FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ڈاکٹر محمد منصور عالم

ماخوذ از ’تفہیم‘ شمارہ ۱

 

 

(۱)

            جب ہم کوئی ایسا مجموعہ کلام پڑھتے ہیں ، جس میں نظمیں اور غزلیں دونوں ہوں تو غزلیں عموماً زیادہ کھینچتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ غزل پسندی کا مزاج ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصرعوں کی ہم وزنی میں نسبتاً زیادہ لطف ملتا ہے اور پھر قوافی بھی متاثر کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ باتیں ہیں تو نظموں سے بے رغبتی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اوزان اور قوافی ان میں بھی ہوتے ہیں۔ البتہ مسئلہ ان کے نمایاں اور پنہاں ہونے کا ہے۔ تو، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ شعری ہنر مندی میں پنہانی بہتر ہوتی ہے۔ پھر اپنے مزاج کو بھی مانوس کر نا چاہئے۔ شعری بیانیہ قائم کر نے میں جس طرح پہلے کے شعر اوزان و قافیہ اور تشبیہ و استعارہ کے پابند تھے۔ اس طرح کی پابندی جدید شعرا کے یہاں نہیں ہے۔ انہوں نے وزن و قافیہ کو سطروں میں چھپا دیا ہے اور پیکر سازی پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ پیکروں کا تقاضا ہو تا ہے کہ باتیں اپنے نقوش میں دو مصرعوں سے آگے بڑھیں۔ اور مصرعوں کی ہم وزنی کا طلسم ٹوٹے، پیکر پر مستز اد علامت ہے۔ علامت تلازموں کے ساتھ پھیلنے پر مصر ہوتی ہے۔ یہ دونوں ، پیکر اور علامت تفصیلی سریت کی فضا قائم کرتے ہیں اور ایک بیت میں سما نہیں سکتے۔ اس لئے نظم کی ہئیت نا گزیر ہو جاتی ہے۔ جس مجموعے میں صرف نظمیں ہوں یا نظمیں بالکل نہ ہوں۔ غزلیں ہی غزلیں ہوں ، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایسے گھر میں چلے آئے جہاں صرف سرہجیں ہیں یا صرف سالیاں ہیں۔ ہمارے لئے اہل خانہ کا مزید تصور ضروری نہیں کہ اس گھر میں مرد صورت میں کوئی ہے یا نہیں۔ کیونکہ شاعری کا مطالعہ بنیادی طور پر عورت کا مطالعہ ہے۔ عورت اس لئے کہ وہ فنکارانہ خلاقی اور فکری پیچیدگی کی شاہکار ہے۔ بزرگوں نے غزل کو گفتگو باز نان کر دن بتا یا تھا۔ لیکن یہ معنی صرف غزل تک محدود ہیں اور غزل کی نسبت سے بات معشوقہ تک ہی جا سکتی ہے۔ اس میں کنواروں کے لئے ایک رعایت ضرور ہے مگر یہ کوئی جامع معنی معلوم نہیں ہوتے۔ غزلوں کو میں سر ہجوں سے گفتگو سمجھتا ہوں۔ ان کے شوہر ان کے قافیے ہیں اور ردیف خشدامن، وہ خود کئی خاندانوں سے آئی ہیں۔ ان کا اپنا الگ وجود ہے۔ اس لئے وہ غزل کے شعر ہیں۔ جبکہ نظم سر ہج کی نسبت سے بالغ سالی یا بھابھی کی نسبت سے اس کی نند ہے۔ سر ہجیں اور بھابھیاں سمٹ کر ایک خاندان میں آ جاتی ہیں۔ سالیاں یا نندیں پھیل کر نئے خاندانوں کا پتا دیتی ہیں۔ غزل اور نظم کی ان دو نمائندہ ہستیوں کے دو ’’مقامات ‘‘ ہیں۔ ان دونوں سے آشنا اور وابستہ شاعر کسی یک فنے سے غالباً بڑا شاعر ہو نے کا حق رکھتا ہے۔

            فرید محمد عادل منصوری ۱۸؍ مئی ۱۹۳۶ء کو احمد آباد گجرات میں پیدا ہوئے تھے اور زندگی کی بہتر بہاریں دیکھ کر ۶ ؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو امریکہ میں دُنیا سے پنہاں ہو گئے۔ میں نے ان کو کبھی نہ دیکھا لیکن ان کی جو تصویر’’ حشر کی صبح درخشاں ہو۔۔۔۔۔ ‘ ‘ کی پشت پر موجود ہے۔ اس میں وہ بڑے خوش مزاج نظر آتے ہیں۔ میں نے بھی کچھ اسی وجہ سے چہل بازی کی ہے۔ بولنے پر آمادہ ان کا مسکرا تا چہرہ اور ہاتھ کا اشارہ دونوں غماز ہیں کہ عادل فقرہ باز ضرور ہوں گے۔ فقرہ با زی اور سخن سازی ذوصوی القربی ٰ ہیں جو لوگ فقرہ با ز ہو تے ہیں ۔ اگر وہ موزوں طبع بھی ہوں تو ان کی قوت متخیلہ مصرع تراشی میں وہ کام کرتی ہے،جس سے ذہنی کا وشوں کا بہترین تخلیقی اظہار ہو سکتا ہے۔ عادل کے مذکورہ بالا مجموعۂ کلام میں نظمیں اور غزلیں دونوں ہیں۔ یعنی گھر بھرا ہوا ہے اور یہاں نندوں بھابھیوں کا تیور اور تناؤ بھی موجود ہے۔ لیکن پہلے مصرعۂ تراشی کی دو ایک مثالیں دیکھئے۔

عادل کہتے ہیں   ؎

            کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

            کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتا ب کے

            شعر عام فہم ہے۔ مگر مصرعہ دو م جڑا ہوا نگینہ معلوم ہوتا ہے۔ ’’پرانی کتاب ‘‘ شخصیت کا استعارہ ہے ’’کتا ب  کی مناسبت سے ’’کاغذ‘‘ استعار ے کو آگے بڑھا تا ہے۔ بڑھا کر علامت میں ڈھال دیتا ہے اور فعل ’’بکھر رہے ہیں ‘‘ سے متحرک پیر بنا لیتا ہے۔ ہم پرانی کتا ب کے بکھرتے ہوئے اوراق کو چشم تصور سے دیکھ سکتے ہیں کہ عمر ضعیفی میں قویٰ کس طرح مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اضمحلال قوی ٰ کو بکھرنے سے استعارہ کر نا بالکل مغائر تی صورت ہے اور لطف یہ کہ اس بکھرتی صورت پر حسرت نہیں۔ بالکل لا اُبالے فقرے باز ہی کا اندازہ ہے۔

یہ شعر دیکھئے

            خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر

            اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی

            اب اس کو فقرہ با زی کے سوا کیا کہا جائے گا کہ کسی نے مصرعہ اولیٰ، دو ست نے سنا تو از راہ تفنن مصرعۂ  تر لگا دیا۔ جوانی کی امنگوں اور بڑھاپے کی خشکیوں کی کشا کش سے لبریز کیا خوب مصرعہ تراشا ! مگر مصرعۂ اول کی تازگی بھی بے نظیر ہے۔ ایسا تخئیل کہ خواہش کو دوپہر میں کوٹھے پر سکھانے کو رکھا گیا تھا۔ ہمارے زمانے میں مضمون تا زہ کی بہترین مثال ہے۔ اب اس خواہش کو کھوجئے، کدھر گئی۔ ارے وہ تو سوکھ کر اڑ گئی! یا کوئی شوخ ہوا آئی اور اُڑا لے گئی،یا یہ خود ہی اس کے پیچھے ہو لی ؟( ’’گئی‘‘ کی جگہ پر ’’ اڑی‘‘ ہو تا تو بہتر ہو تا ؟) بڑھاپے میں جوانی کی کون سی خواہش ؟اور ’’سکھانے‘‘ سے کیا مرا د ہے۔ ، آسودگی، تسکین یا نفس کشی ؟۔

ایک اور شعر دیکھئے

            آنکھوں میں آنسوؤں کا کہیں نام تک نہیں

            اب جوتے صاف کیجئے ان کے رومال سے

            بظاہر معشوق ستمگر، بے وفا، سخت دل ہے، ذرا پشیمانی نہیں۔ ذرا ترس نہیں ، عاشق کی مصیبت پر کبھی آبدیدہ نہیں۔ پھر وہ رومال کا ہے کو رکھتا ہے۔ فقرہ کس دیتے ہیں کہ اب جوتے صاف کیجئے ان کے رومال سے۔ سوال یہ ہے کہ کس کے جوتے ؟ جواب بظاہر یہ ہے کہ اپنے جوتے، مگر معشوق اپنا رومال عاشق کو کیوں دینے لگا، لہذا اس کے رومال سے اس کے آنسو نہیں تو اس کے جوتے ہی پونچھئے۔ یعنی اس کی خدمت بہر حال کیجئے۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خود عاشق نے اپنا جو رومال معشوق کو تحفتاً پیش کیا تھا تاکہ بوقت رحم و رقت اپنے آنسو پونچھ سکے۔ تو اب تو اس کی آنکھیں کبھی آبدیدہ ہوتیں ہی نہیں۔ اس لئے اپنے عاشق کے رومال سے اپنے جوتے ہی صاف کیجئے۔ اس کے دیئے ہوئے تحفے سے کچھ تو کام لیجئے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر، معاشرے میں شبابی محبت کی روایت یہ رہی ہے کہ معشوق ہی عاشق کو رومال پیش کر تا ہے۔ یہ روایت اب جدید عشقیہ تہذیب میں ٹوٹ گئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب غم فراق میں آنسو نہیں بہائے جاتے۔ لہذا نئی روایت قائم کی جائے کہ جس کسی کے پاس جس کسی کا دیا ہوا رومال ہو۔ اس سے وہ جوتے صاف کر ے کیونکہ اب رومال کا اور کوئی کام نہیں رہا۔ نہ آنکھ میں آنسو، نہ جبیں پر پسینہ

            مجھے احساس ہے کہ فقرہ بازی پر زور دے کر شاعری کی قدر پہچانی نہیں جا سکتی۔ لیکن فقرہ با زی میں جو شاعری ہو جاتی ہے اس کو پہچاننا بھی ضروری ہے۔ عادل کا امتیاز یہی ہے کہ وہ فقرہ با زی میں ہماری سفاک تہذیب کی عکاسی کر گزرتے ہیں۔

            ٹوٹے پڑے ہیں کتنے اُجالوں کے استخواں

             سایہ نما اندھیرے کے اندر اُتر کے دیکھ

             ہماری تہذیب بظاہر ’’ سایہ نما ‘‘ ہے مگر اصلاً وہ اندھیری ہے۔ اس کا اندھیرا پن شکستہ اجالوں کے ماضی سے ظاہر ہے جہاں شا ئستگی اور حس لطیف کی روشنی کو خستہ ہڈیوں کی طرح کئی بار توڑا گیا ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال یہ ہے کہ بچپن میں ب رزبر بر، بے زر یر بر پڑھاتے ہوئے مولوی صاحبان جنسی حجاب کے تحت بر  پیش ’’ با‘‘ پڑھاتے تھے۔ لیکن لکیر کے نیچے ایک نقطہ، لکیر کے اوپر دو نقطے کا سبق دینے میں ان کی عضوی حس خفتہ ہوتی تھی۔ عادل جب اس رٹائی کو شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔

            ت کے او پر دو نقطے

            ب کے نیچے اک نقطہ

            تو اس کے معنی میں ہماری تہذیب کی جنس زدگی داخل ہو جاتی ہے۔ وہ تہذیب ب سے بدن اور ت سے تن کے تناظر میں فرج و پستان سے اتنا گہرا تعلق رکھتی تھی کہ ہمارے شعرا مثنوی لکھنے بیٹھتے تو ابتدا لازماً حمد و نعت سے کرتے اور پھر جوانی کی راتیں مرادوں کے دن کے وہ بیانات قائم کرتے کہ بس پوچھئے مت، وہ ہماری ادبی تہذیب کی داخلی دُنیا ہے، جس میں اعلیٰ اور نا در تخیلات کی ہڈیاں ٹوٹی پڑی ہیں۔ مثنوی سے قطع نظر صنف غزل ایسے ہی بلند و گرانقدر تخیلات کی شائستہ ترجمانی کے لئے تھی مگر اس کو بھی سایہ نما اندھیرا بنا دیا گیا۔ عادل منصوری غزل اور تغزل کی تہذیب کو زندہ کر نے کے لئے کہتے ہیں۔

            عادل کسے پکاریئے تعمیر کے لئے

            پتھر اکھڑ گیا ہے غزل کے مزار کا

            تو ان کے ہم عصر ظفر اقبال کہتے ہیں :۔

            عادل کو اب بلائیں مر مت کے وا سطے

            پتھر اکھڑ گیا ہے غزل کے مزار کا

            مزار کی تعمیر یا مر مت کے معنی یہ ہیں کہ صاحب مزار کا آوازہ پھر سے بلند ہو گا۔ جن لوگوں نے غزل کا مزار ڈھا دیا اور اس کے تقدس کو پامال کیا وہ اور معاملوں میں ترقی پسند ہوں تو ہوں ، غزل کے تعلق سے وہ مطلق تری پسند نہیں ہیں۔ وہ صرف جدیدیت پسند شعر ا ہیں۔ جنہوں نے آوازۂ غزل کو کہن ہو نے سے بچا یا۔ جدید شاعری احیائے غزل کے ذریعہ ہماری ادبی تہذیب کی محافظ بنی، جس تہذیب کا خاصہ یہ تھا کہ برہنہ گفتاری نہ ہو اور استعارے خاص کراسی مقصد میں کام آتے تھے۔ اس تہذیب کو جدیدیت نے ابہام اور علامت کے ذریعہ نیا ادبی اظہار بخشا۔

            عادل نے ایک اور قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے حروف مقطعات بھی استعمال کئے۔ ب، ت کو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ الف، ش، ک، گ، ل، م، ن وغیرہ جیسے حروف عادل کی غزلوں میں کئی بار آئے ہیں۔ ایسے بعض شعر جن میں یہ حروف آئے ہیں۔ بہت مبہم ہیں اور بعض کے جنسی معنی کی طر ف ذہن جاتا ہے جیسے :۔

            بدن ب کے اندر اتر جائے تو

            کنارے پہ رہ کر نکالو الف

            لپکنے لگی لمس کی شعلگی

            کھلے تے کے بند قبا نون میں

             کاف کی کر سی پہ کالی چاندنی

            گاف میں گرتا سمندر لام کا

             زیادہ مثالوں کی ضرورت نہیں۔ سمجھنے اور کہنے کی بات یہ ہے کہ ایسی غزلوں کو شروع سے آخر تک پڑھئے تو حرف مخصوص کے متعدد معنی جھلکتے ہیں جن سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاعر کو خاص جنسی تلذذ سے غرض نہیں بلکہ اصلاً معنوی ابعاد سے مطلب ہے۔ ان میں ایک معنی وہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جن کو غزل کے بیانیئے میں چھوڑ دینا مناسب نہیں بلکہ یہ تو شاعرانہ کم رسی ہو گی۔ لہذا گر معنی کا جنسی امکان ہے تو اسے بھی پرویا جائے۔ مثلاً کمر کی کر سی یعنی مقعد میں پھیلے نرم کالے بال کے با وجود فاعل کا مادۂ منویہ اس کے ’’لام ‘‘ سے مفعول کی ’’ گاف‘‘ میں گرہی جاتا ہے۔ بے شک یہ بات فحش ہے۔ لیکن اگر یہ نہ ہوتی تو ردیف کی نئی معنویت کا اندازہ بھی نہ ہوتا اور یہ خوبی کی بات ہے کہ ردیف میں بھی نئے معنی رکھے جائیں۔ سو عادل نے ایسا بھی کہا کیا ہے۔ اب یہ شعر دیکھئے۔

            بند دروازے پہ سب کے کان تھے

             شور تھا کمرے کے اندر لا م کا

            قریب کے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ دروازہ بند ہے اور لوگ کمرے کے اندر کے جنسی فعل کی آواز پر کان لگائے ہوئے ہیں۔ دور کے معنی یہ ہیں کہ انسان کا ظاہر تو پر سکون معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں محبوب کے لمس کا جو خلفشار ہو تا ہے۔ لوگ اس کو سننا چاہتے ہیں۔ غالباً مراد شاعر یہی معنی بعید ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں ردیف کے معنی بدل گئے۔ اسی طرح یہ شعر دیکھئے۔

            شہر میں اپنے بھی دشمن ہیں بہت

            جیب میں رکھتے ہیں پتھر لام کا

            اوپر والے شعر میں ’’لام‘‘ لمس کا مخفف تھا تو یہاں ’’لگا ؤ ؍ لگاوٹ‘‘ کا مخفف ہے۔ ہم اپنے دشمنوں پر لگا ؤ ؍ لگاوٹ کا پتھر پھینکتے ہیں۔ یعنی ان سے بھی راہ و رسم رکھتے ہیں۔ غور کیجئے کہ سماجی تعلق داری کو عادل نے کس تا زہ کاری سے پیش کیا ہے۔ یہ صرف قول محال نہیں ہے۔ فعل محال بھی ہے۔ یہ بھی ہماری ادبی تہذیب کی ایک مثال ہے۔ جس کو جدیدیت نے نیا طرز دیا ہے اب ذرا یہ شعر دیکھئے

            آیا نہ کیوں خیال بڑی شین کا کبھی

            عادل بہت قریب ہے جب چھوٹی سین سے

            انگشت رکھی نقطوں پہ جب میم نے عادل

            چھوٹی کی طرف دیکھ کر اترائی بڑی شین

            یہ اشعار تو بد یہی طور پر جناب فاروقی کے لئے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نام بڑی شین سے ہے لیکن وہ دستخط ہمیشہ چھوٹی سین سے کرتے ہیں۔ جبکہ دونوں سینیں بہت قریب ہیں اور ان کے بیچ میں صرف میم ہے۔ یہ عادل کی نزاکت بینی ہے وہ روز مرہ کے حالات اور معمول کی باتوں میں بھی تیکھی ناز کی دیکھ لیتے ہیں۔ اب اس کو کیا کہئے گا :۔

            گانٹھی ہے اس نے دو ستی اِک پیش امام سے

            عادل اُٹھا لو ہا تھ دعا و سلام سے

            بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے

            اس نے اُٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا

            پہلے شعر کی دُنیا داری اور دو سرے شعر کی مادیت بلکہ جنس زدگی نے آرزوؤں کی اوقات بتا دی ہے۔ عادل عموماً ایسے ہی غیر متوقع صورت حال خلق کر کے خیال کو نئی جہت دے دیتے ہیں۔ ان کے یہاں تا زہ افکار بہت ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ :۔

            ہر اِ ک نیا خیال جو ٹپکے ہے ذہن سے

            یوں لگ رہا ہے جیسے کہ بر تا ہوا سا ہو

            ایسا لگ سکتا ہے کیونکہ اردو غزل مضامین کا انبار رکھتی ہے۔ کسی شاعر کے لئے سب کو یاد رکھنا نا ممکن ہے اور یاد کا شبہ ایسا ہے کہ وہ نیا پرا نے میں اور پرا نا نئے میں جھلکتا ہوا سا دیکھتا ہے۔ یہ با ت اپنی جگہ صحیح ہے کہ خیال میں جو مضامین آتے ہیں ان کا کسی نہ کسی طرح کا رشتہ سابقہ مضمونوں سے نکل سکتا ہے۔ مگر مضمون سے مضمون نکلنے میں کچھ نہ کچھ نیا تیور، نئی با ت ضرور نمو کر جاتی ہے۔ عادل کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ اکثر اوقات نئے نئے نقوش تراشتے ہیں۔ مثلاً :۔

            قیلولہ رہے ہوں کسی نیم کے تلے

            میداں میں رخش عمر بھر چرتا ہوا سا ہو

            اس میں جو بات ہے وہ

            اس میں جو بات ہے وہ غالبؔ کے ’’رو میں ہے رخش عمر … ‘‘ والے شعر سے بالکل مختلف ہے۔ اس میں راحت اور آسودگی کی تمنا ہے۔ اسی طرح، غالب ؔ نے کہا تھا۔

            کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے تو بہ

             ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہو نا

            عادل کہتے ہیں کہ :

            پھر بعد میں وہ قتل بھی کر دے تو حرج کیا

            لیکن وہ پہلے پیار بھی کر تا ہوا سا ہو

            اثر تو غالبؔ کا کچھ ہے مگر بات دو سری ہو گئی۔ یہی نج فکری عادل سے اوریجنل اور عمدہ اشعار کہلواتی ہے وہ کہنے کو تو کہتے ہیں کہ :

            سوچ کی سوکھی ہوئی شاخوں سے مرجھائے ہوئے

            ٹوٹ کر گرتے ہوئے لفظوں کو میں چنتا رہا

            لیکن یہ ’’ میں ‘‘ واحد متکلم نہیں ہے۔ بلکہ جمع غائب ہے۔ وہ اور لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔ عادل ایسے لفظوں کو کنارے کر کے فکر کی تا زہ شاخوں میں نکلتے ہرے پتوں اور شاداب بوٹوں کو چنتے ہیں۔ مثلاً :

            ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں

            تری یا د آنکھیں دکھانے لگی

            غور کیجئے۔ تنہائی میں کسی کی یاد ستاتی ہے۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ وہ یاد آنکھیں دکھاتی ہے۔ بات کدھر سے کدھر چلی گئی اور واقعتاً یہ نئی بات ہو گئی کہ کہیں اور کبھی تنہائی نصیب نہیں۔ یہ شعر دیکھئے

            جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

            وہ تصویر باتیں بنا نے لگی

            اس کے ساتھ یہ شعر بھی

            تصویر میں جو قید تھا وہ شخص را ت کو

            خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا

            تنہائی کے سناٹے میں کسی کی یاد نے کیسا زندہ متحرک وجود اختیار کیا ہے۔ شعر کی اہمیت اسی سے ہے۔ تا زہ فکری اور تا زہ کاری میں عادل بہت جرأت دکھاتے ہیں۔ مثلاً معشوق کی بے وفائی یا وعدہ خلافی پر تو بہت شعر ملیں گے۔ لیکن آنا کانی کر نے والے معشوق کی چاہت میں اس اندازہ کا شعر شاید نہ ملے :

            معشوق ایسا ڈھونڈیئے قحط الرجال میں

            ہر بات میں اگر تا مگر تا ہوا سا ہو

            دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی سو سائٹی کے کند ہم جنس باہم جنس پرواز، والے نئے نئے تقاضوں میں ’’قحط الرجال‘‘ کو ہم رجال و نساء دونوں کے کال کے معنی میں لے سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض مر دوں کو بھی امرد چاہیں اور بعض عورتوں کو بھی عورتیں چاہئیں اور یہ مطلوب ہمہ وقت ایسے خود سپرد نہ ہوں کہ بے یقینی اور کشا کش کا کوئی لطف نہ مل سکے۔ در اصل ہمارے معاشرے میں If but کی بدنیتی بہت رہی ہے۔ عادل نے اس کو بھی باندھا تھا اور عوامی بول سے سہارالے کر کیا خوب باندھا! وہ عوامی بولی کا سہارا بے دھڑک لیتے ہیں ، جیسے :

            برسوں کے بعد آج وہ مسجد طرف گیا

            جانے کے ساتھ بیٹھ گیا اعتکاف میں

            مسجد کی طر ف …کی حذف کر نا لطف سے خالی نہیں۔ اس میں بے ساختگی ہے اور کچھ جلد بازی بھی، کیونکہ ’’ اس کو‘‘ اعتکاف میں بیٹھنے کی جلدی تھی۔ اس کا ابلاغ ’’ کی ‘‘ ہٹا دینے سے ہو جاتا ہے۔ لیکن ’’جانے ‘‘ کی جگہ پر ’’جاتے ‘‘ ہو تو تو بہتر ہو تا۔ یہ شعر دیکھئے:

            چاروں طر ف سے سو کھ رہا ہوں پڑا پڑا

            بجھتی ہوئی بہار مگر درمیاں میں ہے

            ’’درمیان‘‘ کے ساتھ ’’ میں ‘‘ کا استعمال بس عوامی ہی بولی کی نشانی ہے ورنہ عادل نے بدون ’’ میں ‘‘ بھی اس ’’درمیان‘‘ کو استعمال کیا ہے :۔

            ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا

            نفرت کا ریگزار مگر درمیان تھا

            غزلوں میں دو ایک جگہ کتا بت کی غلطی اور پرو ف ریڈنگ کا سہو بھی نظر آیا

            تحلیل ہو گئی ہے ہوا میں ادا سیاں

            خالی جگہ جو رہ گئی تنہائی بھر گئی

            مصرعۂ  اول میں ’’ہے ‘‘ کی جگہ پر ’’ ہیں ‘‘ ہو نا چاہئے۔ یہ شعر دیکھئے

            منہ پھٹ تھا، بے لگام، رسواتھا ڈھیٹ تھا

            جیسا بھی تھا وہ دو ستو محفل کی جان تھا

            مصرعۂ  اول میں ’’ بے لگام ‘‘ کے بعد ’’تھا ‘‘ کی ضرورت ہے۔ تبھی مصرعہ موزوں ہو گا۔ ایک جگہ عادل سے بھی لغزش ہوئی ہے :۔

            بوجہل کے سر پر دھول ہی دھول

            ابو لہب کے ٹوٹیں ہاتھ

            مصرعۂ دوم میں ’’ ٹوٹیں ‘‘ کی جگہ پر ’’ٹوٹے ‘‘ ہو نا چاہئے۔ ’’ تبت یدا ابی لھب‘‘… میں ’’تبت‘‘ ماضی کا صیغہ ہے۔ تمنائی نہیں ہے۔ کوئی کو سنا نہیں ہے بلکہ مستقبل میں پیش آنے والی با ت کو صیغۂ ماضی میں بیان کیا گیا ہے اور یہ ایک ادبی اندازِ بیان ہے۔ تعجب ہے کہ بعض مترجمین قرآن نے بھی اس کا ترجمہ اسی طرح کیا ہے۔ جیسا کہ عادل کا مصرع ہے۔ لیکن جو شاعری شعور سے ہوتی ہے وہ کسی کے ترجمے سے بہت آگے کی چیز ہے اور اس کے پڑھنے والوں کو بھی شعور سے کام لینا چاہئے۔

            عادل کا ایک مصرعہ ہے :۔

            شہر سمجھے تھے جسے خون کا دریا نکلا

            اس میں مصرعۂ ثانی لگا کر مطلع بنا یا :

            گھر کی دیوار گری موت کا سایا نکلا

            لیکن پھر اس مصرعے میں مصرعۂ  اول لگا کر ایک اور شعر بنایا :۔

            تیرنا جن کے لئے کھیل تھا وہ بھی نہ بچے

            شہر سمجھے تھے جسے خون کا دریا نکلا

            مگر ’’شہر سمجھے تھے …‘‘ والے مصرعے کے مقابلے میں وہ دونوں مصرعے کمزور اور معنی کے لحاظ سے غیر مربوط ہیں۔ ’’سایا ‘‘ (’’دیوار ‘‘کی وجہ سے ’’سایا‘‘ رکھا ) کی جگہ پر ’’ریلا ‘‘ رکھا جا تا تو دریا کا تصور قائم ہو جاتا۔ تاہم وہ دریا خون کا تھا۔ اس کا جواز ابھی بھی چاہئے اور دوسرا شعر تو بالکل لفظی بازی گری معلوم ہوتا ہے۔ تیر نا جن کے لئے کھیل تھا وہ کیوں نہ بچے؟کیا خون کے دریا میں تیر نا ممکن نہیں ؟دریا خون کا ہو یا آگ کا ہو۔ جب دریا ہے تو تیراکوں کے لئے کیا ہے ! عادل نے کچھ تک بندی بھی کی ہے۔ ایسے نام نہاد شعروں کو نکال دینا تھا۔ کیونکہ عادل ہی کے مطابق ’’ کھوکھلے لفظوں میں لوہا تو نہیں بھر سکتے ‘‘ مثلاً ’’لام کا ‘‘ والی ردیف کی غزل میں نو شعر ہیں۔ مطلع یہ ہے :۔

            ہے گلی میں آخری گھر لام کا

            تیسواں آتا ہے نمبر لام کا

            اردو حرف کو گنئے تو اس الفائی گلی میں ’’ل‘‘ بے شک تیسویں نمبر پر ہے۔ بس۔ مطلع میں اس سے زیادہ اگر کچھ ہے تو وہ عادل کی فحش شرارت ہے۔ اسی طرح، یہ شعر:

            وہ اوپر سے گنئے تو بتیسواں

            وہ نیچے سے نکلا چھٹا نون میں

            ’’نون‘‘ الفائی ترتیب میں تو اوپر سے ضرور بتیسواں ہے۔ مگر نیچے سے چھٹا نہیں ہے۔ اگر ھ اور لا کو چھوڑ دیں تو ’’ن ‘ چھٹا ہو سکتا ہے۔ لیکن ان کو کیوں چھوڑیں۔ اگر ’’نون میں ‘‘ کی وجہ سے ’’و‘‘ کو لیں ، تو یہ اوپر نیچے دونوں طرف سے گیا، جیسا کہ ’’لام ‘‘ کا آخری گھر یعنی ’’م ‘‘ کا حال ہے۔

            یہ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ ان سے شاعری کی توقیر گھٹتی ہے۔ عادل نے جتنے عمدہ اشعار کہے ہیں اور کچھ اچھے شعر حروف قطعات کے ذریعہ بھی نکالے ہیں۔ ان کی روشنی میں ان کو جدید شاعری کا ایک اہم ستون کہا جائے گا۔ لیکن ہم ایسے مقطعات ؍ مخففات کو عادل کی شناخت نہیں بننے دینا چاہتے بلکہ ایسے شعر ان کی شناخت بن سکتے ہیں :

            یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر

            آئینے کی خندق میں جو پر چھائیں پڑی تھی

            دُنیا کی گذرتے ہوئے پڑتی تھیں نگاہیں

            شیشے کی جگہ کھڑکی میں رسوائی جڑی تھی

            کچھ اپنے عقائد بھی کمزور تھے

            لرزتے تھے اوہام دیوار پر

            یہ آخری شعر میں نے جس غزل سے اُٹھایا ہے،اس کا مطلع ہے :

            وہ برسات کی رات پچھلا پہر

            اندھیرے کے پہلو میں سنسان گھر

            مطلع کے بعد اشعار نظم کی طرح آگے بڑھے ہیں ، جن میں فسادات کی دہشت منقش ہو گئی ہے اور تھوڑی جنسی لذت کا بھی احساس ہو تا ہے۔ یہ غالباً دہشت کی وحشت کا نتیجہ ہے۔ اس لحاظ سے اس غزل کی مر بوط معنویت بڑھ گئی ہے۔ پھر یہ کہ فساد کی دہشت اور بدن کی لذت گو یا نا گزیر اجتماع ہیں۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ عادل پیچیدہ صورت پیدا کر کے ہمیں متضاد کیفیت سے ہمکنار کر تے ہیں۔

            عادل ایسے شاعر ہیں جو سرخ و سیاہ پر طرح طرح سے سوچتے رہے ہیں ؛۔

            پھیلتا ہی رہے یہ سرخ بھنور

            سر پہ قائم رہے سیاہ جنوں

            ان رنگوں کا سلسلہ تشدد اور کرب سے ملتا ہے جن کے نتیجے میں تنہائی ہاتھ آتی ہے یا اختیار کرنی پڑتی ہے اور تنہائی کو عادل قید سمجھتے ہیں۔

            تنہائی کی رانوں میں

            صبح تلک میں قید رہا

            جی !قید کہاں رہا؟رانوں میں ، دو ران کے بیچ میں۔ ان کے تصور سے ہی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ اسی لئے میرا گمان غالب ہے کہ عادل اپنے شعروں میں شہوانی نقش کا ری کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر کس بات پر ترجیح ؟ اس بات پر جو نقش کے اندر ہے۔ تو، نقش کے اندر کیا ہے ؟یقینی طور پر محض تلذذ نہیں ہے۔ کہہ سکتے ہیں۔ کہ عادل تغزل کی مناسبت سے شعر کے باطن کو فکر یا تی رکھنے کے باوجود شعر کے ظاہر کو فاحش بنا دیتے ہیں مگر عادل صاحب! فکر مت کیجئے۔ آپ کی دوکان میں جنس بھی رائیگاں نہیں ہے۔ آپ کا با زار ہمیشہ گرم رہا اور رہے گا۔

            با زار گرم ہو کبھی حسرت ہی رہ گئی

            یا جنس رائیگاں ہی ہماری دکاں میں ہے ؟

(۲)

            جدید شاعری کے سامنے موضوعات کا جو وسیع صحرا رہا ہے، اس کا عادل کے یہاں کیا حال ہے ؟ اس کو دیکھنے کے لئے ہمیں عادل کی نظموں کی طرف متوجہ ہو نا چاہئے۔

            عادل کے مجموعے کی پہلی نظم ہے ’’حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود  …‘‘ اس میں حضورؐ کی سیرت پاک کے چند اشاروں سے نعت بیان کی گئی ہے اور یہ دعا کی گئی ہے کہ آپ ؐ کے لئے حشر کی صبح ایسی درخشاں ہوکہ آپ ؐ مقام محمود پر فائز نظر آئیں۔ اس دعا میں یہ تمنا بھی شامل ہے کہ اس ’’مقام ‘‘ میں سارے لوگ آپ ؐ کی حمد بیان کریں اور آپؐ کی شفاعت سے فیض یاب ہوں۔ ( ’’مقام محمود ‘‘ کا ذکر قرآن مجید پارہ ۵۱، رکوع۳ ۹، آیت ۲ میں ہوا ہے۔ اذان کی دعا میں بھی یہ موجود ہے۔ )نظم کے دوسرے حصے میں عہد جدید کی خود غرضی اور لذت کوشی پر روشنی ڈالنے کے ساتھ رو ح کی پیاس کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے اور تیسرے حصے میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ مغرب کی بقا حضورؐ کی تقلید میں پوشیدہ ہے۔ دوسری نظم ’’قلم اُٹھا لئے گئے ‘‘ یعنی اب قدرت کو انسانوں کی ہدایت کے لئے کچھ لکھنا نہیں ہے۔  رسالت و آخرت کے کامل وغیرہ مبدل تصور میں ڈوبی ہوئی ہے۔ تیسری نظم غزوۂ تبوک کے تعلق سے ہے۔ چوتھی نظم اپنے والد کے انتقال پر ہے۔ ان چاروں نظموں میں بیانیہ سادہ ہے۔ جو نقوش بنائے گئے ہیں وہ بھی زود فہم ہیں۔ مثلاً والد کی آنکھ میں موتیا بند اتر آیا ہے۔ اس صورت کو شاعر نے یوں پیش کاچ ہے۔

            کالی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے پھر

            موتیے کی کلی سر اُٹھا نے لگی

            آنکھ میں تیرگی مسکرانے لگی                       (والد کے انتقال پر )

            لیکن پانچویں نظم جس کا عنوان ’’نظم ‘ہے۔ سخت پیچیدہ اور مبہم بیانیہ میں لکھی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ اس کا خالق وہی شخص ہے جس نے پہلی چار نظمیں خلق کی ہیں۔

نظم

            وہ ایک لمحہ

            وہ سر پٹکتا ہے پتھروں پر

            پڑا ہوا ہے جو شام کے پھیلتے دھوئیں میں لہو میں لت پت

            وہ ایک لمحہ

             کہ جس کی خاطر ہزاروں صدیاں کروڑوں بر سوں سے آبلہ پا

            مگر وہ لمحہ

            سفر کی پیلی اداسیوں کے کبوتروں کے پروں سے الجھا

            سواد منزل کی مشعلوں میں

            پگھل پگھل کر عیاں ہوا ہے

            وہ ایک لمحہ

            سلگتے شبدوں کی انگلیوں سے گرا جو نیچے

            تو دھنس گیا پھر اٹل معانی کی دلدلوں میں

             مگر یہ اچھا ہوا کہ اس دم

            کھجور بھر کر جہاز آئے

            تمام نظریں کھجور کی گٹھلیوں میں انزال ڈھونڈتی تھیں

            وہ چھ مہینے جمل اُٹھائے ہمارے گھر کی قدیم زینت

            نہ سیڑھیوں پر

             نہ کھڑکیوں میں

            نہ چائے کی پیالیوں سے اُٹھتے دھوئیں کے پیچھے

            تمنا کاغذ پہ پھیل جائے تو اس کی شدت کا نام ٹوٹے

            سفید بکری کی آنکھ سے کون جھانکتا ہے

             تمہیں خبر ہے ؟

            تمہیں خبر ہو تو مجھ سے کہہ دو

            میں اپنے والد کی قبر کا را ستہ تلاشوں

            ادھر بھی سورچ میں سارا منظر لہو لہو ہے

             ادھر بھی سایوں میں ساری آنکھیں دھواں دھواں ہیں

            یہ بند آنکھوں میں کون چھپ کر

             بدن کے اندر کو جھانکتا ہے

             خموشیوں کے کھنڈر میں گونجی اذاں فجر کی

             وضو کے پانی کے ساتھ سارے گناہ ٹپکے

             دعا میں اس نے شراب مانگی تو

             تشنگی کے سراب چھلکے

            ستارے نیچے اتر کے آئے

             وہ ایک لمحہ

             شکستگی کے بدن کے با ہر

             وہ ایک لمحہ

            شکستگی کے بدن کے اندر

            وہ ایک لمحہ ہزار صدیوں کے بندھنوں سے نکل کر آیا

             وہ ایک لمحہ جو دسترس کے وسیع حلقوں سے دور رہ کر

             رطوبتوں میں بڑی تمازت سے مسکرا یا

             مقدروں میں ہزار لمحوں کے درمیاں جس کا تخت خالی

            لہو میں لت پت وہ ایک لمحہ

             وہ ایک لمحہ جو سر پٹکتا ہے پتھروں پر

             اس نظم کی جھلملی کیفیت ایسی ہے جیسے ہلال عید دیکھ لیا۔ پھر لگا کہ نہیں ، نظر دھو کا دے گئی ! پھر کبھی دو ہاتھ اِدھر، کبھی دو ہاتھ اُدھر، کچھ چمکا، مگر رویت کا یقین نہیں۔ سوائے چند پیکری نقوش کے نظم کے کوئی معنی ہاتھ نہ لگے۔ نظم اپنے نقش و نگار سے بڑا بھرم قائم کئے ہوئی ہے۔ تاہم کھل نہیں رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں چھٹی ’’نظم ‘‘ جس کا عنوان بھی ’’نظم ‘‘ ہی ہے۔ اپنا ابہام کھلنے کے اشارے رکھتی ہے۔ اس میں جس واقعے نے ذہن کو متاثر کیا ہے۔

             ریل کی پٹری پہ

            کس کے خون کے دھبے پڑے ہیں

            وہ آسیب کی طرح چھایا ہوا ہے اور شاعر نے اپنی فکری سر گرمی کو واقعے اور پیکر میں انسلا ک پیدا کرتے ہوئے کچھ نقوش بنائے ہیں ٰ۔ جو نظم کی ابتدا ہی سے ہیں۔ شناخت کے لئے اس نظم کا عنوان پہلی سطر کو بنا یا جا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے۔

خون اندھا ہو چکا ہے۔

خون اندھا ہو چکا ہے۔

            گوشت …

            بہرے گو شت کی دیوار کے سایے میں

             سورج سوچکا ہے۔

             چاندنی کی لاش ساحل پر پٹک کر

             را ت کا دریا اتر تا جا رہا ہے

             صبح کی چھاتی کا کچا دودھ مر تا جا رہا ہے

             روز کالی گھاس میں تم بیٹھتے ہو

             کیا تمہیں معلوم ہے

             اس سنگ دل دھرتی نے

             اپنے پیٹ میں کیا کیا چھپا رکھا ہے ؟بولو

            اپنے بستر سے اُٹھو

            دروازہ کھولو

            جس مکاں میں رات بھر آرام سے سو تے ہو تم

             اس مکاں میں

             خواہشوں کے بھوت

             لذت کی چڑیلیں

             جاگتے ہیں۔۔۔۔ جا گتی ہیں را ت بھر

             ان کے ہنسنے کی صدائیں

             ان کے رو نے کی صدائیں

             آسمانوں نے۔۔ زمینوں نے سنیں

             جلتے صحراؤں میں خوابوں کے دفینے

             ڈھونڈنے نکلے ہیں پر بت

             پر بتوں کی چوٹیوں سے

             برف نے آواز دی ہے۔

             ریل کی پٹری پہ

             کس کے خون کے دھبے پڑے ہیں

             سٹیشنوں پر۔۔۔

            ہاتھ میں آئینے لے کر

            کس کے استقبال کی خاطر کھڑے ہو

            اے ستو نو

             اس جگہ پر کیوں گڑے ہو

            کیوں …………؟

            یہ نظم ریل فساد سے متعلق ہے، جس میں یہ تاثر قائم کیا گیا ہے کہ اتنا بڑا حادثہ ہوا اور اسٹیشنوں کے ستون کھڑے کیوں رہ گئے ؟شاعر، جب وہ پوچھتا ہے ’’اے ستونو؍ اس جگہ پر کیوں گڑے ہو؍ کیوں۔۔۔ ؟ ہماری غر ت قومی کو چیلنج کرتا ہے۔ لیکن انداز بیان سیاسی نہیں بلکہ پوری طرح پیکری ہے، جو جدید شاعری کا خاصہ ہے۔ اس میں عادل کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پیکری استعارہ یا استعاراتی پیکر خلق کرتے ہیں۔ ایسا پیکر و استعارہ جو کبھی کبھی مماثلت پر نہیں ، مغا ئرت پر مبنی ہو تا ہے۔ جیسے صبح کاذب کے صبح صادق میں بدلنے کو وہ یوں بیاں کرتے ہیں۔ ’’صبح کی چھاتی کا کچا دودھ مر تا جا رہا ہے ‘‘ یہ فساد زدہ ہمارا شہر بہر ے گو شت کی دیوار ہے۔ دیواروں کے تو کان ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسے شہروں کے انسانوں کو قوت سماعت نہیں ہوتی بلکہ سارے حواس مر جاتے ہیں۔ را ت ہو نا نہ ہو نا کیا ہے۔ را ت ہو تی بھی ہے تو سکون و راحت کے لئے نہیں ، سنگین واقعات ہی کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند مر جھا رہا ہے اور چاندنی کی لاش کو ساحل پر پٹک کر رات کا دریا اتر تا جا رہا ہے۔ یعنی واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں اور خطر ناکی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ماؤں کی چھاتیوں کا کچا دودھ بھی مر تا جا رہا ہے۔ بظاہر تغیر صبح کی پیکر تراشی ہے لیکن بیانیہ میں ما فی الضمیر کا شدید کرب موجود ہے۔ جو حاملہ ماؤں پر فساد یوں کے حملے کا نتیجہ ہے۔ پھر ایک اجنبی استعارہ ہے۔ ’’رو ز کالی گھاس میں تم بیٹھتے ہو‘‘۔ ’’ کالی گھاس ‘‘ غالباً ظلم و بر بریت کی آما جگاہ یا غالباً ہوس رانی کا مقام۔ آگے سنگ دل دھرتی، پیٹ، بستر، دروازہ، مکان، خواہشوں کے بھوت، لذت کی چڑیلیں وغیرہ کا ذکر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’کالی گھاس ‘‘ استعارہ نہیں ، علامت ہے اور اپنے چند تلازموں کے سا تھ معنی کی سریت لئے ہوئے آئی ہے اور آگے مناظر کی جو تفصیل ہے، وہ بھی بر بریت کو مجسم کر دیتی ہے۔ کہ دو سروں کا مکان قبضہ کر کے ظالم لوگ آرام سے سوتے ہیں اور اپنی خواہشوں ، ہو س نا کیوں کے بھوتوں ، چڑیلوں کو را ت بھر کھل کھیلنے کی آزادی دیتے ہیں۔ جبکہ ان ہی کھیلوں میں رو نے ہنسنے کی بھی صدائیں اُبھرتی ہیں۔ جن کو آسمان و زمین سب سنتے ہیں۔ جنگل بیابان، پہاڑ اور ان کی چوٹیوں سے جاری ہو نے والی ندیاں سب اپنے اپنے طور پر خبر دیتی ہیں کہ انسانیت کا خون ہو ا ہے مگر بے حسوں کو اس کی مطلق پرواہ نہیں ہوتی۔ نظم کا یہ بیانیہ علم سماجیات کے ایک دانش ور کی حیثیت سے قائم کیا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن وہ دانش ور اصلاً ایک شاعر ہے۔ لہذا اس نے سماجی احتمالات کے ساتھ شاعرانہ اوصاف بھی پوری طرح برتے ہیں۔ ہر نقش متحرک ہے۔ موزونیت کے میزان میں داخلی قوافی نے، استفہامیہ نے ’’جاگتے ہیں ؍ جاگتی ہیں ‘‘ کے جدال نے ( جو بھوت اور چڑیلوں کے لئے الگ الگ افعال ہیں ) لطیف رنگ آمیزی کی ہے۔ ان سب پر طرہ ہے نظم کا بیک وقت فساد و جنس کا دو طرفہ لمس اور تناؤ نظم ’’ مسخ شدہ چہرے والا پانی ‘‘ اور’’ گو شت کی سڑکوں پر ‘‘ بھی فساد ہی سے متعلق معلوم ہو تی ہیں۔ دیکھیئے۔

مسخ شدہ چہرے والا پانی

             لمس کی دھنک ٹوٹے

            آسمانی پستانوں کے درمیان ڈولتی تیرگی

            خلا کے ہونٹوں میں جذب ہو

            جذب ہو ایک لمحے کا لہو

             روتی رہیں ہوائیں

            پیپ میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں منہ چھپائے

             روتی رہیں

             جلنے لگے سمندر کی گہرائیاں

             ڈھلنے لگے وسعتیں

             پگھلتی رہے ایک ایک سورج کی برف

             ستارے کینچلی اتارے

            پڑے رہیں نڈھال

             سر نہ تال

             کھو جائے

            دشاؤں کی گپھاؤں میں کھو جائے

             افق کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ

             با ز گشت نہ آہٹ

             سایوں کی دیواروں سے ٹکرائیں

             خواہش کی کرنیں

             ٹوٹ ٹوٹ جائیں

             بند آنکھیں ، کھلے ہونٹ

             بند آنکھیں ، کھلے ہونٹ

             لرزتے رہیں پرکھوں کے اندھیرے

             کھوکھلی ہڈیوں میں

             دھند لے سویر ے

             بھاپ بن کر اُڑے

             جسم کی گرمی

            کافی کے کپوں سے

             پانی میں عکس پڑے پانی کا

             پانی میں پانی

            مسخ شدہ چہرے والا پانی

             یہ جو مسخ شدہ چہرے والا پانی ہے۔ یہ اصلاً شہید کے چہرے کی آب، آن با ن، تمکنت ہے جس کی تمنا کی گئی ہے کہ ’’بند آنکھیں ‘‘ ’’کھلے ہو نٹ ’’ دھند لے سویرے ‘‘ کی طرح ہوں۔ نظم ابتدا سے انتہا تک تمنائی ہے اور جو نقوش بنائے گئے ہیں۔ وہ بھی شہیدوں کی سردھانجلی کے لئے ہیں۔ پھر لطف کی با ت یہ ہے کہ فضا بندیٰٰ کا تضاد ان کو زیادہ موثر بنا تا ہے۔ جیسے دیکھئے ’’بند ‘‘ ؍ ’’ کھلے ‘‘۔ ’’دھندلے‘‘ ؍ سویرے ‘‘ سمندر کی گہرائیوں کا جلنا، وسعتوں کا ڈھلنا بھی بیان کا نیا نقش ہے۔ نظم کی ان سطروں میں ’’لگے‘‘ غالباً کتا بت کی غلطی ہے ’’لگیں ‘‘ ہو نا چاہئے ( ماضی نہیں ، تمنائی)

            معاشرے میں اتنی جسم کشی ہوتی رہی ہے کہ ایک احساس شخص کو ایسا معلوم ہو تا ہے جےسچ وہ ’’گو شت کی سڑکوں پر ‘‘ چل رہا ہے۔ اس موضوع پر ایسا بیانیہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ جس میں فساد کی بو اور ریڈ لائٹ ایریا کی لذت دونوں شامل ہوں۔ لیکن عموماً جدید نظموں کا سروکار موضوعات کے فلسفوں سے کم اور موضوعات کے طرز پیش کش سے زیادہ رہتا ہے۔ عادل اوریجنل اور متحرک، ٹھوس، مر ئی نقوش بہت بتا تے ہیں اور متضاد صورت رکھ کے ابہام پیدا کر دیتے ہیں۔ نظم ’’گوشت کی سڑکوں پر ‘‘ مذکورہ بالا باتوں کی عمدہ مثال ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔

گوشت کی سڑکوں پر

             پھول با سی ہو گئے ہیں

             لمس کی شدت سے تھک کر

             ہاتھ جھوٹے ہو گئے ہیں

             اس جگہ کل نہر تھی اور آج دریا بہہ رہا ہے

            بوڑھا مانجھی کہہ رہا ہے

            خواہشوں کے پیڑ پر لٹکے ہوئے

             سایوں کو دیمک کھا رہی ہے

             وقت کی نالی میں

             سورج چاند تارے بہہ رہے ہیں

            برف کے جنگل سے شعلے اُٹھ رہے ہیں

            خواب کے جلتے ہوئے چیتے

             میری آنکھوں میں آ کر چھپ گئے ہیں

             گھر کی دیواروں پہ

            تنہائی کے بچھو رینگتے ہیں

             تشنگی کے سانپ

            خالی پانی کے مٹکے میں اپنا منہ چھپائے رو رہے ہیں

             رات کے بہکے ہوئے ہاتھی

            افق کے بند دروازے پہ دستک دے رہے ہیں

             ہاتھ چھوڑو

            ہاتھ میں کانٹا چبھا ہے

            تین دن سے پھانس اندر ہے

             نکلتی ہی نہیں

             نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو تم ؟

            جامع مسجد کے قریب!

            کہتے ہیں مسجد کے مینارے بھی تھے

             شہر میں اِک زلزلہ آیا تھا جس سے گر گئے

             گو شت کی سڑکوں پہ

             کالے خون کے سایوں کا سورج چل رہا ہے

             لذتوں کی آگ میں تن جل رہا ہے۔

            آپ دیکھ رہے ہیں کہ نظم میں باتیں اس انداز سے پیش کی گئی ہیں۔ جو معاشرے کی فرقہ وا ری مار کٹائی، پھولوں کی مسلاہٹ، خواہشوں کی تسکین لذتوں کی حرا رت وغیرہ کو ایک ساتھ نتھی کئے ہوئے ہے۔ ’’پھول با سی ہو گئے ہیں ؍ لمس کی شدت سے تھک کر ؍ ہاتھ جھوٹے ہو گئے ہیں ‘‘ ابتدا ہی میں جنسی اشارہ دیتے ہیں۔ بیوی سنے تو کہے کہ گھر میں سا س سسر ہیں ، کیا بکتے رہتے ہو۔ اور اگر کوئی یہ سطر سنا دے کہ ’’اس جگہ کل نہر تھی اور آج دریا بہہ رہا ہے ‘‘ تو سالی ہو یا سر ہج، وہ ناراض ہو جائے گی۔ مگر جب آپ تنہائی، تشنگی، بیخوابی، دشمنوں میں گھر نے اور نام ٹھکا نا پوچھے جانے کی باتیں سامنے لاتے ہیں۔ مسجد کے گرے ہوئے مینار ے، شہر کے زلزلے جو بھاری بم بلاسٹ کے ہو سکتے ہیں اور خون خرابے ے کا منظر پیش کرتے ہیں تو سر ہجوں اور سالیوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ شہر کے فساد کا ذکر مقصود تھا، جب فسادیوں کو گھروں میں آگ لگا کے، عصمت دری کر کے قتل و خون اور لوٹ پاٹ کر کے لذت ملتی ہے۔ اسی کی پیش بندی کے لئے باسی پھولوں یعنی مرجھائے جسموں اور ان کو اُٹھاتے اُٹھاتے تھکے ہوئے ہاتھوں اور خون کے دریا کے بارے میں بوڑھے مانجھی کا بیانیہ اور وقت کے گزران میں سورج چاند تاروں کے بہاؤ اور سر دی مہری و بے حسی کے نقوش بنائے گئے ہیں۔

             موضوع فساد ہے یا فساد نہیں ،جنس ہی ہے یا جنس نہیں ، فساد ہی ہے۔ لیکن لہجہ اتنا نرم، آرائشی اور شہوانی ہے کہ بظاہر پتہ ہی نہیں چلتا کہ مرادِ شاعر کیا ہے ؟وجہ یہ ہے کہ عادل کے مختلف سمت کے معنی کو مختلف سمت کے الفاظ میں پر و دیتے ہیں۔ مثلاً ’’برف کے جنگل سے شعلے اُڑ رہے ہیں ’’( یعنی سردی مہری انتہا پر ہے) یہ ’’شعلے ‘‘  خنکی ہی ہے۔ لیکن کیا متضاد صورت ہے ! یہ دیکھ کر ’’خواب کے چلتے ہوئے چیتے ؍ میری آنکھوں میں آ کر چھپ گئے ہیں ‘‘اب غور کیجئے کہ جس کی آنکھوں میں نیند یا تمنا کے برننگ برائٹ ٹائیگر پناہ لیں وہ جاگا ہوا بے چین نظر آئے گا یا سو یا ہوا آسودہ و بے نیاز؟ساری را ت تو آنکھوں میں کٹ گئی کیونکہ گھر کا حال بھی ایسا ہے کہ دیواروں پر تنہائی صرف بر ستی نہیں ہے بلکہ خطرناک صورت یہ ہے کہ تنہائی کے بچھو رینگتے ہیں اور تشنگی کے سانپ پانی والے خالی مٹکے میں دُبکے روتے رہتے ہیں۔ گو یا فسادیوں سے موذی جا نور بھی پناہ مانگتے ہیں مگر بیان کنندہ کا حال تو اور بھی شدت سے خراب ہے کہ اس کو باہر کی مصیبتوں کے ساتھ اندر کی مصیبتوں کا بھی سامناہے۔ یہ بھی دینے لائق بات ہے کہ رات کو بہکا ہوا ہاتھی کہا ہے۔ رات بہکی ہوئی کہنے سے بات نہ بنتی ہے۔ ہاتھی، ہاتھ، دروازہ، دستک، یہ زنجیر رعایت ہے۔ لیکن عادل روایتی نظموں کی طرح آغاز عروج، انجام اور مربوط بیانیہ کی پروا نہیں کرتے۔ بس جس رو سے خیالات آتے ہیں وہ نقوش بناتے چلے جاتے ہیں وہی ان کے مضامین نظم ہو تے ہیں اور معنی ان سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ شاعر کی مافی الضمیر اور نظم کے ما فیہا کو غور کر کے سمجھنا پڑتا ہے۔

             ایک دو باتیں اور کہنے کی ہیں  یہ نظم ملاحظہ کیجئے :

موت : ایک سرریلسٹ تجربہ

            کھر پچھاڑ کر، دم اچھال کر دوڑے

            ڈمر کا لے گھوڑے، سفید چٹانی رتھ جوڑے

             بھڑکے چھاتی سامنے، آدھے بند کروں کو اڑ

            دھڑ دھڑ دھڑ دھڑ آ کر سیدھے ٹکرائے، دھاڑ ………….. !

            پلکیں توڑ یں ، توڑیں چٹانیں

             کھوپڑیوں کی کرچیوں میں گہرائی میں آنکھ میں جا کر سوئے

             ملا جلا جہاں ملبہ پڑا وہاں گول گو ل میں گھوموں

             میری اور گھوڑوں کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں جھک جھک جھانکوں

             اندر سے وہاں

             کہاں ؟ کہاں ؟ کہاں ؟ کہاں ؟

            کھڑ پچھاڑ کر، دم اچھا ل کر دوڑے

             ڈمر سفید گھوڑے، قضا نے چٹانی رتھ جوڑے۔

            یہ نظم اصل میں گجراتی زبان کے شاعر سیتا، نشو لیشس چند نے گجراتی میں لکھی تھی۔ عادل نے ترجمہ کیا ہے جیسا کہ انہوں نے بتا یا ہے اور اردو لفظوں پر اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ نظم کا موضوع موت ہے۔ لیکن موت پر کوئی دانش ورانہ بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ موت کے تصور سے احساسات کے جو پیکر ذہن میں اُبھر ے ہیں۔ ان کو نہایت تحریک اور شدت سے ایک تلازمۂ  خیال پر ودیا گیا ہے۔ موت کو ڈمر کا لے گھوڑے اور تکفین کے بعد میت کو جبکہ اسے کھاٹ میں رکھ کے لوگ لے چلیں ، سفید چٹانی رتھ کہا گیا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر شاعر جو تجربہ حاصل کر تا ہے اس کو اس نے سر ریلسٹ تجربہ کیا ہے۔ کیونکہ تحت نفسی خیالات اپنے زور پر آنے لگتے ہیں۔ چھاتی کا بھڑکنا،آنکھوں کی نیم با زی اور پپوٹوں کا ٹکرا نا، ٹکرانے کی آواز اور شکست جسم اور اُس آواز کا جان کی گہرائیوں میں سو جا نا، گو یا جسم کے ملبے کا خود ہی اندر سے مشاہدہ کر نا اور پھر اس سے دو چار ہو نا اور اس کالے گھوڑے کی طرح کھر پچھاڑ کر، دُم اُچھال کر دوڑنے بھا گنے پر پو چھنا کہ کہاں کہاں کہاں کہاں دوڑے،واقعی موت کا بڑا زندہ اور شعوری تجربہ ہے۔ جب جسم سے رو ح نکل گئی تو جسم اب سفید ہو گیا۔ یعنی موت (کالے گھوڑے ) نے مر دہ جسم کو سفید گھوڑا بنا دیا۔ شاعری نے چونکہ عنوان نظم میں ایک اشارہ دے دیا ہے۔ اس لئے اتنی گفتگو ہو بھی گئی۔ ورنہ سر ریلز کو سمجھنا نہا یت مشکل تنقیدی مر حلہ ہے اور میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اصول تنقید کی رو سے اس کا قدرتی محاکمہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس طرح کی شاعری کبھی کبھی جو تاثر قائم کر تی ہے اس کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

            ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی نے عادل منصوری کی نظموں کے بارے میں لکھا ہے کہ :۔

            ’’…شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نے دور و نزدیک کے ایسے سر چشموں کے گہرے پانی سے بھی اپنی نظم کی آبیاری کی جو عام اُردو شاعر کی دسترس میں نہ تھے۔ مثلاً ایک طر ف تو انہوں نے اور صرف انہوں نے ایسی نظمیں کہیں جنہیں سر ریلزم سے متاثر خود کار تحریر یا جذبے کے آزاد تلازمات پر بنائی ہوئی وضع سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور دو سری طر ف ان کے تخئیل اور فکر کے عمل تقطیر سے اسلامی مذہبی تصورات، استعارے اور حکایات بھی وقتاً فوقتاً ایسی نظموں میں در آتے ہیں۔ جن کا برا ہ را ست سر چشمہ بظاہر سرریلزم کی خود کار تحریک کے انداز میں تلاش کیا جا سکتا ہے …‘‘

            فاروقی کی یہ دریافت بالکل صحیح ہے کہ عادل نے شعوری یا غیر شعوری طور پر دور و نزدیک کے سر چشموں سے اپنی نظموں کی آبیاری کی ہے۔ لیکن سر ریلزم (Surrealism)کو شاعری میں بر تنا شاعری اور شاعری کے قاری دونوں کی آزمائش ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ یہ ادبی تنقید کو تحکمانہ انداز میں بے وقعت بنا تا ہے اور شاعری کے اصل مقصد، تخلیقِ  حسن کو دبا دیتا ہے۔ یہ دب گئی تو تفہیم حسن بھی دب گئی۔ بہر حال، فاروقی نے جن سر چشموں کی نشاندہی کی ہے۔ ہند و آستھا اور وشواس میں تجسیم کی بڑی اہمیت ہے۔ کسی خیال کو نرا کار مت چھوڑو، ہر مفروضے کو ایک آکار دے دو۔ عادل نے اس سر چشمے سے بھی خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ ہر بات میں ان کی پیکر سا زیاں شیوۂ بت گری کی مثالیں ہیں۔ علاوہ بریں ، انہوں نے سر چشمے کی فکریات بھی پیش کی ہیں۔ ایسی کئی نظموں میں سے ایک چھوٹی سی نظم ملاحظہ کیجئے۔

ویدنا کو کس طرح آکار دو گے

             ویدنا کو کس طرح آکار دو گے

             کالی گھٹناؤں کی کڑوی شونیتا کو

             کس طرح دھتکار دو گے

             تم ستاروں کے پجاری

             سوریہ پر وشواس کیسے رکھ سکو گے

             سور یہ تو سا کچھا اگنی

             گھومتا ہے میری رگ رگ میں لہو بن کر

             تم کشیتج کے ٹوٹنے کی کیوں پرتکشا کر رہے ہو

             ہو سکے تو یوں بکھر جانے سے پہلے

             اپنا استی تو بچا لو

             دنبھ سے دامن چھڑا لو

             صاف ظاہر ہے کہ دکھ جو ایک احساس ہے۔ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے اور شاید اسی وجہ سے دو سروں کے دکھ کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے۔ قابل فہم ہونے کے لئے ایک ہئیت چاہتا ہے۔ مگر اس کو کوئی ہئیت نہیں دی جا سکتی۔ البتہ موت کی جو گھٹنائیں ہوتی رہتی ہیں ان کا انکار کسے  کیا جا سکتا ہے۔ تو موت کو دھتکار انہیں جا سکتا۔ جو لوگ تاریکی کے حمایتی اور اس نسبت سے ستاروں کے پجاری ہیں۔ یعنی ظلمت پر ست ہیں وہ روشن آفتاب کا یقین کس طرح کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ تو مجسم آگ ہے۔ اس سے زندگی کی حرارت ہے۔ تو جو لوگ ویدنا کو ساکچھات، دیکھ نہیں سکتے۔ وہ اپنا وجود بھی نہیں بچا سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں دنبھ، ہے۔ اس لئے وہ دکھ کو دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ اسے محسوس بھی کر نا نہیں چاہتے۔ لہذا ایسے لوگ آسمان و زمین کے سنگم کے ٹوٹنے بکھرنے کا انتظار کیا کرتے ہیں۔ وہ تو اِس ٹوٹ پھوٹ کے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر جا تے ہیں۔ کیونکہ آدمی کا دنبھ ہی اس کو لے بیٹھتا ہے۔ ہندو دیو مالا اور ہندوستانی سیاسی فسادات کے پسِ منظر میں یہ نظم بہت کچھ کہہ جاتی ہے۔

             میں ’’ شونیتا ‘‘ سے واقف نہ تھا۔ اپنے مخلص دوست پرو فیسر انعام الحق، جو مر زا غالب کا لج گیا میں شعبۂ  ہندی کے صدر ہیں، سے رجوع ہوا۔ انہوں نے مستند ہندی لغات دیکھ کر بتایا کہ یہ ’’ سونیتھا ‘‘ ہوسکتا ہے۔ ہندو دیو مالا میں موت کی بیٹی ہے۔ اگر ہم ان کی بات نہ مانیں تو بھی ’’شو نیتا‘‘ بڑی شین سے نہ ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے بتا یا کہ ’سونیتا‘ کے معنی اچھی طرح سے لے جانے والی کے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کالی گھٹناؤں یعنی حادثات سے دو چار ہونے پر موت کے فرشتے آ جائیں اور وہ بڑے کڑوے بیوہار کریں تو ان کو بھی کس طرح دھتکار ا جا سکتا ہے۔ اب وہ موت کی بیٹی ہو یا موت کا فرشتہ ہو۔ اس سے دو چار تو ہو نا ہی ہے۔ مگر موت کی بیٹی میں جو تحسیم ہے۔ اس کا جو آکار ہے وہ فرشتۂ موت میں نہیں ہے۔ یہ لفظ ’’شونیتا ‘‘ عادل کی ایک اور نظم میں بھی آیا ہے نظم دیکھئے :۔

پرانی تاریخ کا دروازہ کھولنے کی تمنا

            مجھ کو اپنا گر بھ جیون یاد ہے

             آج بھی چمڑی کے نیچے جاگتی ہے

             جنم پل کی ویدنا

             شونیتا کی چہار دیواری میں

             بہرے اندھکاروں کا ولاپ

             میری قسمت میں لکھا ہے سو رج کا شراپ

             کا ش کوئی پھر مجھے

             سپرش کی اندھی گپھا میں پھینک دے

             اس نظم میں بھی ہندو دیو مالا ہے۔ سو رج کا شراپ ( جدید ہندی میں شاپ ہے ) اندھکار کو ہے کہ تمر وشنی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ اور موت کی چہار دیواری میں تاریکی  ہی تاریکی ہے۔ اس لئے اندھکار  ولاپ کر تے رہتے ہیں۔ لیکن جس آدمی کو ماضی اچھا لگتا ہے تو وہ جنم پل کی ویدنا کو محسوس کر تے ہوئے اپنا کربھ جیون بھی یاد کر سکتا ہے۔ وہ حال کے سورج کی چمک دمک ہی کو اپنے لئے شاپ سمجھتا ہے۔ اس لئے وہ لمس اور احساس کے ماضی ہی کو پسند کر تا ہے۔ خواہ وہاں تاریکی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس طرح، نظم حال سے بہتر ماضی کے تصور کو تا زہ کرتی ہے۔ اس پس منظر میں وہ نظم بھی ملاحظہ کیجئے جسے عادل نے گجراتی زبان میں لکھی تھی اور خود ہی اس کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ نظم یہ ہے۔

پلیٹ فارم کی بھیڑ میں

             پلیٹ فارم کی بھیڑ میں

             پچھلے جنم کے چہرے والا آدمی

             مجھے گھور رہا ہے

             یا گھورتی بھیڑ سے

             پچھلے جنم کا پلیٹ فارم

             میرا چہرہ ڈھونڈ رہا ہے

             یا پلیٹ فارم کے چہرے میں

             پچھلے جنم کی بھیڑ کو

             میں گھور رہا ہوں

             نظم میں آؤاگون کی بات نہیں۔ بلکہ ماضی کی دریافت کا معاملہ ہے۔ جس ہندی نثر اد کو اپنا کربھ جیون زیاد رہ سکتا ہے وہی پچھلے جنم کے چہرے والے آدمی کو پہنچا سکتا ہے اور پچھلے جنم کے پلیٹ فارم کی بھیڑ کو گھور سکتا ہے۔ نیز، یہ شعور صرف اسی کو ہو سکتا ہے،کہ پچھلے جنم کا پلیٹ فارم اور اس کی بھیڑ اس کو پہچاننے کی کوشش میں ہے۔ یہ ماضی کو چھونے، پہچاننے اور اپنی انفرادیت کو بر تنے کی بین مثال ہے۔ جب لوگ ادب میں اجتماعی نظریات پر بہت زور دے رہے تھے تو گو یا وہ پلیٹ فارم کی بھیڑ تھی جس کی سمت اور منزل ایک نہیں ہوتی بلکہ واقعتاًاس میں انتشار ہو تا ہے۔ عادل نے اس پر ضرب لگائی ہے۔ نظم میں کئی جہتوں سے گھور نے کے جو امکانات رکھے ہیں۔ وہ یہ اشارہ کر تے ہیں کہ ادب کی اجتماعیت ہی حتمی نہیں ہے۔ بلکہ انفرادی رجحانات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر فردی خوبی ( Individual Talent) روایت (Tradition)سے کٹ کر نمو پذیر نہیں ہو سکتی۔ دور جدید کی بے چہرگی کی اذیت سے ہار داؤد ے کر آج کے انسان نے، جو بہت حساس اور با شعور ہے۔ تاریخ سے اپنی شناخت قائم کر نے کی تمنا نہیں چھوڑی ہے۔ تاریخ پچھلے جنم کی طرف مراجعت کا وسیلہ ہے۔ اس وسلےا میں آکار یاں سا کچھا ت یا پیکر کا اہم کر دار ہو تا ہے۔ اس لئے شاعر بھی ہر تخئیل کو مرئی شکل دیتا ہے۔ اس میں اس کا اسلامی عقیدہ کبھی مخل نہیں ہوسکتا۔

٭٭٭

فائل کے لئے تشکر: القلم لائبریری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی