FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تحسین غزل (اقبال، فیض)

 

 

امتیاز احمد

 

 

 

 

علامہ اقبال

 

 

تمہید:

 

اقبالؔ کا شمار اردو کے پانچ عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ یہ شعرا ہیں : میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، انیسؔ اور نظیرؔ اکبرآبادی۔ ان پانچوں میں بھی اقبالؔ کو اس اعتبار سے خاص طور پر امتیاز حاصل ہے کہ ان کے یہاں ایک مرتب اور منظم فکری اور فلسفیانہ نظام ملتا ہے۔ کبھی وہ شاعر مشرق کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں تو کبھی شاعر اسلام کے نام سے۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان میں ان کی شاعری کا بڑا سرمایہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی انھوں نے بہت سی چیزیں لکھی ہیں۔ ان تحریروں میں سب سے اہم ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ یعنی Re-construction of Religious Thoughts in Islam ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مضامین اور پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ Metaphysics in Persia ہے جو اردو میں فلسفۂ عجم کے نام سے شائع ہوا ہے۔

 

 شاعر کا تعارف:

 

شیخ محمد اقبال جو بعد میں ڈاکٹر سر محمد اقبال اور علامہ اقبال کے نام سے مشہور ہوئے ۱۸۷۷ء میں پنجاب کے ایک شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کی، پھر سیالکوٹ کے ایک اسکول میں داخل ہوئے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسکاٹ مشن کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔ یہاں انھیں ممتاز عالم سید میرحسن سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے اور ایم۔ اے کیا۔ لاہور میں ہی انھیں پروفیسر آرنلڈ سے استفادہ کا موقع ملا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد پہلے اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ، فلسفہ اور معاشیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔

۱۹۰۸ء میں انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں انھوں نے مشہور مستشرقین پروفیسر براؤ حمدز ن اور پروفیسر نکلسن سے استفادہ کیا۔ بعد ازاں میونخ یونیورسٹی جرمنی سے انھوں نے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور انگلستان واپس آ کر بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔

اقبال کی شاعری کے ابتدائی آثار تو انیسویں صدی کے آخری عشرے میں ملنے لگتے ہیں، لیکن ان کی پہلی نظم ’ہمالہ‘ ۱۹۰۱ء میں رسالہ مخزن میں شائع ہوئی اور ۱۹۲۴ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ اردو میں ’بانگِ درا‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے ۱۹۳۶ء میں ان کے انتقال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ’بانگِ درا‘ کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’بال جبریل‘ تیسرا مجموعہ ’ضربِ کلیم‘ اور چوتھا مجموعہ ’ارمغانِ حجاز‘ بھی شائع ہوا۔ یہ چاروں مجموعے اب ایک ساتھ کلیاتِ  اقبال کی شکل میں ملتے ہیں۔

فارسی میں ان کی مثنویاں ’اسرارِ خودی‘، ’رموزِ خودی‘، ’پیامِ مشرق‘ اور ’پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘ خاص طورسے اہم ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا۔

 

متن:

 

اقبال کی پہلی غزل ہے:

یج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدکی تعریف پر کوئی دھیان نہ دیا کرو۔

بتہ ’آپ کی شاعری‘ کے تحت پوسٹ کرنے سے آرا

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

 

طرب آشنائے خروش ہو، تو نوائے محرم گوش ہو

وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

 

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

 

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن

نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں

 

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

 

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

 

جو میں سربہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

 

شعری خصوصیات:

 

یہ غزل بانگِ درا سے لی گئی ہے۔ اس غزل کو بار بار پڑھیں، اور دیکھیں کہ اس کی کون سی خوبی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ پہلی بات جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس غزل میں تخاطب کا انداز ہے۔ تو،ترے، ترا وغیرہ کا بار بار استعمال ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ایک طرح کی بلند آہنگی ہے، یعنی ایسا انداز ہے جسے اونچی آواز میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اسے میر تقی میر یا اُن جیسے اور دوسرے غزل گو شعرا کے غزلیہ اشعار کی طرح اکیلے میں چپکے چپکے گنگنانا ممکن نہیں۔ اس میں حسرت موہانی کا یہ انداز بھی موجود نہیں ہے کہ:

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے

تیسری خوبی اس غزل کی یہ ہے کہ اس میں روایتی غزل کے مضامین و موضوعات استعمال نہیں ہوئے ہیں اور بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ’’اس (غزل) میں اوّل تا آخر ایک ہی خیال اور ایک ہی جذبے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ‘‘ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں۔ ص:۲۳۶) مثال کے طور پر اگر اس غزل کے پہلے شعر یعنی مطلع پر غور کریں تو یہ شعر ہمارے سامنے اس طرح آتا ہے:

 

تشریح:

 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

آئیے اس شعر پر غور کریں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ لفظ حقیقت پریشان کرتا ہے۔ یہ سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ یہ حقیقت کیا ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہماری زبان میں کوئی دوسرا متبادل لفظ ہے یا نہیں ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ ایک منٹ سوچنے کے بعد ایک لفظ سمجھ میں آتا ہے اصلیت، لیکن پھر ایک دوسرا سوال پریشان کرنے لگتا ہے۔ یہاں شاعر کس کی اصلیت کی بات کر رہا ہے؟ اپنی اصلیت کی؟ اپنی برادری یعنی انسانوں کی اصلیت کی؟ یا پوری کائنات کی اصلیت کی؟ یہاں پہنچ کر ہمیں یاد آتا ہے کہ شاعر نے اس ’حقیقت‘ کے ساتھ ایک اور لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ وہ لفظ ہے ’منتظر‘، اس کے معنی عام طور پر انتظار کرنے والے کے ہوتے ہیں، لیکن کیااس شعر میں بھی اس کے یہی معنی ہیں ؟ تھوڑی دیر کے لیے ہم اس کے یہی معنی مراد لیتے ہیں۔ اب ’حقیقت‘ کے ساتھ اس لفظ کو ملا کر جو ترکیب بنے گی وہ ہو گی: حقیقتِ منتظرِ، یعنی ایسی حقیقت جو انتظار کر رہی ہے، اور پہلے مصرعہ کا مطلب یہ ہو گا کہ:

’’اے انتظار کرنے والی حقیقت کبھی تو مجازی شکل میں ہمارے سامنے آ جاؤ۔ ‘‘

اس کو پڑھ کر پڑھنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انتظار کرنے والا خود اپنے بارے میں یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شعر پڑھنے میں کہیں نہ کہیں ہم سے کوئی چوک ہوئی ہے۔ اب ایک دوسری کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ پہلی کوشش میں ہم نے اس لفظ منتظر میں ظ کے نیچے زیر یعنی کسرہ لگایا تھا۔ اس زیر کی وجہ سے اس کا مطلب انتظار کرنے والا ہو گیا تھا۔ اب اس ظ پر زبر یعنی فتح لگا کر دیتے ہیں ؟ کیا اس سے اس کے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا ہو گی؟ جی ہاں۔ پہلی صورت میں (یعنی ظ پر زیر یعنی کسرہ لگانے کی صورت میں ) اس کا مطلب تھا انتظار کرنے والا (فاعل) تھا۔ دوسری صورت (ظ پر زبر) یعنی فتح لگانے کی صورت میں اس کا مطلب ہو گا جس کا انتظار کیا گیا۔ اب اس مصرعہ کو پھر سے پڑھیے:

کبھی اے حقیقت منتظَر نظر آ لباسِ مجاز میں

یعنی اے وہ حقیقت، اے وہ سچائی، اے وہ اصلیت، جس کا ساری دنیا انتظار کر رہی ہے، کبھی ہماری نظروں کے سامنے آ جاؤ، کبھی ہمارے سامنے ظاہر ہو جاؤ، کبھی ہمیں دکھائی دینے لگو۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس پہلے مصرعہ کا مطلب ہم کچھ کچھ ٹھیک سمجھنے لگے ہیں، لیکن یہاں پہنچ کر پھر ایک لفظ پریشان کرتا ہے۔ یہ لفظ ہے مجاز، اور اس سے بنائی گئی ترکیب لباسِ مجاز، یہ مجاز کیا ہوتا ہے؟ لغت میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ حقیقت کا اُلٹا ہوتا ہے۔ وہ چیز جو حقیقت نہ ہو۔ تو پھر حقیقت کیا ہے؟ لغت میں اس کا مطلب ہے ’’وہ ذات جسے فنا نہ ہو‘‘ اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ صرف خدا کی ذات ایسی ہے جو فنا ہونے والی نہیں ہے۔ اب پہلا مصرعہ صاف ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، یعنی یا اﷲ کبھی لباسِ مجاز میں نظر آ جائیے۔ ایسے نظر آ جائیے جیسے ہم دوسری چیزوں کو دیکھ، چھو اور محسوس کرسکتے ہیں۔ ویسے آپ کو بھی دیکھ، چھو اور محسوس کرسکتے ہیں۔ جسمانی شکل میں، مجسم، جسم کے ساتھ۔

پہلے مصرعہ کی اس تفہیم کے ساتھ دوسرا مصرعہ خود بخود ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یعنی جب اﷲ تعالیٰ سے بندہ یہ دعا مانگتا ہے کہ کبھی ایک بار تو ہمارے سامنے مجسم ہو کر سامنے آ جاؤ، تو فطری طور پر اﷲ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو ایسا کیوں چاہتا ہے؟ اگر میں مجسم ہو کر تمہارے سامنے آ جاؤں تو تم کیا کرو گے؟ اس کا تمھیں کیا فائدہ پہنچے گا۔ دوسرا مصرعہ اس سوال کا جواب ہے، یعنی بندہ جواب دیتا ہے کہ اے میرے مالک! مادّی شکل میں آپ کو دیکھے بغیر، جسمانی شکل میں آپ کو دیکھے بغیر میرے جوشِ بندگی کی تسکین نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں سجدے میری نیاز مندی کی پیشانی میں تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ مگر میں ان کی تسکین نہیں کر پاتا ہوں، تو اگر مجسم ہو کر مادی شکل میں ہمارے سامنے ہو گا تو تجھے سجدہ کرنے میں، تیری عبادت کرنے میں بھی مجھے لطف آئے گا۔ اس لیے اے میرے خدا مجسم ہو کر میرے سامنے آ جا۔ ظاہر ہے یہ انسانی سرشت میں شامل اس جبلت کا اظہار ہے جو ہر چیز کو مادی روپ میں دیکھنا چاہتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں ایک چروا ہے نے دعا مانگی تھی کہ اے میرے خدا اگر تم میرے گھر آؤ تو میں تمہارے سرمیں تیل دوں گا، تمہارے پاؤں دباؤں گا، تمہاری خدمت کروں گا۔ جس طرح وہ دعا تھی، اُسی طرح ا قبال کا یہ شعر بھی دعائیہ ہے۔

یہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اردو غزل کی روایت میں یہ اپنی طرح کا واحد شعر ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کا کوئی دوسرا شعر اردو غزل کی روایت میں نہیں ملتا ہے۔ خود اقبال کے یہاں یہ مضمون بار بار ملتا ہے:

پردہ چہرے سے اُٹھا انجمن آرائی کر

چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک

بے حجابا نہ مرے دل سے شناسائی کر

اس سلسلہ میں پروفیسر انصاری نے یہ بات بالکل ٹھیک لکھی ہے کہ:

’’لفظ ’کبھی‘ کے استعمال سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ لامحدود سے ربط اور اتصال قائم کرنے کی یہ خواہش دیرینہ ہے، اور مسلسل انسانی روح کو کچوکے دیتی رہتی ہے۔ اس میں ایک طرح کی حسرت بھی پوشیدہ ہے کہ کاش حجابات اُٹھ جائیں اور تمنا کی برآری ہوسکے۔ اسی طرح ’ہزاروں سجدے‘ کی ترکیب سے ایک طرح کی فروتنی کے اظہار کے علاوہ نیاز مندی اور جذب و کیف کے وفور کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لفظ ’تڑپ‘ خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے، اور ’جبینِ نیاز‘ کے ساتھ مل کر ایک طرح کے جذباتی اُبال اور اضطراب اندرون کے مرادف ہے جو سپردگی کے داعیے سے منسلک اور اس میں پیوست ہے۔ ‘‘ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں۔ از اسلوب احمد انصاری، غالب اکیڈمی، نئی دہلی ۱۹۹۴ء، ص:۲۳۷)

طرب آشنائے خروش ہو، تو نوائے محرم گوش ہو

وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ و ساز میں

 

مشکل الفاظ:

 

سرود                راگ، نغمہ، گیت

سکوت               خاموشی

ساز                   باجا (سارنگی، طبلہ، ڈھولک وغیرہ)

پردۂ ساز           باجے کا کوئی حصہ جس سے کوئی خاص آواز نکلتی ہے

طرب               خوشی

طربِ آشنا        خوشی سے واقف

خروش               غل، شور

نوا                    آواز

محرم                 راز جاننے والا

گوش                کان

محرم گوش         کان کا راز دار

اس شعر کا دوسرا مصرعہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اس لیے خاص طورسے اہم ہے۔ اس میں بھی لفظ ’کیا‘ پر خاص طورسے زور دیا آگیا ہے۔ صنعت استفہام انکاری کی ہے، یعنی سوال کر کے جواب اسی میں چھپا دیا ہے اور یہ جواب انکار میں ہے۔ سوال کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ وہ گانا/نغمہ/گیت کیا ہے جو باجے کے کسی حصہ میں چھپا ہوا ہو؟ وہ بھی کوئی گانا ہے جو باجے سے باہر ہی نہیں نکلے؟ جو سنائی ہی نہ پڑے، یعنی وہ تو گانا/ نغمہ/ گیت ہے ہی نہیں جو باجے سے باہر نہ نکلے، سنائی نہ پڑے لیکن اسے قطعی انداز میں خبریہ انداز میں کہنے کے بجائے انشائیہ انداز میں کہا گیا ہے جس سے اس کی خوب صورتی بڑھ گئی ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ اصل گانا تو وہ ہے جو ظاہر ہو، باجے سے باہر نکلے، سنائی پڑے۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ:

طرب آشنائے خروش ہو

خوشی سے آشنا ہو جا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی خوشی سے آشنا ہو جا۔ جواب ہے شور و غل کی ہنگامہ کی خوشی سے آشنا ہو جا۔ پھر اسی بات کو شدت پیدا کرنے کے لیے شاعر دوسرے انداز میں بھی کہتا ہے:

تو نوائے محرم گوش ہو

یعنی تو آواز ہو جا۔ کس چیز کی آواز ہو جا؟ کان کے راز جاننے والے کی آواز ہو جا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ (۱) ہنگامہ کی خوشی سے آشنا ہونا (۲) کان کے راز جاننے والے کی آواز ہونا کیا ہے؟ کیا یہ راز رازِ کائنات ہے؟ کیا وہ راز کن فکاں اور کون و مکاں ہے جس سے اﷲ نے پیغمبروں کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعہ انسانوں کو واقف کرایا؟ یاوہ راز ہے جس سے پیغمبر آخرالزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم واقف ہوئے؟ کیا یہی وہ راز ہے جس سے سکوت پردۂ ساز میں ہنگامے برپا ہوتے ہیں ؟ اس بات کو اگر دوسرے مصرعہ سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات اور بھی صاف ہو جاتی ہے۔ یعنی اصل نغمہ تو وہ ہے جو لوگوں کے کانوں کے ذریعے ان کے دلوں تک پہنچ کر ان کو اندر سے بدل دے، ان کے وجود کو سراسر منقلب کر دے۔ اس لیے اے حامل قرآن اُمت کے لوگو تمھیں جو نغمہ یا پیغام یا علم یا ہدایت کا راستہ دیا گیا ہے، اسے پورے جوش و خروش کے ساتھ دوسروں تک پہنچاؤ کہ اس کے بغیر اس کا مقصد اور مصرف پورا نہیں ہو گا۔

تیسرا شعر ہے:

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

’تو‘ سے پڑھنے والے کی طرف تخاطب ہے۔ یہ پڑھنے والا یا سننے والا عام انسان بھی ہوسکتا ہے اور اقبال کی فکر و فلسفہ کا مرکز توجہ ہونے کی وجہ سے اُمت مسلمہ کا فرد بھی، آئینہ دل کا استعارہ ہے۔ اسی آئینہ میں حقیقت مطلقہ جسے پہلے شعر میں حقیقت منتظر کہا ہے یعنی خدا کا عکس یا پرتو نظر آتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اے سننے/ پڑھنے والو/ اے مسلمانوں اپنے دل کے آئینہ کو بچابچا کے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اس آئینہ کا ٹوٹنا ہی تمہارے بننے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ آئینہ/ یعنی دل کا ٹوٹنا عشق میں ناکام ہونے کا اشاریہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آئینہ بنانے والے کی نظر میں یعنی اﷲ تعالیٰ کی نظر میں اس آئینہ کا ٹوٹنا یعنی عشقِ الٰہی میں مبتلا ہونا ہی سب سے اہم ہے۔ جو لوگ اس آئینے کو بچابچا کر رکھتے ہیں ان کی اﷲ تعالیٰ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چوتھا شعر:

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن

نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں

اس شعر میں روایتی غزل میں رائج دو استعارے شمع اور پروانہ یعنی کرمک اور شمع استعمال کیے گئے ہیں، اور انہی کی رعایت سے دوسرے مصرعہ میں جلنا (سوز) اور پگھلنا (گداز) کا استعمال ہوا ہے۔ یہ دونوں کردار اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ دونوں اپنے آپ کو کسی مقصد کے لیے فنا کر دیتے ہیں۔ دونوں عشق کے مارے ہوئے ہیں۔ پروانہ شمع کے گرد چکر لگا لگا کر اپنے آپ کو جلا ڈالتا ہے اور شمع اندر ہی اندر اپنے آپ کو پگھلا پگھلا کر ختم کر دیتی ہے۔ ان دونوں باتوں کو ذہن میں رکھ کر پروانے کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ ہمارے عشق کے مظاہر یعنی جلنے اور پگھلنے میں پہلے جو اثر پایا جاتا تھا (اثر کہن) وہ اب باقی نہیں رہا ہے۔ یعنی ملت میں وہ خلوص اور عشق کی آگ، وہ لگن، بڑے مقاصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دینے، وقف کر دینے کا جذبہ باقی نہیں رہا ہے جو کبھی اس کے اندر ہوا کرتا تھا۔

پانچواں شعر ہے:

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

شعر کا تخاطب براہِ راست خالق کائنات سے ہے، اور عفو و در گزر اس کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ شعر کے دو کردار بندہ (غلام) اور بندہ نواز (خدا) ہیں۔ بندہ کی صفت اس کی گنہ گاری اور خطا و نسیان کا پتلا ہونا ہے۔ اس کے لیے شاعر نے ’جرم خانہ خراب‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ خانہ خراب کہتے ہیں گھر کو تباہ و برباد کرنے والے کو۔ اس کے ساتھ جرم لگا کر جو ترکیب بنائی تو اس کا مطلب ہوا ایسا جرم جو گھر کو تباہ و برباد کرنے والا ہو۔

اسی طرح مالک یا خدا کی صفت بندہ نوازی یا بندوں کو، غلاموں کو نوازنا ہے۔ اس بندہ نوازی کا ایک حصہ اس کو معاف کیا جانا (عفو) بھی ہے۔ بندہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے آپ کی رحمت کے علاوہ کہیں چین و سکون اور امن و امان کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہے۔ صرف تیرا ہی سہارا ہے جہاں میرے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ بے شک تو گنہ گاروں کو معاف فرمانے والا ہے۔

پروفیسر انصاری نے اس سلسلہ میں بہت پتے کی بات لکھی ہے کہ:

’’گناہ اور عفو کی جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ بیرونی اور رسمی طور کی اخلاقی درجہ بندی نہیں ہے۔ گناہ اور عفو یقیناً دو بڑی حدود ہیں۔ ’عفو‘ بھی محبت ہی کی ایک شکل ہے کہ محبت ہی جذبۂ عفو کو مہمیز کرتی ہے۔ لہٰذا ’جرم خانہ خراب‘ کا عفو بندہ نواز‘ میں پناہ ڈھونڈنا یا پانا دراصل لطف و محبت اور وابستگی کے آفاق گیر رشتے کی توثیق کرنا ہے۔ ‘‘ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں از اسلوب احمد انصاری، غالب اکیڈمی، نئی دہلی ۱۹۹۴ء، ص:۲۳۹)

چھٹا شعر ہے:

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

اس شعر کی بنیاد ایک تلمیح پر ہے جو محمود غزنوی اور اس کے غلام ایاز کی ہے۔ اقبال کو یہ تلمیح مختلف اسباب سے پسند ہے اس لیے مختلف اشعار میں بار بار اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ کہتے ہیں :

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

مذکورہ بالا شعر میں وہ اشارہ بعید ہے جو ماضی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور پہلے مصرعہ کے عشق اور حسن کی رعایت سے اسی ترتیب سے غزنوی اور ایاز استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے لف و نثر مرتب کی صنعت پیدا ہو گئی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ماضی میں حسن و عشق میں جیسی خوبیاں پائی جاتی تھیں آج کے دور میں وہ سب عنقا ہیں یعنی ختم ہو گئی ہیں۔ یہی نہیں غلام اور مالک کے رشتے بھی ویسے نہیں رہے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مرتبے سے گر چکے ہیں۔ کسی حد تک یہ شعر روایتی غزل کے قریب پہنچ جاتا ہے۔

غزل کا آخری شعر ہے:

جو میں سربہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

سر بہ سجدہ ہونا سجدہ کرنے کو کہتے ہیں، صنم بت کو کہتے ہیں اور صنم آشنا ہونا بت پرست ہونے کو کہتے ہیں۔ جس کے معنی خدا کو ایک نہ ماننا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب کبھی میں سجدہ کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کے اندر سے یہ آواز آ رہی ہے کہ تمہارے دل میں تو کوئی اور بیٹھا ہوا ہے، تمہارے دل میں غیر اﷲ بیٹھا ہوا ہے، تم کو اس سجدہ سے کیا حاصل ہو گا۔ تمہارے لیے اس سجدہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

درحقیقت یہ شعر خدا کی وحدت کا اقرار ہے۔ یہ سمجھناکہ ایمان صرف زبان سے کلمہ پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ عمل سے بھی اس کا اقرار کرنا ہے۔ عام طورسے ہم زبان سے لا الہ الا اﷲ پڑھتے تو ہیں لیکن عملی طور پر اس بات کا اقرار کرتے رہتے ہیں کہ دراصل خدا کے کرنے سے نہیں بندوں کے کرنے سے ہوتا ہے۔ ہمارے عہدے سے، مرتبہ سے، ڈگری سے، پیسے سے، یعنی مادی چیزوں سے سب کچھ ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر تمہارے دل میں اس عہدے، مرتبہ، روپیہ، پیسہ اور ڈگری کا بت بیٹھا ہوا ہے، اگر یہ خیال جاگزیں ہے کہ کامیابی دراصل ان چیزوں سے ملتی ہے تو تمھیں سجدہ کرنے یعنی اﷲ کی عبادت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

 

اقبالؔ کی دوسری غزل کا متن:

 

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

 

تہی زندگی سے نہیں یہ فَضائیں

یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

 

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

 

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم

مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

 

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

 

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

 

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں

 

تشریح:

 

یہ غزل اقبال کے دوسرے شعری مجموعے ’بالِ جبرئیل‘ سے لی گئی ہے۔ غزل کی ردیف اور بھی ہیں، خاص طورسے اہم ہے اور اس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف اس ردیف کے مطالعہ سے انداز ہوتا ہے کہ شاعر کائنات کے ظاہری مظاہر سے آگے کی بات کر رہا ہے۔ مثلاً پہلے شعر میں ستاروں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ستاروں سے آگے بھی بہت سی دنیائیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہاں ستاروں کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ کسی اور چیز کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا؟ جمع کے صیغہ کا انتخاب کرنے کے بجائے واحد کے صیغہ کا انتخاب کیوں نہیں کہا گیا؟ مثلاً یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ ستارہ سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔ ظاہر ہے اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ ستارے تو بہت سے ہیں۔ شاعر کس ستارے کی بات کر رہا ہے؟ الگ الگ ستاروں کی الگ الگ خوبیاں ہیں، لیکن ایک خوبی سب میں مشترک ہے وہ ہے بلندی۔ اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ستارے اس فضا میں جتنی بلندی پر واقع ہیں ان کے اور اوپر بھی بہت سی دنیائیں آباد ہیں۔ بس ان دنیاؤں تک پہنچنا شرط ہے، اور ہر نئی دنیا ہماری لگن، ہمارے شوق، ہمارے دھن کے پکے ہونے کا امتحان لیتی ہے۔ اپنے مقصد کو پانے کے لیے ہمارے اندر جو لگن پائی جاتی ہے، اقبال اسی لگن کو عشق کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ اس لگن کے ابھی بہت سے امتحان باقی ہیں۔ ہرنیا تارا جو سائنس داں دریافت کرتے ہیں کسی اور نئے تارے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسی بات کو حالی نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ؟

اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں ؟

غالبؔ کے الفاظ میں یہی بات یوں ادا ہوئی ہے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

اس غزل کا دوسرا شعر ہے:

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں

یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

لفظ                   معنی

تہی                   خالی

فضا                   زمین کی فراخی، کھلا میدان، جگہ کی وسعت

کارواں               قافلہ

شاعر کہتا ہے کہ زمین کی یہ فراخی، یا کشادگی یعنی یہ دنیا زندگی کی رونقوں سے، زندگی کی حرکتوں اور برکتوں سے خالی نہیں ہے کہ ہر دم رواں ہے یَم زندگی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے قافلہ کے علاوہ یعنی ہماری قوم و ملت کے علاوہ بھی دنیا میں اور بہت سے کارواں، یعنی بہت سی قومیں اور بہت سی ملتیں موجود ہیں اور انہی سے زندگی کی، کائنات کی رونق باقی ہے۔ اسی بات کو غالب نے اپنے خاص انداز میں یوں ادا کیا ہے:

ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

اس غزل کا تیسرا شعر ہے:

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

قناعت کرنا کہتے ہیں تھوڑی سی چیز پر راضی ہو جانے کو۔ اقبال کے یہاں یہ لفظ اور دوسری جگہوں پر بھی آیا ہے جیسے:

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا

یہ اقبال کے نظامِ فکر میں ایک ناپسندیدہ صفت ہے۔

عالم رنگ و بو، مادی/ ظاہری دنیا کے لیے استعمال کیا ہے جیسے ’مکالمہ مابین خدا و انسان‘ میں جبریل، ابلیس سے پوچھتے ہیں :

ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو؟

یعنی جس ظاہر/ مادی دنیا میں تم گئے ہو وہ کیسی ہے؟

زیرِ مطالعہ غزل کے اس تیسرے شعر میں اقبال اپنی اس بنیادی فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صرف اس ظاہر اور مادی دنیا پر قناعت نہیں کر لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی اور اسی کے مساوی اور بہت سی دنیائیں ایک ہی وقت میں آباد ہیں، اور ان دنیاؤں میں بھی بہت سے باغ اور بہت سے آشیاں آباد ہیں۔ تم ذرا سا ہمت تو کر کے دیکھو، اپنی نظر کو کشادہ اور اپنے حوصلے کو بلند تو کر کے دیکھو، اپنی طلب کے دائرہ کو بڑھا کر کے دیکھو اﷲ تعالیٰ تمھیں کیا کیا کچھ عنایت کرسکتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو جواب شکوہ میں اقبال نے اﷲ تعالیٰ کے ذریعے ادا کروائی ہے:

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

اس غزل کا چوتھا شعر ہے:

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم

مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

نشیمن                گھونسلا، آشیانہ، مسکن، مکان

مقامات              جگہیں

آہ و فغاں          شور، دُہائی، فریاد، نالہ

ظاہری معنی اس شعر کے یہ ہیں کہ اگر ایک گھر، ایک وطن، ایک گھونسلا یا مسکن ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا ہے یا چھن گیا ہے تو اس سے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ نالہ و فریاد کی اور بہت سی جگہیں ابھی باقی ہیں۔ لیکن شاعر نے آہ و فغاں سے یہاں جو مراد لیا ہے وہ لغوی معنی نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہماری ہمت اور ہمارے حوصلہ کی بلندی کے ابھی بہت سے مواقع آنے باقی ہیں۔ خدا کی زمین بہت کشادہ ہے اور ہماری ہمت اور ہمارے حوصلہ کے لیے کھلی پڑی ہے۔ ہم جس ملک میں جائیں اسے اپنا ملک بنا سکتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات سے پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔

اس غزل کا پانچواں شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہو گیا ہے:

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

شاہین ایک بلند پرواز پرندہ ہے۔ علامہ اقبال نے اسے مردِ مومن/ مردِ کامل کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے، خود علامہ نے لکھا ہے کہ شاہین میں تین صفات پائی جاتی ہیں : (۱) وہ بلند پرواز ہوتا ہے (۲) آشیانہ نہیں بناتا (۳)کسی کا مارا ہوا نہیں کھاتا۔ اس شعر میں انھوں نے صرف بلند پروازی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی تمہاری اصل بلند پروازی ہے، اس لیے تمہیں صرف اس ظاہری / مادی دنیا کے معاملات و مسائل سے سروکار نہیں رکھناچاہیے، بلکہ ذہنی اور فکری بلندی اور کشادگی سے کام لینا چاہیے۔ آسمان یہاں بلندی کا استعارہ ہے، یعنی اگر تم اپنے حوصلہ کو چھوٹا نہیں کرو تو بے شمار بلندیاں، دینی اور دنیاوی ترقیاں تمہارے انتظار میں، تمہارے زیرِ دام آنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک اور شعر میں شاہین کی ایک دوسری صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں :

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اس غزل کا چھٹا شعر بھی علامہ کے اسی پیغام کو بہ اندازِ دیگر پیش کرتا ہے:

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

یہاں بھی اور بھی ہیں، کی ردیف اپنا کام بہت پُر زور انداز میں کر رہی ہے۔ اردو کی روایتی غزلیہ شاعری کا بہت خوب صورت شعر ہے:

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے                    عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

یہ ایک passive یعنی انفعالی رویہ ہے۔ اقبالؔ کی فکر اس کے برعکس Active یعنی فعال ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ رات اور دن کی مصروفیات میں گزرنے والی زندگی، کھانے پینے، سونے جاگنے اور اُٹھنے بیٹھنے، تجارت، سیاست، صحافت، نوکری، کھیتی باڑی، دنیاوی تعلقات سے اوپر ہونے، ان سے بلند ہونے کی ضرورت ہے۔ اُمتِ مسلمہ کو، خیر اُمت کو اﷲ تعالیٰ نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح زندگی کی انھیں چھوٹی چھوٹی مصروفیات میں الجھی رہے بلکہ اس کے لیے بھیجا ہے کہ وہ ان سے اوپر اُٹھ کر ان سے پرے جا کر دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔ ہمیں ایک اور دنیا آباد کرنی ہے اور اس دنیا کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے اور وہ دنیا آخرت کی دنیا ہے، اس کے زمان و مکان ہیں۔ اصل کامیابی تو اس دنیا کی یعنی آخرت کی کامیابی ہے۔ اس لیے اس کی فکر کرنا چاہیے۔

اس غزل کا آخری شعر ہے:

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں

بحر، ردیف اور قافیہ سب ایک ہونے کے باوجود اس غزل کا یہ آخری شعر اس غزل کے بقیہ اشعار سے الگ رنگ و آہنگ رکھتا ہے۔ یہاں شاعر اپنی فکر کے عام ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اب وہ دن باقی نہیں رہے ہیں جب میں اس انجمن میں فکری اعتبار سے الگ تھلگ پڑا ہوا تھا۔ کوئی میری بات کو سمجھنے والا نہیں تھا، اب آہستہ آہستہ لوگ میری بات کو سمجھنے لگے ہیں، میرا پیغام عام ہونے لگا ہے۔ اس لیے اب میں اس محفل میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے رازوں کو جاننے اور سمجھنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں۔

٭٭٭


 

 

فیضؔ احمد فیض

 

 

تمہید:

 

فیض احمد فیضؔ کا تعلق ترقی پسند تحریک سے ہے۔ یہ تحریک ہندوستان میں ۱۹۳۶ء میں شروع ہوئی۔ اس نے شعر و ادب کا تعلق عوامی زندگی سے جوڑا۔ اس نے کہا کہ شعر و ادب کو عوامی زندگی کا ترجمان ہونا چاہیے اور اسے اپنے سماج کی خامیوں اور کمیوں پر نظر رکھنی چاہیے، اور شعر و ادب کے ذریعے اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسے غریبوں، مزدوروں، محنت کشوں اور دبے کچلے ہوئے لوگوں اور مظلوموں کا ہمدرد ہونا چاہیے۔ اچھا اور بڑا ادب ترقی پسند ادب ہے۔ وہ ادب جو ظالموں کا ساتھ دیتا ہے، جو اوپری طبقہ کا ساتھ دیتا ہے، وہ زوال پذیر ادب ہوتا ہے اور زوال پذیر ادب بڑا اور عظیم نہیں ہوسکتا۔

 

مصنف کا تعارف:

 

فیض احمد فیضؔ ۱۳؍ فروری ۱۹۱۱ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسکاچ مشن ہائی اسکول، سیالکوٹ میں حاصل کی۔ سیالکوٹ کے ہی مَرے کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور اورینٹل کالج لاہور سے عربی ادب میں ایم اے کیا۔

۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۰ء تک ایم۔ اے۔ او کالج لاہور میں انگریزی کے استاد رہے۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۲ء تک ہُبلی کالج لاہور میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۳۶ء میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی پنجاب شاخ کی بنیاد ڈالی اور اس کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۲ء تک ماہنامہ ادبِ لطیف کے مدیر رہے۔ ۱۹۴۱ء میں پہلا مجموعۂ کلام ’نقشِ فریادی‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک فوج میں لفٹیننٹ کرنل رہے۔ بعد ازاں انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائمز اور اردو روزنامہ امروز کے ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۵۱ء میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر ہوئے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۰ء تک عالمی امن کونسل کی منتظمہ کے رُکن رہے۔ ۱۹۵۱ء میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور ۱۹۵۵ء میں رِہا ہوئے۔ دسمبر ۱۹۵۸ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے اور اپریل ۱۹۵۹ء میں رہا ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں بین الاقوامی لینن امن انعام ملا، ۱۹۷۶ء میں ایفرو ایشیائی ادبی لوٹس انعام سے سرفراز ہوئے۔ ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۲ء تک مجلہ Lotus بیروت کے مدیر اعلیٰ رہے۔

فیضؔ کی شاعری کے درج ذیل مجموعے شائع ہوئے:

(۱)  نقشِ فریادی                       (۲)  دستِ صبا              (۳)  زنداں نامہ            (۴)  دستِ تہ سنگ

(۵)  سروادیِ سینا                      (۶)  شام شہریاراں         (۷)  میرے دل میرے مسافر۔

نثر میں ان کی جو کتابیں شائع ہوئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :

(۱)  میزان (تنقیدی مضامین)                (۲)  صلیبیں میرے دریچے میں (خطوط)

(۳) متاع لوح و قلم (تقاریر اور متفرق تحریریں )           (۴) مہ و سال آشنائی (یادیں اور تاثرات)

(۵) قرض دوستاں (مقدمے، دیباچے اور فلیپ)

ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، روسی، فارسی، عربی، جاپانی، منگولین، بنگالی، ہندی، نیپالی اور کئی دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

 

زبان و اسلوب:

 

فیضؔ کی زبان پر کلاسیکی غزل کے اثرات بہت واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ اس میں اضافتوں کی کثرت اور فارسی تراکیب کی موجودگی کے ساتھ Long Vowels کے استعمال سے پیدا ایک خاص طرح کی موسیقیت اپنا جادو جگاتی ہے۔ کہیں کہیں تو بالکل غالبؔ کا انداز معلوم ہوتا ہے:

حسن، مرہونِ جوشِ بادۂ ناز

عشق، منت کشِ فسونِ نیاز

عشق، منت کشِ قرار نہیں

حسن، مجبورِ انتظار نہیں

القصہ مآلِ غمِ الفت پہ ہنسو تم

فکرِ دلداریِ گلزار کروں یا نہ کروں

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصۂ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں

شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

گرانیِ شبِ ہجراں دو چند کیا کرتے

یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم

سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم

 

فیضؔ کی پہلی غزل ہے:

 

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

 

قفس اُداس ہے یارو، صباسے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

 

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سر کاکل سے مشک بار چلے

 

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

 

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

 

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

 

مقام فیضؔ، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

 

شعری خصوصیات:

 

اردو غزل کی پوری روایت میں فیض کی غزل گوئی اس اعتبار سے بالخصوص ممتاز نظر آتی ہے کہ اس نے کلاسیکی شاعری کے دنیا کو دنی یعنی کمینہ سمجھنے کے نقطۂ نظر کے برعکس دنیا کو اہمیت دی، کار دنیا کو اہمیت دی، اتنی اہمیت دی کہ یہ محبوب کی یاد سے بھی اسے غافل کرسکتی ہے جیساکہ اس شعر میں کہا گیا ہے:

دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

اسی طرح غزل کی روایتی لفظیات کو فیض نے انقلابی اور سیاسی شاعری کے لیے استعمال کیا۔ پہلی مرتبہ دارو رسن کو چومنے کی بات کی گئی ہے۔ فیض کے یہ اشعار دیکھیں :

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک کہ ستم کی سیاہ رات چلے

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

تری رہ میں کرتے تھے سرطلب سر رہ گزار چلے گئے

چمن میں غارت گلچیں سے جانے کیا گزری

قفس میں آج صبا بے قرار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

ان اشعار میں استعمال ہونے والے الفاظ، چمن، غارت گری، گلچیں، جاں نثار، سب سیاسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف ملک کی آزادی کے جذبہ کو پیش کرنے والے اور بھڑکانے والے ان اشعار کو جیسی تہہ در تہہ معنویت فیض نے بخش دی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ کھلے الفاظ میں، عام ترقی پسند شاعروں کی نعرہ بازی والی شاعری کے برعکس انھوں نے خوب صورت استعاروں کے پردہ میں اپنی بات اس طرح ادا کی ہے کہ جب تک رک کر غور نہیں کیا جائے وہ معنی سمجھ میں نہیں آتے۔

 

تشریح:

 

اس غزل کا پہلا شعر ہے:

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلوں میں رنگ بھرنا کیا ہوتا ہے؟ پھو ل تو رنگین ہوتے ہی ہیں، کیا کوئی بے رنگ پھول بھی ہوتا ہے؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ گلوں میں رنگ بھرنے سے شاعر کی مراد پھولوں کے کھلنے اور موسم بہار کے آنے سے ہے۔ اسی مصرعہ کے دوسرے حصے میں اس کی مزید وضاحت موجود ہے جس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ یعنی:

باد نو بہار چلے

یعنی بہار کے موسم میں چلنے والی فرحت بخش ہوائیں چلنے لگی ہیں، لیکن ذرا سا رُکیے۔ جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پہلے مصرعہ کو ذرا سا پھر سے دوبارہ، سہ بارہ پڑھیے۔ دوچار بار پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مصرعہ صرف خبریہ نہیں ہے۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس مصرعہ میں صرف یہ خبر دی گئی ہے کہ بہار کا موسم آگیا ہے، پھول کھل چکے ہیں اور اس موسم کی فرحت بخشنے والی ہوائیں چل رہی ہیں اور اس خبر کی وجہ سے دوسرے مصرعہ میں محبوب سے یہ درخواست کی جا رہی ہے کہ اے میرے محبوب اس حسین موسم میں بس تمہاری کمی رہ گئی۔ اگر تم بھی آ جاؤ تو اس کی خوش گواری کو چار چاند لگ جائیں اور بہار کی تصویر مکمل ہو جائے۔ یعنی سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی تمہاری یعنی محبوب کی غیر موجودگی میں یہ چیزیں بے کار ہیں۔

دوسرا شعر:

قفس اُداس ہے یارو، صباسے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

قفس، قید خانہ یا پنجرے کو کہتے ہیں۔ شاعر دوستوں کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اے دوستو! پورا قید خانہ اُداس ہے۔ ہر طرف مایوسی اور اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ اس اُداسی کو دور کرنے کا کوئی طریقہ تو ہونا چاہیے؟ خدا کے لیے اس اُداسی کو دور کرو۔ اس طرح سے زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟ اس طرح سے تو زندگی گزر ہی نہیں سکتی ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے واحد متکلم/ راوی تازہ تازہ قید خانے میں آیا ہے۔ ابھی وہ یہاں کے ماحول کا عادی نہیں ہوا ہے۔ اس لیے اُسے یہاں کی اُداسی کھٹکتی ہے، پریشان کرتی ہے۔ ورنہ اُداسی تو قید خانے کے ماحول کا بنیادی حصہ ہے، لیکن پھر وہ یہاں کے حالات کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں کسی طرح کا ہائے و ہو ممکن نہیں ہے، جوش و خروش ممکن نہیں، یہاں تو ہر چہرہ پر مردنی ہی مردنی چھائی ہوئی ہے۔ دلوں میں کوئی جوش و ولولہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ باد صبا کا سہارا لیتا ہے۔ باد صبا کو ذریعہ بنانا اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام دوسرے ذرائع مفقود ہو گئے ہیں۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ کس بات کے لیے باد صبا کا سہارا لیا جا رہا ہے؟ اس بات کے لیے باد صبا کا سہارا لیا جا رہا ہے کہ کسی طرف سے محبوب کے ذکر کی خبر لائے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں خبر لائے؟ محبوب کے ذکر کی خبر لانے کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا جواب چھپا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس لیے محبوب کے ذکر اور اس ذکر کی خبر کی ضرورت ہے کہ دلوں کی اُداسی دور ہو۔ محبوب کے ذکر سے انسان کے اندر ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر تو دور کی بات ہے ذکر کی اگر خبر بھی آ جائے تو وہ بھی جوش و ولولہ پیدا کر دینے والی ہو گی۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ دوسرا مصرعہ یوں بھی تو کہا جا سکتاتھا:

کوئی تو بہر خدا آج ذکر یار کرو

خود ذکر یار کرنے سے جتنا جوش پیدا ہوسکتا ہے وہ صرف ذکر یار کی خبر سے تو کبھی نہیں ہوسکتا ہے، لیکن شعر کے پہلے لفظ ’قفس‘ کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید قید خانے میں محبوب کا ذکر کرنے کی اجازت نہ ہو، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کون سا محبوب ہو گا کہ جس کے ذکر سے قید خانے کے ذمہ داروں یا حکمراں طبقہ کے لوگوں کو پریشانی ہوسکتی ہے؟ کیا کوئی مادی محبوب، گوشت پوست کا محبوب ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا محبوب حقیقی یعنی اﷲ تعالیٰ کے ذکر پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے؟ گو بعض حالات میں ایسا بھی ہوا ہے لیکن فیض کی شاعری کے پس منظر کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محبوب وطن اور اس کی آزادی ہے جو فیضؔ کی شاعری کا بنیادی محرک اور موضوع ہے۔ ظاہر ہے قید خانے میں اس کے ذکر کی اجازت نہیں ہوسکتی، اسی لیے شاعر دوستوں سے تخاطب اختیار کرتا ہے۔ دوسری تیسری مرتبہ پڑھنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ شاید قفس کے لفظ کو بھی شاعر نے اس کے حقیقی معنی میں استعمال کرنے کے بجائے غلام ملک کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ پورا ملک اُداس ہے۔ ہم یہاں اپنی آزادی کی آواز بلند نہیں کرسکتے ہیں تو کیا ہوا، ہمارے دوست، احباب اور ہمدرد جو دوسری جگہوں پر ہیں وہ تو ہماری آزادی کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ شاید اُسی کو سن کر ہمارے اندر نیا جوش و جذبہ پیدا ہو۔

تیسرا شعر ہے:

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سر کاکل سے مشک بار چلے

شعر میں استعمال ہونے والا پہلا لفظ ’کبھی‘ سب سے پہلے ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ فوراً خیال ہوتا ہے کہ لفظ کبھی سے شاعر بات کیوں شروع کر رہا ہے؟ پھر یہ دیکھیں کہ اس کے بعد کس بات کا ذکر کر رہا ہے؟ پہلے مصرعہ میں کبھی کے بعد جو الفاظ آتے ہیں وہ صبح، کنج، لب، ہیں۔ ترے، محبوب کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ محبوب کے تصور کے ساتھ ایک خوش گواری اور فرحت کا تصور اُبھرتا ہے۔ زندگی کی مثبت قدروں کا تصور اُبھرتا ہے۔ لب کو محبوب کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں تو مزید خوش گواری پیدا ہوتی ہے کہ یہ نازک اور رنگین اور دل کش ہوتے ہیں۔ ان ہونٹوں کے نسبتاً بستہ ہونے کے لیے کنج کا استعارہ اور بھی امن اور عافیت کا ماحول پیدا کرتا ہے اور پھر ان سب میں اضافہ صبح کے وقت کی خوش گوار ہوا اور ماحول سے ہوتا ہے۔ بغیر مفہوم کی گہرائی میں گئے ہوئے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ جیسے زندگی کی یہ خوش گواری شاعر/ واحد متکلم یا راوی کو حاصل نہیں ہے اور وہ زندگی کی خوش گواریوں کے حصول کی تمنا کر رہا ہے۔ اس میں یہ خیال بھی ہے کہ اگر ہمیشہ لطف و لذت کا یہ حصول ممکن نہیں تو کبھی کبھی تو اسے حاصل کیا ہی جا سکتا ہے۔ افسوس کہ کبھی کبھی بھی لطف و لذت کا یہ حصول ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کون سا لطف؟ کون سی لذت؟ جواب سیدھا سا ہے۔ زندگی کا یہ لطف کہ صبح کو جب آنکھ کھلے تو محبوب کی کانوں میں رس گھولنے والی آواز سنائی دے رہی ہو۔ اس کے نازک اور حسین ہونٹ ہمیں دعوت نظارہ دے رہے ہوں، لیکن افسوس کہ ہماری زندگی میں یہ خوش گوار دن کبھی نہیں آتا۔ محبوب سے قرب کی ساعت میسر نہیں ہے۔

محبوب سے قرب کی ساعت کی اسی خوش گواری کو شاعر پھر دوسرے مصرعہ میں بہ انداز دگر بیان کرتا ہے کہ کبھی تو ایسا ہو کہ ہماری راتیں خوش گوار ہو جائیں۔ اتنی خوش گوار ہو جائیں کہ محبوب کے کاکلوں کی خوشبو ہماری مشام جاں کو معطر کر دے۔ افسوس کہ کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ زندگی کی ناخوش گواری ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی، ’کبھی‘ میں یہ پہلو بھی چھپا ہوا ہے کہ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوتا۔

چوتھا شعر ہے:

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

اس شعر میں شاعر ایک بہت بنیادی بات کہتا ہے اور وہ بات یہ ہے کہ درد کا، دکھ کا، غم کا جو رشتہ ہوتا ہے وہ بہت Durable ہوتا ہے۔ وہ تعلقات جن میں ہمدردی کا، غم گساری کا جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے وہ بہت دور تک اور دیر تک باقی رہتے ہیں۔ اس بنیادی Thesis پر شاعر یہ عمارت بناتا ہے کہ ظاہری مال و دولت کے حساب سے کوئی کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو، ایک طرح کا درد، ایک طرح کا دکھ، ایک طرح کی تکلیف کی حالت میں جینے کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔

دوسرے مصرعہ میں آنے والا لفظ ’تمہارے‘ وضاحت طلب ہے، لیکن فیض اور اُن کے دور کو دیکھتے ہوئے اسے ملک و قوم سے منسوب و مختص کیا جا سکتا ہے۔ اے میرے عزیز ملک تمہارے باسی / باشندے کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں تمہاری غلامی کے غم میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے وہ ہر آواز پر لبیک کہیں گے۔ خواہ وہ آواز طوق و زنجیر کی ہو یا دار کی کبھی وہ اس سے منھ نہیں موڑیں گے۔ اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ تمہارے کی عمومیت کی وجہ سے مختلف تناظر میں اسے ایک سے زیادہ معنی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پانچواں شعر ہے:

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

اس شعر کی خوبی یہ ہے کہ شاعر/ واحد متکلم/ راوی اپنی تکالیف کا بیان نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ بات شروع یہیں سے کر رہا ہے کہ ہماری تکلیفوں کو تو چھوڑو۔ ہم پر تو جو گزرنی تھی سو گزر ہی گئی لیکن اے وہ رات جو محبوب کے ہجر/ فراق میں گزری ہے یا وطن کے ہجر یا فراق میں گزری ہے۔ اس ہجر کی تکلیف میں، تم سے دوری کے اس کرب میں میں نے جو آنسو بہائے ہیں، ان آنسوؤں کی وجہ سے تمہاری عاقبت سنور گئی ہے۔ تمہارا مرتبہ بلند ہو گیا ہے، لوگ تمہیں یاد کرنے لگے ہیں اور آنے والے دنوں میں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے یہ کہ اسی گریہ و زاری کی وجہ سے دوسروں کے دلوں میں بھی تمہاری محبت کی آگ روشن ہوئی ہے۔ دوسروں نے بھی ملک کی آزادی کے خواب دیکھنے شروع کر دیے ہیں۔

چھٹا شعر ہے:

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

اس شعر کا سب سے نمایاں، ممتاز اور اُبھرا ہوا لفظ ’جنوں ‘ ہے، آپ چاہیں تو اسے اس شعر کا مرکزی لفظ بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ ہمارے جنوں یا دیوانگی کی شدت اور شہرت اتنی بڑھی، اتنی بڑھی کہ محبوب بھی اس کے لیے مجبور ہو گیا۔ اس کی بھی اس میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ ہمارے جنون کی تفصیلات پتہ کرے۔ سو اس نے ہمیں ہمارے جنون کی کار گزاریوں کے ساتھ اپنی خدمت میں طلب کیا ہے۔ ظاہر ہے مجنوں کے پاس اپنی کارگزاری کو ظاہر کرنے کے لیے کیا ثبوت ہوسکتا ہے؟ اس کا سارا بس تو اپنے گریبان پر چلتا ہے۔ سو ہم بھی اپنے جنون کی کارگزاری کے طور پر اپنے چاک گریبان کے ٹکڑے لے کر محبوب کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ یہی ہمارا کارنامہ ہے۔

سیاسی تناظر میں شعر کا مطالعہ کریں تو اس کے معنی یہ ہوسکتے ہیں ملک سے ہماری محبت یا وفاداری یا غیرملکی حکومت سے نفرت و بیزاری اور بغاوت کی ہماری اتنی شہرت ہوئی ہے کہ حکمران وقت نے ہمیں اپنی خدمت میں طلب کیا ہے کہ ہم اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشتبہ کارکردگیوں کی وضاحت پیش کریں۔ سو ہم اپنی یہی کارگزاری (گریبان کا تار تار) لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں۔

غزل کا مقطع ہے:

مقام فیضؔ، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

شاعر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ مجھے تو اس بھری پُری کائنات میں دو ہی چیزوں سے عشق ہے۔ ایک اپنے محبوب سے اور دوسرے اپنے ملک سے۔ اس لیے میری پسندیدہ جگہیں بھی دو ہی ہیں۔ ایک کو محبوب کی گلی کہتے ہیں اور دوسرے کو پھانسی کا تختہ۔ پہلے کے نتیجہ میں عاشق محبوب کی گلی میں رسوا ہوتا ہے اور دوسرے کے نتیجہ میں پھانسی کے تختہ پر چڑھ کر اپنی زندگی قربان کر دیتا ہے۔ اس شعر کی تفصیل ان کی نظم ’دو عشق‘ میں ملتی ہے۔

 

دوسری غزل:

 

 

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

 

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اُداس ہیں

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

 

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

 

دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

 

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض

مت پوچھ حوصلے دلِ نا کردہ کار کے

 

تشریح:

 

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

سب پہلے جو لفظ اپنی طرف توجہ مبذول کراتا ہے وہ ’دونوں جہان‘ ہے۔ عام طورسے ہماری شاعری میں اس عالم رنگ و بو یعنی مادی دنیا کی ہی بات ہوتی ہے جسے دنی یعنی کمینہ سمجھ کر نظرانداز یا ردّ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے مقابلہ میں ’اخروی زندگی‘ کو، موت کے بعد کی زندگی یا روحانی زندگی کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں پہلی بار اس مادی دنیا کو دنی (کمینہ) اور نقش فانی نہیں سمجھنے پر زور دیا جانے لگا۔ اس کی اہمیت پر بھی اصرار کیا جانے لگا۔ فیضؔ کی شاعری میں یہ رجحان بکثرت ملتا ہے۔ چنانچہ شعر زیر بحث میں دونوں جہاں کہہ کر شاعر نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ اے محبوب تمہاری محبت میں دنیا اور آخرت دونوں کو چھوڑ کر کوئی شخص اس دنیا سے جا رہا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ’کوئی‘ کے استعمال کے ذریعہ تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے۔ وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے، کہنے کے بجائے شاعر یہ بھی کہہ سکتاتھا:

میں جا رہا ہوں اب تو شبِ غم گزار کے

یا                      وہ جا رہا ہے اب تو شب غم گزار کے

لیکن ان دونوں صورتوں میں ’کوئی‘ والا تجاہل پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح زندگی کے لیے ’شب غم‘ یعنی غم کی رات کا استعارہ استعمال کر کے شاعر نے عشق کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ دنیا، آخرت اور محبت تینوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسرے مصرعہ میں ’وہ جا رہا ہے… کے ذریعہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی شاعر کسی کو جاتا ہوا دکھا رہا ہے۔ وہ، اشارہ بعید ہے اور رات کے آخری پہر کے دھندلکے میں کوئی گم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

دوسرے شعر میں تخاطب پھر محبوب کی طرف ہے اور پوری کائنات پر محبوب کی غیر موجودگی کے اثرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ تمہارے چلے جانے کا اثر صرف مجھ پر ہی نہیں ہوا ہے، وہ بے جان چیزیں بھی اس سے متاثر ہوئی ہیں جن میں کوئی حس ظاہری یا باطنی نہیں پائی جاتی ہے۔ پورا شراب خانہ، شراب کا مٹکا اور شراب کا پیالہ سب ویران و اُداس ہو گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمہارا وجود بہار کے مترادف ہے اور تمہارے جانے سے بہار کا موسم روٹھ کر چلا گیا ہے۔ ساری رونق، ساری خوش گواری رخصت ہو گئی ہے۔

تیسرا شعر غالب کے اس شعر کی یاد تازہ کر دیتا ہے:

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

میرا سردامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض نے پوری زندگی کو ہی فرصت گناہ سے تعبیر کیا ہے اور شکوہ دراصل یہ اس مدت کے کم ہونے کا ہے کہ ہم میں گناہ کرنے کی، غلطیاں کرنے کی جتنی صلاحیت تھی، جتنا حوصلہ تھا اس کے مقابلے میں ہمیں مواقع کم میسر ہوئے۔ جب کہ غالب کم فرصتی کا شکوہ نہیں کرتا بلکہ اس بات پر اپنے شعر کی بنیاد رکھتا ہے کہ گناہ بھی تو اﷲتعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے لیکن اتنا کم پیدا کیا ہے کہ ہمارے حوصلے کی بلندی کے آگے وہ بہت بے اوقات ہے۔ بنیادی طور پر غالب کا شعر انسان کی عظمت کا رزمیہ ہے جیسے غالب کا مندرجہ ذیل شعر ہے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب۔ !

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

یعنی ہم نے تو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ابھی پہلا قدم ہی اُٹھایا تھا کہ وہ سارے امکانات ختم ہو گئے جو اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اب خواہشات کا دوسرا قدم کہاں رکھوں ؟ فیض کا شعر انسان کی عظمت کا رزمیہ بننے کے بجائے خدا کے مرتبے کو Underestimate کرتا ہوا یا کم کر کے دیکھتا اور دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی ہمارے حوصلے کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ کا حوصلہ بہت کم ہے۔ کاش اُس نے اور طویل زندگی دی ہوتی تو ہم نے اور زیادہ کارنامے انجام دیے ہوتے۔

ایک دوسری صورت یہ ہے کہ گنا ہ کو اگر Sin کے معنی میں، خدا کی نافرمانی کے معنی میں استعمال نہ کریں، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے معنی میں لیں، لیک سے ہٹ کر چلنے کے معنی میں سمجھیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم میں یعنی انسان میں اﷲ تعالیٰ نے جتنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں پیدا کی ہیں ان کے مقابلے میں ان کے ظہور کے مواقع بہت کم دیے ہیں۔ اس کے لیے تو عمر خضر بھی کم ہے۔ اس معنی میں یہ وہ شکایت ہے جو غالب نے اپنے ایک خط میں کی ہے کہ:

’’قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دیے ہیں بہ قدر یک ظہور میں نہ آئے۔ ‘‘ (خطوط غالب، جلد اوّل۔ مرتبہ خلیق انجم، ص:۴۱۷)

اس غزل کا چوتھا شعر ہے:

دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

یہ شعر کلاسیکی شاعری سے انحراف کی بہترین مثال ہے۔ کلاسیکی شاعری میں عشق سب سے بڑی دولت تھی خواہ وہ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی۔ دنیا بہت ہی حقیر اور کمینی چیز تھی جس پر بالکل توجہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ بعد کی شاعری میں دنیا کی محبت نے عشق کو اس مرتبہ سے نیچے گرا دیا ہے۔ فیض کے اس شعر میں اسی بات کا اظہار ہے۔ بعد کے زمانے میں شہریار کی شاعری میں اس جذبے نے بہت اہمیت حاصل کر لی:

مرکز دیدہ و دل تیرا تصور تھا کبھی

آج اس بات پہ کتنی ہنسی آتی ہے ہمیں

 

تجھ سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا

یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا

 

شہریارؔ

فیضؔ کے مذکورہ شعر میں زمانہ کے غموں کی دل کشی اور دل فریبی کا ذکر کیا گیا ہے کہ آج محبوب کے حسن سے زیادہ دل کش اس دنیا کا حسن ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے آج کا انسان اس دنیا کے حسن اور دل کشی میں کھو گیا ہے۔ اسے محبوب کا حسن اس کی دل کشی و دل فریبی اور اس سے متعلق یادیں اب پریشان نہیں کرتی ہیں۔ شیخ مبارک آبرو نے ایہام گوئی کے زمانہ میں اس مضمون کا بہت خوب صورت شعر کہا تھا:

اب دین ہوا زمانہ سازی

آفاق تمام دہریا ہے

غزل کا مقطع ہے:

بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض

مت پوچھ حوصلے دلِ نا کردہ کار کے

چوتھے شعر کے برعکس مقطع میں پھر محبوب کی دل کشی اور اس کے ظالم ہونے کا مضمون بیان ہوا ہے۔ پہلا لفظ ’بھولے‘ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عموماً وہ ایسی حرکت نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی ہے تو اسے غلطی سے آنا ہی کہا جا سکتا ہے لیکن اس بھول چوک کے باوجود اور اس کے ظالم ہونے کے باوجود اس کی دل کشی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ دوسرے مصرعہ میں بیان ہوا ہے۔ یعنی محبوب کے ایک تبسم کی وجہ سے میرے دل میں زندگی کی نئی للک اور نیا حوصلہ پیدا ہو گیا ہے۔ آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کی شدید خواہش پیدا ہو گئی ہے۔ اس شدت کے اظہار کو ’مت پوچھ ولولے‘ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں ہو گا۔

 

معاون کتب:

 

۱۔         نسخہ ہائے وفا                              فیض احمد فیضؔ

۲۔        فیض احمد فیضؔ                           ڈاکٹر شفیق اشرفی

۳۔        فیض احمد فیضؔ: تنقیدی جائزہ                  ڈاکٹر خلیق انجم

۴۔        ترقی پسند غزل                           ڈاکٹر سید سراج اجملی

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید