فہرست مضامین
انبیاءؑ اور الہامی کتابیں
بچوں کے لئے
ہارون یحیٰ
ہمارے سارے نبی
اللہ تعالیٰ نے ہمیں غور و فکر اور تدبر کی صلاحیتیں اس لئے عطا کی ہیں تاکہ اس کی وجہ سے ہم اس کائنات میں بکھری نشانیاں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو پہچان سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی کیا منشاء(چاہت،مرضی) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ سب الہامی کتابوں کے ذریعے انسان تک پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا انتخاب کیا۔ ان پیغمبروں نے اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے لوگوں کے لئے مثالیں قائم کیں۔ پیغمبروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے اپنا پیغام وحی کے ذریعے نازل کیا۔ اس بات کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے کتنے پیغمبر بھیجے ، لیکن اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق تین سو تیرہ پیغمبر بھیجے گئے۔ اسی طرح کچھ روایات کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ چو بیس ہزار ہے۔ ہم صرف ان انبیاء کے نام جانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ قرآنِ کریم انسانوں کی ہدایت کے لئے آخری الہامی کتاب ہے۔ اس قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قابل بنایا تاکہ ہم انبیاء کی زندگیوں کے بارے میں جان سکیں اور ان مثالوں کو اپنی زندگیوں میں اپنا سکیں۔ وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور یہ کہ ہمیں اس دنیا میں کسی قسم کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ صرف وحی کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچا اور ہمیں یہ پتہ چلا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں اور کون سے بُرے اور یہ کہ قرآنی اخلاقیات و اقدار کیا ہیں۔ یہ وحی کا ہی علم ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ کونسا ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کے حقدار قرار پائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے اعمال کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی۔
قرآن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ تاریخِ انسانیت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام کی طرف پیغمبر مبعوث فرمائے۔ انہوں نے اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف مدعو(دعوت دی) کیا اور دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کو مانو اسی کی عبادت کرو اور اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کو نہیں مانو گے تو پھر اس کی طرف سے عذاب کا انتظار کرو۔ ان انبیاء نے منکرین کو خبردار کیا اور اُن لوگوں کو بھی جو کہ مختلف اقسام کی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے،اس کے علاوہ قرآن پاک میں مومنین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام اور مغفرت اور رحمت کی خوشخبری بھی دی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لئے آخری نبی ہیں اور اس طرح قرآن آخری الہامی کتاب ہے۔
گزشتہ الہامی کتابیں اپنی اصلیت کو برقرار نہ رکھ سکیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا اور دوسرا یہ کہ کچھ جاہل اور بدنیت لوگوں نے ان کتابوں میں رد و بدل کر دیا اور ان میں ذاتی رائے شامل کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں آج اپنی اصلی حالت میں نہیں ہیں جیسا کہ اصل میں نازل کی گئیں تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف قرآن پاک نازل فرمایا اور پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا ۔اس لئے اسے بدلنا ناممکن ہے کیونکہ یہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے اور پھر بعد میں آنے والے مسلمانوں کے ذریعے قرآن پاک کی حفاظت کی۔ قرآن پاک اتنا واضح اور آسان ہے کہ ہر کوئی اس کو سمجھ سکتا ہے۔ جب ہم قرآن پاک کو پڑھتے ہیں تو ہمیں فوراً یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے اور یہ وہ واحد الہامی کتاب ہے جس پر عمل کرنے کی ذمہ داری قیامت تک آنے والے لوگوں پر ہے۔
آج تمام مسلمان چاہے وہ جہاں کہیں بھی بستے ہیں اسی قرآن کو پڑھتے ہیں۔ اس کے کسی زیر اور زبر میں بھی کمی بیشی نہیں ہوئی ۔ قرآن پاک حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ،اس کو حضرت ابو بکرؓ نے ترتیب دیا۔ بعد میں اس کے نسخے حضرت عثمانؓ نے تیار کروائے۔ اُس وقت سے اب تک 1400سال گزر چکے لیکن آج بھی وہ قرآن پاک ویسا ہی ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول کے درمیان پیغام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح قرآن روزِ اول میں نازل ہوا آج بھی اسی طرح حفاظت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بد لوگوں سے اس کی حفاظت کی ہے جو کہ اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔
’’ بے شک یہ کتابِ نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں’‘ (الحجر: ۹)
اس آیت میں لفظ ’’ہم’‘ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔وہی قادرِ مطلق ہے، ہر شئے کا خالق ہے۔ وہ اول سے ہے اور آخر تک رہے گا۔ہر وقت موجود ہے اور اس کا علم ہر شئے کا احاطہ کیے ہوے ہے۔ کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ’’میں’‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور بعض اوقات ’’ہم’‘ ۔عربی زبان جو کہ قرآن پاک کی زبان ہے، اس میں ہم کا لفظ بھی واحد کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ استعمال کرنے والا بڑی طاقت کا مالک ہو۔ جاہ و جلال کا مالک ہو، بڑی قدرت والا ہو، بادشاہ ہو اور سننے والے پر اپنی یہ تمام خصوصیات ظاہر کرنا چاہتا ہو۔ یہ الفاظ انگریزی میں بھی استعمال ہوتے ہیں، جیسے ’’The Royal We’‘ ( بادشاہ یا ملکہ کے اپنے لئے استعمال کیے جانے والے الفاظ جیسے ہم یا ہمارا) اس کتاب کے باقی حصوں میں ہم قرآنِ پاک کی آیات اور سورتوں کا حوالہ دیں گے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے بہتر کلام کس کا کلام ہو سکتا ہے، یہ کلام اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نازل فرمایا ہے جو کہ ہمیں ہم سے زیادہ بہتر جانتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور ہم مخلوق وہ ذات لامحدود ہے اور ہم محدود ۔ محدود لا محدود کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی منشا ہے کہ انسان انبیاء ؑ کی زندگی کی مثالوں سے سبق حاصل کریں اور ان کی زندگیوں کو اپنائیں۔
ایک آیت میں اس طرح فرمایا :
’’ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’‘(یوسف: ۱۱۱)
اس آیت میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ ایسے ہیں جو کہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جو غور و فکر کرتے ہیں،جو تدبر کرتے ہیں،جو سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ،جو استدلال رکھتے ہیں اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن اقوام کی طرف انبیاء ؑ مبعوث فرمائے اب ان اقوام کے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کے لیے ذمہ دار ہیں اور اس بات کے بھی ذمہ دار ہیں کہ اس پیغام پر عمل بھی کریں۔ واضح پیغام آنے کے بعد قیامت کے دن لوگ کسی قسم کے بہانے نہیں کر پائیں گے۔،کیونکہ انبیاء ؑ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بڑے احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچا دیا اور یہ کہ لوگوں کو خالق و مالک کا تعارف بھی کروا دیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ مالک کی منشا (چاہت)کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس بھی یہ پیغام پہنچا وہ اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے۔
’’سب پیغمبروں کو خدا نے خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا تھا تا کہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے اور خدا غالب حکمت والا ہے ‘‘ (سورۃ النساء: ۱۶۵)
اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر لوگوں کے کئی گروہ پیدا کیے ۔ ان میں سے کچھ گروہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کر دہ پیغام کو ماننے سے انکار کیا اور بعض نے پیغمبروں کو ماننے سے ہی انکار کیا۔ان لوگوں نے پیغمبروں کے لائے ہوئے پیغام پر لبیک نہیں کہا اور ان کو جھٹلایا اور اس طرح وہ سزا کے مرتکب پائے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان باغی لوگوں کو اس دنیا میں ذلت کی زندگی سے خبردار کیا۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ مسلسل انبیاء کی توہین کرتے رہے۔ ان کا مذاق اڑایا۔ مزید برآں بعض اوقات ان لوگوں نے اپنی بغاوت کی انتہا کر دی اور حتیٰ کہ اپنے انبیاء ؑ کو قتل تک کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سزا دی اور پھر اللہ تعالیٰ ان کی جگہ اور لوگوں کو لے آیا۔ ان گروہوں کے بارے میں قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا۔ جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے اور ان پر آسمان سے لگا تار بارش برسائی اور نہریں بنا دیں جو ان کے مکانوں کے نیچے بہہ رہی تھیں۔ پھر ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا اور ان کے بعد اور امتیں پیدا کر دیں’‘۔ (سورۃ الانعام: ۶)
بعد ازیں ابواب میں ہم انبیاء ؑ کے مثالی طرز عمل پر طول کلامی کریں گے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان باغی امتوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے صرف کی۔
پہلا انسان اور پہلا نبی:حضرت آدم علیہ اسلام
جیسا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ جب ہم انسان کی تخلیق کے بارے میں بات کر رہے تھے تو ہم نے کہا تھا کہ زمین پر پہلے انسان حضرت آدم ؑ تھے اور حضرت آدم ؑ ہی پہلے نبی بھی تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی امت سے ہی انبیاء ؑ کا سلسلہ شروع کیا اور زمین پر جو پہلی امت بنائی اس کو بھی راستہ یعنی ان کا دین سکھایا اور یہ بھی سکھایا کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے کیسے بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو مختلف چیزوں کے نام سکھائے، اس کے بارے میں قرآن پاک کی اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔
’’اور اس نے آدم ؑ کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔۔۔۔۔۔’‘ (البقرہ: ۳۱)
یہ یقیناً نہایت اہم بات ہے کہ جانداروں میں صرف انسان ہی ہے کہ جس کو بولنے کی یعنی بیان کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا ہے۔بیان کی قوت اور خاصیت صرف انسانوں تک محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لا کھ شکر اور کرم ہے کے اس نے حضرت آدم ؑ کو یہ صلاحیت عطا کی۔ اس طرح انسان اس قابل ہوا کہ وہ اپنے ارد گرد مختلف چیزوں کے نام جان سکے اور ان کے مختلف نام رکھ سکے۔
حضرت آدم ؑ کے بعد آنے والی نسلوں کے لوگ بھی بیان کی قوت کے مالک تھے۔ وہ بول سکتے تھے۔ ان کے بھی احساسات و جذبات تھے۔ وہ بھی افسوس کرتے یا خوش ہوتے یعنی غمی اور خوشی کا اظہار کرتے ۔ انہوں نے پہننے کے لئے لباس تیار کیا ۔مختلف اقسام کے آلات اور چیزیں بنائیں جنہیں وہ روز مرہ استعمال میں لاتے تھے۔ ان میں موسیقی اور آرٹ کے بارے میں شوق موجود تھا۔
قدیم انسانی تہذیبوں کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ موسیقی کے آلات جیسے بانسری، اس کے علاوہ دیواروں پر ڈرائنگ اور دوسری چیزوں کو استعمال کرتے تھے۔ لہٰذا وہ لوگ بھی ہماری طرح کے ہی انسان تھے۔ با الفاظِ دیگر کچھ لوگوں کے دعوے کے برعکس پہلے انسان بھی جنگلی مخلوق نہ تھے جیسے کہ آدھے بندر اور آدھے انسان وغیرہ۔
آپ جانتے ہیں کہ بندر اور دوسری جاندار اشیاء میں انسان کی طرح الفاظ کو استعمال کرنے،بولنے اور بیان کرنے کی قوت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام خصوصیات صرف انسان کو ہی خاص طور پر بخشی ہیں (اس مضمون پر مزید معلومات کے لیے آپ ہارون یحیی کی کتاب ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے کرشمے ‘‘ سے رجوع کر سکتے ہیں)
کچھ لوگ اب بھی یہ نہیں مانتے کہ پہلے انسان حضرت آدم ؑ تھے اور اس سلسلے میں اپنے اپنے دعوے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے پہلے انسان کے بارے میں عجیب و غریب جھوٹی تصویر کشی کی ہوئی ہے۔ ان کے خیالیاتی نظر یے کے مطابق انسان اور بندر ایک ہی آباء و اجداد کی اولاد ہیں۔ یعنی ان کے آباء و اجداد مشترکہ ہیں اور انسان کی موجودہ حالت مختلف ارتقائی منازل طے کر کے یہاں تک آئی ہے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ یہ غیر معمولی سلسلہ کس طرح رونما ہوا تو وہ ایک ہی جواب دیتے ہیں ’’یہ اچانک ہوا ‘‘ اگر آپ ان سے یہ سب ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت مانگیں تو وہ لاجواب ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا ان کے پاس کوئی ایک بھی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ انسان کسی دوسری مخلوق سے ارتقاء پذیر ہوا ہے ۔ اگر آپ ان سے سوال کریں کہ ’’ یہ ماضی کی باقیات کیا چیز ہیں؟’‘ تو اس کے لئے ان کا جواب تیار رہتا ہے۔ کچھ جاندار اشیاء جب مر جاتی ہیں تو یہ اپنے پیچھے نشانات چھوڑ جاتے ہیں ان کے یہ نشانات جنہیں ہم فوسلز کہتے ہیں، یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں سال بغیر تبدیلی کے زمین کے اندر رہتے ہیں،تاہم یہ واقعہ رو نما ہو نے کے لئے جاندار اشیاء کو اچانک کسی آکسیجن کے بغیر ماحول میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک پرندہ لاکھوں سال تک ریت کے ڈھیر کے نیچے دب جائے اس طرح وہ موجودہ زمانے تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔
اسی طرح درختوں سے خارج شدہ ایسے مادے ہیں جنہیں ریزش، نباتاتی گوند یا بعض اوقات اسے گندہ بہروزہ کہتے ہیں۔ بعض اوقات اس شہد کی طرح مادے نے کسی حشرات کو ڈھانپ لیا اور ایک سخت مادے کی شکل اختیار کر گیا جیسے کہرُبا (درختوں کا پتھرایا ہوا شفاف گوند) کہتے ہیں،جس نے ان مردہ حشرات کو لاکھوں سال تک محفوظ رکھا۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم زمانہ قدیم کی جاندار اشیاء کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے ہیں یہ باقیات ’’فوسلز’‘ کہلاتے ہیں۔ وہ حضرات جو اس نظریے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلا انسان بندر نما مخلوق سے وجود میں آیا وہ آج تک اپنے اس دعوے کا ثبوت پیش نہ کر سکے۔ باالفاظِ دیگر آج تک کسی کو ایسا فوسل نہیں ملا جو کہ اس غیر معمولی مخلوق یعنی آدھے انسان اور آدھے بندر سے ملتا جلتا ہو۔ لیکن ان لوگوں نے جھوٹے فوسل تیارکیے اور ان کی بے بنیاد تصاویر بنائی تا کہ وہ اپنے جھوٹ پر پردہ ڈال سکیں اور اس طرح انہوں نے یہ تصاویر سکولوں کی کتابوں میں بھی چھپوائیں۔
آہستہ آہستہ ارتقاء پسندوں کے جھوٹ اور فریب سے پردہ اٹھتا گیا اور یہ لوگوں میں سائنسی فریب کے نام سے مشہور ہو گے ۔ ان کو ’’نظریہ ارتقاء کی فریب کاریاں’‘ بھی کہتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ بے عقل اور ضدی تھے۔ اس لئے ان لوگوں کے لئے یہ قبول کرنا نہایت مشکل تھا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود ہے یا اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہو رہی ہے لیکن ان میں سے آج بھی کچھ لوگ باقی ہیں جو کہ اپنے پُر نقص اور باطل نظریے کا پر چار سکولوں میں اور کتابوں ، رسالوں اور اخباروں کے ذریعے کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ان پر عیب نظریات پر یقین دلانے کے لئے وہ مختلف قسم کی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا ہم اس سلسلے میں ہر ایک ریسرچ اور عقلمند سائنسدانوں کے سائنسی تجربات اور شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ بندر کبھی بھی ارتقاء پذیر ہو کر انسانی شکل نہیں بن سکتا۔
حضرت آدم ؑ ہی وہ پہلے انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بنایا وہ بالکل ویسے ہی تھے جیسا کہ دور حاضر کا انسان ۔ حضرت آدم ؑ کسی بھی صورت مختلف نہ تھے یہ وہ حقائق ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے انسان کو بتائے ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت آدم ؑ کے بارے میں ایک اہم پہلو بھی بتایا یعنی حضرت آدم ؑ اور انسانوں کے دشمن شیطان کا قصہ ہے۔
٭٭٭
انسان کا عظیم دشمن :شیطان
ہو سکتا ہے کہ آپ نے پہلے ہی شیطان کے بارے میں سن رکھا ہو ۔ لیکن کیا بچو آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بھی آپ کو جانتا ہے اور آپ کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے؟آپ کو پتہ ہے کہ شیطان جو کہ آپ کا دوست بننے کی کوشش کرتا ہے وہ آپ کو دھوکہ دیتا ہے ۔ آئیے ابتداء سے کہانی شروع کریں کہ شیطان ہمارا دشمن کیوں ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم اپنی توجہ قرآن پاک میں آدم ؑ اور شیطان کے قصے کی طرف کریں گئے۔
قرآن پاک کے مطابق ہر اس شئے کا نام شیطان ہے جو کہ قیامت تک انسان کو گمراہی کے راستے پر چلاتی رہے گی۔ ابلیس ہی وہ سب سے بڑا دشمن ہے کہ جس نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی جبکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پہلے انسان یعنی حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا۔
قرآن پاک کی آیات کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا تو سب فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرو۔ تمام فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتے ہوئے حضرت آدم ؑ کو سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔اس نے سجدہ نہ کرنے کی توجہی یہ پیش کی کہ وہ حضرت آدم ؑ کے مقابلے میں اعلیٰ مخلوق ہے۔ حضرت آدم ؑ ادنیٰ مخلوق ہیں۔ اس کی اس نا فرمانی ، گستاخی اور بے ادبی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا اور اسے مردود قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کے دربار سے جانے سے پہلے اس نے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی تا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر سکے اور حضرت آدم ؑ اور اس کی نسل سے اپنی بے عزتی کا بدلہ چکا سکے۔اس مہلت لینے میں ابلیس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا اور ان کو صراط مستقیم سے ہٹانا ہے وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اپنی طرح کا بنا لے ۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ وہ شیطان کو اور اس کے گروہ کو جہنم کی آگ میں ڈالے گا۔ یہ تمام واقعہ قرآن پاک میں مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
’’اور ہم ہی نے تم کو ابتدا میں مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری شکل صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا ۔ لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے میں شامل نہ ہوا اللہ نے فرمایا جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے باز رکھا اس نے کہا کہ میں اس سے افضل ہوں مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔فرمایا تو بہشت سے اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں غرور کرے پس نکل جا ۔ تو ذلیل ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرما جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے فرمایا اچھا تجھ کو مہلت دی جاتی ہے۔ پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے۔ میں تیرے سیدھے رستے پر ان کو گمراہ کرنے کے لئے بیٹھوں گا۔ پھر ان کو آگے سے اور پیچھے سے دائیں سے اور بائیں سے غرض ہر طرف سے آؤں گا اور ان کی راہ ماروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نکل جا یہاں سے پاجی مردود جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے میں ان کو اور تجھ کو جہنم میں ڈال کر تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا’‘ (سورۃ الاعراف: ۱۱ ۔ ۱۸)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود اور ذلیل ہونے کے بعد شیطان قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔تب سے شیطان فریب کاری اور بڑی منصوبہ بندی سے انسانوں کو گمراہ کر رہا ہے اور اس سلسلے میں انوکھے طریقوں سے انسان کو صراط مستقیم سے بٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا آپ کو اس کے مکر و فریب کی چالوں سے بچنے کے لیے ہوشیار رہنا ہو گا۔ یہ مت بولیئے کہ شیطان اس وقت بھی آپ کو گمراہ کرنے کے لئے گھات لگائے ہوئے ہے۔ وہ آپ کو اس کتاب کے پڑھنے سے روکے گا اور آپ کے خیال میں ڈالے گا کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے ۔ وہ آپ کے اچھے اعمال کرنے میں رکاوٹ بنے گا اور کوشش کرے گا کہ آپ بڑوں کی عزت نہ کریں اور ان کی نافرمانی کریں اور وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے بھی روکے گا اور اسی طرح آپ کو نماز سے اور ہمیشہ سچ بولنے سے بھی روکے گا۔
لہٰذا بچو ! اپنے آپ کو شیطان کے دھوکے سے بچائے رکھیں۔ وہ آپ کو اچھا انسان بننے سے روکے گا۔ لیکن آپ نے اسے رکاوٹ نہیں بننے دینا۔ وہ آپ کو آپ کے ضمیر کی آواز سننے سے بھی روکے گا۔ آپ کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنا چاہیے اور جب آپ کو کوئی بُرا خیال آئے یا آپ کا اچھے کام کو جی نہ چاہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہیے۔ یہ تمام شیطان کے مکر و فریب کی چالیں ہیں لیکن یاد رکھیں جو لوگ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہیں شیطان کا ان پر کوئی زور نہیں چلتا۔
٭٭٭
حضرت نوح ؑ :آدمِ ثانی
اللہ تعالیٰ کے نبی نوح ؑ نے دوسرے انبیاء کی طرح اپنی قوم کے لوگوں کو سراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں، کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور وہ ہر شئے کا خالق و مالک ہے اور یہ بھی کہا کہ ان کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی عبادت نہیں کرنا چاہیے اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اُن کو سزا ملے گی اور اُن پر عذاب آئے گا۔یہ قرآن پاک میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
’’اور ہم نے نوح ؑ کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اُن سے کہا کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے اور یہ پیغام پہنچانے آیا ہوں کہ خُدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے’‘ (سورۃ ہود: ۲۵۔۲۶)
خبردار کرنے کے باوجود صرف چند ہی لوگ ایمان لائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نوح ؑ کو حکم دیا کہ وہ ایک کشتی بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اس کشتی کے ذریعہ بچا لے گا۔
جب حضرت نوح ؑ کشتی بنا رہے تھے وہاں آس پاس کوئی پانی یا سمندر نہیں تھا،تو لوگ حیران ہونے لگے اور انہوں نے حضرت نوح ؑ کا مذاق اڑایا اور یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے اُن کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے مگر اللہ تعالیٰ جانتا تھا ۔جب حضرت نوح ؑ نے کشتی بنائی تو بارش شروع ہو گئی اور زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا اور ہر طرف سیلاب آ گیا۔یہ تاریخی حادثہ سائنسدانوں نے ثابت کر دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے ملنے والے شواہد اور باقیات سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہاں پائے جانے والے ٹیلوں پر کبھی پانی تھا ہو سکتا ہے کہ آپ نے ٹیلی ویژن پر مختلف علاقوں میں آنے والے سیلاب دیکھے ہوں ۔ اس قسم کے ناگہانی حالات میں لوگ اپنی جان بچانے کے لئے مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر چڑھ جاتے ہیں اور امداد کا انتظار کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں صرف کشتیوں اور ہیلی کاپٹر سے ہی لوگوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ تا ہم نوح ؑ کے زمانے میں صرف ایک کشتی ہی تھی کہ لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ یہ ناگہانی آفت اور حادثہ اصل میں ’’ طوفانِ نوح ؑ ‘‘ کہلاتا ہے جو کہ اُن لوگوں کے لئے جو کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے تھے ایک سزا اور ایک عذاب تھا۔کیونکہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسری چیزوں کو اپنا مدد گار سمجھتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہیں کیا ور اپنی ضد پر اٹے رہے اور حضرت نوح ؑ کی کشتی پر انحصار نہیں کیا مگر دوسری چیزوں پر اعتبار کیا اور اُن کا کوئی مدد گار ثابت نہ ہوا۔
اگر اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو کوئی بھی شئے ہماری حفاظت نہیں کر سکتی ۔ اس وقت جن لوگوں نے انکار کیا وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اُونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں پر چڑھ گے مگر اپنے آپ کو ڈوبنے سے نہ بچا سکے ۔ ان میں سے کچھ ہی لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا ،اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کشتی میں سوار ہوئے اور اپنے آپ کو بچا سکے۔ حتیٰ کہ حضرت نوح ؑ کا بیٹا بھی ایمان نہ لایا اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور حضرت نوح ؑ اس کو آخری دم تک بلاتے رہے کہ بیٹا کشتی میں سوار ہو جاؤ لیکن اس نے ایک نہ سنی اور کہنے لگا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤ ں گا ،یہ مجھے بچا لے گا۔حضرت نوح ؑ نے کہا آج کوئی نہیں بچا سکتا سوائے اللہ تعالیٰ کے لہٰذا وہ بھی ڈوب گیا۔ حضرت نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کشتی میں ہر انواع کے جانوروں کا ایک جوڑا بھی رکھ دیا۔ یہ تمام واقعہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
’’ان سے پہلے نوح ؑ کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا کہ دیوانہ ہے اور انہیں ڈانٹا بھی تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ بارِ اِلٰہی میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں تو ان سے بدلہ لے پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دھانے کھول دیئے اور زمین میں چشمے جاری کر دئیے تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہو چکا تھا جمع ہو گیا اور ہم نے نوح ؑ کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کر لیا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی۔ یہ سب کچھ اس شخص کے انتقام کے لئے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟۔ سو دیکھ لو کہ میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا ؟’‘ (قمر: ۹۔ ۱۶)
وہ تمام انبیاء جو کہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے اصل میں ان کی تعلیمات ایک ہی تھیں اور انہوں نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا اور یہ بھی کہ پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ انبیاء ان خدمات کے بدلے کوئی صلہ لوگوں سے نہیں مانگتے کیونکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی بہتری کے لئے بھیجے گئے ہیں۔تا کہ لوگ اچھے کام کریں اور بری باتوں سے رُک جائیں۔ وہ یہ خدمات اس لئے سرانجام دیتے تھے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے اور اس سے محبت کرتے تھے۔ اسی دوران انبیاء نے مختلف اقسام کی مصیبتیں بھی برداشت کیں ان کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ان کی تکذیب کی۔ ان کی تضحیک کی اور ان کے ساتھ بُرے طریقے سے پیش آئے۔ مزید برآں کچھ لوگوں نے انبیاء کو مارنے کی کوشش بھی کی اور کچھ نے انبیاء کو قتل کرنے کی جُرأت بھی کی۔ چونکہ انبیاء صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے اس کے علاوہ وہ کسی اور سے نہیں ڈرتے تھے۔ لہٰذا کسی بھی مشکل میں ان کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات کو یاد رکھا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا صلہ اس دنیا اور پھر آخرت میں بھی عطا کرے گا۔
٭٭٭
حضرت ابراہیم علیہ اسلام
اس حصےّ میں ہم ان انبیاء کی خصوصیات کے بارے میں طولِ کلام کریں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بڑے اہتمام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت ابراہیم ؑ ہیں اس زمانے میں جبکہ حضرت ابراہیم ؑ ا بھی بچے تھے ان کے ارد گرد کوئی بھی شخص نہیں تھا جو ان کو یہ بتاتا کہ اللہ کا وجود ہے یا وہ ایک ہے ۔ وہ اکیلا مالک خالق ہے۔ تب حضرت ابراہیم ؑ خود ہی اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات میں غور کرنے لگے انہوں نے وسیع پھیلے ہوے آسمان کا مشاہدہ کیا اور اس مشاہدے کے بدلے میں انہوں نے یہ بات پہچان لی کہ ہر شے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے یہ سب واقعہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔
’’اور ہم اس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو آسمان اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تا کہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہو جائیں۔یعنی جب رات نے ان کو پردہ تاریکی سے ڈھانپ لیا تو آسمان میں ایک ستارا نظر پڑا کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہو گیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہو جانے والے تو پسند نہیں پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اٹھے کہ اگر میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں ان لوگوں میں ہو جاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے مگر جب وہ بھی غائب ہو گیا تو کہنے لگے لوگو جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔’‘(الانعام: ۷۶-۷۹)
تب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرو۔
’’اور ان کو حضرت ابراہیم ؑ کا حال پڑھ کر سنا دو۔ جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم کس چیز کو پوجتے ہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور ان کی پوجا پر قائم ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ جب تم انکو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری آواز کو سنتے ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی وہ میرے دشمن ہیں۔ مگر اللہ ربُ العالمین میرا دوست ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے اور وہ مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور وہ مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا۔ (سورۃ الشعراء ۶۹: ۸۲)
جب حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کی بات کی تو ان کے لوگوں نے ان کو مارنے کی بھر پور کوشش کی۔ وہاں کے بادشاہ اور اس کی قوم نے ایک بہت بڑی آگ جلائی اور اس میں حضرت ابراہیم ؑ کو ڈالا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی اور ان کو آگ سے بچا لیا۔ یہ تمام ماجرہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
’’تو ان کی قوم کے لوگ جو اب میں بولے تو یہ بولے کہ اسے مار ڈالو یا جلا دو مگر اللہ نے ان کو آگ کی سوزش سے بچا لیا جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں’‘(سورۃ العنکبوت: ۲۴)
’’ہم نے حکم دیا اے آگ سرد ہو جا اور ابراہیم ؑ پر موجب سلامتی بن جا’‘ (سورۃ الانبیاء: ۶۹)
یہ اللہ ہی ہے جو کہ ہر شئے پر قادر ہے اور ہر شئے کا خالق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا سے آگ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نہیں جلایا یہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طاقت و عظمت کا ظہور تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر اس سرزمین پر کچھ رونما نہیں ہو سکتا اس کی مرضی اور قدرت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ نہ چاہے تو کوئی بھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا یا مار نہیں سکتا ۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
’ اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے اس نے موت کا وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے۔۔۔۔۔۔”(آلِ عمران: ۱۴۵)
حضرت ابراہیم ؑ کو موت نہیں آئی نہ ہی ان کو کوئی نقصان پہنچا حالانکہ ان کو آگ میں ڈالا گیا۔ کیونکہ ان کی موت کا جو وقت مقرر تھا وہ ابھی نہیں آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ سے بچایا ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
’’بے شک ابراہیم ؑ بڑے تحمل والے ، نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے’‘ (سورۃ ہود: ۷۵)
اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پیار کرتا ہے جو سچے دل سے اسے مانتے ہیں اور اس کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ جیسا کہ آیت سے واضح ہے کہ بغاوت نہ کرنے والے ، اچھے کر دار کے مالک، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور اس کے راستے میں مصائب اور مصیبتوں کو برداشت کرنے والے ہی اللہ کی نظر میں برگزیدہ شمار ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔
٭٭٭
حضرت موسیٰ علیہ اسلام
حضرت موسیٰ ؑ وہ پیغمبر ہیں کہ جن کا قرآن پاک میں اکثر ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات حضرت موسیٰ ؑ کی طرف نازل کی۔ لیکن آج یہودیوں کی تورات اور عیسائیوں کی قدیم انجیلِ مقدس اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں ہیں، کیونکہ ان میں انسان کی بنائی گئی تشریحات شامل کر دی گئی ہیں،لیکن آج یہودی اور عیسائی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کر دہ اصل کتابیں ہیں ، رد و بدل کی گئی کتابیں پڑھتے ہیں ۔یہودی صراط مستقیم سے ہٹ چکے ہیں کیونکہ ان کے پاس حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی گئی تورات اپنی اصل حالت میں موجود نہیں رہی۔
لیکن ہم قرآن کریم کے ذریعے سے حضرت موسیٰ ؑ کے اعلیٰ کر دار اور ان کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ مصر کے بادشاہ ’’فرعون ‘‘ کہلاتے تھے فرعونیوں کی اکثریت نہایت ہی خود سر اور ضدی تھی لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ خود اپنے آپ کو خدا مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حکمرانوں میں سے ایک ظالم حکمران کی طرف حضرت موسیٰ ؑ کو بھیجا۔
قرآن پاک کی آیات میں حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے بارے معلومات حاصل کرتے وقت ایک نقطہ سامنے آیا ہے۔ وہ ’’تقدیر’‘ ہے مندرجہ ذیل واقعات حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کے محل تک لے آئے : جس دور میں حضرت موسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔ اس وقت فرعون نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ اس کی سر زمین میں جو بھی لڑکا پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے حضرت موسیٰ ؑ بھی ان بچوں میں سے ایک تھے جن کو مارے جانے کا خطرہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی ماں کو وحی کی کہ وہ بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دے اور ان کی ماں کو یقین دلایا کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک دن پیغمبر کی صورت میں واپس لوٹیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی ماں نے ان کو صندوق میں رکھ کر دریا کے حوالے کر دیا۔صندوق پانی میں اِدھر اُدھر گھومتا ہوا آخر کار فرعون کے محل کے کنارے جا پہنچا جہاں فرعون کی بیوی نے صندوق دیکھا۔ اس نے بچے کو اٹھا لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ بچے کی محل میں پرورش کرے گی۔ لہٰذا انجانے میں فرعون نے بچے کی پرورش کا ذمہ لینے کی اجازت دے دی۔ اس بچے نے بعد میں بڑے ہو کر فرعون کے سامنے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا تھا اور فرعون کے پرُ عیب اور ملحدانہ نظریات کی مخالفت کرنا تھی۔اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے وہ قادر مطلق ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے جانتا تھا کہ فرعون حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے محل میں پالے گا اور اس کی پرورش کرے گا۔
جب حضرت موسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ کو پانی کے حوالے کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ فرعون کے محل میں پہنچیں گے اور آخر کار پیغمبر بنیں گے یہ وہ تقدیر تھی جو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے لئے لکھ رکھی تھی اور یہ سب کچھ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کو بتا دیا تھا۔ اس مرحلہ پر ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی کے تمام واقعات کی تفصیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے طے شدہ تھی اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔
جب حضرت موسیٰ ؑ جوان ہوئے تو حضرت موسیٰ ؑ کو حکم ہوا کہ مصر کو چھوڑ دیں بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو رسول اور پیغمبر بنایا اور ان کی ان کے بھائی ہارون ؑ سے مدد کی۔
دونوں فرعون کے دربار میں حاضر ہوئے اور اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام دیا۔ یہ نہایت ہی مشکل کام تھا لیکن انہوں نے بغیر کسی ڈر خوف کے فرعون سے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے اور اسی کی بندگی کرے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا یہ واقعہ قرآن پاک میں کچھ اس طرح بیان ہوا۔
’’پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ کو نشانیاں دیکر فرعون اور اس کے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا۔ تو انہوں نے ان کے ساتھ کفر کیا۔ سو دیکھ لو کہ خرابی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا اور موسیٰ ؑ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں۔ مجھ پر واجب ہے کہ خدا کی طرف سے جو کچھ کہوں سچ ہی کہوں میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں سو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی رخصت دے دیجیے۔’‘ (سورۃ الاعراف: ۱۰۳ – ۱۰۵)
فرعون ایک ضدی خود سر اور متکبر شخص تھا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ساری سلطنت اس کے ما تحت ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دولت ، طاقت اور زمین کی بادشاہت دی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ کم عقل نکلا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھ نہ سکا۔ اس نے موسیٰ ؑ کی مخالفت کی۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ لایا اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ وہ بہت ظالم شخص تھا۔ اس نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ جب فرعون کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور یہ واضح ہو گیا کہ فرعون موسیٰ ؑ اور تمام ایمان والوں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تب وہ موسیٰ ؑ کی قیادت میں مصر سے بھاگ نکلے۔ موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل سمندر اور فرعون کے سپائیوں جو کہ ان کا پیچھا کر رہے تھے کے درمیان پھنس گئے لیکن اس نامساعد حالات اور مایوسی کے عالم میں حضرت موسیٰ ؑ مایوس نہیں ہوے اور اللہ پر بھروسہ رکھا ۔اللہ تعالیٰ نے معجزانہ انداز سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس کے درمیان ایک راستہ بنا دیا ۔اس طرح حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر عبور کر گئے یہ موسیٰ ؑ کی طرف اللہ تعالیٰ کا بڑا معجزہ تھا ۔جب موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل سمندر کی دوسری طرف چلے گئے تو سمندر کے دونوں حصے آپس میں ملنا شروع ہو گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے سپاہیوں کو غرق کر دیا قرآن کریم میں یہ معجزاتی واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے
’’جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا ہوا تھا ویسا ہی ان کا ہوا۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کو جھٹلا دیا تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور فرعون کو ڈبو دیا اور وہ سب ظالم تھے۔’‘ (سورۃ الانفال: ۵۴ )
جب فرعون نے یہ محسوس کیا کہ وہ مرنے والا ہے تب اس نے کہا کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ اس طرح اس نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ آخری وقت میں افسوس کرنے سے اسے کوئی فائدہ ہوا۔لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسی صورت معاف کرتا ہے جبکہ ہم موت سے پہلے صدق دل سے توبہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے مہربان ہے۔ اگر موت کے وقت انسان توبہ کرتا ہے اور اگر توبہ سچے دل سے نہیں کی تو ایسی توبہ اس شخص کو نہیں بچا سکتی ۔ ہو سکتا ہے کہ فرعون کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ہو۔ لیکن یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔اس قصے سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے رہنا چاہیے اور فرعون کی طرح غلطی کبھی نہیں کرنا چاہیے اگر ہم زندگی میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں ناکام رہے تو موت کے وقت توبہ کرنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
٭٭٭
ٖ
حضرت یونس علیہ اسلام
حالات کتنے ہی نا مساعد اور مایوس کن کیوں نہ ہوں، انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہیے اور اسی سے مدد طلب کرنا چاہیے، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ جب موسیٰ ؑ بحیرہ احمر اور فرعون کے سپاہیوں کے درمیان پھنس گے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ سے نا اُمید نہ ہوے۔ وہ بالکل مایوس نہ ہوئے بلکہ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھا۔ حضرت یونس ؑ بھی کچھ اسی طرح کے کر دار کے مالک تھے۔
حالانکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خبردار کرنے کے لئے مبعوث فرمایا لیکن وہ اپنی قوم کو خبردار کیے بغیر ہی وہاں سے چلے گے اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک آزمائش میں ڈالا سب سے پہلے وہ جس جہاز میں سوار تھے اس سے انہیں سمندر میں پھینکا گیا پھر ان کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اس طرح ان کو اپنے رویہ یا طرزِ عمل پر بہت ندامت ہوئی۔ تب انہوں نے فوراً توبہ کی اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جسے قرآن پاک ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’اور ذوالنون کو یاد کر جب وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر غصے کی حالت میں چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے ۔آخر اندھیرے میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے اور بے شک میں قصور وار ہوں تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کو غم سے نجات بخشی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔’‘ (سورۃ الانبیاء : ۸۷- ۸۸)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر حضرت یونس ؑ اپنی لغزش پر ندامت نہ کرتے اور اللہ پر بھروسہ اور اللہ تعالیٰ سے دعا نہ کرتے تو ان کے ساتھ کیا ہوتا۔
’’پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان نہ کرتے تو اس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اسی کے پیٹ میں رہتے پھر ہم نے ان کو جبکہ وہ بیمار تھے فراخ میدان میں ڈال دیا اور ان پر کدو کا درخت اُگایا اور ان کو لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا۔’‘ (سورۃ الصٰفٰت: ۱۴۳- ۱۴۷)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کو نہایت ہی مایوس کن حالت سے نجات بخشی۔ اس سے ایک بات ظاہر اور واضح ہے کہ انسان کو کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت یونس ؑ کے قصے میں ایمان والوں کے لئے سبق ہے۔ وہ سبق یہ ہے کہ حالات چاہیے کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں اور ایمان کا راستہ کتنا ہی دشوار گزار کیوں نہ ہو اور کیسی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو،ہمیں کبھی بھی دل نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ دعا کرنی چاہیے اور ہمیشہ اسی ذاتِ باری تعالیٰ سے مدد و مغفرت طلب کرنی چاہیے۔
٭٭٭
حضرت یوسف علیہ اسلام
قرآن پاک میں ہمیں حضرت یوسف ؑ کی زندگی کے بارے میں کافی تفصیل ملتی ہے لیکن یہاں ہم ان کی زندگی کا مختصر جائزہ لیں گے اور حضرت یوسف ؑ کے عمدہ اخلاق کا مطالعہ کریں گے۔حضرت یوسف ؑ حضرت یعقوب ؑ کے بیٹوں میں سے ایک تھے۔ جب وہ ابھی بچے ہی تھے تو ان کے بھائیوں نے ان کو کنویں میں پھینک دیا تھا ،کیونکہ وہ ان سے حسد کرتے تھے۔ ان کو کنویں میں پھینکنے کے بعد بھائیوں نے اپنے باپ کو بتایا کہ حضرت یوسف ؑ کو ایک بھیڑیے نے کھا لیا ہے۔مسافروں کے ایک کارواں نے ان کو کنویں میں پایا اور ان کو نکال کر مصر کے ایک نیک بندے کے ہاتھوں فروخت کر دیا بعد میں ان پر الزام لگا اور اس طرح ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں وہ کئی سال تک قید رہے۔
آخر کار وہ بے گناہ ثابت ہوئے اور اس طرح ان کو رہائی ملی حضرت یوسف ؑ نہایت ہی عقلمند اور قابل اعتبار شخص تھے۔ وہ الزام میں بالکل بے گناہ ثابت ہوئے۔ لہٰذا مصر کے بادشاہ نے ان کو گوداموں اور خزانے کی ذمہ داری سونپی۔
آخر کار حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا جنہوں نے حضرت یوسف ؑ کو ظلم کا نشانہ بنایا تھا۔ اس طرح انہوں نے اپنے بھائیوں، باپ اور ماں کو اپنے پاس بلوا لیا تاکہ وہ ان کے ساتھ رہ سکیں۔ حضرت یوسف ؑ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مختلف طریقوں سے آزمائش کی۔ ان کو کنویں سے بچایا جہاں سے نجات حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ اسی طرح ان کو نہایت ہی نامساعد حالات سے جیل بھیج کر بچایا اور پھر ان کو جیل سے بھی رہائی بخشی اور ان کے نام کو بلند کیا یعنی ان کو عزت بخشی اور آخر میں ان کو بہت بڑا عہدہ دیا
ان مشکل اور کٹھن حالات میں حضرت یوسف ؑ نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھا اور اسی سے دعا کی اور مدد چاہی۔ اپنی بے گناہی کے باوجود وہ کئی سال تک قید میں رہے لیکن انہوں نے یہ یاد رکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے۔ قید کی دوران بھی وہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت شان و شوکت اور جاہ و جلال کی باتیں کیا کرتے تھے۔ حضرت یوسف ؑ کا ان نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے لگاؤ ،بھروسہ اور استقامت ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے۔
٭٭٭
حضرت ایوب علیہ اسلام
نامساعد حالات میں استقامت کا مظاہرہ کرنا مسلمانوں کے اوصاف میں سے بہت اہم ہے۔ حضرت ایوب ؑ کو خاندان ، انکی جائیداد اور تکلیف دہ بیماری کے ذریعے آزمایا گیا اور انہوں نے برداشت و استقامت کی مثال قائم کر دی۔ اس حالت میں حضرت ایوب ؑ نے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ کیا اور اسی ذات سے مدد مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور اس سے نجات کا راستہ بتایا ۔تاریخ میں ان کی یہ استقامت ’’ صبر ایوب ؑ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت ایوب ؑ کا مثالی طرزِ عمل اور ان کی دعا قرآن پاک میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے۔
’’اور ہمارے بندے ایوب ؑ کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ بارِ الہیٰ شیطان نے مجھ کو تکلیف اور ایذا دے رکھی ہے۔ ہم نے کہا زمین پر لات مارو دیکھو یہ چشمہ نکل آیا نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو شیریں اور ہم نے ان کو اہل و عیال اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بخشے یہ ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت تھی۔ اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو او راس سے مارو اور قسم نہ توڑو بے شک ہم نے ان کو ثابت قدم پایا بہت خوب بندے تھے۔ بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔’‘ (سورۃ صؔ : ۴۱۔۴۴)
اکثر جب ہم میں سے کسی کو اگر کوئی بیماری لگتی ہے یا کوئی مشکل پیش آتی ہے یا کوئی ناگہانی آفت آتی ہے تو ہم فوراً مایوس ہو جاتے ہیں۔اور بعض لوگ تو ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر دیتے ہیں۔ تاہم اس طرح کا رویہ اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔ جیسا کہ حضرت ایوب ؑ کی مثال سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کے لئے کسی بھی قسم کی مشکلات بھیج سکتا ہے، لیکن یہ ایذا اور تکلیف مومنین کے ایمان کو اور بھی مضبوط کرتی ہے اور ان کا اللہ تعالیٰ سے لگاؤ مزید گہرا ہوتا ہے۔ اس قسم کی تکالیف اور ایذا میں بندے کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی رجوع کرنا چاہیے کیونکہ ہم تو اللہ تعالیٰ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات و واقعات میں اسی سے مدد طلب کرنا چاہیے اور اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ہمیں حضرت ایوب ؑ کی طرح کا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور صبر و استقامت اور ثابت قدمی کے بدلے میں ہی اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں صلہ عنایت فرمائے گا۔
٭٭٭
حضرت عیسیٰ علیہ اسلام
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو خاص طریقے سے پیدا کیا۔ حضرت آدم ؑ کی مثال کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ یہ قرآن پاک میں مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
’’حضرت عیسیٰ ؑ کا حال اللہ کے نزدیک آدم ؑ کا سا ہے کہ اس نے پہلے مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ انسان ہو جا تو وہ انسان ہو گئے۔’‘(سورۃ اٰلِ عمران: ۵۹)
قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ ؑ کو عیسیٰ ابنِ مریم کے نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا مطلب مریم کا بیٹا۔ مریم ؑ ایک نیک اور پاکدامن خاتون تھی جن کو اللہ تعالیٰ نے جہاں کی عورتوں پر فضیلت دی۔ وہ نہایت ہی پاکدامن خاتون تھی اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑ کو معجزانہ طریقے سے حضرت جبرائیل کے ذریعے باپ کے بغیر بیٹے کی خوشخبری دی اور یہ بھی خوشخبری دی کہ ان کا بیٹا اللہ کا نبی بنے گا۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو منتخب کیا اور ان کو نبی بنایا اور ان کی طرف انجیلِ مقدس وحی فرمائی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامی کتابوں میں سے ایک ہے (حضرت عیسیٰ ؑ کے واپس جانے کے بعد لوگوں نے انجیل مقدس میں تبدیلی کر دی لہٰذا آج ہمارے پاس یہ کتاب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے۔ جن کتابوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تنزیلات کو عیسائی مانتے ہیں وہ کو ئی خاص قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔)
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمایا کہ اپنی قوم کو حق کی دعوت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو کئی معجزے بھی عنایت فرمائے ان کا ایک معجزہ یہ ہے کہ ابھی وہ پنگھوڑے میں تھے تو باتیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتاتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ ، اندھوں کو روشنی اور بیماروں کو شفا دیا کرتے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی تشریف لانے کی خوشخبری بھی سنائی۔ یہ واقعہ قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
’’اور وہ وقت بھی یاد کرو جب مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہو ا آیا ہوں اور جو کتاب مجھ سے پہلے آ چکی ہے یعنی تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام ’’احمد ‘‘ہو گا ان کی بشارت سناتا ہوں پھر جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے۔’‘ (سورۃ الصف: ۶)
حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں صرف چند ہی افراد تھے جنہوں نے ان پر ایمان لایا اور ان کی مدد کی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمنوں نے ان کو قتل کرنے کی ترکیب اختیار کی وہ یہ خیال کرتے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گرفتار کیا اور ان کو سولی پر لٹکایا لیکن اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو ہر گز قتل نہیں کیا۔
’’اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم ؑ کے بیٹے حضرت عیسیٰ ؑ کو جو کہ خدا کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے خدا نے ان کو ملعون کر دیا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہوں نے انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں اور انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو یقیناً قتل نہیں کیا۔’‘ (سورۃ النساء: ۱۵۷)
حضرت عیسیٰ ؑ کے جانے کے بعد ان کے دشمنوں نے ان کی لائی ہوئی وحی کو بدلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے حضرت مریم ؑ اور ان کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو ’’خداؤں’‘ کا درجہ دیا۔ آج بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ اس باطل نظریے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ ؑ کے الفاظ میں ان کے باطل نظریات اور عقائد کے بارے میں ہمیں ان الفاظ میں بتاتے ہیں۔
’’اور اس وقت کو بھی یاد رکھو جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ؑ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے ۔ مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہو گا تو تجھ کو معلوم ہو گا کیونکہ جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے دل میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہے میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے۔ وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا میں ان کے حالات کی خبر رکھتا رہا۔ جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔’‘ (سورۃ المائدہ: ۱۱۶۔۱۱۷)
ان کے واپس جانے کے بعد ان کو ماننے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا لیکن آج وہ صحیح راستے پر نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے انجیلِ مقدس میں بہت کمی بیشی کر دی ہے۔تو پھر آج ہمارے پاس کو نسا راستہ ہے آج ہمارے پاس صراط مستقیم ہے یہی دینِ حق ہے اور یہ قیامت تک رہے گا اور سب قرآن پاک میں موجود ہے اور محفوظ ہے یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
٭٭٭
پیغمبرِ خدا: حضرت محمدﷺ
ہم حضور ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ آپ چودہ سو( ۱۴۰۰) سال پہلے جزیرہ نما عرب میں مبعوث ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وحی کر دہ یا الہامی مذاہب میں بہت زیادہ تبدیلیاں کر دیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب جو کہ قیامت تک باقی رہنی ہے اور جس کے لئے لوگ ذمہ دار ٹھیرائے جائیں گے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی تاکہ ان تمام باطل عقائد کو درست کیا جا سکے جو کہ پرانے مذاہب میں شامل کر لئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی منشا قرآن پاک کے ذریعے بنی نوع انسان تک پہنچا دی ہے ۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے وقت مختلف مصائب سے دوچار ہونا پڑا۔
ان پر بھی مختلف اقسام کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ان سب کے باوجود وہ لوگوں سے حق کے بدلے میں کوئی صلہ نہیں مانگتے تھے اور یہ کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی دنیاوی مفاد بھی نہ تھا ان کو مجبوراً اپنے آبائی شہر مکہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ شروع شروع میں ہونے والے مسلمانوں کو بھی مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں۔ کچھ کو بہت زیادہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کے باوجود دینِ اسلام کو نقصان نہیں ہونے دیا اور ہمارا دین آج تک محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق قرآن پاک لفظ بہ لفظ آج تک موجود ہے اور تا قیامت محفوظ رہے گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیثِ مبارکہ بھی آج تک محفوظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے احکامات پر عمل کریں اور بعض آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی اطاعت اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔ اس لئے ہمارے دین اسلام کا اہم اُصول یہ ہے کہ ہم پیغمبر اسلام کی اتباع کریں۔ صدق دل سے اور پُر خلوص ہو کر پیغمبرِ اسلام کے احکامات کی پیروی کرنا ہی ہماری اللہ تعالیٰ سے بندگی کا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ حمیدہ کا تعارف کرواتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ ہمارے لیے مثال ہیں۔ قرآن پاک کی کچھ آیات اس طرح سے ہیں۔
’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے۔ اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ ‘‘ (سورۃ التوبۃ : ۱۲۸)
’’محمد ( ﷺ ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی نبوت کی مہر یعنی اس کو ختم کرنے دینے والے ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔ ‘‘ (سورۃ الاحزاب :۴۰)
’’اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ اُن میں اُنہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو اُن کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اُن کو پاک کرتے اور اللہ کی کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔ ‘‘ (سورۃ آل عمران:۱۶۴)
وہ آیات جن کے شروع میں لفظ ’’کہو’‘ آتا ہے، اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام کیسے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ ان کے علاوہ باقی دوسری آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی حضرت عائشہؓ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’آپ کا اخلاق قرآن پاک ہے۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ قرآن پاک کا عملی نمونہ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ قرآن پاک پر عمل کیسے کیا جائے اس بات کا عملی ثبوت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر بندے یہ چاہتے ہیں کہ اُن کو معاف کیا جائے تو اُن کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور پیغمبرِ خدا کی اتباع کریں۔
ایک آیت میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
’’اے پیغمبر! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱)
جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہم سے محبت کرے تو ہمیں چاہیے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی مکمل اتباع کریں۔
٭٭٭
ماخذ: کتاب ’ آئیے ! اپنا اِسلام سیکھیں‘، ہارون یحیٰ ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید