FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ ایک تنقیدی جائزہ

               ڈاکٹر حافظ افتخار احمد

 

 

Abstract

 

 

In this article Hafiz Iftikhar Ahmad has made a critical appreciation of Maulana Amin Ahsan Eslahi’s Tadabbar-e-Quran. Hafiz has shown that Eslahie’s Commentary of the Quran is objective and impartial. Eslahee has witten his commentary of the Quran in the face of the many internal and external distortions that resulted, over the years, from different interpretations by the different people. Hafiz Iftikhar Ahmad has shown that Eslahi has set the perspective  right, on many distortion.

 

 

            برصغیر پاک و ہند میں اللّہ تعالیٰ نے جن اہل علم و فضل کو اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کی توفیق عطا فرمائی ان کی فہرست تو بہت طویل ہے اس فہرست میں ایک نام مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا بھی ہے جنہوں نے ’’تدبر قرآن‘‘ کے نام سے اردو زبان میں نو(۹) جلدوں میں ایک ضخیم تفسیر لکھی۔ جس کے متعدد ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ ہماری آج کی گفتگو کا  عنوان اس تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ پر ایک ناقدانہ نظر ہے۔ تدبر قرآن پر بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی کے متعلق چند باتیں آپ حضرات کے سامنے گوش گذار کر دی جائیں۔

مولانا امین احسن اصلاحی

            مولانا امین احسن اصلاحی ۱۹۰۴ء میں ہندوستان کے ایک گاوں ’’بمبھور‘‘ ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے(۱)۔ اور سرائے میر ضلع اعظم گڑھ انڈیا کی مشہور دینی درسگاہ ’’مدرسہ الاصلاح‘‘(۲) میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۵ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد اس مدرسہ میں بحیثیت مدرس تعینات ہوئے اور ساتھ ہی مولانا عبدالحمید(۳) فراہی(۴) سے استفادہ جاری رکھا۔ سنہ ۱۹۳۰ء میں مولانا فراہی(۵) کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(۶) سے شرف تلمذ حاصل کیا اور ’’سنن ترمذی‘‘ (۷) پڑھی(۸)۔ اس عرصے میں ان کے تعلقات مولانا مودودی(۹) سے استوار ہوئے اور ۱۹۴۱ء میں جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا اصلاحی صاحب اس میں شامل ہو گئے اور اس کے شعبہ تصنیف و تالیف اور دعوت میں مشغول ہو گئے۔ ۱۹۵۷ء میں بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر جن سے اہلِ علم واقف ہیں، سترہ (۱۷) سال کی طویل رفاقت کے بعد آخر کار جماعت سے علیحدہ ہو گئے(۱۰) اور ’’تدبر قرآن‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھنا شروع کی جو ۱۹۸۰ء میں مکمل ہوئی اور عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ نزولِ قرآن کریم کا زمانہ بھی تیئیس(۲۳) سال پر محیط ہے اور تدبر قرآن کی تالیف کی مدت بھی تیئیس سال ہی ہے اس طرح اس کتاب کی تکمیل میں آپ کو ایک الہامی مناسبت حاصل ہو گئی ہے۔

            ’’تدبر قرآن‘‘ کی تالیف سے فراغت کے بعد مولانا اصلاحی صاحب نے ادارہ ’’تدبر قرآن و حدیث‘‘ قائم کیا جس میں انہوں نے اصول تفسیر و تفسیر اور اصول حدیث و حدیث پر لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا اور طلبہ کو مؤطا امام مالک(۱۱) سبقًا سبقًا پڑھائی اور اس کے بعد صحیح بخاری(۱۲) کا درس شروع کیا اور یہ تمام لیکچرز مولانا اصلاحی صاحب کی زیر سر پرستی لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ (تدبر) (۱۳) میں شائع ہو رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی صاحب اس ادارے کے مؤسس اور اس کے سربراہ ہیں (۱۴)۔

            تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کے علاوہ مولانا اصلاحی صاحب نے مختلف دینی علمی و سیاسی موضوعات پر تقریبًا بیس(۲۰) کے قریب تصانیف (۱۵) سپرد قلم کی ہیں۔ اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنے قابل صد احترام استاد مولانا عبدالحمید فراہی کی تفسیر’’نظام القرآن‘‘(۱۶) جو در اصل چند سورتوں (۱۷) کی تفسیر ہے اس کا اردو ترجمہ کیا جو مولانا اصلاحی کے جاری کردہ رسالے  ’’الاصلاح‘‘(۱۸) میں شائع ہوتا رہا اور اب یہ تفاسیر فراہی کے نام سے شائع ہو چکی ہے، مولانا اصلاحی صاحب کا انتقال ۱۴ دسمبر ۱۹۹۷ء کو لاہور میں ہوا۔ انّا للّہ وانّا الیہ راجعون۔

تفسیر تدبر قرآن کی غرض و غایت

            مولانا اصلاحی صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ کے مقدمے میں فرماتے ہیں : ’’اس کتاب کے لکھنے سے میرے پیش نظر قرآن کریم کی ایسی تفسیر لکھنا ہے۔ جس میں میری دلی آرزو اور پوری کوشش اس امر کے لئے ہے کہ میں ہر قسم کے بیرونی لوث اور لگاؤ کے تعصب و تخرب سے آزاد اور پاک ہو کر ہر آیت کا وہ مطلب سمجھوں اور سمجھاؤں جو فی الواقع اور فی الحقیقت اس آیت سے نکلتا ہے اس مقصد کے تقاضے سے قدرتی اہمیت دی ہے جو خود قرآن کے اندر موجود ہیں (۱۹)۔

اصلاحی صاحب کے نزدیک فہم قرآن کے وسائل

مولانا اصلاحی صاحب نے فہم قرآن کے وسائل کو دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے:

            ۱۔        فہم قرآن کے داخلی وسائل

            ۲۔       فہم قرآن کے خارجی وسائل

داخلی وسائل

۱۔        قرآن حکیم کی زبان         ۳۔       قرآن کریم کا نظم             ۳۔       قرآن کریم کے نظائر و شواہد

خارجی وسائل

            ۱۔        حدیث              ۲۔       تاریخ    ۳۔       سابقہ آسمانی صحیفے ۴۔            تفسیر کی کتابیں (۲۰)

            اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ : ’’اگرچہ امکان کی حد تک میں نے ان سے (خارجی وسائل) بھی فائدہ اٹھایا ہے لیکن ان کو داخلی وسائل کے تابع رکھ کر ان سے استفادہ کیا ہے جو بات قرآن کے الفاظ، قرآن کے نظم اور قرآن کی خود اپنی شہادتوں اور نظائر سے واضح ہو گئی ہے۔ تو وہ میں نے لے لی ہے۔ اگر کوئی چیز اس کے خلاف میرے سامنے آئی ہے تو میں نے اس کی قدر و قیمت اور اہمیت کے اعتبار سے اس کو جانچا ہے۔ اگر دینی و علمی پہلو سے وہ کوئی اہمیت رکھنے والی بات ہوئی ہے تو میں نے اس پر تنقید کر کے اس کو سمجھنے اور اس کے صحیح پہلو متعین کرنے کی کوشش کی ہے اور اگر کوئی بات یونہی سی ہوئی ہے۔ تو اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔ بے ضرورت اس پر طبع آزمائی نہیں کی ہے(۲۱)۔

تدبر قرآن کے تفسیری ماخذ اور ان سے استفادہ کی نوعیت

            اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کی تالیف میں جن قدیم مفسرین کی تفاسیر سے استفادہ کیا ہے ان کو ذکر خود مولانا نے ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد اوّل کے مقدمہ میں کیا ہے جو حسبِ ذیل ہے:

۱۔        ابو جعفر محمد بن جریر الطبری(متوفی ۳۱۰ھ) کی تفسیر ’’جامع البیان عن تاویل آی القرآن‘‘ المعروف(تفسیر طبری)(۲۲)۔

۲۔       اور مشہور معتزلی مفسر امام جار اللّہ محمود بن عمر الزمخشری(متوفی ۵۲۸)(۲۳) کی تفسیر ’’الکشاف عن حقائق عوارض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل‘‘ المعروف بہ(تفسیر زمخشری)۔

۳۔       اور امام فخر الدین محمد بن عمر بن الحسین الحسن ابن علی الرازی(۲۴)(۵۴۴-۶۰۴ھ) کی تفسیر مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

            مذکورہ بالا تفاسیر کے علاوہ اصلاحی صاحب نے اپنے استاد عبدالحمید فراہی کی تفسیر ’’نظام القرآن‘‘ سے بھی خاطر خواہ  استفادہ کیا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ تفاسیر میں اصلاحی صاحب نے سب سے زیادہ اگر کسی تفسیر سے استفادہ کیا ہے تو یہی فراہی کی تفسیر ّہے اور اکثر مقامات پر تو انہوں نے فراہی صاحب کی تفسیر کو بعینہ نقل کر دیا ہے(۲۵)۔ اس کی مثال ’’سورہ فیل‘‘ کی تفسیر ہے جس میں شاگرد رشید اپنے استاد سے متلف ہے اور ان کا مؤقف جمہور مفسرین سے مختلف ہے۔ ان تفاسیر سے استفادہ کی نوعیت کے بارے میں مولانا اصلاحی صاحب فرماتے ہیں :

            ’’ہمارا طریقہ تفسیر یہ ہے کہ ہم ہر سورۃ اور ہر آیت پر اس کے الفاظ، اس کے سیاق و سباق، اس کے نظم اور قرآن میں اس کے شواہد نظائر کی روشنی میں غور کرتے ہیں۔ اس طرح جو باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ مزید اطمینان کے لئے ان کی تفسیروں میں دیکھ لیتے ہیں۔ جس نتیجے تک ہم پہنچتے ہیں ان کی تائید اگر تفسیروں سے بھی ہو جاتی ہے تو اس سے مزید اطمینان ہو جاتا ہے۔ اگر تفسیروں سے اس کی تائید نہیں ہوتی تو اس پر غور فکر جاری رکھتے ہیں تا آنکہ یا تو اپنی غلطی دلائل کے ساتھ واضح ہو جائے یا تفسیروں میں جو بات ہے اس کے ضعف کے وجوہ و دلائل سامنے آ جائیں ہمارے نزدیک  تفسیروں سے فائدہ اٹھانے کا صحیح طریقہ یہی ہے(۲۶)۔

            علوم القرآن کے ذیل میں اصلاحی صاحب اپنے استاد مولانا فراہی کی ’’دلائل النظام(۲۷) اور ’’مفردات القرآن‘‘ (۲۸) اور ’’فاتحہ نظام القرآن‘‘(۲۹) سے استفادہ کیا ہے اور اپنی تفسیر میں جگہ جگہ کے حوالے دیئے ہیں اور کتب لغت میں ’’لسان العرب‘‘(۳۰) اور ’’اقرب الموارد‘‘ پر (۳۱) اصلاحی صاحب نے اعتماد کیا ہے۔

حدیث نبوی کے بارے میں اصلاحی صاحب کا مؤقف

            مولانا اصلاحی صاحب نے حدیث کی دو قسمیں بیان کی ہیں :

۱۔        حدیث متواتر                  ۲۔       خبر واحد

            حدیث متواتر کے بارے میں تو وہ تواتر عملی پر اعتماد کرتے ہیں اور تواتر نقلی کا انکار کرتے ہیں (۳۲)۔ اخبار آحاد پر ان کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تفسیر میں حدیث نبوی کا ذکر بہت کم ملتا ہے اور مزید حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بعض مقامات پر تو انہوں نے محض لغت اور اپنی عقل  پر اعتماد کرتے ہوئے صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے جن کو امام بخاریؒ اور مسلم نے اپنی صحیحین میں ذکر کیا ہے جن میں مطلقہ ثلاث کی اپنے پہلے خاوند کے لئے حلت اور محصن (بالصاد) زانی کے رجم کے مسائل(۳۳) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

’’قدیم آسمانی صحیفے‘‘

            قدیم آسمانی کتب(توریت انجیل وغیرہ) سے مولانا اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں استفادہ کیا ہے۔ اپنی تفسیر کے مقدمے میں اصلاحی صاحب مذکورہ بالا کتب کے بارے میں فرماتے ہیں :

            ’’قرآن مجید میں کئی جگہ قدیم آسمانی صحیفوں تورات، انجیل، زبور کے حوالے ہیں۔ بہت سے مقامات پر انبیاء بنی اسرائیل کی سرگذشتیں ہیں۔ بعض جگہ یہود و نصاریٰ کی تحریفات کی تردید اور  ان کی پیش کردہ تاریخ پر تنقید ہے۔ ایسے مواقع پر میں نے بحث و تنقید کی بنیاد اصل ماخذ وہ یعنی تورات و انجیل پر رکھی ہے۔ ان کتب میں تحریفات کے باوجود آج بھی ان کے اندر حکمت کے خزانے ہیں۔ اگر آدمی ان کو پڑھے تو یہ حقیقت آفتاب کی طرح سامنے آتی ہے کہ ان صحیفوں کا سرچشمہ بھی بلاشبہ وہی ہے(تھا) جو قرآن کا ہے۔ میں ان کو بار بار پڑھنے کے بعد اس رائے کا اظہار کرتا ہوں کہ قرآن کی حکمت کو سمجھنے میں خود ان صحیفوں سے وہ مشکل ہی سے کسی دوسری چیز خاص طور پر زبور، امثال اور انجیلوں کو پڑھئے تو ان کے اندر ایمان کی وہ غذا ملتی ہے جو قرآن و حدیث کے سوا اور کہیں سے بھی نہیں ملتی(۳۴)۔ ان کتابوں کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اس کے لئے ڈاکٹر محمد حمید اللّہ کی ’’خطبات بہاولپور‘‘ کے پہلے خطبے کا صفحہ پانچ، چھ اور سات پر نظر ڈالیں۔

            امر واقع یہ ہے کہ اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں عربی لغت کے بعد اگر کسی چیز پر سب سے زیادہ اعتماد کیا ہے تو وہ کتب سماویہ(۳۵) ہیں حالانکہ قرآن کریم نے ایک سے زائد مقامات پر واضح طور پر ان کتب میں تحریفات(۳۶) کا ذکر کیا ہے۔ اس پر مزید مزے کی بات یہ ہے کہ مولانا نے اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے متعدد جگہ تورات و انجیل کے حوالے دیئے ہیں۔ لیکن جب رجم کا مسئلہ آیا تو باوجود اس کے کہ رجم کا حکم آج بھی مذکورہ بالا کتب میں باوجود تحریف کے موجود ہے(۳۷) لیکن یہاں پر آ کر اصلاحی صاحب کا زور قلم خاموش ہو جاتا ہے اور اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیرمیں جس قدر اقتباسات کتب سابقہ سے نقل کیے ہیں اس کا عشر عشیر بھی حدیث نبویﷺ اور صحابہ کرامؓ کے اقوال کے بارے میں نہیں ہے اس سب کے باوجود کچھ احباب کا اصرار ہے کہ تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ تفسیر بالماثور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے اصلاحی صاحب کی ان کتب پر گہری نظر کا اندازہ ہوتا ہے کاش کہ وہ ایسا کتبِ حدیث کے بارے میں بھی کرتے لیکن افسوس انہوں نے اپنی تفسیر(۳۸) میں ایسا نہیں کیا حالانکہ قرآن مجید کی تفسیر حدیث نبوی کی روشنی میں کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ حدیث تفسیر قرآن مجید کا دوسرا اہم مرجع ہے(۳۹)۔ اس اصول کو تمام متقدمین و متاخرین نے تسلیم کیا ہے اور خود مولانا صاحب نے ۱۵ دسمبر ۱۹۵۱ء کو پنجاب یونیورسٹی کے ایم -اے (اسلامیات) کے طلباء سے ایک خطاب (۴۰) فرمایا۔ اس میں مولانا نے مفسرین کے چار(۴۱) مکاتبِ فکر کا ذکر کیا ہے پھر ان کے طریقوں پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

            ’’سب سے پہلے اصحاب الروایت کے طریقہ کو لیجئے اس میں شبہ نہیں کہ مذکورہ بالا تمام طریقوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور مامون طریقہ تفسیر کا یہی ہے اس طریقہ کی اصلی خصوصیت تفسیر میں رسول اﷲﷺ، صحابہ کرامؓ اور سلف کے اقوال کا اہتمام ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کرنے کا حق رسول اﷲﷺ اور صحابہؓ سے زیادہ کسی کو ہو سکتا ہے اور نہ رسول ﷺ اور صحابہؓ کی تفسیر سے زیادہ کسی کی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے لیکن اس طریق میں چند خرابیاں ہیں :

۱۔        تفسیر میں رسول اﷲﷺ سے بطریق مرفوع بہت کم منقول ہے۔

۲۔       اس طرح صحابہ سے بھی تفسیر کے سلسلے میں کچھ زیادہ منقول نہیں ہے۔

      ہماری تفسیر کی کتابیں بے اصل روایات سے بھری پڑی ہیں اور ان کے غلط و صحیح میں امتیاز کرنا نہایت مشکل ہے۔

۳۔       ’’اگر ان روایات کی تحقیق و تنقید کر کے ان کے اندر جو مغز ہے ان کو الگ بھی کیا جا سکے جب بھی تنہا انہی کو تفسیر میں فیصلہ کُن چیز قرار دینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ روایات صحت کے معیار پر پوری اترنے کے بعد بھی ظن کے شائبہ سے پاک نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس لئے اگر قرآن کریم کی تفسیر میں تنہا انہی کو فیصلہ کُن چیز مان لیا جائے تو قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچے گا اور یہ چیز کسی طرح بھی گوارا نہیں کی جا سکتی۔ دوسرے دلائل و شواہد کے ساتھ مل کر تو بلاشبہ یہ روایات قرآن مجید کی صحیح مفہوم کی تعین میں بہت زیادہ مددگار ہو سکتی ہے۔ لیکن تنہا انہی کی مددسے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا(۴۲)۔

            اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مولانا اصلاحی صاحب نظریاتی طور پر حدیث رسولﷺ کو قرآن مجید کی تفسیر کا ایک اہم مصدر سمجھتے ہیں لیکن عملاً اسے وہ حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جو انہوں نے اپنے بیان کردہ دیگر اصول تفسیر کو دی ہے، مثال کے طور پر مولانا اصلاحی صاحب کی مذکورہ بالا تنقید کا تیسرا پیرا گراف ہی کافی ہے۔

            مولانا اصلاحی صاحب جب تحقیق شدہ روایات کو قرآن کریم کی تفسیر میں فیصلہ کُن حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں تو اسی سے بآسانی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ و تابعین کے اقوال کو بھی کس قدر اہمیت دیتے ہوں گے اور اس کا نتیجہ ہے کہ اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں حضرت ماعز(۴۳) اسلمی اور غامدیہ(۴۴) جیسے صحابہ کرام کے بارے میں جو الفاظ لکھے ہیں ہمارا قلم ان الفاظ کو نقل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

’’شانِ نزول اور تدبر قرآن‘‘

            شانِ نزول کے بارے میں مولانا اصلاحی صاحب نے اپنے استاد محترم جناب فراہی کے مسلک کی پیروی کی ہے جو فراہی صاحب نے اپنی تفسیر’’نظام القرآن‘‘ کے مقدمہ میں بیان کیا ہے۔ در اصل یہی مؤقف ان حضرات سے پہلے علامہ جلال الدین سیوطیؒ(۹۱۰ھ) نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں علامہ زرکشی سے نقل کیا ہے جو انہوں نے ’’ابرھان فی علوم القرآن‘‘ میں تحریر فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

            ’’صحابہ و تابعین رضی اللّہ عنھم کی عادت یہ تھی کہ جب وہ یہ کہتے ہیں فلاں آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بعینہ وہ بات اس آیت کے نزول کا سبب ہی ہے یہ گویا اس حکم پر اس آیت سے ایک قسم کا استدلال ہوتا ہے۔ اس سے مقصود نقل واقعہ نہیں ہوتا‘‘(۴۵)۔

تدبر قرآن اور اسرائیلیات

            تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ اس لحاظ سے دوسری بہت سی قدیم اور جدید تفاسیر سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہے کہ اس میں ان اسرائیلیات سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے جن سے عصمت انبیاء داغدار ہوتی تھی یا بے سروپا لغو عبارات جو اخلاقی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔ اور تفسیر کے سلسلے میں بات کو صرف اس حد تک محدود رکھا گیا ہے جس پر قرآنی الفاظ دلالت کرتے تھے۔ ان روایات میں اکثر کا تعلق چونکہ انبیاء علیھم السلام سے ہے اس لئے اصلاحی صاحب نے بڑی خوبصورتی اور کامیاب طریقے سے عصمت انبیاء کا دفاع کیا ہے۔

نسخ کے بارے میں اصلاحی صاحب کا مؤقف

            نسخ القرآن کے بارے میں اصلاحی صاحب کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نہ تو اس کا انکار کرتے ہیں اور نہ اس میں بہت زیادہ وسعت کے قائل ہیں بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے البتہ نسخ قرآن کی اقسام کے بارے میں وہ صرف نسخ القرآن بالقرآن کے قائل ہیں (۴۶)۔ جو جمہور مفسرین کے رائے ہیں اور نسخ القرآن بالسنہ کے قائل نہیں ہیں (۴۷) یہ مؤقف اس سے پہلے جن آئمہ کرام نے اپنا  یا ان میں امام محمد  بن ادریس الشافعی(۴۸) کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

نظم (ربط) قرآن کے بارے میں اصلاحی صاحب کا مؤقف

            مولانا اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں  ’’نظم قرآن‘‘ پر بہت زور دیا ہے اور پورے قرآن مجید کی تفسیر اس نظم(ربط) کی روشنی میں کی ہے۔ اصلاحی صاحب سے پہلے جن مفسرین نے اپنی تفاسیر میں نظم کو ذکر کیا ہے۔ اصلاحی صاحب اپنے استاد فراہی صاحب کے سوا کسی سے مطمئن نظر نہیں آتے اس کی وجہ وہ فرماتے ہیں :

            ’’ایک تو یہ نظم قرآن کی تلاش ہے ہی ایسا کام کہ ہر شخص اس کو ہ کنی کے لئے اپنی زندگی وقف نہیں کر سکتا۔ دوسرے جن لوگوں نے نظم قرآن کا دعوٰی کیا ہے ان کی خدمات کے اعتراف کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں پیش کر سکے جو اس راہ میں قسمت آزمائی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بڑھائے(۴۹)۔

            مولانا اصلاحی  صاحب سے پہلے جن مفسرین نے اپنی تفاسیر میں نظم کا خیال رکھا ہے ان میں امام رازی کی تفسیر کبیر اور علامہ مخدوم مہائمی کی تفسیر ’’تبصیر الرحمن و تیسیر المنان‘‘ جو تفسیر مہائمی کے نام سے مشہور ہے۔ کا ذکر اصلاحی صاحب نے کیا ہے کہ یہ تفسیریں میرے مطالعے میں رہتی ہیں ان کے بعد فرماتے ہیں :

            ’’میں بلا کسی تحقیر کے عرض کرتا ہوں کہ ان میں سے کسی کی کتاب سے بھی مجھے کسی مشکل کے حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملی۔ یہ حضرات جس قسم کا نظم بیان کرتے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس قسم کا نظم ہر دو غیر متعلق چیزوں میں جوڑا جا سکتا ہے‘‘(۵۰)۔

            اصلاحی صاحب فرماتے ہیں :

            ’’اس راہ میں سب سے پہلی کامیاب کوشش کی سعادت میرے استاز عبد الحمید فراہی کو حاصل ہوئی‘‘(۵۱)۔

            اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کریم ایک مربوط اور منظم کتاب ہے۔اس کی ہر سورۃ کی تمام آیات آپس میں گہرا ربط رکھتی ہیں جن کو انہوں نے اپنی تفسیر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس نظریہ کو مزید آگے بڑھاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک سورۃ کی تمام آیات آپس میں مربوط و منظم ہیں۔اسی طرح ہر دو سورتیں بھی آپس میں گہرا ربط رکھتی ہیں جس کو وہ ’’زوج‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک سورۃ میں ایک مضمون کا ایک حصہ بیان ہوا ہے تو دوسری سورۃ میں اسی مضمون کا بقیہ حصہ بیان کیا گیا ہے۔ بعض اوقات ایک سورۃ میں اجمال ہو گا تو دوسری سورۃ میں تفصیل ہو گی۔

            اس سے بھی ایک قدم آگے وہ فرماتے ہیں :’’قرآن کریم میں مجموعی بھی ایک مخصوص نظام ہے جس کا ایک پہلو بالکل ظاہر ہے جو ہر شخص کو نظر آتا  ہے؛ لیکن اس کا ایک پہلو مخفی ہے جو غور و خوض اور تدبر سے سامنے آتا ہے‘‘(۵۲)۔

            قرآن مجید کے مجموعی ظاہری نظام کے بارے میں اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ اس ترتیب میں ’’مکی‘‘ و ’’مدنی‘‘سورتوں کے ملے جلے سات گروپ ہیں ؛ جن میں سے ہر ایک گروپ ایک یا ایک سے زائد ’’مکی‘‘ سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ایک  یا ایک سے زائد ’’مدنی‘‘ سورتوں پر تمام ہوتا ہے ہر گروپ میں پہلے ’’مکی ‘‘ اور بعد میں ’’مدنی‘‘ سورتیں ہیں ‘‘(۵۳)۔

            اصلاحی صاحب نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے استدلال کیا ہے:

            ۱۔ و لقد اتیناک سبعا من المثانی و القرآن العظیم‘‘(۵۴)۔

            ۲۔ اللہ نزل احسن الحدیث کتاباً متشابھا  مثانی۔۔۔الخ(۵۵)۔

            اصلاحی صاحب کا فرمانا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں ’’سبع مثانی‘‘ اور ’’متشابھا مثانی‘‘ سے مراد بھی سات گروپ ہیں۔

            حالانکہ پہلی آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ایک سے زائد اقوال نقل کئے ہیں۔ ابن کثیر ؒ نے تو رسولِ  اکرم ﷺ کی حدیث نقل کی ہے کہ اس آیت میں سبع مثانی سے مراد سورۃ فاتحہ ہے(۵۶)۔لیکن اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ’’سبع مثانی‘‘ سے سورۃ فاتحہ مراد لی ان کا موقف بھی صحیح ہے لیکن اس کا اپنا ایک محل ہے کیونکہ سورۃ فاتحہ کی سات آیات تب پوری ہوتی ہیں اگر بسم اللہ کو بھی اس کا حصہ شمار کیا جائے جبکہ اس کے سورۃ فاتحہ کا جزء ہونے کے بارے میں اختلاف ہے مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء کی رائے میں یہ قرآن کریم کی سورتوں میں سے کسی سورۃ کی بھی (بشمول سورۃ فاتحہ) آیت نہیں ہے جبکہ ہر سورۃ کے شروع میں اس کو محض تبرک اور اسے علامت فصل کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس سے ایک سورۃ دوسری سے ممتاز بھی ہو جاتی ہے یہی امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے‘‘۔

            ’’اس کے برعکس مکہ اور کوفہ کے فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ یہ سورۃ  فاتحہ کی ایک آیت بھی ہے اور دوسری سورتوں کی بھی ایک آیت ہے۔ یہ مذہب امام شافعی ؒ اور ان کے اصحاب کا ہے۔ اور میرے( اصلاحی)  نزدیک قراء مدینہ کا مذہب قوی ہے‘‘ (۵۷)۔ خلاصہ یہ نکلا کہ قراء اہل مدینہ کی رائے کے مطابق بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزء نہیں ہے اس لئے ان کے نزدیک سورۃ فاتحہ کی آیات کی تعداد چھ (۶) ہوئی جبکہ قرآن کریم کی آیت میں (سبع)  سات کا ذکر ہے لہذا اصلاحی صاحب نے اس کا مصدر ان سات گروپوں کو قرار دیا ہے۔ یہ اصلاحی صاحب کا (تفرد)اجتہاد ہے اس سے پہلے کسی مفسر نے اثبات نظم کے لئے یہ نظریہ پیش نہیں کیا۔ اصلاحی صاحب نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر یہاں حسبِ  عادت حدیث کو چھوڑ دیا ہے۔

            اصلاحی صاحب نے ان گروپوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’ جس طرح ہر سورۃ کا ایک خاص عمود (اہم مضمون) ہوتا ہے جس سے سورہ کے تمام اجزائے کلام وابستہ ہوتے اسی طرح ہر گروپ کا بھی ایک عمود ہوتا ہے۔ اور اس گروپ کی تمام سورتیں اسی جامع عمود کے کسی خاص پہلو کی حامل ہوتی ہیں۔ مطالب اگرچہ ہر گروپ میں مشترک ہیں لیکن اس اشتراک کے ساتھ جامع عمود کی چھاپ ہر گروپ پر نمایاں ہے مثلاً کسی گروپ میں قانون و شریعت کا رنگ غالب ہے، کسی میں ملت ابراہیم کی تاریخ اور اس کے اصول و فروع کا کسی میں کشمکش حق و باطل اور اس کے بارے میں سنن الہیہ کے بیان کا حصہ نمایاں ہے۔ کسی میں نبوت و رسالت اور اس کے خصائص و امتیازات کا ، کسی میں توحید اور اس کے لوازم و مقتضیات ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کسی میں بعث، حشر و نشر کے متعلقات اور آضری گروپ منذرات کا ہے‘‘(۵۸)۔

            خلاصہ کلام یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کے نزدیک ’’نظم ؒ قرآن ‘‘ کی تین صورتیں ہیں :

            ۱۔ ہر سووۃ کا اندرونی نظم جس سے وہ سورۃ منظم و مربوط نظر آتی ہے۔

            ۲۔ایک سورۃ کا دوسری سورۃ کے ساتھ مل کر مشترک نظم یعنی ان دونوں سورتوں کا بعض اہم نکات میں اشتراک جو ان کے نظم پر دلالت کرتا ہے۔

            ۳۔ ہر گروپ کا ایک مشترک عمود جس سے پورا قرآن مجید منظم و مربوط معلوم ہوتا ہے۔

فقہی مسائل کے بارے میں اصلاحی صاحب کا منہج

            اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں فقہی مسائل بہت کم ذکر کئے ہیں۔ اکثر و بیشتر مقامات پر بات کو اسی حد تک محدود رکھا ہے جس پر قرآنی آیت دلالت کرتی ہیں ، تاہم بعض مقامات پر انہوں نے جمہور علماء کرام سے اختلاف کرتے ہوئے الگ  اپنی رائے قائم کی ہے اور اس سلسلے میں صحیح احادیث  کو بھی ترک کر دیا ہے جس میں ’’مطلقہ ثلاث‘‘ کی اپنے پہلے خاوند کے لئے حلت کی شرط کیا صرف کسی دوسرے آدمی سے عقدِ نکاح ہے ؟ یا نکاح کے بعد مباشرت بھی ضروری ہے؟ اصلاحی صاحب صرف نکاح کو حلت کے لئے کافی خیال کرتے ہیں (۵۹)  حالانکہ صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مباشرت بھی ضروری ہے۔ (۶۰)۔ لیکن اصلاحی صاحب نے اس مسئلے میں صحیح حدیث کو ترک کر کے صرف عقل اور لغت پر اعتماد کیا ہے۔ اور اس سلسلے کی دوسری واضح مثال شادی شدہ زانی کے رجم کا مسئلہ ہے اس میں وہ سورۃ نور کی آیت دو  [۲]  (۶۱) کے مطابق ہر قسم کے زانی کے لئے صرف سو [۱۰۰] کوڑوں کی سزا کے قائل ہیں (۶۲)۔ حالانکہ جمہور مفسرین نے صحیح احادیث کی روشنی میں شادی شدہ زانی اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں ان کی سزا میں فرق کیا ہے  کہ اول الذکر کی سزا رجم ہے اور مؤخر الذکر کی سزا سو [۱۰۰] کوڑے ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اصلاحی صاحب اس سلسلے میں نسخ اور تخصیص میں فرق کے بھی قائل نہیں ، اور جو حضرات محصن زانی کے رجم کے قائل ہیں وہ حدیث کی بناء پر سورۃ نور کی آیت دو[۲] کی تخصیص کے قائل ہیں نہ کہ نسخ کے۔

            اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ اگر شادی  شدہ زانی کو رجم کی سزا دی جائے تو اس سے سورۃ نور کی آیت دو [۲] میں بیان کی گئی زانی کے سو [۱۰۰] کوڑے کی سزا منسوخ ہو جائے گی اور قرآن مجید کا نسخ حدیث نبوی ﷺ سے بالکل جائز نہیں ہے۔ نیز ان کا فرمانا ہے آپ خواہ مذکرہ صورت میں تخصیص ہی کہیں لیکن بہرحال نسخ ہی ہو گا(۶۳)۔

            اصلاحی صاحب کا فرمانا ہے کہ میں نسخ کا منکر نہیں ہوں لیکن اس کے محصن زانی کے لئے خاص ہونے کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ سزا حدیث نبوی ﷺ کی بجائے خود قرآن مجید سے ثابت ہے جس کے لئے انہوں نے سورۃ المائدہ کی آیات محاربہ (۳۴۔۳۳) (۶۴) سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رجم کی سزا ایسے عادی مجرموں کے لئے ہے جو معاشرے کے لئے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں (۶۵)۔

            یہ بھی اصلاحی صاحب کا تفرد ہے ورنہ مذکورہ بالا آیات  سے کسی مفسر نے محصن زانی کے لئے رجم کا اثبات نہیں کیا بلکہ تمام مفسرین نے رجم کا اثبات حدیث نبوی سے کیا ہے (۶۶)۔

            اصلاحی صاحب کا معاملہ اس اعتبار سے اور بھی عجیب ہے کہ وہ چور کی سزا قطع ید کے بارے میں تو حدیث نبوی کی بناء پر سورۃ المائدۃ کی آیت(۳۸)  والسارق والسارقۃ۔۔۔الخ کی تخصیص کے قائل ہیں اور یہ موقف انہوں نے  درسِ  حدیث میں اختیار کیا ہے۔ اور فرماتے ہیں کہ یہ سزا ہر قسم کے چور کے لئے نہیں ہے بلکہ حدیث نبوی کی روشنی میں اس کی شرط یہ ہے کہ مسروقہ مال کی قیمت ربع دینار سے کم ہو تو اس پر قطع ید کی سز ا نافذ نہیں ہو گی(۶۸)۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ چور کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ اس پر تعزیر نافذ ہو گی‘‘۔

            خلاصہ ء کلام یہ ہے کہ نظریاتی طور پر تو اصلاحی صاحب قرآن مجید کی تفسیر و بیان کا حق رسولِ  اکرم ﷺ کو دیتے ہیں لیکن مذکورہ بالا مسائل میں وہ یہ حق اپنے لئے مخصوص کرتے ہیں۔

            وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین۔

٭٭٭

 

 

حواشی

۱۔         محترم جاوید احمد غامدی کا مکتوب بنام راقم مورخہ ۱۵ فروری ۱۹۹۰ء۔

۲۔        مدرسۃ الاصلاح قصبہ سرائے میر ضلع اعظم گڑہ (یو۔پی۔ انڈیا) میں ایک دینی درس گاہ ہے یہ درس گاہ مولانا عبد الحمید فراہی اور علامہ شبلی نعمانی کے نظریات پر قائم ہے ادب عربی اور قرآن کریم کی محققانہ تعلیم اس کا خاص مطمع نظر ہے۔ مولانا فراہی اس مدرسہ کے ابتدائی قیام سے اس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ (مولانا فراہی کے حالات زندگی ص: ۱۲۔             مجموعہ تفاسیر فراہی، فران فاؤنڈیشن، لاہور۔

۳۔        مولانا فراہی ضلع اعظم گڑہ (یو۔ پی۔ انڈیا) کے ایک گاؤں پریہا میں ۱۲۸۰ھ پیدا ہوئے اور ۱۹ جمادی الثنی ۱۳۴۹ھ بمطابق ۱۱  نومبر ۱۹۳۰ء میں فوت ہوئے۔ مجموعہ تفاسیر فراہی۔ص: ۱۲۔

۴۔        فراہی در اصل ’’پریہا‘‘  کی نسبت ہے۔ یہ گاؤں ضلع اعظم گڑہ کے مضافات میں ۱۰ میل کے فاصلے پر ہے۔ (مولانا فراہی کی جائے پیدائش اور اس کی نسبت۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی ، ص: ۱۳۶۔ مجلہ علوم القرآن، جولائی ــ۔۔دسمبر ۱۹۸۵ء اعظم گڑھ انڈیا۔

۵۔        مولانا اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ :’’ مولانا عبد الحمید فراہی ‘‘بھی ہے اور حمید الدین فراہی بھی۔ مؤخر الذکر چونکہ عربی قاعدے کی رو سے لقب ہے اور لقب کے اظہار میں خود نمائی کا شائبہ آتا ہے۔ اس وجہ سے مولانا نے اپنا نام مقدم الذکر رکھنے کو ہی ترجیح دی۔ اور اپنی کتب پر بھی  یہی نام لکھواتے تھے۔مجموعہ تفاسیر فراہی، ص: ۷۔

۶۔        نزھۃ الخواطر، عبد الحی حسنی (م: ۱۹۲۳ء) ۸۔۳۴۳۔ ۳۴۲۔نور محمد اصح المطابع کتن خانہ تجارت، کراچی، ۱۳۹۶ھ۔

۷۔       سنن ترمذی لأبی عیسی محمد بن عیسی بن سورہ (۲۷۹ھ۔ ۲۰۹ھ) تذکرۃ الحفاظ للذھبی ۳۔ ۲۸۳۔

۸۔        مولانا اصلاحی صاحب نے ۱۹۳۱ء میں مولانا مبارک پوری سے سنن ترمذی پڑھی (مبادیء یدبر حدیث ، ص: ۱۴)۔

۹۔         سید ابو الاعلی مودودی  ’’ دعوت و تحریک ‘‘ سید اسعد گیلانی طبع لاہور۔

۱۰۔       مولانا مودودی صاحبؒ کے ساتھ اصلاحی کے اختلافات کے اسباب کے لئے اصلاحی صاحب کی کتاب ’’مقالات اصلاحی‘]‘ جلد اول باب دوم کا مطالعہ کریں ، یہ کتا ب فران فاؤنڈیشن لاہور سے جناب ماجد خاور نے شائع کی ہے۔

۱۱۔        مالک: ھو أبو عبد اللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر الاصبحی۔ امام دار الہجرہ و شیخ المدینہ و عالم اہم الحجاز۔ (۹۳۔ ۱۹۷ھ۔ وفیات الأعیان ۳۔۲۸۴، صفۃ الفصوۃ ۲۔ ۹۹۔

۱۲۔       تألیف محمد بن اسماعیل البخاری المتوفی: ۲۵۶ھ۔

۱۳۔       یہ رسالہ ۱۹۸۰ء میں ادارہ تدبر قرآن و حدیث لاہور مولانا اصلاحی صاحب کی نگرانی میں شائع ہونا شروع ہوا۔ جناب خالد مسعودصاحب اس کے مدیر تھے۔ خالد صاحب کا انتقال مورخہ ۴، اکتوبر ۲۰۰۳ء کو لاہور میں ہوا۔ انا للہ و انا الیہ رجعون۔

۱۴۔       مکتوب محترم خالد مسعود بنام راقم مورخہ ۸ فروری ۱۹۹۶ء۔

۱۵۔       مولانا اصلاحی صاحب کی تألیفات کی فہرست:

            ۱۔ تفسیر تدبرِ  قرآن۔ جون ۱۹۸۵ء میں اس کا پاچواں اڈیشن فاران فاؤنڈیشن لاہور سے طبع ہوا۔

            ۲۔ مبادیء تدبر قرآن۔ یہ کتاب بھی جون ۱۹۸۵ء میں مذلرہ فاؤنڈیشن نے شائع کی۔

            ۳۔ حقیقت شرک و توحید۔

۴۔ حقیقتِ  نماز۔

۵۔ حقیقت تقوی۔

 ۶۔ تزکیہ نفس۔

۷۔ دعوتِ  دین اور اس کا طریقِ  کار۔

۸ مبادیء تدبر حدیث۔

۹۔ اسلامی قانون کی تدوین۔

۱۰۔ اسلامی ریاست۔

۱۱۔ اسلامی ریاست میں فقہی اختلافات کا حل۔

۱۲۔ اسلامی معاشرے عورت کا مقام۔

 ۱۳۔ قرآن میں پردے کے احکام۔

 ۱۴۔ تنقیدات۔

 ۱۵۔ تقضیحات۔

 ۱۶۔ مقالاتِ  اصلاحی۔

 ۱۷۔ عائلی کمشن کی رپورٹ پر تبصرہ۔

 ۱۸۔ تفہیمِ  دین۔

 ۱۹۔ فلسفہ کے بنیادی مسائل قرآن کریم کی روشنی میں۔

            اس کے علاوہ انہوں نے درج ذیل کتب کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو اب شائع ہو چکا ہے:

            ۱۔ مجموعہ تفاسیرِ  فراہی۔ ۲۔ اقسام القرآن۔ ۳۔ ذبیح کون ہے؟

۱۶۔       اس تفسیر کا نام ’’نظام القرآن و تأویل الفرقان بالفرقان‘‘ ہے۔

۱۷۔      اس میں فراہی صاحب نے درج ذیل سورتوں کی تفسیر عربی میں لکھی تھی:

            ۱۔ تفسیر بسم اللہ۔ ۲۔ تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ ۳۔ تفسیر سورۃ الزریت۔ ۴۔ سورۃ التحریم۔ ۵۔ سورۃ قیامہ۔ ۶۔ سورۃ المرسلات۔۷۔ سورۃ عبس۔ ۸۔ سورۃ الشمس۔ ۹۔ سورۃ التین۔ ۱۰۔ سورۃ العصر۔ ۱۱۔ سورۃ الفیل ۱۲۔ سورۃ الکوثر۔ ۱۳۔ سور ۃ الکافرون۔۱۴۔ سورۃ اللہب۔ سورۃا لاخلاص۔ اس آخری سورۃ کی تفسیر فراہی صاحب نے اردو میں لکھی تھی۔

۱۸۔       یہ رسالہ مولانا اصلاحی نے سرائے میر میں اپنے قیام کے داران جاری کیا تھا۔

۱۹۔       مقدمہ تدبرِ  قرآن ص:۲۔

۲۰۔      مولانا اصلاحی نے تین تفسیروں کے نام ذکر کئے ہیں جو آگے آ رہے ہیں۔

۲۱۔       مقدمہ تدبر قرآن، ص: ۱۵۔

۲۲۔      شذرات الذھب: ۲۔ ۲۶۰۔ و الکامل فی التاریخ لانب الاثیر ۸۔ ۱۳۶۔ و النجوم الزاھرۃ ۳۔ ۲۵۰۔

۲۳۔      الطبقات الشافعیۃ ۸۔ ۹۶۔۸۱۔ و طبقات المفسرین للسیوطی، : ۱۱۵۔ وطبقات المفسرین للداودی۲۔ ۲۲۔۲۱۳۔ و میزان الاعتدال : ۳۔ ۳۷۰۔ و لسان المیزان ۴۔ ۴۲۹۔ ۴۲۶۔ و النجوم الزاھرۃ : ۶۔ ۹۸۔ ۱۹۶۔

۲۴۔      وفیات لاأعیان: ۵۔ ۱۷۴۔ ۱۶۸۔ و اطبقات المفسرین للسیوطی، : ۱۲۔ و شذرات الذھب ۴۔ ۱۱۹۔ ۱۱۸۔و النجوم الزاھرۃ : ۶۔ ۹۸۔ ۱۹۶۔

۲۵۔      تقدیم طبع دوم، مجموعہ تفاسیر فراہی۔ طبع ۱۹۹۱ء۔

۲۶۔      تدبر ۱۔ ۳۲۔

۲۷۔     یہ نظم (ربط) قرآن پر مولانا فراہی کی ایک مختصر کتاب ہے جو دائرہ حمیدیہ سرائے میر اعظم گڑہ انڈیا سے شائع ہوئی ہے۔

۱۸۔       اس کاتب میں مولانا فراہی نے قرآن مجید کے بعض مشکل الفاظ جن کے بارے میں وہ دوسرے مفسیر ین  اور عام اہم لغت سے اختلاف رکھتے ہیں تحقیق کی ہے۔

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید