FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تتھاگت نظمیں

 

 

                ستیہ پال آنند

 

 

 

 

 

صدیوں پہلے اس دھرتی پر وارد ہوئے

اپنے پُرکھے

بھکشو آنند

کی اُس نیک آتما کی نذر

جس کا عشر عشیر مجھ میں بھی موجود ہے

 

 

 

 

 

نروان کا کوئی راستہ نہیں ملتا

 

میں تتھا گت کا چہیتا

پہلا چیلا

دور حاضر میں اگر جلتے، جھلستے راستوں پر

بھوک کی لاکھوں صلیبیں

اپنے پچھلے اور آگے آنے والے

لاکھوں جنموں کے ضعیف و ناتواں کندھوں پر رکھے

چل رہا ہوں

تو مجھے معلوم ہے

نروان سے آگے کوئی منزل نہیں ہے

صرف اک اندھی، اندھیری رات ہے

بے انت ہے

خالی زماں ہے

لا مکاں ہے !

میری اپنی، دوسروں کی

اور اُن سے پیشتر اُن دوسروں کی

جو تتھاگت بن نہیں پائے تھے، پر

( آنندؔ بننے کے لیے راضی نہیں تھے )

آتماؤں سے بھی پہلے کا جہاں ہے

یعنی اُس اندھی، اندھیری رات کا کوئی سویرا

ہو بھی سکتا ہے، تو شاید

اک نئی زنجیر کی پہلی کڑی ہے

بے سہارا، بے اماں ۰ جِیو آتما کے واسطے

لاکھوں نئے جنموں کا چکر

اک مکّرر سِلسلہ ہے !

 

میں تتھا گت کا چہیتا، پہلا چیلا

آج کے یُگ کے سفر کا (اور حضر کا)

ستیہ پال آنند اتنا جانتا ہوں

میں نے خود کو کس طرح دھوکا دیا ہے

مجھ کو بھکشا سے غرض تھی

صرف لینا جانتا تھا

مانگ کر کھانا ہی میرا اوڑھنا تھا

مجھ کو اس کا علم کب تھا

مانگنے والے کی جھولی میں کسی کو

دان دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔

سوائے گیان کی دولت کے، یعنی

(آگ، چٹکی بھر نمک، تھوڑے سے چاول۔ ۔ ۔

اور اگر کشکول خالی ہی رہے، تو

بھوک سہنے کا بہت سا حوصلہ ) ہوتا ہے، لیکن

گیان جیسے نام کی بھکشا اگر جھو لی میں ہو تو

خود نہ رکھ کر بانٹ دینا اس کا فرض اوّلیں ہے۔

یہ۔ سمجھنا شرط تھی لیکن سمجھنے کا مجھے یارا نہیں تھا!

 

میں تتھا گت کا چہیتا، پہلا چیلا

آج سے پہلے کی صدیوں کے سفر پر چلتے چلتے تھک گیا ہوں

کیوں ہوا یہ؟

میں بھلا نروان حاصل کیوں نہیں کر پایا، جب کہ

میں بھی اس مصلوبیت کا ساکھشی تھا۔ بھر لمبی تھی جو

اور دن بدن جیتے ہوئے جس کے عوارض کو تتھاگت نے سہا تھا؟

 

اب مگر میں جانتا ہوں

اپنے اُن جنموں میں جو پچّیس صدیوں میں مجھے جینے پڑے ہیں

میں نے شایدبُدھّ کے مانند اپنے گیان کو بانٹا نہیں ہے

اپنی دریوزہ گری کے سب ضوابط چھوڑ کر اپنی ضرورت سے زیادہ

گیان کا انمٹ خزانہ جمع کر سکنے کی خاطر

بھول بیٹھا تھا تتھاگت کی یہ شکھشا

دان لے کردان دے دینا ہی بھکشو کے عمل کی پہلی بودھِک دِیکھشا ہے۔

 

آج ان نظموں کو لکھ کرنا سپاسی کی تلافی کر رہا ہوں

وا گذاری چاہتا ہوں

سینکڑوں (شاید ہزاروں ) پیڑھیوں کے اپنے پرکھوں سے کہ جن کا پاک خوں میری رگوں میں بہہ رہا ہے۔

۔۔۔
۰روح الاصل

٭٭٭

 

 

 

یسوع

 

اور پھر ایسے ہوا کہ بھیڑ ساری چھٹ گئی ۔ ۔ ۔

اور آخری بھکشو بھی ’’گچھّامی‘‘ کا منتر جاپ کرتا لوٹ آیا

 

اپنے کُش آسن پہ بیٹھے

بُدھّ اپنی آتما کی آنکھ کھولے

دھیان میں اگلے جنم کو دیکھنے میں محو تھے

جو آخری تھا

(پانچ چھہ صدیاں ہی شاید رہ گئی تھیں )

 

پاس سے آنند بولا

اے مہا مانو تتھاگت، اب مجھے انتِم بِدا دینے سے پہلے

آخری اُپدیش دو۔ ۔ نروان کے رستے پہ چل کر

آپ کی مانند، مَیں بھی

اس جنم کے بعد مکتی چاہتا ہوں

بُدھّ بولے، کون سا نروان، بھکشو؟

کون سی مکتی؟

جسے میں خود گذشتہ ایک سو جنموں سے (یا اس سے زیادہ)

ڈھونڈنے کی سعی لاحاصل میں سرگرداں بھٹکتا

وقت سے لا وقت تک رستے بدلتا

اس جنم تک ہی پہنچ پایا ہوں، بولو؟

 

دست بستہ

پھر کہا آنند نے، بھگوان، میں آوا گون سے

مکت ہونا چاہتا ہوں

روح کو آزاد کرنا چاہتا ہوں !

 

بُدھّ بولے

میں تو اب اس جسم کا چولا بدلنے جا رہا ہوں

جانتا ہوں تم سبھی شاگرد میرے

آنے والے اس جنم میں بھی مرے ہمراہ ہو گے

جس میں مجھ کو دائمی مصلوبیت کی وہ سعادت بھی ملے گی

جس کو پا چکنے سے میں آوا گون سے

چھوٹ کر نروان حاصل کر سکوں گا

میرے پیروکار، تم آنند۔ ۔ ۔ اور دیگر سبھی جو

’’بُدھّ کی میَں شرن میں جاتا ہوں ‘‘ کہہ کر

سَنگھ میں شامل ہوئے تھے

آنے والے اُس جنم میں

(جو کہ میرا آخری ہے )

تم مرے ایمان سے انکار کر دو گے، مجھے کاذب کہو گے

تم مری مصلوبیت میں دوسروں کا ساتھ دو گے !

 

کب، کہاں پہنیں گے اپنا آخری چولا تتھا گت؟

آپ کا کیا نام ہو گا؟

کچھ کہیں تو!

 

ہچکچائے، چند لمحے چُپ رہے

پھر زیر لب بولے

پانچ چھ صدیاں ہی شاید رہ گئی ہیں

ہاں، اسی دنیا میں، لیکن دور کے اک دیس میں ہو گا

جنم میرا!

نام میں رکھا ہی کیا ہے

اِیسُو، عیسیٰ، یا کچھ ایسا نام ہو گا۔ ۔ ۔

 

جاگ اٹھے نیند سے،

جیسے کہ انجانے میں سب کچھ کہہ گئے ہوں

اور پھر تنبیہ کے لہجے میں بولے

اب یہاں سے جاؤ، میں اگلے سفر کے واسطے

تیار ہونا چاہتا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

قبولیت

 

اور پھر ایسے ہوا، آنند خالی ہاتھ لوٹا

اور کہا، ’’بھگوان، اس نگری میں ایسا

ایک دولتمند بھی ہے جس کو دولت سے کوئی رغبت نہیں ہے اور

سارا دھن ہمیں بھکشا میں دینا چاہتا ہے

ہم تو خالی ہاتھ لوٹے ہیں، تتھاگت!‘‘

 

بُدھّ بولے، ’’اس کا دینا فرض ہے، لینا تمہارا

تم تہی دست طلب پھیلائے، جھولی وا کیے جب

اُس کے دروازے پہ جاتے ہو تو اپنا فرض سمجھو

جو بھی مل جائے، کھلے ماتھے سے لے لو

میری دریوزہ گری کی یہ حدیث آخری ہے !‘‘

 

گو مگو کی کیفیت میں تھا ابھی آنند، بولا

’’پیر و مرشد!سونا چاندی تو فقط مایا ہے، اس سے

بھکشوؤں کا کیا تعلق؟‘‘

بُدھّ بولے

’’دست دریوزہ گر و درویش خالی ہے اگر اپنی انا سے

تو اسے کیا خوف مایا سے، جو کل تک

دست حاتم میں تھی، لیکن آج اس کی

اپنی جھولی میں پڑی ہے !

صاحب ثروت کی، حاتم کی سخاوت اس کی تشہیر انا ہے

اور تم اپنی انا تو ختم کر بیٹھے ہو، یہ تم جانتے ہو

اس لیے جو بھی ملے، منظور کر لو! ‘‘

’’۔ ۔ جو ملے، منظور کر لیں ؟‘‘

’’۔ ۔ ہاں، سبھی کچھ!‘‘

’’۔ ۔ سونا چاندی اور دولت بھی، تتھا گت؟‘‘

’’۔ ۔ ہاں، سبھی کچھ!‘‘

’’۔ ۔ اور بھکشا میں اگر عورت ملے، تو؟‘‘

 

ہچکچائے، ایک لمحہ چُپ رہے، پھر ایک آہ سرد بھر کر

زیر لب بولے، ’’قبولیت کی کوئی حد نہیں ہے !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

ذاتی فیصلہ

 

اور پھر ایسے ہوا، اک نرتکی نے

خوبرو آنند کو با ہوں میں بھر کر

یہ کہا، ’’تم سَنگھ سے باہر چلے آؤ، یہ میری

دولت و ثروت، یہ جاہ و حشم، یہ اونچا محل

اور سب سے بڑھ کر میں۔ ۔ ۔ تمہارے منتظر ہیں !‘‘

 

بھولا بھالا خوبرو آنند یہ باتیں نہ سمجھا

پوچھنا ہو گا تتھا گت سے، کہا، اور لوٹ آیا

 

’’۔ ۔ آپ سے کچھ پوچھنا ہے ‘‘

 

’’۔ ۔ آؤ، پوچھو!‘‘

 

’’۔ ۔ وہ نگر کی نرتکی ہے

وہ مجھے کہتی ہے، میرے پاس آؤ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ بول آنند!‘‘

 

’’۔ ۔ ’کام‘ سے اور واسنا سے

آپ نے بھگوان کیسے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ اپنے استفسار پر مت ہچکچاؤ

مجھ سے ان لفظوں میں پوچھو

اک یشودھا چھوڑ دینے سے تتھا گت

آپ کو کیا جنس کی خواہش سے چھٹکارہ ملا تھا؟‘‘

 

’’۔ ۔ ہاں، تتھا گت، آپ کے لفظوں میں اب میں

آپ سے ہی پوچھتا ہوں ‘‘

 

بُدھّ آنکھیں موند کر ۰ انتر جگت میں جا براجے

(۰داخلی آفاق)

چند لمحے غرق رہ کر

پھر ابھر آئے، کہا،

’’۔ ۔ میں خود، یشودھا اور بچہ

جانے کتنی ان گنت صدیوں تلک جکڑے ہوئے تھے

آپسی بندھن ہمارا ایک ایسا جال تھا

جس سے نکلنا

میرا بندھن توڑنا

ان سے بچھڑنا

میرا پہلا کام تھا، نروان کے رستے پہ پہلا پاؤں

آگے کی طرف۔ ۔ ۔

کیا سُن رہے ہو؟‘‘

 

’’۔ ۔ ہاں، تتھا گت، سُن رہا ہوں۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ جنس کی خواہش کسی مخصوص عورت کے لیے ہو

کوئی اک عورت ہو جس سے

منسلک ہو کر تمہاری عمر گذرے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ آپ کا مطلب ہے، شادی یا بیاہ

منڈپ میں اگنی کی گواہی سے، تتھا گت۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

 

’’۔ ۔ یہ نہیں، آنند، میرا ۰ ارتھ قطعاً یہ نہیں ہے

(۰مطلب)

بیاہ شادی صرف دنیا کے دکھاوے کے لیے ہیں

میں نے بس اتنا کہا تھا،

’کوئی اک عورت ہو، جس سے منسلک ہو کر تمہاری عمر گذرے ‘

۰واسنا تو ہے، مگر یہ واسنا ایسی نہیں ہے، جس سے

کوئی چھُٹکارہ نہیں ہے ‘‘

(۰جنس کی خواہش )

’’۔ ۔ کوئی چھٹکارہ نہیں ہے ؟‘‘

 

’’۔ ۔ میرا بندھن توڑ کر گھر سے نکلنا

صرف ان جنموں کا بندھن توڑنا تھا

جن سے میں جکڑا ہوا تھا

واسنا کو چھوڑنے کی بات کب تھی؟‘‘

 

’’۔ ۔ ہاں، تتھا گت، !‘‘

 

’’۔ ۔ تم اگر سمجھو، یشودھا اور بچہ چھوڑ کر میں

جنس کی خواہش سے مکتی پا گیا ہوں

تو غلط ہے !‘‘

 

’’۔ ۔ میرے بارے میں، تتھا گت

آپ کا کیا فیصلہ ہے ؟‘‘

 

’’۔ ۔ یہ تمہارا اپنا ذاتی فیصلہ ہو گا، تمہارے

اس جنم کا یا کسی اگلے جنم کا

اک نیا بندھن جسے تم اپنے ہاتھوں سے گلے میں

باندھ لو گے

سوچ کر آگے چلو، آنند بھکشو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

رضاعت

 

اور پھر ایسے ہوا، آنند اک بچے کو لے کر

بُدھّ کی خدمت میں آیا۔ ۔ ۔ اور بولا

’’اے مہا مانو، مجھے خیرات میں بچہ ملا ہے !‘‘

 

بُدھّ نے آنکھیں اُٹھائیں، اک نظر بچے کو دیکھا

پھر کہا، ’’ آنند بھِکشو، ایک بچہ آشرم میں ؟‘‘

 

’’آپ کا فرمان تھا، ‘‘ آنند بولا

’’دان کو منظور کرنے کی کوئی سیما نہیں ہے

اور پھر بچے کی ماں

فاقوں کی ماری

جانتی تھی، خود اگر وہ بھوک سے مر جائے تو بھی

اس کے بچے کو کبھی فاقہ نہیں کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ ‘‘

 

بُدھّ بولے , ’’شیر مادر مرد کی چھاتی میں اُترے گا کہاں سے ؟

یہ رضاعت عورتوں کو زیب ہے، آنند بھکشو

خیر، اب تو اس نئے بندھن سے میرے آشرم کو

رستگاری کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ یہ بچہ دان کر دو!‘‘

 

’’دان کر دوں، پیر و مرشد؟‘‘

 

’’دان لے کر دان دے دینے میں کیا حجّت ہے بھکشو؟

جاؤ، دیکھو، اس نگر میں

عورتیں ہوں گی جو بچوں کو ترستی پھر رہی ہیں

کوئی گھر ڈھونڈو۔ ۔ ۔ کسی عورت کی خالی گود بھر دو

اس طرح تم بھی نئے بندھن سے مُکتی پا سکو گے

یاد رکھو۔ ۔ ۔ دان لے کردان دے دینے کی کوئی حد نہیں ہے !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

واجب رشتہ

 

اور پھر ایسے ہوا آنند جب لوٹا نگر سے

تو بہت غمگین تھا، بولا، ’’ تتھا گت

اس جنم کا کوئی رشتہ

ٹُو ٹنے کے بعد پھر جُڑ جائے، تو کیا۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’کھُل کے پوچھو، گیان جگیاسُو، پہیلی مت بُجھاؤ‘‘ بُدھّ بولے

 

’’واسنا بالکل نہیں تھی، اے تتھاگت

صرف اک رشتہ تھا، کچھ کچھ پیار کا، کچھ دوستی کا

ایک کنیا تھا جسے میں چاہتا تھا

آج سے کچھ سال پہلے

آج جب بازار میں دیکھا تو اُس سے

بات بھی کی۔ ۔ ۔ ۔ واسنا بالکل نہیں ہے، پیر و مرشد!

چاہتا ہوں جب تلک ڈیرہ یہاں ہے، اس نگر میں

اس سے ملتا بھی رہوں میں !

واسنا بالکل نہیں ہے، صرف اک خواہش ۔ ۔

لڑکپن کے دنوں کی یاد سی ہے۔ ۔ ‘‘

 

بُدھّ کے ہونٹوں پہ شاید مسکراہٹ

یا کسی بھولے ہوئے جذبے کا اک سایہ سا آیا

ہچکچایا، مٹ گیا، بولے تتھاگت

’’ہر نیا رشتہ نیا بندھن ہے، بھکشو

ہر پرانا آپسی سمبندھ رشتوں کی کڑی ہے

جوڑنے سے اور بھی مضبوط ہر جاتی ہیں کڑیاں !‘‘

 

’’میں نہیں سمجھا، تتھاگت۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’تم پُرانی گرد پاؤں سے جھٹک کر

سَنگھ میں شامل ہوئے تھے

یہ پُرانی گرد اُن را ہوں پہ گذرے واقعوں کی

داستاں دہراتی پھرتی ہے، جنہیں تم

چھوڑ کر آگے نکل آئے ہو بھکشو!

بیتے کل کی گرد اُڑ کر

پھر تمہارے پاؤں چھونے لگ گئی ہے، تو جھٹک دو!

ٹال دو۔ ۔ ۔ بچ کر نکل جاؤ کہ مٹّی میں پکڑنے کی بہت شکتی ہے

دیکھو, سارے رشتے

کچھ نئے جو جھولی پھیلائے کھڑے ہیں

اور پرانے جو تعاقب کر رہے ہیں

بھکشوؤں کے واسطے ممنوع ہیں۔ ۔ ۔ تم جانتے ہو!‘‘

 

’’سارے رشتے، پیر و مرشد؟‘‘

 

’’ہاں، فقط بھکشا کا رشتہ

ایک پل کا

دینے والے ہاتھ اور کشکول کا ہی واجبی ہے !!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے حصے کا ثمر

 

اور پھر ایسے ہوا، اک شخص آیا

بُدھّ کی خدمت میں، جس نے دست بستہ

اپنی اُلجھن یوں بیاں کی۔ ۔ ۔

 

’’اے مہا مانَو، تتھا گت

آپ نے جو ہشت پہلو راستہ چُننے میں میری

رہنمائی کی ہے، میں ممنون ہوں، لیکن، تتھا گت۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’بولو، استفسار کیا ہے ؟‘‘

 

’’میں، تتھا گت، اپنے قول و فعل میں نیکی کے رستے پر چلا ہوں

میں معاشی اور سماجی زندگی میں

اک مثالی شخص ہی بن کر رہا ہوں

آج تک تو میں نے اپنا دامن کردار آلودہ نہیں ہونے دیا ہے

دشمنی یا بد کلامی یا کدورت سے سدا بچ کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’خوب، لیکن، اے سوالی، پوچھنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

 

’’گیان داتا، میرا اک بھائی بھی ہے، جو

فکر و قول و فعل میں یکسر بُرا ہے

دوسروں کے حق پہ قابض

اُس نے اپنی ساری دولت

جھوٹ، دھوکے اور ریا سے جمع کی ہے۔ ‘‘

 

’’ہر کوئی اپنے عمل کا خود ہی ضامن ہے، سوالی!‘‘

 

’’میرا استفسار بھی بالکل یہی ہے

فکر و قول و فعل سے میں اک مِثالی شخص ہوں

وہ مری ضد ہے، مجھ سے بالکل مختلف ہے

بھائی، لیکن مثبت و منفی، اُجالا اور اندھیرا

نیک و بد انسان، دونوں ایک جیسے تو نہیں ہیں

میرے نیک اعمال اس سے کم ثمر کے اہل کیسے ہیں تتھا گت؟

کیا مری اچھائی لا حاصل ہے ؟ کیا میں بھی بُرا ہوں ؟‘‘

 

’’پوچھ کر دیکھو، سوالی!‘‘

 

’’اے تتھا گت، غور فرمائیں، یہ کل کا واقعہ ہے

دونوں بھائی ہم اکٹھے جا رہے تھے

میں برہنہ پا تھا، میں نادار ٹھہرا

اُس کا جوتا قیمتی تھا

راہ پتھریلی بھی تھی، پُر خار بھی تھی

ایک کانٹا میرے پاؤں میں چُبھا، بے حال ہو کر

درد سے میں گر گیا، کانٹا نکالا

بھائی نے پوچھا، مجھے کیا ہو گیا ہے

دیکھنے کو وہ جھکا تو پاؤں میں اِک اشرفی تھی

خوش ہوا وہ، ہاتھ میں لی، جیب میں ڈالی، تو بولا

کتنی اچھی ہے مری تقدیر، تیرے

پاؤں میں کانٹا نہ چبھتا، تو مجھے یہ اشرفی پھر کیسے ملتی؟‘‘

 

بُدھّ آنکھیں بند کر کے سُن رہے تھے

 

’’اے تتھا گت، میں بھلا مانس ہوں، مجھ کو

عین اس لمحے میں، بالکل اس جگہ پر

پاؤں میں کانٹے کا چبھنا کس بُرائی کی سزا تھی؟

اور میرے بھائی کا، جو بد قماش و بد چلن ہے

اشرفی پانا بھلا کس بات کا انعام ہے ؟۔ ۔ ۔ میں

آپ سے یہ جاننے کے واسطے حاضر ہوا ہوں !‘‘

 

بُدھّ آنکھیں کھول کر بولے، ’’ سوالی

تیرا بھائی بد قماش و بد چلن ہے، مانتا ہوں

تو بھلا مانس ہے اور نادار بھی ہے، جانتا ہوں !‘‘

 

’’پھر، تتھا گت؟‘‘

 

’’تیرے بھائی کا جنم بھی منسلک ہے

سینکڑوں جنموں کی کڑیوں سے جُڑی، صدیوں پرانی

ایک ہی زنجیر سے، جس کے تعلق سے وہ اپنا

یہ جنم بھی جی رہا ہے !

مانتے ہو؟‘‘

 

’’ہاں، ، تتھا گت؟‘‘

 

’’فکر و قول و فعل کی کوئی بُرائی

اس جنم میں یا کسی پچھلے جنم میں کی گئی اچھائیوں کو

ختم کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے رنگ اک تصویر کے

آلائشوں کی گرد سے، ماحول کی آلودگی سے

ماند پڑ کر ختم ہو جاتے ہیں آخر

ہاں، عمل کی عمدگی سے تم اگر نیکی کرو تو

فکر و قول و فعل کی آلودگی، ساری برائی

اِس جنم کی، یا کسی پچھلے جنم کی صاف ہو جاتی ہے، جیسے

میلا کپڑا دھو دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ اور پھر نیک انساں

اک نیا چولا بدلتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ایسا جنم، جو

سب گنا ہوں سے بری ہے، صاف، پاکیزہ، نیا ہے !

اپنے بارے میں، سوالی، اور کیا کچھ جانتے ہو؟‘‘

 

’’کچھ نہیں، اے گیان داتا !‘‘

 

’’پچھلے جنموں کے گنا ہوں کی سزا تم کو تمہارے اس جنم میں

ملنے والی تھی، سوالی

اور سولی پر لٹکنا بھی تری قسمت میں لکھا تھا، مگر۔ ۔ ۔

تب اِس جنم میں تیری نیکی، تیری اچھائی نے سوُلی کی سزا کو

رفتہ رفتہ اک کانٹے میں بدل ڈالا گھٹا کر۔ ۔ ۔ ۔

دوسری جانب کا منظر دیدنی ہے

اِس جنم کا تیرا بد کردار بھائی

پچھلے جنموں میں بھلا مانس تھا، نیکی کا فرشتہ

اُس کو ملنا تھا دفینہ اُس جگہ پر

اک خزانہ اُس کی قسمت میں لکھا تھا

اپنی بد چلنی کے رستے پر رواں رہتے ہوئے وہ

دھیرے دھیرے سب خزانہ صاف کرتا ہی رہا، حتیٰ کہ اُس دن

وہ دفینہ اک طلائی مُہر کی صورت میں اُس کے ہاتھ آیا

تیرا کانٹا ایک سُولی تھا، سوالی۔ ۔ ۔ اور اُس کی اشرفی، اُس کا خزینہ

اپنے حصے کا ثمر دونوں نے پایا۔

 

’’اے مہا مانو، تو گویا میری سولی کا نوشتہ مٹ گیا ہے اور میں ہمت سے اپنے

اس جنم کی سمت بڑھ سکتا ہوں، جو آئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’ہاں، تمہاری آنے والی زندگی پھر اک نئے چولے میں آئے گی

کہ اس پر پچھلے جنموں کا کوئی اچھا برا سنسکار حاوی ہو نہیں پائے گا بالکل

اُس جنم کے اپنے کرموں پر تمہیں اگلے سبھی جنموں

کی اچھی یا بری عمروں کی مالا پھیرنی ہے۔ ‘‘

 

’’اور مرا بھائی، تتھا گت؟‘‘

 

’’عین ایسی ہی دَشا اس کی بھی ہو گی

لیکھا جوکھا اس کے پچھلے سارے کرموں کا مکمل ہو چکا ہے

اب نئی زنجیر کی کڑیوں کو

یعنی آنے والے ہر جنم کو بھوگنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

دولت

 

اور پھر ایسے ہوا، آنند جب حاضر ہوا تو

بُدھّ پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے

’’شہر سے تم جس کو اپنے ساتھ لے آئے ہو، بھکشو

اس کو واپس بھیج دو۔ ۔ ۔ ۔ تم جانتے ہو

بھکشوؤں کا آشرم

یہ سَنگھ تو بس بھکشوؤں کے واسطے ہے !‘‘

 

’’پیر و مرشد

آنے والا کوڑھ سے بیمار ہے، لیکن اسے یہ

ضد سمائی ہے کہ وہ بھکشو بنے گا

جانتا ہے

سَنگھ اُن سب کے سواگت میں کھُلا ہے

جو اسے اپنی پناہ آخری محسوس کر کے

اس میں آنا چاہتے ہیں !‘‘

 

’’جب کوئی دھنوان یہ دَر کھٹکھٹائے

اور آ کر یہ کہے، وہ سَنگھ کا اک رُکن بننا چاہتا ہے

ہم اُسے منظور کر لیتے ہیں بھکشو!‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت، ہم فقط یہ چاہتے ہیں

آنے والا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’بول، ہم کیا چاہتے ہیں ؟‘‘

 

’’پیر و مرشد، بس فقط اک بات، یعنی

اپنی دولت دان کر آئے، تبھی ہم۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’دوسرے لفظوں میں، بھکشو

جو بھی اس کے پاس ہے، یعنی زر و سیم و جواہر

بیوی بچے، گھر، زمیں سب ڈھور ڈنگر

اور اپنے تن کے کپڑے

ساتھ مت لائے، وہیں پر چھوڑ آئے، تو اُسے ہم

سَنگھ میں شامل کریں گے ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’شہر سے جو ساتھ آیا ہے تمہارے

اس کو کیا کچھ چھوڑنا ہے ؟‘‘

 

’’کچھ نہیں، بھگوان، اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے !‘‘

 

’’کوڑھ تو ہے، اُس کی دولت

جو اُسے پچھلے جنم سے اب وراثت میں ملی ہے

پوچھ کر دیکھو، اگر وہ

اپنی یہ دولت بھی پیچھے چھوڑ آئے

سَنگھ اُس کو رُکنیت بخشے گا، بھکشو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیج

 

اور پھر ایسے ہوا، اک شخص آیا بُدھّ کی خدمت میں، بولا

’’اے مہا مانَو، مرا بیٹا، جسے میں نے

بڑھاپے کا سہارا جان کر پالا تھا۔ ۔ ۔

مجھ سے دور بھارت کی کسی نگری میں جا کر بس گیا ہے

میں تو دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں !‘‘

 

بُدھّ بولے

’’چاہتے کیا ہو؟ اسے واپس بلانا؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

بُدھ جو اک پیڑ کی چھایا میں بیٹھے تھے

نظر اوپر اٹھا کر

پیڑ کی جانب اشارہ کر کے بولے

’’پیڑ پودے چل نہیں سکتے، مگر یہ چاہتے ہیں

بیج ان کے دُور اُڑ جائیں۔ ۔ ۔

کوئی زرخیز دھرتی دیکھ کر اُگنے کی سوچیں

اور تم انسان ہو کر چاہتے ہو

تم، تمہارے گھر، تمہاری اپنی دھرتی میں ہی دب کر

بیج جڑ پکڑے، جسے تم اپنا بیٹا مانتے ہو

یہ غلط ہے !‘‘

 

’’ٹھیک پھر کیا ہے، تتھا گت؟‘‘

 

’’پیڑ، پودے، جانور سب اپنے بچے پالتے ہیں

اور جب پروان چڑھ جاتے ہیں بچے

چھوڑ دیتے ہیں انہیں۔ ۔ ۔

آزاد کر دیتے ہیں ان کو !

جس جگہ کا دانہ پانی راس آئے

اُس جگہ ٹھہریں، پھلیں، پھولیں، بڑھیں۔ ۔ ۔

اور پھر وہ وقت آنے پر

نئی رُت کے نئے بیجوں کو بھی یوں آزاد چھوڑیں

تا کہ وہ بھی جس جگہ چاہیں، وہیں جائیں

وہیں اپنی جڑیں گاڑیں۔ ۔ ۔

بہت دھرتی پڑی ہے !

کیا ضروری ہے، کہ ساری عمر

اک بچہ رہے اپنے ہی کنبے میں

جہاں پیدا ہوا ہے ؟‘‘

 

’’باپ ماں کے ساتھ رہنا کیا غلامی ہے تتھا گت؟‘‘

 

’’ہاں، سوالی

اس لیے پودا بنو اور بھول جاؤ

اُن کو جو آزاد ہونا چاہتے ہیں !

تم نے اپنا فرض خوبی سے نبھایا

اب اُسے بھی زندگی آزاد رہ کر

خود بسر کرنے کا موقع دو، سوالی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تازہ دم

 

اور پھر آنند اک بھکشو کو لے کر بُدھ کی خدمت میں آیا

’’یہ، تتھا گت، اپنے گاؤں لوٹ جانا چاہتا ہے !‘‘

 

بُدھّ نے نظریں اٹھائیں

اُس نئے بھِکشو کو دیکھا

جو ابھی کچھ ماہ پہلے ۰ شپتھ لے کر

(۰حلف)

سَنگھ میں شامل ہوا تھا

 

’’کیوں کا استفسار تو شاید غلط ہے، ‘‘ بُدھّ بولے

’’پھر بھی بولو

خود مجھے سمجھاؤ، آخر کیا ۰سمسیا ہے تمہاری؟

(۰مسئلہ)

سَنگھ سے واپس چلے جانا۔ ۔ ۔

پناہ آخری کو چھوڑ دینا

کیوں ضروری ہے، بتاؤ مجھ کو بھِکشو؟

’’میں، تتھا گت

آتما کی شانتی کے واسطے آیا تھا، لیکن

اب بہت بے چین ہوں، میں چاہتا ہوں

لوٹ جاؤں !‘‘

 

’’ ’کیوں ‘ کا استفسار باقی ہے ابھی تک!‘‘

 

’’میری ماں بیوہ ہے، سوامی

ایک ہی بیٹا ہوں، اس کی بوڑھی۰ آیُو کا سہارا

( ۰عمر)

اس جنم کے فرض کو میں بھول جاؤں

آس رکھوں آنے والے اُس جنم کی

جس میں شاید دو قدم نروان کے رستے پر آگے بڑھ چلوں گا؟

میں، تتھا گت، آج اگر اپنے جنم کے

’حال‘ سے ’مستقبل امکاں ‘ کی خاطر

چشم پوشی کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ تو غلط ہے !‘‘

 

بُدھّ آنکھیں موند کر بیٹھے رہے کچھ دیر

تو آنند بولا

’’میں اسے سمجھا چکا ہوں

سنگھ کا ہر رُکن (جیسے یہ ہے، میں ہوں )

سَنگھ میں آنے سے پہلے

اپنے گھر سے منسلک رشتوں کی آنکھیں

گھر کے اندر دفن کر دیتا ہے، یعنی

رشتے ناتے توڑ کر آتا ہے۔ ۔ ۔

اس کے پاس پیچھے دیکھنے والی تو آنکھیں ہی نہیں ہیں

پیچھے مُڑ کر دیکھنا بیکار، نا واجب عمل ہے !

یہ سبھی باتیں، تتھا گت

جانتا بھی ہے، مگر پھر بھی یہاں سے

گاؤں جانا چاہتا ہے !‘‘

 

بُدھّ بولے

’’اس کا جانا، بے غرض، بے خوف، ذاتی فیصلہ ہے

اور شاید

گیان کی آنکھوں سے ہم دیکھیں تو اس کی

ہوش مندی کی علامت بھی یہی ہے

ٹھیک بھی ہے

یہ ابھی پچھلے جنم سے اس مسافت پر چلا ہے

تازہ دم ہے

اور شاید سینکڑوں جنموں کی دوری تک یونہی چلتا رہے گا

اس کو مت الزام دو، آنند بھکشو !

مضمحل روحیں، تھکی ہاری ہوئی، میری، تمہاری

سَنگھ کا دامن پکڑ کر چلنے والے

اُن ہزاروں بھکشوؤں کی

جو اسے اپنی پناہ آخری محسوس کر کے آ گئے ہیں

پچھلے جنموں کی مسافت سے ہرا ساں

اگلے جنموں کے مراحل سے پریشاں

اپنی منزل ڈھونڈتی ہیں۔ ۔ ۔

اس کو کچھ جلدی نہیں ہے، تازہ دم ہے !

جاؤ، بھکشو، اِذن ہے، تم اپنا ۰بانا تیاگ دو

اور لوٹ جاؤ!‘‘

(۰ چولا، لباس)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہست اور نیست

 

                (۱یک)

پس منظر

 

سانپ کے ڈسنے سے جب آنند نیلا پڑ گیا، تو

بھکشوؤں نے

ماتمی چادر سے اس کو ڈھک دیا تھا

پھر یکا یک اُس نے آنکھیں کھول دیں تھیں

اور واپس آ گیا تھا

زندہ لوگوں کے جہاں میں

معجزہ تھا !

سارے بھکشو

سوُتروں کا جاپ کرنے لگ گئے تھے۔

(یوں لکھا ہے سانگواں برلاپؔ نے ’’بُدھّآکھشی‘‘ میں )

 

 

                      (دو)

پیش منظر

 

کچھ دنوں کے بعد پوچھا بُدھّ نے آنند سے

’’بھکشو، بتاؤ

موت کیا ہے ؟

اس کا کچھ اندازہ ہوا کیا؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت

ایک اندھی کھائی تھی نیچے کی جانب

جس میں سب ذی روح گرتے جا رہے تھے

کوئی جنّت، یا فرشتے

کوئی دوزخ، یا ۰اسُر، دانَو نہیں تھے

(۰اسُر، دانَو، بمعنی بدی کے کارندے، نجس روحیں )

صرف اک اندھا، اندھیرا

سرد، یخ بستہ خلا تھا!‘‘

 

ہچکچایا، رُک گیا کچھ دیر کو آنند

بولا

’’کیا تتھاگت، جنت و دوزخ کے قصّے

دیوتاؤں، دانوَوں کی ساری باتیں

سیدھے سادے عام لوگوں کے لیے ہیں ؟‘‘

 

’’ہاں، ‘‘ تتھا گت نے کہا، ’’یہ سارے قصے

عام جنتا کے لیے ہیں

ان میں سچآئی کا عنصر کچھ نہیں ہے

ان کا مقصد عام لوگوں کو خدا کے

خوف سے اخلاق کے رستے پہ لانے کا عمل ہے

اس لیے ان کی افادیت سے میں منکر نہیں ہوں !‘‘

 

                       (تین)

 

چُپ رہا کچھ دیر بھکشو، پھر یکا یک بول اٹھا

’’جنّت و دوزخ نہیں ہیں، تو تتھا گت

کیا خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے ؟‘‘

 

’’ہاں، خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے !‘‘

بُدھّ کی آواز میں نرمی تھی، لیکن

گو مگو کی کوئی کیفیت نہیں تھی

 

کانپ اٹھا۔ دیکھتا ہی رہ گیا آنند بھکشو

’’پیر و مرشد؟‘‘ اس نے استفسار میں آنکھیں اٹھائیں

ایک زخمی، پھڑپھڑاتی سی نظر سے

بُدھّ کو دیکھا جو اطمینان سے

اس کی طرف نظریں اٹھائے دیکھتے تھے

 

’’ہاں، کوئی ہستی نہیں ہے

ایک مفروضہ ہے ہستی کا تصور

ہست کیا ہے ؟نیست کیا ہے ؟

ایسا استفسار ہی بے معنی و مقصد ہے، بھکشو!

ہست کا کوئی تصّور

نیست کے حتمی تصّور کے بِنا ممکن نہیں ہے

اس بڑے آفاق میں سب کچھ ہے، لیکن کچھ نہیں ہے

اربوں کھربوں سورجوں کی

اربوں کھربوں دھرتیوں کی

ہست کا سیدھا تعلق نیست سے ہے

ایشور گر ’’ہست ‘‘ ہے تو ’’نیست ‘‘ بھی ہے

ایشور قدرت ہے، بھکشو

اس لیے میں نے کہا تھا، ایشور ہستی نہیں ہے !‘‘

 

منہ کھُلا، آنکھوں میں حیرت اور تجسّس

کہہ نہ پایا کچھ بھی بھکشو

 

’’تم ابھی نا پختہ سادھک ہو، نہیں سمجھو گے بھکشو!‘‘

بُدھّ کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم مرتعش تھا!

ّّّّّّّّّّّّّّّّ

نوٹ: بُدھ مت میں یہ خیال عام ہے کہ خلاء لا اختتام ہے۔ اور سیّاروں کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ آج کی سائنس بدھ مت کے تلازمۂ افکار سے صدیوں پیچھے تھی۔ سوزوکیؔ اور دیگر مفکروں نے ایک Wind Wheel (AXIS)کے تصور کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے، یہ ایک لا اختتام، کبھی نہ شروع ہونے والا وہ آفاقی پہہّہ ہے جو خلا میں معلق ہے۔ ہندو عقیدے کے بر عکس، جنت اور دوزخ کا کوئی تصور بدھ مت میں نہیں ہے کہ یہ کوئی fixed اور خلاء میں کہیں مستقل طور پر آباد دنیائیں ہیں۔ تو یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ روح کو ایک جنم میں بُرے اعمال کی کیا سزا ملتی ہے اور اچھے اعمال کا کیا اجر ملتا ہے۔ کیا اچھی آباد دنیائیں جنتیں ہیں اور بری دھرتیاں (سیارے ) دوزخیں ہیں۔ ۔ ۔ Robert Thurman کے خیالات سے متاثر ہو کر یہ نظم لکھی گئی۔ اس پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ اگلی نظم بھی اسی موضوع پر ہے )

٭٭٭

 

 

 

 

دوزخ

 

’’پاپ کا کیا انجام ہے ؟‘‘ اک بھکشو نے پوچھا

 

آنکھیں موندے

دھیان اک گہری مُدرا میں

لِین بیٹھے تھے تتھاگت

بچوں جیسے اس معصوم سوال کو سن کر

کانپ اٹھے تینوں دنیاؤں کے بھیدوں کو جاننے والے

اک لمحہ خاموش رہے

پھر آنکھیں کھولیں

پوچھنے والے بھکشو کو دیکھا تو وہ کشئیپؔ تھا

ان کا ذاتی خدمتگار بھکشو

بولے، ’’بھکشو، اور بھی لاکھوں سیّارے ہیں

یہ دھرتی بھی ان جیسا سیآ رہ ہی ہے

کیا تم نے سوچا ہے کبھی، شاید یہ دھرتی

اور کسی دھرتی کی پاپی روحوں کی ایذا کی خاطر

بنا بنایا اک دوزخ ہو؟

یعنی ان روحوں نے اپنی دھرتی پر جو پاپ کیے ہیں

ان کی سزا شاید اس دھرتی پر ہی ان کا ایک جنم ہو

بنے بنائے اس دوزخ میں اپنی قید کی عمر کاٹ کر

ان میں کچھ روحیں تو شاید

یہ ثابت کر دیتی ہوں گی

وہ پاپوں سے چھوٹ چکی ہیں

اور اگر وہ چھوٹ نہیں پاتیں تو شاید

اس سے بھی منحوس دھرتیاں، بُری زمینیں

اگلے جنم میں دیکھ رہی ہوں ان کا رستہ!

 

اس مفروضے کی گہرائی تک میرا جانا تو، کشیئپ

اب بھی کچھ مشکوک ہے، دیکھو

میں خود اس ۰ دُبدھا میں اب تک پھنسا ہوا ہوں

(۰ گو مگو کی کیفیت)

’’شاید‘‘، ’’شاید‘‘ کہہ کر میں نے کوئی حتمی بات نہیں کی!‘‘

 

آنکھیں موندے، دھیان میں گم

جانے کس دُور کی دنیا میں پھر لوٹ گئے

خاموش تتھا گت!

٭٭٭

 

 

 

جسم کا یُدھ ہارنے والی استری

 

آنند نے کشئیپ کی جانب

اور کشئیپ نے ذرا ترچھی نظر سے اس کی جانب دیکھ کر

کچھ ہچکچاہٹ سے تتھا گت سے ذرا کچھ کہنا چاہا

رُک گیا تو بُدھّ بولے

’’کیا تردّد ہے تمہیں، بھکشو؟ کہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’کچھ نہیں، سوامی، اکیلا میں نہیں، دونوں کو ہی کچھ پوچھنا ہے

آپ کے جیون کے بارے میں ہے استفسار۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’بولو، مت ڈرو، پوچھو، مرا جیون تو اک پستک ہے جس کے

سارے صفحے بھکشوؤں کے واسطے کھلے ہیں۔ !‘‘

 

’’در گذر کر دیں، ۰مہا مانُو، اگر میں

(۰القاب۔ عظیم ہستی)

کچھ غلط پوچھوں، کہ میں تو ملتجی ہوں جاننے کا۔ ۔ ۔

یہ بتائیں

کیا وِرودھ آبھاس ۰ہے اس میں کہ اک خاوند

(۰تضاد)

جسے بچپن سے خواہش تھی کہ وہ سب راز کھولے زندگی کے

ایک شہزادہ جو اپنی جنس کے شہ زور گھوڑے بس میں کر کے

آتما کی شانتی کے واسطے

چپکے سے، اپنی نوجواں پتنی کو سوتا چھوڑ کر، اور

ازدواجی زندگی کو تیاگ کر

بنباس لے کر جنگلوں میں جا بسے ؟

اور (پچھتانا تو شاید دور کی ہے بات!) سوچا تک نہیں اُس

نوجواں پتنی کے بارے میں جو اک بچے کی ماں تھی

صرف سترہ یا اٹھارہ سال کی تھی

ذہن کی کچی تھی جو

اک نوجواں پتنی کہ جس کی زندگی کا سب اثاثہ

ایک خاوند ہی تھا، وہ بھی۔ ۔ ۔ ۔

اپنی خود غرضی کا مارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

بند تھیں آنکھیں تتھا گت کی مگر

کشئیپ کے جملوں سے ٹپکتے

تلخ، تیزابی معانی

اُن کے کانوں میں سرایت کر رہے تھے !‘‘

 

’’میں، تتھاگت، کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ ‘‘

اب کے خود آنند بولا

’’بھکشوؤں کے واسطے ممنوع ہیں باتیں جو دیگر بھکشوؤں کی

زندگی یا ذات یا کنبے کے بارے میں ہوں۔ ۔ ۔ اور پھر

آپ کے بارے میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ لیکن

آپ سے یہ پوچھنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔ ‘‘

 

وہ ہمہ تن گوش تھے، خاموش تھے، لیکن

وہ دُبدھا میں نہیں تھے

 

اب کے کشئیپ کھُل کے بولا

’’آپ جب پتنی کو سوتا چھوڑ کر کمرے سے نکلے تھے

تو کیا یہ آپ نے سوچا نہیں تھا

ایک ۰ ابلا، سیدھی سادھی استری کو

(۰ابلا : کمزور، ناتواں )

اپنی ’’ جِگیاسا ‘‘ کی بابت یہ بتانا

(جِگیاسا : تلاش حق)

تو ضروری ہے کہ دیکھو، تم یشودھا۔ ۔ ۔

ایک ناری ہو، اکیلا اپنا جیون کاٹنا مشکل اگر ہو

میں تمہیں آزاد کرتا ہوں، کہ میں اب

خود بھی تو آزاد ہوں اس قید سے۔ ۔ ۔ دیکھو، یشودھا

اُس بِچھونے کے لیے جس پر ہمارا ساتھ تھا۔ ۔ ۔

تم اک مناسب شخص چُن سکتی ہو

تم آزاد ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

بُدھّ اک لمحے کو شاید رُک گئے کچھ کہتے کہتے

پھر کہا ہولے سے۔ ۔ ۔

’’۔ ۔ ۔ ہاں، بھکشو، تمہاری بات میں سچائی کا عنصر توہے، پر

یہ اکیلا آدھاسچ ہے ایسی اک منطق کا

جو از خود غلط ہے

عین ممکن ہے کوئی آدھا ادھورا، نا مکمل سچ ہی خود سے

منسلک اک دوسرے آدھے ادھُورے سچ کو جھُٹلائے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ کہ منطق ایک دوہری دھار ہے

دونوں طرف سے کاٹتی ہے !‘‘

 

اور تب آنند نے، کشئیپ نے جیسے یک زباں ہو کر کہا

’’کیسے تتھاگت؟‘‘

 

’’یہ قیاس آرائی، بھکشو، نا روا ہے

سر بسر بے جا ہے ایسا سوچنا بھی

سانحہ یا حادثہ بالکل نہیں تھا

میرا پتنی اور بچے کو یکایک چھوڑ دینا !

مجھ کو تو یہ فیصلہ کرنے میں شاید ایک قمری ماہ کا عرصہ لگا تھا

یہ فقط اُس رات کا قصہ نہیں تھا

بھولی بھالی تھی یشودھا

رات بھر آرام کرتی، سوتی رہتی

اور میں لیٹا ہوا، بیٹھا ہوا، کمرے کے اندر

اِس طرف سے اُس طرف چلتا ہوا

یہ سوچتا رہتا کہ اُس نردوش، بچوں جیسی پتنی کو کہوں بھی

تو بھلا کیسے کہوں۔ ۔ ۔ ۔ اک سیدھی سادی نار، جس کی

ساری تربیت یہی تھی، گھر گرہستی، بال بچے

اور پتی پرمیشور کی ٹہل، سیوا !‘‘

 

’’اس میں کیا مشکل تھی سوامی؟‘‘

 

’’رونا، دھونا، سینہ کوبی، شور، ہنگامہ۔ ۔ ۔

نہیں، بھکشو، مرا چپکے سے ہی باہر نکلنا ایک اچھا فیصلہ تھا‘‘

 

اور پھر۔ ۔ ۔

(کچھ دیر رُک کر پھر تاسف سے بھرے لہجے میں بولے )

’’اور اس کو دوسرے دن یہ پتہ تو چل گیا تھا

اور اُس نے بھی اِسے

اپنی قسمت کا نوشتہ جان کر اس پر قناعت کر ہی لی تھی

ایک عورت کا پتی مر جائے یا پھر

اس کو خاوند چھوڑ دے تودوسری شادی بھی کر سکتی ہے عورت

ہندوؤں کی دھارمک ریتی میں تو یہ جائز قدم ہے !‘‘

 

پھر رُکے، جیسے انہیں الفاظ کے چُننے میں دقّت ہو رہی ہو

 

اور پھر بولے

’’محل میں نندؔ بھی تھا، میرا چھوٹا بھائی، مجھ سے دس برس چھوٹا۔ ۔ ۔ ۔

یہی تو شاہی کنبوں کی روایت بھی رہی ہے

تخت کا وارث اگر مر جائے

وِدھوا کا لگن بھائی سے جائز، مستحب ہے !‘‘

 

پھر رُکے، اپنے کہے پر جیسے نادم ہوں، کہا

’’ جب پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں

تو یقیناً سوچتا ہوں

میرا بھائی نندؔ تو بچہ تھا، بالکل

دس برس مجھ سے بھی چھوٹا

اس لیے ممکن نہیں تھا یہ لگن۔ ۔ ۔

دیکھو، عزیزو، میرے شاگردو

لوٹ جانا میرا تو ممکن نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ یہ جانتی تھی

جنس کی تکمیل کی خاطر کوئی بھی ڈھونڈ لیتی

اور منڈپ میں لگن تو صرف اک رِیتی سے بڑ ھ کر کچھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

 

چونک اٹھے دونوں بھِکشو

کاشئیپ کے لفظ تو دھیمے تھے، ہاں، آنند کے لہجے میں جیسے

بجلیاں سی بھر گئی ہوں

 

’’جنس کی تکمیل کی خاطر، تتھاگت؟ آپ نے یہ کیا کہا ہے ؟‘‘

 

’’ہاں، یہی تو کہہ رہا ہوں، بُدھ بولے

اور تمہارے لفظ بھی شاید یہی تھے

’’اُس بِچھونے کے لیے جس پر ہمارا ساتھ تھا۔ ۔ ۔

تم اک مناسب شخص چُن سکتی ہو

تم آزاد ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

چُپ رہے کچھ دیر۔ ۔ ۔ پھر دھیرے سے بولے

’’دیکھتا ہوں، کیا کہیں اخلاق کی رُو سے یہ قوّت

مجھ میں باقی ہے کہ میں یہ چند جملے کہہ سکوں اب

جانتا ہوں

زندگی کے اس مہا یُدھ میں

فقط اک جنس کی خواہش کی قربانی سے میں نے

آتما کو شُدھّ رکھنے کی جزا پائی ہے بھکشو

وہ دوامی کیفیت جو صرف مٹّی، آگ، پانی یا ہوا سے ہی عبارت

ایک ڈھانچے سے کہیں بہتر ہے، لیکن

اس عمل میں

میں نے اک معصوم عورت کو بھری دنیا میں

تنہا چھوڑ کر

اپنی انانیت کی ہی تکمیل کی تھی

جسم کی یا جنس کی اس جنگ میں یہ جیت میری

اب مکمل ہو چکی ہے

پھر بھی میں اُس کا یقیناً عمر بھر مجرم رہوں گا!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تین کتابیں

 

’’دیس، جاتی، ایک پیڑھی کی کتابیں

تین ہی ہوتی ہیں، جن سے

نسلا پنی قومیت کی منفرد پہچان کر سکتی ہے، بھکشو !‘‘

 

’’ہاں، مگر۔ ۔ ۔ ‘‘ آنند بولا

’’وید تو کل چار ہیں، یہ تین کیا اُن سے الگ ہیں ؟‘‘

 

’’ہاں، الگ ہیں

گیان کی آنکھوں کو کھولو اور سنو۔ ۔ ۔ ‘‘ بولے تتھاگت

’’۔ ۔ ۔ دیس کے، جاتی کے پُرکھے کون تھے ؟

کیسے رہا کرتے تھے ؟

کیا پیشے تھے اُن کے ؟

محنتی تھے ؟

دوسرے دیسوں سے کیا سمبندھ تھے ؟

سب کا تحفظ چاہتے تھے۔ ۔ ۔ یا فقط

لڑنے میں ہی وشواس رکھتے تھے ہمیشہ

یہ کتاب اوّلیں ہے

دیس کی، جاتی کی، بھکشو !‘‘

 

’’پیر و مرشد ؟‘‘

 

’’ہاں، کہو، آنند بھکشو !‘‘

 

’’کیوں کسی جاتی کی اپنی منفرد پہچان پُرکھوں سے ہو۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ خود سے کیوں نہیں ہو ؟‘‘

 

’’وقت بہتی ریت ہے

رُکتی نہیں ہے

فرد ہو یا دیس ہو

ماضی بدل کر حال بنتا ہے

۔ ۔ ۔ کہ جو تم آج ہو، وہ کل بھی تھے

جو آج حاضر، لمحۂ موجود ہے

وہ کل بھی تھا

آنند بھکشو، وقت سے کس کو مفر ہے ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت !‘‘

 

’’بیج جو بویا گیا، وہ پھوٹتا ہے

پھوٹتا جو ہے، اسے پروان بھی چڑھنا ہے، دیکھو

آک بوؤو گے، تو کیا پھوٹے گا آخر

آک ہی نا؟

آم، کیکر تو نہیں ؟

اِس آک کے پودے کی اپنی

منفرد پہچان اپنے باپ دادا آک سے

اور اُن کے باپوں اور دادوں آک کے پودوں سے ہی

چلتی چلی آئی ہے !

پُرکھوں کی ہزاروں پیڑھیوں سے ہی

تسلسل کے عمل میں منجمد

اک نسل کی پہچان ممکن ہے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ یہی پہچان جاتی کی کتاب اوّلیں ہے !‘‘

 

’’دوسری کیا ہے، تتھا گت ؟‘‘

 

’’دوسری پستک ہے ان کا دھرم، مذہب

جس سے پیوستہ ہیں صدیوں، پیڑھیوں سے

دیس کے سب لوگ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ لیکن ’دھرم‘ کی تفسیر کیا ہے ؟‘‘

بُدھّ کو یوں ٹوکنا اچھا نہیں تھا

مضطرب آنند لیکن جوش میں یہ پوچھ بیٹھا

 

’’دھرم جینے کی کلا ہے

فرض ہے، کرتویہ ہے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ پر اِس تناظر میں مگر یہ فرض بھی اک خارجی ڈھانچہ ہے

پُوجا کا طریقہ

کس کو مانیں ؟

کیا کریں ؟ کس طور اپنا سر جھکائیں ؟

کوئی سمت الراس ایسی

جو ہمیں اس فرض کی اصلی ادائی کی ضمانت دے، مگر۔ ۔ ۔ ‘‘

 

گو مگو میں رُک گئے دم بھر کو، جیسے سوچتے ہوں

 

پھر کہا، ’’ہاں، دھرم یہ بھی تو بتاتا ہے

کہ خلقت خالق دنیا کو کس صورت میں دیکھے !‘‘

 

’’مورتی پوجا، تتھا گت ؟‘‘

 

’’ہاں۔ ۔ ۔ مگر شاید نہیں بھی!

میں، تمہیں تو علم ہے، اب مورتی پوجک نہیں ہوں

مورتی کے ہی حوالے سے

کسی بھی آنکھ سے اوجھل حقیقت کو سمجھنا

ابتدائی راستہ ہے

میں گذر آیا ہوں جس سے

دھیان کو مرکوز کرنے کا ہنر ہے

میں جسے پہلے ہی بس میں کر چکا ہوں۔

یہ ’’نہیں ‘‘ کی شرح اور تفسیر ہے، آنند بھکشو !‘‘

 

چپ رہے کچھ دیر کو، دھیرے سے پھر گویا ہوئے

’’وہ ’’نہیں ‘‘ کی شرح تھی، اب ’’ہاں ‘‘ کا کیا مفہوم ہے، یہ بھی سمجھ لو

وہ کروڑوں لوگ جو سادھک نہیں ہیں

وہ جنہیں ’’محسوس‘‘ سے چل کر ہی ’’نا محسوس‘‘ تک

جانے کی منزل کا پتہ پانا ہے، بھکشو

ان کے قدموں کے لیے شاید یہی اک راستہ ہے

بُت پرستی، مورتی پوجا کا، یا ’’ محسوس‘‘ کا

یہ راستہ آسان بھی ہے !‘‘

 

’’اور بھی کچھ راستے ہوں گے، تتھا گت؟‘‘

 

’’ہاں، یقیناً اور بھی ہیں۔ ۔ ۔

شِرک کے رستے سے ہٹ کر، قادر مطلق کو

اُس کے ہی حوالے سے سمجھنا

ایک، واحد، مالک و مختار

استری کی کوکھ سے پیدا ہوئی مخلوق سے قطعاً علیحدہ

پے بہ پے جنموں کے بندھن سے سدا آزاد۔ ۔ ۔ ایشور

ایک، قطعاً ایک خالق

دوسرا کوئی نہیں

اس بات پر ایمان لانا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بہتر راستہ تو ہے مگر۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’ہاں، بتائیں، پیر و مرشد!‘‘

 

’’ایشور اک ’شخص‘، یعنی اک اکائی تو نہیں ہے

اس کی، یعنی ایشور کی، ہر شناخت ایک ہی

’صورت‘ میں مضمر ہے کہ اس کی کوئی بھی ’صورت‘ نہیں ہے

یعنی وہ اک منفرد، اکمل، اکائی بھی نہیں ہے

اور اگر ہم ایشور کو ساری دنیاؤں کے، سب آفاق کے

میزان کی صورت میں دیکھیں تو بھی کیا پہچان ہے

اس خالق دنیا کی جو خود میں تو ۰ ’اکھنڈت ‘ہے

(۰ اٹوُٹ )

مگر سب ’کھنڈ‘ کیا ہیں، جانتا کوئی نہیں ہے

اس لیے، مذہب کی جو پہچان بھی ممکن ہو

اک عہد رواں میں، مملکت میں، اس کو ہی

یہ سمجھیں کہ وہ قائم ہے، دائم ہے کسی بھی ملک کے

اپنے حوالے یا تناظر میں۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’طے ہوئی یہ بات، مذہب دوسری پستک ہے

ملک و قوم، جاتی کی، تتھا گت

تیسری پستک بتائیں، کون سی ہے ؟‘‘

 

’’تیسری پستک کسی بھی دیس جاتی کی کلا ہے

ان کے علم و فن کی دولت

ان کے پُرکھوں سے ودیعت

یا خود ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی

عہد کی میراث

ناٹک، رقص، موسیقی

کتھائیں، شاعری، ساہتیہ کے درپن

عجائب گھر، گرُو کل، مدرسے اور پاٹھ شالائیں

محل، مندر، منارے

علم کے مخزن کتب خانے

عمارت سازی و باغات، سڑکیں، سیر گاہیں

دستکاری کے ہنر ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’کیا فن تعمیر یا پھر شاعری یا رقص، یا ناٹک

کتھائیں درس گاہیں، آشرم۔ ۔ ۔

یہ بھی ضروری ہیں

کسی جاتی کی اپنی منفرد پہچان کے محفوظ رکھنے میں، تتھا گت؟‘‘

 

’’ہاں، تمدن کی یہی میراث ہے، آنند بھکشو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

تین چوتھائی ہما را مغز پوشیدہ ہے بھکشو

 

’’یاد کیا رہتا ہے مجھ کو؟ آپ نے پوچھا تھا، اک دن

اور میں کوئی تسلی بخش۰ اُتر دے نہیں پایا تھا اس کا‘‘

(۰جواب)

دھیان مُدرا میں مگن بیٹھے تھے جب آنند نے اس گفتگو کو

پھر سے چھیڑا جو کبھی آدھی ادھوری رہ گئی تھی۔

 

’’ہاں، بتاؤ، یاد کیا کچھ ہے تمہیں بچپن، لڑکپن

کا ، تمہارے سَنگھ میں آنے سے پہلے

زندگی کا ؟‘‘

 

’’جی، تتھاگت!

پیڑ سے اک بار گرنا اور ہفتوں تک مُڑی ایڑی پہ چلنا یاد ہے

شہد کی مکھیوں کے چھتّے پہ پتھر مار کر اس کو گرانا یاد ہے

اور مکھیوں نے مری دُر گت بنائی تھی مجھے ڈنکوں سے اپنے

چھید کر، وہ درد، سوجن۔ ۔ ۔ بھولنا بالکل اسمبھو۰ ہے تتھاگت

(۰نا ممکن)

باپ کا مرنا بھی مجھ کو یاد ہے ۔ ۔ ۔

اُن کی مرن شیّا ۰ پر رکھی

(۰موت کا بستر)

وہ لاش اُن کی

تیرتی رہتی ہے یادوں میں تتھاگت!‘‘

 

بُدّھ آنکھیں میچ کر سنتے ہوئے بولے

’’ کہو، کچھ اور بھی یادیں تو ہوں گی؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت، پر یہ سب یادیں ادھوری رہ گئی ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ اس لیے شاید کہ ان یادوں میں کوئی درد یا افسوس کا عنصر نہیں ہے ؟‘‘

 

’’یہ بھی ممکن ہے، تتھاگت!‘‘ سر جھکا کر دھیرے سے آنند بولا

 

’’سوچنا، یادوں کو اپنی سوچ کا حصّہ بنانا اور ان یادوں کو اپنے ذہن میں

۰ساکار کر کے ان سبھی لمحوں کو پھر اک بار جینا

(۰متصور )

اک یہی تو بات حیوانوں سے ہم کو مختلف رکھتی ہے، بھکشو

جانور کب سوچتے ہیں ؟

اپنے عادات و خصائل ان کو ورثے میں ملے ہیں

گھاس چرنا، پتے کھانا

نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ۰سمبھوگ کرنا

(۰جنسی فعل)

دوسرے کمزور جنگلی جانور کو مار نا، کچا چبانا

یہ سبھی باتیں تو ان کی

نسل یا شجرے میں ہیں۔ ۔ ۔

یادیں تو بھکشو، صرف سوچوں کا ثمر ہیں

اور یہ تحفہ تو ۰کیول آدمی کو ہی ملا ہے۔

(۰ صرف، فقط)

اور پھر، آنند بھکشو

۰آدی مانو سے چلیں تو آج تک

(۰بن مانس)

سوچوں کی اس زنجیر میں لاکھوں نئی کڑیاں جُڑی ہیں

فاصلوں کو پاٹنے کے واسطے پہیہ بہت لازم ہے

بے شک، پہیّے کی ایجاد سب سے اہم ہے

راستے کم کر دیے ہیں عام سی ایجاد نے۔ ۔ ۔

ہر نئی ۰ پیڑھی بڑھاتی جا رہی ہے

(۰نسل )

نت نئی ایجاد کے یہ سلسلے۔ ۔ ۔

آنند بھکشو، کون جانے

کل کلاں انسان بھی اُڑنے لگے

اپنی کسی ایجاد کے بُوتے پہ

لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

آنند ایسا منہمک تھا

بُدھّ جب چپ ہو گئے تو

جیسے اس کو یاد آیا

’’ہاں، تتھا گت

ساری۰ پورانک کتھاؤں میں تو

ٌ۰دیو مالا کی کہانیاں ّ

اکثر دیوتا اڑتے دکھائے ہی گئے ہیں !‘‘

 

بُدھّ جیسے مسکرائے

(یا لگا آنند کو، وہ مسکرائے )

اور بولے، ’’میرا منشا یہ نہیں تھا

میں تو مانو کے اوِشکاروں کی بابت

کہہ رہا تھا ۔ ۔ ۔

اور اب اک بات جو بے حد ضروری ہے

۔ ۔ ۔ سنو، آنند بھکشو!‘‘

 

’’جی، تتھا گت!‘‘

 

’’اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لو

ماپ کر دیکھو تو شاید

چھہ گرہ سے کچھ زیادہ

اس کی اونچائی تمہیں محسوس ہو گی

اب تمہیں میں یہ بتانے جا رہا ہوں

گول گنبد کی طرح گردن پہ رکھے

چھہ گرہ اونچے تمہارے سر میں، بھکشو

سوچ کا محور جو ہے، وہ گوشت کا اک لوتھڑا ہے

یہ تمہارا مغز ہے آنند بھکشو، جس میں

پہلے دن سے آج تک کی ساری یادیں

گیان اور وِگیان، ۰ درشن

(۰فلسفہ)

وہ سبھی کچھ جو تمہاری یاد کی

بنیاد ہے، موجود ہے

جس کو تم روزانہ

اپنے کام میں لاتے ہو، لیکن

گوشت کے اس لوتھڑے کا ایک حصہ وہ بھی ہے

جو نوّے فی صد کی ۰دشا تک

(۰حد)

کلیتاً بیکار، خوابیدہ پڑا ہے

آج تک شاید کسی پہنچے ہوئے انسان نے

اس کو جگایا ہو، تو ہو

لیکن، یہ حصّہ مغز کا

جو ابتدا سے آج تک سویا ہوا ہے

جانے کب جاگے گا

اپنی شکتیوں کو ساتھ لے کر!

اور جب یہ جاگ جائے گا، تو پھر آنند بھکشو

سارے مانَو

مغز کی ان شکتیوں سے لیس ہوں گے

آج جن کا علم بھی ہم کو نہیں ہے۔

یاد رکھو، تین چوتھائی ہمارا مغز پوشیدہ ہے ہم سے !

 

’’ہاں، تتھا گت، بات تو سچی ہے، لیکن

جب یہ حصہ جاگ جائے گا تو ہم کیا

ایسے بدلیں گے کہ مانو جات سے ہم

اور اونچے، اور اونچے، اور اونچے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ اور اونچے، اور اونچے ہوتے جائیں گے

تو کیا ہم دیوتا بن جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’دیوتا بننا ضروری تو نہیں ہے

ہم اگر خوابیدہ حصے کو کبھی بیدار کر لیں

اور پھر اُن شکتیوں سے جو ہمیں اُس سے ملیں گی

اچھے کاموں کے بجائے

ہم بُرے کاموں سے اپنا کام رکھیں

تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے

آج کے انسان کی ۰پدوی سے بھی

(۰حیثیت )

گر جائیں گے ہم ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زنخا بھکشو

 

اور پھر جس شخص کو آنند اپنے ساتھ لے کر

بُدھّ کی خدمت میں پہنچا

اس کا حُلیہ مختلف تھا

سر پہ لمبے بال تھے، ہاتھوں میں کنگن

اور کانوں میں جھمکتی بالیاں تھیں

صنف نازک کی طرح۔ ۔ ۔ پر

کھردرا ، مردانہ چہرہ

مونچھ داڑھی سے صفا چٹ

اک مخنث!

 

’’اے مہا مانو، یہ آدھا پُرش، آدھی استری ہے

ایک زنخا ۔ ۔

شادیوں میں، میلوں ٹھیلوں کی تماشا گاہ میں

روزی کی خاطر ناچتا ہے

ناچ گا نا

عورتوں کی طرح نخروں کی نمائش

روزی روٹی کا یہی واحد وسیلہ جانتا ہے

آج یہ آیا ہے ہم سے دیکھشا لینے کی خاطر

زندگی سے تنگ ہے

کہتا ہے اس کو اپنے آنے والے سب جنم

ہر بار ایسے ہی ملیں گے

اس کی مکتی بسی اسی اک آس پر ہے

آشرم میں شرن لے، اور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

ٹوکتے کب تھے تتھا گت۔ ۔ ۔ !

پھر بھی ان کی اک نظر کافی تھی بھکشو کے لیے۔ ۔ ۔

آنند جب چپ ہو گیا تو

آنے والے شخص سے پوچھا

’’ بھلے مانس، بتاؤ، تم یہ کیسے جانتے ہو

آنے والے اپنے جنموں میں بھی تم بدھیا رہو گے ؟‘‘

 

’’جانتا ہوں۔ ۔ ۔ اے مہا مانو

میں اپنے پچھلے دو جنموں کی بھی پہچان رکھتا ہوں

کہ میں ان میں بھی اک بدھیا تھا، یعنی

پُرش یا ناری نہیں تھا !‘‘

 

ایک لمحے کے لیے تو چونک اٹھے بُدھّ

پھر شفقت سے اُس آدھے ادھورے شخص کو دیکھا، کہا۔ ۔ ۔

’’تم آگے آ کر بیٹھ جاؤ۔ ۔ ۔ تم بھی بھکشو، تم بھی اس کے ساتھ بیٹھو!‘‘

 

گیان داتا بُدھّ کی آنکھیں تو جیسے گڑ گئیں

اس شخص کے ماتھے پہ اس تحریر کو پڑھنے میں

جو بنتا، بگڑتا

ٹوٹ کر پھر استوار ہوتا ہوا

جنموں کی لڑیوں میں پرویا ایک نقشہ تھا ۔ ۔ ۔ کہا پھر

’’دو جنم پچھلے تو اپنے جانتے ہو

اس سے پہلے کیا تھے تم

یہ علم تم سے چھن گیا ہے۔

دو جنم اگلے بھی اپنے جانتے ہو

تیسرے، چوتھے یا اس کے بعد کے جنموں کا تم کو

کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’کیوں ؟ تمہیں کیا علم ہے یہ؟‘‘

 

’’جی نہیں، لیکن تتھا گت۔ ۔ ۔ ‘‘

 

رو پڑا وہ

سسکیوں کے بیچ میں اتنا کہا پھر

’’پچھلے دو جنموں میں بھی مَیں اک ۰ نپُنسک ہی تھا

(۰زنخا، ہیجڑا)

اک زنخا۔ ۔ ۔ سوامی

میں تو اتنا جانتا ہوں

جنس کی پہچان میری کچھ نہیں تھی

اپنے پچھلے دو جنموں سے پہلے کیا تھا میں

اک مرد یا عورت، کہ زنخا؟

مجھ کو اس کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہے !‘‘

 

رو تے روتے اس کی گھگھی بندھ گئی تو

بُدھ ّنے شفقت سے اس کی سمت دیکھا

پھر کہا

’’ مرد تھے تم۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کے جنم میں !‘‘

 

’’پھر، تتھا گت؟

کون سا ایسا گنہ سر زد ہوا تھا، جس کے کارن

تین جنموں سے مجھے یہ کشٹ سہنا پڑ رہا ہے

اور آگے آنے والے دو جنم بھی مجھ کو ایسے ہی ملیں گے

بعد اس کے۔ ۔ ۔ ؟‘‘

 

بُّدھ کچھ لمحے تو آنکھیں بند کر کے

اپنے اندر کھو گئے، پھر دھیرے سے بولے

’’جاننا اتنا ضروری ہے، تو سن لو

یہ تمہاری داستاں ہے

ایک سوداگر تھے تم اپنے جنم میں

جب سفر سے لوٹتے، کچھ دن ٹھہرتے

اور بیوی کو اکیلا چھوڑ کر

پھر نکل جاتے کہیں پردیس میں سوداگری کو۔ ۔ ۔

بیویاں کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہوں

ان کو اکیلا چھوڑ کر جانا سمجھداری نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

 

رُک گئے دو چار لمحے

اور بھی دھیرے سے بولے

’’اُس نے بھی، یعنی تمہاری بیاہتا بیوی نے اکلاپے کو اپنے

دُور کرنے کے لیے تب دوستی کر لی تمہارے بھائی سے ہی

تم نے جب آ کر انہیں پکڑا تو وہ سمبھوگ کی حالت میں تھے۔ ۔ ۔

تب کرودھ کی حالت میں ان کو مار ڈالا

اس پہ بھی غصہ تمہارا اس قدر تیکھا تھا، تم جب

ان کی ہتیا کر چکے تو

دونوں کے ہی گُپت انگ خنجر سے اپنے کاٹ ڈالے ۔ ۔ ‘

جنس کی پہچان جیسے اک برابر ہو گئی دونوں کی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

رُک گئے کچھ دیر کو جب بُدھّ

تو آنند پہلی بار بولا

’’جنس کی پہچان کھونا، کیا یہی اس کی سزا ہے ؟‘‘

 

’’ہاں، یہی کارن ہے، بھکشو

جنس کی پہچان تک اس کی نہیں ہے،

تین جنموں سے۔ ۔ ۔

یہ خود بھی جانتا ہے

اگلے دو جنموں میں بھی ایسے رہے گا؟‘‘

 

’’اور اس کے بعد، پھر؟‘‘

آنند نے بے چین ہو کر ایسے پوچھا

جیسے اُس کی ہیسزا ہو

 

بُدھّ اب گویا ہوئے زنخا سے، ’’اُٹھو!

بھکشوؤں کا بانا پہنو

آشرم میں اب سواگت ہے تمہارا

یہ جنم اپنا سنوارو ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جنم سُدھرا اگر تو

اس سے اگلے دو جنم بھی ایسے ہی سُدھریں گے

اس کے بعد کے جنموں میں

اپنی جنس کی کھوئی ہوئی پہچان پھر سے پا سکو گے

استری یا پُرش کی کایا ملے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُنگلی مالا ۔ (۱)

 

’’سوچتا رہتا ہوں اکثر میں، تتھا گت

اِس جنم سے آنے والے اُس جنم تک

اُنگلی مالا کو گر معمول کے جنموں کی مالا میں پروئی

اگلی پیدائش تلک جانے دیا جاتا، تو اس میں کیا غلط تھا؟

یعنی اپنی کرتوتوں کا پھل وہ بھوگتا ۔ ۔ ۔

بھوگتا اک ایک ہتیا کے عوض اک ایک بدتر زندگی

تو کیا غلط تھا؟‘‘

 

شائبہ سا ایک ہلکی مسکراہٹ کا (لگا آنند کو)

جیسے تتھا گت کے لبوں پر اپنی چھب دکھلا کے اوجھل ہو گیا ہو

 

’’ہاں، تتھاگت۔ ۔ ۔ کیا غلط تھا ؟ ‘‘

بھولے بالک کی طرح آنند اپنی ہٹ پہ قائم

خود کو ہی دہرا رہا تھا

’’ایک درشٹی کون ۰سے تو بات، اے آنند، بالکل ٹھیک ہے    ۰ زاویۂ نگاہ

لیکن کسی دوشی کو اس کے ڈنڈ میں ایسی سزا دینا

کہ جس سے

نیائے ۰تو ہو جائے، لیکن

(۰انصاف)

آنے والی اپنی اگلی زندگی میں پھر دوبارہ ۰ڈنڈ جھیلے

(۰سزا )

یہ غلط ہے !

جرم اک ہو تو سزا بھی ایک ہونی چاہیے نا؟

اور۔ ۔ ۔ ۔ تم شاید نہ جانو، میں تو سب کو جانتا ہوں

سارے بھکشو کب، کہاں نردوش ہوتے ہیں

ہمارے سنگھ میں آنے سے پہلے !‘‘

 

بے ضرر، معصوم، نردوشی ۔ ۔ ۔ بہت سے شبد تھے

آنند کے جو ذہن میں آئے، مگر وہ کچھ نہ بولا

 

’’ہاتھ چھل جائے ہمارا، چوٹ آ جائے کہیں پاؤں میں

یا پھر روگ لگ جائے کوئی تو

ہم دوا دارو تو کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ اگر اک داغ لگ جائے دامن کو

تو دھو کر صاف کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔

پاپ بھی اک داغ ہے جو آتما کومسخ کر دیتا ہے، بھکشو

اور اِس کو اِس جنم میں بھی کسی حد تک صاف کر لینا

گنا ہوں پر گِلانی ۰ اور پشچاتاپ ۰کر لینا

(۰پچھتاوا ، توبہ)

بقایا زندگی اچھے کرم یو گی سا رہنا

کیا غلط ہے اس میں بھکشو؟‘‘

 

اور جب آنند تھوڑی دیر تک کچھ بھی نہ بولا

تو تتھا گت نے کہا، ’’وہ سامنے دیکھو، ہمارا دِیکھشت

(۰ چیلا، بھکشو)

بیٹھا ہوا سب بھکشوؤں کے لمبے چولے

سوئی تاگے سے مرمّت کر رہا ہے

ہر نیا بخیہ جو اس کے ہاتھ سے لگتا ہے

اس کے سینکڑوں پاپوں کے بخیے کھولتا ہے !‘‘

 

پھر لگا آنند کو جیسے ذرا سا شائبہ مسکان کا

ان کے لبوں پر اپنی ہلکی چھب دکھا کر اُڑ گیا ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

انگلی مالا (۲)

 

دو دنوں تک گفتگو کا یہ سفر ساکت رہا۔ ۔ ۔

آنند کو تب تیسرے دن خود تتھا گت نے بلایا

 

’’آج بھی تم دل میں کچھ شنکائیں ۰ رکھتے

(۰شکوک)

کچھ تردّد کی دَشا۰ میں پھر رہے ہو، بات کیا ہے ؟‘‘

(۰حالت)

 

’’ہاں، گُرو وَر، اس تذبذب میں رہا ہوں

(۰ محترم استاد)

اُنگلی مالا کو اگر اس آشرم میں شرن دینے کی جگہ سیدھا ہی

بندی گھر ۰ یا کاراواس ۰

(۰قید خانہ)

میں رکھتے تو اس میں کیا بُرائی تھی، تتھاگت؟‘‘

 

’’کچھ بُرائی تو نہیں تھی اس میں، لیکن

کچھ اچھائی بھی نہیں تھی

بندی گھر میں قید ہو جانے کا کیول ۰ ایک ہی مقصد ہے

(۰فقط)

۔ ۔ ۔ قیدی اپنی آزادی سے گر ونچِت ۰ رہے تو

(۰ بغیر، خالی)

وہ کوئی بھی جرم کر سکنے کی حالت میں نہیں ہو گا، مگر۔ ۔ ۔

آنند بھکشو، تم نے کیا سوچا کہ وہ کوئی بھی دیگر کام

ایسا کر نہیں پائے گا جس میں

بہی خواہی، رحم، خدمت، درد مندی کا بھی عنصر ہو

کسی پر ترس کھانا

اشک شوئی، آنسوؤں کا پونچھنا بھی ایک بخشش ہے

مگر یہ کام بندی گھر میں رہ کر سیکھنا، اس پر عمل کرنا

کہاں ممکن ہے اک بے رحم قاتل کے لیے۔ ۔ ۔

کیوں ہے نا سچی بات، بھکشو؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’اور پھر اس آشرم سیکھنے کو کیا نہیں ہے ؟

۰بھاو سیوا کا، مدد گاری، دیا، بھنڈار، کرپا

(خدمت خلق، رحم، مل کر کھانا، مہربانی)

مہرباں ہونا، سبھی سے پیار رکھنا، صلح کل رہنا

سخاوت، خیر خواہی، نیک اندیشی، عنایت

۔ ۔ ۔ ۔ یہ سبھی انسانیت کے گُن ۰ہیں، بھکشو

(۰اچھی خصوصیات)

جو کوئی بھی اُنگلی مالا جیسا ۰اپرادھی

(۰مجرم)

یقیناً سیکھ سکتا ہے ہمارے سَنگھ میں، پر۔ ۔ ۔

بندی گھر میں تو فقط ناترس ہونا

بربریت میں یقیں رکھنا

درندہ صفت، وحشی، سنگدل، بے رحم ہونا ہی تو سیکھے گا کوئی قیدی!

کیا تمہیں تسلیم ہے یہ بات، بھکشو؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’طے ہوا کہ کوئی قیدی بندی گھر میں قید رہنے سے سدھر سکتا نہیں ۔ ۔ ۔

اور جب رِہا ہو گا تو ویسے کا ہی ویسا۔ ۔ ۔ لوٹ جائے گا

پُرانے پاپ کے جیون کی۰ دِن چریا میں، بھکشو!‘‘

(۰دن چریا : روز مرہ کا کام )

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’طے ہوا، بھکشو، کہ عادی مجرموں کو

ہم اگر ایسی پناہ گا ہوں میں رکھیں

جن میں اچّھائی کی شکھشا اور ہنر مندی کی تربیت ہو

تو بہتر رہے گا بندی گھر سے !

جب یہ باتیں اور کمائی کے لیے کوئی ہنر وہ سیکھ جائیں

تو انہیں پھر

ایک موقع دے دیا جائے کہ وہ اب

صلح کل، نیکی، بھلائی اور بہبودی کے رستوں پر چلیں گے

عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کئی اک بار پھر بھٹکیں مگر یہ

تجربہ اچھا رہے گا ۔ ۔ ۔ کچھ تو سدھریں گے یقیناً!‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’انگلی مالا کے تئیں اب سوچ کیسی ہے تمہاری؟‘‘

 

بہت آدر سے تب آنند نے پرنام کی ۰مُدرا میں سر اپنا جھکایا

(۰انداز)

پر اسے ایسے لگا اک بار پھر

جیسے ذرا سا شائبہ مسکان کا

ان کے لبوں پر اپنی ہلکی چھب دکھا کر اُڑ گیا ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

ساکھشی شروتی اور سمرتی

 

 

’’سمرتی ‘‘ ؟ یاداشت پر مبنی؟

’’شروتی‘‘؟ یعنی کانوں سے سُنی؟

یا ’’ساکھشی‘‘؟ آنکھوں سے دیکھی؟

کس میں کتنا جھوٹ ہے، کتنی حقیقت؟

جب تتھاگت بُدھّ سے آنند بھِکشو نے یہ پوچھا

تو وہ بولے

تُم تو، بھِکشو۔ ساکھشی ۰بھی ہو مری باتوں کے

(۰ناظر)

مجھ کو دیکھ کر پہچانتے ہو

اور ’’شروتا‘‘۰ بھی ہو، میرے

(۰ سامع)

کان بھی دھر کر مری باتوں کو سُنتے ہو ہمیشہ

اور اپنی ’’سمرتی‘‘ ۰میں

(۰یاداشت)

ساری باتیں یاد بھی رکھتے ہو میری

کل کلاں میں چل بسوں گا

تم مری باتوں کو اپنی یاد میں محفوظ رکھ کر چھوڑ دو گے۔ ۔ ۔

کچھ دنوں کے واسطے ماتم کرو گے

اور پھر جب

اپنے تبلیغی سفر پر

گاؤں گاؤں گھومتے پھرتے ہوئے

تم اپنے اپدیشوں میں میرا نام لو گے

میری باتوں کے ویاکھانوں کو دہراتے پھرو گے

تم کہو گے، ہاں، تتھا گت پاپ کے بارے میں بھی فرماتے رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

تم کہو گے، ہاں، تتھاگت جنّت و دوزخ کے بارے میں بھی یہ فرما گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

تم کہو گے، ہاں، یقیناً، ایشور کے ضمن میں ایسے کہا تھا

، ’’ایشور بس ایک مفروضہ ہے، اک ہستی نہیں ہے۔ ‘‘

 

تم کہو گے، ہاں، تتھا گت نے کہا تو تھا،

قبولیت کی کوئی حد نہیں ہے

جو ملے دنیا میں، سب سویکار کر لو۔ ۔ ۔

تم کہو گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم کہو گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

تم کبھی خود کوہی دہراتے ہوئے یہ بھول جاؤ گے

کہ پہلے کیا کہا ہے۔

اور کبھی یاداشت پر مبنی تمہاری بات اس تعلیم کو جھُٹلا بھی دے گی

جس کو جھولی میں بھرے تم پھِر رہے ہو۔

کل کلاں یہ ’سچ‘ یقیناً ’جھوٹ‘ میں تبدیل ہو گا،

یہ سمجھ لو

’ساکھشی‘ ہونے کا سچ ہی معتبر ہے !

(۰چشم دید گواہ)

٭٭٭

 

 

 

سلسلہ سوالوں کا

 

                 (۱)

 

آنند:   تتھا گت، یہ بتائیں

گوشت کھانا منع کیوں ہے ؟

 

تتھا گت: منع کب میں نے کیا ہے ؟

صرف میں نے بھکشوؤں کو یہ کہا ہے

گوشت کھانا کوئی آوشیک ۰ نہیں ہے

( ۰ضروری)

اور پھر ہر مانس بھکشی۰ گوشت کھانے کے لیے

(۰گوشت خور)

اک جیِو کی ہتیا کرے ؟، یہ ترک۰ تو بالکل غلط ہے

(۰ منطق)

آنند:   جی، تتھا گت؟

تتھا گت: اور پھر ہر ایک بھکشو اپنا بھوجن خود پکاتا ہے تو اس کو

کشٹ بھی ہو گا، سمے کا ناش بھی۔ ۔ ۔

پھر یہ سمے وہ اپنی چنتن ۰سادھنا میں خرچ کر سکتا ہے

(۰سوچ، بچار)

چاول جلد پک جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ہم سب جانتے ہیں !

آنند:   پر، تتھاگت، آدی مانَو ۰ سے یہاں تک

(۰پتھر، دھات کے زمانے کا انسان)

مانس ہاری ہی رہے ہیں لوگ سارے

(۰مانس ہاری: گوشت خور)

تتھا گت: ہاں، رہے ہیں۔ ۔

شاکا ہاری۰ بھی رہے ہیں

(۰پھل، سبزیاں کھانے والے )

مانتا ہوں، جب سے، لیکن

کھیتی باڑی، باغبانی، گائے بھینسوں کے لیے چارہ۔ ۔ ۔ ۔

ہمارے کاموں کا حصہ بنے ہیں، تب سے، بھکشو

 

مانس کا آہار ۰ آوشیک نہیں ہے۔ ۔ ۔

 

اچھا، جاؤ، کل جب آؤ گے تو اپنے ساتھ کوئی

پالتو کُتّا بھی لے آنا، مگر یہ دیکھ لینا، دانت اس کے

سارے قائم ہوں کہ مجھ کو۔ ۔ ۔ اس کا جبڑا کھولنا ہے۔

 

                 (۲)

آنند:    چھوٹا سا پِلّا ہی لایا ہوں

کہ اس کے کاٹنے کا بھَے ۰ نہیں ہے

(بھَے : ڈر، خطرہ)

تتھا گت:آؤ، دیکھیں۔ ۔ ۔ اس کا جبڑا کھول سکتے تو کھولو

ہاں، ذرا اب نچلے جبڑے پر نظر ڈالو۔ ۔ ۔

 

تمہیں کیا دونوں جانب

باقی دانتوں سے بڑا اک دانت ایسا بھی نظر آتا ہے جیسے

اک چھُری کی نوک ہو یا سیدھا تکلا سا کھڑا ہو؟

آنند:   ہاں، تتھا گت

تتھا گت:مانس بھکشی جانور کی ایک ہی پہچان ہے۔ ۔ ۔

یہ مناسب دانت قدرت سے ملے ہیں

 

کاٹنے یا چیرنے کے واسطے سب شیروں، چیتوں، بھیڑیوں کو

آدمی کے پاس بھی دو دانت ایسے ہیں، مگر

وہ چیر کر یا کاٹ کر کھانے کو ناکافی ہیں، بھکشو!

وہ چرندے یا پرندے جن کو سارے مانس بھکشی جانور

زندہ ہی کھا جاتے ہیں، وہ سب آدمی سے مختلف ہیں

کتا یا بلّی گھریلو جانور تو ہیں مگر یہ مانس ہاری نسل سے ہیں

 

آنند:   تو، تتھاگت، طے ہوا کہ ’آدی مانو‘ تک تو اپنی نسل ساری

مانس بھکشی تھی، مگر اب شاکا ہاری۰ ہو گئی ہے۔

(۰سبزی کھانے والے )

 

تتھاگت:کہنے کو ایسا کہا جا سکتا ہے، لیکن

یاد رکھنا، میں نے گوشت کھانے کے لیے سب بھکشوؤں کو

منع اس کارن کیا تھا

گوشت پانے کے لیے ایک جِیو کی ہتیا غلط ہے

۔ ۔ ۔ اور پھر اس کو پکانے کے میں تردّد ۔ ۔ ۔ ۔

بھکشوؤں کے واسطے اچھا نہیں ہے

شیروں، چیتوں، بھیڑیوں، یا کتوں، بلیوں کی طرح

بھوجن کی عادت ایک مانَو کے لیے قطعاً غلط ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی دشمن نہیں ہے

 

اور پھر اک شخص آیا

سنَگھ کا کوئی بھی دروازہ نہیں تھا

جو کسی کو روکتا

وہ گرتا پڑتا، ٹیڑھا، میڑھا

جب کھلے آنگن میں پہنچا

بے تحاشا رو رہا تھا

جیسے بے دردی سے پیٹا ہوکسی دشمن نے اس کو!

 

روتا روتا، سسکیاں لیتا ہوا وہ گر پڑا، تو

بھکشوؤں نے اس کو چلنے میں مدد دی

آہیں بھرتا

کھانستا، پلّو سے منہ کو صاف کرتا

بّدھّ کی خدمت میں پہنچا

 

بُدّھ اپنی آنکھیں میچے

دھیان کی مُدرا میں کُش آسن پہ بیٹھے جانے کس دنیا میں تھے

پر اجنبی کے سَنگھ میں آنے کا ان کو گیان تھا۔ ۔ ۔

دھیرے سے بولے

’’ہاں، سوالی، کس نے تم کو یوں ستایا ہے کہ تم یوں

اَدھ مرے سے چل رہے ہو؟‘‘

 

چیخ اُٹھا جیسے نو وارد

’’مری اس زندگی نے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 

’’یعنی تم کو زندگی سے یہ شکایت ہے کہ اس نے

تم پہ اتنے ظلم توڑے ہیں کہ

تم بے چارگی کی حد تلک پہنچے ہوئے ہو

اور اب چلنے میں بھی تکلیف ہوتی ہے تمہیں ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھاگت!‘‘

 

’’زندگی کو تم سے گویا دشمنی ہے ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

بُدّھ کُش آسن پہ بیٹھے دھیان کی مُدرا میں تھے

لیکن یکا یک اپنی آنکھیں کھول کر دھیرے سے بولے

’’ زندگی اور تم میں یہ رشتہ عداوت، دشمنی یا بیَر کا ایسے ہی ہے

جیسے کہ دو دشمن ہوں

تلواروں سے، تیروں، خنجروں سے لڑ رہے ہوں

کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا، سوالی؟‘‘

 

’’ہاں، تتھاگت، ٹھیک ہے یہ بات، لیکن۔ ۔ ۔

کیا کروں، ہر بار میں ہی ہارتا ہوں

زندگی بے درد ہے، بے رحم ہے، ظالم ہے

اک ڈاین سی، میرا خون ہر دم چوستی ہے !‘‘

 

’’زندگی کو کوسنے دیتے تو ہو گے جیسے اب تم دے رہے تھے !‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت، کیا کروں ؟ چارہ نہیں کوئی بھی

تو اب کوسنے اور گالیاں دینے کی ہمّت بھی گنوا دوں ؟‘‘

 

’’جب کسی دشمن کو گالی دو، سوالی

تو جواباً وہ بھی گالی دے گا، ہے ناں ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

 

’’زندگی بھی گالیاں دیتی تو ہو گی

سُن نہیں پاتے مگر تم۔ ۔ ۔

زندگی کی گالیاں یا کوسنے، لفظوں کی صورت میں نہیں ہوتے، سوالی

یہ بُرے حالات، اَن چاہی مصیبت، حادثوں کی شکل میں ڈھلتے ہیں اکثر

یہ کہاوت تو سنی ہو گی، سوالی

اینٹ پھینکو گر کسی پر، تو یقیناً

اس کا اُتّر ایک پتھر میں ملے گا!‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت، سن چکا ہوں !‘‘

 

’’ یہ بتاؤ۔ ۔ کیا کسی دشمن کو اپنا دوست بھی سمجھا ہے تم نے ؟‘‘

 

’’ہاں، تتھا گت۔ ۔ ۔ میرا اک رشتے کا بھائی۔ ۔ ۔ اس سے میری دشمنی تھی

پھر یکا یک یوں ہوا جیسے وہ اک دن میں بدل کر

میرے اصلی بھائی جیسا بن گیا ہو

اس نے مجھ پر مہربانی کی۔ ۔ ۔

بُرے وقتوں میں میری دست گیری کی، مجھے امداد دی۔ ۔ ۔ ۔

مجھ کو بہت اچھا لگا۔ ۔ ۔ ۔ اور میں نے بھی

اس کو سگے بھائی سا سمجھا ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہماری دوستی ہے !‘‘

 

’’خوب ! گویا دشمنی اور دوستی میں ادلا بدلی عین ممکن ہے !

کہو، کیا ٹھیک ہے یہ ۰ترک، سوالی؟‘‘

(۰منطق)

 

’’ہاں، تتھاگت!‘‘

 

’’ایسے لگتا ہے کہ میری بات اب آہستہ آہستہ

تمہارے دل میں بستی جا رہی ہے

زندگی دشمن ہے، لیکن

دشمنی اور دوستی میں ادلا بدلی کے لیے

عین ممکن ہے

ضروری ہے کہ وہ اک دوسرے کو دوست سمجھیں

تم اگر خود زندگی کو کوسنے دینے سے رُک جاؤ تو شاید کام بن جائے

کہو، میں زندگی سے پیار کرتا ہوں

مری تکلیف تو میرے ہی کرموں کا پھل ہے

زندگی کی دوستی تو زندگی سے دست گیری ہے

مجھے اس سے محبت ہے

میں جینا چاہتا ہوں، سکھ، محبت، شانتی سے۔ ۔ ۔

زندگی، اے دوست میری، حوصلہ دو

میں مصائب سے لڑوں گا

پر مجھے امداد کی بے حد ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ۔

مجھے امداد دو، اے دوست میری!‘‘

 

وہ جو لنگڑاتا ہوا آیا تھا

جس کے پاؤں چلتے ہی نہیں تھے

تب یکا یک خود ہی اُٹھ بیٹھا

کھڑا بھی ہو گیا، بولا

’’تتھا گت، آپ کی جے ہو

میں اب سے اس ہنر کو آزمانا چاہتا ہوں !‘‘

 

اک بار پھر دیکھا تتھا گت کی طرف

اور پیار کے لہجے میں بولا

’’زندگی، اے دوست میری

مجھ کو شکتی دے کہ میں خود چل سکوں

گھر تک چلوں

مجھ کو کوئی دقّت نہ ہو گھر تک پہنچنے میں۔ ۔ ۔

کہ میں اب اک نیا مانَو ہوں

میری دوست تم ہو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

جنم سے چتا تک

 

’’میں نے پہلی بار یہ منظر تبھی دیکھا تھا جب

جب رتھ بان نے مجھ کو بتایا تھا کہ مُردہ جسم کے

۰ انتم چرَن کی یاترا میں

(۰آخری قدم)

اُس کو اگنی کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔

تب اک بار پھر

اس جسم کے تینوں عناصر، مٹّی، پانی اور ہوا

چوتھے سے، یعنی آگ سے مل کر

حقیقی اور ازلی جزو میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ میں انجان تھا اس بات سے تب!‘‘

 

بات کا آغاز کرنے کے لیے آنند نے تو

بر سبیل تذکرہ اتنا ہی پوچھا تھا ’’۔ ۔ ۔ تتھاگت

یہ بتائیں

راکھ ہی کیا سارے جیووں، جنتوؤں کی

آخری منزل ہے ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

 

’’۔ ۔ ۔ بے شک!‘‘ بُدھّ بولے تھے، ’’مگر سوچو تو آنند

جسم کے یہ مرحلے۔ ۔ ۔

پہلے تو بچپن

پھر لڑکپن

پھر جوانی

پھر بڑھاپا

اور پھر ان سب کا حاصل۔ ۔ ۔ موت!

اس کے بعد اگنی

بھسم ہو جانا چتا کی راکھ میں !

ترتیب سیدھی ہے

اگر کروٹ بدل کر

یہ الٹ جائے تو پھر

کیسا لگے گا تم کو بھکشو؟‘‘

 

’’میں نہیں سمجھا، تتھا گت!‘‘

سیدھی سادی بات ہی تو ہے، سُنو آنند، لیکن غور سے

ترتیب کے اُلٹے مساوی رُخ کو اب دیکھو ذرا

۔ ۔ ۔ ہم آگ میں پہلے جلیں

پھر اپنے مردہ جسم میں داخل ہوں۔ ۔ ۔

پھر ارتھی سے واپس

جانکنی کی سب اذیت جھیل کر لوٹیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ جہاں ’’سر کانپتے، پگ ڈگمگاتے ‘‘ وہ بُڑھاپا ہے، جسے

برداشت کرنا موت سے بد تر ہے۔ ۔ ۔

پھر الہڑ جوانی، پھر لڑکپن

لوٹ کر چلتے ہوئے پھر آغوش ماں کی

شیر خواری کے دنوں تک

اور پھر تولید کا آزار۔ ۔ ۔

کیسا سلسلہ ہے یہ؟ بتاؤ!‘‘

 

اپنے سر کو نیوڑھائے

گو مگو کی کیفیت میں

گم رہا آنند کافی دیر تک،

پھر سر اٹھایا

اور کچھ کہنے کو لب کھولے مگر تب تک تتھا گت

لمبے لمبے ڈگ اُٹھاتے جا چکے تھے !

٭٭٭

 

 

 

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھاگت نے

 

                نئی آنکھیں

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھاگت نے

 

سَنگھ سے آنکھیں لینے آئے ہو

تو مری بات غور سے سُن لو

 

اُن تمہاری پُرانی آنکھوں میں

جن کو تم اپنے ساتھ لائے ہو

لاکھ منظر ہیں دید کے طالب

اور ایسے رہیں گے ساری عمر

 

ماں کی آغوش، ماتھے پر بوسہ

چھاتیوں میں بھری ہوئی شفقت

بہنوں کا پیار، بھائیوں کے چہرے

 

اور ان سب سے منسلک وہ گھر

جس کی چوکھٹ پھلانگ آئے ہو!

 

اس لیے جاؤ لوٹ کر اک بار

پہلی آنکھوں کو گھر کی چوکھٹ پر

دفن کر آؤ، تاکہ دیکھ سکو

نئی آنکھوں سے سَنگھ کی جانب!

٭

 

                سایہ

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

 

چڑھتا سورج ہو، ڈھلتا سورج ہو

پیٹھ کر کے چلو گے تو، لوگو

اپنا سایہ ہی خود سے کچھ آگے

چلتا پاؤ گے اور تم اس کے

پیچھے پیچھے چلو گے ساری عمر!

٭

 

                منزل

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

 

چاہتے ہو کہ اور آگے بڑھو

بڑھتے ہی جاؤ، راستے پیچھے

چھوٹتے جائیں اور وہ سارے

ہم سفر تھے جو، پیچھے رہ جائیں !

 

چاہتے تو ضرور ہو، لیکن

یہ بھی ممکن ہے، کوئی ایسا پڑاؤ

آئے، اور اس سے آگے جانے میں

خود کو معذور پاؤ، یا سمجھو

 

آگے کچھ بھی نہیں ہے، مایوسی

اور تھکاوٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ پڑاؤ بھی

وہ بسیرا نہیں، جہاں رُک کر

تم کہو، آج منزل مقصود

مل گئی ہے۔ ۔ ۔ ٹھہر کے دم لے لیں !

آگے چلنے کے واسطے مجھ کو

تازہ دم ہونا بھی ضروری ہے

 

یہ تھکاوٹ، یہ ماندگی، لوگو

پیش خیمہ ہے ٹوٹ جانے کا

آگے چلنے کی تم میں شکتی نہیں

اور تم پھر بھی ضد پہ قائم ہو!

 

ایسی صورت میں لوٹ جانا ہی

ایک بہتر دلیل ہے، پیچھے

اک نہ اک سنگ میل ایسا بھی

آیا ہو گا، جہاں تمہارے پاؤں

تھک گئے ہوں گے، اور خوش ہو کر

یہ کہا گا تم نے خود سے ضرور

کتنی آرام دہ جگہ ہے، رُکیں !

رُک کے، پل بھر ٹھہر کے، دیکھیں تو

اس سے بہتر مقام اب شاید

اور آگے ملے، ملے نہ ملے !

 

یہی بہتر دلیل ہے، اب بھی

لوٹ جاؤ کہ وہ پڑاؤ ابھی

منتظر ہے تمہارے آنے کا!

 

آگے جانے کی کیا ضرورت ہے ؟

٭

 

 

                سوال اور جواب

 

اپنے پچھلے جنم میں کیا تھا میں ؟

کون تھا؟ کیا تھی میری حیثیت؟

گوت کیا، ونش کیسا تھا میر ا؟

کب، کہاں، کیسے زندگی بیتی؟

موت کب آئی؟ کیا ہوا تھا مجھے ؟

اک نئی ۰ جُون پانے کے ۰ پشچات

(۰نیا جنم ۰بعد)

کوئی بھی پوچھتا نہیں یہ سوال

کیا پڑی ہے کسی کو یہ سوچے

وہ جنم جو گذار آیا ہوں

اس میں کیا کیا سبق ہیں میرے لیے

اور پوچھیں بھی تو بتائے گا کون؟

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

خود سے پوچھو گے یہ سوال اگر

عین ممکن ہے کچھ جواب ملے !

٭

 

 

 

 

                جسم اور جنس

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

 

جنس تو جسم کی ضرورت ہے

جنس کی اہمیت کو کم نہ کرو!

ہر کوئی چیز۔ ۔ ۔ وایُو، ۰ جل، بھوجن

(۰ وایو : ہوا ّ

جسم کے واسطے ہے، تو سمجھو

جنس بھی ایک اہم عنصر ہے

پانی، کھانا، لباس سے پرہیز

گر ضروری نہیں ہے تو، لوگو

 

جنس کو کیوں تلانجلی دی جائے ؟

جنس، لوگو، گنہ کا نام نہیں

 

حدّت و حرکت و حیات۔ ۔ ۔ سبھی

جسم اور جنس کے تعلق میں

باہمی امن سے عبارت ہیں

روح کی فوقیت مسّلم ہے

جسم، لیکن وہ گھر ہے جس کا مکیں

چاہتا ہے کہ گھر میں امن رہے

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

عمر بھر جنس کو دبانے سے

روح کمزور ہوتی جاتی ہے !

٭

 

 

                گرد راہ

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

ایک لمبے سفر پہ نکلے ہو

راستہ سخت، دھوپ، دھول اور پیاس

گرد رہ سے اٹے ہوئے پاؤں

 

اب جو پہنچے ہو سَنگھ تک، تو سُنو

سَنگھ منزل نہیں ہے۔ ۔ ۔ رستے کا

اک پڑاؤ ہے یا سرائے ہے

اس سرائے سے اور آگے بھی

ایک لمبے سفر پہ چلنا ہے !

 

پاؤں بوجھل ہیں گرد سے، لیکن

طے شدہ راستوں کی دھول اگر

اِن پر حاوی رہی، تو اگلا سفر

کیسے کر پاؤ گے ؟ چلو، اٹھو

پاؤں دھو لو کہ ان سے چپٹی دھول

بیتے رستوں کی اک کہانی ہے !

 

اپنے ماضی کو بھول جانا ہی

اہم ہے اس لیے کہ اگلا سفر

کالے کوسوں کی اک مسافت ہے

جس میں پچھلی صعوبتوں کی یاد

یعنی یہ پاؤں سے لپٹتی گرد

آگے بڑھنے روک دیتی ہے !

۰۰

 

 

 

 

 

 

 

پیڑ کاٹو گے ؟

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

 

پیڑ کاٹو گے، کیا ملے گا تمہیں ؟

صرف لکڑی، جلانے کی خاطر

جھاڑ جھنکاڑ مردہ پتوں کا

کونپلیں، پتّیاں، گھنی شاخیں

چاروں جانب زمیں پہ بکھری ہوئیں

گھونسلے، بکھرے، ٹوٹے پھوٹے ہوئے

ان پرندوں کے جو ہیں اب بے گھر!

 

پیڑ کاٹو گے، کیا گنواؤ گے ؟

چھاؤں، جو دھوپ کی تمازت میں

 

ایک چادر کی طرح بچھتی تھی

گرمیوں کی بھری دوپہری میں

لیٹ کر جس پہ دیکھتے تھے تم

سینکڑوں چھتریوں سی جیسے تنی

 

پیڑ کی سبزشاخوں کا خیمہ

گرم لُو سے نجات پاتے تھے

پیڑ کٹنے سے یہ چھتر چھایا

اب کہاں ہے ؟ بتاؤ لوگو مجھے !

 

پھل، جو ہر آتے جاتے موسم میں

سارے گاؤں کے کام آتے تھے

آم، انجیر، بیر، جامن، سیب

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍناریل، سنگترہ، انار، کھجور

بے دھیانی میں سب گنوا بیٹھے !

 

بھیڑ سے یہ کہا تتھا گت نے

 

پیڑ بھائی ہیں، دوست، ساتھی ہیں

ان کو مت کاٹو، ان سے پیار کرو!

٭٭٭

 

 

 

 

تتھاگت نظموں کے نزول کی کتھا

 

میں پنجاب (پاکستان) کے ضلع چکوال کے ایک غیر معروف گاؤں کوٹ سارنگ میں سن ۱۹۳۱ء میں پیدا ہوا۔ خاندانی نام ’’آنند‘‘، کھتریوں کی ’’کھُکھرائن‘‘ برادری کے ایک رکن کے طور پر اسی برادری کے باقی اراکین سے کچھ مختلف تھا۔ کھُکھرائن وسیع تر ’’کھوکھر‘‘ قبیلے کی ہی ایک شاخ تھی، اسلام کے اس علاقے میں متعارف ہونے کے بعد جو اراکین مشرف بہ اسلام ہوئے وہ ’’کھوکھر‘‘ کہلاتے رہے لیکن باقی ماندہ برادریوں نے ہندوانہ طریق کے طور پر خود کو ’’کھُکھرائن‘‘ کہلوانا پسند کیا۔

لڑکپن سے ہی مجھے اپنے خاندان، اپنے پرکھوں (خصوصی طور پر اپنے خاندانی نام ’’آنند‘‘ جو خالصتاً سنسکرت کا لفظ ہے ) اور وسیع تر سطح پر پنجاب کے اس حصے میں آباد قبائل کے بارے میں تحقیق کرنے کا شوق تھا۔ یہ خطہ عرف عام میں گاندھارا بیلٹ (بمعنی ’’قندھار کی پٹی)کہلاتا تھا۔ چار سو سال قبل از مسیح سے لے کر سکندر اعظم کے حملے تک کی صدیوں میں یہ راستہ وہ باب الخاص تھا جسے کھول کر بدھ بھکشو افغانستان اور پھر وہاں سے وسط ایشا کے ملکوں تک جاتے تھے۔ اس علا اقے کے چپے چپے پر بُدھ وِہاروں، بھکشوؤں کی سمادھیوں، بدھ کی مورتیوں، شِلاؤں پر مہاتما بُدھ کے زریں اقوال آج بھی ٹوٹے پھوٹے کھنڈرات کی شکل میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں نوشہرہ چھاونی یا راولپنڈی سے موسم گرما کی تعطیلات میں گاؤں واپس جانے اور دو ماہ تک وہاں ٹھہرنے کے دنوں میں مرا معمول یہ ہوتا کہ میں اپنی دادی ماں سے اجازت لے کر دور دور تک پیدل چل کر بدھ مت کی باقیات یعنی بدھ مجسموں کے ٹکڑے یا ان چٹانوں کے ٹکڑے اکٹھا کرتا رہتا جن پر پالی زبان میں کچھ بھی کھدا ہوا ہوتا۔

چودہ پندرہ برس کی عمر میں اپنے خاندانی نام کی شروعات کو تلاش کرتے ہوئے مجھے اپنے پردادا کے چھوٹے بھائی کی پرانی بیٹھک میں کچھ بہی کھاتے ملے، جن پر سرخ کپڑا منڈھا ہوا تھا اور ان میں ’’ ٹاکرے ‘‘ رسم الخط میں لمبی لمبی تحریریں تھیں۔ میں نے اس بزرگ (لالہ بیلی رام ) کی مدد سے انہیں پڑھ کر انہیں اردو میں منتقل کرنا شروع کیا۔ معلوم یہ ہوا کہ بغیر ان کو سمجھے بوجھے ہوئے، یا ان کی اہمیت کا اندازہ کیے ہوئے، نسل در نسل یہ تحریریں، دوبارہ لکھ لکھ کر ایک بہی سے دوسری اور دوسری سے تیسری (ہذا القیاس) میں منتقل کی جاتی رہی ہیں اور ان کی شروعات صدیوں پرانی ہے۔ ہر نئی نسل کو یہ ہدایت تھی کہ اگر یہ خستہ یا دریدہ حالت میں پہنچ جائیں تو وہ اس تحریر کی نقل کر کے ایک نئی بہی میں منتقل کر دے۔ جو بہیاں میرے ہاتھ لگیں وہ لگ بھگ ایک سو برس پرانی تھیں۔

ہر تحریر ایک کہانی سے شروع ہوتی تھی، ً جس کا اختصاریہ اردو میں کچھ ایسے ہے۔ ’’بکرمی سموت  (بکرمی یا وکرمی سموت ہندوستان کے تیجسوی راجہ وکرمادتیہ سے نسبت رکھتا ہے۔ ) کا نظام شروع ہونے سے چار پانچ صدیاں پہلے پانچ بُدھ بھکشوؤں کا ایک ٹولا راجہ ارون دت کھوکھر کی راجدھانی مادھان میں وارد ہوا۔

یہ سن عیسوی یا سن ہجری دونوں سے قدیم ہے۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ  رہا ہوں سن عیسوی کی پانچ جنوری 2015ء بہ مطابق سن ہجری کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے، اوروکرمی سموت (سم وَ ت)کی پانچ پوس 2071 ، ہے گویا سن عیسوی سے پچپن برس پیشتر اس کی شروعات ہوئی۔ اس لحاظ سے بدھ بھکشوؤں کی آمد کا وقت چار صدیاں  قبل از مسیح لگایا جا سکتا ہے، یعنی مہاتما بدھ کی وفات کے ایک سو برس یا اس سے کچھ کم یا زیادہ عرصہ کے بعد یہ بھکشو یہاں وارد ہوئے۔

اس ٹولے کے مُکھیہ (سردار) کا نام صرف آنندؔ تھا، لیکن اس کے ساتھ چلنے والے بھکشوؤں کے نام اس طرح تھے۔ آنند سارتھی، آنند ساکھشی، آنند شَوری اور آنند شرمکی۔ یہ پانچوں مادھان گاؤں میں راجہ کے مہمان خانے میں ٹھہرے، جہاں قندھار جاتے ہوئے سبھی بھکشو ٹھہرتے تھے۔ ایسا یقین کیا جاتا ہے کہ مکھیہ آنند مہاتما بدھ کے پہلے چیلے آنند کی قبیل سے تھا، جبکہ باقی ساتھی اس کی تابع میں تھے اور یہ نام انہیں ایک القاب کی طرح بخشا گیا تھا۔

بھکشو آنند ایک وجیہہ نوجوان تھا۔ دوسری صبح جب دریائے سندھ میں نہا کر وہ ایک چٹان پر بیٹھا منتر جاپ کر رہا تھا تو راجہ کی بیٹی نے آ کر اس کے گلے میں ور مالا (اپنا دولھا قبول کر لینے کا پھولوں کا ہار) ڈال دیا۔ لڑکیوں کے اپنے ور (دولھا) کا انتخاب کرنا ایک ایسی روایت تھی جس سے انحراف ممکن نہیں تھا اور یہ اغلب تھا کہ اگر آنند انکار کر دیتا تو راجکماری کے ساری عمر کنواری بیٹھے رہنے کی بے عزتی کا بدلہ لڑکی کا باپ آنند کو قتل کر کے لیتا تا کہ اس کی لڑکی دوبارہ کوئی اور’ ور‘ چُن سکے۔ داستان کی تفصیل یہ ہے کہ آنند اور اس کے ساتھی بھکشوؤں نے اسی دن اپنا بانا تیاگ دیا۔ راجہ کی بخشی ہوئی جاگیر پر کاشتکاروں کی صورت میں آباد ہو گئے۔ باقی ساتھیوں نے بھی اس نئی زندگی کی شروعات گھر بسا کر کی۔ آنند چونکہ مہاتما بدھ کے پہلے چیلے کے نام لیوا کے طور پر اپنے نام کی اہمیت سمجھتا تھا، اس لیے وہ اپنا نام بدلنے پر راضی نہ ہوا اور تب کھوکھر قبیلے کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر ’’آنند‘‘ کا sub clan معرض وجود میں آ گیا۔ سال صدیوں میں تبدیل ہوئے اور ’’آنند‘‘ ہندو کھتری کھکھرائن برادری کی ذیلی شاخ کے طور کھیتی باڑی، تجارت، فوجی سپاہ گری، سوداگری وغیرہ پیشوں میں پھلتے پھولتے گئے۔

میری عمر اب چوراسی برس ہے۔ آج سے سات دہائیاں پہلے، یعنی چودہ پندرہ برس کی عمر میں بھی میرے لیے یہ قدیم کتھا ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔ میں نے یہ تہیہ کیا کہ میں اپنے خاندان کا سر چشمہ، منبع، بیخ اور بنیاد تلاش کروں گا اور اس کے لیے جو بھی جوکھم اٹھانا پڑے، اٹھاؤں گا۔ ہندوستانی ہندوؤں، بودھوں، جینیوں میں بسیار جہتوں کا حامل لفظ ’’ آنند‘‘ ایک highest common demoninator ہے اور ہندوستان کے علاوہ، شری لنکا اور ملیشیا، انڈو نیشیا، اور تھائی لینڈ تک لوگوں کے ناموں کے پہلے یا وسطی یا آخری حروف میں پایا جاتا ہے۔ اس سے میرا کام زیادہ مشکل ہو گیا تھا لیکن میں نے جو تہیہ کیا تھا، اسے اختتام تک پہنچانے میں مجھے وہی مزہ آیا جو کسی پہاڑ کی اونچی چوٹی تک چڑھنے میں کسی کوہ پیما کو آتا ہے۔

بائیس تیئس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بدھ مت پر انگریزی اور ہندی میں جو کچھ دستیاب تھا، میں نے پڑھ لیا تھا۔ کچھ پرانے گرنتھ پالی زبان میں تھے، جنہیں میں نہیں پڑھ سکتا تھا۔ جب میرا تقرر پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ میں بطور لیکچرار( انگریزی) ہو گیا تو مجھے یہ سہولیت میسر ہو گئی کہ کیمپس پر ہی موجود ہندی اور سنسکرت بزرگ استاد ڈاکٹر پنڈت ہزاری پرساد دویدی کے چرنوں میں بیٹھ کر کچھ سیکھوں۔ دویدی جی کیمپس پر ہی میرے قریب رہتے تھے۔ ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، جس میں پالی زبان کا ابجد، ہمالیہ کی ترائی کے علاقوں میں بولی جانے والی زبان کی شد بد اور مہاتما بُدھ کے بارے میں لوک کتھاؤں کا ذخیرہ شامل تھا۔ ایک اوراسکالر جن سے بہت مدد ملی وہ کروکشیتر یونیورسٹی کے ڈاکٹر بدھ پرکاش تھے۔ موصوف کی ریسرچ کا موضوع پنجاب اور سندھ کے قبائل، ان کی اصل و نسل، ان کے ریتی رواج اور نسلوں پر محیط عداوتیں یا دوستانہ مراسم تھے۔ ان سے مجھے کھوکھر قبیلے کی بابت بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

کھوکھر قبیلے کے لوگ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر دور دور تک بسے ہوئے تھے۔ اسکندر اعظم ((356-323 BC کی راجہ پورسؔ  (پورس ایک لقب ہے جو یونانی زبان میں سنسکرت کے لفظ ’’پورشیہ‘‘ بمعنی بہادر، جانباز کا متبادل ہے ) کے خلاف جنگ کے کتنے برسوں کے بعد یہ پانچ بھکشو اس علاقے میں وارد ہوئے اس کا کوئی ریکارڈ مجھے نہیں مل سکا۔ البتہ یہ بات ضرور عیاں ہوئی کہ کھوکھر قبیلے کی آنند نامی شاخ کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا اور یہ نام ان بھکشوؤں کے وہاں آ کر بس جانے کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔

اس طرح میری تلاش اس حد تک پہنچ کر رک گئی کہ کھکھرائن برادری کی آنند شاخ جس کا میں دور حاضر میں ایک ادنیٰ فرد تھا، اپنی رگوں میں اس آنند بھکشو کا خون رکھتی تھی، جو قندھار جاتا ہوا راستے میں رک کر وہیں آباد ہو گیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک ناممکن کام تھا کہ میں یہ تلاش کروں کہ آیا آنند نام کا یہ بھکشو اسی آنند کا نام لیوا تھا جس کو میں نے مہاتما بدھ کے ساتھ بات چیت (ورتالاپ) میں ایک کردار کے طور پر ان نظموں میں پیش کیا ہے۔ شاید یہ بات میں کبھی نہ جان سکوں۔

مہاتما بدھ کا پہلا چیلا بھکشو آنند کون تھا، اس پر اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ کننگھم Cunningham نے آنند کو سانچی کے ایک متمول خاندان کا فرد بتاتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ جب اس نے تتھاگت کے ایک ویاکھیان کو سنتے سنتے یہ دیکھا کہ تتھاگت راستے پر آگے دوسرے گاؤں کی طرف چلنے لگے ہیں تو وہ اس بھیڑ کے ساتھ جو ان کے پیچھے پیچھے انہیں سنتے سنتے چل رہی تھی، ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ پھر بہت سے لوگ تو ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے گاؤں سے واپس ہو گئے، لیکن کچھ ان کے ساتھ ہی جیسے منسلک ہو گئے۔ ان میں دو افراد سر کردہ تھے، جنہیں تتھا گت نے اپنے سایہ شفقت میں لے لیا۔ ایک تو آنند تھا اور دوسرے کا نام کشیپ تھا۔

Eugene Burnouf نے اپنی کتاب A History of Indian Buddhism (1844) میں آنند کے پچھلے کئی جنموں کی کہانیوں کے بارے میں لکھا ہے جن میں وہ تتھاگت کا سنگی ساتھی رہا تھا۔ اس اسکالر نے جاتک کتھائیں کی بنیاد پر بیشتر کہانیاں مرتب کی ہیں، لیکن Royal Asiatic Society of London نے کننگھم Cunningham کی مہاتما بدھ کی زندگی اور بدھ مت کے دو تین صدیوں میں ہی بر صغیر کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے ایک چوتھائی دنیا میں پھیل جانے کی تحقیق کو رد کرتے ہوئے تاریخ کے شعبے کے ایک اسکالر مارکھم کِٹو Markhan Kittoe کو ہندوستان بھیجا کہ وہ ترائی کے علاقوں میں گھوم پھر کر، پرانی کتابیں اکٹھی کر کے، لوک کہانیاں کا ذخیرہ کر کے، چٹانوں پر کھدے ہوئی تصویروں اور عبارتوں کی نقل کر کے کسی نتیجے تک پہنچے۔ مارکھم کِٹو کو اس کام میں بہت مشکل پیش آئی کیونکہ سولھویں صدی یا اس سے پیشتر چین اور جاپان سے آئے ہوئے بہت سے اسکالر بدھ ستوپاؤں سے پرانے گرنتھ اکٹھے کر کے لے گئے تھے۔ کٹو کو بے حد مایوسی ہوئی۔ اس نے دو رپورٹیں لکھ کر رایل ایشیاٹک سوسائٹی کو پیش کیں۔ ان میں سے ایک شائع کی گئی۔ دوسری اس کی وصیت کے مطابق اس کی موت کے بعد شائع ہونی تھی، لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ کسی طرح سے سرقہ ہو گئی اور کئی برسوں کے بعد سری لنکا کے ایک میوزیم میں اس کا سراغ ملا۔

اس بارے میں مخلف آراء پائی جاتی ہیں کہ بدھ کی وفات کے بعد آنند کی باقی زندگی کہاں اور کیسے گذری۔ کچھ برسوں تک تو کشیپ اور آنند ساتھ ساتھ رہے اور اس دوران میں ہی راج گاڈھا (جس کا موجودہ نام راج گڑھ ہے ) کے مقام پر بدھ مت کی پہلی کنونشن منعقد ہوئی (جسے کھشپ کہا گیا ۔ ۔ ۔ آج کل بھی اس علاقے میں پنچائتوں کو ’’کھپ‘‘ کہا جاتا ہے ) میں نے اپنی کتاب One Hundred Buddhas میں ان واقعات کو اس طرح لکھا ہے۔

۔ …Buddha’s demise did not come suddenly.; it was expected. A gathering of monks, under the captaincy of the senior monk Maha Kassapa was held. As many as five hundred arahats took part in it. Historians now call it The First Council. Buddha’s discourses of doctorinal significance were codified in Sutta Pitakas (Pali) whose Sanskrit equivalent is Sutra Pitakas. Memorising these versified sutras most of the monks could explain the text and its meaning to the less literate people both by example and precept. Anand bhikshu, our main character in this book was the chief person for this codification.

Not much is known about Anand’s movement after Buddha’s demise and once this monumental work that took two to three years was completed. Anand, Upali (another chief bhikshu) and Maha Kasayapa are said to have parted company and chose various areas of India to live in and propagate Buddhism. Anand probably went back to Sanchi (Bihar (may be) founded a family and had children. Nothing, however, is known. What is known is a simple fact that those taught by him in the intricacies of Buddhim began calling themselves Anand as a surname. (End of excerpt)

میں، ستیہ پال آنند، اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے یہ علم واقعی نہیں ہے کہ بھکشو آنند جو دریائے سندھ کے کنارے پر وارد ہوا تھا، واقعی مہاتما بدھ کے پہلے چیلے بھکشو آنند کے نسب سے تھا یا نہیں، لیکن مجھے اس بات کا اب بخوبی علم ہے کہ میں اس بھکشو کے نسب سے ہوں، جس نے کھوکھر قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ’’ آنند‘‘ کی بنیاد رکھی۔

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید