FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

بر صغیر کے مسلمانوں پر برطانوی استعمار کے اثرات

( ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ)

 

 

                تحقیق و تدوین : حسیب احمد حسیب

 

 

 

 

The British Empire passed quickly and with less humiliation than its French and Dutch counterparts, but decades later, the vicious politics of partition still seems to define India and Pakistan۔

Pankaj Mishra

 

 

 

 

 

پیش نظر مضمون میں ہمارا مقصود یورپ میں بادشاہتوں کے اختتام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قومی ریاستوں اور ان قومی ریاستوں کے استعماری عزائم خاص طور پر برطانوی استعمار کے بر صغیر پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔

اردو دائرۃ معارف العلوم – اردو انسائیکلوپیڈیا

http://www.urduencyclopedia.org/general/index.php?title=%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B9%D9%85%D8%A7%D8%B1

کے مطابق استعمار کی تعریف اور تاریخ کچھ اس انداز میں بیان کی جا سکتی ہے:

” استعماریت Colonialism کے عام معنی ایک ملک کے ذریعہ دوسرے ملک یا علاقہ کو بتدریج اور منظم طریقہ سے سیاسی اور اقتصادی طور پر محکوم بنانے یا ایسے محکوم علاقوں کو برقرار رکھنے کی پالیسی کے ہیں۔ اس معنی میں نوآبادیوں یا محکوم علاقوں کا وجود قدیم زمانہ سے ملتا ہے۔ ایشیا میں عربوں، منگولوں اور چینیوں کی توسیع، استعماری نوعیت کی تھی۔ خصوصی طور پر استعمار سے مراد یورپی طاقتوں کی پندرہویں اور سولہویں صدی کی جغرافیائی دریافتوں کے بعد سے سمندر پار علاقوں میں جنگ، فتوحات اور خالی علاقوں میں نوآباد کاری کی کوششوں سے ہے۔ استعماری طاقتیں نئے علاقوں کی تلاش، نوآباد کاری اور جنگ کے حادثوں سے استعماری طاقتیں بن گئیں۔ اس سلسلے میں اسپین اور پرتگال نے نوآباد کاری کی ابتدا کی۔ انگلستان، فرانس اور ہالینڈ نے ان کے مقبوضات پر دست درازی کی اور یہ ممالک اپنی استعماری سلطنت وسیع کرتے گئے۔ بعد میں ڈنمارک، ناروے اور سویڈن نے بھی معمولی علاقے حاصل کیے۔ یورپی استعمار انیسویں صدی کے خاتمہ تک اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا جس کے محرکات سیاسی اور اقتصادی دونوں تھے۔ ایشیا اور افریقہ میں یورپ کی استعماری توسیع کا محرک سامراجیت بھی تھی یعنی اندرون یورپ بڑی طاقتوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش میں سمندر پار مقبوضات کا حصول قومی طاقت کی نشانی اور اس کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف یورپ میں سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے صنعتی انقلاب کے پھیلنے اور قومی سرمایہ دارانہ نظام کے پھلنے پھولنے سے آزاد تجارت، سرمایہ کی نکاسی، خام مال کی فراہمی اور مصنوعات کی فروخت کے لیے منڈیوں کی تلاش ہوئی۔ برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ کے علاوہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں بلجیم، جرمنی، اطالیہ، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور جاپان نے بھی اہم نو آبادیاں حاصل کیں۔

استعماری تسلط اور استعماری حکومت کے جواز میں کئی طرح کے دلائل دیے گئے۔ مثلاً نوآباد کار ملک کے اپنے مفادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نو آبادی کی پسماندہ اور غیر مہذب قوم کی تنظیم، ان کے امور کی نگہداشت اور ان کی سیاسی، تہذیبی، تعلیمی اور اقتصادی ترقی و بہبود کا اخلاقی نصب العین، یا نوآباد کار ملک اپنے یہاں آبادی کی کثرت اور اقتصادی ترقی کے لیے خام مواد کی نایابی کی بنا پر مزید علاقے اور منڈیاں حاصل کرنے کا جواز پیش کرتا ہے مثلاً دونوں عالمی جنگوں کے درمیان جرمنی، اطالیہ اور جاپان کی توسیع، نوآبادیاتی نظام، پہلی عالمی جنگ کے بعد سے ٹوٹنا شروع ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد قومی آزادی کی تحریکوں اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے دنیا کی بیشتر نو آبادیاں آزاد ہو چکی ہیں۔ درحقیقت استعماری ملکوں کی حیثیت صنعتی اور معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ اور ان کی تہذیب مشینی دور کی پیداوار تھی جبکہ نو آبادیات کی معیشت پسماندگی سے دوچار تھی اور زراعتی تھی جہاں نہ تو صنعتوں کا وجود تھا اور نہ ہی تعلیم کا دور دورہ۔ نوآبادیاتی علاقے محض حکمراں ممالک کی مصنوعات کے لیے منڈیوں اور خام مال کے رسد کا مرکز تھے۔

استعماری حکومت کے امتیازی خصائص مندرجہ ذیل ہیں :

یورپی ملکوں یا یورپی نسل کے لوگوں سے آباد ملکوں کا دوسری نسل کے لوگوں خصوصاً ایشیائی و افریقی اقوام پر براہ راست سیاسی کنٹرول۔

نو آبادی کے اندر ایک سفید فام حکمراں اقلیت کی بالادستی

مقامی افراد پر مشتمل ایک وفادار نوکر شاہی جو حکمراں طاقت کے سیاسی، فوجی اور اقتصادی مفادات کی تکمیل اور ملکی وسائل کے استعماری استحصال میں مدد دیتی ہے۔

نو آبادی میں سائنس و ٹکنالوجی پر مبنی مغربی تہذیب اور مقامی زراعتی اور جاگیردارانہ نظام سے وابستہ فرسودہ مشرقی تہذیب کے درمیان ٹکراؤ اور مغربی تہذیب کا تسلط۔

نو آبادی کے عوام اور وسائل کا معاشی استحصال

حکمراں اقلیت میں نسلی، تہذیبی اور اخلاقی برتری کا احساس اور مقامی آبادی کو ذہنی، اخلاقی، تہذیبی، علمی اور تکنیکی اعتبار سے پسماندہ اور محتاج رکھنے کا رویہ۔ ”

ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’تاریخ اور آج کی دنیا‘ میں لکھتے ہیں

نیشنل ازم نے یورپ میں قومی ریاستوں کو پیدا کیا ہے اس کے نتیجے میں کولونیلزم اور امپیریلزم پھیلا جس کے رد عمل میں تسلط شدہ ملکوں میں نیشنل ازم کے تحت تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے کولونیل تسلط سے آزادی حاصل کی آزادی کے بعد ان ملکوں میں اسی نیشنل ازم کو حکمران طبقوں نے اپنے مفادات کیلیے استعمال کیا اور یہ نو آزاد ریاستیں ٹوٹ پھوٹ انتشار اور فوجی آمریتوں کا نشانہ بنیں اب ایک بار پھر گلوبلائزیشن نیو امپیریلزم کی شکل میں پوری طاقت سے آ رہا ہے

تاریخ اور آج کی دنیا، ڈاکٹر مبارک علی، صفحہ ١١، فکشن ہاؤس پبلشرز۔

غور کیجئے آج ہم بحیثیت قوم جس جگہ کھڑے ہیں کیا اس کی وجہ وہ استعماری اثرات تو نہیں کہ جو برطانیہ ہماری رگوں میں چھوڑ گیا ہے کیا ہمارا قومیتوں میں منقسم ہونا اور ہمارے ملک کا فکری اور زمینی اعتبار سے تقسیم ہونا اسی زہریلے استعماری اجنڈے کا نتیجہ تو نہیں۔ ؟

مسلم قوم کی اپنی ایک مذہبی اور ملی تاریخ ہے اور یہ تاریخ کسی اندھیرے میں نہیں بلکہ آج بھی روز روشن کی طرح تاریخ کے صفحات میں چمک رہی ہے گو کہ استشراقی فکر نے ان حقائق پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے اور یورپی استعمار نے اس استشراقی فکر کو مکمل مدد فراہم کی ہے لیکن جھوٹ و دجل کے بے شمار پردے ڈالنے کے باوجود بھی وہ تاریخ کے صفحات سے ہمارے روشن کارنامے کھرچنے میں ناکام رہے ہیں۔

اسلام ایک زندہ اور پائندہ دین ہے اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اسلام ایک ایسا ضابطہ زندگی ہے کہ جو رہنی دنیا تک کے انسانوں کے لیے سامان ہدایت اپنے دامن میں رکھتا ہے۔

عقائد، عبادات، معاملات، سیاسیات، تعلیم، معاشرت، معیشت غرض کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جس کے حوالے سے اسلامی تعلیمات موجود نہ ہوں اور یہی تمام شعبے اسلام کو صرف ایک مذہب سے بڑھا کر ایک مکمل دین بناتے ہیں جن کی جانب قرآن و سنت میں واضح اشارے ملتے ہیں۔

﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسىٰ أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّ‌قوا فيهِ۔١٣ ﴾۔ سورة شورىٰ

"اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد ا) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا”

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ تمام انبیا نے بنیادی طور پر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور ملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا:’ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘ یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیا اور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

اصل الدین واحد اتفق علیہ الانبیاء علیہم السلام، وانما الاختلاف فی الشرائع والمناہج۔ تفصیل ذلک انہ اجمع الانبیاء علیہم السلام علی توحید اللّٰہ تعالٰی عبادۃ واستعانۃ، ۔ وانہ قدر جمیع الحوادث قبل ان یخلقہا، وان للّٰہ ملائکۃ لا یعصونہ فیما امر، ویفعلون ما یؤمرون، وانہ ینزل الکتاب علی من یشاء من عبادہ، ویفرض طاعتہ علی الناس، وان القیامۃ حق، والبعث بعد الموت حق، والجنۃ حق، والنار حق۔ وکذلک اجمعوا علی انواع البر من الطہارۃ والصلٰوۃ والزکٰوۃ والصوم والحج والتقرب الی اللّٰہ بنوافل الطاعات من الدعاء والذکر وتلاوۃ الکتاب المنزل من اللّٰہ، وکذلک اجمعوا الی النکاح وتحریم السفاح واقامۃ العدل بین الناس وتحریم المظالم واقامۃ الحدود علی اہل المعاصی والجھاد مع اعداء اللّٰہ والاجتہاد فی اشاعۃ امر اللّٰہ ودینہ، فھذا اصل الدین، ولذلک لم یبحث القرآن العظیم عن لمیۃ ہذہ الاشیاء الا ما شاء اللّٰہ، فانہا مسلمۃ فیمن نزل القرآن علی السنتہم۔ وانما الاختلاف فی صور ہذہ الامور واشباحہا۔

(حجۃ اللہ البالغہ۱ / ۱۹۹۔۲۰۰)

’’اصل دین ایک ہے، سب انبیا علیہم السلام نے اسی کی تبلیغ کی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو فقط شرائع اور مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب انبیا نے متفق الکلمہ ہو کر یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دین کا بنیادی پتھر ہے۔ عبادت اور استعانت میں کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے سب حوادث اور واقعات کو وقوع سے پہلے ازل میں مقدر کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک پاک مخلوق ہے جس کو ملائکہ کہتے ہیں۔ وہ کبھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اس کے احکام کی اسی طرح تعمیل کرتے ہیں، جس طرح ان کو حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو چن لیتا ہے جس پر وہ اپنا کلام نازل فرماتا ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت فرض کر دیتا ہے۔ موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہے، جنت اور دوزخ کا ہونا حق ہے۔جس طرح ہر دین کے عقائد ایک ہیں، اسی طرح بنیادی نیکیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ چنانچہ دین میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو فرض قرار دیا گیا ہے۔نوافل عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں قرب حاصل کرنے کی تعلیم ہر دین میں موجود ہے۔ مثلاً مرادوں کے پورا ہونے کے لیے دعا مانگنا، اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا نیز کتاب منزل کی تلاوت کرنا۔ اس بات پر بھی تمام انبیا علیہم السلام کا اتفاق ہے کہ نکاح جائز اور سفاح۳؂ حرام اور ناجائز ہے۔ جو حکومت دنیا میں قائم ہو عدل اور انصاف کی پابندی کرنا اور کمزوروں کو ان کے حقوق دلانا اس کا فرض ہے۔ اسی طرح یہ بھی اس کا فرض ہے کہ مظالم اور جرائم کے ارتکاب کرنے والوں پر حد نافذ کرے، دین اور اس کے احکام کی تبلیغ اور اشاعت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ یہ دین کے وہ اصول ہیں جن پر تمام ادیان کا اتفاق ہے اور اس لیے تم دیکھو گے کہ قرآن مجید میں ان باتوں کو مسلمات مخاطبین کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور ان کی لمیت سے بحث نہیں کی گئی۔ مختلف ادیان میں اگر اختلاف ہے تو وہ فقط ان احکام کی تفاصیل اور جزئیات اور طریق ادا سے متعلق ہے۔‘‘

غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ حصہ اول

ماہنامہ اشراق

فخر الدین رازی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تکمیلی کام کے بارے میں تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں

"انبیاء و رسل اَرواحِ بشریہ کا علاج کرتے ہیں اور ان کا رُخ غیراللہ سے موڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف کرتے ہیں۔ انبیائے کرام میں سے جس درجے میں بھی ان فوائد کا گذر ہو گا وہ اسی قدر عظیم اور کامل ہو گا۔ جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت بنی اسرائیل تک محدود تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا اثر بہت تھوڑے لوگوں پر ظاہر ہوا۔ نصاریٰ نے باپ بیٹا اور روح القدس کی تثلیث کا فاسد عقیدہ گھڑ کر بد ترین کفر کا ارتکاب کیا اور یہ ان کی بدترین جہالت تھی۔ اور یہ چیز کسی نبی کی پاکیزہ اور خالص دعوت سے بعید تر ہے۔ جبکہ ان کی دعوت خالص توحید و تنزیہ کے عقیدے پر مشتمل تھی۔ مجوسی دو خداؤں کی پوجا پاٹ کا غلط نظریہ رکھتے تھے اور بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ نکاح کو جائز سمجھتے تھے۔ صائبین کواکب پرستی کا شکار تھے اور بت پرست شجرو حجر کی پرستش میں مگن تھے”

"ان حالات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید لے کر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پورے عالم کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ کی آمد سے اَدیانِ باطلہ اور خیالاتِ فاسدہ کا خاتمہ ہو گیا۔ توحید کے چراغ روشن ہو گئے، انسانی قلوب توحید و تنزیہ کے پاکیزہ اورسچے اَفکار سے معمور ہو گئے۔بیمار دلوں اور تاریک سینوں کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تاثیر کے اعتبار سے دیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے بڑھ کر تھی۔ لہٰذا محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء و رسل علیہم السلام سے افضل ہیں۔ روحانی علاج کی تاثیر اور ہمہ گیر شریعت اور عالمی اثرات کے اعتبار سے ختم المرسلین، رحمۃ للعالمین کے کمالات کا کوئی ثانی نہیں”۔صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم!

مفاتیح الغیب: ۱۲/۱۲

حوالہ : انبیاءِ کرامؑ کا تشریعی مقام و مرتبہ۔ فکر ِرازی کا مطالعہ

محدث مگزین، شمارہ:247 ، اپریل 2001، محرم 1422، جلد:33

مصنف : شبیر احمد منصوری

عَنْ تَمِيمٍ الداري رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الدِّينُ النَّصِيحَةُ۔ الدِّينُ النَّصِيحَةُ۔ الدِّينُ النَّصِيحَةُ۔ قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ

(سنن أبي داود 4944، ومثله في الترمذي 1926، والنسائي عن أبي هريرة 4199، وأصله فی صحیح مسلم رقم 95)

تمیم داریؓ سے مروی ہوا، کہا: فرمایا رسول اللہﷺ نے: دین تو ہے مخلص رہنا۔ دین تو ہے مخلص رہنا۔ دین تو ہے مخلص رہنا۔ عرض کی گئی: مخلص کس کا، اے اللہ کے رسول؟ فرمایا: مخلص اللہ کا، اس کی کتاب کا، اس کے رسول کا، مسلمانوں کے ائمہ کا اور عامۃ المسلمین کا۔

یہاں اس حدیث مبارکہ میں دین کو ان تمام شعب پر حاوی قرار دیا جا رہا ہے کہ جو منفرد اور مجمع عوام اور حکومت سب سے منسلک ہو۔

خطابیؒ کہتے ہیں: ’’نَصیحۃ‘‘ ایک جامع لفظ ہے۔ جس کا مطلب ہے کسی کے لیے پورے طور پر مخلص ہونا۔ یہ دریا کو کوزے میں بند کر دینے والا کلمہ ہے۔ بلکہ لغت میں ایک لفظ بول کر یہ پورا مفہوم ادا کر دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی لفظ ہے ہی نہیں۔ یہ وہ حدیث ہے جس کی بابت کہا گیا ہے کہ دین کی ایک چوتھائی اِسی ایک حدیث میں آ گئی ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں میں امام محمد بن اسلم طوسیؒ آتے ہیں۔ جبکہ نوویؒ کہتے ہیں: یہ حدیث ایک چوتھائی دین کیا، پورے دین کی غرض و غایت کو سمیٹ گئی ہے کیونکہ دین ان امور سے باہر ہے ہی نہیں جو اس حدیث میں مذکور ہوئے۔

(فتح الباری، کتاب الایمان ترجمۃ باب قول النبی الدین النصیحۃ ج 1 ص 138)

مسلمان کی ’’وفاداریاں‘‘؟ ماہنامہ ایقاظ

در حقیقت اسلام ہی وہ حقیقی جامع دین تھا اور ہے کہ جو اس عالمی استعمار کے سامنے رکاوٹ ہو۔

اس سے پہلے کہ ہم ان چند میادین کا مستند حوالوں کی روشنی میں جائزہ لیں   کہ جن کو برطانوی استعمار نے متاثر کرنے کی کوشش کی پہلی اس استعماری مقصود کی وضاحت ہو جاوے کہ جس کے نتیجہ میں ایک دنیا کو مشقت اور تکلیف میں رکھا گیا۔

رچرڈ کونگریو بشپ آف آکسفورڈ کہتا ہے

خدا نے ہندوستان کو ہمیں عطا کیا ہے تاکہ ہم اسے اپنے تسلط میں رکھیں لہذا یہ ہمارا کام نہیں کہ اس فرض سے دستبردار ہو جائیں۔

)Asish Nandy: The Entimate Enemy- Oxford Delhi, Eight Impression 1994 , P۔34)

عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال کے مصنف پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں

بیسویں صدی کے معروف برطانوی مؤرخ نائن بی نے تہذیبوں کے تصادم کے لیے Encounter of Civilization کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ دورِ حاضر کے یہودی مفکر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) نے اس Encounter کو Clash کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا کے پروفیسر سیموئل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے اس تصادم میں آویزش کے اس تصور کو جنگی جنون تک بڑھا دیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب ’’خاتمۂ تاریخ‘‘ (The End History) میں دنیا کے مستقبل کو جس نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں بالآخر اقتدار ایک یک محوری قوت کے پاس چلا جائے گا اور یوں باقی ماندہ دنیا ایک نو آبادی کی شکل اختیار کر لے گی۔

مغربی اقوام کے نزدیک اس تاریخی آویزش کا علاج گلوبلائزیشن یا عالمگیریت میں مضمر ہے۔ وہ اپنی عسکری قوت اور اقتصادی غلبے کے ذریعے سے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج دیکھنا چاہتے ہیں جس پر صرف اور صرف ان کی حکمرانی ہو مگر افریشیائی مسلمانوں کی نسلِ نو اپنے ایمان اور عقائد کی نئی تعبیر چاہتی ہے۔ تسخیرِ فطرت اور مظاہرِ کائنات کے مطالعہ کی تلقین ہمارے قرآنی صحیفے کی اہم تعلیم ہے، لہٰذا ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ مغرب کی اس ترقی کا جائزہ لینا ہو گا کہ جن نتائج اور سائنسی فتوحات کو ابھی تک مغرب نے حاصل کیا ہے، اس کے اصول کیا ہیں اور ان اصولوں کی اسلامی فکر کے ساتھ کس حد تک موافقت یا مغائرت موجود ہے۔ مغربی طاقتوں نے تسخیرِ کائنات کے اس سفر میں جہاں گیری اور جہاں داری کا درجہ تو حاصل کیا ہے مگر وہ جہاں بانی اور جہاں آرائی کے منصب سے محروم ہیں۔

جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

(طلوعِ اسلام، بانگِ درا)

بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء

اب وکی پیڈیا سے کچھ حوالے

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%B1%D8%B7%D8%A7%D9%86%D9%88%DB%8C_%D8%A7%DB%8C%D8%B3%D9%B9_%D8%A7%D9%86%DA%88%DB%8C%D8%A7_%DA%A9%D9%85%D9%BE%D9%86%DB%8C

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔

1757ء میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہو گیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے مشرقی صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوض حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیئے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کر لیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختاری کا اعلان کر چکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کر چکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کاروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔

(Grant of the Diwani of Bengal, Bihar and Orissa to the East India Company by the Great Mughal Shah Alam (1765)

(A.B.Keith (ed.), Speeches and Documents on Indian Policy 1750-1921 (London 1922), Vol. I, p. 20 f.)

شیخ دین محمد جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن 1780ء کے لگ بھگ) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم مونگیر سے بھاگلپور پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اس کی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے ان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انہیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے، اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ ان کے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔

یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گزر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کاروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیر کمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان کی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔

کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیئے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔

UC Press E-Books Collection, 1982-2004   :   formerly eScholarship Editions

The Travels of Dean Mahomet, A Native of Patna in Bengal, Through Several Parts of India, While in the Service of The Honourable The East India CompanyWritten by Himself, In a Series of Letters to a Friend)

(Letter IX)

جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ (جو فرانس کا اتحادی تھا) کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیئے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

بنگال کے قحط نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔

Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔

(The Corporation that Changed the World)

 

                اسلامی عقائد پر ضرب

 

اسلام کی اولین بنیاد عقیدہ ہے اور ایک مسلمان کا اپنے دین سے بنیادی تعلق ایمانیات کا ہی ہوتا ہے اور اس عقیدے کی بنیاد پر ہی سب سے پہلا ہاتھ برطانوی استعمار کی جانب سے ڈالا گیا۔

غلام احمد قادیانی اسی برطانوی استعمار کا کا خود کاشتہ پودا تھا اس کی اپنی تحریرات اس کی گواہ ہیں۔

 

                قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوار

 

Tahaffuz, August-September 2011, ا سلا می عقائد

 

جب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ، برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جا سکے۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر، جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت، کافر حکومت ہے۔ اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کر دے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔ ان رپورٹس کو مد نظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ، پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کر کے انٹرویو کئے۔ بالآخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کر دی گئی۔ مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین شخص تھا؟ اس لئے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔

 

گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان

 

میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا، جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں، ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا

(کتاب البریہ ص 5,4,3، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13، ص 6,5,4 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

 

                پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان

 

سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 21، از: مرزا غلام احمد قادیانی)

 

سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں

 

میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔

(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیانی)

 

مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے

 

میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19، از: مرزا غلام احمد قادیانی)

 

برطانوی گورنمنٹ کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے

 

بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے، یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے، اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بد خواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔

(اشتہارات القرآن ص 84، مندرجہ روحانی خزائن جلد 6،ص 380 از مرزا قادیانی)

 

جیسی خدا تعالیٰ کی اطاعت ویسی اس سلطنت کی اطاعت

 

سو میرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں، یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں، دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے

(اشتہارات القرآن ص 84، مندرجہ روحانی خزائن جلد ص 380 از: مرزا قادیانی)

 

انگریز سلطنت ایک رحمت و برکت ہے

 

سو یہی انگریز ہیں جن کو لوگ کافر کہتے ہیں جو تمہیں ان خونخوار دشمنوں سے بچاتے ہیں اور ان کی تلوار کے خوف سے تم قتل کئے جانے سے بچے ہوئے ہو۔ ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ سو انگریز سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور خدا کی طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے سپر کی قدر کرو

(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 584، از: مرزا غلام احمد قادیانی)

 

دنیا میں آنے کا مقصد گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی

 

ہم دنیا میں فروتنی کے ساتھ زندگی بسر کرنے آئے اور بنی نوع کی ہمدردی اور اس گورنمنٹ کی خیرخواہی جس کے ہم ماتحت ہیں یعنی گورنمنٹ برطانیہ۔ ہمارا اصول ہے۔ ہم ہرگز کسی مفسدہ اور نقص امن کو پسند نہیں کرتے اور اپنی گورنمنٹ انگریزی کی ہر ایک وقت میں مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے ایسی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا ہے

کتاب البریہ ص 17، اشتہار مورخہ 20 ستمبر 1897ء مندرجہ روحانی خزائن، جلد 13ص 18، مصنفہ: مرزا غلام احمد قادیانی

ان حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیت کی وجہ تخلیق کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرزا قادیانی استعماری سیاست کا خود کاشتہ پودا تھا۔ انگریز نے اپنے نظریہ ضرورت کے تحت قادیانی تحریک کو پروان چڑھایا۔ جناب مرتضیٰ احمد خاں مکیش بھی رقم طراز ہیں۔ دین مرزا برطانیہ کی استعماری سیاست کا ایک خود کاشتہ پودا ہے یعنی ایک ایسی سیاسی تحریک ہے جو انگریز کے مقبوضہ ہندوستان میں ایک ایسی مذہبی جماعت پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی جو سرکار برطانیہ کی وفاداری کو اپنا جزو ایمان سمجھے۔ غیر اسلامی حکومت یا نامسلم حکمرانوں کے استیلا کو جائز قرار دے اور ایک ایسے ملک کو شرعی اصطلاح میں دار الحرب سمجھنے کے عقیدہ کا بطلان کرے جس پر کوئی غیر مسلم قوم اپنی طاقت و قوت کے بل پر قابض ہو گئی۔ انگریز حکمرانوں کی قہاریت اور جباریت کو مسلمان ازروئے عقیدۂ دینی اپنے حق میں اﷲ کا بھیجا ہوا عذاب سمجھتے تھے اور ان کی رضاکارانہ اطاعت کو گناہ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکمران مسلمانوں کے اس جذبے اور عقیدے سے پوری طرح آ گاہ تھے۔ لہذا انہوں نے اس سرزمین میں ایک ایسا پیغمبر کھڑا کر دیا جو انگریزوں کو اولیٰ الامر منکم کے تحت میں لا کر ان کی اطاعت کو مذہباً فرض قرار دینے لگا اور ان کے پاس ہندوستان کو دار الحرب سمجھنے والے مسلمانوں کی مخبری کرنے لگا جس طرح باغبان اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاطت و آبیاری میں بڑے اہتمام سے کام لیتا ہے، اسی طرح سرکار انگریز نے دین مرزائیت کو فروغ دینے کے لئے مرزائی جماعت کو پرورش کرنا اپنی سیاسی مصلحتوں کے لئے ضروری سمجھا۔ اور اس دین کے پیروؤں سے مخبری، جاسوسی اور حکومت کے ساتھ جذبہ وفاداری کی نشر و اشاعت کا کام لیتی رہی۔ 1919ء میں جب مولانا محمد علی رحمۃ اﷲ علیہ نے خلافت اسلامیہ ترکی کی شکست سے متاثر ہو کر مسلمانوں کو انگریزوں کے قابو چیانہ گرفت سے چھڑانے اور ارض مقدس کو عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچانے کے لئے تحریک احیائے خلافت کے نام سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی مہم شروع کی اور عام مسلمان مولانا محمد علی اور دیگر زعمائے اسلام کی دعوت و نفیر پر کان دھر کر انگریز حکومت سے ترک موالات کرنے پر آمادہ ہو گئے تو مرزائی جماعت نے اس دور کے وائسرائے کے سامنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سرکار انگریزی کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے اس جہاد آزادی کا مقابلہ کرنے کے لئے آپ کے خادم موجود ہیں، جو سرکار انگریز کی وفاداری کو مذہبی عقیدہ کے رو سے اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش

 

معاشی قتل

 

ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکّوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتیں قانون بنا کر لوگوں کو مخصوص کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

جب بینکاری کو عروج ہوا تو بینکوں کو اندازہ ہوا کہ کاغذی کرنسی کے رواج کو فروغ دینے سے بینکوں کو کس قدر زیادہ منافع ہو سکتا ہے۔ مرکزی بینک چونکہ سونا اور چاندی بنا نہیں سکتے اس لئے وہ سونے چاندی سے بنی کرنسی کو کنٹرول بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے مرکزی بینک سونے چاندی کو بطور کرنسی استعمال کرنے کے سخت خلاف ہوتے ہیں۔ مرکزی بینک ہمیشہ ایک ایسی کرنسی چاہتے ہیں جسے وہ پوری طرح کنٹرول کر سکیں تاکہ بے حد امیر اور طاقتور بن سکیں اور یہ کرنسی صرف کاغذی کرنسی ہو سکتی تھی کیونکہ کاغذی کرنسی جتنی چاہیں اتنی چھاپی جا سکتی ہے۔ اس طرح دولت تخلیق کرنے کا اختیار بینکاروں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ برطانیہ میں تو بادشاہ نے قانون بنا کر لوگوں کو بینک آف انگلینڈ کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تھا جو بعد میں وہاں پوری طرح رائج بھی ہو گئی تھی لیکن دنیا کے کئی ممالک میں کاغذی کرنسی مقبول نہ ہو سکی کیونکہ وہاں لوگ سونے چاندی پر زیادہ اعتبار کرتے تھے اور کاغذی نوٹ کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اس میں چین، ہندوستان اور امریکہ بھی شامل تھے۔برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی کو 1718 سے "لیگل ٹینڈر” (قانونی کرنسی) کا درجہ حاصل تھا۔[35] ان بینکوں نے بہت آہستہ آہستہ لوگوں کو کاغذی کرنسی کے استعمال کی عادت ڈال دی اور مختلف مواقع پر ایسے قوانین نافذ کروائے جو لوگوں کو کاغذی کرنسی استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ مختلف طلائی معیار (گولڈ اسٹینڈرڈ) اِن ہی قوانین کی مثالیں ہیں۔

جب انگریز ہندوستان آیا تو یہاں کی دولت لوٹنے کے لیے کاغذی نوٹ کو رواج دینے کی کوشش میں لگ گیا۔ ہندوستان باقی دنیا کو بہت زیادہ مالیت کا سامان تجارت برآمد کرتا تھا جبکہ درآمدات کم تھیں۔ یعنی تجارت کا توازن ہندوستان کے حق میں تھا۔ انگریزوں کو اس مال کے بدلے ہندوستان کے لوگوں کو سونا یا چاندی ادا کرنی پڑتی تھی جو وہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ انگریزوں کی خواہش تھی کہ اگر ہندوستان میں بھی کاغذی نوٹ کا رواج پڑ جائے تو صرف کاغذ چھاپ چھاپ کر مال خریدا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہندوستانیوں کو بینکاری اور کاغذی نوٹوں کا بالکل تجربہ نہیں تھا جبکہ انگریز اس میں ماہر تھا۔ ہندوستان کے لوگوں کو بینکاری کی عادت ڈالنے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہی ڈاک خانوں میں پوسٹل سیونگ بینک بنائے گئے جن سے متوسط اور نچلے طبقے کے پاس محفوظ سونا چاندی بٹورنا ممکن ہو گیا۔ 1879 میں ان پوسٹل سیونگ بینکوں کی جانب سے 4 فیصد سے زیادہ سود دیا جاتا تھا جو بعد میں کم ہوتا چلا گیا۔ اس زمانے میں افراط زر نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک بہت ہی معقول منافع تھا

(Washington & Lee University School of Law, Washington & Lee University School of Law Scholarly Commons Faculty Scholarship, 1-1-2011

The Changing Face of Money, Christopher M. Bruner

Washington and Lee University School of Law, brunerc@wl.ed)

انگریز چونکہ ہندوستان سے سونا بٹورنا چاہتا تھا اس لئے اس نے صرف چاندی کے روپے کو سرکاری کرنسی قرار دیا حالانکہ اس وقت برطانیہ میں گولڈ اسٹینڈرڈ نافذ تھا۔ 1835 میں انہوں نے معیارِ نقرہ کا قانون (سلور اسٹینڈرڈ) نافذ کیا جس کے مطابق چاندی کا روپیہ سرکاری سکّہ بن گیا۔ یہ سکّہ پہلے ہی سے بمبئی اور مدراس میں رائج تھا۔ سونے اور چاندی کے ان سکوں کا وزن ایک تولہ یعنی 180 گرین (grain) ہوتا تھا اور یہ 22 قیراط کے ہوتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے جاری کردہ ان چاندی کے سکوں نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی اور پہلے سے رائج دو درجن طرح کے چاندی کے روپے معدوم ہو گئے[36]۔ حکومت عوام سے سونے کا سکّہ قبول تو کر لیتی تھی مگر عوام کو سونا دینے کی پابند نہیں تھی۔ اسی قانون میں اشرفی (گولڈ مُہر) کی قیمت 15 چاندی کے روپے کے برابر )sity School of Law, brunerc@wluطے کی گئی مگر پھر بھی اس قانون کا نام گولڈ اسٹینڈرڈ نہیں رکھا گیا۔ اس قانون کے ذریعے لوگوں کی توجہ چاندی پر مرکوز کروا کر انگریز حکومت نے بڑی مالیت میں زیر گردش سونے کے سکے اپنے پاس ذخیرہ کر لیے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیے گئے۔

(Realms of Silver: One Hundred Years of Banking in the East)

حکومت عوام سے سونے کا سکّہ قبول تو کر لیتی تھی مگر عوام کو سونا دینے کی پابند نہیں تھی۔ اسی قانون میں اشرفی (گولڈ مُہر) کی قیمت 15 چاندی کے روپے کے برابر طے کی گئی مگر پھر بھی اس قانون کا نام گولڈ اسٹینڈرڈ نہیں رکھا گیا۔ اس قانون کے ذریعے لوگوں کی توجہ چاندی پر مرکوز کروا کر انگریز حکومت نے بڑی مالیت میں زیر گردش سونے کے سکے اپنے پاس ذخیرہ کر لیے جو بعد میں انگلستان بھجوا دیے گئے۔

اس وقت کاغذی کرنسی "پریزیڈنسی بینکِ بنگال” جاری کرتا تھا۔ در حقیقت یہ بینک 1809 سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا مگر وہ ہندوستان میں مقبول نہیں ہو رہی تھی اور قانونی کرنسی کا درجہ نہیں رکھتی تھی۔ بمبئی میں کاغذی کرنسی 1840 میں اور مدراس میں 1943 میں جاری کی گئی۔ اس وقت ایک علاقے کی کاغذی کرنسی دوسرے علاقے میں نہیں چلتی تھی۔ 1903 میں پہلی دفعہ تجرباتی طور پر 5 روپے کے نوٹ کو پورے ہندوستان میں قابل قبول بنایا گیا۔ پھر 1910 سے دس روپے اور پچاس روپے کا نوٹ بھی پورے ہندوستان میں قبول کیا جانے لگا۔ 1911 میں سو روپے کا نوٹ بھی ہر علاقے میں چلنے لگا۔[37]

(Indian Currency and Finance (1913)

by John Maynard KeynesAAZZ خود کاشتہ پود

میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے چاندی کا سکّہ بنانے والی ٹکسال بند کروا دیں تاکہ نہ چاندی کا سکہ مناسب مقدار میں دستیاب ہو نہ لوگ اسے استعمال کر سکیں۔ سونے کا سکہ (اشرفی) انگریز پہلے ہی سمیٹ کر غائب کر چکا تھا۔ اب ہندوستان میں لوگوں کے پاس لین دین کے لئے کاغذی کرنسی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اس طرح 1835 میں سرکار کا بنایا ہوا سلور اسٹینڈرڈ 1893 میں بحقِ کاغذی کرنسی ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود عوام میں سونے اور چاندی کے سکوں کی طلب برقرار رہی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار یہ عندیہ دیا گیا کہ حکومت چاندی کا سکہ بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس پر عمل نہ کیا گیا۔

پہلی جنگ عظیم شروع ہوتے ہی ہندوستان میں لوگوں کا کاغذی کرنسی پر شک بڑھ گیا اور اگست 1914 میں صرف چار دنوں میں حکومت کو کاغذی نوٹوں کے بدلے 20 لاکھ پاونڈ کی مالیت کے سونے کے سکے عوام کو ادا کرنے پڑے۔ اس کے بعد سونے میں ادائیگی روک دی گئی لیکن چاندی کی ادائیگی جاری رہی۔ صرف پانچ سالوں میں حکومت ہند کو دوسرے ممالک سے 53 کروڑ اونس (16600 ٹن) چاندی خریدنی پڑی اور ڈیڑھ ارب چاندی کے روپے جاری کرنے پڑے۔ کاغذی کرنسی کو مزید مقبول بنانے اور چاندی پر سے بوجھ ہٹانے کے لئے 1917 میں حکومت ہند نے ایک روپے اور ڈھائی روپے کے نوٹ جاری کیے۔ اس سے پہلے سب سے چھوٹا نوٹ پانچ روپے کا تھا۔ ستمبر 1917 میں چاندی کی قیمت (جو 1893 سے 34 پنس فی اونس سے کم رہی تھی) بڑھ کر 55 پنس فی اونس ہو گئی اور لوگوں نے سکے پگھلا کر چاندی کے زیورات بنانے شروع کر دیے۔ 1835 سے اِس وقت تک پانچ ارب (یعنی 60 ہزار ٹن) چاندی کے سکے بنائے جا چکے تھے۔ اس لئے حکومت کو مجبوراً ہندوستانی روپے کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا۔[40]

حوالہ : پہلی جنگ عظیم کے ہندوستانی کرنسی پر اثرات۔

 

اسلام میں جمہوریت کی پیوند کاری

 

پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم اپنے مقالے میں لکھتے ہیں

مغربی تہذیب نے اپنی سیاسی ہیئت کے لیے جمہوریت کو اختیار کیا جو بلاشبہ اسلام کے عطا کردہ شورائی نظام سے ماخوذ اور مستفیض دکھائی دیتی ہے مگر وہ اپنے عملی قالب میں وہ نتائج پیدا نہیں کر سکی جو ایک اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات سے ہم آہنگ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے مغربی جمہوریت کے تصور پر شدید تنقید کی ہے:

ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

(خضرِ راہ۔ بانگ درا)

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!

(بالِ جبریل)

متاعِ معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی؟

زموراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید

گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو

کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید

(جمہوریت، پیامِ مشرق)

مغربی تہذیب اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں مگر اسلامی ریاستوں کے لیے اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت کے قالب کے تمنائی ہیں جو اسلامی معاشرت کی اقدارِ خیر کی ضمانت فراہم کر سکے۔ مغربی حکومتیں جمہوری مزاج رکھنے کے باوجود دنیا کو متحد کرنے کے بجائے منقسم کر رہی ہیں۔ معاشی سطح پر بھی مغربی تہذیب ایک استحصالی رویہ رکھتی ہے، جس کا مشاہدہ گزشتہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ کیسی انصاف دشمن اور غیر عادلانہ تہذیب ہے کہ اقوامِ عالم کے پلیٹ فارم پر چند قوتوں کو ویٹو کا حق دیتی ہے جس کے نتیجے میں ظلم اور شقاوت پنپتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی اسی صورتحال کے پیش نظر مغربی تہذیب تیزی کے ساتھ رو بہ زوال ہے اور مغرب کے پیرانِ خرابات اس تباہی اور بربادی کے منظر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ تہذیب کو ان دنوں جس زوال اور شکست کا سامنا ہے، اس کا علاج کسی دانشور کو سجھائی نہیں دیتا۔ امنِ عالم تار تار ہو رہا ہے اور چاروں جانب برق و بارود کا دھواں چھایا ہوا ہے۔ مشہور مغربی ادیب جارج برنارڈ شا نے کیا خوب کہا تھا:

’’جو ایک آدمی کو قتل کرے، اسے قاتل کہتے ہیں لیکن جو ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ لے، وہ فاتح کہلاتا ہے۔‘‘

 

عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال

 

بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء

مولانا یوسف لدھیانوی شہید رح اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں

بعض غلط نظریات قبولیتِ عامہ کی ایسی سند حاصل کر لیتے ہیں کہ بڑے بڑے عقلاء اس قبولیتِ عامہ کے آگے سر ڈال دیتے ہیں، وہ یا تو ان غلطیوں کا ادراک ہی نہیں کر پاتے یا اگر ان کو غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کرسکتے۔ دُنیا میں جو بڑی بڑی غلطیاں رائج ہیں ان کے بارے میں اہلِ عقل اسی المیے کا شکار ہیں۔ مثلاً ’’بت پرستی‘‘ کو لیجئے! خدائے وحدہٗ لا شریک کو چھوڑ کر خود تراشیدہ پتھروں اور مورتیوں کے آگے سر بسجود ہونا کس قدر غلط اور باطل ہے، انسانیت کی اس سے بڑھ کر توہین و تذلیل کیا ہو گی کہ انسان کو – جو اَشرف المخلوقات ہے- بے جان مورتیوں کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخلوق کو شریکِ عبادت کیا جائے۔ لیکن مشرک برادری کے عقلاء کو دیکھو کہ وہ خود تراشیدہ پتھروں، درختوں، جانوروں وغیرہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تمام تر عقل و دانش کے باوجود ان کا ضمیر اس کے خلاف احتجاج نہیں کرتا اور نہ وہ اس میں کوئی قباحت محسوس کرتے ہیں۔

اسی غلط قبولیتِ عامہ کا سکہ آج "جمہوریت” میں چل رہا ہے، جمہوریت دورِ جدید کا وہ "صنمِ اکبر” ہے جس کی پرستش اوّل اوّل دانایانِ مغرب نے شروع کی، چونکہ وہ آسمانی ہدایت سے محروم تھے اس لئے ان کی عقلِ نارسا نے دیگر نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں جمہوریت کا بت تراش لیا اور پھر اس کو مثالی طرزِ حکومت قرار دے کر اس کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ پوری دُنیا میں اس کا غلغلہ بلند ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں نے بھی تقلیدِ مغرب میں جمہوریت کی مالا جپنی شروع کر دی۔ کبھی یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ "اسلام جمہوریت کا عَلم بردار ہے” اور کبھی "اسلامی جمہوریت” کی اصطلاح وضع کی گئی، حالانکہ مغرب "جمہوریت” کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی ضد ہے۔ جمہوریت” اس دور کا صنمِ اکبر ”

سید مودودی رح نے ایک مرتبہ کہا تھا

” غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں یہ بچے جنتی ہیں ”

ہم کہتے ہیں کہ

” غلطیوں کے یہ بچے شیر مادر پر نہیں خون ملت پر پروان چڑھتے ہیں ”

 

اسلامی ترقی کا معیار اسلامی معاشرت میں مضمر تھا

 

سید قطب شہید رح ایک جگہ لکھتے ہیں ” اسلامی حکومت اسلامی معاشرت کا عطر ”

"اسلامی معاشرت جن امور کی بنیاد پر تشکیل دی جا سکتی ہے وہ ہیں

١ تزکیہ

٢ تعلم

٣ دعوت

٤ جہاد

ان کے علاوہ جو بھی راستہ اختیار کیا گیا وہ ایک ایسی بدعت بنا جس کا تریاق سنت کی طرف مکمل طور پر پلٹنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے وہ ہتھیار جو مغرب کا تھا خود استعمال کیا مگر ہم اس سے ناواقف تھے کہ کہ ہم اپنی ہی گردن کاٹنے جا رہے ہیں یہ ہتھیار تھا ” مغربی جمہوریت ” اسی لیے اقبال نے اس جدید استعماری نظام پر بھرپور چوٹ کی ہے ۔

دور جدید کے ایک محقق اسکالر اپنے تحقیقی مقالے میں اس کی تفصیل کچھ یوں بیان فرماتے ہیں

” مسلمانوں کی عصری تاریخ میں اقبال جمہوریت پر گفتگو کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اگرچہ اقبال کی اردو کلیات میں جمہوریت پر نو دس شعر ہی موجود ہیں، مگر ان نو دس شعروں میں بھی اقبال نے جمہوریت کی مبادیات کو سمیٹ لیا ہے۔ اقبال نے اپنے شعروں میں جمہوریت پر چار بڑے اعتراضات کیے ہیں۔

ان کا پہلا اعتراض مغربی دانش ور اسٹینڈل کے حوالے سے یہ ہے:

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت ایک معیاری یا Qualitative نظام نہیں ہے بلکہ ایک مقداری Quantitative نظام ہے۔ اس طرح گویا جمہوریت نے انسان کی پوری فکری تاریخ کی نفی کر دی ہے۔ انسان کی پوری فکری تاریخ معیاری نظام بندی کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی معنویت، اس کا حسن و جمال، اس کی پائیداری، اس کی افادیت معیار سے ہے مقدار سے نہیں۔ چنانچہ جمہوریت نے گاڑی کے آگے گھوڑا باندھنے کے بجائے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دی ہے۔ جمہوریت کے مقداری پہلو کے اطلاق سے امام غزالیؒ اور ایک جاہل برابر ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کا مزید غضب یہ ہے کہ وہ ’’کمتر‘‘ سے ’’برتر‘‘ کا انتخاب کراتی ہے۔ حالانکہ اصولی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے کمتر، برتر کے انتخاب کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اقبال نے جمہوریت پر دوسرا بنیادی اعتراض یہ کیا ہے ؎

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردے میں غیر از نوائے قیصری

اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا ’’نیا نظام‘‘ ہونے کا دعویٰ فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’بادشاہت‘‘ جمہوریت کا لباس پہن کر آ گئی ہے۔ فی زمانہ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکہ کے عوام نہیں امریکی سی آئی اے، پینٹاگون، امریکہ کے ایوانِ صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ یہ ادارے ’’خواص الخواص‘‘ کی علامت ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی آراء کو عوام کی آراء اور ان کے فیصلوں کو کسی نہ کسی حوالے سے عوام کے فیصلے قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن بھارت کے حکمرانوں کی تاریخ کا نصف حصہ نہرو خاندان کی ’’میراث‘‘ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کہنے کو عوامی جماعت ہے لیکن اس پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا قبضہ ہے۔ باقی ماندہ بھارتی سیاست پر جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے۔ اقبال نے جمہوریت پر

تیسرا بنیادی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے ؎

تُو نے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام

چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

چنگیز خان جارحیت اور خون آشامی کی بڑی علامت ہے۔ لیکن چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا عَلم بردار ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مساوات اور بھائی چارے کے تصورات پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت نے آزادی کا نعرہ لگا کر درجنوں اقوام کی آزادی سلب کی۔ اس نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کر کے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ رقم کی۔ اس نے مساوات کا پرچم اٹھا کر عدم مساوات، اور بھائی چارے کی مالا جپتے ہوئے انسانی تعلقات کو روندا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چنگیز خان کی پوزیشن جمہوریت اور اس کے عَلم برداروں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ کم از کم چنگیز خان کے قول اور فعل میں ہولناک تضاد تو موجود نہیں۔ اقبال کا جمہوریت پر چوتھا بنیادی اعتراض یہ ہے ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری

مغربی جمہوریت عہدِ حاضر میں انسانی آزادی کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن ایک سطح پر وہ عوام کی پست خواہشات کی خدائی کا اعلان ہے۔ دوسری سطح پر وہ اکثریت کے جبر کا مظہر ہے۔ اور یہ دونوں استبداد کی دو مختلف صورتیں ہیں
اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو مغربی جمہوریت ’’نفسِ امارہ‘‘ کی علامت ہے اور اسلامی نظام ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت۔ جمہوریت نفسِ امارہ سے آغاز کرتی ہے، اسی میں سفر کرتی ہے اور اسی کے دائرے میں اس کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام کے دائرے میں حکمران خود بھی نفسِ مطمئنہ کی علامت ہیں اور وہ مسلم عوام کو بھی نفسِ امارہ کے چنگل سے نجات دلا کر انہیں نفسِ لوامہ اور نفس مطمئنہ، اور پھر نفسِ مطمئنہ کی مزید برتر صورتوں کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی نظام فرد کو ’’بندگی‘‘ کی سطح پر پہنچاتا ہے اور وہ اس کی بندگی کو کامل تر بنا کر اسے اس کے خالق و مالک اور تمام انسانوں کے قریب تر کرتا ہے۔

اس کے برعکس جمہوریت فرد کو اس کی پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی سطح پر پہنچاتی ہے، اور وہ پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی نفسیات کو ایک نظام بنا دیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی نظام کا بنیادی تصور لاالہٰ الا اللہ ہے، اور جمہوریت کا بنیادی تصور لاالہٰ الا انسان ہے۔ جمہوریت کی تعریف ’’عوام کا نظام، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کا اصل پیغام یہی ہے۔ عصر جدید میں علماء کی عظیم اکثریت نے جمہوریت کی اس فلسفیانہ بنیاد کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کی ہو گی اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کا سب سے بڑا مظہر پاکستان اور اس کا ’’اسلامی آئین‘‘ ہے، لیکن گزشتہ چالیس سال کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زنداں ہے، اور یہ صورت جمہوریت کے مجموعی کلچر اور مزاج کے عین مطابق ہے”

(جمہوریت اور انسانی تاریخ —- شاہنواز فاروقی)

اسلامی نظام اپنی شکست و ریخت کے باوجود کبھی اس درجے پستی میں نہیں پہنچا کہ کھلی جاہلیت کو قبول کر لے جب تک کہ اسے اسلامی رنگ نہ دیا جائے۔

سید مودودی رح تجدید و احیاء دین میں لکھتے ہیں

جاہلیت کا حملہ

” سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ جاہلیت بے نقاب ہو کر سامنے نہ آئی تھی بلکہ مسلمان بن کر آئی تھی کھلے دہریے یا مشرکین و کفار سامنے ہوتے تو مقابلہ آسان تھا مگر وہاں تو آگے آگے توحید کا اقرار رسالت کا اقرار صوم و صلات پر عمل قرآن و حدیث سے استشہاد تھا اور پیچھے پیچھے جاہلیت اپنا کام کر رہی تھی ایک ہی وجود میں اسلام و جاہلیت کا اجتماع ایسی سخت پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے کہ عہدہ بر آ ہونا ہمیشہ جاہلیت صریحہ کے مقابلے میں مشکل ہوتا ہے ”

یہ جاہلیت ہمیشہ اسلام کے لبادے میں ہی حملہ اور ہوتی ہے اور اکثر اس کا نشانہ اسلام کا سیاسی نظام ہوتا ہے یہ مغالطہ جمہوریت کو اسلامائز کرنے والے احباب سے ہوا جب ایک نظریہ کیلئے دلائل قرآن و سنت سے

فراہم کے جائیں تو اس کی حیثیت ایک ٹول کی سی نہیں رہتی بلکہ اس کی حیثیت دین کی ہو جاتی ہے اور یہ ایک ایسی ” بدعت ” ہے جو اسلام کے متعارض ایک نظام کو اسلام قرار دلوا دیتی ہے۔

نظام تعلیم کی بربادی

 

ایک انتہائی کاری ضرب جو مسلمانوں پر لگائی گئی وہ یہ تھی کہ ان کے قدیم عربی اور فارسی نظام تعلیم کو متروک قرار دے دیا گیا اور اس کی جگہ ان پر اپنی جدید الحادی مغربی نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی

 

میکالے تعلیمی نظام

 

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس۔

"I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber that I don’t think we would ever conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation.”

میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شئے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔

اس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%DA%A9%D8%A7%D9%84%DB%92_%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85%DB%8C_%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85

لارڈ میکالے کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکتہ) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی، جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:

"ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے، جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جاتا ہے، یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصد اراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے، باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں”۔

"ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جا سکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہو گی، اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے، ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کر تخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا”۔(۶)

"اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہو گی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جا سکے، آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر، فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے۔ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں”۔(۷)

"بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں، انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا، استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں، انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟”۔

"عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کر رہے ہیں، یہ حق ہے، بلکہ غلط کاروں کی پرورش و تربیت کے لئے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے، اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں جن میں نہ صرف بے یارو مددگار، بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں، بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ سرا ہوں گے، اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہو گا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہو گی۔” (۸)

"عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقیناً حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے، لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر و قیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے، ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق۔جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں، ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہو گا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے”۔(۹)

"میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۱۳ء کے پابند نہیں ہیں، نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایۃً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہئے جو بہترین طور پر شایان مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان، عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لئے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں، انہیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لئے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے”۔(۱۰)”۔میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے، میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکة کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا، اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو السنہ الشرقیہ کے فروغ کے لئے کافی ہو گا بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے، اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہو گی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے۔ (۱۱)

"۔فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لئے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں، ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق ، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو ۔”۔(۱۲)

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D9%84%D8%A7%D8%B1%DA%88%D9%85%DB%8C%DA%A9%D8%A7%D9%84%DB%92-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%D8%B8%D8%A7%D9%85-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D9%86%D8%AA%D8%A7%D8%A6%D8%AC.79148

 

                حوالہ جات

 

۶- بخاری، سید شبیر، "میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم” آئینہ ادب چوک مینار، انارکلی لاہور ۱۹۸۶ء ص:۳۰-۳۳۔

۷- ایضاً ص:

والہ جات :۳۳-۳۴

۸۔ ایضاً ص:۳۷-۴۰۔

۹-ایضاً ص:۴۲-۴۳۔

۱۰- ایضاً ص:۴۴-۴۵۔

۱۱- ایضاً ص:۴۶۔

۱۲- ایضاً ص:۴۵۔

۱۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۱۷۰-۱۷۱

۱۴- حالی، الطاف حسین، مولانا "حیات جاوید” آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور، ۱۹۶۶ء سرسید احمد خان پر ایک نظر ص:۴۶-۴۷

سوچنے کی بات۔

یہ وہ بنیادی عوامل و عناصر تھے کہ جن کو برطانوی استعمار نے متاثر کیا اور اسی غلامی کا تسلسل آج بھی بر صغیر کی تقسیم شدہ مسلم قوم کو اپنے آہنی شکنجے میں کسے ہوے ہے اور اس سے آزادی کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی کیا خوب کہا ہے شاعر نے

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے

اور انتہائی افسوس کہ اس انحطاط سے عام آدمی کو ہی نہیں دینی قیادت کو بھی پوری شدت سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ہر اس شعبے میں کہ جس میں احیاء دین کی مکمل گنجائش موجود تھی اسے جدید فتنوں میں مبتلا ہوکر اسلامی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے

کیا خوب کہا تھا اقبال مرحوم نے

ہندی اسلام

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

اب چند امور کا سمجھ لینا ضروری ہے لیکن یہ ہم پر لازم ہے کہ اس موضوع پر سلف کے سیدھے اور سچے راستے کو تھام کر رکھیں۔

١۔احکام شریعت یا حدود الله کا نفاذ تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور اگر کہیں مسلمان اکثریت میں موجود ہیں اور نظام شریعت موجود نہیں تو ان پر لازم ہے کہ نظام شریعت کو نافذ کریں ورنہ وہ تمام معاملات شریعت جو حکومت سے منسلک ہیں ہمیشہ معطل ہی رہیں گے۔

یہاں شاہ ولی اللہ دھلوی رح کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں

مسئلہ در تعریف خلافت: ‘هی الرياسة العامة فی التصدی لإقامة الدين بإحياء العلوم الدينية وإقامة أرکان الإسلام والقيام بالجهاد وما يتعلق به من ترتيب الجيوش والفرض للمقاتلة و اعطائهم من الغيئ والقيام بالقضاء وإقامه الحدود ورفع المظالم والأمر بالمعروف والنهی عن المنکر نيابة عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم۔’تفصیل ایں تعریف آنکہ معلوم بالقطع ست از ملت محمدیہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چوں مبعوث شدند برایئ کافہ خلق اللہ باایشاں معاملہ ہاکردند و تصرفہا نمو دند برائے ہر معاملہ نُوّاب تعیین فرمودند و اہتمام عظیم در ہر معاملہ مبذول داشتند، چوں آں معاملات را استقراء نمائیم واز جزئیات بکلیات واز کلیات بہ کلی واحد کہ شامل ہمہ باشد انتقال کنیم جنس اعلیٰ آں اقامت دین باشد کہ متضمن جمیع کلیات ست و تحت وے اجناس دیگر باشد یکے ازاں احیائے علوم دین ست از تعلیم قرآن و سنت و تذکیر و موعظت۔

(١/١٣-١٤)

”یہ مسئلہ خلافت کی تعریف میں ہے: ‘خلافت سے مراد وہ ریاست ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں علوم دینیہ کے احیا، ارکان اسلام کی پابندی، جہاد اور اس کے لیے افواج اور ساز و سامان کی تیاری کے اہتمام، مال فے کی تقسیم، نظام قضا کے اہتمام، حدود کے نفاذ، رفع مظالم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے دین کی اقامت کے درپے ہو۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات جب پوری قطعیت سے معلوم ہے کہ وہ تمام مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث تھے تو ان کے ساتھ آپ نے طرح طرح کے معاملات اور مختلف تدابیر اختیار فرمائیں۔ ہر معاملے کے لیے ذمہ داروں کی تعیین فرمائی اور ہر معاملے کو انجام دینے کے لیے بڑا اہتمام فرمایا۔ جب ہم ان تمام معاملات کا استقرا کرتے ہیں اور جزئیات سے کلیات اور پھر ان کلیات سے ایسا واحد کلیہ معلوم کرتے ہیں جو تمام کلیات کا جامع ہو تو وہ جنس اعلیٰ، دراصل ‘اقامت دین’ ہی ہے، جو تمام کلیات پر مشتمل ہے اور ا س کے تحت بہت سے دوسرے شعبے بھی آتے ہیں۔ ان میں سے ایک قرآن و سنت کی تعلیم، تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ذریعے سے دینی علوم کا احیا ہے۔”

دوسری طرف ایک شدید ترین مغالطہ یہ لگتا ہے کہ ہم بزور قوت خلافت کو نافذ کر دیں گے یہاں ایک بات واضح طور پر جان لیجئے کہ پہلی اسلامی ریاست” مدینہ ” کے قیام میں کسی بھی قسم کی کوئی قوت صرف نہیں ہوئی۔

خلافت ارضی کی اقسام ہیں ایک وہ خلافت ہے جو انسان کو تمام مخلوقات پر حاصل ہے یعنی انسان دوسری تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہے جیساکہ قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ زمین و آسمان کو انسان کے واسطے مسخر کر دیا گیا۔

پھر ایک خلافت وہ ہے جو انبیاء علیھم السلام کو حاصل ہے بطور نائب جس کا اعلان حضرت آدم علیہ سلام کی تخلیق کے ساتھ کیا گیا۔

پھر ایک خلافت بمعنی حکومت یا اسلامی ریاست کے ہے۔

ریاست اسلامی چاہے کتنی بھی قوت کیوں موجود نہ ہو اسلامی معاشرے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی اسلامی ریاست زمین کے کسی ٹکڑے یا چند قوانین کا نام نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا مطلب ہے اسلامی معاشرت کا قیام۔

اب پورے قرآن کا مطالعہ کیجئے ہر جگہ الله نے خلافت کی نسبت اپنی جانب کی ہے یعنی ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا ہم نے تمہیں ریاست عطا فرمائی کہیں بھی کوئی ایک ایسی آیت موجود نہیں جہاں یہ مضمون ہو کہ تم نے خلافت حاصل کر لی۔

اگر معاشرے کا کثیر طبقہ دیندار ہے اور دین سے محبت رکھتا ہے اور چند قلیل شر پسند معاشرے میں موجود ہیں تو حدود الله کے نفاذ سے یعنی شرعی سزاؤں سے انھیں اعتدال میں رکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر معاشرے کا کثیر طبقہ سرکشی پر آمادہ ہو تو حکومت اور قوت کے باوجود بھی آپ حدود الله کو قائم نہیں رکھ سکتے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز جنھیں پانچواں خلیفہ رشید بھی کہا جاتا ہے حکومتی قوت کے باوجود دو سال میں ایسی معاشرت تشکیل نہ کر سکے جو خلافت کی حقدار ہوتی اور جیسے ہی ان کی کی اس دنیا سے رخصت ہوئی خلافت نے پھر ملوکیت کی شکل اختیار کر لی۔

الله کے رسول نے پہلے یکسوئی کے ساتھ امت تشکیل دی پھر ریاست کے حصول کے ساتھ بدر سے پہلے اسلام کا نظام عبادات قائم فرما دیا اب چونکہ پشت پر ریاست تھی اور احکام شریعت اور اسلامی معاشرت قائم تھے اسلئے الله کی جانب سے فتوحات کا نزول ہونا شروع ہوا۔

یہاں پھر چند امور پر غور کیجئے احد اور خاص کر حنین میں جب نو مسلموں کی جانب سے ذرا سی کوتاہی ہوئی تو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی ذات با برکات کی موجودگی میں بھی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ مسلمانوں کے پاس زبردست قوت موجود تھی۔

دوسری طرف غزوہ احزاب جس میں قرآن خود کہتا ہے کہ کلیجے حلق میں آ رہے تھے پیچھے یہود اور سامنے پورے عرب کی قوت الله نے تلوار ہلاۓ بغیر فتح مبین سے نواز دیا۔

سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ آپ کے پاس کتنی ہی جہادی قوت کیوں موجود نہ ہو الله کی صریح نصرت کے بغیر فتح ممکن نہیں اور یہ اسوقت کا معاملہ ہے جب اسلامی ریاست موجود تھی۔

دوسری طرف تلوار کی قوت سے اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں۔

یہ سمجھ لیجئے کہ تلوار کی قوت سے ریاست کا قیام تو ضرور ممکن ہے لیکن اس ریاست میں مکمل اسلامی معاشرت موجود ہو اس کیلئے نبوی طریق پر محنت کی شدید ضرورت ہے۔

قیام ریاست اور اقامت دین کے صاف اور واضح مدارج ہیں جن کے بغیر اسلامی حکومت تو قائم ہو سکتی ہے خلافت نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومت اور خلافت میں کیا فرق ہے۔

بنو امیہ یا بنو عباس کے متعدد حکمرانوں یا خلافت عثمانیہ یا پھر ہندوستان کے دیندار مغل حکمرانوں اورنگزیب وغیرہ کی حکومت کو اسلامی حکومت کہ سکتے ہیں جب کہ احکام شریعت ریاستی سطح پر قوت کی بنیاد پر نافذ تھے اسلامی سزائیں دی جاتی تھیں۔

لیکن انہیں خلافت راشدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خلافت راشدہ وہ اسلامی حکومت ہے جہاں تمام معاشرہ چند ایک شر پسندوں کو چھوڑ اسلام کے مکمل رنگ میں رنگا دکھائی دے۔

پھر خلافت راشدہ کا مطالعہ کیجئے پہلے دو ادوار یعنی حضرت ابو بکر صدیق رض اور حضرت عمر فاروق رض کے ادوار کے استحکام میں اور حضرت عثمان رض اور حضرت علی رض کے ادوار کے استحکام میں فرق تھا۔

اگر غور کیجئے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ اصحاب رسول رض کے انتقال اسلامی ریاست کی سرحدوں کی تیزی سے وسعت اور کثیر تعداد میں نو مسلموں کی اسلام میں شمولیت نے خوارج اور روافض جیسے شدید تر فتنوں کو پیدا کیا۔

یعنی جیسے ہی اسلامی معاشرت کی گرفت ڈھیلی ہونا شروع ہوئی خلافت کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہو گیا آخر کیوں۔

غور کیجئے حکومت موجود تھی قوت موجود تھی ریاست میں اسلامی قوانین نافذ تھے لیکن پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مروان اور یزید جیسے حکمرانوں نے حکومت کی۔

اب کچھ خلافت کے قیام کے مختلف مدارج کی جانب اشارہ کر دوں۔

قرآن کریم سے ہدایت حاصل کیجئے

سورہ شوریٰ میں ارشاد ہے:

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوْحًا وَّالَّذِی اَوْحَيْْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْْنَا بِه اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰی وَعِيْسٰی اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ۔(٤٢: ١٣)

”اس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی ہم نے تمھاری طرف کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ پیدا کرنا۔”

اب غور کیجئے ان تمام انبیاء کو دین میں ” اولو العزم پیغمبر ” کا خطاب دیا گیا ہے اب کچھ اس کی تفصیل

"عزم” کے معنی مستحکم اور مضبوط ارادہ کے ہیں، راغب اصفہانی اپنی مشہورو معروف کتاب ”مفردات” میں کہتے ہیں: عزم کے معنی کسی کام کے لئے مصمم ارادہ کرنا ہے، ”عقد القلب علی امضاء الامر”

قرآن مجید میں کبھی ”عزم” کے معنی صبر کے لئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوند ہے:

( وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ ِنَّ ذَٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الُْمُورِ )(١)

”اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے صبر کا کام ہے”۔

اب ان انبیاء علیہ سلام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیجئے

نوح علیہ سلام

ابراہیم علیہ موسیٰ علیہ سلام

عیسی علیہ سلام

اور حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم خاتم النبین

١۔پہلے شدید ترین مشکلات میں انتہائی صبر کے ساتھ دعوت

٢۔ صالح ترین لیکن مختصر انسانی گروہ کی تعلیم، تزکیہ و تربیت

٣۔ پھر اتمام حجت کے بعد ہجرت

خلافت ہمیشہ اتمام حجت اور ہجرت کے بعد ہی قائم ہوئی ہے اس گروہ انبیاء میں صرف حضرت مسیح علیہ سلام کا معاملہ بظاہر مختلف دکھائی دیتا ہے۔

لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ

آپ نے شدید مشکلات میں صبر کے ساتھ دعوت دی قوم پر اتمام حجت کیا آپ کی ہجرت آسمان پر ہوئی اور اب آپ زمین پر نازل ہو کر خلافت قائم فرمائیں گے۔

یہاں محمد قطب رح کا جملہ نقل کر دوں۔

حکومت الہیہ اسلامی معاشرت کا عطر ہے

جب تک تشکیل معاشرت نہیں ہو جاتی اور معاشرہ رجوع الی الله نہیں کر لیتا اسلامی حکومت کا ظہور نا ممکنات میں سے ہے۔

٭٭٭
تشکر مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید