FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف

 

حصّہ دوم

 

                جسارؔت خیالی

 

 

 

سرزمینِ تونسہ کا باغی شاعر -فریاد ہیروی

 

محمد محبوب جس کا معصوم چہرا بھوک پیاس کا آئینہ دار نامراد و دل فگار غم حالات میں گرفتار، آنکھیں گہر بار، فرسودہ روایات اوہام و خرافات سے بغاوت کا دعویٰ دار، عقل و دانش کاپرستار، دکھی انسانیت سے پیار، واقف اِسرار، خوش گفتار، یاروں کا یار، شاعر طرحدار فریاد ہیروی جو آج سرائیکی وسیب میں اپنے باغی لب و لہجہ کی وجہ سے معتبر حوالہ ہیں۔

انہوں نے 1977ء کو احمد خاں نتکانی کے گھر آنکھ کھولی، ان کی والدہ امیر بی بی نے بڑے ارمانوں سے پالا پوسا۔ لیکن ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ موصوف کا تعلق سید گھرانے سے ہے جو حسین شاہ شیرازی سر حد سے ہیرو شرقی آبسا تھا۔ موصوف چھ ماہ کے تھے کہ ان کی والدہ آمنہ بی بی کا انتقال ہو گیا تھا پھر ان کے والد قلندر شاہ بھی بوجہ بیماری دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

فریاد ہیروی نے مڈل ہیرو شرقی سے اور میٹرک ہائی سکول تونسہ سے کیا۔ اس کے بعد ایف۔ اے اور بی۔ اے گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ سے کیا لیکن ساتھ ساتھ مشق سخن بھی جاری رکھی اور سرائیکی کے معروف شاعر مصطفی خادم سے اصلاح لینا فخر سمجھا۔ 1993 ء میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تس،  (پیاس )مجھے بذریعہ ڈاک ملا جو ان کے بچپن سے جوانی تک کی درد بھری کہانی معلوم ہوتا ہے جو موصوف نے اپنوں میں رہ کر اجنبیت میں گزاری اور دربدر کی نہ صرف ٹھوکریں کھائیں بلکہ بھوک، پیاس کا جان لیوا عذاب بھی سہتے رہے لیکن گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کے بجائے غم حالات کا مردانہ وار مقابلہ یوں کیا اور اپنی تعلیم کو مزید جاری رکھتے ہوئے بہأالدین زکریایونیورسٹی ملتان سے ایل ایل بی کی ڈگری لے کر وکالت شروع کر دی۔ آج کل ان کا تونسہ شریف کے ماہر، دیانتدار، محنتی اور فرض شناس وکلاء میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی شریک حیات بھی سید زادی کو بنایا ہے جس نے موصوف کی درد بھری زندگی میں محبت و وفا کے رنگ بھرکر فریاد ہیروی کو امر کر دیا ہے۔ موصوف کے تین بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہے جو اس وقت زیر تعلیم ہیں۔ فریاد ہیروی نے 1995ء میں ذات دا محشر، اپریل 2005ء میں گزری شام، نومبر 2005ء میں تیڈے شہر وچ، 2007ء میں مصر دا بازار، 2011ء میں جاگدی رت اچ اور 2013ء میں کوئی اسمان تے کلھا ہوسی جیسے بصیرت افروز شعری مجموعے بھی دیئے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ سرائیکی کے چند غزل گو شعراء جو لہجہ بلند آہنگ رکھتے ہیں ان میں ایک معتبر نام فریاد ہیروی کا بھی ہے۔ اگر ان کے تمام شعری مجموعوں کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کو تجربات زندگی کو احساس کے سانچے میں ڈھالنے کا قرینہ آتا ہے کیونکہ جب وہ شعور کی آنکھ سے مطالعہ و مشاہدہ کائنات و حیات کر کے بنی نوع انسان کے ازلی دشمن قوتوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور مذہبی اجارہ داروں سے نہ صرف نفرت کرتے ہیں بلکہ عوام کو بھی ان کے سازشی ہتھکنڈوں سے باخبر رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز اس کی روشن مثال ہے کہ جہاں ہوس اقتدار کے لیے مذہبی، لسانی اور صوبائی تعصب کو ایسی ہوا دی گئی ہے کہ معبد محفوظ ہیں اور نہ بندگان خدا۔ یہ ایسا نظام زندگی ہے کہ جس کے زہریلے اثرات افراد معاشرہ کے رگ و پے میں نہ صرف سرایت کر گئے ہیں بلکہ غربت، جہالت، دہشت گردی، خودکش دھماکے، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت، بے روزگاری، مہنگائی، چوریاں، ڈکیتیاں، نفسا نفسی اور خوف وہراس کی فضا ء میں زندگی کراہ رہی ہے۔

چونکہ فریاد ہیروی چشم بینا رکھنے والے شاعر ہی نہیں بلکہ حسینی قافلے سے نسبت بھی رکھتے ہیں اس لیے وہ ایسے زندگی کش نظام سے باغی ہیں، وہ مساواتی نظام چاہتے ہیں جہاں پیداواری وسائل سب کے لیے یکساں ہوں تاکہ بڑے اور چھوٹے کا فرق ختم ہو اور اخوت و محبت، امن و آشتی، ایثار، رواداری اور ہمدردی کے جذبے پروان چڑھیں اور دکھ سکھ مشترک ہوں۔ اس حوالے سے شاعر کی زندگی عمل پیہم، جدوجہد اور شاعری انقلاب آفریں جذبوں سے سرشار نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

کریہہ دا قہر کئی نسلیں توں گل ساڈے

اساڈے لو فقط  پانی ہنجوں دا تار باقی ہے

٭

ایں دھرتی تے کوئی دیہہ پھیرا  پا گئے

اے دھرتی اللہ راسی رہ گئی ہے

٭

ا تھاں یاریں دھماکے کر کے دنیا میس چھوڑی ہے

نہ کوئی اروار ہے وسوں نہ کوئی پا رباقی ہے

٭

کئی دفعہ ایجھیں دھماکے تھئین اپنے شہر وچ

کئی دفعہ ایں خوف توں مخلوق پھڑکن پئے گئی

٭

خشک سالی توں حلق سک گئے ہن

اپنیاں ہنجوں  وی پَھر نسے سگدے

٭

میڈی وستی دے بالیں دے ہتھیں پستول آ گئے ہن

میڈی وستی دے بالیں توں غبارے کھس گدے گئے ہن

٭

میڈے  شہر  اچ  لہو پانی دے سانویں

کوئی بندے کوں سستا کر گیا ہے

٭

میڈے شہر اچ وڈے عرصے کنوں خودکش دھماکے ہن

قتل تھی گئین گھر والے فقط کجھ گھر بقایا ہن

٭

میکوں بکھ دے بکھیڑے کھا لتھے ہن

اوں کوں ہبلاس دا اولوں پسر گئے

٭

ا تھاں رسمیں رواجیں دیاں زنجیراں ضبط دے باہرو

ا تھا چھوٹیں کوں وڈکیں دیاں زنجیراں کھا گیاں ہن

٭

زرد زخمیں دی کتاب ہے زندگی

اپنے اندر دا عذاب ہے زندگی

٭

تونسے وچ بے انت کریہہ ہے

کہیں جا تے ونج وٹھا ہوسی

٭

اجاں چوک تے لاشاں ہن پیاں

اجاں روز دھماکے ہن پئے

دھیریں کنوں بٹیاں ہن پیاں

پیو دے خالی کیسے ہن پئے

٭

کریہہ ہے کالی تونسہ بہوں ڈکھارا ہے

میڈے ہوون دانوحہ بہوں ڈکھارا ہے

٭

لنگھنے پیٹوں پرانے ط بستے چا

میڈی وستی دے بال آندے ہن

٭

شام توں پہلے لٹ گھندن

اپنا تونسہ’ دلی‘ دے وانگوں ہے

٭

میں تے انسان دا پجاری ہاں

پر ا تھاں ذات پات رہ گئی ہے

فریاد ہیروی کی شاعری کا مرکز و محور انسان سے محبت ہی نہیں بلکہ کربلا اور قفس جیسے الفاظ کاجابجا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ طبقاتی زندگی سے پیدا ہونے والی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی ابتری اور نفسا نفسی کے بھیانک اندھیروں میں وسیب کو ڈوبا دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ فریاد ہیروی کے سوتے اسی وسیب سے پھوٹتے ہیں یہی ان کی شناخت کا سبب ہے۔ وہ اپنے گردو پیش اور عالمی تناظر میں ہونے والے خونچکاں حالات و واقعات سے باخبر بھی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مایوس نہیں بلکہ بڑے یقین سے یہ کہتے ہیں   ؎

کالی رات گزرسی آخر

سوجھل سجھ ابھرسی آخر

فریاد ہیروی نے اپنی غزل میں جہاں پنیال، کڑکن، کنانویں، تاکڑی، نساہ، قفس، پونبل، آسو پائیسو، چنڑگ، جھنڑک، اڈراک، مونگھر، مونجھ، ترٹ پیا اسمان، لیلے باک، ہنج دی حمیل جیسے الفاظ محاورات کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات اور تمثیلوں کا بھی فنکارانہ مہارت سے استعمال کیا گیا ہے۔ ان کے سہل ممتنع کے کچھ اشعار تو معنی آفرینی اور فکری گہرائی کے غماز ہیں۔ فریاد ہیروی نے نظمیں بھی کہی ہیں لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ موصوف کی نظمیں بھی وسیب کی محرومیوں نا انصافیوں کی آئینہ دار ہیں۔ وہ سقراط، گوتم جیسی عظیم ہستیوں کے افکار و نظریات سے بھی بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی درج ذیل نظمیں اساں باغی ہیں، وانج، ادا س نسلاں، خالی پلو، انقلابی ہجرت، کال کریہہ اور خوف اپنے اندر وسیب کے دکھ اور مسائل کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ یہ نظم دیکھیے   ؎

تیڈی روح کولوں تیڈے راج کولوں

تیڈے تخت کولوں تیڈے تاج کولوں

خودساختہ رسم و رواج کولوں

اساں باغی ہیں اساں باغی ہیں

٭

تیڈے منہ دی ہک ہک گال کولوں

تیڈے درد کولوں درسال کولوں

تیڈی نسل دے ہک ہک بال کولوں

اساں باغی ہیں، اساں باغی ہیں

٭

تیڈی سوچ کولوں تفہیم کولوں

تیڈی بوگس ذات ضخیم کولوں

ایں بے تکی تقسیم کولوں

اساں باغی ہیں، اساں باغی ہیں

٭

بے سرت سحر دے نور کولوں

تیڈے محشر جھئیں منشور کولوں

تیڈے دل دے منگدے دستور کولوں

اساں باغی ہیں، اساں باغی ہیں

٭

رکھیں قید نہ ہن آزاد کریں

ساڈی توں نہ کوئی امداد کریں

ساکوں وسریں نہ ساکوں یاد کریں

اساں باغی ہیں، اساں باغی ہیں

فریاد ہیروی کی یہ نظم اساں باغی ہیں اساں باغی ہیں اردو کے عوامی شاعر حبیب جالب کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ ایک اور نظم وانج دیکھیے جس میں استحصالی طبقہ پر نہ صرف گہری طنز کی گئی ہے بلکہ محرومی کا رونا بھی رویا گیا ہے   ؎

اساں وانج دی بھاہ دے کولے ہائیں

ساڈیاں آساں وانج دی بھاہ وچ

ساڈے ساہ ہن اوپرے ساہ وانگوں

ساہ وانج دے ساڈے ساہ وچ ہن

 

اساں کالے روہ دی کیری ہیں

جیری قرب انسان دے قابل نئیں

اساں کنئیں ایوان نئیں ونج سگدے

ساڈی روح ایوان دے قابل نئیں

مختصر فریاد ہیروی اپنے وسیب کے مظلوم طبقہ کے فکر و شعور کو بیدار کر کے استحصالی طبقہ سے اپنے حقوق چھیننے کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی شاعری جذبوں اور ولولوں کو گرماتی ہی نہیں بلکہ نئے انداز سے زندہ رہنے کا احساس بھی اجاگر کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دبستانِ فاتح کا حرکی حوالا-شبیر ناقد

 

یہ غالباً 1997ء کی بات ہے عزیز القدر واحد بخش انجم، جو خود تو شاعر نہیں مگر شعر فہم ضرور ہے۔ اس نے مجھے اپنے قریبی رشتہ دار اردو، سرائیکی کے نوجوان شاعر شبیر مرہمؔ سے ملوایا تھا۔ میں اس کے حسن اخلاق، سادہ مزاجی و درویش صفتی، عجز و انکساری اور رسیلی گفتگو سے بے حد متاثر ہوا تھا۔ اسی روز سے ہمارا انس و محبت کا رشتہ قائم و دائم ہے۔ وہ دکھی انسانیت سے بے حد پیار کرنے والا انسان ہے، میں نے اسے ہمیشہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھتے دیکھا ہے۔ وہ صاف گو اتنا ہے کہ منہ پر کھری کھری سنا دیتا ہے۔ اس کا غصہ بھی صابن کے جھاگ کی طرح ہے مگر دل کدورت سے پاک ہے۔

موصوف نے یکم فروری 1976ء کو ہیرو شرقی تونسہ شریف میں اللہ وسایا کے گھر میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا تو خود کو قعر غربت میں پایا۔ انا پرست اتنا کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا، بلکہ غم حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا عزم کر لیا۔ 1992ء میں میٹرک اور 1994ء میں گورنمنٹ کالج تونسہ شریف سے ڈی۔ کام کیا۔ غربت آڑے آئی تو وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر پاک آرمی جائین کر لی۔ 1996ء میں پروفیسر ظہور احمد فاتح جیسے قادر الکلام شاعر کے سایہ ہمایوں میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا اور شبیر مرہم سے شبیر ناقد ہو گیا۔ اس نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ 2001ء میں بہأالدین زکریا یونیورسٹی سے بی۔ اے 2003ء میں اسی یونیورسٹی سے ایم۔ اے اردو اور 2007ء میں ایم۔ اے پنجابی کیا اور مشق سخن بھی جاری رکھی۔ شبیر ناقد نے کم وقت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لا کر پہلا اردو شعری مجموعہ صلیبِ شعور دسمبر 2007ء جھوک پبلشرز ملتان، دوسرا شعری مجموعہ آہنگ خاطر فروری 2010ء فاتح پبلی کیشنز تونسہ شریف، تیسرا سرائیکی مجموعہ مارچ 2010ء فاتح پبلی کیشنز تونسہ شریف، ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا کیف غزل، 2013ء فاتح پبلی کیشنز، شاعرات ارض پاک جون 2013ء رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی، نقد فن مئی 2014ء جیسی تخلیقی، تنقیدی کتب دے کر دنیائے ادب میں اپنا معتبر مقام بنا لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اساتذہ شعرا ء کو ہمیشہ ناقدری کا احساس رہا لیکن اب ان کی زندگیوں میں قدر شناسی کی روایت معتبر ہو رہی ہے ان کی گراں بہا علمی و ادبی خدمات کو سراہا جا رہا ہے۔ جس کی روشن مثال شبیر ناقد کی ہے۔ جس نے اپنے محسن و مربی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ’’ابو البیان ظہور احمد فاتح کا کیف غزل‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کر اپنی شاگردی کا حق ادا کر دیا ہے اور  اس طرح ظہور احمد فاتح کے سب شاگردوں سے بازی لے گیا ہے۔ اس نے اپنے استاد گرامی کو جمالیاتی احساسات عرفان و آگہی، رجائیت کا علمبردار، انسان دوست اور رومانی شاعر کے حوالے سے بصیرت افروز مضامین دیئے ہیں بلکہ اپنے استاد محترم کو ابو البیان ثابت کرنے کی جو سعی کی ہے اس میں بے پایاں عقیدت صاف جھلکتی ہے۔ حالانکہ حالی نے یادگارِ غالب، اس کی وفات کے بعد لکھی تھی۔

شبیر ناقد کا ایک اور تاریخی کام ’’ شاعرات ارضِ پاک،  ہے یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ جس طرح سرسید نے حالی کو مد و جزر اسلام نظم کہنے کی تحریک دی تھی۔ اسی طرح شاعر علی شاعر جو خوبصورت لہجہ کے شاعر ہی نہیں بلکہ عالمی رنگ ادب کراچی کے اعزازی مدیر بھی ہیں جو ان کی مدیرانہ صلاحیتوں کا غماز ہے، انہوں نے شبیر ناقد کو شاعرات ارضِ پاک پر لکھنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ ہمہ قسمی تعاون بھی کیا۔ جس کی تین جلدیں چھپ چکی ہیں، چوتھی جلد اشاعت کے مراحل میں ہے۔ شبیر ناقد نے تقریباً دوسو شاعرات پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ ان میں پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، بسمل صابری، ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، نوشی گیلانی، شاہد ہ لطیف، رشیدہ عیاں، نیر رانی، شفق، زہرا نگاہ، روبی جعفری، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ڈاکٹر شہناز مزمل، رومانہ رومی، آسناتھ کنول، ایم زیڈ کنول، شبہ طراز، پریا تابیتا، شگفتہ شفیق، ڈاکٹر فاطمہ حسن، زیب النساء زیبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اسی طرح شبیر ناقد کی ایک اور تنقیدی کتاب ’’نقد فن‘‘ ہے جس میں پچپن علمی و ادبی شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ڈاکٹر شبیہ الحسن مرحوم، رفیع الدین راز، ظہور احمد فاتح، کاوش عمر، سعیدالظفر صدیقی، صابر ظفر، فضا اعظمی، ڈاکٹر اختر ہاشمی، سہیل غازی پوری، جاوید رسول جوہر، شاکر کنڈان، شہزاد نیر، ابوالحسن، واحد رضوی، ڈاکٹر طاہرہ سرور، ڈاکٹر محبوب عالم، ڈاکٹر طاہر سعید ہارون، شاعر علی شاعر، یعقوب خاور، ظریف احسن، جاوید احسن، باقی احمدپوری، امان اللہ کاظم، ڈاکٹر غنی عاصم، شفیق الرحمن ا لہٰ آبادی، سعید سوہیہ، اور جسارت خیالی وغیرہ وغیرہ کا ذکر شامل ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد تنقیدی کتاب ہے۔

شبیر ناقد کا یقیناً یہ تاریخی کام تاریخ ادب میں معتبر حوالہ رہے گا۔ جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق ہے تو اس حوالے سے مجھے بے ساختہ اختر شیرانی یاد آ گئے ہیں کیونکہ شبیر ناقد کے رگ و پے میں بھی رومانویت ایسی رچی ہے کہ جس کا من پیار کی بارش سے بھیگا نظر آتا ہے اور ہر دھڑکن میں جاناں کو محسوس کرتا ہے۔ اس کا محبوب کے جھوٹے وعدوں پر جینا اور شب و روز اشکوں کی مئے پینا زلف جاناں کی بات چھیڑ کر رات بسر کرنا، اور سوز ہجراں میں جلنا معمول بن گیا ہے۔ و ہ ہجر و وصال کی کیفیتوں میں مبتلا ہو کر دلِ  مضطرب کو یوں تسلی دیتا ہے   ؎

رہے پاس میرے حسینوں کا جھرمٹ

میں ہر وقت ان کی اداؤں سے کھیلوں

جو مجھ سے کبھی ماہ جبیں روٹھ جائیں

منایا کروں ان کو میں پیار سے

میں ہر دم اٹھاتا رہوں ناز ان کے

کبھی روٹھ جاؤں جو میں مہ وشوں سے

محبت کے انداز میں وہ منائیں

بڑھے شوق دونوں طرف سے برابر

(نظم شوقِ دو طرفہ )

تم نے کہا تھامیں کل تم سے بات کروں گی

برسوں گزرے کل نہیں آیا

مجھ کو چین اک پل نہیں آیا

(نظم بے چینی )

شبیر ناقد لفظوں سے اپنے رومانی جذبوں کو تسکین تو دیتا ہے لیکن لارڈ بائرن کی طرح پر تعیش زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کی زندگی معاشی مسائل سے دوچا رہے۔ اس لیے بے چینی، بے تابی، بے خوابی اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ یہ شعر دیکھیے   ؎

بھوکی ہے زمیں بھوک اگلتی ہی رہے گی

یہ بھوک میرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی

اس دکھ بھری زندگی کے باوجود وہ ہر کسی سے محبت کا دم بھرتا ہے جو اس کا مقصد حیات ہے کیوں کہ اس کی محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے   ؎

ہوں میں تو محبت کا اک استعارہ

مجھے توکسی سے بھی نفرت نہیں ہے

جس کا ثبوت صلیبِ شعور، کا انتساب ہے جو دھرتی ماتا کے نام کیا گیا ہے۔ جس کے دم سے شاعر کی پہچان ہے۔ اس لیے وہ خدا کی بارگاہ میں اپنے بے ساختہ جذبات و احساسات کا اظہار یوں کرتا ہے   ؎

میری دھرتی کو کسی کی نظر لگ گئی ہے

ظلمتوں کا یہاں راج ہے چار سو

 

چاروں جانب ہے بے چینیوں کا سماں

مرے مولا اسے پھر سے خوشحال کر دے

یہ بنے پھر سے گلزار امن و سکوں

(نظم فریاد )

شبیر ناقد ایسا سچا تخلیق کار ہے جو جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے اور لکھنے سے کبھی نہیں گھبراتا چاہے اس کے ہاتھ قلم ہی کیوں نہ ہو جائیں   ؎

ہاتھ قلم ہو جائیں چاہے

میں نے تو ہے سچ لکھنا

کیونکہ اسے بنیادی طور پر حسینی قافلے سے نسبت ہے اس لیے اس کی شاعری صداقت فکر کی نہ صرف آئینہ دار ہے بلکہ عالمی استعاری قوتوں کے خلاف کھلی بغاوت بھی ہے۔ جنہوں نے زندگی کش نظام دے کر غریب انسانوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے کیونکہ شاعر کا سماجی وسیاسی شعور بیدار ہے اس لیے وہ وطن عزیز میں بھی طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی ہولناکیوں اور معاشرتی قباحتوں کی طرف نہ صرف توجہ دلاتا ہے بلکہ بے ضمیر، ناہنجار، فرعون اور نمرود صفت حکمرانوں کو کھری کھری بھی سناتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے   ؎

یہاں تو ناقد ہے سانس لینا بھی سخت مشکل

کہ ظلمتوں میں حیات مہنگی ہے موت سستی

٭

رستے ہیں مسدود ہمارے

حاکم ہیں نمرود ہمارے

٭

مرے دیس میں راج کرتی ہے غربت

یہاں سانس لینا بھی ہے اک اذیت

شبیر ناقد کی نظمیں بھی عذاب بھری زندگی کا احساس دلاتی ہیں کیونکہ طاغوتی قوتوں کے ایجنٹوں کی کارستانیاں وطن عزیز میں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے   ؎

ہرسو خود کش بم دھماکے

ہر جانب ہے افرا تفری

موت یہاں ہر گام پہ رقصاں

چین سکوں کا کال ہو ا ہے

 

بے چینی کی نذر ہے دھرتی

پر آشوب سماں ہے سارا

جیتے جی اس غم نے مارا

ایک نظم دیکھیے کہ جن معصوم بچوں کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے تھا وہ ہاتھ ہوٹلوں میں برتن مانجھتے یا فٹ پاتھوں پر امیروں کے جوتے پالش کرتے نظر آتے ہیں   ؎

قلم جس کے ہاتھوں میں لگتا تھا اچھا

جسے چاہیے تھا کتابوں کا بستہ

 

ہے کیوں اس کے ہاتھ میں پالش کی ڈبیہ

برش ہاتھ میں اس نے تھاما ہو ا ہے

 

ہے کاندھے پہ لٹکائے پالش کا تھیلا

مشقت ہے کیوں اس کی قسمت کا خاصہ

 

ہوئے اس کے حالات کیوں ابتر

نہ معصوم بچے سے محنت کراؤ

جہاں تک ہو ممکن اسے تم پڑھاؤ

اس کے ساتھ ساتھ شاعر دنیا والوں کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے، کیونکہ اسی میں سلامتی، خوشحالی اور امن و آشتی کا راز مضمر ہے   ؎

دروغ چھوڑو، صداقتوں کو فروغ بخشو

مثالِ فردوس پھر بنے گی خدا کی بستی

شبیر ناقد کا سرائیکی شعری مجموعہ  ’’من دی مسجد، سرائیکی ادب میں نہ صرف گراں قدر اضافہ ہے بلکہ وسیب کا نوحہ بھی ہے۔ اس کے تینوں شعری مجموعوں میں زیادہ تر غزلیں، نظمیں بحر متقارب میں ہیں، جو موصوف کی پسندیدہ بحر ہے۔ اس نے جہاں تشبیہات و استعارات علامات کا استعمال کیا ہے تو وہاں فنی نزاکتوں، لطافتوں کا خیال رکھتے ہوئے شاعری کے فطری حسن کو قائم بھی رکھا ہے۔ اس کا اسلوب سادہ مگر پر تاثیر، پر درد ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جواں جذبوں کا شاعر -ریاض عصمت

 

ریاض عصمت سرائیکی وسیب کے خوش فکر نوجوان شاعر ہیں وہ نفیس مزاجی، طرز ادا اور لہجے کے دھیمے پن کی وجہ سے اپنے ہم عصر شعرا ء سے منفرد نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر شوخی و ظرافت سے تو غالب کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ہونے والے ہر مشاعرے میں ان کو بطور خاص بلایا جاتا ہے۔ اس لیے عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ حال ہی میں ان کا پہلا سرائیکی شعری مجموعہ ’’نشانی،  منظر عام پر آیا ہے جو موصوف کے داخلی و خارجی احساسات کا غماز ہے۔ جسے ایمکو ویلفیئر فاؤنڈیشن ڈی جی خان نے بڑے اہتمام سے چھاپا ہے۔ جس کے سرپرست اسلم خان گورمانی ہیں جو صاحب علم ہی نہیں بلکہ ادب پرور بھی ہیں اور ان کے گراں قدر تاثرات بھی شامل ہیں۔ ریاض عصمت نے 4اگست 1962ء کو تونسہ شریف میں فیض محمد خان چچہ کے گھر میں آنکھ کھولی، ایف۔ اے تک تعلیم حاصل کی پھر مجبوری حالات کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور کوآپریٹو بینک میں ملازم ہو کر دیانتداری، فرض شناسی، اور خدمتِ خلق کو شعار بنا کر خوب نام کمایا ہے۔ ریاض عصمت نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1984ء سے کیا۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا دینے میں شاکر سرائیکی سنگت کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ فلسفہ، تاریخ، معاشیات، ادبیاتِ عالم اور ادیان عالم کا مطالعہ بھی کرتے رہتے ہیں جس سے ان کا فکری شعور بیدار ہوا ہے، انہوں نے باقاعدہ اصلاح تو کسی سے نہیں لی البتہ اقبال سوکڑی کو اپنا رہبر اور پیر و مرشد سمجھتے ہیں۔ وہ اب خود بھی اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ وہ کئی نوجوان شعراء کو مشورۂ سخن دیتے ہیں۔ جن میں ایک نام بشیر ناظم کا بھی ہے جو دوہے کا شاعر ہے۔

ریاض عصمت بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں کیونکہ اس میں موصوف کا خونِ جگر شامل ہے ان کی غزل لفظی پیچیدگیوں سے پاک ہے۔ اس لیے قاری ہر شعر کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ ان کا شعورِ  حیات ہے کہ وہ وسیب کی پسماندگی، محرومی سلگتے مسائل اور ارفع اقدار کی تباہی کا موجب استحصالی نظام کو سمجھتے ہیں جو معاشی عدم مساوات کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے اخوت و محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبے دم توڑ گئے ہیں۔ اور انسانی زندگی نفرت کے شعلوں میں گھری نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ دور جدید میں ہونے والے بھیانک حالات و واقعات سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ظلم و نا انصافی پر سراپا احتجاج بھی نظر آتے ہیں۔ وہ خاص طور پر سرائیکی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواجات کے پاسدار ہیں۔ ان کا غمِ ذات غم کائنات کا احساس دلاتا ہے کیونکہ وہ ایک دردمند اور انسان دوست ہیں۔ وہ غم حالات سے گھبرانے کے بجائے نئے عزم اور حوصلے سے کائنات کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کاغذ اور قلم کے ذریعے اس دھرتی کو نکھار نا چاہتے ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ گھٹا ٹوپ اندھیروں کا سینہ چیر کر نئی سحرکا سورج ضرور طلوع ہو گا اور دھرتی پر ارفع اقدار کا پرچم لہرائے گا۔ ریاض عصمت کی غزل میں حسن و عشق کا اظہار بھی ملتا ہے لیکن وہ حسن کو محدود کے بجائے وسیع کینوس میں دیکھتے ہیں۔ جان کیٹس کے نزدیک بھی حسن صداقت ہے اور صداقت حسن، ریاض عصمت کے ہاں فکر کی گہرائی خیال کی ندرت، جذبے کی صداقت اور مضمون آفرینی ہی نہیں بلکہ رواں بحور اور ردیف و قوافی کا چناؤ بھی خوب کیا ہے دیگر شعرا ء کی طرح کہیں کہیں قوافی کے معائب بھی نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر صفحہ نمبر 48پرزَخْم کوسرائیکی لہجے کے ساتھ زَخَم باندھا ہے۔ انہوں نے تشبیہات و استعارات تمثیلوں اور صنعتوں کا استعمال بھی فنکارانہ مہارت سے کیا ہے اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

جے پیار پندھ اے تاں یار تانی ضرور ویسوں

اساں ہیں اُروار، پار تانی ضرور ویسوں

 

معاشی مسئلے دے تھل دے اندر میں رُل گیاں تاں قصور کائے نی

کوئی خضر میڈے نال ہوندا تاں اووی صیح گال رُل ونجے ہا

دھرتی والے اکثر گونگے لگدے ہن

روہی تھل دمان دیاں گالھیں کون کرے

 

میڈے سوچیں دا سرمایہ تیڈی تصویر ہووے پئی

غزل دے وچ تیڈے لہجے دی کجھ تاثیر ہووے پئی

 

جسم کوں عصمت کھا گئے چنتے روزی دے

روح دے ریگستان دیاں گالھیں کون کرے

 

اساں توں بے کسی بھا ہ کوں تے نانگیں کوں کرائے سجدے

اساں فرعون توں گھن کے خدانویں نال رہ گئے ہیں

 

توں اپنے کھوہ دا ناواں ڈس اساں ہر کھوہ دے واقف ہیں

اساں یوسف ہیں کجھ عرصہ بھرانویں نال رہ گئے ہیں

 

اساڈے کیاوزن پچھدیں تے کیا بھرتول ہن ساڈے

اساں کنکیں دے موسم ہیں ننانویں نالر ہ گئے ہیں

 

اوں محرم راز عصمت نال رہ کے وی الایا نئیں

ایویں لگدے اساں اپنے پچھانویں نال رہ گئے ہیں

 

ساڈے عصمت جیندے جی پئے رُلدے ہن فٹ پاتھ اتے

تیڈے مرگئیں دے قبریں تے سنگ مرمر وی شامل ہے

سجاک سوچیں کوں رات کالی لکا نہ سگسی

اساڈی دھرتی تے سجھ نکلسی اخیر ہک ڈینہہ

 

سندھو سک گئے گھڑے خالی ول آئے ہن

کونجیں دے وی آئے ہن ٹولے بہوں سارے

 

ایویں کھِلدا نہ ڈیکھ عصمت کوں

اے وی زخمیں توں چور تھی سگدے

 

ہا دھرتی دا سینہ اکثر پانی منگدے

روہی تھل دمان دا منظر پانی منگدے

 

دھرتی جائی سرتاج دوتربت خط لکھ بھیجا

بختو بھُک توں مرگئی، کوثر پانی منگدے

 

سامنے کوڑ دا سجھ ہے اپنے جوبن تے

سِرتے پاکے سچ دی شال الایا کر

 

جڈاں وی ہجر دے دریا دا پانی تار تھئے عصمت

تیڈے یادیں دے تولھے تے تڑن دا فیصلہ کیتے

 

اپنیاں رِیتاں بحال رکھساں میں

میڈے مونڈھے تے شال رہ ویسی

٭

توں میڈی محروم دھرتی غم نہ کر

ہے میڈے ہتھیں اجاں کاغذ قلم

٭

حسین موسم دی دلکشی ول بحال تھیوے

ہوادی ہیل اچ توں ہولے ہولے اڈار بوچھن

٭

ریشم روح وی راند  رسے کوئی حال سنا

روندا دل ہک وار ہسے کوئی حال سنا

٭

اساں روائتاں  بحال رکھین اساڈے مچ میل ہن سلامت

اساں گندیں کوں سنبھال رکھیئے نتاں ہرہک لال رُل ونجے ہا

٭

کل سجن نِویں آیا

پودنے دی چٹنی ہئی

ریاض عصمت کی نثری نظمیں بھی ان کے وسعت مطالعہ اور افکار و نظریات کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی نظم بے وسی (بے بسی ) دیکھیے جس میں موصوف نے اسے تاریخ انسانی کے تناظر میں دیکھا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وحشی اور غیر مہذب قومیں اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے انسانی قربانی دیا کرتی تھیں۔ ہوتا یوں تھا کہ ایک غریب گھرانے کے فرد کو قربان گاہ لے جا کر اسے ذبح کیا جاتا اور اس کے ٹکڑے کر کے مندر کا پروہت گاؤں والوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ پھر گاؤں والے خوشی خوشی ان ٹکڑوں کو اپنے کھیتوں میں گاڑ دیتے تھے تاکہ فصلیں ہری بھری اور دیوتا بھی خوش ہو۔ عرب میں تو پلوٹھی کے بچے کو قربان کر دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک فرعون بادشاہ نے جانوروں کی قربانی کے رواج کو عام کیا تھا:

قربانی

کہیں مال دی ہووے

بھانویں کہیں انسان دی ہووے

ہرہک ہیناں اپنی قسمت تے

رج کے ارمان کریندے

ہر ہک ڈاڈھا

ہینی شئے قربان کریندے

(نظم بے وسی )

لگتا ہے ریاض عصمت نے ڈاکٹر خیال امروہوی کی نئی سوچ، سوشلزم اور عصری تقاضے سبط حسن کی موسیٰ سے مارکس تک , ماضی کے مزار، نوید فکر، علی عباس جلال پوری کی روایات فلسفہ، روایات تمدن قدیم، کائنات اور انسان جیسی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ ان کی دیگر نظمیں ونڈ، آدم، قربانی، محرومی، کالے کوٹ، کم ذات، اپنے طرزکی اچھوتی، فکر انگیز ہی نہیں بلکہ وسیب کی محرومیوں، مظلوم طبقہ سے محبت اور سماجی شعور کی آئینہ دار بھی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

’’دھوپ سروں تک آ پہنچی،  کے شاعر – شکیل احمد

 

بیدار ہوئے نہ نیند سے تم

اور دھوپ سروں تک آ پہنچی

یہ خوبصورت شعر جواں فکر شاعر شکیل احمد کا ہے اور دھوپ کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ شاعر کے داخلی و خارجی کرب، تلخ تجربات و مشاہدات کی آئینہ دار ہے۔ یہ ایسی منفی قدر ہے یا ایسا نظام زندگی ہے، جس نے انسانی سماج میں معاشرتی قباحتیں پھیلا کر زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اگر ہم شعر پر غور کریں تو یہاں شاعر مصلح کے روپ میں خوابوں کے حسین جزیروں میں رہنے والوں کے ضمیر احساس کو بیدار کرنا چاہتا ہے اور موجودہ خونچکاں حالات و واقعات سے باخبر رکھنا چاہتا ہے اور ان کو عمل کے ذریعے مثبت اقدار کے احیاء کے لیے برسرپیکار دیکھنا چاہتا ہے تاکہ دنیاسے استعماریت اور سفاکیت کا خاتمہ ہو اور بنی نوع انسان سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہ اس کی انسان دوستی ہی نہیں بلکہ جواں ہمتی اور بلند حوصلگی بھی ہے۔

شکیل احمد نے 26جون 1973ء کو عزیز احمد خان سکھانی کے گھر میں آنکھ کھولی جہاں ہمدردی، ایثار، رواداری اور محبت سرائیکی کلچر کی خاص خوبی رہی ہے۔ شکیل احمد کے والد علم دوست تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو اچھا انسان بنانے کے لیے تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ ہونہار بیٹے نے بھی محنت کو شعار بنایا۔ 1989ء میں میٹرک، 1991ء میں ایف۔ اے، 1994ء میں بی۔ اے ڈگری کالج تونسہ شریف سے کیا۔ پھر 1996ء میں ایم۔ اے پولیٹیکل سائنس بہأالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کیا۔ میں شکیل احمد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ دھیما لہجہ رکھنے والا خوش اخلاق، خوش لباس اور شائستہ مزاج ہے۔ جب رسیلی گفتگو کرتا ہے تو اس کے وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔

شکیل احمد کا جب شعری مجموعہ ’’دھوپ سروں تک آ پہنچی،  2004ء میں چھپا تو اس میں ممتاز اطہر ابو البیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر طاہر تونسوی، اصغر ندیم سید اور بربط تونسوی نے موصوف کی شاعری کی خوب تحسین کی۔ ممتاز اطہر جدید لب و لہجہ کے شاعر ہی نہیں بلکہ ماہر عروض بھی ہیں۔ وہ ہر کسی کو شاعر تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا شکیل احمد کی شاعری پر بصیرت افروز مضمون اس بات کی گواہی ہے کہ موصوف کھرا اور سچا شاعر ہے۔ اس کی شاعری ندرت خیال سلاست، روانی، سادگی کا مرقع ہے۔ بھلا کیوں نہ ہو ظہور احمد فاتح جیسے قادر الکلام شاعر کے شاگرد رشید جو ٹھہرے۔

شکیل احمد کی شاعری کا مرکز و محور محبت ہے۔ یہ محبت اسے اپنی مٹی، اپنی ثقافت اپنی روایات، اپنے وطن کے پسے ہوئے مجبور و مقہور عوام سے ہی نہیں بلکہ بلا امتیاز دنیا کے ہر شخص سے ہے۔ وہ ایسا بالغ نظر شاعر ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر ہے۔ وہ موجودہ خونچکاں منظر نامے سے مایوس نہیں بلکہ رجائی انداز میں دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم رکھتا ہے لیکن وہ اسلام جیسے آفاقی نظریہ حیات کی روشنی میں انسانی سماج کے داخلی و خارجی مسائل کا حل چاہتا ہے۔ چند شعر ملاحظہ کریں   ؎

جنگ روکوں گا مجھ کو ہے ماں کی قسم

امنِ عالم کا رکھوں گا اونچا علم

 

گیت اُلفت کے سب کو سناؤں گا میں

ساری دنیا کو جنت بناؤں گا میں

 

دور ایسا بھی احمد کبھی آئے گا

عدل و انصاف دنیا میں چھا جائے گا

شکیل احمد کی شاعری میں قدیم و جدید کاحسین امتزاج بھی نظر آتا ہے۔ وہ اپنے وطن میں سیاسی افراتفری، معاشی بحران، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، لسانی، مذہبی اور صوبائی تعصب کے شعلے دیکھ کر کڑھتا ہے، دہشت گردی تو سردرد بنی ہے جس سے معبد محفوظ ہیں اور نہ خلقِ خدا، ہر طرف لاشوں کے انبار دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس المناک صورتحال کے ذمہ دار استحصالی نظام حیات کے ایجنٹ حکمران طبقہ ہے جو برسوں سے اہل وطن کا خون چو س رہا ہے۔ لیکن شاعر نے بد حال طبقے کی نمائندگی کی ہے اور اس کی پریشانیوں، محرومیوں، مجبوریوں کو اپنی شاعری میں فوکس کیا ہے۔ چند شعر دیکھیے   ؎

سناہے باغباں موجب ہیں گلشن کی تباہی کے

انہیں کی سازشوں سے یورشِ آفات ہوتی ہے

٭

ہنگامہ شورش دھول دھواں

یہ عالم ہے اب شہروں میں

٭

میں تھا پردیس میں تو گھر کو ترستا رہا ہر دم

گھر کو لوٹا ہوں تو جلتا ہوا گھر دیکھ رہا ہوں

٭

لسانیت کے، تعصب کے، فرقہ بندی کے

ہماری آنکھ سے چشمے اتار دے ساقی

چونکہ شاعر جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے وہ بے حوصلہ اور پریشاں ہونے کے بجائے یقین کامل سے یوں کہتا ہے   ؎

اے ارض وطن تجھ پر میں سو بار نثار

جان دے کے سنواروں گا تیری نوک پلک

شکیل احمد کی نظمیں بھی حسن و عشق، رندی و مستی میں رچی نظر آتی ہیں۔ جس طرح اختر شیرانی کی شاعری میں عذرا، سلمیٰ اور ریحانہ کے نام ملتے ہیں، شکیل نے نام تو نہیں لیا البتہ ’’تُو، کا استعمال کر کے اپنی محبوبہ سے یوں شکوہ کیا ہے   ؎

اور سارا شہر آیا تھا مگر

اہلِ تعزیت میں تُو شامل نہ تھی

اس کا عشق بازاری نہیں اس میں شرم و حیا، رکھ رکھاؤ اور پاکیزگی ہے۔ ایسا عشق تو شیوخ اور صوفیا ء بھی کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مسلک کے نزدیک عشق مجازی عشق حقیقی کا زینہ ہے۔ شکیل احمد نے اپنی نظم ’’حسنِ جاناں،  کی جو تصویر کشی کی ہے اسے پڑھیے اور عشق کے اسرارو رموز سمجھنے کی کوشش کیجیے اور سردھنیئے   ؎

تمہارے ہونٹوں کی سرخ رنگت چمن میں کھلتے گلاب جیسی

بھڑکتے شعلوں کی مثل یا پھر کشید ہوتی شراب جیسی

 

تمہارے قدموں کی چاپ سن کر خیال ترتیب پا رہے ہیں

تمہارے قدموں کی خاک بننے کی جسم ترغیب پا رہے ہیں

 

تمہاری آنکھوں کے دم سے دنیا میں بن رہا ہے مقام شاعر

تمہارے ابرو کی ایک جنبش سے منسلک ہے کلام شاعر

 

تمہاری زلفوں پہ منحصر ہے نظام لیل و نہار جاناں

تمہاری مسکان سے چمن میں پنپ رہی ہے بہار جاناں

 

تمہارے ہاتھوں کی انگلیوں کی ملائمت کی کہانیاں ہیں

کلی کی صورت ہیں نرم و نازک نفیس بے حد کلائیاں ہیں

تمہارے رخسار آبگوں ہیں، تمہارے مژگاں سیاہی مائل

جمال کتنا بڑھا رہی ہے گلے میں لٹکی حسیں حمائل

 

جو ہوسکے تو تم اپنے لہجے کی شستگی برقرار رکھنا

یہ خوش لباسی، ادائے شیریں، شگفتگی برقرار رکھنا

 

ازل سے دنیا کی ریت یہ ہے کہ حسن زندہ تو عشق باقی

تمہارے عشاق میں ہے شامل شیوخ و صوفی گدا و ساقی

 

تمہیں ہی ہر ُسوتلاش کرتے ہیں ایک دن تم سے آ ملیں گے

تم ان سے حسنِ سلوک کرنا ہم اپنے دل کو سنبھال لیں گے

ایک اور نظم ’’خوابِ  فردا، شاعر کا نظریہ حیات ہے اس نے تاریخی تناظر میں یہ واضح کیا ہے کہ ازل سے انسان نسلی، لسانی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حوالے سے جنگ و جدل میں مصروف رہا ہے۔ چونکہ شکیل احمد انسان دوست ہے اس لیے توپوں اور گولوں سے نفرت، پھولوں، خوشبوؤں اور قدرتی مناظر سے بے حد محبت رکھتا ہے۔ وہ اس لیے خونچکاں امروز میں خواب فردا دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کی تعبیر بھی چاہتا ہے۔ نظم دیکھیے   ؎

خوف طاری زمانے پہ ہے جنگ کا

جنگ آغاز ہے بھوک کا ننگ کا

 

تِیر توپوں سے گولوں سے نفرت مجھے

پھول، خوشبو، درختوں سے الفت مجھے

 

نفرتوں کے یہ شعلے بجھا دیجیے

جنگ ٹل جائے رب سے دعا کیجیے

 

حسن دنیا کا لوگو کہاں کھو گیا

دفن اقوام عالم کا دل ہو گیا

 

تتلیاں میرے گلشن کی لادو مجھے

امن کا ساز شیریں سنادو مجھے

 

کتنے بلبل تھے جو بے زباں ہو گئے

کتنے گلشن تھے جو بے نشاں ہو گئے

 

کتنی ماؤں کے لخت جگر کٹ گئے

کتنی بہنوں کے نورِ نظر کٹ گئے

 

کتنے تاروں نے لوگوں کی آہیں سنیں

داڑھیاں خوں سے بوڑھوں کی رنگیں ہوئیں

 

کتنی ندیوں کا پانی لہو ہو گیا

زاہدوں کا لہو سے وضو ہو گیا

 

جنگ روکوں گا مجھ کو ہے ماں کی قسم

امنِ عالم کا رکھوں گا اونچا علم

 

گیت الفت کے سب کو سناؤں گا میں

ساری دنیا کو جنت بناؤں گا میں

 

چہچہائیں گی چڑیاں میرے باغ میں

لوٹ آئیں گی خوشیاں میرے با غ میں

 

دور ایسا بھی احمد کبھی آئے گا

عدل و انصاف دنیا پہ چھا جائے گا

اس کے علاوہ حسرتِ دیرینہ اور صحرائے چولستان میں لکھی گئی ایک نظم منفرد اسلوب اور بے پناہ تاثر کی وجہ سے عمد ہ نظمیں ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ابدی سچائیوں کا شاعر -دمساز قیصرانی

 

دمساز قیصرانی سرائیکی کے ان انقلابی شعرا ء کی صف میں شامل ہیں جو شعور و آگہی کی بات کرتے ہیں۔ انسانی سماج میں مثبت کردار کے احیاء کے لیے اپنے قلم کو تلوار بنا کر استعماری قوتوں سے بر سرپیکار چلے آ رہے ہیں۔

ان کے دو شعری مجموعے خواب خواہشاں،  اور پیار سنیہاادبی عوامی حلقوں میں مقبولیت پا چکے ہیں۔ ان کاتیسرا شعری مجموعہ ’’آہر امن دے ‘‘میرے زیرِ مطالعہ ہے جس میں اقبال سوکڑی، شو کت مغل اور حمید الفت ملغانی جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے گراں قدر تاثرات بھی شامل ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ یونانی فلاسفر سے لیکر دور حاضر تک،  حیات و کائنات کا بنیادی اصول حرکت ہی رہا ہے۔ قرآن نے بھی انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ حرکت ہی کا دوسرا نام عمل ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ دمساز قیصرانی کا بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں ا س لیے وہ اپنی شاعری میں آہر کوشش اور جدوجہد کی بات کرتے ہیں جس سے ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے وہ درس وتدریس سے وابستہ بھی ہیں۔ وہ بیدار مغز شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری حقیقی زندگی کی غماز ہے۔ وہ ز ہر کا پیالا پی کرسچ کہنے کا احساس دلاتے ہیں اور خواب غفلت میں صدیوں سے پڑے ہوؤں کو بیدار کر کے ان کے ہاتھوں میں عمل کی شمشیر دینے کی بات کرتے ہیں تاکہ استعماری طاقتوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔ جنہوں نے اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کے لیے زندگی کی راہوں میں بارود بھر دیا ہے۔ قدم قدم پر مقتل سجا دیئے ہیں اور ہر سو لاشوں کے انبار دکھائی دیتے ہیں۔ بھوک پیاس کے مارے لوگ خوف و ہراس کی فضاء میں جینے پر مجبور ہیں۔ ان کے ہاں غمِ جاناں بھی ہے لیکن غم دوراں کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار دیکھیے   ؎

ڈوٹوکویں ہے گالھ بیَ قصے نہ کرفضول

عملو بغیر ہن ایویں علم و ہنر فضول

٭

سچ الا جتھ  الاونط دا موقع  ملی

ساڈی چپ اچ نہ چپ اے نسل تھی ونجے

٭

اونکوں غر بت غریبیں دا احساس کیا

سنگِ مرمر دا جیندا محل تھی ونجے

٭

چپاک چہرے، سباٹ نسلاں وہاج وقتیں دے ہاں ڈلیندن

وڈا ہے ظالم سماج اج دا تہوں تاں ساہ ساہ سکائی ودے ہیں

٭

غلام ابن غلام ہیں پئے اجاں تاں آزاد کوئے نسے تھئے

اساں امیریں دے بال مونڈھیں تے چاکے حالی کھڈانوے ہن

 

اجاں تاں مقتل توں لاش در لاش دا قضیہ ختم تھیا نئیں

پتا نئیں رت دے رنگیل چولے اجاں اے کیہہ تونیں پانونے ہن

٭

اتھ فجر نال سجھ ابھردیں ہوئیں ڈیکھ دھرتی تے رت وٹیندے

ہے بے گناہیں دے سرتے ہک لٹکدی ہوئی تلوار کیا کریجے

کئی چٹے چوک چندر چہرے ا تھاں حسیں بلدے لعل کس گئن

خون آلود بھوئیں جیندی او بھلا چمن زار کیا کریجے

دمساز قیصرانی کی نظمیں فکر انگیز ہی نہیں بلکہ عزم و حوصلہ کے ساتھ ساتھ بیداری کے جذبے بھی اجاگر کرتی ہیں۔ دمساز قیصرانی نے بھی اقبال کی تقلید کرتے ہوئے اپنے بیٹے فہیم بلوچ کو منظوم نصیحتیں کی ہیں جس کا مقصد وطن کے نوجوانوں میں سعی پیہم کا احساس دلانا ہی نہیں بلکہ ان کے اندر عقابی روح پیدا کرنا بھی ہے تاکہ وہ ملک و قوم کے لیے لازوال کردار ادا کرسکیں۔ اس حوالے سے ’’ اپنے پتر فہیم بلوچ دے نانویں،  نظم کے چند اشعار دیکھیے   ؎

حیاتی مواتی خدا دے ہتھیں ہے مگر حوصلہ ہار بہنط چنگاں نئیں

لہو گرم رکھ آہر دے کہیں بہانے نہ جذبات کوں ٹھار بہنط چنگاں نئیں

 

ایویں ہتھ تے ہتھ رکھ کے بہن فضول ئِ جے پیریں دے بھر باہر آسیں تے کھاسیں

ا تھاں حق وی ملدے مہانگا میڈا چن جیکراپنی آپ گاسیں تاں کھاسیں

 

ا تھاں  سِر تے سرڑی وی ٹکے دے بھاء میڈی  گالھ کھل کے ونجا نہ کتھائیں

میکوں پک ئِ دمساز گالھانویں توں میڈی پیار پارت بھلائیں نہ کتھائیں

ان کی ایک خوبصورت نظم جس میں وسیب کے بدحال لوگوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بیدار ہو جاؤ، جھوٹے سہارے لینے کے بجائے اپنے قوت بازو پر انحصار کرو، اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لاؤ، اپنے درد کا درماں خود بنو، اسی میں تمہاری بقا ئ، خوشحالی، ترقی اور باہمی اخوت و محبت کا راز مضمر ہے ’’دھرتی واسو‘‘نظم کے چند شعر دیکھیے   ؎

جاگو جاگو دھرتی واسو نندرو اکھیں کھولو

اپنے اپنے حصے جوگی خیر دی بولی بولو

 

بے دی آس تے جیونط چھوڑو اپنے پیر سنبھالو

وستی وستی وویڑے ویڑے وسمیے ڈیوے بالو

سچ دی سانجھ نبھاونط والو کہیں دو کَن نہ دھرو

ہک تھی کے دمساز ہمیشہ آہر امن دے کرو

اسی طرح اپنی نظم ’’مزدور، میں دمساز قیصرانی نے مزدوروں کی حالت زار کا بڑے دردناک انداز سے نقشہ کھینچا ہے یہ کتنا المیہ ہے کہ جن کے پسینے سے جہاں روشن ہے وہ زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اور اشرافیہ طبقہ کی تعیش میں گزرتی ہے۔ دمساز قیصرانی ایسے ظالمانہ نظام زندگی سے باغی ہیں۔ وہ مساوات پر مبنی نظام کی بات کرتے ہیں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ ان کی اور نظم ’’اساں تعلیم کرنی ہے،  میں دمساز قیصرانی ایسی تعلیم پر زور دیتے ہیں جہاں ذات کی تعمیر اور کردار کی تطہیر ہو، نئے افکار کی روشنی میں طبقاتیت سے پاک نصاب وضع کر کے نئی نسل کی تربیت پر زور دیتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر نہ اجتماعی سوچ پید اہوسکتی ہے اور نہ اخوت و محبت، اتحاد و یگانگت کے جذبے اجاگر ہوسکتے ہیں۔ و ہ بڑے اعتماد سے یہ کہتے ہیں کہ جدید سائنسی علوم سے ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نہ صرف کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ ترقی و خوشحالی، امن و سلامتی کی ضمانت بھی مل سکتی ہے۔ دو بند دیکھیے   ؎

اساں ٹیکنیک دے سارے عمل سکھنڑن سکولیں وچ

اساں ہر پرکھ رکھنی ہے اجاں سائنسی اصولیں وچ

 

اساں قانونِ  قدرت دے سبھے حاصل حصولیں وچ

نواں طرزِ فکر ورتا کرائیں تقسیم کرنی ہے

٭

ساڈے طر زعمل توں شیت کوئی ایجاد تھی پووے

ساڈی دھرتی غلامی توں متاں آزاد تھی پووے

 

متاں خوددارکوئی ساڈی نسل آباد تھی پووے

نصابیں وچ اساں دمساز دریہہ ترمیم کرنی ہے

اس کے علاوہ ’’شالا تتی وا ہ نہ لگی، نظم ماں کی بے پایاں محبت و شفقت اور دعاؤں کی غماز ہے۔ بھک تریہہ دا اندازہ کریں، نظم میں اپنے وسیب کی محرومیوں کا رونا ہی نہیں بلکہ استحصالی نظام حیات کے خلاف بغاوت کی بو بھی آتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دمساز قیصرانی آمریت اور فسطائیت کے خلاف ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری میں احترام آدمیت کے جذبے بھی نمایاں ہیں۔ وہ روشن فکر شاعر ہونے ساتھ ساتھ مصلح بھی ہیں۔ کیونکہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایسی شاعری کی بے حد ضرورت ہے تاکہ فکری انقلاب کی راہیں ہموار ہو سکیں۔

٭٭٭

 

 

 

انقلاب آفریں جذبوں کا شاعر -مالک اشتر

 

مالک اشتر اردو، سرائیکی کے روشن فکر نوجوان ادیب و شاعر ہیں۔ وہ بظاہر تو دھان پان سے ہیں لیکن ان کا عزم آہنی اور لب و لہجہ باغیانہ ہے۔ وہ سید رضاعباس کے گھر 21اکتوبر1978ء کو اس قصبہ منگروٹھہ شرقی (تونسہ شریف) میں آنکھ کھولی جو کبھی آبروئے علم و ادب فکر تونسوی کا مسکن رہا ہے لیکن تقسیم کے بعد جان لیوا عذاب سہہ کر مجبوراً ہندوستان چلے گئے تھے۔ مالک اشتر نے ابتدائی تعلیم کوٹ ادو میں حاصل کی۔ 1993ء میں منگروٹھہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ 1995ء میں ایف۔ اے اور 1997ء میں گورنمنٹ کالج سے بی۔ اے کیا۔ 2001ء میں ایجوکیشن کالج ڈی جی خان سے بی ایڈ کیا۔ 2003ء میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے ایم۔ اے اردو کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں اپنی صلاحیتوں کے وہ جوہر دکھائے کہ اردو سرائیکی ادبی اور عوامی حلقوں میں خاص پذیرائی ملی۔

مالک اشتر نے نثر میں سب سے پہلے اپنے استاد سرائیکی کے انقلابی شاعری سرور کربلائی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کتاب تالیف کی تو سرائیکی کے معروف اہل قلم ڈاکٹر طاہر تونسوی، اسلم رسول پوری اور پروفیسر رفعت عباس نے موصوف کے اس تنقیدی کام کی خوب تحسین کی اور اس کتاب کو سرائیکی تنقید میں گراں قدر اضافہ قرار دیا۔ مالک اشتر نے اپنے ابتدائیہ میں سرورکربلائی کا تعارف، شخصیت اور شاعری کے حوالے سے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اساتذہ کی اس ناقدری کے دور میں اپنے شاگرد ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ موصوف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ترقی پسند شاعر ہی نہ تھے بلکہ استحصالی سرمایہ دارانہ اور گودا گیری نظام کے سخت مخالف بھی تھے۔

مالک اشتر کی نثر کی دوسری کتاب کچھی دا اتم درشن ہے، جو غلام حُر خاں کندانی کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ہے۔ وہ ایک روشن فکر دانشور، تجزیہ نگار، غالب شناس اور لغت نویس تھے۔ مالک اشتر کے بقول کہ وہ ڈاکٹر علی شریعتی جوش اور ابوذر غفاری کے فکر و فلسفہ سے بے حد متاثر تھے۔ وہ نہج البلاغہ کی روشنی میں معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے۔ وہ انسان دوست، خوش اخلاق اور خوش لباس تھے۔ سرائیکی کے نامور انقلابی شاعر اور دانشور عاشق بزدار نے غلام حرخان کندانی کو تھل کا راجہ رانجھا جوگی کہا ہے۔ مالک اشتر نے سرائیکی وسیب کی نابغہ روزگار ہستی کے افکار و نظریات کو یکجا کر کے سرائیکی ادب کی گراں بہا خدمت کی ہے۔

مالک اشتر اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ جدید لب ول ہجے کے خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ ان کا جب سرائیکی مجموعہ ’’لہندی شام،  منظر عام پر آیا تو ادبی اور عوامی حلقوں میں خاص پذیرائی ملی۔ موصوف لہندی شام کا خونچکاں منظر دیکھ کر مایوس نہیں بلکہ دکھ سے یہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مثالی ریاست کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اسے جاگیر داروں سرمایہ داروں، تھیوروکریسی اور بیوروکریسی نے شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ موصوف مبتلائے غم عصر ہو کر بھی نئی سحرکا پیامبر ہے۔ ان کا اردو شعری مجموعہ ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے،  جو سچ لکھنے کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ انقلابی شاعر خالد علیگ کے مشہورِ زمانہ شعر کی تصدیق بھی ہے   ؎

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

لیکن موصوف فیض سے بیحد متاثر نظر آتے ہیں ان کے ہاں انقلابی فکر کے ساتھ ساتھ لب ورخسار کی باتیں بھی ملتی ہیں وہ بھی رخسار پر غازہ اور صندلیں ہاتھوں پر حنا دیکھ کر مچلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اذانِ ہجر کے بجائے وصل کی نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں   ؎

پھر سے امیدِ وصل کی شبنم گلوں کو چھو گئی

میں بھی نسیمِ نازکی میں جھوم کر سنبھل گیا

٭

جامہ زیبی نے تیرے جیت لی بازی اب بھی

پھر تیرے پیرہنِ ناز سے ہارے موسم

٭

ہونٹ کوثر کے قطروں کو چھونے لگے

تیرے رخسار کی جب شعاعیں ملیں

٭

وہ دلربا ایک ضو فشاں سادہ خو ش نظر ساوہ خوش ادا سا

تھی اس کے رخسار کی چمک جو لہو میں تحلیل ہو گئی تھی

٭

پھر نئی دنیا نئے چہرے نئے افکار ہیں

پھر کسی مہوش سے مالک دل لگانا چاہیے

٭

جو دیکھے وہی چادرِ غم اوڑھ کے سوئے

اس شوخ کی آنکھوں کا فسوں ہے کہ سکوں ہے

یہ حقیقت ہے کہ مالک اشتر کی شاعری انقلابیت اور رومانویت کی غماز ہے جو زندگی کے توازن کی علامت ہے اور خوبصورتی کا دوسرا نام ہے۔ موصوف نے اپنی شاعری میں تشبیہات واستعارات کا استعمال نہ صرف قرینے سے کیا ہے بلکہ مقتل، شبِ وصل، شبِ ہجراں، زنجیرِ زلف، زنداں، مسافر، نوکِ سناں، خنجر، چشمِ خورشید، رخسار، دارورسن، صلیبِ جاں، شامِ غریباں، خارِ مغیلاں، نوکِ نیزہ، اذانِ ہجر، وصل کی نماز، چادرِ غم، دشتِ تنہائی اور پیراہنِ  نازجیسے الفاظ و تراکیب کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔

اس کے باوجود ان کی شاعری میں تازگی، خیال کی ندرت، جذبے کی صداقت، نغمگی، اور شگفتگی نمایاں ہے۔ مالک اشتر بنیادی  طور پر انسان دوست ہیں وہ ایسے نظام کے خلاف ہیں جو ہر شخص سے جینے کا حق چھین لے۔ وہ غم حالات سے گھبراتے نہیں۔ اس لیے ان کی شاعری میں رجائیت ہے قنوطیت نہیں۔ وہ مظلوم طبقوں کی حمایت میں اپنے قلم کو تلوار بنا کر وقت کی استعماری قوتوں کو للکارتے بھی ہیں اور محبت کے نغمے غریبوں کے نام کر کے ان سے یوں گویا بھی ہوتے ہیں   ؎

اڑا دو زمیں کے یہ شیطان اڑا دو

بگل محشرِ دو جہاں کا بجا دو

 

یہ ایوانِ جبروستم بھی گرا دو

خداؤں پہ انسان حاکم بٹھا دو

 

پیاسو بدل دو مقدر کے جام

محبت کے نغمے غریبوں کے نام

 

غلامی میں اپنے بدن کو نہ ڈھالو

خزاؤں کو اپنے چمن سے نکالو

 

یہ تاج و حکومت کے پُتلے اچھالو

چلو بڑھ کے اپنی نشستیں سنبھالو

 

مٹا دو جبینوں سے لفظ غلام

محبت کے نغمے غریبوں کے نام

ہم زندہ ہیں ‘ مالک اشتر کی یہ نظم بائیس اشعار پر مشتمل ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے چند روز بعد رد عمل کے طور پر کہی گئی تھی۔ جنہوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے چہر ہ زندگی مسخ کر دیا ہے اور اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کے لیے ارض وطن کو لہو لہو کر دیا ہے اور اس کے مکینوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار دیکھیے   ؎

حق چھینیں گے زر داروں سے

حق خوروں سے سرداروں سے

ان سب سرمایہ داروں سے

ہم زندہ ہیں پائندہ ہیں

 

جب مل کر محنت کش دہقاں

یہ طالب علم، وکیل جواں

تبدیلی پر تُل جائیں گے

جمہور کے سب مرغانِ چمن

میدان میں نغمے گائیں گے

ہم زندہ ہیں پائندہ ہیں

ہم اہل قفس بھی زندہ ہیں

مختصر مالک اشتر طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی خونچکاں صورت حال کے تناظر میں ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں کہ جہاں مساوات ہو اخوت و محبت، امن و آشتی کے زمزمے فضاء میں ہمیشہ گونجتے رہیں۔ یہی شرف انسانی ہے اور شاعر کا مقصد حیات بھی۔

٭٭٭

 

 

 

توانا لہجے کا شاعر -ساجد مجید طاہر

 

یہ حقیقت ہے کہ و ہ شعرا ء جو اپنا خون جلا کر ادب تخلیق کر رہے ہیں ان میں ایک معتبر نام ساجد مجید طاہر کا بھی ہے کیونکہ وہ دردانسانیت رکھنے والا سچا تخلیق کار ہے جو علمی و ادبی مراکز سے کوسوں دور قصبہ وہوا میں رہتا ہے جو تونسہ شریف سے ساٹھ کلومیٹر شمال میں ہے۔ اس نے دنیا کی گود میں 1972ء کو پہلا سانس کیا لیا خود کو غم حالات میں اسیر پایا۔ ہوش سنبھالا تو اسے زندہ رہنے کا احسا س جاگا پھر بقا ء کی جنگ کا عزم یوں کیا 1987ء میں وہوا سے میٹرک 1989ء میں ایف۔ اے اور 1993ء میں بی۔ اے ڈیرہ غازیخان سے کیا پھر 1996ء میں ایم۔ اے اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا تو وہاں اسے معروف ڈرامہ نگار اور شاعر امجد اسلام امجد کے سایہ ہمایوں میں رہنے کا موقع بھی ملا اور اپنی فطری صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر لاہور کے بڑے بڑے شعراء کو حیران کر دیا لیکن وہوا کے معروف شاعر نذیر قیصرانی سے مشورہ سخن مناسب سمجھا۔

ساجد مجید طاہر طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی المناک صورتحال دیکھ کر خون کے آنسو روتا رہا اس لیے وہ ایسے نظام زندگی کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتا ہے جس کے زہریلے اثرات نے افراد معاشرہ سے زندگی کی ساری رعنائیاں چھین لی ہیں اور وہ خوف و ہراس کی فضا ء میں سانس لینے پر مجبور ہیں لیکن ساجد مجید طاہر عزم آہن رکھنے والا ایسا فنکار ہے جو اپنی انقلاب آفریں شاعری کے ذریعے زندگی کش نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ مجبور و مقہور انسانوں کو جان لیوا عذابوں سے نجات دلانا چاہتا ہے ا س لیے اس نے اپنے علاقے سے تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے انقلابی خطوط پر اکیڈمی بنائی ہے جس کا بنیادی مقصد نئی نسل کی پرورش لوح و قلم کرنا ہے تاکہ وہ اچھے انسان بن کر انسانی سماج میں لازوال کردار ادا کرسکیں۔

ساجد مجید طاہر کے پہلے شعری مجموعہ ’’زندہ رہنا پڑتا ہے،  کے منتخب اشعار ملاحظہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ سچا ادب مضافات میں تخلیق ہو رہا ہے یا کہ شہروں میں   ؎

شہر میں ہرسو چھا جائے جب حرص وہوس کی کالی دھوپ

دل کے اندھے غار میں سوکر زندہ رہنا پڑتا ہے

 

عشق جہاں پہ تہمت ٹھہرے سچائی رسوائی ہو

ایسے شہر میں پاگل ہو کر زندہ رہنا پڑتا ہے

٭

سرسے تاج اتر جانے پر اکثر طاہرؔ دیکھا ہے

لوگوں کے پھر برتن دھوکر زندہ رہنا پڑتا ہے

٭

ایسے منصف سے کیا توقع ہو

قتل کو بھی جو حادثہ لکھے

٭

میڈل اس کے بیچ کے طاہر

اس کا کفن خریدا تھا

٭

یہ کس ڈر سے چھپے ہیں لوگ گھر میں

کوئی آسیب کیا اترا ہوا ہے

٭

مفلسی کے خنجر سے باپ مر ہی جاتا ہے

چوڑیوں کی خاطر جب بیٹیاں مچلتی ہیں

٭

ہررستے  میں ہے خوف کھڑا

ہر بستی ڈر کی قید میں ہے

٭

حال دل بھی کہہ نہ پایا جس سے میں

اس کو میرے شعر سنائے لوگوں نے

٭

کسی بھی حال میں رکتے نہیں ہیں یہ آنسو

تیرے وصال کا عالم ہے یا جدائی ہے

٭

بجھ گئیں اک ماں کی آنکھیں چاندنی کی چا ہ میں

مفلسی کے چاند کو یہ روشنی مہنگی پڑی

٭

جس شہر کی مسجد بھی ترستی ہو جبیں کو

سمجھو کہ پھر اس شہر کا ہر شخص خدا ہے

٭

ہم بسر اس شہر میں یوں زندگی کرتے رہے

اپنے گھرکو پھونک کر ہی روشنی کرتے رہے

٭

کرن کرن کو ترس رہے ہیں اب خود ہی

اتنے اونچے محل بنائے لوگوں نے

ساجد مجید طاہر کی غزلیں ہوں یا نظمیں ان میں غم جاناں اور غم دوراں کاحسین امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ حقیقتوں کا ادراک رکھنے والا شاعر ہے اس لیے جبین دہر پہ لکھی ہوئی بجھارت کا یوں اظہار کرتا ہے کہ یہ زندگی کسی شوخ کی شرارت لگتی ہے۔ شاعر کو اس بات کا بھی بے حد دکھ ہے کہ شہر سخن میں ادبی خواجہ سراؤں کی بھیڑ لگ گئی ہے۔ جن کا بنیادی مقصد سستی شہرت، نمود و نمائش اور مفادات کے کشکول بھرنا ہے۔ گروہ بندیوں کی بھیانک صورت میں ایک دوسرے کی کردار کشی بھی وطیرہ بن گیا ہے۔ جو تخلیقی ادب کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ سب امیر شہر کی سازشوں کا نتیجہ ہے اس لیے موصوف بیباکانہ انداز میں یوں کہتا ہے   ؎

امیر شہر سے کہنا

تری دہلیز سے ہم کو

جبینیں دور رکھنی ہیں

بدن کے دکھ بھلا کر سب

ہمیں مرنا ہے مر کر بھی

جنوں آزاد رکھنا ہے

قلم آزاد رکھنا ہے

کتنا المیہ ہے کہ جہاں سچ کی جگہ جھوٹ کا راج ہو، جس نگر میں شب و روز روشنی کا قتل ہو، نئے اجالوں کے خواب دیکھنے والی آنکھیں چھین لی جائیں تو ایسے دردناک منظر میں ساجد مجید طاہر جیسے حساس انسان کو بھلا کیسے نیند آسکتی ہے۔ اس نے ظالمانہ، جابرانہ نظام زندگی کے خلاف یوں احتجاج کیا ہے :

جبر کی حکومت میں

بزدلوں کی سنگت میں

آمروں کی خواہش پر

شہر میں ہر اک جانب

ایک ایک در پہ جب خون سے لکھا جائے

اپنے گھر کے باہر اب سر جھکا کے چلنا ہے

روشنی کے سب قصے۔ زندگی بھرا لہجہ شجر ممنوعہ ٹھہرے

خواب چاند راتوں کے جو بھی دیکھنا چاہے آنکھ چھین لی جائے

بے یقین رشتوں کو با امان کرنے کی قیمتیں ہی ایسی ہوں

اپنا آپ بک جائے

عشق بھی جہاں لوگو بانجھ بانجھ ہو جائے سچ کہیں پہ کھو جائے

جب قلم کے وارث ہی منڈیاں سجاتے ہوں خود بھی بکنے آتے ہوں

قول بے یقیں ہوں جب دین مصلحت ٹھہرے

قامتوں سے بڑھ جائے ہر بشر کی مجبوری

جبر کے پیمبر کا ہر عمل ہو دستوری

جس نگر میں روز و شب روشنی کی کرنوں کا قتلِ عام ہوتا ہو

اس نگر میں آسودہ شب کو کون سوئے گا

کیسے مجھ کو نیند آئے

مختصر ساجد مجید طاہر کی شاعری میں آگہی کا جمال بھی اور نوا میں جلال بھی، فنکارانہ کمال کے ساتھ ساتھ حسن خیال بھی ہے۔ اس نے رواں بحور میں عمدہ شاعری کی ہے جو پر تاثیر ہی نہیں بلکہ بصیرت افروز اور ابدی سچائیوں کی آئینہ دار بھی ہے۔ جو زندگی کا قرینہ سکھانے کے ساتھ ساتھ حوصلے بھی بڑھاتی ہے۔ ہمیشہ کھرے سچے تخلیق کار کی یہ پہچان رہی ہے۔ لیکن کہیں کہیں قوافی کے معائب بھی نظر آئے ہیں۔ امید ہے ساجد مجید طاہر آئندہ یہ عمل نہیں دہرائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

غزل کا ترجمان -مہینوال منگروٹھوی

 

 

مہینوال منگروٹھو ی 1934ء کو بستی منگروٹھہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، مڈل کرنے کے بعد جے۔ وی مدرس تعینات ہو گئے۔ ان کا قابل محنتی اور فرض شناس اساتذہ میں شمار ہوتا ہے۔ وہ1987ء میں پرائمری سکول تونسہ شریف نمبر 2سے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوئے۔ وہ شاعری میں اصلاح فدا جعفری سے لیتے رہے ہیں جو اردو، سرائیکی کے اچھے شاعر تھے۔ موصوف نے اپنی عمر سرائیکی ادب کی خدمت کرتے گزار دی ہے جو ان کی ادب سے سچی لگن کی غماز ہے۔ اس کو محسن نقوی، فقیر نور جعفری، شفقت کاظمی، جانباز جتوئی، سائل ڈیروی، سرور کربلائی، اقبال سوکڑی، مہجور بخاری، سفیر لاشاری، پرواز قیصرانی اور احمد خان طارق کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ اس سے پہلے ان کے درج ذیل شعری مجموعے نماشاں، پیاردی پینگھ، وفادا کال اور گذریاں یاداں ادبی اور عوامی حلقوں میں قبولیت پا چکے ہیں۔ اس وقت ان کا پانچواں شعری مجموعہ ’’ تانگھاں‘‘ میرے سامنے ہے۔ اس کا انتساب خواجہ محمد نصرالمحمود فخری سجادہ نشین درگاہ عالیہ نظامیہ محمودیہ تونسہ شریف کے نام کیا ہے جو ان کی اس خاندان سے بے پایاں عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ پروفیسر شریف اشرف، شکیل احمد، فریاد ہیروی اور ریاض احمد خان گاڈی ایڈووکیٹ کے گراں قدر تاثرات نے مہینوال کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے۔

وہ نظم اور دوہے بھی کہتے ہیں مگر غزل ان کی پسندیدہ صنف ہے اس حوالے سے جا بجا اپنے اشعار کے ذریعے غزل کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے   ؎

ادب دیاں ساریاں صنعتاں پچھوتے تھی کرائیں رہ گئین

مہینوال ایں دور حاضر وچ غزل دا رنگ نکھردا پئے

نظمیںھ، ڈوہڑے، قطعیں کوں کوئی مہینوال نئیں پچھدا

فقط اج تذکرہ باقی ادب دے وچ غزل دا پئے

 

کہیں دی کیا ہے جرات آ کرائیں میڈی قلم پکڑے

سفر جاری و ساری ہے غزل دی آبیاری دا

مہینوال غزل کی مستی میں قلم جیسے مذکر لفظ کو مونث استعمال کر گئے ہیں۔ وہ میرو غالب کی شاعرانہ عظمت کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ ان کو یہ دکھ دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کہ غزل میں ان کو وہ مقام نہیں ملا جن کے وہ حقدار ہیں   ؎

غزل او میروغالب جھئیں اجاں تائیں سامنے نئیں آئی

غزل مہینوال لکھدے پئین مگر او نام نئیں ملیا

اس کے علاوہ وہ اپنے ہم عصر انقلابی شاعر اقبال سوکڑی سے نفسیاتی طور پر خائف بھی ہیں   ؎

کینہاں کہیں سوکڑی دے در تے میں ونج سرنگوں تھیواں

میڈی اپنی غزل اوندی غزل توں تیز ترہوسی

مہینوال منگروٹھوی غزل کے اچھے شاعر سہی مگر ان کو صف اول کے غزل گو شعرا ء میں شامل ہونے کے لیے مزید ریاضت اور مطالعے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے جا بجا نام نہاد شعراء پر طنز بھی کیا ہے جن کا مقصد ادب کی خدمت نہیں بلکہ تخریب کاری سے مفادات کے کشکول بھرنا اور سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ دو شعر دیکھیے   ؎

کلہوکے طفلِ  مکتب اج نشانیاں پیش کر رہے ہن

ادب دی سرزمین دے او اجارہ دار بن گئے ہن

جمعے توں جمعہ اٹھ تھئے جنہیں لوکیں کوں لکھدیں ہوئیں

ہے ساڈی بدقسمتی او وی اج فنکار بن گئے ہن

ان کو سرائیکی کے نامور ہم عصر شعرا ء مہجور بخاری، سرور کربلائی، جانباز جتوئی اور سائل ڈیروی کے بچھڑنے کا دلی صدمہ بھی ہے   ؎

مہجور ہا یا سرور جانباز ہا یا سائل

سب محترم او  ٹر گئین ہمعصر لاجواب

مہینوال کا سیاسی، سماجی شعور بیدار ہے ا س لیے وہ کہیں کہیں مصلح کا روپ دھار کر اسلامی اقدار کے سائے میں ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور بقاء کا راز مضمر سمجھتے ہیں۔ وہ مشرف کا تاریخی جملہ بھی دہراتے ہیں ’’اب پاکستان کا اللہ حافظ،  اس کے پس پردہ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کرنے والے وقت کے حکمران ہی نہیں بلکہ بیوروکریسی اور تھیوکریسی بھی شامل ہے جنہوں نے قدم قدم پر مقتل سجا کر خوف وہراس کی نہ صرف فضا ء پیدا کر دی ہے بلکہ معاشرتی قباحتوں کے ساماں بھی کیے ہیں۔ مہینوال ایک حساس انسان ہیں وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے کیسے بے خبر رہ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

مخلص ایں قوم و ملک دے انسان مرگئین

بحران اِچ آملک گئے نگران مرگئین

 

ایں ملک وچ دہشت گردی دا اے منظر اکھیں نہ ڈٹھا

تاریکی تاں تاریکی ہے ڈینہہ چٹے بند ہ ڈردا پئے

 

میں خود کش حملیں توں ڈہداں لگے انبار لاشیں دے

میں پھر پھر کے قتل گاہ وچ ودا سردھڑ گولیندا ہاں

پتانئیں کیہڑے رنگ وچ نظام اج کل پیا چلدے

خیر نئیں کہیں ملازم دی نہ کہیں مزدور دا پتے

نہ کہیں قاتل کوں پھاسی ہے نہ کوئی منصف عدالت ہے

پتا نئیں کہیڑے رنگ دے وچ پیا چلدا نظام اے اتھ

 

ا تھاں پانی دی جاہ تے اج لہو سستانظردا پئے

تائیں تاں نال رت دے اتھ مریندا روزگاراہے

 

نہ پانی ہے نہ بجلی ہے میں کت دا  رونوناں رونواں

انویں گھر وچ اندھاراہے ادا توڑے تھی بِل چکے

وہ ایسے آدم خور معاشرے سے تنگ آ کر کعبہ میں پنا ہ ڈھونڈتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ محبوب کی ادائے بے نیازی کا شکوہ اور فراق یا رمیں رو رو کر اشکوں سے منہ دھونے کی روایتی باتیں بھی کر تے ہیں   ؎

رو رو تیڈے ہجر وچ حالت میڈی او تھئی اے

جیویں جو ٹھڈے گھڑے پانی دے پئے نجھردن

 

جیرھے دل دا جے ہک دفعہ گزر تھئے کوئے جاناں توں

ولیا تاں ہے مگر ولیا کوئی دل ول سلامت نئیں

 

وڈا عرصہ گزرگئے می کئی گزرن سال رل گئے ہیں

جڈاں دا دلربا چھوڑے نہ پچھ کوئی حال رل گئے ہیں

مہینوال نظم بھی خوب کہتے ہیں ان کی ایک نظم ’’کون وچیندے دل،  ہے جو میرے خیال میں عزیز شاہد کی نظم’’کوئی دل گھندے بھئی دل، کے رد عمل میں کہی گئی ہے جس نے عزیز شاہد کو نہ صرف شہرت دوام بخشی ہے بلکہ نوجوانوں میں بے حد مقبول بھی ہوئی ہے۔ مہینوال کی اس نظم کے نو بند ہیں۔ تین بند قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہیں   ؎

بھُل کے شاید کہیں کیتی ہے ٹو ک مذاق  یا کھل

کہیں دے سر وچ کیہاں درد اے کون وچیندے دل

 

دل دے گاہک دل دے کیتے شہر بازار نہ آون پئے

دل جھئیں شئے  دے گھنن کیتے کوئی زردار نہ آون پئے

لوفر لُمب لفنگے پی کے اے میخوار نہ آون پئے

جہیڑی چیز وکاؤ کائینی کوئی سردار نہ آون پئے

جیہڑا بند ہ دل کوں ویچے نِل بٹا ہے نِل

 

دل تاں کاکا وکھری شے ہے نقش قدم نئیں وکدا ڈٹھا

کہیں دی زلف سیاہ نئیں وکی زلف دا خم نئیں وکد ڈٹھا

 

دل کہیں دا نئیں وکدا ڈٹھا جام جم نئیں وکدا ڈٹھا

لج پرور کہیں لج نئیں ویچی بھیم بھرم نئیں وکد ا ڈٹھا

بحر ادب تنقید دے اندر ٹھلناں پئے گئے ٹھل

 

دور پرانے دے بندے کوں دور تے انگلی چاونی پے گئی

پیری وچ ڈے طیش قلم کوں تیز ترین وہاونی پے گئی

کم ظرفواے دل نئیں وکدا کیوں تشہیر کراونی پے گئی

او مہینوال نظردا ویندئی مل مہینوال کوں مل

کہیں دے سروچ کیہاں درد اے کون وچیندے دل

مہینوال قائد اعظم جیسے عظیم قومی رہنما کے کردار و اطوار سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار بھی۔ جس نے مسلمانوں کو قعر غلامی سے نکال کر آزاد فضا ء میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا تھا۔ اس تناظر میں موصوف کی نظم ’’قائد اعظم کی تقریر،  میں حکمرانوں اہل وطن اور خاص طور پر نوجوانوں کو ملکی ترقی، خوشحالی اور حفاظت کا احساس دلایا گیا لیکن ہم نے قائد اعظم کے فرمودات بھلا کر اس کی ریاست کاجو حشر کیا یقیناً اس کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ نظم کا آخری حصہ نذر قارئین ہے   ؎

سنو گاہلے بھولے تے کملے دیوانو

وطن پاک میڈے دے اے نوجوانو

 

سنو مہروملک تے سردار خانو

وطنِ پاک دی بیڑی کندھی تے آنو

 

ڈکھائی سدھا رستہ میں راہگیروینداں

حق ہا قلم دا قلم کوں اٹھائے می

 

حقیقت ہائی جو کجھ نہ اصلوں لکائے می

پورا قائد اعظم دا فرمان سنائے می

 

ہاں مہینوال نظم ا چ اے سب کچھ سنائے می

لکھی قائداعظم دی تقریر وینداں

مہینوال نے تو ایک شاعر ہونے کا اپنا حق ادا کر دیا ہے اب وقت کے حکمرانوں کوہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور قائداعظم کے افکار کی روشنی میں ملک وقوم کو داخلی وخارجی مسائل کی خندق سے نکال کر تاریخی کردار ادا کرنا چاہیے۔ عدم صورت میں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نعتیہ اور غزلیہ شاعری کے آئینے میں – پرواز قیصرانی

 

یہ حقیقت ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے فوراً بعد مدحت سرائی کا آغاز ہو گیا تھا۔ خاص طور پرساتویں صدی ہجری نعتیہ ادب کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ قصیدہ بردہ شریف بھی اسی دور کی یادگار ہے۔ حسان بن ثابتؓ اور حضرت کعب ؓ کی ا یمان افروز شاعری سامنے آئی۔ اردو ادب میں بھی ہر شاعر نے نعت نبی ﷺ کہہ کر اپنی بے پایاں عقیدت کا اظہار کیا اور کر رہے ہیں۔

سرائیکی ادب میں بھی ایسا کوئی شاعر نہیں ہے جس نے نعتیہ شاعری نہ کی ہو۔ اس وقت سرائیکی کے معروف بزرگ شاعر پرواز قیصرانی کا نعتیہ مجموعہ ’’ڈات،  میرے سامنے ہے۔ ان کا پورا نام تو الطاف حسین ہے جو 10اکتوبر 1948ء کو کوٹ قیصرانی میں پیدا ہوئے۔ ایف۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے منسلک رہے ہیں۔ مشاعرے کے شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری میں روایتی بلکہ مولویت کا عکس نظر آتا ہے۔ حال آں کہ سرائیکی کے نامور انقلابی شاعر سرورکربلائی کے شاگرد ہیں۔ اب تو خودا ساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے شاگردوں کی تعداد تقریباً ساٹھ کے قریب ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے اور غور فرمائیے   ؎

اتنی خیرات سرکار ڈے

دید سکدی ہے دیدار ڈے

٭

سوہنڑاں مکھڑا ڈکھا سوہنڑیاں

چا مدینے سڈا سوہنڑیاں

٭

مدینے دا راہیا چئی ونج سنہیڑا

آکھیں سئیں کوں کھا گئے تہاڈا نکھیڑا

٭

اپنٹریں ڈکھ ہکوار میکوں سنڑوانونٹرڈیو

بے کس کوں سردار مدینے آونٹر ڈیو

٭

یانبیؐ شاہِ امم کر کوئی نظرِ کرم

اپنڑیں امت دا رکھو سوہنڑاں سردار بھرم

٭

میں ہاں نوکر محمدؐ دے در دا

میکوں کوئی خوف کائے نی قبر دا

٭

رب پاک محمدؐ کوں عرشاں تے سڈایا ہے محبوب جوہے

دیدار کرنٹر کیتے جبریل پٹھایا ہے محبوب جوہے

٭

آکھاں روضے دیاں چم چم جالیاں

کیتیاں سیدؐ نے واہ لجپالیاں

موصوف نے اپنے ایک شعر میں قَبْر کو سرائیکی لہجے کے ساتھ قَبَرْ باندھا ہے جو کہ عیب قوافی ہے۔ کاش !پرواز قیصرانی آپؐ کے انقلاب آفریں پیغام کو پیش کرتے۔ کیونکہ کہ آپؐ نے اپنے کردارِ سرمدی سے انسان کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر اجالا بخشا۔ عالمگیر اخوت و محبت کے ساتھ ساتھ عدل و احسان، مساوا ت، رواداری کا درس دیا اور حریت سے آشنا کیا۔

اس کے علاوہ موصوف غزل، نظم، دوہا اور رباعی بھی کہتے ہیں۔ ان کا اب تک شعری مجموعہ تو سامنے نہیں آیا البتہ ریاض عصمت نے مجھے ان کی نو رباعیات اٹھارہ دوہے پانچ غزلیں اور دو نظمیں بھجوائی ہیں۔ جہاں تک رباعی کا تعلق ہے تو ان کو یہ علم نہ ہوسکا کہ رباعی ہمیشہ بحر ہزج مثمن میں کہی جاتی ہے کیونکہ اس کے چوبیس آہنگ ہیں۔ قادر الکلام شعراء بھی رباعی کہنے سے گریز کرتے رہے، اقبال جیسے شاعر نے بھی اپنے قطعات کو رباعیات کا نام دیا تھا۔ اس لیے ان کی کوئی رباعی اس وزن پر پورا نہیں اترتی، مثال کے طور پر    ؎

جیرھے یار ہوندن اویڑے نئیں ہوندے

رقیبیں دے ہتھو سنیہڑے نئیں ہوندے

 

اساں بے نوا لوک ہیں کیا کریسوں

متھا جیں دے کہیں نال جھیڑے نئیں ہوندے

ان کے دوہوں میں بھی روایتی رنگ غالب ہے جس میں رونا دھونا ہجر و فراق کے ساتھ ساتھ قنوطیت کی دھند بھی چھائی ہوئی ہے۔ دودوہے دیکھیے   ؎

تقدیر کوں رت رونونط معصوم اکھیں دا بھا گئے

تائیں گلشن پیار دے وچ کھلدا میڈا غنچہ پیار کما گئے

 

برسات ہنجوں دی جاری تھئی کردلبر نیک دعا گئے

ڈٹھا رنگ بدلیندا موسم دا پرواز دا دل گھبرا گئے

٭

لامنتاں قاصد ونج سمجھا بے درد متاں سمبھیجے

کئی ایجھیں رنگ وچ عرض کریں نہ رنج تھیوے کوڑ یجے

جے ایں نہ منے پچھیں چا تیڈو میلہ ٹور انیجے

کوئی اینجھاں رنگ ورتا قاصد پرواز دا ڈھول مینجے

ان کے درج ذیل غزلیہ اشعار میں بھی روایتی پن ہے۔ اس لیے شوکت الفاظ، حسن بیانی، بلند خیالی، موسیقیت، شعریت عنقا نظر آتی ہے اور اسلوب سادہ ہے   ؎

غزل لکھدے غزل پڑھدے ریہوسے

تیڈا چہرا مٹھل پڑھدے ریہوسے

 

زمانہ چندر تے پج گئے میڈا چن

اساں زلفیں دے ول پڑھدے ریہوسے

٭

کون ہے جو ایویں تیڈیاں ناز برداریاں کرے

جان جو کھوں وچ ہووے تے پوریاں یاریاں کر کے

 

توں تا توں پرواز ہنجوں نال تیڈے ہجر دی

تس لہائی ودھ کے اِتھو نوکر کیرھیاں داریاں کرے

٭

ہے تیڈے ہجر دی اے عطا نندر نئیں آندی

ہُن رات یکی ماہی مٹھا نندر نئیں آندی

 

ہک رات کڈاہیں خوابدے وچ خان ملیا ہا

اوں ڈینہہ توں بیٹھا منگداں دعا نندر نئیں آندی

البتہ اپنی نظم پیغام میں اپنے وسیب کے عوام کو جگانے کا احساس دلاتے ہیں۔ تاکہ ظالمانہ نظام زندگی بدل کر مثبت اقدار کا احیاء کیا جا سکے اور ہر شخص سکھ کا سانس لے سکے   ؎

جے تھی سگے تاں سجاک تھیووکواہیں اے اُلٹا نظام بدلو

خلوص خرچو ء باد تئیں  ریادے رہبر امام بدلو

 

جاگ پوسو تاں ول کتھاہیں ستم دا نام نشاں نہ ہوسی

شعور جیں ڈینہہ سجاک تھیسی فتور دی داستاں نہ ہوسی

 

عقل کوں بیدار ڈیکھ کے کہیں کلی دا زیاں نہ ہوسی

گمان نیکی دے راہ تے چلسی کہیں تے کوئی بدگمان نہ ہوسی

 

خموش دھرتی کوں ہوش آسی کڈاہوآہ وفغاں نہ ہوسی

فلک دی لالی شفق دی شفقت ڈکھائے نامہرباں نہ ہوسی

 

زمیں بھوئیں امب لونہ اُلرسی اداس وت کہکشاں نہ ہوسی

برود دا نہ وجود رہسی ولا اے ظالم دھواں نہ ہوسی

 

ہے وقت آقا دا عزم بدلو اے بے ضمیر غلام نہ ہوسی

نظام حق دے امام دا وت محبتیں دا خراج تھیسی

 

کوئی تاں حاذق حکیم آسی تیں عاصیاں دا علاج تھیسی

کڈاہیں حقیقت دی شاہی آسی اس ختم پچھیں احتجاج تھیسی

 

ضمیرزندہ اخیر تھیسی نہ بے ضمیری وہاج تھیسی

بقادی جنگ وت مزاج لڑسی حیادا  دھرتی تے راج تھیسی

ڈکھائے ہک ڈینہہ وفادی ملکہ جفادی آکے پہاج تھیسی

ضمیرزندہ درندگی دے خلاف غیرت دا ڈاج تھیسی

 

نیاز مندی رذیل لوکیں دی سٹ کے باغی مزاج تھیسی

جیندی نصیحت قتل کرائے اوں کلیم دا کجھ کلام بدلو

٭

اینجھاں محبتاں رواج ڈیو و قتل کوئی اتھ ولا نہ تھیوے

ولا ایں جگ دے بزار دے وچ وکاؤ کہیں دا حیانہ تھیوے

 

جو زرپرستیں توں کہیں دے حق اچ قہر نہ تھیوے خطانہ تھیوے

اکھیں دی برسات روک گھنو تے ضائع کہیں دی دعانہ تھیوے

 

تے عشق والی نمازد اول کوئی وی سجدہ قضا نہ تھیوے

تے رب کعبہ رکھے محابہ کوئی خرابا بیا نہ تھیوے

 

اصول پڑھ کے رسول ؐ  من کے خراب مومن ودا نہ تھیوے

امن دا نام ونشاں نہ ملسی جداں تئیں کوئی دوانہ تھیوے

اے چھوڑو پرواز خون ریزی کوِاہیں سرِتوں ملام بدلو

٭٭٭

 

 

 

کوہ سلیمان کا شاعرِ خوش گفتار -غلام قادر بزدار

 

وادی کوہ سلیمان میں بسنے والے قبائل اپنی تہذیب و ثقافت، رسم و رواجات کے سچے پاسدار ہی نہیں بلکہ غیرت مندی، مہمان نوازی اور وفاداری میں اپنی الگ پہچان بھی رکھتے ہیں۔ ا س وادی نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے عظیم لوگ پیدا کئے جنہوں نے اپنے کردار و اطوار اور تخلیقی صلاحیتیوں سے تاریخ بلوچ میں انمٹ نقوش چھوڑے، خاص طور پر بلوچی زبان و ادب میں تاریخ ساز کردار ادا کیا۔

موجودہ دور میں ایک معتبر نام غلام قادر بزدار کا بھی ہے جو سچی لگن سے ادب کی خدمت کا جذبہ لے کر آئے ہیں۔ وہ درویش صفت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ مادہ پرست بھی ہیں۔ حسن اتفاق سے چھ ماہ قبل پہاڑپور ایک ہوٹل میں مجھے ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا جو موجودہ خونچکاں حالات کے تناظر میں عالم اسلام کی بے حسی کا رونا رو رہے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد وہ نہ صرف خوش ہوئے بلکہ اپنی کتاب کو ہ سارگوہر بار عطا بھی کی تھی جو کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل کی منظوم داستان ہے جس میں مری، بگٹی، مزاری، بزدار، لُنڈ، گورچانی، کھوسے، لغاری، نتکانی، سکھانی اور ملغانی شامل ہیں۔ غلام قادر بزدار 12ستمبر 1943ء کو غلام فرید خان لدوانی بزدار کے گھر پیدا ہوئے۔ 1960ء میں میٹرک کیا۔ پھر 1961ء میں بارڈر ملٹری پولیس میں بھرتی ہو کر اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کر کے 1998ء میں ریٹائر ہو گئے۔ پھر ادب کو اوڑھنا بچھونا ایسا بنایا کہ تیس کتب کے مولف و مصنف کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں پہنچانے جاتے ہیں۔

۱۔      کلام چگھا کا اردو ترجمہ 1996ء

۲۔       ہفت رنگ اردو منظوم ترجمہ 1998ء

۳۔     شعرائے کوہ سلیمان کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ 1998ء

۴۔     نور آ گہی اخلاقی مضامین کا مجموعہ 1999ء

۵۔     مرج البحرین، حمدیہ، نعتیہ کلام 2000ء

۶۔      حسن عمل اخلاقی مضامین کا اردو ترجمہ منظوم 2005ء

۷۔      اصول فطرت، معاشرتی کہانیوں کا مجموعہ 2005ء

۸۔     آموز گار بلوچی 2005ء

۹۔      اندازِسیاست اردو منشور و منظوم 2006ء

۱۰۔     پھلواڑی، پہیلیاں 2006ء

۱۱۔     حان بند، انگریزوں اور بزداروں کے درمیان لڑائی کی کہانی 2007ء

۱۲۔      افکار درخشندہ (غلام قادر بزدار کی نگارشات سے انتخاب، مرتب سید چراغ الدین شاہ 2007ء

۱۳۔    بزدار، تاریخ کے آئینے میں 2007ء

۱۴۔    صانع و شاہکار، بلوچی حمد نعت اردو منظوم 20088ء

۱۵۔    شریں گال (سنہرے بول )بلوچی، اردو منظوم 2008ء

۱۶۔     ناخواندہ معلم اخلاق 2009ء

۱۷۔    زادِ روح 2009ء

۱۸۔    کوہ سارگوہر بار، کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل کی منظوم تاریخی داستان 2009ء

۱۹۔     وحشیں تھران بلوچی منظوم 2010ء

۲۰۔    شعرائے کوہ سلیمان حصہ دوئم 2010ء

۲۱۔     مرقع اخلاق، اردو، بلوچی، سرائیکی منظوم 2010ء

۲۲۔    شعرائے کوہ سلیمان حصہ دوئم 2011ء

۲۳۔    جواہر تاباں غلام قادر بزدار کی نگارشات 2011ء

۲۴۔    رموزِ حیات (قرآنی تعلیمات کا بلوچی، اردو میں منظوم ترجمہ 2011ء

۲۵۔    دبستانِ فاتح۔ ظہور احمد فاتح کے شاگردوں کا تذکرہ 2011ء

۲۶۔    گوئشتین (بلوچی کہاوتوں کا اردو منظوم ترجمہ 2012ء

۲۷۔    متاع ثمین منظوم کلام 2012ء

۲۸۔    شعرائے کوہ سلیمان حصہ چہارم منظوم اردو ترجمہ 2013ء

۲۹۔    چہاربند، رباعیات مرتب سردار قدرت عزیز خاں مزاری 2013ء

چونکہ غلام قادر بزدار کی مادری زبان بلوچی ہے انہوں نے بلوچی شعراء کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ کر کے تاریخ ساز کام کیا ہے۔ اس کام کے پیچھے ظہور احمد فاتح جیسے قادر الکلام شاعر کا بڑا ہاتھ ہے۔

غلام قادر بزدار شاعر ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مترجم، مزاح نگار اور مصلح بھی ہیں۔ وہ ایک کٹر مذہب پرست ہی نہیں بلکہ ان کی نگارشات سے بھی عیاں ہے اور وہ اسی تناظر میں اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں تاکہ معاشرتی قباحتوں کا خاتمہ ہو، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اخلاقی نظام ہمیشہ معاشی نظام کے تابع رہا ہے یعنی جیسا معاشی نظام ویسا اخلاقی نظام۔ چونکہ ہمارا معاشرہ معاشی بدحالی کا شکار ہے اس لیے ہم اخلاقی طور پر بھی بدحال ہیں۔

غلام قادر بزدار کووسیب کا دانشور بھی سمجھا جاتا ہے، موصوف کو گراں قدر ادبی خدمات کے صلے میں دانشور کوہ سلیمان اور کوہسار ادب کے خطابات بھی مل چکے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر گل عباس اعوان نے کوہ سلیمان کا علمی حاتم جیسی عمدہ کتاب دے کر موصوف کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔ جہاں تک دانشوری کا تعلق ہے تواس کے لیے تمام مروجہ علوم پر مکمل دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسفہ کا ماہر ہونا بیحد ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ حقیقت کا ادراک عقل و دانش کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن جس معاشرے میں جہالت پرستی کے فروغ کے ساماں ہوتے ہوں جن کا عقل و دانش سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ اندھی عقیدت ہو تو ایسے تناظر میں دانشور کی کیا اہمیت رہتی ہے۔ پہلے تو دینی مدارس میں دستار فضیلت کی روایت تھی اب ادب میں دستاردانشوری کی روایت زور پکڑ رہی ہے۔

اس حوالے سے کوہ سلیمان کے بلوچ قبائل نے غلام قادر بزدار کو ادبی خدمات کے اعتراف میں 2010ء میں دستار دانشور ی عطا کی تھی۔ کئی ماہ پہلے لیہ کے ادباء و شعراء نے موصوف کو دستار دانشوری عطا کر کے اپنے لیے بھی دستار دانشور ی محفوظ کر لی ہے۔ چونکہ غلام قادر بزدار   کی مادری زبان بلوچی ہے اس کے علاوہ وہ اردو، ہندی اور سرائیکی میں بھی شاعری کرتے ہیں جو نذر قارئین ہے   ؎

سب تری مٹّی میں ہیں یہ ماہ و انجم، آفتاب

فرش بحر و بر ہے تیرا ہے ترا عرش فراز

سب کا داتا سب کا پربھو پالن ہار وہ ایک

اللہ بولو تم یا ایشورسب کا ہے پردھان

(ہندی)

نیستیں اے دنیامی ئِ مئے تھی یار اللہ

گوتھو صرف پورا بی مئے ہرکار اللہ

(بلوچی)

ترجمہ:

نہیں دنیائے فانی میں ترے بن یار اللہ

سواتیرے نہ پورا ہو کوئی بھی کار اللہ

محمدؐآں کہ دل ٹیکیں غریوانی، خورانی

قیامت تھفقخیں روشا بی اوڈھر لوارانی

(بلوچی)

ترجمہ:

یانبی ؐ ہیں بے کس و مسکین کے غم خوار آپ ؐ

بہر امت حشر کی  لُو کیلئے دیوار آپؐ

 

مقتدی سارے بنے تھے انبیائے ذی حشم

پیشوا  ان  کے  بنے  تھے  وہ  امامِ مرسلاں

اے میڈا دل سبزگنبد دے مکیں دی گال کر

پاک پیغمبر امام مرسلیں دی گال کر

اخلاقیات کے حوالے سے دو شعر دیکھیے   ؎

یہ فرمایا رسول اللہ نے اے مومنو سُن لو

نہیں ہرگز عبادت دین میں اس سے بڑی کوئی

 

کہ اک بھائی مسلماں خوش کرے دل اک مسلماں کا

سکوں مخلوق کو بخشے کرے لوگوں کی دلجوئی

 

یہ تشنہ ارض تونسہ ہے بہت مخدوش صورت ہے

ہماری قوم کو ساقی نما رہبر کی ضرورت ہے

 

زمانے میں ہوا ہے عام  حرص  و آز کا دھندا

دلوں میں اس طرح ڈالا ہے سیون ایٹ کا چکر

٭

کُل ڈاکو، چور اچکے چارہ گر بن بیٹھے ہیں

بھیس بدل بہروپ بنا کر یوں ہی آتے جاتے ہیں

 

آٹا مہنگا چینی مہنگی سب کچھ دیس میں مہنگا ہے

سستی ہے تو موت یہاں پر مفت میں ہم مر جاتے ہیں

 

جو پوچھا مردِ افغاں سے ہے کیسی ہمت عالی

ادھر امریکی بمباری ادھر غربت کی بدحالی

 

 

ملی ہے دولتِ ایماں فزوں تر جو خزانوں سے

خدا کے فضل سے پائے ہیں ہم نے حوصلے عالی

 

رہے گا نخل آزادی ہرا اس قوم کا ہر دم

کہ جو اس کے تحفظ میں ہے جاں پر کھیلنے والی

یہ مختلف اشعار ان کی کتاب متاع ثمین سے لیے گئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

محبت کا شاعر- محمد تنویر الزماں

 

ہمیشہ سچے تخلیق کار کو جاں لیوا عذابوں، نا انصافیوں، محرومیوں سے گزر کر حیات و کائنات کا ادراک ملتا ہے۔ تنویر الزماں کی شاعری جواں ہمتی، انساں سے محبت اور احساس سے لبریز نظر آتی ہے۔ ’’پلٹ کر دیکھنا ہو گا،  اس کے پہلے شعری مجموعے کا نام ہے جس میں ظہور احمد فاتح، خاطر غزنوی، حفیظ اللہ قلزم، اجمل نیازی اور فرحت عباس شاہ نے تنویر الزماں کی شخصیت اور فکرو فن پر دل کھول کر لکھا ہے۔ مجھے تعجب اس بات پر ہے کہ شاعر ’’پلٹ کر دیکھنا ہو گا،  کا اصرار کیوں کر رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جانے والے پلٹ کر نہیں دیکھتے البتہ یادوں کی کرچیاں روح میں چبھو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسی دل سوز کسک جینے کا نہ صرف حوصلہ عطا کرتی ہے بلکہ ذاتی کے بجائے کائناتی بن جاتی ہے، یہاں شاعر کے احساسات دیکھیے   ؎

ہم نے الفت کو عام کرنا ہے

نفرتوں کو تمام کرنا ہے

چار دن کا قلیل عرصہ ہے

اور صدیوں کا کام کرنا ہے

تنویر الزماں ایک فطری شاعر ہے اور اسے شعر کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔ کیوں نہ آئے ظہور احمد فاتح جیسے قادر الکلام شاعر سے اصلاح جو لیتے ہیں۔ زبان و بیان سادہ مگر پر تاثیر ہے۔ وہ فنی لطافتوں، نزاکتوں سے باخبر ہی نہیں بلکہ اشاروں، تشبیہوں کے ساتھ ساتھ بنتِ عنب، چشمِ بیزار، کنجِ عزلت، مژدۂ جفا، ظرفِ گدا، خرمنِ احساس جیسی تراکیب کو استعمال کر کے داخلی و خارجی مسائل کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتا ہے۔ اس کی شاعری میں جمود نہیں بلکہ تحرک ہے، اس کا سیاسی، سماجی شعور بھی بالغ ہے۔ اس لیے زمانے کے خونچکاں حالات و واقعات کا ادراک رکھتا ہے اور جابرانہ نظام زندگی کے خلاف سراپا احتجاج نظر آتا ہے۔ اس نے زیادہ تر غزلیں بحر رمل مثمن محذوف، بحر ہزج مثمن سالم، بحر ہزج مسدس محذوف، بحر رمل مسدس محذوف اور بحر متدارک مسدس محذوف میں کہی ہیں۔ لیکن سلاست روانی، شگفتگی اور نغمگی میں کمی نہیں آئی بلکہ جمالیاتی پن اور انسان سے محبت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔

’’پلٹ کر دیکھنا ہو گا،  سے منتخب اشعار ملاحظہ کریں   ؎

ہمارے حصے کے خواب تک بھی چُرا لئے ہیں مہاجنوں نے

ہماری محرومیوں سے تسکیں ملی ستم کی نہایتوں کو

٭

تنویر لطفِ عاشقی مضمر ہے ہجر میں

میٹھے ہیں خوابِ وصل سے فرقت کے رتجگے

٭

بدل دے شہرِ نفرت کی فضا رنگِ محبت سے

مٹا دے ظلمتِ بغض و ریا نورِ مروت سے

٭

پاؤں میں گھنگرو بندھے ہوں یا پڑی ہوں بیڑیاں

اے شریک فکر ہے ہر ظلم سے لڑنا ہمیں

٭

جبر کے ماحول میں پھوٹیں گے دھارے عزم کے

ظلم کا ہر سلسلہ اک ولولہ دے گا ہمیں

٭

کیوں تصادم پر کمر بستہ رہیں

آؤ لوگو پیار کی باتیں کریں

 

رنگِ غالب نہ سہی رنجِ محبت ہی سہی

خوش نظر آتے ہیں نقاد نوَا پر میری

٭

ہوس کا کوڑھ لے کر پھر رہے ہیں اہلِ دنیا

جذامِ خود نمائی کا مرض مہلک ترین تھا

تنویر الزماں کی نظموں کے موضوعات بھی تلخ تجربات و مشاہدات سے جنم لے کر معاشرتی، سیاسی، سماجی کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ وہ درندوں کے اس سماج کو انسانی سماج میں بدلنے کا خواہشمند ہے جس کا لہجہ کبھی جارح شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس کے خیالات احساس کی آنچ کا یہ روپ دھار لیتے ہیں   ؎

 

ادراک پریشاں ہے اپنا احسا س پہ وحشت طاری ہے

تخیل کے تپتے صحرا میں افکار کے برہم شعلے ہیں

 

اشعار کی جارح شکلوں میں جذبات کے بہتے لاوے ہیں

کچھ عہد گزشتہ کی یادیں کچھ خواب شکستہ ماضی کے

 

کچھ بھولے بسرے یار سجن بے درد سجن غم خوار سجن

کچھ دھن دولت کے متوالے کچھ ہم جیسے نادار سجن

تنویر یہی سرمایہ ہے بے کیف حیات رفتہ کا

(نظم سرمایہ )

اس طرح تنویرالزماں نے اپنی نظم ’’بھلے لوگو ذرا سوچو‘‘میں مظلوم طبقہ کو بیداری کا احساس دلایا ہے کہ استعماری قوتوں اور اس کے سارے کاسہ لیسوں کا متحد ہو کر اس دھرتی سے نام و نشان مٹا دو جو صدیوں سے تمہارا استحصال کرتے آ رہے ہیں :

وہ دن بھی یاد کچھ آتے ہیں اب تم کو بھلے لوگو

کہ جب پرسان حال اپنا نہیں تھا کوئی دنیا میں

فرنگی تخت پر قابض تھا

بنیاسانپ بن کر تخت کی دہلیز پر بیٹھا ہوا تھا

مگر اپنے مقدر میں

کسی لالے کی منشی گیری تھی انگریز کی خانہ غلامی تھی

با ایں احوال

کچھ اہل ہوس تثلیثوں سے منسلک بھی تھے

جنھیں تاج فرنگی سے وفاداری کے بدلے میں

کئی میلوں کی جاگیریں

ہزاروں پارچوں کی خلعتیں بخشی گئیں

جنھیں اپنے قبائل کی لہو نوشی کے پرمٹ مل چکے تھے

وہی  انگریز  کے بیٹے  جگر  گوشے

ابھی تک برسرِاحکام ہیں خفتہ نصیبوں پر

اگرچہ شاہ گر ان کے پناہ گاہوں کو واپس ہو چکے ہیں

انہیں بھی حیطۂ افرنگ کی جانب دھکیلو اب بھلے لوگو

مٹا دو پنجۂ صیہونیت کے داغ دھرتی سے

بھلے لوگو

اٹھو اب چھین لو اپنے مقدر کے ستارے چیرہ دستوں سے

اس نے نظمِ زندگی کو بھی مختلف زاویوں سے دیکھا ہے۔ شکستِ آرزو اور نصیب نظموں سے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ نئی امنگوں، نئے جذبوں، ولولوں سے جینے کا عزم کیا ہے۔

نظم (NO COMPROMISE)میں بھی شاعر نے ایسے حالات و واقعات اور رویوں پر کمپرومائز نہیں کیا جس سے خودی کا وقار مجروح ہو۔ اس کی نظموں میں احساس کی شدت اور جذبے کی صداقت ہی نہیں بلکہ حسن خیال کی آئینہ دار ی بھی ملتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مثبت قدروں کا امیں – محمد رمضان نادار

 

جس سماج میں معاشی عدم مساوات کا سرطان بھیانک شکل اختیار کر جائے تو وہاں طبقاتی کشمکش کی صورت میں قتل و غارت لوٹ کھسو ٹ، کرپشن، دہشت گردی، بم دھماکے، خوف وہراس غرضیکہ معاشرتی برائیوں کے تعفن زدہ ماحول میں تخلیق ہونے والے ادب میں غم و اندوہ، تنہائی، گھروں کی ویرانی، حالات کی اسیری، زارزار رونا، ہجر کے صدمات، نفرتوں کے اندھیرے اور روح کے آسمان پر کالی گھٹاؤں کا احساس نہ ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ لوگ ایسے عذاب بھرے ماحول میں خود کو لاچار، نادار تصور نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اس تناظر میں محمد رمضان نے بھی اپنا تخلص نادار تجویز کیا ہے جو 5مئی 1953ء کو بستی مٹھے والی میں پیدا ہوئے۔ وہ 1975ء سے سرائیکی شاعری کر رہے ہیں۔ معروف سرائیکی شاعر سیفل قیصرانی سے اصلاح لیتے ہیں۔ غربت و افلاس کے باوجود حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ حال ہی میں ان کا شعری مجموعہ ’’ وانج‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں پروفیسر عزیز احمد قیصرانی، ڈاکٹر گل عباس اعوان اور سعداللہ خان کھتران جیسے معروف اہل قلم نے نادار کی شاعری کی خوب تحسین کی ہے۔ ’’وانج ‘‘ سے مراد قومی و معاشی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کا شاعر نے بڑی جرات و بے باکی سے اظہار کیا ہے۔ وہ استحصالی طبقہ سے سخت نفرت ہی نہیں کرتے بلکہ بغاوت کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ اس لیے ا س کی شاعری میں گہرا سماجی شعور ملتا ہے۔ شعر دیکھیے   ؎

بھوئیں دا قاسم جیکوں رکھسی وانج وچ

شخص او آپیں اویڑا تھیونٹرے

مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ان کے جذبے نادار نہیں بلکہ بیدار ہیں۔ اس لیے وہ مثبت قدروں کے امیں ہیں۔ وہ بڑے عزم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم گھٹا ٹوپ اندھیروں کا سینہ چیر کر سحر کریں گے۔ جو گونگی مخلوق کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے ہم اس کو نہ صرف قوت گویائی دیں گے بلکہ غاصب وقت سے گن گن کر بدلے بھی لیں گے۔ اور مکروہ چہرے بھی بے نقاب کریں گے۔ اور اپنی نئی نسل کواستحصالی قوتوں کے مذموم ارادوں سے باخبر کر کے ان کی موت کا ساماں بھی کریں گے۔ نادار کی شاعری میں بھی وطن سے بے پایاں محبت کا اظہار ملتا ہے۔ انہیں اس بات کا انتہائی دکھ ہے کہ جنھوں نے ہوس اقتدار کی خاطر وطن عزیز کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اس لیے شاعر نے ظالم وقت سے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہم اپنے قلم کو تلوار بنا کر مظلوم طبقے کے حقوق کے لیے برسرپیکار رہیں گے۔ اس حوالے سے محمد رمضان نادار کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

مک ونجے نادار نفرت دا اندھارا شہر توں

سوجھلے دی سوکھڑی ونڈوں ویلاہوں ٹھیک ہے

٭

قرض تے چاتیم کتاباں بال دیاں

اووی قرضہ سراتے حالی کھڑے

٭

اساڈے حال کیا پچھدیں اساڈے حال اوکھے ہن

اساں ہستی دے ورقے تے جو غم دا باب تھی گئے ہیں

٭

اکھیں توں پن کرائیں ہنجوں پلیساں پیار دے بوٹے

چمن دی آبیاری لونہ رت ڈیندیں جگر تھکسی

٭

عمر بھر دے کلہپے توں گھبرا گیاں

گھر دا ویران منظر ڈراونڑ لگے

٭

رورو کے تیڈے ہجر وچ کپڑے پساڈتن

اکھیں کنوں پئی وگدی اے برسات ڈیکھ ونج

٭

اساں گھپ رات وچ ڈیوے بلیسوں رنج نہ تھیویں

سحر دے خواب پورے کرڈیکھیسوں رنج نہ تھیویں

 

جیویں مخلوق گونگی نال نت نروار کیتا ہی

اساں گنگدام لوکیں لو ایسوں رنج نہ تھیویں

 

شرافت دابکل ماری ودیں مکرو ہ چہرے تے

تیڈے رخ توں تیڈا بکل لہیسوں رنج نہ تھیویں

 

قلم کاغذ نمائش نہیں فقط نادار کھیسے دی

قلم مظلوم دے حق اچ اٹھیسوں رنج نہ تھیویں

محمد رمضان نادار نے نظمیں بھی عمدہ کہی ہیں جو ان کے بے ساختہ جذبات و احساسات کی نہ صرف ترجمان ہیں بلکہ سچے کردار واطوار اور عزم و استقلال کا احساس بھی دلایا گیا ہے۔ ان کی یہ نظم خواہشات دیکھیے   ؎

ناں مال وزر دی خواہش وچ خود کوں غلام کر

ناں بے وجہ ضرورتیں کوں بے لغام کر

 

وحشت زدہ غریب دی ہمت جگا کرائیں

ایں دور دے فرعون دیاں نندراں حرام کر

ٹنگی ودا ہیں جسم کیوں ساہ دی صلیب تے

بے سود زندگی دا اے قصہ تمام کر

 

حق و صداقتیں دا علم چاکے دارتائیں

پہنچا ہے جیڑھا شخص اوندا احترام کر

 

ڈیندیں جیکر خلوص دی عظمت کوں زیب ڈے

نادار ناں خوشامدن کہیں دا سلام کر

نادار کی نظم ’’آدمی،  سے تو مجھے بے ساختہ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’آدمی نامہ‘‘ یاد آ گئی ہے جو اردو شاعری میں اپنی مسلم حیثیت رکھتی ہے۔ لگتا ہے کہ نادار نے نظیر کی نظم سے متاثر ہو کر اپنی نظم آدمی کہی ہے۔ جن کے اشعار نذرقارئین ہیں   ؎

آدمی بنڑاتاں بنڑ بے نظیر آدمی

آدمی نہیں جیرھا بے ضمیر آدمی

 

ہے تاں فرعون، نمرود وی آدمی

شاہ شمس آدمی، دستگیر آدمی

 

کوئی محلات دی موج وچ آدمی

کوئی بھوئیں تے سمدے فقیر آدمی

 

بخت والیں دی تفریق دا حال ہے

آدمی توں کریندا کریر آدمی

ہن ڈوہیں آدمی ہن ڈوہیں اوپرے

ہک غریب آدمی ہک امیر آدمی

ا س طرح نادار کی آزاد نظمیں بھی وسیب کی محرومیوں، سلگتی خواہشات کی غماز ہیں۔ لیکن ان کے دوہے زیادہ تر غم عشق سے چور چور نظر آئے، نمونہ کے طور پر ایک دوہا نذر قارئین ہے   ؎

گئیں چھوڑ جڈاں دا جگ جیویں لب لوہ گئے کھل مسکار کنوں

روح سبکی وات اڈاہیں دی ہے اکھ سک موئی اے دیدار کنوں

 

چا پار تیاریاں کیتے نی دل رج گئی وی اروار کنوں

تیڈے بعد کیوئیں پئی نبھدی ہے آ حال تاں چانادار کنوں

نادار نے رباعیات بھی کہی ہیں، جو رباعی کی مخصوص بحر میں نہیں کیونکہ یہ بحر ہزج میں کہی جاتی ہے جس کے چوبیس آہنگ ہیں مگر نادار نے مختلف بحروں کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر بحر متقارب میں کہے گئے دو شعر دیکھیں   ؎

لہو نال تیکوں حنا بخش ڈیساں

محبت کوں نویں ادا بخش ڈیساں

وفادا اے شیشہ جیکر تھیا میلا

میں خود کوں مٹاکے جلا بخش ڈیساں

مختصر محمد رمضان نادار درد انسانیت رکھنے والا سچا تخلیق کار ہے وہ محبتوں سے نفرتوں کے اندھیرے مٹا کر اور طبقاتی دیوار گرا کر وسیب کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ مگر پر تاثیر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاعرِ وِداد-جمشید ناشاد

 

جمشید ناشاد کا تعلق اس پسماندہ قصبہ وہوا سے ہے جہاں کھتران، بکھائی اور پٹھان خاندان نہ صرف آباد ہیں بلکہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ با اثر سیاسی وڈیرے بھی سمجھے جاتے ہیں اور وسائل پر بھی قابض ہیں تو ایسے ماحول میں غریب عوام بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں نہ ہوں۔ بھوک پیاس سے ان کے چہرے مدقوق کیوں نہ نظر آئیں وہ اپنے معصوم بچوں کے تاریک مستقبل پر کیوں نہ آنسو بہائیں۔ جمشید ناشاد نے بھی ایسے اذیت ناک ماحول میں 1970ء میں آنکھ کھولی، میٹرک ہائی اسکول وہوا سے کیا پھر مجبوری حالات کے وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ بے روزگاری کے عفریت کو مارنے کے لیے محنت مزدوری کو نہ صرف عظمت جانا بلکہ وسیب کے مقہور و مجبور عوام کے فکر و شعور کو بیدار کرنے کے لیے شاعری کو اظہار کا وسیلہ بنا کر مقامی استحصالی قوتوں کے خلاف بے باکی سے بغاوت کا علم بھی بلند کیا۔ جب اس کا پہلا سرائیکی شعری مجموعہ ’’ پرلی کندھی،  مئی 2008ء میں چھپا جو طبقاتی کشمکش کا واضح استعارہ ہے کہ جہاں امیروں کے تو حصے میں مچرب لقمے آئیں مگر غریبوں کو نان جویں بھی میسر نہ ہو توایسے محذوم نظام زندگی میں جینا کیا معنی رکھتا ہے۔

جمشید ناشاد کے اس مجموعے پر نذیر قیصرانی مرحوم، اقبال سوکڑی، مصطفی خادم اور نصیر سرمد مائیروی نے کھل کر داد تحسین دی تو موصوف ادبی، عوامی حلقوں میں نہ صرف متعارف ہُوا بلکہ ’’بزم شہزاد نصیر اردو سرائیکی وہوا نے بھی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید جِلا بخشی اور اپنے استاد رمضان نادار کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ جب اس کا دوسرا شعری مجموعہ ’’پرایاچندر‘‘، اپریل 2012ء میں منظر عام پر آیا جس میں سردار سعداللہ خاں، پروفیسر حفیظ الرحمن خاں، معین نتکانی، اور راقم جسارت خیالی نے موصوف کی شاعری کو موجودہ عہد کی توانا آواز قرار دیا۔ اس کی غزلوں، نظموں، دوہوں اور قطعات کے مطالعے سے جو بنیادی تاثر ابھرتا ہے وہ دکھ اداسی اور بے بسی ہے۔ اس کا اندازہ پرایا چندر (چاند )سے لگایا جا سکتا ہے جو زمانی و مکانی اعتبار سے شاعر کو پرایا نظر آتا ہے۔ ویسے تو انسان نے اپنی بے چارگی و بے بسی کا رونا تو ہر دور میں رویا ہے جس کا بنیادی سبب معاشی عدم مساوات ہی رہا ہے۔ اس حوالے سے استعماری قوتوں نے معاشی، سیاسی، مذہبی اور سماجی مسائل نہ صرف پیدا کیے بلکہ عوام کو زنجیروں میں جکڑ کر ان کو اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور بھی کیا۔

جمشیدناشادباشعوراورسعی پیہم کرنے والا سچا تخلیق کا رہے۔ وہ سادہ مزاج، با اخلاق، ملنسار ہی نہیں بلکہ بلا امتیاز ہر کسی سے محبتیں بانٹنے والا شخص ہے۔ وہ معاشرے کی خود غرضی اور بے حسی پر کڑھتا بھی ہے اور منافقانہ رویوں سے تنگ بھی۔ وہ اپنے عہد کا نباض بھی ہے اور نقاد بھی۔ وہ جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے پر درد انداز میں شاعری کا حصہ بنا کر خود بھی روتا ہے اور دوسروں کو بھی رلاتا ہے۔

وہ ایسانظام حیات چاہتا ہے کہ جہاں ملکی پیداواری وسائل پر سب کا برابر حق ہو تاکہ غریب عوام کے بچے فاقوں سے نہ مریں۔ جمشید ناشاد ایسا با ہمت انسان ہے جس نے تجربات زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دکھ اور غم اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکے ہیں جسے دجالی دو رمیں ایک پل بھی سکوں میسر نہیں۔ اسے غم جاناں سے زیادہ غم وسیب ہے جہاں شب و روز بھوک کا ماتم ہوتا ہے۔ جہاں سچ جھو ٹ اور مکر و فریب کی دھول میں گم ہوا ہے جہاں احسا س ہمدردی، احترام اَدمیت، عدل و انصاف اور قانون کی عملداری نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود وہ اپنے وسیب کو محرومیوں کی دلدل سے نکال کر خوشحال اور پرامن دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اس کے سہل ممتنع کے کچھ اشعار تو میر کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ ان میں وہی سلاست و سادگی، گہرائی اور فنی لطافت و نزاکت نظر آتی ہے اور  سوز و گداز بھی۔ اس نے تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ منظر نگاری اور تمثیل نگاری بھی عمدگی سے کی ہے۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

ساکوں رزق دے رولے رول ڈتے ہن عشق دے رولے نئیں بھاندے

ساڈے تن تے سیپ ئِن زخمیں دے ساکوں سیپ دے چولے نئیں

 

ہن غربت ھ بانہہ بیل ساڈی ساکوں پار اروار دی سدھ کائنی

ساڈے ویہڑے بکھ دا ماتم ہے ساکوں ڈھولے شولے نئیں بھاندے

٭

زنجیر عدل رات ڈینہہ ہلا ہلا کے تھک پیاں

میں اپنے غم دی داستاں سنا سنا کے تھک پیاں

 

اے دوستومیں بے کسی دی لاش سرتے چئی وداں

کوئی تاں میڈا ساتھ ڈیوچلا چلا کے تھک پیاں

٭

مونجھ تیڈی ہے میڈے نال پچھاویں وانگوں

اے مصیبت وی میڈے گل ہے گلانویں وانگوں

 

ڈکھ وی آندا ہے تاں آنداہے اندھاری وانگوں

ہنج وی ڈھاندی ہے تاں ڈھاندی اے ننانویں وانگوں

 

بھل گئیں ایویں سجن ناشاد کوں

بھل گئے ساون جیویں دامان کوں

 

میں وی ڈکھیاہاں توں وی ڈکھیا ہیں

دھرتی تھی گئی ہے نام ڈکھیں دے

ناشاد میکوں روزی دے غم رول ڈتا ہے

ہُن خواب نہ او خواب نگر یاد ہے میکوں

٭

کون ڈیندے تیڈے وسیب ئِ چ اساں فقیریں کوں  اِتلا پانی

ساڈے روون دے نال میلے کچیلے کپڑے دھویج ویندن

 

توچلائی رکھ سبیل ہنجوں دی

بہوں وڈاے ثواب پانی دا

 

ہجر پانی وصال پانی ہے

میڈی اکھ دا کمال پانی ہے

 

میں ہاں تسے دمان  دا  واسی

میڈے لب تے  سوال  پانی ہے

 

میں ناتواں ہاں میڈا خدایا ایمان بخشیں، امان بخشیں

دجالی دور ئِ سکون کائنی گلی گلی وچ دجال نچدن

٭

ہن کوڑ ای کوڑ ا ئِ ہر پاسے ہن کوڑ دی دھوڑ ئِ  ہر پاسے

سچ کوڑ دی دھوڑ ئِ چ گم تھی گئے آکوڑ دی ڈیکھ دھمال اڑی

٭

ناشاد کوں پتے کیا تھی گئے ناشاد تاں کھلنا ہسناں ہا

ناشاد ہن سنجنڑیندا نئیں ناشاد تاں ھِ بے حال اڑی

٭

نادان سمجھ نئیں سگیے مجبور پیو دے درد کوں

ہنجو وی شر کیتی رکھیے بالیں وی شر کیتی رکھیے

٭

ناشاد ساڈی زندگی وی خشک پتریں وانگ ہے

خشک پتریں کوں ہواوی دربدر کیتی رکھیے

اس طرح جمشید ناشاد کی نظم ’’دھاں،  (فریاد)سرائیکی وسیب کی بدحالی، پسماندگی کو بڑی درد انگیزی سے ظاہر کرتی ہے جہاں انسان اور جانور اکٹھے ہی نہیں رہتے بلکہ بھوک اور پیاس ان کا مقدر بھی ہے :

جھوک اساڈی

اووی بر وچ

ہکو کوٹھا

او وی کچا

بال وی اندروں

مال وی اندروں

اساں بکھے

بال وی بکھے

مال اساڈا

او وی بکھا

گاجاں گجدن، کھمنیں کھمدین

کوٹھا ترمدے، پلکاں ترمدین

جمشید ناشاد ایسی پرہول زندگی میں بھی خوف زدہ نہیں بلکہ حوصلہ مندی سے عوام کو بیدار کر کے نئے انداز سے جینے کا احساس دلاتا ہے۔ بند دیکھیے   ؎

جے زندہ ہیں ڈے ساتھ میڈا میڈے سازرلے آساز رلا

ایں ظلم دی اندھی نگری وچ کوئی اپنا محرم راز رلا

 

کھمب کھتھڑے ہن تاں ہوون پئے شہباز رلے پروازرلا

حق دار ہیویں حق منگ اپنا توڑے علم نہ چا آواز رلا

 

اونداپکڑ گریباں آکھ اوکوں تائیں آکھیا ہا انصاف تھیسی

ونج پھٹ ڈکھلا اوں منصف کوں جیں آکھیاہا انصاف تھیسی

(نظم جاگ)

٭

اساں تاں پتھر ہیں ساری عمرہ ستم دے سینے تیں ڈلدے راہسوں

وفادے ساوے کچوچ ون ہیں کریہہ دی رت ئِ چ پھلدے راہسوں

 

توڑے جو راہ ئِ  لٹیج ویسوں سچائی دے راہ تے نکلدے راہسوں

اساں اندھاری ہوادے وچ وی انا کندھلی تے بلدے راہسوں

 

ایں رات کالی کوں آکھ ڈیوو اساں دھمی دھماکے ٹرسوں

اساں مکدی مکا کے آئے ہیں اساں تاں مکدی مکا کے ٹرسوں

(نظم سچائی )

مختصر جمشید ناشاد کی نظمیں ولولوں کو گرماتی ہی نہیں بلکہ ظلم و جبر کے خلاف یکجہتی کا احساس بھی دلاتی ہیں اور مصمم عزائم کا پتہ بھی۔

٭٭٭

 

 

 

جدید غزل گو شاعر -شاہد ماکلی

 

شاہد ماکلی جدید طرز اظہار کے نوجوان شاعر ہیں۔ ان کی غزل دوسرے جدید غزل گو شعراء سے اپنے آہنگ اور لب و لہجے کے اعتبار سے منفرد ہی نہیں بلکہ امتیاز کی حامل بھی ہے۔ وہ 31اگست 1979ء کو مکول کلاں تونسہ شریف میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میٹرک تونسہ ہائی سکول سے کیا۔ بی۔ ایس۔ سی انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے کی۔ سرکاری ملازمت کے بجائے کاروبار کو ترجیح دی۔ 1995ء سے شاعر ی کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ موج‘‘ کے نام سے 2000ء میں آیا تھا، اب دوسرا شعری مجموعہ ’’تناظر، کے نام سے 2014ء میں شائع ہو کر ادبی حلقوں میں قبولیت پا چکا ہے کیونکہ احمد ندیم قاسمی، ظفر اقبال، خالد احمد، نجیب احمد، قمر رضا شہزاد، سعود عثمانی اور اعجاز کنور راجہ کے گراں قدر تاثرات نے ان کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے۔ وہ اردو، سرائیکی کتابی سلسلہ آعصار کے مدیر بھی ہیں جو ان کی مدیرانہ صلاحیتوں کا غماز ہے جس میں نامور اہل قلم کی تخلیقات شامل ہوتی ہیں۔

تناظر کے مطالعے سے جو میں نے اخذ کیا ہے کہ شاہد ماکلی مثالیت پسند ہیں۔ انہوں نے حیات و کائنات اور  خدا کو اسی فلسفہ کی عینک سے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر روح مادے سے ہے یا مادہ روح سے، یہ حقیقت ہے کہ جب روح اساطیر سے ہوتی ہوئی مذاہب عالم میں اثر پذیر ہوئی تو سب سے پہلے فلاطینوس نے کہا تھا کہ روح اپنے اصل سے جدا ہو کرسرگرداں و حیران رہتی ہے اور محبوب حقیقی کے ہجر میں نالہ و فریاد کرتی رہتی ہے۔ بعد میں صوفیا ء بھی روح کو کل کا حصہ سمجھتے آئے ہیں۔ شعراء نے بھی تمثیلوں، تشبیہات واستعاروں سے اس فکر کو عام کیا اور کرتے آ رہے ہیں۔ شاہد ماکلی بھی احدیت کے بجائے وحدانیت کے قائل ہیں جس میں دوئی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ برگساں کی طرح شاہد ماکلی بھی ماورائی سچائی تک پہنچنے کے لیے عقل و دانش کے بجائے وجدان پر زور دیتے ہیں جو حواس کے تابع نہیں ہے کیونکہ مادہ پرست دور میں انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے افسانے کوئی نہیں سنتا اس لیے ان کا ماضی، حال اور مستقبل خونچکاں ہے۔ وہ ازل سے آہ کی صورت سفر میں ہیں اور بچھڑی ہوئی روح کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیقرار ہی نہیں بلکہ سوزِدروں سے پگھل رہے ہیں اور چہار سو  زرگل کی طرح بکھرنے کا احساس بھی ہے لیکن ’’اپیکورس، نے کہا تھا کہ روح مادی ہے کیونکہ غم اور خوشی اس کے بغیر محسوس نہیں کیے جا سکتے لیکن یہ طے ہے کہ شاہد ماکلی نے اپولی یزگیام کی طرح چونکا دینے والی شاعری کی ہے ان کا ہر اک شعر ان کے بے ساختہ احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

کھلتے نہ زندگی کے مقطعات

ہوتا نہ تیرا عشق معلم اگر میرا

٭

رکھا ہے سلسلہ تو اک ذات سے میں نے

چُنی  ہیں خوشبوئیں کل کائنات سے میں نے

٭

کئی فضائیں تھیں ان کی رسائی سے باہر

میں انحصار کہاں تک حواس پر کرتا

٭

اور اب یہ کام بدن سے میں لینے والا ہوں

کہ روح میں کوئی دن اعتکاف ہے میرا

 

نادیدہ رنگ و بو سے نہیں رغبت آج کی

رشتہ قدیم ہے گلِ نایاب سے میرا

 

میں اپنی لاٹھی سے پتے تو جھاڑ سکتاہوں

میں اس سے پانی میں رستہ بنا نہیں سکتا

 

مجھے تو لگتا ہے چکھ لی ہے روشنی میں نے

کوئی چمکتا ہوا ذائقہ زبان پر ہے

٭

دھوپ میری زندگی سایہ میری موت ہے

رات کو پژمردہ ہوں دن میں تر و تازہ ہوں

٭

پنپ رہے ہیں بیک وقت مجھ میں دوموسم

جو ایک زرد ہے ان میں تو ایک ہرا بھی ہے

٭

اک لڑی میں پرونے ہیں شاہد

اپنے اشک اور اپنے خواب مجھے

٭

بن دیکھے ہی مانتے ہیں تجھ کو

ایمان ہے غیب پر ہمارا

٭

بیان خود کو کروں بے خودی کے پردے میں

کسی کی بات کروں میں کسی کے پردے میں

 

وہ کوئی اور نہیں تھا میں آپ تھ شاید

جو ہم کلام تھا مجھ سے دوئی کے پردے میں

مختصر معروف ادیب، نقاد، شاعر ظہیر غازی پوری کے بقول ’’ غزل کی تہذیب، غزل کے کلچر، غزل کی ایمائیت اور غزل کے مزاج کو سمجھے بغیر جدید غزل گو شعراء سرکس کے مسخروں کی طرح ہیں،۔

شاہد ماکلی بے پنا ہ تخلیق صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ امید ہے کہ غزل کہتے وقت سب باتیں سامنے رکھیں گے۔ آخر میں ان کا یہ شعر ان کی نذر کرتا ہوں   ؎

میں اپنی تختی بھی خوش خط نہ لکھ سکا شاید

کہ ٹھیک سے نہ لگا تھا قلم کو قط میرے

٭٭٭

 

 

 

 

جدید لب و لہجے کا شاعر -طارق محسن قیصرانی

 

یہ حقیقت ہے کہ جدید غزل گو شعرا ء پر اعتراضات کی یلغار بھی ہوئی لیکن قدیم و جدید کی آمیزش سے معروضی حالات کے تناظر میں ایک ایسا نیا لہجہ سامنے آیا جو نئی غزل کی نہ صرف پہچان بنا بلکہ یار لوگوں نے اس سے متاثر ہو کر شاعری شروع کر دی۔ اس کے سرائیکی ادب پر بھی گہرے اثرات ہوئے۔ اس وقت سرائیکی کے جدید غزل گو شعرا ء میں ایک نیا منفرد نام طارق محسن قیصرانی کا بھی ہے جس نے اپنی نئی غزل میں معاشرے کے دکھ درد بیان کر کے قاری کا دل موہ لیا۔ جس کے احساسات کی لطافتیں اس کے ہر اک شعر سے نمایاں ہیں۔

جس کا تعلق جھوک بود و تحصیل تونسہ کے قیصرانی قبیلے سے ہے اس نے محنت کو مقصد حیات سمجھ کر1993ء میں بودو ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ 1998ء میں ڈی کام اور بی کام کیا۔ پھر بہأ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے 2000ء میں اسلامیات میں ایم اے کیا۔ روزگار کے لیے تگ و دو کی۔ اگر جذبے سچے ہوں تو قسمت کی دیوی مہربان ہوہی جاتی ہے۔ یوں اسے محنت کا صلہ واپڈ ا میں بطور لائین مین کے مل گیا۔ موصوف نے معروف سرائیکی شاعر پرواز قیصرانی کی رہنمائی میں اپنے کومل جذبوں کے ساتھ شاعری کی وادی خاردار میں کیا قدم رکھا، ایک چونکا دینے والا پہلا سرائیکی شعری مجموعہ ’’سمندر سک گیا ہوسی،  دے کر ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ پروفیسر شوکت مغل، اقبال سوکڑی، سرائیکی قوم پرست دانشور، بے باک صحافی ظہور دھریجہ پرواز قیصرانی اور اصغر ساجد لنگڑاہ ایڈووکیٹ کے گراں قدر تاثرات نے موصوف کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے   ؎

میڈا دل حوصلہ کر گئے سمندر سک گیا ہوسی

ہوا دا ہک نپھر جھولا خلاء وچ رک گیاہوسی

اگر موصوف کے اس شعر پر غور کریں تو اس میں شاعر نے حیات و کائنات کو عناصر کے تناظر میں دیکھ کر ان تلخ حقیقتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو سمندر خشک ہونے کے بعد ریت اور ٹیلوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں جو پسماندگی اور محرومی کی علامت تصور ہوتی ہیں۔ طارق محسن قیصرانی بالغ نظر شاعر ہی نہیں بلکہ کثیر المطالعہ شخص بھی ہے جس کے سامنے یونانی دیومالائی پرومیتھوس کا لافانی کردار بھی ہے جس نے زیوس دیوتا کی مرضی کے خلاف انسان کو آگ کا راز بتا دیا تھا۔ جس کی پادا ش میں دیوتا نے اسے اذیت ناک سزا دی تھی۔ آگ جو روشنی ہی نہیں بلکہ زندگی کی علامت بھی ہے مگر استعماری قوتوں نے اپنے مفادات کے لیے اس کا غلط استعمال کر کے غریب طبقے کو مسائل کی آگ میں نہ صرف جھونک دیا ہے بلکہ ہر طرف شعلے ہی شعلے دکھائی دیتے ہیں۔ شاعر نے شعور کی آنکھ سے اپنے وسیب کے مسائل کو یوں شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔ چند شعر دیکھیے   ؎

یاخدا تیکوں خدائی دا واسطہ ہک مینہ وسا

ریت تے سڑدے ایانیں دا صبر اتنا وی نئیں

 

غضب دی تس کریہہ بے پتر پیریں

میکوں شک ہے دمان اچ آ گیا ہاں

 

کے تانیں اجاں دیہہ دی غذا تھیونا پوسی

کے تائیں جٹیاں ڈین کیتے روٹیاں پکیسن

 

مسجدیں وچ بم دھماکے، روڈ تے خود کش دا ڈر

صاحب جی فرماؤ بیا کیا کارروائی کیتی ونجے

 

اساں محسن پھل ہئیں قبریں دے اساں زینت ہیں غستانیں دی

اساں زندگی موت دی آدھل وچ بے سود قطاریے لوک ہسے

٭

محسن ازل توں راہ اتیں ہک ایجھاں دیہہ کھڑے

ہٹدا وی نئیں پیا جیہڑا مردا وی نئیں پیا

طارق محسن کی غزلیں، نظمیں اور دوہے اپنے عہد کا نوحہ ہیں۔ وہ جابرانہ، ظالمانہ نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ وہ زندگی کی رعنائیوں کو واپس لانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ خوف وہراس کے اس بھیانک دور میں مایوس نہیں ہے بلکہ پر امید ہو کر نئی صبح کی بات کرتا ہے   ؎

مایوس نہ تھی گردش حالات کن محسن

ہک رات ہے ہک رات بھلا اتنی تاں کائنی

 

فقیر شحص ہاں جنگل کوں شہر کرڈیساں

جے شہر شور مچاوے تاں میکوں یادکریں

طارق محسن کی فکر میں بالیدگی بھی ہے اور مشاہد ہ ذات عمیق بھی۔ اس نے تشبیہات و استعارات، تلمیحات و محاورات کا استعمال بھی کیا ہے۔ عشقیہ مضامین کو نئے اندازسے لفظوں کا جامہ بھی پہنایا ہے۔ منصور کا پیرو بن کر اپنی روح کی تازگی کاساماں بھی کیا ہے۔ دیگر شعراء کی طرح دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بھی کیا ہے۔ ا س حوالے سے چند شعر دیکھیے   ؎

جنگل ہے نہ کوئی کھو نہ بھراویں دا الاہے

ہک پاڑیا ہواچولا رنگیند اں وداں اج وی

٭

تیڈیں یادیں دا امرت زہر جو گا سانب چھوڑیا ہم

ٹکر دی گول دا کم ظرف کیدو ٹھگ گیا ہوسی

٭

تیڈے کوڑے جہان اچ آ گیا ہاں

منگالی دے مکان اچ آ گیاہاں

٭

زلفیں دے ول کوں حسن دی گاری سمجھ گدے

میں پھس گیا اوں خود کوشکاری سمجھ گدے

٭

میڈے افکار پیروکار ہن منصور  دے محسن

جیندی جوبے گناہی دی گواہی دریاڈتی گیا ہے

٭

حیاتی اوندے عارضدے اشاریں نال ٹردی ہے

او زلفیں کوں نچوڑے ترٹ نہ پووے جھڑدی ہستی ہے

طارق محسن کے ہاں دیگر سرائیکی شعراء کی طرح عیوب قوافی بھی نظر آتے ہیں، مثلاً سفر، بدر، گزر، کے ساتھ صَبر، جَبر، کوسرائیکی لہجے کے ساتھ صَبَر، جَبَر باندھا ہے، امید ہے آئندہ متحرک اور ساکن الفاظ کا خیال رکھا جائے گا۔

آخر میں میرا طارق محسن کو یہی مشورہ ہے کہ وہ نئی غزل کے سفر پر نکلا ہے اگر اسے منزل سے ہمکنار ہونا ہے تو اسے برصغیر پاک و ہند کے معروف نقاد شمس الرحمن فاروقی کے اس قول کو مد نظر رکھنا ہو گا ’’قدیم کو جانے بغیر جدید پنپ نہیں سکتا، قدیم سے انحراف کرنے اور جدید کو قائم کرنے کے لیے بھی قدیم کو جاننا ضروری ہے، ورنہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ ہمیں کس بات سے انحراف کرنا ہے اور کس حد تک انحراف کرنا ہے۔ عدم صورت میں گردِ  سفر میں سب کچھ گم ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

خوش فکر شاعر – جلیل حیدر لاشاری

 

یہ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ آج کا ترقی یافتہ انسان چاند ستاروں کو تو تسخیر کر رہا ہے محیر العقول ایجادات سے بنی نوع انسان کے لیے راحت کے سامان بھی کر رہا ہے لیکن اسے اب تک زمین پر رہنے کا قرینہ نہیں آیا۔ وہ انسانی روپ میں درندہ بن کر کمزوروں کا نہ صرف خون پی رہا ہے بلکہ قدرتی اور پیداواری وسائل پر قابض بھی آ رہا ہے۔

جلیل حیدر خوش فکر نوجوان شاعر ہے ا س کا مشاہد و مطالعہ، ذات و کائنات عمیق ہے۔ وہ ازل سے انسانیت کی دشمن قوتوں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور مذہبی اجارہ داروں کے طلسمی حصار میں اس لیے نہیں آیا کہ وہ سائنسی تعلیم سے حقیقتوں کا ادراک رکھتا ہے۔

جلیل حیدر نے غلام محمد لاشاری کے گھر 24 اکتوبر 1967ء کو تونسہ شریف میں پہلا سانس لیا۔ ابتدائی تعلیم جام پور، راجن پور، اور کوٹ مٹھن سے حاصل کی، میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول تونسہ سے کیا اور ایف۔ ایس۔ سی گورنمنٹ کالج ملتان سے کی۔ اس کے بعد انجینئر نگ کی ڈگری یونیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے لی۔ پھر ایم۔ بی۔ اے ورچوئل یونیورسٹی اسلام آباد سے کیا۔ وہ غزل کے علاوہ نظم بھی کہتے ہیں۔ لیکن میری نظر سے موصوف کے افسانے اور تنقیدی مضامین نہیں گزرے البتہ رشید قیصرانی، شخصیت و فن جیسی کتاب قارئین ادب کو دے کر دادِ تحسین لے چکا ہے۔

آ ج کل بین الاقوامی سطح پر اردو نظموں کا انتخاب ترتیب دینے میں مصروف ہے جسے عالمی رنگ ادب کراچی جیسے ادارے کی معاونت حاصل ہے۔ جس کے نگران معروف شاعر و ادیب شاعر علی شاعر ہیں۔

جلیل حیدر معاشرے کا حساس فرد ہی نہیں بلکہ نباض بھی ہے اور نقاد بھی۔ وہ ایسے ظالمانہ نظام زندگی سے باغی ہے جس سے طبقاتیت کو مزید تقویت ملے، یعنی امیر امیر تر اور غریب غریب تر تو پھر ایسی طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی بھیانک صورت حال سے افراد معاشرہ دوچار کیوں نہ ہوں اس کی بھیانک شکل وطن عزیز میں دیکھی جا سکتی ہے کہ جہاں بھوک افلاس، پیاس کے علاوہ بم دھماکے، فرقہ وارانہ قتل و غارت، دہشت گردی، مہنگائی، بیروزگاری، خوف و ہراس کے ماحول میں سانس لینا قیامت سے کم نہیں۔

جلیل حیدر کھری فکر کا شاعر ہے اس کا دامن تعصب اور تنگ نظری سے پا ک ہے۔ جلیل حیدر کی شاعری میں جذبے کی صداقت اور فکر کی گہرائی نظر آتی ہے۔ وہ افراد معاشرہ کے منافقانہ رویوں اور جھوٹ اور ریاکاری پر دکھ کا اظہار کرتا ہے کیوں کہ یہ کسی بھی معاشرے کی ذلت کی علامتیں ہیں۔ اس حوالے سے مجھے شورش کاشمیری کی کتاب ’’ ا س بازار میں‘‘ یاد آ رہی ہے کہ جہاں بازار حسن میں رات بھر رقص و سرود کی محفلیں سجتی تھیں، شراب و شباب و کباب کے ساماں ہوتے تھے۔ صبح ہوتے ہی شاہی مسجدمیں داخل ہو کر ذکر خدا میں مشغول ہو جاتے تھے۔ ان کو ایسا زوال آیا کہ مغلیہ سلطنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ جلیل حیدر نے بھی اپنے معاشرے کے نام نہاد پارساؤں اور شریف زادوں جن کا تعلق اشرافیہ طبقہ سے ہے کے چہرے بے نقاب کیے ہیں۔ جو رات بھر تو تعیش میں گزارتے ہیں اور  دن کو صاحب ایمان کہلوانے پر ناز کرتے ہیں۔

جلیل حیدر نے اشارے کنائے میں تاریخی حقیقت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ مثال کے طور پر ازل سے دیوتاؤں اور خداؤں کی خاطر کمزور انسانوں کو قربان کیا جاتا تھا۔ یہ روایت اب بھی موجود ہے لیکن اس کی شکلیں اور صورتیں بدل گئی ہیں جب تک جہالت کا وجود قائم ہے اس وقت تک سادہ لوح انسان قربانی کا بکرا بنتے رہیں گے۔

جلیل حیدر بالغ نظر شاعر ہے۔ اسے اس بات کا دکھ ہے کہ مذہبی اجارہ داروں نے جن کا دین الٰہی اور پیغمبرؐ انقلاب سے کوئی واسطہ نہیں اگر ہوتا تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر سماج کے لیے لازوال کردار ادا کرتے۔ انہوں نے تو اپنے مفادات کے کشکول بھرنے کے لیے عالم اسلام کو فرقوں میں تقسیم کر دیا اور وحدت کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ اب ان کے شر سے معبد محفوظ ہیں نہ بندگان خدا۔ اس تناظر میں رواداری، ہمدردی کے جذبے پروان کیسے چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن شاعر کے جینے کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہے۔

جلیل حیدر کا اسلوب سادہ مگر فکر انگیز اور پر درد ہے۔ اب شاعر موصوف کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

ایک بارود کی جیکٹ اور نعرہ تکبیر

راستہ خلد کا آسان ہوا پھرتا ہے

 

ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے

اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے

 

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے

صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

 

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

 

ظلم سہتے ہیں خموشی سے مسلسل ہم لوگ

اپنی راہوں کو بنا دیتے ہیں دلدل ہم لوگ

 

شہر کا شہر دھماکوں سے لرزتا ہی رہا

بیٹھ کے گھر میں بدلتے رہے چینل ہم لوگ

 

کیا دکھاتی ہے کرشمے یہ شکم کی آتش

جس کا دشمن ہوں اسی کا میں وفادار بھی ہوں

 

بھینٹ چڑھتے رہے ہر دور میں انساں کتنے

فردِ واحد کی فقط جھوٹی انا کی خاطر

 

ڈر جہنم کا نہ جنت کی ہوس ہے مجھ کو

سرجھکایا ہے فقط تیری رضا کی خاطر

 

بند کر بیٹھے ہو گھر رد بلا کی خاطر

ایک کھڑکی تو کھلی رکھتے ہو اکی خاطر

 

دلِ احباب میں کھلتا ہوں گل کی صورت

غیر کے سینے میں چبھتا ہوا اک خار بھی ہوں

 

میں بھی عجب ہوں شخص کہ گھر بھی میرا لٹے

اور میں ہی احتجاج میں اپنا جلاؤں گھر

 

سب اپنی اپنی شاخ پہ بیٹھے ہیں شادماں

گرنے کو ہے درخت کسی کو خبر نہیں

 

سبھی لگے ہو جو پیوند کرنے شاخوں کو

کسی نے دیکھا ہے دیمک زدہ جڑوں کو بھی

٭٭٭

 

سِک سفریں تے اور ریاض فاروق

 

سرائیکی وسیب بنیادی طور پر پسماندگی کی علامت رہا ہے جس کا بنیادی سبب علاقائی وڈیرے ہیں جو صدیوں سے غریب عوام کا خون چوستے آ رہے ہیں۔ عوا م غربت اور جہالت سے پیدا ہونے والے مسائل کی خندق میں کراہتے نظر آتے ہیں۔ ریاض فاروق نے بھی اسی عذاب بھرے ماحول میں 1963ء کو بستی بزدار تونسہ شریف میں آنکھ کھولی، انہوں نے محرومیوں اور پریشانیوں کے حصار میں رہ کر ہمت نہ ہاری اور اپنی تعلیم جاری رکھی اردو میں ایم۔ اے کیا۔ آج کل درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ریاض فاروق صاحبِ مطالعہ شخص ہیں۔ ان کی اردو اور سرائیکی ادب پر گہری نظر ہے موصوف نے اردو کے بجائے سرائیکی کو اظہار کا وسیلہ بنایا اور اپنے بے ساختہ جذبات و احساسات کو شعری روپ دے کر سرائیکی وسیب کی محرومیوں کی بات کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری سے وسیب سے محبت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ ان کے اس وقت تین شعری مجموعے ’’نین نظر دن نیلے ‘‘ڈکھ تعبیراں اور مونجھے منظر،  ادبی اور عوامی حلقوں میں خاص پہچان کے حامل ہیں۔

’’سک سفریں تے،  ان کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جس کا نتساب سرائیکی زبان و ادب کے معروف محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر شوکت مغل اور اپنے مرشد ڈاکٹر منیر اقبال ملغانی کے نام کیا ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصرانی، عاشق بزدار اور عزیز شاہد جیسے سرائیکی کے نامور شعراء کی گراں قدر آراء بھی شامل ہیں جو ریاض فاروق کی شاعری کے حوالے سے سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن شفقت بزدار کے گراں قدر تاثرات نہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔

ریاض فاروق ایک ایسے شاعر ہیں جو اپنے دل میں مسافرت کی تمنا رکھتے ہیں۔ ویسے زندگی بھی مسافرت سے عبارت ہے، اس لیے شاعر نے چوتھے مجموعے کا نام اسی تناظر میں تجویز کیا ہے جس سے ان کے عزم و حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے اور حصول منزل کی سعی پیہم بھی۔ ریاض فاروق کی شاعری میں روایتی رنگ بھی نظر آیا ہے اور غم و الم کی وہ کیفیت بھی جو دل کے تاروں کو چھیڑتی ہی نہیں بلکہ داخلی زندگی کی غماز بھی ہے۔ اردو ادب کے نامور محقق، نقاد، مترجم اور شاعر فراق گورکھ پوری نے کہا تھا کہ غم عموماًکسی ذاتی سانحہ سے شروع ہوتا ہے اور اگر کسی کو صحیح معنوں میں توفیق غم ہو تو وہی غم حیات و کائنات کی معنویت کو سمجھنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اور اس میں آفاقیت آ جاتی ہے۔ اس لیے ریاض فاروق کا غم بھی کبھی ’’مونجھ‘‘ اور ’’ہنجھ‘‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے اور قاری کو رلا دیتا ہے۔ موصوف حساس انسان ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے وسیب کے مکینوں کی بے بسی و بے کسی کی تصویریں اس انداز سے دکھائی ہیں کہ کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ وہ عالمی تناظر میں معاشی عدم مساوات سے پیدا ہونے والی قیامت خیز صورت حال سے بھی با خبر ہیں اور اس کا اظہار اپنی شاعری میں پر درد انداز میں کیا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں سوزو گداز ہے، اس کے دل میں انسان سے محبت کے جذبے محسوس کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ان کا غم ذاتی کے بجائے کائناتی بن جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں قنوطیت نہیں بلکہ رجائیت نمایاں ہے۔ ریاض فاروق ایک اچھے شاعر ہیں لیکن ان کو منضبط شعر کہنے کے لیے مزید ریاضت کی ضرورت ہے تاکہ فنی لطافتوں، نزاکتوں کے ساتھ الفاظ کے تلفظ کو سمجھا اور صحیح برتا جا سکے، مثال کے طور پر موصوف نے اپنی ایک غزل میں میں قوافی اَلَم، جَنَم  کے ساتھ زَخم  کو سرائیکی قاعدے کے ساتھ زَخَم باندھا ہے جو کہ عیب ہے مجھے تو اکثر سرائیکی شعراء کے کلام میں عیوب قوافی نظر آئے ہیں جو شاعری کے فطری حسن کو بگاڑ تے ہیں۔

سرائیکی کے روشن فکر دانشور اور نقاد اسلم رسول پوری نے بھی اپنی کتاب ’’تلاوڑے ‘‘ میں اس حوالے سے خاصی بحث کی ہے مجھے امید ہے کہ ریاض فاروق میرے مشورے کا احترام کریں گے۔ اب ان کے منتخب اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

پلکاں پیلوں پیریں چھالے پتھریں پانداڑایا ہے

چکریں وات حیاتی ساڈی کیا جیون دی چس ئِ

ساہ دی ستری صفیل ترٹ پئی ئِ

مونجھ نیناں دے نال پھٹ پئی ئِ

 

میں ڈتی مونجھ فاروق مونجھاں ملین

اشک آہیں میڈیاں ساہ سہارے ڈتن

٭

قدم قدم تے صلیب ساہ دی ہنڈھاونی ہے

اکھیں کوں ساون ہے لگدا ایویں ہے ساونی ہے

٭

بدن دی خوشبو خزاں دے موسم خواب مونجھاں

روح دی روہی تے رو ویندیاں ہن عذاب مونجھاں

٭

تیڈے مربعے محل، منارے میراث تیڈی

ساڈا مقدر اساڈی دولت جناب مونجھاں

٭

اساں ہک مونجھ رستے دی رُلی ہوئی کونج رستے دی

ساڈے ہن بت بھنور جوگی تے ساہ ہن مارکیاملسا

٭

بدن تے بار سردا ہے تے روح تے راج وحشت دا

اے راتیں ہن تاں روہ لگدین ڈیہاڑے جرم لگدے ہن

 

ہر شخص دے چہرے تے ہے چمبڑی ہوئی وحشت

روندے ہوئے نیناں دے زخم چاکے ٹروں ہا

دھرتی کوں دھنوا چھوڑے کہیں درددی نئیں وچ

حسرت ہے خوشی دا کوئی جنم چاکے ٹروں ہا

 

تھی گن جیکر خواب خزائیں دی نذر کیا

گھل پئین گھٹائیں تاں پریشاں نہ تھی

 

روندے ہوئے نیناں اندر کہیں دیاں نشانیاں رہ گیاں

ڈوچار خط خوشبو بھریے اوندی ادا پیتیںدے پل

 

سفر پیریں دا پورھیا گھن گیا ہے

اڈو منزل کوں چھالے کھا گئے ہن

٭٭٭

 

 

 

ہنج دے حاشے دا شاعر -شریف پردیسی

 

ہم عصر سرائیکی نوجوان شعراء میں شریف پردیسی اپنے لب  و لہجہ کی وجہ سے الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہ اس کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرنے والوں میں اقبال سوکڑی، سرور کربلائی، مصطفی خادم، بشیر غمخوار، پرواز قیصرانی، ملک ساجد اصغر ایڈووکیٹ، ملیحہ نصیر اور عالیہ نور ہیں۔ انتساب اپنی شریک حیات کے نام کیا ہے جو اسے زندگی کے سفر میں تنہا چھوڑ گئی تھی۔

اس لیے ان کی نظم ’’ ہک اجڑے گھر داکمرہ ہاں ‘‘ میں بے ساختہ جذبات واحساسات کا پُر درد اظہار بھی ملتا ہے اور اسے اپنے گھر کی ہر شے پر آج بھی اداسی کی کیفیت طاری نظر آتی ہے۔ چند شعر دیکھیے   ؎

او سیج سدا کر لاندی ہے

بہوں مونجھی ہے، بہوں ماندی ہے

ہک سہرا ہے ہک گانا ہے

ہر غم دا خاص نشانہ ہے

 

کجھ برتن پئین سفیلیں تے

سُنویندن کوکاں میلیں تے

 

میں اجڑے گھر دا کمرہ ہاں

میں کہیں بے ور دا کمرہ ہاں

شریف پردیسی غم ذات کے ساتھ ساتھ کائنات کے دکھ، آلام اور مسائل سے بھی باخبر ہیں۔ وہ اپنی ایک نظم ’’دھی،  بیٹی مزدوری،  میں شرم و حیا کی نہ صرف تعریف کرتے ہیں بلکہ جہیز جیسی معاشرتی لعنت پر طنز کے تیر بھی برساتے ہیں کہ ایک مزدور بیٹی کے ہاتھ پیلے کیسے کرے اس کے پاس سوائے اشکوں کے کچھ بھی نہیں۔ جو طبقاتی زندگی کا نتیجہ ہے۔ نظم کے چند شعر دیکھیے   ؎

بہہ گئی ئِ گھردے اندر مجبور دھی مزدور دی

ہے حقیقت خلد دی ہک حور دھی مزدور دی

 

اینکوں بی بی سین دی چادر دا بہوں احساس ہے

ہے مکمل شرم دا منشور دھی مزدور دی

 

ڈے چُکن پردیسی جذبے دم ایندے سینے دے وچ

لاڈٹھی نئیں سیندھ تے سندور دھی مزدور دی

ایک اور نظم خودکشی کو جائز کر میں شاعر خدا سے ہمکلام ہو کر کہتا ہے کہ زہریلے نظام زندگی کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی، ظلم و ستم، بم دھماکے، قتل و غارت، خوف وہراس ہی نہیں بلکہ غریب ومفلس عذاب بھری زندگی سے تنگ بھی ہیں جن کے بچے بھوک پیاس سے بلکتے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں سلگتے ہیں۔ شب و روز تڑپتے ہیں نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔

اس المناک تناظر میں شاعر کہتا ہے کہ اے خدا اپنے غریب بندوں پر رحم کر اور خودکشی کو جائز کر تاکہ وہ سکوں سے مرتوسکیں۔ چند شعر دیکھیے   ؎

کجھ نسے منگدے پر ساڈی ہے التجا زندگیاں ساڈیاں کرڈے ختم کبریا

کوئی سہولت حیاتی دی موجود نئیں اینجھیں جیون توں آندے شرم کبریا

 

ٹھیک ہے اج تقاضا وی ہے علم دا بچے کیویں پڑھاؤں شام فجر دانئیں

جے کراچی دے وچ چھی مہینے رلوں گھردے وچ جڈاں آؤں شام فجر دا نئیں

کیویں پریشان پردیسی مزدور ہ میڈا مالک کوئی تاں خوشی جائز کر

یا سِرو جی چھٹے اینجھیں جیون کنوں تیڈی منت ہوسی خودکشی جائز کر

اس کے علاوہ شریف پردیسی عظمت کربلا کا معترف ہی نہیں بلکہ اس بات کا ادراک بھی رکھتا ہے کہ اسلام کی سربلندی اور ارفع اخلاقی اقدار کی ضامن کربلاہے   ؎

تہوں پردیسی دنیا وچ  بلنداسلام دا ناں ہے

بقاء اسلام دی ضامن شہادت کربلادی ہے

شریف پردیسی غزل بھی کہتا ہے۔ اس میں نہ تو تفکر ہے اور نہ حکیمانہ باتیں البتہ روایتی مضامین نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہی ناصر کاظمی کی طرح مونجھ (اداسی )ہجر کا کرب اور میرؔ کی طرح رونا دھونا اور لب ورخسار کی باتیں ملتی ہیں۔

اس کی غزل میں سوزِدروں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اس کا ہر شعر غمِ جاناں سے چور چور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ا س کے جذبہ عشق میں بازاری پن نہیں بلکہ احساس کی صداقت اور شائستگی ہے۔ اس کا انداز بیان سادہ مگر پُر درد ہے۔ اس حوالے سے چند شعر دیکھیے   ؎

تساں دید بھالو مہر دی وے ماہی

میڈے نین رو رو نسائے تھیندے ویندن

٭

رخسار دی رونق ہے ہک خال سبحان اللہ

اوندے ہونٹ حقیقت ہے ہن پتیاں گلاب دیاں

٭

جڈاں پیار وچ کہیں کوں مصروف ڈہداں

میکوں اپنے مونجھیں دے من یاد آندن

٭

کر کر ویس جھیاروں روندے

کوئی پردیسی پاروں روندے

٭

ہنج دے روپ اچ ہمیش جاری ہے

اکھ کنوں ہک قطار مونجھیں دی

٭٭٭

 

 

 

 

سماجی کارکن اور شاعر -پروفیسر محمد خان ملغانی

 

تاریخ انسانی شاہد ہے کہ اقوام عالم میں ایسے عظیم انسان بھی گزرے ہیں جنہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات جانا۔ موجودہ دور میں بھی دنیا میں اس حوالے سے لاتعداد تنظیمیں کا م کر رہی ہیں۔ تونسہ جیسے علمی و ادبی، ثقافتی، تہذیبی شہر میں ایسا مرد درویش اور انسان دوست بھی رہتا ہے جو بے وسیلہ لوگوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر شب و روز سرگرم عمل رہتا ہے۔ انہیں میں تونسہ کا عبدالستار ایدھی کہتا ہوں۔ وہ ہے پروفیسر محمد خاں ملغانی۔ جو 12دسمبر 1951ء کو بستی سوکڑ میں لکھی محمد خان کے گھر پیدا ہوئے۔ 1973ء میں ایم۔ اے سوشیالوجی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا، پھر بطور لیکچرر مختلف کالجوں میں اپنے فرائض دیانتدار ی سے ادا کرتے رہے۔ بطور پرنسپل ڈگری کالج تونسہ طلباء کو علم و ادب کی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت بھی کرتے رہے اور ان کے دلوں میں دکھی انسانیت کی خدمت کا احساس بھی اجاگر کرتے رہے۔

11دسمبر 2011ء کو ریٹائزمنٹ لے کر سماجی فلاح و بہبود کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ اس لیے وہ انجمن فلاح مریضاں کے بانی رکن ہیں جس کے تحت مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ایک سال میں دو مرتبہ فری آئی کیمپ لگاتے ہیں۔ ایک ویلفیئر ہسپتال بھی بنوا رہے ہیں۔ اہل تونسہ کا سماجی شعور اتنا بیدار ہے کہ وہ بڑھ چڑ ھ کر اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک شاعر اور  ادیب ہونے کے ناتے بڑے بڑے مشاعروں کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ تونسہ کا ثقافتی، تہذیبی، ادبی، سیاسی اور سماجی پس منظر کے حوالے سے کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔ وہ روشن فکر شاعر ہیں، وہ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہیں کہ جہاں بھوک، افلاس اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سانس لینا عذاب لگتا ہے۔ وہ اپنے وسیب کی پسماندگی پر خون کے آنسوروتے ہیں۔ وہ عوام کے فکر و شعور کو بیدار کر کے پرامن انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا نظام حیات چاہتے ہیں کہ جہاں ہر انسان پیداواری وسائل سے یکساں مستفید ہو تاکہ گھر گھر خوشیوں کے پھول کھلیں خود غرضی اور نفرت کے ماحول میں محبت و پیار اور ہمدردی کے جذبوں کو فروغ ملے۔ اس کے علاوہ مغربی تہذیب کی یلغار میں اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کا احساس اجاگر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

اجاں رات بہوں ہے باقی گال اگوں تے ٹور

وستی وستی لٹ پئے گئی اے حال اگوں تے ٹور

 

رتڑا جوڑا پاکے گل اچ رج کے جھمراں لاووں

سنگ سہیلیں مہندی سجدی تھال اگوں تے ٹور

 

ساونط ول آئے سانول ول آ جھوک تے پینگھ رساؤں

دھرتی توں سخت کریہہ دے کال اگوں تے ٹور

٭

کتھائیں نہیں قسمت دا لکھیا ایویں جو ساری عمرا عذاب ڈیکھوں

خوش وسن دانہ حیلہ کروں نہ سکھیے ہوون دا خواب ڈیکھوں

 

اساڈی خاطر ہے بکھ بیماری اساڈ ا جیون ہے بھوگ بھوگن

اے کینجھی ونڈ اے اے کیجھے حصن اٹھو ہاں جل کے حساب ڈیکھوں

 

سجیلی رت دی ہے حیل گھلی ون پھپھڑیے تے پکھی گاندن

آہاں راول رنگیلی رت اچ کھلدے کھلدے گلاب ڈیکھوں

٭

سوچ دا ساون روہی تھل اچ ذرا ذرا وسدا پئے

راول رت دا سکھ سنیہا ساڈا دامان ڈیندا پئے

ایک نظم دیکھیے جوان کے بے ساختہ جذبات واحساسات کی آئینہ دار ہے :

پاک پلیت

تیں جھکے اچے

ہک

ظالم دی یاد

مامٹی

ہے

سانجھی سب دی

سارے

آدم زاد

٭٭٭

 

 

 

بیدار مغز شاعر – اعظم لغاری

 

’’ پندھ پتھریں دے،  اعظم لغاری کے پہلے سرائیکی شعری مجموعے کا نام ہی نہیں بلکہ اُس کی زندگی کا غماز بھی ہے۔ اس لیے اس کے چہرے پر بھوک، افلاس اور اداسی نمایاں ہے۔ وہ وہوا کی مشہور بستی نبڈو کا رہنے والا ہے۔ سرائیکی کے نامور شاعر سعداللہ خاں نے اسے سرائیکی وسیب کا احسان دانش اور احد بخش راکب نے درد کا شاہسوار قرار دیا ہے تو وہاں وہوا کی اردو، سرائیکی بزم شہزاد نصیر نے اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں لازوال کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سرائیکی کے معروف شعراء رمضان نادار اور احد بخش راکب سے بے حد متاثر نظر آتا ہے۔

اعظم لغاری بیدار مغز شاعر ہے اور وہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جاگیردار سرمایہ دار اور تھیوکریسی انسانیت کے بد ترین دشمن رہے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے راستے کو ایسا پتھریلا بنا دیا ہے کہ مسافروں کے تلوے بھی لہولہان ہو گئے ہیں۔ اس نے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور مذہبی انحطاط کے تناظر میں زندگی کی داخلی و خارجی خونچکاں صورت حال اور جبرو استبدار کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں انسانی چیخ پکا رکو سن کر ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ وہ مساواتی نظامِ زندگی پر زور دیتا ہے کہ جہاں امن و آشتی، اخوت و محبت، رواداری اور عدل واحسان کے جذبوں کو فروغ ملے اور ہر ایک کو ابدی سچائیوں کا ادراک ہو تاکہ زندگی کے اداس شب و روز خوشی میں بدل جائیں۔

اعظم لغاری اپنے وسیب کے دکھوں کا نوحہ گر ہی نہیں بلکہ تاریخی شعور رکھنے والا سچا اور کھرا شاعر بھی ہے۔ اس لیے وہ بغض و ریا، حسد اور خوشامد سے نفرت کرتا ہے جو بے لوث محبت اور خدمت پر زور دیتا ہے۔ وہ خوددار اتنا ہے کہ دوسروں کے سہارے زندہ رہنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں اور قوت بازو سے کام لینے کا احساس دلاتا ہے۔ اعظم لغاری زندگی کی سفاکیت اور اذیتوں کے زخم کھا کر گھبرایا نہیں بلکہ بلند حوصلگی اور خند ہ پیشانی کا ثبوت دیا ہے۔ اس لیے اس کی شاعری میں رجائیت ہے قنوطیت نہیں۔ اس نے تلمیحات، تشبیہات، استعارات کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔

اعظم لغاری نے اپنی ایک غزل میں قوافی شجر، بدر، سحر کے ساتھ حشر اور قبر کو سرائیکی لہجے کے ساتھ حَشَر’ اور قَبَر’ باندھا ہے جو عیب قوافی ہے۔ اس کے منتخب اشعار نذر قارئین ہیں تاکہ اس کی بالغ نظری کا اندازہ ہوسکے   ؎

آیاد ویندا ہے ولا او دور وت فرعون دا

میکوں اپنڑے شہر وچ کہیں کوں ستیندا ڈ یکھ کیں

٭

رات کوں ڈیوے بجھا کے لوگ سمدے خوف توں

تہوں ہوندا ہے شہر وچ اعظم اندھا را شام توں

٭

نہیں نوایا سر مگر کہیں غیر دی درسال تے

میں تغاری چاکے بھانویں پیٹ کوں پالی رکھیے

٭

تیڈے تن زیب پوشاکاں میڈے چولے دیاں کئی لیراں

میں رلداں جنج دی روٹی لو تیڈاں بے انت جاگیراں

٭

کہیں دے سہارے تے نہ جی کہیں دا نہ انتظار کر

آپ اپنڑیں منزلیں دی ہر مصیبت پار کر

٭

ٹیک کہیں دی کیتلے تائیں لگ کرائیں ٹرسیں ودا

نہ حیاتی کوں خوشامد دے اندر گمگار کر

٭

اساں ویران وسبے دے اساڈے حال کیا پچھدیں

ساکوں کالی کریہہ ویڑھے کریہہ دا کال کیا پچھدیں

٭

کہیں درسال تے سر ٹیک کے روزی نسے منگدے

بھانویں معصوم بالیں کوں سدا لنگھڑاں سمیندے ہیں

٭

میڈے وسبے کوں ظالم ڈواویہڑگئے

خوف آندا ہے کھمنڑیں تیں گاجیں کنوں

٭

اے سوچ کے چاتے قلم جابر کو سچ سونڑوا ونڑے

کہیں خوف توں وبلے نسے ٹیکیانسے کہیں جاتے سر

٭

اندھاریں رخ ولا کیتے میڈی و ستی دے لوکیں دو

لگاہے خوف خلقت کوں تہوں چیکاں پکاراں ہن

٭

میڈامالک تیڈی بھوئیں تیں اندھا را ہی اندھا راہے

کڈاہوں مسجد تے حملے ہن کڈاہوزدوچ مزاراں ہن

اس کے علاوہ اعظم لغاری نے دوہے اور قطعات بھی کہے ہیں۔ جن میں روایتی انداز نمایاں ہے لیکن موصوف نے دوہوں میں طبقاتی کشمکش سے پیدا ہونے والی صورت حال کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے   ؎

میڈے گھبرورل گئے روزی لو، تیڈے کتے کھیر تے پلدے رہے

میڈے ہن معصوم اندھاریں وچ تیڈے ڈینہہ کوں ڈیوے بلدے رہے

 

کوئی پو ہ دے پانڑیں لالا موئے کوئی ہاڑ دے سیک تے جلدے رہے

تیڈے اعظم نقشے بنگلیں دے تیڈی زندگی نال بدلدے رہے

٭

ساڈے نک نکیل ہے غربت دی جائیں جنتے چھکیے اج تائیں

بے قیمت رہ ہر دور دے وچ اساں بے کل وکیسے اج تائیں

 

ہن جمدوں ڈکھ مہمان ساڈے پئے گھر ہن ٹکیے اج تائیں

ساڈے سرتے اعظم قرض جوہن تہوں سرہن جھکیے اج تائیں

رباعی کہنا انتہائی مشکل فن ہے جس کے لیے علم عروض پر مکمل دسترس اور ریاضت بے حد ضروری ہے۔ رودکی نے اس کے چوبیس آہنگ ایجاد کیے تھے، رباعی ہمیشہ بحر ہزج مثمن میں کہی جاتی ہے۔ علامہ اقبال بھی اپنے قطعات کو رباعیات کا نام دیتے رہے اب اعظم لغاری نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ مثال کے طور پر   ؎

ککھیں دے گھر کوں ہوائیں کھادی ویندن

درختیں کوں ظالم ہوائیں کھادی ویندن

خداوند بچا گھن مہابے محمدؐ

جیڈوکیڈو ساکوں بلائیں کھادی ویندن

اسے رباعی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا تیسرا مصرعہ بحر متقارب سالم میں ہے۔ مختصر اعظم لغاری کے انداز بیاں میں سادگی، بے ساختگی کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری پُر درد اور اثر انگیز ہے۔

٭٭٭

 

 

 

سناط وت کے آئینے میں -احد بخش راکب

 

احد بخش رخش قلم کے نئے نئے راکب ہیں۔ انہوں نے شعر و ادب کی خارزار وادی میں قدم کیا رکھا ہے کہ سب عش عش کر اٹھے ہیں۔ یہ ان کی فطری صلاحیتوں اور ہدایت اللہ فکر مرحوم، نذیر قیصرانی، استاد امام بخش درویش اور شہزادہ سیفل کی محفلوں کا کمال ہے یہی وجہ ہے کہ سعداللہ خاں کھتران، اقبال سوکڑی، مصطفی خادم اور ساجد مجید طاہر جیسے جید لوگ ان کی تحسین کرنے پر مجبور ہو گئے۔

مجھے احد بخش راکب ہر کسی سے محبت کرنے والا اور خوشیاں بانٹنے والا انسان لگتا ہے لیکن وہ اندر سے کتنا چور چور ہے اس بات کا انداز ہ ان کی شاعری سے لگایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس خود غرض اور بے رحم معاشرے میں رہ کر انسانی رویوں کو موسموں سے تشبیہ دیتا ہے جو معروضی حالات کے تناظر میں اپنے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ سناط وت ان کا پہلا شعری مجموعہ سہی مگر موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ احد بخش راکب دیگر شعراء کی طرح اپنے وسیب سے بے پایاں محبت کا دم بھرتے ہیں۔ بلکہ علاقائی وڈیروں پرسخت تنقید بھی کرتے ہیں جو صدیوں سے غریب عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ بے باکی سے اپنے وسیب کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ وہ وقت کے حکمرانوں کو بھی عالمی استعماری قوتوں کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ جنہوں نے ہوس اقتدار کی خاطر وطن عزیز کو داخلی و خارجی مسائل کی آگ میں نہ صرف جھونک دیا ہے بلکہ خوف وہراس کی ایسی فضا پیدا کی ہے کہ ہر شخص اپنے سائے سے ڈرنے لگا ہے۔ وہ معاشرتی رویوں پر بھی کڑھتے ہیں کہ ہر ایک نے حرص وہوس کا لبادہ اوڑھ کر رستہ زندگی پر لوٹ کھسوٹ کا نہ صرف بازار گرم کیا ہوا ہے بلکہ معاشرتی قباحتوں کا سرطان قوم کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔ جس کا بنیادی سبب معاشی عدم مساوات ہی ہے۔ اس کے علاوہ احد بخش نے روایتی شعر بھی کہے ہیں وہ محبوب کی سیماب طبیعت پر نالاں نظر آتے ہیں۔ اور اپنی بدقسمتی پر زارزار روتے ہیں۔ ان کی شاعری خود داری اور رجائیت کی غماز ہے۔ وہ زیادہ تعلیم تو نہیں رکھتے مگر باد صبا، شب ہجر، شب وصل، چشم تر، آب زم زم اور باغ ارم جیسی تراکیب کو قرینے سے استعمال کر کے فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ اب نمونہ کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

ہرکوئی خوشحال ہے سجنڑیں دے سنگ سانون دے وچ

میں ہاں بدقسمت وداہاں چشم تر بارش دے بعد

٭

اجن اساڈی ایں بے حسی دیاں کہانیاں کے تائیں جہان سنسی

اٹھی اٹھی کجھ سجاک تھی ہن ستیں ستیں ناں گزار موسم

٭

میں ہردفعہ موسمیں دے لشکر کوں غم دی کیاداستاں سناواں

جو لحظے لحظے بدل ویندا ہے تیڈی طبیعت دی کار موسم

٭

دستک ڈتی نہیں میں دریا دے در تونی

پیاسا ہاں توڑے تھل دے لباس وچ

٭

خون اپنے نال بالو سوچ دے ڈیوے ولا

شہر والو ویڑھ گئے وے وت اندھارا شہر وچ

٭

بہوں وڈا دلکش حسیں منظر ہوندا ہے جئیں ویلے

سلسلے  دھپ دے تیڈیں زلفیں دی چھاں تونڑیں تھیندن

٭

اجاں غفلت دے وچ گلشن دے سئیں ہن

تہوں خوشبو کنوں خالی ہوائیں ہن

٭

سرزخم تھی ونجن یا قلم تھی ونجن

میڈی دھرتی تے مظلوم کم تھی ونجن

 

کیوں راکب ا تھاں خود کشیاں نہ تھیون

کُل منافق جتھاں محترم تھی ونجن

٭

مٹیں پانی دی پھنگ نہیں رہ گئی

ہتھیں خالی گلاس رہ گئے ہن

٭

شہرغستان تھیندے تاں تھیوے پیا

قاتل شہر دی ذات باقی رہے

٭

توڑے مقروض راکب تھی گئے ہیں

مگر بکھ نئیں گھروساڈے نکلدی

٭

نہ پچھوا تھاہیں غریب لوکیں دی زندگی دے سفر کٹیندے

قدم قدم تے قیامتاں ہن قدم قدم تے جگر کٹیندے

٭

صبر ضروری ہے مشکلات اچ عذاب اے غم کوں وسارچھوڑو

ادھار چانون کنوں غنیمت ہے رات لنگھڑیں گزار چھوڑو

٭

حق الا سگدا نمی جے میں بیچارا شہر وچ

زندگی ایجھیں نہیں میکوں گوارا شہر وچ

راکب کی غزلیہ شاعری جتنی عمدہ ہے ان کے دوہے اس سے بڑھ کر ہیں۔ کیونکہ دوہوں میں سرائیکی وسیب کی ثقافت اور رسم و رواجات کی نہ صرف ترجمانی ملتی ہے بلکہ خاص طور پر عورتوں کی حالت زار کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ وہ مردوں کے اس بے رحم معاشرے میں ان کے ارمانوں کا خون بڑا تاریخی المیہ ہے۔ عورت کی زبان میں دوہے کہنے میں جو سوزو گداز اور درد ہے وہ کسی بھی شعری صنف میں نظر نہیں آتا۔ راکب کے تین دوہے نذر قارئین ہیں مجھے یقین ہے کہ ان کو پڑھتے وقت آنکھوں سے آنسو ضرور چھلک پڑیں گے   ؎

میں پرنی ایجھیں پرنی ہاں ناواقف گھوٹ کچاوے دا

کوئی تریور ہاں تے ناہ پوندا ہا جتنا ڈاج ڈکھاوے دا

 

کجھ گھنڈ وچ آکھن چاہندی ہم کہیں سینگی کوں پچھتاوے دا

جنج راکب ڈھیر اوبالہی ہائی نئیں وقت ملا مکلاوے دا

٭

ہے ڈھول رتوکی جھوک دے وچ تبدیل ہواکل سانون ہے

ہرپاسوں مینگھ ملہاراں ہن آگھر دو آکل ساون ہے

 

ہے شوق مطابق ویس نواں ہر سینگی دا کل سانونط ہے

میں راکب تاؤ بن سینگیں کوں ڈیساں ولدا کیا کل سانونط ہے

٭

میکوں کجھ نہ آکھ ہنجوں دے وچ میں پھٹ فرقت دے دھوواں پئی

میڈے عیب سنڑھپ کوں کیا ڈہدیں میں ایجھیں ہاں بس ہوواں پئی

٭

میکوں دڑکے ڈے ڈے نہ سمجھا میں ہار ہنجوں دے پوواں پئی

تیڈے وس دی گال نئیں بس راکب توں چپ کربہہ میں روواں پئی

مختصر راکب کی شاعری میں خیالات کی ندرت، جذبے کی صداقت، بے ساختگی نمایاں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

دکھوں کا شاعر-رشید احمد خاں چچہ

 

رشید احمد خاں 14اکتوبر 1941ء کو تونسہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ بے وسیلگی کے باوجود شب و روز محنت کر کے ایم۔ اے بی۔ ایڈ کیے اور محکمہ تعلیم میں بطور ایس ایس ٹی تعینات ہو گئے۔ دو  مرتبہ ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر تونسہ رہے اور اپنے فرائض دیانتداری سے سرانجام دیتے رہے اور دیگر اساتذہ کرام کو بھی اس کا احساس دلاتے رہے۔ وہ ایک سادہ مزاج کم گو، خوش اخلاق اور خوددار انسان تھے لیکن ان کا مقامی سیاست میں بڑا اثرورسوخ تھا۔ اس لیے وہاں کے سیاسی تمن داروں نے ان کا قافیہ تنگ کیے رکھا۔ اس کے باوجود و ہ عوام کا سیاسی وسماجی شعور اجاگر کرتے رہے اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں ضلع بدر کر دیا گیا۔ وہ پھر بطور ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر کروڑ ضلع لیہ میں اپنے فرائض ادا کرتے رہے اور وہیں سے ریٹائرمنٹ لی۔ انہیں شاعری کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری اور نیزہ بازی سے بیحد لگاؤ تھا۔ وہ اردو سرائیکی میں شاعری کرتے تھے اور استاد فیض تونسوی سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کے قریبی دوستوں میں اقبال سوکڑی، عزیز شاہد اور  محسن نقوی مرحوم رہے۔ وہ غالب فیض احمد فیض اور پروین شاکر کی شاعر ی کو بے حد پسند کرتے تھے۔ وہ 10اکتوبر 2013ء کو اس دار فانی سے تو چلے گئے مگر اپنے حسنِ کردار و اطوار اور شاعری سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ ان کی بیٹی اسماء رشید بھی محکمہ ایجوکیشن میں ہیں ادب سے خاصا لگاؤ رکھتی ہیں۔ ان کے مضامین مختلف اخبارات اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ اب رشید خاں چچہ کا نمونہ کلام نذر قارئین ہے   ؎

رات آہوں میں بسر ہو تو مزہ آتا ہے

ایسی حالت میں سحر ہو تو مزہ آتا ہے

٭

اساں رعیت راج وچیندے ہیں

اساں قرضوں کالے تھی گئے ہاں

 

اساں سرداتاج وچیندے ہیں

کوئی گھنداہے مل کوڈیاں دے

 

اساں دل پکھراج وچیندے ہیں

ساڈا شوق ہا آپ ہنڈیسوں رج

مجبور ہیں ڈاج وچیندے ہیں

٭

تساں قرآن دے ورقے تساں انجیل دے نسخے

اساں اخبار دے ٹکڑے پڑیجوں پئے سڑیجوں پئے

 

اساں دھرتی دے نقشے تے  سیاہ دھبے سیاہ لیکے

اساں غربت تماشاہیں لکیجوں پئے مٹیجوں پئے

 

اساں انمول ہیرے ہیں رشید اپنے وسیب اندر

مگر بے مل وکاونے ہیں بھکیجوں پئے رکھیجوں پئے

 

تساں شب رات دی سوغات دے وانگوں کجی تھالی

اساں خیرات دے چاول ونڈیجوں پئے وٹیجوں پئے

٭٭٭

 

مظلوم طبقے کا ہم نوا – اصغر ساجد لنگڑاہ ایڈووکیٹ

 

اصغرساجد روشن فکر نوجوان شاعر ہیں۔ وہ ایسے طبقاتی نظام زندگی کے سخت مخالف ہیں جو استحصالی طبقہ کو تقویت دیتا ہے اور غریب عوام کو مسائل کی زنجیروں میں جکڑ کر ان سے جینے کا حق چھین لیتا ہے۔ جس کے ذمہ دار ہمیشہ جاگیردار اور سرمایہ دار رہے ہیں جو تمام پیداواری وسائل پر قابض رہ کر عوام کا ہر طرح سے استحصال کر رہے ہیں ـ۔ جو معاشی عدم مساوات کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ ہر اخلاقی، سماجی اور معاشرتی قباحت عوامی رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔ پھرایسے معاشرے کا وجود جلد صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔

کیونکہ اصغر ساجد8ستمبر 1975ء کو ایسے تعفن زدہ ماحول میں بستی کالو والاتونسہ میں پیدا ہوئے، مڈل تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ میٹر ک ونسم کالج ڈیرہ اسماعیل خان سے کیا۔ بی۔ اے اردو کالج کراچی سے کیا۔ ایل۔ ایل۔ بی سندھ مسلم لاء کالج کراچی سے کیا۔ اب اپنے آبائی گھر تونسہ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ فعال سماجی کارکن ہی نہیں بلکہ سرائیکی کے اچھے شاعر بھی ہیں اور سرائیکی ادبی بورڈ کے سرپرست ہیں۔ انہوں نے شاعری کے ذریعے عوامی فکر و شعور کو بیدار کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ وہ وطن عزیز میں طبقاتی زندگی سے پیدا ہونے والی بھیانک صورت حال دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں جس میں ظلم بربریت، قتل و غارت، خود کش دھماکے، لوٹ کھسوٹ کرپشن، بیروزگاری کے ساتھ ساتھ غربت کے ماروں کے لیے غذا ہے نہ دوا، پینے کا صاف پانی ہے اور نہ بجلی، انصاف ہے اور نہ قانون کی عملداری، سیل مہنگائی ہے کہ جس میں غریب عوام کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اصغر ساجد محب وطن ہی نہیں بلکہ عوام دوست بھی ہیں۔ اس لیے وہ ایسے مساواتی نظام کی بات کرتے ہیں کہ جس میں ہر انسان بنیادی سہولتوں سے مالا مال ہو۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں، ماحول خوف و خطر سے پاک ہو ہر قدم پر خوشیاں رقص کرتی نظر آئیں اور امن و آشتی اور اخوت و محبت کے زمزمے فضا ء میں گونج اٹھیں اور دکھ سکھ مشترک ہوں۔ اس حوالے سے ان کے اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

لبیں تیں تھرتھراہٹ ہے ساڈے لہجے وبل گئے ہن

پتانئیں خوف توں خاموش راہسن وات کے تانڑیں

٭

امیر شہر داں عیداں ساڈی رت نال رنگیلیاں ہن

غریب شہر ہے بکھ لو جیڑھا گردہ وچیندا ہے

٭

تیں اپنی موج مستی وچ بھکل چھوڑ ہے بلدہ بھا ہ

تیڈی سگریٹ یتیمیں دی حولی جال چھوڑی ہے

٭

بدن وچ خون باقی ہے اجن کجھ قرض باقی ہن

میں سچ سینے ایں دھرتی دے قلم دی نوک لکھڑیں ہن

٭

نال دھرتی دے وانج کینجھیں وطن دے واسی کریندے رہ ہن

وطن دا جئیں دم ترانہ لکھداں قلم توں نوحہ لکھیج ویندے

٭

اوں اپنے غم غلط کیتن غلط لوکیں دی محفل وچ

تہوں ہک خوبرو گبھرو نشہ پیندا ہویا مرگئے

اصغر ساجد نے عشق کا روگ بھی کیا پالا کہ رگ و پے میں ایسا رچا ہے کہ ان کو اب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اس مادہ پرست دو رمیں حسن کا مدعا بھی کسب معاش ہے۔ اس لیے پاکیزہ محبت کے جذبے کی قدر نہیں رہی۔ شاعر پھر بھی اپنے اشکوں سے پائے محبوب دھوکر دل مضطرب کی تسکین کے ساماں کیے جا رہا ہے   ؎

میں ہنجوں نال اوندے پیر جو دھوتن

اوں نیناں دی سوغات کو تسلیم نئیں کیتا

٭٭٭

 

 

 

ایک قیمتی گوہر -مہر اللہ بخش جوہر

 

مہر اللہ بخش خاں راجپوت سنپال قوم کے چشم و چراغ تھے جو تلمبہ میں رہتی تھی۔ مہر اقبال احمد اللہ بخش خاں کے بیٹے ہیں جو ایس۔ وی ٹیچر ریٹائر ہوئے ہیں اور علم و ادب سے گہر ی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے بقول ہمارے جد امجد مہر سلطان خاں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مخاصمت میں اس کے قریبی ساتھی کو قتل کر دیا تھا پھراس خوف سے وہ دریائے سندھ کے شرقی کنارے موضع موچیوالی میں آبسا تھا۔

مہر اللہ بخش خاں مہر شیر احمد خاں کے گھر قصبہ نتکانی میں 1910ء کو پیدا ہوئے تھے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد جے وی مدرس ہو گئے تھے اور سرائیکی اردو، فارسی شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ اقبال سوکڑی اور امام بخش درویش ان کے زیرسایہ ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ان کا اس وقت کے قابل، محنتی اور فرض شناس اساتذہ میں شمار ہوتا تھا۔ وہ نتکانی کے پرائمری سکول میں بطور اول مدرس کے اپنے فرائض سے سبکدو ش ہوئے تھے۔ وہ با اخلاق اور رنگین مزاج انسان تھے۔ ان کے قریبی احباب میں کیفی جامپوری، نور محمد سائل، غلام حیدر فدا اور اللہ داد کلاچی شامل تھے۔ وہ 1987ء میں اس دنیا سے اٹھ گئے مگر شاعری کا گراں بہا اثاثہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیٹے اعجاز احمد نے ان کا اردو، سرائیکی اور فارسی مختصر کلام ’’تذکرۂ شعرائے تونسہ،  میں شامل کرنے کے لیے مجھے خود پہاڑپور آ کر عطا کیا۔ یہ ان کی اپنے والد سے بے پایاں عقیدت ہی نہیں بلکہ ادب سے محبت بھی نظر آتی ہے۔ مہر اللہ بخش جوہر نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی تھی۔ ان کی شاعری میں وسیب کی پسماندگی اور محرومی کے بجائے روایتی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

پیا فرش زمیں وی فخر کرے آکھے فلک توں ودھ گئی شان میڈی

محبوب خدا آقدم دھریا میڈے شان شرف کوں ودھائی بیٹھاہے

لاکھوں سلام تم پر آقاؐ مدینے والے

ہادی ہمارے راہبر آقاؐ مدینے والے

 

طہ کے تاج والے شرفِ معراج والے

شافعی روزِ محشر انساں کی لاج والے

غزلیہ اردو اشعار

پیکانِ نظر خوردہ کسی دل سے تو پوچھو

پابندِ سیاہ زلف سلاسل سے تو پوچھو

 

تھا کون ساجذبہ جو تجھے دشت میں لایا

لیلیٰ نہ کہے شرم سے محمل سے تو پوچھو

 

کس درد سے آواز نکلتی ہے صبح دم

جوہر کبھی فریاد عنادل سے تو پوچھو

٭

گاہ شدی یعقوب گاہے یوسف کنعان شدی

ہر دو عالم را بعشق تو زلیخا ام

 

ناصحا  چہ خوف دارم طوق درگردن زنند

حلقہ درگردنم درزلف آں پیچیدہ ام

آخر میں ایک کافی دیکھیے جو عورت کے بے ساختہ جذبات واحساسات کی غماز ہے   ؎

پنل دے کیتے تانگھاں تنگھیندی

اکھیاں توں سَے سَے  نِیرے  وہیندی

اے تصویر ڈہدیں جندڑ ی کوں ولائیم

سٹ باغ بنگلے عیشاں وساریم

 

سب ہوش بھل گئے فکراں جو ماریم

کملی تے گاہلی خلقت سڈیندی

 

اے تصویر ول ول اکھیاں تے لاواں

پنل سمجھ کے ڈوکھڑے سناواں

 

اینویں رات ڈینہہ بہہ دل کوں رہاواں

سڈ جوگی جوسی پوتھیاں ڈکھیندی

 

لاون جو بھاہیں وسدیاں گھراں کوں

کتھ گولاں  اونکوں ہے  تصویر جیندی

 

جوہرسسی کوں روندیں گزردی

پنل دے باجھوں ویندی نجھر دی

 

رہ گئی نہ سدھ کئی پیوماتے گھردی

باہروں شہردے رستے ملیندی

٭٭٭

 

 

 

روشنی کا سفیر – رضوان بابر

 

غلام حیدر خاں طارق جو پہلے گھائل تخلص کرتے تھے ان کا تعلق تنگوانی گھرانے سے ہے وہ ایک درویش منش انسان ہیں۔ رسیلی گفتگو کرتے ہیں اور سرائیکی شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے رضوان بابر کا شعری مجموعہ ’’زمینیں لپیٹ دی جائیں،  پر تاثرات لکھنے کے لیے عنایت فرمایا۔ ا س کے مطالعے سے پہلے مجھے اس اچھوتے عنوان نے نہ صرف چونکا دیا بلکہ حیران و پریشان بھی کر دیا۔ میرے خیال میں رضوان بابر جیسے چشم بینا شاعر نے زمینیں لپیٹ دی جائیں کی بات اس لیے کی ہے کی ازل سے استحصالی طبقہ مختلف لبادوں میں انسانی لہو سے کوڑھ کی فصلیں کاشت کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے جس سے زندگی موت کے منہ میں آخری ہچکیاں لیتی نظر آتی ہے۔ پھر ایسے ذلت آمیز جینے کا کیا فائدہ۔

رضوان بابر نے 22مئی 1978ء کو محمد عثمان ترابی کے گھر آنکھ کھولی، علمی و ادبی ماحول کی وجہ سے اسے بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ ایم۔ اے انگلش کرنے کے بعد کالج میں لیکچرار ہو گیا مگر آزاد پسند طبیعت نے یہ قید گوارہ نہ کی۔ اسے چھوڑ کر دکان بنا لی اس سے بھی جلد جی بھر گیا تو چشمہ اٹامک انرجی پلانٹ میں ملازمت کر لی۔ شاعری کو بھی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ توقیر عباس جیسے سخن شناس نے ذرے کو چمکا کر آفتاب بنا دیا اس لیے عطاء الحق قاسمی کو کہنا پڑا ’’رضوان بابر اپنے خوبصورت اشعار میں ہمیشہ زندہ رہے گا،  وہ واقعی فطری شاعر تھا، اس کی شاعری میں مضامین کی ندرت، جذبات کی شدت، خیالات کی نزاکت، و لطافت زبان و بیان کی سلاست و حلاوت اور بے ساختگی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کی شاعری غمِ ذات کا نوحہ ہے۔ اس لیے وہ ہجر کے نیلگوں سمندر سے یادوں کی سیپیاں چنتا رہا۔ سچ سننے اور اپنا دکھ لکھنے کا اصرار کرتا رہا۔ میر جیسی شہرت کی تمنا کرتا رہا۔ لوہے سے پھول ڈھالتا رہا، حالاں کہ مزدور شاعر تنویر سپرا نے تو لوہے کی ناف سے کستوری پیدا کی تھی۔ مارکسی جدلیت میں پھول اور کستوری وہ قدر زائد ہے۔ جس پر مزدور کا حق ہے لیکن اس کو بھی کارخانے دار اپنے قبضے میں رکھتے ہیں جو کہ بہت بڑی نا انصافی ہے۔ رضوان بابر کے سامنے جاں لیوا مسائل تھے۔ جس میں اپنوں کی بے اعتنائی بھی شامل ہے۔ آخر 22مارچ 2012ء کو گلشن ادب کا پھول ہمیشہ کے لیے مرجھا گیا مگر اپنی خوشبو چھوڑ گیا۔ سلیمان بابر نے رضوان بابر کے گراں قدر شعری سرمایہ کو کتابی صورت میں محفوظ کر کے علم دوستی، ادب پروری اور سچا بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ دعا ہے کہ مرحوم پر خدا اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ اب اس کے بے ساختہ جذبات واحساسات کے غماز اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

چشمِ گریہ  تھی  آبروئے  وفا

اب تو وہ بھی نڈھال ہے سائیں

٭

پھول در پھول کئی عہد نبھاتا گلشن

شہرِ توحید میں ہے صبر و رضا کا گلشن

٭

آنکھ روشن ہو روح روشن ہو

شمع ایسے جلا مدینے کی

٭

سرخ پھولوں سے مجھے خون کی بو آتی ہے

ان گلابوں کو ذرا دور ہٹایا جائے

٭

خزاں میں جس نے درختوں کا درد بانٹا ہے

مجھے یقیں ہے وہ صبح بہار دیکھے گا

٭

ہم کہ عشاق بھلا کیسے تجارت کرتے

عمر گزری ہے محبت ہی محبت کرتے

٭

اپنی پلکوں پہ ستاروں کو پرویا ہم نے

کتنا روئے ہیں اسی فن کی ریاضت کرتے

٭

کون دیکھے میری غزل بابر

میں نے لوہے سے پھول ڈھالا ہے

٭

محبت کا یہی حاصل ہے بابر

سلگتی ہڈیاں ہیں اور دھواں ہے

٭

مرا رفیق ہے بابر یہ روشنی کا سفر

میں جاگتا ہوں توں کروٹ بدل رہا ہے چراغ

٭

ہمارا سچ سناجائے ہمارا دکھ لکھا جائے

ہمارے نام کی شہرت کلام میر جیسی ہو

٭

میں ٹھکانہ بدلنے والا ہوں

اب زمینیں لپیٹ دی جائیں

٭

چھوڑ آئے تھے کوئی کام ادھورا شاید

ورنہ ہم دنیاسے جانے میں نہ عجلت کرتے

٭

ہم ہیں فرہاد کے قبیلے سے

تیشہ تیشہ سنور گئے ہم

٭

ہم نے مقتل کا احترام کیا

رکھ کے ہاتھوں پہ سر گئے ہم

٭

قفس کو توڑ کے آیا ہوں اپنے ہاتھوں سے

ہوا میں قیدی پرندے اچھال آیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نوجوان تخلیق کار -ممتاز گرمانی

 

ممتازحسین 2مئی 1975ء کو نور محمد مرحوم کے گھر بستی لتڑی شمالی (تونسہ )میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی پھر ٹبہ امام ہائی سکول سے میٹرک کیا، حالات نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دی تو کاشتکاری شروع کر دی اور اپنے علاقے کے اردو، سرائیکی شعراء سے متاثر ہو کر ممتاز گرمانی کے نام سے شاعری کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ پہلے زمانے میں اساتذہ شعراء اپنے تلامذہ کی شعری تربیت کر کے سند عطا کرتے تھے۔ لیکن ممتاز گرمانی وہ نوجوان شاعر ہے جس نے آج تک کسی سے اصلاح نہیں لی ـ۔ بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو راہبر بنا کر شعر کہہ رہا ہے اور جدید غزل گو شعراء میں اپنا مقام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ممتاز گرمانی شعور کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے بغیر لگی لپٹی شعر کی زبان سے اگل دیتا ہے۔ اس نے اپنی تخلیق کا مقصد سمجھ لیا ہے۔ اس لیے سماج میں اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ محبت کے نزول کا عزم رکھتا ہے۔ اس لیے مدینے کے بو جہلوں کو مثال بنا کر وقت کے بو جہلوں کو خبردار کرتے ہوئے سرزمین وطن سے نکل جانے کو کہتا ہے۔ جنہوں نے نفرتوں کی فصلیں کاشت کر کے اہل وطن کو لہو لہو کر دیا ہے۔ ممتاز گرمانی کربلا اور مدینہ و نجف سے بے پایان عقیدت رکھنے والا مرد حُر ہے۔ اس لیے فصیل دل میں در کر کے خدا کا گھر کرتے ہوئے زمینی خداؤں کے پنجہ استحصال سے دکھی انسانیت کو چھڑانا چاہتا ہے۔ وہ محرومیوں کے ہوتے ہوئے بھی آرزوؤں، امنگوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ مختصر اگر موصوف نے ریاضت اور مطالعہ کو شعار بنائے رکھا اور کسی استاد شاعر سے راہنمائی بھی لی تو مجھے یقین ہے کہ وہ مستقبل میں معتبر شاعر کے طور پر سامنے آئے گا۔ اس نے مجھے پانچ غزلیں بھیجی تھیں، اس لیے ان کے کچھ اشعار نمونہ کے طور پر نذر قارئین ہیں   ؎

اپنی ہر بات زمانے سے چھپانی پڑی تھی

پھر بھی جس آنکھ میں دیکھا تو کہانی پڑی تھی

کوچۂ عشق سے ناکام پلٹنے والے

تو نے دیکھا تھا وہاں میری جوانی پڑی تھی

٭

میں دیکھوں توسہی بپھرے سمندر کا مزاج

اب یہ ملاح سفینوں سے پرے ہٹ جائیں

 

کرنے والا ہوں دلوں پر میں محبت کا نزول

سارے بو جہل مدینوں سے پرے ہٹ جائیں

٭

لہلہاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں

اور کیا تجھ سے تیرے خاک نشیں چاہتے ہیں

 

کب تلک در پہ کھڑے رہنا ہے ان سے پوچھو

کیا وہ محشر کا تماشا بھی یہیں چاہتے ہیں

٭

رنج اپنے کیے پہ تھے شاید

داغ یوں آئینے پہ تھے شاید

راستہ بھولنے کا مطلب ہے

ہم کبھی راستے پہ تھے شاید

 

اس نظر نے تو ہر طرف دیکھا

ہم غلط زاویے پہ تھے شاید

٭٭٭

 

 

 

تیرھویں رُت کا شاعر -سلیم طاہر قیصرانی

 

سلیم طاہر قیصرانی سرائیکی کا ایسا نوجوان شاعر ہے جو آسمان ادب پر چمکنے والے بے شمار ستاروں میں اپنی منفرد چمک دمک رکھتا ہے۔ وہ 15اکتوبر 1976ء کو ربنواز کے گھر بستی جھوک بودو تونسہ میں پید ا ہوا۔ میٹر ک ہائی سکول جھوک بودو سے کیا۔ ایف۔ اے گورنمنٹ کالج آف کامرس تونسہ سے۔ بی۔ اے اور ایم۔ اے اسلامیات بلوچستان یونیورسٹی سے کئے۔ آج کل محکمہ ایجوکیشن میں بطور ای۔ ایس۔ ٹی گورنمنٹ ہائی سکول بودو میں اپنے تدریسی فرائض بطریق احسن انجام دے رہا ہے۔

اس کا حال ہی میں پہلا سرائیکی مجموعہ ’’تیرھویں رت،  چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔ اس سے پہلے انقلابی شاعر اقبال سوکڑی کا شعری مجموعہ ’’ آٹھواں آسمان ‘‘  آ چکا ہے۔ میرے خیال میں سلیم طاہر قیصرانی نے بھی اپنے مجموعے کا نام سی تناظر میں تجویز کیا ہے تاکہ خزاں رسیدہ وسیب پر بہار رت کے ساماں ہوں۔ اس کے دل میں ادبی ذوق پیدا کرنے میں خورشید بودی کا بڑا ہاتھ ہے۔ موصوف نے باقاعدہ اصلاح تو کسی سے نہیں لی لیکن وہ اقبال سوکڑی کی انقلابی شاعری سے بے حد متاثر نظر آتا ہے۔ ’’تیرھویں رت،  کے حوالے سے اقبال سوکڑی، عاشق بزدار، عزیز شاہد، مصطفی خادم جیسے استاد شعراء کے گراں قدر مضامین اور عابد بلال کے تاثرات نے سلیم طاہر کی شاعری کو مزید اعتبار بخشا ہے۔ اس کے لہجے میں جدت بھی ہے اور ندرت خیال بھی، ترقی پسندانہ سوچ بھی ہے اور سچ کہنے کی جرات بھی۔ وہ فکر ی انقلاب کا داعی ہے۔ اس لیے نئی نسل کی انقلابی خطوط پر پرورش کرتا نظر آتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر دردمندانسان ہے، اس کی ذات کا دکھ اور کرب کائنات میں پھیلتا نظر آتا ہے۔ وہ دنیا میں بسنے والے محنت کشوں کی حالت زار پر کڑھتا ہے جو فاقوں میں نہ صرف بسر کرتے ہیں بلکہ عذاب بھری زندگی سے تنگ آ کر خودکشیاں بھی کر جاتے ہیں۔ اس کے جینے کا مقصد احتیاج مندوں کو خوش رکھنا اور اپنے منہ کا نوالہ بھوک زدوں کو دے کر عبادت تصور کرنا ہے۔ وہ وسیب کے فکر شعور کو بیدار کر کے استحصالی طبقہ سے نجات دلانا چاہتا ہے اور ان کو قوت گویائی کر دے اپنے حقوق لینے کا احساس دلاتا ہے۔ وسیب کے ہر ایک فرد کو اپنا ہم نوا بنا کر طبقاتی دیوار گر ا کر مساواتی نظام کا خواہشمند ہے۔ اس کی شاعری میں رجائیت ہے قنوطیت نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی عشقیہ داستان سمی، راول گاتا ہے تو شاعر کی آنکھوں میں ساون امڈ آتا ہے۔ اس کے چند شعر نذر قارئین ہیں   ؎

تیڈی ونجلی وی سچ الاوے تاں

اساں منزل دی سمت گولوں ہا

 

چپ چپاتی تاں کوئی حیاتی نئیں

اپنی چپ اچ وی آپ بولوں ہا

 

اساں کیویں چریج گئے ہوسوں

ساڈا ترکہ تاں چور کولوں ہا

٭

ساکوں جیون لو جاگنا پوسی

نندر پائیں دے تاں ون کماویندن

٭

بستہ پھولیم ہک نمانڑیے بال دا

برش، پالش، مس قلم قاعدہ ڈٹھم

٭

جھوک میڈی تیں جل کے چکریسیں

لوک سارے ہنجوں جھرے ملسن

٭

ساڈیاں نندروک نسلاں وی مسلسل نندر وچ ہوندن

ستیاں نسلاں جگاون لو نغارے گول رکھڑنیں ہن

٭

ساڈی بھوئیں دی کریہہ کہانیاں ہن

اکھ دیاں کھیتیاں آباد لکھ چھوڑیں

٭

میڈے ہتھ دا گرانہاں نہیں وات دو ویندا

میکوں لگدے میڈے درتے سوالی ہے

٭

اساں مزدور وی سالیں دی بکھ ہیں

اساں کہیں پیٹ دے لنگھڑیں گزارے

٭

میں تاں ایں آس تے جینداں میڈیاں اکھیں وی ڈیکھن ہا

میڈے شہریں، میڈیں وستیں، میڈے جھوکیں بہار آوے ہا

٭٭

ساڈے سارے سنہڑپ نگل گئی ہے

اجاں ظالم کریہہ تماشا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اسرارِ حیات و کائنات سے باخبر – بشیر احمد اثر تونسوی

 

سرزمینِ تونسہ علم و ادب کے حوالے سے ہمیشہ مردم خیز رہی ہے اور نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ بشیر احمد اثر سومروخاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ایک عرصہ سے اردو اور سرائیکی شاعری کر رہے ہیں۔ تونسہ میں ایسے بے شمار شعراء ہیں جو کسی استاد شاعر سے اصلاح لینے کے بجائے اپنی فطر ی صلاحیتوں کو راہبر بنا کر شاعری کرتے ہیں۔ ان میں ایک نام بشیر احمد اثر کا بھی ہے۔

وہ رحیم بخش سومروکے گھر محلہ سومروتونسہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک 1974ء میں کیا، پھر مجبوری حالات کی وجہ سے 1976ء میں محکمہ پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہو گئے لیکن مزید تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہے، اس لیے 1980ء میں ایف۔ اے، 1986ء میں بی۔ اے اور 1993ء میں ایم۔ اے بلوچستان یونیورسٹی سے کئے۔ 1996ء میں لاء کالج سے ایل۔ ایل۔ بی بھی کیا۔ موصوف نے محکمانہ ترقی کے لیے شب و روز جدوجہد کی۔ آج کل پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔

بشیر احمد اثر سے میں کبھی نہیں ملا لیکن ان کی تصویر دیانتداری، فرض شناسی، ملنساری، دینداری اور سادگی کی غمازی کرتی ہے۔ موصوف مذہب سے محبت کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے وسعتِ مطالعہ کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور طب سے دلچسپی بھی۔

جہاں تک ان کی اردو شاعری کا تعلق ہے تو اس میں پرانی، روایتی باتوں کے ساتھ ساتھ ذاتی دکھوں اور غموں کا رونا رویا گیا ہے۔ سنا ہے موصوف’’ سپیدۂ اثر، کے نام سے شعری مجموعہ بھی ترتیب دے رہے ہیں تو اس حوالے سے میری ان سے گذارش ہے کہ مجموعہ چھپوانے سے پہلے کسی استاد شاعر کو مسودہ ضرور دکھا دیں۔ اب ان کے چند اردو غزلیہ اشعار نذر قارئین ہیں   ؎

اپنے جذبات صدمات میں ڈھل گئے اپنی آہیں سسکنے سے بھی رہ گئیں

جو مدھر گیت اپنے امر تھے کبھی ان کا ہر ساز سوزوگدا کر دیا

 

ہم نے جن کو نمازوں میں سجدے دئیے روح اقدس میں مسجد بنا کے رکھا

وقت نے رفتہ رفتہ ستم یہ کیا ان نمازوں کو ہم سے قضا کر دیا

 

مثلِ جھونکا ہمیں آندھیاں لے اُڑیں ہم بگولوں کی چوٹی کے سر ہو گئے

پھر اثر ہم خلاء کی نذر ہو گئے اس طرح حسرتوں  نے فنا کر دیا

٭

میں شاعر ہوں یقینی ہوں مگر دورِ غلامی کا

بتا دے گی کبھی طرزِ فغاں طرزِ بیاں میری

٭

اپنی زلفوں کو سرِ شام سنوار ا نہ کرو

روحِ  اقدس کو میرے دل میں اتارا نہ کرو

٭

مسکنِ ہجر کی گمنام دیواروں کی قسم

میرے اجڑے ہوئے ارمان ابھارا نہ کرو

اب ان کے نو سرائیکی دوہوں میں ایک دوہا قارئین کی دلچسپی کے لیے نقل کر رہا ہوں جو موصوف کے صوفیانہ احساسات کا آئینہ دار ہے   ؎

اج دل آہدے وچ مستی دے اوندے در دے بن ملنگ ڈیکھوں کجھ منگ ڈیکھوں

اساں وانگ چکوری چندری دے چن چوڈی دے چل سنگ ڈیکھوں وچ رنگ ڈیکھوں

کھا بھوئیں ویسی دفنیج ویسوں اساں کیوں نہ بھوئیں تیں دنگ ڈیکھوں کر جنگ ڈیکھوں

کروں ایجھیں پوجا پاٹ اثر احرام بدھوں اوندا رنگ ڈیکھوں انگ انگ ڈیکھوں

البتہ موصوف کی سرائیکی نظمیں ان کے سیاسی شعور کا پتا دیتی ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’انہیں دے لئی دعا منگداں،  کے آٹھ بند ہیں اور ہر بند کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ ان کو اس بات کا دکھ ہے کہ غریب عوام جور و جفا کی چکی میں صدیوں سے پِس رہے ہیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ وہ علاقائی وڈیروں اور سیاستدانوں پر بھی طنز کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری پاک دھرتی پر حکمرانی کرنے والے یہودی ایجنٹ ہیں جنہوں نے ہوسِ اقتدار کی خاطر لاشوں کی سیاست کر کے ملک کو مقتل گاہ بنا دیا ہے۔ کیونکہ ہمیں اب تک سچا رہبر نہیں ملا جو ہمارے دکھ درد کا درماں کرتا اس کے ساتھ ساتھ وہ اہلِ وطن کو حوصلہ بھی دیتے ہیں کہ ایک دن ہماری پاک دھرتی اخوت و محبت، امن و آشتی اور خوشحالی کا گہوارہ ہو گی اور اہلِ وطن سکھ کاسانس لیں گے۔ اس حوالے سے د و بند ملاحظہ کیجیے   ؎

میڈی تحصیل بکھی ہے ایندارقبہ کشادہ ہے

میڈے واسی دے ممبر دا اول نعرہ تے وعدہ ہے

 

ایکوں ضلع بنڑیساں میں نمک جو ایندا کھادا ہے

میڈے منشور وچ شامل میڈاپکا ارادہ ہے

 

چنگا ہوند ا اگر محسن تھیا وعدہ نبھا ڈیندا

کوئی تامہرباں ہوندا اساکوں آسرا ڈیندا

٭

ساکوں حکام کیا ڈتے غداری تے دغا ڈتے

اساڈی پاک دھرتی وچ یہودیں کوں ملاڈتے

جیرے دشمن اساڈے ہن خد اسائیں خود ڈسا ڈتے

جنہیں ابلیس دے ناں تیں کیا اودھم مچا ڈتے

 

ضرورت ہے حسین آندا ولا کربل سجا ڈیندا

کوئی تاں مہرباں ہوندا اساکوں آسراڈیندا

مختصر بشیر احمد اثر ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ وہ اپنے وسیب کی پسماندگی بد حالی پر کڑھتے ہی نہیں بلکہ وطن دوست، عوام دوست بھی ہیں اور اربابِ اختیار سے نالاں بھی۔ جو پیغمبر انقلاب کے زریں اصولوں کو چھوڑ کر اغیار کے دریوزہ گر بن گئے ہیں۔ کیونکہ موصوف دینِ اسلام کے سچے پیرو ہیں اس لیے وطن کے داخلی و خارجی مسائل کے حل کے لیے آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کا احسا س دلاتے ہیں۔ کیونکہ اسی میں بنی نوع انسان کی فلاح و بقا ء کا راز مضمر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

نوجوان شاعر-بابر شاہ

 

سید اقبال بابر شاہ 1969ء کو سید عطاء اللہ شاہ کے گھر بستی کوتانی وہوا میں پیدا ہوا۔ بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ بابر شاہ کے قلمی نام سے سرائیکی شاعری کرتا ہے۔ اس کی سوچ ترقی پسندانہ ہے اور وہ علاقائی وڈیروں اور سیاسی پنڈتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کا سخت مخالف ہے۔ وہ ہر ظلم و نا انصافی کا خاتمہ چاہتا ہے اس لیے جابر آمر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے سے خوف نہیں کھاتا۔ اس کا پہلا سرائیکی مجموعہ ’’چیڑی چونک دے ویلے،  زیر ترتیب ہے۔ فریاد ہیروی کے بقول کہ وہ پروفیسر شفقت بزدار جیسے انقلابی شاعر سے اصلاح لیتا ہے۔ نمونہ کلام   ؎

رج کے ڈیہدے ہیں رج کے سندے ہیں

اوندی صورت غزل دی صورت ہے

٭

دل تاں آہدے جو بھیج ڈیواں ہا

اپنی حسرت غزل دی صورت وچ

 

اتنا زخمی ہے دل وفائیں توں

کہیں دی جی وی مہور لگدی ہے

٭

میں گروی رکھیے آپ کوں دلدار دی  خاطر

مقروض میڈی ذات ولا تھیوے نہ تھیوے

نظم واجھلوڑا دیکھیے :

اپنے ہر احساس دی بازی

ہار کے ساکوں پتا لگے

 

واجھلوڑے دے وچ کھلّا

مار کے ساکوں پتا لگے

٭

اکثر خواب خیالی ہوندن

توڑے سدھے وی آپوون

سارے پولے خالی ہوندن

٭٭٭

 

 

 

نئی امنگوں کا شاعر -ریاض قیصر قیصرانی

 

ریاض قیصر قیصرانی سرائیکی وسیب جیسے پسماندہ علاقے کا ایک ایسا بے باک شاعر ہے جو استحصالی طبقہ کو نہ صرف للکارتا ہے بلکہ غریب عوام کے سیاسی، سماجی شعور کو بیدار کر کے ان کو حقوق کی جنگ لڑنے کا احساس بھی دلاتا ہے۔ اس کی شاعر ی وسیب سے محبت کی غماز ہے۔ وہ 4اپریل 1963ء کو ربنواز خان کے گھر بستی میرانی والا میں پیدا ہوا۔ میٹر ک علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد سے کر کے محکمہ مال میں ملازم ہو گیا۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے معاشرتی قباحتوں اور سیاسی، مذہبی تعفن کے ماحول میں رہنا زہر پینے کے مترادف ہے۔ ریاض قیصر قیصرانی بھی اپنے مزاج کے خلاف بچوں کی روزی روٹی کے لیے برسوں سے زہر پی رہا ہے۔

وہ ایک عرصے سے نہ صرف شاعری کر رہا ہے بلکہ شفقت بزدار جیسے معروف شاعر کے شاگرد ہونے پر نازاں بھی ہے۔ ’’باکروال،  اس کا پہلا سرائیکی شعری مجموعہ ہے جو 1993ء میں تھل دمان سرائیکی سنگت لیہ کے تعاون سے چھپا تھا۔ اس کا انتساب سرائیکی زبان و ادب کے دانشور پروفیسر کرسٹوفر شیکل کے نام ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی، اقبال سوکڑی، شفقت بزدار کے گراں قدر مضامین اور حمید ا لفت ملغانی، امجد کلاچی اور امین سہیل ملغانی کے تاثرات ریاض قیصر قیصرانی کی شاعری کے حوالے سے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس مجموعہ میں نظمیں، غزلیں، دوہے، ماہیئے، قطعات، اور سرائیکو شامل ہیں۔ دوہوں اور ماہیوں میں تو روایتی رنگ غالب ہے لیکن سرائیکو وسیب کی پسماندگی کو نہ صرف ظاہر کرتی ہے بلکہ شاعر خدا کے حضور یوں گویا بھی ہے   ؎

ہنج رکے تاں سُک ویندا ہے تھل دامان دا پانی

میڈا  مالک اکھ تے ہنج دا کرتوں  ربط بحا ل

کال کریہہ کوں ٹال

سرائیکو

٭

اوں خوش ہے نال رقیباں دے میڈے اجڑن دا ارمان کیہاں

ودا غیر توں ہجو پچھد اہے تھئے قیصردا نقصان کیہاں

دَر آئے کوں جیئں ٹھکراچھوڑیے اوندی عزت کینہہ میڈا شان کیہاں

جیندے در دروازے بند ہوون میڈی جھوک دا او سلطان کیہاں

دوہا

٭

نویں سال دی ڈائری ئِ

چوری چوری مل ماہیا

ساری خلقت ویری ئِ

ماہیا

اس کی شاعری ایسے نظام کے خلاف ہے جس میں خوف، گھٹن، اور حبس، بھوک پیاس ہی نہیں بلکہ غریب عوام کا جینا بھی دوبھر ہو گیا ہے۔ وہ ایسے زندگی کش ماحول سے مایوس نہیں ہے بلکہ نئی امنگوں اور نئے ولولوں سے پیلوں موسم کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ جو خوشیوں، محبتوں اور وصال یار کا آئینہ دار ہے۔ عظیم صوفی شاعر خواجہ غلام فرید نے بھی اپنی کافی میں یوں کہا تھا۔ ’’ پیلوں پکیاں نی وے آ چنوں رل یار، ریاض قیصر بھی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ وسیب بلکہ پوری دنیا کے لیے ایسے روح پرور موسم کے لیے کوشاں ہے۔ نمونہ کے چند اشعار نذرقارئین ہیں   ؎

بے سہاریں دی خیر منگدے ہیں

اپنے یاریں دی خیر منگدے ہیں

٭

میڈے حق دا غاصب خبردار تھی ونج

میں فرعون تھیندے فنا ڈیہدا ریہاں

٭

پانی منگدے تسا ول ول

ساقی ڈیندے ساغر جھل جھل

٭

تمنا سوجھلے دی جے کریسو تاں سحر تھیسی

جے سینہ رات کالی دا چریسو تاں سحر تھیسی

ساڈی قسمت دا ہر دانہ اتو کولوں وی جھپ گھندن

انہائیں دے منہ دا ہر لقمہ چھکیسو تاں سحر تھیسی

مادھرتی دا ویری کتھ ئِ

قیصر مار گھتیندے ڈسو

ریاض قیصر قیصرانی کی نظمیں بھی وسیب کے سلگتے مسائل اور عورتوں کی حالت زار کی غماز ہیں۔ نظم دیکھیے   ؎

سارے موسم

ساون وانگوں ہوون

بدلا وسّے

پیون ٹوبھے تسّے

کوئی تاں رب دا بندہ آوے

ساکوں موسم بدلند ا

ڈا ان ڈسّے

نظم ڈا ان ڈسّے

٭

جیندے سر دا بوچھن کائنی

کیویں دھید ا ڈاج بنیسی

محرومی

٭

میں تاں بابے کولوں

روز چونی گھنساں

وڈی تھی تے

اپنا ڈاج بنیساں

نظم ڈاج

٭٭٭

 

 

 

چنری چاک لویراں اور فضل سوکڑی

 

فضل سوکڑی سرائیکی کے معروف ادیب، محقق مترجم اور شاعر حمید الفت ملغانی کا چھوٹا بھائی ہے۔ وہ مظلوم طبقہ کا ہم نوا نوجوان شاعر ہے جس کے ہر ایک شعر سے محبت کی نہ صرف خوشبو آتی ہے بلکہ اس کے نظام کے خلاف سراپا احتجاج بھی نظر آتا ہے جس نے غربت کے ماروں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔

فضل سوکڑی 15دسمبر 1976ء کو الٰہی بخش کے گھر بستی سوکڑ میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ ایف۔ اے اور بی۔ اے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے کئے۔ ایم اے سرائیکی 2006ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کیا پھر ملک و قوم کی حفاظت کے جذبے سے سرشار پاک آرمی میں ملازمت کرتا رہا۔ آج کل سول ڈیپارٹمنٹ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ فضل سوکڑی کا پہلا سرائیکی مجموعہ ’’چنری چاک لویراں،  سنجوک پبلی کیشنز ملتان نے 2000ء میں چھاپا تھا جس کے نام سے وسیب بلکہ دنیا میں عورتوں کی مظلومیت واضح نظر آتی ہے۔ اس مجموعے میں نظمیں، غزلیں، کافیاں، قطعات، سرائیکو اور دوہے شامل ہیں جو شاعر کے انقلابی رجحان کی آئینہ دار ہیں۔ اس کا انتساب لوک فنکار روال بلوچ اور بھائی محبوب الٰہی کے نام ہے۔ پروفیسر شفقت بزدار نے اپنے سعادت مند شاگرد فضل سوکڑی کی شاعری کے حوالے سے جو گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے یہ ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ بانو بلوچ کے تاثرات بھی شاعر کی حقیقت پسندانہ سوچ کے غماز ہیں۔ جہاں اپنوں کی بے اعتنائی کا شکوہ بصورت اشک نظر آتا ہے تو وہاں وسیب کی پسماندگی کا نوحہ بھی خون کے آنسورلاتا ہے۔ دراصل غربت تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔ دراصل ارباب اقتدار یعنی استحصالی قوتیں ازل سے سازشیں کرتے آ رہے ہیں کہ عوام کو ہر طرح سے بد حال رکھا جائے تاکہ وہ بغاوت نہ کرسکیں بس موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہیں۔ یہاں شاعر نے بھی ایسے غربت زدوں کی مجبوریوں کو ظاہر کیا ہے جو اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں جو کہ معاشی عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔ نمونہ کے اشعار دیکھیے   ؎

روزانہ گھن گھن ادھار آٹا ضمیر ویچن تے آگیوسے

اے ہتھ تاں ہتھ ہن ہتھیں دی ہر ہک لکیر ویچن تے آگیو سے

 

اے بالیں اپنیاں کتاباں ویچاں تے کاپیاں ویچاں قلم ای ویچا

اخیر سر دے سفید پٹکے دی لیرو یچن تے آگیوسے

٭

ساڈے پاسے ساڈے کیتے کریہہ تے کال وسدا ہے

جڈاں وسدا ہے مینہ ساڈو ننانویں نال وسدا ہے

٭

چٹ تیں پئے ہئیں کال کریہہ وچ

چڑھدیں پلدن بال کریہہ وچ

٭

بے مروت شہر ہے کوئی نئیں ا تھاں ڈیندا پنا ہ

ککھ وچوں جیون دی جاہ پھولوں ودے اے ٹھیک نئیں

٭

جہڑا ہک پل نہ وسدا ہا محبت دے تقاضیں توں

معمولی گال تیں آخر اے جھیڑا تھیونا تاں ہا

٭

سک دا سیک سنبھلدا ڈیکھوں

ہنج کوں اکھ وچ پلدا ڈیکھوں

ہنج ہنج میڈی دا آخر کجھ تاں حساب رکھ

بے مل تاں میڈیں پلکیں دی زینت وگاڑ نہ

٭

جیکر مزدور مزدوری توں ولدے رات کوں چر کے

تاں بالیں کوں اے ماء بکھا سمالی کے توڑیں راہسی

فضل سوکڑی کی نظمیں بھی اپنے وسیب کی پسماندگی اور سلگتے مسائل کی آئینہ دار ہیں کیونکہ جہاں بچے بھوک پیاس سے بلکتے نظر آتے ہیں تو وہاں بڑے بھی فاقوں سے ہڈیوں کا ڈھانچہ دکھائی دیتے ہیں۔ نظم تس دیکھیے   ؎

ساڈے بال کریہہ دے ماریے

تس توں شودے رڑن رونون

 

رو رو ہار ہنجوں دے پونون

کئی کئی وار پٹولیاں مارن

 

لب کوں چولن پانی منگن

آکھن ساڈے حق ہمسائیو

 

حق ہمسائیو ماء پیو جائیو

ساڈے خون دے نال تہاڈے

 

نت بیراج اسردے پئے ہن

اساں گھٹ گھٹ لو سدھراؤں

تس

اس کے پینتیس دوہوں میں نمونہ کے طور پر ایک دوہا نذر قارئین ہے جو عورت کی زبان میں کہا گیا ہے جس میں بے پایاں محبت کا جذبہ بھی ہے اور ارمانوں کا نوحہ بھی ہے   ؎

جو پار کنوں اروار ولیوسن وانت وار تیڈے شہر آئی ہاں

چڑھیے بوچھن پئیں فریمیں تیں کیڈا وقت ونجا تیڈے شہر آئی ہاں

٭

بیا چیلک ویچ ہمسائی کولوں کرخرچہ پا تیڈے شہر آئی ہاں

ہئی چنری چاک لویر فضل ہر لیر کھنڈ اتیڈے شہر آئی ہاں

یہ ہائیکوبھی شاعر کے بے ساختہ جذبات و احساسات کی آئینہ داری کرتی ہے   ؎

تسا کرگئیں تس توں ساڈے ڈھولن ہاں لہہ ویندن

پیندے پئے ہاں اکھ توں پیلے پلکیں دی پنیال

کوئی نئیں سندا گال

مختصر فضل سوکڑی کی شاعری سے انقلابی فکر کی نہ صرف خوشبو آتی ہے بلکہ وہ غریب عوام کا سیاسی شعور بیدار کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں تاکہ استحصالی قوتوں کو آئندہ کسی کا حق غصب کرنے کی جرات نہ ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

اظہارِ ذات

 

 

اصل نام       :       منظور حسین

قلمی نام        :       جسارت خیالی

تاریخ پیدائش   :       12-04-1954

مقامِ ولادت    :       پہاڑ پور

تعلیم           :       بی اے، اُردو فاضل

مشورۂ سخن             :       ڈاکٹر خیال امروہوی

تصنیف        :       ۱)     لا زماں سے زماں تک

(ڈاکٹر خیال امروہوی کی خود نوشت)

۲)     شعاعِ فردا (شعری مجموعہ)

۳)     اقبال سوکڑی شخصیت و فن

۴)     سطوتِ حرف (شعری مجموعہ)

۵)     تذکرۂ شعرائے تونسہ (تذکرہ)

پیشہ           :       درس و تدریس

ایڈیٹر          :       نیا قدم انٹرنیشنل (سہ ماہی ادبی مجلہ)

پتا             :       پہاڑ پور، ضلع لیہ، پنجاب

موبائل        :       0332-6467822

 

 

 

جسارت خیالی بہ حیثیت تذکرہ نگار

 

جسارت خیالی شاعری اور صحافت کے میدان میں تو اپنا نام و نشاں پیدا کر چکے ہیں۔ وہ ایک اچھے صحافی اور معروف شاعر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اب وہ بہ حیثیت تذکرہ نگار ہمارے سامنے آئے ہیں، اُن کی تصنیف کردہ تازہ تخلیق بہ نام’’ تذکرۂ شعرائے تونسہ شریف، اُن کی محنتِ شاقہ، لگن و جستجو، عرق ریزی، باریک بینی اور ملاقات و مشاہدات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میں جانتا ہوں ایسے وقیع اور دقت طلب ادبی، تحقیقی، تجزیاتی اور تعلیمی کام سر انجام دینے میں کس قدر اذیت اور صبر آزما واقعات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یقیناجسارت خیالی نے بھی ایسے ہی تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر اس کتاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہو گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کی محنت کو ضایع نہیں کرتا۔ مجھے اُمید ہے، وہ رب العزت جسارت خیالی کو بھی اس محنت اور کارِ خیر کا انعام و اکرام ضرور عطا کرے گا۔

 

شاعر علی شاعرؔ

مدیر-عالمی رنگِ ادب، کراچی

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید