FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

 

 

۶۔ سورۂ یوسف تا  النحل

 

                   مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

 

۱۲۔ یوسف

 

زمانۂ نزول و سببِ نزول

 

اس سورت کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کر دیں یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کر کے کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کر رہے تھے۔

 

مقاصد نزول

 

اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا: ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعے علم ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات ۳، ۷ میں صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے اور آیات ۱۰۲-۱۰۳ میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آ رہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ”

حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کر کے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کر دی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر کے دکھا دیا۔ اس سورت کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادرانِ یوسف کی طرح محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبوراً ان سے جان بچا کر مکہ نکلنا پڑا۔ پھر ان کی توقعات کے بالکل برخلاف آپ کو بھی جلا وطنی میں ویسا ہی عروج و اقتدار نصیب ہوا جیسا یوسف علیہ السلام کو ہوا تھا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایۂ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا۔ وہاں جب برادرانِ انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ "ہم پر صدقہ کیجیے، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے ” تو یوسف علیہ السلام نے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں معاف کر دیا اور فرمایا

"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب پر رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے "۔

اسی طرح یہاں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا "تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟” انہوں نے عرض کیا "آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں "۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ

"میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تمہیں معاف کیا”۔

 

مباحث و مسائل

 

یہ دو پہلو تو اس سورت میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کر کے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دے رہے ہیں۔ پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کر دار اور دوسری طرف برادرانِ یوسف، قافلۂ تجار، عزیز مصر، اس کی بیوی، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کر دار ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے اندازِ بیاں سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو، ایک نمونے کے کر دار تو وہ ہیں جو اسلام، یعنی خدا کی بندگی اور حسابِ آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں، اور دوسرے نمونے کے کر دار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل تیار ہوتے ہیں۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے۔ پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف کو اُس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الٰہی میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہو گا اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقیناً رسوا ہو گا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق و صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہو گی اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سر و سامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کر لیتے ہیں۔

 

تاریخی و جغرافیائی حالات

 

اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں : حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے ) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں میں سے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی بن یامین ایک بیوی سے اور باقی دس دوسری بیویوں سے تھے۔ فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون (موجودہ الخلیل) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب کی کچھ زمین سکم (موجودہ نابلوس) میں بھی تھی۔ بائبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف کی پیدائش ۱۹۰۶ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور ۱۸۹۰ قم کے زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصے کی ابتدا ہوتی ہے یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنویں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف کی عمر سترہ برس تھی۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دوتن (موجودہ دُثان) کے قریب واقع تھا اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (موجودہ اردن) سے آ رہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں ) مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چروا ہے بادشاہوں ( HIKSOS Kings ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جا کر ۲ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہو گئے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے "عمالیق” کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملاً بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔اسی دور کی طرف سورۂ مائدہ آیت ۲۰ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آ گیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹا دیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے۔ مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چروا ہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو "فرعون” کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گہ کہ مصر کے سب بادشاہ فراعنہ ہی تھے۔ موجودہ زمانے کے محققین جنہوں نے بائبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چروا ہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔ مصر کا دارالسلطنت اس زمانے میں ممفس (منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ۱۴ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام ۱۷،۱۸ سال کی عمر میں وہاں پہنچے۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے۔ آٹھ نو سال جیل میں گذارے۔ ۳۰ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوئے اور ۸۰ سال تک بلا شرکت غیرے مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کا جُشَن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیلات بائبل اور تلمود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے۔ مگر قصے کے اہم اجزا میں تینوں متفق ہیں۔

 

ترجمہ

 

ا، ل، ر۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدّعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔  ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن ۱ بنا کر عربی زبان میں تا کہ تم (اہلِ عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔۲ اے محمد ؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کر تے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے ) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ ۳ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسف ؑ نے اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سُورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘  جواب میں اس کے باپ نے کہا، ’’ بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، ۴ حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھُلا دشمن ہے اور ایسا ہی ہو گا(جیسا تُو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا ربّ تجھے ( اپنے کام کے لیے ) منتخب کرے گا ۵ اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا۶ اور تیرے اوپر اور آلِ یعقوب ؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا ربّ علیم اور حکیم ہے۔ ‘‘ ۷ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱-قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی میں ’’پڑھنا‘‘۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ’’بہادری‘‘ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ’’قرآن‘‘ (پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔

۲-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہلِ عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدّعا یہ کہنا ہے کہ ’’اے اہلِ عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کر سکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو میں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں‘‘۔

بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہلِ عرب کے لیے ہے، غیر اہلِ عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہو گی کہ پہلے وہ اُس قوم کو اپنی تعلیم سے پوری طرح متاثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔

۳-ہم سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالباً یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہُوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیداً یہ فقرہ ارشاد ہُوا ہے کہ اے محمد ؐ !تم ان واقعات سے بے خبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی ؐ سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن اُن مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔

۴-اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف ؑ سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کاروائی کرنے میں انہیں کوئی تامل ہو، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرما دیا کہ ان سے ہوشیار رہنا۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب ؑ، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف ؑ کی سوتیلی والدہ)اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں۔

۵- یعنی نبوّت عطا کرے گا۔

۶- ’’تَاویلُ الاَحَا دیثِ‘‘ کا مطلب محض تعبیرِ خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہ کو پا لینے کے قابل ہو جائے گا۔

۷-بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تَلمود کا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنّا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچّا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف ؑ کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہو۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہو سکتا ہے کہ ایسی بات پر بُرا مانے اور خواب دیکھنے والے کو اُلٹی ڈانٹ پلائے ؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے اُلٹا جل بھُن جائے ؟

 

ترجمہ

 

حقیقت یہ ہے کہ یُوسُف ؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ’’یہ یوسف ؑ اور اس کا بھائی،۸ دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔۹ چلو یُوسف ؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا۔‘‘ ۱۰اس پر ان میں سے ایک بولا ’’ یُوسف ؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اُسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔‘‘ اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا ’’ ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یُوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَر چُگ لے گا اور کھیل کُود سے بھی دِل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔‘‘ ۱۱باپ نے کہا ’’تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جب کہ تم اس سے غافل ہو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جب کہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے۔ ‘‘اِس طرح اسرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یُوسف کو وحی کی کہ ’’ایک وقت آئے گا جب تُو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں۔‘‘ ۱۲شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا ’’ ابّا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یُوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اُسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔‘‘ اور وہ یُوسف کی قمیص پر جھُوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ یہ سُن کر اُن کے باپ نے کہا ’’بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا،۱۳ جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ ‘‘ ۱۴اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو ( یُوسُف کو دیکھ کر) پکار اُٹھا ’’مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ ‘‘ ان لوگوں نے اُس کو مالِ تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اُس سے با خبر تھا۔آخرِ کار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا ۱۵ اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے اُمیدوار نہ تھے۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۸-اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے حقیقی بھائی بن یامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب ؑ ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف ؑ ہی ایسے تھے جن کے اندر اُن کو آثارِ رُشد و سعادت نظر آتے تھے۔ اوپر حضرت یوسف ؑ کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہو جاتا ہے۔ پھر کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادرانِ یوسف ؑ کے حسد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے اُلٹا الزام حضرت یوسف ؑ پر عائد ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے۔

۹-اس فقرے کی رُوح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے، پوتے، بھائی، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آ سکتے ہوں۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا، جو بُرے وقت پر اُن کے کام آ سکتا ہے، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آ سکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔

۱۰-یہ فقرہ اُن لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کے حوالے کر دینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کر کے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تُل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر، یہ ناگزیر گناہ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہُوا ہے، کر گزرنے دے، پھر ان شاء اللہ ہم توبہ کر کے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔

۱۱-یہ بیان بھی بائیبل اور تَلمود کے بیان سے مختلف ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ اپنے مویشی چَرانے کے لیے سِکّم کی طرف گئے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے خود حضرت یعقوب ؑ نے ان کی تلاش میں حضرت یوسف ؑ کو بھیجا تھا۔ مگر یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے یوسف ؑ کے ساتھ ان کے حسد کا حال جاننے کے باوجود انہیں آپ اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں بھیجا ہو۔ اس لیے قرآن کا بیان ہی زیادہ مناسب حال معلوم ہوتا ہے۔

۱۲-متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہم یوسف ؑ کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہو گا۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں۔

بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف ؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہو گا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا۔

۱۳-متن میں ’’صبر جمیل‘‘ کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ’’اچھا صبر‘‘ ہو سکتا ہے۔ اس سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو، فریاد نہ ہو، جَزَع نزع نہ ہو، ٹھنڈے دل سے اس مصیبت کو برداشت کیا جائے جو ایک عالی ظرف انسان پر آ پڑی ہو۔

۱۴-بائیبل اور تلمود یہاں حضرت یعقوب ؑ کے تاثر کا نقشہ بھی کچھ ایسا کھینچتی ہیں جو کسی معمولی باپ کے تاثر سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ’’تب یعقوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا‘‘۔ اور تلمود کا بیان ہے کہ ’’یعقوب بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا، پھر اٹھ کر بڑے زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیص ہے …………. اور وہ سالہا سال تک یوسف ؑ کا ماتم کرتا رہا‘‘۔ اس نقشے میں حضرت یعقوب ؑ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ہر باپ ایسے موقع پر کرے گا۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کر رہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیر معمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ بردبار و با وقار ہے، اتنی بڑی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا، اپنی فراست سے معاملہ کی ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بنا کر پیش کی ہے، اور پھر عالی ظرف انسانوں کی طرح صبر کرتا ہے اور خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔

۱۵-اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف ؑ حضرت یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آ کر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جا کر بیچ دیا۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف ؑ نے بعد میں اسما عیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف ؑ کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں۔ لیکن اس سے پہلے ہی مَدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف ؑ کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف ؑ کو فروخت کرا چکے ہیں۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں (ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷۔آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦)۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مَدین کے سوداگروں نے یوسف ؑ کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا۔ پھر برادران یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا۔ آخر کار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کر کے برادران یوسف ؑ کو راضی کیا۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف ؑ کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جا کر انہیں فروخت کیا۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو فروخت کیا تھا۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا۔

 

ترجمہ

 

مصر میں جس شخص نے اسے خریدا ۱۶ اُس نے اپنی بیوی ۱۷ سے کہا ’’اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ ‘‘ ۱۸ اس طرح ہم نے یُوسف کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صُورت نکالی اور اُسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔۱۹ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اور جب وہ اپنی پُوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا،۲۰ اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ’’آ جا۔‘‘ یُوسف نے کہا ’’خدا کی پناہ، میرے ربّ نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔ ‘‘ ۲۱وہ اُس کی طرف بڑھی اور یُوسف بھی اُس کی طرف بڑھتا اگر اپنے ربّ کی بُرہان نہ دیکھ لیتا۔۲۲ ایسا ہُوا، تاکہ ہم اُس سے بدی اور بے حیائی کو دُور کر دیں،۲۳ در حقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔آخرِ کار یُوسُف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اُس نے پیچھے سے یُوسُف کا قمیص (کھینچ کر ) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ’’کیا سزا اُس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیّت خراب کرے ؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے ؟‘‘ یُوسُف ؑ نے کہا ’’یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ‘‘ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی ۲۴ کہ ’’اگر یُوسُف ؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھُوٹا،اور اگر اِس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچا۔ ‘‘ ۲۵جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا ’’یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یُوسُف، اس معاملے سے درگزر کر، اور اے عورت، تُو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تُو ہی اصل میں خطا کار تھی۔ ‘‘ ۲۵الف ؏ ۳

 

تفسیر

 

۱۶-بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ’’عزیز‘‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف ؑ کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحبِ منصب تھا، کیونکہ ’’عزیز‘‘ کے معنی ایسے با اقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جا سکتی ہو۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلو داروں (باڈی گارڈ) کا افسر تھا، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا۔

۱۷-تلمود میں اس عورت کا نام زَلیخا (Zelicha) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بد چلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہو چکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدۂ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبیثٰتُ لِلخَبیثینَ وَالخَبیثُونَ للخَبیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔

۱۸-تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ۱۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شائد تم اسے کہیں سے چُرا لائے ہو۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنا دیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’اس نے اپنا سب کچھ یوسف ؑ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا‘‘۔ (پیدائش ۳۹ – ٦)

۱۹-حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنا لی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادۂ ابراہیمی کی خدا پرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس لے لیے جس واقفیت، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشو نما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنا دیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشو نما پا سکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔

۲۰-قرآن کی زبان میں اِن الفاظ سے مراد بالعموم ’’نبوت عطا کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘ کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ پس اللہ کی طرف سے کسی بندے کو حکم عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہُوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے معاملات میں فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی عطا کی اور اختیارات بھی تفویض فرمائے۔ رہا ’’علم‘‘ تو اس سے مراد وہ خاص علم حقیقت ہے جو انبیاء کو وحی کے ذریعہ سے براہِ راست دیا جاتا ہے۔

۲۱-عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ’’میرے رب‘‘ کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کر سکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ’’آقا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴۱، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنا رکھا ہے۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے رَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے۔

۲۲-برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف ؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اِس عورت کی دعوتِ عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور وہ دلیل تھی کیا؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جا چکا ہے، یعنی یہ کہ ’’میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہُوا کرتی۔‘‘ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّدنا یوسف ؑ کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ’’یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا‘‘ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑ جاتی ہے۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کر لی گئی ہے حتیٰ کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جذبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نا دانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے۔

۲۳-اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے الگ کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجۂ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الٰہی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیزگاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقۂ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذرا سی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ’’مہذب مصر‘‘ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ’’فائز‘‘ پا رہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کو ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جا رہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کر دیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کر کے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا۔

۲۴-اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آ رہا ہو گا اور اس نے یہ قضیہ سُن کر کہا ہو گا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جا سکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ موادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھڑے میں لیٹا ہُوا تھا اور خدا نے اسے گویائی عطا کر کے اس سے یہ شہادت دلوائی۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اُ س شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ محض ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہ کو پہنچ گیا۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو۔ (مفسّرین کے ہاں شیر خور بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو اقتباساتِ تَلمود از پال اسحاق ہرشون، لندن، سن ١۸۸۰۔ صفحہ ۲۵٦

۲۵-مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف ؑ کا قمیص سامنے سے پھٹا ہو تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اِقدام یوسف ؑ کی جانب سے تھا اور عورت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کش مکش کر رہی تھی۔ لیکن اگر یوسف ؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عورت اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور یوسف ؑ اس سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ قرینے کی ایک اور شہادت بھی اس شہادت میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ اُس شاہد نے توجہ صرف یوسف ؑ کے قمیص کی طرف دلائی۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ عورت کے جسم یا اس کے لباس پر تشدد کی کوئی علامت سرے سے پائی ہی نہ جاتی تھی، حالانکہ اگر یہ مقدمہ اقدامِ زنا بالجبر کا ہوتا تو عورت پر اس کے کھلے آثار پائے جاتے۔

۲۵ الف-بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے وہ ملاحظہ ہو،

’’تب اس عورت نے اُس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو وہ ایک عِبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو گھس آیا اور میں بلند آواز میں چلانے لگی۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی۔۔۔۔۔۔ جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سُن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا اور یوسف ؑ کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا (پیدائش ۳۹: ۲۰-۲١)‘‘

خلاصہ اس عجیب و غریب روایت کا یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور اُدھر وہ پورا لباس خودبخود اُتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا! پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ وہ لباس اس کے پاس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلے اور ان کا لباس (یعنی ان کے قصور کا ناقابلِ انکار ثبوت) اس عورت کے پاس ہی رہ گیا۔ اس کے بعد حضرت یوسف ؑ کے مجرم ہونے میں کون شک کر سکتا تھا۔

یہ تو بائیبل کی روایت رہی تلمود، تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف ؑ کو خوب پٹوایا، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف ؑ کے قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے، کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے۔ لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غور و تامل سے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے کر گیا ہو گا۔

یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی ہے اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں۔

 

ترجمہ

 

شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔ ‘‘اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی ۲۶ اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔ (پھر عین اُس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یُوسُف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پُکار اُٹھیں ’’ حاشالِلّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ ‘‘عزیز کی بیوی نے کہا ’’دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نِکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ ‘‘ ۲۷یُوسُف ؑ نے کہا ’’اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تُو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں ۲۸ گا‘‘۔۔۔۔ اس کے ربّ نے اس کی دُعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں،۲۹ بے شک وہی ہے جو سب کی سُنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مُدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی ) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ ۳۰ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۲۶-یعنی ایسی مجلس جس میں مہمانوں کے لیے تکیے لگے ہوئے تھے۔ مصر کے آثار قدیمہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کی مجلسوں میں تکیوں کا استعمال بہت ہوتا تھا۔

بائیبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے۔ قرآن کے بیان میں جو زندگی، جو روح، جو فطریّت اور جو اخلاقیت پائی جاتی ہے اس سے تلمود کا بیان بالکل خالی ہے۔

۲۷-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہو گا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ’’روشن زمانے ‘‘ میں پائی جا رہی ہے۔

۲۸-یہ آیات ہمارے سامنے اُن حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف ؑ مبتلا تھے۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے۔ غریبی، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی تدبیریں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ مَیلان پیدا ہو وہ فوراً اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آ جائے تو وہ گناہ کے اُن بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارتِ  فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حَسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جواب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہو گیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں۔

۲۹-دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الٰہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا۔

۳۰-اس طرح حضرت یوسف ؑ کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء و حکام کی اخلاقی شکست کا اِتمام و اعلان تھا۔ اب حضرت یوسف ؑ کوئی غیر معروف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے۔ سارے ملک میں، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دو نہیں، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں، اور جس کے فتنہ روزگار حُسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کر دیں، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا۔ یقیناً گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہو گا۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ ’’ جمہوریت‘‘ کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک ’’قانون‘‘ بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔

 

ترجمہ

 

قید خانہ میں ۳۱ دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ۳۲ ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔ ‘‘ دُوسرے نے کہا ’’ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں۔ ‘‘ دونوں نے کہا ’’ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔ ‘‘ ۳۳ یُوسُف ؑ نے کہا: ’’یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم اُن عُلوم میں سے ہے جو میرے ربّ نے مجھے عطا کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں،اپنے بزرگوں، ابراہیم ؑ، اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں۔ در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے ربّ (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دُوسرا تو اسے سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پُوچھ رہے تھے۔ ‘‘ ۳۴پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یُوسُف ؑ نے کہا کہ ’’ اپنے ربّ (شاہِ مصر) سے میرا ذکر کرنا۔ ‘‘ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے ربّ (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھُول گیا ور یُوسُف ؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا۔ ۳۵ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۳۱-غالباً اس وقت جب کہ حضرت یوسف ؑ قید کیے گئے ان کی عمر بیس اکیس سال سے زیادہ نہ ہو گی۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ قید خانے سے چھوٹ کر جب وہ مصر کے فرمانروا ہوئے تو ان کی عمر تیس سال تھی، اور قرآن کہتا ہے کہ قید خانے میں وہ بصنع سنین یعنی کئی سال رہے۔ بصنع کا اطلاق عربی زبان میں دس تک کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔

۳۲-یہ دو غلام جو قید خانہ میں حضرت یوسف ؑ کے ساتھ داخل ہوئے تھے ا ن کے متعلق بائیبل کی روایت ہے کہ ان میں سے ایک شاہِ مصر کے ساقیوں کا سردار تھا اور دوسرا شاہی نان بائیوں کا افسر۔ تلمود کا بیا ن ہے کہ ان دونوں کو شاہِ مصر نے اس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کِرکراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے ایک گلاس میں مکھی نکل آئی تھی!

۳۳-اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف ؑ کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دو قیدیوں نے آخر حضرت یوسف ؑ ہی سے آ کر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذرِ عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنینَ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پرہیز گاری کا ثبوت دے چکا ہے، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے، حتیٰ کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہل کار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ’’قید خانے کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف ؑ کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا‘‘۔ (پیدائش ۳۹:۲۳،۲۲)

۳۴-یہ تقریر جو اس پورے قصّے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے، بائیبل اور تلمود میں کہیں اِس کی طرف ادنیٰ اشارہ تک نہیں ہے۔ وہ حضرت یوسف ؑ کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ مگر قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت بہت زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ اپنا ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ کا کام انہوں نے قید خانہ ہی میں شروع کر دی تھا۔

یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ اس پر سے یونہی سرسری طور پر گزر جائیے۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے :

(۱) یہ پہلا موقع ہے جبکہ حضرت یوسف ؑ ہم کو دینِ حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی داستانِ حیات کے جو ابواب قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاقِ فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے۔ نبوت کا کام عملاً اِس قید خانے کے مرحلے میں ان کے سپرد کیا گیا ہے اور نبی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی تقریر دعوت ہے۔

(۲) یہ بھی پہلا موقع ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ ہر اُس حالت کو قبول کرتے رہے جو ان کو پیش آئی۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا، جب وہ مصر گئے، جب انہیں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا، جب انہیں جیل بھیجا گیا، ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم و اسحاق ؑ کا پوتا ہوں اور یعقوب کا بیٹا ہوں۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہ تھے۔ قافلے والے خواہ اہل مَدیَن ہوں یا اسماعیلی، دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہی تھے۔ اہل مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیم سے تو ناواقف نہ تھے۔ (بلکہ حضرت یوسف ؑ جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوب ؑ اور اسحاق ؑ کا ذکر کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر میں پہنچی ہوئی تھی)۔ لیکن حضرت یوسف ؑ نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہ کی جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران میں مبتلا ہوتے رہے۔ غالباً وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان کا ان حالات سے گزرنا ہی ضروری ہے۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت و تبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ میرا تعلق دعوتِ توحید کی اس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے ائمہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب ؑ ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعی حق کچھ اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھا کر تاکہ وہ ایک نئی بات پیش کر رہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی تھی، بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی و ابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ سے تمام اہل حق پیش کرتے رہے ہیں۔

(۳) پھر حضرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ اُن کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغِ حق کی دھُن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رُخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جسے دعوت کی دھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑ پن اور جھگڑالو پن سے انہیں اُلٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔

(۴) اس سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اُس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستوں سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بگیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیرکی طرح یہ بات اتر گئی ہو گی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آ جاؤ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں، ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی اَن داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

(۵) اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے قید خانے کی زندگی کے یہ آٹھ دس سال کس طرح گزارے ہوں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ ان کے ایک ہی وعظ کا ذکر ہے اس لیے انہوں نے صرف ایک ہی دفعہ دعوت دین کے لیے زبان کھولی تھی۔ مگر اول تو ایک پیغمبر کے متعلق یہ گمان کرنا ہی سخت بدگمانی ہے کہ وہ اپنے اصل کام سے غافل ہو گا۔ پھر جس شخص کی تبلیغی دھُن کا یہ حال تھا کہ دو آدمی تعبیر خواب پوچھتے ہیں اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دین کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے اُس کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس نے قید خانے کے یہ چند سال خاموش ہی گزار دیے ہوں گے۔

۳۵-اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ’’شیطان نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے رب(یعنی اللہ تعالیٰ) کی یاد سے غافل کر دیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب(یعنی شاہ مصر) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے ‘‘۔ درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے۔ صحیح یہی ہے، جیسا کہ علامہ ابن کثیر، اور متقدمین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے کہ فا نساہ الشیطان ذکر ربّہ کی ضمیر اس شخص کی طرف پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف ؑ کا گمان تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ’’شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف ؑ کا ذکر کرنا بھلا دیا‘‘۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے۔ ‘‘ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعاً روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں۔ اور بعض طریقوں سے یہ مُرسَلاً روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مُرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ علاوہ بریں روایت کے اعتبار سے بھی یہ بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہو گا۔

 

ترجمہ

 

ایک روز ۳۶ بادشاہ نے کہا ’’ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دُوسری سات سُوکھی۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔ ‘‘ ۳۷ لوگوں نے کہا ’’یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے۔ ‘‘اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مُدّتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اُس نے کہا ’’ میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یُوسُف ؑ کے پاس) بھیج دیجیے۔ ۳۸‘‘اُس نے جا کر کہا ’’ یُوسُف ؑ، اے سراپا راستی،۳۹ مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی۔ شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں۔ ‘‘ ۴۰یُوسُف ؑ نے کہا ’’سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانے میں وہ سب غلّہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کو فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے۔ ‘‘ ۴۱ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۳۶-بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف ؑ کے دنیوی عروج شروع ہوا۔

۳۷-بائیبل اور تلمود کا بیا ن ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہو گیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں، کاہنوں، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔

۳۸-قرآن نے یہاں اختصار سے کام لیا ہے۔ بائیبل اور تلمود سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے (اور قیاس بھی کہتا ہے کہ ضرور ایسا ہوا ہو گا) کہ سردار ساقی نے یوسف علیہ السلام کے حالات بادشاہ سے بیان کیے، اور جیل میں اس کے خواب اور اس کے ساتھی کے خواب کی جیسی صحیح تعبیر انہوں نے دی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میں ان سے اس کی تاویل پوچھ کر آتا ہوں، مجھے قید خانہ میں ان سے ملنے کی اجازت عطا کی جائے۔

۳۹-متن میں لفظ ’’صدیق‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کی جا سکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نے یوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت دراز گزر جانے کے بعد بھی کتنا راسخ تھا۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، جلد اول سورہ نساء، حاشیہ نمبر ۹۹

۴۰-یعنی آپ کی قدرو منزلت جان لیں اور ان کو احساس ہو کہ کس پائے کے آدمی کو انہوں نے کہا ں بند کر رکھا ہے، اس طرح مجھے اپنے اس وعدے کے ایفاء کا موقع مل جائے جو میں نے آپ سے قید کے زمانہ میں کیا تھا۔

۴۱-متن میں لفظ ’’یعصرون‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ’’نچوڑنے ‘‘ کے ہیں۔ اس سے مقصود یہاں سرسبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والا بیج اور رس دینے والا پھل اور میوے خوب پیدا ہوتے ہیں، اور مویشی بھی چارہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید بر آں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا۔

 

ترجمہ

 

بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف ؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ’’۴۲ اپنے ربّ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا یا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ میرا ربّ تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے۔ ‘‘ ۴۳

اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت ۴۴ کیا ’’ تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت کا جب تم نے یُوسُف ؑ کو رِجھانے کی کوشش کی تھی؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’حاشا لِلّٰہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔ ‘‘ عزیز کی بیوی بول اُٹھی ’’اب حق کھُل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھُسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے۔ ‘‘ ۴۵ (یُوسُف ؑ نے ۴۶ کہا) ’’اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔ اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ‘‘

بادشاہ نے کہا ’’ اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصُوص کر لوں۔ ‘‘ جب یُوسُف ؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔ ۴۷‘‘یُوسُف ؑ نے کہا ’’ملک کے خزانے میرے سپُرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ ‘‘ ۴۷ الف

اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ۴۸ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ۴۹ ؏۷

 

تفسیر

 

۴۲-یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہو گئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ’’بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا۔ وہاں زر و جواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سے ہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی‘‘۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے۔

۴۳-یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اُس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ میں کسی شبہہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے برسر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرواز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بد اطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا۔

اس مطالبے کو حضرت یوسف ؑ جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اُس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا۔

پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف ؑ عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں۔

۴۴-ممکن ہے کہ شاہی محل میں ان تمام خواتین کو جمع کر کے یہ شہادت لی گئی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ نے کسی معتمد خاص کو بھیج کر فرداً فرداً ان سے دریافت کرایا ہو۔

۴۵-اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہو گا، کس طرح حضرت یوسف ؑ کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکا یک پھر سطح پر آ گئی ہو گی، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہو گیا ہو گا۔ اوپر بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے تھے۔ اس کے بعد حضرت یوسف ؑ نے اس کا مطلب یہ بتایا۔ اس واقعہ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگاہیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہوں گی۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہو گا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہر بان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتاب ہو کر دوڑ نہیں پڑتا۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہو گا کہ یوسف ؑ نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہو گا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہو گا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے مل جُل کر کل اُسے جیل میں ڈالا تھا۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اُس وقت حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے ’’خزائنِ ارض میرے حوالہ کرو‘‘ اور بادشاہ کہہ دے ’’لیجیے، سب کچھ حاضر ہے ‘‘۔

۴۶-یہ بات غالباً یوسف ؑ نے اس وقت کہی ہو گی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبر دی گئی ہو گی۔ بعض مفسرین، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں، اس فقرے کو حضرت یوسف ؑ کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ’’اِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقینَ‘‘ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہو گئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف ؑ کی زبان سے ادا ہُوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہو کہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا، تو اس صورت میں لازماً کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جا سکے، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نظر آتا ہے ؟ یہاں تو شانِ کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف ؑ ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی۔ اس کلام میں جو نیک نفسی، جو عالی ظرفی، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہُوا نہیں ہو سکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُوءًا نکلا تھا، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبیٓ اَحسَنَ مَتوَایَ ط کہہ چکی تھی، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدعُو نَنی اِلَیہِ کہہ چکی تھی، جو اِلَّا تَصرِف عَنی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسفِ  صدیق کے بجائے امرأ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہو گئی تھی، اور افسوس ہے کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

۴۷-یہ بادشاہ کی طرف سے گویا کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جا سکتا ہے۔

۴۷ الف-اس سے پہلے جو توضیحات گزر چکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کر دی ہو۔ درحقیقت یہ اُس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشو نما پا کر ظہور کے لیے تیار ہو چکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹہوکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہو چکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ’’حفیظ‘‘ اور ’’علیم‘‘ ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لا چکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کر دی۔ ان کی زبان سے اس مطالبے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسر و چشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کے سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ’’خزائن ارض‘‘ کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہو گا۔ لیکن قرآن، بائیبل، اور تلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ ’’اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی‘‘ (رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالے کی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں (قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تعالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

’’سو تو میرے گھر کا مختار ہو گا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاؤں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا‘‘۔ (پیدائش ۴١:۳۹ – ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جا کر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

’’اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے ؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ’’کشاف‘‘ میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کر لیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے ‘‘۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے ؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جا کر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ’’بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ‘‘، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کر دے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداؤں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ’’فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ‘‘، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ’’فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں‘‘ تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دور انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کر سکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ) فوج اور اسلحہ اور سر و سامان کے بغیر بھی ملک فتح کر سکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کر لیتی ہے۔

۴۸-یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی۔ اُس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو۔ یہ گویا اُس کا مل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیا ن ہے جو حضرت یوسف ؑ کو اُس ملک پر حاصل تھا۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن زید کے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ’’ہم نے یوسف ؑ کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی، حتیٰ کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہو جائے تو یہ بھی کر سکتا تھا‘‘۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف ؑ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

۴۹-یہ تنبیہ ہے اس امر پر کہ کوئی شخص دنیوی حکومت و اقتدار کو نیکی و نکو کاری کا اصلی اجر اور حقیقی اجرِ مطلوب نہ سمجھ بیٹھے بلکہ خبردار رہے کہ بہترین اجر، اور وہ اجر جو مومن کو مطلوب ہونا چاہیے، وہ ہے جو اللہ تعالیٰ آخرت میں عطا فرمائے گا۔

 

ترجمہ

 

یُوسُف ؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔ ۵۰ اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے۔ ۵۱ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروایا تو چلتے وقت ان سے کہا ’’اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔  اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ ۵۲‘‘  انہوں نے کہا ’’ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔ ‘‘ یُوسُف ؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ’’ ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چُپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو۔ ‘‘ یہ یُوسُف ؑ نے اِس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہُوا مال پہچان جائیں گے ( یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے ) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں۔ جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’’ابا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلّہ لے کر آئیں۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ‘‘  باپ نے جواب دیا ’’ کیا میں اُس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘  پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی اُنہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پُکار اُٹھے ’’ ابا جان! اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رَسَد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ ‘‘  ا ن کے باپ نے کہا ’’ میں اس کو ہر گز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو گے کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ۔ ‘‘ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اُس نے کہا ’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے۔ ‘‘  پھر اُس نے کہا ’’ میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ ۵۳ مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اُسی پر کرے۔ ‘‘  اور واقعہ یہ بھی ہو ا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے ) داخل ہوئے تو اُس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آ سکی۔ ہاں بس یعقوب ؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دُور کرنے کے لیے اُس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحبِ علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔ ۵۴ ؏ ۸

 

تفسیر

 

۵۰-یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب ؑ کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف ؑ کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کر لیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ شام، فلسطین، شرق اردن، شمالی عرب، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت یوسف ؑ کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی افراط تھی۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف ؑ کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔ غالباً حضرت یوسف ؑ نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہو گی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہو گا۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف ؑ نے غیر ملک سے آ کر غلہ حاصل کرنا چاہا ہو گا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو گی اور اس طرح حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہو گی۔

۵۱-برادرانِ یوسف ؑ کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہو گا۔

۵۲-اختصار بیا ن کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف ؑ جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آ جاتی ہے۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدارِ غلہ ہی لے سکتا تھا۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے۔ اس پر حضرت یوسف ؑ نے کہا ہو گا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہو سکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے ؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہو گا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ تب حضرت یوسف ؑ نے فرمایا ہو گا کہ خیر، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنے احسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس صورت میں بائیبل کی اُس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ۴۲۔ ۴۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

۵۳-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف ؑ کے بعد ان کے بھائی کو بھیجتے وقت حضرت یعقوب ؑ کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہو گی۔ گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا۔ مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی۔ طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور وہ رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں اِسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔

یہ احتیاطی مشورہ کے مصر کے دارالسلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں، ان سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے جو اس وقت پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے۔ حضرت یعقوب ؑ کو اندیشہ ہُوا ہو گا کہ اس قحط کے زمانے میں اگر یہ لوگو ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انھیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں۔ پچھلی آیت میں حضرت یعقوب ؑ کا یہ ارشاد کہ ’’الّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشہور سیاسی اسباب کی بنا پر تھا۔

۵۴-اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکّل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب ؑ کے مذکورۂ بالا اقوال میں پاتے ہو یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر و تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پیلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھِر جانے کا موجب ہو۔ مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیشِ نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ کرنے سے نہیں روک سکتی اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کہ فضل پر ہونا چاہیے۔ یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کر سکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقتِ نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکّل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پرواہ ہو کر نرے توکّل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔

 

ترجمہ

 

یہ لوگ یُوسُف ؑ کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ ’’ میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا)۔ اب تُو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ ‘‘ ۵۵ جب یُوسُف ؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ ۵۶ پھر ایک پُکارنے والے نے پُکار کر کہا ’’اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو۔ ‘‘ ۵۷انہوں نے پلٹ کر پُوچھا ’’ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟‘‘ سرکاری ملازموں نے کہا ’’بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا‘‘ ( اور ان کے جمعدار نے کہا) ’’جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارِ شتر انعام ہے، اس کا ذمّہ میں لیتا ہوں۔ ‘‘ان بھائیوں نے کہا ’’خدا کی قسم، تم لوگ خُوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ‘‘اُنہوں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہاری بات جھُوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے ؟‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے یہ چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔ ‘‘ ۵۸ تب یُوسُف ؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز بر آمد کر لی۔۔۔۔ اِس طرح ہم نے یُوسُف ؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ ۵۹ اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین(یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ۶۰ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے۔ ان بھائیوں نے کہا ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یُوسُف ؑ ) بھی چوری کر چکا ہے۔ ‘‘ ۶۱ یُوسُف ؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرِ لب) اتنا کہہ کر رہ گیا کہ ’’ بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا ’’اے سردار ذی اقتدار (عزیز)۶۲، اس کا باپ بہت بُوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں۔ ‘‘یُوسُف ؑ نے کہا ’’پناہِ خدا، دُوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں، جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے ۶۳ اُس کو چھوڑ کر دُوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔ ‘‘ ؏ ۹

 

تفسیر

 

۵۵-اس فقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو اکیس بائیس برس کے بعد دونوں ماں جائے بھائیوں کے ملنے پر پیش آئی گئی ہو گی۔ حضرت یوسف ؑ نے بتایا ہو گا کہ وہ کن حالات سے گزرتے ہوئے اس مرتبے تک پہنچے۔ ین یمین نے سنایا ہو گا کہ ان کے پیچھے سوتیلے بھائیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا بد سلوکیاں کیں۔ پھر حضرت یوسف ؑ نے بھائی کو تسلی دی ہو گی کہ اب تم میرے پاس ہی رہو گے۔ ان ظالموں کے پنجے میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا۔ بعید نہیں کہ اسی موقع پر دونوں بھائیوں میں یہ بھی طے ہو گیا ہو کہ بن یمین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے کیا تدبیر کی جائے جس سے وہ پردہ میں پڑا رہے جو حضرت یوسف ؑ مصلحتہً ابھی ڈالے رکھنا چاہتے تھے۔

۵۶-پیالہ رکھنے کا فعل غالباً حضرت یوسف ؑ نے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے۔ حضرت یوسف ؑ اپنے مدتوں کے بچھڑے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے۔ بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہو گا۔ مگر اعلانیہ آپ کا اس کو روکنا اور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسف ؑ اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے۔ اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا۔ اس لیے دونوں بھائیوں میں مشورہ ہوا ہو گا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے۔ اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سُبکی تھی، کہ اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کر دیں۔

۵۷-اس آیت میں، اور بعد والی آیات میں بھی کہیں کوئی ایسا اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ۔ واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہو گا، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہو گا تو قیاس کیا ہو گا کہ ہو نہ ہو، یہ کام انہی قافلے والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔

۵۸-خیال رہے کہ یہ بھائی خاندان ابراہیمی کے افراد تھے، لہٰذا انھوں نے چوری کے معاملہ میں جو قانون بیان کیا وہ شریعت ابراہیمی کا قانون تھا، یعنی یہ کہ چور اس شخص کو غلامی میں دے دیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہو۔

۵۹-یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلۂ واقعات میں وہ کونسی تدبیر ہے جو حضرت یوسف ؑ کی تائید میں براہ راست خدا کی طرف سے کی گئی؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر تو حضرت یوسف ؑ نے خود کی تھی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسب معمول وہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کرتے ہیں۔ پھر وہ خاص خدائی تدبیر کونسی ہے ؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اِس کو سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلاف معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی، اور انھوں نے وہ سزا بتائی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک یہ کہ حضرت یوسف ؑ کو شریعت ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا۔ دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔

۶۰-یعنی یہ بات حضرت یوسف ؑ کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جا سکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانونِ تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیاراتِ حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بدنما غلطی میں، مبتلا ہو جانے دیتا۔ مگر اس نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقاً برادرانِ یوسف ؑ سے چوری کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعتِ ابراہیمی کا قانون بیان کر دیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسف ؑ مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہٰذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانونِ تعزیرات سے اِسی معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندیِ درجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے۔ ایسا بلند مرتبہ انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا ’’محسن‘‘ ہونا ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ اور اگرچہ حضرت یوسف ؑ صاحب علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔

یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے :

(۱) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ’’یوسف بادشاہ کے قانون کے رو سے اپن بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا۔ ‘‘ یعنی مَاکَانَ لیاٴخُذُ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں۔ لیکن اوّل یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے سے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ عربی میں عموماً مَاکَانَ لَہۛ بمعنی مَایَنُبَغیُ لَہۛ، مَاصَحَّ لَہۛ، مَا اسُتَقَامَ لَہۛ، وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلاً ما کان اللہُ لیضیعَ ایمانکم فما کان اللہ لیظلمَہم، ماکان اللہ لیذَرَ المومنینَ عَلی مَا انتم عَلَیہِ، ماکان لمومن اَن یقتُلَ مومنا۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں کو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہو جاتی ہے۔ بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑ سکنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟

(۲) اللہ تعالیٰ نے شاہی قانون کے لیے ’’دین الملک‘‘ کا لفظ استعمال کر کے خود اُس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ماکان لیاخُذُ سے لیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں ’’دین اللہ‘‘ جاری کرنے کے لیے مبعوث ہوا تھا نہ کہ ’’دین الملک‘‘ جاری کرنے کے لیے۔ اگر حالات کی مجبوری سے اس کی حکومت میں اس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہو سکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک ہر عمل کرے۔ لٰہذا حضرت یوسف کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کی دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعاً نامناسب تھی۔

(۳) قانون مُلکی (Law of the land) کے لیے لفظ ’’دین‘‘ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے معنیِ دین کی وسعت پوری طرح واضح کر دی ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کے تصورِ دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرا لینے تک محدود سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن، سیاست، معیشت، عدالت، قانون اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے، یا اگر ہے بھی تو ان امور کے بارے میں دین کی ہدایت محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہو جائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سراسر گمراہانہ تصور دین، جس کا ایک مدد سے مسلمانوں میں چرچا ہے، جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے، جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظامِ زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک بنی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پُرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہو گئے، اِس آیت کی رو سے قطعاً غلط ثابت ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالی صاف بتا رہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہٰذا اِنَّ الدینَ عِندَاللہِ الاِسلام اور وَمَن یَّبتَغِ غیرَالاِسلامِ دیناً فلن یُّقبلَ مِنہ وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز، روزہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہو سکتی۔

(۴) سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں ’’دین الملک‘‘ ہی جاری تھا۔ اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسف ؑ ہی تھے، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کر چکے ہو، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ، خدا کے پیغمبر، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں ’’دین الملک‘‘ جاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف ؑ نے ’’دین الملک‘‘ کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملاً ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا۔ آج اگر کوئی ملک بالکلیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدّن، نظامِ معاشی، نظام سیاست اور نظامِ عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے ؟ اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانونِ میراث جاری رہا، پرانے قوانینِ نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوعِ فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین و دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہو گئے۔ پس اگر حضرت یوسف ؑ کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف ؑ کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایانِ شان نہ تھا، تو یہ سوال بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہو جاتا ہے۔ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلام کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز۔ تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں۔ داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے۔

۶۱- یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔ پہلے کہ چکے تھے ہم چور نہیں ہیں۔ اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہو گیا ہے، تو فوراً ایک چھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الک کر لیا اور اس کے ساتھ اس کے پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان کے بھائیوں کا کیا سلوک رہا ہو گا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسف کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے۔

۶۲-یہاں لفظ ’’عزیز‘‘ حضرت یُوسف ؑ کے لیے جو استعمال ہوا ہے صرف اس کی بنا پر مفسرین نے قیاس کر لیا کہ حضرت یُوسف ؑ اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا۔ پھر اس پر مزید قیاسات کی عمارت کھڑی کر لی گئ کہ سابق عزیز مر گیا تھا، حضرت یُوسف ؑ اس کی جگہ مقرر کیے گئے، زلیخا از سر نو معجزے کے ذریعہ سے جوان کی گئی، اور شاہ مصر نے اس سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح کر دیا۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یُوسف ؑ اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں۔ لفظ ’’عزیز‘‘ کے متعلق ہم پہلے کہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض ’’صاحب اقتدار‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ غالباً مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحاً رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں ’’سرکار‘‘ بولا جاتا ہے۔ اسی کا رجمہ قرآن میں ’’عزیز‘‘ کیا گیا ہے۔ رہا زلیخا سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح، تو اس افسانے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے اُن کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا۔ یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچی اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قائدہ ہے، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئ اور بیوی لامحالہ زلیخا ہی رہی، لہٰذا اس سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا، اور اس طرح ’’یوسف زلیخا‘‘ کی تصنیف مکمل ہو گئ۔

۶۳-احتیاط ملاحظہ ہو کہ ’’چور‘‘ نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے۔ ‘‘ اسی کو اصطلاح شرع میں ’’توریہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی ’’حقیقت پر پردہ ڈالنا‘‘، یا ’’امر واقعہ کو چھپانا۔ ‘‘ جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظلمہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے، تو ایسی صورت میں ایک پرہیزگار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جا سکے۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے، بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرنا ہو۔ اب دیکھیے کہ اس سارے معاملے میں حضرت یوسف نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہا کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ۔ پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لائے تو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر تلاشی لے لی۔ پھر جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے تو اس کے جواب میں بھی بس اُنہی کی بات ان پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھ لیتے ہیں، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کی توریہ کی مثالیں خود بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں، اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقاً معیوب نہیں کہا جا سکتا۔

ترجمہ

 

جب وہ یُوسف ؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ’’تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں ؟ اور اِس سے پہلے یُوسُف ؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اپنے والد سے کہو کہ ’’ابا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے، ہم نے اُسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پُوچھ لیجیے جہاں ہم تھے۔ اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں۔ ‘‘باپ نے یہ داستان سُن کر کہا ’’ دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا۔ ۶۴ اچھا، اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اُس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں۔ ‘‘

پھر وہ اُن کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ’’ہائے یُوسُف !‘‘۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھُٹا جا رہا تھا اور اُس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں۔۔۔۔ بیٹوں نے کہا ’’خدارا! آپ تو بس یُوسُف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔ ‘‘اُ س نے کہا ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ میرے بچو، جا کر یُوسُف اور اُس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اُس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ ‘‘

جب یہ لوگ مصر جا کر یُوسُف ؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا ’’اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مُبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سی پُونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں ۶۵، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ ‘‘(یہ سُن کر یوسُف ؑ سے رہا نہ گیا) اُس نے کہا ’’ تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوُسف ؑ اور اُس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب کہ تم نادان تھے ؟‘‘ وہ چونک کر بولے ’’ہائیں! کیا تم یُوسُف ؑ ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ہاں، میں یوسُف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا۔ ‘‘انہوں نے کہا ’’بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطا کار تھے۔ ‘‘اس نے جواب دیا ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ۔ ‘‘ ؏ ١۰

 

تفسیر

 

۶۴-یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کر لینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا، جس کے حسنِ سیرت سے میں خوب واقف ہوں، ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ پہلے تمہارے لیے اپنے ایک بھائی کو جان بوجھ کر گم کر دینا اور اس کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آنا نہایت آسان کام ہو گیا تھا۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آ کر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہو گیا۔

۶۵-یعنی ہماری اس گزارش پر جو کچھ آپ دیں گے وہ گویا آپ کا صدقہ ہو گا۔ اس غلے کی قیمت میں جو پونجی ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بے شک اس لائق نہیں ہے کہ ہم کو اُس قدر غلہ دیا جائے جو ہماری ضرورت کو کافی ہو۔

جب یہ قافلہ (مصر سے ) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا ’’ میں یُوسُف ؑ کی خوشبو محسُوس کر رہا ہوں،۶۶ تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں۔ ‘‘گھر کے لوگ بولے ’’ خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ۶۷پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یُوسُف ؑ کا قمیص یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ’’میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ‘‘سب بول اُٹھے ’’ ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دُعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے۔ ‘‘اُس نے کہا ’’ میں اپنے ربّ سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کر دوں گا، وہ بڑا معاف فرمانے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘پھر جب یہ لوگ یُوسُف ؑ کے پاس پہنچے ۶۸ تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۶۹ اور (اپنے سب کنبے والوں سے کہا) ’’چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے۔ ‘‘

۶۶- اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسف ؑ کا قمیص لے کر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پا لیتے ہیں۔ مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا۔ حضرت یوسفؑ برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوبؑ کو ان کی خوشبو نہ آئی۔ مگر اب یکایک قوتِ ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہو گیا کہ ابھی قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہو گئی۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ایک طرف قرآن حضرت یوسف ؑ کو اِس پیغمبرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بدو ہو سکتا ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آ کر خبر دی کہ ’’یوسف ؑ اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوب ؑ کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسف ؑ نے ان کو لانے کے لیے بھیجی تھیں تب ان کی جان میں جان آئی۔ ‘‘ (پیدائش، ۲۷-۲۶:۴۵)

۶۷-اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے خاندان میں حضرت یوسف ؑ کے سوا کوئی اپنے باپ کا قدر شناس نہ تھا اور حضرت یعقوب ؑ خود بھی ان لوگوں کی ذہنی و اخلاقی پستی سے مایوس تھے۔ گھر کے چراغ کی روشنی باہر پھیل رہی تھی، مگر خود گھر والے اندھیرے میں تھے اور ان کی نگاہ میں وہ ایک ٹھیکرے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ فطرت کی اس ستم ظریفی سے تاریخ کی اکثر و بیشتر بڑی شخصیتوں کو سابقہ پیش آیا ہے۔

۶۸-بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے تھے ۶۷ تھے۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی اُن لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب ؑ کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں۔ اس وقت حضرت یعقوب ؑ کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ۱۷ سال زندہ رہے۔

اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کی بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف ؑ سمیت ان کی تعداد ۶۸ تھی۔ اس جب تقریباً ۵ سو سال کے بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائیبل کی روایت ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال بیابانِ سینا میں حضرت موسیٰ نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابلِ جنگ مردوں کی تعداد ۶۰۳۵۵۰ تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت، مرد، بچے، سب ملا کر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ۶۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہو سکتی ہے ؟ مصر کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے (جو یقیناً بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہو گا) تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ۱۰ فی صدی تھے۔ کیا ایک خاندان محض تناسُل کے ذریعہ سے اتنا بڑھ سکتا ہے ؟ اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے۔ ان کے لیڈر حضرت یوسفؑ، جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے، خود پیغمبر تھے۔ ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ رہا۔ اس دوران میں یقیناً انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہو گی۔ اہل مصر میں جو جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدّن اور پورا طریقِ زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہو گیا ہو گا۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھیرایا ہو گا جس طرح ہندوستان میں ہندوؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھیرایا۔ ان کے اوپر اسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کر دیا گیا ہو گا جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر ’’محمڈن‘‘ کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے۔ اور وہ خود بھی دینی و تہزیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے۔ اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا۔

ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’خروج‘‘ میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہُوا ہے، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ ’’ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی‘‘ (۳۸:۱۲)۔ اسی طرح ’’گنتی‘‘ میں وہ بھر کہتا ہے کہ ’’جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی‘‘ (۴:۱۱) پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے ’’اجنبی‘‘ اور ’’پردیسی‘‘ کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ چنانچہ توراۃ میں حضرت موسیٰ کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے :

’’تمہارے لیے اور اُس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہیں جیسے تم ہو۔ تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو‘‘ (گنتی، ۱۵:۱۵-۱۶)

’’جو شخص بے باک ہو کر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا‘‘ (گنتی ۳۰:۱۵)

’’خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا‘‘ (استثناء، ۱۶:۱)

اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الٰہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے ’’پردیسی‘‘ بنا کر رکھ دیا۔

۶۹-تلمود میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوبؑ کی آمد کی خبر دارالسلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسفؑ سلطنت کے بڑے بڑے امراء و اہل مناصب اور فوج فرّا کو لے کر ان کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان کو شہر میں لائے۔ وہ دن وہاں جشن کا دن تھا۔ عورت، مرد، بچے، سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

 

ترجمہ

 

(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھُک گئے۔ ۷۰ یُوسُف ؑ نے کہا ’’ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے ربّ نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ غیر محسُوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پُوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ اے میرے ربّ، تُو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تُو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ ‘‘ ۷۱اے محمد ؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یُوسُف ؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔ ۷۲حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ ۷۳ ؏ ١١

 

تفسیر

 

۷۰-اس لفظ ’’سجدہ‘‘ سے بکثرت لوگوں کو غلطی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ ایک گروہ نے تو اسی سے استدلال کر کے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدۂ تحیۃ اور سجدۂ تعظیمی کا جواز نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدۂ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جا سکتا تھا، البتہ شریعت محمدیؐ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ ’’سجدہ‘‘ کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا، یعنی ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قدیم تہزیب میں یہ عام طریقہ تھا(اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے ) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لا ستقبالہم من باب الخیمة و سجد الی الارض (تکوین: ۱۸-۳)۔ پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حِتّ نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اُردو بائیبل کے الفاظ یہ ہیں ’’ابرہام نے اُٹھ کر اور بنی حِتّ کے آگے، جو اس ملک کے لوگ ہیں، آداب بجا لا کر ان سے یوں گفتگو کی‘‘۔ اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کر دیا تب ’’ابرہام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا‘‘۔ مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجالانے اور جھکنے کے لیے ’’سجدہ کرنے ‘‘ ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں: فقام ابراھیم و سجد لشعب الارض لبنی حِت (تکوین: ۲۳-۷)۔ فسجد ابراھیم امام شعب الارض (۱۲:۲۳)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں:

Bowed himself toward the ground

Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed down himself before the people of the land.

اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ ’’سجدہ‘‘ سے سمجھا جاتا ہے۔

جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کے جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدۂ تحیۃ بجا لانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے، تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدۂ تعظیمی بجا لایا کریں تو مرد کی نے، جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا(آستر۱:۳-۲)۔ تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے :

’’بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے، ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو۔ کیا ایک فانی انسان، جو کل خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہو سکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے ؟ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا، کل بچہ تھا، آج جوان ہے، کل بوڑھا ہو گا اور پرسوں مر جائے گا؟ نہیں، میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ……….. وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا، اور کسی کی نہیں‘‘۔

یہ تقریر نزول قرآن سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اِس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی ’’سجدہ‘‘ کرنا جائز ہے۔

۷۱-یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں، ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہُوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہو کر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انہوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بہت پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی۔ یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الٰہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قید خانے میں سڑنے کے بجائے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونۂ سیرت !

حضرت یوسف ؑ کی اس قیمتی تقریر نے بھی بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں کی غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی ہیں، مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدر و قیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے۔

یہاں یہ قصہ ختم ہو رہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر متنبہ کر دینا ضروری ہے کہ قصۂ یوسف ؑ کے متعلق قرآن کی یہ روایت اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے، بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیں ہے۔ تینوں کتابوں کا متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد بیان کرتا ہے، بعض ان سے کم، اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلّم نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہو گا۔

۷۲-یعنی ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے۔ تمہاری نبوت کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کر کے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کر دیا، اب شاید تم متوقع ہو گے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہ رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے ہو بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے۔ مگر یقین جانو کہ یہ اب بھی نہ مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے نہیں ہیں، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے – مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جا رہی تھی، ایک نہایت لطیف و بلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی محفل میں آپ کو امتحان کے لیے بلایا تھا اور اچانک یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم نبی ہو تو بتاؤ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا قصہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کو وہیں اور اسی وقت پورا قصہ سنا دیا گیا، اور آخر میں یہ مختصر سا فقرہ کہہ کر آئینہ بھی ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ہٹ دھرمو! اس میں اپنی صورت دیکھ لو، تم کس منہ سے امتحان لینے بیٹھے تھے ؟ معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہو جائے تو اسے مان لیں، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی مان کر نہیں دیتے۔

۷۳-اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لطیف تر تنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو! غور کرو، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جا ہے۔ اگر پیغمبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے، تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے اور اس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے ؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو؟ کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو۔

 

ترجمہ

 

زمین ۷۴ اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔ ۷۵ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ ۷۶کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟۷۷تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’ میرا رستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے ۷۸ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ ‘‘اے محمد ؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر)تقویٰ کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے ؟۷۹ (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مُدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سُن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھُوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل ۸۰ اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ ؏ ١۲

 

تفسیر

 

۷۴-اوپر کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسفؑ کا قصہ ختم ہو گیا۔ اگر وحی الٰہی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ا ب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلایا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے، اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا۔

۷۵-اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کر نا ہے۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں وہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں۔ درخت کو درخت، اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے، اور اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے۔ مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اُس کا سراغ لگائے۔ اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھا لیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہو جاتا۔

۷۶-یہ فطری نتیجہ ہے اُس غفلت کا جس کی طرف اوپر کے فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جب لوگوں نے نشانِ راہ سے آنکھیں بند کیں تو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور اطراف کی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے۔ اس پر بھی کم انسان ایسے ہیں جو منزل کو بالکل ہی گم کر چکے ہوں اور جنھیں اِس بات سے قطعی انکار ہو کہ خدا ان کا خالق و رزاق ہے۔ بیشتر انسان جس گمراہی میں مبتلا ہیں وہ انکارِ خدا کی گمراہی نہیں بلکہ شرک کی گمراہی ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نہیں ہے، بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ خدا کی ذات اور اس کی صفات، اختیارات اور حقوق میں دوسرے بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ یہ غلط فہمی ہر گز نہ پیدا ہوتی اگر زمین و آسمان کی اُن نشانیوں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا جاتا جو ہر جگہ اور ہر آن خدائی کی وحدت کا پتہ دے رہی ہے۔

۷۷-اس سے مقصود لوگوں کو چونکا نا ہے کہ فرصتِ زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو۔ کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلتِ حیات فلاں وقت تک یقیناً باقی رہے گی۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہو جاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں وہ پکڑ بلایا جاتا ہے۔ تمہارا شب و روز کا تجربہ ہے کہ پردۂ مستقبل ایک لمحہ پہلے بھی خبر نہیں دیتا کہ اس کے اندر تمہارے لیے کیا چھپا ہوا ہے۔ لہٰذا کچھ فکر کرنی ہے تو ابھی کر لو۔ زندگی کی جس راہ پر چلے جا رہے ہو اس میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ٹھیر کر سوچ لو کہ یہ راستہ ٹھیک ہے ؟ اِس کے درست ہو نے کے لیے واقعی حجت موجود ہے ؟ اِس کے راہِ راست ہونے کی کوئی دلیل آثارِ کائنات سے مل رہی ہے ؟ اس پر چلنے کے جو نتائج تمہارے ابنائے نوع پہلے دیکھ چکے ہیں اور جو نتائج اب تمہارے تمدّن میں رونما ہو رہے ہیں وہ یہی تصدیق کر تے ہیں کہ تم ٹھیک جا رہے ہو؟

۷۸-یعنی اُن باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں۔ ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدہ کی بنا پر لازماً اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں۔ ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا قطعی نتیجہ ہے۔

۷۹-یہاں ایک بہت بڑے مضمون کو دو تین جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کو اگر کسی تفصیلی عبارت میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے : یہ لوگ تمہاری بات کی طرف اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ جو شخص کل ان کے شہر میں پیدا ہوا اور انہی کے درمیان بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوا اس کے متعلق یہ کیسے مان لیں کہ یکایک ایک روز خدا نے اُسے اپنا سفیر مقرر کر دیا۔ لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے جس سے آج دنیا میں پہلی مرتبہ انہی کو سابقہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے بھی خدا اپنے نبی بھیج چکا ہے اور وہ سب بھی انسان ہی تھے۔ پھر یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اچانک ایک اجنبی شخص کسی شہر میں نمودار ہو گیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ بلکہ جو لوگ بھی انسانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائے گئے وہ سب ان کی اپنی ہی بستیوں کے رہنے والے تھے۔ مسیح، موسیٰ، ابراہیم، نوح علیہم السلام، آخر کون تھے ؟ اب تم خود ہی دیکھ لو کہ جن قوموں نے ان لوگوں کی دعوتِ اصلاح کو قبول نہ کیا اور اپنے بے بنیاد تخیلات اور بے لگام خواہشات کے پیچھے چلتی رہیں ان کا انجام کیا ہوا۔ تم خود اپنے تجارتی سفروں میں عاد، ثمود، مدین اور قوم لوط وغیرہ کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے رہے ہو۔ کیا وہاں کوئی سبق تمہیں نہیں ملا؟ یہ انجام جو انہوں نے دنیا میں دیکھا، یہی تو خبر دے رہا ہے کہ عاقبت میں وہ اس سے بد تر انجام دیکھیں گے۔ اور یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کر لی وہ صرف دنیا ہی میں اچھے نہ رہے، آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ بہتر ہو گا‘‘۔

۸۰-یعنی ہر اُس چیز کی تفصیل جو انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔ بعض لوگ ’’ہر چیز کی تفصیل‘‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن میں جنگلات اور طب اور ریاضی اور دوسرے علوم و فنون کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی۔

٭٭٭

 

 

 

۱۳۔ الرعد

 

نام

 

آیت نمبر ۱۳ میں استعمال ہونے والے لفظ الرعد کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورت میں بادل کی گرج کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے یا جس میں رعد کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

رکوع چار اور رکوع چھ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورت بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۂ یونس، ہود اور اعراف نازل ہوئی ہیں، یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ انداز بیاں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدتِ دراز گزر چکی ہے۔ مخالفین آپ کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمنانِ حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرا اٹھو۔ پھر آیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آ جائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

سورت کا مدعا پہلی ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید و رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی فوائد سمجھائے گئے ہیں، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کام قصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ہے، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف، ترہیب، ترغیب اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگ اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آ جائیں۔ دوران تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کیے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو بھی، جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے، تسلی دی گئی ہے۔

 

ترجمہ

 

ا۔ ل۔ م۔ ر، یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں، اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے )اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔ ۱ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ۲، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا ۳، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ ۴ اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیے چل رہی ہے ۵ اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے ۶، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو۔ ۷اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیے ہیں۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں، اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ۸ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خِطّے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔ ۹ انگور کے باغ ہیں،کھیتیاں ہیں، کھجُور کے درخت ہیں جن میں کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ ۱۰ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ ۱۱اب اگر تمہیں تعجّب کرنا ہے تو تعجّب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سِروں سے پیدا کیے جائیں گے ؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے۔ ۱۲ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۳ یہ جہنّمی ہیں اور جہنّم میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ لوگ بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں ۱۴ حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پر چلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرت ناک مثالیں گزر چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا ربّ لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا ربّ سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ ’’ اِس شخص پر اِ س کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟‘‘ ۱۵۔۔۔۔ تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔ ۱۶ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱-یہ اس سورے کی تمہید ہے جس میں مقصودِ کلام کو چند لفظوں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ روئے سخن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے اور آپ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی، تمہاری قوم کے اکثر لوگ اس تعلیم کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ اِسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے اور یہی حق ہے خواہ لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل تقریر شروع ہو جاتی ہے جس میں منکرین کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تعلیم کیوں حق ہے اور اس کے بارے میں اُ ن کا رویہ کس قدر غلط ہے۔ اس تقریر کو سمجھنے کے لیے ابتدا ہی سے یہ پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُس وقت جس چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے وہ تین بنیادی باتوں پر مشتمل تھی۔ ایک یہ کہ خدائی پوری کی پوری اللہ کی ہے اس لیے اس کے سوا کوئی بندگی و عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تم کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ تیسرے یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور جو کچھ پیش کر رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے پیش کر رہا ہوں۔ یہی تین باتیں ہیں جنہیں ماننے سے لوگ انکار کر رہے تھے، اِنہی کو اس تقریر میں بار بار طریقے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور انہی کے متعلق لوگوں کے شبہات و اعتراضات کو رفع کیا گیا ہے۔

۲-بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرامِ  فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی۔

۳-اِس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۴۱۔ مختصراً یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنتِ کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں، اور نہ مختلف خداؤں کی آماجگاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کرنے والا خود چلا رہا ہے۔

۴-یہاں یہ امر ملحوظِ  خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جا رہے ہیں، اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ بلکہ ان واقعات کو، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانے کا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہو سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجودِ  باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو۔

۵-یعنی یہ نظام صرف اِسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے، بلکہ اس کے تمام اجزا ء اور اُن میں کام کرنے والی ساری قوتیں اِس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اُس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مِٹ جاتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح اِس نظام کے ایک ایک جُزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اِس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالمِ  طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہو گا۔ لہٰذا قیامت، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے۔

۶-یعنی اِس امر کی نشانیاں کہ رسولِ خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف اُن پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آ جائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات اُن کی تصدیق کر رہے ہیں۔

۷-اوپر جن آثارِ کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الٰہی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سُن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو اِنہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔

مذکورۂ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے :

ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرامِ فلکی پیدا کیے ہیں، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کُروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے، اُس کے لیے نوعِ انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پید ا کر دینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ اِسی نظامِ فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اِس کا پیدا کرنے والا کمال درجے کا حکیم ہے، اور اُس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعور صاحبِ  اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد، اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد، اس کے کارنامۂ زندگی کا حساب نہ لے، اُس کے ظالموں سے باز پرس اور اُس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے، اُ س کے نیکوکاروں کو جزا اور اُس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اُس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تو نے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خوابِ غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے۔

۸-اَجرامِ فلکی کے بعد عالمِ ارضی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور یہاں بھی خدا کی قدرت اور حکمت کے نشانات سے اُنہی دونوں حقیقتوں (توحید اور آخرت) پر استشہاد کیا گیا ہے جن پر پچھلی آیات میں عالمِ سماوی کے آثار سے استشہاد کیا گیا تھا۔ ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے :

(۱) اجرامِ فلکی کے ساتھ زمین کا تعلق، زمین کے ساتھ سورج اور چاند کا تعلق، زمین کی بے شمار مخلوقات کی ضرورتوں سے پہاڑوں اور دریاؤں کا تعلق، یہ ساری چیزیں اس بات پر کھلی شہادت دیتی ہیں کہ ان کو نہ تو الگ الگ خداؤں نے بنایا ہے اور نہ مختلف با اختیار خدا ان کا انتظام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ان سب چیزوں میں باہم اتنی مناسبتیں اور ہم آہنگیاں اور موافقتیں نہ پیدا ہو سکتی تھیں اور نہ مسلسل قائم رہ سکتی تھیں۔ الگ الگ خداؤں کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مل کر پوری کائنات کے لیے تخلیق و تدبیر کا ایسا منصوبہ بنا لیتے جس کی ہر چیز زمین سے لے کر آسمانوں تک ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتی چلی جائے اور کبھی ان کی مصلحتوں کے درمیان تصادم واقع نہ ہونے پائے۔

(۲) زمین کے اِس عظیم الشان کُرے کا فضائے بسیط میں معلق ہونا، اس کی سطح پر اتنے بڑے بڑے پہاڑوں کا اُبھر آنا، اس کے سینے پر ایسے ایسے زبر دست دریاؤں کا جاری ہونا، اِس کی گود میں طرح طرح کے بے حد و حساب درختوں کا پھلنا، اور پیہم انتہائی باقاعدگی کے ساتھ رات اور دن کے حیرت انگیز آثار کا طاری ہونا، یہ سب چیزیں اُ س خدا کی قدرت پر گواہ ہیں جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ ایسے قادرِ مطلق کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی عطا نہیں کر سکتا، عقل و دانش کی نہیں، حماقت و بلادت کی دلیل ہے۔

(۳) زمین کی ساخت میں، اُس پر پہاڑوں کی پیدائش میں، پہاڑوں سے دریاؤں کی روانی کا انتظام کرنے میں، پھلوں کی ہر قسم دو دو طرح کے پھل پیدا کرنے میں، اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات باقاعدگی کے ساتھ لانے میں جو بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں وہ پکار پکار کر شہادت دے رہی ہیں کہ جس خدا نے تخلیق کا یہ نقشہ بنایا ہے وہ کمال درجے کا حکیم ہے۔ یہ ساری چیزیں خبر دیتی ہیں کہ یہ نہ تو کسی بے ارادہ طاقت کی کار فرمائی ہے اور نہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا۔ ان میں سے ہر ہر چیز کے اندر ایک حکیم کی حکمت اور انتہائی بالغ حکمت کام کرتی نظر آتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد صرف ایک نادان ہی ہو سکتا ہے جو یہ گمان کرے کہ زمین پر انسان کو پیدا کر کے اور اُسے ایسی ہنگامہ آرائیوں کے مواقع دے کر وہ اس کو یونہی خاک میں گم کر دے گا۔

۹-یعنی ساری زمین کو اس نے یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار خطّے پید ا کر دیے ہیں جو متصل ہونے کے باوجود شکل میں، رنگ میں، مادّۂ ترکیب میں، خاصیتوں میں، قوتوں اور صلاحیتوں میں، پیداوار اور کیمیاوی یا معدنی خزانوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان مختلف خطّوں کی پیدائش اور ان کے اندر طرح طرح کے اختلافات کی موجودگی اپنے اندر اتنی حکمتیں اور مصلحتیں رکھتی ہے کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ دوسری مخلوقات سے قطعِ نظر، صرف ایک انسان ہی کے مفاد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف اغراض و مصالح اور زمین کے اِن خطّوں کی گوناگونی کے درمیان جو مناسبتیں اور مطابقتیں پائی جاتی ہیں، اور ان کی بدولت انسانی تمدن کو پھلنے پھولنے کے جو مواقع بہم پہنچے ہیں، وہ یقیناً کسی حکیم کی فکر اور اس کے سوچے سمجھے منصوبے اور اس کے دانشمندانہ ارادے کا نتیجہ ہیں۔ اسے محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے کے لیے بڑی ہٹ دھرمی درکار ہے۔

۱۰-کھجور کے درختوں میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑ سے ایک ہی تنا نکلتا ہے اور بعض میں ایک جڑ سے دو یا زیادہ تنے نکلتے ہیں۔

۱۱-اس آیت میں اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و حکمت کے نشانات دکھانے کے علاوہ ایک اور حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے اِس کائنات میں کہیں بھی یکسانی نہیں رکھی ہے۔ ایک ہی زمین ہے، مگر اس کے قطعے اپنے اپنے رنگوں، شکلوں اور خاصیتوں میں جدا ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی ہے مگر اس سے طرح طرح کے غلے اور پھل پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک ہی درخت اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل اور جسامت اور دوسری خصوصیات میں مختلف ہے۔ ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنی الگ انفرادی خصوصیات رکھتا ہے۔ ان باتوں پر جو شخص غور کرے گا وہ کبھی یہ دیکھ کر پریشان نہ ہو گا کہ انسانی طبائع اور میلانات اور مزاجوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر اسی سورۃ میں فرمایا گیا ہے، اگر اللہ چاہتا تو سب انسانو ں کو یکساں بنا سکتا تھا، مگر جس حکمت پر اللہ نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ یکسانی کی نہیں بلکہ تنوع اور رنگارنگی کی متقاضی ہے۔ سب کو یکساں بنا دینے کے بعد تو یہ سارا ہنگامۂ وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا۔

۱۲-یعنی ان کا آخرت سے انکار دراصل خدا سے اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہمارا مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا غیر ممکن ہے، بلکہ ان کے اسی قول میں یہ خیال بھی پوشیدہ ہے کہ معاذاللہ وہ خدا عاجز دور ماندہ اور نادان و بے خرد ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔

۱۳-گردن میں طوق پڑا ہونا قیدی ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت کے، اپنی ہٹ دھرمی کے، اپنی خواہشاتِ  نفس کے، اور اپنے آباء و  اجداد کی اندھی تقلید کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ یہ آزادانہ غور و فکر نہیں کر سکتے۔ اِنہیں اِن کے تعصبات نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ یہ آخرت کو نہیں مان سکتے اگرچہ اس کا ماننا سراسر معقول ہے، اور انکارِ آخرت پر جمے ہوئے ہیں اگرچہ وہ سراسر نا معقول ہے۔

۱۴- کفارِ  مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ اگر تم واقعی نبی ہو اور تم دیکھ رہے ہو کہ ہم نے تم کو جھٹلا دیا ہے تو اب آخر ہم پر وہ عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہم کو دھمکیاں دیتے ہو؟ اس کی آنے میں خواہ مخواہ دیر کیوں لگ رہی ہے ؟ کبھی وہ چیلنج کے انداز میں کہتے کہ رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ (خدایا ہمارا حساب تو ابھی کر دے، قیامت پر نہ اٹھا رکھ)۔ اور کبھی کہتے کہ اَلَّھُمّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِ کَ فَاَ مْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَ ۃً مِّنَ السَّمَآ ءِ اَوِأْ تِنَا بِعَذَ ابٍ اَلیمٍ۔ (خدایا اگر یہ باتیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں حق ہیں اور تیری ہی طرف سے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی دردناک عذاب نازل کر دے )۔ اس آیت میں کفار کی انہی باتوں کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ نادان خیر سے پہلے شر مانگتے ہیں، اللہ کی طرف سے ان کو سنبھلنے کے لیے جو مہلت دی جا رہی ہے اس سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مہلت کو جلدی ختم کر دیا جائے اور ان کی باغیانہ روش پر فوراً گرفت کر ڈالی جائے۔

۱۵-نشانی سے اُن کی مراد ایسی نشانی تھی جسے دیکھ کر اُن کو یقین آ جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ وہ آپؐ کی بات کو اس کی حقانیت کے دلائل سے سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ آپؐ کی سیرت پاک سے سبق لینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اُس زبردست اخلاقی انقلاب سے بھی کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو آپؐ کی تعلیم کے اثر سے آپؐ کے صحابہ کی زندگیوں میں رونما ہو رہا تھا۔ وہ اُن معقول دلائل پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کے مشرکانہ مذہب اور ان کے اوہامِ جاہلیت کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے قرآن میں پیش کیا جا رہے تھے۔ اِن سب چیزوں کو چھوڑ کر وہ چاہتے تھے کہ انہیں کوئی کرشمہ دکھایا جائے جس کے معیار پر وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو جانچ سکیں۔

۱۶-یہ اُن کے مطالبے کا مختصر سا جواب ہے جو براہِ راست اُن کو دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے آخر کون سا کرشمہ دکھایا جائے۔ تمہارا کام ہر ایک کو مطمئن کر دینا نہیں ہے۔ تمہارا کام تو صرف یہ ہے کہ خواب غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو چونکا دو اور اُن کو غلط روی کے بُرے انجام سے خبردار کرو۔ یہ خدمت ہم نے ہر زمانے میں، ہر قوم میں، ایک نہ ایک ہادی مقرر کر کے لی ہے۔ اب تم سے یہی خدمت لے رہے ہیں۔ اس کے بعد جس کا جی چاہے آنکھیں کھولے اور جس کا جی چاہے غفلت میں پڑا رہے۔ یہ مختصر جواب دے کر اللہ تعالیٰ اُن کے مطالبے کی طرف رُخ پھیر لیتا ہے اور اُن کو متنبہ کرتا ہے کہ تم کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہو جہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہو۔ تمہارا واسطہ ایک ایسے خدا سے ہے جو تم میں سے ایک ایک شخص کو اُس وقت سے جانتا ہے جب کہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بن رہے تھے، اور زندگی بھر تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے ہاں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ ٹھیٹھ عدل کے ساتھ تمہارے اوصاف کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اُس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔

 

ترجمہ

 

اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے۔ جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ با خبر رہتا ہے۔ ۱۷ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالِم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔  تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھُپا ہُوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں۔  ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ۱۸ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔ ۱۹وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور اُمیدیں بھی بندھتی ہیں۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اُس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے ۲۰ اور فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں۔ ۲۱ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات)اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔ ۲۲اسی کو پکارنا برحق ہے۔ ۲۳ رہیں وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ اُنہیں پُکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تُو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اُس تک پہنچے والا نہیں۔ بس اِسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے ۲۴ اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جھُکتے ہیں۔ ۲۵ السجدة ۲

 

تفسیر

 

۱۷-اس سے مراد یہ ہے کہ ماؤں کے رحم میں بچے کے اعضاء اُس کی قوتوں اور قابلیتوں، اور اُس کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں جو کچھ کمی یا زیادتی ہوتی ہے، اللہ کی براہِ راست نگرانی میں ہوتی ہے۔

۱۸-یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہر حال میں براہِ راست خود دیکھ رہا ہے اور اُ س کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، بلکہ مزید برآں اللہ کے مقرر کیے ہوئے نگرانِ کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور پُورے کارنامۂ زندگی کا ریکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایسے خدا کی خدائی میں جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں کہ انہیں شتر بے مہار کی طرح زمین پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی نہیں جس کے سامنے وہ اپنے نامۂ اعمال کے لیے جواب دہ ہوں، وہ دراصل اپنی شامت آپ بلاتے ہیں۔

۱۹-یعنی اس غلط فہمی میں بھی نہ رہو کہ اللہ کے ہاں کوئی پیر یا فقیر، یا کوئی اگلا پچھلا بزرگ، یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ ہی کرتے رہو، وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تمہیں تمہارے بُرے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا۔

۲۰-یعنی بادلوں کی گرج یہ ظاہر کرتی ہے کہ جس خدا نے یہ ہوائیں چلائیں، یہ بھاپیں اُٹھائیں، یہ کثیف بادل جمع کیے، اِس بجلی کو بارش کا ذریعہ بنایا اور اس طرح زمین کی مخلوقات کے لیے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا، وہ سبوح و قدوس ہے، اپنی حکمت اور قدرت میں کامل ہے، اپنی صفت میں بے عیب ہے، اور اپنی خدائی میں لاشریک ہے۔ جانوروں کی طرح سُننے والے تو ان بادلوں میں صرف گرج کی آواز ہی سُنتے ہیں۔ مگر جو ہوش کے کان رکھتے ہیں وہ بادلوں کی زبان سے توحید کا یہ اعلان سنتے ہیں۔

۲۱-فرشتوں کے جلال خداوندی سے لرزے اور تسبیح کر نے کا ذکر خصُوصیت کے ساتھ یہاں اس لیے کیا کہ مشرکین ہر زمانے میں فرشتوں کو دیوتا اور معبود قرار دیتے رہے ہیں اور اُن کا یہ گمان رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی خدائی میں شریک ہیں۔ اس غلط خیال کی تردید کے لیے فرمایا گیا کہ وہ اقتدارِ اعلیٰ میں خدا کے شریک نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار خادم ہیں اور اپنے آقا کے جلال سے کانپتے ہوئے اس کی تسبیح کر رہے ہیں۔

۲۲-یعنی اس کے پاس بے شمار حربے ہیں اور وہ جس وقت جس کے خلاف جس حربے سے چاہے ایسے طریقے سے کام لے سکتا ہے کہ چوٹ پڑنے سے ایک لمحہ پہلے بھی اسے خبر نہیں ہوتی کہ کدھر سے کب چوٹ پڑنے والی ہے۔ ایسی قادرِ مطلق ہستی کے بارے میں یوں بے سوچے سمجھے جو لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں انہیں کون عقلمند کہہ سکتا ہے ؟

۲۳-پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مد د کے لیے پکارنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی کے سارے اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں، اس لیے صرف اُسی سے دعائیں مانگنا بر حق ہے۔

۲۴-سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر مخلوق اِس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہے ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کر سکتی۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتا ہے، کیونکہ خدا کے قانون فطرت سے ہٹنا اُس کی مقدرت سے باہر ہے۔

۲۵-سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیاء کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی کے امر کی مطیع اور کسی کے قانون سے مسخر ہیں۔

 

ترجمہ

 

اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا ربّ کون ہے ؟۔۔۔۔ کہو، اللہ۔ ۲۶ پھر، اِن سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھہرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟۲۷ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟۲۸ اور اگر ایسا نہیں تو کیا اِن کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اُس کی وجہ سے اِن پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا؟۔۔۔۔ ۲۹ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے، سب پر غالب!۳۰ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اُٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے۔ ۳۱ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اُٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ ۳۲ اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنے ربّ کی دعوت قبول کر لی اُن کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی اور فراہم کر لیں تو وہ خُدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ ۳۳ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا ۳۴ اور اُن کا ٹھکانا جہنّم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانہ۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۲۶-واضح رہے کہ وہ لوگ خود اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان کا رب اللہ ہے۔ وہ اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں نہیں دے سکتے تھے، کیونکہ یہ انکار خود اُن کے اپنے عقیدے کے خلا ف تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پوچھنے پر وہ اقرار کی صورت میں بھی اس جواب دینے سے کتراتے تھے، کیونکہ اقرار کے بعد توحید کا ماننا لازم آ جاتا تھا اور شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد باقی نہیں رہتی تھی۔ اس لیے اپنے موقف کی کمزوری محسوس کر کے وہ اس سوال کے جواب میں چپ سادھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے کہ ان سے پوچھو زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ کائنات کا ربّ کون ہے ؟ تم کو رزق دینے والا کون ہے ؟ پھر حکم دیتا ہے کہ تم خود کہو کہ اللہ، اور اِس کے بعد یوں استدلال کرتا ہے کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو آخر یہ دوسرے کون ہیں جن کی تم بندگی کیے جا رہے ہو؟

۲۷-اندھے سے مراد وہ شخص ہے جس کے آگے کائنات میں ہر طرف اللہ کی وحدانیت کے آثار و شواہد پھیلے ہوئے ہیں مگر وہ اُن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔ اور آنکھوں والے سے مراد وہ ہے جس کے لیے کائنات کے ذرّے ذرّے اور پتّے پتّے میں معرفتِ کردگار کے دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے اندھو ! اگر تمہیں کچھ نہیں سوجھتا تو آخر چشم بینا رکھنے والا اپنی آنکھیں کیسے پھوڑے ؟ جو شخص حقیقت کو آشکار دیکھ رہا ہے اس کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ وہ تم بے بصیرت لوگوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے ؟

۲۸- روشنی سے مراد علمِ حق کی وہ روشنی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے متبعین کو حاصل تھی۔ اور تاریکیوں سے مراد جہالت کی وہ تاریکیاں ہیں جن میں منکرین بھٹک رہے تھے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس کو روشنی مل چکی ہے وہ کس طرح اپنی شمع بجھا کر اندھیروں میں ٹھوکریں کھانا قبول کر سکتا ہے ؟ تم اگر نُور کے قدر شناس نہیں ہو تو نہ سہی۔ لیکن جس نے اُسے پا لیا ہے، جو نُور و ظلمت کے فرق کو جان چکا ہے، جو دن کے اجالے میں سیدھا راستہ صاف دیکھ رہا ہے، وہ روشنی کو چھوڑ کر تاریکیوں میں بھٹکتے پھرنے کے لیے کیسے آمادہ ہو سکتا ہے ؟

۲۹- اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے پید ا کی ہوتیں اور کچھ دوسروں نے، اور یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا کہ خدا کا تخلیقی کام کونسا ہے اور دوسروں کا کونسا، تب تو واقعی شرک کے لیے کوئی معقول بنیاد ہو سکتی تھی۔ لیکن جب یہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ ان کے معبودوں میں سے کسی نے ایک تنکا اور ایک بال تک پیدا نہیں کیا ہے، اور جب انہیں خود تسلیم ہے کہ خلق میں ان جعلی خداؤں کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے، تو پھر یہ جعلی معبود خالق کے اختیارات اور اس کے حقوق میں آخر کس بنا پر شریک ٹھیرا لیے گئے ؟

۳۰-اصل میں لفظ قھّار استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’وہ ہستی جو اپنے زور سے سب پر حکم چلائے اور سب کو مغلوب کر کے رکھے ‘‘۔ یہ بات کہ ’’اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے ‘‘، مشرکین کی اپنی تسلیم کردہ حقیقت ہے جس سے انہیں کبھی انکار نہ تھا۔ اور یہ بات کہ ’’وہ یکتا اور قہار ہے ‘‘ اس تسلیم شدہ حقیقت کا لازمی نتیجہ ہے جس سے انکار کرنا، پہلی حقیقت کو مان لینے کے بعد، کسی صاحب عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس لیے کہ جو ہر چیز کا خالق ہے، وہ لامحالہ یکتا و یگانہ ہے، کیونکہ دوسری جو چیز بھی ہے وہ اسی کی مخلوق ہے، پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مخلو ق اپنے خالق کی ذات، یا صفات، یا اختیارات، یا حقوق میں اس کی شریک ہو؟ اسی طرح وہ لامحالہ قہّار بھی ہے، کیونکہ مخلوق کا اپنے خالق سے مغلوب ہو کر رہنا عین تصوّرِ مخلوقیت میں شامل ہے۔ غلبۂ کامل اگر خالق کو حاصل نہ ہو تو وہ خلق ہی کیسے کر سکتا ہے۔ پس جو شخص اللہ کو خالق مانتا ہے اس کے لیے ان دو خالص عقلی و منطقی نتیجوں سے انکار کرنا ممکن نہیں رہتا، اور اس کے بعد یہ بات سراسر غیر معقول ٹھیرتی ہے کہ کوئی شخص خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کرے اور غالب کو چھوڑ کر مغلوب کو مشکل کشائی کے لیے پکارے۔

۳۱- اس تمثیل میں اُ س علم کو جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کے ذریعے سے نازل کیا گیا تھا، آسمانی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور ایمان لانے والے سلیم الفطرت لوگوں کو ان ندی نالوں کے مانند ٹھیرایا گیا ہے جو اپنے اپنے ظرف کے مطابق بارانِ رحمت سے بھر پور ہو کر رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ اور اُس ہنگامہ و شورش کو جو تحریکِ اسلامی کے خلاف منکرین و مخالفین نے برپا کر رکھی تھی اُس جھاگ اور اُس خس و خاشاک سے تشبیہ دی گئی ہے جو ہمیشہ سیلاب کے اُٹھتے ہی سطح پر اپنی اچھل کود دکھانی شروع کر دیتا ہے۔

۳۲-یعنی بھٹی جس کام کے لیے گرم کی جاتی ہے وہ تو ہے خالص دھات کو تپا کر کارآمد بنانا۔ مگر یہ کام جب بھی کیا جاتا ہے میل کچیل ضرور ابھر آتا ہے اور اس شان سے چرخ کھاتا ہے کہ کچھ دیر تک سطح پر بس وہی وہ نظر آتا رہتا ہے۔

ٍ۳۳-یعنی اُس وقت ان پر ایسی مصیبت پڑے گی کہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے دنیا و مافیہا کی دولت دے ڈالنے میں بھی تامل نہ کریں گے۔

۳۴-بُری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی سے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی کسی خطا اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے، کوئی قصور جو اس نے کیا ہو مؤاخذے کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کا محاسبہ اپنے اُن بندوں سے کرے گا جو اُس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے اور اس کی مطیع فرمان بن کر رہے ہیں ان سے ’’حسابِ یسیر‘‘ یعنی ہلکا حساب لیا جائے گا، اُ ن کی خدمات کے مقابلے میں ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور اُن کے مجموعی طرزِ عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر اُن کی بہت سی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے گا۔ اس کی مزید توضیح اُس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے ابوداؤد میں مروی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے نزدیک کتاب اللہ سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓ ءً یُّجْزَ بِہٖ۔ ’’جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا‘‘۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا، عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع فرمان بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اُس کو چبھتا ہے، تو اللہ اُسے اُس کے کسی نہ کسی قصور کی سزا قرار دے کر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کر دیتا ہے ؟ آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہو گا وہ سزا پا کر رہے گا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا، پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ فَاَمَّا مَنْ اُوْ تی کِتَابَہٗ بیمینِہٖ فَسَوْ فَ یُحَا سَبُ حِسَابًا یَّسیرًا؟ ’’جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا‘‘۔ حضورؐ نے جواب دیا، اس سے مراد ہے پیشی (یعنی اس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے ضرر پیش ہوں گی) مگر جس سے باز پرس ہوئی تو وہ بس سمجھ لو کہ مارا گیا۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص اپنے وفادار اور فرمانبردار ملازم کو چھوٹی چھوٹی خطاؤں پر کبھی سخت گرفت نہیں کرتا بلکہ اس کے بڑے بڑے قصوروں کو بھی اس کی خدمات کے پیشِ نظر معاف کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کسی ملازم کی غداری و خیانت ثابت ہو جائے تو اس کی کوئی خدمت قابل لحاظ نہیں رہتی اور اس کے چھوٹے بڑے سب قصور شمار میں آ جاتے ہیں۔

 

ترجمہ

 

بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے ربّ کی اِس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟۳۵ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ ۳۶ اور ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ۳۷ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے ۳۸ انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بُری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں ۳۹، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ ۴۰ آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے،  ’’تم اپنے طرزِ  عمل کو لوگوں کے طرزِ عمل کا تابع بنا کر نہ رکھو۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اگر لوگ بھلائی کریں گے تو ہم بھلائی کریں گے اور لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے۔ تم اپنے نفس کو ایک قاعدے کا پابند بناؤ۔ اگر لوگ نیکی کریں تو نیکی کرو۔ اور اگر لوگ تم سے بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ ‘‘یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، ۴۱ تم نے دُنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِ س کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔۔۔۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ ۴۲ یہ لوگ دُنیوی زندگی میں مگن ہیں، حالانکہ دُنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ؏۳

 

تفسیر

 

۳۵-یعنی نہ دنیا میں ان دونوں کا رویّہ یکساں ہو سکتا ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام یکساں۔

۳۶-یعنی خدا کی بھیجی ہوئی اِس تعلیم اور خدا کے رسول کی اس دعوت کو جو لوگ قبول کیا کرتے ہیں وہ عقل کے اندھے نہیں بلکہ ہوش گوش رکھنے والے بیدار مغز لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اور پھر دنیا میں ان کی سیرت و کردار کا وہ رنگ اور آخرت میں اُن کا وہ انجام ہوتا ہے جو بعد کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔

۳۷-اس سے مراد وہ اَزَلی عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش میں تمام انسانوں سے لیا تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں گے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۴ و ۱۳۵)۔ یہ عہد ہر انسان سے لیا گیا ہے، ہر ایک کی فطرت میں مضمر ہے، اور اُسی وقت پختہ ہو جاتا ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے وجود میں آتا ہے اور ربوبیت سے پرورش پاتا ہے۔ خدا کے رزق سے پلنا، اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے کام لینا اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں کو استعمال کرنا آپ سے آپ انسان کو خدا کے ساتھ ایک میثاقِ بندگی میں باندھ دیتا ہے جسے توڑنے کی جرأت کوئی ذی شعور اور نمک حلال آدمی نہیں کر سکتا، اِلّا یہ کہ نا دانستہ کبھی اَحیانًا اس سے کوئی لغزش ہو جائے۔

۳۸-یعنی وہ تمام معاشرتی اور تمدنی روابط جن کی درستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صَلاح و فلاح منحصر ہے۔

۳۹-یعنی اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتے ہیں، اپنے جذبات اور میلانات کو حدود کا پابند بناتے ہیں، خدا کی نافرمانی میں جن جن فائدوں اور لذتوں کا لالچ نظر آتا ہے انہیں دیکھ کر پھسل نہیں جاتے، اور خدا کی فرمانبرداری میں جن جن نقصانات اور تکلیفوں کا اندیشہ ہوتا ہے انہیں برداشت کرے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مومن کی پوری زندگی در حقیقت صبر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ رضائے الٰہی کی اُمید پر اور آخر ت کے پائدار نتائج کی توقع پر اس دنیا میں ضبطِ نفس سے کام لیتا ہے اور گناہ کی جانب نفس کے ہر میلان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔

۴۰-یعنی وہ بدی کے مقابلے میں بدی نہیں بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ وہ شر کا مقابلہ شر سے نہیں بلکہ خیر ہی سے کرتے ہیں۔ کو ئی اُن پر خواہ کتنا ہی ظلم کرے، وہ جواب میں ظلم نہیں بلکہ انصاف ہی کرتے ہیں۔ کوئی ان کے خلاف کتنا ہی جھوٹ بولے، وہ جواب میں سچ ہی بولتے ہیں۔ کوئی اُن سے خواہ کتنی ہی خیانت کرے، وہ جواب میں دیانت ہی سے کام لیتے ہیں۔ اسی معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا ہے :

اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ اور ان میں سے چار باتیں آپؐ نے یہ فرمائیں کہ میں خواہ کسی سے خوش ہوں یا ناراض ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں، جو میرا حق مارے میں اس کا حق ادا کروں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں، اور جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کر دو۔ اور اس معنی میں ہے وہ حدیث جس میں حضور ؐ نے فرمایا کہ لا تخن من خانک ’’ جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر‘‘۔ اور اسی معنی میں ہے حضرت عمرؓ کا یہ قول کہ ’’جو شخص تیرے ساتھ معاملہ کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتا اُس کی سزا دینے کی بہترین صورت یہ ہے کہ تُو اس کے ساتھ خدا سے ڈرتے ہوئے معاملہ کر‘‘۔

۴۱-اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ملائکہ ہر طرف سے آ آ کر ان کو سلام کریں گے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ملائکہ ان کو اس بات کی خوشخبری دیں گے کہ اب تم ایسی جگہ آ گئے ہو جہاں تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اب یہاں تم ہر آفت سے، ہر تکلیف سے ہر مشقت سے، اور ہر خطرے سے اور اندیشے سے محفوظ ہو۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حِجر، حاشیہ نمبر ۲۹)۔

۴۲-اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عام جہلاء کی طرح کفار مکہ بھی عقیدہ و عمل کے حسن و قبح کو دیکھنے کے بجائے امیری اور غریبی کے لحاظ سے انسانوں کی قدر قیمت کا حساب لگاتے تھے۔ اُن کا گمان یہ تھا کہ جسے دنیا میں خو ب سامانِ عیش مِل رہا ہے وہ خدا کا محبوب ہے، خواہ ہو کیسا ہی گمراہ و بدکار ہو۔ اور جو تنگ حال ہے وہ خدا کا مغضوب ہے خواہ وہ کیسا ہی نیک ہو۔ اسی بنیاد پر وہ قریش کے سرداروں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے غریب ساتھیوں پر فضیلت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ لو، اللہ کس کے ساتھ ہے۔ ا س پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ رزق کی کمی و بیشی کا معاملہ اللہ کے ایک دوسرے ہی قانون سے تعلق رکھتا ہے جس میں بے شمار دوسری مصلحتوں کے لحاظ سے کسی کو زیادہ دیا جاتا ہے اور کسی کو کم۔ یہ کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاظ سے انسانوں کے اخلاقی و معنوی حسن و قبح کا فیصلہ کیا جائے۔ انسانوں کے درمیان فرقِ مراتب کی اصل بنیاد اور اُن کی سعادت و شقاوت کی اصل کسوٹی یہ ہے کہ کس نے فکر و عمل کی صحیح راہ اختیار کی اور کس نے غلط، کس نے عمدہ اوصاف کا اکتساب کیا اور کس نے بُرے اوصاف کا۔ مگر نادان لوگ اس کے بجائے یہ دیکھتے ہیں کہ کس کو دولت زیادہ ملی اور کس کو کم۔

 

ترجمہ

 

یہ لوگ جنہوں نے ( رسالتِ محمدی ؐ کو ماننے سے ) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں ’’ اِس شخص پر اِس کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟‘‘ ۴۳۔۔۔۔ کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رُجوع کرے۔ ۴۴ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اِس نبی ؐ کی دعوت کو) مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔ اے محمد ؐ، اِسی شان سے ہم نے تم کو رسُول بنا کر بھیجا ہے ۴۵، ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تا کہ تم اِن لوگوں کو وہ پیغام سُناؤ جو ہم نے تم پر نازل کیا ہے، اِس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خدا کے کافر بنے ہوئے ہیں۔ ۴۶ اِن سے کہو کہ وہی میرا ربّ ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میرا ملجا و ماویٰ ہے۔ اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہو جاتی، یا مُردے قبروں سے نکل بولنے لگتے ؟۴۷ (اِس طرح کی نشانیاں دِکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے ) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ۴۸ پھر کیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفّار کی طلب کے جواب میں کِسی نشانی کے ظہُور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا ؟۴۹ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کُفر کا رویّہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر ان کے کرتُوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پُورا ہو۔ یقیناً اللہ اپنے وعدوں کے خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۴۳-اس سے پہلے آیت ۷ میں اِس سوال کا جو جواب دیا جا چکا ہے اسے پیشِ نظر رکھا جائے۔ اب دوبارہ اُن کے اسی اعتراض کو نقل کر کے ایک دوسرے طریقے سے اُس کا جواب دیا جا رہا ہے۔

۴۴-یعنی جو اللہ کی طرف خود رجوع نہیں کرتا اور اس سے روگردانی اختیار کرتا ہے اُسے زبردستی راہِ راست دکھانے کا طریقہ اللہ کے ہاں رائج نہیں ہے۔ وہ ایسے شخص کو اُنہی راستوں میں بھٹکنے کی توفیق دے دیتا ہے جن میں وہ خود بھٹکنا چاہتا ہے۔ وہی سارے اسباب جو کسی ہدایت طلب انسان کے لیے سببِ ہدایت بنتے ہیں، ایک ضلالت طلب انسان کے لیے سبب ضلالت بنا دیے جاتے ہیں۔ شمعِ روشن بھی اُس کے سامنے آتی ہے تو راستہ دکھانے کے بجائے اس کی آنکھیں خیرہ ہی کرنے کا کام دیتی ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ کے کسی شخص کو گمراہ کرنے کا۔

۴۵-یعنی کسی ایسی نشانی کے بغیر جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔

۴۶-یعنی اُس کی بندگی سے منہ موڑے ہوئے ہیں، اس کی صفات اور اختیارات اور حقوق میں دوسروں کو اُس کا شریک بنا رہے ہیں، اور اُس کی نعمتوں کے شکریے دوسروں کو ادا کر رہے ہیں۔

۴۷-اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی ضروری ہے کہ اِس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش اِن لوگوں کو کوئی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہو جاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتے تھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اِس پر مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورۃ کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے ؟ کیا تمہیں اِن سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے ؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں، کائنات کے آثار میں، نبی کی پاکیزہ زندگی میں، صحابۂ کرام کے انقلاب حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پا لیں گے ؟

۴۸-یعنی نشانیوں کے نہ دکھانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قاد ر نہیں ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ان طریقوں سے کام لینا اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اصل مقصود تو ہدایت ہے نہ کہ ایک نبی کی نبوت کو منوا لینا، اور ہدایت اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ لوگوں کی فکر و بصیرت کی اصلاح ہو۔

۴۹-یعنی اگر سمجھ بوجھ کے بغیر محض ایک غیر شعوری ایمان مطلوب ہوتا تو اس کے لیے نشانیاں دکھانے کے تکلف کی کیا حاجت تھی۔ یہ کام تو اس طرح بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ سارے انسانوں کو مومن ہی پیدا کر دیتا

 

ترجمہ

 

تم سے پہلے بھی بہت سے رسُولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرِ کار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔ پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفّس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے ۵۰ (اُس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جا رہی ہیں ۵۱ کہ) لوگوں نے اُس کے کچھ شریک ٹھہرا رکھے ہیں؟ اے نبی ؐ، اِن سے کہو، (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا اُن کے نام لو کہ وہ کون ہیں؟ کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ تا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟۵۲ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے اُن کی مکّاریاں ۵۳ خوشنما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں ۵۴، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اُس کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دُنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اُس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو اُنہیں خدا سے بچانے والا ہو۔  خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔ اور منکرینِ حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔  اے نبی ؐ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اِس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ’’مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤ۔ لہٰذا میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجُوع ہے ۵۵۔ ‘‘اِسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔ اب اگر تم نے اِس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔ ؏۵

 

تفسیر

 

۵۰-یعنی جو ایک ایک شخص کے حال سے فرداً فرداً واقف ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی نیک آدمی کی نیکی چھپی ہوئی ہے نہ کسی بد کی بدی۔

۵۱-جسارتیں یہ کہ اس کے ہمسر اور مدِّ مقابل تجویز کیے جا رہے ہیں، اس کی ذات اور صفات اور حقوق میں اس کی مخلوق کو شریک کیا جا رہا ہے، اور اس کی خدائی میں رہ کر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ چاہیں کریں ہم سے کوئی باز پرس کر نے والا نہیں۔

۵۲-یعنی اس کے شریک جو تم نے تجویز کر رکھے ہیں اُن کے معاملے میں تین ہی صورتیں ممکن ہیں:

ایک یہ کہ تمہارے پا س کوئی مستند اطلاع آئی ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنی صفات، یا اختیارات، یا حقوق میں شریک قرار دیا ہے۔ اگر یہ صورت ہے تو ذرا براہِ کرم ہمیں بھی بتاؤ کہ وہ کون کو ن اصحاب ہیں اور اُن کے شریکِ  خدا مقرر کیے جانے کی اطلاع آپ حضرات کو کس ذریعہ سے پہنچی ہے۔

دوسری ممکن صورت یہ ہے کہ اللہ کو خود خبر نہیں ہے کہ زمین میں کچھ حضرات اُس کے شریک بن گئے ہیں اور اب آپ اس کو یہ اطلاع دینے چلے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو صفائی کے ساتھ اپنی اس پوزیشن کا اقرار کر و۔ پھر ہم بھی دیکھ لیں گے کہ دنیا میں کتنے ایسے احمق نکلتے ہیں جو تمہارے اس سراسر لغو مسلک کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔

لیکن اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہیں تو پھر تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تم بغیر کسی سند اور بغیر کسی دلیل کے یونہی جس کو چاہتے ہو خدا کا رشتہ دار ٹھیرا لیتے ہو، جس کو چاہتے ہو داتا اور فریاد رس کہہ دیتے ہو، اور جس کے متعلق چاہتے ہو دعویٰ کر دیتے ہو کہ فلاں علاقے کے سلطان فلاں صاحب ہیں اور فلاں کام حضرت کی تائید و امداد سے بر آتے ہیں۔

۵۳-اس شرک کو مکّاری کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ دراصل جن اجرامِ فلکی یا فرشتوں یا ارواح یا بزرگ انسانوں کو خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا گیا ہے، اور جن کو خدا کے مخصوص حقوق میں شریک بنا لیا گیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہ اِن صفا ت و اختیارات کا دعویٰ کیا، نہ اِن حقوق کا مطالبہ کیا، اور نہ لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ تم ہمارے آگے پرستش کے مراسم ادا کرو ہم تمہارے کام بنایا کریں گے۔ یہ تو چالاک انسانوں کا کام ہے کہ انہوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکّہ جمانے کے لیے اور ان کی کمائیوں میں حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناوٹی خدا تصنیف کیے، لوگوں کو اُن کا معتقد بنایا اور اپنے آپ کو کسی نہ کسی طور پر اُن کا نمائندہ ٹھیرا کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا شروع کر دیا۔

دوسری وجہ شریک کو مکر سے تعبیر کرنے کی یہ ہے کہ دراصل یہ ایک فریبِ  نفس ہے اور ایک چور دروازہ ہے جس کے ذریعے سے انسان دنیا پرستی کے لیے، اخلاقی بندشوں سے بچنے کے لیے اور غیر ذمہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے لیے راہِ فرار نکالتا ہے۔

تیسری وجہ جس کی بنا پر مشرکین کے طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے آگے آتی ہے۔

۵۴-یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان ایک چیز کے مقابلے میں دوسری چیز کو اختیار کرتا ہے تو اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لیے اور لوگوں کو اپنی راست روی کا یقین دلانے کے لیے اپنی اختیار کردہ چیز کو ہر طریقے سے استدلال کر کے صحیح ثابت کر نے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی رد کردہ چیز کے خلاف ہر طرح کی باتیں چھانٹنی شروع کر دیتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ جب انہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا تو قانونِ فطرت کے مطابق ان کے لیے اُن کی گمراہی، اور اُس گمراہی پر قائم رہنے کے لیے اُن کی مکّاری خوشنما بنا دی گئی اور اسی فطری قانون کے مطابق راہِ راست پر آنے سے روک دیے گئے۔

۵۵-یہ ایک خاص بات کا جواب ہے جو اُس وقت مخالفین کی طرف سے کہی جا رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر صاحب واقعی وہی تعلیم لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیاء لائے تھے جیسا کہ اِن کا دعویٰ ہے، تو آخر کیا بات ہے کہ یہود و نصاریٰ، جو پچھلے انبیاء کے پیرو ہیں، آگے بڑھ کر اِن کا استقبال نہیں کرتے۔ اِس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اُن میں سے بعض لوگ اِ س پر خوش ہیں اور بعض ناراض، مگر اے نبی، خواہ کوئی خوش ہو یا ناراض، تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو خدا کی طرف سے یہ تعلیم دی گئی ہے اور میں بہر حال اِسی کی پیروی کروں گا۔

 

ترجمہ

 

تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسُول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔ ۵۶ اور کسی رسُول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا۔ ۵۷ ہر دَور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، اُمُّ الکتاب اُسی کے پاس ہے۔ ۵۸ اور اے نبی ؐ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہُور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اُٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ ۵۹کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟۶۰ اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے، اور حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔  اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں ۶۱، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پُوری کی پُوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔  یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ’’ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر ہر اُس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘ ۶۲ ؏۶

 

تفسیر

 

۵۶-یہ ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ اچھا نبی ہے جو بیوی اور بچے رکھتا ہے۔ بھلا پیغمبروں کو بھی خواہشاتِ نفسانی سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

۵۷-یہ بھی ایک اعتراض کا جواب ہے۔ مخالفین کہتے تھے کہ موسیٰ یدِ بیضا اور عصا لائے تھے۔ مسیح اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے تھے۔ صالحؑ نے اونٹنی کا نشان دکھایا تھا۔ تم کیا نشانی لے کر آئے ہو؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جس نبی نے جو چیز بھی دکھائی ہے اپنے اختیار او راپنی طاقت سے نہیں دکھائی ہے۔ اللہ نے جس وقت جس کے ذریعے سے جو کچھ ظاہر کرنا مناسب سمجھا وہ ظہور میں آیا۔ اب اگر اللہ کی مصلحت ہو گی تو جو کچھ وہ چاہے گا دکھائے گا۔ پیغمبر خود کسی خدائی اختیار کا مدعی نہیں ہے کہ تم اس سے نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہو۔

۵۸-یہ بھی مخالفین کے ایک اعتراض کا جواب ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے آئی ہوئی کتابیں جب موجود تھیں تو اس نئی کتاب کی کیا ضرورت تھی؟ تم کہتے ہو کہ ان میں تحریف ہو گئی ہے، اب وہ منسُوخ ہیں اور اس نئی کتاب کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر خدا کی کتاب میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا نے اس کی حفاظت کیوں نہ کی؟ اور کوئی خدائی کتاب منسوخ کیسے ہو سکتی ہے ؟ تم کہتے ہو کہ یہ اُسی خدا کی کتاب ہے جس نے توراۃ و انجیل نازل کی تھیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ تمہارا طریقہ توراۃ کے بعض احکام کے خلاف ہے ؟ مثلاً بعض چیزیں جنہیں توراۃ والے حرام کہتے ہیں تم انہیں حلال سمجھ کر کھاتے ہو۔ ان اعتراضات کے جوابات بعد کی سورتوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ یہاں ان کا صرف ایک مختصر جامع جواب دے کر چھوڑ دیا گیا ہے۔

’’اُمّ الکتاب‘‘ کے معنی ہیں ’’اصل کتاب‘‘ یعنی وہ منبع و سر چشمہ جس سے تمام کتب آسمانی نکلی ہیں۔

۵۹-مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آ کیوں نہیں جاتی۔

۶۰-یعنی کیا تمہارے مخالفین کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اسلام کا اثر سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے میں پھیلتا جا رہا ہے اور چاروں طرف سے اِن پر حلقہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے ؟ یہ اِن کی شامت کے آثار نہیں ہیں تو کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں‘‘ ایک نہایت لطیف اندازِ بیان ہے۔ کیونکہ دعوتِ حق اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ اس کے پیش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے کسی سرزمین میں اس دعوت کے پھیلنے کو اللہ تعالیٰ یوں تعبیر فرماتا ہے کہ ہم خود اس سرزمین میں بڑھے چلے آرہے ہیں۔

۶۱-یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔

۶۲-یعنی ہر وہ شخص جو واقعی آسمانی کتابوں کے علم سے بہرہ ور ہے اس بات کی شہادت دے گا کہ جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لے کر آئے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۴۔ ابراہیم

 

نام

 

آیت ۳۵ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورت میں حضرت ابراہیم کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورت جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

عام انداز بیاں مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۂ رعد سے قریب زمانے ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً آیت ۱۳ کے الفاظ

’    انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یہ تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ‘

کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تل گئے تھے۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویے پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ    ہم ظالموں کو ہلاک کر کے رہیں گے اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ    ہم ان ظالموں کو ختم کرنے کے بعد تم ہی کو اس سرزمین میں آباد کریں گے۔اسی طرح آخری رکوع کے تیور بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔

 

مرکزی مضمون و مدعا

 

جو لوگ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کو فہمائش بلکہ تنبیہ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورت میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی، عناد، مزاحمت، شرارت اور ظلم و جور میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔

 

ترجمہ

 

ا۔ ل۔ ر، اے محمد ؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے ربّ کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے ۱ پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمُود ۲ ہے  اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے  جو دُنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،۳ جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہو جائے۔ ۴ یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔ ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسُول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ اُنہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ ۵ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، ۶ وہ بالا دست اور حکیم ہے۔ ۷ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اُسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی ۸ کے سبق آموز واقعات سُنا کر نصیحت کر۔ اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ۹ ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ ۱۰یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ اُس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱-یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطانی راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف ا س کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر یہ جو فرمایا کہ تم اِن کو اپنے رب کے اذن یا اُس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی، مبلّغ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہِ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اُ س کے بس میں نہیں ہے۔ اِس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اُس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اُسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سُنے، صاف دماغ سے سوچے، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے۔

۲- ’’حمید‘‘ کا لفظ اگر چہ محمُود ہی کا ہم معنی ہے، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ محمُود کسی شخص کو اُسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات، سزاوارِ حمد اور مستحقِ تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہو سکتا، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اپنی ذات میں آپ محمود‘‘ کیا ہے۔

۳-یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرائے گا وہاں اُسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔

۴-یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین اُن کی مرضی کا تابع ہو کر رہے۔ اُن کے ہر خیال، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظامِ فکر میں نہ رہنے دے جو اُن کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ اُن کی ہر رسم، ہر عادت، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا اُن سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ اِن کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطانِ نفس کے اتباع میں مڑیں اُدھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستے کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اُسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اِس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے۔

۵-اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اُس پر اُسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ دکھا نے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو۔

۶-یعنی باوجود اِس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اُسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اِس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے۔

۷-یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پا لینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملاً خود مختار نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی بالا دستی سے مغلوب ہیں۔ لیکن اللہ اپنی اس بالا دستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے۔ وہ بالا دست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے۔ اُس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے۔ اور جس کو راہِ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔

۸- ’’ایّام‘‘ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحاً یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد تاریخِ  انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو اُ ن کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دی ہے۔

۹-یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی توحیدِ  خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مُکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے، اور اُ سکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالَم، یعنی عالَمِ آخرت ناگزیر ہے۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اُٹھانے کے بُرے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور اُن سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔

۱۰-یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف اُنہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے اُن کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان نا شناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اِس ادراک سے فائدہ اُٹھانے نہیں دیتیں۔

 

ترجمہ

 

اور یاد رکھو، تمہارے ربّ نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے ۱۱ تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ ۱۲‘‘اور موسیٰؑ ’’ اگر تم کُفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ ۱۳‘‘کیا تمہیں ۱۴ اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قومِ نوح ؑ، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے ؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھُلی کھُلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے ۱۵ اور کہا کہ ’’جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اُس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۶‘‘اُن کے رسولوں نے کہا ’’ کیا خُدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ؟۱۷ وہ تمہیں بُلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ ‘‘ ۱۸ انہوں نے جواب دیا ’’تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں۔ ۱۹ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سَنَد۔ ‘‘ ۲۰ان کے رسولوں نے ان سے کہا ’’واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ ۲۱ اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سَنَد لا دیں۔ سَنَد تو اللہ ہی کے اِذن سے آ سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اُس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ جو اذیّتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔ ‘‘ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۱-یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے، اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سرکشی و استکبار نہ برتو گے، اور ہمارا احسان مان کر ہمارے مطیع فرمان بنے رہو گے۔

۱۲-اس مضمون کی تقریر بائیبل کی کتابِ اِستثناء میں بڑی شر ح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اس تقریر میں حضرت موسیٰؑ اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں۔ پھر توراۃ کے اُن تمام احکام کو دُہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے۔ پھر ایک طویل خطبہ دیتے ہین جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی۔ یہ خطبہ کتاب استثناء کے ابواب نمبر ۴ – ۶ – ۸ – ۱۰ – ۱۱ اور ۲۸ تا ۳۰ میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بعض بعض مقامات کمال درجہ موثر و عبرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اُس کے چند فقرے ہم یہاں نقل کرتے ہیں جن سے پورے خطبے کا اندازہ ہو سکتا ہے :

’’سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا کے ساتھ محبت رکھ۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تُو اِن کو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے ان کا ذکر کرنا‘‘۔ ( باب ۶۔ آیات ۴ – ۷)

’’پس اے اسرائیل! خداوند تیرا خدا تجھ سے اس کے سو ا کیا چاہتا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اُس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں اُن پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے ‘‘۔ (باب ۱۰۔ آیات ۱۲ – ۱۴)۔

’’اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اس کے اِن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تُو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہو ں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں مبارک۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تُو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا۔۔۔۔۔۔ تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تُو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی۔ تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دُم نہیں بلکہ سَر ٹھیرائے گا اور تو پشت نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا‘‘۔ (باب ۲۸۔ آیات ۱ – ۱۳)۔

’’لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہے ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی۔۔۔۔۔۔ خداوند اُن سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور پھِٹکار اور اضطراب کو تجھ پر نازل کرے گا۔۔۔۔۔۔ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی۔۔۔۔۔۔ آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔ خداوند تجھ کر تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو ان کے مقابلہ کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا مگر ان کے سامنے سات سات راستوں سے بھاگے گا۔۔۔۔۔۔ عورت سے منگنی تو تُو کرے گا لیکن دوسرا اس سے مباشرت کرے گا۔ تُو گھر بنائے گا لیکن اس میں بسنے نہ پائے گا۔ تُو تاکستان لگائے گا پر اس کا پھل نہ کھا سکے گا۔ تیرا بیل تیری آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے اُن دشمنوں کی خدمت کرے گا جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جواز رکھے گا جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔۔۔۔۔۔ خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کر دے گا‘‘۔ (باب ۲۸۔ آیات ۱۵ – ۶۴)

۱۳-اس جگہ حضرت موسیٰ اور اُن کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہلِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں۔ ا ب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفرانِ نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کی قدر کر نے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصُوصیت کے ساتھ اُس کی یہ نعمت ہے کہ اُس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو اُن کے درمیان پیدا کیا اور آپ کے ذریعہ سے اُن کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور ؐ بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطو نیھا تملکون بھا العرب و تدین لکم بھا العجم ‘‘۔ میر ی ایک بات مان لو، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہو جائیں گے ‘‘۔

۱۴-حضرت موسیٰ کی تقریر اوپر ختم ہو گئی۔ اب براہِ راست کفارِ مکہ سے خطاب شرو ع ہوتا ہے۔

۱۵-ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِن کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانو ں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے۔

۱۶- ’’یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ یہ دعوتِ حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اُس کی مخالفت۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اُسے رد کریں اور کتنا ہی زور اُس کی مخالفت میں لگائیں، دعوت کی سچائی، اس کی معقول دلیلیں، اُس کی کھری کھری اور بے لاگ باتیں، اُس کی دل موہ لینے والی زبان، اس کے داعی کی بے داغ سیرت، اُس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب، اور اپنے صدقِ مقال کے عین مطابق اُن کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مِل جُل کر کٹَّے سے کٹّے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں۔ داعیانِ حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے۔

۱۷-رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اِس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے ؟

۱۸-مدّتِ مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اُٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعیّن اُن کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کر لے تو اس کی مہلتِ عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے بُرے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے۔

۱۹-اُن کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک، پیاس، بیماری، دُکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمیں نظر نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں۔

۲۰-یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آ جائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے۔

۲۱-یعنی بلا شبہہ ہم ہیں تو انسان ہی مگر اللہ نے تمہارے درمیان ہم کو ہی علمِ حق اور بصیرتِ  کاملہ عطا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس میں ہمارے بس کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو اللہ کے اختیارات کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو جو کچھ چاہے دے۔ ہم نہ یہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس آیا ہے وہ تمہارے پاس بھجوا دیں اور نہ یہی کر سکتے ہیں کہ جو حقیقتیں ہم پر منکشف ہوئی ہیں اُن سے آنکھیں بند کر لیں۔

 

ترجمہ

 

آخرِ کار منکرین نے اپنے رسُولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہو گا ۲۲ ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ ‘‘ تب اُن کے ربّ نے اُن پر وحی بھیجی کہ ’’ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔۔۔ اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ ۲۳ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضُور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔ ‘‘اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یُوں اُن کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبّار دشمنِ  حق نے منہ کی کھائی۔ ۲۴پھر اُس کے بعد آگے اُس کے لیے جہنّم ہے۔ وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا،جسے وہ زبردستی حلق سے اُتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اُتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اُس پر چھائی رہے گے مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اُس کی جان کو لاگُو رہے گا۔ جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے اُن کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ ۲۵ یہی پرلے درجے کی گُم گشتگی ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟۲۶ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ ایسا کرنا اُس پر کچھ بھی دُشوار نہیں ہے۔ ۲۷اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے ۲۸ تو اُس وقت ان میں جو دُنیا میں کمزور تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ’’دُنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزَع فزَع کریں یا صبر، بہر حال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ۲۹‘‘ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۲۲-اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوموں کی ملّت میں شامل ہوا کرتے تھے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرح کی خاموش زندگی بسر کرتے تھے، کسی دین کی تبلیغ اور کسی رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے، اِس لیے اُن کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ ہماری ہی مِلّت میں ہیں، اور نبوت کا کام شروع کر دینے کے بعد اُن پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ مِلّت آبائی سے نِکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکین کی مِلّت میں شامل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خروج کا الزام اُ ن پر لگ سکتا۔

۲۳-یعنی گھبراؤ نہیں، یہ کہتے ہیں کہ تم اس ملک میں نہیں رہ سکتے، مگر ہم کہتے ہیں کہ اب یہ اِس سرزمین میں نہ رہنے پائیں گے۔ اب تو جو تمہیں مانے گا وہی یہاں رہے گا۔

۲۴-ملحوظِ خاطر رہے کہ یہاں اِس تاریخی بیان کے پیرایہ میں دراصل کفارِ مکہ کو اُن باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے۔ ذکر بظاہر پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے واقعات کا ہے مگر چسپاں ہو رہا ہے وہ اُن حالات پر جو اس سورہ کے زمانۂ نزول میں آ رہے تھے۔ اس مقام پر کفار مکہ کو، بلکہ مشرکینِ  عرب کو گویا صاف صاف متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مستقبل اب اُس رویے پر منحصر ہے جو دعوتِ محمدیہ کے مقابلے میں تم اختیار کرو گے۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مِٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا۔

۲۵-یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی، بے وفائی، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں، اُن کا پورا کارنامۂ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایۂ عمل آخر کار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہو گا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدّتِ دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اُس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اُن کی نظر فریب تہذیب، اُن کا شاندار تمدن، اُن کی حیرت انگیز صنعتیں، اُن کی زبردست سلطنتیں، اُن کی عالیشان یونیورسٹیاں، اُن کے علوم و فنون اور ادبِ لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے، حتیٰ کہ اُن کی عبادتیں اور اُن کی ظاہری نیکیاں اور اُن کے بڑے بڑے خیراتی اور رفاہی کارنامے بھی، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں، سب کے سب آخر کار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یومِ  قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالمِ آخرت میں اُس کا ایک ذرہ بھی اُن کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اُسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں۔

۲۶-یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے ) زندگی بسر کرے گا، اس کا پورا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختار ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو، تو اس جھوٹ پر، اس خلافِ  واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟

۲۷- دعوے پر دلیل پیش کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فقرہ نصیحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک شبہہ کا ازالہ بھی ہے جو اوپر کی دو ٹوک بات سُن کر آدمی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ اگر بات وہی ہے جو اِن آیتوں میں فرمائی گئی ہے تو یہاں ہر باطل پرست اور غلط کار آدمی فنا کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نادان! کیا تُو سمجھتا ہے کہ اسے فنا کر دینا اللہ کے لیے کچھ دشوار ہے ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ ہے کہ اس کی شرارتوں کے باوجود اللہ نے محض اقربا پروری کی بنا پر اُسے مجبوراً چھوٹ دے رکھی ہو؟ اگر یہ بات نہیں ہے، اور تُو خود جانتا ہے کہ نہیں ہے، تو پھر تجھے سمجھنا چاہیے کہ ایک باطل پرست اور غلط کار قوم ہر وقت اس خطرے میں مبتلا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ کام کرنے کا موقع دے دیا جائے۔ اس خطرے کے عملاً رُو نما ہونے میں اگر دیر لگ رہی ہے تو اس غلط فہمی کے نشے میں مست نہ ہو جا کہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مہلت کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان اور اپنے باطل نظامِ فکر و عمل کی ناپائیداری کو محسوس کر کے اسے جلدی سے جلدی پائیدار بنیادوں پر قائم کر لے۔

۲۸-بَرَزُو کے معنی محض نکل کر سامنے آنے اور پیش ہونے ہی کے نہیں ہیں بلکہ اس میں ظاہر ہونے اور کھل جانے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بے نقاب ہو کر سامنے آ جانا کیا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے تو بندے ہر وقت اپنے رب کے سامنے بے نقاب ہیں۔ مگر آخرت کی پیشی کے دن جب وہ سب کے سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو انہیں خود بھی معلوم ہو گا کہ ہم اس احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین کے سامنے بالکل بے نقاب ہیں، ہمارا کوئی کام بلکہ کوئی خیال اور دل کے گوشوں میں چھپا ہوا کوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے۔

۲۹-یہ تنبیہ ہے اُن سب لوگوں کے لیے جو دنیا میں آنکھیں بند کر کے دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں یا اپنی کمزوری کو حجت بنا کر طاقتور ظالموں کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آج جو تمہارے لیڈر اور پیشوا اور افسر اور حاکم بنے ہوئے ہیں، کل ان میں سے کوئی بھی تمہیں خدا کے عذاب سے ذرہ برابر بھی نہ بچا سکے گا۔ لہٰذا آج ہی سوچ لو کہ تم جس کے پیچھے چل رہے ہو یا جس کا حکم مان رہے ہو وہ خود کہاں جا رہا ہے اور تمہیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گا۔

 

ترجمہ

 

اور جب فیصلہ چُکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے اُن میں سے کوئی بھی پُورا نہ کیا، ۳۰ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا۔ ۳۱ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا ۳۲ میں اُس سے بری الذّمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔ ‘‘بخلاف اس کے جو لوگ دُنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے ربّ کے اِذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں اُن کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔ ۳۳کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمۂ طیّبہ ۳۴ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمّی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ۳۵،ہر آن وہ اپنے ربّ کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ ۳۶ یہ مثالیں اللہ اِس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔ اور کلمہ خبیثہ ۳۷ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ۳۸ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دُنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، ۳۹ اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ ۴۰ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۳۰-یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا۔ اس واقعے سے مجھے ہر گز انکار نہیں ہے۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے، سب محض ڈھکوسلا ہے، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت سے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو، نجات کا ذمہ اُن کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا، یہ سب محض دھوکا تھا۔

۳۱-یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہِ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا، تو ضرور اسے پیش فرمائیے، جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوتِ حق کے مقابلے میں اپنی دعوتِ باطل آپ کے سامنے پیش کی، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا۔ ماننے ا اور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں۔ مگر آپ نے جوا س پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اُٹھانی چاہیے۔

۳۲- ’’یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔ سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جواب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اور آگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رُہبان کو اربابٌ من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں (التوبہ۔ آیت ۱۳۷)۔ خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان۔ آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں (یٰسین۔ آیت ۶۰)۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذنِ  خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ’’شریک‘‘ ہیں (الشوریٰ۔ آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی کی نظیریں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر، یا احکامِ  خداوندی کے علی الرغم، اُس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملاً یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کو خدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعاً اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷۔ الکہف حاشیہ ۵۰)۔

۳۳-تَحیّہ کے لغوی معنی ہیں دعائے درازی ٔ عمر۔ مگر اصطلاحاً عربی زبان میں یہ لفظ اس کلمۂ خیر مقدم یا کلمۂ استقبال کے لیے بولا جاتا ہے جو لوگ آمنا سامنا ہونے پر سب سے پہلے ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ہم معنی لفظ یا تو ’’سلام‘‘ ہے، یا پھر علیک سلیک۔ لیکن پہلا لفظ استعمال کرنے سے ترجمہ ٹھیک نہیں ہوتا اور دوسرا لفظ مبتذل ہے، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’استقبال ‘‘ کیا ہے۔

تَحیتھُمْ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے استقبال کا طریقہ یہ ہو گا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کا اس طرح استقبال ہو گا۔ نیز سلامٌ میں دعائے سلامتی کا مفہوم بھی ہے اور سلامتی کی مبارکباد کا بھی۔ ہم نے موقع کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ مفہوم اختیار کیا ہے جو ترجمہ میں درج ہے۔

۳۴-کلمۂ طیبہ کے لفظی معنی ’’پاکیزہ بات‘‘ کے ہیں، مگر اِس سے مراد وہ قولِ حق اور عقیدۂ  صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رُو سے لازماً وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار، انبیاء اور کتب آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو، کیونکہ قرآن اِنہی امور کو بنیاد ی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔

۳۵-دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظامِ کائنات اُسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانونِ فطرت اس سے نہیں ٹکراتا، کسی شے کی بھی اصل اور جبلّت اُس سے اِبا نہیں کرتی، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اُس سے متصادم نہیں ہوتی۔ اِسی لیے زمین اور اُس کا پورا نظام اُس سے تعاون کرتا ہے، اور آسمان اور اُس کا پورا عالم اُس کا خیر مقدم کرتا ہے۔

۳۶-یعنی وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اِسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے، اُس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ فکر میں سلجھاؤ، طبیعت میں سلامت، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتاؤ میں خوشگواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی، معاشرت میں حسنِ سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن، معیشت میں عدل و مُواساۃ، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت، صلح میں خلوص اور عہدو پیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے، وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کر لے تو کندن بن جائے۔

۳۷- ’’یہ لفظ کلمہ طیبہ کی ضد ہے جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلافِ حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے، مگر یہاں اُس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظامِ زندگی کی بنیاد بنائے، عام اِس سے کہ وہ دہریت ہو، الحاد و زندقہ ہو، شرک و بت پرستی ہو، یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء کے واسطے سے نہ آیا ہو۔

۳۸-دوسرے الفاظ میں اِ س کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانونِ فطرت کہیں بھی اُس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اُس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے۔ زمین میں اُس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اُسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بد ذات درخت کہیں اُگنے ہی نہ پاتا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو اپنے رجحان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے، اس لیے جو نادان لوگ قانونِ فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے زور مارنے سے زمین اُسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھی اسے مل جاتی ہے، اور فضا بھی اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے با دلِ ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے، کسیلے، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔

کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی مذہبی، اخلاقی، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ آغازِ تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے، مگر کلماتِ خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا، مگر کلماتِ خبیثہ کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے، حتیٰ کہ اُن میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں اُن کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور شور رہا ہے آج اُن کا ذکر کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے۔

پھر کلمہ طیبہ کو جب، جہاں، جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اُس کی خوشبو سے اُس کا ماحول معطر ہو گیا اور اُس کی برکتوں سے صرف اُسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اُٹھایا، بلکہ اُس کے گرد و پیش کی دنیا بھی اُن سے مالامال ہو گئی۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اُس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا۔ اور اُس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اُس سے سابقہ پیش آیا ہو۔

اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اُسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ’’اپنے ربّ سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو‘‘۔ اور یہی مضمون اِس سے پہلے سورۂ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہو چکا ہے۔

۳۹-یعنی دنیا میں اُن کو اِس کلمہ کی وجہ سے ایک پائدار نقطۂ نظر، ایک مستحکم نظامِ فکر، اور ایک جامع نظریہ ملتا ہے جو ہر عُقدے کو حل کر نے اور ہر گُتھی کو سلجھانے کے لیے شاہِ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی اُستواری نصیب ہوتی ہے جسے زمانہ کی گردشیں متزلزل نہیں کر سکتیں۔ زندگی کے ایسے ٹھوس اصول ملتے ہیں جو ایک طرف اُن کے قلب کو سکون اور دماغ کو اطمینان بخشتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سعی و عمل کی راہوں میں بھٹکنے، ٹھوکریں کھانے، اور تلوُّن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔ پھر جب وہ موت کی سرحد پار کر کے عالم آخرت کے حدود میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی حیرانی اور سراسیمگی و پریشانی اُن کو لاحق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہاں سب کچھ ان کی توقعات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ وہ اُس عالم میں اِس طرح داخل ہوتے ہیں گویا اُس کی راہ و رسم سے پہلے ہی واقف تھے۔ وہاں کوئی مرحلہ ایسا پیش نہیں آتا جس کی اُنہیں پہلے خبر نہ دے دی گئی ہو اور جس کے لیے انہوں نے قبل از وقت تیار ی نہ کر رکھی ہو۔ اِ س لیے وہاں ہر منزل سے وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ ان کا حال وہاں اُس کافر سے بالکل مختلف ہوتا ہے جسے مرتے ہی اپنی توقعات کے سراسر خلاف ایک دوسری ہی صورت حال سے اچانک سابقہ پیش آتا ہے۔

۴۰-یعنی جو ظالم کلمۂ طیّبہ کو چھوڑ کر کسی کلمۂ خبیثہ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذہن کو پراگندہ اور اُن کی مساعی کو پریشان کر دیتا ہے۔ وہ کسی پہلو سے بھی فکر و عمل کی صحیح راہ نہیں پا سکتے۔ ان کا کوئی تیر بھی نشانے پر نہیں بیٹھتا۔

 

ترجمہ

 

تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کُفرانِ نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا۔۔۔۔ یعنی جہنّم، جس میں وہ جھُلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔۔۔۔ اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تا کہ وہ اُنہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں۔ اِ ن سے کہو، اچھا مزے کر لو، آخر کار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔ اے نبی ؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اُس میں سے کھُلے اور چھُپے (راہِ خیر میں) خرچ کریں ۴۱ قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوست نوازی ہو سکے گی۔ ۴۲ اللہ وہی تو ہے ۴۳ جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخّر کیا،جس نے سُورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخّر کیا۔ ۴۴جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ ۴۵ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۴۱-مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے۔ وہ تو کافرِ  نعمت ہیں۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں۔

۴۲-یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچا لے۔

۴۳-یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جا رہا ہے، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھیرائے جا رہے ہیں، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں۔

۴۴- ’’تمہارے لیے مسخر کیا‘‘ کو عام طور پر لوگو غلطی سے ’’تمہارے تابع کر دیا‘‘ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس مضمون کی آیات سے عجیب عجیب معنی پیدا کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض لوگ تو یہاں تک سمجھ بیٹھے کہ اِن آیات کی رو سے تسخیر سمٰوات و ارض انسان کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ انسان کے لیے ان چیزوں کو مسخر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے قوانین کا پابند بنا رکھا ہے جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نافع ہو گئی ہیں۔ کشتی اگر فطرت کے چند مخصوص قوانین کی پابند نہ ہوتی تو انسان کبھی بحری سفر نہ کر سکتا۔ دریا اگر مخصوص قوانین میں جکڑے ہوئے نہ ہوتے تو کبھی اُن سے نہریں نہ نکالی جا سکتیں۔ سورج اور چاند اور روز و شب اگر ضابطوں میں کسے ہوئے نہ ہوتے تو یہاں زندگی ہی ممکن نہ ہوتی کجا کہ ایک پھلتا پھولتا انسانی تمدن وجود میں آ سکتا۔

۴۵-یعنی تمہاری فطرت کی ہر مانگ پوری کی، تمہاری زندگی کے لیے جو جو کچھ مطلوب تھا مہیا کیا، تمہارے بقا اور ارتقاء کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب فراہم کیے۔

 

ترجمہ

 

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی ۴۶ کہ ’’پروردگار، اِس شہر ۴۷ کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا۔ پروردگار، اِن بُتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے ۴۸ ( ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گُمراہ کر دیں، لہٰذا اُن میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ ۴۹پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دِلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ۵۰، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔ پروردگار، تُو جانتا ہے جو کچھ ہم چھُپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں‘‘ ۵۱۔۔۔۔ اور ۵۲ واقعی اللہ سے کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں۔۔۔۔  ’’ شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ کہ میرا ربّ ضرور دُعا سُنتا ہے۔ اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں)۔ پروردگار، میری دُعا قبول کر۔ پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہو گا۔ ‘‘ ۵۳؏ ٦

 

تفسیر

 

۴۶-عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اُن خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو۔

۴۷-یعنی مکہ۔

۴۸-یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے۔ یہ مجازی کلام ہے۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔

۴۹-یہ حضرت ابراہیمؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ۔ آیت ۱۲۶)۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اُسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ اُن کے معاملہ میں کیا عرض کروں، تُو غفورٌرَّحیم ہے۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قومِ لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ’’ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا‘‘ (ہود، آیت ۷۴)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ بالا دست اور حکیم ہیں‘‘ (المائدہ، آیت ۱۱۸)

۵۰-یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھنچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل، غلّے، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔

۵۱-یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے۔

۵۲-یہ جملہ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے۔

۵۳-حضرت ابراہیمؑ نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اُس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو اُنہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَ اْتَغْفِرُ لَکَ رَبی، (مریم۔ آیت ۴۷)۔ مگر بعد میں جب اُنہیں احساس ہوا کہ کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اُس سے صاف تبرّی فر ما دی۔ (التوبہ۔ آیت ۱۱۴)۔

 

ترجمہ

 

اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اُس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں،سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں ۵۴ اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے محمد ؐ، اُس دن سے تم انہیں ڈراؤ جب کہ عذاب انہیں آلے گا۔ اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے ربّ، ہمیں تھوڑی سے مہلت اَور دیدے، ہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں گے اور رسُولوں کی پیروی کریں گے۔ ‘‘ (مگر اُنہیں صاف جواب دے دیا جائے گا)کہ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے ؟حالانکہ تم اُن قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اُوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔ ۵۵پس اے نبی ؐ، تم ہر گز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسُولوں سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا۔ ۵۶ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ ڈراؤ انہیں اُس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے ۵۷ اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔ اُس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہوں گے تارکول ۵۸ کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ اللہ ہر متنفّس کو اُس کے کیے کا بدلہ دے گا۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجا گیا ہے اِس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں۔ ؏ ۷

 

تفسیر

 

۵۴-یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ اُن کے سامنے ہو گا اُس کو اِس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں، نہ پلک جھپکے گی، نہ نظر ہٹے گی۔

۵۵-یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الٰہی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔

۵۶-اس جملے میں کلام کا رُخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور اُن کے مخالفین کو نیچا دکھایا۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور اُن لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اُس کے مخالفت کر رہے ہیں۔

۵۷-اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظامِ طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ اُس کے بعد نفخِ صورِ اول اور نفخِ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظامِ طبیعت، دوسرے قوانینِ فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا۔ وہی عالمِ آخرت ہو گا۔ پھر نفخِ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کے تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہو گا، یہیں عدالت قائم ہو گی، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیۂ زمین برسرِ زمین ہی چکایا جائے گا۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی بلکہ ٹھیک اُسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اُسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہو گا جسے لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو ا تھا۔

۵۸-بعض مترجمین و مفسرین نے قَطیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں، مگر درحقیقت عربی میں قَطیران کا لفظ زِفت، قیر، رال، اور تارکول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۵۔ الحجر

 

نام

 

آیت ۸۰ کے فقرے "کذب اصحب الحجر المرسلین” سے ماخوذ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین اور انداز بیاں سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کا زمانہ نزول سورۂ ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دعوت دیتے ایک مدت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی، استہزا، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہو گئی ہے، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم تنبیہ و انذار کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و حجود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے، جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔

 

موضوع اور مرکزی مضمون

 

یہی دو مضمون اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی تنبیہ اُن لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے اور تسلی و ہمت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورت تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مجرد تنبیہ یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس سورت میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں اور دوسری طرف قصۂ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے۔

 

ترجمہ

 

ا۔ ل۔ ر، یہ آیات ہیں کتابِ الٰہی اور قرآنِ  مبین کی۔ ۱ بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آ جائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوتِ اسلام کو قبول کر نے سے ) انکار کر دیا ہے، پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سرِ تسلیم خم کر دیا ہوتا۔ چھوڑو انہیں۔ کھائیں پئیں، مزے کریں، اور بھلاوے میں ڈالے رکھے اِن کو جھوٹی اُمید۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ ہم نے اِس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلتِ عمل لکھی جا چکی تھی۔ ۲ کوئی قوم نہ اپنے وقتِ مقرر سے پہلے ہلاک ہو سکتی ہے، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’اَے وہ شخص جس پر ذکر ۳ نازل ہوا ہے، ۴ تُو یقیناً دیوانہ ہے۔ اگر تُو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتا ‘‘ہم فرشتوں کو یوں نہیں اُتار دیا کرتے۔ وہ جب اُترتے ہیں تو حق کے ساتھ اُترتے ہیں اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ ۵رہا یہ ذکر، تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔ ۶اے محمد ؐ، ہم تم سے پہلے بہت سی گُزری ہوئی قوموں میں رسُول بھیج چکے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسُول آیا ہو اور انہوں نے اُس کا مذاق نہ اُڑایا ہو۔ مجرمین کے دلوں میں تو ہم اِس ذکر کو اِسی طرح ( سلاخ کے مانند)گزارتے ہیں وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے۔ ۷ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔ اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اس میں چڑھنے بھی لگتے تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادُو کر دیا گیا ہے۔ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱-یہ اس سورے کی مختصر تعارفی تمہید ہے جس کے بعد فوراً ہی اصل موضوع پر خطبہ شروع ہو جاتا ہے۔

قرآن کے لیے ’’مبین‘‘ کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات اُس قرآن کی ہیں جو اپنا مُدّعا صاف صاف ظاہر کرتا ہے۔

۲- ’’مطلب یہ ہے کہ کفر کرتے ہی فوراً تو ہم نے کبھی کسی قوم کو بھی نہیں پکڑ لیا ہے، پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش اِنہوں نے اختیار کر رکھی ہے اُس پر چونکہ ابھی تک اِنہیں سزا نہیں دی گئی، ا س لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ اس کو سننے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اِتنی مہلت دی جائے گی، اور اِس حد تک اُس کی شرارتوں اور خباثتوں کے با وجود پورے تحمّل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کر نے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے۔ اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آ نہیں جاتی، ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ (مہلت عمل کی تشری کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حاشیہ نمبر ۱۸)

۳- ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن میں اصطلاحاً کلامِ الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آیا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ’’ذکر‘‘ تھیں اور یہ قرآن بھی ’’ذکر‘‘ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ’’یاد دلانا‘‘ ’’ہوشیار کرنا‘‘ اور ’’نصیحت کرنا‘‘۔

۴-یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے۔ اُن کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ہے۔ نہ اِسے تسلیم کر لینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے۔ دراصل اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’’اے وہ شخص جس کا دعویٰ یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے ‘‘۔ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسیٰ کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذیٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ، ’’ یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کا دماغ درست نہیں ہے ‘‘۔

۵- ’’یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فوراً حاضر ہوئے۔ نہ فرشتے اِس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آ کر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کریں اور پردۂ غیب کو چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخر ی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے۔ اُس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بے نقاب نہیں ہو جاتی۔ اُس کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال۔

’’حق کے ساتھ اُترتے ہیں‘‘ کا مطلب ’’حق لے کر اُترنا‘‘ ہے۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں۔

۶-یعنی یہ ’’ذکر‘‘ جس کے لانے والے کو تم مجنون کہہ رہے ہو، یہ ہمارا نازل کیا ہوا ہے، اس نے خود نہیں گھڑا ہے۔ اس لیے یہ گالی اس کو نہیں ہمیں دی گئی ہے۔ اور یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو کہ تم اِس ’’ذکر‘‘ کا کچھ بگاڑ سکو گے۔ یہ براہِ راست ہماری حفاظت میں ہے۔ نہ تمہارے مٹائے مٹ سکے گا، نہ تمہارے دبائے دب سکے گا، نہ تمہارے طعنوں اور اعتراضوں سے اس کی قدر گھٹ سکے گی، نہ تمہارے روکے اس کی دعوت رُک سکے گی، نہ اس میں تحریف اور رد و بدل کرنے کا کبھی کسی کو موقع مل سکے گا۔

۷-عام طور پر مترجمین و مفسرین نے نَسْلُکُہ کی ضمیر استہزاء کی طرف اور لَا یُوْمِنُوْنَ بِہٖ کی ضمیر ذکر کی طرف پھیری ہے، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ہم اسی طرح اس استہزاء کو مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں اور وہ اس ذکر پر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔ اگرچہ نحوی قاعدے کے لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن ہمارے نزدیک نحو کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں ضمیریں ذکر کی طرف پھیری جائیں۔

سلک کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو دوسری چیز میں چلانے، گزارنے اور پرونے کے ہیں، جیسے تاگے کو سوئی کے ناکے میں گزارنا۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تو یہ ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترتا ہے، مگر مجرموں کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر لگتا ہے اور اُس کے اندر اِسے سن کر ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی جو سینے کے پار ہو گئی۔

 

ترجمہ

 

یہ ہماری کارفرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے ۸، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزیَّن کیا،۹ اور ہر شیطانِ مردُود سے اُن کو محفوظ کر دیا۔ ۱۰کوئی شیطان اِن میں راہ نہیں پا سکتا، اِلّا یہ کہ کچھ سُن گُن لے۔ ۱۱ اور جب وہ سُن گُن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے ۱۲۔ ہم نے زمین کو پھیلایا، اُس میں پہاڑ جمائے، اُس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اُگائی،۱۳اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمہارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جب کے رازق تم نہیں ہو۔ کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔ ۱۴بار آور ہواؤں کو ہم ہی بھیجتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے ہیں، اور اُس پانی سے تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ اِس دولت کے خزانہ دار تم نہیں ہو۔ زندگی اور موت ہم دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہونے والے ہیں۔ ۱۵پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں۔ یقیناً تمہارا رب ان سب کو اکٹھا کرے گا، وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی۔ ۱۶ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۸-بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ’’برج‘‘ کا لفظ اصطلاحاً اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کی طرف ہے۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔

۹-یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح سارا عالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس نا پیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈار بنا کر نہیں رکھ دیا بلکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیمِ  اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال درجے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے، اَلَّذی ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شی ءٍ خَلَقَہٗ ’’وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خوب ہی بنائی‘‘۔

۱۰-یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اُسی طرح شیاطینِ جِنّ بھی اِسی خطّے میں مقید ہیں، عالمِ  بالا تک اُن کی رسائی نہیں ہے۔ اِس سے دراصل لوگوں کی اُس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریّت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہر گز نہیں دی گئی ہے۔

۱۱-یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی مدد سے بہت سے کاہن، جوگی، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں، اُن کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں۔ وہ کچھ سُن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی ساخت انسانوں کی بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے، لیکن فی الواقع اُن کے پلّے کچھ پڑتا نہیں ہے۔

۱۲- ’’شہابِ  مبین‘‘ کے لغوی معنی ’’شعلۂ روشن‘‘ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ‘‘۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحاً شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں، مثلاً کائناتی شعاعیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصب شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔ اِس سے کچھ اُن ’’محفوظ قلعوں‘‘ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی فضا میں مختلف خِطّوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خِطّے کو دوسرے خِطّوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہابِ  ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں (Meteorites) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ۶۴۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گِر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳۶ ۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس داں اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کو مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو اِن ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے ’’بروج‘‘ (محفوظ قلعوں) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔

۱۳-اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اِس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادرِ مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتات اِس زمین پر اُگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رُک جاتی ہے۔ اِسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت، پھیلاؤ، اٹھان اور نشو نما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نباتات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم، قد، شکل، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شمار کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے۔

۱۴-یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے۔ ہوا، پانی، روشنی، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہر چیز، ہر نوع، ہر جنس، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن، یہ اعتدال، اور یہ تناسب نظر آ رہا ہے۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا؟

۱۵-یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جو ں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی۔

۱۶-یعنی اُس کی حکمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب کو اکٹھا کرے اور اس کا علم سب پر اس طرح حا وی ہے کہ کوئی متنفس اُس سے چھوٹ نہیں سکتا، بلکہ کسی اگلے پچھلے انسان کی خاک کا کوئی ذرّہ بھی اُس سے گم نہیں ہو سکتا۔ اِس لیے جو شخص حیاتِ اُخروی کو مستبعد سمجھتا ہے وہ خدا کی صِفت حکمت سے بے خبر ہے، اور جو شخص حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ ’’ جب مرنے کے بعد ہماری خاک کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہو جائے گا تو ہم کیسے دوبارہ پیدا کیے جائیں گے ‘‘ وہ خدا کی صفتِ علم کو نہیں جانتا۔

 

ترجمہ

 

ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے بنایا۔ ۱۷ اور اس سے پہلے جنّوں کو ہم آگ کی لِپٹ سے پیدا کر چکے تھے۔ ۱۸پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ ’’ میں سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں ۱۹ تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔ ‘‘چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا،سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ ۲۰ربّ نے پوچھا ’’اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟‘‘ اس نے کہا ’’میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تُو نے سڑی ہوئی مٹی کے سُوکھے گارے سے پیدا کیا ہے۔ ‘‘ربّ نے فرمایا ’’اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تُو مردُود ہے، اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے۔ ۲۱‘‘اُس نے عرض کیا ’’میرے ربّ، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جب کہ سب انسان دوبارہ اُٹھائے جائیں گے۔ ‘‘فرمایا ’’اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے۔ ‘‘وہ بولا ’’میرے ربّ، جیسا تُو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں ان کے لیے دلفریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا،۲۲سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تُو نے اِ ن میں سے خالص کر لیا ہو۔ ‘‘فرمایا ’’یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔ ۲۳بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں،۲۴اور ان سب کے لیے جہنّم کی وعید ہے۔ ‘‘ ۲۵یہ جہنّم (جس کی وعید پَیروانِ ابلیس کے لیے کی گئی ہے ) اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ ۲۶ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۱۷-یہاں قرآن اِس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے، جیسا کہ نئے دَور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اُس کی تخلیق کی ابتداء براہِ راست ارضی مادّوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو، یا بالفاظِ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی ہیں متغیر، مُنتِن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اُس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے گے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پُتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر رُوح پھونکی گئی۔

۱۸-سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہو جاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الرحمٰن، حواشی ۱۴ تا ۱۶)۔

۱۹-اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الٰہی کا ایک عکس یا پرتَو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کالبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجوداتِ  ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔

یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعینَ وَاَنْزَلَ فی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدھَِا خَشْیَۃِ اَنْ تُصیبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ’’ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھُرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے ‘‘۔ مگر جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔

یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الٰہی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پا لینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے دراء  الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔

۲۰-تقابل کے لیے سورۂ بقرہ رکوع ۴، سورۂ نساء، رکوع ۱۸، اور سورۂ اعراف، رکوع ۲، پیشِ نظر رہے۔ نیز ہمارے اُن حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے جو اِن مقامات پر لکھے گئے ہیں۔

۲۱-یعنی قیامت تک تو ملعون رہے گا، ا سکے بعد جب روزِ جزا قائم ہو گا تو پھر تجھے تیری نافرمانیوں کی سزا دی جائے گی۔

۲۲-یعنی جس طرح تُو نے اِس حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ تیرا حکم نہ مانوں، اسی طرح اب میں ان انسانوں کے لیے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اُس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے۔ بالفاظِ دیگر ابلیس کا مطلب یہ تھا کہ مَیں زمین کی زندگی اور اُس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد و منافع کو انسان کے لیے ایسا خوشنما بنا دوں گا کہ وہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بھول جائیں گے اور خود تجھے بھی یا تو فراموش کر دیں گے، یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیرے احکام کی خلاف ورزیاں کریں گے۔

۲۳-ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقیمٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک معنی وہ ہیں جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیے ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ھٰذَا طَریقٌ حَقٌّ عَلَیَّ اَنْ اُرَ اعیہٗ، یعنی یہ بات درست ہے، میں بھی اس کا پابند رہوں گا۔

۲۴- ’’اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہو گا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھنسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔

دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا نہ ہو گا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے۔

۲۵-اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔

اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔

تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔

(اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱)۔

۲۶-جہنم کے یہ دروازے اُن گمراہیوں اور معصیتوں کے لحاظ سے ہیں جن پر چل کر آدمی اپنے لیے دوزخ کی راہ کھولتا ہے۔ مثلاً کوئی دہریّت کے راستے سے دوزخ کی طرف جاتا ہے، کوئی شرک کے راستہ سے، کوئی نفاق کے راستہ سے، کوئی نفس پرستی اور فسق و فجور کے راستہ سے، کوئی ظلم و ستم اور خلق آزاری کے راستہ سے، کوئی تبلیغِ ضلالت اور اقامتِ کفر کے راستہ سے، اور کوئی اشاعتِ فحشاء و منکر کے راستہ سے۔

 

ترجمہ

 

بخلاف اِس کے متقی لوگ ۲۷ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ اُن میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔  اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہو گی اسے ہم نکال دیں گے، ۲۸ وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ اُنہیں نہ وہاں کسی مشقّت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ ۲۹ اَے نبی ؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں۔ مگر اِس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے۔ اور انہیں ذرا ابراہیمؑ کے مہمانوں کا قصّہ سُناؤ۔ ۳۰ جب وہ آئے اُس کے ہاں اور کہا ’’سلام ہو تم پر‘‘ تو اُس نے کہا ’’ ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘ ۳۱اُنہوں نے جواب دیا ’’ ڈرو نہیں، ہم تمہیں ایک بڑے سیانے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔ ‘‘ ۳۲ابراہیم ؑ نے کہا ’’ کیا تم اِس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو؟ ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہے ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا ’’ ہم تمہیں جو بشارت دے رہے ہیں، تم مایوس نہ ہو۔ ‘‘ابراہیم ؑ نے کہا ’’اپنے ربّ کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ ‘‘پھر ابراہیم ؑ نے پوچھا ’’اے فرستادگانِ الٰہی، وہ مہم کیا جس پر آپ حضرات تشریف لائے ہیں؟‘‘ ۳۳وہ بولے ’’ ہم ایک مُجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ۳۴صرف لُوط ؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، ان سب کو ہم بچا لیں گے، سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے مقدر کر دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی۔ ‘‘ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۲۷-یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیّت کی زندگی بسر کی ہو۔

۲۸-یعنی نیک لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ کدورتیں پیدا ہو گئی ہوں گی تو جنّت میں داخل ہونے کے وقت وہ دور ہو جائیں گی اور ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف کر دیے جائیں گے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف۔ حاشیہ نمبر ۳۲)۔

۲۹-اِس کی تشریح اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور نے خبر دی ہے کہ یقال لا ھل الجنۃ ان لکم ان تصحو ا ولا تمرضو ا ابدًا، و ان لکم ان تعیشو ا فلا تمو تو ا ا بدا، و ان لکم ان تشبّو ا ولا تھر مو ا ابدًا، و ان لکم ان تقیمو ا فلا تظعنو ا ابدًا۔ یعنی ’’اہلِ جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی موت تم کو نہ آئے گی۔ اور اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا۔ اور اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہو گی‘‘۔ اس کی مزید تشریح اُن آیات و احادیث سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں انسان کو اپنی معاش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی، سب کچھ اُسے بلا سعی و مشقت ملے گا۔

۳۰-یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلاً قوم لوط کا قصہ جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اُس کو سمجھنے کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ آیات ۷ -۸ میں کفارِ  مکّہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ’’اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کے لے کیوں نہیں آتے ؟‘‘ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اِس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ’’فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں‘‘۔ اب اُس کا مفصل جواب یہاں اِن دونوں قصّوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ’’حق‘‘ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قومِ لوط پر پہنچے تھے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس اِن میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آ سکتے ہیں۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ تم نہیں ہو۔ اب کیا اُس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قومِ لوط کے ہاں نازل ہوئے تھے ؟

۳۱-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ہود، رکوع ۷ مع حواشی

۳۲-یعنی حضرت اسحاق ؑ کے پیدا ہونے کی بشارت، جیسا کہ سورۂ ہود میں بصراحت بیان ہو ا ہے۔

۳۳-حضرت ابراہیم ؑ کے اس سوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا ہمیشہ غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اور کوئی بڑی مہم ہی ہوتی ہے جس پر وہ بھیجے جاتے ہیں۔

۳۴-اشارے کا یہ اختصار صاف بتا رہا ہے کہ قومِ لوط کے جرائم کا پیمانہ اس وقت اتنا لبریز ہو چکا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے باخبر آدمی کے سامنے اس کا نام لینے کی قطعاً ضرورت نہ تھی، بس ’’ایک مجرم قوم‘‘ کہہ دینا بالکل کافی تھا۔

 

ترجمہ

 

پھر جب یہ فرستادے لُوط ؑ کے ہاں پہنچے ۳۵ تو اُس نے کہا ’’آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں‘‘ ۳۶ اُنہوں نے جواب دیا ’’نہیں، بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے آنے میں یہ لوگ شک کر رہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں،لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ ۳۷ تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۔ ۳۸ بس سیدھے چلے جاؤ جِدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔ ‘‘اور اُسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے اِن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ اتنے میں شہر کے لوگ خوشی کے مارے بے تاب ہو کر لُوط ؑ کے گھر چڑھ آئے۔ ۳۹لوط ؑ نے کہا ’’بھائیو، یہ میرے مہمان ہیں، میری فضیحت نہ کرو،اللہ سے ڈرو، مجھے رُسوا نہ کرو۔ ‘‘وہ بولے ’’کیا ہم بارہا تمہیں منع نہیں کر چکے ہیں کہ دُنیا بھر کے ٹھیکیدار نہ بنو۔ ‘‘لوط ؑ نے عاجز ہو کر کہا ’’ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں!‘‘ ۴۰تیری جان کی قسم اے نبی ؐ، اُس وقت اُن پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔ آخرِ کار پو پھٹتے ہی اُن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا اور ہم نے اُس بستی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی۔ ۴۱اِس واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو صاحبِ فراست ہیں۔ اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) گزر گاہِ عام پر واقع ہے، ۴۲اُس میں سامانِ عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو صاحبِ ایمان ہیں۔ اور اَیکہ ۴۳ والے ظالم تھے، تو دیکھ لو کہ ہم نے بھی اُن سے انتقام لیا، اور ان دونوں قوموں کے اُجڑے ہوئے علاقے کھُلے راستے پر واقع ہیں۔ ۴۴ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۳۵-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۰ و سورۂ ہود رکوع ۷۔

۳۶-یہاں بات مختصر بیان کی گئی ہے۔ سورۂ ہود میں اس کی تفصیل یہ دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے آنے سے حضرت لوط بہت گھبرائے اور سخت دل تنگ ہوئے اور اُن کو دیکھتے ہی اپنے دل میں کہنے لگے کہ آج بڑا سخت وقت آیا ہے۔ اس گھبراہٹ کی وجہ جو قرآن کے بیان سے اشارۃً اور روایات سے صراحۃً معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ فرشتے نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط ؑ کے ہاں پہنچے تھے۔ اور حضرت لوطؑ اپنی قوم کی بدمعاشی سے واقف تھے، اس لیے آپ سخت پریشان ہوئے کہ آئے ہوئے مہمانوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکتا، اور انہیں اِن بدمعاشوں سے بچانا بھی مشکل ہے۔

۳۷-یعنی اس غرض سے اپنے گھر والوں کے پیچھے چلو کہ ان میں سے کوئی ٹھیرنے نہ پائے۔

۳۸-اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جاؤ گے، جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شور و غُل سن کر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھیر جانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے، اورنہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذَّب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کچھ گزند پہنچ جائے۔

۳۹-اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آ جانا اِس بات کے لیے کافی تھا کہ اُس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم اُمنڈ آئے اور علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کر دے۔ اُن کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اُٹھاتا، اور نہ اُن کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی۔ حضرت لوط جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہو گا۔

تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں اُن کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہو گا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عَیلامی مسافر اُن کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ راستہ میں شام ہو گئی اور اسے مجبوراً ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زادِ راہ تھا۔ کسی سے اُس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اُتر گیا۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اُٹھا کر اُسے اپنے گھر لے گیا۔ رات اُسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اُس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔ اس نے شور مچایا۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اُس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اُسے نکال باہر کیا۔

ایک مرتبہ حضرت سارہ نے حضرت لوط کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزِر نے اُسے شرم دلائی کہ تم بے کس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سر بازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔

ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے اُن کے شہر میں آیا اور کسی نے اُسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ حضرت لوط کی بیٹی نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوط اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اِن حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔

اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اُس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو بر سرِ عام لوٹ لیے جاتے اور اُن کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بد کاریاں کرتے تھے اور ایک لوط کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰ تِ۔ (وہ پہلے سے بہت بُرے بُرے کام کر رہے تھے ) اور اَ ءِ نَّکُمْ لَتَا ْ تُوْ نَ الرِّجَالَ و َ تَقْطَعُوْ نَ السَّبیلَ وَتَاْ تُوْ نَ فی نَا دیکُمُ الْمُنْکَرَ (تم مَردوں سے خواہشِ نفس پوری کرتے ہو، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بد کاریاں کرتے ہو؟)

۴۰-اس کی تشریح سورۂ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آ چکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اُس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔

اِ س موقع پر ایک بات کو صاف کر دینا ضروری ہے۔ سورۂ ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اُس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط کو بدمعاشوں کے اِس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ اُن کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں۔ وہ اُس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آ کر ٹھیرے ہیں۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اُس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پِل پڑا اور حضرت لوط نے تڑپ کر فرمایا لَوْ اَنَّ لی بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰ ویٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدیدٍ (کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا)۔ اس کے بعد فرشتوں نے اُن سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں اِن سے نمٹنے کے لیے چھو ڑ دو۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آ کر فرمائے تھے۔ اِس سورے میں چونکہ واقعات کو اُن کی ترتیبِ وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے، بلکہ اُس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کر نا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے، اِس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے اُن کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی۔

۴۱-یہ پکی ہوئی مٹی کے پتھر ممکن ہے کہ شہابِ ثاقب کی نوعیت کے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آتش فشانی انفجار (Volcanic eruption) کی بدولت زمین سے نکل کر اُڑے ہوں اور پھر اُن پر بارش کی طرح برس گئے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سخت آندھی نے یہ پتھراؤ کیا ہو۔

ترجمہ

 

۴۲-یعنی حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے یہ تباہ شدہ علاقہ راستہ میں پڑتا ہے اور عموماً قافلوں کے لوگ تباہی کے اُن آثار کو دیکھتے ہیں جو اس پورے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں۔ یہ علاقہ بحرِ لوط (بحیرۂ مردار کے مشرق اور جنوب میں واقع ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس کے جنوبی حصّے کے متعلق جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ یہاں اِس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔

۴۳-یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ۔ اس قوم کا نام بنی مدیان تھا۔ مَدْیَن اُن کے مرکزی شہر کو بھی کہتے تھے اور اُن کے پورے علاقے کو بھی۔ رہا اَیکہ، تو یہ تبوک کا قدیم نام تھا۔ اس لفظ کے لغوی معنی گھنے جنگل کے ہیں۔ آج کل اَیکہ ایک پہاڑی نالے کا نام ہے جو جبل اللَّوز سے وادی اَفَل میں آ کر گرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء، حاشیہ نمبر ۱۱۵)۔

۴۴-مدین ا ور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی حجاز سے فلسطین و شام جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔

 

تفسیر

ترجمہ

 

حِجر ۴۵ کے لوگ بھی رسُولوں کی تکذیب کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنی آیات اُن کے پاس بھیجیں، اپنی نشانیاں اُن کو دِکھائیں مگر وہ سب کو نظر انداز ہی کرتے رہے وہ پہاڑ تراش تراش کر مکان بناتے تھے اور اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن تھے۔ آخرِ کار ایک زبر دست دھماکے نے اُن کو صبح ہوتے آ لیا اور اُن کی کمائی اُن کے کچھ کام نہ آئی۔ ۴۶ہم نے زمین اور آسمان کو اور اُن کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بُنیاد پر خلق نہیں کیا ہے، ۴۷ اور فیصلے کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے، پس اے محمد ؐ، تم (اِن لوگوں کی بے ہودگیوں پر) شریفانہ درگزر سے کام لو۔ یقیناً تمہارا ربّ سب کا خالق ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ ۴۸ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں ۴۹ اور تمہیں قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔ ۵۰تم اس متاعِ دُنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کُڑھاؤ۔ ۵۱ انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھُکو اور (نہ ماننے والوں سے )کہہ دو کہ میں تو صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہوں۔  یہ اُسی طرح کی تنبیہ ہے جیسی ہم نے اُن تفرقہ پردازوں کی طرف بھیجی تھی جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۔ ۵۲تو قسم ہے تیرے ربّ کی، ہم ضرور ان سے پوچھیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ پس اے نبی ؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اُسے ہانکے پُکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو۔ تمہاری طرف سے ہم اُن مذاق اُڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی خُدا قرار دیتے ہیں۔ عنقریب اُنہیں معلوم ہو جائے گا۔  ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں اُن سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔  اُس کا علاج یہ ہے کہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، اُس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ، اور اُس آخری گھڑی تک اپنے ربّ کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے ۵۳۔ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۴۵-یہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العُلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’یہاں سُرخ رنگ کے پہاڑوں میں قومِ ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ اُن کے نقش و نگار اِس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷)

۴۶-یعنی اُن کے سنگین مکانات جو اُنہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر اُن کے اندر بنائے تھے ان کی کچھ بھی حفاظت نہ کر سکے۔

۴۷-یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تسکین و تسلّی کے لیے فرمائی جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آ رہا ہے، اس سے گھبراؤ نہیں۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے۔ اِس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲۶ – ۳۵ تا ۳۹)۔

۴۸-یعنی خالق ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی مخلوق پر کامل غلبہ و تسلط رکھتا ہے، کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکے۔ اور اِس کے ساتھ وہ پوری طرح باخبر بھی ہے، جو کچھ اِن لوگوں کی اصلاح کے لیے تم کر رہے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے یہ تمہاری سعیِ اصلاح کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اُن کا بھی اسے علم ہے۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور بے صبر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مطمئن رہو کہ وقت آنے پر ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ چکا دیا جائے گا۔

۴۹-یعنی سورۂ فاتحہ کی آیات۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں، یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور یونس، یا انفاق و توبہ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورۂ فاتحہ ہی مراد ہے۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خو د نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سبع من المثانی سے مراد سورۂ فاتحہ بتائی ہے۔

۵۰-یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آ پ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب حضور ؐ اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ کارِ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضورؐ کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو چکا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضورؐ سمیت تمام مسلمان مکّے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مطعون تھے، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیّتوں سے بھی کوئی بچا ہو ا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارانِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ اُن لوگوں کی مادّی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طرح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اُڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔

۵۱- ’’یعنی اُن کے اِس حال پر نہ کُڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں، خود اُس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کو اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے، اور جو شخص اِنہیں سلامتی کی راہ دکھا رہا ہے اُس کی سعیِ اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں۔

۵۲-اس گروہ سے مراد یہود ہیں۔ ان کو مُقْتَسِمین اس معنی میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا، اس کی بعض باتوں کو مانا، اور بعض کو نہ مانا، اور اس طرح طرح کی کمی و بیشی کر کے بیسیوں فرقے بنا لیے۔ ان کے ’’قرآن‘‘ سے مراد توراۃ ہے جو ان کو اُسی طرح دی گئی تھی جس طرح اُمتِ محمدیہ کو قرآن دیا گیا ہے۔ اور اس ’’قرآن‘‘ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے سے مراد وہی فعل ہے جسے سورۂ بقرہ آیت ۸۵ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (کیا تم کتاب اللہ کی بعض باتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟)۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ تنبیہ جو آج تم کو کی جا رہی ہے یہ ویسی ہی تنبیہ ہے جیسی تم سے پہلے یہود کو کی جا چکی ہے، تو اس سے مقصود در اصل یہود کے حال سے عبرت دلانا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے خدا کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے غفلت برت کر جو انجام دیکھا ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب سو چ لو، کیا تم بھی یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟

۵۳-یعنی تبلیغِ  حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے۔ یہی چیز تمہیں تسلّی بھی دے گی، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی، اور تم کو اس قابل بھی بنا دے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اُس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجام دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

۱۶۔ النحل

 

نام

 

آیت ۶۸ کے فقرے "و اوحیٰ ربک الی النحل” سے ماخوذ ہے۔ النحل کے معنی شہد کی مکھی ہے . یہ بھی محض علامت ہے نہ کہ موضوعِ بحث کا عنوان۔

 

زمانۂ نزول

 

متعدد اندرونی شہادتوں سے اس کے زمانۂ نزول پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً، آیت ۴۱ کے فقرے "والذین ھاجرو فی اللہ من بعد ما ظلموا” سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرتِ حبشہ واقع ہو چکی تھی۔

آیت ۱۰۶ "من کفر باللہ من بعد ایمانہ” سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ ہو رہا تھا اور یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی شخص ناقابل برداشت اذیت سے مجبور ہو کر کلمۂ کفر کہہ بیٹھے تو اس کا کیا حکم ہے۔

آیات ۱۱۲ تا ۱۱۴ کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد مکہ میں جو زبردست قحط رونما ہوا تھا وہ اس سورت کے نزول کے وقت ختم ہو چکا تھا۔

اس سورت میں آیت ۱۱۵ ایسی ہے جس کا حوالہ سورۂ انعام آیت ۱۱۹ میں دیا گیا ہے اور دوسری طرف آیت نمبر ۱۱۸ ایسی ہے جس میں سورۂ انعام کی آیت ۱۴۶ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں سورتوں کا نزول قریب العہد ہے۔

ان شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورت کا زمانۂ نزول بھی مکے کا آخری دور ہی ہے اور اسی کی تائید سورت کے عام اندازِ بیاں سے بھی ہوتی ہے۔

 

موضوع اور مرکزی مضمون

 

شرک کا ابطال، توحید کا اثبات، دعوتِ پیغمبر کو نہ ماننے کے برے نتائج پر تنبیہ و فہمائش اور حق کی مخالفت و مزاحمت پر زجر و توبیخ۔

 

مباحث

 

سورت کا آغاز بغیر کسی تمہید کے یک لخت ایک تنبیہی جملے سے ہوتا ہے۔ کفار مکہ بار بار کہتے تھے کہ "جب ہم تمہیں جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کر رہے ہیں تو آخر وہ خدا کا  عذاب آ کیوں نہیں جاتا جس کی تم ہمیں دھمکیاں دیتے ہوں "۔ اس بات کو وہ بالکل تکیۂ کلام کی طرف اس لیے دہراتے تھے کہ ان کے نزدیک یہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغمبر نہ ہونے کا سب سے زیادہ صریح ثبوت تھا۔ اس پر فرمایا کہ بیوقوفو! خدا کا عذاب تو تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے، اب اس کے ٹوٹ پڑنے کے لیے جلدی نہ مچاؤ بلکہ ذرا سی مہلت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد فوراً تفہیم کی تقریر شروع ہو جاتی ہے اور حسبِ ذیل مضامین بار بار یکے بعد دیگرے سامنے آنے شروع ہوتے ہیں :

۱. دل لگتے دلائل اور آفاق و انفُس کے آثار کی کھلی کھلی شہادتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ شرک باطل ہے اور توحید ہی حق ہے۔

۲. منکرین کے اعتراضات، شکوک، حجتوں اور حیلوں کا ایک ایک کر کے جواب دیا جاتا ہے۔

۳. باطل پر اصرار اور حق کے مقابلے میں استکبار کے برے نتائج سے ڈرایا جاتا ہے۔

۴. ان اخلاقی اور عملی تغیرات کو مجمل مگر دل نشیں انداز سے بیان کیا جاتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لایا ہوا دین انسانی زندگی میں لانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں مشرکین کو بتایا جاتا ہے کہ خدا کو رب ماننا، جس کا انہیں دعویٰ تھا، محض خالی خولی مان لینا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے کچھ تقاضے بھی رکھتا ہے جو عقائد، اخلاق اور عملی زندگی میں نمودار ہونے چاہییں۔

۵. نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کفار کی مزاحمتوں اور جفا کاریوں کے مقابلے میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

 

ترجمہ

 

آگیا اللہ کا فیصلہ،۱ اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ، پاک ہے وہ اور بالا و بر تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ ۲ وہ اِس روح ۳ کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے ۴ (اِس ہدایت کے ساتھ کے لوگوں کو) ’’آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔ ‘‘ ۵اُس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ۶اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بُوند سے پیدا کیا اور دیکھتے دیکھتے صریحاً وہ ایک جھگڑالُو ہستی بن گیا۔ ۷اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دُوسرے فائدے بھی۔ اُن میں تمہارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انہیں چَرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ وہ تمہارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے ایسے مقامات تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔ اُس نے گھوڑے اور خچّر اور گدھے پیدا کیے تا کہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں۔ وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے ) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ ۸اور اللہ ہی کے ذمّہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ ۹ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا ۱۰۔ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱- یعنی بس وہ آیا ہی چاہتا ہے۔ اُس کے ظہور و نفاذ کا وقت قریب آ لگا ہے۔۔۔۔۔ اس بات کو صیغۂ ماضی میں یا تو اس کے انتہائی یقینی اور انتہائی قریب ہونے کا تصور دلانے کے لیے فرمایا گیا، یا پھر اس لیے کہ کفار قریش کی سرکشی و بد عملی کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور آخری فیصلہ کُن قدم اُٹھائے جانے کا وقت آگیا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’فیصلہ‘‘ کیا تھا اور کس شکل میں آیا؟ ہم یہ سمجھتے ہیں (اللہ اعلم بالصواب) کہ اس فیصلے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکہ سے ہجرت ہے جس کا حکم تھوڑی مدت بعد ہی دیا گیا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی جن لوگوں کے درمیان مبعوث ہوتا ہے اُن کے حجُود و انکار کی آخری سرحد پر پہنچ کر اُسے ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے اور یہ حکم اُن کی قسمت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد یا تو اُن پر تباہ کُن عذاب آ جاتا ہے، یا پھر نبی اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہی بات تاریخ سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہجرت جب واقع ہوئی تو کفارِ مکہ سمجھے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ مگر آٹھ دس سال کے اندر ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ صرف مکّے سے بلکہ پوری سرزمین عرب ہی سے کفر و شرک کی جڑیں اکھاڑ پھینک دی گئیں۔

۲- پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کا باہمی ربط سمجھنے کے لیے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کفار جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بار بار چیلنج کر رہے تھے کہ اب کیوں نہیں آ جاتا خدا کا وہ فیصلہ جس کے تم ہمیں ڈراوے دیا کرتے ہو، اس کے پیچھے دراصل ان کا یہ خیال کار فرما تھا کہ اُن کا مشرکانہ مذہب ہی بر حق ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) خواہ مخواہ اللہ کا نام لے لے کر ایک غلط مذہب پیش کر رہے ہیں جسے اللہ کی طرف سے کوئی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ سے پھرے ہوئے ہوتے اور محمدؐ اس کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے اور پھر بھی جو کچھ ہم ان کے ساتھ کر رہے ہیں اُس پر ہماری شامت نہ آ جاتی۔ اس لیے خدائی فیصلے کا اعلان کرتے ہی فوراً یہ ارشاد ہوا ہے اس کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ ہر گز وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ اللہ اس سے بلند تر اور پاکیزہ تر ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔

۳- یعنی روحِ  نبوت کو جس سے بھر کر نبی کام اور کلام کرتا ہے۔ یہ وحی اور یہ پیغمبرانہ اسپرٹ چونکہ اخلاقی زندگی میں وہی مقام رکھتی ہے جو طبعی زندگی میں روح کا مقام، اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کے لیے روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اِسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیوں نے روح القدس (Holy Spirit) کو تین خداؤں میں سے ایک خدا بنا ڈالا۔

۴- فیصلہ طلب کر نے کے لیے کفار جو چیلنج کر رہے تھے اس کے پس پشت چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا انکار بھی موجود تھا، اس لیے شرک کی تردید کے ساتھ اور اس کے معاً بعد آپ کی نبوت کا اثبات فرمایا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بناوٹی باتیں ہیں جو یہ شخص بنا رہا ہے۔ اللہ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ نہیں، یہ ہماری بھیجی ہوئی روح ہے جس سے لبریز ہو کر یہ شخص نبوت کر رہا ہے۔

پھر یہ جو فرمایا کہ اپنے جس بندے پر اللہ چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، تو یہ کفار اُن اعتراضات کا جواب ہے جو وہ حضور پر کرتے تھے کہ اگر خدا کو نبی ہی بھیجنا تھا تو کیا بس محمدؐ بن عبداللہ ہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا، مکّے اور طائف کے سارے بڑے بڑے سردار مر گئے تھے کہ ان میں سے کسی پر بھی نگاہ نہ پڑ سکی! اس طرح کے بیہودہ اعتراضات کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا، اور یہی متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے کہ خدا اپنے کام کو خود جانتا ہے، تم سے مشورہ لینے کی حاجت نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں جس کو مناسب سمجھتا ہے آپ ہی اپنے کام کے لیے منتخب کر لیتا ہے۔

۵- اس فقرے سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ رُوحِ نبوت جہاں جس انسان پر بھی نازل ہوئی ہے یہی ایک دعوت لے کر آئی ہے کہ خدائی صرف ایک اللہ کی ہے اور بس وہی اکیلا اِس کا مستحق ہے کہ اس سے تقویٰ کیا جائے۔ کوئی دوسرا ا س لائق نہیں کہ اس کی ناراضی کا خوف، اس کی سزا کا ڈر، اور اس کی نافرمانی کے نتائج بد کا اندیشہ انسانی اخلاق کا لنگر اور انسانی فکر و عمل کے پورے نظام کا محور بن کر رہے۔

۶- دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات جس کی دعوت خدا کے پیغمبر دیتے ہیں، اسی کی شہادت زمین و آسمان کا پورا کارخانۂ تخلیق دے رہا ہے۔ یہ کارخانۂ کوئی خیالی گورکھ دھندا نہیں ہے، بلکہ ایک سراسر مبنی بر حقیقت نظام ہے۔ اس میں تم جس طرف چاہو نگاہ اُٹھا کر دیکھ لو، شرک کی گواہی کہیں سے نہ ملے گی، اللہ کے سوا دوسرے کی خدائی کہیں چلتی نظر نہیں آئے گی، کسی چیز کی ساخت یہ شہادت نہ دے گی کہ اس کا وجود کسی اور کا بھی رہینِ منت ہے۔ پھر جب یہ ٹھوس حقیقت پر بنا ہوا نظام خالص توحید پر چل رہا ہے تو آخر تمہارے اِس شرک کا سکہ کس جگہ رواں ہو سکتا ہے جبکہ اس کی تہ میں وہم و گمان کے سوا واقعیت کا شائبہ تک نہیں ہے ؟۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد آثارِ کائنات سے اور خود انسان کے اپنے وجود سے وہ شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طرف توحید پر اور دوسری طرف رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔

۷- اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے نطفے کی حقیر سی بوند سے وہ انسان پیدا کیا جو بحث و استدلال کی قابلیت رکھتا ہے اور اپنے مدّعا کے لیے حجتیں پیش کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس انسان کو خدا نے نطفے جیسی حقیر چیز سے پیدا کیا ہے، اس کی خودی کا طغیان تو دیکھو کہ وہ خود خدا ہی کے مقابلہ میں جھگڑنے پر اُتر آیا ہے۔ پہلے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت اُسی استدلال کی ایک کڑی ہے جو آگے مسلسل کئی آیتوں میں پیش کیا گیا ہے (جس کی تشریح ہم اس سلسلۂ بیان کے آخر میں کریں گے )۔ اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ آیت انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے سے پہلے ذرا اپنی ہستی کو دیکھ۔ کس شکل میں تو کہاں سے نکل کہاں پہنچا، کس جگہ تو نے ابتداء ً پرورش پائی، پھر کس راستے سے تو برآمد ہو کر دنیا میں آیا، پھر کن مرحلوں سے گزرتا ہوا تُو جوانی کی عمر کو پہنچا اور اب اپنے آپ کو بھول کر تُو کس کے منہ آ رہا ہے۔

۸- یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خُدّام اُس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

۹- توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃً نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے :

دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملاً موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریۂ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اُس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریۂ حیات پر مبنی ہو۔

اس صحیح نظریے اور صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔

اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سرو سامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا اِتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اِتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اِس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہو گا؟

یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے ؟ اِس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہِ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اِس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشو نما کا اِتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن، حاشیہ نمبر ۲ – ۳)۔

۱۰- یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس ذمہ داری کو (جو نوع انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے ) اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کے مانند بر سر ہدایت بنا دیتا۔ لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔ اُس کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط، ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی ہو۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو علم کے ذرائع دیے گئے، عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں، خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں، اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے، اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت اور ضلالت، دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے معنی ہو جاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو بنا دیا جاتا۔ اور ترقی کے اُن بلند مدارج تک بھی انسان کا پہنچنا ممکن نہ رہتا جو صرف آزادی کے صحیح استعمال ہی کے نتیجے میں اس کو مل سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لیے جبری ہدایت کا طریقہ چھوڑ کر رسالت کا طریقہ اختیار فرمایا تا کہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہِ راست بھی معقول ترین طریقہ سے اس کے سامنے پیش کر دی جائے۔

 

ترجمہ

 

وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اُگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دُوسرے پھل پیدا کرتا ہے۔ اِس میں ایک بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ اُس نے تمہاری بھلائی کے لیے رات اور دن کو اور سُورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے اور سب تارے بھی اُسی کے حکم سے مسخّر ہیں۔ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔  اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی چیزیں اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا کر رکھی ہیں، اِن میں بھی ضرور نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو سبق حاصل کرنے والے ہیں۔  وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخّر کر رکھا ہے تا کہ تم اس سے تر و تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو ۱۱ اور اس کے شکر گزار بنو۔ اُس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھُلک نہ جائے۔ ۱۲ اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے ۱۳ تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ اس نے زمین میں راستہ بتانے والی علامتیں رکھ دیں،۱۴ اور تاروں سے بھی لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ ۱۵پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟۱۶ کیا تم ہوش میں نہیں آتے ؟اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے، ۱۷حالانکہ وہ تمہارے کھُلے سے بھی واقف ہے اور چھُپے سے بھی۔ ۱۸اور وہ دُوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مُردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کر کے ) اُٹھایا جائے گا۔ ۱۹ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۱- یعنی حلال طریقوں سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

۱۲- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکتِ  زمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط (Regulate) کرنا ہے۔

۱۳- یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں۔

۱۴- یعنی خدا نے ساری زمین بالکل یکساں بنا کر نہیں رکھ دی ہے بلکہ ہر خطے کو مختلف امتیازی علامات (Landmarks) سے ممتاز کیا۔ اِس کے بہت سے دوسرے فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے راستے ا ور منزل مقصود کو الگ پہچان لیتا ہے۔ اس نعمت کی قدر آدمی کو اسی وقت معلوم ہوتی ہے جبکہ اسے کبھی ایسے ریگستانی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو جہاں اس طرح کے امتیازی نشانات تقریباً مفقود ہوتے ہیں اور آدمی ہر وقت بھٹک جانے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بحری سفر میں آدمی کو اس عظیم الشان نعمت کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ وہاں نشاناتِ راہ بالکل ہی مفقود ہوتے ہیں۔ لیکن صحراؤں اور سمندروں میں بھی اللہ نے انسان کی رہنمائی کا ایک فطری انتظام کر رکھا ہے اور وہ ہیں تارے جنہیں دیکھ دیکھ کر انسان قدیم ترین زمانے سے آج تک اپنا راستہ معلوم کر رہا ہے۔

یہاں پھر توحید اور رحمت و ربوبیت کی دلیلوں کے درمیان ایک لطیف اشارہ دلیلِ  رسالت کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اس مقام کو پڑھتے ہوئے ذہن خود بخود اس مضمون کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ جس خدا نے تمہاری مادّی زندگی میں تمہاری رہنمائی کے لیے یہ کچھ انتظامات کیے ہیں کیا وہ تمہاری اخلاقی زندگی سے اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ یہاں تمہاری ہدایت کا کچھ بھی انتظام نہ کرے ؟ ظاہر ہے کہ مادّی زندگی میں بھٹک جانے کا بڑے سے بڑا نقصان بھی اخلاقی زندگی میں بھٹکنے کے نقصان سے بدرجہا کم ہے۔ پھر جس ربِّ رحیم کو ہماری مادّی فلاح کی اتنی فکر ہے کہ پہاڑوں میں ہمارے لیے راستے بناتا ہے، میدانوں میں نشاناتِ راہ کھڑے کرتا ہے، صحراؤں اور سمندروں میں ہم کو صحیح سمتِ سفر بتانے کے لیے آسمانوں پر قندیلیں روشن کرتا ہے، اس سے یہ بدگمانی کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس نے ہماری اخلاقی فلا ح کے لیے کوئی راستہ نہ بنایا ہو، اس راستے کو نمایاں کر نے کے لیے کوئی نشان نہ کھڑا کیا ہو گا، اور اُسے صاف صاف دکھانے کے لیے کوئی سراج منیر روشن نہ کیا ہو گا؟

۱۵- یہاں تک آفاق اور اَنفُس کی بہت سی نشانیاں جو پے در پے بیان کی گئی ہیں ان سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین اور آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے، ہر چیز پیغمبر کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے اور کہیں سے بھی شرک کی۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ دہریت کی بھی۔۔۔۔۔۔ تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی۔ یہ ایک حقیر بوند سے بولتا چلتا اور حجّت و استدلال کرتا انسان بنا کھڑا کرنا۔ یہ اُس کی ضرورت کے عین مطابق بہت سے جانور پیدا کرنا جن کے بال اور کھال، خون اور دودھ، گوشت اور پیٹھ، ہر چیز میں انسانی فطرت کے بہت سے مطالبات کا، حتیٰ کہ اس کے ذوق جمال کی مانگ تک کا جواب موجود ہے۔ یہ آسمان سے بارش کا انتظام، اور یہ زمین میں طرح طرح کے پھلوں اور غلّوں اور چاروں کی روئیدگی کا انتظام، جس کے بے شمار شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کھاتے چلے جاتے ہیں اور پھر انسان کی بھی فطری ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ یہ رات اور دن کی باقاعدہ آمدو رفت، اور یہ چاند اور سورج اور تاروں کی انتہائی منظم حرکات، جن کا زمین کی پیداوار اور انسان کی مصلحتوں سے اِتنا گہرا ربط ہے۔ یہ زمین میں سمندروں کا وجود اور یہ اُن کے اندر انسان کی بہت سی طبعی اور جمالی طلبوں کا جواب۔ یہ پانی کا چند مخصوص قوانین سے جکڑا ہوا ہونا، اور پھر اس کے یہ فائدے کہ انسان سمندر جیسی ہولناک چیز کا سینہ چیرتا ہوا اس میں اپنے جہاز چلاتا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر اور تجارت کرتا پھرتا ہے۔ یہ دھرتی کے سینے پر پہاڑوں کے اُبھار اور یہ انسان کی ہستی کے لیے اُن کے فائدے۔ یہ سطح زمین کی ساخت سے لے کر آسمان کی بلند فضاؤں تک بے شمار علامتوں اور امتیازی نشانوں کا پھیلاؤ اور پھر اس طرح ان کا انسان کے لیے مفید ہونا۔ یہ ساری چیزیں صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایک ہی ہستی نے یہ منصوبہ سوچا ہے، اُسی نے اپنی منصوبے کے مطابق ان سب کو ڈیزائن کیا ہے، اُسی نے اِ س ڈیزائن کو پیدا کیا ہے، وہی ہر آن اس دنیا میں نِت نئی چیزیں بنا بنا کر اس طرح لا رہا ہے کہ مجموعی اسکیم اور اس نظم میں ذرا فرق نہیں آتا، اور وہی زمین سے لے کر آسمانوں تک اس عظیم الشان کارخانے کو چلا رہا ہے۔ ایک بے وقوف یا ایک ہٹ دھرم کے سوا اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے ؟ یا یہ کہ اس کمال درجۂ منظم، مربوط اور متناسب کائنات کے مختلف کام یا مختلف اجزا مختلف خداؤں کے آفریدہ اور مختلف خداؤں کے زیرِ انتظام ہیں؟

۱۶- یعنی اگر تم یہ مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع کفارِ مکہ بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات کے اندر تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ خالق کے خلق کیے ہوئے نظام میں غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر یا کسی طرح بھی اُس کے مانند ہو؟ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی خلق کی ہوئی کائنات میں جو اختیارات خالق کے ہیں وہی ان غیر خالقوں کے بھی ہوں، اور اپنی مخلوق پر جو حقوق خالق کو حاصل ہیں وہی حقوق غیر خالقوں کو بھی حاصل ہوں؟ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی، یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے، حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہو گا؟

۱۷- پہلے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک پوری داستان ان کہی چھوڑ دی ہے، اس لیے کہ وہ اس قدر عیاں ہے اور اس کے بیا ن کے حاجت نہیں۔ اسکی طرف محض یہ لطیف اشارہ ہی کافی ہے کہ اللہ کے بے پایاں احسانات کا ذکر کرنے معاً بعد اس کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر کر دیا جائے۔ اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جس انسان کا بال بال اللہ کے احسانات میں بندھا ہوا ہے وہ اپنے محسن کی نعمتوں کا جواب کیسی کیسی نمک حرامیوں، بے وفائیوں، غداریوں اور سرکشیوں سے دے رہا ہے، اور پھر اس کا محسن کیسا رحیم اور حلیم ہے کہ ان ساری حرکتوں کے باوجود سالہا سال ایک نمک حرام شخص کو اور صدہا برس ایک باغی قوم کو اپنی نعمتوں سے نوازتا چلا جاتا ہے۔ یہاں وہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو علانیہ خالق کی ہستی ہی کے منکر ہیں اور پھر نعمتوں سے مالا مال ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ بھی پائے جاتے ہیں جو خالق کی ذات، صفات، اختیارات، حقوق، سب میں غیر خالق ہستیوں کو اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں اور منعم کی نعمتوں کا شکریہ غیر منعموں کو ادا کر رہے ہیں، پھر بھی نعمت دینے والا ہاتھ نعمت دینے سے نہیں رُکتا۔ وہ بھی ہیں جو خالق کو خالق اور منعم ماننے کے باوجود اس کے مقابلے میں سرکشی و نافرمانی ہی کو اپنا شیوہ اور اس کی اطاعت سے آزادی ہی کو اپنا مسلک بنائے رکھتے ہیں، پھر مدت العمر اس کے بے حد و حساب احسانات کا سلسلہ اُن پر جاری رہتا ہے۔

۱۸- یعنی کوئی احمق یہ نہ سمجھے کہ انکارِ  خدا اور شرک اور معصیت کے باوجود نعمتوں کا سلسلہ کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کو لوگوں کے کرتوتوں کی خبر نہیں ہے۔ یہ کوئی اندھی بانٹ اور غلط بخشی نہیں ہے کہ جو بے خبری کی وجہ سے ہو رہی ہو۔ یہ تو وہ علم اور درگزر ہے جو مجرموں کے پوشیدہ اسرار بلکہ دل کی چھپی ہوئی نیتوں سے واقف ہونے کے باوجود کیا جا رہا ہے، اور یہ وہ فیاضی و عالی ظرفی ہے جو صرف ربّ العالمین ہی کو زیب دیتی ہے۔

۱۹- یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے، یا جنّ، یا شیاطین، یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ ا س لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآ ءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لا محالہ اس آیت میں اَلَّذینَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء، شہداء، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز، گنج بخش، اور نامعلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیتِ عرب کی تعریف سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل، ربیعہ، کلب، تغلِب، قُضَاعَہ، کِنانہ، حَرث، کعب، کِندَہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے، اور یہ دونوں مذاہب بُری طرح انبیاء اولیاء اور شہدا ء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ بخاری میں ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ ودّ، سُواع، یغوث، یعُوق، نسر، یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بُت بنا بیٹھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات اور مُناۃ اور عُزّیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔ اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزّیٰ اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزّیٰ کے ہاں بسر کرتے تھے۔ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعَالیٰ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔

 

ترجمہ

 

تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں۔ ۲۰ اللہ یقیناً اِن کے سب کرتُوت جانتا ہے چھُپے ہوئے بھی اور کھُلے ہوئے بھی۔ وہ اُن لوگوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا جو غرورِ نفس میں مبتلا ہوں۔ ۲۱ اور جب کوئی ان سے پُوچھتا ہے کہ تمہارے ربّ نے یہ کیا چیز نازل کی ہے، تو کہتے ہیں ’’اجی وہ تو اگلے وقتوں کی فرسُودہ کہانیاں ہیں۔ ‘‘ ۲۲ یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پُورے اُٹھائیں، اور ساتھ ساتھ کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں۔ دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں۔ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۲۰- یعنی آخرت کے انکار نے اُن کو اس قدر غیر ذمہ دار، بے فکر، اور دنیا کی زندگی میں مست بنا دیا ہے کہ اب انہیں کسی حقیقت کا انکار کر دینے میں باک نہیں رہا، کسی صداقت کی ان کے دل میں قدر باقی نہیں رہی، کسی اخلاقی بندش کو اپنے نفس پر برداشت کرنے کے لیے وہ تیار نہیں رہے، اور انہیں یہ تحقیق کرنے کے پروا ہی نہیں رہی کہ جس طریقے پر وہ چل رہے ہیں وہ حق ہے بھی یا نہیں۔

۲۱- یہاں سے تقریر کا رُخ دوسری طرف پھرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں جو شرارتیں کفارِ مکہ کی طرف سے ہو رہی تھیں، جو حُجتیں آپ کے خلاف پیش کی جا رہی تھیں، جو حیلے اور بہانے ایمان نہ لانے کے لیے گھڑے جا رہے تھے، جو اعتراضات آپ پر وارد کیے جا رہے تھے ان کو ایک ایک کر کے لیا جاتا ہے اور ان پر فہمائش، زجر اور نصیحت کی جاتی ہے۔

۲۲- نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے اُن سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اُٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب کفارِ مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے، یا کم از کم اُس کو آپؐ سے آپؐ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے۔

 

ترجمہ

 

اِن سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دِکھانے کے لیے ) ایسی ہی مکّاریاں کر چکے ہیں، تو دیکھ لو کہ اللہ نے اُن کے مکر کی عمارت جڑ سے اُکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اُوپر سے ان کے سر پر آ رہی اور ایسے رُخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا اُن کو گمان تک نہ تھا۔ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا۔ وہ اُن سے کہے گا ’’بتاؤ اب کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے لیے تم (اہلِ حق سے )جھگڑے کیا کرتے تھے ؟‘‘۔۔۔۔ ۲۳ جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ’’آج رُسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لیے۔ ‘‘ہاں،۲۴ اُنہی کافروں کے لیے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں ۲۵ تو (سرکشی چھوڑ کر) فوراً ڈَگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ ہم تو کوئی قصُور نہیں کر رہے تھے۔ ‘‘ ملائکہ جواب دیتے ہیں ’’ کر کیسے نہیں رہے تھے !اللہ تمہارے کرتُوتوں سے خوب واقف ہے۔ اب جاؤ، جہنّم کے دروازوں میں گھُس جاؤ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے۔ ‘‘ ۲۶ پس حقیقت یہی ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہے متکبّروں کے لیے۔ دُوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ بہترین چیز اُتری ہے۔ ‘‘ ۲۷ اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا،دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے، نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اور سب کچھ وہاں عین اُن کی خواہش کے مطابق ہو گا۔ ۲۸ یہ جزا دیتا ہے اللہ متّقیوں کو۔ اُن متّقیوں کو جن کی رُوحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ سلام ہو تم پر، جاؤ جنّت میں اپنے اعمال کے بدلے۔ ‘‘اے محمد ؐ، اب جو یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں تو اِس کے سوا اب اور کیا باقی رہ گیا ہے کہ ملائکہ ہی آ پہنچیں، یا تیرے ربّ کا فیصلہ صادر ہو جائے ؟۲۹ اِس طرح ڈھِٹائی اِن سے پہلے بہت سے لوگ کر چکے ہیں۔ پھر جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ اُن پر اللہ کا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ظلم تھا جو اُنہوں نے خود اپنے اُوپر کیا۔ اُن کے کرتُوتوں کی خرابیاں آخرِ کار اُن کی دامنگیر ہو گئیں اور وُہی چیز اُن پر مسلّط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۲۳- پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑے غور و فکر سے خود بھر سکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ یہ سوال کرے گا تو سارے میدانِ حشر میں ایک سناٹا چھا جائے گا۔ کفار و مشرکین کی زبانیں بند ہو جائیں گی۔ اُن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو گا۔ اس لیے وہ دم بخود رہ جائیں گے اور اہلِ علم کے درمیان آپس میں یہ باتیں ہوں گی۔

۲۴- یعنی جب موت کے وقت ملائکہ ان کی روحیں ان کے جسم سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں۔

۲۵- یہ فقرہ اہلِ علم کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خود بطور تشریح فرما رہا ہے۔ جن لوگوں نے اسے بھی اہلِ علم ہی کا قول سمجھا ہے انہیں بڑی تاویلوں سے بات بنانی پڑی ہے اور پھر بھی بات پوری نہیں بن سکی ہے۔

۲۶- یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت، جس میں قبضِ روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے، قرآن اُن متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب و ثوابِ  قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ’’قبر‘‘ کا لفظ مجازاً عالمِ برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرینِ حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہو گا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہو گا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں۔ اور فوراً سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹ پلاتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ اُن کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے ؟ اسی سے ملتا جُلتا مضمون سورۂ نساء آیت نمبر ۹۷ میں گزر چکا ہے۔ جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانو ں سے قبضِ روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۂ مومن آیت نمبر ۴۵ – ۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ ’’ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیٰحدہ ہو جانے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کے شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا، سب کچھ اُس کیفیت سے مشابہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہو گی۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال، اور پھر اُس کا جنت کی بشارت سننا، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا، یہ سب بھی اُس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہو گا جو حسنِ کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدۂ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ خواب ایک لختِ نفخ صورِ دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدانِ حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْ قَدِنَا (ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا لایا؟) مگر اہلِ ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے ھِذَا مَا وَعَدَ الرَّ حْمٰنُ وَصَدَ قَ الْمُرْسَلُوْنَ (یہ وہی چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچّا تھا)۔ مجرمین کا فوری احساس اُس وقت یہ ہو گا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں (جہاں بستر موت پر اُنہوں نے دنیا میں جان دی تھی) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مگر اہلِ ایمان پورے ثباتِ قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فی کِتَابِ اللہِ  اِلیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اِ س چیز کو جانتے نہ تھے )۔

۲۷- یعنی مکے سے باہر کے لوگ جب خدا سے ڈرنے والے اور راستباز لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو ان کا جواب جھوٹے اور بد دیانت کافروں کے جواب سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ وہ جھوٹا پروپیگنڈا نہیں کرتے۔ وہ عوام کو بہکانے اور غلط فہمیوں میں ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ حضور کی اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی تعریفیں کرتے ہیں اور لوگوں کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں۔

۲۸- یہ ہے جنت کی اصل تعریف۔ وہاں انسان جو کچھ چاہے گا وہی اسے ملے گا اور کوئی چیز اس کی مرضی اور پسند کے خلا ف واقع نہ ہو گی۔ دنیا میں کسی رئیس، کسی امیر کبیر، کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی یہ نعمت کبھی میسر نہیں آئی ہے، نہ یہاں اس کے حصول کا کوئی امکان ہے۔ مگر جنت کے ہر مکین کو راحت و مسرت کا یہ درجۂ کمال کہ اُس کی زندگی میں ہر وقت ہر طرف سب کچھ اس کی خواہش اور پسند کے عین مطابق ہو گا۔ اس کا ہر ارمان نکلے گا۔ اس کی ہر آرزو پوری ہو گی۔ اس کی ہر چاہت عمل میں آ کر رہے گی۔

۲۹- یہ چند کلمے بطورِ  نصیحت اور تنبیہ کے فرمائے جا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک سمجھانے کا تعلق تھا، تم نے ایک ایک حقیقت پوری طرح کھول کر سمجھا دی۔ دلائل سے اس کا ثبوت دے دیا۔ کائنات کے پورے نظام سے اس کی شہادتیں پیش کر دیں۔ کسی ذی فہم آدمی کے لیے شرک پر جمے رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ اب یہ لوگ ایک صاف سیدھی بات کو مان لینے میں کیوں تامُل کر رہے ہیں؟ کیا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کا فرشتہ سامنے آ کھڑا ہو تو زندگی کے آخری لمحے میں مانیں گے ؟ یا خدا کا عذاب سر پر آ جائے تو اس کی پہلی چوٹ کھا لینے کے بعد مانیں گے ؟

 

ترجمہ

 

یہ مشرکین کہتے ہیں ’’ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اُس کے سوا کسی اَور کی عبادت کرتے اور نہ اُس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ ‘‘ ۳۰ ایسے ہی بہانے اِن سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں۔ ۳۱ تو کیا رسُولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سوا اور بھی کوئی ذمّہ داری ہے ہم نے ہر اُمّت میں ایک رسُول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کر دیا کہ ’’ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ ‘‘ ۳۲ اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلّط ہو گئی۔ ۳۳ پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھُٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے ۳۴۔۔۔۔ اَے محمد ؐ، تم چاہے اِن کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو، مگر اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیا کرتا اور اس طرح کے لوگوں کی مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ’’اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اُٹھائے گا‘‘۔۔۔۔ اُٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پُورا کرنا اُس نے اپنے اُوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں، اور منکرینِ حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھُوٹے تھے۔ ۳۵ (رہا اس کا امکان، تو) ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں ’’ہو جا‘‘ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔ ۳۶ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۳۰- مشرکین کی اس حجت کو سورۂ انعام آیات نمبر ۱۴۸ – ۱۴۹ میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے۔ وہ مقام اور اس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔ (ملاحظہ وہ سورۂ انعام، حواشی نمبر ۱۲۴ تا نمبر ۱۲۶ )۔

۳۱- یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا پورا لطف اُٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر کر چکا ہے جو وہ قرآن کے خلا ف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ ’’اجی! وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں‘‘۔ گویا ان کو نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفانِ نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے دلیل ( جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے ) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں، یہ مایۂ ناز دلیل جو آپ لائے ہیں ا س میں قطعی کو ئی اُپچ موجود نہیں ہے، وہی دقیا نوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں، آپ نے بھی اُسی کو دہرا دیا ہے۔

۳۲- یعنی تم اپنے شرک اور اپنی خود مختارانہ تحلیل و تحریم کے حق میں ہماری مشیت کو کیسے سند جواز بنا سکتے ہو، جبکہ ہم نے ہر امت میں اپنے رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ تمہارا کام صرف ہماری بندگی کرنا ہے، طاغوت کی بندگی کے لیے تم پیدا نہیں کیے گئے ہو۔ اس طرح جبکہ ہم پہلے ہی معقول ذرائع سے تم کو بتا چکے ہیں کہ تمہاری ان گمراہیوں کو ہماری رضا حاصل نہیں ہے تو اس کے بعد ہماری مشیت کی آڑ لے کر تمہارا اپنی گمراہیوں کو جائز ٹھیرانا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ تم چاہتے تھے کہ ہم سمجھانے والے رسول بھیجنے کے بجائے ایسے رسول بھیجتے جو ہاتھ پکڑ کر تم کو غلط راستوں سے کھینچ لیتے اور زبر دستی تمہیں راست رو بناتے۔ ( مشیت اور رضا کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۸۰۔ سورۂ زمر حاشیہ نمبر ۲۰)۔

۳۳- یعنی ہر پیغمبر کی آمد کے بعد اُس کی قوم دو حصّوں میں تقسیم ہوئی۔ بعض نے اس کی بات مانی (اور یہ مان لینا اللہ کی توفیق سے تھا) اور بعض اپنی گمراہی پر جمے رہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حاشیہ نمبر ۲۸)۔

۳۴- یعنی تجربے سے بڑھ کر تخلیق کے لیے قابل اعتماد کسوٹی اور کوئی نہیں ہے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تاریخ انسانی کے پے درپے تجربات کیا ثابت کر رہے ہیں۔ عذابِ الٰہی فرعون و آلِ فرعون پر آیا یا موسیٰؑ اور بنی اسرائیل پر؟ صالحؑ کے جھٹلانے والوں پر آیا یا ماننے والوں پر ؟ ہودؑ اور نوحؑ اور دوسرے انبیاء کے منکرین پر آیا یا مومنین پر؟ کیا واقعی اِن تاریخی تجربات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جن لوگوں کو ہماری مشیت نے شرک اور شریعت سازی کے ارتکاب کا موقع دیا تھا اُن کو ہماری رضا حاصل تھی؟ اس کے برعکس یہ واقعات تو صریحاً یہ ثابت کر رہے ہیں کہ فہمائش اور نصیحت کے باوجود جو لوگ اِن گمراہیوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں ہماری مشیت ایک حد تک ارتکابِ  جرائم کا موقع دیتی چلی جاتی ہے اور پھر ان کا سفینہ خوب بھر جانے کے بعد ڈبو دیا جاتا ہے۔

۳۵- یہ حیات بعد الموت اور قیامِ  حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے، حقیقت کے بارے میں بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب، الگ معاشرے، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان، مال، آبرو، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطۂ نظر نہیں چھوڑا ہے۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی تو صحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا، راستی پر کون تھا، اور نا راستی پر کون۔ اِس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اُٹھنے کا نظر نہیں آتا۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اُٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے۔

اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصّہ لیا ہے۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں بُرے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ آخر کوئی وقت تو ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صِلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں۔

۳۶- یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جِلا اُٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سر و سامان، کسی سبب اور وسیلے، اور کسی سازگاریِ احوال کی محتاج نہیں ہے۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے۔ اس کا حکم ہی سر و سامان وجود میں لاتا ہے۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے۔ اِس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آ سکتی ہے۔

 

ترجمہ

 

جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ ۳۷ کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے ربّ کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے )۔ اے محمد ؐ، ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسُول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ ۳۸ اہلِ ذکر ۳۹ سے پُوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسُولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذِکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کیے جاؤ جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے ۴۰، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔ پھر کیا وہ لوگ جو (دعوتِ پیغمبر ؐ کے مخالف ہیں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو،یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے، وہ جو کچھ بھی کرنا چاہے یہ لوگ اس کو عاجز کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہُوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنّے ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ بڑا ہی نرم خو اور رحیم ہے۔ اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضُور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے ؟۴۱ سب کے سب اِس طرح اظہارِ عجز کر رہے ہیں۔ زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں۔ ۴۲ وہ ہر گز سرکشی نہیں کرتے، اپنے ربّ سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جا تا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ؏ ٦ ۳ السجدة

 

تفسیر

 

۳۷- یہ اشارہ ہے اُس مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابلِ برداشت مظالم سے تنگ آ کر مکّے سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ منکرینِ آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرینِ  حبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ اِس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو! یہ جفا کاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہو کہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا۔

۳۸- یہاں مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کو نقل کیے بغیر اسکا جواب دیا جا رہا ہے۔ اعتراض وہی ہے جو پہلے بھی تمام انبیاء پر ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معاصرین نے بھی آپ پر بارہا کیا تھا کہ تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو، پھر ہم کیسے مان لیں کہ خدا نے تم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔

۳۹- یعنی علماء اہلِ کتاب، اور وہ دوسرے لوگ جو چاہے سکّہ بند علما ء نہ ہوں مگر بہر حال کتبِ  آسمانی کی تعلیمات سے واقف اور انبیائے سابقین کی سرگزشت سے آگاہ ہوں۔

۴۰- تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی، اور ’’ذکرِ الٰہی‘‘ کے منشا کے مطابق اُس کے نظام کو چلا کر بھی۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازماً ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے۔ ’’ذکر‘‘ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچا یا جا سکتا تھا۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ’’ذکر‘‘ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ ا س کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس ’’ذکر‘‘ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ’’ذکر‘‘ کے منشا کی شرح ہو۔

یہ آیت جس طرح اُن منکرینِ نبوت کی حجّت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ’’ذِکر‘‘ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اُسی طرح آج یہ اُن منکرینِ حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ’’ذکر‘‘ کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے، غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔

اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اُسے واسطۂ تبلیغ بنایا گیا تھا۔

اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا ’’ذکر‘‘ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔

اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدیؐ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلکِ معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صر ف اُن لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونۂ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدیؐ ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف اُن طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، مگر ان کا کوئی اُسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختمِ  نبوت پر اصرار کر سکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مُدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چُست کی بات ہر گز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔

۴۱- یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادّی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادّی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔

۴۲- یعنی زمین ہی کی نہیں، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابعدار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔

ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیّاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورۂ شوریٰ آیت ۳۰ میں بھی ارشاد ہوئی ہے۔

 

ترجمہ

 

اللہ کا فرمان ہے کہ ’’ دو خدا نہ بنا لو،۴۳ خدا تو بس ایک ہی ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو، اُسی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور خالصاً اُسی کا دین (ساری کائنات میں) چل رہا ہے۔ ۴۴ پھر کیا للہ کو چھوڑ کر تم کسی اور سے تقویٰ کرو گے ؟‘‘ ۴۵تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو۔ ۴۶مگر جب اللہ اُس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے ربّ کے ساتھ دُوسروں کو( اس مہربانی کے شکریے میں) شریک کرنے لگتا ہے۔ ۴۷تاکہ اللہ کے احسان کی ناشکری کرے۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ۴۸ اُن کے حصے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں۔۔۔۔ ۴۹ خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھُوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے ؟یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ ۵۰ سُبحان اللہ! اور اِن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟۵۱ لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے کہ اِس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے ؟۔۔۔۔ دیکھو، کیسے بُرے حکم ہیں جو یہ خُدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔ ۵۲جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ بُری صفات سے متّصف کیے جانے کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے۔ رہا اللہ، تو اُس کے لیے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اور حکمت میں کامل ہے۔ ؏ ۷

 

تفسیر

 

۴۳- دو خداؤں کی نفی میں دو سے زیادہ خداؤں کی نفی آپ سے آپ شامل ہے۔

۴۴- دوسرے الفاظ میں اسی کی اطاعت پر اِس پورے کارخانۂ ہستی کا نظام قائم ہے۔

۴۵- بالفاظِ دیگر کیا اللہ کے بجائے کسی اور کا خوف اور کسی اور کی ناراضی سے بچنے کا جذبہ تمہارے نظامِ زندگی کی بنیاد بنے گا؟

۴۶- یعنی یہ توحید کی ایک صریح شہادت تمہارے اپنے نفس میں موجود ہے۔ سخت مصیبت کے وقت جب تمام مَن گھڑت تصورات کا زنگ ہٹ جاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے تمہاری اصل فطرت اُبھر آتی ہے جو اللہ کے سوا کسی الٰہ، کسی رب، اور کسی مالِک ذی اختیار کو نہیں جانتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام حواشی نمبر ۲۹ و نمبر ۴۱۔ یونس، حاشیہ نمبر ۳۱)۔

۴۷- یعنی اللہ کے شکریہ کے ساتھ ساتھ کسی بزرگ یا کسی دیوی یا دیوتا کے شکریے کی بھی نیازیں اور نذریں چڑھانی شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی بات بات سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اللہ کی اس مہربانی میں اُن حضرت کی مہربانی کا بھی دخل تھا، بلکہ اللہ ہرگز مہربانی نہ کرتا اگر وہ حضرت مہربان ہو کر اللہ کو مہربانی پر آمادہ نہ کرتے۔

۴۸- یعنی جن کے متعلق کسی مستند ذریعۂ علم سے اِنہیں یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے اُن کو واقعی شریکِ  خدا نامزد کر رکھا ہے، اور اپنی خدائی کے کاموں میں سے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے علاقوں میں سے کچھ علاقے ان کو سونپ رکھے ہیں۔

۴۹- یعنی اُن کی نذر، نیاز اور بھینٹ کے لیے اپنی آمدنیوں اور اپنی اراضی کی پیداوار میں سے ایک مقرر حصہ الگ نکال رکھتے ہیں۔

۵۰- مشرکینِ عرب کے معبودوں میں دیوتا کم تھے، دیویاں زیادہ تھیں، اور ان دیویوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔۔ اسی طرح فرشتوں کو بھی وہ خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

۵۱- یعنی بیٹے۔

۵۲- یعنی اپنے لیے جس بیٹی کو یہ لوگ اس قدر موجب ننگ و عار سمجھتے ہیں، اسی کو خدا کے لیے بلا تامُل تجویز کر دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجائے خود ایک شدید جہالت اور گستاخی ہے، مشرکین عرب کی اس حرکت پر یہاں اِس خاص پہلو سے گرفت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ کے متعلق اُن کے تصور کی پستی واضح کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ مشرکانہ عقائد نے اللہ کے معاملے میں اب جو جس قدر جری اور گستاخ بنا دیا ہے اور وہ کس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے کوئی قباحت تک محسوس نہیں کرتے۔

 

ترجمہ

 

اگر کہیں اللہ لوگوں کو اُن کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو رُوئے زمین پر کسی متنفّس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک وقتِ مقرر تک مہلت دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔ آج یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے تجویز کر رہے ہیں جو خود اپنے لیے اِنہیں ناپسند ہیں، اور جھُوٹ کہتی ہیں اِن کی زبانیں کہ اِن کے لیے بھلا ہی بھلا ہے۔ اِن کے لیے تو ایک ہی چیز ہے، اور وہ ہے دوزخ کی آگ۔ ضرور یہ سب سے پہلے اُس میں پہنچائے جائیں گے۔ خدا کی قسم، اے محمد ؐ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسُول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے بُرے کرتُوت اُنہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسُولوں کی بات اُنہوں نے مان کر نہ دی)۔ وہی شیطان آج اِن لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہُوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں۔ ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم اُن اختلافات کی حقیقت اِن پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں۔ یہ کتاب رہنمائی اور رحمت بن کر اُتری ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے مان لیں۔ ۵۳ (تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکایک مُردہ پڑی ہوئی زمین میں اُس کی بدولت جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سُننے والوں کے لیے۔ ۵۳ الف ؏ ۸

 

تفسیر

 

۵۳- دوسرے الفاظ میں، اس کتاب کے نزول سے اِن لوگوں کو اس بات کا بہترین موقع ملا ہے کہ اوہام اور تقلیدی تخیلات کی بنا پر جن بے شمار مختلف مسلکوں اور مذہبوں میں یہ بٹ گئے ہیں اُن کے بجائے صداقت کی ایک بڑی پائیدار بنیاد پالیں جس پر یہ سب متفق ہو سکیں۔ اب جو لوگ اِتنے بے وقوف ہیں کہ اِس نعمت کے آ جانے پر بھی اپنی پچھلی حالت ہی کو ترجیح دے رہے ہیں وہ تباہی اور ذلت کے سوا اور کوئی انجام دیکھنے والے نہیں ہیں۔ اب تو سیدھا راستہ وہی پائے گا اور وہی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہو گا جو اس کتاب کو مان لے گا۔

۵۳ الف – یعنی یہ منظر ہر سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے کہ زمین بالکل چٹیل میدان پڑی ہوئی ہے، زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں، نہ گھاس پھونس ہے، نہ بیل بوٹے، نہ پھُول پتّی، اور نہ کسی قسم کے حشرات الارض۔ اتنے میں بارش کا موسم آگیا اور ایک دو چھینٹے پڑتے ہی اُسی زمین سے زندگی کے چشمے اُبلنے شروع ہو گئے۔ زمین کی تہوں میں دبی ہوئی بے شمار جڑیں یکایک جی اٹھیں اور ہر ایک کے اندر سے وہی نباتات پھر برآمد ہو گئی جو پچھلی برسات میں پیدا ہونے کے بعد مر چکی تھی۔ بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا، یکایک پھر اُسی شان سے نمودار ہو گئے جیسے پچھلی برسات میں دیکھے گئے تھے۔ یہ سب کچھ اپنی زندگی میں بار بار تم دیکھتے رہتے ہو، اور پھر بھی تمہیں نبی کی زبان سے یہ سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حیرت کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمہارا مشاہدہ بے عقل حیوانوں کا سا مشاہدہ ہے۔ تم کائنات کے کرشموں کو تو دیکھتے ہو، مگر اُن کے پیچھے خالق کی قدرت اور حکمت کے نشانات نہیں دیکھتے۔ ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ نبی کا بیان سُن کر تمہارا دل نہ پکار اُٹھتا کہ فی الواقع یہ نشانیاں اُس کے بیان کی تائید کر رہی ہیں۔

 

ترجمہ

 

اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پِلاتے ہیں، یعنی خالص دُودھ ۵۴، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔  (اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگُور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی۔ ۵۵ یقیناً اِس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے۔ اور دیکھو، تمہارے ربّ نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی ۵۶ کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں، اپنے چھتّے بنا اور ہر طرح کا رَس چُوس اور اپنے ربّ کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ ۵۷ اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ ۵۸ یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ۵۹اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے ۶۰، اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ۶۱ حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔ ؏ ۹

 

تفسیر

 

۵۴- ’’ گوبر اور خون کے درمیان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اُس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے، اور دوسری طرف فضلہ، مگر انہی جانوروں کی صنفِ اُناث میں اُسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت، رنگ و بو، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں۔

۵۵- اس میں ایک ضمنی اشارہ اس مضمون کی طرف بھی ہے کہ پھلوں کے اِس عرق میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذا بن سکتا ہے، اور وہ مادّہ بھی موجود ہے جو سڑ کر الکوہل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی قوتِ انتخاب پر منحصر ہے کہ وہ اس سرچشمے سے پاک رزق حاصل کرتا ہے یا عقل و خرد زائل کر دینے والی شراب۔ ایک اور ضمنی اشارہ شراب کی حرمت کی طرف بھی ہے کہ وہ پاک رزق نہیں ہے۔

۵۶- وحی کے لغوی معنی ہیں خفیہ اور لطیف اشارے کے جسے اشارہ کرنے والے اور اشارہ پانے والے کے سوا کوئی اور محسوس نہ کر سکے۔ اسی مناسبت سے یہ لفظ اِلقاء (دل میں بات ڈال دینے ) اور الہام (مخفی تعلیم و تلقین) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جو تعلیم دیتا ہے وہ چونکہ کسی مکتب و درسگاہ میں نہیں دی جاتی بلکہ ایسے لطیف طریقوں سے دی جاتی ہے کہ بظاہر کوئی تعلیم دیتا اور کوئی تعلیم پاتا نظر نہیں آتا، اس لیے اس کو قرآن میں وحی، الہام اور القاء کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اب یہ تینوں الفاظ الگ الگ اصطلاحوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ لفظ وحی انبیاء کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ الہام کو اولیاء اور بندگانِ خاص کے لیے خاص کر دیا گیا ہے۔ اور القاء نسبتًہ عام ہے۔

لیکن قرآن میں یہ اصطلاحی فرق نہیں پایا جاتا۔ یہاں آسمانوں پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق ان کا سارا نظام چلتا ہے ( وَاَوْ حٰی فی کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَھَا۔ حٰمِ السجدہ)۔ زمین پر بھی وحی ہوتی ہے جس کا اشارہ پاتے ہی وہ اپنی سرگزشت سنانے لگتی ہے۔ (یَوْ مَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَاo بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَاo۔ الزلزال)۔ ملائکہ پر بھی وحی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔ (اِذْ یُوْحی رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنی مَعَکُمْ۔ الانفال) شہد کی مکھی کو اس کا پورا کام وحی (فطری تعلیم) کے ذریعہ سے سکھایا جاتا ہے جیسا کہ آیت زیر بحث میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ وحی صرف شہد کی مکھی تک ہی محدود نہیں ہے۔ مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اُڑنا اور نوزائیدہ بچے کو دودھ پینا بھی وحی خداوندی ہی سکھایا کرتی ہے۔ پھر ایک انسان کو غور و فکر اور تحقیق و تجسُس کے بغیر جو صحیح تدبیر، یا صائب رائے، یا فکر و عمل کی صحیح راہ سُجھائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے (وَاَوْحینَآ اِلیٰ اُمِّ مُوْسیٰٓ اَنْ اَرْ ضِعیہِ۔ القصص)۔ اور اس وحی سے کوئی انسان بھی محروم نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے اکتشافات ہوئے ہیں، جتنی مفید ایجادیں ہوئی ہیں، بڑے بڑے مدبرین، فاتحین، مفکرین اور مصنفین نے جو معرکے کے کام کیے ہیں، اُن سب میں اس وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلکہ عام انسانوں کو آئے دن اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں کہ کبھی بیٹھے بیٹھے دل میں ایک بات آئی، یا کوئی تدبیر سوجھ گئی، یا خواب میں کچھ دیکھ لیا، اور بعد میں تجربے سے پتہ چلا کہ وہ ایک صحیح رہنمائی تھی جو غیب سے انہیں حاصل ہوئی تھی۔ ان بہت سے اقسام میں سے ایک خاص قسم کی وحی وہ ہے جس سے انبیاء علیہم السلام نوازے جاتے ہیں اور یہ وحی اپنی خصوصیات میں دوسری اقسام سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس میں وحی کیے جانے والے کو پورا شعور ہوتا ہے کہ یہ وحی خدا کی طرف سے آ رہی ہے۔ اُسے اس کے مِن جانب اللہ ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ عقائد اور احکام اور قوانین اور ہدایات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور اسے نازل کرنے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نبی اس کے ذریعہ سے نوع انسانی کی رہنمائی کرے۔

۵۷- ’’رب کی ہموار کی ہوئی راہوں‘‘ کا اشارہ اُس پورے نظام اور طریق کار کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے۔ ان کے چھتوں کی ساخت، ان کے گروہ کی تنظیم، ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار، ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدو رفت، ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا، یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غور فکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شَکَر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزار ہا برس سے کام کیے چلے جا رہے ہیں۔

۵۸- شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبتًہ ایک مخفی بات ہے اِس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ پھر شہد کا یہ خاصّہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ رکھتا ہے، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فنِّ دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اُس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اُس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے، اور مختلف نباتی دواؤں کے جو ہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیٰحدہ علیٰحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہو ں گے۔

۵۹- اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوت کے دوسرے جُز کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظامِ زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو۔ دعوت محمدی ؐ کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثارِ کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، یہ آثار جو ہر طرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے۔ تم اسے ایک اَن ہونی بات قرار دیتے ہو۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادۂ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعویٰ قرار دیتے ہیں۔ مگر مویشیوں کی ساخت، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مِل جُل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں، خدا کے سوا اور کسی کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نے تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟

۶۰- یعنی حقیقت صر ف اتنی ہی نہیں ہے کہ تمہاری پرورش اور رزق رسانی کا سارا انتظام اللہ کے ہاتھ میں ہے بلکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ تمہاری زندگی اور موت دونوں اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتا ہے نہ موت دینے کا۔

۶۱- یعنی یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت ہی زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے، یہ بھی خدا کا بخشا ہوا ہے۔ تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرت ناک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتا ہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا، کس طرح گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر رہ جاتا ہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔

 

ترجمہ

 

اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے، پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اِس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں۔ تو کیا اللہ ہی کا اِحسان ماننے سے اِن لوگوں کو اِنکار ہے ۶۲؟ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں۔ پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی)باطل کو مانتے ہیں ۶۳ اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں ۶۴ اور اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پُوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں؟ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو  ۶۵، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ اللہ ایک مثال دیتا ہے ۶۶۔ ایک تو ہے غلام، جو دُوسرے کا مملوک ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ دُوسرا شخص ایسا ہے جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق عطا کیا ہے اور وہ اس میں سے کھُلے اور چھُپے خوب خرچ کرتا ہے۔ بتاؤ، کیا یہ دونوں برابر ہیں؟۔۔۔۔ الحمدُ لِلّٰہ،۶۷ مگر اکثر لوگ (اس سیدھی بات کو)نہیں جانتے۔ ۶۸اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں۔ ایک گونگا بہرا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا، اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اُس سے بن نہ آئے۔ دُوسرا شخص ایسا ہے کہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود راہِ راست پر قائم ہے۔ بتاؤ کیا یہ دونوں یکساں ہیں؟۶۹ ؏ ١۰

 

تفسیر

 

۶۲- زمانۂ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفۂ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفعہ ٹھیرایا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانونِ معیشت کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کا آخر کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیا ن ہو رہا ہے۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟

ٹھیک یہی استدلال، اسی مضمون سے سورۂ روم، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآ ءَ فی مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فیہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخیفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ۔ اللہ تمہارے سامنے ایک مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے۔ کیا تمہارے اُس رزق میں جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارے غلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘۔

دونوں آیتوں کا تقابل کر نے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر کر رہی ہے۔

شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلًا یہ فقرہ دیکھ کر خیال کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اپنے زیردستوں کی طرف رزق نہ پھیر دینا ہی اللہ کی نعمت کا انکار ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیراللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ مضمون اس کثرت سے قرآن میں دُہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبُّر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش نہیں آ سکتا، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔

نعمتِ الٰہی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اُس کے بندوں کو اس کا شریک و  وہیم ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اُس سے پائی ہیں اُن کا شکریہ اُس کے بندوں کو ادا کریں؟

۶۳- ’’باطل کو مانتے ہیں‘‘، یعنی یہ بے بنیاد اور بے حقیقت عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا، ان کی مرادیں برلانا اور دُعائیں سُننا، انہیں اولاد دینا، ان کو روزگار دلوانا، ان کے مقدمے جِتوانا، اور انہیں بیماریوں سے بچانا کچھ دیویوں اور دیوتاؤں اور جِنوں اور اگلے پچھلے بزرگوں کے اختیار میں ہے۔

۶۴- اگرچہ مشرکینِ  مکّہ اس بات سے انکار نہیں کرتے تھے کہ یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں، اور اِن نعمتوں پر اللہ کا احسان ماننے سے بھی اُنہیں انکار نہ تھا، لیکن جو غلطی وہ کرتے تھے وہ یہ تھی کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر یہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اُن بہت سی ہستیوں کا شکریہ بھی زبان اور عمل سے ادا کرتے تھے جن کو انہوں نے بلا کسی ثبوت اور بلا کسی سند کے اِس نعمت بخشی میں دخیل اور حصّہ دار ٹھیرا رکھا تھا۔ اِسی چیز کو قرآن ’’اللہ کے احسان کا انکار‘‘ قرار دیتا ہے۔ قرآن میں یہ بات بطور ایک قاعدہ کلیہ کے پیش کی گئی ہے کہ محسن کے احسان کا شکریہ غیر محسن کو ادا کرنا دراصل محسن کے احسان کا انکار کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن یہ بات بھی اصول کے طور پر بیان کرتا ہے کہ محسن کے متعلق بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ گمان کر لینا کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے یہ احسان نہیں کیا ہے بلکہ فلاں شخص کے طفیل، یا فلاں کی رعایت سے، یا فلاں کی سفارش سے، یا فلاں کی مداخلت سے کیا ہے، یہ بھی دراصل اس کے احسان کا انکار ہی ہے۔

یہ دونوں اصولی باتیں سراسر انصاف اور عقلِ عام کے مطابق ہیں۔ ہر شخص خود بادنیٰ تأمّل ان کی معقولیت سمجھ سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ ایک حاجت مند آدمی پر رحم کھا کر اس کی مدد کرتے ہیں، اور وہ اسی وقت اُٹھ کر آپ کے سامنے ایک دوسرے آدمی کا شکریہ ادا کر دیتا ہے جس کا اس امداد میں کوئی دخل نہ تھا۔ آپ چاہے اپنی فراخ دلی کی بنا پر اُس کی اِس بیہودگی کو نظر انداز کر دیں اور آئندہ بھی اپنی امداد کا سلسلہ جاری رکھیں، مگر اپنے دل میں یہ ضرور سمجھیں گے کہ یہ ایک نہایت بدتمیز اور احسان فراموش آدمی ہے۔ پھر اگر دریافت کرنے پر آپ کو معلوم ہو کہ اس شخص نے یہ حرکت اس خیال کی بنا پر کی تھی کہ آپ نے اس کی جو کچھ بھی مدد کی ہے وہ اپنی نیک دلی اور فیاضی کی وجہ سے نہیں کی بلکہ اُس دوسرے شخص کی خاطر کی ہے، درآنحالیکہ یہ واقعہ نہ تھا، تو آپ لامحالہ اِسے اپنی توہین سمجھیں گے۔ اُس کی اِس بیہودہ تاویل کا صریح مطلب آپ کے نزدیک یہ ہو گا کہ وہ آپ سے سخت بدگمان ہے اور آپ کے متعلق یہ رائے رکھتا ہے کہ آپ کوئی رحیم اور شفیق انسان نہیں ہیں، بلکہ محض ایک دوست نواز اور یار باش آدمی ہیں، چند لگے بندھے دوستوں کے توسُّل سے کوئی آئے تو آپ اس کی مدد اُن دوستوں کی خاطر کر دیتے ہیں، ورنہ آپ کے ہاتھ سے کسی کو کچھ فیض حاصل نہیں ہو سکتا۔

۶۵- ’’اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو‘‘، یعنی اللہ کو دنیوی بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس نہ کرو کہ جس طرح کوئی ان کے مصاحبوں اور مُقرب بارگاہ ملازموں کے توسّط کے بغیر اُن تک اپنی عرض معروض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اللہ کے متعلق بھی تم یہ گمان کرنے لگو کہ وہ اپنے قصر شاہی میں ملائکہ اور اولیاء اور دوسرے مقربین کے درمیان گھِرا بیٹھا ہے اور کسی کا کوئی کام اِن واسطوں کے بغیر اس کے ہاں سے نہیں بن سکتا۔

۶۶- یعنی اگر مثالوں ہی سے بات سمجھنی ہے تو اللہ صحیح مثالوں سے تم کو حقیقت سمجھاتا ہے۔ تم جو مثالیں دے رہے ہو وہ غلط ہیں، ا س لیے تم ان سے غلط نتیجے نکال بیٹھتے ہو۔

۶۷- سوال اور الحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نبیؐ کی زبان سے یہ سوال سُن کر مشرکین کے لیے اس کا یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں۔ لا محالہ اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہو گا کہ واقعی دونوں برابر نہیں ہیں، اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہو گی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اُس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اور اس سے خود بخود اُن کے شرک کا ابطال ہو جائے گا۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ۔ اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ۔ پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’خدا کا شکر ہے، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی‘‘۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’خاموش ہو گئے ؟ الحمد للہ۔ اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے ‘‘۔

۶۸- یعنی باوجودیکہ انسانوں کے درمیان وہ صریح طور پر با اختیار اور بے اختیار کے فرق کو محسوس کرتے ہیں، اور اس فرق کو ملحوظ رکھ کر ہی دونوں کے ساتھ الگ الگ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، پھر بھی وہ ایسے جاہل و نادان بنے ہوئے ہیں کہ خالق اور مخلوق کا فرق ان کو سمجھ میں نہیں آتا۔ خالق کی ذات اور صفات اور حقوق اور اختیارات، سب میں وہ مخلوق کو اس کا شریک سمجھ رہے ہیں اور مخلوق کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کر رہے ہیں جو صرف خالق کے ساتھ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ عالمِ اسباب میں کوئی چیز مانگنی ہو تو گھر کے مالک سے مانگیں گے نہ کہ گھر کے غلام سے۔ مگر مبدأ فیض سے حاجات طلب کرنی ہوں تو کائنات کے مالک کو چھوڑ کر اس کے بندوں کے آگے ہاتھ پھیلا دیں گے۔

۶۹- پہلی مثال میں اللہ اور بناوٹی معبودوں کے فرق کو صرف اختیار اور بے اختیاری کے اعتبار سے نمایاں کیا گیا تھا۔ اب اس دوسری مثال میں وہی فرق اور زیادہ کھول کر صفات کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اِن بناوٹی معبودوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ایک با اختیار مالک ہے اور دوسرا بے اختیار غلام۔ بلکہ مزید برآں یہ فرق بھی ہے کہ یہ غلام نہ تمہاری پکار سنتا ہے، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے، نہ کوئی کام با ختیارِ  خود کر سکتا ہے۔ اس کی اپنی زندگی کا سارا انحصار اُس کے آقا کی ذات پر ہے۔ اور آقا اگر کوئی کام اس پر چھوڑ دے تو وہ کچھ بھی نہیں بنا سکتا۔ بخلاف اس کے آقا کا حال یہ ہے کہ صرف ناطق ہی نہیں ناطق حکیم ہے، دنیا کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور صرف فاعلِ مختار ہی نہیں، فاعلِ برحق ہے، جو کچھ کرتا ہے راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے۔ بتاؤ یہ کونسی دانائی ہے کہ تم ایسے آقا اور ایسے غلام کو یکساں سمجھ رہے ہو؟

 

ترجمہ

 

اور زمین و آسمان کے پوشیدہ حقائق کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔ ۷۰ اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بلکہ اس سے بھی کچھ ۷۱ کم۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اُس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں، اور سوچنے والے دل دیے ۷۲، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔ ۷۳کیا اِن لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخَّر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے اِن کو تھام رکھا ہے ؟ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکُون بنایا۔ اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے ۷۴ جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ ۷۵ اُس نے جانوروں کے صوف اور اُون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدّتِ مقررہ تک تمہارے کام آتی ہیں۔ اُس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں پر تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ۷۶ اور کچھ دُوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں۔ ۷۷ اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے ۷۸ شاید کہ تم فرمانبردار بنو۔ اب اگر یہ لوگ مُنہ موڑتے ہیں تو اے محمد ؐ، تم پر صاف صاف پیغامِ حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔ یہ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔ ۷۹ اور اِن میں بیش تر لوگ ایسے ہیں جو حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ؏ ١١

 

تفسیر

 

۷۰- بعد کے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دراصل جواب ہے کفارِ مکّہ کے اُس سوال کا جو وہ اکثر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی وہ قیامت آنے والی ہے جس کی تم ہمیں خبر دیتے ہو تو آخر وہ کس تاریخ کو آئے گی۔ یہاں اُن کے سوال کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔

۷۱- یعنی قیامت رفتہ رفتہ کسی طویل مُدّت میں واقع نہ ہو گی، نہ اس کی آمد سے پہلے تم دُور سے اس کو آتے دیکھو گے کہ سنبھل سکو اور کچھ اس کے لیے تیاری کر سکو۔ وہ تو کسی روز اچانک چشمِ  زدن میں، بلکہ اس سے بھی کم مدّت میں آ جائے گی۔ لہٰذا جس کو غور کرنا ہو سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، اور اپنے رویہ کے متعلق جو فیصلہ بھی کرنا ہو جلدی کر لے۔ کسی کو اس بھروسے پر نہ رہنا چاہیے کہ ابھی تو قیامت دور ہے، جب آنے لگے گی تو اللہ سے معاملہ درست کر لیں گے۔۔۔۔۔۔ توحید کی تقریر کے درمیان یکایک قیامت کا یہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ توحید اور شرک کے درمیان کسی ایک عقیدے کے انتخاب کے سوال کو محض ایک نظری سوال نہ سمجھ بیٹھیں۔ اُنہیں یہی احساس رہنا چاہیے کہ ایک فیصلے کی گھڑی کسی نامعلوم وقت پر اچانک آ جانے والی ہے اور اُس وقت اِسی انتخاب کے صحیح یا غلط ہونے پر آدمی کی کامیابی و ناکامی کا مدار ہو گا۔ اس تنبیہ کے بعد پھر وہی سلسلۂ تقریر شروع ہو جاتا ہے جو اوپر سے چلا آ رہا تھا۔

۷۲- یعنی وہ ذرائع جن سے تمہیں دنیا میں ہر طرح کی واقفیت حاصل ہوئی اور تم اس لائق ہوئے کہ دنیا کے کام چلا سکو۔ انسان کا بچہ پیدائش کے وقت جتنا بے بس اور بے خبر ہوتا ہے اتنا کسی جانور کا نہیں ہوتا۔ مگر یہ صرف اللہ کے دیے ہوئے ذرائع علم (سماعت، بینائی، اور تعقل و تفکر) ہی میں ہیں جن کی بدولت وہ ترقی کر کے تمام موجوداتِ  ارضی پر حکمرانی کر نے کے لائق بن جاتا ہے۔

۷۳- یعنی اُس خدا کے شکر گزار جس نے یہ بے بہا نعمتیں تم کو عطا کیں۔ اِن نعمتوں کی اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہو سکتی ہے کہ اِن کانوں سے آدمی سب کچھ سنے مگر ایک خدا ہی کی بات نہ سنے، اِن آنکھوں سے سب کچھ دیکھے مگر ایک خدا ہی کی آیات نہ دیکھے اور اس دماغ سے سب کچھ سوچے مگر ایک یہی بات نہ سوچے کہ میرا وہ محسن کون ہے جس نے یہ انعامات مجھے دیے ہیں۔

۷۴- یعنی چمڑے کے خیمے جن کا رواج عرب میں بہت ہے۔

۷۵- یعنی آپ کوچ کرنا چاہتے ہو تو انہیں آسانی سے تہ کر کے اُٹھا لے جاتے ہو اور جب قیام کرنا چاہتے ہو تو آسانی سے اُن کو کھول کر ڈیرا جما لیتے ہو۔

۷۶- سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجۂ کمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی، یا پھر اسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی بادِ سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ممالک میں اگر آدمی سر، گردن، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اُسے جھُلس کر رکھ دے، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے۔

۷۷- یعنی زرہ بکتر۔

۷۸- تمامِ حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جُز رسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے۔ مثلاً اِسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سر و سامان پیدا کیا، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یا مثلاً تغذیے کے معاملہ کو لیجیے۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزوی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے، اُن کا اگر کوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسامِ غذا اور اشیائے  غذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلّد بن جائے۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اِتمام کر رکھا ہے۔

۷۹- انکار سے مراد وہی طرزِ عمل ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ کفارِ  مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ یہ سارے احسانات اللہ نے اُن پر کیے ہیں، مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ نے یہ احسانات اُن کے بزرگوں اور دیوتاؤں کی مداخلت سے کیے ہیں، اور اسی بنا پر وہ ان احسانات کا شکریہ اللہ کے ساتھ، بلکہ کچھ اللہ سے بڑھ کر اُن متوسط ہستیوں کو ادا کرتے تھے۔ اِسی حرکت کو اللہ تعالیٰ انکارِ نعمت اور احسان فراموشی اور کفران سے تعبیر کرتا ہے۔

 

ترجمہ

 

(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جب کہ ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ ۸۰ کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حُجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا ۸۱ نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ۸۲ ظالم لوگ جب ایک دفعہ عذاب دیکھ لیں گے تو اس کے بعد نہ اُن کے عذاب میں کوئی تخفیف کی جائے گی اور نہ انہیں ایک لمحہ بھر کی مہلت دی جائے گی۔ اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے ’’اے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پُکارا کرتے تھے۔ ‘‘ اس پر اُن کے وہ معبود انہیں صاف جواب دیں گے کہ ’’تم جھُوٹے ہو۔ ‘‘ ۸۳اُس وقت یہ سب اللہ کے آگے جھُک جائیں گے اور ان کو وہ ساری افترا پردازیاں رفو چکّر ہو جائیں گی جو یہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ ۸۴جن لوگوں نے خود کُفر کی راہ اختیار کی اور دُوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گے ۸۵ اُس فساد کے بدلے میں جو وہ دُنیا میں برپا کرتے رہے۔  (اے محمد ؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر اُمّت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اُٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے۔ اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے ۸۶ اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سرِ تسلیم خَم کر دیا ہے۔ ۸۷ ؏ ١۲

 

تفسیر

 

۸۰- یعنی اُس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس اُمت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روزِ قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق اِن لوگوں کو پہنچا دیا تھا، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔

۸۱- یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔

۸۲- یعنی اُس وقت اُن سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہو گا۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثارِ موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اُس وقت کی توبہ ناقابلِ قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا استحقاق باقی رہ جاتا ہے۔

۸۳- اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بجائے خود اِس واقعہ کا انکار کریں گے کہ مشرکین انہیں حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا کرتے تھے، بلکہ دراصل وہ اس واقعہ کے متعلق اپنے علم و اطلاع اور اس پر اپنی رضامندی و ذمہ داری کا انکار کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم خدا کو چھوڑ کر ہمیں پکارا کرو، نہ ہم تمہاری اس حرکت پر راضی تھے، بلکہ ہمیں تو خبر تک نہ تھی کہ تم ہمیں پکار رہے ہو۔ تم نے اگر ہمیں سمیع الدُّعا ء اور مجیب الدعوات، اور دستگیر و فریاد رس قرار دیا تھا تو یہ قطعی ایک جھوٹی بات تھی جو تم نے گھڑ لی تھی اور اس کے ذمہ دار تم خود تھے۔ اب ہمیں اس کی ذمہ داری میں لپیٹنے کی کوشش کیوں کر تے ہو۔

۸۴- یعنی وہ سب غلط ثابت ہوں گی۔ جن جن سہاروں پر وہ دنیا میں بھروسا کیے ہوئے تھے وہ سارے کے سارے گم ہو جائیں گے۔ کسی فریاد رس کو وہاں فریاد رسی کے لیے موجود نہ پائیں گے۔ کوئی مشکل کشا ان کی مشکل حل کرنے کے لیے نہیں ملے گا۔ کوئی آگے بڑھ کر یہ کہنے والا نہ ہو گا کہ یہ میرے متوسل تھے، انہیں کچھ نہ کہا جائے۔

۸۵- یعنی ایک عذاب خود کفر کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو راہِ خدا سے روکنے کا۔

۸۶- یعنی ہر ایسی چیز کی وضاحت جس پر ہدایت و ضلالت اور فلاح و خسران کا مدار ہے، جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے، جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ غلطی سے لوگ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ اور اس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نباہنے کے لیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔

۸۷- یعنی جو لوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اور اطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پر اللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبر دست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔

 

ترجمہ

 

اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے ۸۸ اور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ ۸۹ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔ اللہ کے عہد کو پُورا کرو جب کہ تم نے اُس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پُختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے اُوپر گواہ بنا چکے ہو۔ اللہ تمہارے سب افعال سے با خبر ہے۔ تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سُوت کاتا اور پھر آپ ہی اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ۹۰ تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دُوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالانکہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعے سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے ۹۱، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا۔ ۹۲اگر اللہ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو)تو وہ تم سب کو ایک ہی اُمّت بنا دیتا،۹۳ مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھا دیتا ہے، ۹۴ اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پُرس ہو کر رہیں گے۔  (اور اے مسلمانو) تم اپنی قَسموں کو آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کا ذریعہ نہ بنا لینا، کہیں ایسا نہ ہو کے کوئی قدم جمنے کے بعد اُکھڑ جائے ۹۵ اور تم اِس جُرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، بُرا نتیجہ دیکھو اور سخت سزا بھُگتو۔اللہ کے عہد ۹۶ کو تھوڑے سے فائدے کے بدلے نہ بیچ ڈالو،۹۷ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں ۹۸ کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اُسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ۹۹ اور (آخرت میں ) ایسے لوگوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ ۱۰۰پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔۱۰۱اُسے اُن لوگوں پر تسلّط حاصل نہیں ہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اُس کا زور تو اُنہی لوگوں پر چلتا ہے جو اُس کو اپنا سرپرست بناتے اور اُس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں۔ ؏ ١۳

 

تفسیر

 

۸۸- اس مختصر سے فقرے میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جس پر پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے۔ : پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسُب قائم ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دیا جائے۔ اُردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ ’’انصاف‘‘ سے ادا کیا جاتا ہے، مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کر نے والا ہے۔ اس سے خواہ مخواہ یہ تصوّر پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیا د پر ہو۔ اور پھر اسی سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے سمجھ لیے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے۔ دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے نہ کہ برابری۔ بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک افرادِ معاشرہ میں مساوات چاہتا ہے، مثلاً حقوقِ شہریت میں۔ مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے، مثلاً والدین اور اولاد کے درمیان معاشرتی و اخلاقی مساوات، اور اعلیٰ درجے کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنے والوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات۔ پس اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ حقوق میں مساوات نہیں بلکہ توازن و تناسب ہے، اور اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی، اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمان داری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔

دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویّہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر، باہمی مراعات، ایک دوسرے کا پاس و لحاظ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جانا یہ عدل سے زائد ایک چیز ہے جس کی اہمیت اجتماعی زندگی میں عدل سے بھی زیادہ ہے۔ عدل اگر معاشرے کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال اور اس کا کمال ہے۔ عدل اگر معاشرے کو نا گواریوں اور تلخیوں سے بچاتا ہے تو احسان اس میں خوش گواریاں اور شیرینیاں پیدا کرتا ہے۔ کوئی معاشرہ صرف اس بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا کہ اس کا ہر فرد ہر وقت ناپ تول کر کے دیکھتا رہے کہ اس کا کیا حق ہے اور اسے وصول کر کے چھوڑے، اور دوسرے کا کتنا حق ہے اور اسے بس اتنا ہی دے دے۔ ایسے ایک ٹھنڈے اور کھُرّے معاشرے میں کشمکش تو نہ ہو گی مگر محبت اور شکر گزاری اور عالی ظرفی اور ایثار اور اخلاص و خیر خواہی کی قدروں سے وہ محروم رہے گا جو دراصل زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرنے والی اور اجتماعی محاسن کو نشو نما دینے والی قدریں ہیں۔

تیسری چیز جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے، صلۂ رحمی ہے جو رشتہ داروں کے معاملے میں احسان کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور خوشی و غمی میں ان کا شریک حال ہو اور جائز حدود کے اندر ان کا حامی و مددگار بنے۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بال بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ شریعتِ  الٰہی ہر خاندان کے خوشحال افراد کو اس امر کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں۔ اُس کی نگاہ میں ایک معاشرے کی اِس سے بدتر کوئی حالت نہیں ہے کہ اس کے اندر ایک شخص عیش کر رہا ہو اور اسی کا خاندان میں اس کے اپنے بھائی بند روٹی کپڑے تک کو محتاج ہوں۔ وہ خاندان کو معاشرے کا ایک اہم عنصر ترکیبی قرار دیتی ہے اور یہ اصول پیش کرتی ہے کہ ہر خاندان کے غریب افراد کا پہلا حق اپنے خاندان کے خوشحال افراد پر ہے، پھر دوسروں پر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اور ہر خاندان کے خوشحال افراد پر پہلا حق ان کے اپنے غریب رشتہ داروں کا ہے، پھر دوسروں کے حقوق اُن پر عائد ہوتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مختلف ارشادات میں وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں اس کی تصریح ہے کہ آدمی کے اوّلین حقدار اس کے والدین، اس کے بیوی بچے، اور اس کے بھائی بہن ہیں، پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں، اور پھر وہ جو اُن کے بعد قریب تر ہوں۔ اور یہی اصول ہے جس کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک یتیم بچے کے چچا زاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار ہوں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کر دیتا۔۔۔۔۔۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس معاشرے کا واحدہ (Unit) اِس طرح اپنے اپنے افراد کو سنبھال لے اس میں معاشی حیثیت سے کتنی خوشحالی، معاشرتی حیثیت سے کتنی حلاوت اور اخلاقی حیثیت سے کتنی پاکیزگی و بلندی پیدا ہو جائے گی۔

۸۹- اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ تین برائیوں سے روکتا ہے جو انفرادی حیثیت سے افراد کو، اور اجتماعی حیثیت سے پورے معاشرے کو خراب کرنے والی ہیں:

پہلی چیز فَحْشَآ ع ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو، فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عُریانی، عملِ قومِ لوط، محرّمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان بُرے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمائش کرنا وغیرہ۔

دوسری چیز مُنکر ہے جس سے مراد ہر وہ برائی ہے جسے انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں، اور عام شرائع الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔

تیسری چیز بَغی ہے جس کے معنی ہیں اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے۔

۹۰- یہاں علی الترتیب تین قسم کے معاہدوں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ بیان کر کے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک وہ عہد جو انسان نے خدا کے ساتھ باندھا ہو، اور یہ اپنی اہمیت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ دوسرا وہ عہد جو ایک انسان یا گروہ نے دوسرے انسان یا گروہ سے باندھا ہو اور اس پر اللہ کی قسم کھائی ہو، یا کسی نہ کسی طور پر اللہ کا نام لے کر اپنے قول کی پختگی کا یقین دلایا ہو۔ یہ دوسرے درجے کی اہمیت رکھتا ہے۔ تیسرا وہ عہد و پیمان جو اللہ کا نام لیے بغیر کیا گیا ہو۔ اس کی اہمیت اوپر کی دو قسموں کے بعد ہے۔ لیکن پابندی ان سب کی ضروری ہے اور خلاف ورزی ان میں سے کسی کی بھی روا نہیں ہے۔

۹۱- ’’یہاں خصوصیت کے ساتھ عہد شکنی کی اُس بد ترین قسم پر ملامت کی گئی ہے جو دنیا میں سب سے بڑھ کر موجبِ فساد ہوتی ہے اور جسے بڑے بڑے اونچے درجے کے لوگ بھی کارِ ثواب سمجھ کر کرتے اور اپنی قوم سے داد پاتے ہیں۔ قوموں اور گروہوں کی سیاسی، معاشی اور مذہبی کشمکش میں یہ آئے دن ہوتا رہتا ہے کہ ایک قوم کا لیڈر ایک وقت میں دوسری قوم سے ایک معاہدہ کرتا ہے اور دوسرے وقت میں محض اپنے قومی مفاد کی خاطر یا تو اسے علانیہ توڑ دیتا ہے یا درپردہ اس کی خلاف ورزی کر کے ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے۔ یہ حرکتیں ایسے ایسے لوگ تک کر گزرتے ہیں جو اپنی ذاتی زندگی میں بڑے راستباز ہوتے ہیں۔ اور ان حرکتوں پر صرف یہی نہیں کہ ان کی پوری قوم میں سے ملامت کی کوئی آواز نہیں اُٹھتی، بلکہ ہر طرف سے اُن کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے اور اس طرح کی چالبازیوں کو ڈپلومیسی کا کمال سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر متنبہ فرماتا ہے کہ ہر معاہدہ دراصل معاہدہ کرنے والے شخص اور قوم کے اخلاق و دیانت کی آزمائش ہے اور جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوں گے وہ اللہ کی عدالت میں مؤاخذہ سے نہ بچ سکیں گے۔

۹۲- یعنی یہ فیصلہ تو قیامت ہی کے روز ہو گا کہ جن اختلافات کی بنا پر تمہارے درمیان کشمکش برپا ہے ان میں برسرِ حق کون ہے اور برسر باطل کون۔ لیکن بہر حال، خواہ کوئی سراسر حق پر ہی کیوں نہ ہو، اور اس کا حریف بالکل گمراہ اور باطل پرست ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں عہد شکنی اور کذب و افترا اور مکر و فریب کے ہتھیار استعمال کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو قیامت کے روز اللہ کے امتحان میں ناکام ثابت ہو گا، کیونکہ حق پرستی صرف نظریے اور مقصد ہی میں صداقت کا مطالبہ نہیں کرتی، طریقِ کار اور ذرائع میں بھی صداقت ہی چاہتی ہے۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ اُن مذہبی گروہوں کی تنبیہ کے لیے فرمائی جا رہی ہے جو ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے طرفدار ہیں اور ہمارا فریقِ مقابل خدا کا باغی ہے اس لیے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اسے جس طریقہ سے بھی ممکن ہو زک پہنچائیں۔ ہم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی صداقت، امانت اور وفائے عہد کا لحاظ رکھیں۔ ٹھیک یہی بات تھی جو عرب کے یہودی کہا کرتے تھے کہ لَیْسَ عَلَیْنَا فی الْاُمّیینَ سَبیلٌ۔ یعنی مشرکینِ  عرب کے معاملہ میں ہم پر کوئی پابندی نہیں ہے، اُن سے ہر طرح کی خیانت کی جا سکتی ہے، جس چال اور تدبیر سے بھی خدا کے پیاروں کا بھلا ہو اور کافروں کو زک پہنچے وہ بالکل روا ہے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا۔

۹۳- یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے ) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے نام نہاد ’’طرف داروں‘‘ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کر سکتا؟

۹۴- یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کر دیتا ہے، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔

۹۵- یعنی کوئی شخص اسلام کی صداقت کا قائل ہو جانے کے بعد محض تمہاری بد اخلاقی دیکھ کر اِس دین سے برگشتہ ہو جائے اور اس وجہ سے وہ اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہو نے سے رُک جائے کہ اس گروہ کے جن لوگوں سے اس کو سابقہ پیش آیا ہو ان کو اخلاق اور معاملات میں اُس نے کفار سے کچھ بھی مختلف نہ پایا ہو۔

۹۶- یعنی اُس عہد کو جو تم نے اللہ کے نام پر کیا ہو، یا دینِ الٰہی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہو۔

۹۷- یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے بڑے فائدے کے بدلے بیچ سکتے ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا جو فائدہ بھی ہے وہ اللہ کے عہد کی قیمت میں تھوڑا ہے۔ اس لیے اس بیش بہا چیز کو اس چھوٹی چیز کے عوض بیچنا بہر حال خسارے کا سودا ہے۔

۹۸- ’’صبر سے کام لینے والوں کو‘‘، یعنی ان لوگوں کو جو رہ طمع اور خواہش اور جذبۂ نفسانی کے مقابلہ میں حق اور راستی پر قائم رہیں، ہر اُس نقصان کو برداشت کر لیں جو اِس دنیا میں راستباز ی اختیار کرنے سے پہنچتا ہو، ہر اُس فائدے کو ٹھکرا دیں جو دنیا میں ناجائز طریقے اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہو، اور حسنِ عمل کے مفید نتائج کے لیے اُس وقت تک انتظار کر نے کے لیے تیار ہوں جو موجودہ دنیوی زندگی ختم ہو جانے کے بعد دوسری دنیا میں آنے والا ہے۔

۹۹- اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے اُن تمام کم نظر اور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیز گاری کی روش اختیار کر نے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ اِ س صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی، دنیا بھی بنتی ہے۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بدع مل لوگوں کے مقابلہ میں صریحاً بہتر رہتی ہے۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے عاغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنیٰ سا حصّہ بھی محلوں میں رہنے والے فسّاق و فجار نہیں پا سکتے۔

۱۰۰- یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ اُن کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہو گا۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اُسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔

۱۰۱- اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْ ذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجیمِ کہہ دیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش اور عملاً یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے گمراہ کُن وسوسوں سے محفوظ رہے، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے، اور اپنے خود ساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہوں۔ ا س کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہو نا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابنِ آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اُسے بہکانے اور اخذِ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنّا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی در اندازیاں اُسے اِس سر چشمۂ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کر دیں۔ کیونکہ جس نے یہاں سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی۔

اس سلسلۂ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر اُن اعتراضات کا جواب دیا  جا رہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید پر کیا کرتے تھے۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کی گمراہ کُن وسوسہ اندازیوں سے چوکنّا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے۔

 

ترجمہ

 

جب ہم ایک آیت کی جگہ دُوسری آیت نازل کرتے ہیں۔۔۔۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے۔۔۔۔ تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم یہ قرآن خود گھڑتے ہو۔۱۰۲ اصل بات یہ ہے کہ اِن میں سے اکثر لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اِن سے کہو کہ اسے تو روُح القُدس نے ٹھیک ٹھیک میرے ربّ کی طرف سے بتدریج نازل کیا ۱۰۳ ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے ۱۰۴ اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور ۱۰۵ انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔ ۱۰۶ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اِس شخص کو ایک آدمی سِکھاتا پڑھاتا ہے۔ ۱۰۷ حالانکہ اُن کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اُس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی اُن کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔  (جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھُوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے، ۱۰۸ وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔جو شخص ایمان لانے کے بعد کُفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کُفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ۱۰۹یہ اس لیے کہ اُنہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دُنیا کی زندگی کو پسند کر لیا، اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو راہِ نجات نہیں دِکھاتا جو اُس کی نعمت کا کُفران کریں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مُہر لگا دی ہے۔ یہ غفلت میں ڈُوب چکے ہیں۔ضرور ہے کہ آخرت میں یہی خسارے میں رہیں۔۱۱۰بخلاف اس کے جِن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب (ایمان لانے کی وجہ سے ) وہ ستائے گئے تو اُنہوں نے گھر بار چھوڑ دیے، ہجرت کی، راہِ خدا میں سختیاں جھیلیں اور صبر سے کام لیا،۱۱۱ اُن کے لیے یقیناً تیرا ربّ غفور و رحیم ہے۔ ؏ ١۴

 

تفسیر

 

۱۰۲- ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے سے مراد ایک حکم کے بعد دوسرا حکم بھیجنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اور بارہا ایک ہی معاملہ میں چند سال کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے دو دو، تین تین حکم بھیجے گئَ ہیں۔ مثلاً شراب کا معاملہ، یا زنا کی سزا کا معاملہ۔ لیکن ہم کو یہ معنی لینے میں اس بنا پر تامل ہے کہ سورۂ نحل کی یہ آیت مکی دور میں نازل ہوئی ہے، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس دَور میں تدریج فی الاحکام کی کوئی مثال پیش نہ آئی تھی۔ اس لیے ہم یہاں ’’ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرنے ‘‘ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کبھی ایک مضمون کو ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے اور کبھی وہی مضمون سمجھانے کے لیے دوسری مثال سے کام لیا گیا ہے۔ ایک ہی قصہ بار بار آیا ہے اور ہر مرتبہ اسے دوسرے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک معاملہ کا کبھی ایک پہلو پیش کیا گیا ہے اور کبھی اُسی معاملے کا دوسرا پہلو سامنے لایا گیا ہے۔ ایک بات کے لیے کبھی ایک دلیل پیش کی گئی ہے اور کبھی دوسری دلیل۔ ایک بات ایک وقت میں مجمل طور پر کہی گئی ہے اور دوسرے وقت میں مفصل۔ یہی چیز تھی جسے کفارِ مکّہ اس بات کی دلیل ٹھیراتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، معاذ اللہ، یہ قرآن خود تصنیف کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر اس کلام کا منبع علمِ الٰہی ہوتا تو پوری بات بیک وقت کہہ دی جاتی۔ اللہ کوئی انسان کی طرح ناقص العلم تھوڑا ہی ہے کہ سوچ سوچ کر بات کرے، رفتہ رفتہ معلومات حاصل کرتا رہے، اور ایک بات ٹھیک بیٹھتی نظر نہ آئے تو دوسرے طریقہ سے بات کرے یہ تو انسانی علم کی کمزوریاں ہیں جو تمہارے اس کلام میں نظر آ رہی ہیں۔

۱۰۳- ’’روح القدس‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’پاک رُوح‘‘ یا ’’پاکیزگی‘‘۔ اور اصطلاحاً یہ لقب حضرت جبریلؑ کو دیا گیا ہے۔ یہاں وحی لانے والے فرشتے کا نام لینے کے بجائے اس کا لقب استعمال کرنے سے مقصود سامعین کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ اِس کلام کو ایک ایسی روح لے کر آ رہی ہے جو بشری کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے۔ وہ نہ خائن ہے کہ اللہ کچھ بھیجے اور وہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے کچھ اور بنا دے۔ نہ کذّاب و مفتری ہے کہ خود کوئی بات گھڑ کے اللہ کے نام سے بیان کر دے۔ نہ بدنیت ہے کہ اپنی کسی نفسانی غرض کی بنا پر دھوکے اور فریب سے کام لے۔ وہ سراسر ایک مقدس و مطہر روح ہے جو اللہ کا کلام پوری امانت کے ساتھ لا کر پہنچاتی ہے۔

۱۰۴- یعنی اُس کے بتدریج اِس کلام کو لے کر آنے اور بیک وقت سب کچھ نہ لے آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علم و دانش میں کوئی نقص ہے، جیسا کہ تم نے اپنی نادانی سے سمجھا، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی قوتِ فہم اور قوتِ اخذ میں نقص ہے جس کے سبب سے وہ بیک وقت ساری بات کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ایک وقت کی سمجھی ہوئی بات میں پختہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت اِس بات کی مقتضی ہوئی کہ روح القدس اِس کلام کو تھوڑا تھوڑا کر کے لائے، کبھی اجمال سے کام لے اور کبھی اسی بات کی تفصیل بتائے، کبھی ایک طریقہ سے بات سمجھائے اور کبھی دوسرے طریقے سے، کبھی ایک پیرایۂ بیان اختیار کرے اور کبھی دوسرا، اور ایک ہی بات کو بار بار طریقے طریقے سے ذہن نشین کر نے کی کوشش کرے، تاکہ مختلف قابلیتوں اور استعدادوں کے طالبینِ حق ایمان لا سکیں اور ایمان لانے کے بعد علم و یقین اور فہم و ادراک میں پختہ ہو سکیں۔

۱۰۵- یہ اس تدریج کی دوسری مصلحت ہے۔ یعنی یہ کہ جو لوگ ایمان لا کر فرمانبرداری کی راہ چل رہے ہیں ان کی دعوتِ  اسلامی کے کام میں اور زندگی کے پیش آمدہ مسائل میں جس موقع پر جس قسم کی ہدایات درکار ہوں وہ بر وقت دے دی جائیں۔ ظاہر ہے کہ نہ انہیں قبل از وقت بھیجنا مناسب ہو سکتا ہے، اور نہ بیک وقت ساری ہدایات دے دینا مفید ہے۔

۱۰۶- یہ اُس کی تیسری مصلحت ہے۔ یعنی یہ کہ فرماں برداروں کو جن مزاحمتوں اور مخالفتوں سے سابقہ پیش آ رہا ہے اور جس جس طرح انہیں ستایا اور تنگ کیا جا رہا ہے، اور دعوتِ اسلامی کے کام میں مشکلات کے جو پہاڑ سدِّ راہ ہو رہے ہیں، ان کی وجہ سے وہ بار بار اس کے محتاج ہوتے ہیں کہ بشارتوں سے ان کی ہمت بندھائی جاتی رہے اور ان کو آخری نتائج کی کامیابی کا یقین دلا یا جاتا رہے تاکہ وہ پُر امید رہیں اور دل شکستہ نہ ہونے پائیں۔

۱۰۷- روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفارِ مکہ اُن میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبر بیان کیا گیا ہے جو عامر بن الحَضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت میں حُوَیطِب بن عبد العُزّیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے جسے عائش یا یَعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یَسار کا نام لیا گیا ہے جس کی کنیت ابُو فکَیہَہ تھی اور جو مکّے کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو، کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص توراۃ و انجیل پڑھتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے ملاقات ہے، بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کر رہا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ؐ کے مخالفین آپ کے خلاف افترا پردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے، بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدر و قیمت پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی جس کی نظیر نہ اُس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کو اُس کے مقابلہ میں ایک عجمی غلام، جو کچھ توراۃ و انجیل پڑھ لیتا تھا، قابل تر نظر آ رہا تھا اور وہ گمان کر رہے تھے کہ یہ گوہرِ نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کر رہا ہے۔

۱۰۸- دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جھوٹ تو وہ لوگ گھڑا کرتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔

۱۰۹- اس آیت میں اُن مسلمانوں کے معاملے سے بحث کی گئی ہے جن پر اُس وقت سخت مظالم توڑے جا رہے تھے اور ناقابلِ برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر زبان سے ادا کر دو، اور دل تمہارا عقیدۂ کفر سے محفوظ ہو، تو معاف کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو، خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا چاہیے۔ بلکہ یہ صرف رخصت ہے۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہو گا۔ ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے بہرحال وہ کلمۂ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔ دونوں قسم کی نظیریں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہدِ  مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف خَبَّاب ؓ بن اَرت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لُٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی، مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے۔ بلالؓ حبشی ہیں جن کو لوہے کی زِرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔ حبیب بن زیدؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مُسیلمہ کذاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں، مگر ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دے دی۔ دوسری طرف عَمّار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا، پھر ان کو اتنی ناقابلِ برداشت اذیّت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار اُن سے کہلوانا چاہتے تھے۔ پھر وہ روتے روتے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رَسُول َ اللہ مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَذَکَرْ تُ اٰ لھَِتَھُمْ بِخَیْرٍ۔ ’’یا رسول اللہ، مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ کو بُرا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا‘‘۔ حضور نے پوچھا کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ۔ ’’اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو‘‘ ؟ عرض کیا مُطْمَئِنًا بِالْایمَانِ۔ ’’ایمان پر پوری طرح مطمئن‘‘۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا ان عَادُوْ افَعُدْ۔ ’’اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا‘‘۔

۱۱۰- یہ فقرے اُن لوگوں کے بارے میں فرمائے گئے ہیں جنہوں نے راہِ حق کو کٹھن پا کر ایمان سے توبہ کر لی تھی اور پھر اپنی کافر و مشرک قوم میں جا ملے تھے۔

۱۱۱- اشارہ ہے مہاجرینِ  حبشہ کی طرف۔

 

ترجمہ

 

(اِن سب کا فیصلہ اُس دن ہو گا) جب کہ ہر متنفّس اپنے ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہوا ہو گا اور ہر ایک کو اُس کے کیے کا بدلہ پُورا پُورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا۔اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اُس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اُس کے باشندوں کو اُن کے کرتُوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ بھُوک اور خوف کی مصیبتیں اُن پر چھا گئیں۔اُن کے پاس اُن کی اپنی قوم میں سے ایک رسُول آیا۔ مگر اُنہوں نے اس کو جھُٹلا دیا۔ آخرِ کار عذاب نے اُن کو آ لیا جبکہ وہ ظالم ہو چکے تھے۔ ۱۱۲ پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو ۱۱۳ اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو۔۱۱۴اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خُون اور سُؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ البتہ بھُوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانونِ الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حدِّ ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۱۵اور یہ جو تمہاری زبانیں جھُوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھُوٹ نہ باندھا کرو۔۱۱۶ جو لوگ اللہ پر جھُوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہر گز فلاح نہیں پایا کرتے۔ دنیا کا عیش چند روزہ ہے۔ آخرِ کار اُن کے لیے دردناک سزا ہے۔ ۱۱۷ وہ چیزیں ہم نے خاص طور پر یہودیوں کے لیے حرام کی تھیں جن کا ذکر ہم اس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں۔۱۱۸ اور یہ اُن پر ہمارا ظلم نہ تھا بلکہ اُن کا اپنا ہی ظلم تھا جو وہ اپنے اُوپر کر رہے تھے۔ البتہ جن لوگوں نے جہالت کی بنا پر بُرا عمل کیا اور پھر توبہ کر کے اپنے عمل کی اصلاح کر لی تو یقیناً توبہ و اصلاح کے بعد تیرا ربّ اُن کے لیے غفور اور رحیم ہے۔ ؏ ١۵

 

تفسیر

 

۱۱۲- یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشان دہی نہیں کی گئی۔ نہ مفسرین یہ تعین کر سکے ہیں کہ یہ کونسی بستی ہے۔ بظاہر ابن عباسؓ ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خود مکّے کو نام لیے بغیر مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ قحط ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد ایک مدّت تک اہلِ مکّہ پر مسلّط رہا۔

۱۱۳- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے۔

۱۱۴- یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔

۱۱۵- یہ حکم سورۂ بقرہ آیت نمبر ۳، سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورۂ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔

۱۱۶- یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں، یا بالفاظِ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنے حد سے تجاوز کرے گا، اِلّا یہ کہ وہ قانون الٰہی کو سند مان کر اُس کے فرامین سے استنباط کرتے ہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلاں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔

اِس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اِس طرح کے احکام لگاتا ہے اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ یا وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جسے وہ کتابِ الٰہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز یا ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔ یا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل و تحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے جو دعویٰ بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔

۱۱۷- یہ پورا پیراگراف اُن اعتراضات کے جواب میں ہے جو مذکورۂ بالا حکم پر کیے جا رہے تھے۔ کفارِ مکہ کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں تو اور بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جن کو تم نے حلال کر رکھا ہے۔ اگر وہ شریعت خدا کی طرف سے تھی تو تم خود اس کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ اور اگر وہ بھی خدا کی طرف سے تھی اور یہ تمہاری شریعت بھی خدا کی طرف سے ہے تو دونوں میں یہ اختلاف کیسا ہے ؟ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں سبت کی حرمت کا جو قانون تھا اس کو بھی تم نے اڑا دیا ہے۔ یہ تمہارا اپنا خود مختارانہ فعل ہے یا اللہ ہی نے اپنی دو شریعتوں میں دو متضاد حکم دے رکھے ہیں؟

۱۱۸- اشارہ ہے سورۂ انعام کی آیت وَعَلَی الَّذینَ ھَادُوْ ا حَرَّمْنَا کُلَّ ذی ظُفُرِ، الاٰ یَۃ (آیت نمبر ۱۴۶) کی طرف، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث خصوصیّت کے ساتھ کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں۔

اس جگہ ایک اِشکال پیش آتا ہے۔ سورۂ نحل کی اس آیت میں سورۂ انعام کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انعام اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ لیکن ایک مقام پر سورۂ انعام میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاْ کُلُوْا مِمَّا ذَکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہٖ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ ( آیت نمبر ۱۱۹)۔ اس میں سورۂ نحل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ مکّی سورتوں میں سورۂ انعام کے سوا بس یہی ایک سورۃ ہے جس میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی تھی اور کون سی بعد میں؟ ہمارے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ پہلے سورۂ نحل نازل ہوئی تھی جس کا حوالہ سورۂ انعام کی مذکورۂ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ بعد میں کسی موقع پر کفار مکہ نے سورۂ نحل کی اِن آیتوں پر وہ اعتراضات وارد کیے جو ابھی ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس وقت سورۂ انعام نازل ہو چکی تھی۔ اس لیے ان کو جواب دیا گیا کہ ہم پہلے، یعنی سورۂ انعام میں بتا چکے ہیں کہ یہودیوں پر چند چیزیں خاص طور پر حرام کی گئی تھیں۔ اور چونکہ یہ اعتراض سورۂ نحل پر کیا گیا تھا اس لیے اس کا جواب بھی سورۂ نحل ہی میں جملۂ معترضہ کے طور پر درج کیا گیا۔

 

ترجمہ

 

واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم ؑ اپنی ذات سے ایک پوری اُمّت تھا،۱۱۹ اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسُو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اُس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔دنیا میں اس کو بھلائی دی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہو گا۔پھر ہم نے تمہاری طرف یہ وحی بھیجی کہ یکسُو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقے پر چلو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔۱۲۰رہا سَبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلّط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا ۱۲۱ یا، اور یقیناً تیرا ربّ قیامت کے روز ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔اے نبی ؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ،۱۲۲ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔۱۲۳ تمہارا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔ اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔ اے محمد ؐ، صبر سے کام کیے جاؤ۔۔۔۔اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔۔۔۔اِن لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں۔۱۲۴ ؏ ١٦

 

تفسیر

 

۱۱۹- یعنی وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک اُمت تھا۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا تو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی۔ اُس اکیلے بندۂ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امّت کے کرنے کا تھا۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ ایک پورا ادارہ تھا۔

۱۲۰- یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا مکمل جواب ہے۔ اس جواب کے دو اجزا ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی شریعت میں تضاد نہیں ہے، جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدیؐ کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے، بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملتِ ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلاً یہودی اونٹ نہیں کھاتے، مگر مِلّتِ ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ، بط، خرگوش وغیرہ حرام ہیں، مگر ملّتِ ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔ اس جواب کے ساتھ ساتھ کفارِ مکّہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیمؑ سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملّتِ ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی ﷺ اور اس کے ساتھی ہیں جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔

۱۲۱- یہ کفارِ مکّہ کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ اس میں یہ بیان کرنے کی حاجت نہ تھی کہ سَبت بھی یہودیوں کے لیے مخصوص تھا اور مِلّتِ ابراہیمی میں حرمتِ سبت کا کوئی وجود نہ تھا، کیونکہ اس بات کو خود کفار مکہ بھی جانتے تھے۔ اس لیے صرف اتنا ہی اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا کہ یہودیوں کے ہاں سبت کے قانون میں جو سختیاں تم پاتے ہو یہ ابتدائی حکم میں نہ تھیں بلکہ یہ بعد میں یہودیوں کی شرارتوں اور احکام کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ان پر عائد کی گئی تھیں۔ قرآن مجید کے اس اشارے کو آدمی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ ایک طرف بائیبل کے اُن مقامات کو نہ دیکھے جہاں سبت کے احکام بیان ہوئے ہیں (مثلاً ملاحظہ ہو خروج باب ۲۰، آیت ۸ تا ۱۱۔ باب ۲۳، آیت ۱۲ و ۱۳۔ باب ۳۱، آیت ۱۲ تا ۱۷۔ باب ۳۵، آیت ۲ و ۳۔ گنتی باب ۱۵، آیت ۳۲ تا ۳۶)، اور دوسری طرف اُن جسارتوں سے واقف نہ ہو جو یہودی سبت کی حرمت کو توڑنے میں ظاہر کرتے رہے (مثلاً ملاحظہ ہو یر میاہ باب ۱۷، آیت ۲۱ تا ۲۷۔ حِزقی ایل، باب ۲۰، آیت ۱۲ تا ۲۴)۔

۱۲۲- یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں۔ ایک حکمت۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔

حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔

عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھار ا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلاً ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔

۱۲۳- یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔

۱۲۴- یعنی جو خدا سے ڈر کر ہر قسم کے بُرے طریقوں سے پرہیز کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں۔ دوسرے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی بُرائی کریں، وہ ان کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی ہی سے دیے جاتے ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید