FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

خوابوں کے پھول

 

 

               شاہد جمیل

 

 

تمام شہر کی نظریں جھُکا کے چلتا تھا

میں اپنے آپ سے ملتا تو آنکھیں مَلتا تھا

مری ہتھیلی کو پڑھتا بھی کیسے دست شناس

خطوں کا رنگ شکن در شکن بدلتا تھا

حصارِ رشک سے باہر کبھی نہیں آیا

مِرے خلوص کا قائل تھا، کم ہی جلتا تھا

اب اُس کے حق میں کوئی شام کا سماں بھی نہیں

جو اُگتی دھوپ کے شانہ بشانہ چلتا تھا

اِسے عجب نہ کہو، یہ مِری حقیقت ہے

تباہ میں ہوا اور وقت ہاتھ ملتا تھا

٭٭٭

 

میری آنکھوں میں سدا بن کے دھواں رہتا ہے

وہ یہیں رہتا ہے پر جانے کہاں رہتا ہے

کوئی خوشبو ہے جو اُس گل کا پتہ دیتی ہے

 یہ یقیں کیسا ہے جو بن کے گماں رہتا ہے

چل ذرا ہم بھی کسی خواب سے رشتہ جوڑیں

سنتے آئے ہیں کہ یہ درد نہاں رہتا ہے

رنگ بھرتی ہے اُفق تا بہ اُفق یاد اُس کی

شام ہوتی ہے تو کچھ ایسا سماں رہتا ہے

٭٭٭

 

حسرت کی اوس تک نہیں اے آرزو کی آگ

جلتی ہے اور کس لئے میرے لہو کی آگ

بحرِ جنوں ! ترا پسِ منظر بھی خوب ہے

ہر برف زارِ شوق میں اک جستجو کی آگ

ہاں مجھ میں کوئی سرد ہوا چلنی چاہئے

آوارہ پھر رہی ہے ترے رنگ و بو کی آگ

شاہد چراغ ساتھ نہ دیں گے تو کیا ہوا

روشن رکھے گی دل کو غمِ سرخ رو کی آگ

٭٭٭

 

چمن کے پھول تھے ، خوشبو سے کب پریشاں تھے

ہم اپنے آپ سے اُلجھے تو کتنے حیراں تھے

خزاں کا نام ہری پتیوں پہ لکھا تھا

بہار لوٹ کے آئی تو ہم بیاباں تھے

ہمارے دستِ جنوں کا سراغ کیا پاتے

وہ مطمئن تھے کہ نوحہ گرِ گریباں تھے

گِلے بھی کتنے تکلف پسند ہوتے ہیں

ہم اپنے شہر کو لوٹے تو جیسے مہماں تھے

تمام عمر جنہیں شاعری نے کچھ نہ دیا

غزل غزل میں وہی سانحے غزل خواں تھے

٭٭٭

پچھلی رُت تبسم سے بے خبر رہے چہرے

کونپلوں میں اُگتے ہیں اب مرے چہرے

میں بھی اپنے ماضی کے شہر سے پریشاں ہوں

درد میں چبھی آنکھیں ، کرب سے اَٹے چہرے

زندگی کے موسم کو ڈھونڈتے ہیں سڑکوں پر

خود سے بے خبر سے ہیں کچھ نئے نئے چہرے

لب سرابِ بے زاری، چشم خواب سے عاری

کس قدر ادھورے ہیں یہ سجے سجے چہرے

مجھ سے منسلک شاہد، کون سی تھی انگڑائی

میرا نام لے لے کر ٹوٹتے رہے چہرے

٭٭٭

 

کبھی ہنسی، کبھی آنسو کبھی غُبار ہوں میں

مجھے کھنگالو کہ جذبوں کا ریگ زار ہوں میں

بدن ہے کانچ کا لیکن محققو ٹھہرو

سنبھل کے ہاتھ لگانا کہ سنگسار ہوں میں

ہر التجا مجھے ٹھکرا کے لوٹ جاتی ہے

خلا میں کوئی معلق سا کوہسار ہوں میں

میں سب کے پاس ہوں پر کوئی میرے  پاس نہیں

کسی تماشے یا سرکس کا اشتہار ہوں میں

سمٹ گیا ہوں تو اچھا ہے ٹھوس کی صورت

مجھے نہ چھیڑو کہ تخریب کا غبار ہوں میں

٭٭٭

کہانی یوں ہی سی ہے پھر بھی شاندار کہوں

میں سوچتا ہوں کسی دن اسے بہار کہوں

وہ اپنا نام ہتھیلی پہ میری لکھ دے گا

یہ رشتہ جوڑ نہ پاؤں تو انتظار کہوں

اس ایک نام کے آگے بھی کوئی رشتہ ہے؟

جب آگے سوچ نہ پاؤں تو یاد گار کہوں

کسی کی آنکھ سے ٹپکا، بہا گیا مجھ کو

میں اُس کو قطرہ ہی سمجھوں کہ آبشار کہوں

کبھی نہ دیں گے یہ چوراہے مجھ کو نام کوئی

تِرے قریب سے گذروں تو سنگسار کہوں

اک اُس کے آنے سے شاہد کھلے کھلے سے ہیں پھول

اس ایک وہم کو شاید کبھی میں پیار کہوں

٭٭٭

زہر کا جسم قبائے لب تشنہ مانگے

زندگی مجھ سے مرے حصے کا صدمہ مانگے

غم سے بے لاگ جو مسرور رہا برسوں تلک

زندگی آج وہی پھول سا چہرہ مانگے

دھوپ اُکتائی ہوئی پھرتی ہے سڑکوں سڑکوں

میرا کمرہ ہے کہ برسوں سے سویرا مانگے

چشم در چشم سسکتے ہوئیں جذبوں کا جُمود

یخ زدہ جسم بھڑکتا ہوا شعلہ مانگے

اے شبِ دشت غم یار کہیں سے تو جھلک

درد کا آسماں صرف ایک ستارہ مانگے

٭٭٭

پتھر کے دریچے سے وہ چہرہ نہیں اُبھرا

پتھرا گئی جب آنکھ تو پھر کیا نہیں اُبھرا

شبنم نہیں جاگی ہے کہ شعلہ نہیں اُبھرا

اِک تیرے سوا درد میں کیا کیا نہیں اُبھرا

اِک تیرے تعلق میں اُترنے کا صِلہ تھا

چہرے پہ مرے کون سا چہرہ نہیں اُبھرا

پہلے تو نگاہوں کو مِلی دعوتِ دیدار

پھر قصرِ تمناسے دریچہ نہیں اُبھرا

سنتے ہیں کہ ہر ڈوبتی کشتی وہ بچائے

کہتے ہیں کہ موجوں سے کنارہ نہیں اُبھرا

آنکھوں کے دئیے کب سے جلا رکھیں ہیں شاہدؔ

کھڑکی میں ابھی تک کوئی سایہ نہیں اُبھرا

٭٭٭

 

لہو لہو سا، یہ چہرہ! گلاب دیکھوں گا

ترا وجود ہے ریشم تو خواب دیکھوں گا

تمہاری آنکھ سے تنہائی میں ٹپک لیٹتا

خبر جو ہوتی، کبھی یہ عذاب دیکھوں گا

سنا ہے، لوگ کہیں خود کو بھول آتے ہیں

مجھے بھی دیکھنے دو، میں بھی خواب دیکھوں گا

مجھے بھی خود کو بدلنا ہے اے مرے موسم!

کبھی قریب سے تیرا شباب دیکھوں گا

تمام عمر گذاری ہے کونپلوں کی طرح

میں زرد پتوں پہ اپنا حساب دیکھوں گا

٭٭٭

تو لفظ ہے تو صدا بھی ہولے

مجھ سا ہے تو کچھ مرا بھی ہولے

یوں بھی حقِ دوستی ہے واجب

کیا خوب، جو کچھ وفا بھی ہولے

ناکردہ سہی، مگر خطا تھی

اچھا ہے ،کوئی سزا بھی ہولے

پھول سے یہ چہرے کل نہ ہوں گے

رنگوں کا یہ تجربہ بھی ہولے

کھڑکی کو نہ زنگ لگتے دیکھوں

اُبھرا ہوں تو کچھ خطا بھی ہولے

٭٭٭

ہر چہرہ سلگتے ہوئے قطروں میں بٹا ہے

ہم سب کو سمندر سا کوئی ٹوٹ رہا ہے

وہ بجھتے چراغوں کا عَلَم لے کے چلا تھا

سنتے ہیں اُجالوں نے اُسے لوٹ لیا ہے

ناحق اُسے بے جان دعاؤں میں ٹٹولا

کیا مجھ کو خبر میری ہتھیلی میں چھپا ہے

اب تم کو یہاں کوئی بھی آواز نہ دے گا

ہر شخص تمہاری ہی طرح ٹوٹ چکا ہے

تم ویسے بھی ٹوٹے سے رہا کرتے ہو شاید

باہر نہ ابھی نکلو، بہت تیز ہوا ہے

٭٭٭

مجھ میں جو عظیم تر نشہ تھا

میرے ہی لہو کا ذائقہ تھا

پڑھ ڈالے تھے کچھ وفا کے قصے

صحرا میں سحاب ڈھونڈتا تھا

منزل پسِ نقش پا تھی کوئی

پیغام غبار پہ لکھا تھا

اب تک وہ حروف جل رہے ہیں

آنکھوں کو چراغ لکھ دیا تھا

آنکھوں کے چراغ گل نہ ہوتے

گل لب پہ مگر جو کھل گیا تھا

٭٭٭

یہ کس مقام پر لا کر دشائیں روتی ہیں

کہ ہم ہنسے تو ہماری ادائیں روتی ہیں

بکھرتے برگ پہ یہ کس کا نام لکھا ہے

لپٹ لپٹ کے شجر سے ہوائیں روتی ہیں

بُرا ہوا جو چلی آئی رُت معافی کی

کسی کی آنکھ میں میری سزائیں روتی ہیں

چلو اک آدھ غبار ہ اڑا دیا جائے

سنا ہے آج کل اس کی فضائیں روتی ہیں

خلا کے دور میں اب بازگشت کچھ بھی نہیں

جہاں رُکی ہیں وہیں پر صدائیں روتی ہیں

٭٭٭

شہر ہمارا شہر تمہارا لگتا ہے

دونوں کو ایک چہرہ پیارا لگتا ہے

کہتا ہے بے عکسی اچھی لگتی ہے

آئینے کے پیار کا مارا لگتا ہے

ابھی نہیں ،ممکن ہے بعد میں یاد آؤ

صبح کا منظر شام کو پیارا لگتا ہے

مشکل ہے ہر بھیڑ میں شامل ہو جانا

اپنا جو بھی نام ہو پیارا لگتا ہے

یہ تو شاہدؔ اک مجبوری ہے ورنہ

کون کسی کو آنکھ کا تارا لگتا ہے

٭٭٭

سفر تمام ہو چکا ہے، اب اُسے نہ ڈھونڈئیے

غبارِ راہ بن کے بے سبب اُسے نہ ڈھونڈئیے

جنون شوق میں کسی سوال کا گزر کہاں

نوازشوں میں کیا ہوا غضب اُسے نہ ڈھونڈئیے

وہ سارے مسئلوں کا حل کسی گلی میں قید ہے

تمام شہر مسئلہ طلب ،اُسے نہ ڈھونڈئیے

تبسم اس حجاب کا ہے برق ریگ زار کی

سراب ہے، یہ رسمِ زیر لب ،اُسے نہ ڈھونڈئیے

جمیل ہر نئی سحر بذات خود اک آس ہے

کہیں بھی انتہا نہیں ہے، کب اُسے نہ ڈھونڈئیے

٭٭٭

پھولوں کے رنگ و بو میں کمی پائی جاتی ہے

 اُس کی روایت اب نہیں دہرائی جاتی ہے

 کھوئے تو کوئی رنگ نہیں رنگِ یارسا

 سمجھے تو رائیگاں چمن آرائی جاتی ہے

 ترکِ تعلقات بھی کچھ ہونا چاہئے

 یکسانیت سے زندگی اکتائی جاتی ہے

 آنکھوں میں شام، ہونٹوں پہ بے جان دوپہر

 اب تو طبیعت ایسے بھی  بہلائی جاتی ہے

 بُجھتے دئیے، سسکتے دئیے، چیختے دئے

 شاہد جمیل! صبح ابھی آئی جاتی ہے!

٭٭٭

اُس سے چھوٹا تو اُسے پانے کا عرفان ہوا

میں سمجھتا تھا بچھڑ کے مجھے نقصان ہوا

وہ تو خیر اپنے پہ مرکوز تھا مرکوز رہا

فصلِ گل بھی نہیں آئی تو میں حیران ہوا

شاخِ دل توڑ دی اور پھول وہیں رہنے دیا

بے وفائی میں سلیقے سے یہ احسان ہوا

غم اُسے ڈھونڈتے رہنے کا مسلسل تھا الگ

جی دعا مانگے رہنے سے بھی ہلکان ہوا

ایک ہی شاخ تھی خوابوں کی جو سرسبز رہی

ایک ہی دل تھا جو آنسو کبھی مسکان ہوا

٭٭٭

اُفق پر نئے رنگ ڈالے گئے

لو، ہم ڈھونڈ کر پھر نکالے گئے

ترا پھول کوئی نہ آیا مگر

بہت ہم پہ پتھر اچھالے گئے

وہ طوفان میں تیری ننھی سی یاد

خدا کی قسم ہم بچا لے گئے

بڑے شوق سے تیرے خواب آئے تھے

مرے دور کا سلسلے گئے

گھٹا دھوپ، موسم، ہوا چاندنی

کھلونوں پہ ٹالے گئے

جہاں اپنی تھوڑی سی پہچان تھی

اسی شہر سے ہم نکالے گئے

سزا دینے آئے تھے شاہد مگر

عجیب آدمی تھے ،دعاء لے گئے

٭٭٭

 

لاکھ خالی رہے منظر کوئی

مجھ میں بس جاتا ہے آ کر کوئی

نیند کے طاق سے خوابوں کے چراغ

لئے جاتا ہے اٹھا کر کوئی

ایک پہچان تھی خود سے اپنی

لے گیا وہ بھی بہار کر کوئی

بھولتے رہئے کسی پَل کچھ بھی

یاد آ جاتا ہے اکثر کوئی

ہر کے قصے میں دکھوں کی کشتی

ہر ہتھیلی میں سمندر کوئی

ایک منزل ہے رکاوٹ جیسی

راستے میں نہیں پتھر کوئی

ہاتھ بھی سرد ہوئے دل کی طرح

کیا کرے ہاتھ ملا کر کوئی

٭٭٭

دل کو اس جذبے سے آرام سہی، یاد نہ آ

تو مری یادوں کی اک شام سہی، یاد نہ آ

اب ترے عکس میں شامل ہے کہیں روئے رقیب

غم ِ تنہائی ہے دشنام سہی، یاد نہ آ

اس ذہانت کا جنوں خیزی سے رشتہ مت توڑ

بھولنے والوں میں کہرام سہی، یاد نہ آ

بھولنا تیرا کسی بھیڑ کا حاصل ہے تو پھر

لاکھ خالی دلِ ناکام سہی، یاد نہ آ

میں تو شاعر ہوں  ،مرا کام جھُلستے رہنا

اوس کی بوند ترا نام سہی، یاد نہ آ

٭٭٭

کوئی منظر نہ موسم سامنے ہے

مگر وہ ہے کہ ہر دم سامنے ہے

محبت سر بلندی چاہتی ہے

پھر اک آنچل کا پرچم سامنے ہے

کہیں خوشبو، کہیں جھنکار سی ہے

وہی تو ہے جو پیہم سامنے ہے

مری آنکھوں سے کب اوجھل نہیں ہے

وہ اک لمحہ جو ہر دم سامنے ہے

وہ کیا شئے تھی ،خطوں میں بولتی تھی

یہ کیا شئے ہے ،مجسم سامنے ہے

٭٭٭

روز و شب اس کا نشہ ہوں اب میں

کس قدر خود سے جُدا ہوں اب میں

تم کہاں ڈھونڈ رہے ہو مجھ کو

لفظ تھا پہلے، صدا ہوں اب میں

اس قدر دور گیا اس کے لئے

آپ اپنے سے گھراہوں اب میں

ڈھونڈلے کوئی تو پورا کردے

کہیں تھوڑا سا بچا ہوں ہوں اب میں

خواب کے ہونٹوں پہ سچ لوٹ آیا

ایک آوارہ دعاء ہوں اب میں

٭٭٭

ہونے کو تو سب ہوتا ہے

ہم جو چاہیں کب ہوتا ہے

اس کو کھو بیٹھے تو جانا

چاہت کا مذہب ہوتا ہے

پہلے لفظوں میں معنی تھے

اب اُن میں مطلب ہوتا ہے

یا تو برسوں کچھ نہیں ہوتا

یا پھر روز و شب ہوتا ہے

خط لکھ کر جو دُکھ پہنچائے

کوئی خیر طلب ہوتا ہے

٭٭٭

غلط ہے سوچنا، ایسا بھی ہو گا

کوئی دل ہے تو وہ دریا بھی ہو گا

اُسے پانے سے پہلے کھو دیا ہے

اُسے کیا اس کا اندازہ بھی ہو گا

زمانے کا بہانہ سچ نہیں ہے

کہیں کچھ فیصلہ اس کا بھی ہو گا

مجھے اتنے خطوط اس نے لکھے تھے

مجھے لگتا تھا ،وہ مجھ سا بھی ہو گا

وہ توڑا ہے جو اُس نے شیشہ دل

اُسی میں عکس اک اس کا بھی ہو گا

٭٭٭

مرے رتجگوں کو ظفر یاب کر دے

خدایا اُسے اتنا بے خواب کر دے

وہ غنچہ بدن اب کے پتھرا گیا ہے

مرے آنسوؤں کو بھی تیزاب کر دے

اُسے اتنا خوش کر کہ لب سوکھ جائیں

اُسے اتنا غم دے کہ سیراب کر دے

اگر مُضطرب ہے تو اس کو سکوں دے

اگر پُر سکوں ہے تو بے تاب کر دے

یہ مخلوق  اپنے لئے مسئلہ ہے

وفا کرنے والوں کو نایاب کر دے

٭٭٭

اب قہقہوں میں اور ہی جلوے سمائے ہیں

اشکوں کی شب گزار کے ہم مسکرائے ہیں

غم اس کو کوئی اور، مرا حادثہ کچھ اور

شبنم نے میرے ساتھ ہی آنسو بہائے ہیں

جب آنسوؤں میں پھول کھلے تب پتہ چلا

ہم نے خوشی کے نام پہ کانٹے اُگائے ہیں

وہ ایک شہر چھوڑ کے اوجھل ہوا تو کیا؟

سو شہر اپنی ذات میں ہم نے بسائے ہیں

یوں تیری رہ گزر ہمیں آسان کب نہ تھی

ہم نے ہی کچھ، اصول کے، پتھر لگائے ہیں

٭٭٭

غبار آنکھوں پہ یوں ہی چھا گیا ہے

کہ تیری دید کا پَل آگیا ہے

چراغوں نے کچھ اتنی روشنی دی

سحر آئی تو دل گھبرا گیا ہے

ترے جلوؤں نے اتنی دیر کردی

نظر کا آئینہ پتھرا گیا ہے

تِرا قہ تو اب مشہور ہو گا

مری رسوائی سے ٹکرا گیا ہے

مری تنہائی میں اب کیا نہیں ہے

تیری یادوں کا موسم آگیا ہے

٭٭٭

تمام شہر کی نظروں میں چاند ی سونا تھا

مرا وجود مرے واسطے کھلونا تھا

کسی بہانے سے ، یہ سانحہ تو ہونا تھا

مزاج اپنا ملا تھا تو زخم ڈھونا تھا

وفا کے نام  پہ وعدہ تھا، سر پھرا ہی سہی

یہ انتظار تو ہر ہر قدم پہ ہونا تھا

میں آنے والی بہاروں میں کتنا شامل تھا!

گلِ سرشدت بدست جنوں خشت انداز

غُبار ِ جسم کو کن راستوں میں کھونا تھا

اُداس رہ کے بھی شاہد غم آشنا نہ ہوئے

تمام عمر اِسی بات کا تو رونا تھا

٭٭٭

میرے سرسے جو بھی گزراسانحہ کچھ بھی نہ تھا

یا زمانے سے ابھی میں آشنا کچھ بھی نہ تھا

عشق، آدم، حُسن، حوا، سانپ، جنتا اور گناہ

جاننا ہر شئے کو تھا، پہچاننا کچھ بھی نہ تھا

اُن دنوں کا ذکر کیا جب بے تکلف خوب تھے

دوستوں کے درمیان یہ فاصلہ کچھ بھی نہ تھا

غوطہ زن ہونے کے پہلے متفق تھے سب کے سب

جھیل کے اُس پار کوئی فیصلہ کچھ بھی نہ تھا

گرتی دیواروں میں جلاتی رہی رشتوں کی دھوپ

اُس اندھیرے میں کسی کو سوجھتا کچھ بھی نہ تھا

لوگوں نے ہی بخش دی تھیں چار چھ رُسوائیاں

ورنہ شاہد عشق میں اپنے دھرا کچھ بھی نہ تھا

٭٭٭

تمام شہر کی نظروں میں چاندی سوناتھا

مرا وجود مرے واسطے کھلونا تھا

کسی بہانے سے،یہ سانحہ تو ہونا تھا

مزاج اپنا ملا تھا تو زخم ڈھونا تھا

وفا کے نام پہ وعدہ تھا،سرپھراہی سہی

یہ انتظار تو ہر ہر قدم پہ ہونا تھا

میں آنے والی بہاروں میں کتنا شامل تھا!

جو زرد پتے تھے،ان پر مرا بچھونا تھا

گل سرشت بدستِ جنون خشت  انداز

غبارِجسم کوکن راستوں میں کھونا تھا

اداس رہ کے بھی شاہد غم آشنا نہ ہوئے

تمام عمراسی بات کا تو رونا تھا

٭٭٭

قصور یہ ہے کہ لکھتا ہوں بار بار وہی

وہ حالِ دل ہے مرا تو ہزار بار وہی!

وہ زرد خوشبو یہیں پر کہیں کھڑی ہو گی!

یہ کس نے چھیڑ دیا قصۂ بہار وہی؟

نے چھیڑ دیا قصۂ بہار وہی؟

یہاں کی مٹی مرے پاؤں کیوں نہیں کستی؟

وہی دریچۂ جاناں ،دیارِ یار وہی

اسے کہ شہر صدا میں بھی ہے سکوں کتنا!

یہاں تو غنچہ بھی چٹکے تو انتشار وہی

٭٭٭

آنکھوں میں آپ،آپ میں ہم ،ہم میں زہر ہے

ہم جس کے معتکف ہیں ، ہمارا ہی قہر ہے

چہرہ تو صرف چاند کا میلا ہوا مگر

بے نوریاں سنبھالے ہوئے شہر شہر ہے

کل میرے سارے خواب لہو روئے تھے جہاں

اب اس جگہ پہ سرخ گلابوں کا شہر ہے

اس وقت کچھ ہے ،شام کو کچھ،رات کو کچھ اور

شاہدؔ یہ کوئی دھوپ نہیں ،رنگ دہر ہے

٭٭٭

وہ دن ہے کہ رات لکھ رہا ہوں

سورج کی بساط لکھ رہا ہوں

ہاں اس سے بچھڑ کے خودسے ملنا

اس پل کو صراط لکھ رہا ہوں

جو چال سمجھ میں آئے چلنا

میں شاہ کو مات لکھ رہا ہوں

دراصل وہ مجھ سے مختلف ہے

شعروں میں جو بات لکھ رہا ہوں

اب ہاتھ قلم جو آ گیا ہے

دجلہ کو فرات لکھ رہا ہوں

٭٭٭

چہرے کو نقاب لکھ رہا ہوں

موسم پہ کتاب لکھ رہا ہوں

اس بار وہ آب ہے چمن پر

ہر گل کو گلاب لکھ رہا ہوں

اب خودسے ہوا ہوں بے تکلف

یاروں کو ’جناب‘ لکھ رہا ہوں

چہرہ ہے اور آپ عکس بھی ہے

پانی پہ سراب لکھ رہا ہوں

یہ عجز نہیں ہے،مصلحت ہے

دریا ہوں ،سحاب لکھ رہا ہوں

٭٭٭

میں جن کو ڈھونڈ رہا تھا شبِ عتاب کے پاس

کھڑے ہوئے تھے وہ آنکھوں میں میری، خواب کے پاس

پتہ بتا کے تمہیں کہہ گیا ہے آنے کو

وہ منتظر ہے بہت دیرسے شباب کے پاس

نگاہِ شوق کووسعت شناس ہونے دو

تمہیں ببول بھی مل جائیں گے گُلاب کے پاس

مری شبوں میں اترنے سے کچھ گھڑی پہلے

تمہاری یاد ٹھہرتی ہے اضطراب کے پاس

امید افزا دھماکہ قریب ہے شاہدؔ

ٹہل رہا ہے کوئی درد ِبے حساب کے پاس

٭٭٭

وہ نہ چاہے تو بھی اس کا شیدا ہونا چاہئے

چاند کے چاروں طرف اک ہالہ ہونا چاہئے

اس قدر فرحت نہیں دیتا ہے اب اُس کاسلوک

اس مرض کوازسرِ نو پیدا ہونا چاہئے

وہ سدابھرتارہا ہے کان میرے، آپ کے

اُس کے چلتے گھر میں کچھ بٹوارہ ہونا چاہئے

اِس جگہ پر چیختی رہتی ہیں اس کی چاہتیں

اس جگہ آہستگی سے سجدہ ہونا چاہئے

عکس لے جانے کاموسم پھر یونہی ڈھل جائے گا

اب کے ان ہاتھوں میں شاہدؔ شیشہ ہونا چاہئے

٭٭٭

گلشن میں غبار کھل رہے تھے

تم بھیڑ میں ہم سے مل رہے تھے

پانی میں وہاں نشہ ساکچھ تھا

دو دھارے جہاں پہ مل رہے تھے

شفاف گہر کے جو صدف تھے

ملبوس ِغبار و گِل رہے تھے

گویائی تھی،آئی تھی،گئی تھی

ہم گونگے تھے، مستقل رہے تھے

تنہائی سے عشق ہو گیا تھا

ہر بھیڑ میں مشتعل رہے تھے

٭٭٭

بھنوربھنوربس ایک اشتعال ہے

حباب کے وقارکاسوال ہے

خلوص کا حوالہ دے گیا ہے وہ

میں سوچ لوں کہ اس میں کوئی چال ہے

یہاں کوئی بھی میرا ہم زباں نہیں

مگر ہر ایک شخص ہم خیال ہے

کھنڈر بنی ہوئی ہے میری زندگی

تمہارا پیار مکڑیوں کا جال ہے

کہیں بھی کوئی شیشہ آشنا نہیں

یہ پتھروں کا شہر ہے !کمال ہے!

٭٭٭

دو چار خوابوں کے پھول اور کچھ خیالی ہاتھ

وفا کا ایک ہی مطلب ہے، دوسوالی ہاتھ

نظر کا شیشہ ہواسنگ اسی تمنا میں

اِدھر بھی سنگ اُچھالے وہ لا اُبالی ہاتھ

نظر کے سامنے منزل، قدم تلے دلدل

ہر اک یقین کے شانے پہ احتمالی ہاتھ

دھواں ،غبار،لہو،پیاس کچھ تو لیتے جاؤ

ہمارے شہرسے لوٹو گے اور خالی ہاتھ؟

٭٭٭

کسی میں کیا بھید ہے،یہ کون بتاسکتا ہے

ایک ذرہ بھی تو طوفان اٹھاسکتا ہے

قہقہہ ہی ہو تو کیا،وہ بھی رلاسکتا ہے

کوئی بھی حادثہ دیوانہ بناسکتا ہے

اب کے اگ آئے ہیں کچھ غیر ضروری سے گلاب

وہ اگر چاہے تو گلدان سجاسکتا ہے

ملنے والے کو جھٹک دینا تو ممکن ہے جمیلؔ

جو نہ ہاتھ آئے اسے کون بھلاسکتا ہے

٭٭٭

وہ دن کو عیاں ہو گا مگر رات رہے گی

اُس شخص سے پھر کُھل کے ملاقات رہے گی

اِس بار کوئی شہر میں چھپر نہیں اپنا

اس بار بڑی زور کی برسات رہے گی

گزرا ہوں گھنی شاخوں سے اس سارے سفرمیں

بے برگ درختوں میں مری بات رہے گی

یخ بستہ نظر آئے گا وہ لوٹنے والا

سینے میں مگر گرمیِ جذبات رہے گی

بھٹکا ہوں بہت پیاس کے صحراؤں میں شاہدؔ

اب بارشوں کی زد پہ مری ذات رہے گی

٭٭٭

 

تری وفا کے سہارے جو لوٹتا ہو گا

اُس ایک شخص کا انداز کچھ جُدا ہو گا

تمہارے کمرے میں بھولے سے بھی نہیں آتا

خبر جو ہوتی کہ اپنا ہی سامناہو گا

مرے قدم سے جسے روندتے ہو اندھیارو

مری بغل میں وہی آدمی کھڑا ہو گا

گھٹن کے نام پہ کچھ قربتیں بچائے رکھو

جو آنے والا ہے موسم،بہت کھُلا ہو گا

سُنی سُنائی کسی بات پربھی دھیان نہ دو

کبھی تمہارا بھی شاہدؔ یہ فیصلہ ہو گا

٭٭٭

مراوجودسمندر!،چلو یہی،کچھ تو

لبوں پہ پہلے سجائے وہ تشنگی کچھ تو

بہر لحاظ ضروری ہے آئینہ لیکن

اغل بغل سے گزرتے ہیں لوگ بھی کچھ تو

یہ اعتبار کہ ہم چہرے ہی کو کھو آئے

یہ انتظار کہ پہچانتا کوئی کچھ تو

بہت ہے قیمتی اکتاہٹوں کاسرمایہ

بلاسبب نہیں کچھ توہے زندگی کچھ تو

بلاسے کھو گئی منزل شکستہ خوابوں کی

نئے نشان بنائے گی گمرہی کچھ تو

یہ مانتا ہوں بُرا مانتا نہیں لیکن

وقار رکھتا ہے شاہدؔ وہ آدمی کچھ تو

٭٭٭

 

تمام عمریوں کیا کہ خواب میں مگن رہے

سمندروں کا عزم تھا، سراب میں مگن رہے

حقیقتوں کے شہر کی حکایتیں کچھ اور تھیں

کمال تھا کہ ہم فقط کتاب میں مگن رہے

دھواں اٹھا کیا مچل مچل کے صحن و بام سے

چراغ تھے کہ شام کے شباب میں مگن رہے

خوشی کے نام پر تمام عمریوں گزر گئی

نئے نئے غموں کے انتخاب میں مگن رہے

ہمیں تو اے جمیلؔ اپنی ذات ہی نگل گئی

وہ اور تھے جوساقی و شراب میں مگن رہے

٭٭٭

یہ کیسی رسم ترے شہر میں روا پاؤں

جس اجنبی سے ملوں ،اس کو آشنا پاؤں

سمجھ کے سوچ کے اک بار پھر لکھوں وہی نام

پھر اک گناہ کروں ،اور اک سزاپاؤں

مجھے خبر نہیں کچھ فاصلوں کی سازش کی

اسے قریب سے دیکھوں تو جانے کیا پاؤں

گھٹن  کا موجِ صباسے سلوک لا معلوم

دریچہ بند رکھوں یا کھلی ہوا پاؤں

نہ جانے کون سی پہچان انتہا ہے مری

ہر آئینے میں کوئی شخص دوسراپاؤں

لبھانے لگتے ہیں شاہدؔ کچھ آشناسجدے

لبوں سے لپٹی ہوئی جب بھی اک دُعا پاؤں

٭٭٭

 

الفاظ سے کھیلو،کبھی آوازسے کھیلو

یادوں کا کھنڈر ہے، اسی اندازسے کھیلو

آنکھ کے یہ رشتے کبھی افشا نہیں ہوتے

اترو مرے اندر، مرے کچھ رازسے کھیلو

کب تک یہ دھندلکوں کی تھکن ڈھوتے رہو گے

ڈھونڈو کوئی چہرہ، نگہِ نازسے کھیلو

گمنام بہاروں کی تمنا نہیں اچھی

پیڑوں پہ سجی فصلِ خزاں سازسے کھیلو

تنہائی سے بہتر کوئی ساتھی نہیں ہوتا

ٹکرا کے جو پلٹے اسی آوازسے کھیلو

٭٭٭

 

سخن کا درد ہے کس انکشاف سے سرشار

مرا قلم ترے غم کے طواف سے سرشار

پرند لوٹ کے آیا نہ شاخ پھر لہکی

شجر کے برگ و ثمر انحراف سے سرشار

تو اک نمود کہ بانٹے سب آندھیوں کو چراغ

میں ایک دیدۂ بینا غلاف سے سرشار

میں ایک خواب کہ دونوں کے خواب کی تعبیر

دل و دماغ مرے اختلاف سے سرشار

طرب کی گردستارے لیے کھڑی ہی رہی

الم بہ شیشۂ دل انعطاف سے سرشار

بہار اب مرا ہر جام دشت کودے دے

چمن درونِ خزاں اعتکاف سے سرشار

٭٭٭

 

سفید خواب، خواب کی سحر سفید

دھنک ہوئی سیاہ، بحر و بر سفید

دیے کے پاؤں جا پڑیں لویں تمام

سیاہیوں نے چن لیا تھا گھر سفید

ازل کے عکس جہد میں دھنک ہزار

ابد کا ایک رنگ، اس کا ڈر سفید

جو منتظر نہیں انہیں دکھائی دے

سیاہ شب میں خوابِ منتظر سفید

نظام روشنی گھروں میں تھا عجب

دریچے سرمئی تھے اور درسفید

٭٭٭

 

سرمئی جسم، جاں سرمئی

درد کے سب جہاں سرمئی

سرمئی خواب زاروں کا غم

غم کی ہر کہکشاں سرمئی

خواب قصے کہانی ہوئے

ہو گئیں سرخیاں سرمئی

نور ظلمت سے الجھا کیا

چشم کا ہر بیاں سرمئی

لفظ دو روز اجلے رہے

ہو گئی پھر زباں سرمئی

٭٭٭

 

سیاہ غم، دل سیاہ

لہو کی منزل سیاہ

سفید تو، میں سفید

ترے مرے دل سیاہ

بھنور میں قوسِ قزح

ہر ایک ساحل سیاہ

جنوں کے صحرا میں نور

خرد کی محفل سیاہ

تمام سجدوں میں دھند

دعا کا حاصل سیاہ

٭٭٭

 

زرد پتوں کے تصور سے ڈری رہتی ہے

دل کے گلشن میں کوئی سبز پڑی رہتی ہے

موسمِ درد میں ہر پیڑ بکھر جاتا ہے

ایک اُمید کی وہ شاخ ہری رہتی ہے

وقت کی دھوپ تپش لاکھ اُگالے دل پر

ایک گوشے میں تھوڑی تری رہتی ہے

دل وہ پتھر ہے جو ہر موج سہا کرتا ہے

غم و ہ ندّی ہے جو ہر وقت بھری رہتی ہے

فکرِ محبوبِ، غم دنیا، خیال مسجود

بے خودی ایسے مسائل سے بَری رہتی ہے

ٹوٹتا رہتا ہے کمرے میں اندھیرا شاہد

دھوپ دیوار کے اُس پار دھری رہتی ہے

٭٭٭

 

سوچتا ہوں کہ اُسے کون سا منظر کہتا

ریت کا جسم تھا، کیا ہاتھ لگا کر کہتا

یوں تو قطرہ ہی سمجھتا رہا عمر مگر

جان لیتا تو بہر حال سمندر کہتا

یہ تو اچھا ہی ،ہوا مٹھی کھلی ہے میری

ورنہ ہر شخص مجھے اپنا مقدر کہتا

ویسے تو دونوں ہی اُکتائے ہوئے تھے لیکن

وہ روادار نہ تھا، میں اسے کیونکر کہتا

قرب کی دھوپ سے بے زار سبھی تھے شاہدؔ

کون کس شخص کو نزدیک بلا کر کہتا

٭٭٭

 

اُڑتی چڑیا سے پیار کرنا تھا

وقت کا اعتبار کرنا تھا

غم سمندر تھا ایک لمحے کا

کئی صدیوں میں پار کرنا تھا

مخلصی یوں بہت ضروری تھی

خود کو کچھ ہوشیار کرنا تھا

پھول مغرور ہو گئے آخر

باغ کو بے بہار کرنا تھا

حادثے یوں نہ متحد ہوتے

یہ سفر قسط وار کرنا تھا

٭٭٭

 

مری نظر کہ ترا دل ، پرند اوجھل ہے

ہر ایک خواب کا حاصل، پرند اوجھل ہے

شجر جو کہہ نہ سکے، آسماں وہی سن لے

یقیں ہے وہم کی منزل، پرند اوجھل ہے

شفق شفق وہی سرخی :اڑان کی تعبیر

اُفق اُفق وہی محفل، پرند اوجھل ہے

صدا میں سمت نہیں بازگشت لامحدود

سفر کی شرط میں شامل پر ند اوجھل ہے

بھنور کا کام جزیرے کو ورغلانا تھا

دھواں دھواں لب ساحل، پرند اوجھل ہے

٭٭٭

 

یہ کیسا رشتہ چراغوں کا تیرگی سے تھا

کہ ہر سراغ ترا گمرہی سے تھا

یہ سارے شہر میں کیسا غبار پھیلا ہے

میں ٹوٹ ٹوٹ کے بکھرا تو خاموشی سے تھا

وہ ایک لمحہ جو تحفے میں لائے تھے کل لوگ

وہ ایک لمحہ بھی میری ہی زندگی سے تھا

وہ خوش نصیب تھے، اک دوسرے کے دشمن تھے

مرا مقابلہ ہر موڑ پر مجھی سے تھا

تمہاری دی ہوئی اکتاہٹوں کا کیا کہنا!

میں رات کھُل کے بغل گیر زندگی سے تھا

مری اَنا سے جو شاہد اُبھرنے والا تھا

ڈرا ڈرا سا میں کتنا اُس آدمی سے تھا

٭٭٭

 

ایک دریا رواں نہیں ملتا

ورنہ ساحل کہاں نہیں ملتا

صحن ہے یا فقط دریچہ ہے

اب مکمل مکاں نہیں ملتا

بارشیں کتنی تیز لگتی ہیں

جب کہیں سائباں نہیں ملتا

روشنی بے سحر بھی ہوتی ہے

ہر شرر کو دھواں نہیں ملتا

صرف غم کی زمین ہوتی ہے

ہجر میں آسماں نہیں ملتا

اے خدا تجھ سے ہٹ کے کیا سوچوں

در کوئی درمیاں نہیں ملتا

٭٭٭

 

جو بھید اصل تھا وہ کبھی کُھلا ہی نہیں

میں جس کا عکس ہوں وہ میرا آئینہ ہی نہیں

اُداس بیٹھا ہے آئینہ بیچنے والا

کہ اس محل میں کوئی خود کو جانتا ہی نہیں

ہم اپنی دستکیں محفوظ رکھ کے کیا کرتے

کسی مکان میں دروازہ کوئی تھا ہی نہیں

بھٹکتی پھرتی ہیں یادو ں کی کشتیاں کیا کیا

عجب ہے دل کا سمندر کہ راستہ ہی نہیں

نہ کوئی ڈور ، نہ بندھن ، نہ راستہ، نہ غبار

یہی  کہ اس کے مرے بیچ فاصلہ ہی نہیں

٭٭٭

 

دل کے آسیب کا دنیا سے گِلہ ہم نے کیا

شوق سے خود کو گرفتارِ بلا ہم نے کیا

ایک ہی خواب تو موتی کی طرح آنکھ میں تھا

خاکِ دل! تو ہی بتا اس کا بھی کیا ہم نے کیا

جب دعا دی اسے، الفاظ سب اپنے برتے

اس بھلائی میں یہ تھوڑا سا بُرا ہم نے کیا

یاد سی چیز کوئی لا کے شفق پر رکھ دی

شام کو شام سے اس طرح جُدا ہم نے کیا

کاش اک غم بھی ہو ایسا کہ کبھی جس سے کہیں

دل کی زنجیر سے، جا تجھ کو رِہا ہم نے کیا

٭٭٭

 

سحر تک نہ آ کر کھلا ،کون ہے

مری نیند میں جاگتا کون ہے

مرا عکس پتھر پہ اترا ہوا

مرے واسطے آئینہ کون ہے

سفر کس کا تھا، پاؤں کس کے تھکے

پلٹ کر یہ اب دیکھتا کون ہے

مجھے حسرتوں کا کوئی غم نہیں

دِلوں کو یہاں دیکھتا کون ہے

میں اپنے لئے کتنا انجان ہوں

مجھے اس طرح جانتا کون ہے

میں جس کے لئے تھا وہ میرا نہ تھا

جو میرے لئے ہے، مرا کون ہے

٭٭٭

 

کبھی نہ کُھل کے ملے اُ س سے ،ایسی بات نہ تھی

مگر اب اتنی بھی آسان شرحِ ذات نہ تھی

گلے جو ہاتھ پکڑتے تو ہم کو کیا غم تھا

ہمارے پاؤں میں زنجیر التفات نہ تھی

بچھڑتے دشت کی مٹّی تھی، پاؤں کستی تھی

اُکھڑتے خیموں کی بنیاد بے حیات نہ تھی

تھی کائنات سمندر تو اپنی ذات حباب

پر اپنی ذات میں ڈوبے تو کائنات نہ تھی

وہ خواب اور ہی تھے، پھول بن کے جو مہکے

ہماری آنکھوں میں خوشبو سی کوئی بات نہ تھی

فنا کے بعد ہمیں ملنے آئی تھی شاہدؔ

وہ ایک نرم لطافت جو بے ثابت نہ تھی

٭٭

 

نئی اک اور حقیقت بنانے والا ہوں

میں اُس کو خواب سمجھ کر بھلانے والا ہوں

جو میرا جھوٹ تھا،مجھ کوکھراسمجھتاتھا

میں جس کاسچ ہوں اُسے آزمانے والا ہوں

انا کی جنگ،خرد کا کھنڈر،جُنوں کے چراغ

میں اس محاذ پہ سب کچھ لُٹانے والا ہوں

کسی کی یاد بھی کتنے ہجوم رکھتی ہے

اکیلا رہ کے میں سارے زمانے والا ہوں

کسی کے پاس رہوں توکسی کی یاد آئے

میں اب کی بار یہ غم بھی اُٹھانے والا ہوں

٭٭٭

 

یاروں میں تیرا نام اُچھالا ہے کس طرح

دل نے غبار دل کا نکالا ہے کس طرح

شامل کیا لبوں میں ترے، بوسۂ رقیب

ہم نے ترے خیال کو ٹالا ہے کس طرح

کانٹے بچھا کے پاؤں میں ، خوابوں میں رکھ کے پھول

دنیا نے اپنے رنگ میں ڈھالا ہے کس طرح

ہونٹوں سے مسکراتے ہوئے غم کو کیا پتہ؟

آنکھوں نے آنسوؤں کوسنبھالا ہے کس طرح

سودائے شعر پی کے لہو سربلند ہے

دیکھ !آستیں کے سانپ کو پالا ہے کس طرح

٭٭٭

ماخذ:

http://urduyouthforum.org/shayari/poet-Shahid-Jameel.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید