FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

النجم کی سائنسی و روحانی تشریح

 

 

 

ڈاکٹر دلدار احمد علوی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل


ای پب فائل


کنڈل فائل

 

 

 (Introduction)

 

       قرآنِ مجید نہ صرف معنی، مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے معجزہ ہے بلکہ اپنی زبان اور اسلوب کے اعتبار سے بھی اپنی نظیر نہیں رکھتا۔

       قرآنِ مجید سارے کا سارا بلا شک و شبہ ادب کا شہپارہ (Masterpiece) ہے، اور زبان و ادب کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وہ کتاب ہے جس کا ترجمہ کرنا ایک امرِ نا ممکن ہے۔ لیکن قرآنِ مجید کی فصاحت و بلاغت سورہ النجم میں امتیازی شان سے جلوہ گر ہوئی ہے۔ اس کا نظم اور آہنگ، صوتی جمال اور معنوی حسن اپنی مثال آپ ہے۔ مختصر آیات اپنے اندر معانی و مفاہیم کا سمندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کا سادہ اور ڈایریکٹ ترجمہ کرنا ممکن ہی نہیں۔

       یہ سورہ قرآنی پیغام کے بنیادی نکات کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ قرآنِ مجید کا منشاء یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد صلاحیّتوں کو پوری یک سوئی کے ساتھ بھر پور طور پر، حدِّ امکان تک، بروئے کار لائے، اور یوں اپنا تزکیہ اور نشو و نما کرتے ہوئے اپنے تکامل کے بلند ترین مقام کو حاصل کر لے۔ انسان کی نشو و نمائے ذات (Development of Self) میں اس کا ورلڈ ویو) (World-view یا تصورِ عالم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یعنی انسان کائنات اور کائنات میں اپنے آپ کو کس زاویہ ٗ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انسان کے بعض عقیدے اور نظریات ایسے ہوتے ہیں جو اسے اندر سے تقسیم اور پارہ پارہ کر تے، اور اس کی وحدتِ وجود اور یک سوئی کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اس طرح انسان اپنے پورے جوہر اور پوٹینشل (Potential) کو بروئے کار لانے اور آشکارا کرنے سے قاصر رہتا ہے، اور اس کی ذات کا ارتقاء یا تو سست روی کا شکار ہو جاتا ہے یا پھر رک جاتا ہے۔ اس کی مثال اس درخت جیسی ہوتی ہے جس پر یا تو سرے سے پھل لگتا ہی نہیں، یا پھر بہت تھوڑا اور بد ذائقہ لگتا ہے۔ اسی طرح انسان اپنی نشو و نما اور ارتقاء میں ناقص اور نامکمل رہ جاتا ہے۔ اس کی خوبصورتیاں اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ اس کے تخلیقی امکانات قوت سے فعل میں آنے (Actualization) سے محروم رہ جاتے ہیں۔ خوابیدہ جوہر بیدار نہیں ہونے پاتا۔ اس طرح گویا وہ ضائع ہو جاتا ہے۔

       انکارِ آخرت، شرک اور شفاعت کے جھوٹے نظریات انسان کی نشو و نما اور تکامل یا تکمیلِ ذات (Perfection) کے لئے زہرِ ہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انکارِ آخرت انسان کو پورے قد سے کھڑا نہیں ہونے دیتا۔ وہ ہمیشہ ادھورا رہتا ہے۔ اس کے عقل و فہم کی پہنچ اسی دنیا تک محدود رہتی ہے۔ اس کا دائرۂ فکر، مطمحِ نظر اور نصب العین مادّی دنیا کے حصار میں مقیّد رہ جاتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہوتی ہے جس کی دور کی نظر ہی کمزور ہو۔ وہ ایک محدود دائرے کے اندر ہی دیکھ سکتا ہے۔ وہ درخت پر چڑھ کر خوش ہو جاتا ہے حالانکہ اس کے اندر ستاروں سے بھی آگے جانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

       شرک انسان کی شخصی اور ارادی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیتا ہے۔ انسان کی تقسیم شدہ شخصیت (Split personality) روحانی سطح پر اس یک سوئی اور ارتکاز کو وجود میں لانے سے قاصر رہتی ہے جو تکاملِ ذات کے لئے ضروری ہے۔ اس طرح، انسان داخلی تضادات کا شکار ہو کر سفرِ ارتقاء میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ قرآن کی زبان میں شرک ظلمِ عظیم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔

       یہی نہیں، شرک انسان کو اس شرفِ انسانیت سے بھی بے بہرہ کر دیتا ہے جو اس کے لئے ارتقاء کے لامحدود امکانات کی ضمانت دیتا ہے۔ وہ جب غیرِ خدا کو الوہیت میں خدا کا شریک قرار دیتا ہے تواس طرح گویا وہ خود کو انسانیت کے بلند مرتبہ سے نیچے پھینک دیتا ہے۔ انسان جو اپنا سرِنیاز بزرگ و برتر خدا کے سامنے جھکا کر لامحدود رفعتیں حاصل کر سکتا ہے، غیرِ خدا کی پست دہلیز پر اپنی پیشانی ٹیک کر خود کو پستیوں کے حوالے کر دیتا ہے۔

       شفاعت کے جھوٹے عقیدے انسان کے تکاملِ ذات کے لئے، انکارِ آخرت اور شرک ہی کی طرح، تباہ کن ہیں۔ شفاعتِ باطلہ کے تصور کے خمیر ہی میں خدا پر اعتماد کی نفی کا عنصر موجود ہے۔ خدا جو سارے علم، ساری قدرت اور ساری رحمتوں کا سرچشمہ ہے، اس کے سامنے اس طرح کی شفاعت کی ضرورت کا تصور کیا معنی رکھتا ہے۔ شفاعت کے جھوٹے تصورات انسانی ذات کی نشو و نما کے راستے کی وہ سخت چٹانیں ہیں جو انسان کو اس کی منزلِ مراد سے ہمیشہ دور رکھتی ہیں۔

       شفاعتِ باطلہ کا تصور اصل میں انسان کو عمل کے میدان سے فرار کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ، انسان عمل کی دنیا میں اپنے جوہر دکھانے اور اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے بجائے شفاعت کے عقیدے کی ریت میں شترمرغ کی طرح اپنا سر چھپا لیتا ہے۔ اس طرح، وہ اپنی ذات کی نشو و نما، جس کا دار و مدار ہی عمل پر ہے، کے امکانات کو گویا مٹّی میں ملا دیتا ہے۔ دو انسانوں کا تصور کیجیئے۔ ایک کا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ آخرت میں انسان کے اعمال اپنی نوعیّت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے، اور انسان کے بلند یا پست مقام کا تعین اس کے اعمال کی بنیاد پر ہو گا۔ اس کے مقابلے میں، دوسرے کا پختہ عقیدہ یہ ہے کہ اعمال خواہ کیسے بھی ہوں کسی کی شفاعت اسے بلند مقام سے ضرور سرفراز کر دے گی۔ ان دونوں میں سے کون ہے جو اعمال کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے گا؟ اور کون ہے جو انھیں سنجیدگی سے نہیں لے گا؟ وہ جو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ آخرت میں اس کے مقام کا تعین اس کے اعمال کی بنیاد پر ہو گا، اگر وہ آخرت پر پختہ یقین رکھتا ہے، تو وہ دل و دماغ کی پوری طاقت سے اعمال پر توجہ دے گا۔ نتیجتاً اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملے گی، اس کی استعدادیں (Potentialities) پروان چڑھیں گی اور وہ روحانی اعتبار سے نشو و نما پاتا جائے گا۔ اس کی مثال اس بیج کی طرح ہو گی جو نشو و نما پا کر تناور، سایہ دار اور پھل دار درخت بن جاتا ہے، اور نشو و نمائی مراحل طے کر کے اپنے پورے کمال کو حاصل کر لیتا ہے۔

       اس کے مقابلے میں وہ شخص جس کی توجہ کا مرکز اس کی اپنی ذاتی جد و جہد نہیں بلکہ کسی اور کی شفاعت بن جاتی ہے، وہ اعمال کے میدان میں بری طرح ناکام رہ جاتا ہے۔ اس کی مثال اس بیج جیسی ہے جسے کسی نے پاؤں تلے روند ڈالا ہو، یا کسی نے توے پر ڈال کر بھون ڈالا ہو۔ یا پھر اس کی مثال اس پرندہ جیسی ہے جس نے اپنے پروں کو خود ہی باندھ رکھا ہو۔ ذاتِ انسانی کی نشو و نما کے لئے شفاعتِ باطلہ کا عقیدہ کتنا تباہ کن اور ضرر رساں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر پُر زور الفاظ میں اس کی نفی کی ہے۔

       قرآنِ مجید کا منشاء یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے تمام تر امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے تکامل اور نشو و نما یافتگی کے بلند ترین مقام کو حاصل کرے۔ وہ ان رکاوٹوں کو سمجھے جو سفرِ ارتقاء میں اسے آگے نہیں بڑھنے دیتیں، جو اس کا راستہ روکتی اور پاؤں پکڑتی ہیں۔ جن کے باعث انسان ادھورا اور ناقص رہ جاتا ہے۔

       انکارِ آخرت، شرک اور شفاعت کے جھوٹے عقیدے انسان کی راہِ ارتقاء کی سب سے بڑی، ہلاکت خیز اور تباہ کن رکاوٹیں ہیں جنھیں پاش پاش کئے بغیر انسان تکاملِ ذات کی منزلِ مراد کو نہیں پا سکتا۔

       نزولِ قرآن کے وقت باقی دنیا کی طرح، سرزمینِ عرب میں بھی کثرت سے لوگ ان عقیدوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کا تصورِ الٰہ شرک پر مبنی تھا۔ وہ خدائے واحد و لا شریک کے تصور سے نا آشنا ہو چکے تھے۔ بہت سے لوگ اجرامِ سماوی، سورج، چاند اور ستاروں کو ذی حیات ہستیاں گردانتے اور دیوی دیوتا قرار دے کر ان کی پرستش کرتے تھے۔ وہ انھیں اپنی قسمت اور مستقبل پر بھی حاکم تصور کرتے تھے۔ چنانچہ وہ ان کی موہومہ خوشنودی کے لئے طرح طرح کی رسوم ادا کرتے، چڑھاوے چڑھاتے اور نذریں مانتے تھے۔

       عربوں کے ہاں ملائکہ کا تصور بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ انھیں خدا کی چہیتی بیٹیاں اور مقدس دیویاں مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کی حاجتیں سنتیں اور مرادیں پوری کرتی ہیں۔ وہ خدا کے ہاں ان کی شفاعت کریں گی جو ضرور سنی جائے گی کیونکہ خدا ان کی کوئی بات نہیں ٹالتا۔

       کاہنوں اور پجاریوں نے لوگوں کو یقین دلایا ہوا تھا کہ اگر وہ ان دیویوں کی خوشنودی حاصل کر لیں تو دنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں ان کا مقدر ٹھہریں گی۔ آخرت میں یہ دیویاں اپنے ماننے والوں کی شفاعت کریں گی اور یوں ان کی نجات ہو جائے گی چاہے ان کے اعمال کچھ بھی ہوں۔ اس طرح، لوگ بتوں کے پجاریوں اور مجاوروں کے دامِ فریب میں زندگی بھر گرفتار رہتے، اور عمل و حرکت، کد و کاوش اور جد و جہد کی اس راہ ہی سے دور رہتے جو انھیں تکاملِ ذات کی منزل کی طرف رواں دواں کر سکتی تھی۔

       عربوں کا سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ شرک و شفاعت کے انھیں نظریات پر قائم تھا۔ مقتدر قوتیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، کے مفادات اسی ڈھانچے کی بقاء کے ساتھ وابستہ تھے اور وہ اس کے لئے ہر قیمت ادا کرنے پر تیار تھے۔ لہٰذا، جب قرآنِ مجید نے لوگوں کو حریت و آزادی کا پیغام دیا تو انھوں نے پوری شدومد سے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ اپنے مفادات پر کسی قسم کی زد پڑنا کیسے گوارا کر سکتے تھے۔ ان کی تو زندگی کا دارومدار ہی اس استحصالی سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں تھا۔ قرآن لوگوں کو جہالت اور ظلم و استحصال کی ان زنجیروں سے آزاد کرنا چاہتا تھا جن میں وہ صدیوں سے جکڑے ہوئے تھے اور ان کے اوپر سے ان بوجھوں کو اتارنا چاہتا تھا جس نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی (سورہ الاعراف) ۔ سورہ النجم میں انسان کی توجہ ان عوامل کی طرف دلائی گئی ہے جو ذاتِ انسانی کے ارتقاء کی راہ میں سخت چٹانوں کی طرح حائل ہوتے ہیں۔ اسے بتایا گیا ہے کہ وہ کیا عقیدے اور نظریئے ہیں جن سے دامن چھڑائے بغیر وہ تکاملِ ذات کی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ درست تصورِ عالم کیا ہے اور وہ کیا نظامِ اقدار (Value system) ہے جسے اختیار کر کے ہی انسان دنیا اور آخرت کی بہترین کامیابیوں اور ابدی فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔

 

 

 

تشریحات و مباحث

 

       سور ۃ النجم کے نزول کے پسِ منظر کو کسی حد تک سمجھنے کے بعد اب ہم اس کی تشریح کی طرف آتے ہیں۔      (53: 1-3)

       سورۃ کا آغاز وَالنجم سے ہوتا ہے۔ جس کا لفظی معنی ہے: قسم ہے نجم کی۔ قسم ایک طرح کی شہادت اور گواہی ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی کسی بات کی سچائی کو ثابت کرنے کیلئے قسم کھاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم قسم کو اپنی بات کے حق میں شہادت یا دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لہذا قسم ہے نَجم کی کا مطلب یہ ہو گا نجم شاہد ہے۔

       عربی زبان میں نجم کا ایک معنی تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں ستارہ ہے۔ مگر اس کا استعمال اور بھی کئی معنوں میں ہوتا ہے۔ ظہور میں آنے اور نمودار ہونے کے مفہوم میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے۔ کسی چیز کے تھوڑا تھوڑا کر کے یا تدریجاً واقع ہونے کے لیئے بھی نجماً کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ وہ جڑی بوٹی جس کا تنا نہیں ہوتا، عربی میں اُسے بھی نجم کہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کے یہاں نجم کا لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بہت سے مفسر ین کے نزدیک یہاں نجم سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید ایک بار ہیں بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں نجم لفظی طور پر تو ستارہ ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہو، مگر مجازاً اس سے مراد قرآنِ پاک ہو۔ قرآنِ پاک بلا شک و شبہ ہدایت کا روشن ترین ستارہ ہے۔ چنانچہ آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہدایت کا درخشندہ ستارہ قرآن جو تھوڑا تھوڑا کر کے (نجماً نجماً) نازل ہوا، شاہد ہے (کہ تمہارے رفیق رسول کریمؐ جو کلام پیش فرما رہے ہیں وہ خدا کا کلام ہے) ۔

       ماَ ضَلَّ صاحِبُکم وما غویٰ

       یہ آیت اتنی فصیح و بلیغ ہے کہ اس کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا بالکل نا ممکن ہے۔ ضلَّ ایک کثیر المعنی لفظ ہے۔ قرآنِ پاک میں بہت سے معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے -گمراہ ہونا، بھٹک جانا، بہک جانا، بھول جانا، فہم و شعور کا سلب ہو جانا، محبت میں خود رفتہ ہو جانا، راہ کی طلب و جستجو رکھنا، علم و شعور کی کمی، نادانی، ضائع ہو جانا، کھو جانا وغیرہ۔ اسی طرح غویٰ کے بھی کئی معنے ہیں۔ یہ بھی گمراہ ہونے اور بھٹک جانے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ضلَّ اور غویٰ بہت حد تک ہم معنی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بہک جانے اور جان بوجھ کر غلط راہ پر چلنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

ََ       صَا حِبُکم کا مطلب ہے: تمھارے صاحب، یعنی تمھارے رفیق اور ساتھی۔ یعنی رسولِ اکرمﷺ آیت میں کفارِ مکہ کے اس الزام کی نفی ہے جس میں وہ آپؐ کو مجنون اور شاعر قرار دے کر آپؐ کا مذاق اڑاتے تھے۔ قرآن کہتا ہے: اے اہلِ مکہ محمدﷺ کو تم برس ہا برس سے جانتے ہو یہ تمھارے رفیق اورساتھی ہیں، تمھارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، تم ان کے فہم وفراست اور جذباتی رجحانات سے آگاہ ہو۔ تم ان کے حیاتِ طیبہ پر غور کرو گے تواس نتیجے پر پہنچے بغیر نہ رہ سکو گے کہ جو کلام وہ پیش کر رہے ہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ تمھارے برسوں کے یہ رفیق ایسے ہیں کے ان پر نہ تو ضلَّ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور نہ غویٰ کا۔

        اگرچہ ضلَّ اور غویٰ اپنے معنی اور مفہوم میں ملتے جلتے ہیں لیکن یہاں، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے، ان کا استعمال دو مختلف مفہوموں میں ہوا ہے۔ ضلَّ اس حالت و کیفیت کی عکاسی کرتا ہے جب انسان سلبِ شعور یا تعطلِ شعور یا قلّتِ شعور کے باعث حقیقت کے فہم میں کوتاہی کر رہا ہو۔ یہ حالت دیوانوں اور مجنونوں کی ہوتی ہے۔ کفارِ مکہ لوگوں کو آپؐ سے دور رکھنے کے لئے آپ کو مجنون اور دیوانہ کہتے تھے۔ قرآن میں اس کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ سورہ الاعراف میں ہے:

 کیا ان لوگوں نے غور و فکر نہیں کیا: ان کے برسوں کے رفیق (خدا کے رسولﷺ)

       کسی جنون کے زیرِ اثر نہیں۔ آپؐ تو واضح طور پر خبردار کرنے والے ہیں (7: 84)

سورہ الطور میں ہے:

       پس آپؐ سمجھاتے رہیے۔ آپؐ اپنے رب کی مہربانی سے نہ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔

 (52: 29)

سورہ الصافات میں ہے:

 کفار کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرنے لگتے ہیں۔ اور کہتے ہیں:

 کیا ہم ایک شاعر اور دیوانے کے کہنے پر اپنے خداؤں کو چھوڑ دیں۔ (حالانکہ وہ دیوانے نہیں) بلکہ دینِ حق لے کر آئے ہیں اور انھوں نے سارے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔ (37: 35-37)

سورہ التکویر میں ہے:

       اور تمھارا یہ (برسوں کا) رفیق ہر گز مجنون نہیں۔ (81: 22)

سورہ القلم میں ہے:

       اے رسولؐ آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے ہرگز مجنون نہیں ہیں۔ (68: 2)

       یہاں (سورۃ النجم) میں ” مجنون” کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ لفظ ” ضَلَّ” استعمال ہوا ہے۔ جو زیادہ بلاغت اور وضاحت کے سا تھ انسان کی اُس حالت کی عکاسی کرتا ہے جس میں انسان شعور کے تعطل کے باعث مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور رسولِ خُداﷺ سے اُس طرح کی کسی حالت کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ آپ قوائے ذہنی، عقل و شعور اور فہم وفراست کے اعتبار سے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔

       "غویٰ”سے مراد وہ حالت ہے جس میں انسان وقتی اور ہنگامی جوش، اور جذبات کی رو میں بہتے ہوئے حقیقت سے بہت دُور نکل جاتا ہے۔ آپ اسے راہِ اعتدال سے انحراف بھی کہہ سکتے ہیں۔ اظہارِ حقیقت میں مبالغہ آرائی، تکلف اور تصنع شاعرانہ طرزِ تکلم کا حصہ ہے جس سے اکثر شعراء کام لیتے ہیں۔ شاعری میں یہ چیز معیوب بھی نہیں سمجھی جاتی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شعرا اکثر تخیلات کی وادیوں میں سر گرداں رہتے ہیں۔ ان کے کلام کا کوئی واضح اور یکسو نصب العین نہیں ہوتا۔ وہ بس انسان کے احساسات و جذبات کی منظر کشی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآنِ مجید ایک فلسفۂ کائنات اور دستورِ حیات کا داعی ہے۔ یہی بات کفارِ مکہّ کو ناپسند تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ قرآن کو ایک فلسفۂ کائنات یا تصورِ عالم ((world view  اور دستورِ حیات (Way of life) کے طور پر سنجیدگی سے سنیں بلکہ شاعرانہ جوشِ خطابت کہہ کر سنی اَن سنی کر دیں۔

سورہ الانبیاء میں ہے:

        ’’وہ (کفار) کہتے ہیں یہ خیالاتِ پریشاں ہیں جواس نے خود گھڑے ہیں۔ بلکہ وہ ایک شاعر ہے۔ (21: 5)

       سورہ الطور میں ہے:

 ” کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ "وہؐ شاعر ہیں (اور) ہم ان کے متعلق گردشِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں …” (30:52)

       قرآنِ مجید کفار کے اس الزام کی نفی کرتا ہے۔ سورہ یٰس میں ہے:

        ’’ہم نے (اے رسولؑ) آپ کو شاعری نہیں سکھائی، اور نہ ہی وہ آپ کے شایانِ شان ہے۔ یہ تو سراسر نصیحت ہے، اور کھول کھول کر بیان کر دینے والا قرآن‘‘۔ (36: 69)

سورہ الحاقہ میں ہے:

       ” بے شک یہ ایک عزت والے رسولؐ کا قول ہے۔ اور (یہ کہ) یہ کسی شاعر کا کلام نہیں۔ لیکن تم بہت کم ایمان لاتے ہو…” (69: 40-41)

سورہ الشعرا میں ہے:

       "اور جو شعراء ہیں اُن کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ شعرا ہر وادی میں سرگرداں پھرتے رہتے ہیں، اور وہ ایسی باتیں کیا کرتے ہیں جن پر وہ خود عمل نہیں کرتے”

 (26: 224-226)

       چنانچہ، سادہ لفظوں میں آیت (ما ضَلَّ صاحِبُکم وَما غویٰ) کا مفہوم یہ ہو گا کہ رسول کریمﷺ نے نہ تو فہمِ حقیقت میں غلطی کھائی ہے اور نہ اظہار حقیقت میں کوتاہی برتی ہے۔ نہ آپؐ نے شعور کھویا، اور نہ جذباتی عدم توازن کا شکار ہوئے۔ قرآن نہ تو کسی دیوانے کا بے ربط کلام ہے، اور نہ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے کسی شاعر کا وقتی جوشِ بیان۔ آپؐ نے حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور بلا کم و کاست پیش کر دیا (تفسیرِ کبیر سے ہمارے نتائجِ فکر کی تائید ہوتی ہے) ۔

 اگلی آیت ہے:

       وَماَ ینظِقُ عَنِ الھویٰ

       اور رسول کریمﷺ کسی مادّی غرض کے تحت کلام نہیں کرتے۔

       یعنی رسول کریمﷺ جنھیں تم خود بھی برسوں سے جانتے ہو وہ جو کلام تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں کسی مادی غرض کے تحت خود سے گھڑ کر پیش نہیں کر رہے۔ آپؐ وہ سلیم الفِطرت ہستی ہیں جو کسی مادی غرض کے تحت کلام ہی نہیں کرتیں۔

       کفارِ مکہ لوگوں کو رسولِ کریمﷺ سے دور رکھنے کیلئے جہاں آپؐ کو مجنون اور شاعر قرار دیتے تھے، وہاں وہ آپؐ پر کہانت کا الزام بھی لگاتے تھے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں عرب میں کاہن ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگوں کو اُن کے مستقبل کے حالات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ ان کے قابو میں جِن اور غیبی قوتیں ہیں جن کے ذریعے وہ غیب کی خبروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ کہانت ایک پیشے کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ کاہنوں کا کلام مُسَجَّع اور مقفّیٰ ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کی ضعیف الاعتقادی اور سادہ لوحی سے خوب خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہ ایک کاروبار تھاجس سے بہت سے لوگوں کے مفادات وابستہ تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رسولِ کریمؐ جب پوری دل سوزی سے لوگوں کو جاہلانہ اعتقادات اور ظالمانہ رسوم سے آزادی کا پیغام دے رہے ہوں گے، اور جواب میں سردارانِ کفار آپؐ کو کاہن قرار دیتے ہوں گے تو آپؐ کس قدر دکھی اور رنجیدہ ہوتے ہوں گے۔ مگر آپ انتہائی دلسوزی اور صبر و استقلال کے ساتھ اللہ کا پیغام انھیں پہنچاتے رہے۔

سورۃ الطور میں ہے:

       "پس آپؐ انہیں سمجھاتے رہئیے۔ آپ اپنے رب کی مہربانی سے نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون”

(52: 29)

       اس طرح، سورۃ الحاقہ میں ہے:

       "اور نہ ہی یہ (قرآن) کسی کاہن کا کلام ہے، مگر تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو”۔ (69: 42)

       سورۃ النجم کی ان دو آیات (53: 23) میں رسولِ کریمؐ کے لئے تین چیزوں کی نفی کی جا رہی ہے:

        (۱) شعور کا تعطل، فقدانِ فہم (۲) فقدانِ توازن، جذباتی عدم توازن، جذبات کی رو میں بہہ جانا، مبالغہ آرائی، اور (۳) فقدانِ اخلاص، مادی اغراض

        کسی خبر، پیغام یا اطلاع کے قابل اعتماد (Reliable) ہونے میں بنیادی رکاوٹیں یہی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ شخص جو آپ کو کوئی پیغام پہنچا رہا ہے، اُس نے اس پیغام کے فہم میں غلطی کی ہو۔ جب اُس نے پیغام کو خود غلط سمجھا ہو گا تو وہ اُس کا ابلاغ بھی غلط ہی کرے گا۔ ممکن ہے وہ پوری دیانت داری سے پیغام کو آگے پہنچا یاTransmit کر رہا ہو۔ مگر سوال اُس کی دیانت داری کا نہیں اس بات کا ہے کہ اُس نے پیغام کو بذاتِ خود درست طور پر سمجھا تھا یا نہیں۔

       دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ انسان نے پیغام کوتو درست طور پر سمجھا ہو مگر اس کی ترسیل اور ابلاغ میں جان بوجھ کر مبالغہ آرائی کر رہا ہو۔ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہو۔ یہ بیانِ حقیقت کی وہ کوتاہی ہے جو خبر کیReliability  کو مشکوک کر دیتی ہے۔

       خبر کی اعتباریت (Reliability) کو متاثر کرنے والا تیرا عنصر پیغام بر کی نیّت کا فطور ہے۔ دوسرے لفظوں میں ذاتی غرض اور مفاد۔ ممکن ہے کہ کسی شخص نے پیغام کو سمجھا بھی درست طور پر ہو، اور وہ اس کے بیان کرنے میں مبالغہ آرائی بھی نہ کر رہا ہومگراس کے مادی اغراض اس کے پیغام کی اعتباریت کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو خواہشاتِ نفسانی اور مادی اغراض کے تحت کلام کرتے ہیں، سننے والے ان کے پیغام کی Reliability کے بارے میں ہمیشہ تردد میں مبتلا رہتے ہیں۔ سننے والے خبر کی اعتباریت کے لئے یہ جاننا چاہتے ہیں کے خبر دہندہ کے اغراض اور Motives کیا ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اُس کا پیغام ہر اعتبار سے قابلِ اعتماد ہے: رسولِ کریمؐ بلند ترین عقل و شعور اور فہم و فراست کے حامل ہیں، (Mentally and Intellectually sound) ۔ یہ امکان ہی نہیں کہ انہوں نے فہمِ حقیقت میں غلطی کھائی ہو۔ مزید براں، ان کی شخصیت جذباتی اعتبار سے نہایت متوازن اور معتدل ہے، یعنی Emotionally balanced۔ آپ کی دعوت کسی وقتی اور ہنگامی جوش کا نتیجہ نہیں۔ وہ حقیقت کو بلا کم و کاست بیان کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی اور غلو نہیں۔ اور یہ کہ وہ انتہائی سلیم الفطرت ہیں، وہ مادّی غرض کے تحت کلام ہی نہیں کرتے۔ ان کے پیشِ نظر صرف نوعِ انسانی کی فوز و فلاح ہے۔ وہ انسانوں سے کسی اجر کے خواہشمند نہیں۔ سارے حالات (Circumstances) اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا اخلاص شک و شبہ سے بالا ہے۔

       آگے ارشاد ہے:      

       ان ھوا الّا وحی یوحا

       وہ تو بس خدا کی وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔

       وہ کلام جو رسولِ اکرمﷺ پیش فرما رہے ہیں وہ خدا کی وحی ہے جو آپ پر کی جاتی ہے۔ قرآن کسی مجنون، کسی شاعر اور کسی کاہن کا کلام نہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو بذریعہ وحی آپ پر نازل ہوا ہے۔

       اگلی آیات میں اس واسطہ (Medium) کی صحت (Accuracy, soundness) ، مضبوطی اور پختگی کا بیان ہے جس کے ذریعے خدا کا کلام۔ قرآن۔ رسولِ اکرم کی ذاتِ اطہر پر نازل ہوا۔        (53: 4,5)      

        قرآن کہتا ہے وہ واسطہ ہر اعتبار سے قابلِ اعتماد (Reliable) ہے۔

       علّمہ شدید القویٰ۔ ذو مرہ۔۔ ۔

       رسولِ اکرم کو قرآن اس ہستی نے سکھایا ہے جو شدید القویٰ ہے اور ذومرّہ بھی۔

       وہ ایک نہایت مضبوط واسطہ ہے۔ وہ اتنا طاقتور ہے کہ کوئی شیطانی طاقت اس پر حاوی ہو کر اس کے پیغام میں رد و بدل نہیں کر سکتی۔ وہ ایسا ہے کہ کوئی شیطانی طاقت کسی بھی طرح اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔ وہ شدیدالقویٰ ہے۔ ترسیلِ پیغام میں کسی قسم کے رخنے، رکاوٹ، مداخلت یا کمی بیشی کا امکان ہی نہیں۔ اور نہ یہ امکان ہے کہ وہ کسی قسم کی بھول کا شکار ہو جائے یا مغالطہ کھا جائے۔ نہ کوئی خارجی قوت اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور نہ کوئی داخلی کمزوری کسی بھول، خطا اور کوتاہی کا باعث بن سکتی ہے۔ آگے ذومرّہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی وہ جو اپنے کردار اور دیانت و امانت میں نہایت مضبوط اور ناقابلِ شکست ہو۔ وہ ذومرہ ہے، اپنی ذمہ داری کو نہایت Perfection کے ساتھ ادا کرنے والا۔ وہ ایسا نہیں کہ جان بوجھ کر پیغام میں کوئی رد و بدل کر دے۔ اس کی دیانت اور Integrity شک و شبہ سے بالا ہے۔

       مطلب یہ ہے کہ وہ واسطہ جس نے قرآن رسولِ اکرمﷺ تک پہنچایا وہ شدید القویٰ بھی ہے اور ذومرہ بھی۔ اس نے خدا کے کلام کو بلا کم و کاست، جوں کا توں پہنچایا۔ وہ اتنا طاقتور ہے کہ کوئی اور قوت اس کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی، اور وہ اس قدر سلیم الفطرت ہے کہ اس سے کسی شعوری کوتاہی کا بھی امکان نہیں۔ چنانچہ اس نے نزولِ قرآن کا اپنا کام پوری پرفیکشن کے ساتھ سر انجام دیا ہے۔

       قرآنِ مجید وہ کلام ہے کہ جس ہستی کی زبانِ مبارک سے ادا ہوا، نہ صرف وہ ہر اعتبار سے قابلِ اعتماد ہے بلکہ جس واسطہ سے آپ تک پہنچا وہ بھی ہر لحاظ سے کامل ہے۔ سورہ التکویر میں ہے:

       "یہ قرآن ایک معزز قاصد کا لایا ہوا قول ہے، جو قوت والا، (اور) کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ کے مالک کے ہاں بڑی عزت والا ہے۔ اس کی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہے”۔ (81: 19-21)

 فستویٰ: پس اس نے اپنی ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کیا۔

       اگلی آیات ہیں: (53: 6-12)

       وَ ہو بالافقِ الاعلیٰ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

        (اور وہ بلند ترین افق پر تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔)

       وہ واسطہ جس کے ذریعے رسولِ اکرمؐ پر قرآنِ مجید نازل ہوا، آپ نے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ نہایت واضح مشاہدہ، ایسا مشاہدہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ وہ افقِ اعلیٰ پر تھا، یعنی آپ نے اسے بالکل واضح طور پر دیکھا، غلطی کے کسی امکان کے بغیر، کسی شبہ یا الجھاوے کے بغیر۔

       پھر یہ کہ وہ دور ہی سے واپس نہیں چلا گیا۔ یہ مشاہدہ محض دور کا مشاہدہ نہ تھا۔

       وہ افقِ اعلیٰ پر نمودار ہوا، پھر اس نے خود کو آپ کے قریب کیا، بہت قریب۔ پھر، قربت بھی ایسی کہ اس میں جھکاؤ اور التفات تھا۔ توجہ اور اہتمام تھا۔ انسیت اور اپنائیت تھی۔

       پھر، یہ قربت اور یہ التفات ایسا تھا جسے مادّی پیمانوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن نے اس کے اظہار کے لئے عربوں کا جانا پہچانا اسلوب استعمال کیا۔ فرمایا: ان کے درمیان دو کمانوں کے برابر فاصلہ تھا بلکہ اس سے بھی کم۔ یہ نزدیک کے مشاہدہ کی منظر کشی ہے۔

       یہ ایک ایسا روحانی اور ما بعد الطبیعاتی تجربہ تھا جس نے حقیقت کو کھول کھول کر واضح کر دیا تھا۔ یہ گویا عالمِ طبیعات اور عالمِ مابعد الطبیعات کا ناقابلِ بیان انٹر ایکشن (Interaction) تھا، جسے استعارہ اور تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ قربت اور التفات کی یہ گھڑی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندۂ خاص یعنی رسولِ اکرمؐ پر وحی نازل فرمائی، جو فرمانا چاہی، جس کا احاطہ انسانی ادراک کے لئے نا ممکن ہے۔

       ما کذب الفواد ما رای (جو آپ نے دیکھا، دل نے اسے جھٹلایا نہیں)

       رسولِ اکرمؐ کا یہ مشاہدہ، یہ روئیت ایسی تھی جس میں کسی شک، تردد، تذبذب اور کنفیوژن کا کوئی امکان نہ تھا۔ آپ کو اپنے مشاہدہ کی حقانیت اور صداقت پر کامل یقین اور اطمینان تھا۔ اس مشاہدہ میں کوئی دھندلا پن نہ تھا، مکمل clarity تھی۔

       افتمارونہ علیٰ ما یرا (کیا پھر بھی تم ان سے اس پر جو انھوں نے دیکھا جھگڑا کرو گے ؟)

       جب حقیقت حال یہ ہے تو کیا پھر بھی تم (اے منکرین!) ان سے ان کی روئیت کے باب میں جھگڑا کرو گے، اختلاف کرو گے، شک اور تردد میں مبتلا ہو گے۔

       منکرین سے کہا جا رہا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ تمہارے روز و شب کے ساتھی ہیں۔ وہ کہیں باہر سے نہیں آئے، انھوں نے تمہارے درمیان ایک عمر بسر کی ہے۔ تم ان کے ماضی سے اچھی طرح آگاہ ہو، اور جانتے ہو وہ کس طرح کی شخصیت کے مالک ہیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو تم ان سے ان کی روئیت کے حوالے سے جھگڑا کیوں کرتے ہو۔ تمہارے جھگڑے، مخالفت، اور شک و تردد کا کوئی جواز نہیں۔ تمہاری مخالفت بے بنیاد اور عقل و منطق اور معقولیت کے خلاف ہے۔

       اگلی آیات ہیں: (53: 13-18)

       ولقد راءہ نزلۃ اخریٰ۔۔ ۔۔ ۔ (اور یقیناً آپ نے اسے دوسری مرتبہ بھی دیکھا، سدرۃ المنتھیٰ کے پاس، جس کے پاس جنّۃ الماویٰ ہے۔)

       یہی نہیں، آپؐ نے اس خدائی قاصد کا مشاہدہ بارِ دگر بھی کیا ہے۔ سدرہ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے پاس جنۃ الماویٰ ہے۔ جبکہ سدرہ کو خدا کے انوار و تجلیات نے ڈھانپا ہوا تھا۔ آنکھ نہ چندھیائی اور نہ آگے بڑھی۔ یقیناً آپ نے اپنے رب کی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔

       بارِ دگر کا یہ مشاہدہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور منفرد مشاہدہ تھا۔ جو آپ نے دیکھا وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ اس ماحول اور مشاہدہ جو آپ کو ہوا کی نوعیّت اور کیفیات کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ بھرپور اور کامل مشاہدہ تھا۔ چشمِ رسولؐ کو خدا نے وہ قوتِ بصارت عطا کی تھی کہ وہ شدّتِ نظارہ سے چندھیائی نہیں، درماندہ نہیں ہوئی۔ اگر وہ چندھیا جاتی تو مشاہدہ میں کمی رہ جاتی۔ مشاہدہ ناقص اور نامکمل ہوتا۔ لیکن، وہ نہیں چندھیائی مشاہدہ مکمل تھا، پورا تھا۔ لہذا اب جو رسولِ اکرمؐ بیان فرماتے ہیں، وہ ہر اعتبار سے کامل مشاہدہ پر (Perfect observation) پر مبنی ہے۔

       ایک اور وجہ جس سے مشاہدہ میں نقص رہ سکتا تھا، وہ یہ تھی کہ آپؐ اپنی نظر کو جان بوجھ کر ” مقصودِ نظر” سے ہٹا دیتے، مگر آپؐ نے یہ نہیں کیا۔ نظر ” مقصودِ نظر” پر جمی رہی، وہاں سے اِدھر اُدھر، آگے پیچھے، دائیں بائیں نہیں ہوئی۔ پس یہ کامل مشاہدہ تھا قوتِ نظر کے اعتبار سے بھی اور ارتکازِ نظر کے اعتبار سے بھی۔ چشمِ رسولؐ مقصودِ نظر سے نہیں ہٹی۔ وہ قوتِ نظارہ میں بھی کامل تھی اور قوتِ ارادہ میں بھی کامل تھی۔ نہ قوت کی کسی کمی کے باعث یہ نظارہ ناقص رہا اور نہ جان بوجھ کر ہی اُسے ادھورا چھوڑا۔

       چنانچہ، آپؐ نے اپنے پروردگار کی عظیم نشانیوں اور عجائبات کا مشاہدہ فرمایا۔ آپؐ نے جو کچھ دیکھا، وہ آپؐ ہی کا حصہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے وہ انعامات و اکرامات ہیں جن سے اُس نے صرف آپؐ ہی کو نوازا ہے۔

        لُبِ لباب یہ ہے کے وہ پیغام جو رسولِ پاک پہنچا رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے مستند (Authentic) اور قابلِ اعتماد (Reliable) ہے۔ سورۃ التکویر میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے: (81: 19-21)

        "یہ ایک معزز قاصد کا (لایا ہوا) کلام ہے۔ وہ بڑی ہی قوت والا اور اقتدار اعلیٰ کے مالک خدا کے نزدیک بڑا ہی بارسوخ ہے۔

       اس کے اطاعت کی جاتی ہے، اور نہایت امین بھی ہے۔”

٭     رسول خدا کا ذریعۂ علم، کاہنوں اور نجومیوں کی طرح شیطانی نہیں، رحمانی اور ملکوتی ہے۔ یہ ذریعہ اتنا مضبوط ہے کے علم میں کسی نقص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

٭     اس کی Reliability ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔

٭     اس کی بنیاد شک، تذبذب اور ظن پر نہیں، یقین محکم پر ہے۔

٭     اس کا مقصد ذاتی غرض نہیں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔

       یہ ہے رسولِ اکرمؐ کی شان، مرتبہ اور مقام، اور قرآن اور نزولِ قرآن کی حقیقت۔ یہ تفصیل جان لینے کے بعد ایک متلاشی حق کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیئے ؟

       "سدرۃ المنتہی” کی حقیقت پر گفتگو آخر میں کی جائے گی، یہاں ہم سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہیں۔

       یہاں تک قرآن مجید کے پیغام کی reliability (ہر طرح سے قابلِ اعتماد ہونے) پر زور دیا گیا ہے۔ وہ ہستی کیسی ہے جس کی زبان سے قرآن جاری ہوا، اور اس واسطہ/ذریعہ کی حقیقت کیا ہے جس نے اللہ کا کلام رسولِ اکرمؐ تک پہنچایا۔ کسی پیغام کے قابلِ اعتماد نہ ہونے کی کیا کیا وجوہ ہو سکتی ہیں، اور قرآنِ پاک اُن سے کس طرح پاک اور ماوریٰ ہے۔ یہ ایک طرح سے تمہیدی آیات ہیں یہاں سے روئے سخن، سورۃ کے مرکزی مضمون کی طرف آگے بڑھاتا ہے۔ انسان کو بتایا جاتا ہے کہ وہ عوامل کیا ہیں جو اُسے مرتبۂ انسانیت سے نیچے گرا دیتے ہیں، اور اُس سے حرکت اور نمو کی قوت سلب کر لیتے ہیں۔ اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو، جن کی بنا پر کوئی فرد یا معاشرہ، آگے بڑھتا ہے، بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ تعطل کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ قرآنِ مجید کی زبان میں وہ عوامل شرک، انکارِ آخرت اور شفاعت کے جھوٹے عقیدے ہیں۔

       عربوں کے ہاں، دنیا کی بہت سی دیگر اقوام کی طرح بت پرستی عام تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایک بُت پرست معاشرہ تھا۔ اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کی تمام تر عمارت بت پرستی پر استوار تھی۔ جگہ جگہ مختلف دیوی دیوتاؤں کے مندر تھے جہاں پجاری عام لوگوں کی سادہ لوحی اور ضعیف الاعتقادی سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے تھے۔ بہت سے لوگ چاند، سورج اور دوسرے سماوی اجسام کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ سماوی اجسام نہ صرف ذی روح ہستیاں ہیں بلکہ ان کی زندگی اور مستقبل پر بھی اختیار رکھتے ہیں۔ انسان کی تنگ دستی اور خوشحالی اور غم و خوشی میں ان کا گہرا عمل دخل ہے۔ یہ عقیدے نجومیوں اور کاہنوں کے ہاتھوں میں استحصال کے مضبوط ہتھیار تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خفیہ قوتیں (جن اور شیاطین) اُن کے قبضے میں ہیں جو ان تک غیب کی خبریں لاتے ہیں۔

       فرشتوں کی پوجا بھی عام تھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کے فرشتے خُدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں۔ جن کی کوئی بات وہ نہیں ٹالتا۔ لہٰذا ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان ان دیویوں کی خوشنودی حاصل کرے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد اُس کیلئے دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے راستے کھل جاتے ہیں۔

       عرب جن دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے اُن میں لات، عزّیٰ اور منات کی مورتیاں اہم تھیں۔ یہ ملائکہ کے بت تھے۔ انہیں وہ خُدا کی پیاری بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ یہ اپنے چاہنے والوں اور پجاریوں کی خُدا کے ہاں شفاعت کرتی ہیں جسے خُدا کبھی نہیں ٹالتا۔ انسان کے اعمال خواہ کچھ بھی ہوں، اگر ان سے یہ دیویاں خوش ہوں تو آخرت میں ضرور کامیابی حاصل ہو گی۔ لوگ مجاوروں کی ہدایت کے مطابق ان دیویوں کے مندروں میں مذہبی رسوم ادا کرتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے۔

       آخرت سے انکار کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ زندگی بعد موت کے امکان ہی کو تسلیم نہ کیا جائے۔ عربوں میں بہت سے لوگ اس عقیدے کے حامل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جب ہم خاک میں مل کر خاک ہو جائیں گے، تو دوبارہ کس طرح زندہ ہوں گے۔ انکارِ آخرت کی دوسری قسم یہ ہے کہ زندگی بعد موت کو توتسلیم کیا جائے مگر اعمال کے نتائج کے بے لاگ اور لازمی ظہور پر ایمان نہ رکھا جائے۔ اس کے بجائے یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اعمال خواہ کچھ بھی ہوں، کسی کی شفاعت انسان کو کامیابی کی جنتوں میں پہنچا دے گی۔ تصورِ آخرت کی روح ہی انسان کے اعمال کے نتائج کے بے لاگ اور لازمی ظہور کا نظریہ ہے۔ اگر اس پر پختہ ایمان نہ ہو تو یہ گویا آخرت ہی کا انکار ہے۔ ایک کسان اس بات پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ گندم کاٹنے کے لئے اسے گندم ہی بونا ہو گی، وہ جو یا مکئی بو کر گندم نہیں کاٹ سکتا۔ یہ ایک الٰہی قانون ہے۔ کوئی شفاعت خدا کے اس قانون کو نہیں بدل سکتی۔ اسی طرح اگر انسان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہو کہ آخرت میں اس کے اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کر کے رہیں گے، کوئی شفاعت اُس کے اعمال کے نتائج کو ظہور میں آنے سے نہیں روک سکتی تو وہ اپنے اعمال کو اپنے پسندیدہ نتائج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔

       دوسرے لفظوں میں، اس کی پوری توجہ اُس کے اعمال کی درستگی پر ہو گی۔ یوں وہ اپنی زندگی میں بہتر انسانی رویوّں کا اظہار کرے گا۔ نتیجتاً اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو چار چاند لگیں گے، اور وہ فروغ پائیں گی۔ اس طرح انسان کی اخلاقی و روحانی نشو و نما ہو گی۔ اس قسم کے انسانوں پر مبنی انسانی معاشرہ عدل و احسان کا نمونہ بن جائے گا، اور نتیجتاًانسانی تہذیب بامِ عروج کی طرف سفر کرے گی۔ اس کے برعکس، جو لوگ جھوٹی شفاعتوں کا عقیدہ رکھتے ہوں، وہ اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کے بجائے ہمیشہ اپنے موہومہ شافعین کی رضا جوئی کے لئے رسوم ادا کرنے پر زور دیں گے۔ جب حسنِ عمل کے بجائے کسی کی سفارش کامیابی کا زینہ ٹھہرے تو اعمال کی طرف کون توجہ دے گا۔

       لیکن جو لوگ میدانِ عمل کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز نہیں بناتے، ان کی تخلیقی صلاحیتیں آہستہ آہستہ ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ عدل و احسان کی جگہ ظلم اور استحصال کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ رشوت، سفارش اور اقرباء پروری عام ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں نہ صرف فرد اپنی روحانی نشو و نما سے محروم ہو جاتا ہے، بلکہ انسانی معاشرہ بہت جلد جنگل کے معاشرہ کا روپ دھار لیتا ہے۔ تباہی اور بربادی اس طرح کے معاشرے کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

       قرآنِ مجید اسی تباہی سے انسان کو بچانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان کی نشو و نما ہو، اس کا جوہر نکھرے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے۔ انسانی تمدن تعطل اور جمود کا شکار ہونے کے بجائے شاہراہِ ارتقاء پر آگے بڑھے۔

       سر زمینِ عرب کے باشندے طرح طرح کے توہمات میں مبتلا تھے۔ ان کا جاہلانہ تواخر اور جھوٹی غیرت کا ایک مظاہرہ یہ تھا وہ اپنے ہاں بیٹی کی پیدائش کوسخت معیوب خیال کرتے تھے۔ بعض تو اس شدت کے ساتھ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔

       قرآنِ مجید سورہ النجم کی ابتدائی آیات میں وحی کی حقانیت پر زور دینے کے بعد اگلی آیات میں ان لوگوں کو جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی پرستش کرتے تھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھتا ہے کہ

       "کیا تم نے کبھی لات اور عزیٰ کی حقیقت پر غور کیا؟ اور تیسری منات کی حقیقت پر جو (درجہ کے اعتبار سے) ان کے بعد ہے۔ (تم انھیں خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ہو۔) کیا تم اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو اور خدا کے لئے بیٹیاں قرار دیتے ہو؟ یہ تقسیم تو بڑی ظالمانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ رکھے ہیں۔ اللہ نے ان کے بارے میں کوئی سند نہیں نازل کی۔

       یہ (لوگ) محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، اور من پسند خواہشات کی۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ کیا انسان کو ہر وہ شے مل جاتی ہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے ؟ سو، آخرت اور دنیا دونوں خدا کے دستِ قدرت میں ہیں۔ اور کائنات کی بلندیوں میں کتنے ہی ملائکہ ہیں جن کی شفاعت کسی کام نہیں آ سکتی، مگر اس کے بعد کہ اللہ اجازت دے جس کو چاہے اور جس کے لئے پسند کرے۔ ملائکہ کو مؤنث ناموں سے وہی موسوم کرتے ہیں جو آخرت (کی عدالت) پر ایمان نہیں رکھتے۔ حالانکہ انھیں اس کا کچھ علم ہی نہیں۔ وہ محض گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ) گمان حق کے مقابلے میں کسی کام نہیں آ سکتا۔” (53: 19-28)

        عرب کے بت پرستوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن پوچھتا ہے کہ کیا تم نے کبھی اپنی مورتیوں، لات، عزیٰ اور منات کی حقیقت پر غور کیا ہے ؟ تم انھیں خدا کی بیٹیاں گردانتے ہو۔ عجیب بات ہے، اپنے لئے تو تم بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہو، جبکہ خدا کے لئے یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ اس کی بیٹیاں ہیں۔ جو چیز تم اپنے لئے ناپسند کرتے، خدا کے لئے وہی چیز ثابت کرتے ہو۔ اپنے لئے بیٹے اور خدا کے لئے بیٹیاں ! یہ تو عقل و منطق سے گری ہوئی تقسیم ہے۔ ادب کی زبان میں اس اسلوبِ بیان کو طنزیہ (Ironic) کہا جاتا ہے۔ بت پرست قوموں کا یہ عجیب مخمصہ ہے۔ ایک طرف تو وہ خدائی اوصاف رکھنے والی مؤنث ہستیوں کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ آج جبکہ سائنس کی ترقی نے رحمِ مادر میں بچے کی جنس سے آگاہی ممکن بنا دی ہے، دنیا میں بڑی تعداد میں اسقاطِ حمل کے ذریعے بچیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جو خدا کے لئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں، وہ اپنے لئے بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔

       مقصد یہ ہے کہ اگر وہ لوگ عقل و منطق بلکہ عام سمجھ بوجھ (Common sense) ہی سے کام لیتے تو ان کے اس نظریہ کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدائے واحد و لاشریک کے لئے اولاد کا تصور ہی عقل و منطق کے خلاف ہے۔

       پھر قرآنِ مجید انھیں بتاتا ہے کہ یہ مورتیاں جنھیں تم خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ہو ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں۔ یہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ رکھے ہیں۔ تمہارا یہ عقیدہ کہ یہ دیویاں ہیں، خود تراشیدہ ہے۔ یہ محض تمہارے ذہن کی پیداوار ہے۔ تمہارے اس عقیدے کے حق میں تمہارے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ خدا نے ان بتوں کے حق میں کوئی سند نہیں اتاری۔ غیراللہ کی پرستش کا تصور انسان کی اپنی جاہلانہ اختراع ہے، اس کی بنیاد کسی خدائی حکم پر نہیں۔ تمام کے تمام جھوٹے الہ (دیوی دیوتا) انسانوں کے رکھے ہوئے محض نام ہیں، ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔

       بتوں کے پجاریوں اور مجاوروں کے پاس ان کے جھوٹے عقیدہ کے حق میں کوئی سند اور دلیل نہیں۔ ان کے عقیدے کی بنیاد کسی حقیقی علم پر نہیں، ظنِ محض پر ہے۔ یہ ان کی پیروی اس لئے کرتے ہیں کہ ان سے ان کی ان خواہشات کی تسکین ہوتی ہے جو انہیں بہت پسند ہیں۔ وہ ان کی شفاعت کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ بتوں اور دیوی دیوتاؤں کی شفاعت کا عقیدہ انسان کو عمل سے بے نیاز کر کے جھوٹی امیدوں کے حصار میں بند کر دیتا ہے۔ اب انسان کارگاہِ عمل میں زیادہ تگ و تاز کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اس کی نظر میں عمل کی اہمیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ وہ اخروی نجات کے لئے بتوں کے پجاریوں کی خوشنودی کو کافی سمجھتا ہے۔ پجاری اسے یہی بات سمجھاتے ہیں۔

       ان کا ذہن باطل نظریات کے ساتھ اس قدر سازگار ہو جاتا ہے کہ کوئی نصیحت ان پر اثر ہی نہیں کرتی۔ خدا کا کلام ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے، مگر وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنی خیالی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ پجاریوں اور مجاوروں نے انھیں یہ یقین دلایا ہوتا ہے کہ دیوی دیوتا ان کی ہر خواہش پوری کریں گے اور ان کی مرادیں پوری ہوں گی، چاہے وہ ان کا حق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔ لیکن اگر وہ ذرا سا بھی غور و فکر سے کام لیں تو ان پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان کا یہ عقیدہ محض دھوکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہ آخرت میں ہو گا اور نہ دنیا میں ہی ایسا ہوتا ہے۔ آخرت اور دنیا دونوں خدا کی ہیں، اور دونوں میں اس کے بے لاگ قوانین کی حکمرانی ہے۔ شفاعت کا جاہلانہ عقیدہ خدا کے قانونِ مکافاتِ عمل کی نفی ہے۔

       وہ بت پرست جو فرشتوں کو خدا کی چہیتی بیٹیاں قرار دیتے تھے ان کے متعلق بھی ان کا یہی عقیدہ تھا کہ وہ ان کی شفاعت کریں گے اور یوں ان کی نجات ہو جائے گی، ان کے اعمال چاہے کچھ بھی ہوں۔ مجاوروں نے انھیں یہی سمجھا رکھا تھا۔

       قرآنِ مجید شفاعت کے اس تصور کو باطل قرار دیتا ہے۔ آسمانوں (اور زمین) کا کوئی فرشتہ خدا کے اذن کے بغیر کسی کے حق میں لب کشائی نہیں کر سکتا۔ ملائکہ خدا کے قانون کے مکمل پابند ہیں۔ وہ اس کے قانون سے سرِ مو ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔ خدا کا اذن خدا کا قانون ہے، اور خدا کا قانون مبنی بر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کہ علیم و خبیر بھی ہے اور رحمٰن و رحیم بھی، اس کے سامنے اس طرح کی شفاعت کی ضرورت ہی کیا ہے جس کا اعتقاد بت پرست رکھتے تھے۔ شفاعت کے جھوٹے تصورات اصل میں خدا کے قانونِ مکافاتِ عمل پر ایمان نہ رکھنے والوں کی خوش فہمیاں ہیں۔ وہ لوگ جو آخرت یعنی اعمال کے نتائج کے بے لاگ اور لازمی ظہور پر ایمان نہیں رکھتے، وہی شفاعتِ باطلہ کے عقیدے میں پناہ لیتے ہیں۔ شفاعت کا کوئی بھی ایسا تصور جو کھرے اور کھوٹے، روشنی اور اندھیرے، اور دل کے بینا اور نابینا کو مساوی درجہ پر لا کھڑا کرے، قرآن کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

        قرآن کہتا ہے بت پرست فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور دیویاں تصور کرتے اور ان کی شفاعت کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر یہ باطل نظریات ہیں جو ان لوگوں نے گھڑ رکھے ہیں جو خدا کے قانونِ مکافاتِ عمل پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآنِ مجید میں دوسرے مقامات پر ہے:

       "کیا تمہارا نظریہ یہ ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹے عطا کیئے اور اپنے لیئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا۔ یہ تو یقیناً سخت ناروا بات ہے جو تم کہہ رہے ہو”۔ (17: 40)

"اور مشرکوں نے فرشتوں کو جو کہ خدائے رحمٰن کے بندے ہیں، دیویاں ٹھہرا لیا ہے۔ کیا یہ ان کی تخلیق کے وقت موجود تھے”؟۔ (43: 19-20)

       لیکن مشرکین کے اس عقیدے کی بنیاد کسی حقیقی علم پر نہیں ہے، وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ حالانکہ ثبوتِ حق میں گمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ گمان یقینی علم کی جگہ نہیں لے سکتا۔ وہ علم کا بدل نہیں۔ انسان کے فلسفۂ حیات کی بنیاد گمان پر نہیں علم پر ہونی چاہیئے۔

       ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مشرکین حقیقی علم کی طلب و جستجو کرتے اور اپنے عقیدوں اور نظریوں کی بنیاد حقیقی علم پر رکھتے، لیکن انھوں نے، اس کے برعکس، ایسے عقیدے ایجاد کر لئے ہیں جن کی بنیاد اگرچہ ظن و گمان پر ہے، لیکن وہ ان کی جھوٹی امیدوں، خوش فہمیوں اور مادّی اغراض سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ یہ دلیل یا علم کی زبان میں بات ہی نہیں کرتے، اور نہ یہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ علم ان کے تمام ہوائی قلعوں کو زمین بوس کر دے گا۔ اس کے برعکس، وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ پر چل رہے ہیں۔ کوئی بات سننے پر آمادہ ہی نہیں۔ آگے ارشادِ ربانی ہے:

       "پس آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں جس نے ہمارے ذکر سے روگردانی کی، اور صرف دنیا کی زندگی کا خواہش مند ہوا۔ اس کے علم کی پہنچ ہی یہیں تک ہے۔ یقیناً آپ کا رب اسے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا خوب جانتا ہے، اور وہ اس سے بھی خوب آگاہ ہے جس نے راہِ راست اختیار کی۔ اور کائنات کی بلندیوں اور پستیوں میں جو کچھ بھی ہے، سب خدا کا ہے۔ (خدا آخرت برپا کرے گا) تاکہ وہ بد کرداروں کو ان کے (برے) اعمال کا بدلہ دے اور نیکو کاروں کو ان کے نیک کاموں کا صلہ عطا کرے۔ (یعنی) ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں اور کھلی بے حیائیوں سے بچتے رہے مگر یہ کہ کبھی کوئی لغزش سرزد ہو گئی۔ سو، آپ کے رب کا دامنِ رحمت نہایت وسیع ہے۔ (اے لوگو!) وہ تم کو خوب جانتا ہے جبکہ اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا تھا، اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے شکموں میں جنین کی شکل میں تھے۔ پس خود کو پاکیزہ نہ ٹھہراؤ۔ وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا۔” (53: 29-32)

       ایسے لوگوں سے بحث و مباحثے میں الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو دلیل کی زبان میں بات کرنے پر تیار ہی نہ ہوں، ان سے کیا بحث کرنا۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے۔ ضد اور ہٹ دھرمی نے انھیں خدا کے حقیقی احساس سے لاپروا کر دیا ہے، اور یہ محض دنیا کی زندگی میں کھو کر رہ گئے ہیں۔ انھوں نے مادی خواہشات کی تکمیل ہی کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔ ظن و گمان کے ان پیروکاروں کے علم کی پہنچ ہی حیاتِ دنیاوی تک ہے۔ وہ اس سے آگے کا سوچ ہی نہیں سکتے۔ لیکن خدا کا قانونِ مکافاتِ عمل راہِ حق کو ٹھکرانے والوں اور ان میں جو راہِ حق پر گامزن رہتے ہیں، فرق کر کے چھوڑے گا۔ اللہ کا یہ قانون جامع اور بے لاگ ہے۔ برے اعمال اپنے نتائج پیدا کر کے رہیں گے، اور اسی طرح اچھے اعمال بھی اپنے نتائج سے ضرور ہمکنار ہوں گے۔ اور یقیناً اچھے اعمال کے نتائج بہت اچھے ہوں گے۔

       انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی (Free will) دی گئی ہے۔ لہٰذا انسان سے خطا کا صدور نہ صرف ممکن ہے بلکہ عملاً واقع بھی ہوتا ہے۔ لیکن انحراف کی راہ پر شد و مد سے گامزن رہنا اور کبھی کبھار، ارادی یا غیر ارادی طور پر، قدموں کا ڈگمگا جانا دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ اگر انسان بطورِ مجموعی خیر اور حق کی راہ پر رہے تو معمولی اور کبھی کبھار کی لغزشیں اُس کی مجموعی سمتِ سفر پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتیں کہ وہ منزل پر ہی نہ پہنچ سکے۔ گویا، خُدا کا قانونِ مکافاتِ عمل انسان کی لغزشوں سے درگزر کرتا ہے۔ وہ انسانی فطرت کو اچھی طرح جانتا ہے اور اسے پیشِ نظر رکھتا ہے۔ انسان کی بطورِ نوع ابتدائی تخلیق ہو، یا اُس کی بطورِ فرد پیدائش، انسان کا ہر پل، ابتداء تا انتہاء، اس قانون کی نظر میں ہے۔ خُدا جو انسان کا خالق اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہے، اس کی تخلیقی اسکیم (Scheme of Creation) میں یہ نہیں کہ انسان بدی کا ارتکاب کر ہی نہ سکے۔ لہذا خود کو گناہوں سے بالکل پاکیزہ ٹھہرانا اور خود ستائی کرنا انسان کیلئے مناسب نہیں۔ خُدا کی منشا مگر یہ ضرور ہے کہ انسان تقویٰ کی راہ کا مسافر بنے اور یوں منزل مراد سے بہرہ مند ہو۔ آگے فرمایا:

       "بھلا، تم نے اس کو دیکھا جس نے روگردانی کی، تھوڑا سا دیا پھر رک گیا۔ کیا اس کے پاس علمِ غیب ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ کیا اس کو خبر نہیں ملی اس (اصول) کی جو موسیٰؑ اور ابراہیمؑ ، جس نے اپنے قول پورے کر دکھائے، کے صحیفوں میں تھا۔ کہ کوئی شخص کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور یہ کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور یہ کہ اس کی کوشش کا نتیجہ عنقریب نظر آ جائے گا، پھر اس کواس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور یہ کہ سب کو آپ کے رب ہی کے پاس پہنچنا ہے۔ اور بے شک وہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے۔ اور وہی ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ اور وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد، مذکر اور مؤنث، تخلیق کئے ہیں، تولیدی مادے سے ایک نظام کے مطابق۔ اور بے شک اسی کے ذمہ ہے دوسری بار پیدا کرنا۔ اور یہ کہ وہی غنی کرتا ہے اور مفلس بناتا ہے۔ اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے۔” (53: 33-49)

       لیکن بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خُدا کے قانون مکافاتِ عمل پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کو جب اس کا احساس دلایا جاتا ہے تو روگردانی کا رویہ اپناتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ بھلائی کے کاموں میں بہت کم ہی حصہ لیتے ہیں۔ خیر کی راہ پر اگر چلتے بھی ہیں تو تھوڑا سا چل کر رُک جاتے ہیں۔ ان کی مجموعی زندگی انحراف کی راہوں پر چلتے گزر جاتی ہے۔ اصل میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اوّل تو آخرت برپا ہو گی ہی نہیں لہٰذا زندگی بعد موت کے لئے فکر مند رہنے کی کوئی ضرورت نہیں، اور اگر وہ برپا ہو بھی گئی، تو اُنکے دیوی دیوتا، جن کے استھانوں پر وہ چڑھاوے چڑھاتے رہتے ہیں اُن کی شفاعت کریں گے اور یوں اُن کی نجات ہو جائے گی۔ لیکن اُن کے اس عقیدہ کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔ ان کی یہ محض خام خیالی ہے۔ نہ تو ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جس کی بنیاد پر وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ اُن کے دیوی دیوتاؤں کی شفاعت ان کی بخشش کا سامان کر دی گئی اور نہ ہی خُدا کے عالمگیر قانون مکافاتِ عمل میں اس کی گنجائش ہے۔ خُدا کا یہ قانون ازل سے چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ زمانوں میں بھی خُدا کا یہ پیغام نوعِ انسانی کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا تھا۔ یہ قانون حضرت موسیٰ علیہ سلام کے صحیفوں میں بھی بیان ہوا تھا اور حضرت ابراہیمؑ  کے صحیفوں میں بھی، جن کی وفاشعاری اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔

       (کیا انسان اس قانون سے آگاہ نہیں ہوا:)

٭     یہ کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ہر شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ہو گا۔ کسی شخص کے اعمال کی ذمہ داری کسی دوسرے شخص پر نہیں ڈالی جائے گی۔ کوئی شخص کسی دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری نہیں اٹھائے گا۔

٭     یہ کہ انسان صرف اور صرف اپنی کوششوں کا صلہ پائے گا۔ انسان صرف اپنی کوشش کے صلے کا حقدار ہے۔ اس کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کاوش کی ہو گی۔

       انسان کی کوئی کوشش رائگاں نہیں جائے گی۔ وہ وقت قریب ہے جب انسان کی کوششوں کے نتائج سامنے آئیں گے۔ اور اُسے اُس کے اعمال کے مطابق جزاء دی جائے گی۔ اس کے اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ اعمال کے نتائج اُن کی نوعیت کے مطابق ظہور پذیر ہوں گے۔ اور ہر انسان کو اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

٭     اور یہ کہ وہی ہے جس کی مشیت انسان کی خوشی اور غم کا تعین کرتی ہے۔

٭     اور یہ کہ موت اور حیات اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

٭     اور یہ کہ وہی ہے جو رحمِ مادر میں تولیدی مادّے سے ایک نظام کے مطابق بیٹا یا بیٹی پیدا کرتا ہے۔

٭     اور یہ کہ اس نے یہ قرار دیا ہے کہ وہ انسانوں کو مرنے کے بعد روزِ قیامت دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا، جبکہ ہر شخص اپنے اعمال کے نتائج کا سامنا کرے گا۔

٭     اور یہ کہ وہی ہے جس کا قانونِ مشیّت انسان کی کشادہ دستی اور تنگ دستی کا فیصلہ کرتا ہے۔ (کسی دیوی دیوتا کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں، وہ تو وجود ہی نہیں رکھتے) ۔

٭     اور یہ کہ وہی شعریٰ ستارے کا بھی رب ہے۔ ستارے خدا کی مخلوق اور اس کے قانون کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ نہ ان کا الوہیّت میں کوئی حصہ ہے اور نہ انسانوں کی تقدیر کے بننے یا بگڑنے سے کوئی تعلق۔ انسان کی تقدیر کسی ستارے کی مرہونِ منّت نہیں، خدا کے قانونِ مشیّت کے تابع ہے۔

       یہ آیات انسان کو ایک واضع تصوّرِ عالم یا ورلڈ ویو عطا کرتی ہیں۔ خوشی اور غم، اور موت و حیات پر صرف خدا کے قانونِ مشیّت کی حکمرانی ہے۔ کسی دیوی دیوتا یا دوسرے معبودانِ باطل کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ کسی کے ہاں بیٹی یا بیٹے کی پیدائش بھی صرف اسی کے نظامِ قدرت کے مطابق ہوتی ہے۔ وسائلِ حیات کی کثرت یا قلّت کے پیچھے بھی اسی کا قانون کارفرما ہے۔ ستارے بھی اسی کے قانون کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کائنات کے ہر مظہر، ہر حرکت اور ہر تبدیلی پر صرف اور صرف خدائے واحد و لاشریک کے قانون کی حکمرانی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسان صرف خدا کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کرے۔ خدا کا قانونِ مکافاتِ عمل اٹل ہے۔ انسان کے انفرادی اور اجتماعی اعمال اپنی نوعیّت کے مطابق غم و خوشی، موت و حیات، اور تنگ دستی و خوشحالی کے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ شرک اور شفاعت کے باطل عقیدے محض انسان کے ذہن کی اختراع ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ انسان کی تخلیق میں کسی اور کا دخل ہے اور نہ زندگی بعد موت میں کسی اور کا کوئی کردار۔ یہ خدا ہی ہے جس کے بے لاگ قوانین زندگی کی ایک ایک حقیقت اور کائنات کے ایک ایک مظہر کا تعیّن کرتے ہیں۔ آگے ارشاد ربانی ہے:

       "اور یہ کہ اسی نے عادِ اول کو ہلاکت سے دوچار کیا۔ اور (اسی طرح) ثمود کو، اور کسی (ظالم) کو باقی نہ چھوڑا۔

       اس سے قبل قومِ نوحؑ  کو بھی (ہلاک کیا) ، وہ (سب) بڑے ظالم اور سرکش تھے۔

       اور (قومِ لوطؑ کی) الٹ دی گئی بستیوں کو بھی پٹخ دیا۔ پس، ان پر چھا گیا جو چھا گیا۔

       تو (اے انسان!) تو اپنے رب کی کن کن قدرتوں کے بارے میں شک میں مبتلا رہے گا۔”  (53: 50-55)

       اور یہ کہ وہی ہے جس کے قانونِ مکافات کے مطابق عادِ اوّل اور ثمود کی قومیں تباہ ہوئیں، کوئی ظالم باقی نہ بچا۔ اور اس سے قبل قومِ نوحؑ کا حال بھی یہی ہوا۔ وہ لوگ بڑے ظالم اور سرکش تھے۔ (سو تباہی سے ہمکنار ہو کر رہے۔) یہی انجام ان بستیوں کا ہوا جو اُلٹ دی گئیں تھیں (یعنی قومِ لوطؑ کی بستیاں) ، جب ان بستیوں کو عذابِ الٰہی نے ڈھانپ لیا تھا۔ کوئی قوّت انھیں ان کے اعمالِ بد کے تباہ کن نتائج سے نہ بچاسکی۔

       قوموں کا عروج و زوال خدا کے قانون کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے۔ تاریخ کے دھارے پر بھی خدا ہی کے قانون کی حکومت ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل سب خدا ہی کے قانون کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ جب کوئی قوم خدا کے اخلاقی ضابطوں کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے تو گویا وہ اپنی تباہی کے پروانے پر دستخط کر دیتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔ کتنے ہی واقعات ہیں اگر ان پر غور و فکر کیا جائے تو انسان کے من میں ہدایت کی شمعیں روشن ہو سکتی ہیں مگر انسان ان کی طرف کم ہی توجہ دیتا ہے۔ خُدا کے بے لاگ اور عالمگیر قوانین کی کارفرمائی کے مظاہر ہر سو نمایاں ہیں۔ کوئی کہاں تک اور کب تک ان کا انکار کر سکتا ہے۔ خدا کے بے لاگ قوانین کے کرشموں سے آگاہ ہو کر بھی اگر انسان ان کا انکار کرتا ہے تو یہ پرلے درجے کی نادانی ہے۔ خدا کا قانونِ مکافات ہمیشہ سے ایک ہی چلا آ رہا ہے۔ رسولِ اکرمؑ  جو تعلیم لے کر آئے ہیں وہ کوئی انوکھی تعلیم نہیں۔ قرآنِ مجید اسی قانونِ مکافات کی یاد دہانی کرا رہا ہے جو حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت مسیح اور دوسرے انبیاؑ  کی زبان مبارک سے دنیا تک پہنچایا گیا تھا۔ اگلی آیت ہے:

       "یہ ان خبردار کرنے والوں ہی کے زمرے کا ایک خبردار کرنے والا ہے جو پہلے گزر چکے ہیں” (53: 56)

        جس طرح ماضی میں خُدا نے انسانوں کی رہنمائی کیلئے اپنے انبیاؑ بھیجے تھے، اسی طرح اس نے نبی اکرمﷺ کو لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے۔ جس طرح گذشتہ انبیاؑ نے لوگوں کو اعمال بد کے تباہ کن نتائج سے خبردار کیا تھا، اسی طرح آپؐ بھی فرما رہے ہیں۔ آپؐ کا پیغام گزشتہ انبیاؑ کے پیغام ہی کا تسلسل ہے۔ خُدا کا قانون اٹل ہے۔ جس طرح ماضی کے سرکش اپنے انجام کو پہنچے تھے، اسی طرح آج کے منکرین بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اگلی آیات ہیں:

       "قریب آنے والی (اعمال کے ظہور کی گھڑی) قریب آ پہنچی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ تو کیا تم اس بات پر تعجب کر رہے ہو! اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو! اور تم مد ہوش پڑے ہو۔ (ہوش میں آؤ !) ، پس، خود کو اللہ ہی کے سامنے سجدہ ریز کرو، اور اسی کی بندگی اختیار کرو۔”

 (53: 57-62)

        وہ وقت جب اعمال کے نتائج ظہور پذیر ہوں گے، آ کر رہے گا۔ اس کا آنا خُدا کی مشیت کے مطابق مقدر ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اُسے برپا ہونے سے روک نہیں سکتی۔

       جب ایسا ہو گا تو انسان کو وہی ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ انسان جھوٹی شفاعت کی اُمید لگانے کے بجائے میدانِ عمل کو اپنی تگ و تاز اور جد و جہد کا مرکز بنائے۔

       تو کیا تمہیں یہ بات انوکھی لگتی ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب اعمال اپنی نوعیت کے مطابق بے لاگ طور پر نتائج پیدا کریں گے۔ اور دیوی دیوتاؤں کی شفاعت کچھ کام نہ دے گی۔ اور تم اس نظریہ پر ہنستے ہو اور اس کا مذاق اُڑاتے ہو۔ حالانکہ یہ ہنسنے کا نہیں رونے کا مقام ہے۔ لیکن تم رونے کے بجائے ہنستے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ شرک اور شفاعت کے جھوٹے عقیدوں نے تمہاری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ تم گویا مد ہوش پڑے ہو۔ لیکن اب بھی وقت ہے کہ جھوٹے تصورات سے نکلو اور حقیقت کی دنیا میں آؤ۔ نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ اپنے سروں کو خُدا کے سامنے جھکا دو، اور اُس کی بندگی اختیار کرو۔

       خدا کا قانون مکافاتِ عمل ہم گیر، اٹل اور بے لاگ ہے۔ کسی کے بس میں نہیں کہ اس میں رد و بدل کر سکے۔ پس انسان کو چاہیئے کہ وہ معبودانِ باطل سے جھوٹی امیدیں لگانے کے بجائے صرف خُدائے واحدو لاشریک کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔ اُسی کی رضا جوئی اور خوشنودی کو اپنی زندگی کی منزل ٹھہرائے۔ اُسی کے سامنے اپنا سرِ نیاز خم کرے، اور عمر بھر اُسی کا بندہ بن کر رہے۔

 

خلاصہ

 

       رسولِ اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول اور قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے آپ پر وحی فرمایا ہے۔

       اللہ واحد و لاشریک ہے۔ معبودانِ باطل کی کوئی حقیقت نہیں۔ وہ محض خیالی ہستیاں ہیں، اور انسان کے گھڑے ہوئے نام۔ ان سے حاجات طلب کرنا، اور ان کی شفاعت کی امید رکھنا پرلے درجے کی جہالت اور نادانی ہے۔

       اللہ کا قانونِ مکافاتِ عمل اٹل، ہمہ گیر اور بے لاگ ہے۔ آخرت میں انسان کے اعمال اپنی نوعیت کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ دیوی دیوتاؤں، جن کا حقیقت میں وجود ہی نہیں، کی شفاعت ان نتائج کو واقع ہونے سے نہ روک سکے گی۔

       اگر انسان بطورِ مجموعی بھلائی کی راہ سے نہ ہٹے تو کبھی کبھار کی معمولی لغزشیں اس کی مجموعی سمتِ سفر کو تبدیل نہیں کرتیں۔ اخروی کامیابی کے لئے خدا کی بارگاہ میں توبہ اور تقویٰ کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے، کسی دیوی دیوتا کی شفاعت کام نہ آئے گی۔

       انسان کو چاہیئے کہ وہ جھوٹی شفاعتوں کی آس لگانے کے بجائے، کردار و عمل کی دنیا میں اپنی قوت صرف کرے۔ فوز و فلاح اور کامیابی کی یہی راہ ہے۔

       دنیا کے اسٹیج پر غم و خوشی، موت و حیات، خوشحالی و تنگ دستی، اور عروج و زوال سب پر صرف خدائے واحد و لاشریک کے قانونِ مشیّت کی حکومت ہے۔ کسی اور کا اس میں کچھ اختیار نہیں۔

       قرآن کا یہ قانون کوئی نیا قانون نہیں۔ پہلے انبیائے کرامؑ  کے صحیفوں میں بھی یہ بیان ہوا ہے۔ مگر کچھ لوگ انکار اور استکبار کی راہ اپناتے ہیں۔ اور اپنی جہالت کے باعث اس قانون کی حقانیت کو اس کی پوری روح کے ساتھ تسلیم نہیں کرتے۔ اور اسے سنجیدگی سے لینے کے بجائے، اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انھیں یاد رکھنا چاہیئے کی دنیا اور آخرت کی کامیابی صرف اللہ تعالیٰ کے قانون کی فرمان برداری اور اس کے عطا کردہ نظامِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ہے۔

پس:

       خدا کا قانونِ مکافاتِ عمل ہمہ گیر، اٹل اور بے لاگ ہے۔ شرک و شفاعت کے جھوٹے عقیدے محض انسان کی خام خیالی اور فریبِ نفس ہیں۔ ان پر ایمان خود کو ضائع کرنے اور اپنی منزل کھوٹی کرنے کے مترادف ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پاسداری اور ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے میں ہے۔

 

سدرۃ المنتہیٰ کی حقیقت

 

       سورہ النجم میں سدرۃ المنتہیٰ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ متعلقہ آیات کا ترجمہ بہت سے مفسرین کے نزدیک کچھ یوں ہے:

 ’’اور انھوں (رسولِ اکرمﷺ) نے اس (جبریلِ امین) کو دوسری مرتبہ بھی دیکھا،

       سدرۃ المنتہیٰ کے پاس،

       جس کے پاس جنۃ الماویٰ ہے،

       جبکہ سدرہ پر چھا رہا تھا جو کہ چھا رہا تھا‘‘۔

       سدرہ کا لفظی معنیٰ بیری ہے جو ایک معروف درخت ہے۔ بیری کی ایک قسم عبری کہلاتی ہے، عرب کے لوگ جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر راحت و آرام محسوس کرتے تھے (لین لیگزیکن) ۔ اس خصوصیت کی بنا پر یہ راحت و آرام کے لئے استعارہ کی حیثیت حاصل کر گیا۔ عام طور پر مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں یہ لغوی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کا استعمال علامتی اور استعاراتی مفہوم میں ہوا ہے۔ بہت سی تفسیری روایات کا نچوڑ یہ ہے کہ اس کا مطلب عالمِ شہود کا آخری کنارہ ہے جس سے آگے عالمِ غیب ہے۔ امام راغب اصفہانی کے نزدیک اس سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ رسولِ اکرمﷺ کو فیوضاتِ الٰہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا۔ عربی گرامر کی رو سے اس کا مادّہ سدر ہے۔ بہت سے الفاظ جو اس مادہ سے نکلے ہیں ان میں تحیر اور حیرت یا خیرہ چشم ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ سَدِرَ کا مفہوم لین (Lane) نے عربی لغات کی بنیاد پر یہ لکھا ہے:

       He became dazzled by a thing at which he looked, so that he turned away his face from it; or became confounded, or perplexed, and unable to see his right course. (Part 4, p. 1331)

       اس اعتبار سے سدرۃ المنتہیٰ کا مفہوم لیا گیا ہے: الحیرۃ القصویٰ یعنی انتہا درجہ کی حیرت (تفسیرِ کبیر) ۔ عِنْدَ ظرفِ مکان بھی ہو سکتا ہے اور ظرفِ زمان بھی۔ پہلی صورت میں مفہوم ہو گا: انتہا درجے کی حیرت کے مقام اور جگہ کے پاس۔ جبکہ دوسری صورت میں اس کا مطلب ہو گا: انتہا درجے کی حیرت کے موقع پر۔ اگر عِندَ کو ظرفِ زمان کے مفہوم میں لیا جائے تو آیت کا مفہوم ہو گا: رآہ عند الحیر ۃ القصویٰ، ای فی الزمان الذی تحار فیہ عقول العقلاء (تفسیرِ کبیر) ۔ یعنی رسولِ اکرمﷺ نے اسے اس وقت یا موقع پر دیکھا جب اہلِ عقل کی عقلیں حیرت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ تفسیرِ کبیر میں امام فخر الدین الرازی نے اس مقام پر بہت عمدہ بحث کی ہے۔ بلکہ سورہ النجم کی تفسیر انھوں نے جس علمی سطح پر کی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

       بہر حال، اگر سدرہ کو بیری کے درخت کے معنے میں لیا جائے تو اس کا یہ استعمال تمثیلی ہو گا۔ اس سے مراد عالمِ شہود کا آخری کنارہ اور حد ہو گی۔ اور اگر اس کی تشریح سَدِرَ کے مادے کی بنیاد پرکی جائے تو یہ حیرت و تحیّر کے مفہوم میں ہو گا۔ ان دونوں مفہوموں میں بہ آسانی تطبیق کی جا سکتی ہے۔ وہ مقام جہاں عالمِ شہود، عالمِ غیب سے ملتا ہے اس کی کیفیّت اتنی پیچیدہ ہے یا وہ اس درجہ انوکھا اور پُر از عجائبات ہے کہ عقلیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور حیرت زدہ رہ جاتی ہیں۔

       یہ دنیا جس کا ہم سائنسی طور پر مشاہدہ و مطالعہ کر سکتے ہیں، طبیعی اور مادّی کائنات ہے، جو زمان و مکان (Time and space) میں واقع ہے۔ مگر یہ طبیعی کائنات (Physical universe) "کل کائنات” نہیں۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ ایک کائنات اور بھی ہے جو ماورائے مادّہ ہے۔ یہ روحانی یا ما بعد الطبیعاتی کائنات (Metaphysical universe) ہے۔ اس کی ابعاد (Dimensions) ہماری حدِ ادراک سے باہر ہیں۔ یہ ایک بالکل مختلف کائنات ہے۔ زمانی اور مکانی قرب و بعد، جس سے ہم مانوس ہیں، کا اطلاق مابعد الطبیعاتی کائنات پر نہیں ہوتا۔ ہمارے (ظاہری) حواس جس چیز کا ادراک اور مشاہدہ کر سکتے ہیں وہ یہ طبیعی کائنات ہے۔ مابعد الطبیعاتی کائنات ان کے دائرے سے ماورا ہے۔

       مابعد الطبیعاتی موجودات کا مشاہدہ ظاہری حواس سے نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے لئے جسامت (سائز) اور جہات کا اطلاق بھی اس طرح نہیں کر سکتے جس طرح مادی موجودات کے لئے کرتے ہیں۔ ان کے لئے کہاں اور کب کا سوال بھی اس طرح نہیں اٹھا سکتے جس طرح ہم مادی موجودات کے لئے اٹھاتے ہیں، کیونکہ کہاں کا تعلق جگہ یا مکاں سے ہے جبکہ کب کا تعلق وقت یا زمان سے ہے اور یہ دونوں مادی کائنات کی ابعاد ہیں۔

       سوال یہ ہے کہ عالمِ طبیعات اور عالمِ مابعد الطبیعات کے درمیان ربط و تعلق کیا ہے۔ یہ آپس میں کس طرح ملتے ہیں۔ ان کا interaction یا تعامل کیسے ہوتا ہے۔ عالمِ طبیعات، یا جسے ہم نے اوپر عالمِ شہود کہا ہے، کے آخری کنارا یا سرحد سے کیا مراد ہے۔ یہ نہایت مشکل سوالات ہیں۔ سائنسی اور علمی ارتقاء کی موجودہ سطح پر ان کے حتمی یا قطعی جوابات دینا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ بس ایسے مفروضے قائم کرنا ہے جو مضبوط علمی بنیادیں رکھتے ہوں اور ان کی علمی بنیادوں پر تشریح کی جا سکے۔ اگرچہ ان کاوشوں کا نتیجہ خیال آرائی ہی ہو گا، مگر یہ نہایت ضروری ہے۔ قرآنِ مجید کے تصورِ کائنات کو سمجھنے کے لئے جدید علمِ کائنات (Cosmology) کی دریافتوں کو کام میں لانا ہو گا۔ بطلیموس (Ptolemy) کا زمین مرکزی (Geo-centric) تصورِ کائنات یا عام آدمی کا تصورِ کائنات (جس میں زمین ہمارے قدموں کے نیچے ہے اور ہمارے سروں کے اوپر گنبد کی طرح کا نیلا آسمان ہے، جس کے اوپر چھ اور آسمان ہیں۔۔ ۔۔) از کار رفتہ ہو چکا۔ قدیم زمانے میں واقعۂ معراج کی جو تشریح کی گئی تھی اس میں زمین کو کائنات کا مرکز مانا گیا تھا بلکہ عام طور پر اس کی تشریح عام آدمی کے تصورِ کائنات ہی کے پسِ منظر میں کی گئی تھی۔ جو علمی اعتبار سے آج قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ علاوہ ازیں، اس میں عالمِ غیب یا مابعد الطبیعاتی کائنات کو طبیعاتی کائنات ہی کی طرح کا وجود تصور کیا جاتا ہے، جب کہ مابعد الطبیعاتی کائنات کو طبیعاتی کائنات کی طرح کی ابعاد (Dimensions) میں بیان کرنا، یا اس کی حد بندی کرنا یا اس کے لئے بھی گویا طبیعاتی کائنات کی طرح کے زمان و مکان تسلیم کرنا درست نہیں۔

       چونکہ ہمارا فکر زمان و مکان کی ابعاد کے اندر کام کرتا ہے، لہٰذا ہمارے لئے کسی ایسی حقیقت کا بیان (Description) یا یوں کہیئے کہ منظر نگاری ممکن نہیں جن پر ان ابعاد کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم یہ تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ مابعد الطبیعاتی یا روحانی موجودات کے لئے قرب و بُعد کی طبیعاتی اصطلاحوں کا اطلاق کرنا درست نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر سدرۃ المنتہیٰ ایک روحانی موجود ہے تو ہم اس کے لئے یہ سوال نہیں اٹھا سکتے کہ وہ زمین سے کتنا قریب یا کتنا دور ہے۔

       راقم کے نزدیک طبیعاتی کائنات در اصل مابعد الطبیعاتی کائنات ہی کی توسیع (Extension) ہے۔ دوسرے لفظوں، میں اس کا مرتبۂ تنزّل۔ اس کی وضاحت ایک دوسرے مضمون میں کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص مابعد الطبیعاتی کائنات یا موجودات سے عرفانی تعلق قائم کرنے کی استعداد رکھتا ہے تو اسے ایسا کرنے کے لئے جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت نہیں ہے۔ وہ اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ایسا کر سکتا ہے۔

       انبیائے کرامؑ  کا تعلق بے شک نوعِ انسانی ہی سے تھا مگر وہ روحانی جہت سے عام انسانوں سے بہت ارفع تھے۔ عام انسانوں کے برعکس، ان کے لئے مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کا "مشاہدہ” ممکن تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے روحانی نظر ودیعت فرمائی تھی جس سے وہ روحانی موجودات کو دیکھ سکتے تھے۔ روحانی موجودات کے مشاہدے کے لئے روحانی حواس کی ضرورت ہے۔ ظاہری حواس جو اس کام کے لئے بنائے ہی نہیں گئے، ان سے روحانی موجودات کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ برِ صغیر کے معروف عالمِ دین مولانا احمد رضا قادری نے انھی احساسات کو شعر کی زبان میں اس طرح بیان کیا تھا:

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں

کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

ان کے ایک نعتیہ قصیدے کے اشعار ہیں:

خرد سے کہہ دو کہ سر جھکا لے، گماں سے گزرے گزرنے والے

پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے، کسے بتائیں کدھر گئے تھے

سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا

 نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ کوئی منزل نہ مرحلے تھے

 سورہ النجم کی ابتدائی آیات میں رسولِ اکرمﷺ کے جن مشاہدات کا بیان ہے وہ روحانی مشاہدات ہیں۔ نگاہِ نبوّت نے مابعد الطبیعاتی حقیقتوں کا مشاہدہ کیا۔ اس کی تفصیل انسان کے فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ اطہر پر اللہ تعالیٰ کے کلام کا نزول آپ کا وہ روحانی تجربہ (Spiritual experience) تھا جسے سمجھنا یا بیان کرنا انسان کے لئے ممکن ہی نہیں۔

لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

 (علامہ اقبالؒ)

       آپ کی شخصیت اور وہ کلام جو آپ پر نازل ہوا آپ کی صداقت اور حقانیت کی گواہی دیتا رہے گا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل


ای پب فائل


کنڈل فائل