FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ لاہور

عطاء الحق قاسمی

ان دنوں جو پاکستانی ادیب بھی بیر ون ملک جاتا ہے وہ واپسی پر سفر نامہ ضر ور لکھتا ہے۔ اس سے ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ جو غیر ملکی پا کستان آتے ہوں گے واپسی پر وہ بھی یقیناً ایک عدد سفرنا مہ ضر ور قلمبند کرتے ہوں گے جس طرح ہمارے ہاں کے بعض سیاح کسی غیر ملک میں گزارے ہوئے چند گھنٹوں ہی سے اس کی تہذیب اور تمدن کا کچا چٹھا کھول کر ہمارے سا منے رکھ دیتے ہیں اسی طرح ممکن ہے بعض غیر ملکی سیاح بھی سپر ایکسپریس پر پاکستان کا ایک چکر کاٹنے کے بعد اپنے قارئین کو پاکستانی عوام اور یہاں کی معاشرت کے بارے میں فیصلہ کن معلومات دے ڈالتے ہوں، سو ہم نے چشم تصور میں ایک ایسے گیر ملکی سیاح کا سفرنا مہ ملاحظہ کیا ہے جس نے چند روز لاہور میں قیام کیا اور پھر اپنے تاثرات ایک کتا بی صورت میں پیش کر دیے۔ اس ’’ سفر نامے ‘‘ کے کچھ حصے آپ بھی ملاحظہ فر مائیں ۔

 

ایک حیرت انگیز رسم :

میرے لیے یہ امر باعثِ حیرت تھا کہ پاکستان میں عور توں اور مردوں سے کہیں زیادہ مردوں اور مردوں کو اختلاط کی آزادی حاصل ہے۔ کیونکہ میں نے بے شمار نو جوانوں کو دیکھا جو ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے خر اماں خراماں چلے جا رہے تھے اسی طرح میں نے مر دوں کو عور توں سے زیادہ ’’سیکسی ‘‘ لباس میں ملبوس پا یا۔ انہوں نے سکرٹ قسم کی کوئی چیز پہنی تھی جسے وہ اتنا اوپر اٹھا کر چلتے تھے کہ وہ منی سکرٹ بلکہ مائیکرو منی سکرٹ میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ میں نے لوگوں کو بر سر عام کسی ایسی دیوار کی طرف منہ کر کے جس پر کسی گدھے کی تصویر بنی ہوئی تھی، دھواں ’’ دھار ‘‘ حرکت کرتے ہوئے بھی پایا۔ کئی ایک لوگوں کو اس کام سے فراغت کے بعد اپنے محرک ہاتھ کے ساتھ اِ دھر اُدھر ٹہلتے بھی دیکھا۔ اگلے روز میں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی ’’ شارع عام پر فحش حرکات کرتے ہوئے گرفتار…..‘‘۔ یقیناً وہ یہی لوگ ہوں گے۔

شادی کی روسم

مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ پاکستان میں شادی کے لئے لڑکے اور لڑ کی کا راضی ہونا کا فی نہیں، بلکہ ان کے وا لد ین کا راضی ہونا ہے ‘تاہم وہ اس سلسلے میں اولاد کی مرضی ضرور دریافت کرتے ہیں۔ اگر لڑ کا لڑ کی ’’ ہاں ‘‘ کر دیں تو یہ شادی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ’’ نہ ‘ کہیں ……. تو بھی ہو جاتی ہے۔ مجھے یہاں ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ با رات میں بے شمار لوگ تھے جو پیدل چل رہے تھے اور دولہا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ دولہے کو گھوڑے پر بٹھا نے کی رسم میرے لیے نا قابل فہم تھی ممکن ہے اس کا تعلق گھوڑے کی ذہنی سطح یا ’’ ہارس پاور ‘‘ وغیرہ سے ہو۔ بار ات میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سر پر کچھ صندوق اٹھائے ہوئے تھے۔ میرے در یافت کرنے پر انہوں نے بتا یا کہ اس میں دلہن وغیرہ کے لیے قیمتی پارچہ جات ہیں جو دلہن وا لوں کو دکھا کر دولہا واپس اپنے گھر لے جائے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ان کپڑوں کو ’’ ور ی‘‘ کے کپڑے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’وری ‘‘ سن کر بہت چونکا کیونکہ ہمارے ہاں بھی یہ لفظ موجودہ اور انہی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وری (worry) کا مطلب ’’ پریشانی ‘‘ ہے۔ اور جن کپڑوں کو یہاں ’’وری ‘‘ کہا جاتا ہے وہ بھی پریشانی ہی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ انہیں بلا وجہ اٹھا کر دلہن کے گھر لے جانا پڑتا ہے جبکہ بالآخر انہیں واپس دلہا کے گھر آنا ہوتا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے قد یم ذرائع

مجھے لاہور اس لحاظ سے بھی اچھا لگا کہ یہاں کے لوگ اپنی بے پناہ خوشحالی اور حد درجہ ماڈرن ہو نے کے با وجود بعض قدیم روایات کو بھی عزیز رکھتے ہیں۔ اس میں سر فہرست ٹرانسپو رٹ کے ذرائع آتے ہیں جن میں زمانہ قد یم سے ابھی تک سر مو تبدیلی نہیں کی گئی، چنانچہ مجھے یہاں ایک ایسی سواری پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا جس کے تین پہیے تھے۔ اگلی نشست پر صرف ڈرائیور بیٹھتا تھا اور پچھلی نشست دو مسافروں کے لیے تھی۔ اسے رکشہ کہا جاتا ہے، اس میں سفر کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اگلی نشست صرف ڈرائیور ہی کے لئے کیوں مخصوص کی گئی ہے۔ اس تیز رفتار اور ہجوم میں ’’ زگ زیگ ‘‘ (Zigzag)بناتی ہوئی سواری کی اگلی نشست پر درا صل بیٹھ بھی وہی سکتا ہے جو کسی سرکس کا انتہائی ما ہر فنکار ہو۔ شیر کے منہ میں گردن ڈال سکتا ہو۔ اسی طرح ایک لاہور دوست مجھے ایک پنجا بی فلم ’’ ہیر رانجھا ‘‘ دکھا نے کے لئے اپنے ہمراہ لے گیا۔ اس کے ایک سین میں ہیر کو اس کا چچا مارتا ہے جس کے باعث ہیر کے ما تھے سے خون بہنے لگتا ہے۔ اس پر اسے فوراً ایک لکڑی کی بنائی ڈولی میں بٹھا دیا جاتا جسے چار افراد کاندھوں پر اٹھائے ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ یقیناً اسے ہسپتال لے گئے ہوں گے۔ میر لے لیے یہ ایمبو لینس بہت (Fascinating)تھی۔ ہم یورپ والے اپنی قد یم روایات کو بالکل ترک کرتے جار ہے ہیں۔ جو کوئی اچھی بات نہیں۔

انگریز کا بچہ

لاہور کے عوام کو انگریز قوم کے ساتھ شد ید محبت ہے اور وہ آج بھی انہیں یاد کیا کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات خاصی باعث حیرت تھی کیونکہ انگریزوں نے ڈیڑھ سو برس تک یہاں کے لوگوں کو غلام بنائے رکھا ہے اور اس دور ان ان پر سخت مظالم روا رکھے لیکن اس کے با و جود لوگ انہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ انگریز کا جو اب نہیں تھا۔ ایک روز گلی میں سے گزرتے ہوئے میں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے بچے کو گود میں لیے ہلکارے دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ منہ سے کچھ بو لے بھی جاتا تھا میں جاننا چاہتا تھا کہ یہاں لوگ اپنے بچوں کو بہلا نے کے لئے ان کے ساتھ کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ میں نے اپنے ہمراہی سے پو چھا کہ یہ شخص کیا کر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ شخص اپنے بچے کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے کہ ’’آ ہا۔ میرا بیٹا تو کسی انگریز کا بیٹا لگتا ہے ‘‘۔

ایک حکیم سے ملاقات

میرے معدے میں خاصی گڑبڑ تھی۔ ، چنانچہ میں نے راستے میں ایک حکیم کی د کان دیکھی تو اندر داخل ہو گیا۔ وہاں بیٹھے ہوئے ایک مریض نے بتا یا کہ حکیم صاحب ملک کے بہت بڑے طبیب ہیں۔ میں علاج کے لیے کسی ڈاکٹر کی دکان پر بھی جا سکتا تھا لیکن میں نے طب مشرق کے کمالات کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، چنانچہ میں نے خود کو یہاں پا کر بہت تھرل (Thrill)محسوس کی۔ حکیم صا حب کے کمرے میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھی۔ اور وہ درمیان عینک چہرے پر چڑھائے ایک کرسی پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے میری نبض دیکھی ور اس دوران آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے۔ ان کے چہرے پر غور و فکر کی گہری لکیریں تھی۔ تھو ڑی دیر بعد انہوں نے اپنا ہاتھ نبض پر سے اٹھایا۔ آنکھیں کھولیں اور پوچھا : ’’ عربوں کی طرف سے تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا آپ کی معیشت پر کیا اثر پڑا ہے؟ ‘‘ میں اس سو ال پر بہت سٹپٹایا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ میری مرض کے بارے میں مجھ سے پوچھیں گے جب میں نے دانستہ طور پر اس بارے میں لا علمی کا اظہار کیا تو انہوں نے دوسرا ہاتھ دکھانے کو کہا اور ایک بار پھر کچھ دیر کے لئے گہرے غور و فکر میں مبتلا ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ہاتھ اٹھایا۔ عینک اٹھا کر میز پر رکھی اور میری طرف دیکھ کر پو چھنے لگے : ’’ کیا انگولا کی صورت حال میں تبدیلی کا کوئی امکان ہے ؟ ‘‘اس بار میں سخت جھنجھلایا اور میں نے بالکل چپ سادھ لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ روایات کے مطابق در اصل طب مشرق سے وا بستہ افراد صرف طبیب ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیات دان سما جی کارکن، شاعر اور ادیب بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکیم صاحب کے ہاں جو ہزاروں کتا بیں نظر آ رہی تھی ان میں سے چند ایک طب کے موضوع پر بھی تھیں باقی کتابیں دیگر فنون سے متعلق تھیں۔ ایک نازک سا فرق یہ بھی معلوم ہوا کہ ان اطباء کےنا مور آ با ؤ اجداد اپنے پیشے میں مکمل مہا رت اور تمام تر دلچسپی کے پیرو کار زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرم حصہ لینے کے بعد اگر کچھ وقت بچتا ہے تو وہ طبا بت پر صرف کرتے ہیں۔

وچولے

جس طرح جائیداد کی خرید و فروخت کے لئے ہمارے ہاں مختلف ایجنسیاں کام کرتی ہیں۔ اسی طرح مشرق میں با قا عدہ ایسے ادارے بھی مو جود ہیں جو جائیداد کی خر ید و فروخت کے ساتھ ساتھ شادی کے لئے مناسب رشتوں کے ضمن میں اپنی خد مات پیش کرتے ہیں ان ’’ وچولوں ‘‘ کے پاس معاشرے کے تمام طبقوں سے متعلق لوگوں کے نام پتے اور ان کی تصویریں مو جود ہوتی ہیں چنانچہ یہ گا ہکوں کو با قا عدہ رجسٹرڈ کرنے کے بعد انہیں لڑکے اور لڑکی کے بارے میں مکمل کوائف مہیا کرتے ہیں اور بوقت ضرورت تصویر بھی مہیا کر دیتے ہیں ہمارے ہاں بھی کچھ ایسے ادارے مو جود ہیں مگر واضح رہے وہ شادی بیاہ سے متعلق نہیں ہیں۔

اخباروں میں اشتہار ت

اس کے علا وہ کئی لڑ کیوں کے وا لد ین ذاتی طور پر بھی اخبار میں اشتہار دیتے ہیں جس میں دیگر کوائف کے علاوہ لڑکی کی ذاتی جائیداد کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہوتی ہے اس طرح لڑکے کے والدین کی طرف سے جو اشتہارات شائع ہوتے ہیں ان میں ذات پات اور عقیدہ کے تعین کے علا وہ اس امر پر بھی زور دیا گیا ہوتا ہے، کہ لڑ کا اعلیٰ تعلیم کے لئے با ہر جانا چاہتا ہے یا یہ کہ وہ کاروبار کا متمنی ہے۔ چنانچہ صرف ایسے حضرات رجوع کریں جو اس سلسلے میں اس کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔

سلامی

مجھے یہاں ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہو ا۔ بڑی پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا تا ہم میں نے دیکھا کہ کھا نے سے قبل لوگ ایک ایک کر کے دولہا کے پاس جاتے تھے اور اسے کچھ روپے پیش کرتے تھے۔ دولہا کے ساتھ ایک شخص بیٹھا تھا جو یہ رقم گنتا اور ایک کاپی میں درج کرتا چلا جاتا۔ مجھے یہ رسم بہت اچھی لگی کہ ہر کوئی اپنے کھا نے کا بل خود ادا کرتا ہے ہمارے ہاں اسے ’’ ڈچ سسٹم ‘‘ کہا جاتا ہے جب کے یہاں کے لوگ اسے سلامی کہتے ہیں۔

بارات پر سنگ زنی

جسر سم کا میں ذکر کرنے لگا ہون مجھے وہ کود دیکھنے کا اتفاق تو نہیں ہوا البتہ ایک پاکستانی دوست نے مجھے بتا یا کہ یہاں بعض دیہات میں جب لڑکے والے بار ات لے کر دلہن کے گھر پہنچتے ہیں تو دلہن کے رشتے دار عورتیں مکان کی چھت پر سے انہیں خوب اور ہر طرح کی گالیاں دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انہیں پتھر بھی مارتی ہیں۔ لیکن دولہا اور باراتی اس کا برا نہیں مانتے۔ مجھے یہ رسم اچھی نہیں لگی۔ ہمارے ہوں بعض لوگ شادی کے ’’ انسٹی ٹیو شن ‘‘ کے خلاف ہیں اور وہ اس امر کو ایک غیر فطری فعل سمجھتے ہیں کہ ایک عورت اپنی تمام عمر ایک مرد کے ساتھ اور ایک مرد اپنی تمام عمر ایک عورت کے ساتھ صرف کر دے تا ہم وہ شادی کے ’’ انسٹی ٹیو شن ‘‘ کے خلاف اپنا نکتہ نظر اس جارحانہ انداز میں پیش نہیں کرتے جس طرح پنجاب کے ان دیہات میں کیا جاتا ہے۔

دولہا کے ساتھ ہنسی مذاق

لاہور میں جس شادی میں شرکت کا مجھے اتفاق ہوا تھا۔ اس میں ایک رسم میں نے یہ بھی دیکھی کہ شادی کے اگلے روز جب دولہا اپنی دلہن کو اس کے وا لدین کے گھر لے جاتا ہے تو دولہا کی سالیاں اس کے ساتھ بہت ہی مذاق کرتی ہیں۔ مثلاً وہ بغیر فوم کے پلنگ پر صرف چادر بچھا کر دولہا کو اس پر بیٹھنے کے لئے کہتی ہیں۔ اور دولہا لا علمی کی بنا پر اس پر بیٹھ جاتا ہے۔ میرے دوست کے ساتھ بھی یہی مذاق کیا گیا تھا اور کل مجھے اس کا خط موصول ہوا ہے جس میں اس نے بتایا کہ وہ ابھی تک ہسپتال ہی میں ہے۔

جوتی چرانے کی رسم

اس موقع پر دولہا کی سالیاں اپنے برادر اِن لا کو جوتیاں اتار کر بیٹھنے پر زور دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ جوتیاں اتارتا ہے  تو موقع پا کر سالیاں جوتی غائب کر دیتی ہیں، بعد میں اس جوتی کی وا پسی کے لئے دولہا کو منہ مانگی رقم ادا کرنی پڑتی ہے مجھے بتایا گیا کہ جوتی چرانے کی رسم شادی بیاہ کے علا وہ ہر جمعہ کو مسجدوں کے باہر بھی ادا کی جاتی ہے اور یہ رسم سالیاں ادا نہیں کرتیں ممکن ہے یہ رسم سالے ادا کرتے ہوں تا ہم میں نے اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی۔

حاضرین کو چھوہارے مار نا

یہاں شادی کے موقع پر ایک رسم یہ بھی ہے کہ نکاح سے فراغت کے بعد دولہا کے کوئی عزیز محفل میں موجود حاضرین کو چھو ہارے مارتے ہیں اسے یہاں چھوہارے لٹانا کہا جاتا ہے ایک چھوہارا میری ناک کو بھی لگا جس کے باعث ناک کئی دن تک سو جی رہی۔ چھو ہارے کے بارے میں وضاحت کر دوں کہ جب کھجور پڑی پڑی سوکھ جائے تو یہاں کے لوگ اسے چھو ہا را کہنے لگتے ہیں۔ نیز یہ کہ چھوہارے کی شکل صرف چھو ہارے سے ملتی ہے۔

پیسوں کی بار ش

ایک رسم یہ بھی ہے کہ گھوڑے یا کار میں سوار دولہا کے کوئی عزیز چین سے بھرا ہوا یک بیگ لے کر بار ات کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور موقع بہ موقع بیگ میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالتے ہیں اور پھر پوری قوت کے ساتھ اسے دو مارتے ہیں۔ یہ رسم ان بچوں کو خوش کرنے کے لئے نبھائی جاتی ہے جو صرف پیسے لوٹنے کے لیے بارات کے آگے آگے چل رہے ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اگر کسی بارات میں ایسا نہ ہو تو یہ بچے چند قدم ساتھ چلنے کے بعد ’’ اوئے اوئے ‘‘ کرنا شر وع ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہاں با را تیوں کی ’’ ناک کٹ جانا ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ناک کٹ جا نے کی وضاحت میں نہیں کر سکتا کیونکہ میں خود نہیں سمجھ پا یا کہ بیٹھے بٹھائے ناک کیسے کٹ سکتی ہے۔ حالانکہ ناک کٹنے کے زیادہ چانسنزدھات کے یہ سکے با را تیوں کے منہ پر مارنے میں پوشیدہ ہیں۔ بہر حال پیسے لٹا نے کی اس رسم سے بچے اور بار اتی سبھی خوش ہوتے ہیں۔ اس فعل کے دو ران اگر کسی کو تشویش ہوتی ہے وہ یا تو کسی کار کے مالک کو ہوتی ہے جس کی ونڈ سکر ین ہر بار خطرے میں پڑ جاتی ہے اور یا پھر کار کی عدم مو جو دگی میں خود گھوڑے کو ہوتی ہے جو متعدد بار دھات کے ان سکوں کی زد میں آتا ہے۔ اس صورت میں اس کے قریب کھڑے افراد حفظ ما تقدم کے طور پر خود بخود ایک د ولتی کے فاصلے پر ہو جاتے ہیں۔

آئینہ دکھانا

یہاں شادی سے پہلے دولہا دلہن نے چونکہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھا ہوتا لہذا انہیں ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے دلچسپ طریقہ برتا جاتا ہے دولہا کو عور توں کے کمرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اور وہاں اسے دلہن کے ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہاں دونوں اگر چہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں تا ہم وہ ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دلہن نے ایک تو گھونگھٹ نکالا ہوتا ہے۔ اور دوسرے اُس نے گردن جھکائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر ان کے پاؤں میں ایک آئینہ لا کر رکھ دیا جاتا ہے تا کہ وہ کم از کم ایک دوسرے کی شکل دیکھ سکیں، کیونکہ انہوں نے تمام عمر ایک دوسرے کے ساتھ گزارنا ہو تی، چنانچہ وہ اس آئینے میں ایک دوسرے کی شکل دیکھتے ہیں۔ اور پھر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ تمام عمر ایک دوسرے کے ساتھ بسر کریں گے، اس فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔ کہ یہ رسم ادا کرنے سے قبل بزر گوں نے ان کا نکاح پڑھا دیا ہوتا ہے۔

عورت پاؤں کی جوتی

میں نے لاہور میں بیشتر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ پیسہ ہاتھ کی میل اور عورت پاؤں کی جوتی ہے تا ہم حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے یہاں لوگوں کی کثیر تعداد کو اس جوتی اور میل کے لیے ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے۔ یہ میل تو کچھ لوگوں کے ہاتھ آ جاتی ہے مگر بیشتر اس کے لئے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں البتہ شادی کی بدولت جوتی سب کا مقدر بنتی ہے بلکہ کئی سب جب وہ مزید شادیاں کرتے ہیں۔

سالا اور بہنوئی

عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے کے باعث یہاں سالا ایک گھٹیا چیز اور بہنوئی ایک آسمانی چیز سمجھی جاتی ہے تا ہم ہر شخص جو یہاں بہنوئی کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ وہ بیشتر صور توں میں کسی نہ کسی کا سالا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں ہر شخص کی آدھی زند گی بطور بہنوئی اور آدھی زند گی بطور سالے کے گزرتی ہے۔ ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہاں داماد کو تو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن گھر داماد کے ساتھ بڑا حقا رت آمیز سلوک ہوتا ہے۔ واضح رہے داماد وہ ہوتا ہے جو لڑکی کو بیاہ کر لایا ہوتا ہے اور گھر داماد اسے کہتے ہیں جسے لڑکی بیاہ کر لاتی ہے۔

گھر کی رانی

میں نے ابھی عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے کا ذکر کیا گیا تھا مگر یہاں یہ وضاحت ضرو ری ہے کہ اس قسم کے خیالات صرف ان پڑ ھ لوگوں میں پائے جاتے ہیں کیونکہ یہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ عورت کے متعلق اس قسم کے خیالات نہیں رکھتا وہ اسے گھر کی رانی سمجھتے ہیں وراسے پو ری پو ری عزت دیتے ہیں تا ہم اس رانی کے فرائض میں جھاڑو دینا، برتن صاف کرنا کپڑے دھونا کھانا پکا نا، جھاڑ پونچھ کرنا اور شوہر، نیز اس کے ماں باپ، بہن بھائی رشتے دار اور دوستوں کے ناز نخرے اٹھا نا۔ باقی رہے راجہ کے فرائض سو وہ سب کچھ کرتا ہے جو راجے مہاراجے کرتے ہیں۔

موت کی قبل از وقت اطلاع

انسانی زند گی میں خوشیاں اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں، چنانچہ لاہور میں قیام کے دو ران جہاں مجھے شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کا موقعہ ملا وہاں نے موت وغیرہ کی رسو مات میں بھی شرکت کی اور سچی بات تو یہ ہیکہ پر اسر ار مشرق کی باقی چیزوں کی طرح رسومات بھی مجھے ’’ تھر یلنگ ‘‘ (Thrilling) محسوس ہوئیں۔ مثلاً مغرب والوں کے لئے یہ اطلاع شاید نا قابل یقین ہو کہ یہاں وفات پا نے والے ہر شخص کو اپنی موت کے گفتگو سے ملا۔ ان میں سے ہر ایک یہی بتاتا تھا۔ کہ مرحوم نے مر نے سے چند گھنٹے یا چند روز قبل کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ وہ عنقریب فوت ہو نے والے ہیں،تاہم میری ملاقات یہاں صحت مند نوجوانوں سے بھی ہوئی اور ان کا محبوب مشغلہ بھی صبح کے ناشتہ سے لے کر رات کے کھانے تک موت ہی کے بارے میں گفتگو کرنا تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ زندگی سے تمام تر ما یوسی کے باوجود یہ لوگ بہر حال اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر ہی فوت ہوتے ہیں۔ اور موت وغیرہ کے بارے میں ان کی گفتگو محض ٹائم پاس کرنے کے لئے ہوتی ہے۔

بین ڈالنے کی رسم

دیہات کے بیشتر اور شہر کے بعض گھرانوں میں ایک رسم یہ ہے کہ فوتیدگی کی صورت میں برادری کی خواتین اپنے گھر سے مر نے والے کے گھر تک ننگے پاؤں بین کرتی ہوئی جاتی ہیں۔ گھر کے قریب پہنچتے پہنچتے ان کی آہ و زا ری بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ گھر کی دہلیز میں قدم رکھتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی کہرام مچ جاتا ہے۔ اس موقع پر وہ باری با ری مرنے والے کے قریبی لواحقین کو جپّھا ڈال کر رو نے جیسی آوازیں نکالتی ہیں۔ وہ اپنی خشک آنکھیں چھپا نے کے لئے لمبا گھونگھٹ نکال لیتی ہیں۔ تا ہم اگر رو نے کر لائے کے دوران ان کی خشک آنکھیں نظر آ جائیں تو بھی یہ کوئی معیوب امر نہیں گرد انا جاتا کیونکہ دو نوں پا رٹیوں کے در میان یہ چیز ’’ سٹڈ‘‘ (Understood) ہوتی ہے۔

مرحوم کس طرح فوت ہوئے تھے؟

تعزیت کے لئے وا لے لوگ مر نے والے کے کسی قریبی عزیز سے پہلے تعزیت کے کلمات کہتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر کوئی یہ سوال پو چھتا ہے کہ مرحوم کس طرح فوت ہوئے تھے ؟ در اصل یہ سوال تعزیت کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے، چنانچہ مرحوم کا وہ عزیز وفات سے تین چار روز قبل کے واقعات خصوصاً مر نے سے چند گھنٹے قبل کے واقعات پوری تفصیل سے سناتا ہے اور کسی ایک خاص مقام پر پہنچ کر دھاڑیں مار نے لگتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کوئی دوسرا شخص تعزیت کے لئے آتا ہے اور پوچھتا ہے ’’ مرحوم فوت کس طرح ہوئے تھے ؟‘‘ چنانچہ وہ یہ داستان غم ایک بار پھر پو ری تفصیل سے سناتا ہے اور مقر رہ وقت پر دھاڑیں مار نے لگتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جا ری رہتا ہے جب تک تعزیت کرنے والے آتے رہتے ہیں۔ اور پو چھتے رہتے ہیں کہ مرحوم آخر فوت کس طرح ہوئے تھے ؟ حتی کہ مرحوم کا وہ عزیز نڈھال ہو جاتا ہے اور پھر وہ ہر تعزیت کرنے والے آنکھوں ہی آنکھوں میں بتاتا ہے کہ مرحوم دراصل اس طرح فوت ہوئے تھے۔

کندھا دینا

یہاں میت کو ایمبو لینس کی بجائے چار پائی پر ڈال کر قبرستان تک لے جا یا جاتا ہے چنانچہ باری باری چار آدمی چار پائی اٹھاتے ہیں اور اسے یہاں ’’ کندھا دینا ‘‘ کہا جاتا ہے کئی دفعہ اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کندھا دینے کے لئے آگے بڑھتا ہے اور پھر کچھ دیر بعد وہ منتظر ہوتا ہے کہ کوئی دوسراشخص آگے بڑھے او اسی جگہ کندھا دے مگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو تی، چنانچہ اسے ڈگمگاتی ٹانگوں کے ساتھ اس وقت تک یہ سفر طے کرنا پڑتا ہے جب تک کوئی دوسرا شخص اس کی دستگیری کو نہیں پہنچتا۔ یہ سفر اس صورت میں زیادہ طویل محسوس ہو نے لگتا ہے جب مرحوم کی شخصیت زیادہ وزنی ہوا اور کندھا دینے والے کا قد باقی تین کندھا دینے والوں سے ہم آہنگ نہ ہو۔

مر دوں کو فرائی کر نا

کسی محفل میں میری ملاقات ایک سو گوار شخص سے ہوئی جس کے وا لد کو فوت ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا۔ وہ اپنے وا لد کی وفات سے متعلق گفتگو کر رہا تھا۔ ور کہہ رہا تھا ’’ پورے نو من گھی خر چ ہوا ہے ‘‘ اس سے میں نے اندازہ لگا یا کہ شا ید یہاں مر دوں کو تل کے دفن کیا جاتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ میرا یہ اندازہ درست نہیں تھا کیونکہ متذکرہ شخص کا نو من گھی چہلم کی رسومات کی ادائیگی کے سلسلے میں خر چ ہوا تھا۔

قل اور چہلم کی رسومات

قل اور چہلم کی رسو مات کو یہاں مذہبی اہمیت حا صل ہے۔ قل کی رسم وفات کے تیسرے روز ادا کی جاتی ہے جبکہ چہلم کی تقریب چا لیس دن پورے ہو نے کے بعد منائی جاتی ہے اس روز مرحوم کے عزیز و اقارب جمع ہوتے مرحوم کی روح کو ایصال ثواب کے لئے پلاؤ زر دہ اور قورمہ وغیرہ پکا یا جاتا ہے تا کہ غربا و مساکین میں تقسیم کیا جا سکے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ ’’ خیرات کا آغاز گھر ہی سے کیا جاتا ہے ‘‘۔ یہ محاورہ غالباً یہاں بو لی جا نے وا لی زبان میں بھی موجود ہے کیونکہ یہ پلا ؤ، قورمہ اور زردہ وغیرہ مرحوم کے عزیز و اقارب کھاتے ہیں۔ اور اس روز مرحوم کے گھر میں جشن کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس روز صرف دو تین چہرے سو گوار نظر آتے ہیں۔ جو مرحوم کے قریب ترین عزیزوں میں سے ہوتے ہیں۔

بو ٹی کی تلاش

چہلم کی ایک تقریب میں مجھے بھی جا نے کا اتفاق ہوا میں نے دیکھا کہ لوگ یہاں کھا نے پر جھپٹ رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ٹھٹھا مخول بھی جاری تھا۔ کھا نے کے اختتام پر لوگ مختلف ٹو لیوں میں بٹ گئے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ ان میں سے ایک گر وہ کے چہروں پر خاصا کھچا ؤ تھا۔ اور وہ راز دارانہ انداز میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے ہمراہی سے پو چھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا گفتگو کر رہے ہیں۔ اس نے بتا یا کہ یہ کھانے کی گھٹیا کوالٹی پر بڑ بڑا رہے ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ شوربہ پانی کی طرح پتلا تھا ور اس میں بوٹی ڈھونڈنے پہ بھی نہیں ملتی تھی۔ نیز یہ کہ برادری کے لوگ ہیں اور انہیں شریک کہا جاتا ہے۔

تعزیتی وفود

مرحوم کے لواحقین سے تعزیت کے لئے آنے والے لوگ صرف وفات سے تین چار روز تک ہی نہیں آتے بلکہ یہ سلسلہ پوراسال جا ری رہتا ہے۔ بسا اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین مرحوم کو بھول چکے ہوتے ہیں اور نئے سرے سے زند گی کی خوشیوں میں شر یک ہو گئے ہوتے ہیں۔ کہ کوئی تعزیت کنندہ اچانک کسی روز گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ معذرت کرتا ہے کہ وہ بعض  نا گزیر وجوہ کی بنا پر اتنا عرصہ تعزیت کے لئے حاضر نہ ہو سکا اور پھر اس کے بعد وہ مرحوم کے بارے میں رقت آمیز گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ اس پر ایک بار پھر کہرام مچ جاتا ہے اور جب آہ بکا کا یہ سلسلہ اپنے عروج پر پہنچنے لگتا ہے تو وہ اجازت طلب کرتا ہے کیونکہ اسے ایک جگہ شادی کی مبارک باد کے لئے بھی جانا ہوتا ہے۔

قیام و طعام کا معقول بند و بست

مرحوم کی تجہیز و تکفین کے سلسلے میں آنے وا لے عزیز و اقارب ان رسومات سے فراغت کے بعد اپنے اپنے گھروں کو نہیں لوٹتے بلکہ ان میں سے کئی ایک مرحوم کے لواحقین کو تسلی وغیرہ دینے کے لئے مہینہ در مہینہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ و ہیں قیام کرتے ہیں اس دوران ان کی پوری پو ری مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ مجھے اہل مشرق کی یہی چیز پسند ہے کہ ایک تو وہ مہمان نواز بہت ہیں اور اس کے لئے موقع محل کی کوئی قید نہیں اور دوسرے میں ان میں با ہمی محبت، غمگساری اور ایک دوسرے کا درد بٹا نے کے جذبات بہت قوی ہیں۔ ان دونوں جذبات کا بھر پور اظہار میں نے موت وغیرہ کے موقع پر بطور خاص دیکھتا ہے۔

بے اعتباری

لاہور میں قیام کے دو ران مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں لوگ بعض صورت میں مرحوم کی میت غائب کرا دیتے ہیں تاہم رفع شک سے بچنے کے لئے اگلے روز اخبار ات میں یہ خبر شائع کر دی جاتی ہے کہ مرحوم کو دفنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ بیشتر لوگ اس الزام سے بچنے کے لئے بطور خاص، خبر کے آخر میں یہ جملہ ضرور شا مل کراتے ہیں کہ ’’ مرحوم کو سینکڑوں افراد کی مو جودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا ‘‘۔ ’’ ممکن ہے خبر میں دفناتے وقت سینکڑوں میں افراد کی موجودگی ‘‘ پر زور دینے میں کوئی اور مصلحت پوشیدہ ہوتا ہم دھیان اُس خدشے کی طرف ضر ور جاتا ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔

جنا زوں کے مہمان خصوصی

موت وغیرہ کے سلسلے میں اخباری خبروں سے مجھے ایک اندازہ یہ بھی ہوا کہ یہاں عام تقریبات کے علاوہ جنا زوں میں بھی مہمان خصوصی کا معقول بندوبست کیا جاتا ہے۔ اور یہ چیف گیسٹ مرنے والے کے سٹیٹس کے مطابق ہی ہوتے ہیں چنانچہ خبر میں دیگر تفصیلات بیان کرنے کے بعد آخر میں اس مہمان خصوصی کا بطور خاص ذکر ہوتا ہے۔ کہ جنا زہ میں فلاں وزیر جج یا افسر نے بھی شرکت کی۔ مر نے والا اگر زیادہ بڑا آدمی ہو تو مہمان ایک سے زیادہ ہو جاتے ہیں چنانچہ اس صورت میں خبر میں بتا یا جاتا ہے کہ جنازے میں معز زین شہر کے علا وہ وزرا، ججوں اور افسروں نے شرکت کی۔ مجھے اس نوع کی خبروں میں صرف لفظ علاوہ کچھ عیب سا معلوم ہوا ہے۔

ایک مرحوم کی مقبولیت

یہاں مجھے ایک ایسے جنازے میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں مرحوم کے بیٹے اور دیگر ورثا دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ لوگ انہیں دلا سا دیتے تھے مگر ان کے آنسو تھے کہ تھمنے میں نہیں آتے تھے۔ میں نے زند گی میں بہت سو گوار خاندان دیکھے ہیں، لیکن اس قدر دلدوز آہیں اس سے پہلے کبھی نہیں سنیں۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ آہ و بکا کرنے وا لوں میں صرف مرحوم کے ور ثا ہی شا مل نہ تھے۔ بلکہ گرد و نواح کے دکاندار بھی اس ما تم میں برا بر کے شر یک تھے۔ اپنوں اور غیروں میں اس قدر مقبولیت بلکہ محبوبیت کا یہ مظاہرہ  یقیناً میرے لئے قا بل رشک تھا تا ہم ایک شخص نے مجھے بتایا کہ دراصل مرحوم بہت مقروض ہو کر فوت ہوئے ہیں۔

کلمہ شہادت

یہاں جنا زوں میں ایک رسم یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ کندھا دینے والا ہر شخص زور سے کلمہ شہادت کا نعرہ لگاتا ہے۔ اور ایسا کرتے وقت جواب کی کوئی توقع نہیں رکھتا۔ کندھا دینے کے بعد وہ جنازے کے پیچھے چلنے والے احباب میں دوبارہ شا مل ہو جاتا ہے جسے وہ بیچ ہی میں چھو ڑ کر چلا گیا تھا پھر ان میں سے کوئی دوسرا شخص کندھا دینے کے لئے ’’ ایکسکیو زمی ‘‘کہہ کر تھوڑی دیر کے لئے احباب سے اجازت چاہتا ہے اور کلمہ شہادت کہہ کر کندھا دینے لگتا ہے۔ ایک جنازے میں لوگ اس طرح مصروف گفتگو تھے۔ ایک پر جوش شخص یک جماعتی حکو مت کی حمایت میں بڑے شد و مد سے گفتگو کر رہا تھا دن پارٹی گورنمنٹ ہمارے تمام مسائل کا حل ہے ہم لوگ جمہوریت افورڈ نہیں کر سکتے اور تم دیکھنا یہاں یک جماعتی حکو مت قائم ہو کر رہے گی۔ اس وقت تم سب وہی کہو گے جو میں کہہ رہا ہووں۔ کلمہ شہادت۔

زندہ در گور

مجھے قبرستان جا نے کا اتفاق بھی ہوا اور ان قبرستانوں کی حا لت دیکھ کر مجھے پتہ چلا کہ یہاں لوگ موت سے اتنے خو فز دہ کیوں ہیں ؟تا ہم صاحب حیثیت لوگ یہاں بھی اپنے لیے خصوصی بند و بست کر لیتے ہیں چنانچہ میں نے یہاں ایک ایک کنال کے رقبہ میں چھ سات فٹ کی قبریں بھی دیکھی ہیں۔ بعض قبروں میں روشن دان بھی دیکھے اور ان کے ساتھ وسیع و عریض لان بھی پا یا جہاں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے تھے۔ اکثر قبروں پر میں نے مرحوم کے نام کے ساتھ ان کا عہدہ بھی درج پایا یہ سب اہتمام دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے مرحوم فوت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے کوٹھی تبدیل کر لی ہے۔

تشخیص کا کمال

لاہور میں قیام کے دوران جب ایک بار میں بیمار ہوا تو طب مشرق کی شہرت سن کر میں ایک طبیب کے پاس گیا تھا اور ما یوس ہوا تھا۔ اس کا احوال میں بیان کر چکا ہوں چنانچہ جب دوسری بار میں بیمار ہوا میں نے طبیب کی بجائے ڈاکٹر کے کلینک کا رخ کیا۔ ڈاکٹر نے زبان نکلوا کر ’’ غوں غاں ‘‘ کروانے کے بعد مجھے نسخہ لکھ دیا۔ اس نسخے میں کم از کم دس پند رہ دوائیوں کے نام درج تھے میں نے اپنے ایک شناسا میڈیکل ریپریرنٹیٹو کو یہ نسخہ دکھایا اور ایک بخار کے لئے اتنی سا ری دوائیاں تجویز کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے نسخہ تجویز کرتے ہوئے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے اور تمام ممکنہ امراض کا سدِ باب کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ اس نسخے میں ٹی بی پیچش اسہا ل، لقوہ، بو اسیر اور دیگر امراض کے لئے ایک ایک دوا تجویز کر دی تا کہ ان میں سے جس بیماری کا بھی آپ شکار ہوں وہ رفع ہو جائے۔ آخر میں احتیاطاً انہوں نے خلل دماغ کی بھی دوا لکھ دی ہے کہ جسمانی نظام بہت پیچیدہ چیز ہے ممکن ہے آپ کو بیماری ویماری کچھ نہ ہو بلکہ محض خلل دماغ کے باعث محسوس کرتے ہوں کہ بیمار ہیں۔

جنگی تربیت

میں نے محسوس کیا ہے لاہور کے عوام بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ان کی تربیت پر بہت دھیان دیتے ہیں میرے ایک دوست نے مجھے یہاں ایک بار اپنے گھر پر مدعو کیا تو مجھے اس کا بخوبی احساس ہوا۔ ڈرائنگ روم میں میز بان کا چار سالہ بچہ بھی موجود تھا بہت کیوٹ۔ میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور پیار کرنے لگا میز بان نے مجھے بتایا کہ یہ بہت شر یر ہے اور اس کا ثبوت دینے کے لئے انہوں نے بچے کو چمکا را ’’ منے!  انکل کو چپت ما رو ‘‘۔ اور پیشتر اس کے میں اس ضمن میں حفاظتی اقدامات کرتا، منے نے ہاتھ گھما دیا۔ میری عینک ٹو ٹ کر نیچے جا گری۔ اس پر میرے میزبان ہنستے ہنستے دوہرے ہو گئے اور منے کو گود میں اٹھا کر چومنے لگے یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو بہادر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے شروع سے ان کی تر بیت جنگی بنیادوں پر کرتے ہیں۔

مقفیٰ و مسجع گالیاں

ایک عرصے تک یہ خیال عام رہا تھا کہ گالی دینا ایک نا پسندیدہ حرکت ہے چنانچہ آج تک وکٹو رین عہد میں زندہ رہنے والے ثقہ لوگ اس سے بدکتے تھے حالانکہ کتھارسز کے لئے یہ ایک انتہائی ضر وری فعل ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ یورپ میں یہ ’’ ٹیبو ‘‘ (Taboo) تو ڑ دیا گیا بلکہ لاہور کے گلی کوچوں میں خواص و عام کی محفلوں میں میں نے اس رجحان کو خاصا مضبوط پایا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو زیادہ مناسب ہو گا کہ اہالیان لاہور نے اس صنف نا زک کو اپنی معراج تک پہنچا دیا ہے۔ اس محفل میں جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، میز بان نے اپنے بیٹے کی زبانی بہت پیاری پیاری گالیاں سنوائیں۔ آخر میں انہوں نے کہا : منے! ایک گالی انکل کو بھی دو، وہی والی۔ اور منے نے جو گا لی دی، میزبان سے اس کا ترجمہ سن کر میں عش عش کر اٹھا اس میں تہہ در تہہ معانی پوشیدہ تھے اور اس کی زد میں مخاطب کی سات پشتیں آتی تھی۔

سراپا محبت

جیسا کہ میں نے شروع میں بیان کیا کہ لاہور کے لوگ بچوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں ان کا ثبوت مجھے اس محفل میں بار ہا ملا۔ میں نے اپنے اس دوست کے پاس دو گھنٹے گزارے جس میں صرف دو چار منٹ ہم نے آپس میں گفتگو کی ہو گی ورنہ بقیہ وقت منے کی باتیں سننے اور اس کی سر گر میاں دیکھنے میں صرف ہوا۔ اپنے وا لد کی فرمائش پر اس نے ہمیں نظمیں سنائیں۔ قا لین پر الٹ با زی کے کرتب دکھائے۔ دو دفعہ اس نے میرے گھنٹوں پر پاؤں جما کر میرے کاندھوں پر چڑھنے کی کو شش کی۔ ایک گلدان توڑا۔ کوکاکولا کی بوتل اپنے ابو کے سر پر انڈیل دی، میرے سامنے جو بسکٹ رکھے تھے وہ سب کے سب ایک ایک کر کے اپنی جیب میں ٹھونس لئے مگر کسی بھی مرحلے پر میرے دوست کے ماتھے پر بل نہ آیا ( میرے ما تھے پر بھی نہیں آیا) واقعی لاہور کے لوگ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں ان کے ہاں آنے والے مہمان بھی انہیں بہت پیار کرتے ہیں۔

بعض نا ما نوس لفظ

لاہور میں قیام کے دور ان دو ایک لفظ میں نے ایسے بھی سنے جو میرے لئے بالکل نئے تھے۔ خود مقامی لوگوں نے جب مجھے سمجھانے کی غرض سے ان لفظوں کو انگریزی میں ادا کرنا چاہا تو وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان میں ایک لفظ ’’ غیرت ‘‘ بھی تھا۔ یہاں کے لوگ اپنی گفتگو میں یہ لفظ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس موضوع پر یہاں بے شمار فلمیں بھی بنی ہیں اور سنا ہے اس مسئلے پر آئے روز قتل بھی ہوتے رہتے ہیں۔ میں نے جب ایک دوست سے اس لفظ کا مطلب جاننے کی کو شش کی تو اس کے ذہن پر زور دے کر کہا ریسپیکٹ (Respect) مگر دوسرے ہی لمحے کہنے لگا نہیں اس کا تر جمہ ریسپیکٹ نہیں اس کا مطلب تو عزت ہوتا ہے غیرت کچھ اور چیز ہے۔ پھر اس نے غیرت کے متبادل دو اور لفظ ’’ آنر ‘‘ اور موڈ یسٹی ‘‘ وغیرہ ڈھونڈ کر نکالے مگر ہر بار خود ہی انہیں غلط قرار دے ڈالا۔ میری الجھن بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور خود وہ بھی خاصا پریشان نظر آنے لگا تھا۔ بالاخر کہنے لگا اگر تم اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ ملو ث دیکھو تو اس موقع پر تمہیں کیا آئے گا؟

میں نے جو اب دیا غصہ جز بز ہو کر بو لا ’’ غیرت نہیں آئے گی ‘‘ میں نے جھنجھلا کر کہا وہ کیا ہوتی ہے؟ یہی تو جاننا چاہتا ہوں ‘‘ اس پر اس نے فوراً ڈکشنری منگوائی اور جلد ورق الٹنے لگا آدھ گھنٹے بعد اس نے ڈکشنری بند کر کے ایک طرف رکھ دی اور کہا:۔

’’ تمہاری ڈکشنری میں غیرت کا لفظ ہی موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ چھوڑو‘‘

لگتا ہے یہ کوئی مقامی مسئلہ ہے اور ہم مغرب والے اس سے وا قف نہیں ہیں۔ یہ یقیناً کوئی دلچسپ چیز ہو گی۔

لباس

میں نے یہاں لوگوں کو ملکی اور غیر ملکی دونوں لباسوں میں ملبوس دیکھا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ غیر ملکی لباس پہنتے ہیں اور جو ان پڑ ھ ہیں وہ اپنے ملک کے لباس کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسرے طبقے کے لوگوں میں دھوتی ایک بہت مقبول لباس ہے یہ ایک ان سلے کپڑے پر مشتمل ہوتا ہے جسے لوگ اپنی کمر کے گرد باندھ لیتے ہیں۔ کئی لوگ رات کو سوتے وقت بھی دھوتی باندھ کر سوتے ہیں اور بہت ہی گہری نیند سوتے ہیں میں ایک دوست کے گھر مہمان گیا تو اس نے سوتے وقت مجھے بھی ایک دھوتی باندھنے کے لئے دی جب صبح میری آنکھ کھلی تو یہ دھوتی میں نے اوپر لی ہوئی تھی۔

آخری آدمی

میں یہاں ایک ریستوران میں بھی گیا جس کے متعلق میرے دوست نے بتا یا کہ یہاں زیادہ تر وہ ادیب شاعر اور دانشور بیٹھتے ہیں جو ادب کی جدید قدروں کے علمبردار ہیں۔ انسانوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے کے خلاف ہیں اور بین الاقو امیت کے پرچارک ہیں۔ نیز یہ کہ دنیا میں امن محبت اور روار داری کا دور دورہ چاہتے ہیں مگر میں نے دیکھا کہ وہ خود مختلف میزوں پر مختلف گروہوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک میز پر بیٹھنے والے بھی ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے سے لگتے تھے ہم یہاں کا فی دیر تک بیٹھے رہے۔ اب رات ہو چکی تھی اور لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو گئے تھے۔ ہماری میز پر صرف دو ادیب رہ گئے تھے اور میرے دوست کے ساتھ انتہائی محبت اور یگانگت کے رو یے کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھے ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے اکتا ہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی، چنانچہ میں نے اپنے دوست سے وا پس چلنے کے لئے کہا۔ یہ سن کر وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لایا اور آہستگی سے بو لا ’تم صورت حال کو نہیں سمجھتے اس میز سے جو اٹھ کر جاتا ہے باقی لوگ اس کے خلاف گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ میں نے تہیہ کیا ہے کہ میں آج سب سے آخر میں یہاں سے جاؤں گا۔

پتنگیں لوٹنے کا شوق

یہاں کے لوگوں کو پتنگیں لوٹنے کا بہت شوق ہے۔ وہ بیسیوں فٹ بلند چھو توں کی پتلی اور کمزور سی منڈیر پر ’’ ڈھانگا ‘‘ (پتنگ لوٹنے میں آسانی پیدا کرنے والا ایک آلہ ) لئے کھڑے رہتے ہیں اور پھر کٹی ہوئی پتنگ دیکھ کر وہ اس پر انتے فریفتہ ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھوں پر پٹی بند ھ جاتی ہے اور وہ اس کا پیچھا کرتے کرتے بلندی سے نیچے سڑک پر آن گرتے ہیں۔ مگر یہ پتنگیں لوٹنے کا شوق ایسا ہے کہ اگلے روز ان کے پسماندگان ایک بار پھر ہاتھ میں ’’ ڈھانگا ‘‘ لئے وہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ لوٹ مار کا یہ شوق یہاں کے سیاستدانوں میں بھی پا یا جاتا ہے، چنانچہ وہ بھی ہاتھوں میں ’’ ڈھانگا ‘‘ اٹھائے ہوئے بلند و بالا چھتوں کی منڈیروں پر کھڑے رہتے ہیں اور جب وہ اس کے نتیجے میں المناک حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں تو اگلے روز ان کی پسماندگان کئی ہوئے پتنگیں لوٹنے کے شوق میں ایک بار پھر اس منڈیر پر ہاتھ میں ’’ ڈھانگا ‘‘ لئے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

تیسری دنیا

لاہور میں قیام کے دوران میں نے سیاستدانوں اور عوام کو تیسری دنیا کے مسئلے پر بہت گر ما گرم بحثیں کرتے دیکھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انتے خشک موضوع پر بھی میں نے ان کی روایتی زندہ دلی میں کوئی کمی محسوس نہیں کی۔ ایک رہنما نے تیسری دنیا کے نظر یے کی مخالفت کرتے ہوئے جلسہ عام میں کہا۔ ایک دنیا تو یہ ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ دوسری دنیا ہے جہاں ہم نے جانا ہے۔ میں پو چھتا ہوں بیچ میں تیسری دنیا کہاں سے آ گئی ؟ اگلے روز اسی مقام پر حریف جماعت رہنما نے پورے جوش و خر وش سے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ لوگ پو چھتے ہیں تیسری دنیا کیا ہے۔ اوئے سنو میں بتاتا ہوں ایک دنیا وہ جہاں ہم رہتے ہیں۔ ، دوسری جہاں ہم نے جانا ہے اور تیسری دنیا وہ جہاں انہوں نے جانا ہے۔

پچھلا دروازہ

یہاں رمضان کے مہینے میں کھا نے پینے کی دکانیں شام تک بند رہتی ہیں روز شہر میں گھومتے پھرتے مجھے بھوک محسوس ہوئی تو میں نے اپنے ایک مقامی دوست کو جو اس وقت میرے ہمراہ تھا، اس ہنگامی صورت حال سے آگاہ کیا، چنانچہ وہ چلتے چلتے ایک جگہ رک گیا اور ایک بند دکان کے با ہر آویزاں گتے پر لکھی عبا رت پڑھنے لگا میں نے پو چھا کیا لکھا ہے؟ بو لا لکھا ہے۔ رمضان المبارک کے احترام میں ہو ٹل ہے۔۔ ہم کھانا کھا نے کے لئے پچھلے دروازے سے داخل ہوئے اور کھانا کھا کر پچھلے دروازے سے با ہر آ گئے مجھے بتا یا گیا کہ یہاں پچھلے دروازے کا استعمال بہت عام ہے۔ لوگ سیاست اور اقتدار میں بھی پچھلے دروازے سے داخل ہوتے ہیں، اور پھر ایک روز ان کی وا پسی بھی پچھلے دروازے ہی سے ہوتی ہے۔

مقبول تر ین آلہ مو سیقی

رمضان کے مہینے میں  میں نے ایک اور عجیب و غریب چیز کا مشاہدہ کیا۔ یہاں کچھ لوگ آدھی رات کو گلوں میں ڈھول لٹکائے اور ہاتھوں میں چمٹا پکڑے گھروں سے نکل کر سٹرکوں پر آ جاتے ہیں اور خوب اودھم مچاتے ہیں۔ جن کے پاس ڈھول نہیں ہوتا وہ کوئی ٹین وغیرہ کھڑ کاتے ہیں۔ میں نے ابھی (ڈرم) اور چمٹے کا ذکر کیا تھا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر یہ بتاتا چلوں یہاں کا ایک مقبول تر ین آلہ مو سیقی ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ یہ ساز پاکستان کے قریباً  ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ اور خاصا کثیر الااستعمال بھی ہے۔ کئی مائیں اس سے بچوں کو پیٹنے کا کام بھی لیتی ہیں اور کچھ لوگوں کو تو میں نے اس آلے سے دہکتے ہوئے کوئلے بھی پکڑتے دیکھا ہے۔

دیدہ دلیری

یہاں ایک دانشور نے ایک دوست کے حوالے سے اپنی ایک کتاب مجھے عنایت کی اور کہا کہ اس اردو دان دوست کی مدد سے میں انگریزی میں تر جمہ کر دوں۔ اس کھاتے پیتے دانشور نے متذکرہ کام کے لئے مجھے خاصی معقول رقم کی پیشکش کی اور ظاہر ہے میں نے یہ پیش کش قبول کر لی کیونکہ مجھے پردیس میں پیسے کی ضرورت تھی مگر چند ابواب کے مطالعے کے بعد میں نے یہ کتاب بصد معذرت واپس کر دی اور اپنے اس معاون دوست کو بتایا کہ اس کتاب کو انگریزی میں تر جمہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کتاب پہلے ہی انگریزی سے تر جمہ شدہ ہے میں متذکرہ دانشور کی اس دیدہ دلیری پر بہت پریشان تھا تاہم مجھے بتایا گیا کہ ایسی صورت حال کو یہاں ’’ تو ارد ‘‘ کہا جاتا ہے۔

جینے کا قرینہ

میرے نزدیک لاہوریوں کی شخصیت کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ان کے چہروں پر ہمیشہ مسکراہٹ کے پھول کھلے رہتے ہیں میں نے انہیں کبھی منہ بسورے نہیں دیکھا وہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں، چنانچہ وہ اپنی اس قومی خصوصیت کو بڑے سے بڑے سانحے پر بھی بر قرار رکھتے ہیں۔ میں نے یہاں کے ایک اخبار میں کسی بڑے المیے پر ایک احتجاجی جلوس کی تصویر دیکھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا کہ غیظ و غضب سے بھرے ہوئے عوام اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور تصویر میں جو لوگ نظر آرہے تھے ان میں سے پیشتر کیمرے کی طرف منہ کر کے ہنس رہے تھے جس قوم کے افراد بڑے سے بڑے صدمے کو یوں ہنسی خوشی برداشت کرنے کا قرینہ جانتے ہوں اسے کبھی زوال نہیں آسکتا۔

نظریاتی جھگڑ ا

ایلوس پر یسلے اتنا مقبول فنکار تھا کہ ایک بار وہ اپنی سفید کار با ہر کھڑی کر کے شا پنگ کے لئے ایک دکان میں گیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کی پرستار لڑ کیوں نے اس کی سفید کار چوم چوم کر لپ اسٹک سے سر خ کر دی تھی میں نے یہ واقعہ دوران گفتگو یہاں کے ایک مقبول فنکار کو سنایا تو اس نے بتایا کے یہاں بھی فنکاروں سے ان کے پرستار کی محبت کا یہی عالم ہے چنانچہ اس ضمن میں اس نے اپنا حوالہ دیا اور بتایا کہ ایک بار وہ اپنی سر خ کار باہر کھڑی کر کے شا پنگ کے لئے ایک دکان میں گیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کے پرستاروں نے اس کی سر خ کار کھر چ کر سفید کر دی تھی۔ ممکن ہے یہ واقعہ اسی طرح پیش آیا ہو مگر یہ فن کار اس واقعہ سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتا تھا میں اس سے متفق نہیں ہوں کہ میرے خیال میں یہاں بھی لوگ فنکاروں کی پوری طرح قدر کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ واقعہ کسی نظریاتی گر وہ کے غیظ و غضب کے نتیجے میں عمل میں آیا ہو کیونکہ یہاں کسی کے سر خ یا سبز ہونے کا اندازہ اس کی کار سر خ یا سبز ہو نے سے لگایا جاتا ہے۔

قائد سے والہانہ محبت

یہاں کے لوگ اپنے عظیم قائد مسٹر جناح سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ اپنی اس عقیدت کے اظہار کے طور پر انہوں نے ایک رو پے سے لے کر سو رو پے کے کرنسی نوٹ پر قائد کی تصویر چھاپ رکھی ہے اور وہ قائد کی تصویروں والے ان کرنسی نوٹوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں چنانچہ انہیں اس کے حصول کے لئے پانی کی طرح ایک دوسرے کا خون بہاتے دیکھا ہے۔

ایک روشن پہلو

لاہور والوں کی زند گی کا ایک اور پہلو مجھے بہت روشن لگا اور وہ ان کا ایک دوسرے کے لئے زبردست گرم جو شی اور محبت کا جذبہ ہے۔ اپنےاس جذبہ کو برقرار اور مستحکم رکھنے کے لئے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ میں نے متعدد بار دیکھا اس نے ہارن بجا کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر ان دونوں نے بے پناہ ٹریفک کے باوجود اپنی کاروں کو وہیں بریک لگائی اور دروازہ کھول کر سٹرک کے بیچ ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں ، میں نے بعض اوقات بہت ہولناک حاد ثے بھی ہوتے دیکھے۔ پیچھے آنے والے لوگوں کو بڑبڑاتے بھی دیکھا، مگر لاہورئیے ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ افسوس ہم لوگ ان جذبوں سے محروم ہوتے جا رہتے ہیں۔

صحافت کی آزادی

اپنے دورہ لاہور کے دوران میں نے ایک صحافی سے آزادی صحافت کے بارے میں بات کی تو اس نے کہا اللہ کا فضل ہے پاکستان میں صحافیوں کو بہت سہولتیں حا صل ہیں۔ میں نے اس کی تفصیل پو چھی تو اس نے بتا یا کہ ہمیں ریلوے ٹکٹ میں ساتھ فیصد تک رعایت دی گئی تھی پی آئی اے وا لے پچاس فی صد رعایت دیتے ہیں۔ سینما کی ٹکٹ میں بھی خاصی رعایت ہے بلکہ اس کے فری پاس بآسانی مل جاتے ہیں۔ اس کے علا وہ حکومت کا ہے گا ہے مختلف رہائشی سکیموں میں ہمیں پلا ٹ الاٹ کرتی رہتی ہے۔ نیز صحافیوں کے لئے غیر ملکی دوروں کا انتظام بھی کیا جاتا ہے غر ض یہ کہ اللہ کا فضل ہے ہمارے ہاں صحافت بہت آزاد ہے۔

تصویر کا دوسرا خ

تا ہم اس صحافی کی ان با توں سے میری تسلی نہیں ہوئی، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں صحافیوں کی معاشی حالت بھی تسلی بخش نہیں ہے ان میں سے بیشتر تو تنگی تر شی میں بھی گزا رہ کر لیتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اخبار کے علا وہ بھی کوئی نہ کوئی دھندا کرنا پڑتا ہے چنانچہ کوئی فیکٹری چلاتا ہے کسی نے پریس لگا یا ہوا ہے اور کوئی ٹھیکیداری کرتا اور کوئی اپنے پیشے کی حدود ہی میں رہنے کے خیال سے شائع ہو نے وا لی خبریں اپنے اخبار میں دے دیتا ہے اور باقی سی آئی دی وا لوں کو دیتا ہے۔

کیش کی وصولی

لاہور کے بینکوں میں کیش کی وصولی کے دو طریقے ہیں۔ ایک چیک دے کر دوسرا کیشیر کو پستول دکھا کر دوسرا عوام میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ یہاں کے بینکوں میں چیک دے کر رقم کیش کرانے میں خاصا وقت لگتا ہے۔

غر بت کی ایک مثال

پاکستان میں غر بت اور افلاس بہت زیادہ ہے۔ اتنی سا ئنسی ترقی کے باوجود ہزاروں لوگ درختوں کی چھال کھا کر گزا رہ کرتے ہیں۔ یہ میں کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہا بلکہ اس طرح کے بیسیوں مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ لاہور میں قیام کے دو ران میں روزانہ ایک قریبی پارک میں صبح کی سیر کے لئے جایا کرتا تھا۔ وہاں میں نے بے شمار لوگوں کو دیکھا کہ وہ کسی درخت کی ایک شا خ کا ٹکڑا منہ میں ڈ ال کر چبا نے کی کو شش کر رہے ہیں۔ ایک مقامی د وست سے میں نے اس کا ذکر کیا تو اس نے ملک میں پائی جا نے وا لی غر بت پر پر دہ ڈالنے کے لئے کہا کہ یہ لوگ درخت کی شا خ نہیں کھا رہے بلکہ اس سے مسواک (ٹوتھ پیسٹ ) کر رہے تھے۔ یہ سن کر میں مصلحتاً خاموش ہو گیا ورنہ مجھے اس کی بات پر یقین نہ آیا کیونکہ میں نے صبح کی سیر کے دور ان کئی لوگ ایسے بھی دیکھے تھے جو ہاتھ میں پکڑی ہوئی آدھی سے زیادہ شا خ کھا چکے تھے اور باقی بس تھوڑی سی رہ گئی تھی۔

ایک انڈ و پاک مشاعرہ

میں نے یہاں ایک انڈ و پاک مشاعرے میں بھی شرکت کی جس میں پاکستان کے علا وہ بھا رت کے بہت سے شعرا نے بھی اپنا کلام سنا یا جس سے مجھے احساس ہوا کہ دونوں ملکوں میں ثقافتی تعاون روز افزوں ہے تا ہم مشاعرے کے بعد جب میں نے اپنے اس دوست کے سا منے (جو مجھے یہاں لایا تھا) متذکرہ خیال کا اظہار کیا تو وہ بہت ہنسا اور اس نے کہا یہ جو تم مختلف شاعروں کے ناموں کے آ خر میں امر و ہوی ، مراد آبا دی، جا لندھری، لکھنوی،  دہلوی اور امرتسری وغیرہ کے الفا ظ سن رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ یہ شعراء اس مشاعرے میں شرکت کے لئے انڈیا سے آئے ہیں تو معاملہ یوں نہیں ہے در اصل ان شعرا ء نے دہلوی اور لکھنوی وغیرہ کے الفا ظ یونہی شو شا کے لیے اپنے ساتھ ٹانکے ہوئے ہیں، ورنہ یہ سب پاکستانی ہیں اور ۱۹۴۷ء میں بھا رت سے مستقلاً ہجرت کر کے یہیں آباد ہو چکے ہیں۔

ناک چھدوانا، دانت نکلوا نا

لاہور اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں لڑ کیاں اپنے کان اور ناک چھدواتی ہیں۔ لاہور کے ایک مشہور تجارتی مرکز با نو با زار میں سے گزرتے ہوئے میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک بہت خوبصورت لڑکی اپنای ناک چھدوا رہی تھی اور مارے درد کے آنسو اس کی آنکھ سے بہہ کر خاموشی سے اس کے رخساروں پر پھیلتے جا رہے تھے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر کوفت ہوئی مگر میرا گائیڈ اچا نک کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ میں نے اس بے موقع ہنسی کی وجہ پو چھی تو اس نے دکان میں آویزاں ایک تختی کی عبا رت کا تر جمہ مجھے سنا یا۔ اس تختی پر لکھا تھا یہاں ناک اور کان بغیر درد کے چھیدے جاتے ہیں اس سے مجھے یاد آیا کہ یہاں ٹرینوں اور بسوں میں کئی لوگ انگشت شہادت (دائیں ہاتھ کی انگوٹھے کے ساتھ وا لی انگلی)سے بغیر درد کے دانت بھی نکالتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ یہ منظر بھی دیکھا تھا آخر میں دانت نکلوا نے وا لے نے تنگ آ کر دانت نکالنے والے کے دانت نکال دیئے تھے۔

ایک مہم جو نو جو ان

یہ جس بانو با زار کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یہ با زار بالکل نہیں ہے۔ بلکہ ایک تنگ سی گلی ہے جس میں سے گزرنا محال ہو جاتا ہے اور اس میں عموماً خواتین ہی شا پنگ کے لئے آتی ہیں جن میں سے بیشتر نے یہاں کی روایت کے مطابق چوٹیاں (بالوں کو بل دے کر باندھنا ) کی ہوتی ہیں تا ہم میں نے چند نو جوانوں کو بھی یہاں گھومتے دیکھا لیکن میں نے اُ نہیں خریداری کرتے نہیں پا یا۔ بس وہ عور توں کے ہجوم میں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے گزرتے چلے جاتے تھے۔ یہ غالباً مہم جو نو جو ان اور یہاں چوٹیاں سر کرنے کے لئے آتے ہیں۔

اولادِ  نرینہ کے لئے منت

یہاں کے لوگ اپنی مرادیں پو ری کرنے کے لئے منت مانتے ہیں اور ان میں سے بعض منتیں بہت عجیب ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی کے ہاں اولادِ نرینہ نہ ہو تو وہ منت مانتا ہے کہ لڑ کے کی پیدائش سے لے کر اس کے سات سال کی عمر میں پہنچنے تک وہ اپنے اس لاڈلے بیٹے کو مانگے تانگے کے کپڑے پہنائے گا۔ ایک روز میرا گزر پرانے کپڑوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ لنڈا بازار سے ہوا تو میں نے یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو دیکھا۔ یقیناً ان سب نے اولادِ نرینہ کے لئے منت مانی ہو گی جو پوری ہو گئی چنانچہ اب وہ وہاں دھڑا دھڑا پنے لا ڈلے کے لئے جوٹھے کپڑے خر ید نے میں مشغول تھے۔

ہر بار خلا پیدا ہو نا

لاہور میں میری موجودگی کے دوران کئی مشہور شخصیتوں کا انتقال ہوا۔ میں نے اخباروں میں مختلف لوگوں کے بیان پڑھے جن میں ہر مرنے والے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ مرحوم کے انتقال سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ درا صل یہ مشرقی لوگ الفاظ کے معاملے میں بہت فیاض واقع ہوئے ہیں ورنہ ان میں سے ایک آدھ مرحوم ضر ور ایسا بھی ہو گا جس کی موت سے کوئی خلا پُر ہو گیا ہو گا مگر یہاں کسی مرحوم کے بارے میں ایسی بات کہنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

اسی مر گئے آن ؟

قیام لاہور کے دوران میری ملاقات عاشقوں کے ایک گروہ سے بھی ہوئی انہوں نے یہ ملاقات کسی وفد کی صورت میں نہیں کی بلکہ مجھے ان سے انفرادی ملاقاتوں کا موقع ملا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کو اپنی جگہ منفرد خصوصیات کا مالک پایا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور خاصی کسمپری کی زند گی بسر کرتے ہیں۔ ان کےرستے کی سب سے بڑی رکاوٹ محبوبہ کے اہل خاندان اور ان سے بھی زیادہ اہل محلہ ہیں۔ اہل محلہ اپنے محلے میں کسی دوسرے محلے کے عاشق کے داخلے کو پسند نہیں کر تے، اس سلسلے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’ اسی مر گئے آں ‘‘ ؟ میں نے کئی لوگوں سے اس جملے کی رمزیت در یافت کی مگر تمامتر تشریح کے با و جود میں پوری طرح اس جملے کی تہہ تک پہنچ سکا۔ یقیناً اس کا کوئی کلچرل پس منظر ہو گا۔

ڈبل ڈیوٹی

یہاں میں نے محبوبہ کے بھائیوں کو بہت شکی پایا، وہ اپنی کڑی نگرانی میں انہیں کا لج تک چھوڑنے جاتے ہیں اور پھر کالج سے وا پس لے کر آتے ہیں تا ہم وہ یہ کام جلدی سے جلد نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد انہوں نے خود کسی بس سٹاپ پر کھڑے ہو کر کسی اور کو کالج چھوڑنا اور اسے گھر تک پہنچا کر آنا ہوتا ہے۔ یہ ڈبل ڈیوٹی ان کے لئے خاصی اعصاب شکن ہوتی ہو گی۔

کزن

یہاں کزن کا رشتہ مجھے خاصا الجھا ہوا محسوس ہوا، ایک شخص نے اپنی سا تھی خاتون کا تعارف مجھ سے کر وایا اور کہا یہ میری کزن ہے اور اس وقت میرے پاس ایک اور شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے میرے کان میں کہا پچھلے سال یہ میری کزن تھی۔ رشتے کی یہ روٹیشن میں نے اسی خطے میں دیکھی ہے مشرق واقعی بہت پر اسرار ہے۔

میٹنگ پوائنٹ

اندرون شہر کے عشاق اپنی محبوبہ سے عموماً یا اس کے گھر کی سیڑھیوں میں ملاقات کرتے ہیں، یا میٹنگ پوائنٹ طے کرنے کے لئے اپنے مکان کی چھتوں پر کھڑے ہو کر کسی ڈھیلے میں رقعہ لپیٹ کر ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں جس کے نتیجے میں اکثر اوقات رقعہ گلی میں جا گرتا ہے اور ڈھیلا کسی بزرگ کو جا لگتا ہے۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ اس سے اکثر و بیشتر خاصی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

رانگ نمبر

ملاپ کی ایک صورت ٹیلیفون پر رانگ نمبر ملنے کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں بسا اوقات نوبت شادیوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ مگر مجھے بتایا گیا کہ کچھ عرصہ گزر نے کے بعد طرفین محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے را نگ نمبر ہی پر گفتگو کرتے چلے آر ہے ہیں۔

بول بچن

مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ جب یہاں کوئی کسی سے کہتا ہے کہ ’’ مجھے تم سے محبت ہے‘‘ تو اس کا مطلب ضرو ری نہیں کہ واقع یہی ہو بلکہ یہ فقرہ یہاں عموماً رومانی فضا پیدا کرنے کے لئے کہا جاتا ہے جب کہ ہم لوگوں کی ضر و رت سے زیادہ حقیقت پسندی نے ہما ری زندگیوں سے رو ما نس کی چاشنی ختم کر دی ہے۔ یہاں کے لوگ اس قسم کی رو مانی گفتگو کو ’’ بول بچن ‘‘ کہتے ہیں۔ جس کا صحیح مفہوم مجھ پر پوری طرح واضح نہیں ہو سکا۔

ایک میان میں ایک تلوار

یہاں میں نے ایک عجیب رواج دیکھا کہ لوگ جس سے محبت کرتے ہیں، اس سے عموماً شادی نہیں کرتے او جس سے شادی کرتے ہیں اس سے محبت نہیں کر تے۔ شا ید یہ لوگ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ وقت میں صرف چیز ہو سکتی ہے، چنانچہ وہ شادی اور محبت میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔

فرسٹ کم فرسٹ سرو

قیام لاہور کے دو ران میں نے یہ محسوس کیا کہ عشق کرنے کے لئے یہاں کے لوگ کسی لمبے چکر میں نہیں پڑتے بلکہ زند گی میں پہلی بار جس سے ملاقات کا موقع میسر آ جائے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ یہاں کی معاشرتی زند گی میں ایسے مواقع روز روز نہیں آتے۔ اس فرسٹ کم فرسٹ سرو کے اصول کو یہاں فرسٹ سائیٹ لو کہا جاتا ہے۔

قومی ہیرو ؟

لاہور ائیر پور ٹ اس عظیم تاریخی شہر کے شایان شان نہیں ہے۔ میں جب وہاں پہنچا چھوٹے سے لاؤ نج میں کھوے سے کھو اچھل رہا تھا۔ میں نے یہاں ایک مسا فر دیکھا کہ کہ وہ ہاروں سے لدا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ بھی پوری طرح نظر نہیں آر ہا تھا، اس کے ساتھ سو ڈیڑھ سو کے قریب عورتیں مرد اور بچے تھے کوئی خاصا امیر آدمی تھا۔ غالباً پورا جہاز چارٹر کرا کر لے جا رہا تھا مگر میرے دوست نے مجھے بتا کر جلد ہی میری غلط فہمی دور کر دی کہ مسا فر تو صرف یہ ہے، باقی لوگ تو اسے الوداع کہنے کے لئے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی قومی ہیرو ہے جسے پورے اعزاز کے ساتھ کسی بڑی مہم کے لئے رخصت کیا جا رہا ہے۔ مگر میرے دوست نے ایک بار پھر مجھے بتا یا کہ ایسی بات نہیں ہے۔ اس شخص نے ملازمت کے لئے بیر ون ملک جانا ہے۔ اور اس وقت اسلام آباد ویزہ لگوا نے جا رہا ہے۔ عجیب لوگ ہیں۔

میڈیکل چیک اَپ

یہاں جہاز میں سوار ہو نے سے پہلے ہر مسا فر کا میڈیکل چیک اپ کیا جاتا ہے کہ آیا وہ سفر کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ چنانچہ دوسرے مسافروں کی طرح مجھے بھی ایک کیبن میں لے جا کر میرے بازو، ٹانگیں اور سینہ وغیرہ ٹٹول ٹٹول کر دیکھے گئے تا ہم میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ میڈیکل چیک اپ تھا یا مسافروں کی تلا شی لی جا رہی تھی۔ غالباً یہ میڈیکل چیک اپ ہی تھا، کیونکہ تلاشی تو اس طرح نہیں لی جاتی۔

ائیر ہو سٹس

میں جب پاکستان آیا تھا اس وقت مجھے بتا یا گیا تھا کہ یہاں سوشلزم نافذ کیا جا رہا ہے۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ اب یہاں اسلام کے نفاذ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ائیر ہو سٹس کی شبا ہت دیکھ کر مجھے یقین ہوا کہ یہاں واقعی نفاذِ اسلام کی کوششیں جا رہی ہیں کیونکہ اسے دیکھ کر دل میں کسی قسم کے فا سدخیالات کا پیدا ہونا ممکن نہیں تھا البتہ سٹورٹ خاصا دلکش نو جو ان تھا۔ مجھے پالیسی کا یہ دو رخا پن سمجھ نہ آیا کیونکہ آخر خواتین بھی تو جہاز میں سفر کرتی ہیں۔

لو کل جوک

جس رو ٹ پر میں سفر کر رہا تھا۔ اس رو ٹ پر عموماً فو کر فلائٹ ہوتی ہے۔ طیارہ ساز کمپنیوں نے ایک عرصے سے یہ طیارہ تیار کرنا بند کر دیا ہے، چنانچہ ان کی حیثیت اب ’’ انٹیق ‘‘ کی سی ہے۔ فضائی میزبانوں نے جب مہمانوں کو چائے سرو کرنے کے لئے ٹرے گرانا شروع کیں تو ائیر پاکٹس شروع ہو گئیں جس کی وجہ سے جہاز ہچکو لے کھا نے لگا چنانچہ ایک اعلان کے ذریعے معذرت کی گئی کہ مو سم کی خرابی کی وجہ سے مہمانوں کو چائے ’’ سر و ‘‘ نہیں کی جا سکے گی۔ مگر میرے قنوطی ہم سفر نے ایک بار پھر زبان کھو لی اور کہا یہ ’’ یہ جہاز ہمیشہ عین اس وقت ہچکولے کھا نے لگتا ہے جب چائے پیش کرنے کا وقت ہو ‘‘ انہی ہچکولوں کے در میان میں نے اپنی اور اس کی توجہ ہٹا نے کے لئے اس سے ایسے ہی پو چھا کہ ’’ جہاز کتنے بجے اسلام آباد پہنچ جائے گا ‘‘ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی اور کہا ’’ اگر پھا ٹک کھلا ہوا تو ہم اور پندرہ منٹ تک اسلام آباد پہنچ جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی وہ ہنسنے لگا۔ مجھے اس مذاق کی سمجھ نہیں آئی۔ کوئی لو کل جوک Local Joke ہو گا۔

خوشگوار سفر

دریں اثنا ہم اسلام آباد کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے تھے، انہی ہچکو لوں کے در میان اعلان کیا گیا ’’ ہم تھوڑی دیر کے بعد اسلام آباد کے ائیر پو رٹ پر اترنے والے ہیں۔ امید ہے ہمارے ساتھ آپ کا سفرخوشگوار گزرا ہو گا۔ اس پر میرے ہم سفر نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’ یہ رو ٹین کا اعلان ہےاس  کا برا نہ ماننا ‘‘

سپورٹس میں سپرٹ

میں چند روز کے لئے جس گھر میں قیام پذیر تھا اس کے بالکل سا منے ایک مسجد تھی جس کے ایک مینار پر چار ڈلا ؤ سپیکر فٹ تھے۔ ایک روز رات کو یہاں کوئی جلسہ ہو رہا تھا، چنانچہ مقر رین کی گو نج دار آوا زوں سے سا را علاقہ لرز رہا تھا۔ میں نے سو نے کی کو شش کی اور جب نیند نہ آئی تو یہ جلسہ دیکھنے کے لئے مسجد میں داخل ہو گیا تا کہ کہ اپنے سفر نامے میں اس پہلو کا احاطہ بھی کر سکوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک مقرر نہایت پر جوش انداز میں تقریر کر رہے تھے اور ان کے ارد گرد پانچ چھ لوگ بیٹھے سر دھن رہے تھے۔ میں نے ان سا معین میں سے ایک سے پو چھا کہ یہ مقرر کون صاحب ہیں اور آپ کون لوگ ہیں۔ اس نے کہا ’’ خوش نصیب مقرر کا نام علا مہ ہے جو ایک گھنٹے سے تقریر کر رہا ہے اور ہم وہ ہیں جنہوں نے ابھی تقریر کرنی ہے۔ بس اب با ری آیا ہی چاہتی ہے آپ تشریف رکھیں ‘‘

زندہ دل لو گ

میں ایک روز با زار میں سے گزر رہا تھا میں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ لوگوں نے ایک شخص کا منہ کالا کر کے اسے گدھے پر سوار کر رکھا تھا اور شہر کے بچے اس کے پیچھے پیچھے شور مچاتے جا رہے تھے۔ گدھے پر سوار شخص خاصا پریشان نظر آر ہا تھا۔ میں نے فو را اپنا کیمرہ درست کیا اور تصویر کھینچنے کے لیے جھکا اس دوران میں نے دیکھا کہ گدھے پر سوار شخص کے چہرے پر پریشانی غائب ہو گئی ہے، چنانچہ اس  نے اپنا پوز درست کرنے کے لئے ایک دم اپنی گردن ذرا ترچھی کی اور پھر مسکرانے لگا۔ میں نے فوراً تصویر اتاری اور وہاں سے جا نے ہی کو تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا ’’ گدھے پر سوار شخص نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور فرمائش کی ہے کہ اس تصویر کی ایک کاپی اسے بھی ضر ور دیں۔ میں نے اس سے پتہ حاصل کیا اور پھر پو چھا کہ معاملہ کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ چند روز پیشتر ایک لڑکی کو اغوا کر کے لے گیا تھا۔ آج یہ محلے والوں کے قا بو آیا ہے۔ انہوں نے اسے سزا دینے کے لئے منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا دیا ہے اور اب اسے لے جا رہے ہیں۔

سرا سر نا انصافی

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اگلے ہی روز میں نے پھر یہی منظر دیکھا۔ اس بار ایک شخص گھوڑے پر سوار تھا،تا ہم اس نے اپنا منہ ریشمی تاروں سے ڈھانپا ہوا تھا اور بہت سے بچے شور مچاتے ہوئے اس کے آگے آگے چل رہے تھے۔ ان بچوں کے ساتھ مختلف عمروں کے لوگ بھی تھے۔ علا وہ ازیں گھوڑے کے آگے آگے ایک شخص ڈھول بجا رہا تھا۔ کچھ دوسرے لوگ مختلف ساز بجا رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص ڈھول بجا رہا تھا ان میں سے ایک شخص نے ایک بہت برے با جے کو بکل ما ری ہوئی تھی۔ اوراس میں سے انتہائی خوفناک آواز نکالتا تھا۔ غالباً یہ اوزار گھوڑے پر سوار شخص کو خصوصی اذیت دینے کے لیے تھا میں نے اندازہ لگا یا کہ یہ معاشرے میں قدرے بر تر مقام کا حا مل ہو گا۔ تبھی اسے گدھے کے بجائے گھوڑے پر سوار کیا گیا، نیز اسے یہ سہو لت دی گئی ہے کہ وہ اپنا منہ ریشمی تاروں سے ڈھانپ لے، مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ ایک جیسے جرم پر دو طرح کی سزائیں دینا عدل کے اصولوں کے منافی ہے اور یوں میرے نزدیک یہ فعل سرا سر نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ اہل پاکستان کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

معذور افراد

لاہور میں مجھے ایک خاصی تعداد معذور لوگوں کی نظر آئی جس پر مجھے بہت دکھ ہوا۔ لگتا ہے حفظان صحت کا محکمہ اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہیں دے رہا۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ اس کا اثر پھلوں پر بھی ہو نے لگا ہے۔ چنانچہ میں نے یہاں ایک آم دیکھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ یہ لنگڑا آم ہے۔ میں نے تجربے کے طور پر اسے کھا کر دیکھا تو بے حد لذیذ پایا۔ میں نے سو چا ابھی یہ آم لنگڑا ہے اور یہ عالم ہے اگر یہ لنگڑا نہ ہوتا تو خدا جا نے کس قدر لذیذ ہوتا ؟

اہل فن کی بے قدری

لاہور کی سڑکوں پر قسمت کا حال بتا نے والے، بندر نچا نے والے اور جا دو کے کمالات دکھا نے والے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ میں یہاں کے ایک مشہور بازار بیڈن روڈ سے گزر رہا تھا کہ میں نے ایک ریڑھی کے گرد چند لوگ کھڑے دیکھے، وہاں ایک جادوگر کھلی فضا میں اپنے کمالات دکھا رہا تھا اور اس نے لمبے بازوؤں والا چوغا بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔ میں نے گزرتے گزرتے دیکھا کہ اس جادوگر نے مٹی کے ایک بر تن کو تین چار مرتبہ ہلا یا اور پھر اس پر سے ہاتھ اٹھایا تو ایک موسمی پھل جو غالباً جامن تھا، کثیر مقدار میں اس مٹی کے برتن میں سے بر آمد ہوا جو اس نے وہاں کھڑے لوگوں میں با نٹ دیا۔ یہ جادوگر بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھا میں نے سوچا اگر یہ با کمال شخص یورپ میں ہوتا تو یقیناً لاکھوں میں کھیلتا۔

٭٭٭

ماخذ: فیس بک، طنز و مزاح گروپ فائلس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید