

حصّہ سوم

 

                مظفرؔ حنفی

ترتیب و تدوین:  فیروز مظفر

 

(اصل کتاب سے دو مضامین کھنڈوا میں اُردو شعر و ادب کے پچاس سال‘ اور ’مغربی بنگال کا شعری مزاج‘ علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں)

 

 

 

شعرائے زنداں

 

 

ہسوہ ( فتحپور۔ یوپی) بڑے با کمالوں کی بستی رہی ہے۔ وحیدؔ ہسوی، احسانؔ ہسوی وغیرہ انیسویں صدی اواخر کے مقبول و مشہور شعراء تھے۔ اوّل الذکر اس زمانے میں فتحپور سے ’’سحر بابل‘‘ نامی ایک رسالہ نکالتے تھے اور بذاتِ خود صاحبِ دیوان اور تقریباً ڈیڑھ درجن کتابوں کے مصنف تھے۔ مولانا محمد فائق ہسوی اور مولانا عبد السلام ہسوی انیسویں صدی کے صاحبِ کمال بزرگوں میں گزرے ہیں جو ہندوستان گیر شہرت کے مالک اور درجنوں مذہبی و علمی کتب کے خالق تھے۔ محمد فائق صاحب کا مزار میرٹھ میں مرجع خلائق بنا رہتا ہے اور مولانا عبد السلام ہسوی خاص ہسوہ میں مدفون ہیں اور ان سے صوفیائے کرام کا ایک وسیع حلقہ متعلق ہے۔

مولانا عارف ہسوی اواخر انیسویں و اوائل بیسوی صدی کی نمایاں شخصیتوں میں تھے۔ موصوف شاعر ہونے کے علاوہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے بے حد جوشیلے اور صفِ اوّل کے رہنماؤں میں سے تھے اور دہلی میں ۱۹۱۵ء میں اخبار ’ خطیب ‘ کے بابِ سیاست کے مدیر تھے۔ پھر اخبار ’ انقلاب‘ دہلی کے ایڈیٹر رہے۔ یہ اخبار بعد میں انگریزوں کے عتاب کا شکار ہو گیا۔ اسی زمانے میں مولانا محمد علی جوہرؔ کا روزنامہ ’ ہمدرد‘ جو صحافت و سیاست کی تاریخ کا ایک روشن باب رہا ہے، دہلی سے نکلتا تھا۔ مولانا محمد علی بڑے چاؤ سے انھیں اپنے ادارے میں لے گئے۔ مولوی عبد الحمید خاں کے رسالہ’ مولوی‘ کے اس زمانے کے شذرات اور سیاسی کالم بھی مولانا عارف ہسوی ہی کے قلم کا نتیجہ ہیں۔ راشد الخیری، خواجہ فضل احمد رشید، بھیا احسان الحق ( میرٹھی) وغیرہ موصوف کے مقربانِ خاص میں سے تھے۔ موصوف تحریکِ آزادی کے سلسلے میں اظہارِ خیال کو اپنی انتہا تک لے جانا چاہتے تھے۔ اس لیے عمر بھر گھوم پھر کر جوشیلے مضامین لکھتے اور جیل جاتے رہے۔ ۱۹۱۹ء میں جب سردار دیوان سنگھ مفتون نے روز نامہ ’رعیت‘ مالی دشواریوں کی بنا پر بھیّا احسان کو فروخت کر دیا اور نیاز فتحپوری اس کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے تو مولانا عارف ہسوی اخبار مذکور کی معتدل پالیسی کے مخالف تھے کیونکہ وہ ان کی انتہا پسند طبیعت سے لاگ نہ کھاتی تھی۔ آخر یہ اخبار بھی بند ہو گیا اور مولانا عارف نے اس سلسلے میں جشنِ مسرت منعقد کیا۔

آپ نے دلی پراونشل کانگریس کمیٹی کی طرف سے اخبار ’ کانگریس‘ نکالا جس کے اداریوں اور مضامین کی بے باکی اس دَور میں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا جگرے کے لوگ تھے۔ مولانا عارف ہسوی پراونشل کانگریس کمیٹی کے صدر بھی تھے۔ اخیر اخیر جب جیل گئے تو سرطان کا شکار ہو کر باہر آئے اور ۱۹۳۶ء میں انتقال فرمایا۔ موصوف کی بیوہ نے کسی قسم کی سرکاری امداد کے بغیر کافی عرصے تک ہسوہ میں کس مپرسی کی زندگی بسر کی اور ابھی حال ہی میں اُن کا انتقال ہوا ہے۔

مولانا عارف ہسوی سیاست سے ہٹ کر ایک ادبی شخصیت کے مالک بھی تھے۔ انھوں نے میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، مصحفی اور کئی دیگر کاسیکی شعراء کے انتخابات ترتیب دے کر اُن پر مقدمات لکھے تھے جنھیں مولانا حسن نظامی نے جیبی سائز پر شائع کیا تھا اور یہ انتخابات اپنے زمانے میں بے حد مقبول ہوئے تھے۔ وہ دورانِ قیام جیل میں اکثر مشاعرے وغیرہ منعقد کرتے رہتے تھے۔ جس زمانہ میں موصوف آگرہ جیل میں تھے، کئی دوسرے سیاسی قیدی مختلف جیلوں مثلاً الٰہ آباد، فتح گڑھ، میرٹھ، متھرا وغیرہ سے آگرہ جیل میں منتقل کر دیے گئے تھے۔ ان سیاسی قیدیوں میں بہت سے مشہور و معروف شاعر بھی تھے جن کی شرکت سے مولانا عارف ہسوی کے مشاعرے جیل میں منعقد ہونے کے باوجود ہر لحاظ سے آج کے آل انڈیا مشاعروں سے بلند نظر آتے ہیں۔ اسی قسم کے ایک مشاعرے کی کارروائی مولانا عارف ہسوی کی ترتیب دی ہوئی بعینہٖ درج ذیل ہے۔

اس مشاعرے کے شرکاء میں مولانا خجندی( میرٹھ)، عبد المجید خواجہ( پرنسپل نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ)، رگھوپتی سہائے فراق، شاہد فاخری، کرشن کانت مالویہ، صغیر حسن شاہ الٰہ آبادی، مہابیر تیاگی، محمد عثمان (علی گڑھ)، زمرد سکندر آبادی، حفظ الرحمن فرخ آبادی، رام نریش ترپاٹھی، احمق پھپھوندوی زمانہ مذکور و زمانہ حال کے صفِ اوّل کے سیاسی لیڈروں میں تھے اور ہیں۔ افسوس کہ مسودے سے مشاعرہ کا صحیح سنہ معلوم نہیں ہوتا۔ لیکن گمان غالب ہے کہ یہ مشاعرہ ۲۱۔ ۱۹۲۰ء میں کبھی آگرہ جیل میں منعقد ہوا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

(۱) مولانا خجندی میرٹھ۔ ۶ ماہ قید

 

۱۔ تشنہ کامی پہ مرے آپ کا احساں نہ ہوا

آبِ خنجر سے بھی تسکین کا سامان نہ ہوا

 

۲۔ وار پر وار کیے پھر بھی میں بے جاں نہ ہوا

ہے یہ ارمان کہ پورا مرا ارماں نہ ہوا

 

۳۔ اور ایجاد کرو ظلم و ستم کے انداز

پورا مطلب نہ ہوا آپ کا ہاں ہاں نہ ہوا

 

۴۔ منزلِ عشق پہ پہنچا نہیں کوئی، جب تک

پا بجولاں نہ ہوا چاکِ گریباں نہ ہوا

 

۵۔ ذرّہ ذرّہ میں نظر آتا ہے کس کا جلوہ

رازِ وحدت ترا کثرت میں بھی پنہاں نہ ہوا

 

۶۔ آسماں سمجھے ہیں جس کو وہ مری آہیں ہیں

عرش رس کب مرا دودِ دلِ سوزاں نہ ہوا

 

۷۔ خلعتِ غیر سے بہتر ہے لنگوٹی اپنی

جذبۂ عشق میں حارج تنِ عریاں نہ ہوا

(تمام غزل مرصع اور اُستادانہ تھی بہت پسند کی گئی۔ مولانا کی غزل سب سے آخر میں ہوئی۔   عارف ہسوی)

 

۲۔ مسٹر عبد المجید خواجہ پرنسپل نیشنل یونیورسٹی علی گڑھ۔ ۶ ماہ قید

 

۱۔ کس کو سودا ترا اے زلفِ پریشاں نہ ہوا

کون پابند بلائے شبِ ہجراں نہ ہوا

 

۲۔ یاد رہتی ہے ترے مصحفِ عارض کی سدا

مجھ سے بڑھ کر تو کوئی حافظِ قرآں نہ ہوا

 

۳۔ کاوشِ دشتِ جنوں ہے ہمیں اس درجہ پسند

کبھی تلووں سے جدا خارِ مغیلاں نہ ہوا

 

۴۔ شور ہے محفلِ عشاق میں وہ آتے ہیں

فتنۂ حشر ہوا، جلوۂ جاناں نہ ہوا

 

۵۔ بس کہ سینے میں چھپائی ہے تمہاری تصویر

ہم سے وحشت میں کبھی چاک گریباں نہ ہوا

 

۶۔ ناتوانی کی یہ حالت ہے کہ کہنا تو کجا

میرے چہرے سے بھی ظاہر غمِ پنہاں نہ ہوا

 

۷۔ تو وہ قطرہ ہے کہ پوشیدہ تھا دریا جس میں

تیری نادانی کہ برپا کبھی طوفاں نہ ہوا

 

۸۔ میں وہ ذرّہ ہوں کہ پوشیدہ ہے صحرا جس میں

قید ہو کر بھی اسیرِ غمِ زنداں نہ ہوا

(شعر ۵ حاصلِ مشاعرہ مانا گیا۔ عارف ہسوی)

 

(۳) بابو رگھوپتی سہائے صاحب بی اے گورکھپور۔ ۱۸ ماہ قید محض پانچ سو روپیہ جرمانہ

 

۱۔ کبھی عزلت گہِ جاناں دلِ ویراں نہ ہوا

میرے اُجڑے ہوئے گھر میں کوئی مہماں نہ ہوا

 

۲۔ باغ میں بادِ صبا بھیجنے والے ہر روز

کیوں اسیرانِ قفس پر کبھی احساں نہ ہوا

 

۳۔ کھل گیا صورتِ گل، دل، جو چلا ناوکِ یار

ہوئی اک موجِ صبا تیر کا پیکاں نہ ہوا

 

۴۔ قتل کر کے ہمیں گل کھلتے ہیں دیکھو کیا کیا۱؎

؎  صرف ایک مصرع لکھ کر کاٹ دیا گیا ہے۔ مظفر حنفی

 

۵۔ کر کے زخمی ہمیں کہتے ہیں وہ کس حسرت سے

ہائے اس وقت مرے پاس نمکداں نہ ہوا

 

۶۔ دلِ ویراں کی یہاں سیر کیا کرتا ہوں

مانعِ دشت نوردی مجھے زنداں نہ ہوا

 

۷۔ اہلِ زنداں کی یہ مجلس ہے ثبوت اس کا فراقؔ

کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا

(شعر ۳ بہت پسند کیا گیا اور اہلِ سخن نے خوب داد دی۔ مقطع میں فراقؔ صاحب نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مختلف جیل خانوں سے یہاں لوگ اکٹھا کر دیے گئے ہیں مثلاً الٰہ آباد، فتح گڑھ، میرٹھ، متھرا۔ عارفؔ ہسوی)

 

(۴) سید محمد شاہد صاحب فرزند مولانا فاخر الٰہ آبادی۔ ایک سال قید سخت

 

۱۔ ہم تو ہیں قید میں اور گھر پہ براجے ہیں پرنس

سارے عالم میں کوئی آپ سا مہماں نہ ہوا

 

۲۔ جان دے دیتے بہت، ڈوب کے مرتے لاکھوں

جیل کے راستے میں چاہِ زنخداں نہ ہوا

 

۳۔ خواہشِ دید پہ جھنجھلا کے وہ بولے مجھ سے

جان کا روگ ہوا آپ کا ارماں نہ ہوا

 

۴۔ ڈارون آپ کی تھیوری کو سُنا کر میں نے

لاکھ بندر کو نچایا مگر انساں نہ ہوا

(یہ شعر بہت پسند کیے گئے۔ عارف ہسوی)

 

(۵) پنڈت کرشنا کانت مالوی۔ ایڈیٹر ابہودے الٰہ آباد۔

 ۶ ماہ قید محض رہ گئی پہلے ۱۸ ماہ سخت تھی۔

 

۱۔ قوم کی راہ میں سر دے کے جو قرباں نہ ہوا

مضغۂ گوشت ہوا پھر تو وہ انساں نہ ہوا

 

۲۔ زندگی موت سے بد تر ہے ہمارے حق میں

ملک کا اپنے گر اقبال درخشاں نہ ہوا

 

۳۔ دعوۂ حبِّ وطن تیرے لیے ہے بیسود

تار کھدّر کا اگر مثلِ رگِ جاں نہ ہوا

 

۴۔ ملک کے عشق کا پر لطف بیاں کیا کیجے

ہے یہ وہ درد جو شرمندۂ درماں نہ ہوا

(پنڈت جی کے تمام شعر پسند کیے گئے بالخصوص جو درج کیے گئے۔ عارف ہسوی)

 

(۶)سید صغیر حسن شاہ الٰہ آبادی۔ ۶ ماہ قید

 

۱۔ تارے کچھ چرخ سے ٹوٹے سرِ بالیں آئے

کسی بے کس کی لحد پر جو چراغاں نہ ہوا

 

۲۔ نغمہ سنجوں کے سخن سن کے تڑپتے ہیں اسیر

دل ہے بے چین کہ افسوس گلستاں نہ ہوا

 

(۷)  مسٹر مہابیر تیاگی۔ بلند شہر کے مجسٹریٹ نے آپ ہی کے بر سرِ عدالت طمانچے لگوائے تھے۔ سزا دو سال محض

 

۱۔ وحشتِ دل کا یہاں آ کے بھی ساماں نہ ہوا

آگرہ جیل میں چھوٹا سا بیاباں نہ ہوا

 

۲۔ سچ تو یہ ہے کہ کبھی صاحبِ ایماں نہ ہوا

جان سے مال سے بھارت پہ جو قرباں نہ ہوا

 

۳۔ مجھ سے بڑھ کر کے بھی ہو گی نہ اہنسا کی مثال

مار کھا کر کے بھی ہرگز میں پریشاں نہ ہوا

(مطلع بہت پسند کیا گیا اور شعر ۳ میں اپنے طمانچوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔  عارف ہسوی)

 

(۸) حافظ محمد عثمان صاحب علی گڑھ۔ سزا ۱۵ ماہ سخت

 

۱۔ میری ہمت میں بھی توفیق خدا شامل تھی

دشمنِ دیں کے ستانے سے ہراساں نہ ہوا

 

۲۔ عہدِ ظلمت میں نمایاں ہے صداقت کی جھلک

ہے یہ وہ چاند جو بدلی میں بھی پنہاں نہ ہوا

 

۳۔ اس کی قسمت میں نہیں لطفِ حیاتِ ابدی

جو دل و جان سے اسلام پہ قرباں نہ ہوا

 

۴۔ سر پکڑ کر یہ کوئی دن میں کہیں گے ریڈنگ

ہند میں ایک بھی پورا مرا ارماں نہ ہوا

(شعر ۴ کی بہت داد ملی۔ عارف ہسوی)

 

(۹) بابو رتن لال صاحب زمرّد سکندر آبادی

 

۱۔ دل دیا مال دیا زر بھی دیا جان بھی دی

اس پہ طرّہ ہے کہ اُن پر کوئی احساں نہ ہوا

 

۲۔ بے حیائی کے تو جینے سے ہے مرنا بہتر

جس کی عزّت نہ ہو دُنیا میں وہ انساں نہ ہوا

 

 

(۱۰) جناب حفظ الرحمن صاحب فرخ آبادی۔ سزا ایک سال

 

۱۔ سر اڑایا نہ گیا، دار کا فرماں نہ ہوا

خوگرِ جور پہ اتنا سا بھی احساں نہ ہوا

 

۲۔ اپنا ایمان ہے وہ صاحبِ ایماں نہ ہوا

جو خلافت کے لیے شوق سے قرباں نہ ہوا

 

۳۔ دل وہ دل ہی نہیں جس دل میں نہ ہو دردِ وطن

سر وہ سر ہی نہیں جو قوم پہ قرباں نہ ہوا

 

۴۔ بیڑیاں بھی تو نہ ڈالیں ترے دیوانے کے

جیل میں آ کے بھی پورا مرا ارماں نہ ہوا

 

۵۔ وہ حفیظؔ آپ کو انسان نہیں کہہ سکتا

جس کو سوراج کا تھوڑا سا بھی ارماں نہ ہوا

( پوری غزل بہت صاف اور سلیس تھی خوب داد دی گئی۔ عارف ہسوی)

 

(۱۱) پنڈت رام نریش ترپاٹھی الٰہ آباد۔ ۱۸ ماہ قید سخت۔ سو روپیہ جرمانہ۔ ہندی کے اچھے شاعر اور بہت سی ہندی کتابوں کے مصنف ہیں۔

 

۱۔ اس نے سمجھا ہی نہیں حبِّ وطن کیا شے ہے

جیل میں آ کے جو سرکار کا مہماں نہ ہوا

 

(۱۲) محمد محی الدین صاحب رضا کار الٰہ آباد۔ ۱۸ ماہ قید سخت عمر ۱۶ سال۱؎

 

(۱۳) محمد مصطفی صاحب پھپھوندوی المتخلص بہ احمقؔ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲؎

 

۱۔ خبطِ گیسو ہوا عشقِ رُخِ جاناں نہ ہوا

مجھ کو پیچش ہی ہوئی شکر ہے یرقاں نہ ہوا

 

۲۔ صلۂ قوم فروشی کی تمنّا ہی رہی

مر مٹا شیخ خوشامد میں مگر خاں نہ ہوا

 

۳۔ مجھ کو حیرت ہے ترے عہد میں اے دورِ صلیب

کیوں ابھی آرڈرِ ضبطیِ قرآں نہ ہوا

 

۴۔ گلِ عارض پہ ترے بلبلِ شیدا کی طرح

ایک اُلّو بھی تو کم بخت غزل خواں نہ ہوا

 

۵۔ جیل خانے کے چنے جس نے کبھی چاب لیے

پھر وہ صاحب سے مٹن چاپ کا خواہاں نہ ہوا

 

۶۔ اہلِ یورپ نے کیا ہے وہ تماشہ جو کبھی

آپ کے باپ سے بھی حضرتِ شیطاں نہ ہوا

 

۷۔ نہ قفس کی تجھے پروا ہے نہ صیاد کا خوف

شکر کر زاغ کہ تو مرغِ خوش الحاں نہ ہوا

 

۸۔ چارہ گر اس لیے روتے ہیں کہ بیمار فراق

تختۂ مشقِ بنفشہ و سپستاں نہ ہوا

 

۹۔ مر گیا موت سے پہلے ہی شبِ ہجر احمقؔ

ملک الموت کا شرمندۂ احساں نہ ہوا

۔۔۔۔۔

۱؎  یہ سطر کاٹ دی گئی۔ غالباً رضا کار موصوف شاعر نہ تھے۔

۲؎  یہاں اصل مسوّدہ پھٹ چکا ہے۔ مظفرؔ حنفی

 

دوسری غیر طرحی غزل جو فتح گڑھ جیل سے آگرہ جیل آتے ہوئے لکھی گئی تھی:

 

سامنے سے مدعی کی بزم میں جاتے ہوئے

وہ نکل جاتے ہیں میرے دل کو برماتے ہوئے

 

کونسل میں شیخ جی پہنچے جو اٹھلاتے ہوئے

خوف سے شیطان بھاگے ٹھوکریں کھاتے ہوئے

 

میں کوئی ہوّا نہیں جو آپ کو کھا جاؤں گا

آپ گھبراتے ہیں نا حق میرے پاس آتے ہوئے

 

دیکھیے ان بندروں کی ہیئت میمونیت

کیا بھلے معلوم ہوتے ہیں یہ غرّاتے ہوئے

 

باوجود اس اتقائے خاص کے بھی شیخ جی

بارہا پکڑے گئے ہیں ان کے گھر جاتے ہوئے

 

کیا سو دیشی تار پیڈو میں نہیں اتنا بھی زور

ڈوب جائیں مانچسٹر کے جہاز آتے ہوئے

 

ایسے وعدے سے تو اچھا تھا کہیں ان کارِ وصل

دو مہینے ہو گئے ظالم کو ٹرخاتے ہوئے

 

خبطِ کونسل نے دِوالہ ہی دیا ان کا نکال

نذرِ آنر سیٹھ جی کے سب بھی کھاتے ہوئے

 

ہے محلے میں رقیبوں کے ہی میرا بھی مکان

اس طرف بھی آ نکلیے گا ادھر جاتے ہوئے

 

ریل گاڑی میں لکھی ہے ہم نے احمقؔ یہ غزل

فتح گڑھ سے آگرے کی جیل کو جاتے ہوئے

(حضرت احمقؔ کی دونوں غزلیں بہت پسند کی گئیں اور نہایت دلچسپی سے سنی گئیں۔ اور ان کو بار بار پڑھنے کی فرمائش کی گئی۔ عارف ہسوی)

 

غزل غیر طرحی بابو رگھوپتی سہائے فراقؔ بی اے گورکھ پور

 

حشر میں کہتے ہیں کہہ دو یہ مرا قاتل نہ تھا

صدقے اس تقریر کے گویا کہ میں بسمل نہ تھا

 

غرق کر کے میری کشتی، پھر گئی تو بھی تو موج

تجھ کو سر ہی تھا جو ٹکرانا تو کیا ساحل نہ تھا

 

کر کے دشمن سب کو میرا تم نے ثابت کر دیا

دعوۂ تسخیرِ عالم دعوۂ باطل نہ تھا

 

کیوں نہ موجیں سر پٹکتیں جوشِ غم میں اے حباب

گود میں دریا تھا تو کیا تشنہ لب ساحل نہ تھا

 

(آئندہ مشاعرے کے لیے حسبِ ذیل مصرع طرح تجویز کیا گیا:

ع    دیا ہے درد اگر تو نے تو اس کو لا دوا کر دے

دعا، خدا، آشنا قافیہ، کر دے ردیف۔ عارف ہسوی)

۱۹۶۲ء

٭٭٭

 

 

 

نئی اور پرانی تنقید

 

اردو ادب میں ناقدین کی جانبداری کے خلاف اتنا شدید احتجاج غالباً پہلے کبھی نہیں کیا گیا جتنا اس دور میں کیا جا رہا ہے۔ قاعدہ ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے لیے اصل سے زیادہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے کچھ یہی جذبہ ان مضامین میں بھی کار فرما ہے جو آج کل مستند ناقدین کے خلاف لکھے جا رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلے پر کھُل کر گفتگو کی جائے ورنہ ممکن ہے یہ دھُند اتنی کثیف ہو جائے کہ حق و باطل میں تمیز نہ کی جا سکے۔

اس سلسلے میں پہلا قابلِ ذکر مضمون پروفیسر شکیل الرحمن کا ہے جو غالباً ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا تھا اور جس میں سجاد ظہیر کی تنقیدوں کو جانبدارانہ قرار دینے کی بڑی حد تک کامیاب کوشش کی گئی تھی۔ اس بات سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حالیؔ نے نقد و نظر کے جو اصول رائج کیے وہ اپنی بُنیادی اہمیت کے باوجود زیادہ دن تک اُردو ادب کی چہار طرفہ پھیلتی بڑھتی ہوئی اصناف کا پورا پورا احاطہ نہیں کر سکے۔ زیادہ تفصیل میں جانے سے بات دُور تک پہنچے گی لیکن نیازؔ فتحپوری کی جوشؔ و جگرؔ کے کلام پر تنقیدوں سے لے کر مجنوںؔ  گورکھپوری کے تنقیدی مضامین تک ہمیں وہ منصفانہ اور کھرا تنقیدی مزاج نظر نہیں آتا جو کسی تخلیق یا فنکار کا صحیح مقام متعین کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے قبل قواعد اور عروض کی غلطیاں گنا دینے اور الفاظ پر گرفت کرنے کے علاوہ تنقید کے نام پر اردو ادب میں شاذ و نادر ہی کچھ ملتا ہے۔ ہزار نظریاتی اختلافات کے باوجود رفتار ادب سے واقفیت رکھنے والا کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ترقی پسند تحریک نے دیگر اصناف کی طرح اُردو تنقید کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ تحریک کے ابتدائی دور سے ہی ہمارے ناقدین تین دھڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ ادب میں تنقید کو اولیت دینے والے ناقدین جن میں احتشام حسین، آل احمدسرورؔ،  وقار عظیم، سید اعجاز حسین، حنیف فوق، عبادت بریلوی وغیرہ پیش پیش تھے۔ ان میں آل احمد سرور نے نئی نسل کا بہت دور تک ساتھ دیا ہے اور اکثر ناقدوں نے جانبداری کی مثالیں قائم کی ہیں۔ پھر وہ نقاد جو فن برائے فن کے قائل تھے انھیں بھی دو قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے ایک تو رجعت پسند اور روایتی ادب کی لکیر کے فقیر جو جوشؔ، ملسیانیؔ، ناطقؔ گلاؤ ٹھی۔ ابرا حسنی اور نوحؔ ناروی قسم کے عروضی اساتذہ کو ہی ناخدائے سخن کہہ کر خوش ہو لیتے تھے۔ دوسرے وہ جن کی بیرونی ادب پر گہری نگاہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ فن میں مقصد کے دخل کو گوارا نہ کرتے تھے۔ حسن عسکری اور ممتاز شیریں وغیرہ موخر الذکر جماعت کے امام ہیں۔ ناقدین کی تیسری جماعت بہت کم نفوس پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ انتہا پسند ہیں انھیں اردو ادب میں کہیں کوئی جان نظر نہیں آتی۔ ان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ مغربی ادب پر اُن کا مطالعہ بے حد وسیع ہے اور اُردو حیسی چند سو سالہ کمسن زبان کا موازنہ یہ لوگ لاطینی، انگریزی، روسی اور فرانسیسی جیسی ہزار ہا سال پُرانی زبانوں کے لٹریچر سے کرتے ہیں اور پھر مایوس ہو کر جارحانہ تنقید پر اُتر آتے ہیں۔ کلیم الدین احمد ان لوگوں کے قافلہ سالار ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ظ۔ انصاری اس صف کے ساتھ شامل ہوئے اور آج کل دیویندر اسّر قسم کے چند نو جوانوں میں بھی یہی رجحانات پائے جاتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے، جہاں ناقدین اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے ہوں وہاں سچی غیر جانبدارانہ تنقید کے لیے کتنی گنجائش رہ جاتی ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ناقدین نے فرداً فرداً ان فنکاروں کو جن کا اُن کی ذات یا نظریات سے تعلق تھا اپنے اپنے طور پر پرکھا اور اُن کے مقام متعین کرنے کی کوشش کی۔ ادب برائے زندگی اور فن برائے فن کی بحثیں چلیں۔ کبھی منٹو جیسا افسانہ نگار ترقی پسندوں کے نزدیک گردن زدنی ٹھہرا، کبھی میراؔ جی جیسا شاعر حسن عسکری گروپ کی طرف سے سب سے بڑا شاعر قرار دیا گیا۔ اس دور کی تمام تنقیدوں کو تو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن نظریات کے ان جھمیلوں میں پڑ کر اُردو تنقید جانبداری کا شکار ضرور ہوئی چنانچہ ایک طرف جہاں خواجہ احمد عباس جیسے دس پندرہ صحافتی افسانوں کے خالق اور شفیق الرحمن جیسے ہلکے پھلکے افسانہ نگار تو اپنے حقوق سے بہت زیادہ لے گئے وہاں اعظم کریوی، بلونت سنگھ، کوثر چاند پوری، ش۔ مظفر پوری، دیویندر ستیارتھی، قیسی الفاروقی، سدرشن اور آسی رام نگری جیسے زود نویس افسانہ نگار نظریاتی بے تعلقی کی بنا پر یکسر نظر انداز کر دیے گئے۔ دوسری طرف سے قدرت اللہ شہاب صرف ناول ’’ یا خدا‘‘ لکھ کر، عادل رشید سطحی ناولوں کے بل بوتے پر اور کرشن چندر تفریحی ناولوں کی تخلیق کر کے عظیم ناول نگار قرار پائے اور رشید اختر ندوی جیسے بیسیوں معیاری ناولوں کا خالق دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکے گئے۔ کسی ایک پلیٹ فارم سے متعلق نہ ہونے والے آزاد شاعروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا بہت سے اہم شاعر جن کے کلام میں جان ہے نہ اِدھر کے ناقدوں کی نظر میں آئے نہ اُدھر کے نقادوں نے انھیں قابل اعتنا جانا۔ شادؔ عارفی، سکندر علی وجدؔ، روشؔ صدیقی، ساغرؔ نظامی، نشورؔ واحدی، نازشؔ پرتاب گڈھی، شفیقؔ جونپوری، سراجؔ  لکھنوی، قابلؔ امرتسری، مصطفی زیدی، آنند نارائن مُلّاؔ، نثار اٹاوی، سلامؔ مچھلی شہری، نریش کمار شادؔ، شفاؔ گوالیاری، ثاقبؔ کانپوری، اعجازؔ صدیقی، ماہر القادری، ادیبؔ سہارنپوری‘ شورؔ علیگ، طرفہؔ قریشی، فضاؔ ابن فیضی، الطافؔ مشہدی، احسان دانش، ادیبؔ مالیگانوی، کوثرؔ جائسی، باسطؔ بھوپالی اور شکیلؔ بدایونی وغیرہ اس زمانے میں نظریاتی تعصب کا شکار ہوئے۔ ایک گروپ نے اُنھیں اس لیے نظر انداز کیا کہ ان کے فن میں مقصد کی جھلک تھی، دوسرے دھڑے نے اس قصور پر مُنھ نہ لگایا کہ مقصد نعرے بازی کی حد تک پہنچا ہوا نہ تھا یا یہ لوگ پارٹی لائن پر کام کرنے والوں کے مقابلے میں غیر اہم تھے۔

پھر ملک کی تقسیم عمل میں آئی۔ رسالوں اور کتابوں کی اِدھر سے اُدھر آمد و رفت پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ناقدین اپنی اپنی طرف کے لکھنے والوں کی جانب زیادہ متوجہ ہوئے کہیں کہیں منظم سازش کے طور پر ہندوستانی اور پاکستانی ادب کا سوال بھی اُٹھایا گیا اور اس طرح نقّاد جن کی غیر جانبداری پہلے ہی مشتبہ تھی کھُل کر جانبداری پر اُتر آئے۔ اسی اثنا میں ایک نئی نسل بھی اُبھر کر سامنے آئی جو کاتا اور لے دوڑی کے بمصداق فوراً اپنے لیے تنقید کے مروّجہ اُصولوں میں کتر بیونت کا مطالبہ کرنے لگی۔ وزیر آغا، راہیؔ معصوم رضا، رئیسؔ  امروہوی اور سلیم احمد جیسے ذہین لوگ اس نسل کو باقاعدہ منوانے پر آمادہ ہوئے۔ اوّل الذکر نے رحمن مذنب جیسے مبتدی افسانہ نگار کو منٹو سے اونچا اٹھا دیا، راہیؔ نے شہر یار جیسے نئے شاعر کو جوش کے ساتھ نتھی کر دیا اور رئیسؔ کو طیش آیا تو بشیر فاروق جیسے نو وارد فنکار کو فیضؔ اور سرؔدار جعفری سے میلوں آگے بڑھا دیا کچھ لوگ انصاف کرنے اُٹھے تو اُنھوں نے مسئلے کو اور بھی اُلجھا کر رکھ دیا۔ صلاح الدین احمد نے احتشام حسین کی ٹانگ لی کہ افسانہ نگاروں کی صف میں پاکستان کے نوجوان فنکاروں کے نام کیوں نہیں گنوائے گئے۔ دیویندر اسّرنے باقاعدہ ’’تحریک‘‘ میں ’’ تاثرات و تعصبات‘‘ کا سلسلہ شروع کر کے نئی نسل کے فنکاروں کو ناکارہ، کند ذہن اور مریض کہہ کر اشتعال دلایا اور اب یہ عالم ہے کہ ہر فنکار اور ناقد اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کے خلاف ہزار شکایات لیے بیٹھا ہے۔

بہتر ہو گا اگر بات کو آگے بڑھانے سے قبل یہ طے کر لیا جائے کہ نئی نسل کہہ کر ہم کن لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ بقول راہیؔ معصوم رضا ’’ میں اب نوجوان نہیں ہوں اس لیے اپنا شمار نوجوان ادیبوں میں نہیں کرتا۔ نیا ادب در اصل ان ادیبوں کی تخلیق ہے جو غلام ہندوستان میں اگر تھے بھی تو اتنے چھوٹے کہ انھیں وہ یاد نہیں رہ گیا۔ مجھے ہندوستان کی غلامی اچھی طرح یاد ہے۔ اس لیے میں بھی آج کے سنّاٹے اور تنہائی کے احساس کو پوری طرح سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔ ‘‘ راہیؔ معصوم رضا نے یہ بات نئی نسل کی حمایت میں کہی ہے لیکن غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے بڑی چابکدستی کے ساتھ نئی نسل کو پچکار کر اپنا شمار فراقؔ، سردارؔ، فیضؔ اور مخدومؔ کی صف میں کر لیا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ نئی نسل کی اتنی واضح تعریف بیان کرنے اور اپنے آپ کو اس صف سے نکال لینے کے بعد وہ نئے ادیبوں میں رام لال جیسے افسانہ نگار کا نام گنواتے ہیں جو غلام ہندوستان میں نہ صرف جوان ہو چکے تھے بلکہ افسانے لکھ کر ۱۹۴۲ء میں صلاح الدین احمد سے اُنھیں چھاپنے کی درخواست بھی کرتے تھے یا نئی نسل میں خلیل الرحمن اعظمی، بلراج کومل اور مصطفیؔ زیدی کے نام لے کر انھوں نے صرف اپنے آپ کو ان شاعروں سے اونچا اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، میں در اصل کہنا یہ چاہتا ہوں کہ نئی نسل کی یہ تعریف قطعاً غلط ہے اور اس سلسلے میں وہی بات زیادہ مناسب ہے جو بہت دنوں سے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ ۱۹۴۷ء کے بعد سے جو لکھنے والے منظرِ عام پر آئے ہیں اُن کا شمار نئی نسل میں ہونا چاہیے خواہ اُن کی عمر کچھ بھی ہو۔ نئی نسل کے ساتھ عمر کی قید لگا کر ہم اُس کے ساتھ انصاف نہ کریں گے البتہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بے انصافی ضرور ہو گی۔ غلام ہندوستان میں جو ادیب اتنا کمسن رہا ہو کہ اب اُسے اُس کی یاد بھی نہ رہ گئی ہو، آج زیادہ سے زیادہ بیس بائیس سال کا نوجوان ہو گا۔ بالفرض وہ آج کا مشہور شاعر یا ادیب ہے تو اُس کی ادبی عمر زیادہ سے زیادہ تین چار سال ہو گی۔ اب ایسے لوگوں کے لیے جن کا مشاہدہ محدود، تجربہ بہت ہی محدود اور شعور نا پختہ ہے، ہم یہ مطالبہ کر بیٹھیں کہ ان کے لیے تنقید کے پُرانے سانچے تنگ پڑیں گے، غالبؔ کا لباس اُنھیں چُست آئے گا، کتنی غلط اور مضحکہ خیز بات ہے۔ میرے خیال میں تو غالبؔ کا لباس اُن پر اتنا ڈھیلا ہو گا جیسے بھیڑ پر ہاتھی کی جھول اور اگر اسی طرح ہم ہر تین چار سال بعد پیدا ہونے والی نئی نسل کے لیے تنقید کے اصول تبدیل کرتے رہیں گے تو ہمارا سارا ادبی سرمایہ گڈمڈ ہو کر رہ جائے گا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ نئی نسل کی وہ تعریف راہیؔ روا روی میں کر گئے ہوں۔ اس بات کے ڈانڈے بڑی دُور جا کر ملتے ہیں۔ دیکھیے ممکن ہے میری بات آپ کی سمجھ میں بھی آئے۔

ترقی پسند تحریک کی ابتداء سے ہی فن برائے فن کے حامیوں کی ایک جماعت کچھ سیاسی یا ذاتی اغراض کی بناء پر اس کی مخالف رہی۔ حسنؔ عسکری اور ممتاز شیریں وغیرہ اس گروہ کے نمائندے تھے۔ یہ لوگ مسلسل کوشاں رہے اور وقتاً فوقتاً منٹوؔ جیسے عظیم افسانہ نگار کو توڑنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اس وقت قرۃ العین حیدر، عزیز احمد جیسے گنتی کے دوسرے چند فنکاروں کے علاوہ لوگ مستقل طور پر ان کے ہتھے نہیں چڑھے تحریک اپنے شباب کو پہنچی’’ ادب برائے زندگی، ، اور ’’ ادب میں مقصد کی اہمیت‘‘ وغیرہ قسم کی باتوں سے مرعوب ہو کر لکھنے والے فن اور مقصد میں حسن تناسب کے بُنیادی اصول کو چھوڑ بیٹھے۔ نظریات پر سیاست اور ادب پر پروپگنڈہ اور نعرے بازی حاوی ہو گئے۔ نتیجتاً اس تحریک کا زوال شروع ہوا۔ فن برائے فن کے حامیوں کو خارجیت کے خلاف محاذ بنانے کا بڑا سنہرا موقعہ ہاتھ آیا اور اُنھوں نے مختلف حربوں سے از خود مائل بہ زوال تحریک پر چوٹ پہنچانی شروع کی۔ سہل پسند اور سستی شہرت کی متلاشی نئی نسل سامنے تھی، صرف تنہائی، داخلیت، اپنی ذات کی تلاش، زندگی سے فرار، الم پرستی کی عظمت اور اس قسم کے نفسیاتی گورکھ دھندوں میں اُلجھا دینے والے موضوعات کو عام کر کے اس نسل کو بڑی آسانی سے بہکا لیا گیا۔ علامتی شاعری اور افسانہ نگاری کو اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ نئی نسل بڑھ چڑھ کر الجھی ہوئی اور گنجلک چیزیں لکھنے پر آمادہ ہو گئی اس بہکانے والی سازش میں مخصوص نظریات رکھنے والے ناقدین سے لے کر ناشرین اور مدیران سبھی شامل تھے۔ راہی، ؔبلراج کومل اور رام لال جیسے ترقی پسند فنکار جب توڑ لیے گئے ہوں تو نئی نسل کو بہکا لینے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اب اسی نئی نسل کو اسی دور کے عظیم فنکاروں کے سامنے کھڑا کر کے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ رحمنؔ مذنب کو منٹو سے بڑا افسانہ نگار اور شہر یارؔ کو جوشؔ سے بڑا شاعر تسلیم کیا جائے۔ تنقید کے اصول تبدیل کیے جائیں۔ یعنی ترقی پسندی کے عہد میں جن جن کو عظمت نصیب ہوئی ہے، انھیں نچلی سطح پر لائیے اور اس طرح خالی ہونے والی بلند کرسیوں پر نئی نسل کے ان فنکاروں کو بٹھلائیے جو فن برائے فن کے حامیوں کی انگلیوں پر کھیل رہے ہیں۔

اپنے حق کے لیے لڑنا بہت اچھی بات ہے لیکن دوسروں کا حق چھیننے کی کوشش کرنا اس سے بھی زیادہ بُری بات ہے۔ نئی نسل کی مبالغہ آمیز توصیف کر کے کیا آپ اس نسل کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتے جو ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد ابھری ہے۔ جس کی ادبی عمر اس وقت سولہ سترہ سال ہے یعنی وہ تقریباً بالغ ہو چکی ہے۔ اس نسل کے ایک ایک فنکار نے فرداً فرداً نئی نسل کے فنکاروں کی بہ نسبت دس گنا زائد اور زیادہ بہتر اور واضح تخالیق پیش کی ہیں۔ بے شک آپ جدید ترین نسل کے لیے انصاف کا مطالبہ کیجیے لیکن اس درمیانی نسل کو نظر انداز نہ کیجیے۔ جس میں اقبال فرحت اعجازی، عمر عادلؔ مارہروی، اقبال مجید، ابراہیمؔ یوسف، عوض سعید، پشکرؔ ناتھ، مہندر باوا، رضیہ سجاد ظہیر، صالحہ عابد حسین، مختار احمد، غیاث احمد گدّی، نینا کاش، کیول سوری، دیویندر اِسّر، راج کنول، ش اختر، سدرشن بالی، ہیرا نند سوز، م۔ م۔ راجیندر، جاویدؔ لطیف، ست پرکاشؔ سنگر، یوسفؔ منان، رئیسؔنجمی، ذکی انور، عزیز اثری، احمد جمال پاشا، عفت موہانی، مسیح الحسن رضوی، وصی اقبال، برج موہن طوفاںؔ، اکرام جاوید، حامدی کاشمیری، عطیہ پروین، نیلو فر راجہ، گوردیال سنگھ والیہ، شوکتؔ رانا، نورؔ شاہ، موہن یاورؔ، کلام حیدری، قیصر نمکین، جگدیش بمل، رفعت بلخی، محمود واجد، مسیح الزماں امروہوی اور ٹھاکر پونچھی (اپنے طور پر پوری کوشش کے باوجود میں ان تمام مستحق فنکاروں کے نام نہیں دے سکاہوں جو ناقدین کی جانبداری کا شکار رہے ہیں ) جیسے بیسیوں اچھے اور اہم افسانہ نگار موجود ہیں جن کے ہاں فن اور مقصد کا اتنا حسین امتزاج ہے کہ آپ انگلی رکھ کر نہیں کہہ سکتے یہاں سے فن اور مقصد علیحدہ ہو رہے ہیں۔ جنھوں نے بہت لکھے ہے، بہت سوچ کر لکھا ہے اور بہت صاف لکھا ہے، ایسا کہ پڑھ کر عام لوگ سمجھ سکیں، محسوس کر سکیں۔

اسی طرح آپ شہریار، وزیر آغا، محمد علوی، ندا فاضلی، بشیر فاروق اور کمار پاشی وغیرہ کے لیے حقوق طلب فرمانے میں حق بجانب ہیں اور  ہم آپ کے ساتھ بھی ہیں لیکن آپ شفقتؔ کاظمی، عشرت قادری، ظفر اقبال، عزیزؔ اندوری، وقار واثقی، مخمور سعیدی، ہادی مصطفی آبادی، ارشد صدیقی، اختر نظمی، کیف احمد صدیقی، بشیر بدر، پیام فتحپوری، بانی، پریم وار برٹنی، گوہر جلالی، واہی عمیق حنفی، شبنم رومانی، دلاور فگار، کامل بہزادی، باقر مہدی، خلیل رامپوری، محبوب خزاں، ساحر نجمی، کاوش بدری، حرمت الاکرام، علیم اختر، اویس احمد دوراں، مقصود عمرانی، ساحر ہوشیار پوری، سلطان اختر، الطاف شاہد، فضل تابش، وشو ناتھ درد، صلاح الدین نیّر، وقار خلیل، خالد شفائی، قیصر مظہرحسین، ایاز جھانسوی، محمد علی تاج، زیب غوری، خاور بانکوٹی، عرش صہبائی، حسن نعیم، وحید پرواز ( اس فہرست میں بیشتر نام اُن فنکاروں کے ہیں جن سے میں اچھی طرح واقف ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ بے انصافی ہو رہی ہے، اس کے لیے میں پورے اعتماد کے ساتھ ان کے نام لینے میں جھجک نہیں محسوس کرتا البتہ اپنے طور پر پوری کوشش کے باوجود میں انتمام مستحق فنکاروں کے نام نہیں دے سکا ہوں جو ناقدین کی جانبداری کا شکار رہے ہیں۔ ) وغیرہ کی خدمات کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے کہ اگر انھوں نے اپنے خونِ جگر سے تخلیق کردہ فن پاروں میں زندگی کے ترانے گائے ہیں اور خالص نعرے بازی سے بچتے ہوئے مقصدیت کو برقرار رکھا ہے تو کوئی جرم نہیں کیا۔

نئی نسل کو خواہ وہ ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد منظر عام پر آئی ہو یا ابھی تین چار سال قبل، بہت سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانے ہیں۔ نعرے بازی اور انتہا پسندی جب ترقی پسند تحریک کو اس منزل پر لا سکتی ہے، جہاں وہ اب ہے، تو محض داخلیت پسندی اور زندگی سے فرار کا جذبہ اپنی انتہا کو پہنچ کر ناسخؔ کے انجام پر بھی لگا سکتا ہے۔ ہمارا فن واضح، متوازن اور با مقصد ہونا چاہیے۔ زندگی سے فرار ممکن نہیں۔ ہاں اُسے فن کی آمیزش سے خوشحال ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ حقیقتوں سے چشم پوشی کر کے اپنی ہی ذات میں محدود ہو کر رہ جانے کا نام فنکاری نہیں بزدلی ہے۔ ماحول سے شکست کھا کر موت کی خواہش کرنا بھی شاعری یا افسانہ نگاری نہیں۔ یہ سنّاٹا، یہ تنہائی ہمارے خوفزدہ ہو جانے سے دُور نہ ہو گا۔ اُسے دُور کر نے کے لیے محنت کرنی ہو گی، با مقصد تحریروں کے ذریعے۔ سب کی سمجھ میں آنے والا ادب ہی سب کو متاثر کر سکتا ہے۔ ورنہ محنت کیے بغیر صرف پروپیگنڈہ کے سہارے تو ادب میں کوئی خاص مرتبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اگر حاصل بھی ہو جائے تو وہ دیر پا نہیں ہوتا اتنا تو شاید ہم سب ہی  جانتے ہیں۔ رہی بات ناقدین کی غیر جانبداری کی تو آپ پُرانے ناقدین کا منہ کیوں تاکتے ہیں۔ نئی نسل کے ناقد بھی نئے ہونے چاہئیں۔ آج اُردو ادب کی فضا نئے ناقد کے لیے ہمیشہ سے زیادہ ساز گار ہے۔ لیکن اس نئے ناقد کے لیے وسیع النظری اور غیر جانبداری پہلی شرط ہو گی۔ ورنہ اب تک تو نئی نسل نے اپنے غیر جانبدار ہونے کا کوئی خاص ثبوت نہیں دیا ہے۔

۱۹۶۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

تجریدی شاعری اور ترسیل کا مسئلہ

 

اُردو کے نئے شاعر زندگی کی ہمہ پہلو ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کسی قسم کی نظریاتی وابستگی کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اشاریاتی، علامتی اور تجریدی عنصر تمام اصنافِ ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے بالخصوص شاعری کا میدان اس کے لیے زیادہ زرخیز ثابت ہوا ہے۔ بیسویں صدی میں تہذیبی ارتقاء کے ہمراہ فرد کی نگاہ بھی تیز رفتار ہو گئی ہے وہ اپنے بزرگوں کے مقابلے میں بات کی تہہ تک بہت جلد پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ اب واضح اور واشگاف طرزِ بیان کو کچھ زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور تجریدی شاعری کے لیے مقبولیت کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔

کئی دیگر ادبی تحریکات کی طرح تجریدی شاعری بھی عالمی ادب کو فرانس کی دین ہے جہاں تجریدیت پارنیسی دبستانِ شاعری کے خلاف ردِّ عمل کے طور پر انیسویں صدی کے آخر میں وجود میں آئی پارنیسی شاعر رومانیت پسندوں کی طرح اپنے ما فی الضمیر کا مکمل اظہار چاہتے تھے۔ معروضیت ان کا وصفِ خاص تھا، ہیئت، صحتِ الفاظ اور خارجیت پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ تجریدی شاعری ان پابندیوں کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھی۔ زبان و بیان کے سلسلے میں عائد کردہ روایتی اصول اور قاعدے بالائے طاق رکھ کر تجریدی شاعروں نے اپنے جذبات کے بلا واسطہ اظہار کی روش اختیار کی خارجیت کو حتی الامکان رد کیا گیا۔ معروضیت اور مادّیت جیسی اقدار کی نفی کی گئی اور ان سے نجات پانے کے لیے ذات کے سمندر میں خوابوں کے جزیرے تلاش کیے گئے۔ تجرید پسندوں نے وضاحت اور تجزیاتی اظہار سے دامن بچا کر شعوری طور پر اپنی باتوں کو تہہ دار بنانے کی کوشش کی اشاروں اور کنایوں کو اپنا فن قرار دیا جس کی وجہ سے اُن کی شاعری میں ایک معمّاتی کیفیت پیدا ہو گئی بحیثیت مجموعی یہ تحریک حقیقت پسندی کے خلاف فطرت پرستی کا ردِّ عمل تھی۔ بیشتر تجریدی شاعروں کی سوچ کانٹ اور شوپنہار جیسے فلسفیوں کے خیالات سے ہم آہنگ تھی جن کے افکار میں الجھاؤ اور ابہام کی کثرت ہے لہٰذا تجریدی شاعروں کے ہاں بھی ابہام اور بسا اوقات اہمال تک پایا جاتا ہے۔ ان فنکاروں نے عروض، اوزان اور اسٹینزا سے حد بھر روگردانی کی، نئی ہیئت اور نئے اصولوں کی دھُن میں موضوعات بھی ان کی گرفت سے نکل گئے۔ اس خارج از موضوع شاعری کو وہ خالص شاعری کا نام دیتے تھے چونکہ اُن دنوں دیگز کی موسیقی بے پناہ مقبولیت حاصل کر رہی تھی اور تجریدی شاعروں کو اس کا پُر وقار آہنگ حد درجہ پسند تھا اس لیے موسیقیت اور غنائیت اس عہد کی تجریدی شاعری کا جزوِ اعظم بن گئی۔

حالانکہ پندرہویں صدی کے ایک فرانسیسی شاعر فرانساں ولاں کی شاعری میں تجریدیت کی جھلک نظر آتی ہے اور اس کی دو نظمیں ’’ چھوٹا عہد نامہ‘‘ اور ’’ بڑا عہد نامہ‘‘ تجریدیوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں لیکن چونکہ تجریدی شاعری کی باقاعدہ تحریک اواخر انیسویں صدی میں چلائی گئی اس لیے اسی عہد کے شاعر بود لیر کو تجریدی شاعری میں اہم ترین حیثیت حاصل ہے۔ بودلیر نے تجریدیت کے بنیادی قوانین وضع کیے اس کے نزدیک شاعر کو نیکی اور صداقت سے بے تعلق ہو کر صرف حُسن پر نگاہ رکھنی چاہیے جس کا یہ کائنات محض ایک پرتو ہے۔ بودلیر نے اپنی اکثر نظموں کے ذریعے اخلاقی اقدار کو پامال کیا۔ اس نے شعور اور وجدان کو بھی رد کیا ہے۔ اس کی شاعری غنائیت سے مملو ہے۔

پال ورلین پہلے Parnassian تھا اُس نے بودلیر کی تقلید میں پارنیسی دبستان سے قطع تعلق کر لیا اور تجریدیت کا ہمنوا ہو گیا۔ ممنوعہ مسرتوں کی تلاش، نازک بیانی، حسّیاتی کیفیات کی مصوری، غنائیت اور لذت پرستی اس کی شاعری میں نمایاں ہے جسم اور روح کے متوازی خطوط کا اظہار بھی اس کا ایک وصف ہے۔ اس کا کلام ایک خوابناک فضا کی تخلیق کرتا ہے۔ ورلین نے مصرعوں کی ترتیب میں تبدیلیاں کیں قافیہ کو جلا وطن کیا اور آزاد عاری نظموں کی ابتداء کی۔

آرتھر  ریمبو نے بھی بودلیر کی طرح نا معلوم کو ظاہر کرنے کی کوشش کی اپنی ذات، جذبات اور احساسات کی تحلیل و تجزیہ سے فن کو بلند کیا، اصوات اور نگوں میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ شکوہِ الفاظ، نادر تمثیلات، تخیل کی اپج اور فنکارانہ اظہارات کی وجہ سے ریمبو، فرانس کی تجریدی شاعری کا اہم ستون بن گیا ہے۔

اسٹیفن ملارمے اسی صف کا ایک اور اہم تجریدی شاعر ہے۔ ناقابلِ فہم الہامی جملے، ابہام، غنائیت، فنی بے ضابطگیوں میں ضابطگی، پیچیدگی اور چیستانی کیفیت، اس کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ ملارمے نے فعل، حرفِ ربط اور رموز و اوقاف کا استعمال یکلخت ترک کر دیا اور ایک ایسی شاعرانہ زبان تخلیق کرنے کی کوشش کی جس میں الفاظ کے معنی جدید ہوں۔ اس نے فرانسیسی شاعری میں گہرائی اور لطافت کو جس طرح سمیٹ لیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پال دیلری، ملارمے کے جانشین کی حیثیت سے مشہور ہے علاوہ ازیں فرانسیسی تجرید پسندوں میں کومتے دی لاڈٹریمونٹ، چارلس کراس، کور بیری، جولس لا فورج وغیرہ کے نام بھی قابلِ ذکر ہیں۔

تجریدی شاعری کے بطن سے برآمد ہونے والا ایہام اپنے ساتھ ایک خاص فائدہ لایا ہے۔ انسان کے شعور میں ان گنت خیالات ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کا سیدھا سادا بیانیہ اظہار محال بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی موہوم ذہنی کیفیات جن کا کوئی واضح خاکہ یا نقش نہیں ہوتا، روایتی شاعری کی گرفت میں نہیں آ سکتیں لیکن ایک اچھا تجریدی شاعر ان کیفیات کو قاری کے ذہن تک منتقل کرنے میں اکثر کامیاب رہتا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ بعض اوقات کسی فن پارے کو پڑھ کر ایک ایسی ناقابلِ بیان جمالیاتی مسرت کا احساس ہوتا ہے جس کا اس فن پارے سے کوئی قابلِ فہم تعلق نظر نہیں آتا۔ ایک ایسی خالص سرخوشی جو الفاظ کے معانی سے آزاد ہوتی ہے اور اپنی اسی نوعیت کی وجہ سے اس کیفیت سے قریب ہوتی ہے جو موسیقی سے حاصل ہوتی ہے۔ تجریدی شاعری کے کامیاب نمونے اکثر ایسی جمالیاتی مسرت فراہم کرتے ہیں۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں خصوصاً ہندوستانی زبانوں کے ادب میں تجریدی شاعری کی ابتداء اس وقت ہوئی جب کہ خودفرانس میں تجریدیت کی تحریک رو بہ زوال ہو چکی تھی۔ اُردو شاعری میں تجریدیت کی یہ رَو ۱۹۳۵ء کے آس پاس داخل ہوئی۔ یہ وہ دَور ہے جب ترقی پسند تحریک زور پکڑ رہی تھی ملک کے اقتصادی اور سیاسی حالات کچھ ایسی منزل میں تھے جوترقی پسند تحریک کے لیے سود مند ثابت ہوئی اور تجریدیت کی رفتارِ ترقی سست رہی تاہم میراؔ جی کی تقریباً پوری شاعری، یوسف ظفر، قیوم نظر اور ن۔ م راشدؔ کی بیشتر نظمیں، شادؔ عارفی کی ’’ مال روڈ‘‘ اور’’ اختلافات‘‘ کے قبیل کی تخلیقات اور تصدق حسین خالدؔ کی ’’ ایک کتبہ‘‘ اور ’’ حسن قبول‘‘ جیسی کچھ علامتی تخالیق اس عہد کی تجریدیت کے کامیاب نمونے ہیں۔

ان شاعروں میں سے بطور خاص میرؔا جی کی نظمیں ترقی پسند نقطۂ نظر کی ضد ہیں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ بعض ترقی پسند شعراء کی نظموں میں بھی اندرونی جوش اور حرکت پوشیدہ ہے لیکن ان میں مخصوص سیاسی نظریات اور اصولوں کی شعوری آمیزش نے اکثر مقامات پر شاعر کے باطن سے نظم کا رشتہ منقطع کر دیا ہے ان میں چند مستثنیات کے ساتھ خارجیت کی حکمرانی ہے جب کہ میرا جی کا سفر خارج سے باطن کی جانب ہے۔ ترقی پسند نظم میں جو جذباتی اُبال، رجائیت اور جارحیت غالب نظر آتی ہے، میراؔ جی کی نظم اُس کی جگہ مدافعت، بے بسی، خوفزدگی اور موت کی آمد کا احساس اُبھارتی ہے۔ اس کی تخالیق نفسیاتی تصادم سے تھرتھراتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں گہرائی اور وسعت نظر آتی ہے۔ ان نظموں کی علامتیں زوال کی جہت کو نمایاں کر کے خارج سے داخل کی طرف شاعر کی پیش قدمی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ میراؔ جی ان میں موت کی آواز کو سنتا ہوا اور اپنی ذات کے تحفظ کے لیے مدافعتی انداز میں سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ حیات و مرگ کی یہی کشمکش میراجی کی نظموں کا وصفِ خاص ہے۔ اُس کے ہاں جنسی موضوعات کی افراط ہے اور اس کی نظموں میں ملارمے کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ ان میں لا شعور کی مقناطیسی کشش اور جنسی الجھنوں اور پیچیدگیوں کے خلاف مدافعتی عمل ہے  جو محض جوانی کا اُبال نہیں بلکہ ان موضوعات پر گہری سوچ اور اُن سے براہِ راست نبرد آزما ہونے کا نتیجہ ہے۔ میرا جی ان نظموں میں بار بار اپنی تہذیب کے ماضی کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ ویشنو بھگتی تحریک اور ہندو دیو مالا سے اس کی نظموں میں خاصا استفادہ کیا گیا ہے۔

ن۔ م راشدؔ ایک مضطرب اور غیر مطمئن تجرید پسند شاعر ہے اس کی نظموں میں دو رُخ نمایاں ہیں۔ بہ ظاہر خارج میں اس کی جنگ غیر ملکی حکمرانوں سے ہے لیکن داخلی سطح پروہ فرسودہ نظریات سے ٹکر لیتا ہے۔ روایتی اندازِ بیان اور قدیم تراکیب و تشبیہات کو رد کرتے ہوئے اس نے اظہار کے نئے سانچے ڈھالے۔ اس کی تخلیقات میں اضطرار، برہمی، شوریدگی اور بہاؤ کی تیزی ہے۔ اُردو شاعری کے بدنام روایتی محبوب کو طلاق دے کر راشدؔ نے اپنے فن کے ذریعہ گوشت پوست کی عورت کا احساس دلایا۔ اس کے عہد کی ترقی پسند شاعری اجتماعی معاشرے میں فرد کے وجود کو نظر انداز کرتی تھی۔ راشدؔ کی نظم میں فرد سب کچھ ہے لیکن یہ فرد گمبھیر اور با صلاحیت ہونے کی جگہ برہم، اذیت کوش اور تخریب پسند ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے کلام میں فرد صحت مند اور توانا نہیں بلکہ ایک کراہتا ہوا مجروح انسان ہے۔

تقریباً ایسی ہی فضا اور یہی زخمی کراہتا ہوا فرد تصدّق حسین خالدؔ کی چند نظموں میں بھی نظر آتا ہے لیکن میرا جیؔ، راشدؔ اور خالدؔ کے بر خلاف شادؔ  عارفی کی کچھ نظموں کے طور ہی دوسرے ہیں اس کی تجریدی نظمیں مثلاً ’’ یہ عبادت یہ رسوم‘‘، ’’ ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے ‘‘، ’’ مال روڈ، ’’اختلافات، ، اور ’’ دھوبی‘‘ وغیرہ دو گونہ بلکہ متضاد صفات کی حامل ہیں یعنی وہ تجریدی رہ کر بھی سماجی مقصدیت کی حامل ہیں۔ فنی حیثیت سے بھی ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ بہ ظاہر پابند ہیں لیکن مروجہ اسالیب کی جگہ ان کا اسلوب منفرد اور نیا ہے۔ موضوعات ایسے جو اس وقت تک میدانِ شاعری سے باہر کی چیز سمجھے جاتے تھے، طرزِ بیاں بہ ظاہر گنجلک اور پیچیدہ، ہر مصرع بے ربط سا لیکن ذرا سا غور کیجیے تو ہر نظم کے سارے مصرع ایک دھاگے میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح منسلک و مربوط نکلتے ہیں، شادؔ عارفی ایک ایسا تجرید پسند ہے جو معاشرے کے گھناؤنے پہلوؤں کے خلاف بھی ہے اور معاشرے کی اہمیت کا قائل بھی۔ اجتماعیت کا ہمدرد بھی ہے اور فرد کو بحیثیت فرد پھلنے پھولنے کے مواقع بھی فراہم کرنا چاہتا ہے۔ نظموں میں اس کا لہجہ جلّاد کا سا ہے اور برتاؤ ایک شفیق دوست جیسا۔ وہ نفسیات کی بھول بھلیوں میں چکّر کاٹتا ہے اور جنس کو موضوع قرار دے کر میراؔ جی کی سی بے باکی کے ساتھ لکھتا ہے لیکن سماج کے لیے شاعر کی ذمّہ داری کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ شادؔ عارفی کی تجریدی شاعری اُس عہد کی ترقی پسند شاعری اور حلقۂ اربابِ ذوق، والی شاعری کے بیچ سے ہو کر نکلتی ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ شادؔ نے تجریدی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی تجریدیت کو جگہ دی جس کی کوئی مثال اس سے قبل اُردو شاعری میں نظر نہیں آتی۔

غیر منقسم ہندوستان میں آزادی سے قبل سیاسی اور سماجی حالات کچھ ایسے تھے کہ تجریدی شاعری کو بار آور ہونے کے لیے مناسب آب و ہوا نہ مل سکی اور جیسا کہ قبل ازیں عرض کر چکا ہوں ترقی پسند شاعری ہمارے ادب میں اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی لیکن تجریدیت کا جو بیج میراؔجی، خالدؔ، راشدؔ اور شادؔ بو چکے تھے اس میں اِکّا دُکّا کونپلیں بہر حال پھوٹتی رہیں چنانچہ حلقۂ ارباب ذوق سے متعلق بیشتر شاعروں کے ہاں اور کچھ آزاد فنکاروں کی نظموں میں بھی تجریدیت کی جھلک وقتاً فوقتاً ملتی رہی مثلاً متذکرہ شعراء کے بعد آنے والوں میں مجید امجد، قیوم نظر، یوسف ظفر، اختر الایمان، عبد المجید بھٹی، عزیز مدنی، فارغ بخاری، مختار صدیقی، مظفر علی سید، ضیاء جالندھری، محمد صفدر، عارف متین، ظہور نظر، بلراج کومل وغیرہ کی تخالیق میں ۱۹۶۰ء سے قبل بھی تجریدی شاعری کے بکھرے ہوئے نمونے مل جاتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ادب کے میدان میں ترقی پسندوں کا پرچم لہرا تا رہا۔

۱۹۳۵ء سے ۱۹۶۰ء تک کا درمیانی عرصہ اپنے ساتھ قومی اور بین الاقوامی اعتبار سے بڑی اہم تبدیلیاں لایا اور غیر محسوس طریقے پر تجریدیت کے لیے میدان ہموار کرتا رہا مثلاً اسی عرصے میں دوسری جنگ عظیم لڑی گئی اور اس کے ہولناک نتائج سامنے آئے۔ ہندوستان کو آزادی ملی۔ عظیم پیمانے پر کشت و خون ہوا، مہاجروں کا مسئلہ کھڑا ہوا اور ایسی غیر متوقع آفات کا مقابلہ کرنا پڑا جسے قوم کا حساس طبقہ اور دانشور کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ آزادی کے بعد نفسانفسی، بھائی بھتیجا واد، رشوت ستانی، افلاس، بے روزگاری، انفرادیت کو کچلنے کی روش، صنعتی ترقی کے مضر اثرات، شہروں کا پھیلاؤ اور رشتوں کے انقطاع، سائنش کے ارتقاء اور کاروباری زندگی کے مسائل نے فنکاروں کو نظریات کے چنگل سے نکل کر اپنی ذات کو سوچنے سمجھنے اور اپنے اندر جھانکنے کا مشورہ دیا۔ ترقی پسند شاعری نئے زخموں کا علاج نہ کر سکی چنانچہ نئی اقدار کی کھوج کی جانے لگی اور ۱۹۶۰ء تک تجریدی صفوں میں منیب الرحمن، خلیل الرحمن اعظمی، سید فیضی، تخت سنگھ، ابن انشاء، منیر نیازی، شادؔ امرتسری، فارغ بخاری، وزیر آغا، جمیل ملک، مصطفی زیدی، شہزاد احمد، ناصر کاظمی، باقر مہدی، احمد فراز، الطاف گوہر، محمود ایاز، عرش صدیقی وغیرہ بھی شامل ہو گئے۔ ان شاعروں کی تخلیقات اپنے پیشرو شاعروں کے مقابلے میں کسی حد تک مبہم اور بڑی حد تک مختلف ہیں لیکن ان کے ہاں بھی ترسیل کا المیہ پوری طرح اُبھر کر سامنے نہیں آتا۔

مذکورہ بالا شعراء کے بعد ۱۹۶۰ء کے ارد گرد تجرید پسندوں کی ایک بڑی تعداد نے اُردو کے رسائل پر ہلّہ بول دیا  اب تک تجریدیت محض ایک رجحان کی حیثیت رکھتی تھی، رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ بھی ایک تحریک کی شکل اختیار کر لے گی۔ خورشید احمد جامی، وحید اختر، عمیق حنفی، ماجد الباقری، ظفر اقبال، زبیر رضوی، بمل کرشن اشک، سلیمان اریب، مظہر امام، بشر نواز، قاضی سلیم، شاذ تمکنت، حرمت الاکرام، فضا ابنِ فیضی، مخمور سعیدی، شہاب جعفری، حسن نعیم، بشیر بدر، مظفر حنفی وغیرہ ایسے شاعر ہیں جن کی ادبی حیثیت ۱۹۶۰ء سے پہلے ہی بن چکی تھی لیکن ان لوگوں نے تجریدی شاعری سے اپنا رابطہ ۱۹۶۰ء کے بعد استوار کیا بعد ازاں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ کمارؔ پاشی، بانیؔ، انور شعور، شکیب جلالی، شہر یار، صلاح الدین پرویزؔ، مراتب اختر، مشفق خواجہ، فضل تابش، نذیر ناجی، محمود شام، وہاب دانش، علیم اللہ حالی، شمس الرحمن فاروقی، فضا کوثری، ندا فاضلی، عادل منصوری، جیلانی کامران، ریاض مجید، خلیل رامپوری، انور سدید، مدحت الاختر، قمر اقبال وغیرہ نے تجریدیت کو اپنے فن میں جگہ دی اور اب تو تجریدی شاعری ایک ایسے تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کا ہلکا یا گہرا سایہ نئے اور پُرانے سبھی فنکاروں کی شاعری پر پڑ رہا ہے۔

۱۹۶۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

شعرائے سیفیہ

 

یوں تو دانش گاہوں کا کام ہی یہ ہے کہ طلباء کی ذہنی استعداد کو صیقل کریں اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء میں دوچار افراد اپنی انفرادی صلاحیتوں کی بنا پر علم و ادب اور فنون کے مختلف شعبوں میں ناموری حاصل کرتے ہیں لیکن کچھ ادارے اور دانش گاہیں بطور خاص ایسی ہوتی ہیں جہاں کا ماحول اور اساتذہ کی تربیت اپنے طلبہ کی فکری صلاحیتوں کو نہ صرف جلا بخشتی ہے بلکہ ان میں تخلیقی جوہر کی تخم ریزی کر کے انھیں بار آور بھی بناتی ہے۔ ایسی دانش گاہوں اور اداروں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، ندوۃ العلماء لکھنؤ وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ ان اداروں سے اردو ادب کے بے شمار آفتاب و ماہتاب اور درخشندہ ستارے مطلعِ شہرت پر نمودار ہوئے۔ ایسے اساتذہ جن سے فیضیاب ہونے والے طلباء میں سے بہت سے آسمانِ ادب پر روشن ستاروں کی طرح نمودار ہوئے ہیں، ان میں سر فہرست ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا نام آتا ہے پھر پروفیسر رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر آل احمدسرورؔ، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی، اختر اورینوی، جمیل مظہری، پروفیسر گیان چند وغیرہ کی تربیت کے سائے میں پروان چڑھ کر فن کاروں کی ایک بڑی نسل سامنے آئی ہے۔ ایسی ہی دانشگاہوں میں مادرِ علمی سیفیہ کالج بھی شامل ہے۔ فرق یہ ہے کہ دوسری دانش گاہوں کے مقابلے میں سیفیہ کے وسائل محدود ہیں۔ استاد محترم پروفیسر عبدالقوی دسنوی کا شمار بھی میں اساتذہ کی اسی جماعت میں کرتا ہوں جن کا قرب پارس کی طرح لوہے کو سونے میں تبدیل کر دیتا ہے اور سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ادبی اعتبار سے بھوپال کی سرزمین انتہائی زرخیز ہونے کے باوجود اپنے نونہالانِ ادب کو تناور درخت کم ہی بننے دیتی ہے۔ لیکن تخلیقی جوہر کی کونپلیں اگر سیفیہ کالج کی کیاریوں میں پھوٹی ہیں تو یہ پودے قبل از وقت کمھلا جانے سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس دانش گاہ کے شعبۂ اردو کو دسنوی صاحب کی خفگی کا خطرہ مول لے کر میں اکثرOne man show کہا کرتا ہوں۔ یہ انھیں کی ذاتِ واحد کا اعجاز ہے کہ قدم قدم پر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود شعبے کی نجی لائبریری میں کم یاب اور نادر کتب اور نایاب مخطوطات کا ایسا وافر ذخیرہ جمع ہو گیا ہے جس پر مرکزی یونیورسٹیوں کو رشک آتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اِس بیش بہا ذخیرے کی ایک ایک کتاب کو حاصل کرنے کے لیے پروفیسر دسنوی کو دشواریوں کے کئی کئی  ہفت خواں پار کرنے پڑے ہیں۔

شعبے کے اس بیش بہا علمی و ادبی خزانے سے استفادہ کرنے کا جذبہ طلبہ میں بیدار کر دینا دسنوی صاحب کا دوسرا کرشمہ ہے ورنہ ہندوستان میں اچھی لائبریریوں کی کوئی کمی بھی نہیں۔ شعبۂ اردو میں عام نصابی نوعیت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ قوی صاحب باقاعدگی سے ادبی نشستیں اور تقریبات بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔ جہاں بھوپال میں کوئی بڑا اہم، قابلِ ذکر یا نامور شاعر ادیب، نقاد یا دانشور وارد ہوا وہ پروفیسر دسنوی کے دام تعلق میں گرفتار ہو کر شعبہ اردو میں آ پہنچتا ہے۔ قوی صاحب اپنے شاگردوں کو تفصیل کے ساتھ اس کی شخصیت اور علمی و ادبی کارناموں سے روشناس کراتے ہیں اور متعلقہ فنکار کو بے تکلفی کے ساتھ طلباء سے خطاب کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ مشاہیر کے ساتھ اس کھلی ہوئی فضا میں براہِ راست باہمی تبادلۂ خیال سے طلباء کی تخلیقی صلاحیتیں کتنی جلا پاتی ہیں، اس کا اندازہ اہلِ نظر بخوبی کر سکتے ہیں۔

شعبے کی ایسی تقریبات میں شرکت کا افتخار مجھے بھی حاصل رہا ہے جہاں اساتذہ مؤدب سامعین کی حیثیت سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کوئی طالب علم اس ادبی مجلس کی صدارت کر رہا ہوتا ہے بقیہ طلباء اور طالبات میں سے کچھ اپنی تخلیقات نظم و نثر پیش کرتے ہیں، کچھ تنقیدی مقالہ، تحقیقی مضمون، انشائیہ یا مزاحیہ خاکہ پیش کرتے ہیں اور پھر طالب علموں میں ان تحریروں پر تنقید اور اظہارِ خیال کا سلسلہ چِھڑتا ہے۔ قوی صاحب کی شفیق لیکن پُر وقار شخصیت مجلس کو اپنے بے تکلفانہ ماحول کے باوجود ادب کے دائرے میں محصور رکھتی ہے۔ ذہن کی گرہیں کھلتی ہیں تخلیق کے اکھوے پھوٹتے ہیں اور نئے لکھنے والوں کو آدابِ مجلس سے آشنائی بھی ہوتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ استاد کے ذہنی تحفظات اور ذاتی نظریات طالب علموں پر لادے نہیں جاتے۔ مثلاً مولانا سلیمان ندوی، مولانا شبلیؔ، مولانا حالیؔ، علامہ اقبالؔ، مولانا ابوالکلام آزاد، حسرتؔ موہانی وغیرہ قوی صاحب کے ممدوحین میں سے ہیں لیکن اگر دائرہ ادب میں رہتے ہوئے کوئی نو آموز قلم کار ان شخصیتوں کے بارے میں مناسب اعتراضات کرتا ہے تو قوی صاحب کبھی اس کی بے باکی کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ یہی حالات تخلیق کار کی فطری نشو و نما میں معاون ہوتے ہیں۔

۱۹۷۴ء کے اوائل کی بات ہے، ( ایک جدید افسانہ نگار) بھوپال پہنچے تو میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے الٰہ آباد اور دہلی کے دورانِ قیام میں دانش گاہوں کے اساتذہ کے بارے میں تعصبات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ عام طور پروفیسر حضرات کلاسیکی ادب کی درس و تدریس کے طویل عمل سے گزرتے ہوئے ایک خاص نوع کے ذہنی جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور ادب کے نئے رجحانات کو قبول نہیں کر سکتے۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ پروفیسر عبد القوی دسنوی کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اشتعال کی تصحیح کر لیں۔

میں جانتا ہوں کہ قوی صاحب کلاسیکیت پسندہیں اور اپنے بمبئی کے دوران قبام میں ترقی پسندوں سے موصوف کا گہرا ربط ضبط رہا ہے اس کے باوجود جب کبھی شعبۂ اردو کی کسی نشست میں طلباء نے جدیدیت پر جارحانہ یلغار کی، قوی صاحب کی شخصیت نئی ہوا کے جھونکوں کے لیے دریچے کی طرح کھل گئی اور انھوں نے اپنے مخصوص دلنشیں انداز میں شاگردوں کو نئے رجحانات کے تئیں متعصب ہونے سے بچایا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جدیدیت اپنے بالکل ابتدائی دور میں تھی۔ راقم الحروف کی تخلیقات بھوپال کے تغزل چشیدہ ماحول میں شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھی جا رہی تھیں، لیکن قوی صاحب اور ان کے شاگردوں میں سے بیشتر انھیں جس وسعتِ قلب کے ساتھ قبول کرتے تھے اس سے یقیناً میری شاعری کو اپنے ارتقائی سفر میں بڑی معاونت ملی ہے۔

طلباء کی نثری کاوشوں اور شعری تخلیقات کی اشاعت کا معقول بندوبست بھی قوی صاحب نے کر رکھا ہے۔ بیرونی پرچوں میں طلباء کی تخلیقات شائع کرانے کے علاوہ کالج میگزین’ مجلہ سیفیہ‘ اور ’ کاروانِ سیفیہ‘ میں یہ تخلیقات شائع کی جاتی ہیں جس سے طلباء کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

یہی وہ فضا ہے جس نے بالعموم سیفیہ کالج میں لکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت کو جنم دیا۔ خود قوی صاحب کا نام نامی ہند و پاک کی دنیائے تحقیق میں محتاج تعارف نہیں ہے۔ سیفیہ کے اساتذہ میں جہانقدر چغتائی، مرتضیٰ علی شادؔ، سید حامد جعفری، قیصر محمود، ، اخترسعید خاں، اجلال مجید وغیرہ ہندوستان گیر شہرت کے شاعر ہیں۔ متین سید، نسیم شہنوی، اقبال مسعود ندوی، عمر حیات غوری، محمد نعمان خاں، حدیقہ بیگم، صفیہ ودود، محمد ایوب، یعقوب یاور کوٹی وغیرہ کی تنقیدی نگارشات سے ادبی حلقے بخوبی متعارف ہیں۔ خالدہ بلگرامی اور محمد نعمان وغیرہ نے صحافت کے میدان میں سیفیہ کا نام روشن کیا۔ اقبال مسعود، فرحت جہاں، قمر علی شاہ، ماجد صدیقی، سکندر غالب، نثار راہی وغیرہ جدید ترین نسل کے انشائیہ نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے اپنی شناخت مستحکم کر رہے ہیں تو حسام الدین اور خورشید اختر وغیرہ ریڈیو پر سیفیہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور مشتاق سنگھ سیفیہ کے زینے سے چڑھ کربی بی سی لندن تک جا پہنچے ہیں۔

پروفیسر عبد القوی دسنوی کی تربیت اور حوصلہ افزائی نیز سیفیہ کالج کی ادب پر ور فضا میں پروان چڑھنے والے شاعروں کی جماعت بھی خاصی بڑی ہے اس میں مشہور فلم اسٹوری رائٹر جاویدؔ اختر شامل ہیں جو اب فلمی گیت بھی لکھنے لگے ہیں۔ شاہد میرؔ کو ایک اچھے نئے شاعر کی حیثیت سے ادبی حلقے بخوبی جانتے ہیں۔ کاملؔ بہزادی مشاعروں کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ خالد محمود ادبی رسائل میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ خاصی تیزی سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

سرفراز دانِش کی عروض دانی کا شہرہ بھوپال میں عام ہے۔ پھر عزیز الغنی ساحرؔ، ناصر کمال، مسعود ہاشمی، جمیلؔ محوی، منیر المحوی، فیرز بابرؔ، یونس کوثرؔ، جاوید رضا، مسلمؔ ساگری،  ارجمند بانو افشاںؔ  وغیرہ پر مشتمل ایک طویل کارواں ہے جس نے سیفیہ کے شعبۂ اردو سے اپنے شعری سفر کاآغاز کیا اور آج تیزی سے شاہراہِ ادب پر ترقی کی جانب گامزن ہے۔

صفیہ اختر کی زندگی میں ہی جان نثار اخترؔ اپنی ترقی پسندانہ روش کی بنا پر معتوب ہو کر بھوپال سے شہر بدر کیے جا چکے تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد صفیہ اختر بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ والدین کی سرپرستی سے محروم جاوید اختر کے لیے دانش گاہِ سیفیہ واحد سہارا تھی۔ ان کے ہم جماعتوں نے جس طرح جاوید اختر کو اپنا رابطۂ جسم و جاں برقرار رکھنے میں معاونت کی اس کا اعتراف آج کا یہ مقبول فلمی کہانی کار اپنی تحریروں کر اکثر کرتا ہے۔ سیفیہ کالج میں حصول تعلیم کے دوران ہی مضطرؔ خیرآبادی کے خانوادے کا یہ چشم و چراغ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگا تھا جن کا واضح نقش اس کے حالیہ کلام میں نظر آتا ہے۔ جاویدؔ اختر چونکہ ایک ایسے ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں کلاسیکی روایات میں گھُلا ملا ترقی پسندانہ رویہ بھی شامل ہے اس لیے ان کے کلام میں اپنے دور کے رجحانات اور اسالیب کے ساتھ فنی پختگی اور سماجی شعور کی چھوٹ بھی پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے دادا مضطرؔ خیر آبادی بحیثیت منصف اپنی قادر الکلامی کے جوہر عدالت کے منظوم فیصلوں تک میں دکھاتے تھے۔ یہ پختگیِ فن اور کلاسیکی روایات جاں نثارؔ اختر کی ترقی پسندی سے چھن کر نکھری ستھری جاوید اخترؔ تک پہنچتی ہے۔ جاں نثار اخترؔ اپنی آخری دور کی شاعری ( جو’ پچھلے پہر‘ میں شامل ہے ) تک پہنچتے پہنچتے ترقی پسند بلند آہنگی اور خطابیہ طرز اظہار سے پہلو تہی کرتے ہوئے جس طرح عصری حسیت اور جدید لہجے کے قریب آئے تھے اس کا اعتراف ہماری تنقید کر چکی ہے۔ ان تمام صحتمند اور جاندار روایات کو جاوید اختر اپنے انفرادی تجربات اور نئے دور کی آویزش سے آمیز کر کے غزل میں ایک امتیازی شان پیدا کر دیتے ہیں۔ ہر چند کہ ان کی شاعری کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن ایسے جاندار شعر کہنے والے شاعر سے بہت ساری امیدیں وابستہ کرنے کو جی چاہتا ہے :

مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو ابھی امی کہتی تھیں

جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں

ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا

ایک وہ دن جب ایک ذراسی بات پہ ندیاں بہتی تھیں

ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا

ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں

ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں

ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں

………

زخم کیسے پھلتے ہیں، داغ کیسے جلتے ہیں، درد کیسے ہوتا ہے، کوئی کیسے روتا ہے

دشت کیا ہے چھالے کیا، اشک کیا ہے نالے کیا، آہ کیا فغاں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

کوئی کیسے ملتا ہے، پھول کیسے کھلتا ہے، آنکھ کیسے جھکتی ہے، سانس کیسے رکتی ہے

کیسے رہ نکلتی ہے، کیسے بات چلتی ہے، شوق کی زباں کیا ہے، تم نہ جان پاؤ گے

………

آثار ہیں سب کھوٹ کے، امکان ہیں سب چوٹ کے، گھر بند ہیں سب گوٹ کے، اب ختم ہیں سب ٹوٹکے

قسمت کا سب یہ پھیر ہے، اندھیر ہے اندھیر ہے۔ ایسے ہوئے ہیں بے اثر، میں اور مری آوارگی

………

جاوید اختر کے اشعار میں تسلسل کے ساتھ ایک ڈرامائی کیفیت اور افسانوی فضا ملتی ہے اور یہ خصوصیات انھیں اپنی نسل کے بیشتر شاعروں سے ممتاز و منفرد بنا دیتی ہیں۔ ان کی نظم ’گھر یاد آتا ہے ‘ کے چند مصرعے ملاحظہ فرمائیں :

دبیز اور خاصا بھاری

کچھ ذرا مشکل سے کھلنے والا وہ شیشم کا دروازہ

کہ جیسے کوئی اکھڑ باپ اپنے کھردرے سینے میں

چاہت کے سمندر کو چھپائے ہو

وہ اک کرسی کہ جس کے ساتھ اس کی ایک جڑواں بہن رہتی تھی

سیفیہ کے فارغ التحصیل فنکاروں میں شاہدؔ میر خاصے شہرت یافتہ ہیں۔ وہ آج کل گورنمنٹ کالج بانسواڑہ میں شعبہ نباتات کے استاد ہیں۔ شاہدؔ میر کی غزلیں ہندوستان کے کم و بیش سبھی معیاری ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں۔ وہ بھی سرونج کے ایک ایسے معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں پشتہا پشت سے شعر و ادب کی روایت چلی آ رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ شاہدؔ میرؔ کے کلام میں کلاسیکی روایات کی پاسداری بھی ملتی ہے اور نیا لب و لہجہ بھی۔ وہ فنی اسقام سے پاک شعر کہتے ہیں۔ جن میں عصر حاضر کے مسائل، جذبے میں تحلیل ہو کر ایک انفرادی لہجہ پیدا کرتے ہیں۔

شاہد میرؔ کا کلام ان کے رچے ہوئے ذوق، وسیع مطالعے اور عمیق مشاہدے کا منظرنامہ ہے۔ بعض اوقات وہ بالکل سامنے کے موضوعات پر ایسے انوکھے زاویے سے روشنی ڈالتے ہیں کہ اس سے ندرت اور شعریت اُبلنے لگتی ہے۔ نرم و نازک جذبات کو نئے اسالیبِ بیان کے وسیلے سے ظاہر کرنے کا جیسا سلیقہ شاہدؔ میر کو حاصل ہے وہ ان کے بیشتر معاصرین میں کمیاب ہے۔ ایک معصومانہ تحیر، خوابناک کیفیت اور شگفتہ بیانی ان کے کلام میں جاری و ساری نظر آتی ہیں۔ خوش گفتاری، شیریں کلامی اور خود احتسابی شاہدؔ میر کے امتیازات ہیں :

خوابوں کی انجمن میں ہر اک شے حسین تھی

جاگے تو اپنے پاؤں کے نیچے زمین تھی

………

روشنی سی کر گئیں اس کے بدن کی قربتیں

روح میں کھُلتا ہوا مشرق کا دروازہ لگا

………

گوشہ میں اک قدیم و شکستہ مکان تھا

جو میری شاعری کو نیا تھیم دے گیا

………

ہمیں تو خشک ٹہنی توڑ کر بھی درد ہوتا ہے

چلا دیتے ہیں آری لوگ کیسے ان درختوں پر

………

اتر تو آئے پہاڑوں سے آبجو کی طرح

اب اک ڈراؤنے جنگل سے بھی گزرنا ہے

………

سب پوچھتے ہیں صبح کے سورج سے وہ سوال

جس کا جواب شب کے اندھیروں کے پاس ہے

………

کیا اس کے خد و خال میں اس کے ہی عکس ہیں

ہوتے نہیں ہیں سبز درختوں کے سائے سبز

ہزار چاہا ملاؤں نگاہ سورج سے

گھنے شجر تھے مرے آس پاس کیا کرتا

………

اس طرف کچھ لفظ ہوں گے اس طرف تفصیل ہو گی

بیچ میں پھیلی ہوئی خاموشیوں کی جھیل ہو گی

………

شاہدؔ میر آج بھی ادبی حلقوں میں ایک مقام کے حامل ہیں مجھے یقین ہے ان کا انہماک فن ابھی انھیں اور بلندیوں پر لے جائے گا۔

مدھیہ پردیش کی مشاعروں کی دنیا کاملؔ بہزادی کو ایک خوش فکر اور خوش گلو شاعر کی حیثیت سے خوب پہچانتی ہے۔ اس علاقے میں عام طور پر کامل بہزادی کی شمولیت کسی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ کاملؔ نے ناطق گلاؤٹھی جیسے استادِ فن سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ ناطقؔ صاحب کی شاگردی نے جہاں انھیں سخن گوئی کے رموز سے آگاہ کیا وہیں روایت پسندی کی ایک ایسی چھاپ بھی ان کے مزاجِ شعر پر ثبت کر دی جس کی جھلک ان کی غزلوں میں اکثر نظر آتی ہے۔ ان کے موضوعات اور فکر کا دائرہ عام طور پر قدماء، متوسطین اور متاخرین شعراء کی پیروی تک محدود ہے لیکن ان پرانے موضوعات کو اپنے برتاؤ اور طرز اظہار سے جدید نما بنا دینا کاملؔ بہزادی کا فن ہے۔ ان کے کلام کی نغمگی، لہجے کی مٹھاس اور بیان کی شائستگی پڑھنے والوں کو بے ساختہ اپنی جانب متوجہ کرتی ہے :

یوں نکل آئی ہے آکاش کے ماتھے پہ دھنک

بام پر جیسے کوئی شوخ نہا کر آئے

………

عرش سے سلسلۂ فکر رسا ملتا ہے

جب بھی فنکار اُٹھاتا ہے قلم رات گئے

………

جانے کیا بات ہوئی سایۂ شامِ غم میں

درد بھی ٹھہرا رہا آپ بھی کم یاد آئے

………

تنگ دستی کی شکایت نہ کرو دنیا سے

پاس اپنے ابھی نقدِ دل و جاں ہے یارو

………

یوں دمکتی رہی گھونگھٹ میں تمھاری بندیا

جیسے چلمن میں کوئی شمع جلا کر رکھ دے

………

فقیہِ شہر نے لٹکا دیا ہے سولی پر

فقیرِ شہر سے کہنا میاں دعا کیجے

………

وقت پڑ جائے تو جاں سے بھی گزر جائیں گے

ہم محبت کے دِوانے ہیں اداکار نہیں

………

ہم جس کی جستجو میں سویرے سے چل پڑے

وہ چاند شام ہی سے نقابوں میں بند ہے

کاملؔ بہزادی کے ہاں اپنے زمانے کے مسائل، سماجی معنویت اور عصری حسیّت کی آمیزش بھی ہو جائے تو ان کا فن ہیرے کی طرح دمکنے لگے گا۔

خالدؔ محمود، پروفیسر دسنوی کے لاڈلے شاگردوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس لاڈ پیار کے نتیجے میں ان کے ہاں ایک خاص نوع کی تساہل پسندی اور مسائل سے آزاد گزر جانے کی روش پیدا ہو گئی ہے کبھی کبھی ان کی تخلیقات رسائل کی زینت بنتی ہیں اور ان میں ایسے جُگرجُگر کرتے ہوئے شعر نظر پڑتے ہیں کہ بے ساختہ آفریں کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسی بیدار صلاحیتیں اور حساس طبیعت رکھنے والے فن کار اگر اس ریاضِ فن اور مشقتِ سخن سے بھی گزر سکیں جو قوی صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے تو بالیقین بامِ عروج تک پہنچنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اپنے لا ابالی مزاج اور یار باش طبیعت کے باوجود خالدؔ محمود شعر بہر حال ڈوب کر کہتے ہیں۔ وہ سرونج کے استاد شاعر راہیؔ قاسمی کے تلامذہ میں سے ہیں اس لیے فنی خامیاں ان کے ہاں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ شدتِ احساس اور ندرتِ ادا خالدؔ کو اپنی نسل کے دوسرے شاعروں سے ممتاز بناتی ہیں۔ ایک ہی بات کو کئی طرح سے کہنے کا گر اُنھیں خوب یاد ہے۔ اندازِ بیان کا انوکھا پن ان کے کلام کی خصوصیت ہے۔ ان سب کے ساتھ طنز کی ایک زیریں لہر ان کے اشعار کونکیلا بنائے رکھتی ہے۔

ان کے کلام کا ایک خصوصی وصف یہ بھی ہے کہ اس میں تفکر اور جذ باتیت شیر و شکر کی طرح آمیز نظر آتے ہیں۔ عام طور پر خالد محمودؔ حسن و عشق کے موضوعات سے گریز کرتے ہیں اس کے با وصف ان کے ہاں شعریت اور شیرینی، غنائیت اور گھلاوٹ کی کمی محسوس نہیں ہوتی:

ہر کمندِ ہوس سے باہر ہے

طائرِ جاں قفس سے باہر ہے

………

آواز آئی پیچھے پلٹ کر تو دیکھیے

پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا آدمی

………

تمھیں اک آئینہ ہے اور تم ہو

مجھے سب آئینہ ہے اور میں ہوں

………

کوہِ گراں کے سامنے تیشے کی کیا بساط

عہدِ جنوں میں ساری شرارت لہو کی تھی

………

اہلِ ہُنر ملامتِ دُنیا کا غم نہ کر

بیری اگر ہے گھر میں تو پتھر بھی آئیں گے

ابھی دھوپ خالدؔ پہ آئی نہ تھی

کہ دیوار دیوار چلنے لگا

………

میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں

کسی شے کی فراوانی نہیں ہے

………

ترے ساتھ چلنے کی عادت نہیں ہے

ہماری نہ کر آزمائش ہَوا

………

خالدؔ محمود نظمیں بھی کہتے ہیں ان کی ایک نظم ’ زندہ لہو‘ کا یہ اقتباس دیکھیے :

چند قطرے لہو کے زندہ ہیں

ایک قطرہ وفا کی شہ رگ کا

ظلم کی آستیں پہ بہتا ہے

زندگی مر گئی ہے قاتل کی

اور مقتول زندہ رہتا ہے

چند قطرے لہو کے زندہ ہیں

لیکن میں بنیادی طور پر خالدؔ کو غزل ہی کا شاعر مانتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ خالدؔ محمود کچھ زیادہ سنجیدگی اور تندہی کے ساتھ تخلیقی کاموں کی طرف متوجہ ہوں کہ تابناک مستقبل انھیں لبیک کہنا چاہتا ہے۔

سرفراز دانشؔ بھوپال کے انتہائی طباع اور ذہین فنکاروں میں سے ہیں ’ اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی‘ ان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ وہ بے تحاشا پڑھتے ہیں اور اپنی کثرتِ مطالعہ کا ثبوت گرما گرم بحثوں کے ذریعہ دیتے ہیں۔ عروض پر ان کی نگاہ اچھی خاصی ہے لیکن اس کا استعمال اپنے فن کو نکھارنے کی جگہ چھوٹے موٹے شاعروں کے نقائص نمایاں کرنے میں ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے وسیع مطالعے، چمکتی ہوئی ذہانت اور عروض دانی کو مناسب مقامات پر صَرف کریں تو ایک اچھے شاعر کے علاوہ ان کی گنتی اچھے نقادوں میں بھی ہونے لگے۔ جہاں تک شاعر سرفراز دانشؔ کا تعلق ہے وہ مجھے پسند آتا ہے۔

سرفراز دانشؔ کی غزلوں میں قدیم و جدید کا بڑا حسین امتزاج ہے۔ ان کی قادر الکلامی میں بھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ بات کو اپنے مخصوص انداز میں کہنے کا سلیقہ وہ جانتے ہیں۔ فکر، تخیل اور جذبے کا توازن بھی ان کے شعر میں ملتا ہے۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فکر کا پلہ بھاری پڑ رہا ہے۔ سماجی نا ہمواریوں کا شدید احساس ان کے اشعار کو اکثر وقیع بناتا ہے۔

سرفراز دانشؔ کے لہجے میں طنز کی کاٹ بھی نمایاں ہوتی ہے۔ موضوعات کا تنوع اور طرزِ اظہار کی شگفتگی سرفراز کے فن میں امتیازی نشانات کی حیثیت رکھتے ہیں :

تجھ پہ کھل جائے گی ہستی تیری

فکر الفاظ کی میزان میں رکھ

………

مرے اندر بڑی نرمی ہے لیکن

مجھے حالات نے پتھرا دیا ہے

………

جرأتِ لب کشائی ہو تو کہو

ورنہ چپ چاپ تلملاتے رہو

………

جب نئے موسم نے بخشے بال و پر

خواہشوں نے پاؤں پھیلائے بہت

………

بہت جستجو کی بہت خاک چھانی

نہ دیکھا کسی دوش پر سر سلامت

………

پاس ہے اپنے نمک احساس کا

لاؤ کچھ زخموں کی مہمانی کریں

………

عجیب شے ہے سرابوں کی چاندنی جس نے

سلگتی ریت پہ چلنا سکھا دیا ہے مجھے

………

بدن سمیٹ کے یوں خوف کے مکاں میں نہ بیٹھ

کھلی فضا میں بکھر خود کو بے کراں کر دے

بعض اوقات سرفراز دانش کے اشعار میں دوسرے فن کاروں کے شعروں کی باز گشت بھی سنائی دے جاتی ہے۔ زیادہ دور نہ جا کر بہت پاس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں :

ہم اپنے ہم سفروں کو بتائے دیتے ہیں

کہ ریگ زار میں آبادیاں کہیں بھی نہیں

( مظفرؔ حنفی)

ہے سفر منظور تو یہ سوچ لو

راہ میں آئے گی دشواری بہت

( سرفراز دانشؔ)

افق تک دھوپ کے خنجر برہنہ

مظفرؔ پا برہنہ سر برہنہ

( مظفرؔ حنفی)

زندگی تیرے نمائندہ ہیں ہم سب

زخم خوردہ، پا برہنہ، سر کھلے

( سرفراز دانشؔ)

سر فراز دانشؔ کی فکر تازہ کار، تخیل گل بار اور جذبہ ثمر دار ہے اگر وہ حزم و احتیاط سے کام لے کر کھلی فضاؤں میں پرواز کریں تو آسمان بہت وسیع ہے۔

عزیز الغنی ساحرؔ نے ریڈیو ڈرامے بھی لکھے ہیں اور نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن میں ان کا شمار غزل گویوں میں کرتا ہوں۔ انھوں نے ۱۹۷۰ء سے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ یہ مدت دنیائے ادب میں بہت مختصر ہوتی ہے لیکن اس مختصر سی مدت میں ان کا فن لَو دینے لگا ہے۔ ان کا کلام خلوص سے عبارت ہے۔ اکثر اشعار میں جذبے کی کار فرمائی کا احساس ہوتا ہے البتہ زبان و بیان کے رموز ابھی ساحرؔ پر پوری طرح منکشف نہیں ہوئے۔ یہ اسمِ اعظم ان کے ہاتھ آ جائے تو ساحرؔ کی غزل ضرور اپنا جادو جگائے گی:

گھرا ہوا ہے ستاروں کی بھیڑ میں لیکن

مرے وجود کی مانند چاند تنہا ہے

………

بس اک اسی کی تھی سیراب زندگی ساحرؔ

وہ جس کے دل میں تمنا کا خشک ساحل تھا

………

ابر جب احساس کا چھٹ جائے گا

ذہن و دل سے بوجھ خود ہٹ جائے گا

………

رات پھر آ کر مجھے بہلائے گی

پھر میں دیکھوں گا وہی موہوم خواب

………

تم کرو انتظار ساحرؔ کا

ہم تو سورج کو لے چلے سَر پر

………

راستہ بھول گیا ہے شاید

تو نہ تھا گھر مرے آنے والا

………

جانے کب آ جائے آندھی

پتّا پتّا سہما جائے

میری یہ تمنا ہے کہ آج کا یہ ابھرتا ہوا شاعر استقلال کے ساتھ راہِ ادب پر گامزن رہے ادبی رفعتوں سے ہمکنار ہو۔

ناصر کمالؔ بھی چو مکھے فن کار ہیں انھوں نے مزاحیہ مضامین بھی لکھے ہیں اور شعری پیروڈیاں بھی، غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی، ناصرؔ کمال ایک شگفتہ مزاج اور زندہ دل شخصیت کا نام ہے۔ یہ زندہ دلی اور شگفتگی ان کی تحریروں میں بھی منعکس ہوتی ہے خواہ وہ پیروڈی کہیں یا نظم و غزل، ایک خاص نوع کی تازگیِ فکر اور شادابیِ خیال ہمیشہ ان کی تخلیقات سے جڑی رہتی ہے۔ ان کا تخیل بڑا زرخیز ہے اور زبان بھی اکثر ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ان کے موضوعات کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے۔ چنانچہ سماج اور افراد کی نا ہمواریاں اکثر ان کے قلم کی زد پر آتی ہیں۔ برجستگی اور بے ساختگی کے ساتھ بے تکلف گفتگو کرنا ناصرؔ کمال بخوبی جانتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز، جارحیت کی صورت اختیار نہیں کرنے پاتا کیونکہ ناصرؔ کمال ٹنکچر آیوڈین کی جگہ مرہم کا فور کا استعمال کرنے کے قائل ہیں جو طنز کی نشتر کاری کو جلن سے بچائے رکھتا ہے :

’’ گلی میں یار کی اے شادؔ ہم مشتاق بیٹھے ہیں ‘‘

کہ وہ فطرہ نکالیں گے تو اپنے کام آئے گا

………

اس کے شانوں پر بھی لگ جائے گا یہ رنگ خضاب

’’ تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں ‘‘

………

نماز آتی نہیں ہو گی تبھی تو یہ حماقت کی

’’ کہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘

………

یہ بالترتیب شادؔ عظیم آبادی، غالبؔ اور اقبالؔ کے اشعار ہیں، ناصر کمال نے جن کی کینچلیاں تبدیل کر دی ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ معمولی سی تبدیلی سے اچھے خاصے سنجیدہ خیالات کارٹونی بن گئے۔ اب چند شعر ان کی غزلوں سے ملاحظہ ہوں :

صاف کہہ دوں تو میں سولی پہ چڑھایا جاؤں

اور خاموش بھی رہنے نہیں دیتے حالات

………

دور اس شہر میں جب چاند نکلتا ہو گا

چاندنی رات میں وہ شخص بھی جلتا ہو گا

………

ہیں آپ بھی عجیب کہ کاسہ لیے ہوئے

وعدوں پہ جی رہے ہیں جواب آپ کا نہیں

………

اندھا سفر ہے اور کوئی راستہ نہیں

سب راہزن ہیں ساتھ کوئی رہنما نہیں

ناصرؔ کمال کی ایک مختصر نظم ’’ محافظ، بھی اس لائق ہے کہ اس مضمون میں جگہ پائے۔ یہ نظم ’باغپت‘ میں پولِس کے مظالم سے متاثر ہو کر کہی گئی تھی:

بہادر نوجوانو

تم محافظ ہو

ہر اک شہری کی عزت کے

متاع و مال کے، اور جان کے

یقینا ًتم نے اپنا  فرض پوری تندہی سے

اور دیانت سے نبھایا ہے

سبھی شہری، خصوصاً عورتیں

مسرور ہیں بے حد

اور اپنی جان و عزت کی طرف سے مطمئن ہیں

ہے ان کو فخر تم ان کے محافظ ہو

چنانچہ یہ سبھی تم کو، تمھارے کارنامے پر

مبارکباد دیتے ہیں

………

ناصرؔ کمال کی اٹھان کہتی ہے کہ ان کا فن ابھی اور نکھرے گا۔

وقارؔ فاطمی سیفیہ کے ان فارغ التحصیل طلباء میں سے ہیں جو بحیثیت شاعر باہر بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں ہر چند کہ ان کے چھپنے کی رفتار شاہدؔ میر جیسی نہیں ہے پھر بھی گاہے بہ گاہے ان کی تخلیقات ادبی رسائل کی معرفت ہم تک پہنچتی رہتی ہیں۔ وقار فاطمی گزشتہ چودہ پندرہ سال سے غزلیں کہہ رہے ہیں۔ ان کی شاعری کا خمیر سرونج کی کلاسیکی سرزمین سے اٹھا ہے اس کے باوجود عہدِ نو کی پیچیدہ نفسیات اور موجودہ مسائل کی بڑی زندہ اور متحرک تصویریں ان کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ عشقیہ موضوعات کو نئی حسیت عطا کرنا اور باطنی کیفیات میں اپنے دور کی روح کو سمونا کوئی وقارؔ فاطمی سے سیکھے۔ وہ کم کہتے ہیں اور اس سے بھی کم چھپتے ہیں اس کے با وصف ان کے ہاں ایسے جگمگاتے ہوئے شعر نکلتے ہیں :

طنز کے نشتر لگانے میں بہت ماہر ہیں لوگ

گھر سے باہر میں کبھی روتا نہیں ہنستا نہیں

………

شہر کی سڑکوں پہ اب یہ سوچتے پھرتے ہیں لوگ

کاش ہم کو بھی کوئی بندہ خدا کا ڈھونڈتا

………

ممکن نہیں تو پھر انھیں غاروں میں پھینک دو

مدت سے ایک گھر کی تمنا دلوں میں ہے

………

پھر یہ چاندنی راتیں راستوں میں بکھریں گی

اک دریچہ اس گھر کا پھر کھلا ہوا پایا

دکھ سے نجات پائی نہ غم سے مفر مِلا

گو ہم کو تیرا پیار کم و بیشتر مِلا

………

مجھ کو مستقبلِ امید کی آنکھوں سے نہ دیکھ

میرے ہمراہ چلے گی مری رسوائی بھی

………

دوستو! اس دور نے ہر چیز مجھ سے چھین لی

تم مجھے اپنا سمجھتے ہو میں اپنا بھی نہیں

………

دفن کر جاتا ہے جو رات کی تاریکی میں

صبح بستر سے وہ سورج ہی اٹھاتا ہے مجھے

مسعودؔ ہاشمی کو بھوپال کے کہنہ مشق شاعر گوہرؔ جلالی سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ ان کی صلاحیتیں سیفیہ کالج میں اور نکھر گئی ہیں۔ مسعودؔ ہاشمی کے کلام کا رنگ کلاسیکی ہے جو بھوپال کے مجموعی ادب و مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ روایتی اندازِ بیان اختیار کرنے کے باوجود مسعود ہاشمی، فرسودہ خیالات کی جگالی نہیں کرتے بلکہ اپنے سچے جذبات اور نجی تجربات کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے کلام کی لَے بالعموم نشاطیہ اور طربناک ہوتی ہے۔ مجھے ان کے ہاں ایک خاص قسم کی متانت و صلابت نظر آئی جس کے نتیجے میں بلند آہنگی کا در آنا لازمی تھا۔ ان کی غزلیں التزامِ فن اور حسین تراکیب سے مزیّن ہوتی ہیں۔ زبان و بیان پر انھیں قدرت حاصل ہے۔ دیکھیے مسعود ہاشمی نے پامال زمینوں میں کیسے بولتے ہوئے شعر نکالے ہیں۔

ہم صبح گلستاں کے جس دن سے پیامی ہیں

کترا کے گزرتی ہے ہر موجِ بلا ہم سے

………

اے اہلِ خرد سوچو، اے اہلِ نظر سمجھو

کس بات پہ ہنستے ہیں اس دور کے دیوانے

اک چیخ سی گونجے گی زنداں کی فضاؤں میں

قاتل کو پکارے گا ہر دور میں خوں میرا

………

اے جوشِ جنوں ایسا اک نعرۂ مستانہ

ہو جائے جگر پانی صحرا کی چٹانوں کا

………

ہر غنچۂ نورس پر طاری ہے خزاں یارو

دیوانے کو زنداں سے لے آؤ بیاباں میں

………

رنگ لائیں نہ کہیں خونِ تمنا کے چراغ

لَو کہیں دے نہ اٹھے رنگِ حنا میرے بعد

………

میں حرف صداقت کی طرح گونج رہا ہوں

آ پھر مجھے سولی پہ چڑھانے کے لیے آ

اس طمطراق اور ٹھسّے کے ساتھ شعر کہنے والے مسعودؔ ہاشمی سے جتنی بھی توقعات وابستہ کی جائیں کم ہیں۔ بقول محمد حسین آزاد فیضانِ سخن رائیگاں نہیں جاتا۔ مسعود ہاشمی کے لہجے پر ان کے استاد گوہر جلالی کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اسے کچھ معتدل کر کے اگر وہ جدید رنگ و آہنگ کو بھی اپنے اشعار میں جگہ دیں تو جلد اپنی آواز کو پا لیں گے۔

یعقوب یاورؔ کوٹی کی تخلیقات ادھر چند سال سے رسائل میں متواتر دکھائی پڑتی ہیں۔ ان کے ہاں بھی مجھے بڑی گنجائشیں نظر آتی ہیں۔ یعقوب یاور کوٹی کی سوچ اکثر نئے راستوں پر گامزن ہوتی ہے اور بسا اوقات ان کے خیالات کو نئی لفظیات کا پیراہن بھی مل جاتا ہے جہاں جہاں ایسا اتفاق ہوا ہے ان کے شعر دمکنے لگے ہیں۔ زبان و بیان پر ابھی انھیں مزید توجہ صَرف کرنی ہے۔ ابھی ان کے ادبی سفر کا آغاز ہی ہے بحیثیت مجموعی ان کا کلام ان کی شخصیت اور ذات کا آئینہ دار ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان کے خیالات مانگے کا اجالا نہیں ہیں :

ہر اک کی آستیں میں کچھ نہ کچھ تھا

مزے لوٹے ہیں ہم نے دوستی کے

………

مرے منتظر رہے راہبر، مجھے جستجو پہ یقیں تھا

مری منزلیں مجھے مل گئیں جو میں کارواں سے گزر گیا

………

ابھی تو لمسِ شبِ غم ہی ناگوار نہ تھا

ابھی سے نالۂ دل تو نے ابتداء کر دی

………

تو جو آ جائے غزنوی بن کر

اک زمانہ ایاز ہو جائے

………

لوگ کہتے ہیں شرافت کا خدا مجھ کو مگر

میرے ہی سر پہ شرافت کا کفن ہو جیسے

………

شاید آئی تھی کوئی آواز’ ارنی‘ غیب سے

چیختا ہے ’ لن ترانی، لن ترانی‘ آدمی

………

سچ تو ہے یاورؔ تمھارے ساتھ کوئی کیا چلے

کھینچ لیتے ہو سفیدی ہم سفر کے خون سے

یاورؔ کا خون اگر اسی طرح سفیدی سے اجتناب کرتا رہا تو ان کی تخلیقات یقیناً سُرخرو ہوں گی۔

جمیلؔ محوی، مولانا محویؔ صدیقی لکھنوی کے صاحب زادے ہیں، ظاہر ہے کہ شاعری ان کے گھر کی چیز ہے۔ اس گھر کی چیز کو جمیلؔ نے گھر کی مرغی سمجھ رکھا ہے۔ چنانچہ ان کے اشعار اپنے لہجے اور مضامین کے اعتبار سے محویؔ صاحب کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ مولانا محویؔ اور جمیلؔ محوی میں کم سے کم نصف صدی کا فاصلہ ہے جو اشعار کی حد تک قطعی محسوس نہیں ہوتا، وہی استادانہ بندشیں، وہی معاملات حسن و عشق اور وہی مسائلِ تصوف جمیلؔ محوی کے کلام میں بھی جلوہ گر ہیں جو محویؔ صدیقی کی غزلوں کا طرّۂ امتیاز ہوا کرتے تھے۔ ثبوت درکار ہوں تو یہ اشعار حاضر ہیں :

اٹھ گئی اب نظر رفاقت کی

ہائے کیا ہو گیا زمانے کو

………

یہ گھٹائیں اودی اودی، یہ ہوائیں بہکی بہکی

بھلا یاد کیوں نہ ان کی مجھے ہر گھڑی ستائے

………

ہم نے پھولوں کو دیا ہے خون بھی اکثر جمیلؔ

پھر بھی ہم بزم جہاں میں نا روا مانے گئے

………

ہو مبارک کہ جمیلؔ اس نے بلایا ہے تمھیں

کوچۂ حُسن سے پیغام صبا لائی ہے

………

افسوس کہ میں اس منزل میں نہیں ہوں جہاں سے مولانا محویؔ صدیقی صاحب کے صاحبزادے کی خدمت میں کوئی مشورہ پیش کیا جا سکے۔ غالباً ان کی شاعری غیر سنجیدہ لمحات کی زائیدہ ہے۔ اس پر ایک نگاہ وہ محوی صاحب کی عینک سے ڈال سکیں تو یقیناً مفید نتائج برآمد ہوں گے۔

منیرؔ المحوی بھی محویؔ صدیقی کے صاحبزادے ہیں ان کے اشعار بہر طور اپنے والد بزرگوار کا چربہ نہیں ہیں۔ ہر چند کہ ان کے تخیل پر روایت کی گرفت سخت ہے لیکن کہیں کہیں جذبہ اس جکڑ بندی سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ان کا طرزِ بیان بھی نسبتاًجمیلؔ محوی سے زیادہ شگفتہ ہے۔ چند شعر:

مرے جذبِ دل کا کرشمہ تو دیکھو

جسے بھولنا تھا وہی یاد آیا

………

ہر ایک رند کے ہاتھوں میں آج روشن ہے

چراغِ ساغرِ محفل، یقیں نہیں آتا

………

منزلوں سے قریب کرتے ہیں

جو بھی چُبھتے ہیں خار راہوں میں

………

کیوں نہ مناؤں خوشیاں اتنی آئے ہو پردیس سے تم

پر یہ بتاؤ کیسے بیتے میرے بنا یہ اتنے سال

………

بھول گیا ہوں اپنی منزل

رستہ کتنا دور ہوا ہے

………

ہمیں رنگ اپنا بدلنا پڑے گا

نئے دور کے ساتھ چلنا پڑے گا

اب میں کیا عرض کروں کہ منیر المحوی نے اس آخری مطلعے میں خود ہی اپنے لیے مناسب راہ تجویز کر لی ہے۔ امید ہے کہ وہ اس پر گامزن بھی ہوں گے۔

فیروزؔ بابر ہر چند کہ کامرس کے طالب علم ہیں لیکن زمانہ طفلی سے ہی انھوں نے ادبی ماحول میں پرورش پائی ہے، بہر حال سیفیہ جیسی ادب پرور دانش گاہ سے متعلق ہیں۔ اس لیے ان کی نظموں میں تخلیقی جوہر نظر آتے ہیں۔ عام طور پر فیروزؔ بابر موضوعاتی نظمیں کہتے ہیں جیسا کہ ان کے عنوانات سے ظاہر ہے۔ ’ میرے خوابوں کا وطن‘، ’ صبح نو‘، ’ نغمۂ جمہور‘، ’ غمِ دوراں ‘  وغیرہ۔ یہ نظمیں فیضؔ کی نظموں کی طرح نیم پابند اور نیم آزاد ہیں یعنی آزاد نظموں میں داخلی قوافی کا التزام کیا گیا ہے۔ اندازِ بیان ترقی پسندوں کی طرح اکثر خطابیہ اور بلند آہنگی کا حامل ہے۔ ان کی نظم ’ شہنائی‘ اور ’ اے جلوۂ توبہ شکن، رومانویت سے بوجھل ہیں۔

موجودہ دور اس قسم کی موضوعاتی اور رومانی نظموں سے بہت آگے نکل آیا ہے۔ فیروز بابرؔ اگر اپنے سیدھے سچے تجربات اور نجی جذبات کو نظموں میں بیش کریں تو زیادہ کامیاب رہیں گے۔ وہ غزل بھی کہتے ہیں اور کہیں کہیں اچھے خاصے شعر نکال لیتے ہیں :

کہہ رہی ہے فلک زدہ شبنم

میرے آنسو ہیں چاند تاروں میں

………

جب تصور میں کوئی شعلہ نفس آتا ہے

نیند آنکھوں سے بہت دور چلی جاتی ہے

………

ہائے یہ دورِ کشاکش یہ غموں کے سائے

جیسے ہر لمحۂ ہستی ہو گریزاں مجھ سے

………

وہ دیکھتے ہیں نگاہ عتاب سے بابر

مگر لبوں پر ہنسی ہے کہ آئی جاتی ہے

مسلمؔ ساگری خاصے سینیئر شاعر ہیں، انھوں نے اپنے استاد شفاؔ گوالیاری سے شاعری کے داؤ پیچ سیکھے ہیں۔ غزلیں بھی کہتے ہیں اور نظمیں بھی اور دونوں جگہ اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کا رنگ غزل میں بھی قدیم ہے اور نظموں میں بھی۔ وہ پابند اور موضوعاتی نظمیں لکھتے ہیں۔ ان کی غزل بعنوان ’ نذرِ غالبؔ‘ سے چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں :

بیگانۂ بہار خدا کی قسم ہوئے

پھر بھی نہ ہم بہار کی نظروں میں کم ہوئے

………

زندہ دلانِ صبحِ وطن سے خطاب ہے

کتنے شہید، کتنے یہاں سر قلم ہوئے

………

شہرِ غزل میں دھوم ہماری غزل کی ہے

مسلمؔ انوکھے رنگ کے فنکار ہم ہوئے

ان فن کاروں کے علاوہ شعرائے سیفیہ میں یونس کوثرؔ، جاوید رضاؔ، خالدؔ غنی، اقبال مسعود، ارجمند بانو افشاںؔ، عصمی دسنوی، زاہد حسین زیدی، اسحاق ادیبؔ، ماجد صدیقی، سیلانیؔ سیوتے، ایاز قمرؔ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ نظمیں کہتے ہیں اور کچھ غزل گو ہیں لیکن میرے سامنے ان کی تخلیقات بہ لحاظ تعداد اتنی نہیں ہیں کہ ان کی روشنی میں کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ ان شاعروں کی تخلیقات اگر کبھی مجھے اظہارِ خیال پر مجبور کر سکیں تو از حد خوشی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

اردو میں بچوں کا ادب

( تراجم، تکنیکی اور مذہبی کتابیں )

 

موضوع پر گفتگو شروع کرنے سے پیشتر میں اس کی حد بندی کر لینا چاہتا ہوں۔ اردو میں بچوں کے ادب، تکنیکی اور مذہبی کتابوں کے اس جائزے میں پچھلے دس برسوں کی مطبوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آزادی کے بعد اردو کتابوں کی طباعت و اشاعت میں گونا گوں دشواریاں پیدا ہو گئی تھیں  ان کے اسباب پر نیشنل بُک ٹرسٹ کے سری نگر سیمینار منعقدہ ۱۹۷۷ء میں بالتفصیل گفتگو اور بحث ہو چکی ہے اور اس کی مفصّل رپورٹ شائع بھی کر دی گئی ہے، اس لیے ان باتوں کا اعادہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ البتہ مجموعی صورتِ حال کچھ  ایسی تھی کہ ساتویں دہائی کے آخری برسوں میں اردو جیسی ملک گیر زبان میں ہر سال بہ مشکل ڈیڑھ پونے دو سو کتابیں منظر عام پر آتی تھیں لیکن ۱۹۷۰ء کے آس پاس سے اشاعتِ کتب کی حد تک فضا اردو کے حق میں نسبتاً سازگار ہونے لگی۔ ۱۹۶۹ء میں ترقی اردو بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔ ساہتیہ اکیڈمی اور نیشنل بک ٹرسٹ نے اردو کتابوں کی اشاعت کو اپنے منصوبوں میں شامل کیا، کچھ آگے چل کر اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، کرناٹک اور دہلی وغیرہ میں اردو اکیڈیمیاں وجود میں آئیں جنھوں نے مطبوعہ کتب پر چھوٹے بڑے انعامات دینے کے علاوہ مصنفین کو کتابیں شائع کرنے کے لیے مالی معاونت کا سلسلہ بھی شروع کیا اور اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال جیسی کچھ اکیڈیمیوں نے اپنے طور پر بھی کتابیں شائع کیں۔ نیشنل کاؤنسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ میں اردو کی نصابی کتابیں تیار کرنے کا آغاز ہوا۔ کشمیر، بہار، مہاراشٹر اور کئی دوسری ریاستوں میں ٹکسٹ بک کارپوریشن قائم ہوئے۔ کچھ ریاستوں کے لینگویج ڈیپارٹمنٹ نے اردو کتابوں کی اشاعت میں مالی امداد فراہم کی، مرکزی وزارتِ اطلاعات کے شعبۂ اشاعت نے اردو میں کتابیں شائع کیں اور گزشتہ چند برسوں میں فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی نے اردو کتابوں کی طباعت و اشاعت کے لیے مالی معاونت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان سہولیات کا نتیجہ خاصا خوشگوار برآمد ہوا۔ ۱۹۷۰ء کے آس پاس اردو میں ہر سال اوسطاً ڈیڑھ پونے دو سو کتابیں ہی شائع ہوتی تھیں۔ ۱۹۷۵ء میں سنٹرل ہندی ڈائرکٹوریٹ کی ’وارشکی‘ کے لیے راقم الحروف نے اس برس کی اردو مطبوعات کا جائزہ لیا تو ان کی تعداد ۳۲۵ کے قریب تھی، ۱۹۷۶ء کی ’وضاحتی کتابیات‘ کے مطابق یہ تعداد پونے چار سوکے قریب جا پہنچی۔ ہر سال اس تعداد میں مسلسل اور معتد بہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ ۱۹۸۴ء کی ’وضاحتی کتابیات‘ کے لیے تا حال ساڑھے چھ سو اندراجات تیار کیے جا چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مجموعی طور پر ۱۹۷۵ء اور ۱۹۸۴ء کے درمیانی دس برسوں میں اردو کی چھ ہزار سے زائد کتابیں طباعت و اشاعت کے مراحل سے گزری ہیں۔ یعنی اوسطاً ہندوستان میں روزانہ دو کتابیں چھپتی ہیں۔ صورتِ حال اس لحاظ سے بھی دل خوش کن ہے کہ آفسٹ اور دیگر ترقی یافتہ سہولتوں کی وجہ سے تقریباً نصف مطبوعات پہلے کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت گٹ اپ اور خوش نما جلدوں سے آراستہ ہوتی ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ اسی مناسبت سے تاریک تر بھی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ اردو کی ہر کتاب کا ایڈیشن اوسطاً پانچ سو کا ہوتا ہے۔ بلا شبہ سرکاری اداروں سے چھپنے والی کتابیں ہزار دو ہزار کی تعداد میں بھی شائع ہوتی ہیں اور نصابی کتابوں کے ایڈیشن دس بیس ہزار کے بھی ہوتے ہیں۔ نیز مذہبی کتابوں کی تعداد اشاعت بھی خاصی ہوتی ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ آج اردو میں زیورِ طبع سے آراستہ ہونے والی بیشتر کتابیں سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے مالی تعاون کی رہینِ منت ہوتی ہیں اور یہ مالی معاونت از حد کفایت کے ساتھ تیار کردہ تخمینے کے تحت زیادہ سے زیادہ پچھتر فیصد تک دی جاتی ہے اور وہاں بھی شرط یہ ہوتی ہے کہ کتاب کا ناشر خود مصنف ہو گا اس کا نتیجہ اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ مصنف مالی امداد کے طور پر ملنے والی رقم سے کتاب کی دو ڈھائی سو کاپیاں چھپوا لیتا ہے اور قانونی شرط کو پورا کرنے کی عرض سے تعداد اشاعت چھ سوظاہر کرتا ہے۔ اس طرح پچھلے دس برسوں میں چھپنے والی اردو کی چھ ہزار کتابوں میں سے فی کتاب، تعدادِ اشاعت پانچ سو سے زائد نہیں ہو سکتی۔ بہ الفاظ دیگر اس پوری مدت میں چھپنے والی تمام کتابوں کے مجموعی نسخوں کی تعداد تیس لاکھ سے زیادہ نہیں، جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں صرف سوکتابوں کے ہی اس سے زیادہ نسخے چھپتے اور نکلتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ ان تیس لاکھ نسخوں میں اردو کتب کا وہ انبار بھی شامل ہے جو سرکاری اشاعت گھروں اور اردو اکیڈیمیوں میں غیر فروخت شدہ حالت میں دیمک کی نذر ہونے کا منتظر ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس مرحلے پر ہمیں یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ خراب یا معمولی کتابوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کی بہ نسبت عمدہ اور اچھی کتابوں کے بڑے ایڈیشن شائع کرنے اور انھیں مناسب انداز میں فروخت کرنے کے وسائل پیدا کیے جائیں۔ بڑے ایڈیشن چھاپنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پانچ سو کی بجائے دس بیس ہزار کی تعداد میں چھپنے کی صورت میں اس کتاب کی قیمت نصف بلکہ اس سے بھی کم ہو جائے گی اور زیادہ فروخت ہونے کی حالت میں اس پر پچاس ساٹھ فیصد کمیشن کی جگہ دس پندرہ فیصد کمیشن ہی دینا ہو گا۔

پچھلے دس برسوں میں شائع ہونے والی اردو کتابوں میں سے اوسطاً ہر دس میں سے ایک کتاب بچوں کے لیے ہوتی ہے اور ایسی کتابوں کی مجموعی تعداد چھ سو کے قریب ہے۔ اس تعداد میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو نصابی اور درسی ضرورت کے تحت شائع کی گئی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والے مختلف سطحوں کے طلبہ کے لیے تمام مضامین کتابیں تیار کرانے اور انھیں شائع کرنے کا کام بیشتر متعلقہ ریاستوں کے ٹکسٹ بک کارپوریشن، اردو اکادمیاں، ترقی اردو بورڈ اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نے انجام دیا ہے۔ سائنسی، سماجی اور دیگر علوم سے تعلق رکھنے والی درسی کتابیں اکثر انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمہ کرائی گئی ہیں۔ جب کہ اردو زبان و ادب سے متعلق نصابی کتابوں میں مرتبین نے بیشتر اپنی زبان کی طبع زاد تخلیقات کا انتخاب کیا ہے۔ چونکہ یہ کتابیں اکثر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ذریعہ شائع ہوتی ہیں، ان کے لیے رعایتی نرخوں پر کاغذ کی فراہمی کا بندوبست ہے اور طلبہ کے لیے ان کی خریداری لازمی ہونے کی وجہ سے ان کا ہر ایڈیشن کئی کئی ہزار پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے عام طور پر ان کتابوں کی پیشکش اطمینان بخش اور قیمت مناسب ہوتی ہے۔ البتہ کئی علاقوں سے اس قسم کی شکایتیں سننے میں آتی ہیں کہ ضرورت مند طلبہ کو یہ کتابیں بر وقت دستیاب نہیں ہوتیں۔ درسی کتابوں کے سلسلے میں اس قسم کے تساہل کا ہر سطح پر سختی سے سدِّ باب کیا جانا چاہیے۔ پرائمری اسکولوں کی سطح تک طلبہ چونکہ بہت کمسن ہوتے ہیں اور کتابوں کو زیادہ احتیاط سے استعمال نہیں کر سکتے اس لیے ان بچوں کے لیے تیار کردہ کتابوں کی جلدیں اتنی پائدار ضرور ہونی چاہئیں کہ سال بھر خراب نہ ہوں۔

زیر بحث مدت میں شائع ہونے والی کتابوں میں سے نصف کے قریب غیر درسی کتابیں ہیں جن میں کہانیاں اور نظموں کے مجموعے بھی ہیں اور معلوماتی کتابیں بھی۔ ان کتابوں کے پبلشرز میں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں قسم کے ادارے شامل ہیں۔ آزادی کے بعد اردو میں ادب اطفال کی ترقی و ترویج اور اس کے معیار کو بلند کرنے کے لیے نیشنل بک ٹرسٹ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس ادارے نے گزشتہ دس برسوں میں نہرو بال پستکالیہ اور ’ ذاکر حسین سیریز‘ کے تحت بچوں کے لیے متعدد عمدہ کتابیں شائع کی ہیں جن میں نہ صرف یہ کہ مختلف عمر کے بچوں کی ذہنی استعداد اور ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے، بلکہ یہ عمدہ کاغذ پر مناسب سائز اور جلی خط میں آفسٹ پر چھاپی گئی ہیں اور بچوں کی دلچسپی کے لحاظ سے انھیں خوبصورت اور معنی خیز تصاویر سے مزین بھی کیا گیا ہے اور حتی الامکان ان کی قیمتیں بھی مناسب رکھی گئی ہیں۔ ان میں ’ درختوں کی دنیا‘ ( رسکن بانڈ)، ’چڑیا گھر میں ‘ ( رسکن بانڈ)، ’ڈاک ٹکٹوں کی داستان، ( ایس۔ پی چٹرجی)، ’ کرکٹ‘ ( وجے مرچنٹ)‘ ’ ہمارا بحری بیڑہ‘ (آر۔ این گلاٹی)، ’ خالہ بلی کا خاندان‘ ( منوہر داس چترویدی)، ’ بس کی سیر‘ ( ولی کن نن)، ’یہ دینا پیاری پیاری‘ ( جیتی منوکرن)‘، ’ اولمپک کھیل‘ ( ملول ڈی میلو)، ’ہمارے پیڑ پودے ‘ (کے ایس سیکھا رام) جیسی مفید کتابوں کے ترجمے بھی شامل ہیں جو بچوں کو ایسی معلومات فراہم کرتی ہیں جسے وہ اپنی درسی کتابوں سے حاصل نہیں کر پاتے۔ اس ادارے سے بچوں کے لیے کلاسیکی ادب سے منتخب کر کے ایسی کہانیاں بھی شائع کی گئی ہیں جن میں ان کی دلچسپی کا وافر سامان موجود ہے۔ مثلاً پُرانوں کی کہانیاں ‘ ( گوپی چند نارنگ)‘، ’ایک دن کا بادشاہ‘ ( اطہر پرویز)، ’ایک نائی اور رنگ ساز کا قصہ‘ ( اطہر پرویز)، ’ مشینی گھوڑا ‘ (اطہر پرویز)، ’ امر جیوتی‘ ( گوپی ناتھ تلوکر)۔ مذہبی اور قومی رہنماؤں کے حالاتِ زندگی پر مشتمل کئی کتابیں بھی این بی ٹی کے وسیلے سے منظرِ عام پر آئی ہیں جن میں بطورِ خاص ’ شری رام کی کہانی‘ (ہنسہ مہتہ)، ’ ہمارے اروند گھوش‘ ( صفدر حسین)، ’ بابا شیخ فریدؒ‘( گربچن سنگھ طالب)، ’ٹیگور کا بچپن‘ (لیلا مجمدار) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں اردو اور دوسری علاقائی زبانوں سے بچوں کی کہانیوں کے انتخاب (مرتب سراج انور) بھی مجموعوں کی شکل میں بک ٹرسٹ کے ذریعے منظرِ عام پر آئے ہیں۔

ادبِ اطفال کے ضمن میں ترقی اردو بورڈ کی خدمات بھی لائقِ تحسین ہیں جس نے این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی کے اشتراک سے نصابی کتابیں بھی شائع کی ہیں جن میں ’ ایلس آئینہ گھر میں ‘ (لیوبس کل)، اینڈرسن کی کہانیاں ‘ ( مرتب اظہر افسر)، ’ رانبس کروسو‘ ( ڈینیل ڈیفو)، ’للی پت کا سفر‘ ( جوناتھن سوئفٹ) جیسے عمدہ ترجمے ’ باپو اور بچے ‘ ( پی۔ ڈی۔ ٹنڈن)، ’ اقبال کی کہانی‘ (جگن ناتھ آزادؔ) جیسی رہنمایانِ قوم و ادب سے متعلق کتابیں، ’ان سے ملیے ‘ (منوہر ورما)، ’فضائی اور خلائی اڑان‘ ( شاداں پرویز)، ’ فٹبال کی کہانی ‘ ( راج نرائن رازؔ)، ’ادب کسے کہتے ہیں ‘ ( اطہر پرویز) جیسی معلوماتی تصانیف اور ’ اچھی چڑیا‘ ( شفیع الدین نیّر)، ’حاتم طائی کا قصّہ‘، ’چار درویش کا قصہ‘( نو رالحسن نقوی)، ’ بچوں کی نظمیں ‘( جگن ناتھ آزاد) ’صبح کی پری‘ ( رتن سنگھ)، ’مصر اور شمالی افریقہ کی کہانیاں ‘، ’ ایلس حیرت نگر میں ‘ ( عبد الحیٔ)، ’انوکھی کہانیاں ‘ ( قاسم صدیقی) ’ کالا کنواں ‘ (صالحہ عابد حسین)، ’ کٹھ پتلی: ایک تماشہ‘ (سطوت رسول) جیسا تخلیقی ادب سلیقے کے ساتھ شائع کر کے ادب اطفال میں اضافہ کیا گیا ہے۔

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ ( نئی دہلی) کے وسیلے سے بچوں کے لیے کچھ غیر درسی کتابیں بھی منظرِ عام پر آئی ہیں جن میں ’امیر خسرو‘ ( سلیم احمد)، ’ ایشیا کی لوک کہانیاں ‘ ( حسین حسان)، ’ تہذیب کی کہانی‘ ( ارجن دیو)، ’ چلو چاند پر چلیں ‘ ( عبد الرحیم) جیسی کتابیں شامل ہیں۔ پبلی کیشن ڈویژن ( دہلی) کی جانب سے ’ پہیلیاں ‘( شہباز حسین، نند کشور وکرم) اور چند دوسری کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں۔

غیر سرکاری اداروں میں بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے میں مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ( نئی دہلی) کا نام سر فہرست ہے جس نے اس مدت میں ادبِ اطفال سے متعلق اپنی پرانی مطبوعات کے نئے ایڈیشن چھاپے اور بہت سی نئی کتابیں بھی سلیقے کے ساتھ شائع کیں جن میں ’ دھنک‘ (بزمی بھارتی)، ’ جدید پہیلیاں ‘ ( راج کشور)، ’ بھوتوں کا جہاز‘ (شمیم حنفی)، ’بابا ناصح‘ اور ’ سلامہ و صمصامہ‘ ( رشید الوحیدی)، ’ کھیل سنسار‘ ( سطوت رسول)، ’ نیلا ہیرا‘ (مظفر حنفی)، ’ تین اناڑی‘ (عصمت چغتائی) وغیرہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ لکھنؤ کے نسیم بک ڈپو نے بھی نانی اماں سیریز کے تحت عفّت موہانی کی کئی کہانیاں اور ٹارزن سیریز میں یوسف انصاری کی چند کتابیں بچوں کے لیے شائع کیں۔ علاوہ ازیں اس ادارے سے چھپنے والی کتابوں میں ’ دنیا کے دشمن‘ اور خوفناک آدمی‘ نیز مظہر الحق علوی کی کئی اور کہانیاں ادبِ اطفال میں اضافہ سمجھی جا سکتی ہیں۔ حال ہی میں طارق پبلی کیشنز ( دہلی) سے سراج انور کی بہت سی کہانیاں چھوٹی چھوٹی کتابوں کی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ گزشتہ برسوں میں مختلف مقامات سے بچوں کے لیے جو اچھی کتابیں شائع ہوئی ہیں ان میں ’ ناچ مری گڑیا‘ (ظفر گورکھپوری)، ’ سدا بہار نظمیں ‘ (کیف احمد صدیقی)، ’ ننھی کتاب‘ ( بدیع الزماں خاور) ’رنگا رنگ‘ ( محبوب راہی)، ’پھول آنگن کے ‘ (علقمہ شبلی) جیسے شعری مجموعے شامل ہیں۔ نثری تصانیف میں ’ ٹیپو سلطان‘ (محمود خاور ) ’ پنج تنتر کی کہانیاں ‘ ( اسمٰعیل دکنی) ’ ایک آدم خور شیر کی کہانی‘ ( اطہر پرویز)، ’ بینک کے ڈاکو‘ ( اشتیاق احمد)، ’پھولوں کی دیوی‘ ( خلیق انجم اشرفی)، ’دیو کا پیڑ ‘ ( آفتاب حسین)، ’تتلیاں ‘ ( نظام الدین نظام)، ’ انوکھا مقابلہ‘ ( قاضی انصار)، ’بیت بازی‘(محمد حنیف عبدی)، ’غار سے جھونپڑی تک ‘ (غلام حیدر) اپنی افادیت اور ادبی خصوصیات کی بناء پر یاد رکھی جائیں گی۔ دہلی کے مرکزی مکتبہ اسلامی اور مکتبہ الحسنات نیز رامپور کے مکتبہ ذکریٰ وغیرہ نے بھی بہت سی اخلاقی کہانیاں اور مذہبی معلومات بہم پہنچانے والی کتابیں بچوں کے لیے عام فہم زبان میں شائع کی ہیں۔ بچوں کے رسائل میں بہ طورِ خاص ماہنامہ ’کھلونا‘ دہلی( الیاس دہلوی) اور ’ پیامِ تعلیم‘ دہلی (ولی شاہجہاں پوری) کی خدمات لائقِ ذکر ہیں۔ اول الذکر اپنی خوبصورت پیش کش اور معیاری تخلیقات اور آخری الذکر بچوں کے لیے معلوماتی مضامین کی پیش کش کے لحاظ سے نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

بحیثیت مجموعی ادبی معیار و تعداد کے اعتبار سے اس مدت میں سامنے آنے والا اردو ادبِ اطفال ہندوستان کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے البتہ غیر سرکاری اداروں سے شائع ہونے والی بچوں کی کتابیں، چند مستثنیات کو چھوڑ کر جیسے خراب کاغذ پر تصاویر کے بغیر، لیتھو کی چھپائی کے ساتھ منظرِ عام پر آتی ہیں انھیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ ناشرین تجارتی نقطۂ نظر سے مجبور ہیں کہ ان کتابوں کے ایڈیشن بہت کم تعداد میں چھپتے ہیں اور کتاب کی قیمت بھی زیادہ نہیں مقرر کی جا سکتی۔ اگر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے بچوں کی کتابوں کے لیے رعایتی نرخ پر اچھا کاغذ اور دوسری سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ موضوعات کے اعتبار سے بھی ادب اطفال کو اپنے سائنسی دور اور ترقی پذیر معاشرے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کومکس کی بڑھتی ہوئی وبا نے دوسری زبانوں میں جس طرح کے مسائل پیدا کیے ہیں ان سے اردو کا ادبِ اطفال غالباً بے وسیلہ ہونے کی وجہ سے تا حال محفوظ ہے اور ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ اس کے بیج اردو میں نہ پڑنے پائیں۔

جہاں تک تراجم کا سوال ہے، اردو معیار و تعداد ہر دو لحاظ سے اس شاندار روایت کو برقرار نہیں رکھ سکی جو دار الترجمہ عثمانیہ اور دوسرے اداروں نے قائم کی تھی۔ بایں ہمہ گزرے ہوئے دس برسوں میں کم و بیش سو کتابیں دوسری زبانوں سے اردو میں منتقل کی گئیں۔ ادبِ اطفال کی مانند اس میدان میں بھی نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا اور ترقی اردو بورڈ بیش پیش رہے چنانچہ نیشنل بک ٹرسٹ نے آدان پردان سیریز کے تحت ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوں کے معیاری فن پاروں سے اردو دنیا کوروشناس کیا۔ ایسے تراجم میں بنگالی، ملیالم، تیلگو، پنجابی، گجراتی، مراٹھی، تامل، اوڑیا اور ہندی کے ناول، افسانے اور ڈرامے وغیرہ شامل ہیں۔ نیشنل بک ٹرسٹ کی ان سب مطبوعات کی تعداد خاصی بڑی ہے۔ اس ادارے نے انگریزی سے بچوں کے لیے اردو میں جو کتابیں منتقل کی ہیں ان کا ذکر ادبِ اطفال کے ضمن میں کیا جا چکا ہے۔ ترقی اردو بورڈ نے این۔ سی۔ ای، آر۔ ٹی کے اشتراک سے ثانوی سطح تک کے طالب علموں کے لیے مختلف سماجی مضامین اور سائنسی علوم سے متعلق درسی کتابیں انگریزی، ہندی اور دوسری زبانوں سے اردو میں ترجمہ کرائیں۔ علاوہ ازیں آزادانہ طَور پر بھی اعلیٰ تعلیمی سطح کے طلبہ کے لیے متعدد علمی کتابیں اردو میں منتقل کیں جن میں سے اکثر تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور تاریخی موضوعات سے متعلق ہیں۔ اس ادارے کے شائع کردہ زبان و ادب سے متعلق اہم تراجم میں ’ہند آریائی اور ہندی ‘( سنیتی کمار چٹرجی/ عتیق احمد صدیقی)، ’شعریات ‘( ارسطو/ شمس الرحمن فاروقی)، ’ نالاڈیار‘(حمید اللہ خاں )، ’ شری مد بھگوت گیتا‘ (حسن الدین احمد) جیسی متعدد کتابیں شامل ہیں۔ زیر بحث مدت میں سرکاری اور غیری سرکاری اداروں کے توسط سے دوسری زبانوں کی جو کتابیں ترجمہ ہو کر اردو میں شائع ہوئی ہیں ان میں ’ ایلیٹ کے مضامین‘ ( جمیل جالبی)، ’ رلکے کے نوحے ‘ ( ہادی حسین)، ’ وہٹمین کی نظمیں ‘ (کلیم الدین احمد)، ’ اوتھیلو‘ ( شیکسپئر/ فراق گورکھپوری)، ’ گلاگ مجمع الجزائر‘ کے تین دفتر(سولنستین/ مظفر حنفی)، رسول حمزہ کے داغستانی کلام کا ترجمہ، ’ دیکھنا تقریر کی لذت‘ (صابر صدیقی)، ’ قصائد سبع معلقات‘ ( امیر حسن نورانی)، ٹیگور کا ڈرامہ ’ بھینٹ‘( انوار احمد علوی)، ’قاضی نذر الاسلام ( گوپال ہال دار/ نشاط قیصر)، ’گیتانجلی‘ ( منظوم ترجمہ : ظہیر عباس)، ’آدرش ہندو ہوٹل‘ ( وبھوتی بھوشن بندوپادھیائے / اشرف عابدی)، ’ آزادی ‘ ( چمن بہل/ شجاع الدین صدیقی)، ’ بھارتیندو ہریش چند‘ (مدن گوپال/ مظفرؔ حنفی)، منتخب فلسطینی کہانیوں کا عربی سے ترجمہ فرانسیسی ناول نگار فرانسواز ساگاں کا شاہکار ’گونگی توپ‘ ( قطب اللہ)، کالی داس کا ’ رت سنگھار ‘ اور ’ مالویکا اگنی مِتر‘ ( عرفان صدیقی)، بادل سرکار کے بنگالی ڈرامے کا ترجمہ ’اسپارٹکس‘ (انیس اعظمی)، سیموئیل جانسن کی ’تواریخ ریسلاس‘ ( کمال الدین حیدر)، لداخی ہیرو کی سوانح حیات ’نوربوزانگپو‘ ( زونگ چن/سکندر علی خاں ) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ بہت سی مذہبی نوعیت کی کتابیں بھی اردو میں ترجمہ کی گئیں جن کا ذکر مذہبی موضوعات کے ضمن میں کیا جائے گا۔ نسیم بک ڈپو لکھنؤ بھی تراجم کی اشاعت میں سرگرم رہا اور یہاں سے عوامی دلچسپی کے حامل نیز تجارتی اعتبار سے منفعت بخش درجنوں مترجمہ ناول شائع ہوئے جن میں مظہر الحق علوی کے ترجمہ کردہ متعدد پُر اسرار اور مہماتی ناولوں کے علاوہ دوسرے مترجمین کے جاسوسی ناول بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اسٹار بک سینٹر اور دیگر کئی پبلشروں نے پیپر بیک ایڈیشنوں میں جیمس ہیڈلی چیز، اگاتھا کرسٹی اور دیگر جاسوسی ناول نگاروں کے ترجمے اردو میں شائع کیے۔ ساہتیہ اکادمی دہلی نے بھی ہندوستانی ادب کے معمار سیریز میں کچھ مختصر کتابوں کے تراجم پیش کیے ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی تراجم کے میدان میں اردو کی پیش رفت کو زیادہ اطمینان بخش نہیں سمجھنا چاہیے۔ توقع ہے کہ کم از کم سرکاری ادارے ہندوستان کی علاقائی زبانوں کی طرح مختلف زبانوں میں بکھرے ہوئے عالمی ادب کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے کیونکہ اس کا م کے لیے جو بڑے وسائل اور بڑا سرمایہ درکار ہے وہ اردو کے پرائیویٹ اداروں کو نصیب نہیں۔

پچھلی دہائی کی لگ بھگ چھ ہزار مطبوعات میں تکنیکی کتابیں خال خال ہی نظر آتی ہیں اور ان کی مجموعی تعداد پانچ چھ درجن سے زیادہ نہیں ہے۔ اسی طرح صنعت و حرفت کی جانب سے اردو داں عوام کی عمومی بے توجہی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ترقی اردو بورڈ اور دیگر سرکاری اداروں سے جو ایسی چند کتابیں شائع بھی ہوئیں تو ان کی نوعیت نصابی ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ سائنسی اور دیگر علوم کے میدانوں کی تخصیص ہو جانے کی بناء پر بیشتر وہ کتابیں جو پہلے تکنیکی سمجھ لی جاتی تھیں، اب اس دائرے سے باہر ہو گئی ہیں۔ بہر نوع گزشتہ دس برسوں کے دوران جو تکنیکی کتابیں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے وسیلے سے منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں ’ اصول فہرست نگاری‘ ( محمد حسن قیصر)، ’ سراغ رسانی اور تفتیش‘ ( مرتضیٰ علی خاں )، ’ آئینہ ہو میو پیتھی‘ (مرزا محمد امین)، ’اخبار نویسی کے ابتدائی اصول ‘ ( بلجیت سنگھ)، ’ اردو طباعت و اشاعت کے مسائل ‘ ( مرتبہ انور کمال حسینی)، فوٹو گرافی کے فن سے متعلق ’ ایلی منٹس آف کامرشیل آرٹ‘ (قمر الزماں )، خطاطی کے فن سے متعلق ’ تنویر الشمس‘( منشی شمس الدین) اور ’شیریں رقم‘ ( مرتبہ محمد یونس ٹینگ)، کلینڈر سازی سے متعلق ’ مفتاح التقویم‘ (حبیب الرحمن صابری)، ’بارہ مہینے ساگ سبزی‘ ( عذیر وہاب)’ ٹرانسسٹر کے بنیادی اصول‘ ( اقبال حسین رضوی)’ فن جوڈو‘ (اظہر حسین راہی)، ’ مسلم اوقاف کے اصولِ نظم و نسق‘ ( اصطفیٰ حسین)، ’ فلمیں کیسے بنتی ہیں ‘ (خواجہ احمد عباس/ پریم پال اشک)، ’ ہندوستان میں چھاپہ خانہ‘( اے کے۔ ہرولکر/ علی بن الحسین زیدی)، فنِ طباعت‘ ( بلجیت سنگھ)، ’اسلامی ہند میں فنِ خطاطی‘ ( شوکت علی خاں )، ’ ٹی۔ وی۔ رپیئر گائڈ‘ ( محمد علی)، نشریات اور آل انڈیا ریڈیو‘ ( اخلاق اثر)، ’ عوامی ذرائع ترسیل‘( اشفاق محمد خان)، ’ ٹیلی پیتھی گائڈ‘ ( اظہر حسین راہی)، ’ بیماریوں کا رنگ و روشنی سے علاج‘ ( ننھے میاں )، ’نقاشی عرف پیپر میشی‘(سید مرتضیٰ رضوی)، ’ بچوں کا آرٹ اور اس کی تدریس‘ (عبید الحق )، ’سرطان کیا ہے ‘ ( برہان الدین)، میڈیکل جور سپروڈنس کے موضوع پر ’طبی قانون‘ ( فاروق رضوی)، ’ہندوستان اور فنِ مصوری‘ ( عظمت اللہ خاں )، ’ شکار‘ ( اشتیاق علی علوی)، ’تجوید المبتدی ‘ ( قاری محمداسمٰعیل)، غذاؤں کے طبی خواص سے متعلق گردھاری پرساد بانیؔ کی تصنیف ’باغِ رزاق‘ ( مترجمہ عابدی)، ’ موجز القانون‘ ( مترجمہ کوثر چاند پوری) شہد کی مکھی سے متعلق ’ موم کا محل‘ (محمد انس)، ’ کتب خانہ داری ‘ ( شہاب الدین انصاری)، ’ علم خانہ داری‘( مسرت زمانی)، ’ اردو کے ادبی رسالوں کے مسائل‘ (مرتبہ عابد سہیل)، جنسیات کے موضوع پر ’ رہبرِ بالغان‘ ( محمد اقبال) اور جیلوں کے نظام سے متعلق ’ جیلر کی ڈائری‘ ( رام پال) خصوصی تذکرے کی مستحق ہیں۔ علاوہ ازیں اس مدت میں بہت سے لغات، کھانا پکانے کی ترکیبوں پر مشتمل متعدد ’ دسترخوان، اور کشیدہ کاری کے سلسلے میں کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں۔ اس ضمن میں ترقی اردو بورڈ کی تیار کردہ مختلف علوم کی ’ فرہنگِ اصطلاحات‘ کا سلسلہ بھی لائقِ ذکر ہے۔ اردو میں تکنیکی کتابوں کی کمی کا بظاہر ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام طور پر اردو کے ادیب صنعت و حرفت سے ناواقف ہوتے ہیں اور اس میدان کے ماہرین اُردو زبان پر عبور نہیں رکھتے۔ اگر نیشنل بک ٹرسٹ یا ترقی اردو بورڈ کی جانب سے ان دونوں طبقوں کے مابین تال میل پیدا کیا جا سکے تو صورتِ حال بہتر ہوسکتی ہے۔

جہاں تک مذہبی کتابوں کا تعلق ہے ہم معیار، تعداد اور پیشکش ہر لحاظ سے اطمینان کا اظہار کر سکتے ہیں کیوں کہ زیر غور مد ت میں ہزار سے کچھ زیادہ مذہبی کتابیں اردو میں شائع ہوئی ہیں کیونکہ ان کے خریدار بھی موجود ہیں اور اہلِ خیر حضرات اکثر ایسی کتب کے ناشرین کی مالی معاونت بھی کرتے ہیں۔ ایسی کتابوں کا ہر ایڈیشن عام طور پر کئی کئی ہزار کا ہوتا ہے اس لیے ان کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے اور طباعت بھی سلیقے سے ممکن ہے۔ چونکہ ان میں سے بیشتر کتابیں تبلیغ و اصلاح کے مقصد سے لکھی گئی ہیں اس لیے مختلف کتابوں میں مختلف عمر اور ذہنیت کے قارئین کی استعداد کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ بچوں اور بچیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کتابیں بھی چھپتی ہیں نیز مردوں اور عورتوں کے لیے الگ۔ کچھ کتابوں میں معمولی سوجھ بوجھ اور واجبی تعلیم رکھنے والے افراد کو عام فہم اور آسان زبان میں مخاطب کیا جاتا ہے  تو کہیں بالغ نظر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں شیعہ، سنّی، بریلوی، وہابی، قادیانی عقائد رکھنے والے اپنے اپنے عقیدوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس لیے مذہبی کتابوں میں موضوعات اور اسالیب بیان کا خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ عام طور پر ا ن میں ارکانِ دین کی اہمیت، قرآن پاک کی وضاحت، پیغمبر اسلام اور دیگر بزرگانِ دین کی سیرت و عظمت، احادیث کی پیشکش اور مسلم قوم کو در پیش مسائل پر قلم اٹھایا جاتا ہے لیکن اس میدان میں بھی اردو نے وسیع المشربی کے ثبوت فراہم کیے ہیں۔ مثلاً اسی مدت میں ’ سرِّ مغفرت ‘( رتن پنڈوروی ) شائع ہوئی جو شریمد بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ ہے۔ علاوہ ازیں ’برناباس کی انجیل‘ ( مترجم آسی ضیائی)، ’بائبل، قرآن اور سائنس‘ ( مورس بوکالے / ثناؤ الحق صدیقی)، ’ رام چرت مانس‘ (تلسی داس/ نور الحسن نقوی)، حضرت عیسیٰ پر ہونے والے مظالم سے متعلق ’ صدیوں کا بیٹا‘ (اظہر حسین راہیؔ)، ’ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں ‘ ( محمد فاروق خاں )، ’ گوتم بدھ ‘ (لیلا جارج/ضمیر حسن)، ’ آریہ سماج کی تاریخ‘ ( لالہ لاجپت رائے / کشور سلطان)، ’ گرو تیغ بہادر‘ (جیت سنگھ سیتل)، ’ رامائن فراقی‘ (فراقؔ دریا بادی) جیسی کتابیں اردو میں منظر عام پر آئیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس کشادہ قلبی کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ اردو میں کبھی کبھی مختلف عقائد رکھنے والے کچھ مسلمان اہلِ قلم آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح نبرد آزما ہو جاتے ہیں کہ عقل سلیم پناہ مانگتی ہے۔ کبھی شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے تو کبھی بریلوی اور دیوبندی علماء میں معرکہ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔ کاش ہمارے پاس کوئی ایسا مرکزی وسیلہ ہوتا کہ اپنے ایسے علماء کو نفاق کی جگہ ملت میں اتفاق پیدا کرنے پر آمادہ کر سکتے اور انھیں باور کرا سکتے کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ میرے سروے کے مطابق اس مدت میں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں دہلی کے مرکزی مکتبہ اسلامی نے شائع کی ہیں جن میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور اس ادارے کے دوسرے مصنفین انھیں کے نظریات کی تشریح و ترویج کرتے ہیں۔ اہم مذہبی تصانیف کا دوسرا اہم پبلشر لکھنؤ کی مجلسِ تحقیقات و نظریاتِ اسلام ہے جہاں سے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور ان کے نظریۂ فکر سے مطابقت رکھنے والے مصنفین کی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں کتب خانہ مسعودیہ دہلی، دارالمصنفین اعظم گڑھ، الدارالسلفیہ بمبئی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، رضا اکیڈمی اعظم گڑھ، کتب خانہ الفرقان لکھنؤ، مکتبہ الرسالہ دہلی، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز دہلی، مکتبہ مصطفائیہ دیوبند، الفرقان بک ڈپو لکھنؤ، مکتبہ ذکریٰ رامپور وغیرہ نے بھی بہت سی مذہبی کتابیں سلیقے اور اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں۔ ان اداروں کی شائع کردہ چند خاص مطبوعات میں مستند احادیث کا اردو ترجمہ، شمعِ رسالت‘ ( شمس الدین احمد)، ’اصلاحی نصاب‘ ( مولانا اشرف علی تھانوی)، ’کاروانِ ایمان و عزیمت، ( مولانا ابو الحسن علی ندوی)، ’ تاریخ دعوت و عزیمت‘ ( ابو الحسن علی ندوی)، ’ محمدؐ اور قرآن‘ ( عبد الخالق ظاہری)، ’ ہجر و وصال‘ ( مولانا ابو الکلام آزادؔ: مرتبہ غلام رسول مہرؔ)، ’پیغمبر انقلاب ‘ ( مولانا وحید الدین خاں )، ’ آواگون کا تحقیقی جائزہ (امام الدین رام نگری)، ’اسلامیات اور مغربی مستشرقین اور مسلمان مصنفین‘ اور’ منصبِ نبوت اور اس کے عالی مقام‘ (ابوالحسن علی ندوی)، ’ سیرت النبی کامل‘ ( ابن ہشام/ مترجمہ غلام رسول مہرؔ)، ’حضرت جنید بغدادی ( ضیاء الحسن فاروقی)، ’ تمثیلاتِ قرآنی‘ ( مولانا ابو الاعلیٰ مودودی)، ’ ایمان کی اہمیت‘ (ابو سلیم عبد الحیٔ)، ’ حقوق العباد‘ (بنت الاسلام)، ’ آئینہ ملفوظات‘ ( اخلاق حسین دہلوی)، ’قطب مالوہ‘ (وجدی الحسینی)، ’ شافعی فقہ‘ ( محمد ایوب ندوی)،  ’بچوں کی قصص الانبیاء ‘ ( امۃ اللہ تسلیم)، ’خلفائے رسولؐ‘ ( احمد مصطفی راہی)، ’ صحیح بخاری شریف ‘ ( مترجم اختر شاہجہاں پوری)، ’تصوف کے مسائل اور مباحث‘ ( صفدر علی بیگ)، ’دین کی باتیں ‘( اشرف علی تھانوی) وغیرہ شامل ہیں۔ اس اثناء میں منظرِ عام پر آنے والی کتابوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جن میں موجودہ بدلتے ہوئے معاشرے میں اسلام اور مسلمانوں کے بنیادی مسائل پر نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایسی کتابوں میں ’جدید دنیا میں اسلام، مسائل اور امکانات‘ ( آل احمد سرورؔ)، ’اسلام دورِ حاضر میں ‘ ( ولفرڈ  کینٹوبل اسمتھ/ مشیر الحق)، امتِ مسلمہ کا انحطاط اور اس کی تعمیرِ نو‘ ( غلام محمد)، ’اسلام ایک نظریہ، ایک تحریک‘( مریم جمیلہ/ آباد شاہ پوری)، ’اسلامی فکر و تہذیب کا اثر ہندوستان پر‘ ( خلیق احمد نظامی)، ’ سائنس اور اجتہاد‘ ( احسان اللہ خاں )، ’ اسلام اور جدید ذہن‘ ( سید قطب/ سلیم کیانی)، ’ فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘ ( مرتبہ ضیاء الحسن فاروقی) وغیرہ خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ان مذہبی کتابوں میں ایسی مطبوعات کی شمولیت بھی خوش آئند ہے جن میں ہندوستان کو در پیش برائیوں کا جائزہ اسلامی نقطۂ نظر سے لے کر انھیں دور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایسی تصانیف میں بطورِ خاص ’نشہ بندی اور اسلام‘(ابو اللیث صدیقی)، ’ رشوت شریعتِ اسلام میں ایک عظیم جرم‘ (عبد اللہ بن محسن/ نصیر احمدملی)، ’ اسلا م اور فیملی پلاننگ‘ (ابو الحسن فاروقی) اور شراب اور اس کا اسلامی موقف‘ ( بشیر الحق قریشی ) جیسی فکر انگیز کتابیں اپنی اہمیت کا احساس دلاتی ہیں۔

( نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، دہلی کے سیمینار منعقدہ ۲۴ مارچ ۸۵ء میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

انسان دوستی اور وسیع المشربی کے فروغ میں اردو زبان و ادب کا کردار

 

اردو زبان و ادب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انسان دوستی اور جمہوریت پسندی اس کے خمیر میں شامل ہیں۔ اس اعتبار سے اردو زبان و ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس خوشگوار حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اردو زبان اور اس کے ادبی مزاج میں انسانی مساوات اور جمہوریت پسندی کا خون ابتدا ہی سے گردش کرتا رہا ہے۔ عہدِ شاہجہاں میں مختلف طبقوں دیسیوں، بدیسیوں، فوجیوں، تاجروں نیز عوام کے باہمی ربط و ضبط نے بڑھ کر دلچسپ صورتِ حال کو جنم دیا۔ دربار کی زبان فارسی تھی۔ بیرونی ممالک سے آنے والے لشکریوں میں ترکی بولنے والے بھی موجودتھے جبکہ بازار اور عام شہریوں کے گھروں میں برج، ہریانوی، اودھی اور اسی نوع کی دوسری بھاشائیں بولی جاتی تھیں ان حالات میں غیر محسوس لیکن جمہوری طریقے پر ایک ایسی زبان عالمِ وجود میں آئی جس میں ملک کے تمام علاقوں، فوجیوں اور حکمراں طبقے کے لوگوں کی بولیوں  سے نمائندہ الفاظ چن لیے گئے تھے اور ان کی شیرازہ بندی ایک ایسی گرامر میں کی گئی جو عوام کی اکثریت کے لیے غیر مانوس نہ ہو۔ یہی ملی جلی زبان مختلف ادوار میں دہلوی، ریختہ، ہندوی، ہندستانی یا اردو کہلائی۔ ظاہر ہے کہ عوام کے جذبات و احساسات کی نمائندگی کرنے والی یہ زبان انسان دوستی کی علامت ہے اوراسی لیے اپنے گنگا جمنی معاشرے سے سب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

میرے اس خیال کی تائید اردو ادب کے سرمائے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے بھی ہو جاتی ہے۔ :جمہوری معاشرے میں انسانیت اور جمہوریت کی بات کرنا زیادہ دشوار نہیں ہے۔ مزا تو جب ہے کہ شخصی حکمرانوں اور آمروں کے دورِ حکومت میں بھی عوام دوستی، انسانیت اور جمہوریت کا پرچم بلند کیا جائے اور یہ فریضہ اردو ادب اپنے بالکل ابتدائی دور سے انجام دیتا آیا ہے۔ اردو کے غالباً سب سے پہلے شاعر امیر خسروؔ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’ خالق باری‘‘ کا پہلا مصرعہ ہی میرے اس خیال کی تصدیق کرتا ہے   ع

’ خالق باری۔ سرجن ہار‘

اس مصرعے سے دو پہلو اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اوّل یہ کہ کوئی بادشاہ نہیں بلکہ معبود حقیقی ہمیں پیدا کرنے اور پالنے والا ہے۔ دوسرا یہ کہ زیر بحث مصرعے میں ہندواورمسلمان دونوں کے مذہبی جذبات کی پاسداری کی گئی ہے۔

آگے چل کر شخصی حمکرانوں کے دور میں جہاں اُردو کے شاعروں نے ان کی شان میں مدحیہ قصیدے لکھے، وہیں ایسے صاحبانِ اقتدار کی اخلاقی خامیوں کو نمایاں کرنے اور اُن کے عوام دشمن رویوں کی مذمّت کرنے کے لیے ہجویہ قصائد بھی کم نہیں لکھے گئے۔ فرخِ سیر کے دور میں یہ جرأت اردو کے ایک شاعر جعفرؔ زٹلی نے ہی کی تھی کہ ایک مطلق العنان حکمراں کو ’’بادشاہِ دانہ کَش‘‘ کا خطاب دے سکے۔ یہ احتجاج انسانیت سے گہری ہمدردی کا نتیجہ تھا کیونکہ فرخ سِیر نے کسانوں پر ناقابل برداشت ٹیکس عائد کر دیا تھا۔

اردو کی ابتدائی منزلوں میں جو اصنافِ ادب زیادہ مقبول تھیں ان میں قصیدے کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ غزل، مثنوی اور نظم بھی انسان دوستی کی ترجمانی میں روزِ اول سے ہی سربکف رہی ہیں۔ غزلوں میں میر تقی میرؔ اور تمام دوسرے شعرا نے انسانیت اور مساوات کا پیغام دیا۔ میرؔ کا مشہور شعر ہے :

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اور آگے چل کر غالبؔ نے کہا:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

الغرض ہر دور میں اردو کے شاعروں نے اعلان کیا:

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

از ابتدا تا حال اردو غزل میں وسیع المشربی اور انسان دوستی کی ایسی تابناک مثالیں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہیں۔

حقیقی معنوں میں نظم کی بناء اردو میں نظیرؔ اکبر آبادی کے قلم نے ڈالی ہے ان کے جمہوری مزاج اور انسان دوستی کے رجحانات روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور ان کی نظمیں اپنے عہد کے عوام کی بلا تفریق مذہب و ملت بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ انسان دوستی کی روایت کو اردو نظم نے گِرہ میں باندھ رکھا ہے اور پابند، معرّیٰ نیز آزاد نظموں میں اس کا مظاہر مسلسل کرتی آئی ہے۔ یہاں اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا کہ نظموں میں ایک خاص صنف خالصتاً عوام کی دشواریوں اور پریشانیوں کا اظہار کرنے کے لیے وقف کی گئی ہے جسے ’شہر آشوب‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نظیرؔ، میرؔ، سوداؔ سے لے کر موجودہ دور کے خلیل الرحمن اعظمی تک اُردو کے شعری ادب میں سیکڑوں شہر آشوب لکھے جا چکے ہیں جن میں اپنے اپنے دور کے عام انسان کے جذبات و احساسات نیز معاشرتی پسماندگی کے نہایت پُر تاثیر مرقعے محفوظ ہیں۔ امیر مینائی نے کیا خوب کہا ہے :

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

راقم الحروف کا ایک شعر سُن لیں :

جلایا جائے کوئی گھر کسی بھی بستی میں

دھُواں اُٹھے گا ہمارے غریب خانے سے

کچھ ناقدین نے اقبالؔ کو حکیم الامت کہہ کر ان کی عظمت کو محدود کر دیا ہے۔ لیکن ایسے نقاد بھی موجود ہیں جو انہیں عالمی یکجہتی کا علمبردار کہتے ہیں مثلاً مسعود حسین رقم طراز ہیں :

’’ اقبالؔ کی ملّی شاعری کو کسی مخصوص فرقے سے مخصوص کر دینا ان کے حق میں سخت نا انصافی ہے۔ فکرِ اقبال در اصل اسلام کی ایک انسانی مطمحِ نظر سے ترجمانی کر کے اسلام اور انسانیت کو ہمدگر کرنے کی ایک زبردست کاوش ہے جس کے محور پر ایک عالمی یکجہتی کا پروگرام تیار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘           (اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ص ۱۲۰)

اردو مثنویوں میں انسانی اقدار اور وسیع المشربی کی نہایت واضح اور روشن تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ بہمنی عہد کے شاعر نظامیؔ اردو کے پہلے مثنوی نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ موصوف کی مثنوی کا نام ’’ کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہی ہندو کرداروں سے اخذ کیا گیا ہے۔ ملّاوجہی کی مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ کا ہیرو قطب شاہ ہے اور ہیروئن ’’ بھاگ متی‘‘۔ میر تقی میرؔ کی مثنویوں میں پرسرام جیسے برہمن زادے ہیرو کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو دیا شنکر کی ’’گلزارِ نسیم‘‘ میں مثنوی کا آغاز حمد، نعت اور منقبت سے ہوتا ہے نیز اس کا اختتام ہندو اور مسلمان کے مابین شادی پر کیا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ اردو میں ہزاروں مثنویاں لکھی گئی ہیں اور کم و بیش سب ہی میں انسان دوستی، مذہبی رواداری، مساوات اور جمہوری مزاج جلوہ گر ہے۔

نثری اصناف دیگر تمام زبانوں کی طرح اُردو میں بھی زبان کی ابتدا کے کافی عرصے کے بعد اپنی شناخت کومستحکم کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن یہاں بھی ابتدا ہی سے انسان دوستی اور وسیع المشربی کا دور دورہ رہا۔ فورٹ ولیم کالج آسان اور عام فہم اُردو نثر کے ارتقاء میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتا ہے اور اس کے اردو نثر نگاروں میں میر امنؔ کے شانہ بشانہ للّو لال بھی موجود ہیں جو نہ صرف ’ گل بکاؤلی‘ جیسی داستان تصنیف کرتے ہیں بلکہ مظہر علی خاں ولاؔ کو سنسکرت سے ’ ’ بیتال پچیسی‘‘ کا اردو ترجمہ کرنے میں تعاون بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح اودھ کے نوابین کے دور میں انشاء اللہ خاں انشاءؔ نے کسی شہزادی کی جگہ ’ رانی کیتکی‘ کی کہانی لکھی اور اُردو کے جمہوری مزاج کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ یہ کہانی ہندی کی پہلی کہانی بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ رجب علی بیگ سرورؔ کی داستان ’’ فسانۂ عجائب ‘‘ میں جوگی اور جادو گر جیسے مقامی کردار موجود ہیں۔ آگے چل کر پنڈت رتن ناتھ سرشار کا فسانۂ آزاد، ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا منہ بولتا مرقع ہے۔ جس میں معاشرے کے حقیر ترین فرد سے لے کر اعلیٰ طبقے تک کے کرداروں کی ایسی بھرمار ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ پورا ہندوستان اس داستان میں سمٹ آیا ہے۔ سر سید کے مضامین قومی یکجہتی اور انسان دوستی کی جو شاندار مثال پیش کرتے ہیں اسے واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اپنی مشہور تصنیف ’ دربارِ اکبری‘ میں محمد حسین آزادؔ نے اکبر کے نورتنوں میں راجہ مان سنگھ، ٹوڈر مل اور بیربل کے کارنامے اس طمطراق کے ساتھ پیش کیے کہ عبدالرحیم خانِ خاناں اور دیگر مسلم نورتنوں کی تصویریں دھُندلی پڑ گئیں اور ان ہی آزادؔ نے جب بقائے دوام کا دربار آراستہ کیا تو اپنے کسی مذہبی رہنما کے بجائے عظمت کی بلند ترین کرسی پر راجہ رام چندر کو متمکن کیا نیز کالی داس کو فردوسیؔ سے بالاتر مقام عطا کیا۔ آگے چل کر پریم چند کی کہانیوں اور ناولوں میں ہندوستان کے پسماندہ عوام کی نمائندگی حریت پسندی اور انسانیت کے جذبات کو عام کرنے کی جو کامیاب کوششیں کی گئیں اُن سے اردو ادب کا ہر طالب علم واقف ہے۔

الغرض قدما اورمتوسطین سے لے کر جدید ترین نسل تک خواہ سر سید تحریک ہو، ترقی پسندتحریک ہو یا جدیدیت، اردو ادب ہمیشہ اعلیٰ انسانی اقدار کا ترجمان اور عکاس رہا ہے اور اس کے اہم مصنفین میں مسلمانوں کے دوش بدوش دیا شنکر نسیمؔ، رتن ناتھ سرشارؔ، پریمؔ چند، چکبستؔ، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، فراقؔ گورکھ پوری نیز ہندوستان کے تقریباً ہر فرقے اور ہر طبقے کا لکھنے والا موجود ہے۔ شاید عالمی پیمانے پر بھی کوئی دوسری زبان انسان دوستی اور جمہوریت نوازی کی اتنی تابناک مثالیں نہیں پیش کر سکتی جتنی کہ اردو کے دامن میں موجود ہیں۔

کچھ باتیں اردو کی وسیع المشربی اور مذہبی رواداری کے سلسلے میں اور کہنا چاہتا ہوں :

اصغرؔ گونڈوی فرماتے ہیں :

اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی

کچھ قید و بند نے جسے ایماں بنا دیا

یگانہؔ چنگیزی نے کہا:

کرشن کا ہوں پجاری علی کا بندہ ہوں

یگانہؔ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا

بقول حسرتؔ موہانی:

متھرا سے اہل دل کو وہ آتی ہے بوئے اُنس

دنیائے جاں میں شور ہے جس کے دوام کا

امیرؔ مینائی کا شعر ہے :

سانولی دیکھ کے صورت کسی متوالی کی

ہوں مسلمان مگر بول اُٹھوں جے کالی کی

پنڈت برج نرائن چکبستؔ کہتے ہیں :

اذاں دیتے ہیں بت خانے میں جا کر شان سے مومن

حرم میں نعرۂ ناقوس ہم ایجاد کرتے ہیں

ادھر شادؔ عارفی ہدایت فرماتے ہیں :

صدائے ناقوس بتکدہ پر گرفت کا مشورہ نہ دیبحے

عبادت و بندگی کے مانع اگر نہیں برہمن ہمارا

موجودہ دور میں نئی غزل کہنے والے اکثر شعرا اپنے اشعار میں ہندو مائتھولاجی سے استفادہ کرتے ہیں اور دیوی دیوتاؤں سے متعلق تلمیحات کو خوبصورتی کے ساتھ برت کر غزل میں نئے ذائقے کی آمیزش کرتے ہیں مثلاً جاں نثار اخترؔ کا شعر ہے :

ٹوٹی ٹوٹی سی ہر اک آس لگے

زندگی رام کا بن باس لگے

اور منورؔ رانا نے کہا ہے :

غم سے لچھمن کی طرح بھائی کا رشتہ ہے مرا

مجھ کو جنگل میں اکیلا نہیں رہنے دیتا

اکثر غزل گویوں نے بقول پروفیسر محمد حسن:

’’ علامتوں کی زبان میں باتیں کیں اور انسانی رشتوں کا ایسا تصور اپنایا جس میں اقتصادی نا برابری کا رنگ نہ تھا مساوات اور اخوت کی کیفیت تھی۔ ‘‘

عہدِ حاضر کی نئی نظم بھی بھرپور مذہبی رواداری اور انسان دوستی کا انداز ہ شادؔ عارفی کی ’’گنگا اشنان‘‘ کاوشؔ بدری کی ’’ کاویم‘‘ حرمت الاکرام کی ’’ اماوس کا جادو‘‘ مظہر امام کی ’’سرسوتی ’’ فرحت کیفی کی ’’ مرلی منوہر‘‘ عمیق حنفی کی ’’ متس گندھا‘‘ جیسی نظموں کے محض عنوانات سے کیا جا سکتا ہے۔

اردو نثر میں انسان دوستی اور مذہبی رواداری کے مرقعے کم نہیں ہیں۔ میر امنؔ کی ’’ باغ و بہار‘‘، قرۃ العین حیدر کا ناول ’’ آگ کا دریا‘‘، منٹو کی کہانیاں ہوں یا سریندر پرکاش کے افسانے، ہر جگہ کشادہ قلبی، وسیع المشربی اور مذہبی رواداری کا جذبہ کارفرما دیکھا جا سکتا ہے۔

اس نکتے پر بھی ہماری توجہ ہونی چاہیے کہ اُردو زبان و ادب میں مذہبی رواداری کا یہ عمل یک طرفہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر اقبال’’ ہمارا وطن‘‘ نظم میں گرو نانک اور گوتم بدھ کی تقدیس کے ثنا خواں ہیں تو تلوک چند محرومؔ حضرت علیؓ کی زندگی کا ایک واقعہ‘‘ نظم کرتے ہیں۔ صفدر آہؔ نے ’’رام چرت مانس‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تو کنھیا لال شادؔ نے ’’ رسالہ علمِ تصوف‘‘ قلم بند فرمایا۔ جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی نے گیتا کا اردو ترجمہ منظوم کیا تو بشیشور پرشاد منوؔر نے کلام پاک کی آیات کے ترجمے کیے۔ محمد حسین آزادؔ نے بقائے دوام کے دربار میں رام چندر جی کو عظیم ترین مسند پر بٹھایا تو ہر گوپال تفتہؔ، کشن پرساد شادؔ، پیارے لال رونقؔ، دوارکا پرساد افقؔ اور مہاراج بہادر برقؔ وغیرہ نے شہدائے کربلا کی شان میں سلام لکھے اور مرثیے کہے۔ اگر حسن نظامی نے ’’قلمی چہرے ‘‘ میں کرشن جی کو شامل کیا تو مالک رام نے ’’ عورت اور اسلام‘‘ جیسا تحقیقی مقالہ رقم کیا۔ پیغمبرِاسلام حضرت محمدؐ کی شان میں نعتیں کہنے والے لا تعدادغیر مسلم شعراء گزرے ہیں جن میں لچھمی نرائن شفیقؔ، درگا سہائے سرورؔ جہان آبادی، راجندر بہادر موجؔ، سکھ دیو پرساد بسملؔ، لال چند فلکؔ، دتا تریہ کیفی، آنند نرائن ملّا، نریش کمار شادؔ، لبھّو رام جوشؔ ملسیانی، امر چند قیسؔ، دھرم پال گپتا وفاؔ، ہری چند اخترؔ، رگھوپتی سہائے فراقؔ، مہندر سنگھ بیدی سحرؔ، جگن ناتھ آزاد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ غیر مسلم شعراء کے چند نعتیہ اشعار بطورِ مثال پیش خدمت ہیں :

منشی روپ چند رقم طراز ہیں :

آیا جو نامِ پاکِ محمدؐ زبان پر

صلِّ علیٰ کا شور اٹھا آسمان پر

گوری پرسادہمدمؔ اکبر آبادی کو فخر ہے :

کیوں نہ ہو فخر، یہ توقیر ہے کیا کم ہمدمؔ

بخش دی نعت کی جاگیر نبیؐ نے مجھ کو

روشن لال نعیمؔ  لکھتے ہیں :

اے شیخ تجھی کو رہے فردوس مبارک

کافی ہے مجھے گوشۂ گلزار مدینہ

بال مکند عرشؔ ملسیانی نے نعت میں کیا خوبصورت مطلع کہا ہے :

حاملِ جلوۂ ازل، پیکرِ نورِ ذات تو

شانِ پیمبری سے ہے سرورِ کائنات تو

پنڈت ہری چند اختر فرماتے ہیں :

آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا

اک عربؐ نے آدمی کا بول بالا کر دیا

کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے کہا ہے :

سمٹ کر دو جہاں کی وسعتیں آئیں تخیل میں

تصور سرورِ لولاکؐ کا معلوم ہوتا ہے

اور جگن ناتھ آزادؔ محبوبِ کبریاؐ کی خدمت میں اپنا نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

سلام اس ذات اقدسؐ پر، سلام اس فخرِ دوراں پر

ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

پیش کردہ حقائق کی موجودگی میں کوئی بھی اُردو کی مذہبی رواداری پر شک نہیں کر سکتا۔

پروفیسر مسعود حسین نے گزشتہ صدی کے آٹھویں دہے میں کہا تھا:

’’ اردو ادب کے سامنے قومی یکجہتی کے پہلو بہ پہلو ایشیائی بلکہ عالمی یکجہتی انسانیت کے چوکھٹے میں متشکل ہو گی۔ یہ عالمی یکجہتی یقیناً جلوۂ صد رنگ سے عبارت ہو گی لیکن مخصوص تاریخی عوامل کے ذریعے ایسے عناصر پر زور  روز بہ روز بڑھتا جائے گا جو عالمی وحدت کی جانب رہبری کرتے ہیں۔ ‘‘ ( اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب۔ ص : ۱۲۶)

ادھر پچیس تیس برسوں میں سائنس نے جس تیز رفتاری کے ساتھ جتنی ترقی کی ہے اتنی شاید گزشتہ پانچ صدیوں میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ گھر گھر میں ٹیلی ویژن، ہر کس و ناکس کے کانوں سے چپکے ہوئے موبائل، تیسری چوتھی جماعت کے طلبہ کمپیوٹر شناس۔ ترقی یافتہ مواصلاتی نظام نے کبھی کی وسیع و عریض دنیا کو سمیٹ کر ایک عالمی گاؤں (Global Village) میں تبدیل کر دیا ہے۔

دوسری طرف اردو زبان کی حالت بھی اتنی نازک نہیں ہے کہ ہم ماتم کرنے بیٹھ جائیں۔ تقسیم ہند کے وقت جتنے اردو بولنے والے ہندوستان میں تھے آج اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ مشاعرے اس وقت سے زیادہ ہوتے ہیں اور سامعین بھی۔ ٹی وی پر مشاعرہ دیکھنے اور سننے والے تو بلا شبہ لاکھوں میں ہوتے ہیں، کتابیں زیادہ چھپتی ہیں نیز اخبارات اور رسالے بھی زیادہ شائع ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں اور ان کی رسائی بیرونی ممالک تک ہے۔ اس صورت حال کو فروغ دینے میں کمپیوٹر کا بڑا ہاتھ ہے۔ کتابت، طباعت اور اشاعت میں سائنسی ترقی نے ایسی سہولتیں فراہم کی ہیں جن کا آج سے نصف صدی قبل تصور بھی ناممکن تھا۔ انھیں وجوہ سے اردو میں غیر ملکی زبانوں سے تراجم اور سفر ناموں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً سو یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے تو ہیں ہی، دنیا کی تقریباً ہر بڑی یونیورسٹی میں اردو تعلیم کا بندوبست ہے۔ بر صغیر کے اردوداں آج دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ خلیجی ممالک میں تو اردو کم و بیش عوامی رابطے کی زبان ہو گئی ہے۔ برطانیہ کے سوا سو اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ اسٹیشنوں اور اسپتالوں میں اردو کے بورڈ آویزاں ہیں، کچھ علاقوں میں ووٹر لسٹیں اردو میں بھی چھپتی ہیں۔ ایشیا، آسٹریلیا، افریقہ، امریکہ، کناڈا اور بہت سے یوروپی ملکوں میں مشاعرے اور اردو کی ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ سات آٹھ ممالک کے مشاعروں میں شرکت کے مواقع مجھے بھی حاصل ہوئے اور ہر جگہ محسوس ہوا کہ لوگوں میں اردو زبان اور شعر و ادب سے دلچسپی برقرار ہے۔

عالم یہ ہے کہ ایک بار برلن میں مشاعرہ پڑھا اور دوسرے دن امریکہ سے دو اور خلیجی ممالک سے تین S.M.Sپر پسندیدگی کے پیغامات موصول ہوئے اردو والے بھی انٹر نیٹ پر دستیاب بلاگ، ای میل اور ویب سائٹ جیسی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہر چند کہ ابھی ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے لیکن جیسے جیسے شعور بڑھے گا، ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ اردو ادب کی مختلف اصناف میں انسان دوستی، ایثار پیشگی، خدا ترسی، مذہبی رواداری اور جمہوریت پسندی کی نمایاں خصوصیات موجود ہیں، اس کی بنیادی پہچان غزل ہے جس کی پہلو داری نے اسے زمان و مکاں کی قید سے آزاد کر دیا ہے اور اس کے شعر دنیا کے ہر علاقے، ہر زمانے اور ہر عقیدے کو ماننے والوں کے دل تسخیر کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی اثر پذیری میں مسلسل اضافہ ہو گا اور اردو زبان و ادب عالمی بھائی چارگی، انسان دوستی  اور بین الاقوامی یکجہتی کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں گے۔

( کلیدی خطبہ گورنمنٹ کالج مالیر کوٹلہ کے سمینار میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

ظریفانہ شاعری آزاد ہندوستان میں

 

آزادی سے قبل اردو کی ظریفانہ شاعری میں جعفر زٹلّی سے احمقؔ پھپھوندوی تک جو کہکشاں پھیلتی چلی گئی ہے، اس میں سوداؔ اور اکبرؔ الٰہ آبادی جیسے کئی تابندہ ستارے بھی موجود ہیں اور انشاءؔ سے اقبال تک ایسے وہ شاعر بھی، جن کی شاعری کا اصل مزاج تو ظریفانہ نہیں تھا لیکن حسبِ ضرورت انھوں نے بھی طنز و مزاح کے حربوں سے کام لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ کم و بیش تین سو برس پہلے جعفر زٹلّی نے ’ بھوت بڑھوا نامہ‘ اور ’’ کچھوا نامہ‘ جیسی مشہور مزاحیہ اور طنزیہ نظمیں لکھ کر اردو میں ظریفانہ شاعری کا آغاز کیا اور اپنے فن کو کلیتاً اسی رنگ سے آرارستہ کیا، ویسے محققین چاہیں تو اس دور کو کھینچ تان کر امیرخسرو کے زمانے تک طول دے سکتے ہیں جن کے یہاں چموساقن کی شان میں مزاحیہ اشعار بھی مل جاتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پیشتر اردو کی ظریفانہ شاعری کی روایت کا ہلکاسا اندازہ ان اشعار سے کیا جا سکتا ہے۔

جعفر زٹلی نے ایسا کیا

کہ مکھی کو مَل مَل کے بھینساکیا

سوداؔ فرماتے ہیں :

جس نے سجدہ کیا نہ آدم کو

شیخ کا پوجتا ہے بایاں پاؤں

انشاءؔ کا دعویٰ ہے :

کُودا ترے کوٹھے پہ کوئی دھم سے نہ ہو گا

جو کام ہوا ہم سے وہ رستم سے نہ ہو گا

اکبرؔ کے مشہور زمانہ اشعار ہیں :

ہم ایسی سب کتابیں لائق ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

اور …………

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

نیز اقبالؔ جیسے فلسفہ طراز شاعر کے یہاں اس قسم کی چیزیں بھی مل جاتی ہیں :

میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

………

یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستور محبت قائم تھا

یا بحث میں اردو ہندی ہے، یا قربانی اور جھٹکا ہے

بیسویں صدی کے نصف اوّل کو ہم اردو کی ظریفانہ شاعری کا عہدِ زرّیں کہہ سکتے ہیں۔ اس دور تک پہنچتے پہنچتے اکبرؔ الٰہ آبادی نے طنز و مزاح کے وسیلے سے سیاسی شعور کو عام کر دیا تھا اور ملک میں حصول آزادی کے لیے عوامی جد و جہد میں تیزی آ چکی تھی۔ چنانچہ اعلیٰ اور با مقصد ظریفانہ شاعری کے لیے فضا بے حد سازگار تھی۔ اخباروں اور رسالوں میں ’ اودھ پنچ ‘کی روش پر  طنزیہ اور مزاحیہ کالموں کے توسط سے ظریفانہ شاعری کو نمایاں مقام حاصل ہو گیا تھا اور ظریف شاعر زہر خند اور قہقہوں کے تیر و تلوار سے آراستہ ہو کر جنگِ آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ اس دور میں عوام کی خستہ حالت کے دلچسپ مرقعے، ہندوستانیوں کی بے حسی پر طنز کے عمدہ نمونے اور برطانوی استبداد کے خلاف استہزائیہ اشعار بکثرت مل جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں طنز و مزاح نگار شعراء کی طویل فہرست میں ظفرؔ  علی خاں، محمد دین فوقؔ، ظریفؔ لکھنوی، احمقؔ پھپھوندوی، انجم مانپوری، شوکتؔ تھانوی، چراغ حسن حسرتؔ، مجید لاہوریؔ، حسین میر کاشمیری، خضر تمیمی، عاشق محمد غوری، اکبر لاہوری، نازش رضوی، ہری چند اختر، سید محمد جعفری، ظریفؔ جبل پوری، فرقت کاکوروی، ماچسؔ لکھنوی، عبد اللہ ناصرؔ، شوقؔ بہرائچی، ضمیر جعفری اور راجہ مہدی علی خاں کے نام امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی جوشؔ ملسیانی، جوشؔ ملیح آبادی اور شادؔعارفی جیسے بلند قامت سنجیدہ شاعروں نے بھی خالص طنز کے شاہکار ادب پارے اسی دور میں تخلیق کیے۔ بحیثیت مجموعی ظریفانہ شاعری میں اس عہد کو نظموں سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ظریفؔ لکھنوی کی ’میونسپل الیکشن‘ اور ’ مشاعرہ‘، چراغ حسن حسرتؔ کی ’اتحاد پارٹی، اور چنا جور گرم‘، مجید لاہوری کی ’منکہ ایک منسٹر ہوں، اور ’ گداگری‘، حسینؔ  میر کاشمیری کی ’ لیڈر کی فریاد، اور ’انقلابِ آسمان‘، خضر تمیمی کی ’ ہاتھ کی روانی‘ اور ’ کال کا سماں ‘، عاشق محمد غوری کی ’ سلمیٰ‘ اور ’ کتا‘، اکبرؔ لاہوری کی ’ اپنا اپنا قاتل‘، سید محمد جعفری کی ’ وزیروں کی نماز‘، ’بھنگیوں کی ہڑتال ‘اور ’کلرک نامہ‘، ظریفؔ  جبلپوری کی ’ لکھنؤ کا شاعر‘، ضمیرؔ جعفری کی ’ وبائے الاٹمنٹ‘، فرقتؔ کاکوروی کی ’ بنگال کی رقاصہ‘، راجہ مہدی علی خاں کی ’ ایک چہلم پر‘ اور ’اس سے اور اس سے ‘ وغیرہ منظومات کو ظریفانہ شاعری کے ہر اچھے انتخاب میں جگہ دی جائے گی۔ سنجیدہ شعراء میں سے بطور خاص جوشؔ  ملیح آبادی کی ’مہاجن، اور ’ جشنِ آزادی‘ اور شادؔ عارفی کی ’ساس بہو‘ اور ’ اونچے اونچے محلوں میں ‘ طنزیہ ادب کی شاہکار تخلیقات تصور کی جاتی ہیں۔ اس دور کی ظریفانہ غزلوں کے چند اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں :

سب دیکھ کے کہتے ہیں داڑھی کو تِری واعظ

وہ قصر تقدس کا چھجّہ نظر آتا ہے

………

زر کمانا ہو تو پڑھ لکھ کے پلیڈر بن جاؤ

جب وکالت نہ چلے قوم کے لیڈر بن جاؤ

………

دلیلِ کمسنی اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی

کہ جوڑا پاؤں میں اس شوخ کے بچکانہ آتا ہے

(ظریفؔ لکھنوی)

مردہ ووٹر بھی ہو گئے زندہ

حشر سے کم نہیں الیکشن بھی

( انجمؔ مانپوری)

ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

(شوکت تھانوی)

ظالم نے میرے رونے پہ ہو ہو کے بد حواس

کچھ ایسا منھ بنایا کہ ہنسنا پڑا مجھے

(فرقتؔ کاکوروی)

یہ کون آ کے تصور میں پاس بیٹھ گیا

خدا کی مار ہو انگلی کچل گئی میری

 

دارِ فانی سے جب شوقؔ اٹھ جائے گا

تب مسیحا کے گھر سے دوا آئے گی

(شوقؔ بہرائچی)

وہ دل میں گھس رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے

کہ سنگا پور میں جاپان داخل ہوتا جاتا ہے

………

میرے بالوں سے وہ الجھتے ہیں

ان کی زلفوں میں پھنس گیا ہوں میں

(ظریفؔ جبل پوری)

آج کل پردہ کوئی کرتا نہیں تیرے سوا

چھوڑنے والی ہیں اب امی بھی پردہ اے خدا

(راجہ مہدی علی خاں )

ایسے وعدے سے تو اچھا تھا کہیں انکارِ وصل

دو مہینے ہو گئے ظالم کو  ٹرخاتے ہوئے

………

وہ اِک روٹی جو ہم کو برہمن مشکل سے دیتا ہے

ہزاروں بُت ہوا کرتے ہیں اس کے دانے دانے میں

( احمق پھپھوندی)

کیونکر اس کی نگہ ناز سے جینا ہو گا

زہر دے اس پہ یہ تاکید کہ پینا ہو گا

(ظفرؔ علی خاں )

نوٹ ہاتھوں میں وہ رشوت کے لیے پھرتے ہیں

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

(مجیدؔ لاہوری)

بی اے پاس کیا ہے تو جا

بیٹھ سڑک پر بھُٹّے بھون

(ماچسؔ لکھنوی)

زبردستوں سے جب پڑتا ہے پالا زیر دستوں کا

خطائیں ماننی پڑتی ہیں اپنی بے خطا ہو کر

(عبد اللہ ناصرؔ)

یہ غلط ہے کہ اس زمانے میں

مولوی ساز باز کیا جانے

(نازشؔ رضوی)

خدا ہی آبرو رکھے تو رکھے فوقؔ اس گھر کی

میاں ہو جس کا جاہل اور ہو اخبار خواں بی بی

(محمد دین فوقؔ)

پرتگالی کا میں دلدادہ نہیں اے ساقی

انڈیا میڈ اگر ہے تو دکھا کون سی ہے

(جوشؔ ملسیانی)

زمانے کو توپیں بھی دیں، مال و زر بھی

ہمیں تو نے ٹرخا دیا دینے والے

( ہری چند اخترؔ)

اس دور کے بیشتر شاعر آزادیِ ہند کے بعد بھی اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوئے اور سرحد کے دونوں جانب ظریفانہ شاعری میں انھیں کا ڈنکا بجتا رہا۔ آگے چل کر اس قافلے میں یوں تو درجنوں ظریف شعراء کا اضافہ ہوا لیکن ادبی وقار ہندوستان میں رضا نقوی واہیؔ اور پاکستان میں انجم رومانی کو ہی حاصل ہو سکا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد کے تیسرے اہم ظریف شاعر دلاورؔ فگار ہیں جو بعد ازاں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کر گئے۔ ان تینوں میں واہیؔ کا ادبی قد سب سے بلند ہے۔ موصوف کی ظریفانہ نظموں میں طنز کی گہری سیاسی اور سماجی معنویت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ خصوصاً ’’ ریل کا سفر‘، ’ نقاد‘، ’ شعرستان ‘ اور ہم عصر فنکاروں کے نام منظوم خطوط نے واہیؔ کو ظریفانہ شاعری کے دربار میں بقائے دوام عطا کی ہے۔ اسی طرح انجمؔ رومانی کی پیروڈی ( چھت کی گرم ٹین شاد باد= پاک سرزمین شاد باد) اور دلاورؔ فگار کی نظمیں ’ آداب عرض ہے ‘، ’ ’ سر مسئلہ‘ اور ’ آج کی تازہ خبر‘ کو بھی طنز و مزاح کے شعری سرمائے میں اضافہ سمجھا جاتا ہے۔

آزادی کے بعد کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو اس افسوس ناک حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مشاعروں میں مزاحیہ شاعروں کی بے پناہ مقبولیت نے ظریفانہ شاعری میں ابتذال، رکاکت اور سطحیت کو بہت عام کر دیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ظریف شاعر ایک بار پھر جعفر زٹلی کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں درجہ اوّل کے ادب پارے بہت کم منظر عام پر آتے ہیں۔ سرورؔ ڈانڈا اور سلیمان خطیب مرحوم نے دکنی لہجے کے استعمال سے مزاح کی پھلجھڑیاں روشن کیں اور ان کے بعد ظریف شعراء میں بیدھڑک اندوری، ہلالؔ سیوہاروی‘ استادؔ رام پوری، سجنیؔ لکھنوی‘ یوسف پاپا، گرگٹ گورکھپوری، دلکشؔ کھنڈوی، پاگلؔ عادل آبادی، اسرارؔ جامعی، ناظر خیامی، فیاضؔ افسوس، نظرؔ برنی، مسٹرؔ دہلوی، ساغرؔ خیامی، ساحر ادیبی، ناظم انصاری، بوگسؔ حیدر آبادی، مفلسؔ قارونی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ادب میں احکامات اور ہدایات جاری کرنے کی روش کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھی گئی، البتہ عہدِ حاضر کے ظریف شاعروں سے بصد ادب یہ درخواست کی جا سکتی ہے کہ مشاعرے کے علاوہ اگر وہ ادب کی لا فانی دنیا میں بھی اپنا مقام محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ظریفانہ اشعار میں اعلیٰ اقدار اور فنی معیارات کو بھی ملحوظ رکھیں کہ اس طرح ظریفانہ شاعری کی عاقبت بھی سدھر جائے گی اور ان کی بھی۔

(۱۹۸۱ء)

٭  ٭٭

 

 

 

 

 

اُردو میں دوہے

 

اردو شاعری کی قدیم کلاسیکی اصناف میں سے بیشتر وہ ہیں جو فارسی سے آئی ہیں، مثلاً قصیدہ، مثنوی، رُباعی۔ غزل، مرثیہ وغیرہ۔ ان کلاسیکی اصنافِ سخن میں اُردو نے مرثیے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی میں انھی اصولوں، معیاروں اور ضابطوں کی پیروی کی ہے جو فارسی میں مروّج تھے۔ مرثیے کو میں نے اس کلّیے سے یوں مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ فارسی کے بر عکس اُردو میں اس صنفِ سخن نے ہیئت اور مواد دونوں اعتبار سے تبدیلی، ترمیم اور اضافے کی منزلیں طے کی ہیں۔ یہ تمہید اس لیے اٹھائی گئی تاکہ واضح ہو جائے کہ اُردو میں مروّج اصناف میں اصل زبان کے قاعدے قانون کی پیروی کے ساتھ ساتھ ترمیم و اضافے کی اجتہادی شکلیں بھی ابتدا سے ہی نظر آتی ہیں۔

نسبتاً نئی اصنافِ سخن اردو والوں نے فارسی کے بر عکس دوسری زبانوں سے اخذ کی ہیں۔ مثلاً سانیٹ اُردو میں انگریزی سے آیا، جب کہ ترائیلے، ثلاثی اور ہائیکو اردو کو چینی اور جاپانی زبانوں کی دین ہیں۔ غیر ملکی زبانوں کے ساتھ ساتھ اُردو نے ہندوستان کی دوسری زبانوں سے بھی کچھ اصنافِ سخن مستعار لی ہیں اور ان کے بدلے میں ان زبانوں کو غزل اور اپنی دیگر اصناف سے استفادہ کی راہ دی ہے۔ مثلاً اردو میں کافی اور ماہیے پنجابی اور سندھی کے اثر سے آئے اور دوہا قدیم ہندی کے وسیلے سے منتقل ہوا، لیکن ان سبھی اصنافِ سخن میں اُردو والوں نے لکیر کا فقیر بننا پسند نہیں کیا بلکہ اپنے لسانی مزاج کی مطابقت سے تبدیلی و تغیر کو روا رکھا ہے اور اکثر مقامات پر اصل زبان میں رائج اصول و ضوابط سے اختلاف کیا ہے۔ جہاں ہم زبانوں کے منفرد اجتہادی حقوق کو تسلیم نہیں کرتے وہاں بڑی مضحکہ خیز صورتیں رونما ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے دنوں ایک محقق نے تحقیق کا پہاڑ کھود کر یہ چوہا برآمد کیا کہ اردو میں تصدق حسین خالد سے تا حال سانیٹ کے نام پر جو کچھ لکھا گیا ہے تکنیکی اعتبار سے اغلاط کا پشتارہ تھا اور لے دے کر محقق موصوف اور ان کے ایک ہم وطن نے ہی صحیح اور معیاری سانیٹ لکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے غلط نتائج پر منتج ہونے والی تحقیق در اصل اپنوں ہی میں لڈّو بانٹتی ہے ورنہ حقیقتاً سانیٹ کے سلسلے میں اُردو نے اپنے اس جائز اجتہادی اور تخلیقی حق کو استعمال کیا ہے جو مرثیے کے سلسلے میں روا سمجھا گیا تھا۔

یہاں اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ میں نے دوہے کو نئی اصنافِ سخن میں کیوں شمار کیا ہے اور ثبوت میں امیر خسروؔ کا یہ دوہا پیش کیا جا سکتا ہے :

گوری سوئے سیج پر، مُکھ پر ڈارے کیس

چل خسروؔ گھر آپنے، سانجھ بھئی چہو دیس

یا شیخ بو علی قلندر پانی پتی کا یہ مشہور دوہا:

سجن سکارے جائیں گے نین مریں گے روے

بدھنا ایسی کیبحیو، بھور کبھو نہ ہوے

بابا فرید، بو علی قلندر اور امیر خسروؔ کے دوہوں کی قدامت مسلّم اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ اُردو کی ابتدا کے ساتھ ہی صوفیائے کرام نے دوہوں سے استفادہ شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ اُردو نثر کی پہلی کتاب یعنی ملّا وجہی کی ’’ سب رس‘‘ میں متعدّد دوہے درج کیے گئے ہیں لیکن بہ حیثیت صنفِ سخن دوہا ہمارے یہاں کئی صدیوں تک کوئی مستحکم روایت نہیں بنا سکا حالانکہ امیر خسروؔ کے بعد بھی اُردو میں وقتاً فوقتاً رحمت اللہ بلگرامی، شاہ عالم ثانی، عبد الغفّار غفّار جیسے معروف اور غیر معروف شعرا دوہے بھی کہتے رہے۔ ہندوستان کی ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد اور ۱۹۴۷ء تک جن شعرا نے اُردو میں دوہے لکھے ان میں احمد علی خاں رونقؔ، الف شاہ وارثی، شائق وارثی، اوگھٹ شاہ وارثی، نجم آفندی، مضطر خیر آبادی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ بایں ہمہ اُردو ادب میں دوہے نے صنفِ سخن کی حیثیت سے اپنے لیے مستقل جگہ آزادیِ ہند کے بعد بنائی ہے اور اس پُر لطف حقیقت کا اعتراف بھی کرنا ہو گا کہ ہندوستان کی بہ نسبت پاکستان میں دوہے نے زیادہ برگ و بار نکالے ہیں جس کے اسباب پر غور کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ برِّ صغیر کی تقسیم کے بعد چونکہ ہندوستان کے اردو جاننے والے ہندی سے بھی جُڑے رہے اس لیے موجودہ جدّت پسند دَور میں اُردو کے ہندوستانی شعراء کے لیے دوہا زیادہ پُر کشش ثابت نہیں ہوا حالانکہ اِکّا دُکّا لکھنے والے یہاں بھی دوہا کہتے رہے۔ اس کے بر عکس پاکستانی شعرا کی اکثریت ہندی سے نا بلد تھی اس لیے وہاں دوہا اپنی تمام تر قدامت کے باوجود نسبتاً نئی صنفِ سخن سمجھا گیا اور متعدّد تخلیق کاروں نے اسے لائق اعتنا سمجھا چونکہ اس دور میں اچھے اور اہم شاعروں کی قابلِ لحاظ تعداد دوہے لکھنے پر مائل ہوئی اور معیاری جریدوں میں دوہے مسلسل شائع کیے جا رہے ہیں اسی لیے میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں دوہے کو نسبتاً نئی صنفِ سخن قرار دیا ہے۔

اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں زبان و ادب کے معاملے میں جغرافیائی سرحدوں کا قائل نہیں ہوں اس کے باوجود دوہے کے سلسلے میں گفتگو کے دوران میں نے ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کا الگ الگ ذکر کیا ہے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد ہندوستانی شعرا اُردو میں دوہے کے لیے اسی ہیئت کو مناسب و درست سمجھتے رہے جو قدیم ہندی میں رائج تھی لیکن اس دَور کے پاکستانی شعرا نے دوہے کی ہیئت میں کچھ ترمیم و اضافے سے بھی کام لیا ہے۔ اگر سخت گیر عروض داں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سرحد پار لکھے جانے والے بیشتر دوہے تکنیکی اور اصطلاحی معنوں میں دوہے نہیں کہے جا سکتے لیکن جیسا کہ میں نے گفتگو کے آغاز میں اشارہ کیا تھا اُردو نے اپنے ابتدائی دَور سے ہی تخلیق کاروں کو لسانی مزاج کی مطابقت سے اجتہادی رویّہ اختیار کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اس لیے ہم مرثیے، سانیٹ اور ہائیکو کی طرح دوہے میں بھی مناسب ترمیم و اضافے کر کے لچکیلی ہیئت اختیار کر سکتے ہیں۔ چونکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے جمیل الدین عالیؔ نے وہاں ایک بدلی ہوئی ہیئت میں دوہا کہنے کا آغاز کیا اور ان کے بعد آنے والی تخلیق کاروں کی ایک بڑی نسل نے انھیں کا اتباع کیا ہے اس لیے ان تخلیق کاروں کی روش پر انگشت نمائی کرنا میں مستحسن نہیں سمجھتا۔ مناسب ہو گا کہ اس موقع پر قدیم ہندی دوہے کی ہیئت بیان کر دی جائے۔

قدیم ہندی میں دوہے کا ہر مصرع چوبیس ماتراؤں پر مشتمل ہوتا ہے، غزل کے مطلع کی طرح دوہے میں دو مصرعے ہوتے ہیں اور ہر مصرع دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے، مصرعے کا پہلا حصہ جس میں تیرہ ماترائیں ہوتی ہیں، سم، اور دوسرا حصہ جس میں گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں، وِسم کہلاتا ہے۔ نیز ان دو حصوں کے درمیان لازماً وقفہ دینا ہوتا ہے۔ اُردو کے ہندوستانی شعرا نے عام طور پر اپنے دوہوں میں ان التزامات کی پابندی کی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ دوہے ملاحظہ فرمائیے :

تصوّر گوالیاری کا دوہا ہے :

پورا دیش کٹمب ہے، بھائی سب کو جان

بھارت ماں کے پتّر ہیں، سب جن ایک سمان

بیکلؔ اتساہی نے بھی بہت سے دوہے قدیم ہندی دوہے کی طرز پر لکھے ہیں موصوف کے دو دوہے بطور نمونہ ملاحظہ ہوں :

بیکلؔ جی کس فکر میں، بیٹھے ہو من مار

کاغذ کی اک اوٹ ہے، زنداں کی دیوار

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نشتر چاہے پھول سے، برف سے مانگے خون

دھوپ کھلائے چاند کو، اندھے کا قانون

وقار واثقی کے یہ دوہے بھی قابلِ سماعت ہیں کیونکہ ان میں ہم عصر زندگی کے نئے نئے پہلو جھلک مارتے ہیں :

گڈّی چڑھ کر گود میں، بات کرے تُتلائے

دفتر کی ساری تھکن، اک پل میں مٹ جائے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کل تک میری چال میں پڑ نہ سکاتھا جھول

منڈو ے تلے میں بیٹھ کر، آج بکی بے مول

اور دو دوہے راقم الحروف کے بھی پیش خدمت ہیں :

ایک ہاتھ میں پھول ہے، ایک ہاتھ میں تیر

میرے دل پر نقش ہے، ساجن کی تصویر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جانے پھر کب رات ہو، کب یاد آئیں آپ

جی کہتا ہے اور کچھ، پڑے رہو چپ چاپ

مندرجہ بالا شعرا کے علاوہ ہندوستان میں سرشارؔ بلند شہری، مہرؔ جائسی، بھگوان داس اعجازؔ، میکشؔ اکبر آبادی، منزلؔ لوہا ٹھہری، کرشن موہنؔ وغیرہ نے بھی اسی نوعیت کے دوہے کہے ہیں۔

پاکستان میں جو دوہا کہا جا رہا ہے ہندی پنگل کے اعتبار سے اسے سرسی چند کہا جا سکتا ہے۔ سر سی چھند میں بھی مطلعے کی طرح دو مصرعے ہوتے ہیں اور ہر مصرع دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے۔ پہلے حصے میں سولہ ماترائیں ہوتی ہیں اور دوسرا حصہ گیارہ ماتراؤں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان وقفہ لازمی ہے جسے اصطلاح میں وِشرام کہتے ہیں۔ دوہے میں سرسی چھند کے استعمال کی جدّت یا بدعت کا آغاز جمیل الدین عالیؔ سے ہوا لیکن چونکہ پاکستانی دوہا نگاروں کی ایک بڑی نسل نے ان کی تقلید میں اسی ہیئت کو اپنے دوہوں میں کامیابی کے ساتھ برتا ہے اس لیے انصاف کا تقاضہ ہے کہ پاکستانی دوہے میں سرسی چھند کے استعمال کو ایک ادبی اجتہاد کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ دیکھیے اس ہیئت میں سرحد پار کے تخلیق کاروں نے کیسی شگفتہ کاری اور ندرت کے مظاہرے کیے ہیں۔ جمیل الدین عالیؔ کہتے ہیں :

آلہا اودل گانے والے پیادے سے کترائیں

ہل کا بوجھ اٹھانے والے ڈنڈے سے دب جائیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بابو گیری کرتے ہو گئے، عالیؔ کو دو سال

مرجھا یا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اِک دوجے کا ہاتھ پکڑ لو اور آواز لگاؤ

اے اندھیارو سورج آیا سورج آیا جاؤ

پرتوؔ روہیلہ کے دوہوں کا مجموعۂ ’رین اجیارا‘ کئی سال پہلے منظرِ عام پر آیا تھا۔ عالیؔ کے بعدسب سے زیادہ دوہے انھیں نے کہے ہیں :

جیون ایک کنواں ہے جس میں گونجیں بس سنّاٹے

دُکھ کی ناگن اس میں لوٹے اس کی مٹی چاٹے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جیون ریل کا اندھا بابو، اندھیارے میں مارے

ٹھور ٹھکانا دیکھے ناہیں، رستے بیچ اُتارے

توقیرؔ چغتائی کے دو دوہے ملاحظہ ہوں :

تجھ سے پہلے من مندر میں، لوگ ہزاروں آئے

تیکھے نینوں والی تو نے، سب کے سب بِسرائے

تن کا دیپک جلتا جائے، من بھیتر اندھیارا

تن دیپک من باتی بن کے، بیتے جیون سارا

محمود علی ٹھاکر کے دو دوہے سماعت فرمائیں :

دھنونتوں کے عیب چھپائے، نردھن کو بہلائے

دمڑی سے چھوٹا ہو کر بھی، پیسہ ہی کہلائے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کنکوّا اور پریتم سکھیو! ناہیں کسی کے یار

ایک جرا انکھیاں جھپکیں تو، یار ندی کے پار

اِدھر کچھ لوگوں نے غالباً لا علمی کے تحت کچھ ایسی ہیئتیں بھی دوہے کے نام پر اختیار کر لی ہیں جن کا تعلق سرسی چھند سے بھی نہیں ہے اور یہ لوگ خود اپنی اختیار کردہ ہیئت کی پابندی اپنے ہی تمام دوہوں میں نہیں کر پاتے مثلاً رشید قیصرانی کے یہ دو دوہے ملاحظہ ہوں :

بند کیے ہیں آخر ہم نے خواب کواڑ جو کھولے تھے

بے پرچاند چکور بنے تھے، ہم بھی کتنے بھولے تھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

موج تھپیڑوں میں تن من کا ریزہ ریزہ صرف ہوا

تب جا کر وہ سوچ سمندر سمٹا اور اک حرف ہوا

اوراسی طرح حامد برگی نے بھی دوہوں کے لیے ایک خود ساختہ بحر منتخب کی ہے :

کن چہروں نے کن چہروں کی یاد دلائی

روپ کی برکھا سندر سپنے لے کر آئی

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سورج کا آکاش پہ پھیلا جال سنہرا

چاروں کھونٹ لگا ہے اجیارے کا پہرا

ان تخلیق کاروں کے علاوہ پاکستان میں تاجؔ سعید، نگار صہبائی، ناصر شہزاد، عرفانہ عزیز، ظہیر فتح پوری وغیرہ نے بھی دوہے کے سرمائے میں اضافہ کیا ہے۔

(۱۹۸۲ء)

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین ار ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید