FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ

 

 

 

               ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

 (مالیگاؤں)

 

 

 

 

پیش لفظ

 

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آپ کی شادی سکران بن عمر و انصاری سے ہوئی تھی۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا وفات پا گئیں تو آپﷺ  کی بیٹیوں حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی پرورش اور نگہداشت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سے بڑی عمر کی اس بیوہ ، مومنہ اور مہاجرہ خاتون سے نکاح فرما کر ایک تاریخ مرتب فرما دی۔ یہ بڑی عبادت گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی خاتون تھیں۔

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔جب حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کاشانۂ  نبوت میں داخل ہوئیں تو یہ دونوں ازواجِ مطہرات پہلے ہی سے موجود تھیں۔نبیِ کریمﷺ  سے پہلے آپ حضرت خنیس بن حذافہ انصاری رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ جن کی غزوۂ  بدر میں شہادت ہو گئی تھی۔

آپ رضی اللہ عنہا جب بیوہ ہو گئیں تو آپ کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کی فکر ستا نے لگی چناں چہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جن کی بیوی حضرت رقیہ دختررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) وفات پاچکی تھیں حضرت عمر نے اپنی بیٹی حفصہ کے لیے اُن کو پیش کش کی۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے نکاح فرما کر اپنے جاں نثار صحابی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عزت افزائی فرمائی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بڑی ذہین ، متقی ، پرہیز گار ، کثرت سے روزے رکھنے والی ، عبادت گزار اور ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ آپ سے ساٹھ حدیثیں بھی منقول ہیں۔

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا زمانۂ  جاہلیت میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتی تھیں لوگ آپ کو ’’ام المساکین ‘‘کے لقب سے یاد کرتے تھے۔آپ بہادر پہلوان شہیدِا سلام حضرت عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی بیوہ تھیں۔ جو غزوۂ  بدر کے پہلے ہی مقابلے میں شہید ہو گئے تھے۔ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سننے کے بعد بھی میدانِ جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال اور ان کی مرہم پٹی میں مصروف رہیں۔ یہاں تک کہ میدانِ بدر میں مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی۔اُن کے بعد آپ کا نکاح حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے ہوا،احد کے معرکے میں یہ بھی شہید ہو گئے،تو انھوں نے کہا کہ:’’ اے اللہ! تیرا ہر حال میں شکر ، تیری رضا میں میری رضا شامل ہے۔‘‘ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے صبر و استقامت ، ثابت قدمی اور ان کے جہاد کا علم ہوا اور ان کی نگہداشت کرنے والا کو ئی نہ دیکھا تو آپﷺ  نے انھیں نکاح کا پیغام بھیجا اور اس طرح اُمت کے غم گسار نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بیوہ عورت کو سہارا دیا۔ اور انھیں ’’ ام المساکین‘‘ کے ساتھ ساتھ’’ ام المؤمنین‘‘ کا تاجِ عزت و رفعت پہنایا۔

رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز کے لیے بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات کے مطابق کتابوں کی اشاعت کا جو سلسلہ جاری ہے۔ اُس میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے متعلق رسائل کا سلسلہ بھی شامل ہے۔ اب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پیش نظر کتاب میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو زوجۂ  محترمہ حضرت حفصہ بنت عمر کے حالاتِ زندگی پیش کیے جا رہے ہیں۔ بہ ظاہر یہ تالیف بھی اس باب میں کوئی قابلِ قدر اضافہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کتاب سے حضرت حفصہ و حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما کی مبارک زندگی کے بارے میں بچّوں کو آگاہی ضرور ہو جائے گی۔ اہل علم سے ملتمس ہوں کہ اس کتاب پر اپنے قیمتی تاثرات سے ضرور نوازیں

(ڈاکٹر) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی ، مالیگاؤں

سروے نمبر ۳۹، پلاٹ نمبر ۱۴، نیا اسلام پورہ ، مالیگاؤں (ناسک)

 

 

               حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کا پس منظر اور نام و نسب

 

ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا حارث ہلالی کی اولاد میں تھیں۔ بنو ہلال قبیلۂ  بنو عامر کی ایک شاخ تھی۔ جو حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی اولاد میں تھے۔ حالات کی وجہ سے یہ قبیلہ یمن میں جا کر بس گیا تھا۔ شمالی یمن میں تبالہ نامی مقام پر ذوالخامہ نام کا ایک بت تھا جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ یمن کے لوگ بڑے خوش حال تھے۔ عیش و عشرت اور آرام و سکون کی وجہ سے نافرمانیاں اور بد اعمالیاں ان کے اندر سرایت کر گئی تھیں۔ آخر ربِ قہار و جبار جل شانہٗ کا عذاب اُن لوگوں پر نازل ہوا۔ ہوا یوں کہ مآرب کا بند ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے دور دور تک بڑی تباہی و بربادی پھیلی۔ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور آبادیاں ویرا نے میں بدل گئیں۔ کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ جن کی جانیں بچ گئیں اُن کے لیے وہاں زندگی گذارنا دوبھر ہو گیا۔ چار و نا چار بچے ہوئے لوگ وہاں سے مختلف علاقوں میں نقلِ مکانی پر مجبور ہو گئے۔ ان ہی میں ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا۔ جو کہ یمن سے حجاز میں آ کر آباد ہو گیا۔

وقت گذرتا رہا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے ۱۳؍ سال پہلے ۵۹۷ء کی بات ہے ایک دن خزیمہ بن حارث کے گھر میں بہت ساری عورتیں ، رشتے دار اور دوست و احباب جمع تھے۔ ایسا لگ رہا تھاجیسے یہ لوگ بڑی بے تابی سے کوئی خوش خبری سننے کے منتظر ہیں۔ تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ گھر میں سے ایک عورت آئی اور پوچھنے لگی کہ :’’ خزیمہ کہاں ہے؟‘‘

خزیمہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا بات چیت میں مصروف تھا ، جیسے ہی اُس نے عورت کی آواز سنی فوراً اس کی طرف متوجہ ہوا، اور پوچھا :’’ کیا خبر لائی ہو؟‘‘

اُس عورت نے جواب دیا:’’ خزیمہ! لڑکی ہوئی ہے ، مبارک ہو۔بڑی خوب صورت ، جیسے چاند کا ٹکڑا ، اس کے چہرے سے خوش بختی اور بلند اقبالی ٹپک رہی ہے۔ ‘‘

عورت کی بات سُن کر خزیمہ بے تابی اور مسرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کمرے کے اندر چلا گیا۔ بیوی کے پہلو میں لیٹی ہوئی اپنی خوبصورت بیٹی کو دیکھا تو اسے عجیب سی کشش محسوس ہوئی ، بے اختیار اُس سے پیار کرنے لگا اور کہا کہ :’’ یہ میری زینب ہے۔‘‘

اس طرح آپ کا نام’’ زینب ‘‘قرار پایا۔ اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ بلند اقبال لڑکی ایک دن  خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو کر امت مسلمہ کی مقدس ماں بن جائی گی۔ آپ کا سلسلۂ  نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ میں معد بن عدنان سے اکیسویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ کتابوں میں منقول ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عدنان کے درمیان ۱۱۵۸ سال کا زمانہ ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کا نسب نامہ یوں لکھا ہے: زینب بنت بن حارث بن عبداللہ بن عمر بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ۔

 

               مشہور لقب اُم المساکین

 

حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گذرا۔ اس دور کی دوسری بچیوں کی بہ نسبت آپ بڑی منفرد تھیں۔ بچپن ہی سے انھیں غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلا نے کا بڑا شوق و ذوق تھا۔ جب تک وہ کسی کو کھانا نہ کھلا لیتیں انھیں سکون محسوس نہ ہوتا۔اُن کا باپ خزیمہ کا شمار اُس زمانے کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ اُس کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔باوجود اس دولت و ثروت کے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے اندر بچپن ہی سے عاجزی ،انکساری اور فیاضی کی صفت پائی جاتی تھی۔ سخاوت و فیاضی کا حال یہ تھا کہ اگر وہ خود کوئی چیز کھا رہی ہوتیں اور کوئی غریب یا مسکین آ جاتا تو وہ چیز اس کو دے دیتیں اس طرح انھیں سکون حاصل ہو جاتا تھا۔ اگر خاندان کا کوئی فرد انھیں اس فیاضی اور سخاوت سے روکتا بھی تو وہ اس کی ذرہ بھر پروا نہ کرتیں ، کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ اس سے ان کے رزق میں کوئی بھی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ زمانۂ  جاہلیت سے ہی لوگ آپ کی اس صفت کی وجہ سے آپ کو ’’ام المساکین‘‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے، اور یہی نام لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو گیا۔ آپ جس طرف سے بھی گذرتیں یا کہیں جاتیں تو سب یہی کہنے لگے کہ :’’ دیکھو ! ام المساکین آ گئی ہے۔‘‘

جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۱۳یا ۱۴؍ سال تھی۔ اعلان نبوت کے بعد مکۂ  معظمہ کے حالات میں تبدیلی آنے لگی۔ حق پسند طبیعت کے حامل لوگ اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر دولتِ اسلام سے مالا مال ہونے لگے۔ ساتھ ہی ازلی طور پر شقاوتوں کے حامل لوگ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستا نے اور تکلیف پہنچا نے میں ہر قسم کے حربے استعمال کرنے لگے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ تو نہیں ملتا کہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کب دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئیں ، لیکن آپ کے اعلیٰ اَخلاق و کردار ، صاف ستھری زندگی اور سخاوت و فیاضی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابتدائی دور میں ہی اسلام سے قریب آ گئی ہوں گی۔

 

               نبیِ کریمﷺ  سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادیاں۔ حضرت طفیل بن حارث سے نکاح

 

دورِ جاہلیت میں حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بڑی شان و شوکت کے ساتھ خزیمہ نے طفیل بن حارث بن مطلب سے کرایا۔ جب ام المساکین ڈولی میں بیٹھ کر رخصت ہو رہی تھیں تو اُن کے گھر کا ہر فرد مغموم تھا۔ ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ اچھی عادتوں اور اعلیٰ اَخلاق و کردار کی حامل ام المساکین زینب بڑی خوشگوار زندگی بسر کرے گی۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ طفیل بن حارث نے انھیں طلاق دے دی۔ سخاوت و فیاضی میں بے مثال، غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کی ہمدرد اور غم گسار اس نیک سیرت خاتون کو اُن کے شوہر نے طلاق کیوں دی اس کی وجہ بیان کرنے میں تاریخ و سیرت کی کتابیں خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ طفیل بن حارث کے بعد آپ کا نکاح ان کے چچازاد جَہنم بن عمر و بن حارث سے ہوا۔ ان کے بعد وہ حضرت عبیدہ بن حارث سے بیاہی گئیں۔حضرت طفیل بن حارث رضی اللہ عنہ نے بعد میں اسلام بھی قبول کیا اور بدر میں شرکت کی تھی۔

 

               نبیِ کریمﷺ  سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادیاں۔ حضرت عبیدہ بن حارث (رضی اللہ عنہ) سے نکاح

 

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن حارث نے طلاق دے دی تو اس کے بعد آپ کی شادی طفیل کے بھائی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے کر دی گئی۔ جن کی کنیت ’’ابو معاویہ ‘‘تھی، ماں کا نام سنجیلہ تھا۔ قد میانہ ، رنگ گندم گوں اور چہرہ بہت خوب صورت تھا۔ وہ جوانی کی منزلیں پار کر چکے تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کو سنا اور پھر اسلام کی منور کرنیں جب ان کے دل پر پڑی تو سعادت مندی نے آپ کے قدم چومے۔ جب کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں قیام پذیر تھے ، حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ آئے اور اپنے آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دے دیا۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انھیں غیر معمولی مرتبہ حاصل تھا۔ مشہور صحابی مؤذنِ رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے مالک نے انھیں طرح طرح سے اذیتیں دیں لیکن وہ صبر و استقامت کے ایک مضبوط پہاڑ کی طرح اسلام پر ڈٹے رہے۔ چوں کہ آپ حبشہ کے تھے مکۂ  معظمہ میں آپ کا کوئی رشتے دار وغیرہ نہ تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۂ  معظمہ میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا اسلامی بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ اس نسبت پر بڑ اناز تھا۔ اور انھوں نے اخوت و محبت کی جو مثال قائم کی وہ اسلامی تاریخ کے اور اق میں آج بھی جگمگ جگمگ کر رہی ہے۔

اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسلام قبول کرنے والوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اُن کے تصور سے ہی کلیجہ کانپنے لگتا ہے۔ لیکن محبت اور جاں نثاری کی مثال دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسرا اب تک پیش نہیں کر سکا کہ جو بھی شخص نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ جاتا اسے کسی بھی قسم کے مظالم اور مصائب و آلام کا ذرہ بھر بھی احساس نہ ہوتا بل کہ وہ ان تکلیفوں اور مصیبتوں کو ہنس کر سہہ جاتے۔ ان کے پاے استقامت میں کبھی بھی لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کی بیوی ام ا لمساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما پر بھی دشمنانِ اسلام نے مظالم ڈھائے۔ ان دونوں جاں نثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنی سختیاں کی جاتیں ان کے اندر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چنگاری شعلۂ  جوالہ بن کر بھڑکنے لگتی۔ حضرت ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا تو ابھی جواں سال تھیں جب کہ آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی عمر زیادہ تھی ، لیکن اسلام پر ثابت قدمی اور عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ ابھی جوان تھا۔

 

               حضرت عبیدہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی مدینہ ہجرت   اور ’’شیخ المہاجرین ‘‘کا لقب

 

جب مکۂ  مکرمہ میں کفار و مشرکین کے ظلم و ستم حد سے زیادہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو مدینۂ  منورہ ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔ صحابۂ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے عرض کی :’’ یارسول اللہ! ہم تو ہجرت کر جائیں گے مگر آپ؟‘‘

آپﷺ  نے ارشاد فرمایا:’’ مجھے ابھی ہجرت کا حکم نہیں ہوا ہے۔‘‘

شام کے وقت جب حسبِ معمول حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اپنے مکان میں داخل ہوئے تو آپ کی وفا شعار بیوی حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’آپ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہیں کہ آج کو ئی خاص بات ہوئی ہے۔‘‘ اس پر اُن کے شوہر نے سرگوشی کے انداز میں کہا:’’ ہاں ! آج نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ہے۔‘‘

حضرت ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا نے اس پر پوچھا کہ :’’ کس طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا ہے۔‘‘ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ مدینۂ  منورہ کی طرف۔‘‘

اپنے آقا حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا حکم مل جانے کے بعد دونوں میاں بیوی خاموشی کے ساتھ ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے اور کسی مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ آخرکار ایک دن حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما دونوں بھائیوں حضرت طفیل بن حارث و حضرت حصین بن حارث اور ایک ساتھی حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکۂ  مکرمہ کے کفار و مشرکین سے چھپتے ہوئے مدینۂ  منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مہاجرین کا یہ چھوٹا سا کارواں اپنی منزل کی طرف احتیاط کے ساتھ قدم بڑھا رہا تھا کہ اچانک راستے میں حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا اور وہ پیچھے رہ گئے۔ انھوں نے حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ لوگ اپنا سفر اسی طرح جاری رکھیں جیسے ہی میری طبیعت میں سدھار آئے گا مَیں آ کر راستے میں مل جاؤں گا۔ لیکن جب دوسرے دن یہ اطلاع ملی کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ چلنے پھرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تو حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک اسلامی بھائی کو اس طرح اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ اخوتِ اسلامی کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کے جذبات سے سرشار رہیں۔لہٰذا وہ لوگ کچھ دور چلنے کے بعد دوبارہ واپس لوٹ آئے اور حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا اور اُن کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے مدینۂ  طیبہ کی طرف سفر کرتے رہے۔

طویل سفر کے بعد اسلام کے ان جاں نثاروں اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان عاشقوں کا قافلہ اپنی منزل مقصود مدینۂ  منورہ میں داخل ہوا۔ سب سے پہلے اس نورانی قافلے کا استقبال حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ نے کیا اور بڑے محبت و خلوص کے ساتھ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی کی۔

جب اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے حکم سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرما کر مدینۂ  منورہ کو اپنے مقدس قدموں سے شَرَف بخشا تو آپ نے انصار و مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے دیگر انصاری صحابہ کی طرح بھائی چارگی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ آپ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کی رہایش کے لیے ایک بڑی زمین دے دی جہاں وہ رہنے لگے۔

حضرت عبیدہ بن حارث اور ان کی بیوی ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں نثاری اور فدا کاری کے جذبات سے سرشار ہو کر مدینۂ  منورہ میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کرنے لگے۔ ام المساکین حضرت زینب رضی اللہ عنہا حسبِ معمول غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلاتیں ، لوگوں کا دکھ درد بانٹتیں ، ان کے دروازے پر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتیں۔یہاں بھی وہ سخاوت و فیاضی میں بڑی مشہور ہو گئیں۔ اسی طرح ان کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت و عقیدت تھی اس سے آپﷺ  بہ خوبی واقف تھے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی جو منزلت و رفعت تھی، اس کو دیکھتے ہوئے مہاجرین و انصار انھیں ’’شیخ المہاجرین‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔

 

               سریۂ  عبیدہ بن حارث (رضی اللہ عنہ)

 

مدینۂ  منورہ میں ہجرت کرنے کے بعد اسلام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثاروں کے حُسنِ سیرت اور اعلیٰ اخلاق و کردار اور اپنی حقانیت اور صداقت کی بنیاد پر بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔اسلام کی اس طرح بڑھتی مقبولیت اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مکۂ  مکرمہ اور مدینۂ  منورہ کے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نیندیں اڑ گئیں۔ ان دشمنانِ اسلام نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا نے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنائے۔ اب اسلام سے ان کی مخالفت میں بھی بڑی تیزی آ گئی۔ جب کفار و مشرکین کی ہرزہ سرائیاں عروج پکڑنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کریمﷺ  نے ان کا سدِ باب کرنا شروع کیا۔چناں چہ ہجرت کے آٹھویں سال ماہِ شوال کے آغاز میں آپﷺ  نے رابغ نامی علاقے کی طرف ایک سریہ بھیجا (سریہ =ایسا اسلامی لشکر یا ٹولی جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہ ہوں اسے سریہ کہتے ہیں) اس سریہ کا امیر ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر شیخ المہاجرین حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹولی کو ایک سفید جھنڈا عطا کیا جس کو حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ لیے ہوئے تھے۔ رابغ کے قریب جب یہ لشکر ’’ ثنیۂ  مریہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں دو سو مشرکین کی جماعت سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا۔ یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار پر چلایا گیا۔ مدارج النبوت میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ’’ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیر ٹھیک نشا نے پر بیٹھا۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہو گئے۔ اس لیے کوئی جنگ نہ ہوئی۔ اس سریہ کو ’’ سریۂ  عبیدہ بن الحارث‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (ج۲ص۷۸)

 

               حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی شہادت

 

ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ اور شیخ المہاجرین حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہما کا خوش نصیب جوڑا۔ اپنے آقا و مولا نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ان کی رحمتوں کے سایے میں ہنسی خوشی اپنی زندگی گذارتا رہا۔ ۱۲؍ رمضان المبارک ۲ھ سنیچر کا دن تھا جب کہ یہ دونوں میاں بیوی آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔اچانک ایک آواز سنائی دی کہ :’’ آج نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف غزوہ کے لیے تشریف لے جائیں گے(غزوہ=ایسا اسلامی لشکر یا ٹولی جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس خود شامل ہوں اسے غزوہ کہتے ہیں)۔ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فوراً تیاری کی اور اپنی زوجہ ام المساکین زینب رضی اللہ عنہا سے رخصت ہوئے۔یہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی اپنے موجودہ شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے آخری ملاقات تھی۔

مدینۂ  منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے میل کا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات ۱۷؍ رمضان المبارک ۲ھ کو بدر کے قریب اترے۔ یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔

جس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تین جاں نثار اصحاب’’ علی ، حمزہ اور عبیدہ ‘‘(رضی اللہ عنہم)کے نام پکارے۔ ’’ لبیک یارسول اللہ ! کہتے ہوئے تینوں اصحابِ رسول (رضی اللہ عنہم) دشمن سے مقابلے کے لیے میدان میں کود پڑے۔

جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما جلد ہی فارغ ہو گئے جب کہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور ولید میں دیر تک لڑائی جاری رہی۔ دونوں ہی زخمی ہو گئے۔ حضرت علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے بڑھ کر ولید کو قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہ بن حارث کا ایک پاؤں شہید ہو گیا تھا یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو صفرا ء کے مقام پر آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے۔ مدینے میں جب بدر کے لشکر کے لوٹنے کی خبر پہنچی تو لوگ سراپا انتظار ہو گئے۔اس دوران حضرت ا م المساکین کو اپنے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی۔ اِس جاں نثار خاتون نے جب یہ سنا تو اُن کی آنکھیں نم ہو گئیں ، لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑا بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا:’ ’ اے اللہ! بس تو راضی ہو جا۔‘‘

غزوۂ  بدر کے کافی عرصے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ وادیِ صفراء سے گذرے تورات کو وہیں قیام فرمایا کہ اچانک وہاں خوشبوئیں پھیل گئیں۔ صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ’’ یارسول اللہ! یہ کیا ماجرا ہے کہ یہاں اس قدر بھینی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘ اس پر نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’ یہاں عبیدہ(رضی اللہ عنہ) کی قبر کے ہوتے ہوئے اس خوشبو پر تمہیں کیوں تعجب ہو رہا ہے؟‘‘

 

 

 

               حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا حضرت عبداللہ بن جحش سے نکاح

 

ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بدر کے میدان میں شہید ہو گئے، اور آپ بیو گی کی زندگی بسر کر رہی تھیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کا رشتہ آیا۔ یہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور اسلام کے آغاز میں ہی مسلمان ہونے والوں میں سے تھے۔ آپ بھی حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی طرح بہادر اور پُر جوش مجاہد تھے۔ قد میانہ اور سر کے بال بڑے گھنے تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سیدِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت ان کی رگ رگ میں پیوست تھی۔ اس محبت کے ہوتے آپ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو گئے تھے۔ ان کے دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ یہ جان اللہ و رسول کے لیے قربان ہو جائے۔

جب ایسے جاں نثار صحابی کا رشتہ آیا تو ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بہ خوشی راضی ہو گئیں ، اس طرح دونوں کی شادی ہو گئی اور دوبارہ زندگی میں مسرت و شادمانی دوڑنے لگی۔

رجب المرجب ۲ھ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو ایک ٹولی کا امیر بنا کر ایک خط دے کر فرمایا کہ:’’ عبداللہ! دو دن سفر کرنے کے بعد اس کو کھول کر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے فرمان لیا اور سفر پر روانہ ہو گئے۔ دو روز بعد خط نکال کر پڑھا ،لکھا تھا:’’ مکہ اور طائف کے بیچ جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت اور دوسرے حالات کا پتا چلائیں۔‘‘ خط پڑھنے کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہمیں اس خط پر عمل کرنا ہے، اس لیے جسے شہادت کا شوق ہے وہ میرے ساتھ چلے۔ چناں چہ آپ کے ساتھ بارہ افراد تھے سبھی نے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئے اور وہ سب نخلہ کے بیچ میں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔

 

 

               حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت

 

جب اسلام کی مقبولیت روز بہ روز بڑھنے لگی تو دشمنانِ اسلام نے ایک بار پھر اس کے سدِ باب کے لیے جنگ کا ارادہ کیا۔ چناں چہ غزوۂ  احد واقع ہوا۔ اس غزوہ سے ایک روز قبل حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ خداوندی میں دعا مانگی کہ :’’ اے اللہ! مجھے ایسا مقابل عطا فرما جو بہت بہادر ہو، مَیں تیری راہ میں اس سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کر کے ناک ، کان کاٹ ڈالے، جب مَیں تجھ سے ملوں اور تو فرمائے کہ اے عبداللہ! یہ تیرے کان ناک کیوں کاٹے گئے، تو مَیں عرض کروں تیرے اور تیرے رسول کے لیے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو اپنی خواہش کے پورا ہونے کا مکمل یقین تھا ، وہ قسم کھا کھا کر کہتے تھے کہ :’’ اے اللہ! مَیں تیری قسم کھاتا ہوں کہ مَیں دشمن سے جہاد کروں گا اور وہ میرا مُثلہ کرے گا۔‘‘(مُثلہ= ناک کان وغیرہ اعضا کاٹ ڈالنا)

۷؍ شوال ۳ھ سنیچر کو میدانِ جنگ میں دونوں لشکر آمنے سامنے تیار ہو گئے۔ معرکہ شروع ہوا۔ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ایسے جوش و خروش اور شوق و ذوق سے لڑ رہے تھے کہ اُن کی تلوار کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو کھجور کی ایک چھڑی عطا فرما دی جس نے اُن کے ہاتھ میں تلوار کا کام کیا۔دیر تک لڑتے رہے ، ابو الحکم ابن اخنس ثقفی نے ایک ایسا وار کیا کہ آپ جنت مکین ہو گئے۔ مشرکین نے مُثلہ کیا اور ان کے ناک کان کاٹ کر دھاگے میں پرو دیا۔ اسلامی تاریخ میں انھیں ’’المسجد ع فی اللہ ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

 

 

               حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کاشانۂ  نبوت میں

 

ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا نے جب حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سُنی تو دوبارہ بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا :’’ اے اللہ! تیرا ہر حال میں شکر ہے ، تیری رضا میں میری رضا شامل ہے۔‘‘ حضرت زینب دوبارہ بیوہ ہو گئیں مگر صبر و شکیبائی کا دامن پھر بھی نہ چھوڑا۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ۳۰؍سال تھی۔ اب ان کی قسمت کا ستارا ایسی بلندی پر پہنچنے والا تھا کہ اس سے بڑی بلندی کوئی اور ہوہی نہیں سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس شاکر و صابر بندی کے اعزاز میں کاشانۂ  نبوت لکھا تھا۔ چناں چہ ایک دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انھوں نے قبول فرما لیا۔

اس طرح ہجرت کے اکتیسویں مہینے کی ابتدا میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما کران کے سر پر ’’ام المؤمنین‘‘ کا تاج بھی سجا دیا یہ ایسا اعزاز تھا جس کی وجہ سے آپ کے ماضی کے تمام دکھ درد ختم ہو گئے۔خوشی و مسرت کے شادیانے بجنے لگے۔

 

               ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات

 

ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچویں عربیہ غیر قریشیہ زوجۂ  محترمہ تھیں۔ جب آپ کاشانۂ  نبوت میں آئیں تو تین ازواجِ مطہرات موجود تھیں۔ نبیِ کریمﷺ  کے ساتھ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا آٹھ مہینے تک رہیں اور ہجرت کے انتالیسویں مہینے کی ابتدا میں ربیع الآخر ۴ھ کو۳۰؍ برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ نبیِ کریمﷺ  کے نکاح میں صر ف ۳؍ ماہ رہیں اس کے بعد وفات ہوئی۔

بہ ہر حال اس مر پر سب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا وصال نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی ہی میں ہوا اور مدینۂ  منورہ میں آپﷺ  کی بیویوں میں سب سے پہلے اِن ہی کی وفات ہوئی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ کے تینوں بھائیوں نے آپ کو قبر میں اتارا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وفات تک ان سے بے حد خوش رہے ،ان کی وفات کا قلبِ نازک پر بڑا صدمہ گذرا۔ یہ ماں کی طرف سے ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔ ان کی وفات کے بعد نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید