FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ارمغان ابتسام

 

شمارہ ۱۱، اپریل تا جون ۲۰۱۷ء

                   مدیر: نوید ظفر کیانی

 

مشاورت

کے ایم خالد

خادم حسین مجاہدؔ

روبینہ شاہین

محمد امین

 

حصہ اول

 

 

 

 

اداریہ

 

شرگوشیاں

 

                   خادم حسین مجاہدؔ

 

ہمارے ادباء عموماً اور مزاح نگار خصوصاً اپنی تحریروں میں کچھ ایسے الفاظ و محاورات کا استعمال کر جاتے ہیں جو رائج تو ہیں لیکن مذہبی اعتبار سے درست نہیں ہیں۔ مثلاً پیٹ پوجا، صلواتیں سنانا، آنتوں کا قل ہو اللہ پڑھنا، غضب خدا کا، خدا جھوٹ نہ بلوائے ان میں اوّل الذکر کا پس منظر ہندوؤانہ ہے لہٰذا ہمیں پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا کی جگہ عربی محاورہ ’’اول طعام بعد کلام‘‘ استعمال کرنا چاہیئے۔ کیونکہ پوجا خالص ہندوانہ تصور ہے۔ مسلمان پیٹ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ محض اس کی ضرورت پوری کرتے ہیں، یہ تو ہندوؤں کا کام ہے کہ جس چیز سے ذرا مطلب ہو یا جس کا خوف ہو اس کی پوجا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کے بھگوانوں اور دیوتاؤں کی تعداد بے شمار ہے۔ ہاں جو پیٹ کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جائیں، اُنہیں ’’عباد البطن‘‘ کہتے ہیں یعنی پیٹ کا بندہ۔ صلوات کا مطلب عربی میں دعا اور رحمت کے ہیں لیکن اُردو میں یہ گالیاں دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے ظاہر ہے اس لفظ کا یہ استعمال مناسب نہیں۔ آنتوں کا قل ھواللہ پڑھنا بھوک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس محاورے کا اِن معنوں میں استعمال بھی درست نہیں۔ غضب خدا کا ہم کسی ظالمانہ کام کے موقع پر بولتے ہیں جو اکثر ہم انسانوں نے ہی کئے ہوتے ہیں۔ اسے اللہ کی طرف منسوب کرنا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پہ حاوی ہے۔ جھوٹ بھی خدا نہیں بلواتا شیطان کے کہنے پر انسان خود ہی بولتا ہے۔ کچھ ایسا حال ان خالص ہندوؤانہ پسِ منظر کے حامل محاورات کا ہے مثلاً حسن کی دیوی، لکشمی مہربان ہو گئی، جنم جنم کا ساتھ، بھگوان کی کرپا سے۔ ہمیں اپنی تحریروں میں ان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔ اسی طرح مذہبی کلمات کو طنزیہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً کسی کام کے خراب ہو جانے پر ’’سبحان اللہ‘‘ اور ’’ ما شا اللہ‘‘ بولتے ہیں جو کہ ان کلمات کی توہین ہے، اس سے بچنا چاہیئے اور کسی برے کام پر ما شا اللہ یا سبحان اللہ کہنا بھی بہت سنگین غلطی ہے، جیسا کہ طوائفوں اور تماش بینوں میں ماہرانہ ڈانس کی تحسین کے لئے ان الفاظ کا استعمال عام ہے۔ ان غلط الفاظ و محاورات کی طرح مسلمانوں میں کچھ غلط رسومات اور تہوار بھی اب ہمارے کلچر میں رائج ہو گئے ہیں، ان میں اپریل فول تو علماء ادباء اور مصلحین کی کوششوں سے تقریباً دم توڑ گیا ہے لیکن سالگرہوں اور ویلنٹائن ڈے کے تہوار اب ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کی مقبولیت کی وجہ ہمارے نوجوانوں میں اِس کی دلچسپی ہے اور مذہبی حلقوں میں اس سے شدید مخالفت ہوتی ہے، اس کے باوجود یہ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے اور اب تو برقی میڈیا بھی اس کی تشہیر میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور وہ صرف اشتہار لینے اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے اس میں پیش پیش ہے اس سے جو نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے اس کی بلا سے۔ سالگرہوں کا معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر ہے۔ عام لوگ تو بچوں کی محبت میں بلا سوچے سمجھے لگ گئے جبکہ کچھ مذہبی حلقوں نے اسے مذہب کی سند بھی دے دی ہے اور انہوں نے بھی محبت کے نام پر بعض مذہبی شخصیات کے جنم دن پر خوشی منانا شروع کر دی حالانکہ یہ غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ عیسائیوں میں کرسمس ہندوؤں میں جنم اشٹمی اور سکھوں میں جنم وارہ سالگرہوں یا جنم دن کی اشکال ہیں، مسلمانوں کو تو محبت کا طریقہ بتا یا گیا تھا کہ محبوب رہنماؤں کی اطاعت کی جائے، ہم نے اسے عشق کا نام دیا حالانکہ عشق عربی زبان کا لفظ ہے اور عربی ادب میں جنسی دلچسپی کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی صرف بیوی یا محبوبہ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، باقی رشتوں کے لئے نہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ مجھے اپنی ماں، بہن، بیٹی سے عشق ہے اس کے لئے محبت کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے، اس لئے مقدس شخصیات کے لئے بھی محبت کا لفظ استعمال ہو گا عشق نہیں۔ اور سالگرہ پر خوشی تو مضحکہ خیز ہے کیونکہ در اصل عمر بڑھتی نہیں گھٹتی ہے اللہ ہمیں اصلاح کی توفیق دے آمین۔

٭٭٭

 

 

 

ادب ودب

 

 

طنز و مزاح کیا ہے ؟

 

                   محمد عارف

 

اُردو ادب میں طنز و مزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور اکٹھا استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے جب کہ مزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی:

’’عام طور پر ’’طنز‘‘ اور ’’مزاح ‘‘ کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں۔ ‘‘[۱]

سیّد ضمیر جعفری کی ایک غزل کے دو اشعار کے ذریعے طنز اور مزاح کے فرق کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر کھلا

لو خطیبِ شہر کی تقریر کا جوہر کھلا

اُن کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاقِ دید

میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا

یہاں پہلا شعر طنز اور دوسرا مزاح کی عمدہ مثال ہے۔

مشہورِ زمانہ مزاح نگار جناب اسٹیفن لی کاک اپنی کتاب "Humour and Humanity” میں مزاح کی تخلیق کے متعلق لکھتے ہیں :

’’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائی‘‘ [۲]

مزاح کی اس تعریف کے مطابق ایک مزاح نگار زندگی میں موجود ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ تخلیقی سطح پر اس کا اظہار یوں کرتا ہے کہ اس سے ہنسی کو تحریک ملتی ہے۔ طنز اور مزاح میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ ایک مزاح نگار مزاح کا حصہ بن کر اس سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے جب کہ طنز نگار سارے ماحول سے الگ تھلگ ہو کر اور اپنے آپ کو بچا کر چوٹ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ

’’طنز میں ایک گونہ جارحیت اور ایذا کوشی کا عنصر موجود ہوتا ہے اور مزاح میں انسان دوستی کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ ‘‘[۳]

طنز ایک طرح کی تنقید ہے۔ ادب میں طنز کی اہمیت اس کی مقصدیت کے باعث ہے، اسی باعث اس کی تلخی گوارا کر لی جاتی ہے۔ مقصد کے بغیر طنزو مزاح کی تخلیق ممکن نہیں کہ خالص مزاح سے تو صرف ہنسی، دل لگی یا مذاق وغیرہ کا کام ہی لیا جا سکتا ہے اور یہ مزاح کی عمومی سطح ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس کی کوئی واضح سمت نہیں ہوتی مزاح اسی وقت سمت آشنا ہوتا ہے جب اس میں طنز شامل ہو۔ گویا طنز ہی مزاح کی سمت متعین کرتا ہے۔ ایک مزاح نگار معاشرے میں موجود بُرائیوں اور ناہمواریوں پر اس انداز سے چوٹ کرتا ہے کہ ہنسی کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر غور و فکر کی دعوت بھی ملتی ہے۔ بقول خواجہ عبدالغفور:

’’مزاح کی سطح اس وقت بلند ہوتی ہے جب مزاح نگار ذاتی تنقید سے گزر کر حالات، سماج، معاشرہ، سیاست، واقعات اور ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر مزاح طنز میں تبدیل ہو جاتا ہے اور رکاکت سے گریز کرتے ہوئے انسانی ماحول کا بہترین نقاد بن جاتا ہے۔ ‘‘[۴]

مسرت اورعنصرِاستعجاب(Element of Surprise) مزاح کے دو لازمی اجزا ہیں ایک مزاح نگار اپنی ذہانت اور فطانت سے کسی صورت حال کے وہ پہلو معلوم کر لیتا ہے جو عام شخص کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں اور ان کا اظہار ایک ایسے موڑ پر کرتا ہے کہ سننے والے کو حیرت اور مسرت محسوس ہوتی ہے۔ یہ سارا عمل انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہے تاہم ایک مزاح نگار اس کو مہارت سے فطری انداز میں پیش کرتا ہے۔ اسی ضمن میں رشید احمد صدیقی کی یہ رائے دیکھیے :

’’طنز و ظرافت کا شمار دنیا کے مہلک ترین اسلحہ جات میں ہوتا ہے، اس کے استعمال کا منصب ہر وقت، ہر سپاہی یا پا پیادہ کو نہ ہونا چاہیے، بل کہ سپہ سالار کی خاص اجازت پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں اس کو بروئے کار لانا چاہیے ‘‘[۵]

طنز و مزاح سے محظوظ ہونے کے لیے انسان میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے جو اسے حیوانِ ظریف کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ مزاح صرف عیب جوئی، طعن و تشنیع یا فقرے بازی کا نام نہیں بل کہ ہم آہنگی، تضاد میں امتیاز، نامعقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں اُجاگر کرنے کا نام ہے کہ سننے والا قائل ہو جائے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق:

’’ہنسی انسانی جبلتوں میں سے ہے۔ اس جبلت کا اظہار تخلیقی سطح پر ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔ دوسروں کو بھی مزاح کی مسرت میں شریک کرنا مزاح نگار کا اوّلین فریضہ ہوتا ہے۔ ‘‘[۶]

طنز اور مزاح اکٹھے ہوں یا الگ الگ، ان کی تخلیق اور اظہار کے لیے جو حربے استعمال کیے جاتے ہیں ان کو سمجھے بغیر طنز و مزاح کو سمجھنا مشکل ہے، جیسے موازنہ و تضاد میں بہ یک وقت دو مختلف چیزوں سے مشابہت اور تضاد کا موازنہ کر کے ہنسی کو بیدار کیا جاتا ہے۔ دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب میں بھی مزاح کے اس حربے سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ تا ہم موازنے کے لیے نا موزونیت اور بے ڈھنگے پن کا مشاہدے میں آنا ضروری ہے۔ اردو مزاحیہ نظم و نثر میں اس کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں۔

مزاحیہ صورتِ حال طنز و مزاح کا ایک اہم اور مشکل حربہ ہے اس کی وجہ زبان و بیان اور الفاظ کی سلاست و بلاغت کے خیال کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز صورتِ حال کی پیدائش بھی ہے۔ یہ خالص مزاح کی معیاری قسم ہے، جیسے کے لیے کے چھلکے سے پھسلنے سے جو مضحک صورتِ حال پیدا ہوتی ہے اس پر بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ بقول پروفیسر محمد طہٰ خان:

’’بین الاقوامی مزاح تو واقعاتی مزاح ہے ‘‘[۷]

بذلہ سنجی) (Witکا حربہ ذہانت، نکتہ آرائی اور برجستگی کا حربہ ہے۔

’’سنجیدہ گفتگو یا تحریر کے دوران اچانک کوئی ایسی تڑپتی مچلتی بات کرنا یا کہنا جو قاری یا سامع کو نہال کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کر دے نغز یا بذلہ سنجی کہلاتی ہے۔ ‘‘[۸]

سیّد عابد علی عابد لکھتے ہیں :

’’جہاں بہ ظاہر مشابہت موجود نہیں ہوتی وہاں متخالف اور متضاد چیزوں میں ایک وجہ شبہ پیدا کی جاتی ہے اور یا جہاں یک رنگ مشابہت ہوتی ہے، وہاں مصنف اپنے ذوق یا بذلہ سنجی سے کام لے کر عدم مشابہت کے عنصر دریافت کرتا ہے۔ ‘‘[۹]

الفاظ کے الٹ پھیر سے پیدا ہونے والا مزاح ’’لفظی بازی گری‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس تکنیک میں عام طور پر ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جن کے قریب اور بعید دو معنی ہوں، کہنے والا اوّل الذکر مراد لیتا ہے اور سننے والا بعد الذکر۔ ایہام اور الفاظ کی تکرار سے پیدا ہونے والا مزاح بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور میں ’’ایہام گوئی‘‘ کی تحریک میں لفظی بازی گری کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ مرزا غالب جب بہادر شاہ ظفر کو عید ملنے گئے تو انھوں نے پوچھا ’’مرزا کتنے روزے رکھے ؟‘‘جواب دیا ’’ پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔ ‘‘

مزاحیہ کردار طنز و مزاح کی تخلیق کا اہم جزو ہیں۔ مزاحیہ کردار کی تخلیق میں مبالغہ آرائی سے کام لے کراس کے انداز و اطوار کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ مضحک صورت حال پیدا ہو کر طنز و مزاح کا باعث بنتی ہے۔ مزاحیہ کرداراس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کردہ کردار، سامنے آتے ہی قاری یا سامع کے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ جانا ضروری ہے۔ اردو نثر میں رتن ناتھ سر شار کا ’’خوجی‘‘، ڈپٹی نذیر احمد کا ’’ظاہر دار بیگ‘‘، پطرس بخاری کا ’’مرزا صاحب‘‘، شفیق الرحمان کا ’’شیطان‘‘، محمد خالد اختر کا ’’چچا عبدالباقی‘‘ اور مشتاق احمد یوسفی کا ’’ مرزا عبد الودود‘‘ وغیرہ اس کی کام یاب مثالیں ہیں۔ اُردو مزاحیہ شاعری میں مجید لاہوری نے ’’مولوی گل شیر خان اور ٹیوب جی ٹائر جی ‘‘اور سیّد ضمیر جعفری نے ’’قیس‘‘کو پے در پے مزاحیہ غزل کے اشعار میں استعمال کر کے انھیں بطور کردار متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن جان دار مزاحیہ کردار تخلیق نہ کر سکے۔

اشارے یا کنائے میں ایسی بات کرنا کہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ سمجھا دینا رمز کہلاتا ہے۔ یہ حربہ بھی طنزو مزاح میں بہ کثرت استعمال ہوتا ہے۔ رمز میں طنز و مزاح ایک دوسرے سے گھلے ملے ہوتے ہیں تا ہم طنز کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ غالب کا یہ شعر رمز کی عمدہ مثال ہے :

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے ؟

مبالغہ کو اردو سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری دونوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سنجیدہ شاعری میں یہ حربہ بات میں زور پیدا کرنے کے لیے، جب کہ مزاحیہ شاعری میں مزاح پیدا کرنے کے لیے مستعمل ہے۔ مبالغہ میں کسی چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کے بیان کر کے ہنسی کو تحریک دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا یہ شعر دیکھیے :

وہ ہے سترہ کی اور میں ستر کا

پانچ مرلے کہاں کنال کہاں

تشبیہ و استعارہ مزاح کے اہم حربے ہیں۔ تشبیہ کا لفظ ’’شبہ‘‘ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ’’مماثل ہونا‘‘۔ علم بیان کی رو سے کسی ایک شے کی کسی اچھی یا بری خصوصیت کو کسی دوسری شے کی اچھی یا بری خصوصیت کے مشابہ قرار دینا تشبیہ ہے۔ لغوی معنوں میں استعارہ سے مراد ’’ادھار لینا‘‘ ہے۔ شعری اصطلاح میں استعارہ وہ صفت ہے جس کے تحت کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹ کرکسی اور شے سے مشابہت کی وجہ سے اس کے مجازی معنوں میں استعمال کیا جائے۔ سیّد عابد علی عابد رقم طراز ہیں :

’’جن لوگوں نے ظرافت، بذلہ سنجی، طنز، ہجو اور متعلقہ اصنافِ ادب کا بدقتِ نظر مطالعہ کیا ہو وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوں گے کہ ظرافت ہو کہ بذلہ سنجی، طنز ہو کہ ہجو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مصنف ایسی اشیا میں مشابہتیں دریافت کرتا ہے جو بہ ظاہر معلوم ہوتی ہوں یا ایسی اشیا میں اختلافات کے پہلو ڈھونڈ کے دکھاتا ہے جہاں یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ اختلاف کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔ [۱۰]

مزاح کے حربہ کے طور پر تشبیہ و استعارہ کا استعمال طنزیہ و مزاحیہ نظم و نثر میں عام ہے۔

رعایتِ لفظی ایک ایسا شاعرانہ عمل ہے جس میں کسی لفظ کی معنوی پہلو داری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعر ایک نئی صورتِ حال پیدا کر دیتا ہے۔ ’’الفاظ کی رعایت سے پیدا کی جانے والی گفتگو رعایتِ لفظی ہے۔ ‘‘[۱۱]رعایتِ لفظی ایہام ہی کی ایک قسم ہے جس میں کسی شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے دو مفہوم نکلتے ہوں اور ان مفاہیم کا بُعد ہی مزاح کا محرک بنتا ہے۔

اُردو میں ’’پیروڈی‘‘ کے لیے ’’ تحریف‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو کہ اس کے مفہوم کو پوری طرح ادا نہیں کرتا۔ ’’ڈکشنری آف ورلڈ لٹریچر ‘‘کے مطابق الفاظ کی تبدیلی اور کمی بیشی، کسی فن پارے کے اندازو اسلوب کی نقل یا موضوع اور ہیئت کی نقل سے پیروڈی کی جا سکتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس صنف میں جدت تو ہوتی ہے لیکن اوریجنل خیال یا اسلوب نہیں ہوتا۔ اردو ادب کے آغاز ہی سے اس کے نقوش ملتے ہیں اور طنز و مزاح کے شعری و نثری سرمائے میں اس کی عمدہ مثالیں دستیاب ہیں۔

طنز و مزاح کی تخلیق کے لیے بنیادی طور پر یہی حربے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر طنز و مزاح کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ طنز تاریخی، اخلاقی، سماجی اور ادبی رجعت پسندی اور زوال پذیری پر ایسے انداز میں چوٹ کرتی ہے کہ ہنساتی بھی ہے اور حساس دلوں کو رُلاتی بھی ہے۔ اچھی طنز اپنے معاشرے اور زمانے کی آئینہ دار ہوتی ہے جب کہ مزاح چٹکیاں لیتا، گدگدی کرتا خوش طبعی کا سر چشمہ ہوتا ہے۔ ہنسی برائے ہنسی ہوتے ہوئے بھی مزاح کے سماجی کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ طنز سماج اور انسان کے رستے ہوئے زخموں کی طرف ہمیں متوجہ کر کے بہت بڑی انسانی خدمت سر انجام دیتی ہے اور دوسری طرف خالص مزاح بھی تو ہماری بجھی ہوئی پھیکی اور بد مزہ زندگیوں کو منور کرتا اور ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ فی الوقت افادیت کے نقطۂ نظر سے دونوں ہمارے رفیق و غم گسار ہیں اور ہم ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے سے قاصر۔ ‘‘[۱۲]

(کتاب ’’مزاحیہ غزل کے خد و خال‘‘ مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، کا ایک ذیلی باب)

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اصنافِ ادب، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء، ص۱۸۳

۲۔ Stephen Leacock, Humour and Humanity, London , New Cheap Ed. Purnell and Sons, 1930, P11

۳۔ علی عباس جلالپوری، مقاماتِ وارث شاہ، لاہور، تخلیقات پبلشرز، ۱۹۹۹ء، ص۱۴۴

۴۔ خواجہ عبد الغفور، شگوفہ زار، دہلی، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، ۱۹۷۷ء، ص۱۱۲

۵۔ رشید احمد صدیقی، طنزیات و مضحکات، نئی دہلی، جامعہ مکتبہ، دوسری بار، ۱۹۹۲ء، ص۱۴۱

۶۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، تنقیدی اصطلاحات: توضیحی لغت، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء، ص ۲۴۳

۷۔ محمد طہٰ خان، پروفیسر، انٹرویو:راشد حمید، ڈاکٹر، مشمولہ:گفتگو نما، اسلام آباد، پورب اکیڈمی، ۲۰۱۱ء، ص۱۲۱

۸۔ اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر، اردو نثر میں طنز و مزاح، لاہور، بیت الحکمت، ۲۰۰۴ء، ص۳۴

۹۔ عابد علی عابد، سیّد، اسلوب، لاہور، مجلسِ ترقیِ ادب، طبع دوم، ۱۹۹۶ء، ص۱۶۲

۱۰۔ عابد علی عابد، سیّد، البیان، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء، ص۸۸

۱۱۔ محمد طہٰ خان، پروفیسر، قرینۂ شعری، پشاور، جدون پرنٹنگ پریس، ۲۰۰۹ ء، ص۲۵

۱۲۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، اردو ادب میں طنزو مزاح، لاہور، مکتبہ عالیہ، ۲۰۰۷ء، ص۴۲، ۴۳

٭٭٭

 

 

 

 

ادبی ٹھگ

 

                   ڈاکٹر شہلا نواب

 

مشاعرے ہماری ادبی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہیں ان مشاعروں کے ذریعے ہی آجکل اردو زبان بہت تیزی سے پھل پھول رہی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مشاعروں کو سب سے پہلے سمجھا جائے۔ یہ مشاعرے اصل میں ہیں کیا یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے شاعر اپنا تازہ کلام سناتے ہیں اور سامعین و اپنے ہم عصروں سے دادو تحسین حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم اپنے اشعار کو نہ صرف ادب کی کسوٹی پر بلکہ سامعین کے مزاج کے اعتبار سے پرکھتے ہیں۔ یہ داد و تحسین الفاظ کے انتخاب، تشبیہات کے سلیقے استعارات کے حسن اور تخیل کی بلندی کے علاوہ ادائیگی، لب و لہجہ و تلفظ کے ساتھ شاعری کے اوزان کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ اب مشاعروں کا یہ معیار بدل رہا ہے۔ اب نہ تو دادا وتحسین میں بیشتر وہ سچائی ہے اور نہ اشعار میں اب وہ گہرائی، ویسے بھی مشاعروں کے اشعار اور رسائل و جرائد میں چھپنے والی شاعری یکسر مختلف ہے۔ آجکل مشاعروں میں ان اشعار کو ہی پسند کیا جا رہا ہے جو کے حسن و عشق یا مذہبی جذبات کو ہوا دینے کے لئے لکھے جا رہے ہیں جو مسلم شعراء کی جانب سے سند وفا داری بن جاتے ہیں۔

ہمارے ان ادبی مشاعروں کا ایک اور اہم حصہ ہیں شاعرات۔ مشاعرہ اور شاعرات اب لازم و ملزوم ہیں اب تو حالت یہ ہے کہ جب تک مشاعرے کے اسٹیج پر شاعرہ نہ ہو تب تک مشاعرے کا اسٹیج ایک بیوہ کی مانگ کی طرح سونا بن جاتا ہے۔ اور اس پر ستم یہ کہ ترنم سے پڑھنے والی بہترین آواز کی مالک کم سن شاعرہ، ایسا مشاعرہ اب مظاہرہ ہیں یہاں نہ تو اب ادبی روایات کا عمل دخل بچا ہے اور نہ ہی بزرگوں اور استادوں کی شایان شان آدابِ زندگی کی اس تیز رفتاری کے ہمارے مشاعروں کے اسٹیج کو بہت ہی پریکٹیکل اور پروفیشنل بنا دیا ہے یہاں عام طور سے ایک ہی غزل کو پچاسیوں مرتبہ تازہ کلام کے عنوان سے یعنی نئی پیکنگ میں سنا دیا جاتا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ دادو تحسین بھی کہہ کرتا لیوں کی شکل میں مانگی جاتی ہے اور شاعر جب تک اسٹیج چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا ہے جب تک کہ وہ اپنے منہ سے خود اپنے اشعار پر تالیاں نہ مانگ لیں۔

آج کل اکثر نام نہاد شاعرات کے ساتھ یہ معاملہ الگ ہے۔ ان کو داد وتحسین ملتی ہے مگر ان کی پرفارمینس سے زیادہ ظاہری زیبائش پر۔ ان میں بیشتر تعداد ان شاعرات کی ہے جو اردو میں ایک لفظ نہیں لکھ سکتیں آج مشاعروں میں سینئیر شاعرات کی صفِ اوّل میں دکھائی دیتی ہیں اور ان کا ترنم ان کی تمام تر خامیوں کی چشم پوشی کر دیتا ہے۔

میں یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ان کے ہاتھ میں شاعری کا اسکرپٹ (اشعار) ہندی یا رومن میں لکھے دکھائی دیتے ہیں اور وہ بہت فخر سے اُردو کے مشاعرے پڑھتی ہیں۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایک شعر اپنے نام کے ساتھ لکھ دو تو وہ بغلیں جھانکتی دکھائی دیتی ہیں یقیناً آپ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے ان میں بہت سے شعرائے کرام کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اُردو زبان کا دم بھرنے والے اور اُردو زبان کی روٹی کھانے والے یہ لوگ آخر کس اینگل سے اُردو زبان کی ترقی کر رہے ہیں۔

مشاعروں میں اکثر شاعرات کا تو یہ عالم ہے کہ ان کے استاد نے غزل لکھ دی اور انہوں نے پڑھ دی اور آدھا پیسہ ادھر اور آدھا پیسہ ادھر، ادھر اس کے علاوہ داد بھی ان ہی شاعرات کو ملتی ہے جو کہ ہمارے خیمے کی ہیں اگر دوسرے خیمے کی شاعرہ نے اسٹیج پر اپنی محنت سے کہی ہوئی کتنی ہی اچھی غزل کیوں نہ کہی ہو مجال ہے جو ذرا بھی کسی کی توجہ نصیب ہو جائے۔ اس طرح سے مشاعرہ فکسنگ کی بھی ایک نئی روایت شروع ہو چکی ہے۔ میں نے اکثر مشاعروں میں دیکھا ہے کہ ہمارے شاعر حضرات ان خواتین کو نشانہ بناتے ہوئے سنجیدہ، رنجیدہ اور خندیدہ اشعار میں ذکر کرتے ہیں کہ جو خواتین شاعری کی بحر سے بھی واقف نہیں ہیں وہ بیرون ممالک کا سفر کر رہی ہیں یا اچھے ترنم سے کامیابی حاصل کر رہیں ہیں وغیرہ وغیرہ میں یہاں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ اکثر شاعر حضرات اِن کو خود کلام لکھ کر دیتے ہیں اور مشاعروں میں ان کا نام دیتے ہیں اور ان کو خود ہی طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔

میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتی ہوں۔ محفل صنم کی جانب سے ۱۰ فروری۲۰۱۷ء کو جناب معروف رائے بریلوی کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اگلے دن یعنی ۱۱ فروری ۲۰۱۷ء کو جشن ثروت جمال تھا اور جناب معروف صاحب اس مشاعرے کی نظامت اور شرکت کے لیے ہی دہلی آئے تھے۔ میں نے بھی اس پروگرام میں بطور سامع شرکت کی مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے وہی اشعار اس مشاعرے میں تازہ کلام کے عنوان سے سنے جو میری نشست میں پڑھے جا چکے تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ ۔۔ ہے جناب کیونکہ اشعار وہی تھے مگر کہنے یا پڑھنے والے حضرات جدا تھے یعنی میں نے تین ایسے اشعار کی نشاندہی کی جو ایک دن پہلے میرے یہاں نشست میں دوسرے شاعر حضرات نے پڑھے اور جشن ثروت جمال میں دوسرے شعراء نے مگر کلام ایک ہی تھا۔ اسی لئے میں نے ان لوگوں کو ادبی ٹھگ کا نام دیا ہے ایک تو پرانا کلام نئے عنوان سے اور پھر ستم دیکھو وہ ان کا کلام بھی نہیں، سامعین سے داد و تحسین کی طلب ایسی کہ پوچھو مت۔ یہ لوگ ادب کے نام پر سامعین کا وقت، ان کا ادب کے لئے شوق سب ہی کچھ ٹھگ ہی رہے ہیں۔

ابھی بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ہے میرا ذریعۂ معاش درس و تدریس سے وابستہ ہے یہ واقعہ ہے تقریباً ۲فروری۲۰۱۷ء کا میں نے اپنے اسکول کے گراؤنڈ میں ایک صاحب کو دیکھا اور چونک گئی، ان سے آنے کا سبب پوچھا۔ انہوں نے مجھے ایک لفافہ دکھایا اور کہا کہ اس میں اُردو اکادمی کا خط ہے جو میرا دعوت نامہ ہے، لال قلعے کا مشاعرہ پڑھنے کے لئے۔ میں نے ان کو مبارکباد دی اور کہا جناب یہ تو اچھی بات ہے مگر یہاں آنے کا سبب تو بتائیں وہ بولے مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ اس خط کے حساب سے مجھے لال قلعے کا مشاعرہ پڑھنا ہے اور ۰۰۰، ۱۶روپے بطور نذرانہ ملیں گے اس کے علاوہ کیا لکھا ہے مجھے نہیں معلوم اور اس کا جواب اُردو میں دینا ہے اس لئے آیا ہوں کہ کوئی اُردو میں اس کا جواب لکھ دے اور اس خط کا پورا مضمون مجھے پڑھ کر بتا دے۔ میں نے دریافت کیا کہ جناب یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ کو اُردو لکھنی پڑھنی نہیں آتی اور آپ شاعری کیسے کرتے ہیں۔ وہ بولے میرے لئے اُردو زبان کے حروف تہجی کالا اکشر بھینس برابر ہے۔ ۔۔ ہندی میں لکھتا ہوں، کام چل رہا ہے۔ بس اس خط کا جواب لکھوا دیں میں جلدی میں ہوں۔

اس واقعہ کے بعد دل چاہا کہ ان لوگوں کی ان حرکتوں کے لئے قلم اٹھایا جائے اور سب کے سامنے یہ واقعات لانا نہایت ضروری ہیں اور قابل غور بات یہ ہے کہ ہماری اردو اکادمی کے پاس اردو زبان میں لکھنے پڑھنے والوں کا کتنا فقدان ہے کبھی تو یہاں کوی دکھائی دیتے ہیں اور دہلی کی نمائندگی کرنے کے لئے ایسے شاعر جو اردو زبان سے بالکل ناواقف ہیں۔ کیا ہم کو اپنی اردو اکادمی کا نام تبدیل کر دینا چاہئے۔

اردو زبان کے نام پر یہ ادبی ٹھگی کب تک چلتی رہے گی اور ہم فخر سے ان مشاعروں کو زبان کی ترقی اور کامیابی کا ضامن قرار دیتے رہیں گے۔ حالانکہ میرے یہ تجربات بہت سے نام نہاد ادب نواز لوگوں کو ناگوار گزر سکتے ہیں مگر زبان خاموش رہ سکتی ہے قلم نہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشاعروں میں چند جو نام نہاد شاعرات ہیں ان کے اشعار احساس اور جذبات سے یکسر خالی ہیں صرف ان کے تصنّع، سنگھار کو ہی مد نظر رکھ کر نہ صرف مشاعروں میں بلایا جاتا ہے بلکہ بہت وقت تک عوام کو روکے رکھنے کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے اس لئے ایسی شاعرات مشاعروں کے لئے ضروری قرار دی جاتی ہیں۔

یہ ادبی ٹھگی کب تک چلے گی ان کے ذمے دار کون ہیں ؟ کون ہیں ادب کے وہ ٹھیکیدار، جو ادب کے مزدوروں سے ان کی کمائی کی کمیشن کھانے کے لئے ایسی نا زیبا حرکتیں کر کے ان مشاعروں کا معیار و وقار تباہ کر رہے ہیں۔ خدارا اپنی زبان اور تہذیب کو ان ادبی ٹھگوں سے محفوظ کر لو ورنہ آنے والی نسلیں نہ ہم کو معاف کریں گی اور نہ ہم ان کو زبان کی بدحالی کے لئے ذمے دار قرار دے پائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پرانے چاول

 

مرید پور کا پیر

 

                   پطرس بخاری

 

لوگوں کو اس بات کا تعجب ہوتا ہے کہ میں اپنے وطن کا ذکر کبھی نہیں کرتا۔ بعض اس بات پر بھی حیران ہیں کہ میں اب کبھی اپنے وطن کو نہیں جاتا۔ جب کبھی لوگ مجھ سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو میں ہمیشہ بات کو ٹال دیتا ہوں۔ اس سے لوگوں کو طرح طرح کے شبہات ہونے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے وہاں اس پر ایک مقدمہ بن گیا تھا اس کی وجہ سے روپوش ہے۔ کوئی کہتا ہے وہاں کہیں ملازم تھا، غبن کا الزام لگا، ہجرت کرتے ہی بنی۔ کوئی کہتا ہے والد اس کی بدعنوانیوں کی وجہ سے گھر میں نہیں گھسنے دیتے۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ آج میں ان سب غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے والا ہوں۔ خدا آپ پڑھنے والوں کو انصاف کی توفیق دے۔

قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔ یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے ؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ اُن پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔ میں پہلے بھی اکثر جگہ اعلان کر چکا ہوں، اور اب میں ببانگ دہل یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اس میں میرا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ بعض لوگوں کو یہ شک ہے کہ میں نے محض اپنی تسکین نخوت کے لیے کانگریس کا جلسہ اپنے پاس ہی کرا لیا لیکن یہ محض حاسدوں کی بدطینتی ہے۔ بھانڈوں کو میں نے اکثر شہر میں بلوایا ہے۔ دو ایک مرتبہ بعض تھیٹروں کو بھی دعوت دی ہے لیکن کانگریس کے مقابلے میں میرا رویہ ہمیشہ ایک گمنام شہری کا سا رہا ہے۔ بس اس سے زیادہ میں اس موضوع پر کچھ نہ کہوں گا۔

جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریر سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقتِ ضرورت کام آئے۔

بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بیحد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض با توں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیشتر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے پھر مقامی اخبار کے بیحد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔ اس اخبار کا نام ’’مریدپور گزٹ‘‘ ہے۔ اس کا مکمل فائل کسی کے پاس موجود نہیں، دو مہینے تک جاری رہا۔ پھر بعض مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔ ایڈیٹر صاحب کا حلیہ حسب ذیل ہے۔ رنگ گندمی، گفتگو فلسفیانہ، شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں۔ کسی صاحب کو ان کا پتہ معلوم ہو تو مریدپور کی خلافت کمیٹی کو اطلاع پہنچا دیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ نیز کوئی صاحب ان کو ہرگز ہرگز کوئی چندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دار نہ ہو گی۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پرا یک کانگریس نمبر بھی نکال مارا۔ جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مریدپور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشاء پردازی، صحیح الدماغی اور جوش قومی کی داد دی۔ میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مریدپور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مریدپور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم نہ تھا کہ میں نے اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے اور کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ معمولی سا انسان جو ہر روز چپ چاپ سر نیچا کئے بازاروں میں سے گزر جاتا ہے مرید پور میں پوجا جاتا ہے۔ میں وہ خطوط لکھنے کے بعد کانگریس اور اس کے تمام متعلقات کو قطعاً فراموش کر چکا تھا۔ مریدپور گزٹ کا میں خریدار نہ تھا، بھتیجے نے میری بزرگی کے رعب کی وجہ سے بھی برسبیلِ تذکرہ اِتنا بھی نہ لکھ بھیجا کہ آپ لیڈر ہو گئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے یوں کہتا تو برسوں تک اُس کی بات میری سمجھ میں نہ آتی، بہرحال مجھے کچھ تو معلوم ہوتا کہ میں ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوں۔

کچھ عرصے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جا بجا جلسے نکل آئے جس کسی کو ایک میز، ایک کرسی اور گلدان میسر آیا اسی نے جلسے کا اعلان کر دیا۔ جلسوں کے اس موسم میں ایک دن مریدپور کی انجمن نوجوانان ہند کی طرف سے میرے نام اس مضمون کا ایک خط موصول ہوا کہ آپ کے شہر کے لوگ آپ کے دیدار کے منتظر ہیں۔ ہر کہ دمہ آپ کے روئے انور کو دیکھنے اور آپ کے پاکیزہ خیالات سے مستفید ہونے کے لیے بیتاب ہیں۔ مانا ملک بھر کو آپ کی ذاتِ با برکات کی از حد ضرورت ہے لیکن وطن کا حق سب سے زیادہ ہے کیونکہ "خارِ وطن از سنبل و ریحان خوشتر” اِسی طرح کی تین چار براہین قطعہ کے بعد مجھ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ آپ یہاں آ کر لوگوں کو ہندومسلم اتحاد کی تلقین کریں۔

خط پڑھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیا تو رفتہ رفتہ باشندگان مریدپور کی مردم شناسی کا قائل ہو گیا۔

میں ایک کمزور انسان ہوں اور پھر لیڈری کا نشہ ایک لمحے ہی میں چڑھ جاتا ہے۔ اس لمحے کے اندر مجھے اپنا وطن بہت ہی پیارا معلوم ہونے لگا۔ اہل وطن کی بے حسی پر بڑا ترس آیا۔ ایک آواز نے کہا کہ ان بیچاروں کی بہبود اور رہنمائی کا ذمہ دار تو ہی ہے۔ تجھے خدا نے تدبر کی قوت بخشی ہے۔ ہزارہا انسان تیرے منتظر ہیں۔ اُٹھ کہ سینکڑوں لوگ تیرے لئے ماحضر لئے بیٹھے ہو گے۔ چنانچہ میں نے مریدپور کی دعوت قبول کر لی۔ اور لیڈرانہ انداز میں بذریعہ تار اطلاع دی، کہ پندرہ دن کے بعد فلاں ٹرین سے مریدپور پہنچ جاؤں گا، اسٹیشن پر کوئی شخص نہ آئے۔ ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اپنے اپنے کام میں مصروف رہے۔ ہندوستان کو اِس وقت عمل کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد جلسے کے دن تک میں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی ہونے والی تقریر کی تیاری میں صرف کر دیا، طرح طرح کے فقرے دماغ میں صبح و شام پھرتے رہے۔

’’ہندو اور مسلم بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘

’’ہندو مسلم شیر و شکر ہیں۔ ‘‘

’’ہندوستان کی گاڑی کے دو پہیے۔ اے میرے دوستو! ہندو اور مسلمان ہی تو ہیں۔ ‘‘

’’جن قوموں نے اتفاق کی رسی کو مضبوط پکڑا، وہ اس وقت تہذیب کے نصف النہار پر ہیں۔ جنہوں نے نفاق اور پھوٹ کی طرف رجوع کیا۔ تاریخ نے ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘

بچپن کے زمانے میں کسی درسی کتاب میں ’’سنا ہے کہ دو بیل رہتے تھے اک جا‘‘ والا واقعہ پڑھا تھا۔ اسے نکال کر نئے سرے سے پڑھا اور اس کی تمام تفصیلات کو نوٹ کر لیا۔ پھر یاد آیا، کہ ایک اور کہانی بھی پڑھی تھی، جس میں ایک شخص مرتے وقت اپنے تمام لڑکوں کو بلا کر لکڑیوں کا ا یک گٹھا ان کے سامنے رکھ دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اس گٹھے کو توڑو۔ وہ توڑ نہیں سکے۔ پھر اس گٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی ان سب کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ جسے وہ آسانی سے توڑ لیتے ہیں۔ اس طرح وہ اتفاق کا سبق اپنی اولاد کے ذہن نشین کرتا ہے۔ اس کہانی کو بھی لکھ لیا، تقریر کا آغاز سوچا۔ سو کچھ اس طرح کی تمہید مناسب معلوم ہوئی کہ:

’’پیارے ہم وطنو!‘‘

گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے

فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے

نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے

یہ چاروں طرف سے ندا آ رہی ہے

کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم

ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم

ہندوستان کے جس مایہ ناز شاعر یعنی الطاف حسین حالیؔ پانی پتی نے آج سے کئی برس پیشتر یہ اشعار قلمبند کئے تھے، اُس کو کیا معلوم تھا، کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، اس کے المناک الفاظ روزبروز صحیح تر ہوتے جائیں گے۔ آج ہندوستان کی یہ حالت ہے۔ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

اِس کے بعد سوچا کہ ہندوستان کی حالت کا ایک دردناک نقشہ کھینچوں گا، افلاس، غربت، بغض وغیرہ کی طرف اشارہ کروں گا اور پھر پوچھوں گا، کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے ؟ ان تمام وجوہ کو دہراؤں گا، جو لوگ اکثر بیان کرتے ہیں۔ مثلاً غیرملکی حکومت، آب و ہوا، مغربی تہذیب۔ لیکن ان سب کو باری باری غلط قرار دوں گا، اور پھر اصل وجہ بتاؤں گا کہ اصل وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے، آخر میں اتحاد کی نصیحت کروں گا اور تقریر کو اس شعر پر ختم کروں گا کہ:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

دس بارہ دن اچھی طرح غور کر لینے کے بعد میں نے اس تقریر کا ایک خاکہ سا بنایا۔ اور اس کو ایک کاغذ پر نوٹ کیا، تاکہ جلسے میں اسے اپنے سامنے رکھ سکوں۔ وہ خاکہ کچھ اس طرح کا تھا،

(۱) تمہید اشعار حالی۔ (بلند اور دردناک آواز سے پڑھو۔ )

(۲) ہندوستان کی موجودہ حالت۔

(الف) افلاس

(ب) بغض

(ج) قومی رہنماؤں کی خود غرضی

(۳) اس کی وجہ۔

کیا غیرملکی حکومت ہے ؟ نہیں۔

کیا آب و ہوا ہے ؟ نہیں۔

کیا مغربی تہذیب ہے ؟ نہیں۔

تو پھر کیا ہے ؟ (وقفہ، جس کے دوران میں مسکراتے ہوئے تمام حاضرین جلسہ پر ایک نظر ڈالو۔ )

(۴) پھر بتاؤ، کہ وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا نفاق ہے۔ (نعروں کے لیے وقفہ۔ )

اس کا نقشہ کھینچو۔ فسادات وغیرہ کا ذکر رقت انگیز آواز میں کرو۔

(اس کے بعد شاید پھر چند نعرے بلند ہوں، ان کے لیے ذرا ٹھہر جاؤ۔ )

(۵) خاتمہ۔ عام نصائح۔ خصوصیات اتحاد کی تلقین، شعر

(اس کے بعد انکسار کے انداز میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ اور لوگوں کی داد کے جواب میں ایک ایک لمحے کے بعد حاضرین کو سلام کرتے رہو۔ )

اس خاکے کے تیار کر چکنے کے بعد جلسے کے دن تک ہر روز اس پر نظر ڈالتا رہا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر معرکہ آرا فقروں کی مشق کرتا رہا۔ نمبر۳ کے بعد کی مسکراہٹ کی خاص مشق بہم پہنچائی۔ کھڑے ہو کر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھومنے کی عادت ڈالی تاکہ تقریر کے دوران میں آواز سب تک پہنچ سکے اور سب اطمینان کے ساتھ ایک ایک لفظ سن سکیں۔

مریدپور کا سفر آٹھ گھنٹے کا تھا۔ رستے میں سانگا کے اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی۔ انجمن نوجوانان ہند کے بعض جوشیلے ارکان وہاں استقبال کو آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ہار پہنائے۔ اور کچھ پھل وغیرہ کھانے کو دیئے۔ سانگا سے مریدپور تک ان کے ساتھ اہم سیاسی مسائل پر بحث کرتا رہا۔ جب گاڑی مریدپور پہنچی تو اسٹیشن کے باہر کم از کم تین ہزار آدمیوں کا ہجوم تھا۔ جو متواتر نعرے لگا رہا تھا۔ میرے ساتھ جو والنٹیئر تھے، انہوں نے کہا، ’’سر باہر نکالئے، لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ ہار میرے گلے میں تھے۔ ایک سنگترہ میرے ہاتھ میں تھا، مجھے دیکھا تو لوگ اور بھی جوش کے ساتھ نعرہ زن ہوئے۔ بمشکل تمام باہر نکلا۔ موٹر پر مجھے سوار کرایا گیا۔ اور جلوس جلسہ گاہ کی طرف پایا۔

جلسہ گاہ میں داخل ہوئے، تو ہجوم پانچ چھ ہزار تک پہنچ چکا تھا۔ جو یک آواز ہو کر میرا نام لے لے کر نعرے لگاتا رہا تھا۔ دائیں بائیں، سرخ سرخ جھنڈیوں پر مجھ خاکسار کی تعریف میں چند کلمات بھی درج تھے۔ ’’مثلاً ہندوستان کی نجات تمہیں سے ہے۔ ‘‘ ’’مریدپور کے فرزند خوش آمدید۔ ‘‘ ’’ہندوستان کو اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔ ‘‘

مجھ کو اسٹیج پر بٹھایا گیا صدرِ جلسہ نے لوگوں کے سامنے مجھے سے دوبارہ مصافحہ کیا اور میرے ہاتھ کو بوسہ دیا اور پھر اپنی تعارفی تقریر یوں شروع کی:

’’حضرات! ہندوستان کے جس نامی اور بلند پایہ لیڈر کو آج جلسے میں تقریر کرنے کے لئے بلایا گیا ہے۔ ۔۔ ‘‘

تقریر کا لفظ سن کر میں نے اپنی تقریر کے تمہیدی فقروں کو یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت ذہن اس قدر مختلف تاثرات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کہ نوٹ دیکھنے کی ضرورت پڑی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا تو نوٹ ندارد۔ ہاتھ پاؤں میں یک لخت ایک خفیف سی خنکی محسوس ہوئی۔ دل کو سنبھالا کہ ٹھہرو، ابھی اور کئی جیبیں ہیں گھبراؤ نہیں رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکھ ڈالیں۔ لیکن کاغذ کہیں نہ ملا۔ تمام ہال آنکھوں کے سامنے چکر کھانے لگا، دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کیا، ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ دس بارہ دفعہ جیبوں کو ٹٹولا۔ لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا جی چاہا کہ زور زور سے رونا شروع کر دوں۔ بے بسی کے عالم میں ہونٹ کاٹنے لگا، صدرِ جلسہ اپنی تقریر برابر کر رہے تھے۔

’’۔۔ ۔ مریدپور کا شہر ان پر جتنا بھی فخر کرے کم ہے ہر صدی اور ہر ملک میں صرف چند ہی آدمی ایسے پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات نوعِ انسان کے لئے۔ ۔۔ ‘‘

خدایا اب میں کیا کروں گا؟ ایک تو ہندوستان کی حالت کا نقشہ کھینچنا ہے۔ اس سے پہلے یہ بتانا ہے، کہ ہم کتنے نالائق ہیں۔ نالائق کا لفظ تو غیر موزوں ہو گا، جاہل کہنا چاہیئے، یہ ٹھیک نہیں، غیر مہذب۔

’’ان کی اعلیٰ سیاست دانی، ان کا قومی جوش اور مخلصانہ ہمدردی سے کون واقف نہیں۔ یہ سب باتیں تو خیر آپ جانتے ہیں، لیکن تقریر کرنے میں جو ملکہ ان کو حاصل ہے۔ ۔۔ ‘‘

ہاں وہ تقریر کا ہے سے شروع ہوتی ہے ؟ ہندومسلم اتحاد پر تقریر چند نصیحتیں ضرور کرنی ہیں، لیکن وہ تو آخر میں ہیں، وہ بیچ میں مسکرانا کہاں تھا؟

’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کہ آپ کے دل ہلا دیں گے، اور آپ کو خون کے آنسو رلائیں گے۔ ۔۔ ‘‘

صدر جلسہ کی آواز نعروں میں ڈوب گئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے تاریک ہو رہی تھی اتنے میں صدر نے مجھ سے کچھ کہا مجھے الفاظ بالکل سنائی نہ دیئے۔ اتنا محسوس ہوا کہ تقریر کا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔ اور مجھے اپنی نشست پر سے اٹھنا ہے۔ چنانچہ ایک نامعلوم طاقت کے زیر اثر اٹھا۔ کچھ لڑکھڑایا، پھر سنبھل گیا۔ میرا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ ہال میں شور تھا، میں بیہوشی سے ذرا ہی دور تھا۔ اور نعروں کی گونج ان لہروں کے شور کی طرح سنائی دے رہی تھی جو ڈوبتے ہوئے انسان کے سر پر سے گزر رہی ہوں۔ تقریر شروع کہاں سے ہوتی ہے ؟ لیڈروں کی خود غرضی بھی بیان کرنی ہے۔ اور کیا کہنا ہے ؟ ایک کہانی بھی تھی بگلے اور لومڑی کی کہانی۔ نہیں ٹھیک ہے دو بیل۔۔ ۔ ‘‘

اتنے میں ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لوگ سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سہارے کے ل?ے میز کو پکڑ لیا میرا دوسرا ہاتھ بھی کانپ رہا تھا، وہ بھی میں نے میز پر رکھ دیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا، جیسے میز بھاگنے کو ہے۔ اور میں اسے روکے کھڑا ہوں۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور مسکرانے کی کوشش کی، گلا خشک تھا، بصد مشکل میں نے یہ کہا۔

’’پیارے ہم وطنو!‘‘

آواز خلاف توقع بہت ہی باریک اور منحنی سی نکلی۔ ایک دو شخص ہنس دیئے۔ میں نے گلے کو صاف کیا تو اور کچھ لوگ ہنس پڑے۔ میں نے جی کڑا کر کے زور سے بولنا شروع کیا۔ پھیپھڑوں پر یک لخت جو یوں زور ڈالا تو آواز بہت ہی بلند نکل آئی، اس پر بہت سے لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ ہنسی تھمی تو میں نے کہا۔

’’پیارے ہم وطنو!‘‘

اس کے بعد ذرا دم لیا، اور پھر کہا، کہ:

’’پیارے ہم وطنو!‘‘

کچھ نہ آیا، کہ اس کے بعد کیا کہنا ہے۔ سینکڑوں باتیں دماغ میں چکر لگا رہی تھیں، لیکن زبان تک ایک نہ آتی تھی۔

’’پیارے ہم وطنو!‘‘

اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں بھنا گیا۔ اپنی توہین پر بڑا غصہ آیا۔ ارادہ کیا، کہ اِس دفعہ جو منہ میں آیا کہہ دوں گا، ایک دفعہ تقریر شروع کر دوں، تو پھر کوئی مشکل نہیں رہے گی۔

’’پیارے ہم وطنوں ! بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان کی آب و ہوا خراب یعنی ایسی ہے، کہ ہندوستان میں بہت سے نقص ہیں۔ ۔۔ سمجھے آپ؟ (وقفہ۔۔ ۔ ) نقص ہیں۔ لیکن یہ بات یعنی امر جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے گویا چنداں صحیح نہیں۔ ‘‘ (قہقہہ)

حواس معطل ہو رہے تھے، سمجھ میں نہ آتا تھا، کہ آخر تقریر کا سلسلہ کیا تھا۔ یک لخت بیلوں کی کہانی یاد آئی، اور راستہ کچھ صاف ہوتا دکھائی دیا۔

’’ہاں تو بات در اصل یہ ہے، کہ ایک جگہ دو بیل اکھٹے رہتے تھے، جو باوجود آب و ہوا اور غیر ملکی حکومت کے۔ ‘‘(زور کا قہقہہ)

یہاں تک پہنچ کر محسوس کیا، کہ کلام کچھ بے ربط سا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا، چلو وہ لکڑی کے گٹھے کی کہانی شروع کر دیں۔

’’مثلاً آپ لکڑیوں کے ایک گٹھے کو لیجیئے لکڑیاں اکثر مہنگی ملتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں افلاس بہت ہے۔ گویا چونکہ اکثر لوگ غریب ہیں، اس لئے گویا لکڑیوں کا گٹھا یعنی آپ دیکھئے نا۔ کہ اگر۔ ‘‘(بلند اور طویل قہقہہ)

’’حضرات! اگر آپ نے عقل سے کام نہ لیا تو آپ کی قوم فنا ہو جائے گی۔ نحوست منڈلا رہی ہے۔ (قہقہے اور شور و غوغا۔۔ ۔ اسے باہر نکالو۔ ہم نہیں سنتے ہیں۔ )

شیخ سعدی نے کہا ہے۔ کہ:

چو از قوم یکے بیدانشی کرد

(آواز آئی کیا بکتا ہے۔ ) خیر اس بات کو جانے دیجیئے۔ بہرحال اس بات میں تو کسی کو شبہ نہیں ہو سکتا۔ کہ:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے دل پکار میں چلاؤں ہائے گل

اس شعر نے دوران خون کو تیز کر دیا، ساتھ ہی لوگوں کا شور بھی بہت زیادہ ہو گیا۔ چنانچہ میں بڑے جوش سے بولنے لگا:

’’جو قومیں اس وقت بیداری کے آسمان پر چڑھی ہوئی ہیں، ان کی زندگیاں لوگوں کے لئے شاہراہ ہیں۔ اور ان کی حکومتیں چار دانگ عالم کی بنیادیں ہلا رہی ہیں۔ (لوگوں کا شور اور ہنسی اور بھی بڑھتی گئی۔ ) آپ کے لیڈروں کے کانوں پر خود غرضی کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے، کہ زندگی کے وہ تمام شعبے۔ ۔۔ ‘‘

لیکن لوگوں کا غوغا اور قہقہے اتنے بلند ہو گئے کہ میں اپنی آواز بھی نہ سن سکتا تھا۔ اکثر لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کچھ کہہ رہے تھے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔ ہجوم میں سے کسی شخص نے بارش کے پہلے قطرے کی طرح ہمت کر کے سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا مجھ پر پھینک دی۔ اس کے بعد چار پانچ کاغذ کی گولیاں میرے اردگرد اسٹیج پر آ گریں، لیکن میں نے اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔

’’حضرات! تم یاد رکھو۔ تم تباہ ہو جاؤ گے ! تم دو بیل ہو۔۔ ۔ ‘‘

لیکن جب بوچھاڑ بڑھتی ہی گئی، تو میں نے اس نامعقول مجمع سے کنارہ کشی ہی مناسب سمجھی۔ اسٹیج سے پھلانگا، اور زقند بھر کے دروازے میں باہر کا رخ کیا، ہجوم بھی میرے پیچھے لپکا۔ میں نے مڑ کر پیچھے نہ دیکھا۔ بلکہ سیدھا بھاگتا گیا۔ وقتاً فوقتاً بعض نامناسب کلمے میرے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان کو سن کر میں نے اپنی رفتار اور بھی تیز کر دی۔ اور سیدھا اسٹیشن کا رخ کیا، ایک ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی میں بے تحاشہ اس میں گھس گیا، ایک لمحے کے بعد وہ ٹرین وہاں سے چل دی۔

اُس دن کے بعد آج تک نہ مریدپور نے مجھے مدعو کیا ہے نہ مجھے خود وہاں جانے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

قندِ شیریں

 

 

 

کراچی کا جغرافیہ

 

                   سید عارف مصطفیٰ

 

روشنیوں کا شہر کہتے ہی پہلے جو شہر ذہن میں آتا تھا اسے کراچی کہا جاتا تھا لیکن اب کراچی کا نام سنتے ہی ذہن کی پہلے سے جلتی بتیاں بھی بجھنے لگتی ہیں، پھر اب تو پاکستان میں کئی شہر اور بھی ایسے ہیں کہ جہاں بہت ڈھیر سی بتیاں جلنے لگی ہیں اور یوں ان بتیوں کو دیکھنے کیے لئے کم ہی لوگ کراچی کا رخ کرتے ہیں، ہاں البتہ بیشمار ایمبولینسوں کی گھومتی بتیوں کو شریک مقابلہ کر لیا جائے تو یہ اب بھی سب سے آگے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اب کراچی کا نام آتے ہی ذہن میں کچھ بھی نہیں آتا بس ایک سناٹا سا گونجتا اور اندھیرا سا چھا جاتا ہے، لیکن اِس کی وجہ لوڈ شیڈنگ کم اور بلڈ شیڈنگ زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہے۔

اِس شہر میں اب کام کرنے کے لئے آنے والوں کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے اور کام دکھانے والوں کا شمار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، اِسی وجہ سے یہاں سے جانے والے تابوتوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ ۔۔ لیکن پھر بھی ہر سال چند سرپھرے سر سے کفن باندھ کر یہاں کود ہی پڑتے ہیں اور اِن میں سے کئی کے سر سے بندھا کفن ہی ان کے کام بھی آ جاتا ہے۔ ۔ لیکن اگر آپ ان میں سے ہیں جو محض سیر سپاٹے کے لئے اِس عروس البلاد میں آن پہنچے ہیں تو مناسب ہے کہ میں بطور گائیڈ آپ کے ساتھ ہولوں تاکہ اگر آپ مارے جائیں تو کوئی تو ہو جو فوری طور پہ آپ کے لواحقین کومستند’ اور فوری اطلاع فراہم کر سکے۔ رہی میرے تحفظ کی بات تو خطرہ تو میرے لئے بھی ہے لیکن روز روز کے خطرات نے اسے میرے لئے معمول کی بات بنا دیا ہے اور اگر کسی روز اخبار کسی ’’ٹارگٹ کلنگ ‘‘کی خبروں سے خالی ہو تو لگتا ہے کہ اخبار نہیں کوئی علمی مقالہ پڑھ رہا ہوں۔

کراچی کے سلسلے میں پہلے تو یہ جان رکھیئے کہ اس شہر میں گھومنے پھرنے کے آداب اور قرینے کل عالم سے مختلف ہیں اور اُنہیں سمجھنا بیحد ضروری ہے، مثلاً یہ کہہ دوسرے مہذب شہروں کی طرح یہاں فٹ پاتھ پہ چلنے پہ اصرار مت کیجئے گا کیونکہ فٹ پاتھ نظر ہی نہیں آئے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ محض آپ کو فٹ پاتھ دکھانے کے لیئے دکاندار کئی گھنٹے لگا کر اپنی دکان کا زیادہ تر سامان وہاں سے اٹھا لے، کہیں کچھ فٹ پا تھ پڑا مل بھی گیا تو وہاں اِتنے فقیر پڑے ملیں گے کہ اگر سب کو دینے میں لگ گئے تو آخر میں خود بھی وہیں بیٹھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ گویا اوّل تو چلنے کی جگہ ہی نہیں ملے گی لیکن مل بھی گئی تو کئی پتھاروں کو پامال کر جائیں گے اور نتیجتاً کسی پتھاریدار کے ہاتھوں خود بھی روندے جائیں گے۔ دوسرے یہ بھی پلے باندھ لیجئے کہ چلتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے نگاہ نیچی رکھ کر چلئے، یوں کسی کھلے گٹر میں غرقابی سے بھی بچیں گے اور اہلِ تقویٰ میں الگ گنے جائیں گے، اگر کسی سے کوئی پتا پوچھنا ہو تو برابر کا امکان ہے کہ اپنا پتا بھی کھو بیٹھیں، ویسے یہاں کے زیادہ تر باسیوں سے پتا پوچھنے میں کامیابی بھی معمولی بات نہیں، اگر عین شان پلازہ کے نیچے کسی بندے سے شان پلازہ کی بابت پوچھیں گے تو پورا امکان یہ ہے کہ وہ پورے اعتماد سے آپ کو گلی کے آخری سرے پہ دور کھڑے کسی باخبر آدمی کی طرف بھیج دے گا کہ اِس سے پوچھ لیں اور خاصا امکان ہے کہ وہ ’’باخبر‘‘ بھی شان پلازہ کا نام سنتے ہی بہت حیران سا دکھائی دے گا کہ آخر یہ بلڈنگ کب بنی۔

یہ بات جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کراچی پلازوں کا شہر ہے اور یہاں خلوص اور مروت بھی کنکریٹ کے تلے دبے رہتے ہیں۔ کسی سے بے وجہ یونہی ملنے چلے جائیں تو وہ خوش ہونے کی خود سے کوئی کوشش نہیں کرے گا، بس اندھا دھند سٹپٹا جائے گا کیونکہ یہی ایک کام کرنے میں اِس شہر کے لوگوں کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ یہاں مہمان کی آمد پر کئی میزبان گھر سے باہر جانے لگتے ہیں۔ مہمان کے آنے پہ بتیسی دکھانے پھر نئی کراکری دکھانے کو آداب مہمانداری کا لازمی حصہ گردانا جاتا ہے۔ بار بار دستی گھڑی دیکھنا بھی انہی آداب کا حصہ ہے۔ مہمان پھر بھی نہ سمجھے تو شہر میں اچانک حالات کی خرابی کی کسی افواہ کا ذکر بہت مجرب خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے موقع پہ چہرے پہ تھوڑی سی ہوائیاں نمودار کرنا اور لہجے میں مہمان کی واپسی کے حوالے سے سلامتی سے متعلق تشویش کا مناسب مقدار میں اظہار کرنا، ان تشویشی رسومات کا ناگزیر حصہ ہے اور فوری طور پہ مطلوبہ عملی نتائج مرتب کرتا ہے۔

اگر آپ کھانے کا ذوق رکھتے ہیں تو کراچی آپ ہی کے لئے ہے کیونکہ کھانے کے لئے یہاں دھکے اور غم کے علاوہ بھی کافی کچھ ہے۔ جہاں تک ڈکار انگیز کھانے کی بات ہے تو یہاں وہ بھی وافر طور پہ ہر وقت میسر رہتا ہے۔ پہ ایک وقت کے کھانے کے لئے کہیں ۵۰ روپے بھی زیادہ ہیں تو کہیں ۵ ہزار روپے بھی کم ہیں۔ یہ الگ بات کہ ۵۰ روپے میں آپ عوامی صحتمند کھانا کھائیں گے جبکہ ۵۰۰۰ میں ابلا ہوا روکھا پھیکا سا ’’وی آئی پی‘‘ سا ‘زیر علاج’ طعام نگلیں گے۔ یہاں کے خاص کھانے متعدد ہیں لیکن کراچی کی خاص ڈش ’’نہاری‘‘ ہے، ہر دوسرے ہوٹل پہ لکھا ملتا ہے ’’دلی کی خاص نہاری‘‘ لیکن انہیں کھا کر جی چاہتا ہے کہ ’’دلی کی عام نہاری‘‘ کو ڈھونڈا جائے۔ کہیں یہ پانی میں نہا رہی ہوتی ہے تو کہیں مرچوں میں، اِس کا لیس عموماً ہوٹل کی سوکھی روٹیوں سے تیار کیا جاتا ہے، یوں یہ واحد ڈش ہے کہ جس میں روٹی اور سالن ایک ہی پلیٹ میں یکجان دستیاب ہوتے ہیں۔ اِس کو کھاتے ہوئے ناک اور منہ سے بہت شوں شوں ہوتا ہے اِس لئے پلیٹ ناک کی سیدھ میں نہیں رکھنی چاہئیے ورنہ نہاری ختم ہوتے بہت دیر لگتی ہے۔ کراچی کے ہوٹلوں کی ایک خاص بات یہاں کی گریبی ہے۔ یہ مزید اضافی سالن کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو روٹی ختم کرنے کے لئے مفت میں عند الطلب ملتی ہے اور رش والے ہوٹلوں میں بار بار ملتی ہے، بس۔۔ ۔ ہر بار نئے بیرے سے التماس کرنا پڑتا ہے، لہٰذا اگر تین چار دوست ایک ساتھ ایسے مصروف ہوٹل میں جائیں تو ایک پلیٹ سالن منگوانا ہی کافی رہتی ہے، باقی بھوجن تو نصف درجن گریبیاں ہی سہارلیتی ہیں۔ نہاری ویسے تو اپنے نام کی طرح صبح کھانے کی ڈش ہے لیکن چونکہ بڑے شہروں میں اب ’’صبح‘‘ شام سے ذرا پہلے ہی اترتی ہے، چنانچہ نہاری وقت کی قید سے کب کی آزاد ہو چلی۔ اگر اب کوئی صبح نہاری کھانے کسی ہوٹل میں جائے گا تو کسی خاکروب کے ساتھ فرش پہ بیٹھ کر اِس کا رات کا سالن شیئر کرتا پایا جائے گا۔

کراچی کی دوسری مشہور ڈش یہاں کا حلیم ہے۔ اِس کی خاص بات اِس کا ریشہ ہے، گویا طبعاً بزرگانہ سی ڈش ہے۔ دوکانوں پہ ملنے والی حلیم کا ریشہ اکثر روئی کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کسی کے گھر میں اگر چند پرانے گدے اور لحاف ہیں تو وہ بخوبی اس کاروبار کی ابتداء کر سکتا ہے۔ کراچی میں اسے گلی محلے میں مل جل کر پکانے اور لڑ لڑ کر بانٹنے کی روایت بہت مستحکم ہے۔ عموماً لڑائی چند ’’مخصوص‘‘ گھروں پہ ہوتی ہے کہ وہاں حلیم دینے کون جائے گا۔ حلیم عموماً چندے سے پکایا جاتا ہے جو کبھی پورا پڑتے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ جادوئی فارمولے کے تحت جو جتنا کم چندہ دیتا ہے، بوقت تقسیم وہی گھرکا سب سے بڑا یعنی نہانے کا پتیلا مانجھ کر اٹھائے حاضر ہو جاتا ہے۔ حلیم کی عمدہ پکائی کا انحصار اس کی گھٹائی پہ ہے جو عموماً اس کے گھوٹنے والے آلے ’’گھٹننا‘‘ کی مدد سے کی جاتی ہے اور یہ کام کرنے والے زیادہ تر وہ لڑکے بالے ہوتے ہیں جو اس گھٹننے کے ہی سائز کے ہوتے ہیں اور اسے گھوٹتے ہوئے لٹک لٹک جاتے ہیں۔ گھر میں ہل کر خود پانی بھی نہ پینے والے لاڈلے اینٹوں سے بنے چولہوں میں آگ سلگانے کے لئے جب بے تحاشا پھونکیں مارتے اور آنکھیں لال کرتے ہیں تو اقبال یاد آتے ہیں ؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

حلیم پکانے کے لئے درکارسامان میں دالیں، گندم، گوشت اور گھی تیل کے علاوہ تاش کی گڈی، لوڈو، میوزک پلیئر اور پان، گٹکے ماوا و میں پوری کی کئی درجن پڑیاں شامل ہیں۔ خواہ دال، گندم گوشت یا گھی تیل کم رہ جائے لیکن باقی دیگر میں کمی نہ ہونے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ چونکہ حلیم کی تیاری کے دوران بہت لڑائیاں ہوتی ہیں اِس لئے حلیم پک جانے کے بعد اگر اس میں گوشت وافر معلوم ہو تو احتیاطاً اسے گھوٹنے والے لڑکوں کو پھر سے گن لیا جاتا ہے۔

کراچی ایک جہان حیرت ہے۔ بہت لمبا چوڑا شہر ہے۔ اب تک اس کی حدود کا یقینی ومستند تعین صرف اسی سب نہیں ہو سکا ہے کیونکہ جیسے ہی اس کی نپائی مکمل ہو کر نقشہ چھپنے کو جاتا ہے، یہ شہر اس سے کئی میل اور آگے کو سرک جاتا ہے۔ اس قدر طویل ہے کہ ایک سرے سے چلنے والا دوسرے سرے تک پہنچنے سے پہلے کئی بار اپنی منزل بھول بھول جاتا ہے اوربسا اوقات اہلِ خانہ سے فون کر کے مدد لیتا ہے۔ بعضے تو یہ تک کہتے سنے گئے ہیں کہ اِس کے ایک کنارے اور دوسرے کنارے والوں کے سحروافطار کے اوقات یکساں ہونا بہت مشکوک معاملہ ہے اور احتیاطاً دو سے تین منٹ کی تاخیر کر لی جائے تو یہ احتیاط عین قرین تقویٰ ہو گی۔ کراچی کے اکثر علاقے اس جہان حیرت کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں، لالو کھیت میں نپ ہی لالو ہے نہ کوئی کھیت، ڈاکخانہ اسٹاپ پہ ڈاکخانہ لاپتا ہے۔ نیو کراچی کا مشہور سندھی ہوٹل مرحوم ہوئے عرصہ گزرا اور ناظم آباد پیٹرول پمپ کے پچپن سے ساٹھ سال پرانے اسٹاپ پر پیٹرول پمپ ندارد ہوئے زمانہ بیتا۔ اہل رنچھوڑ لائن جب با افراط کنگلے تھے تب وہاں اک لکھ پتی ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں کنگلے کم اور لکھ پتی زیادہ ہیں، لیکن لکھ پتی ہوٹل غائب ہے۔ اِس کا نام اب بس اسٹاپ کی صورت ہی زندہ ہے لہٰذا اتنے وافر مغالطوں کی موجودگی میں بھی اگر آپ غرباء کو نیاز بانٹنے غریب آباد جا رہے ہیں یا شرفاء سے ملاقات کے لئے شریف آباد کا رخ کیا ہے تو بہتر ہے کہ اپنے ارادے پہ نظر ثانی فرما لیں۔ کبھی یہاں ایک بازارِ حسن بھی ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی بوسیدہ بالکنیوں میں دھری جھریوں سے اٹی بوڑھی فاختائیں دیکھ کر سویا ہوا تقویٰ جاگ اٹھتا ہے۔ یہاں کا جوڑیا بازار غلے کی خریداری کا سب سے بڑا مرکز ہے کہ جہاں آج بھی انسان اور جانور بار برداری کے لئے برابر سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسی مساوات کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اِس کے تنگ اور پر پیچ راستوں میں سے گزرتے ہوئے کسی سامان بردار گدھے کو دیکھیں تو آپ اسے اپنے سے زیادہ ہوشیار پائیں گے۔ ایک چور بازار بھی ہے، لیکن یہاں اس کے نام کی وجہ، چوری کی اشیاء کی فروخت کم اور خریدار کے جیب سے مال کی چوری کرنا زیادہ ہے۔ یہاں کے اکثر دکاندار بھی بازار کے نام کی مانند جیّد مشکوک معلوم ہوتے ہیں۔

کراچی کی پاکستان میں زیادہ اہمیت اس کے سمندر کی وجہ سے ہے ورنہ تعلیم و تہذیب سے تو کبھی کی جان چھوٹ چکی۔ اس فیاض سمندر نے بڑے بڑے معاشقوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ یہاں پہ آنے والے اکثر پریمی بار بار یہاں آتے ہیں اور اکثر جوڑوں میں دونوں میں سے ایک پرانے والا نہیں ہوتا۔ لڑکے لڑکی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اُفق کے پار جانے کا پیماں باندھتے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے میں یہاں دو الگ الگ اونٹوں پہ بیٹھے اجنبی سے بنے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کے لئے نکاح نامہ ساتھ رکھنا اور بنا شادی شدہ جوڑوں کے لئے بٹوہ ساتھ رکھنا یہاں کے سمندری قوانین کا حصہ ہے۔ ادھر پولیس آنے جانے والوں کے منہ باقاعدگی سے سونگھتی رہتی ہے۔ منہ سے جس مشروب کی بو آئے، اُسی کی قیمت کا تاوان بھرنا لازم ہے۔ جو لوگ صرف پانی پی کر اپنا منہ سنگھانے آ جاتے ہیں، پولیس انہیں پانی پانی کر دیتی ہے۔ عالمی ماہرین یہاں کے سمندری ساحلوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی پہ اکثر بہت تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس آلودگی کی وجہ محض سی ویو اور ہاکس بے پہ ہونے والی آلودہ سرگرمیاں ہی نہیں ہیں بلکہ شہر کے بہت سے لوگ بھی ماہانہ و سالانہ صرف یہیں آ کر نہانے پہ بضد رہتے ہیں۔

جہاں تک بات کراچی کی اہمیت کی ہے یہ پہلے معاشی حب کہلاتا تھا اب بد معاشی کا حب ہے، جو اس حقیقت کے آگے سر نہ جھکائے، اُس کی منزل حب ڈیم ہے۔ یہاں بدمعاشی کرنے والے عام طور پہ تیس سے چالیس کلو سے زیادہ کے نہیں ہوتے اورپستول کو ایک ہاتھ سے تھام کر چلانے میں اُن کی کلائی اتر اتر جاتی ہے۔ بات اگر کلاشکوف کی ہو تو کم از کم دو لڑکے درکار ہوتے ہیں۔ یہ دوسرا لڑکا مدد گار ہوتا ہے اور کلاشنکوف چلانے والے کی کلائی اور پتلون تھامنے میں مدد کرتا ہے۔ ایسے لوگ جب کہیں بھتہ مانگنے جاتے ہیں تو پستول نہ دکھانے پہ بھی اُن کی صحت دیکھ کر خدا ترس لوگ پہلے سے ہی الگ کر کے رکھی ہوئی کچھ خیرات زکواۃ اور صدقات اُن کے سپرد کر دیتے ہیں، تاہم اب خدا خوفی کی جگہ اسلحہ خوفی نے لے لی ہے لہٰذا پستول کی نمائش کے نتائج نہایت تسلی بخش نکلتے ہیں ورنہ جس طرح کے موٹے تازے تھل تھلاتے تاجروں سے یہ بھتہ مانگا جاتا ہے اگر اسلحہ نہ ہو تو وہ ایسے نصف درجن کو لٹا کر ان پہ بیٹھ رہیں تو ان کی سبھی پسلیاں سٹک لیں۔ کوئی اور صنعت تو اس شہر خراباں میں عرصے سے ترقی کا منہ نہ دیکھ سکی، بس موبائل اور بوری کی صنعت دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔ واپس زندہ گھر پہنچ جانا ہی اب اس شہر کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہوشیار باش

 

                   نادر خان سرِ گروہ

 

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ یہ ’نَیا‘ دَور ہے۔ ہم سے پہلے کے لوگ بھی اپنے دَور کو ’نَیا‘ کہتے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ دَور کے نئے پن کے لیے، لفظ ’نَیا‘ کی جگہ کوئی اور’ نیا ‘ لفظ تلاش کرنا ہو گا، کیوں کہ جتنی ترقی اِس دَور میں ہوئی ہے، اِس سے پہلے کسی بھی دَور میں نہیں ہوئی۔ نئے دَور کی ایجادات کی اَفادیت کے ساتھ ساتھ اُن کے نقصانات اور اُن کا غلط استعمال بھی ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اِن ایجادات میں سے ایک کیمرا (Camera) ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیت کو نکھارتا آ رہا ہے۔ اور جُوں جُوں اِس کی عمر بڑھتی جا رہی ہے، اِس کی جسامت بھی چھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔ اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ چالاک ہو گیا ہے۔

اِس ایک آنکھ والی بَلا سے ہمیشہ ہوشیار رَہیے۔ نہ جانے کب اور کہاں یہ آپ کی پوشیدہ حرکتوں کو اپنے ذہن میں قید کر لے اور اُس منظر کو اُن بے شمار آنکھوں تک پہنچا دے جو اُس وقت وہاں نہیں تھیں۔ موبائل فون کے علاوہ یہ کیمرے نہ معلوم کِن کِن شکلوں میں آپ کی تاک میں رہتے ہیں۔ گھڑی کے ڈائل، قلم، سگریٹ لائٹر اور عجب نہیں کہ کانٹیکٹ لینس (Contact -lense) میں بھی!

ہوشیار رَہیے !!!ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانوں کے چینجِنگ رُومز میں۔ ہوٹلوں کے کمروں میں، جہاں ٹیوب لائٹ کے ساتھ یہ کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ اور کچھ اعلیٰ کار کردگی کے حامل کیمرے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے بھی چھپائے جاتے ہیں، جو آئینے کو چِیر کر وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں جسے دیکھنے کی اجازت چشمِ فلک کو بھی نہیں ! چینجِنگ رُومز میں اور ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے سے ایک عام سا کیمرا بھی آپ کی سُن گُن لے سکتا ہے۔ وہ اِس طرح کہ آئینے کی پچھلی سطح پر لگائی گئی ریڈ آکسائیڈ (Red Oxide) کی پَرَت کو ذرا سا کھُرچ دیا جائے تو وہ حصہ ایک شفاف شیشے کی طرح ہو جاتا ہے۔ جس کے پار بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

ہوشیار رَہیے !!! اپنے ہوسٹل میں اور اُس کے طہارت خانوں میں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا کوئی دوست ہی آپ کو اِس جال میں پھانس لے۔ ہوشیار !!! خواتین کے لیے مخصوص سوئمنگ پُولز میں، جہاں زُوم لینز کیمرے، پانی کی چادرسے ڈھکے نیم عریاں جسموں کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کر لیتے ہیں۔

بیوٹی پارلرز یوں تو بُری جگہ نہیں ہوتی، لیکن کچھ بیوٹی پارلرز ’فریب خانے ‘ ہوتے ہیں، جو ایسے ہی منفی مقاصد کے لیے چلائے جاتے ہیں۔ خواتین وہاں احتیاط اختیار کریں، خصوصاً ایک لباس سے دوسرے لباس میں منتقل ہوتے وقت۔ بے قبائی کے وہ لمحات کہیں رُسوائی کا سبب نہ بن جائیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک ایسا ہی معاملہ سامنے آیا کہ ایک شخص نے اپنی عمارت کا ایک فلیٹ چند لڑکیوں کو کرایے پر دے رکھا تھا۔ وہاں اُس نے ایک چھوٹا سا کیمرا ٹیوب لائٹ کے چوک کے ساتھ چھپا کر ایک تار کے ذریعے اپنے کمپیوٹر سے جوڑ دیا تھا۔ بے خبر لڑکیاں یہ سمجھتی رہیں کہ اُنہوں نے کھڑکیاں اور دروازے اچھی طرح بند کر کے خود کو چار دیواری میں چھپا لیا ہے۔ اِس قسم کے خفیہ کیمرے اکثر تیز روشنی والے ٹیوب لائٹس یا بَلب کے پیچھے چھُپائے جاتے ہیں، تاکہ انسانی آنکھ اِن سے آنکھ نہ مِلا سکے۔ اور یہ ’بد نیّت‘ کیمرے خاموشی سے اپنا کام کر تے رہیں۔ یہ نہ سمجھئے کہ یہ کیمرے صرف اُجالے میں ہی اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ بلکہ کچھ ’اُلّو صِفت ‘ کیمرے تو اندھیرے میں بھی اپنا کام کر جاتے ہیں۔

وقتی طور پر ایسے کیمروں کی آنکھ پر پَردہ ڈالنے کا ایک آسان ذریعہ ’ چیونگ گم‘ (Chewing Gum)ہے۔ اُسے اچھی طرح چَبا کر کیمرے کی ’ بے حیا‘ آنکھ پر چِپکا دیا جائے۔ اور اگر آپ کے پاس فرصت ہے تو قانونی چارہ جوئی کیجیے۔ جو خود کسی چیونگ گم سے کم نہیں۔ چَباتے رَہیے ! چباتے رَہیے ! ختم ہی نہیں ہوتی۔

اب خود ہی اندازہ لگائیے کہ کہاں کہاں ایسے کیمرے آپ کا پیچھا کر سکتے ہیں۔ جہاں آپ پڑھتے ہیں اور جہاں کام کرتے ہیں۔ سوئمنگ پُولز میں اور وہاں کے شاور رُومز میں۔ ہیلتھ کلب میں اور وقتی طور پر لیے گئے کرایے کے مکانات میں۔ نہ جانے کہاں کہاں ایسے کیمرے آپ کو نظر آ سکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نہ جانے کہاں کہاں ایسے کیمروں کو۔۔ ۔ آپ۔۔ ۔ نظر آ سکتے ہیں اور بلیک میل ہو سکتے ہیں۔

تو۔۔ ۔ اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیے، ورنہ یہ ایک آنکھ۔۔ ۔۔ ۔

٭٭٭

 

قبلۂ اُردو

 

                   پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی

 

پروفیسر فرحان متھانی کی فُل رفتار موٹرسائکل سندھ لیکچر رز کے لاپروا مستقبل کی طرح برق رفتاری سے ڈرگ روڈ کی جانب رواں دواں تھی، ہم نے بارہا موٹر سائکل رُکوا کر سانس لیا اور بعد ازاں کلمۂ شہادت کو دہراتے، تہراتے خود کو فرحان اور اُن کے فلسفوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

بارے خدا خدا کر کے پروفیسرفرحان پاکستانی فلسفے کی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ قبلہ چیخے ’’ ارے فرحان! یہ تو شمع سنیما آ گیا اور اس کی بغل میں سنگم سینما تھا، ایک کوئی اور تھا، ہم اُس کا نام بھول رہے ہیں !‘‘

’’اوہو! سر یہاں شو کتنے بجے شروع ہوتا ہے ؟ لیکن یہ تو کوئی شمع شاپنگ سینٹر لکھا ہوا ہے بلڈنگ پر !‘‘

قبلۂ اُردو تو از سر نو زلزلوں کی لپیٹ میں

آ گئے، بولے ’’چالیس سال پہلے تو تین بجے فلم شروع ہوتی تھی، اب کا پتا نہیں !‘‘

پروفیسرفرحان متھانی کو بتایا کہ آج کل کراچی میں زلزلے بہت آ رہے ہیں، اب دیکھ لو، کالج سے چلے تھے کہ یہاں ڈرگ روڈ پر زلزلہ آیا ہوا ہے۔ ”

فرحان ’’سر زلزلہ نہیں آیا، یہ آپ اپنی کم ہوتی شوگر یا بلڈ پریشر کے علاوہ دائمی بھوک کی وجہ سے کانپ رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہ جاہ و جلال کا سبب بھی ہو، لیکن وجہ اس کی واجد ہے، خدا معلوم کہاں بھاگ گیا واجد، کھانے کی دعوت دے کر؟‘‘

قبلہ کو یاد آیا کہ وہ تو ڈاکٹر واجد الدین کی دعوت پر پشاوری کباب کھانے، ڈرگ روڈ آئے تھے۔

اُنہوں نے پوچھا ’’باقی سب کہاں ہیں ؟‘‘

فرحان متھانی ’’واجد سے کوئی رابطہ ہو تو پتا چلے، آپ ملائیے واجد کا نمبر۔ ‘‘

قبلہ نے بہت نمبر ملایا لیکن کوئی جواب نہیں۔

’’فرحان صاحب، واجد کہاں رہتے ہیں ؟‘‘

پروفیسرفرحان متھانی نے ایک خوبصورت کُوچے کی جانب اشارہ کیا کہ یہاں۔

’’ افوہ !واجد روزانہ حیدرآباد کا سفر طے کر کے اُس کالج میں آتے ہیں جہاں پچھلے تین سال سے بھوتوں کو بسیرا ہے ؟‘‘ ڈائریکٹ فزکس کے پروفیسر پر چوٹ کی۔

فرحان مسکرائے اور بولے ’’سر وہ بھوت بھی آیا ہوا ہے لنچ پر، آپ خاموش رہئے گا ورنہ کھانے کی بجائے لوگ تجہیز و تکفین کے تردد میں لگ جائیں گے۔ ‘‘

قبلہ نے فرحان کو مشورہ دیا کہ اس عجیب قوم سے پوچھتے ہیں، جس کے دو دانے قریب کھڑے ہیں۔ قبلہ نے انتہائی حقارت سے نزدیک کھڑے دو لونڈوں کو نزدیک بلایا۔

پہلا بولا ’’کیا بات ہے بڑے میاں، سکون نہیں ! اِس عمر میں موٹر سائکل پہ اُڑتے پھرتے ہو ؟‘‘

قبلہ نے جوابی ناقابلِ اشاعت جملہ کہا اور پوچھا ’’ ابے دن کی پیدائش، یہ بتا کہ یہاں کوئی کبابوں کا بہت بڑا ہوٹل ہے ؟ جہاں کے کباب انتہائی مشہور ہیں۔ ‘‘

یہ سُن کے دوسرا لُمڈا بے قرار ہو گیا اور جھپاک سے بولا ’’بابا جی، یُوں جائیں، پھر یُوں مُڑ جائیں، پھر ایسے آئیں، پھر دائیں، پھر بائیں، پھر آگے، پھر پیچھے سامنے وہ ہوٹل ہو گا۔۔ ۔ ‘‘

پروفیسرفرحان متھانی معصومیت سے بولے ’’سر یہ ہوٹل کا پتا بتا رہا ہے ؟؟‘‘

ایسے مواقع پر دل کی بات بتانے کے لئے قبلہ اپنے ہم عصر و عمر پروفیسرمطالعۂ پاکستان کی کمی شدت سے محسوس کرتے اور خُون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے، اب جوان اولاد برابر فرحان متھانی کو کیا بتاتے کہ وہ اس رستے پر عمل کر کے بارہا نیپئر روڈ سے شاداں و فرحاں لوٹے اور طبیعت بھی ہلکی ہو جاتی تھی۔

قبلہ خاموشی سے بولے ’’فرحان، آپ سنگم پکچر ہاؤس کی جانب چلیں، اس کے دائیں بائیں کچھ ہوٹل تھے، جہاں ۲۰۰۳ عیسوی میں ہم نے اور مرحوم پروفیسر اقبال احمد انصاری نے بارہا اُدھار کھانا کھایا تھا اور بعد میں ہوٹل کے مالک نے وہ رقم یہ کہہ کر معاف کر دی تھی کہ بابا جی دعا کرنا، پیسے کی فکر مت کرو، ماشا اللہ یہ ہوٹل میرا بیواؤں، یتیموں اور پروفیسروں کی دعاؤں ہی سے شاندار طریقے سے چل ریا ہے۔ ‘‘

چار قدم آگے سنگم سینما تھا، آگے کوئی پُرانا ہوٹل تھا ڈرگ روڈ کا، جسے خوانین نے توڑ تاڑ کر عظیم الشان بلڈنگ بنا دی تھی، قبلہ اپنے ’’ڈرگ روڈ‘‘ کو تلاشتے اندر جا کر بیٹھ گئے، دو بجے دن کا وقت اور بھوکے عوام کا رَش۔

بات یہ تھی کہ پروفیسرمطالعۂ پاکستان کے عہدِ پرنسپلی میں دن رات نت نئے فتنے جنم لے رہے تھے، ابھی ایک مسئلہ حل نہ ہو پاتا کہ دوسرا کھڑا ہو جاتا۔

سابق پرنسپل صیب دس سالہ حکومت کے بعد بارے خدا خدا کر کے اگلی دکان سِدھارے تھے لیکن جیسے اور دور گزر جاتے ہیں، اُن کا دس سالہ دور بھی گزر گیا، لیکن کچھ لوگ ایسے خوف زدہ اور چڑھتے سورج کی پرستش کے اِتنے عادی ہو گئے تھے کہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی سجدے میں پڑے رہے کہ نجانے پھر کب اور کِدھر سے نکل آئے۔ کبھی کسی نے کولی بھرکے زبردستی کھڑا کرنا چاہا بھی تو معلوم ہوا کہ کھڑے نہیں ہو سکتے، جوڑ بند سب اکڑ کر رہ گئے ہیں اور اب وہ اپنے تمام معمولات اور فرائضِ منصبی و غیر منصبی حالتِ سجود ہی میں ادا کرنے کے عادی و خوگر ہو چکے ہیں۔

بقول میر انیسؔ(خدائے سخن)

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

ارجنٹائن، الجزائر، ترکی، بنگلہ دیش، عراق، مصر، شام، اور تھرڈ ورلڈ کے تقریباً ہر ملک میں یہی ڈراما رچایا جاتا ہے۔ سیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ۔

ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ واجد صاحب کے آرڈر کی رُو سے گرما گرم کباب اور دیگر مزے دار کھانے آئے اور تمام غیر خوانین نے، خوانین ڈشوں سے بھرپور انصاف کیا، بعد ازاں ملائی مار کے دودھ پَتّی پی گئی۔ قبلہ نے اپنی شوگر کو بہتیرا سمجھایا کہ بی بی ابھی تم کم سن ہو، گرم جلیبی ہم تو دو کلو کھالیں گے لیکن تم تاب نہیں لا پاؤ گی، ناگاہ اُنہیں یاد آیا کہ یہ تو ان کا وقتِ طعام ہے، جب جیلر نما بیگم انہیں ایک روٹی سامنے پٹخ کر جاتی ہے اور ساتھ ایک دو طعنہ جات کہ ’’اگر کچھ کھا کر نہ آئے ہوں تو کھالیں اگر پسند آئے !‘‘

قبلہ حیرت و افسوس سے خاتونِ تھانہ کی جانب دیکھتے اور والدین کے بہیمانہ تشدد پر اللہ کا شکر ادا کر کے انجان راہوں پر چلنے والے سالن کو زہر مار کرنا شروع کر دیتے۔

خاتون، خود ورزش کے لئے سات پردوں میں لپٹنا شروع کر دیتیں کہ باپردہ جمنازیم میں ورزش فرماتیں۔ مغرب بعد کھانا کھاتے اور عشا بعد دنیا و مافیہا سے غافل ہو جاتے۔

اگلی صبح کا اگلا دن، اگلے مسائل۔۔ ۔۔

قبلہ نے کچھ مزے دار کھانا پارسل کروا لیا۔

گھر آ کر شاپرز رکھے تو ٹنڈے اور بھنڈیاں گویا اُن کی جوانی اور شادی کو یاد کر کر کے بین کر رہے تھے جبکہ قبلہ پشاوری کبابوں کی اختتامی ڈکاریں لے رہے تھے۔

فوراً خاتون کا منھ بند کیا ’’ بھئی آج تو گھر میں انتہائی لذیذ خوشبوئیں آ رہی ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے کسی معالج کے سوئم کی بریانی آئی ہوئی ہے ؟‘‘

” جی نہیں، یہ جو آپ کے ہاتھ میں مسجد کے تھیلے ہیں، یہ خوشبوئیں ان ہی میں سے آ رہی ہیں، پھر آ گئے کہیں سے اپنے حسنِ سماعت و خطبات کی داد پا کر۔ کھانا کھا کر آتے ہیں تو ایک ایس ایم ایس ہی کر دیا کریں کہ آج پھر کسی نے نذر نیاز کھلا دی ہے۔ ‘‘

اب تو قبلہ غصے سے کانپنے لگے، بولے ’’ معاف کیجئے گا، یہ ہم ہیں، آپ کے عظیم خانوادے کے بزرگ نہیں کہ مسجدِ اہلِ اسلام کے زنجیری گلاس میں مسجد کی دال روٹی کھا کر کر پانی پیتے اور پھر اسی ٹین کے گلاس سے استنجا کر کے سڑکوں پر سُکھاتے پھرتے، بعد ازاں ظہر کی قضا ادا کر کے دوسری مسجد میں عصرانہ اور تیسری میں عشائیہ کھانے کو نکل جاتے۔ ‘‘

صاحب، باورچی خانے میں زلزلہ سا آ گیا، دو چار طشتریاں جادوئی زور سے اُڑتی ہوئی قبلہ کی جانب آئیں اور وہ ’’بریانی کھا لینا‘‘ کہتے ہوئے اندر بھاگے۔

بس، بریانی ہو اور خوب ہو، بیگمات کا بس نہیں چلتا کہ دن بریانی اور رات وہی دن کی باقی ماندہ بریانی ہو، ڈائٹنگ، واک، جمنازیم، سب کو یکسر فراموش فرما کر بریانی کو نکالا گیا، اس عرصے میں قبلہ نے پرنسپل صاحب کی پالیسی کی داد دینا شروع کر دی کہ ہر سازش کا تغزیاتی حل نکال کر دور دراز ایسی جگہوں پر ظہرانے اور عشائیوں کا انتظام کرتے ہیں کہ سازشی عناصر اپنی سازش بھول بھال کر کھانے کی لذتوں میں محو ہو جاتے ہیں۔

مثلاً ایک بار صاحبِ فزکس اور اُردو لیکچرر میں سر پھٹوّل کی نوبت آ گئی تو پرنسپل صاحب نے حیدرآباد سندھ کی کڑاہئیوں کی دعوت دے ڈالی، اب آدھا سازشی گروہ تو حیدرآباد پہنچتے ہی باعثِ بواسیر بادی و خونی و ڈاؤن شوگر اپنی سازش بھول کر روٹی مانگنے لگا اور باقی آدھا نت نئی گالم گلوچ میں مصروف ہو گیا کہ خدا قسم اللہ میاں کے پچھواڑے کڑاہی کس نے پرنسپل صاحب کو کھلائی تھی کراچی سے لا کر۔

خیر کھاتے کھاتے ۹۰ فیصدی تو وہیں تختوں پہ سو رہے کہ بھوک صرف انگریزوں میں شائستگی، رواداری اور بُردباری قائم رکھتی ہے، مسلمان کھانا کھا کر مذہب، سیاست اور سیکس پر گفتگو کرتے ہوئے غفلت کی نیند سوجاتے ہیں، دن چڑھے اُٹھتے ہیں تو ’’پتا پڑتا‘‘ ہے موجودہ حکومت اب چلی کہ تب چلی۔

پرنسپل صاحب بھی کم کھا کر خدا کا زیادہ شکر ادا کرتے ہیں کہ آج کا دن بھی خیر سے گزرا، اب دیکھو سورج چڑھے کیا ہو؟

اسٹاف روم میں پہنچتے ہی سب کو یاد آتا کہ کس پر کون سا الزام لگایا گیا تھا۔

اب گفتگو کا آغاز ہوتا۔

پروفیسرفزکس : ’’صاحبو ! جب ہم پیا چھڈی کرنے (پی ایچ ڈی کرنے ) لندن گئے تو ہماری انگریزوں نے وہ آؤ بھگت کی کہ۔۔ ۔

اُردو لیکچر ر: ’’۔۔ کہ ہم ان کی خوش اخلاقی کے گیت گانے چلتی کار سے زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہو کر اپنی توقیرِ بے وقت کی بے تحاشا داد انگریزوں کو زیبرا کراسنگ پر کھڑے ہو کر جُھک جُھک کر فرداً فرداً کورنش بجا بجا کر ادا کرتے، پھر کسی اسٹریچر پر وہی انگریز ہمیں مغلظات سناتے لِٹال کر سڑک کراس کراتے، مختصر یہ کہ پیا چھڈی کا طویل ترین عرصہ کنجِ فرنگ میں اچھا گزرا۔ انگریز کسی طرح اپنی تعلیم کی بے توقیری پر رضامند نہ تھا، فرنگی وزیر تعلیم نے یہاں تک شرط لگا دی تھی ہم زیرِ جامہ اُتار کر پی ایچ ڈی کا وائیوا دیں گے کیونکہ وہ غریب حیران تھا کہ پاکستانی قوم نقل کس ذریعے سے کہاں نقلی مواد رکھ کر کرتی ہے۔ ‘‘

صاحبِ فزکس: ’’ معاف کیجئے گا یہ کوٹھے کی کسی زبان پر پی ایچ ڈی نہیں تھی کہ بادشاہ اپنے لونڈوں کو اُردو سکھانے طوائفوں کے چکلوں پر بھیجا کرتے تھے، کچھ سیکھے نہ سیکھے، اُردو بازی سیکھ جائے گا۔ ‘‘

اُردو لیکچر ر: ’’خُوب کہی، اس کی ظاہری وجہ سے بھی آپ لاعلم ہیں، از بس ضروری ہے کہ اُردو میں بھی ’’پیا چھڈی‘‘ کا انتظام کریں، شاہ زادوں کو طوائفوں کے کوٹھوں پر بھیجنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ معصوم آپ جیسے بزرگوں کی صحبت سے محفوظ رہیں۔ آپ برطانیہ میں اُگنے والے سو درختوں میں سے ایک کا نام بھی نہیں بتاسکے تھے، نتیجتاً انگریز ممتحن نے آپ کو یتیم خانے میں الطاف حسین حالی کا شہرۂ آفاق نغمۂ یتامی:ٰ

خدا کے لئے کچھ کرم کیجئے

یتیموں کی فر یاد سُن لیجئے

ہمارے بھی اِک روز ماں باپ تھے

محل تھے، مکاں تھے و باغات تھے

تِس پے وہ گھمسان کا رن پڑتا کہ پروفیسر مطالعۂپاکستان اپنے آفس کے باتھ روم میں جا کر مغلظات ارشاد فرما کر اللہ سے باہر نکل کر دعا کرتے ’’الٰہی، آج کے لنچ میں ان چار میں سے دو تو کو اپنے پاس بلا لے پروردگار، یہ سارے جہاں کے موالی، اسی کالج کے نصیب میں لکھے تھے الٰہی !‘‘

پھر ’’نئے ‘‘ لنچ کا پروگرام بنتا۔

پروفیسرزولوجی مشورہ دیتے ’’سر آج ان درندوں کو حسن زئی ہوٹل کی کڑاہی کھلا دیں۔ ‘‘

پرنسپل صاحب : ’’وہ اُردو والے کی بیوی اس کے دائیں بائیں کیمرہ لگائے اسے آتے جاتے دیکھتی ہے کہ کس کے ساتھ آتا جاتا ہے ؟ وہاں سے یہ اردو والے کے فلیٹ پر جانے کی ضد کرتے اور اُس ہیڈ ماسٹرنی کو مزید پاگل کرتے ہیں، کہیں اور کی سوچئے۔

ادھر جنگ بڑھنے کو ہوتی کہ ڈرگ روڈ کے ’’ باربی کیو ہوٹل‘‘ کا فیصلہ ہو جاتا۔

کھانے کے دوران پرنسپل صاحب کوشش کرتے کہ خونی ازلی دشمن ایک دوسرے کے سامنے نہ بیٹھ پائیں، لہٰذا وہ صف بندی میں مخالفین اور موافقین کو آمنے سامنے بٹھا دیتے اور کھانا شروع ہو جاتا۔

’’ابے اب اس اداکار کو اپنی شوگر یاد نہیں آ رہی؟ کباب تو لگتا ہے کھاتے ہوئے بھول گیا ہے !‘‘

’’لوگوں کا رزق پورا ہو چکا بھائی تو ہماری کیا خطائ، ابھی تو ہم سندھ حکومت میں تولد ہوئے ہیں، کوئی۔۔ ۔ ‘‘

’’۔۔ یہی کوئی پینسٹھ کا سِن ہو گا کہ سندھ حکومت تو بہتّر پچہتّر سال تک سیوا کرے گی، ویسے بھی سائبر کرائم۔۔ ۔ ‘‘

’’ابے لے، سائبر کرائم ! ‘‘ پرنسپل صاحب کو اپنی رگوں میں خُون جمتا محسوس ہوتا، آہستہ سے صاحبِ فزکس کی مِنّت کرتے، حضرت آپ سائبر کرائم کو چھوڑیں، فی الحال یہ کباب تو اور لیں ‘‘۔

’’اجی آپ چنے کی دال کا تو پوچھیں جو یہ اردو والا پانچویں پلیٹ اپنی شوگر کو کھلا کھلا کر پال رہا ہے، کیا غلہ پاکستان میں اسی کی شوگر کا لقمۂ اجل بننے کے لئے اُگتا ہے ؟‘‘

’’اوہو، آپ بھی کھائیے چنے کی دال۔ ‘‘

’’سر! بل دے دوں ‘‘ واجد بول پڑے۔

پرنسپل صاحب نے ایک خشمگیں نظر واجد پر ڈالی اور غُرّا کر بولے ’’ ابھی دال تو کھا لینے دو، بعد ازاں کولڈ ڈرنک منگوا کر بل بھرنا۔۔ ۔ ‘‘

واجد مطمئن ہو کر اپنے فوجداری مقدمہ پر غور کرنے لگتے، قرائن کہتے تھے سزا ہو جائے گی لیکن کئی مرتبہ وہ کراچی پولیس کو اُلٹا، ہتھکڑی پہنا کر پورا شہر گھما چکے تھے کہ ابے تُو نے ایک پروفیسر کو پکڑنے کی ہمت کیسے کی، وہ بھی حالتِ الیکشن میں ؟ اب نوبت یہ آن پہنچی تھی کہ پولیس کی ہر موبائل پروفیسرالیکشن کو سلامی دیتی گزرتی اور یہ مزید لیڈیز سگریٹ سُلگا کر گہرے کش لگاتے اور پروفیسر اسلامیات کو نجی گالیوں میں شامل کرتے رہتے کہ بروقت دل کا دورہ ڈال کر وہ تو ایک جانب ہو گیا تھا اور اُنہیں پھنسا گیا تھا، سردیوں میں جیل کی دال روٹی پر گزارا کئے، ایک روز اردو والے نے پوچھا ’’واجد کی تھکن ابھی تک نہیں اُتری، ہفتہ بھر سے چھٹیوں پر ہے ؟؟‘‘

پرنسپل صاحب بولے ’’آپ کو نہیں پتا؟‘‘ اس کے بعد انہوں نے پُورا واقعہ گوش گزار کیا۔

اب تو قبلہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی، پولیس کو اُن ہی کی رقم نکال کر رشوت دی اور را توں رات چھڑا لائے، تب سے وہ نیفے میں دو ہزار روپے زائد رکھنے لگے کہ کیا پتا کس وقت واجد خرچہ کرا دے ؟ زندگی کا اور واجد کے کارناموں کا بھروسہ نہیں، سچ ہے، لیکچرر کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو جائے، اُس کے بال و پر کالے ہی رہتے ہیں، فرماتے ’’میں نے گناہ کو ہمیشہ گناہ جان کر کیا۔ ‘‘

دس سال بعد جب ان کا سیٹھ اردو پرنسپل دُکان بڑھا کر کہیں اور چلا گیا تو قبلہ ہر ایک کو مہینوں دھمکی دیتے رہے کہ اگر مجھے کچھ کہا تو پرانے پرنسپل کو ابھی بلا لوں گا، ہیبت کا یہ عالم تھا کہ اشارہ تو بہت بعد کی بات ہے، جس لیکچرر کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے، اُسے کوئی دوسرا اپنی محفل میں نہیں بلاتا تھا۔

پھر یکایک پروفیسر فزکس کے آتے ہی ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ پروفیسر مطالعۂ پاکستان پرنسپل بن گئے، انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔ انہوں نے اپنے نعروں کو بے دم ہوتا محسوس کیا تو شیر ہو گئے اور وہی پروفیسرز جن سے وہ تمام عمر لڑتے جھگڑتے رہے، ایک ایک کر کے ریٹائر ہوتے یا مرحوم ہوتے چلے گئے تو ان پر ایک جھٹکے کے ساتھ یہ انکشاف ہوا کہ وہ ان نفرتوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پھر جب وہ چار رہ گئے اور میاں مسرت علی بھی ٹرانسفر ہوئے تو انہوں نے اپنے خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں اور ’’ اپنی بلا سے بُوم بسے یا ہُما رہے ‘‘ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ اُنہوں نے ساری عمر شیش محل میں اپنی مور پنکھ انا کا ناچ دیکھا تھا، اب پرانے ساتھیوں کے دُور ہوتے ہی بُجھتے چلے گئے۔

عمر بھی بڑھ رہی تھی۔

نئی فصل سرسبز زمین میں لہرا رہی تھی اور قبلۂ اُردو اپنے کراچی کو تلاش رہے تھے۔ اسی دوران انھوں نے ’’سپلا‘‘ کی نئی ٹیم جوائن کر لی اور پریس میں اپنے جوشیلے بیانات پیش کرنا شروع کئے، سیکریٹری تعلیم نے بارہا اُن کو بلایا اور خالی چائے پلا کرسمجھایا کہ ’’ بابا، ابی ام آپ کو کیا ترقی دیں ؟ آپ پروفیسر، ڈاکٹر ہیں۔ چور مین(چیئرمین) انٹر بورڈ کا شارٹ لسٹ دو مرتبہ جیت چکے ہیں، لیکن کیمروں میں آپ دھڑ لے سے خود کو جونئر موسٹ لیکچرر کہہ کر ہمارے محکمۂ تعلیم کی بے عزتی خراب کرتے ہیں، ابھی ام آپ کو کیا ترقی دیں ؟؟‘‘

قبلہ نے نکاحِ ثالث کی فرمائش کر دی کہ تیسرے نکاح سے دل قوی ہو گا تو دوسری شادی کا سوچوں گا۔

اس پر سیکریٹری تعلیم نے انھیں با عزت نکال باہر کیا کہ ’’بڈھے ہم نے تجھے حل پوچھنے بلایا تھا، اپنے کو کمپلکس میں مبتلا کرنے نہیں کہ جو کام ہم نہ کر سکے وہ تجھے کرا دیں کہ اس عمر میں جب فرشتے آتے ہیں، تُو رشتے آنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

تس پہ قبلہ نے ایک بڑے چینل کے اپنے شاگرد کو بیان دیا۔ ’’میاں ! کراچی کا سیکریکٹری تعلیم کسی نمرودی مچھر سے نہیں بلکہ صابری برادران کی تالیوں سے مرتا ہے، افسوس دونوں قوال بھائی مرحوم ہوئے، یہاں تو چپڑاسی کو پٹے والا کہتے ہیں تو ترقی خاک ہو گی؟؟ بولے، میں نے سیٹھ پرنسپل کو پٹے والے کو بلاتے سنا، پہلی بار تو میں سمجھا کہ اپنے کُتے کو بلا رہا ہے سالا۔ معلوم ہوا پٹے والے کو بلا رہا تھا۔ ‘‘

غرض یہ کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی پھڈا، لفڑا ہوتا، ٹوکو تو کہتے ’’اُردو کسی بیوی یا رنڈی نے پڑھائی ہو گی، کیونکہ میر امن پُوری باغ و بہار میں بیوی کے لئے لفظ ’’رنڈی‘‘ لکھ گئے ہیں، کیا خوب قیافہ شناس ادیب تھے مرحوم، ویسے بھی اردو ادب کا دامن مرحومین ادیبوں سے پُر و معمور ہے، حالی مرحوم، شبلی مرحوم، ڈپٹی نذیر دہلوی مرحوم، عبد الحق مرحوم، مرحوم پطرس، گویا، زندوں کے بس کا اُردو ادب نہیں، قبرستان میں پنپ رہا ہے۔ ‘‘

پروفیسر مطالعۂ پاکستان نے قبلۂ اُردو کو اپنے آفس میں بلایا اور پیار سے کہا ’’آپ ’’صاحبِ فزکس‘‘ سے اپنا دل صاف کر لیجئے، وہ نعتیں بھی تو لکھتا ہے جو آپ کو مرغوب ہیں۔ ‘‘

تڑپ کر بولے ’’اکثر بے اُستادے شاعروں کے مصرعوں میں ’’ الف‘‘ گر جاتا ہے لیکن اس بدمعاش کے مصرعوں میں تو ’’الف‘‘ سے ’’ے ‘‘تک، تمام حروف تہجی ایک دوسرے کی کمر پر، عید گاہ کے نمازیوں کی طرح سجدہ ریز رہتے ہیں اور رہی بات نعت نویسی کی تو میں نے خود اپنی گناہ گار موتیا زدہ آنکھوں سے جن کے آپریشن کا مشورہ ہر ماہر چشم گزشتہ ۲۰ برسوں سے دے رہا ہے، اُس ملعون کو کلیاتِ نظیر کے فحش الفاظ جسے منشی نولکشور پریس نے بتقاضائے تہذیب اور تعزیراتِ ہند خالی و نامکمل چھوڑ دیا تھا ’’بھرتے ‘‘ دیکھا ہے، اُس منگل کو ظہر بعد مولوی عبد الحق کے ایک افسانے میں لفظ ’’ب وس ہ‘‘ کے اوپر جلی حروف میں ’’ بوسہ‘‘ لکھ کر اُسے مصور کر رہا تھا، جب اس پہ بھی جی نہ بھرا تو کتاب کے آخری ورق پر خاندانی منصوبہ بندی کی دھجیاں اُڑاتی تصاویر بنائیں اور دل میں پیوست تِیر بنا بنا کر اپنے پرغسل فرض کرتا رہا، آپ کہتے ہیں نعت لکھتا ہے، استغفراللہ !!! ‘‘

پروفیسر مطالعۂ پاکستان نے بتایا ’’بات یہ ہے کہ مولوی عبدالحق کے زمانے میں لفظ ’’ بوسہ‘‘ ناقابلِ اشاعت تھا لہٰذا اُس کی ہجّے ’’ب وس ہ‘‘ لکھی جاتی، یہی حال کلیاتِ نظیر کی تراکیب کا تھا۔ ‘‘

بولے ’’ب وس ہ‘‘ لکھ کر تو مولانا اُردو بابا نے نہ صرف بوسے کی طوالت بلکہ لذت میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ‘‘

سپلا (سندھ پروفیسرز لیکچر رز ایسوسی ایشن)کے ایک تازہ احتجاج کے بعد وزیرِ تعلیم کے کمرے میں جا پہنچے اور برملا اُس سے ہاتھ ملا کر بولے ’’سائیں ! آپ کے ہاں لُوطی کو کیا کہتے ہیں ؟‘‘

وزیر بولا ’’کچھ بھی نہیں کہتے سر !‘‘

قبلۂ اُردو قہقہے لگاتے نیچے اُترے اور پروفسیروں کو بتایا کہ ترقی پکّی کر آیا ہوں۔ ان کے جانے کے بعد جب سندھی زبان وزیر نے ’’کچھ نہیں کہتے ‘‘ کے دوسرے پہلو پر غور کیا تو دیر تک کھڑکی سے گردن نکال نکال کر انہیں ناقابلِ اشاعت سناتا رہا اور یہ پولیس کے اپنے شاگردوں کو بیان دیتے رہے کہ بیٹا میں نے اُس عسکری کالج میں فُلاں فوجی جرنیل کو پِیٹا، فلاں کی پھینٹی لگائی، سابق صدرِ پاکستان کو مرغا بنا دیا کیونکہ وہ مُرغی بننے پر تیار نہیں تھا۔

چینل کے بچّے خوشی خوشی اُن کا انٹرویو ریکارڈ کرتے رہے۔ ایک بچہ بولا ’’سر ابھی آپ کا گریڈ کیا ہے ؟‘‘

قبلۂ اُردو نے اُس غریب کو یُوں گھُورا کہ منھ سے تو کچھ نہ کہا لیکن سر تا پا مجسم ’’گالی‘‘ بن گئے، بولے ’’میاں، گریڈ تو حجاموں اور بینکروں کا کام ہے، ہم تو کام کو ترجیح دیتے ہیں، اب میں نے لالو کھیت، بہار کالونی، چاکیواڑہ اور گولی مار کا چپہ چپہ ۱۷ گریڈ میں چھان مارا تھا، آج ۲۰ گریڈ کا افسر بھی جاوید نہاری پیدل چل کر نہیں لا سکتا کیونکہ سالے پہ گریڈ سوار ہے، معاف کیجئے گا، آپ نے کبھی کتابوں اور عطریات کی دکان نہیں دیکھی، وہاں گریڈ کی کوئی قید نہیں ہوتی، خوشبو ہی اُن کا گریڈ ہے۔ ‘‘

چینل والے بچّے قبلہ کے دلائل پر عش عش کر اٹھتے اور اخبارات میں انہیں نمایاں کوریج دیتے۔

بدایوں شریف کو اپنے بزرگوں کا وطن مالوف کہتے اور فرماتے ’’کراچی میں جب ہم ایک بار پیدا ہوئے تو پتا چلا کہ یہاں ’’ موتیا‘‘ آنکھوں میں ہی اُترتا ہے، خود ڈاکٹر مجھے ۲۰ برسوں سے موتئے کے آپریشن کا مشورہ دے رہا ہے، خدا قسم میں نہ اہل حدیث ہوں، نہ بریلوی، نہ کسی مسلک کا لیکن ختنہ سب کے جیسا کرایا ہے، خدا کا شکر ہے کہ تمام مسالک کے مولوی ختنے کے خد و خال پر متفق ہیں ورنہ صورت حال یہ ہوتی کہ کہیں چوکور، کہیں مخروطی، کہیں گول اور کہیں بیضوی سِروں کی بہار ہوتی ‘‘۔

اس بیان پر آس پاس والے توبہ توبہ کرتے اُٹھ جاتے مگر پریس کے لونڈے انھیں گھیرے رہتے ’’سر آپ کی کلی، پھول بنتی ہے اب ؟‘‘

فرماتے ’’ سالے، تُو نے ہمیں کیا اپاہج سمجھ رکھا ہے ؟ساٹھ سالہ مرد اور وکٹوریہ کے دس گھوڑے ایک طاقت کے حامل ہوتے ہیں، کیا سمجھا؟؟ ابے بُرادے کی انگیٹھی پہ پکنے والا کھانا صرف دوزخی مُردوں کی فاتحہ خوانی کے لئے ہوتا ہے کہ مُردہ کھڑا ہو جائے کھانا سونگھتے ہی، تُو کیا کھڑے بیٹھنے کی بات کرتا ہے ؟؟؟‘‘

آٹھویں جماعت میں پہلی بار قبلہ نے اپنے دوست کو بتایا کہ ’’ابے میں جوان ہو گیا ہوں ! تو وہ گالی دے کر بولا ’’اب تُو منھ پر ڈھاٹا باندھ کے پھرا کر کیونکہ تیرا باوا تو تیری شادی ابھی سے کرنے سے رہا، ہاہاہاہا۔۔ ۔۔ ‘‘

پھر جذبات سے رُندھے لہجے میں اپنے روحانی شعری استاد جوش ملیح آبادی کا شعر کثیف پڑھتے :

شبیر حسن خاں کا اِک عضوِ مُنُنّہ ہے

سُکڑے تو گنڈیری ہے تن جائے تو گَنّا ہے

’’میاں ہمارے وقتوں میں رنڈیاں بھی تہجد گزار ہوا کرتی تھیں، بزرگ طبیعت ہلکی کرنے اُن کے کوٹھوں پہ جاتے تو مناجاتِ بیوہ سُنا کر بھیج دیا کرتیں کہ میاں اپنی ’’ بیوہ‘‘ کے پاس جائیے، اس گناہ سے دُور رہئے، مال کے گندے انڈے کو کیوں کھاتے ہیں صاحب ؟ اپنی جُروا کو حق مہر اور ہمارا سلام دیجئے گا۔ ‘‘

اکثر بتاتے : میں کڑاکے کا جوان ہوا تو نیر سلطانہ فلموں پہ چھائی ہوئی تھی، خدا قسم قتالہ مسرت نذیر کے رقص کئی کئی شو لُوٹ لیتے، گھر آتے ہی قبلہ والد صاحب کُتّے جان کر اُسی حیوان کی موافق دھلائی فرماتے اور اپنے کو گالیاں دیتے جاتے ’’ابے کُتے کی نسل، او گدھے کی اولاد، ابے سور کے جنے، منھ کالا کر آیا ؟؟ ؟ قبلہ حیران کہ منھ تو وہی گورا چِٹّا ہئی ہے۔

ادھر یہ حال کہ شادی کی رات منکوحہ سے بھولپن سے پوچھا ’’ اب کیا کرنا ہے ؟‘‘

وہ جنتی بولی ’’اللہ کی قدرت کا انتظار کیجئے کہ کب بچہ ہو۔ ‘‘

دس سال معجزۂ الوہی کے منتظر رہے، گیارہویں سال ایک بے تکلف بازاری دوست بولا ’’یار تم دونوں ابھی تک بہن بھائی بنے ہوئے ہویا زوجین ڈائیورٹ ہو گئے ؟؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ قبلہ نے حیرت سے پوچھا۔

تو اُس پلید نے بچہ پیدا کرنے کا پرچۂ ترکیبِ استعمال پیش کیا۔ قبلہ تو بھونچکا رہ گئے، بیوی کو بتایا تو وہ غریب بولی ’’اللہ معاف کرنے والا ہے، ہم سے تو یہ شیطانی چکر نہ چل سکے گا، کوئی بچہ پال لیجئے !‘‘

تس پہ قبلہ منھ اندھیرے فجر پڑھ کر ’’ایدھی ہوم‘‘ گئے اور دو عدد خاندانی یتامیٰ، چھانٹ کر، لے آئے، دونوں کو پڑھایا لکھایا، دونوں کی شادیاں کیں اور اشاروں کنایوں میں ’’ ترکیبِ استعمال‘‘ کا پرچہ بھی اپنے ’’تجربہ کار‘‘ دوست کے لونڈوں کے ہاتھوں اُن کو پکڑا دیا۔ پھر اُن کی اولادوں کو اُسی حیوان موافق دھویا جس طریقہ پر عمل کر کے اُن کے قبلہ نے انہیں ملذذ و ملخص کیا تھا۔

پرنسپل کو ’’ قاضی الحاجات ‘‘ کہا کرتے، اکثر اپنے فلیٹوں میں میلاد کرنے کے لئے پرنسپل سے موٹی رقموں کو مطالبہ کرتے اور نہ ملنے پر اگلے ربیع الاول تک گالم گلوچ اور الزامات کا سلسلہ جاری رکھتے۔

آئندہ برس بھی یُوں ہی گزر جاتا، تو از سر نو نئے سال کے چندہ ساز میلاد کا اہتمام کرتے۔ اب تو میلاد پڑھنے والوں اور نعت خوانوں نے برملا کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’’ لاکھ روپے تنخواہ ملنے پر بھی بڈھا اپنے مرنے کا ہی میلاد کرے گا اور وہ بھی پرنسپل سے چندہ لے کر، ہاہاہا !!‘‘ نعت خواں قہقہے لگاتے۔

قبلہ رُپیا خرچنے کے معاملے میں محتاط تھے، مفت دعوتوں پر خوش ہوتے، اکثر نئے آنے والے لیکچروں کو دھمکاتے ’’ابے سینئرز کی، اگر دعوت نہیں کرے گا تو سیکریٹری سے کہہ کر تجھے ’’پروبیشن پیریڈ‘‘ کے عرصے میں نکلوا دوں گا، بچّے ڈر جاتے، مہنگی مہنگی دعوتیں کرتے تو قبلہ کھانے میں کیڑے نکالتے، کھانا صرف بیوی کے ہاتھ کا نمک و ذلت بھرا کھاتے، کہتے، بڑھیا کی گالیوں نے ۴۰ سالہ ہاضمے کے چُورن کا کام کیا ہے، دعوتوں میں اپنا کھانا بیوی کو باندھ کر لے جاتے اور اُس بد زبان کے الزامات سنتے ’’مچھلی کھا لی اکیلے آپ نے ؟؟ لے کر نھیں آئے۔ ۔۔ ‘‘

’’تیرے باوا کا چالیسواں تھا، بنگالی مسجد میں، جو مچھلی بٹتی ؟‘‘

آخری وقتوں میں خوراک بہت کم ہو گئی تھی، اکثر اپنی روٹھی جوانی، بیوی اور شوگر کو مناتے، واک کرتے، لطیفے سُنتے سناتے، یا پھر دشمن پروفیسروں کے جنازوں کو کندھا دینے نکلتے، فخریہ بتاتے ’’سالے نے بیس سال عمر کم لکھوائی تھی، ۸۰ میں بارے خدا خدا کر کے ٹلا ہے، کہتے، اللہ کا شکر ہے کہ آج کا پروفیسرمخیر ہے، وہ ایسے کہ اگر ۳۰ روٹیوں کو ۲۰۰ ننگے بھوکوں اور ۳ لحافوں کو ۲۰ ہزار مستحقین پر تقسیم کیا جائے تو حاصلِ تقسیم میں مخیر بزرگ پروفیسر کے تن پر ایک دھجی بھی باقی نہ رہے گی،

اکثر پریس کے لونڈوں کو بیان دیتے ’’ہمارے پردادا کے والد صاحب بتایا کرتے کہ یہ ننگِ خلائق، ننگِ وطن، ننگِ اسلاف، ننگے سر، ننگے پیر، گھوڑے کی ننگی پِیٹھ پر سوار ہمالیہ کے پہاڑ کی ننگی چوٹیاں پھلانگتا ہندوستان وارد ہوا تو قوم ننگ سے لبریز جہالت کے برہنہ گڑھوں میں پڑی تھی!‘‘

اِتنے میں ایک چینل کا بچّہ قبلہ کی بات کاٹ کر بولا ’’سر جی، اس بیان کی روشنی میں تو محسوس ہوتا ہے کہ ننگ دھڑنگ بزرگوار کی سترپوشی محض ننگے گھوڑے نے اپنی ننگی دُم سے کر رکھی تھی !‘‘ تس پہ قبلہ اُسے کُونے میں لے جا کر ٹھنڈا کر دیتے اور بعد ازاں برسوں وہ معافیاں مانگا کرتا، معاف کر دیتے اور ساتھ اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے ’’میاں، یہ بات بالی عمریا، کنواری لونڈیا اور چُگّی ڈاڑھی میں ہی دیکھی کہ جتّا ہاتھ پھیرو وِتّی ہی چمکے ہے !‘‘ اِس پے جوان لونڈے خُوب قہقہے لگاتے اور ونس مور کا شور مچاتے۔

حلقۂ یاراں میں خوش گفتاری پر آتے تو ڈمپل اُن کے رخساروں ہی میں نہیں، فقروں میں بھی پڑتے۔ واجد کو پسند کرتے کہ مجھے اس کے حُمق سے پیار ہے۔ ایسا زندہ احمق میں نے رُوئے زمین پر اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں نہیں دیکھا کہ شعبۂ نباتیات میں ساٹھ لونڈیوں کے بیچ پڑھ کر جامعۂ کراچی سے فارغ ہوا اور ایک لونڈیا بھی فارغ نہ کر سکا، کسی باپ کا بوجھ تو کم کر دیتا۔ واجد اپنے انڈے پراٹھوں، کبابوں، نہاریوں کا بتاتے تو خوب خوش ہوتے کہ مردوں کو کھاتے پیتے رہنا چاہئیے۔ شوگر ہونے کے بعد دو سال تک رات کو فُل کریم آئسکریم پاؤ بھر کھاتے کہ بلڈ پریشر کی آگ کو ٹھنڈا کر کے نیند لاتی ہے، چنانچہ ۵سال بعد وزن کا عالم ۱۴۰ کلوگرام اور کمر ۴۷کے پھیر کا کمرہ تھی، معالجین نے بیوی کو جواب دے دیا، قبلہ باز نہ آئے، بولے ’’ڈاکٹر ایک نمبر کا نطفۂ نا تحقیق ہے، مجھے بھوکا مارنا چاہتا ہے ‘‘ اس کے بعد انہوں نے اپنے معالجین کو اپنے ۴۰۰ گز کے بنگلے میں بلانا اور برنس روڈ کی نہاریاں، تافتان، کلچے، کباب، شیرمال، قورمہ کھلانا شروع کئے، ربڑی کھلاتے، کھیر پکواتے، غرض سالانہ ایک معالج کے قتل عمد میں ہاتھ رنگتے، لوگوں نے انہیں ’’معالج خور‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا، کثرتِ وزن کے باعث غسل خانے میں پھسل جاتے اور، مہینوں کالج سے چھٹیاں کرتے، بارے بیوی نے رو پیٹ کر وزن کم کرایا تو ۳۵ کمر پر آ گئے، وزن ۶۰ کلو کر لیا، لوگوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا، یکایک ۲۶ سالہ چھورا بن گئے اور فٹنگ کے ملبوسات پہننے لگے، کار فروخت کر دی، ڈرائیور کو دبئی نوکری دلادی، پیدل چلا کرتے، ڈرائیور خانہ خراب کالج کے پُل کے نیچے چرس بیچا کرتا اور سگریٹ پولیس والوں کو مُفت پیش کرتا۔ جس کانسٹبل کو چرسی سگریٹ نہ ملتا وہ قبلہ سے ڈرائیور کی شکایت کرتا، تڑپ کر کہتے ’’وہ مجھے سے پوچھ کر ساجھے میں یہ مفید کاروبار نہیں کرتا، مجھے تو کوڑی کا فائدہ نہیں اس دھندے میں، اپنی تنخواہ میں گزارتا ہوں، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

محرم میں، یکایک اپنے خاندان کو شیعہ کر لیتے اور ربیع الاول میں میلاد کرتے، فرماتے ’’دادا مرحوم نے ایک کٹر شیعہ دادی رکھ چھوڑی تھیں، اُن کی اولادیں شیعان اور دوسری کی سُنّی تھیں، باہم شادیاں ہوتیں، چنانچہ آدھا خاندان شیعہ اور باقی سُنی ہے۔ اب تو یاروں کا کوئی مذہب نہیں۔ ‘‘

قبلہ کسی عسکری کالج میں قائم مقام پرنسپل بھی رہے تھے، ہوا یوں کہ کرنل ان پر خاص مہربان تھا یا ان کی حماقتوں کا واحد قدر دان تھا، کچھ برس ملک سے باہر گیا تو قبلہ کے سفید بال دیکھ کر مرعوب ہوا اور انھیں انچارج پرنسپل بنا گیا، کیڈٹ کالج کا پرنسپل بنتے ہی انھوں نے ’’ فوجی میس‘‘( عسکری طعام خانے ) کو واجد علی شاہ کا ’’پری خانہ‘‘ بنا دیا، دن رات پائے، حلیم اور نہاریاں پکنے لگے، شیرمال اُترنے لگے، اللہ اللہ کر کے سات سال بعد وہ کرنل ریٹائر ہونے آیا تو ان کو باعثِ مُٹاپا پہچاننے سے انکار کر دیا، سزا کے طور پر روزانہ انہیں میلوں پیدل چلواتا اور چُوزے کی یخنی پلواتا، ساتھ وفاقی مُشیر تعلیم کروا کر اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا۔ یہ زار زار روتے، مگر ایک لاکھ رپیا تنخواہ کہاں پاتے ؟ پڑے رہے، خدا خدا کر کے آغا خان یونیورسٹی، کراچی نے انہیں پروفیسر بنا کر شہر بلایا تو گھر آ کر خوب سوئے، بیٹی کی شادی کر دی اور اُسے کینیڈا بھیج دیا، بیوی نے پرہیزی کھانوں کا سلسلہ شروع کر دیا، قبلہ کو دل کا پہلا دورہ پڑا تو پچاس کا سِن تھا، اسی سال محکمۂ تعلیم حکومت سندھ نے نوازا اور اُردو لیکچرر ہو گئے، کہتے ہیں کہ اُن کے میڈیکل کے دوران ایک ڈاکٹرنی جو سندھن تھی، قبلہ سے بولی کہ ’’ بابا اس عمر میں شعبۂ تعلیم سندھ کو پسند کرنے کی وجہ ؟‘‘ قبلہ اپنی غائب دماغی پر چکرائے کہ عجلت میں خضاب کرنا بھول گئے تھے، سٹپٹا گئے، بولے ’’بیٹی کیا کریں کہ اپنے دیس کی قدر وقتِ آخر ہوا کرتی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹرنی نے یکایک فِٹ قرار دے کر کام پر چڑھا دیا۔ قبلہ، اُردو زبان کے ماہر تھے، جلد ہی سرکاری تقریبات کی ضرورت بن گئے۔ سراج الدولہ کالج سے عشق کرتے، کہتے، یہیں کونے میں میری قبر بنانا، اگر بھولے سے پہلے مر جاؤں، اکثر جونئرز کو اپنی موت کے مناظر سے ڈراتے، سراج الدولہ کالج میں دوچار دوست بتاتے اپنے، کہ، ایک اقبال انصاری صاحب، پھر شاہد اقبال صاحب، ندیم صاحب، مسرت صاحب اور ظفر محمود سب سے پہلے ملے۔ شاہد میں اپنا عکس جھلملایا۔ باقی سب بھی خُوب رہے، اب کہاں ہیں وہ شخصیات؟؟میدان صاف ہے، جو چاہو آ جاؤ!!غلام محمد بھی آئے اور دل میں بسے۔ کالج میں خوش رہا کرتے، تنہا گھر آتے اُداس ہو جاتے، گھنٹوں کالج تک، بلکہ اگلی صبح تک کالج والوں اور کالج کو یاد کرتے ۔ا توار کو یاد نہیں کرتے، کیونکہا توار کو ایک روحانی اجتماعی دعائیہ محفل میں برسوں بیوی کے ساتھ جاتے اور ہر ایرے غیرے کی دعائیں منواتے رہے۔ دعائیں منوانے میں قبلہ کا اپنا اسٹائل تھا، مسجد کا ویران گوشہ منتخب کر کے بیٹھ جاتے اور اللہ جانے کون کون سی اپنے دادا، پردادا کے وظائف پڑھتے اور اللہ سے باتیں کرتے اور روتے جاتے، لوگوں کی دعائیں دہراتے رہتے۔ بتانے والے بتاتے کہ جو بزرگ اس محفل میں اجتماعی دعا برسوں سے کروا رہے تھے، وہ چپکے چپکے قبلہ کو دعا سے ایک دن پہلے فُون کرتے کہ کل آپ ضرور تشریف لائیں، کیونکہ سب کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ سسرال میں یہ معجزات ہوئے تو بیوی نے حیرت سے پوچھا ’’آپ کیسے دعا کرتے ہیں ؟ ‘‘

جل کر بولے ’’ اللہ کے پاس جا کر، سامنے بیٹھ جاتا ہوں، دودھ کا شربت پیتا جاتا اور شکر ادا کرتا جاتا ہوں، بعد میں اللہ بھی مسکرا کر پوچھتا ہے کہ کیسے آنا ہو گیا تمہارا؟ تو دعاؤں کی فہرست پکڑا دیتا ہوں، وہ دھڑا دھڑ فرشتے کو بلاتے اور لکھواتے جاتے ہیں، بھائی، اللہ تو اللہ ہے، مجھ سے بھی پہلی بار ’’ اللہ‘‘ نے آسمان پر آ کر پوچھا تھا سرسید کالج کے اونچے درختوں کے اوپر آسمان پر کہ ’’تم یہاں کیوں آئے ہو ؟‘‘ تو میں نے کہا تھا کہ میری بیوی اکیلی آ رہی تھی برسوں سے، میں نے سوچا میں بھی چلا چلوں، اکیلے کیا کرے گی کمزور عورت ہے۔ تو اللہ نے کسی کو پکارا تھا کہ جبرئیل، مجھے قسم ہے اپنے غرور کی کہ آج کے بعد اس مسجد میں ہر اُس دعا کو پورا کر دوں گا جو میرے بندے کے حق میں ہو گی۔ فرشتہ بتا کر، انھیں سلام کر کے چلا گیا کہ آپ اپنی کوئی دعا بتا دیں، انھوں نے معذرت کر لی کہ میں تو اللہ سے ملنے چلا آیا تھا کہ دیکھوں تو کون سی مسجد میں ہے اللہ ؟؟بتاتے، بچپن سے مجھے اللہ کو دیکھنے اور باتیں کرنے کا جنون ہے، مجھے حیرت ہے کہ اکیلے اللہ نے دنیا بنا لی، کائنات سجا لی اور محض اپنے عشق میں کہ محمد معشوق تھے، اُسی دن سے ’’عشقِ مجازی‘‘ سے تائب ہو کر اُردو شاعری کو بلکہ دنیا کی ہر شاعری کو ’’ عشقِ حقیقی ‘‘ پہ موڑ دیا۔ خوابوں میں حج عمرے کرتے اور صبح ٹھیک ٹھیک حالات بتا دیا کرتے۔ لوگ، مکہ مدینہ میں تصدیق کرتے تو وہی نکلتا جو قبلہ بتاتے تھے۔

روحانیات پر مائل ہوئے تو عوام کو حیران کر دیا، بزرگ خود ان سے اپنے مسائل کے حل کی دعائیں کراتے اور یہ تہجد پڑھتے اور اللہ سے اپنا بھرم قائم رکھنے کی دعائیں کرتے، اللہ بھی ان کا اصل جانتا تھا، ہنستا، ان کی کوئی دعا خالی نہ جانے دیتا اور یہ اعلان کر دیتے کہ کالج کی مسجد میں کوئی پروفیسر نظر نہیں آتا، چنانچہ اپنے انگریزی کے دوست پروفیسرندیم احمد کو ظہر اصرار کر کے پڑھواتے اور گھنٹوں دعائیں مانگا کرتے۔ ندیم کی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی گئی، برسوں پہلے یکایک فالج کی لپیٹ میں آ گئے ندیم اور جوانی میں ہی معذوری دیکھ کر قبلہ گھنٹوں نالہ و فریاد کرتے لیکن جو ’’رب‘‘ کی رِضا۔ ‘‘

دشمنوں نے یہاں تک اُڑایا کہ اُنہوں نے اپنے قبضے میں جنات و اُن کی بیگمات کر رکھی ہیں۔ کہتے ’’ میں خو دکسی جن سے کم نہیں اور میری بیوی تو زندہ بھوتنی ہے، لہٰذا ہمارے فلیٹ میں کسی اور مخلوق کی رہائشی جگہ ہی نہیں۔ ‘‘موڈ میں ہوتے تو ساحلِ سمندر پر اپنے ٹی وی چینلز کے ڈراما نگاردوستوں کے ساتھ پکنک کرتے، ساحل پر دس دس روپے لے کر بچوں کو بٹھا کر چنگ چی رکشے چلاتے، اونٹوں کی ختنی چیک کیا کرتے اور مطمئن ہو کر بتاتے : خالص سیّد اونٹ ہے۔

کبھی خود پر تہمتیں لگاتے کہ فُلاں بچّی کے ساتھ کچھ کرنے ہی والا تھا کہ عصر کی اذان شروع ہو گئی، ناچار نماز پڑھ کر آیا تو مُوڈ ہی بدل چکا تھا، نتیجتاً اُس عفیفہ کو ’’ مثنوی زہرِ عشق‘‘ کی روحانی کیفیت پر مُفت لیکچر دیا۔

ریٹائرمنٹ سے نزدیک، سال اوّل، سال دوم، بی اے اور بی ایس سی کے شاگردوں کو اُردو اشعار کی روحانی تشریح بتایا کرتے، فرماتے ’’میاں اُردو شاعروں کے پاس روٹی کھانے کو پیسے نہیں تھے، زراب و کباب کہاں سے کرتے ؟ یہ سب زبان کی لذتیں ہیں، اس شعر کی روحانی تشریح یُوں ہو گی۔ ‘‘بچّے اُن کی بتائی ہوئی تشریحات لکھتے اور نمایاں ترین نمبر پاتے۔ اخیر عمر میں شیشے کی مانند چمکنے لگے تھے۔ لوگ کہتے ’’عجب نُورانی چہرہ ہو گیا ہے ‘‘ بیوی قسمیں کھاتیں کہ ’’ ان کا پُورا جسم نُورانی ہو گیا ہے، رات کو اکثر نیکر بنیان پہن کر سوتے ہیں تو اندھیرے میں چمکتے رہتے ہیں۔ ‘‘ اکثر سوشل میڈیا پر نت نئی قبریں پوسٹ کرتے رہتے۔

اکثر جامعات میں اُردو لیکچرز کے لئے اعزازی بلائے جاتے تو ماسٹرز کی کلاس میں اپنا تعارف کراتے ’’یہ غریب الدیارِ عہد، نا آشنائے عصر، بیگانۂ خویش، نمک پروردۂ ریش، خرابۂ حسرت کہ موسوم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔، مدعو بابی یوسف ظفر۱۹۵۷ء مطابق عشرہ محرم الحرام۱۳۷۴ ہجری میں ہستیِ عدم سے اِس عدمِ ہستی میں وارد ہوا اور تہمتِ حیات سے متّہم !‘‘

طرار پروفیسرز کھسکھساتے ’’ بھیا، اتنی تکلیف تو سیزرین میں نہیں ہوتی، اگر نارمل طریقے سے پیدائش ممکن نہ تھی !‘‘

کان میں پڑ ج اتی تو لنچ کھانے اور ’’موٹا لفافہ‘‘ مضبوطی سے پکڑنے کے بعد اچانک اُس پروفیسر کی بہن کو اپنے حبالۂ عقد میں قید کرنے اور فی الفور وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی کی لذت بھری خواہشات کا اظہار کرتے اور سرکاری کار میں بیٹھ کر واپس آتے اور لفافہ بیوی کو پکڑا دیا کرتے اور ایک خاص غرور سے کہتے ’’لو پکڑو! اپنے ذاتی گھر کی قسط !‘‘ وہ غریب اپنی تنخواہ سے بیسیاں ڈال ڈال کر کمیٹیوں سے ذاتی گھر کرے جا رہی تھی برسوں سے کہ بڑھاپے میں کہاں کرائے کے گھروں کو جھیل پائیں گے بڑے میاں، ہر مالک مکان کو خائن اور ڈاکو کہا کرتے۔ بجلی چُرانے کے شک کو سچ ثابت کر دیا کرتے اور نتیجتاً کرائے کا مکان چھوڑ کر نئے گھر کی تلاش میں نکل پڑتے۔ بھلا حلال تنخواہ میں جدید دور میں مکان ہوا ہے ؟ غریب نے ذاتی فلیٹ کر لیا چھوٹا سا، اللہ کا شکر کہ قبلہ کی بد زبانیوں اور بیوی کی دعاؤں اور تہجد نمازوں نے پوش علاقے میں فلیٹ کروا دیا۔ گھنٹوں اللہ کا شکر ادا کیا کرتے کہ اس ماہ کرایہ نہیں دینا پڑے گا، تاہم بیوی تو جب تک زندہ رہے، کرایہ ماہ بہ ماہ ادا کرتی اور وہ کمیٹیاں ڈالتی اور دنیا بھر کے ضرورت مندوں کی مدد کرتی رہی۔ پورے محلہ میں دونوں کی جوڑی مشہور ہو گئی کہ بڑے مال دار بڑے میاں اور بڑی بی ہیں، وہ غریب کیسے کیا کرتی ؟ یہ کوئی جانتا۔

قبلہ کی محبت کی شادی نہیں تھی، والدہ کی ایک چچی زاد بہن تھیں، اُن کی مالک مکان خاتون نے یہ شادی لگائی تھی۔ بولیں ’’لڑکی ایک سرکاری اسکول میں پڑھائے ہے بی بی اور بڑی ہی شریف بچّی ہے، نماز روزے کی پابند ہے جوانی میں۔ ‘‘ قبلہ نے فوٹو مانگا تو والد صاحبہ نے ایسا شاندار جواب دلوایا خالہ کے ذریعہ کہ اُن کے ہوش اُڑ گئے۔ خالہ زاد بھائی سے کہلوا کر محترمہ کا شناختی کارڈ مانگا کہ اسی بہانے فوٹو بھی دیکھ لیں گے تو اُن محترمہ کے بڑے بھائی نے آ کر قبلہ کے والد صاحب سے بات کی کہ صاحب زادے ’’بے بیُُ کا این آئی سی مانگ رہے ہیں اپنے کزن سے ذریعہ، تس پہ والد بزرگوار سے سامنے بُلوا کر جو کہا سو کہا، سالے صاحب کے جانے کے بعد لوگ بتاتے ہیں کہ قبلہ کی جو تواضع کی ہے مرحوم نے تو ایک ماہ تک خالہ ہی کے گھر اپنی مرہم پٹّی کراتے رہے۔

بتاتے، عشق کیا تھا میں نے بھی، جامعۂ کراچی سے بی ایس سی کے دوران جامعہ کی بس میں آتے جاتے ایک برقعہ پوش حسینہ کو دل دیا تھا کہ اُس کے حسین ہاتھ، دورانِ سفر، سورۂ یاسین پڑھتے نظر آ گئے تھے اور ذرا سا چہرہ بھی جھلک گیا تھا۔ ان کے گھر سے نزدیک ایک پوش محلہ کی باسی تھی۔ انھوں نے قریبی اکلوتے دوست ( جو بعد میں دہلی یونیورسٹی انڈیا کے رجسٹرار بھی ہوئے تھے، ان کے کلاس فیلو تھے ) جناب انوار الحق، اُن کے ذریعہ معشوقہ سے کیلکولیٹر منگوایا کہ فزکس اور میتھ کی گتھیوں سے پریشان رہتے تھے، والد صاحب دلواتے نہ تھے کہ امتحان میں نقل کرو گے، کسی وہمی پروفیسر نے مسجد میں انہیں بتایا تھا کہ لونڈے کو کیلکو لیٹر کبھی مت دلوانا، نقل مارے گا پرچوں میں اور جاہل کا جاہل رہے گا۔ قبلہ نے گھر میں اخبار تک بند کر دیا، مبادا کوئی سائنسی جواب چھپ جائے اخبار میں امتحانات سے پہلے۔ ہاہاہا۔۔ ۔۔ بالآخر ایک سُہانی شام معشوقہ کے گمنام والد صاحب کو ۳۳صفحات کا خوشخط ’’ خط‘‘ لکھا جن کی اُردو بازار میں دس دکانیں اور پریس تھا اور دوست کے ہاتھ معشوقہ کی سہیلی کو دلوا دیا کہ اِن سے کہیں گھر میں کسی کو دے دیں۔

’’ خط کیا تھا، میں نے اُس کم بخت میر تقی میر، ناصر کاظمی، عندلیب شادانی اور قابل اجمیری کے اشعار لکھ دئے تھے۔ معشوقہ کے گمنام والد بزرگوار کے دشمنوں کو گالیاں اور اُن کی تعریف لکھ دی تھی، مدعا میرا گستاخانہ لیکن لہجہ فدویانہ تھا، ابو کو خطوط زعفران سے لکھتے دیکھا تھا، لہٰذا القاب و آداب تو زعفران سے باقی روشنائی سے لکھ دیا تھا۔ خط میں والد کے حسن اخلاق، جرات، ہمت، مردانہ وجاہت، شفقت، خوش خلقی، خوش معاملگی، صلۂ رحمی، نرم گُفتاری، غرض ہر اُس خوبی کا اعتراف و اظہار کیا تھا جس کا بڈھے میں شائبہ تک نہ تھا، ساتھ ساتھ اُن کے نامعلوم دشمنوں کی اندازے سے نام بنام ڈٹ کر بُرائی کر ڈالی تھی، ان سب کی تعداد اتنی تھی کہ۳۳ صفحات فُل اسکیپ بھر گئے، پھر ان تمام واقعات کو کھرل کر کے دوست کو پکڑا دیا کہ دے آ یار ا!

وہ دے آیا۔

کوئی ماہ بعد سہیلی نے آ کر بتایا کہ اس کے والد نے آپ کو دکان پر بلایا ہے اُردو بازار۔ قبلہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ شام کو بن ٹھن کر پہنچے تو بزرگوار بہت محبت سے ملے، گلیشئر تھا کہ پگھالا جاتا تھا، اپنے شاندار دفتر میں بٹھا کر بولے ’’ صاحب زادے، کمال ہے کہ تم سے پہلی بار مل رہا ہوں لیکن تم میرے بارے میں حتیٰ کے اُن حرامیوں کی حرامزدگیوں تک کے بارے میں جانتے ہو؟ بارے ماہتابِ عمر تمہارا۲۲ کا ہو گا لیکن کمال معلومات ہیں۔ لیکن میاں، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اوصاف حمیدہ تو تم نے میرے بیان کئے تھے طویل ترین خط میں، جسے میں نے دو بار پڑھا اور پھر اُکتا کر اپنے منشی کو پکڑا دیا کہ تم شادی کس سے کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہاری شادی کی اجازت کیوں اور کیسے دوں ؟ منشی جی اور دوسرے ملازم بزرگ بھی چکرا گئے کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتے ہو اور میں اجازت دینے والا کون ہوں ؟ ‘‘

ہکا بکا بزرگوار کو دیکھ کر قبلہ کو اپنی حماقت، عجلت اور بقول دوست، نحوست کا احساس ہوا کہ مارے خوف کہ لڑکی کا نام جو جانتے ہی نہ تھے، لکھنا یا اظہار کرنا یا اشارہ دینا تو بھول ہی گئے تھے کہ آپ کی بیٹی سے جو جامعہ میں زیر تعلیم ہیں۔ پیدائشی ’’پروفیسر‘‘ تھے، سر پیٹ کر رہ گئے۔ بزرگوار کی پاؤ پاؤ بھر کی آنکھیں دیکھ کر منہ در منہ کہنے کی ہمت نہ پڑی۔ غرض وہ بی بی مزید تعلیم پانے ’’لندن‘‘ سدھاریں اور قبلہ والدین کی رِضا پر راضی ہو ’’ ہی‘‘ گئے۔

تم میں ہمت ہے تو زمانے سے بغاوت کر لو

ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو

بہر حال برسوں خاندان میں قبلہ کی بات کُھلنے پر کہ دوست نے کھولی تھی خالہ زاد سے کہہ کر، قبلہ کی جراتِ رندانہ کے چرچے رہے۔ رشتے دار حسبِ استطاعت گالیاں دیتے اور دل میں کہتے رہے ’’ ہماری لونڈیا مر گئی تھی ؟‘‘لیکن قبلہ نہ مانے۔ دشمنی، قتل اور شادی کے خاندان سے باہر کرنے کے قائل تھے۔ کہتے ’’ خاندان کے رشتے بدل جاتے ہیں، شادی کر لو تو۔ ‘‘

برسوں بعد ایک شان دار قبر پر، ایک ڈگری کالج کے دامن میں، جوان نسل سر جھکائے ایک مزار پر اُداس، نم دیدہ کھڑی، ہاتھوں میں گلاب، چمپا، چمبیلی، پھول پتّیاں و چھڑیاں لئے کھڑی، کسی بزرگ کی باتیں، بوسیدہ کتابوں سے پڑھ پڑھ کر انہیں یاد کر رہی تھی۔

ایک لڑکا بولا ’’ کاش، سر!آپ ہمیں بھی اپنے تبحرِ علمی سے سرفراز فرما جاتے ! ‘‘

عالم بالا سے قبلہ نیچے جھانک کر ہنسے اور بولے ’’ابے ’’ تبحرِ علمی‘‘، کتنے فاقوں کے بعد سیکھا یہ لفظ تُو نے، چل، چل کر لائبریری میں فُلاں کتاب کا فُلاں صفحہ دیکھ، اُس کی فُلاں سطر کافُلاں حاشیہ دیکھ، اُس میں سال ۱۹۵۶ عیسوی کا فرہنگ لکھا ہے میرے ہاتھ کا، اُس کو درست جان لے اور خبردار، کتاب، اپنے گھر مت لے کر جائیو بیٹا، یہ غریب لڑکوں کا کالج ہے، جو کتاب نہیں خرید سکتا، اُسی کے لئے میں نے اپنی اور بیوی کی تنخواہوں اور پنشنوں کی رقم سے کتابیں ڈلوائی ہیں بیٹا، جو لاکھوں کی تعداد میں آپ ہی لوگوں کے لئے ہیں !! ‘‘

’’کس سے باتیں کر رہا ہے دانی یار ؟‘‘

’’ارے یار، بابائے سراج الدولہ کالج، قبلۂ اُردو سے !‘‘ سر جھکائے کھڑا لڑکا، آنسو پونچھ ہنس پڑا۔ سال خوردہ قبر پر تازہ و باسی گلاب، گیندے، موتئے، السی، چمپا، چمبیلی، جنس نرگس، گل مینا، تارا، داؤدی، سوسن، بی بام ہرگاموٹ، بسنتی گلاب، قرمزی گلاب، ارغوائن، ٹیسو، گل صد برگ، مغیلاں، شقائق، گل خیرہ، گلنار، اشرفی، سورج مکھی، لالہ، نیلوفر، مریم، فنجانی، زیتون، مساحت، و دیگر پھول بکھرے پڑے تھے۔ دور کہیں قبلہ اپنی بیوی سے فرما رہے تھے ’’لو دیکھ لو، ان لونڈوں کے کارناموں کو!‘‘

٭٭٭

 

 

 

چھٹی سے شادی تک

 

                   ارسلان بلوچ ارسل

 

ڈیوٹی پر تھا کہ ابا جی کی کال آ گئی کہ میاں تمہارا رشتہ پکا کر دیا ہے۔ چھٹی کی درخواست دے دو۔ تمہاری اور تمہاری سالی کی شادی ساتھ ساتھ کرنی ہے۔ جیسے ہی چھٹی کا کوئی چانس بنے تو بتا دینا کیونکہ شادی کی تاریخ پکی کرنی ہے۔

میں خوشی سے جھوم اٹھا اور اگلے ہی دن چھٹی کی درخواست جمع کروا دی۔ درخواست دے کے روم کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں دوست مل گیا۔ پوچھنے لگا ’’سنا ہے تم چھٹی کی درخواست دینے گئے تھے۔ کیا بنا؟‘‘

میں نے سارا ماجرا اسے بتایا اور روم کی طرف چل پڑا۔ راستے میں تین چار اور دوست ملے سب نے یہی سوال کیا اور سب کو تفصیل سے جواب دیا۔ پھر میں روز چھٹی کی خبر لینے ایڈمن آفس جاتا اور روز دس بارہ لوگ مجھ سے سوال کرتے ’’کیا بنا‘‘۔

ایک تو میں چھٹی نا ملنے کی وجہ سے پریشان تھا دوسرا اس سوال سے سخت تنگ تھا۔ خیر ایک دن غصے میں ایک پیپر پر اس سوال ’’کیا بنا‘‘ کا مکمل و مفصل جواب لکھا اور پچاس ساٹھ فوٹو کاپیاں کروا دیں۔ ایک اپنے روم کے دروازے پر، ایک آفس کے نوٹس بورڈ پر اور تین چار مختلف جگہوں پر چپکا دی اور باقی جو سوال کرنے آتا تو اسے تھما دیتا۔

چھٹی مل نہیں رہی تھی اور آخر میرے سسرال نے میری سالی کی شادی کی تاریخ طے کر دی۔ کچھ دن بعد جب سالی کی شادی تھی تو میں نے ہیڈ آفس کا رخ کیا۔

’’ آج سالی کی بارات ہے، یار اگر مجھے چھٹی مل جاتی تو آج تیری جگہ تیری بھابھی بیٹھی ہوتی۔ ‘‘ میں نے غمزدہ انداز میں دوست سے کہا۔

کہنے لگا ’’اس حساب سے تو تم ہمیں کل ولیمہ کھلا رہے ہو۔ ‘‘

میں نے کہا ’’ چلو تم میری دلہن لے آؤ تمہیں ولیمہ کی پارٹی مل جائے گی۔ ‘‘

خیر اللہ اللہ کر کے چھٹی مل ہی گئی۔ پیشگی گھر اطلاع بھجوا دی تاکہ کم از کم شادی کی تاریخ تو طے ہو جو فٹا فٹ طے ہو گئی اور میں گھر پہنچ گیا۔ شادی کی تیاریاں پورے زور و شور سے چل رہی تھی۔ میں سخت پریشان تھا۔ پہلی پہلی شادی جو تھی کوئی تجربہ وجربہ بھی نہیں تھا۔ اکیلے ڈر لگتا تھا اس لیے سو ڈیڑھ سو لوگوں کے ساتھ بارات لے کے پہنچ گیا۔ وہ بھی پوری تیاری میں تھے، پرانے زمانے کی طرح جنگ سے پہلے خوب بینڈ باجا بجایا گیا۔

’’ ابا جی اتنے لوگوں میں کیسے پہچانیں گے کہ میری ہونے والی بیوی کون سی ہے ؟‘‘

’’ بیٹا جہاں سب سے زیادہ خطرہ نظر آئے وہیں ہو گی۔ ‘‘

نظر دوڑائی تو ایک طرف لال جوڑے میں خطرناک حُسن و جمال کے اسلحے سے لیس ایک خاتون تشریف فرما تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ وہی محترمہ ہیں جن کا میں نے بَیت ہونا ہے۔ ۔۔ سوری جن سے میرا نکاح ہونا ہے۔

شادی ہو گئی پہلی رات تحفے میں گلاب کا پھول دیا تو محترمہ ناراض ہو گئیں کہ مجھے ہیرے کی انگوٹھی چاہئے۔

’’ بیگم میں اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتا تمہاری جان کا۔ ہیرا تو زہر ہوتا ہے۔ کسی دن غصے میں چاٹ ہی نا لو۔ دوسرا اتنی مہنگی چیز چوری چکاری کے چکر میں تمہیں نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’ اچھا بابا کوئی سونے کی چیز ہی دے دو!‘‘

’’آں اچھا تو یہ بات ہے نیند آئی ہے یہ لو تکیا اور سو جاؤ۔ ‘‘

اگلی رات بیگم صاحبہ چھت پر کھڑی تھیں۔ چاند دیکھ کے کہنے لگیں ’’اے جی! دیکھیں چاند کتنا پیارا لگ لگ رہا ہے۔ ‘‘

میں نے بیگم کی طرف دیکھا اور کہا ’’اس چاند سے زیادہ پیارا تو نہیں لگ رہا۔ ‘‘

بیگم حیرانگی سے بولی ’’ ہائے میں مر جانواں۔ ‘‘

میں نے ہلکی سی آواز میں آمین کہا مگر بیگم نے سن لیا اور ناراض ہو کے نیچے چلی گئی اور میں ان کے پیچھے پیچھے نیچے آ گیا بس وہ دن اور آج کا دن ان کے پیچھے پیچھے ہی گھوم رہا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ گنج شریف کی تعریف میں

 

                   راشد حمزہ

 

جب میں افغانستان ایک تفریحی دورے پر جا رہا تھا تو مجھے لنڈے کوتل کے مقام پر حجامت کرنے کی سخت ضرورت آن پڑی، وہاں پر مختصر قیام میں اپنا مقصد خاص پورا کرنے کے لیے ایک حجام کے پاس گیا تو اس نے حجامت کے ساتھ ساتھ سر منڈوانے کا بھی مشورہ دیا۔ پہلے پہل تو میں نے سختی سے انکار کیا لیکن اس نے جواب میں ایسی دلیل داغی کہ میرا سچ مچ سر منڈوانے کا بہت دل چاہا۔ یوں ہم سر منڈوائے افغانستان سدھار گئے۔

صوبہ ہلمند کافی خوبصورت علاقہ تھا مگر خوبصورتی میں ایک کمی رہ گئی ہے جو کہ قدرتی نہیں ہے مصنوعی ہے، وہ کمی مزار شریف میں پوری ہو سکتی ہے لیکن مزار شریف میں ہلمند کی کمی کا پورا ہونا ممکن نہیں رہتا۔ میرا قیام صوبہ ہلمند کے جس علاقے میں تھا وہاں خواتین کا گنجا طبقہ تو کیا سرے سے خواتین کا طبقہ ہی موجود ہی نہیں تھا، یا شاید موجود تو تھا لیکن مجموعی طور پر شٹل کاک برقعوں میں ملبوس تھا۔ افغانستان میں مزار شریف کافی جدید اور خوبصورت شہر مانا جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں جو واحد یونیورسٹی تھی وہ مزار شریف میں تھی۔ جنرل رشید دو ستم کے زمانے میں مزار شریف میں خواتین کو خاصی آزادی حاصل رہی تھی۔ جب پورا افغانستان شورش کی زد میں تھا تو مزار شریف کے باسی قتل اور خون سے نابلد تھے۔ دو ستم کی حکومت میں خواتین کا منی سکرٹ پہننا عام تھا، کہنے کا مطلب یہ کہ مزار شریف میں ہلمند کی نسبت خوبصورت خواتین کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ خواتین کی کثرت خواتین کی مجموعی زیادہ تعداد نہیں بلکہ مردوں سے زیادہ عام نظر آنے والی خواتین ہوتی ہیں۔ ہلمند میں جہاں خواتین نہیں تھیں وہاں بھی کسی خاتون نے میرے گنجے ہونے پر اعتراض نہیں کیا اور مزار شریف میں خواتین کی کثرت ہونے کے باوجود کسی خاتون نے میرے گنجے ہونے کو برا ماننے کی حد تک توجہ نہیں دی۔ یقین جانئے میری فارغ البالی کے اثراتِ بد دورے پر معمولی سے بھی پڑے محسوس نہیں ہو رہے تھے اور یہ کہ پورے دورے کے دوران میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا رہا۔ جب کبھی کوہ ہندوکش کی سمت سے یخ بستہ خنک ہوائیں گنجے سر کے عین ماتھے سے ٹھکراتیں تو عجیب سی فرحت کی لہریں سر سے ہوتی ہوئی جسم میں پھیل جاتیں۔

ہلمند میں مجھے پہاڑی کے دامن میں ایک غار سے چند صفحے ملے جو اتفاق سے اس علاقے کے عظیم مفکر ’’صفور زدران‘‘ کے تحریر کردہ تھے۔ ایک صفحے پر مختصر سی پر اثر تحریر لکھی ہوئی تھی جس میں پتہ نہیں صفور زدران نے اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں کچھ تعریف واریف لکھی تھی یا تنقید، یہ سمجھنے سے میں یکسر قاصر رہا۔ اس نے کچھ ایسا لکھا تھا:

’’ اے شاد اے میری محبوبہ میری جان!! میں تمہاری زلفوں کی خوبصورتی اور مدح میں شعری دیوان اور نثری دفتر لکھ سکتا ہوں لیکن پھر بھی اگر ان زلفوں سے ایک بھی بال سالن میں گر جائے تو میں اسے کھا نہیں سکتا، ہضم نہیں کر سکتا پھر یہ تمہاری گھنی زلفیں جوؤں کی آماجگاہ اور کمین گاہیں بھی تو ہیں۔ ‘‘

میں وہ صفحہ اس خیال سے اپنے ساتھ لئے بغیر ہلمند کی مرکزی شہر میں موجود شاد کے مزار پر پہنچا کہ اگر اس نے کسی طرح اس تحریر کی بو محسوس کی تو قبر میں گنجی ہونے کی کوشش شروع کرے گی۔ میں بتانا بھول گیا کہ شاد سترہویں صدی میں ہلمند کی گورنر رہ چکی ہے جبکہ صفور زدران صاحب اُس پر بن دیکھے ہزار دل و جان سے عاشق ہو چکے تھے۔ وجہ صرف یہ تصور تھا کہ ایک خاتون ہلمند کی گورنر ہے اور وہ اس پورے علاقے کا انتظام چلاتی ہیں اور خاصے بہتر انداز سے چلاتی ہے۔

صفور کے لئے یہ نہایت انہونا واقعہ تھا، جس کی وجہ سے وہ شاد پر عاشق ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ حقیقت میں ہم سب گنجے ہی ہیں۔ یہ جو بال ہم رکھتے ہیں، اِن سے ہم اپنے گنجے پن کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواتین کو گنجا پن خوبصورتی کی ضد لگتی ہے، اس لئے جیسے جیسے ان کے گیسو دراز اور گھنے ہوتے چلے جاتے ہیں، اُن کی خوشیاں اور مسرتیں بھی دوبالا ہوتی جاتی ہیں۔

یہ تصور کرنا کہ گنجا پن بد صورتی کی ایک صورت ہے، نہایت غیر معقول بلکہ صریحاً غلط ہے۔ میرا اپنی محبوبہ کے لئے خصوصی اور باقی ماندہ خواتین کے لیے عمومی مشورہ ہے کہ وہ سروں کو منڈوائیں اور بہت سارے گھمبیر مسائل سے نجات پائیں، پھر حسن صورتی میں کمی نہ آنے کی ضمانت بھی میں دے رہا ہوں۔

انسانوں کو شاید گنجا ہونا اِتنا برا نہ لگتا اگر ہمارے شاعروں اور نثر نگاروں نے غیر ضروری طور پر محبوباؤں کی زلفوں کی شانِ اقدس میں پورے کے پورے دیوان اور کتابیں نہ لکھی ہوتیں۔ اتنا تذکرہ محبوباؤں کے ہونٹوں کا نہیں ملتا جتنا زلفوں کا کیا جا چکا ہے حالانکہ زلفیں جوؤں کی آماجگاہ کے طور پربھی استعمال ہو سکتی ہیں جبکہ ہونٹوں سے رنگ برنگ خوبصورت تتلیاں اور پیارے پیارے بھونرے رس پیتے ہیں۔ اب اگر خواتین اپنے مزاج میں تبدیلی لائیں اورسر منڈوائیں تو اُن کی زلفوں میں اسیر شدہ شاعروں سے بھی گلو خلاصی ممکن ہو سکتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہماری آدھا جیب خرچ زلفوں کی نذر ہونے سے بھی بچ سکتا ہے۔ یہ کتنی نامعقول بات ہے کہ جسم کے اس حصے پر ہم آدھی جیب خرچ صرف کرتے ہیں جس پر اگر بلیڈ یا قینچی چلائی جائے تو درد بھی نہیں محسوس ہوتا اور رنگ بھی چوکھا چڑھتا ہے۔

آدھی دنیا بالوں کے گرنے سے پریشان ہے۔ اُن کی جملہ پریشانیوں کا سب سے آسان حل یہی ہے کہ اپنے اپنے سروں کو منڈوا لیں، بال گرنے کے مسائل منڈواتے ہی سو فیصد ختم ہو جائیں گے۔

جب ہم زندہ رہنے کے متشدد اور گھٹن زدہ تجربے سے خود کو گزار رہے ہیں تو مزید ایک عدد ننھا منا سا تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے۔ ممکن ہے کہ ہم اس تجربے کی بدولت ایک ایسی لا متناہی مسرت سے بہرہ مند ہو سکیں جو عدیم المثال ہو۔ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں مثلاً بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مشہور فاتح چنگیز خان جب پیدا ہوئے تو نہایت گنجے تھے پھر اس نے شادی بھی ایک ایسی خاتون سے کی تھی جو فارغ البال تھی۔ مشہور فلسفی افلاطون اور ارسطو بھی کسی وقت گنجے رہ چکے تھے۔ اُن کی قابلیت کی وجہ بھی اُن کا فارغ البال ہونا تھی وغیرہ وغیرہ۔

٭٭٭

 

 

 

نگوڑے ترقیاتی منصوبے

 

                   حنیف عابد

 

ارے سنتی ہو ! کہاں ہو شرافت بیگم جلدی آؤ، دیکھو میرے کپڑوں کا ستیا ناس ہو گیا ہے، آگ لگے ان ناہنجاروں کو موئی تمہاری گلی تو دلدل بنی ہوئی ہے۔ ‘‘

چنی بیگم کی چیخ و پکار سُن کر شرافت بیگم دوڑتی ہوئی آئیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ صحن میں چنی بیگم کھڑی ہیں، ان کے پیر کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں، ٹوپی دار برقعے کے کنارے بھی کیچڑ سے سنے ہوئے ہیں، چنی بیگم ایک ہاتھ سے اپنا ٹوپی دار برقع تھامے دوسرا ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کوسنے دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ شرافت بیگم نے جو یہ صورتحال دیکھی تو لپک کر آگے بڑھیں، انہوں نے ایک ہاتھ میں مونڈھا پکڑا اور اُسے چنی بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں ’’ارے آپا آپ اس پر بیٹھو میں پانی لاتی ہوں ‘‘۔

چنی بیگم مونڈھا تھامتے ہوئے بولیں ’’اے بہن ٹھہرو یہ مُوا برقع تو کہیں ٹانگ دو یہ بھی بُری طرح سے لتھڑ گیا ہے ‘‘۔

شرافت بیگم نے برقع ہاتھ میں پکڑا اور اندر چلی گئیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنے ہاتھ میں پانی کی بالٹی اور ایک ڈونگا لیے ہوئے نمودار ہوئیں۔ جلدی جلدی انہوں نے چنی بیگم کے پیر دھُلوائے اور اُن کی چپلیں بھی دھُلوائیں، چنی بیگم اس دوران جانے کیا کچھ کہے جا رہی تھیں شرافت بیگم کے پلے کچھ بھی نہیں پڑ رہا تھا۔ اچھی طرح چنی بیگم کے ہاتھ پیر دھُلوانے کے بعد انہوں نے چنی بیگم کو صحن میں پڑے ہوئے تخت کی طرف چلنے کو کہا، اسی دوران اُن کی بیٹی خیرالنسأ صحن میں آئی جسے دیکھتے ہی شرافت بیگم کی جیسے جان میں جان آ گئی۔ اُنہوں نے خیرالنسأ سے کہا کہ وہ چُنی خالہ کا برقع لے جائے اور غسل خانے میں جا کر اُسے اچھی طرح دھو کر صحن میں تنی ہوئی ڈوری پر ٹانگ دے۔

شرافت بیگم خود چُنی بیگم کے ہمراہ تخت پر بیٹھ گئیں۔ بیٹھتے ہی اُنہوں نے پاندان کھولا اور ایک گلوری لگا کر چُنی بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں ’’خیر تو ہے ؟ آپ آج کیسے راستہ بھٹک کر یہاں آ گئیں ‘‘۔

چنی بیگم کا پارا جو اب کسی حد تک اُتر چکا تھا بولیں ’’اے ہے ! راستہ بھٹکنے کی بھی تم نے خوب ہی کہی، لو کیا میں کوئی بلا ہوں جو بھٹکتی ہوئی تم تک پہنچی ہوں ؟‘‘

شرافت بیگم یہ سُنتے ہی کھلکھلا کر ہنس پڑیں، انہوں نے کہا ’’ارے آپ تو بُرا ہی مان گئیں میں تو محاورۃً بول رہی تھی، آپ کا گھر ہے جب دل کرے آؤ ‘‘

چنی بیگم بولیں ’’ ناں بابا ناں ! میری آتی ہے جوتی، تمہاری گلی تو دلدل بنی ہوئی ہے، مجھے اس دلدل سے تیر کر آنا منظور نہیں ہے۔ ‘‘

شرافت بیگم یہ سُن کر مسکُرائیں، انہوں نے کہا ’’آپا آج کل ہماری حکومت کو ترقیاتی کام کرانے کا ہیضہ سا ہو گیا ہے، پچھلے ایک مہینے سے گلی کھدی پڑی ہے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، کبھی کہتے ہیں کہ سیوریج لائن ڈل رہی ہے، کبھی کہتے ہیں کہ سڑک نئی بن رہی ہے، ایک ماہ ہو گیا ہے جب سے کھود کر گئے ہیں پلٹ کر جھانکنے تک نہیں آئے، چار دن سے سیوریج کی لائن بند ہونے کی وجہ سے گلی گندے پانی سے بھری ہوئی ہے، یونین کونسل والوں کو کئی مرتبہ شکایت کروا چکے ہیں بس ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ترقیاتی کام ہو رہا ہے ‘‘۔

چنی بیگم یہ سُنتے ہی پھٹ پڑیں ’’ارے یہ کون سا ترقیاتی کام ہو رہا ہے جس نے گلی کو دلدل بنا دیا ہے ؟بھلا کوئی اِن لوگوں کو پوچھنے ولا ہے کہ نہیں ؟جگہ جگہ کھدائی کر رکھی ہے، لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو گیا ہے، بچے اسکول کیسے جائیں گے ؟ گھر کے مرد کام کاج کے لیے کیسے نکلیں گے ؟ عورتیں گھر کا سودا سُلف کیسے لائیں گی ؟خدا نا خواستہ کسی کے گھر میں کوئی بیمار ہو جائے یا کسی کے گھر فوتگی ہو جائے تو لوگ اسپتال کیسے جائیں گے ؟ جنازے کیسے اُٹھیں گے ؟ بھاڑ میں جائیں ایسے نگوڑ مارے ترقیاتی منصوبے جو زندگی کو عذاب بنا دیں ‘‘۔

چُنی بیگم کی جلی کٹی تقریر جاری تھی کہ اچانک خیرالنسأ صحن میں آئی اور چُنی بیگم کا جہازی سائز کا ٹوپی دار برقع صحن میں پھیلا دیا۔ چُنی بیگم برقع دیکھتے ہیں بولیں ’’ارے بٹیا ! اچھی طرح صاف کر دیا ہے یا نہیں ‘‘۔

چُنی بیگم کی بات سُن کر خیرالنسأ بولی ’’ خالہ بے فکر رہیں، میں نے اچھی طرح صاف کر دیا ہے ‘‘۔

’’اے بیٹا اللہ تجھے خوش رکھے، دودھوں نہاؤ، پوتوں پھلو ‘‘ چنی بیگم نے خیرالنسأ کو بیٹھے بیٹھے ڈھیروں دُعائیں دے ڈالیں۔ خیرالنسأ مسکراتی ہوئی اندر جانے لگی تو شرافت بیگم نے آواز دی ’’ ارے خیرالنسأ ! دیکھو چائے بن گئی ہو گی کچن سے لے آؤ اور ساتھ ہی کچھ کھانے کو بھی لیتی آنا ‘‘۔

خیرالنسأ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اندر چلی گئی۔ چنی بیگم نے خیرالنسأ کی جانب گہری نظر سے دیکھتے ہوئے کہا ’’شرافت بیگم اللہ نے تمہیں بہت ہی پیاری بیٹی دی ہے، ماشا اللہ ! اب تو بڑی ہو گئی ہے، جس کے گھر جائے گی اُسے جنت بنا دے گی‘‘۔

شرافت بیگم نے مُسکراتے ہوئے چنی بیگم کی طرف دیکھا اور کہا ’’آپا دُعا کرو، اللہ تعالیٰ کوئی نیک اور شریف رشتہ بھیجے تو میں خیرالنسأ کے ہاتھ پیلے کر کے اِس فرض سے بھی فارغ ہو جاؤں ‘‘۔

چنی بیگم بولیں ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں !میری نظر میں ایک دو اچھے رشتے ہیں یہ موئی تمہاری گلی ٹھیک ہو جائے تو میں اُنہیں بلاؤں گی تمہارے گھر، آج میں اسی سلسلے میں آئی تھی کہ تم سے پوچھ لوں تو بات آگے بڑھاؤں ‘‘۔

شرافت بیگم بولیں ’’لو جی یہ تو بہت اچھی بات ہے، نیکی اور پوچھ پوچھ، آپا تم جب چاہو انہیں بلا لو ‘‘۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ خیرالنساٗ صحن میں چائے کی ٹرے اُٹھائے ہوئے داخل ہوئی۔ اُس نے ٹرے تخت کے نزدیک پڑی ہوئی ایک میز پر رکھی اور گرم گرم سموسے پلیٹ میں رکھ کر چُنی بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی ’’ خالہ بی آپ یہ گرم گرم سموسے کھائیں جب تک میں چائے نکال کر دیتی ہوں ‘‘۔

چنی بیگم نے سموسے کی پلیٹ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’بیٹا تم جاؤ ہم چائے خود لے لیں گے ‘‘۔

خیرالنسأ سر جھکاتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی۔ سموسے کھانے اور چائے پینے کے بعد چُنی بیگم نے چلنے کا ارادہ کیا تو اچانک وہ پھر بیٹھ گئیں۔ شرافت بیگم نے سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا تو وہ بولیں ’’ اے نوج ! میں تو بھول ہی گئی تھی کہ تمہارے گھر کے باہر تو دلدل ہے میں گھر کیسے جاؤں گی ؟‘‘

شرافت بیگم، مسکراتے ہوئے بولیں ’’آپا تم فکر نہ کرو میں سلیم کو بول دیتی ہوں وہ تمہیں موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے جائے گا ‘‘۔

یہ کہتے ہوئے شرافت بیگم نے آواز دی ’’بیٹا سلیم ! جاؤ ذرا اپنی چُنی خالہ کو اُن کے گھر تک چھوڑ آؤ ‘ ‘۔

چنی بیگم بولیں ’’ اے بہن یہ موئے ترقیاتی منصوبے پتہ نہیں کب مکمل ہوں گے ؟ ہمارے یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، میں اب نہیں آنے کی، جب تمہاری گلی ٹھیک ہو جائے تو مجھے اطلاع کروا دینا ‘‘۔

چنی بیگم کی بات سُن کر شرافت بیگم سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگیں، جیسے اُوپر والے سے پوچھ رہی ہوں کہ یا اللہ آپ ہی بتائیں یہ ترقیاتی منصوبے کب مکمل ہوں گے ؟ کب ہماری زندگی میں سُکون آئے گا؟ کب تک ہم کو یہ اذیت مزید برداشت کرنی ہو گی ؟ہمارے دکھوں کا مداوا کون کرے گا ؟ لیکن اوپر سے کوئی جواب نہیں آیا، دور دور تک سکوت کا عالم طاری تھا۔

٭٭٭

 

 

 

پوری گھر والی

 

                   خادم حسین مجاہدؔ

 

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ عورتوں میں عقل نہیں ہوتی اور اگر بالفرض محال کسی ایک آدھ میں ہو بھی تو وہ اسے استعمال نہیں کرتی اس لئے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہی ہے۔ بڑی خواہش تھی کہ ہماری گھر والی لاکھوں میں ایک بے شک نہ ہو مگر ان ہزاروں میں ایک ضرور ہو جو عقل رکھتی ہیں۔

مگر ہمارے ایسے تیز نصیب کہاں۔ تبادلۂ خیالات کے بعد دعا کی کہ جو حماقت ہو گئی ہے اللہ اسے نبھانے کی توفیق عطا کرے کیونکہ اس سلسلے میں مزید کوئی تجربہ خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ نتیجہ پہلے جیسے نہیں نکلے گا۔

اس کو صفائی کا وہم ہے آندھی ہو یا طوفان، بارش ہو یا دھوپ ہو، گرمی ہو یا سردی، صحت ہو یا بیماری فرش ضرور دھلیں گے چاہے بجلی کا جتنا بل آ جائے اور فرش دھلنے سے لے کر سوکھنے تک گھر میں کرفیو ہوتا ہے کوئی بچہ اور بڑا گھر میں نہیں آ سکتا اور جو گھر میں ہیں وہ باہر نہیں جا سکتے۔ حالانکہ ہماری صفائی کرنا ہوتی یا گھر کی والدہ نے ہمیشہ جھاڑو استعمال کی مگر ان کی کمر دکھتی ہے اس میں بھی عجب اصول ہے کہ جو کمرے ذرا ا کم استعمال ہوتے ہیں ان کی مہینوں صفائی نہیں کرنی۔

اگر میں کبھی بیمار پڑ جاؤں تو ساتھ ہی بیمار پڑ جاتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہمارے درمیان کوئی لیلیٰ مجنوں والا عشق ہے بلکہ اس لئے کہ زیادہ دیکھ بھال نہ کرنی پڑے اور جو تھوڑی بہت خدمت کرتی ہے وہ بھی یہ جتا کر کہ ’’ دیکھو میری اپنی طبیعت خراب ہے پھر بھی آپ کی خدمت کر رہی ہوں خدمت میں بھی اس کی اپنی حدود ہیں سارے جسم کو دبانا ہے لیکن پیروں کو نہیں کہ اس سے ہاتھوں میں ہڈیاں چبھتی ہیں اور درد ہوتا ہے بام سے مالش کرنی ہے لیکن ونٹو جین یا آیو ڈیکس سے نہیں کہ ان کی بُو ہے اب میں ان میں خوشبو ڈلوانے سے تو رہا قے کرنے کی اجازت نہیں کہ اسے دیکھ کر بیگم صاحبہ کو بھی قے آ جاتی ہے اس لئے اگر کوئی ایسی ایمرجنسی پیش آ جائے تو باتھ روم کی طرف دوڑ لگانی پڑتی ہے۔

خود بیگم صاحبہ سال کے ۳۶۵ دنوں میں سے محض ۶۵ دن ہی کسی قدر صحت مند ہوتی ہیں یا ظاہر کرتی ہیں اس لئے ڈاکٹروں کے پاس حاضری روٹین کی بات ہے۔ جہاں تک دوا کا تعلق ہے تو دو تین خوراکیں کھا کر چھوڑ دیتی ہے کہ آرام نہیں آیا کیونکہ پرہیز جو نہیں کرتی۔ ایک بار ڈاکٹر نے چربی زائل کرنے کے لئے بڑی مہنگی دوا لکھی جو تنخواہ پر پتھر رکھ کے لے آیا۔ صبح دیکھا کہ گھی سے تر بتر پراٹھا کھانے میں مصروف تھیں۔ میں نے کہا ’’ اگر پرہیز نہیں کرنا تو اتنی مہنگی دوا کھانے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ بولیں ’’آپ کہتے ہیں تو نہیں کھاتی (دوا) لیکن اگر میں پراٹھا نہ کھاؤں تو اٹھا نہیں جاتا اور اگر اٹھوں گی نہیں تو گھر کا کام کون کرے گا۔ ‘‘ کئی بار کہا ہے ’’مجھے دوسری شادی کرنے دو تمھیں بھی آرام مل جائے گا اور میری بھی خدمت وہی کر لے گی‘‘ مگر ان کو اپنی بے آرامی منظور ہے مگر مجھے سکون آ جائے یہ برداشت نہیں ہوتا حالانکہ میں کم سے کم دو شادیوں کا قائل تھا بلکہ پہلی شادی ہی اس لئے کی تھی کہ دوسری کر سکوں مگر ان کی وجہ سے میرے نظریات پہلے جیسے نہیں رہے، سوچتا ہوں کہ دوسری بھی پہلی جیسی ہوئی جس کا کافی امکان ہے کیونکہ عورتوں کی اکثریت ایک جیسی ہوتی ہے چاہے مختلف بھی لگ رہی ہوں تو پھر کہاں جاؤں گا۔

اس کے مالیاتی اصول یہودیوں اور ہندوؤں سے ملتے جلتے ہیں۔ میکے یا سسرال کے بڑوں سے موقع بموقع جو بھی نقدی وصول ہوتی ہے بحق بیگم سرکار ضبط ہو جاتی ہے اور واپسی ان کو جو دینا ہوتا ہے وہ مجھے اپنی جیب سے دینا ہوتا ہے اگر کبھی حساب طلب کر وں تو کہتی ہے کہ ان کے تو میں نے جوتے اور کپڑے لے لئے، آپ کی ہی بچت کی ہے، وہ نہ ہوتے تو آپ کو جیب سے دینا پڑتے حالانکہ ان کی ضرورت ہی کہاں تھی لیکن ان کی خواہش تو ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ جوتے اور کپڑے ہوں اور بہت ہوں اور اس بہت کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ ہر فنکشن کے لئے اس کو نئے کپڑے چاہئیں جب میں اس کی توجہ الماری میں موجود کچھ نئے جوڑوں کی طرف دلاتا ہوں تو کہتی ہے ’’ وہ تو میں ایک بار پہن چکی ہوں اور وہ سب دیکھ چکے ہیں۔ ‘‘حد تو یہ کہ صرف شادی یا تقاریب کے لئے ہی نہیں بلکہ تعزیت پر جانے کے لئے نیا جوڑا چاہیئے کیونکہ وہاں بھی لوگ نیا جوڑا پہن کے آتے ہیں اور اگر وہ نئے کپڑے پہن کر نہیں جائے گی تو میری ہی بے عزتی ہو گی کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔

اکثر عورتوں کی طرح یہ بھی ادب دشمن ہے۔ قیمتی کتابیں، رسالے، دستاویزات اس کی نظر میں ردی ہیں، اس کا بس چلے تو سب کچھ ردی میں دے کر چار پیسے کھرے کر لے۔ فرمائش پر لکھی اور پسند کی جانے والی میری تحریریں اس کی سمجھ میں نہیں آتیں، اس لئے کم ہی پڑھتی ہے اگر پڑھ لے تو ناراض ہو جاتی ہے کہ میں عورتوں کے خلاف کیوں لکھتا ہوں حالانکہ اس کی وجہ وہ خود ہی ہے۔

اس کا مزاج حاکمانہ ہے، جس کی وجہ سے بچے تو کیا بڑے بھی سہمے رہتے ہیں کیونکہ گھر میں کچھ بھی ان کی مرضی کے خلاف ہو جائے تو طوفان آ جاتا ہے، اس لئے امن قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں ان کی اجازت لی جائے خصوصاً جس کا تعلق گھر کے معاملات سے ہو۔

عام عورتوں کی طرح انہوں نے نہایت نقطہ چیں قسم کی طبیعت پائی ہے خصوصاً ان کو میری ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے۔ اگر فون کروں تو اعتراض کہ وقت ضائع کرتا ہوں اگر فون آ جائے تو کہتی ہیں کہ میرے دوستوں کو اور کوئی کام ہی نہیں۔ اگر گھر کے تالے وغیرہ کا خیال نہ رکھوں تو لا پرواہ اور اگر چیک کروں تو وہمی۔ گرمیوں میں میرے بار بار نہانے پر بھی اعتراض ہے حالانکہ گرمی کا اور کیا علاج اگر پانی زیادہ ٹھنڈا ہو تو کیا ہی بات اور گرم بھی ہو تو پسینہ تو صاف ہو ہی جاتا ہے، جراثیم بھی مر جاتے ہیں اور مساج بھی مفت میں ہو جاتا ہے۔ پھر جب گرم پانی سے نہا کر نکلیں تو باہر ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے مگر اسے تو اعتراض کرنے کی عادت ہے۔ اسے کیا پتہ کہ انگریز سٹیم باتھ کیوں لیتے ہیں ؟؟؟

میں طبعاً تیز مزاج اور تبدیلی پسند ہوں اس لئے کئی ملازمتیں اور کاروبار بدلے مگر بیوی آج تک ایک ہی رکھی ہوئی ہے۔ وہ بھی میری اس قربانی کی قدر نہیں کرتی اور کہتی ہے کہ یہ تو ’’ہاتھ نہ پہنچے تھو کڑوی‘‘ والی بات ہے، حالانکہ یہ کوئی مشکل کام تھوڑا ہی ہے، لیکن میں اس کو سبق سکھانے کے لئے خود عبرت کا نشان بننا نہیں چاہتا اس لئے وہ شیرنی بنی پھرتی ہے۔

زندگی کے اندرونی و بیرونی مسائل ٹینشن پیدا کرتے ہیں، جس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے میں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوں، اس لئے گھر کی کوئی چیز لانا بھول جاؤں تو طوفان مچا دیتی ہے کہ باقی تو سب یاد رہتا ہے جو میں کہوں وہی بھول جاتا ہے، حالانکہ وہ باقی سب بھی اس کا آرڈر ہوتا ہے اور ٹینشن دے کر یادداشت متاثر کرنے میں دیگر عوامل کے ساتھ اس کا اپنا رول بھی نہایت اہم ہے مگر وہ مانتی کب ہے۔

وہ اپنے سارے کام خود کرتی ہے اور مجھ سے بھی یہی توقع رکھتی ہے حالانکہ بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جو کہ اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتے مگر اس کی مدد حاصل کرنا بھی ایک سائنس ہے، اس کے لئے صرف خوشامد درآمد ہی نہیں بلکہ کچھ عملی مدد بھی کرنا پڑتا ہے اس کے کاموں میں پھر ہی تعاون ملتا ہے۔ کوئی بھی کام ہو ایک بار ’’ نہ‘‘ ضرور کرتی ہے، پھر چاہے کام کر بھی دے یعنی دودھ تو دیتی ہے مگر مینگنیاں ڈال کے۔ شادی سے قبل میرے عورتوں کے بارے میں بڑے اچھے جذبات تھے، میں شاعری بھی کیا کرتا تھا مگر اب نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے یا مجھے کوئی متبادل عطا کرے آمین۔

٭٭٭

 

 

 

 

شرارت ہی ہو سکتی ہے

 

                   حافظ مظفر محسنؔ

 

فیصل آباد سے ہمیشہ مزاحیہ خبریں نمو دار ہوتی ہیں اور پڑھنے والے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم ہنس دیں، قہقہہ لگائیں یا زیادہ چٹنی ڈال کر سموسہ کھائیں یعنی بات کو ہوا میں اڑائیں اور ’’انجوائے ‘‘ کریں۔

اکثر لطیفے فیصل آباد سے ہی ایجاد ہوتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ فیصل آباد میں ’’تھڑے ‘‘ پر ہونے والی گفتگو۔۔ ۔ باقی حلقوں میں ’’لطیفہ‘‘ کہلاتی ہے۔ مستانہ (مرحوم اداکار) سے کسی نے محبت سے پوچھا ’’حضور آپ کو کیسے پتہ چلا کہ لوگ آپ کو دیکھتے ہی ہنسنا شروع کر دیں گے ؟

ایک تو میری اور رنگیلا مرحوم کی شکل اور بات کرنے کا اسٹائل ایسا تھا کہ دیکھنے والا ضبط نہ پاتا اور ہنسی کا فوارہ چھوٹ جاتا اور سونے پر سہاگہ جب ہم وہ زبان Language بولتے جو ہم عام طور پر اپنے گھروں میں بولتے تھے تو لوگوں کو اُس مختلف زبان سے بھی ’’لذت‘‘ محسوس ہوتی۔

بہرحال فیصل آباد اور گوجرانوالہ دو ایسے شہر ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان شہروں نے بہت بڑے بڑے فنکار پیدا کئے۔ ۔۔ گوجرانوالہ سے ہی مرحوم دلدار پرویز بھٹی جو کہ بنیادی طور پر انگلش کے پروفیسر تھے تیس سال تک ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر کمپیئرنگ اور ادا کاری کرتے رہے اور لوگ دلدار پرویز بھٹی کے ہر فقرے کو مزہ لے کر ہنستے خوش ہوتے اور دلدار پرویز بھٹی کے پروگراموں کا عوام کو انتظار رہتا ہے۔ سہیل احمد طنز و مزاح / اداکاری میں بہت بڑا نام ہے۔ سہیل احمد بھی ایم۔ اے پاس اور ایک پولیس آفیسر کے بیٹے ہیں اور اپنے فن میں اپنی مثال آپ ہیں جبکہ دوسرے فنکاروں کی کھیپ فیصل آباد سے ہے !

آجکل اخبارات میں یہ خبریں چھپ رہی ہیں کہ یہاں ایک ہی محلے میں جب لوگ صبح اٹھتے ہیں تو اُن کے دروازے باہر سے بند ہوتے ہیں اور وہ بیچارے ’’شریف شہری‘‘ اپنے ہی گھروں میں مقید ہو جاتے ہیں آج کے اخبارات نے تو اس پر تھوڑا غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ بیس گھروں کے ایک ساتھ نالے لگ جانا یا تالوں میں ایلفی ڈال کر گھر والوں کو مقید کر دینا۔۔ ۔ مذاق ہے یا دہشت گردی؟

بہت عرصہ پہلے ہمیں محلہ میں پتہ چلا کہ ۲۱۶ میں جو صاحب رہتے ہیں اُن میں غصہ کرنے کی حس موجود ہے۔ ہم نے اپنے ہم عمروں میں یہ بات پھیلا دی کہ جو کوئی ان صاحب کو ۲۱۶ کا پوچھے وہ خوش ہوتے ہیں۔ صبح سے شام تک اسکول کا جو بچہ گزرتا وہ اُن صاحب کو ادب سے سلام کرتا اور پھر محبت سے پوچھتا ’’انکل آپ ۲۱۶ میں رہتے ہیں ‘‘؟

شروع شروع میں تو اُنہوں نے بچوں کو سمجھایا کہ ’’میں ۲۱۶ میں نہیں رہتا، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ‘‘ لیکن جب ’’مرض‘‘ حد سے بڑھ گیا تو اُن صاحب نے اینٹ اپنے دائیں ہاتھ میں رکھنا شروع کر دی اور پھر جو بیچارے ’’بھولے بچوں ‘‘ کی شامت آئی، مت پوچھئے۔

بات یہیں رک جاتی تو خیر تھی، معاملہ تو بہت آگے تک چلا گیا اور بچوں کو پتہ چل گیا کہ ۲۱۶ والے کی ایک اور بات بھی اُن کے لیے دردِ سر بن سکتی ہے وہ ہے لفظ ’’خربوزہ‘‘۔۔ ۔ اب جو وہ صاحب گھر سے باہر نکلے تو کسی نے مار کر کے ساتھ اُن کے ’’بڑے دروازے‘‘ پر ’’خربوزہ‘‘ بنا ڈالا۔ ہمارا روٹین میں گزر ہوا تو ۲۱۶ نے ہمیں روک کر ہمارے حسب توفیق بے عزتی کی اور ہمیں وارننگ بھی جاری کر دی۔ ہم نے معافی مانگی ’’ہمارا ایسی سرگرمیوں سے کوئی بلکہ دور کا بھی تعلق نہیں لہٰذا آپ ہم پر شک نہ کریں۔ ‘‘

اُنہوں نے ہمیں بھگا دیا لیکن ہم نے جاتے جاتے محبت سے پوچھا ’’انکل یہ آپ کے دروازے پر بڑا سا ’’خربوزے ‘‘ کا نشان دکھائی دیتا ہے، آپ خربوزوں کے تاجر ہیں ؟‘‘

مت پوچھئے۔ ۔۔ اِس سوال کا جواب کس قدر مشکل اور ہماری امیدوں سے کہیں زیادہ پریشان کن تھا۔ وہ جو ہم کئی سال سے محترم عمران خان صاحب سے گذارش بلکہ عرض کرتے چلے آ رہے ہیں ’’حضور معاملات الجھ جائیں گے، کوئی حل نکالنا ہے تو پلیز مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں کیونکہ ایسے کام بگڑے گا اور عوام پریشان ہوں گے اور جگ ہنسائی بھی ہو گی؟‘‘

یہ بات اہل محلہ نے ’’۲۱۶‘‘ والے انکل ’’خربوزہ‘‘ کو بھی سمجھائی اور سب ’’پارٹیاں ‘‘ مذاکرات پر راضی ہو گئیں۔ جیسے آجکل سردی آتے ہی میاں نواز شریف حسب عادت مری ’’برف باری‘‘ انجوائے کرنے جا پہنچے ہیں۔ بنی گالا کے ’’خان‘‘ کو بھی چاہیے وہ کسی اور صحت افزاء مقام پر جا کر پارٹی کا اجلاس بلائیں اور سبز مرچوں والی ’’کڑاہی‘‘ سے پارٹی ممبران کی تواضع کریں اور نمک منڈی کے ’’چپل کباب‘‘ سے لطف اُٹھائیں۔

محلہ میں طے پایا کہ آج کے بعد کوئی انکل ’’خربوزہ‘‘ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ ۲۱۶ میں رہتے ہیں ؟ اور اگر کوئی ناہنجار پوچھے گا تو وہ غصہ نہیں کریں گے بلکہ مسکرا دیں گے ؟

معاملہ رفع دفع ہو گیا۔۔ ۔ لیکن افسوس ’’مذاکرات کامیاب‘‘ ہونے کے باوجود نہ ’’وہ‘‘ باز آئے نہ ’’ہم‘‘ نے اپنا رویہ بدلا لیکن۔۔ ۔ یہ سب مذاق مذاق میں چلتا رہا۔۔ ۔ اس میں وہ شدت نہ رہی۔

میری اہلِ فیصل آباد سے گذارش ہے کہ وہ ایک عدد خفیہ کیمرے کا انتظام کریں، ’’معصوم دہشت گرد‘‘ پکڑا جائے گا لیکن ہمارے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔ ۔۔ معاملے کو مذاق نہ بنائیں۔ ۔۔ محبت سے ایسے کاموں کا حل نکالا جاتا ہے۔ ۔۔ اسی میں پورے فیصل آباد کی بہتری ہے۔

امریکی اسکول کی بہترین استانی نے اپنی کلاس کو بتایا ’’لڑکیو! میں جب نو عمر تھی تو سوچا کرتی تھی کہ بہترین گانے والی بنوں گی چنانچہ میں اپنا زیادہ وقت پیانو کے پاس گزارتی اور رات دن گانے گاتی رہتی لیکن ایک دن میرے ڈیڈی نے پیانو چھین کر چھپا دیا اور میرے ہاتھ میں کتابیں تھما دیں، نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے گانے کا ریاض ختم کرنا پڑا اور اپنی ساری توجہ تعلیم پر صرف کرنا پڑی۔۔ ۔ تم دیکھ رہی ہو کہ آج میں کیا ہوں ؟‘‘

لڑکیوں نے ہم آواز ہو کر کہا ’’ہمارے اسکول کی سب سے بہترین استانی؟‘‘

’’نہیں ‘‘۔۔ ۔ ’’نہیں ‘‘ … استانی نے جواب دیا ’’شہر کی سب سے خراب گانے والی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

چوری

 

                   ذہینؔ احمق آبادی

 

آج میں آپ کو اپنے بچپن کے کچھ واقعات بتاتا ہوں۔ ۔۔ عنوان سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ کس ’’سنہری حرکت‘‘ کی بات ہے اور کی تو شاید آپ نے بھی ہو مگر کسرِ نفسی میں شاید نہ پھوٹ سکیں۔ ۔۔ خیر۔۔ ۔ نہیں، تو نہ سہی!

چوری کرنے کے ٹوٹکوں میں ایک مجرب حربہ یہ بھی ہے کہ چوری یا تو وہاں کرو جہاں بہت زیادہ رش ہے یا وہاں پر ‘جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔ ۔۔ !

قصہ یہ ہے کہ میں اور میرے دو عم زاد ایک دوکان پر جاتے تھے۔ اس دوکاندار کے پاس بہت سی اشیاء ہوتی تھیں جن کو دیکھ کر بچوں کے گال لال اور ٹھوڑی بہ رال ہو جاتی تھی۔ وہ بندہ بہت مہنگی چیزیں بیچتا تھا ہمیں۔ ۔۔ تو خیر۔۔ ۔ کرتے ہم یہ تھے کہ میں اُدھر دوکان دار کو با توں میں لگاتا تھا اور اِدھر وہ دونوں کار روائی ڈالتے تھے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میرا چھوٹا عم زاد ذرا چوک گیا اور دوکان دار کی کائیاں نظروں نے اسے تاڑ لِیا۔ اس نے لعن طعن شروع کر دی مگر مجال ہے جو میں اور میرا بڑا عم زاد ذرہ برابر بھی گھبرائے ہوں، بلکہ ہماری زبانوں سے تو یہ نکلا کہ ’’اوئے۔ ۔۔ تو چوری کرتا ہے۔ اگر کچھ چاہیے تھا تو ہم سے بول دیتا (ہم نے کون سا الگ کچھ کرنا تھا) گھر چل تیری ماما کو بتاتے ہیں۔ ۔۔ !‘‘

اسے کھینچتے دھکیلتے، سعادتمندی اور معصومیت سے انکل کو یقین دہانی کروائی اور اسے فق چہرے سمیت باہر لا کر موج اڑائی۔۔ ۔ وہ در اصل ہم میں سب سے چھوٹا تھا اور ذرا کچا تھا۔ ہاتھ میں صفائی نہیں آئی تھی لیکن مجھے معلوم ہے کہ کبھی انھوں نے ’’کارگزاری‘‘ میرے سامنے بھی پوری نہیں رکھی، ہمیشہ ڈنڈی مارتے تھے۔ پھر ایک دفعہ میں نے ان کے ساتھ اس سے بڑا ہاتھ کِیا۔ کیا غبن کِیا تھا۔۔ ۔ آہا۔۔ ۔۔ الامان والحفیظ۔۔ ۔ میں عاجزی کے باعث وہ بتانے دہرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ ۔ انا للہ!

میں، واللہ، گِن کر بتا سکتا ہوں ان چیزوں کی تعداد جو میں نے چوری کی ہیں۔ ۔۔ ٹھہریں۔ ۔۔ گننے دیں۔ ۔۔ ایک، دو۔۔ ۔ اور ہاں وہ ٹیپ، تین۔۔ ۔ عاشی کی دکان، چار۔۔ ۔ پانچ چھ سات۔۔ ۔ پونے دو سو۔۔ ۔ ایک ہزار۔۔ ۔ لاحول ولا۔۔ ۔ اب اتنی بھی نہیں۔ ۔۔ دھت تیری کی۔۔ ۔ آج کل کے بچوں کے پاس بتانے کو کیا ہو گا۔۔ ۔ ؟ نئی پود ذہین تو ہے، پر ہے بیوقوف۔۔ ۔ ان کی زِندگی نری بورِنگ ہو گی۔۔ ۔ فلانی گیم کھیلی۔۔ ۔ پلے سٹیشن پر یہ کِیا۔۔ ۔ فلانی میک بُک خریدی۔۔ ۔ یہ وہ۔۔ ۔ ویسے میں خود بھی ان چیزوں میں ملوث رہا مگر ذرا ہٹ کے۔ خود ہی دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتائیں کہ کبھی وہ چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ ۔۔ ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔ ۔ سنسنی سے عاری زندگی کا کیا کرنا۔۔ ۔ پکڑا تو ویسے میں بھی نہیں گیا آج تک۔۔ ۔ ہمیشہ ساتھیوں کے باعث پھنسا۔ اِس لیے اب میرا کوئی ساتھی ہی نہیں۔ ۔۔ کہہ سکتے ہیں کہ میں کافی حد تک stainless ‘stealing’ کرتا تھا۔۔ ۔ ویسے سنسنی خیزیت سے میری مراد چوری جیسا کوئی قبیح عمل نہیں۔ ۔۔ بس کسی بھی طرح کی سنسنی۔۔ ۔ کیونکہ آج کل کی پود گھر کی ہو کر رہ گئی ہے !

پھنسنے سے یاد آیا۔۔ ۔ اسی طرح ایک دفعہ بعد از حفظ، اسکول میں میرے اسی بڑے عم زاد نے مجھے ایک چاکلیٹ کا بتایا جو ساتھ والی گلی سے ملتی تھی اور میں رغبت سے کھاتا تھا۔ اس نے کہا کہ چھٹی کے بعد گھر سے کپڑے بدلتے ہوئے وہاں کی راہ لیں گے۔ میں نے بھی رضامندی ظاہر کر دی۔ اب ہم وہاں پہنچے۔ ۔۔ چاکلیٹ تو نہ ملی مگر دوکان والے نے انڈوں کی پیٹی اپنی دوکان میں رکھنے کے بجائے چار پانچ گز دور تھڑے کے آخری سرے پر رکھی ہوئی تھی جس میں بھوسہ بھی بھرا ہوا تھا۔ ہمارے ذہن میں ایسی کوئی ’’مذموم حرکت‘‘ کی پرچھائیں بھی نہیں تھی مگر شرارت کا کیا کیجیے۔ ۔۔ جبھی تو کہتے ہیں کہ اپنا سامان بچاؤ، دوسرے کا ایمان بچاؤ جبکہ صنفِ نازک کے لیے بھی یہی۔۔ ۔ مگر ساخت میں ذرا سی تبدیلی کے ساتھ کہ ’’ اپنا سامان’ بچاؤ، دوسرے کا ایمان بچاؤ‘‘۔۔ ۔ خیر۔۔ ۔ ہم نے وہاں سے انڈے اٹھائے اور سرپٹ دوڑتے یہ جا وہ جا۔۔ ۔ آگے جا کر کھوپڑی میں آئی کہ آخر ان کا کیجیے کیا۔۔ ۔ پس ہم نے ہاتھ سر سے بلند کر، انڈے زمین پر دے مارے۔ ۔۔ اب تو ہمیں مزہ آنے لگا، دل، شیر ہو گیا۔۔ ۔ ہم واپس آئے مزید اغوا کی واردات کو۔۔ ۔ مگر قسمت کا کیا کیجیے کہ اس دفعہ جیسے ہی اٹھا کر بھاگے ہیں تو سامنے والی دوکان والا بھی ہمارے ساتھ ہی بھاگا ہے۔ اب ہم تو ٹھہرے بچے، کتنا بھاگتے ؟ اس نے میرے عم زاد کو آ لیا۔ میں بھاگا بھاگا گھر کو آ گیا۔ وہ بیوقوف دوکاندار کو گھر لے آیا۔۔ ۔ بس پھر کیا تھا، جو سماں بندھا تو عقل ٹھکانے آ گئی۔ میرے بابا (نور اللہ مرقدہ) تو رات گئے گھر آتے تھے، میری ‘پھینٹی’ ملتوی ہو گئی۔۔ ۔ گویا سولی ہی چڑھا دیا مجھے۔ ۔۔ جبکہ گھر والوں نے اس دوکاندار کو پیسے دے دلا کر رخصت کر دیا اور اس نے بھی ایک انڈے کے چار لگائے اور ہم ہونقوں کی مانند دیکھتے رہ گئے کہ آخر اس کا جھوٹ سامنے لائیں بھی تو کس مُنھ سے !

خیر۔۔ ۔ رات ہوئی اور میں بابا کی آمد سے پہلے ہی سو گیا۔ میں سمجھا رات گئی بات گئی مگر صبح ناشتے کے وقت بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر اسی جلال میں مجھے سمجھایا جسے دیکھ کر چھوٹے تو چھوٹے، بڑے بھی کونے میں دبک جاتے ہیں کہ چوری کرنے والے کا ہاتھ علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ ۔۔ لاؤ میں ہاتھ علیحدہ کروں۔ ۔۔ اور یہ کہتے ہوئے چھری میری کلائی پر رکھ کر بالکل ہلکا، معمولی سا دباؤ ڈالا۔ میں نے بابا کے چہرے کی طرف دیکھا کہ شاید مذاق کر رہے ہوں مگر وہاں ایسے آثار مفقود تھے۔ میرا ننھا سا دل اس وقت اتنی زور سے دھڑکا اور میں ایسا رویا گویا اصل میں ہاتھ کاٹ رہے ہوں۔ اصل میں کانپ کانپ گیا۔ اس وقت میں نے بابا سے اقرار کِیا تھا کہ آئندہ چوری نہیں کروں گا (دل چرانا الگ قصہ ہے ) اور بابا نے بھی تسلی کرائی تھی کہ وہ چھوڑ رہے ہیں۔ ۔۔ باہر والوں کو ابھی نہیں پتا۔۔ ۔ اگر انھیں پتا چل گیا نا تو وہ ہاتھ کاٹ دیتے ہیں چور کا! بس تب سے تائب ہوا اور اب لوٹانے کا خیال آیا۔۔ ۔ جگہیں ہی کتنی تھیں۔ ۔۔ ایک آدھ۔۔ ۔ اللہ معاف کرے۔ ۔۔ خیر۔۔ ۔ مار نہیں پڑی یہی کافی۔۔ ۔ !

اب دس پندرہ سال بعد جب یہ ’’ذکرِ شر‘‘ چھڑا تو گھر والوں نے اس انوکھی چوری پر استفسار کِیا کہ آخر کھوپڑیا میں سمائی کیا تھی جو ایسی چیز پار کی۔۔ ۔ اب کیا کہتے۔ ۔۔ حماقت؟ جبکہ اس وقت تو علامہ اقبال کا حدودِ اربعہ بھی نہیں معلوم تھا، وگرنہ سارا قصور اُن کی گردن پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو رہتے۔ خود بتائیے کہ حرف بہ حرف اُنھی کی نصیحت پر عمل نہیں کِیا تھا؟ آخر انھی کا تو ہے یہ قولِ زرّیں (حالانکہ بیچاری زرّیں جانتی بھی نہ ہو گی کہ اس کے نام سے کیا کیا اقوال مروجہ ہیں )۔۔ ۔ نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے … اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں … جی، جی۔۔ ۔ حد ہے، اور بیحد ہے۔ ۔۔ !

٭٭٭

 

 

 

یورپئن

 

                   احمد سعید

 

پوہ ایک انتہائی خطرناک کُتا تھا۔ میں جب کام سے گھر کو لوٹتا تو اکثر راستہ روک کے کھڑا ہوتا۔ شاید میرے استقبال کے لئے کھڑا ہوتا تھا۔ اس کی مالکن ’’ آنابیلا‘‘ نے مجھے ایک دو مرتبہ بتایا کہ یہ کچھ نہیں کہتا۔ میں نے کہا :، جب یہ کہتا ہی کچھ نہیں تو اتنا بڑا کتا رکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟کوئی چھوٹا موٹا کُتا رکھ لیتی، وہ کچھ نہ کچھ کہہ بھی لیتا تو خیر تھی۔ اِسے تو دیکھ کے ہی خوف آتا ہے۔

ایک دن میں دور کھڑا دیکھ رہا تھا کہ گلی (آگ کا دریا) پار کروں یا نہ۔ وہ (کتا)گلی میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ اتنی دیر میں گھر سے اس کی خوبرو مالکن نمودار ہوئی۔ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی تو میری بھی باچھیں ’’کھُل‘‘ گئیں۔

کہنے لگی:اِدھر آؤاِس کے پاس، کچھ نہیں کہے گا۔

میں نے کہا :، اِسے لے آؤ میرے پاس سے، میں اِس کے پاس آؤں اِس کا ملازم ہوں کیا؟یہ الفاظ زباں تک تو آئے، بیاں تک نہیں ، ۔ اتنی جرأت کہاں تھی کہ اُن دونوں کے سامنے یہ کہتا۔ خیر چل دیا اُن کی طرف۔

کہنے لگی: ’’پرتگال‘‘ کا تو بچہ بچہ کتوں سے کھیلتا ہے، آپ اتنا کیوں ڈرتے ہیں ؟

میں نے دل میں ہی کہا:، انگلینڈ کا بچہ بچہ انگلش بولتا ہے، ہم سے نہیں بول ہوتی تو کیا نہر میں چھلانگ لگا دیں ؟

آخر کار بات چیت کے آخر میں دل نے یہ فیصلہ کیا کہ کتے کے ساتھ اِس کی ’’ ماڈل ٹائپ ‘‘مالکن ہو گی تو گلی پار کیا کروں گا، ورنہ دوسرا لمبا راستہ تو ہے ہی۔ یورپ میں مَیں کتوں سے ہی نہیں بلکہ دوسرے جانوروں سے کتوں سے بھی زیادہ ڈرتا تھا۔

’’پرتگال ‘‘میں بڑے بھائی عبدالصمد کیساتھ ایک مرتبہ Pet shop میں ایک Pet پہ ہماری Bet لگ گئی کہ یہ چوہا ہے یا نہیں ہے۔ بھائی کا موقف تھا کہ یہ ایک بڑا ’’ یورپین‘‘ چوہا ہے۔

میں کہنے لگا :، یہ بلی ہے نہ چوہا، بس یہ کچھ اور ہی ہے۔

بھائی کہنے لگے، یہ بلی کہاں سے آ گئی بیچ میں۔

میں نے کہا، بھائی جی !بلی، چوہے کا چولی دامن کا ساتھ جو ہوا۔

بحث جب لمبی ہوتی گئی تو ہمیں احساس ہوا کہ یہاں دکان والی بھی موجود ہے۔ اُس سے یہ فیصلہ با آسانی کروا سکتے ہیں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ ہمیں خود احساس نہیں ہوا تھا، یہ احساس اُس دکان والی نے ہی ہمیں دلایا تھا، کیونکہ بحث کے دوران چار پانچ مرتبہ اُس نے ہم سے پوچھا کہ میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہوں ؟ بقول اُس کے اِس جانور کا نام chinchilla تھا۔ پھر اُس نے اِسے ہاتھ میں پکڑ کے دکھایا۔ کہنے لگی، میں آپ کو چوہے پکڑاتی ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دیں، (کیونکہ اُس نے جانے کونسے چوہے پکڑا دینے تھے، اصلی یا بہت ہی اصلی )۔

پھر اُسنے ایک سانپ نکال کر دِکھایا۔ کہنے لگی، پکڑ و گے ؟

میں نے کہا:، میں تو آپ سے پہلے ہی معافی مانگ چکا ہوں، اب کیا کان پکڑوائیں گی؟

بھائی کہنے لگے :، مجھے پکڑائیں جی۔

میں نے کہا:، کیا کان؟

کہنے لگے :، نہیں سانپ۔

میں نے کہا :، بھائی جی ! ’’ یورپین کُڑی سامنے اینے وی پاگل نہیں ہو جائی دا‘‘۔

کہنے لگی :، کچھ نہیں کہے گا۔

میں نے سوچا:، یہ کہاں آ گئے، جہاں کتے کاٹتے نہیں، سانپ ’’ڈاستے ‘‘ نہیں۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ یہاں بیویاں بھی اپنے شوہروں کو کچھ کہتی ہیں یا وہ بھی کچھ نہیں ؟اور یہ سوال کرتے ہوئے میرے چہرے پہ جو بیچارگی تھی، وہ اس دوکان کے تمام جانوروں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھسرے

 

                   محمد اشفاق ایازؔ

 

دنیا کے سارے مذاہب، دانشور، مفکرین، مذہبی اور دنیوی علوم کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی ابتداء تخلیق آدم سے ہوئی۔ لیکن دنیا کے یہ سارے مذاہب، مفکرین، مذہبی اور دنیوی ماہرین کے علاوہ خود کھسرے اس بارے میں مکمل خاموش ہیں کہ دنیا میں پہلا کھسراکب، کہاں اور کیونکر وجود میں آیا۔ اس کی آمد سے پہلے دنیا کے حالات کیسے تھے اور اس کی آمد کے بعد دنیا کی سماجی، ثقافتی، اور عمرانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم بعض مذہبی مفکرین کی رائے ہے کہ کھسرے حضرت لوط علیہ السلام کے دور سے پہلے اپنی سرگرمیاں شروع کر چکے تھے۔ اور ان پیغمبر کے دور میں کھسروں کا کاروبار عروج پر تھا۔ اور یہی عروج ان کھسروں کے ساتھ ساتھ اس پوری قوم کو لے ڈوبا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے یورپ میں انہیں پھر عروج حاصل ہو رہا ہے۔ اور وہاں انہیں آپس میں شادی کا قانونی تحفظ بھی حاصل ہو رہا ہے۔ اب آہستہ آہستہ یہ حقوق دنیا میں موجود تمام کھسروں کو حاصل ہوتے جا رہے ہیں۔ تاہم اس عالمی نقشے پر ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کھسروں کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ اس ملک میں مارچ ۲۰۱۷ء کی ابتدا میں ایک مقام پر بڑی تعداد میں اکھٹا ہونے والے کھسروں کو پکڑ لیا گیا۔ اور باقی کھسروں کو سبق سکھانے کے لئے دو کھسروں کو بوریوں میں بند کر کے ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس سے پوری دنیا کے کھسروں میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

برصغیر پر کئی صدیاں حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہوں کے دور میں کھسروں کو بڑا عروج حاصل رہا۔ ان کی رسائی براہ راست حرم خانوں کے اندر تک تھی۔ ملکاؤں اور شہزادیوں کا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ وہ بادشاہوں اور شہزادوں کے لئے بھی بڑی مفید چیز تھے۔ اور ’’مشکل وقت‘‘ میں ان کے کام آتے تھے۔ ظلِ الٰہی اور ملکاؤں اور شہزادیوں کے درمیان رابطے کا بڑا ذریعہ یہی کھسرے تھے۔ کسی رنگین مزاج شہزادے کی منظور نظر تک پیغام رسانی کے لئے یہی کھسرے کام آتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اندرون خانہ کی جتنی معلومات ان کھسروں کو حاصل تھیں۔ اتنی خود اہل خانہ کو بھی حاصل نہ ہوتی تھیں۔ پھر ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں حرم خانے کے کھسروں نے اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا بدلہ اکیلے بے چارے بہادر شاہ ظفر کی شہزادیوں سے لیا۔ جب غدر مچا۔ محل سے شہزادے اور ملکائیں فرار ہونے لگے تو کھسروں نے ’معصوم‘‘ شہزادیوں کو محفوظ پناہ گاہوں تک لے جانے کے بہانے، کہیں اور ہی لے گئے۔ بعد میں انہیں کوڑیوں سے بھی کم دام میں فروخت کر دیا۔

بعض ماہرین تبدیلی جنس کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے دنیا پر ایک ایسا بھی دور آیا ہو جب عورتوں کے مردوں پر مظالم حد سے بڑھ گئے ہوں۔ عورتوں کی مردوں سے عدم تعاون کی تحریکیں زور پکڑنے لگی ہوں۔ مردوں کے جائز حقوق بھی سلب کئے جانے لگے ہوں۔ انہیں صرف کماؤ مشینیں اور آمدنی کا ذریعہ سمجھا جانے لگا ہو۔ تب مردوں نے گڑ گڑا کر خدا سے عورتوں کے خلاف شکایات کے انبار لگا دئیے تو خدا نے ان کی سن لی ہو اور ان کی تسلی، تشفی اور دل جوئی کے لئے دنیا میں کھسرا بھیج دیا ہو۔ یوں پہلی اور دوسری جنس کے عین درمیان ایک ایسی مخلوق کی تخلیق کی گئی جسے بعد میں تیسری دنیا کے نام سے بھی موسوم کر دیا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس سب سے آخر میں آنے والی بظاہر بے ضرر مخلوق نے اس قدر ترقی کی کہ افادیت کے لحاظ سے اپنے سے پہلے آنے والی دونوں مخلوقات سے کہیں آگے نکل گئی۔

آج اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے۔ آپ کو ایوان اقتدار سے لے کر غلام گردشوں تک، جزوی یا مکمل کھسرے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ زندگی کی جد و جہد میں شامل نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ دنیا کے نقشے پر بھی تیسری دنیا وجود میں آ گئی جس کا کام پہلی اور دوسری دنیا کے ہر کام پر واہ واہ کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔ اس کا کام اپنی بھوک پیاس، دکھ، غم، محرومیاں بھلا کر بس پہلی اور دوسرے دنیا کے لئے راحت و شادمانی کے وسائل پیدا کرنا، اپنی روٹی کا آخری نوالہ تک ان کے سامنے رکھ دینا اور ان کی ترقی و سلامتی کے گیت گانا رہ گیا ہے۔ اگرتیسری دنیا کی مخلوق، ان ذی وقار قوموں کو اپنی محرومی کی طرف ذرا سا بھی احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے دہشت گرد کا خطاب دے کر دنیا کے نقشے سے ہی غائب کر دیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس کھسری دنیا (تیسری دنیا) کے مقدر میں ایسے حکمران لکھ دئے گئے ہیں جو سہرے گانے میں ماہر اور شکوؤں شکایتوں سے دور ہوتے ہیں۔

اردو ادب کی ترقی میں جہاں کلاسیک ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں نے اہم کردار ادا کیا وہیں کھسروں نے بھی اردو زبان میں کئی اصناف متعارف کرائی ہیں۔ اس دور میں جب لکھنؤ نوابوں اور رئیسوں کا گڑھ تھا وہاں کھسرے بھی انہی کے سائے تلے ایک پھوڑے کی طرح پل رہے تھے۔ جب اول اول ڈرامے کا آغاز ہوا تو زنانہ کرداروں کے لئے عورتیں میسر نہ ہوتی تھیں حتیٰ کہ طوائفیں بھی سر عام ناٹک پر رضا مند نہ ہوتی تھیں یا ان کے دام زیادہ تھے۔ تو اس وقت زنانہ کرداروں کی کمی پوری کرنے اور اردو ادب کے اس مشکل دور میں کھسرے ہی کام آئے۔ اردو ڈرامہ کھسروں کا یہ احسان کبھی نہیں بھلا سکتا۔

اردو شاعری میں ’’ریختی‘‘ یعنی مردوں کی زبان سے عورتیں کی باتیں، کی ایجاد بھی خالص کھسروانہ ہے۔ مثلاً

سجن آویں تو پردے سے نکل کر بھار بیٹھوں گی

بہانہ کر کے موتیا کا پروتی ہار بیٹھوں گی

قائد اعظم کے تین اصولوں اتحاد، ایمان اور تنظیم کو باقی قوم نے یاد رکھا ہو یا نہیں لیکن کھسروں نے اسے نہ صرف یاد رکھا بلکہ ان کو اپنی عملی زندگیوں پر لاگو بھی کیا۔ آج جو اتحاد کھسروں میں نظر آتا ہے وہ کوؤں میں بھی نہیں جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایک کوے کو تکلیف پہنچے تو چند لمحوں میں سینکڑوں کوے کائیں کائیں کرتے اکٹھے ہو کر حال چال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گزستہ دنوں ہمارے شہر میں ایک مشہور سرکس آیا جس کے ساتھ موت کا کنواں اور دوسری تفریحات کے علاوہ کھسروں کی خاصی بڑی تعداد بھی تھی۔ جو سرکس اور موت کے کنوئیں کے باہر اپنے جوہر دکھانے میں مصروف تھی۔ کچھ منچلوں نے، جن کی پہنچ سے یہ کھسرے بہت دور تھے، انہوں نے انتقام لینے کے لئیے محلے کی مسجد کے امام سے فتویٰ حاصل کیا اور پہنچے تھانے۔ ان ’’عوامی شکایات‘‘ پر فوری نوٹس لیتے ہوئے مقامی پولیس نے بطور نمونہ چند ایک کو پکڑ لیا اور تھانے لے جانے لگی۔ لیکن ہو ایہ کہ مبینہ کھسرا ملزمان اور پولیس کے تھانے پہنچنے سے قبل ہی کافی تعداد میں کھسرے تھانے کے باہر اکٹھا ہو گئے اور ڈھولکی کی تھاپ پر تھانیدار اور پولیس کی ہجو گانے لگے۔ تھانے والوں نے انہیں بھگانے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اپنی گرفتار ’’ منہ بولی بہنوں ‘‘ کی حمایت میں جیل بھرو تحریک شروع کرنے کی دھمکی دے دی۔ طویل مذاکرات کے بعد طے پایا کہ گرفتار کھسروں کے خلاف پرچہ دینے کی بجائے انہیں چھترول کر کے فارغ کر دیا جائے۔ جب چھترول کے لئے ایک کھسرے کو لٹایا گیا۔ تو تھانے کے اندر اور باہر کھسروں نے ڈھولکیوں کی تھاپ پر احتجاجی گیت اور پولیس والوں کو کوسنے دینا شروع کر دئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سر پر جوتے لگا لیں لیکن ’’روزی والے اڈے ‘‘ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ تھانیدار اور پولیس والے آخر بال بچوں والے تھے۔ وہ بھلا کسی کی روزی کیسے چھین سکتے تھے۔ وہ ان کے ’’روزی والے اڈے ‘‘ کو نقصان پہنچا کر اپنے لئے وبال اکھٹا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی جیب سے پانچ دس والے نوٹ نکالے، اپنے سروں پر چکر لگوایا اور کھسروں کے حضور پیش کرتے ہوئے انہیں جانے کی اجازت دے دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

غالبؔ۔ داورِ محشر کے حضور

 

                   شاہ محی الحق فاروقی

 

صور کی مہیب آواز سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔ مُردوں کی دنیا میں ایک ہنگامہ سا بپا تھا۔ سب کے سب ایک دوسرے کو دھکا دے کر آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ قیامت آ گئی، قیامت آ گئی کا روح فرسا شور دلوں میں دہشت پیدا کر رہا تھا۔ صدیوں پرانی اور ٹوٹی پھوٹی قبروں سے مُردے ایسی عجلت اور افراتفری کے عالم میں نکل رہے تھے جیسے زلزلہ کی خبر سن کر گاؤں والے گاؤں چھوڑ رہے ہوں۔ اس عالمِ وحشت میں میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک قبر کے پاس سے گذرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اُس کا مُردہ سکون اور اطمینان کے ساتھ سو رہا ہے۔

میں وہیں کھڑا یہ سوچنے لگا کہ یا خدا۔۔ ۔ یہ بے فکرا انسان کون ہے جسے اس عالم میں بھی نیند آ رہی ہے ؟ میرے قریب سے دو عجیب الخلقت ہستیوں کا گزر ہوا۔ اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ؎

یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

اسدِ خستہ جاں یعنی مرزا غالبؔ کا نام سُن کر میں وہیں کھڑا ہو گیا اور اُن کے قبر سے اٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اُس لاش میں حرکت ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے ہُو بہُو غالب شکل اختیار کر لی۔ غالب جھنجھلائے ہوئے انداز میں چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ اُن کی چتون سے سخت غصہ کا اظہار ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جلے بھنے انداز میں انہوں نے کہا ؎

وائے واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا

لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

تھوڑی دیر بعد انہوں نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو نہ صرف مجھے بلکہ مجھے جیسے اور کئی بے فکروں کو اپنی طرف گھورتے پایا۔ یہ منظر دیکھتے ہی وہ کھڑے ہو گئے اور پھر اوپر نظر اٹھا کر ایک اپنائیت بھرے لہجے میں کہنے لگے ؎

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

ابھی ہم لوگ اس نظارے میں مشغول تھے کہ یک بیک کہیں سے آواز آئی ’’میدانِ حشر میں چلو اور بارگاہِ ایزدی سے اپنے فیصلے حاصل کرو۔ ‘‘ میں بھی لپک کر پہنچا۔ وہاں طرح طرح کے انسانوں کا ایک انبوہِ کثیر تھا۔ تمام لوگ اپنے اپنے مراتب کے لحاظ سے مختلف قطاروں میں کھڑے تھے اور اپنے اپنے اعمال کی جواب دہی میں مشغول تھے۔

چند ناموں کے بعد آواز آئی، اسداللہ خان غالب ولد مرزا عبداللہ بیگ خان، حاضر؟

غالب آگے بڑھے اور سجدہ کر کے ایک طرف کھڑے ہو گئے۔

آواز آئی، اس شخص کا نامہ اعمال سناؤ۔

ایک فرشتے نے آگے بڑھ کر سجدہ کیا اور کہنا شروع کیا ’’اے ہمارے رب! اس شخص پر الزامات تو بے شمار ہیں اگر ہم ان کی تفصیل میں جائیں تو وقت ختم ہو جائے مگر بیان ختم نہ ہو۔ اے معبودِ حقیقی اس شخص نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو راہِ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی۔ اس وقت تیری اجازت سے میں اس شخص کے صرف اُن اشعار کو پیش کرتا ہوں جن میں اس نے طرح طرح سے جنت کا مذاق اڑایا اور اپنی ان حرکتوں سے لطف اندوز بھی ہوتا رہا ؎

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اے معبود حقیقی! اُسی زمانے میں اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ اول تو اسے جنت کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اگر کبھی وہاں جانے کی خواہش ہوتی بھی ہے تو صرف شراب کے لیے۔ اس نے کہا ؎

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز

سوائے بادۂ گلفام و مشکبو کیا ہے ؟

ابھی فرشتہ کچھ کہنے والا تھا کہ ندا آئی۔

ندا : غالبؔ

غالب : پروردگارِ غالبؔ

ندا : غالب کیا تمہیں اس بیان کی صداقت پر کوئی اعتراض ہے ؟

غالب : معبودِ حقیقی ؎

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

ندا : غالب! یہ نہ بھولو کہ تم کہاں کھڑے ہو۔ یہ ہمارا انتظام تھا۔ اس انتظام میں دخل دے کر یا اس پر اعتراض کر کے سرکش اور باغیوں کے زُمرہ میں شامل ہونے کی کوشش نہ کرو۔

غالب : اے رحیم و کریم! میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ ؎

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

ندا : ہاں اُس میں بھی ہماری مصلحت تھی اور اِس میں بھی ہماری مصلحت ہے۔ تمہیں ایک بار پھر حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے دائرے میں رہو اور ہمارے انتظامات پر اعتراض نہ کرو۔ فی الحال تم ہمارے چند سوالات کا جواب دو۔

غالب : ارشاد یا رب العزت!

ندا : قسم کھاؤ کہ تم جو کچھ کہو گے سچ کہو گے

غالب : ؎

صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

ندا : کیا تمہیں ہماری وحدانیت پر ایمان تھا؟

غالب : بے شک اے ذاتِ واحد، میرا یہ ایمان تھا کہ ؎

ہم مَوّحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم

مِلّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

ندا : کیا دنیا میں تم ہمارے پیارے نبیﷺ کی رسالت کے قائل تھے ؟

غالب : ہاں اے معبودِ برحق! میں نے ہمیشہ یہ کہا کہ ؎

اُس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا

ندا : اچھا پھر یہ بتاؤ کہ ایسے قابلِ اعتراض اشعار تم نے کیوں لکھے ؟

غالب : اے رحیم و کریم! ؎

رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے

شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

ندا : کیا تمہیں کچھ یاد ہے کہ دنیا میں تم نے کتنے گناہ کیے ؟

غالب : ؎

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

ندا : کیا تمہاری کوئی خواہش ہے ؟

غالب : پروردگار میرا حال تو دنیا میں یہ تھا کہ ؎

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن اے امیدوں کے بر لانے والے ! اگر میں بیان کروں تو کیا میری خواہش پوری ہو جائے گی؟

ندا : بیان کرو!

غالب : ؎

نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کو ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

٭٭٭

 

 

 

چشمہ

 

                   فہد خان

 

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

ہو گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا

آج تذکرہ ہے اس شے کا کہ جب آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے تو ہر شے نکھری نکھری، پاکیزہ پاکیزہ سی نظر آنے لگتی ہے۔ عرصے سے جن چیزوں میں کوئی چاشنی نہ ٹپکتی تھی، یک سر رس بھری ہو جاتی ہیں۔ جیسے کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کو رنگین کر دیا گیا ہو۔ جیسے صحرا میں ہولے سے بادِ نسیم چلنے لگی ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے رنگ واپس لوٹ آئے ہوں۔ جیسے کوئی مان گیا ہو! جیسے کوئی مان سلامت رہ گیا ہو۔ جیسے کوئی ہمیں دیکھ کر ہولے سے مسکرایا ہو۔ یا کسی نے نگاہیں ملا کر جھکا لی ہوں۔ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے جب آپ چشمہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں۔

یہ غالباً آٹھویں جماعت کی بات ہے، جب ہماری نگاہوں اور دنیا کے درمیان ایک شیشے کی دیوار حائل ہوئی۔ مگر اس سے ہمیں کوئی غم نہ ہوا تھا۔ وفورِ خوشی اور بس۔ مگر جانتے نہ تھے کہ چشمہ لگ جانے کے بعد نئی آزمائشیں شروع ہو جائیں گی۔ چشمہ لگنے سے قبل کسی قسم کی روک ٹوک ہمیں روکنے نہ پاتی تھی۔ راہ میں سمندر حائل ہوتا، یا فلک بوس پہاڑ یا پھر کوئی آوارہ کتا، ہم سینہ تانے چلتے رہتے تھے، کیوں کہ یہ نظر ہی نہ آتے تھے۔ اب معاملہ دوجا تھا۔ ساتھ والوں کے گھر کا کتا بھی سدِ سکندری لگتا تھا۔ ہم یہ سب برداشت کر رہے تھے، کیوں کہ جانتے تھے کہ اگر دنیا دیکھنی ہے، تو مشکلات تو آئیں گی ہی۔ ا       شرع شرع میں تو لوگوں نے بہت تنگ کیا۔ اتنا تنگ تو پڑوس والی چھیماں کو بھی نہیں کیا جاتا۔ ایک دن وہ ناس ماری چھیماں بھی مجھے رشک سے دیکھ رہی تھی کہ اب سارے محلے والے اس کی بجائے میرے درپے تھے۔ محلے میں نکلتے ہی ایک طوفان سا مچ جاتا۔ چشمش۔۔ چشمش کے نعرہ ہائے تحسین بلند ہوتے۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اگر میں کونسلر کے انتخاب میں کھڑا ہو جاؤں اور عینک اپنا انتخابی نشان بنا لوں تو میں جیت بھی سکتا ہوں۔ محلے میں بے تکلف لڑکے چشمے کی ’’ونڈ سکرین‘‘ کے سامنے انگلیاں لہرا کر دریافت کرتے کہ انہوں نے کتنی انگلیاں کھول اور کتنی داب رکھی ہیں۔ کوئی مجھے ڈم لائٹ بھی کہ دیتا تھا اور کوئی کوئی چار آنکھوں والا بھی کہتا تھا۔

چشمہ پہننے کے لیے ایک باقاعدہ تربیت درکار ہوتی ہے، جس کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔ ہم سمجھے کہ چشمہ کیا بنوایا، بینائی کا سرچشمہ اونے پونے داموں خرید کر گھر کو آئے، مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ پہلا پورا ہفتہ تو ہم نے یہ جاننے میں لگایا کہ چشمے کے ساتھ اور چشمے کے بغیر دنیا میں کیا فرق ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا ہوا تھا۔ ہم اپنا چشمہ ’’زیب تن‘‘ کرتے، اور پھر آنکھیں ٹیڑھی کر کے کونے کھدروں سے چشمے سے باہر کی دنیا دیکھتے اور پھر نگاہیں سیدھی کر کے چشمے کے ساتھ مشاہدہ فرماتے۔ ایک دن یہی کر رہے تھے کہ اچانک کسی بلا نے آ لیا۔ کسی نے زور سے پکڑ کر ہمیں زمین کے ساتھ لگا دیا۔ ہم نے چھڑوانے کی کوشش کی تو دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے باند دیے گئے، اور ہماری کمر کی سواری ہو گئی شروع۔ ہم نے بمشکل گردن موڑ کر پیچھے دیکھنا چاہا ہی تھا کہ ایک عدد جوتی ہماری ناک کے سامنے لہرائی گئی، ۔۔ ۔ افف! یہ جوتی تو بڑے بھیا کی ہے۔ موصوف بے روزگار ہیں اور آج کل کنز المجربات کے مطالعہ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ہمیں تب تک نہ چھوڑا جب تک ہماری چیخیں سن کر امی جان نہ آ گئیں۔ بھائی جان نے ہمیں چھوڑ تو دیا مگر جاتے جاتے کہہ گئے کہ دوبارہ مرگی کا دورہ پڑا تو وہ یہی علاج کریں گے۔

اس دن کے بعد تجربہ کرنا تو نہیں چھوڑا احتیاطاً کمرے کی کنڈی لگا لیتے ہیں۔

اِن ہی دنوں کی بات ہے، ہمارے دوست خان صاحب تشریف لائے۔ ملتے ہی کمر کو اس مضبوطی سے تھاما کہ پھر اس کے درد نے تھمنے کا نام نہیں لیا۔ خود سے علیحدہ کرتے ہوئے انہوں نے چہرے پر دو نئی آنکھیں اگنے کی مبارک باد دی۔ ان کے استفسار پر چشمے کی قیمت بتائی۔

۱۲۰۰ روپے ؟َ؟؟ غضب خدا کا! وہ بولے۔ ۔ میں تمہیں یہ چشمہ ۳۵۹روپے میں دلوا سکتا ہوں۔ ‘‘

ان کی اس بات سے میں نے اتفاق کیا۔ پچھلی عید پر ایک عدد لوفر انہوں نے مجھے ۵۰۰میں لا دیے تھے، اور عید نماز کے بعد ایک شخص اپنے بھائی سے جوتوں کی طرف اشارہ کر کے کوئی سوال بھی کر رہا تھا! ہم نے چشمہ اتارا، تہہ کیا اور سامنے ٹیبل پر رکھ دیا۔

’’ارے ! کیا غضب کرتے ہو؟‘‘ وہ بولے۔ چشمہ بھی بھلا کوئی یوں رکھتا ہے ؟‘‘

’’ارے بھائی اور کیسے رکھتے ہیں۔ ‘‘

’’ایسے۔ ۔ ‘‘انہوں نے شیشے اوپر کیا اور کمانیاں نیچے۔ ’’پتا نہیں کہاں سے پینڈو آ جاتے ہیں۔ ۔۔ آئندہ شیشے اوپر رکھنا۔ ‘‘

’’مگر کیوں ؟‘‘ سوال بنتا تھا۔

’’وہ اس لیے، تاکہ تمہارے شیشے سلامت رہیں۔ ‘‘

’’لیکن شیشے سلامت رہیں اور کمانیاں ٹوٹ جائیں تو میں عینک کو کیا کروں گا۔ ‘‘

’’ارے پگلے ! پھر عینک کے کونوں پر شلوار والا لاسٹک لگا کے عینک سر پر چڑھا لینا۔۔ ۔ تمہارے بھائی کے پاس ہر چیز کا علاج ہے۔ ‘‘ اگلا مالٹا چھیلتے ہوئے انہوں نے کہا۔

تربیت کا اگلا مرحلہ مسجد میں طے ہوا۔ وضو کرنے کے دوران ہم نے عینک سامنے جیب میں رکھ لی۔ ساتھ بیٹھے احمد علی صاحب بولے ’’یوں کریں اسے گریبان میں لٹکا لیں، ورنہ جب آپ منہ دھوئیں گے تو پانی چشمے کو داغ دار کر دے گا۔ ‘‘ ان کی بات بجا تھی، سوعینک گریبان میں ڈال لی۔ ایک دن بعد حاجی اکرم صاحب نے بتایا کہ کس طرح ان کی عینک وضو کے دوران پاؤں دھوتے ہوئے سامنے گر گئی تھی اور پھر اس کا مزاج بلغمی ہو گیا تھا۔ اب کے میں نے عینک پیچھے کالر میں لٹکانی شروع کر دی۔ اب اعتراض کی باری مولانا ٹنگ ٹانگ کی تھی۔ مولانا کا نامٹنگ ٹانگ کیوں تھا، پتا نہیں۔ انہوں نے آتے ہی فرمایا : ’’اویدے تسی دبنگ! یہ مسجد ہے۔ سلمان خان بننا ہے تو باہر تھڑے پر بیٹھو۔ ‘‘اب یوں ہے کہ مسجد جانے سے قبل ہی میں موبائل فون اور عینک گھر رکھ کر ٹامک ٹوئیاں مارتا مسجد جاتا ہوں۔ ایک دو بدتمیز بچے مجھے اندھا بھینسا بھی پکارنے لگے ہیں۔

اس طرح ہماری تربیت کا مرحلہ طے ہوا ہے۔

ہم تو چشمہ بس دیکھنے کے لئے پہنتے ہیں، پچھلے دنوں ایک چائنیز فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں ہیروئن اپنے محبوب کو بچانے کےئے اپنی عینک کے چشمے سے ولن کا نرخرہ کاٹتی ہے۔ یہ فلم دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ یہ عینک کتنی کارآمد شے ہے۔ ابا جان کو بھی ہم نے مشورہ دیا کہ اب یہ پستول ساتھ رکھنا چھوڑیں اور ایک عینک لگوا لیں۔ اس پر انہوں نے ہمیں ایک گھوری سے نوازا۔

صبحِ کاذب کے وقت نماز کے لیے جا رہا تھا کہ گلی میں دو نوجوان لڑکوں نے ٹیٹی دکھا کر روکا اور پیسے طلب کیے۔ ہم نے ایک دم عینک اتاری، اس کا شیشہ نکالا اور اس سے ان پر وار کیا۔ دونوں نے گھبرا کر بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ ہم بھی خوش خوش واپس آئے کہ اماں کو روداد سنائیں کہ ان کا بیٹا شادی کے قابل ہو گیا ہے۔ لیکن ابا جی کا ری ایکشن شاک میں ڈالنے والا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ایک فصیح و بلیغ خطبے میں ہمیں ہماری کوتاہیوں سے آشنا کیا، بلکہ چشمہ توڑنے اور اس کے بعد اس کے نقصان کو انجان ڈاکوؤں پر ڈالنے کی منصوبہ بندی کا مجرم بھی ٹھہرا ڈالا۔ اور سزا یہ تجویز کی گئی کہ یہ چند دن موبائل سے دور رہیں گے۔

دنیا ہے تیری منتظر اے روزِ مکافات!

خیر اس واقعے کے بعد نیا چشمہ مل گیا، لیکن پھر ایک دن ہمیں معلوم ہوا کہ چشمہ کے بنیادی ماڈل میں ہی ایک ڈیفیکٹ ہے۔ اس کا انکشاف یوں ہوا جب ہم موٹر سائیکل ڈرائیو کرتے ہوئے کھیل کے میدان سے آ رہے تھے اور راستے میں بارش شروع ہو گئی۔

’’اے بارِ خدا! یہ کیا؟‘‘ ہمیں لگنے لگا جیسے ہماری بینائی ہی چلی گئی ہو۔ چیزیں ایک ایک کر کے ہمارے سامنے دھندلاتی جا رہی تھیں، یوں لگ رہا تھا جیسے ہماری نگاہوں کا نور چھن رہا ہو۔ وہیں سڑک کنارے ہم نے موٹر سائیکل روکی اور بھرے بازار بیچ سڑک خدا کے حضور سجدہ کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگے۔ چند منٹ بعد کسی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا، ہم نے سجدے سے سر اٹھایا، اور چشمہ پھسل کر زمین پر آ رہا۔ اب سب کچھ صاف دکھ رہا تھا۔ لوگ حیرانی سے ہمارے ارد گرد جمع تھے، ہمارا کاندھا تھپتھپانے والا ریسکیو ۱۱۲۲ کا جوان تھا۔ ہماری ایک نہ سنی گئی۔ موٹر سائیکل ساتھ والے بندے کو دے کر ہمارے گھر روانہ کر دیا گیا اور ہمیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ۳ عدد اینجیکشن لگائے گئے، اور روزانہ کھانے کو گولیاں دی گئیں۔ ادھر اہلِ خاندان پہنچ گئے تھے۔ کچھ نہ پوچھئے کیا عالم ہوا تھا۔ اماں دھاڑیں مار رہی تھیں کہ اے مردود تو کیوں سیب کا مربہ نہیں کھاتا، آخر کمزوری کی بنا پر گر گیا ناں۔ ابا اس کی وجہ گاجر نہ کھانا بتا رہے تھے۔ اور جوان کزن دھیرے دھیرے زیرِ لب مسکرا رہے تھے۔ اب میں انہیں کیا بتا سکتا تھا ؟؟؟

اس سب معاملے میں یہ ہوا کہ ہمیں چشمے کے ماڈل میں خرابی کا پتا چلا۔ اور اب آپ یہ جان کر خوش ہوں گے کہ میں نے ایک نیا چشمہ بنا لیا ہے۔ اس چشمے میں ایسی کسی بھی صورتِ حال سے بچنے کے لیے شیشوں پر دو ننھے منے وائپرز لگائے گئے ہیں جو ایک بیٹری سے چلتے ہیں۔ بیٹری کمانی کے اندر فکس ہو گی۔ میں آج ہی یہ منصوبہ ابا کے سامنے رکھنے والا ہوں۔ مجھے امید ہے ابا اس پر مجھے داد ضرور دیں گے۔ آپ دعا کریں کہ اس مرتبہ کا نوبیل پرائز ہمارا ہی ہو!

آپ نے رنجیت سنگھ کے بارے میں پڑھا ہو گا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھتا تھا، دوسری تھی ہی نہیں۔ اس نے اپنی اکلوتی آنکھ سے جتنی دنیا نظر آتی تھی، اس پر ظلم کا بازار گرم کیے رکھا۔ واقعی اللہ کے کاموں میں مصلحت ہوتی ہے۔ اکثر کھانا کھاتے ہوئے وہ دائیں طرف کی ساری ڈشیں کھاتے اور بائیں طرف کی چیزیں ویسے پڑی رہتیں۔ اس لئے ان کا باورچی بھی جس چیز میں کسر رہ جاتی ان کی باہنی طرف رکھ دیتا تھا۔ کاش کہ اس وقت چشمے ایجاد ہو گئے ہوتے تو رنجیت سنگھ بھی رے بین کا کالا چشمہ اوڑھے آرام سے سلطنت چلاتا اور کسی کو پتا نہ چلتا۔

یادش بخیر، چشمہ زمین سے ابلنے والے پانی کو بھی کہتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم ایبٹ آباد جا رہے تھے۔ راستے میں ایک دادا ابو نما شخص بیٹھے تھے اور اپنے پرانے چشمے کو آنکھوں سے لگائے گاڑی کے باہر کے مناظر دیکھ رہے تھے۔ رنگین مزاج تھے۔ گاہے بگاہے رنگین آنچلوں کی طرف بھی توجہ فرما لیتے تھے۔ ہمیں ایک شرارت سوجھی۔ با آوازِ بلند اپنے کزن کو کہا ’’آج چل کر دیکھتے ہیں، سنا ہے ایبٹ آباد میں چشمے پھوٹتے ہیں۔ ‘‘

وہ حضرت زوجہ کی طرف دیکھ رہے تھے ( کسی اور کی)ہم نے چشمے کے پیچھے انہیں بدکتے دیکھا۔ ہم نے انہیں ہی مخاطب کر کے پوچھا ’’کیوں حضرت، ایبٹ آباد میں چشمے پھوڑے جاتے ہیں۔ ‘‘

اُنہوں نے برا سا منہ بنایا اور باہر دیکھنے لگے۔ اس کے بعد جب بھی وہ کوئی نظارہ دیکھنے کے بعد ’’منظر‘‘ دیکھنے لگتے ہم دوست کے کان میں کچھ بھی کہتے، وہ مسکراتا اور حضرت تلملاتے رہتے۔ بس سے اتر کر انہوں نے اتنا کہا ’’سخت نامعقول ہیں آپ۔ ‘‘

ہم نے ہنس کر پوچھا۔ ’’جناب معذرت۔ مگر یہ تو بتاتے جائیں کیا وہاں چشمے پھوٹتے ہیں ؟‘‘

اور وہ بکتے جھکتے وہاں سے چل دیے۔

چشمے کے نظر بہتر کرنے کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں۔ ہم چشمے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کانوں کا میل بھی صاف کر سکتے ہیں۔ گھبرائیے نہیں۔ حالتِ اضطرار میں سب جائز ہے۔ کچھ لوگ تو ناک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ آندھی کے وقت اگر آپ اہلِ چشمہ ہیں تو بائیک دوڑاتے ہوئے آپ آندھی سے اور دوسرے ٹکر سے محفوظ رہیں گے۔

چشمے کا لائسنس ہونا چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

چمچہ گیری

 

                   ڈاکٹر عابد علی

 

خوشامد ایک مہلک بیماری اور ایسا نا سور ہے جو باقی تمام صفات کو ختم کر دیتا ہے۔ یہ نالائق اور نا اہل افراد کے دلوں میں فضول شوق پیدا کرتی ہے۔ خوشامد کرتے وقت تیسرے درجے کے کنجوس، مکھی چوس کو بھی آپ حاتم طائی کہہ کر پکارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جلسے جلوسوں میں نعرے لگانا بھی خوشامد کے زمرے میں آا ہے۔ موقع کی سیاست سے فی البدیہہ نعرے گھڑنے کے فن کے ماہر کا لاؤڈ اسپیکر پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانا، مصروف چوراہوں پر، نمایاں عمارتوں پر، دیواروں پر چاکنگ اور بینر لگانا، افواہ سازی، بے پرکی اڑانا، رائی کا پہاڑ بنانا، کرپٹ سیاستدانوں کو پارسا ثابت کرنا، حادثات، گرفتاریاں، بد کاریاں اور اموات کی افواہیں پھیلانا بھی اسی کی کڑی ہے۔ بعض اوقات خوشامد بنا بنایا کام بھی بگاڑ دیتی ہے اس لئے سوچ سمجھ کر خوشامد کرنی چاہئے۔ ایک خوشامدی لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا، ہمیشہ گھوم پھر کر اپنے ہدف پر پہنچتا ہے۔ خوشامد ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ بقول شاعر مشکور حسین یاد ؎

جیسے ہی بندھی سونے کی زنجیر گدھوں سے

ہونے لگا ہر شخص بغلگیر گدھوں سے

مت پوچھئے کیا کیف کا عالم ہوا طاری

وابستہ ہوئی اپنی جو توقیر گدھوں سے

چاپلوس انسان اپنی زبان سے ایک وقت میں 2کام لیتا ہے یعنی تلوار کا بھی اور ڈھال کا بھی۔ جو معرکے بندوق سے نہیں ہو پاتے وہ چاپلوسی سے انجام دے لیتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں قصیدہ گو اپنے ممدوح کی شاعری کو شجاعت اور بہادری ظاہر کرنے پر بہادر الملک کا خطاب اور نشاط پور کی سپہ سالاری حاصل کرتے تھے۔ خوشامد ایک مہلک میٹھا زہر ہے جس کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ چپکے چپکے اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بقولِ شاعر ؎

خوشامد بڑے کام کی چیز ہے

زمانے میں آرام کی چیز ہے

خوشامد پہ کچھ خرچ آتا نہیں

’’خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں ‘‘

اب آئیے چمچہ گیری پر، ویسے تو چمچے کا لفظی معانی ڈوئی، کفچہ یا کفگیر کے ہیں اگر یہ چھوٹی جسامت کا ہو تو چمچی کہلاتا ہے۔ چمچہ گیری کسی آرٹ سے کم ہرگز نہیں، بقول شاعر ؎

زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں

ہر قدم پر چارۂ تدبیر ہونا چاہئے

صاحبِ توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں

آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے

چمچے کے بارے میں شاعر کے خیالات پیش ہیں ؎

بہت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب جب

مرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ

اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں

کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ

زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی

سرِ انجمن دندناتا ہے چمچہ

٭٭٭

 

 

 

پاپی پیٹ کے کرتب

 

                   گوہر رحمٰن گہر مردانوی

 

بھئی واہ! سبزی منڈی کی بھی کیا دنیا ہے۔ بھانت بھانت کے کمیشن ایجنٹس نہار منہ بغیر منہ دھوئے اُٹھ کر نہ جانے کہاں کہاں سے آئی ہوئی مختلف النوع سبزیوں اور پھلوں کے بھاؤ تاؤ میں لگ جاتے ہیں اور اذان سے پہلے یہ مرغے بانگیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مستزاد اِس پر یہ کہ اِن کی نعرہ مارکہ بولیاں بھی عجیب سا ماحول بنا دیتی ہیں۔ ایک جگہ سے آواز آتی ہے ’’آم کے سو فی پیٹی‘‘ اور بولی لگانے والا خراب ٹیپ ریکارڈر کی طرح ’’آم کے سو، آم کے دوسو، آم تین سو‘‘ رٹنا شروع کر دیتا ہے۔ مشرق سے آواز ابھرتی ہے ’’ سیب کے تین سو، فی پیٹی‘‘ مغرب سے سرسراتی آواز آتی ہے ’’ تین سو پچاس‘‘ پچھواڑے سے کوئی اور صاحب ہاتھ بلند ہو کر صدا لگاتے ہیں ’’چار سو‘‘ دوسرا ساتھ میں کھڑا اسے گھور کر غراتا ہے ’’پانچ سو‘‘ اور آڑھتی حضرات پھر نعرۂ روزگار بلند کرتے ہیں ’’پانچ سو، پانچ سو پانچ‘‘ اس طرح آخری بولی پر سودا طے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرچون والے، اف توبہ! ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہزاروں کّوے ایک ساتھ کائیں کائیں کر رہے ہوں۔ سو اس طرح سویرے سویرے سخت سردی میں سبزی منڈی کا ماحول گرم رہتا ہے۔ کچھ تو اتنے گرم مزاج ہوتے ہیں کہ کوڑیوں کے مول بکنے والے شلجم کی بوری بھی ’’سات آٹھ سو‘‘ میں خرید لیتے ہیں اس دوران ان لوگوں سے نماز فجر تک قضا ہو جاتی ہے مگر پاپی پیٹ کے ہزار نخرے، کیا کیا جائے۔

اب آپ قارئین حضرات سوچ رہے ہوں گے کہ بھئی اس میں مزاح کا کونسا پہلو نکلتا ہے تو سنیے حضرات ابھی آتے ہیں آپ کے پھیپھڑوں کے آپریشن کی طرف۔

ہوا یوں کہ صبح ڈیوٹی پر جاتے وقت ہمارا گزر سبزی منڈی سے ہوا کرتا تھا تو ریڑیوں، کیبنوں، ہتھ گاڑیوں اور ڈھاپوں کے جھنڈ دیکھ کر ہمیں ہول اٹھتے تھے کہ مبادا گاڑی سے کسی کو ٹکر نہ مار دیں، نہیں تو استقبال ٹماٹروں، ٹینڈوں، آلوؤں بلکہ جہازی ساز کے کدوؤں سے ہونا تھا، اس لئے مجال ہے کہ سرکنے کے علاوہ رفتار میں موہوم سا بھی اضافہ کر سکے۔ اور تو اور، کشادہ سڑک اتنی تنگ نظر آتی تھی کہ گاڑی تو کیا، انسان کبھی ترچھا چلے اور چھکڑے بان تو کبھی گدھا گاڑی سے بال بال بچے۔ اگر ناجائز تجاوزات کا ریکارڈ یافتہ نمونہ دیکھنا ہو تو مردان سبزی منڈی سڑک کا پھیرا لگا کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ لشکارے مارتی گاڑی سے گدھا گاڑی ٹکرائی ہوئی ہوتی ہے تو نو دولتیے ان بچاروں سے تاوان وصول کیے بغیر چھوڑتے ہی نہیں۔

ایک دفعہ ہم واپسی پر سبزی خریدنے رک گئے جبکہ پیسے جیب میں اِتنے تھے کہ جتنی ایک سرکاری ملازم بلکہ معلم کی اوقات ہوتی ہے۔ اب کار والے گاہک پہ نظر پڑی تو ہتھ گاڑی والا الگ آوازیں دے رہا ہے، ڈھاپے والا الگ کہہ رہا تھا ’’کیا چاہیے صاب؟‘‘ فروٹ فروش کہہ رہا ہے، ’’ کتنے کلو ڈالوں سر جی‘‘ اور یہ سر جی بچارا کان لپیٹے کسی سستی سبزی کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ مبادا بھرم نہ کھل جائے کہ کاروالا اور وہ بھی قلاش۔۔ ۔ مہینے کے آخری عشرے کے آخری دن تھے اور ہم ٹھہرے معصوم و مظلوم ملازم۔۔ ۔ ارد گرد عجیب عجیب سریلے و بھدے لاؤسپیکر جتنی تیز آواز یں۔ ۔۔ ’’سو کا مال چالیس، دو سو کا پچاس میں۔ ‘‘ ایک طرم خان یوں چیخ رہا تھا ’’سستے لے لو ٹینڈے لے کدو لے بھنڈی مرچ لے لو پیاز لے لو یہ دیکھو سوات کے تازہ ٹماٹر‘‘ ایک نے تو حاتم طائی کی قبر پر لات ماری کرسارندہ شروع کر دیا تھا ’’مفت لے لو مفتے لے لو مٹر تازے خستے لے لو‘‘ ہمیں مٹر بھائے اور خریدنے لگے مگر اُف جیب میں تھے دو سو اور وہ مفت کے مانگ رہا تھا تین سو۔۔ ۔ طوعاً و کرہاً ساتھ بیٹھے ہوئے اشفاق سے رقم لینی پڑی۔

میری دیکھا دیکھی اشفاق کو بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی سوجھی اور وہ اُن فروٹ کو خریدنے کے لئے گاڑی سے اُترا، جو شاید دور کے ڈھول سہانے کے مصداق اُسے اچھے لگے تھے۔ اب دیکھتا کیا ہوں کہ اس کے ساتھ بھی کئی فروٹ فروش کھینچا کھینچی کھیل رہے ہیں۔

’’بھائی صاحب دو سو کے ڈال دوں ؟ بالکل تازہ آم۔ ‘‘

دوسرا اس سے بھی تیز طرار نکلا ’’بھائی جی یہ دیکھیں، چکھ لیں بیشک‘‘ اشفاق کو ایک دانہ تھماتے ہوئے ایک خرانٹ پھل فروش بولا۔

اشفاق بے چارا بھی دو بھینسوں کے درمیان مرتا کیا نہ کرتا، اُسے دانہ تھمانے والے سے آم خریدنے ہی پڑے کیونکہ مروت بھی تو آخر کوئی چیز ہوتی ہے اگرچہ یہ چیز غربت کے مارے ہوئے ان لوگوں کے پاس رتی برابر بھی نہیں رہنے پاتی۔ پاپی پیٹ کے نخرے انہیں وہ کچھ کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ توبہ بھلی۔ اِنہیں ہر صورت پیٹ پوجا کی پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اشفاق جیسے با مروت گاہک ملیں تو جو تھوڑی بہت عزت ہوتی ہے، وہ بچی رہتی ہے ورنہ طعن و تشنیع سُن کر ہی سہی لیکن اُنہیں گاہک کو مال تو بہرحال بیچنا ہی پڑتا ہے۔ وہ عزت و خود داری جسے حضرت اقبال ’’خودی‘‘ کے نام سے موسوم کرتے چلے آئے ہیں، وہ گھر میں ہی چھوڑ کر آتے ہیں۔ اگر چہ محنت مزدوری با عزت طریقے سے بھی ممکن ہے مگر سبزی منڈی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ کوئی بھی گاہک خالی ہاتھ نہ لوٹنے پائے، سب کو ڈز لگاؤ اور ایسا ہاتھ دکھاؤ کہ مدتوں یاد رکھیں۔ اس کے لئے طعن و تشنیع سننا کوئی اچنبھے کی بات کہاں۔

اگر آپ کو کبھی اخلاق حسین کو سننے کا اتفاق نہیں ہوا تو دور مت جائیے ‘ سبزی منڈی تشریف لے آئیے۔ ۔۔ فروش پھل فروش اور سبزی بیچنے والے اِتنی سریلی آواز میں ’’ آلو ٹینڈے لے لو، پیاز لے لو، گوبھی لے لو‘‘ پکار رہے ہوتے ہیں کہ اُمیدِ واثق ہے کہ قبر میں اخلاق حسین کی روح بھی تڑپ تڑپ اُٹھتی ہو گی کہ موسیقی کو تو میں فلم نگری چھوڑ کر آیا تھا، یہ سبزی منڈی میں کیا کرتی پھر رہی ہے جبکہ اسے معلوم نہیں ہو گا کہ فلمیں شلمیں تو اب ایک انگلی کی مار ہیں۔ ۔۔ بھلا سنیما جا کر کسی نے مرنا ہے۔ کیا معلوم کس کونے میں کون خودکش حملہ آور بیٹھا ہوا ہو اور ہمیں ہمیشہ کے لئے عالمِ بالا کی سیر پر روانہ کر دے۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ سبزی منڈی کے دھانے پر ہی موسیقی سے لطف اندوز ہو لیا جائے۔

اگرخدانخواستہ کوئی ٹریفک پولیس والا آ جائے تو سب چوہوں کی طرح کونوں کھدروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں کہ ظالم کہیں ناجائز تجاوزات کا پرچہ ہی نہ کاٹ لے۔

جیسے تیسے میری اور اشفاق کی جان چھوٹی۔ رینگتے رینگتے سبزی منڈی چوک کو پار کیا اور گھر کی راہ لی۔

رات کو اکثر اشفاق سے فون پر رابطہ رہتا ہے۔ اس بار جب میں نے فون کیا تو اس نے جھٹ سے ریسیور اٹھا لیا۔ یوں لگتا تھا جیسے میرے فون کے انتظار ہی میں بیٹھا ہوا تھا۔ چھوٹتے ہی اس نے پھل فروش کی شان میں ایسی قصیدہ خوانی کی کہ الامان و الحفیظ۔ اس دوران جب وہ ذرا سانس لینے کے لئے رُکا تو میں نے استفسار کیا کہ بھئی کیا ہوا ہے ؟ کس نے دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے ؟؟ اس پر اُس نے پھر اس پھل فروش کی شان میں ایسی موٹی موٹی گالیاں نکالیں کہ اگر احاطۂ تحریر میں لائی جائیں تو ہمیں منٹو کی کیٹیگری میں با آسانی جگہ مل سکتی ہے۔ اُس نے وضاحت شروع کر دی کہ اس۔۔ ۔ (خالی جگہ کو آپ اپنے ظرف اور اشفاق کے پٹھانی خون کے لاوے کا قیافہ کر کے از خود پُر کر لیں ) پھل فروش نے آنکھوں میں سلائیاں پھر کر رکھ دی تھیں اور کمال مہارت سے آم کے نام پر ایسا ایسا گند شاپر میں ڈال کر مجھے تھما دیا تھا کہ کیا بتاؤں۔ ‘‘

ہاہاہاہاہا او ہو ہو ہو ہو۔۔ ۔ میری ہنسی کسی صورت تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور اشفاق تھا کہ غصے سے فوں فوں کر رہا تھا اور اُبل اُبل پڑتا تھا۔ میرے قہقہے پر مزید چراغ پا ہو گیا اور بولا ’’ہاں ہاں یار! تو بھی میرا مذاق اُڑا۔۔ ۔ بیگم نے تو ویسے بھی کچھ کسر نہیں چھوڑی۔ ‘‘

میں نے کہا ’’یار! میں تم پر نہیں ہنس رہا ہوں بلکہ اپنے آپ پر ہنس رہا ہوں۔ اُس ستم ظریف نے تو میری آنکھوں میں بھی دھول جھونک کر رکھ دی تھی۔ ایسی ایسی گلی سڑی سبزیاں تھما دی تھیں کہ توبہ بھلی۔ پچھلے دو گھنٹوں سے ایک تو اپنے حق حلال کے کمائے ہوئے پیسوں کا ماتم منا رہا ہوں، دوسرا گھر والی کی باتیں الگ میرا خون جلا رہی ہیں۔ میری فضول خرچی اور احمقانہ طرز عمل پر اُس خدا کی بندی نے میری ایسی خبر لی ہے کہ چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے۔ گویا ہم دونوں ہی نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ ہماری ساری چالاکی دھری کی دھری رہ گئی۔ بڑے اُستاد بنے پھرتے تھے اور دنیا کو پڑھانے کا دعویٰ کرتے تھے، وہ الف بے سے بھی نابلد لوگ ہمیں پڑھا کر چلے گئے۔ ۔۔ بلکہ با الفاظِ دیگر ہمیں اُلو بنا کر چلے گئے۔ ۔۔ لیکن خیر، مجھے اس بات کا اطمینان بھی ہے کہ میں اکیلا ہی اُلو نہیں ہوں۔ ۔۔ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے۔ ۔۔ ۔ ہاہاہاہا۔ ‘‘

فون کو کریڈل پر رکھنے کے بعد بھی میں کافی دیر تک یہی سوچتا رہا کہ پاپی پیٹ بھی انسان کو کیا کیا ہنر سکھا دیتا ہے۔ فطری طور پر خالص چیزوں میں بھی دھوکہ دہی اور چال بازی کا یہ عالم ہے تو دیگر کاروبارِ حیات میں کیا کیا طرز عمل نہ اپنایا جاتا ہو گا۔

اللہ ہمیں صحیح کاروبار کی توفیق دے۔ آمین!

٭٭٭

 

 

 

احتجاجاً ہنسو

 

                   شوکت علی مظفر

 

موبائل فون کے شور کرنے پر اس کی اسکرین دیکھی تو نامعلوم نمبر جگمگا رہا تھا۔ ہم نے کال ریسیو کی، دوسری جانب کوئی صاحب پشاور سے بول رہے تھے۔ اُنہوں نے ہمارے ہیلو کے جواب میں کہا ’’تم لوگ اب مذاق کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتی۔ ‘‘

ہم نے صفائی پیش کی ’’مگر میں نے تو آپ سے کوئی مذاق کیا ہی نہیں۔ ‘‘

’’مجھ سے نہیں کیا مگر کر تو رہی ہے۔ ‘‘ خان صاحب نے اُردو میں پشتو گرامر کے ساتھ کہا۔

’’آپ کو غلط فہمی ہو گئی ہے یا پھر میں آپ کی بات نہیں سمجھ پا رہا، آخر بتائیے تو سہی یہ کس مذاق کی بات کر رہے ہیں جو ہم سے سرزد ہو گیا ہے ؟‘‘

’’اپنے کالم میں مذاق کرتے ہو اور کیا؟ اب یہ سب ختم کرو، ہنسنے کا نہیں رونے کا وقت آ گیا ہے، پہلے افغانستان میں خونریزی کی گئی اسامہ تو نہ ملا مگر سب کو انصاف خوب فراہم کیا گیا، اپنے پرائے کو ایک ہی بندوق سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عراق میں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا گیا، پھر لبنان میں ہونے والی قتل و غارت نے آنکھیں نم کر دیں اور اب ملکی صورتحال بھی اس قابل نہیں کہ ہنسا جائے، بگٹی کو مار دیا گیا اور اس کے بدلے میں دو صوبے کلی طور پر اور دو صوبے جزوی طور پر اس کی وجہ سے مسائل کا شکار ہوئے۔ کراچی، حب اور کوئٹہ میں جو ہنگامہ آرائی اور بم دھماکے ہوئے اس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو کیا اب بھی ہم ہنسنے کے قابل رہے ہیں ؟ اب رونے کا وقت ہے، سنجیدہ ہونے کا وقت ہے اس لیے اب بس کرو۔۔ ۔ مذاق بند کر دو اور احتجاجاً ہی سہی سنجیدہ لکھو۔ ‘‘

خان صاحب نے درج بالا باتیں بھی پشتو گرامر کے ساتھ ہی ادا کی تھیں مگر ہم نے اسے کسی حد تک ’’ادبی‘‘ کر دیا ہے۔ خان صاحب کی باتیں کافی وزن دار سہی لیکن ہماری بھی مجبوری ہے، ہم لاکھ کوشش کے باوجود بھی چاہیں تو سنجیدہ نہیں لکھ سکتے۔ ایک مرتبہ تو والدہ کے کہنے پر گاؤں تعزیتی خط لکھنے بیٹھ گئے، مکمل کیا تو والدہ نے پڑھ کر سنانے کو کہا، ہم نے ابھی آدھا ہی خط پڑھا تھا کہ والدہ کی آواز سنائی دی ’’اسے پھاڑ کر پھینک دو۔ ‘‘

’’آخر کیوں، اتنی محنت سے لکھا اور آپ کہہ رہی ہیں اس تعزیت نامہ کو پھاڑ دوں۔ ‘‘ ہم نے وجہ جاننا چاہی۔

’’تعزیت نامہ۔۔ ۔ ‘‘والدہ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کس تعزیت نامہ میں یہ لکھا جاتا ہے، ہم سب یہاں خیریت سے ہیں اور آپ بھی ’’خوش‘‘ ہوں گے اور باقی کے جملے بھی یقیناً تم نے اسی طرح کے لکھے ہوں گے۔ ‘‘

اب آپ خود ہی سوچئے ہم بھلا والدہ محترمہ کو کیسے سمجھاتے کہ یہ تو ابتدائی رسمی جملے تھے، خیر خان صاحب کے حکم کے مطابق ہم نے سوچا تھا کہ اِس مرتبہ سنجیدہ لکھنے کی کوشش کریں گے، لیکن ہمیں انتہائی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ بقول شاعر

کون بہتے ہوئے اشکوں پہ نظر رکھتا ہے

لوگ ہنستے ہوئے چہروں کو دعا دیتے ہیں

ہم صرف دعاؤں کے حصول کے لیے ہی چہرے پر مسکراہٹ سجائے رہتے ہیں مگر نجانے مَلک اس بات کو کیوں نہیں مانتا، کہتا ہے تمہارا چہرہ ہی ایسا ہے۔ بے شک چہرہ ایسا ہو گا مگر تحریر کو اس طرح کرنے میں بڑی محنت کرنا پڑتی ہے، اب خان صاحب نے فرمائش کی ہے، میں احتجاجاً سنجیدہ لکھوں۔ ۔۔ مگر کیسے لکھوں ؟ہر کسی کے احتجاج کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے، امریکی احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی بے بس ملک میں بمباری کر دیتے ہیں۔ برطانیہ والے کسی واقعے پر احتجاج کرنا چاہیں تو ایک یا دو منٹ کی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ چائنا والے احتجاجا ایک دو گھنٹے زیادہ کام کرتے ہیں۔ بھارت احتجاجاً دھمکیاں دیتا ہے اور پاکستان میں احتجاجاً اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لی جاتی ہے، اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا دیا جاتا ہے۔ ۔۔ اِسی طرح نامور شخصیات احتجاج کرنے پر آئیں تو زاہدہ حنا، نسیم زہرہ، احمد فراز جیسے لوگ اپنے حصے میں آئے ہوئے ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ۔۔ سیاستدان ہوں تو دھرنے اور ہڑتالیں کروانے پر تل جاتے ہیں۔ ۔۔ طالب علم ہوں تو کتابیں پھینک کر کلاشنکوف اٹھا لیتے ہیں۔ ۔۔ اداکارائیں ہوں تو احتجاجاً پورا لباس پہننا شروع کر دیتی ہیں۔ ۔۔ غریب غربا اور ان پڑھ لوگ ہوں تو پُتلے اور ٹائر جلا کر احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ ۔۔ احتجاج بھی انتقام ہی کا ایک جزو ہے، ادنیٰ اور کمتر درجے کا انتقام۔۔ ۔ غرض ہر ملک اور فرد کا احتجاج کرنے کا اپنا انداز ہے، انتقام لینے کا اپنا ہی طریقہ ہے، بالکل ان صاحب جیسا جو قریب المرگ تھے اور ان کی اہلیہ ان کے سرہانے بیٹھے ان کی وصیت سن رہی تھیں، وہ کہنے لگے ’’تم میرے مرنے کے بعد شکور صاحب سے شادی کر لینا۔ ‘‘

’’مگر وہ تو تمہارے کاروباری حریف رہے ہیں !‘‘ اہلیہ نے ماضی میں جھانکتے ہوئے کہا ’’’ ہر موقع پر انہوں نے آپ کو نقصان پہچانے کی کوشش کی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں میں ان سے شادی کر لوں۔ ‘‘

’’ہاں ‘‘۔۔ ۔ ‘ شوہر نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا ’’میں اس سے زیادہ بہتر انتقام اُس بد فطرت انسان سے نہیں لے سکتا۔ ‘‘

اسی طرح خان صاحب نے احتجاج کرنا چاہا تو ہمیں فون پر سخت لہجے میں سنجیدہ لکھنے پر زور دیا، خان صاحب کا احتجاج اور فرمائش کا احترام مجھ پر قرض بھی ہے اور میرا اخلاقی فرض بھی۔۔ ۔ مگر میں سنجیدہ نہیں لکھ سکتا کیونکہ احتجاج کرنے کا میرا بھی اپنا ہی انداز ہے، بقول شاعر ؎

ہنسو آج اِتنا کہ اس شور میں

صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے

٭٭٭

 

 

 

مرزا جی

 

                   سید ممتاز علی بخاری

 

ہمارے دوست چپ شاہ کہتے ہیں کہ لفظ مرزا در حقیقت ’’مر ذرا‘‘سے ماخوذ ہے۔ اس کی تاویل وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس قوم کے لوگ ذرا ذرا سی بات پر مرنے مارنے کو تیار ہو جایا کرتے تھے۔ اس لیے اُس دور کے نامور اور آج کے نامعلوم دانشور نے انہیں مر ذرا کا خطاب دیا جو امتدادِ زمانہ کے باعث مرزا رہ گیا ہے۔ خیر یہ چپ شاہ کی ذاتی رائے ہے جس سے میرا، آپ کا یا کسی کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔ چپ شاہ تو مرزا نام میں سے مرچوں کی تاثیر بھی نکالنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مرزا بہت عاشق مزاج ہوتے ہیں۔ مرزا صاحباں کی لوک داستان اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ وہ واحد داستان ہے جس کا عاشق تاریخ میں اپنا نام محبوب سے آگے لکھوا کر فخر محسوس کرتا ہے۔ اگر عشق ان کی وراثت نہ ہوتا تو پھر مرزا غالب کیوں ایک ڈومنی کے عشق میں مبتلا ہوتے۔ اردو ادب کی تاریخ دو اقسام کے ادیبوں کا مجموعہ ہے۔ ایک وہ جو میر یا مرزا ہیں اور دوسرے وہ جو ان کے فیض یافتہ ہیں۔ اب آپ خود ہی نظر دوڑائیں ادب کی دنیا کے شہسوار میر قوم کے سپوت میر تقی، میر درد، میر انیس۔۔ ۔ اور مرزا قوم سے تعلق رکھنے والے مرزا غالب، مرزا داغ، مرز سودا وغیرہ وہ ادیب ہیں جن کے بغیر اردو ادب کی تاریخ نامکمل ہی رہے گی۔

اُردو ادب کا دامن طنز و مزاح کے حوالے سے ایسے ہی تنگ ہے جیسے لاہور کے گلی محلوں کی سڑکیں۔ بس ہر طرف دو ادیبوں کا چرچا ہے۔ اول پطرس بخاری جنہیں بابائے طنز و مزاح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دس پندرہ مضامین لکھ کر ادب کی دنیا میں تہلکا مچا دیا اور دوسرے مشتاق یوسفی جن کے حوالے سے ناقدین یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم دورِ یوسفی میں رہتے ہیں۔ ناقدین یقیناً بیوٹی پارلرز کی روز افزوں بڑھتی تعداد کو نظرانداز کر رہے ہیں وگرنہ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ ’’سب پاؤڈر کا کمال ہے ‘‘۔ لوگ ان کی تحریروں کی چاشنی اور عوام میں اثر پذیری کا باعث ان کی صحت، زباں، حس مزاح اور طرز بیان کو قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک اُن کی شہرت کی اصل وجہ دونوں کے دوست مرزا عبد الودود بیگ اور مرزا ہیں کہ جن کی عاقلانہ حرکتوں اور فاضلانہ نظریات و خیالات اِن مصنفین کی تحریروں کا خاصہ ہیں۔

ابنِ انشاء بھی طنز و مزاح کا بہترین تخلیقی اثاثہ رکھتے ہیں لیکن اُن کی قدر پذیرائی نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا کوئی ’’مرزا‘‘ دوست نہ تھا۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ مرزا بحیثیت قوم ان کے دشمن تھے۔ ہاں یہ طے ہے کہ کوئی دوست نہ تھا۔ اسی لیے تووہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر سے جی کا لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جو گی کا نگر میں ٹھکانا کیا

یہ شعر جب ہم سے چپ شاہ نے سنا تو انہوں نے پوچھا کہ کس وحشی سے ابن انشاء کا واسطہ پڑا تھا لیکن ہم خود اس بات سے لاعلم تھے۔

پچھلے وقتوں میں ہر دوسرا شخص مرزا ہوا کرتا تھا۔ آج کل تو صرف دو مرزا ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مرزا عبدالودود بیگ اور دوسرے ذوالفقار مرزا۔۔ ۔ !!! اگر فہمیدہ مرزا کو بھی گنتی میں شامل کر لیں تو اس زمانے میں پورے اڑھائی مرزا ہیں۔ ہماری اس بات پر چپ شاہ معترض ہوئے کہ مرزاؤں میں ثانیہ مرزا بھی تو ہے۔ پھر ہم نے ’’میر تقی میر‘‘ کے فارمولے کو اپناتے ہوئے مرزاؤں کی تعداد پونے تین کر دی۔

مرزا لٹھ مار بھی ہوتے ہیں۔ جس کو یقین نہیں آتا وہ ’’ذوالفقار مرزا‘‘ کو دیکھ لے۔ پرانے وقتوں میں شہرت اور ناموری کا دوسرا نام ہوا کرتا تھا تبھی تو مرزا قادیانی نے اس نام کو اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے استعمال کیا۔ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک انتہائی نفیس اور شائستہ انسان ہمارے محلے میں منتقل ہوا۔ بڑا ہی اچھا ہمسایہ ثابت ہوا۔ ایک دو روز میں ہی ہم گھل بیٹھے۔ جب اسے ہمارے ادیب ہونے اور چپ شاہ کے مفکر ہونے کا علم ہوا تو عددی مساوات نہ ہونے کے باوجود خوب نبھنے لگی۔ ایک دن ہم بیٹھے مریخ کے مستقبل کے حوالے سے ایک دوسرے کو اپنے زریں خیالات سے آگاہ کر رہے تھے کہ اچانک ہمارے محلے میں رہنے والا ایک توتلا ہمارے کمرے میں گھس آیا اور آتے ہی پھولی سانس کے ساتھ سلام دعا کرنے کے بعد ہمارے ہمسائے جن کا نام مرزا خلیق الزمان تھا، سے کہنے لگا ’’مرزائی! آپ کو ایک بندہ بُلا رہا ہے۔ مجھے آپ کی بیگم نے بھیجا ہے۔ ‘‘

مرزا صاحب کو بہت غصہ آیا۔ وہ ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ’’لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔۔ ۔ بھائی قسم لے لو۔ میں مسلمان ہوں مرزائی نہیں۔ ‘‘اس کے بعد اس بے چارے کی اتنی دھنائی کی کہ خدا کی پناہ۔۔ ۔ بڑی مشکل سے ہم نے مرزا صاحب کو ٹھنڈا کیا۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ یہ بے چارہ قوتِ گویائی سے معذور ہے اُس وقت تک وہ قوتِ سماعت بھی گنوا چکا تھا۔

آج بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مرزا شہرت اور دولت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مرزا کے حصول کے لیے ہم نے بھی منصوبے بنانے شروع کیے لیکن ہم ابھی سوچوں کے بھنور میں غوطے لگا رہے تھے کہ شعیب ملک نے بازی جیت لی۔ پھر ہم نے اپنی تحریروں کے لیے کسی مرزا کا سہارا لینے کی کوشش کی لیکن پہلے ہی مرحلے میں چپ شاہ گلے پڑ گئے۔ اب ہم ان کے پاؤں پڑتے ہیں لیکن ان سے پیچھا نہیں چھٹتا۔

چپ شاہ کا کہنا ہے کہ کسی دور میں مرزا بھی فلم انڈسٹری پر اسی طرح چھائے ہوئے تھے جس طرح آج پنجابی فلم میں "گجر”راج کر رہے ہیں۔ اُس دور کی چند فلموں کے نام دروغ بر گردنِ چپ شاہ یہ ہیں : پھڑک مرزا، مرزا کی قربانی، عاشق مرزا، حسینہ اور ظالم مرزا اور پیاسا مرزا۔۔ ۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

قبلہ حکیم صاحب

 

                   کائنات بشیر

 

عزت مآب قبلہ جناب

حکیم جی!

ہوا کے ہاتھ اک ارمان بھیجا ہے

روشنی کے ذریعے اک پیغام بھیجا ہے

فرصت اگر ملے تو اسے قبول کر لینا

اس ناچیز نے پیارا ساسلام بھیجا ہے

خاکسار۔۔ گ، ب، ج

جواب: وعلیکم السلام، والسلام۔۔ چشم ما روشن دل ما شاد

( شکر ہے کسی نے تو ہمارے دل کو سمجھا ورنہ لوگ تو ہمیں ہر وقت جڑی بوٹیوں، نباتات کی پوٹلی سمجھتے ہیں )

٭٭٭٭

سوال: عزت مآب حکیم صاحب، میری مونچھ پر بالخورہ ہو گیا ہے۔ کافی سارے نسخے آزمائے، ڈاکٹر کو بھی دکھایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ برائے مہربانی رہنمائی کریں ؟

جواب:

( مونچھوں کو ہٹا لے چہرے سے

تھوڑا سا اجالا ہونے دے )

اے میاں ! جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو تم لوگوں کو حکیم کی یاد آتی ہے۔ پہلے بھاگے بھاگے ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہو۔ انٹ شنٹ دوائیاں کھاتے ہو۔ اول جلول ٹیکے لگواتے ہو۔ اب حکیم کوئی جادوگر تو ہے نہیں کہ چھڑی گھما کر تمھاری مونچھوں کو واپس لے آئے۔ بہتر ہے مونچھیں صفا چٹ کرا دو مطلب کلین شیو کر لو اوردوست احباب، خاندان میں یہ بات پھیلا دو کہ مونچھوں کا فیشن بالکل ختم ہو گیا ہے۔

٭٭٭٭

سوال: حکیم صاحب، میری بہن کے بال بہت گھنے اور لمبے ہیں۔ اب ان میں بہت جوئیں پڑ گئی ہیں۔ کچھ مہربانی فرمائیں ؟

جواب: لو کر لو بات، میں کیا مہربانی فرماؤں وہ تو تمہاری بہن نے مفتا مفتی تم سب گھر والوں پہ فرما دی ہے۔ پھر بھی پوچھا ہے تو بہتر ہے کہ بہن کے بال بوائے کٹ کروا دو۔ اگر اس کی جگہ بھائی ہوتا تو میں ٹنڈ کروانے کا مشورہ بے دریغ دے دیتا۔ اور تارا میرا کا تیل خوب اچھی طرح اس کے بالوں میں ڈال کر مساج کرو تا کہ جوئیں وہیں پہ دھیں پڑاس ہو جائیں۔

٭٭٭٭

سوال: جناب میری عمر صرف ۲۰ سال تھی جب میرے چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔ اب جبکہ میری عمر ۴۱ سال ہے تو چہرے کی جھریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ خدا را کوئی علاج بتائیں تا کہ میرا چہرہ جھریوں سے بالکل پاک ہو جائے ؟

جواب:

ابھی تو میں جوان ہوں، ابھی تو میں جوان ہوں

محترم، سب سے پہلے تو یہ جوانی شوانی والے گیت سننا بند کر دیں۔ ویسے بھی عمر ریوانڈ نہیں ہو رہی جو تم ماتم کر رہے ہو۔۔ اس عمر میں جھریاں نہیں پڑیں گی تو کیا چہرے پہ نور پڑے گا؟ میاں تمہاری جگہ کوئی خاتون شکوہ گو ہوتیں تو میں اسے گھونگھٹ نکالنے کا مشورہ دے دیتا۔ خیر تمہارے لیے بہتر ہے کہ شیشہ دیکھنا بند کر دو۔ گھر والوں سے کہہ دو نگار خانے (گھر) کے تمام آئینے چھپا دیں ویسے بھی،

مجھے یقین ہے آرائش جمال کے بعد

تمہارے ہاتھ سے آئینہ گر گیا ہو گیا

٭٭٭٭

سوال: مکرمی حکیم صاحب، میرا مسئلہ بڑا انوکھا ہے۔ رات کو سوتے وقت میرے منہ میں تھوک جمع ہو جاتا ہے۔ سردیوں میں یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ کچھ علاج معالجہ ممکن ہے ؟

جواب: ’’رال ٹپکاتے رہنا‘‘ یہ محاورہ تو نصاب میں پڑھا ہی ہو گا۔ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ کھانے کی خواہشات بہت زیادہ ہیں جنہیں آپ پورا نہیں کر پاتے اور میاں خواب میں رال ٹپکاتے ہو۔ سردیوں میں زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ خواب میں آپ کو گھی سے نچڑتے مرغن تر بتر کھانے، نِہاری نَہوری، پائے شائے، ککڑ شکڑ، حَلوے حُلوے پریشان کرتے ہوں گے۔ اس لیے سوتے وقت ہاجمولا کی دو گولیاں چوس لیا کریں تا کہ ہاضمہ ہوضما درست رہے۔

٭٭٭٭

سوال: جناب، میرا نام فلاں ڈھمکاں ہے۔ کوئی آسان سا نسخہ بتائیں جو گھر میں بنایا جا سکے۔ جس کے اجزاء آسانی سے مل جائیں۔ ہم بورنگ کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے بازاری شیمپو استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ کوئی نسخہ بتا دیں تا کہ اوروں کا بھی بھلا ہو جائے۔

جواب: برخوردار، نام میں کیا رکھا ہے۔ للو پنجو، گ ب سے بھی کام چل جاتا۔ پر مسئلہ تو اچھے سے لکھا ہوتا۔ تمہارا آدھا ادھورا سوال پڑھ کر میں چکرا گیا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس چیز کا نسخہ چاہ رہے ہو۔ اگر شیمپو کا نسخہ طلب کر رہے ہو تو پھر بازار میں موجود سینکڑوں شیمپو کس کام کے۔ ۔ ؟ تمہیں بنانے کا طریقہ بتا دیا تو شمپو بنانے والے ہم حکیموں کو منہ بھر بھر کر بد دعائیں دیں گے۔ اور کسی کی روزی پر لات مار کر جو منہ ہم دنیا میں لے کر بیٹھے ہیں، آخراسے ایک دن خدا کو بھی لے جا کر دکھانا ہے۔ اگر صابن بنانا چاہتے ہو تو یہ گھوٹا گھوٹی تمہارے بس کا کام نہیں۔ اپنے حال پر شکر ادا کرو اور حمام میں جا کر نہا لیا کرو۔ شیمپو، صابن اور پانی تینوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

٭٭٭٭

سوال:

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

جواب: لو کر لو بات، میاں !!!

دل تمہارا، جگر تمہارا، گردے تمہارے۔ ۔ میں کیا جانوں۔ بچو! کسی شاعر سے رابطہ کیا ہوتا۔ وہ تمہیں آسمان کے تارے گن کر بتا دیتا۔ عشق کی بلندیاں اونچائیاں، کھائیاں ناپ کر بتا دیتا۔ محبوب کی گلی کا پتہ، تمہارے درد کی شدت کی انتہا اور دوا دارو بھی کر دیتا۔

٭٭٭٭

سوال: معزز حکیم جی، صبح اٹھنے کے بعد میراسر بھاری اور مزاج میں غصہ اور چڑچڑا پن ہوتا ہے۔ کہیں مجھے بلڈ پریشر، ڈپریشن تو نہیں۔ ۔ ؟ دوسرا ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھوں ہوں تو ٹانگ اور پاؤں سُن ہو جاتے ہیں۔ کچھ مسئلہ حل فرمائیے گا؟

جواب: مکرم، لگتا ہے رات کو بیوی سے دھا دھا دھم دھما دھم لڑائی کے بعد سوتے ہو۔ جس کا اثر صبح تک برقرار رہتا ہے۔ بلڈ پریشر، ڈپریشن کی تشخیص ڈاکٹر کے لیے رہنے دو اور ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کر نوابوں کی طرح بیٹھنے کی آخر ضرورت کیا ہے۔ ٹانگوں کی قینچی بنا کر بیٹھا کرو یا پھر پھسکڑی مار کر۔

٭٭٭٭

سوال: حکیم صاحب مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ جو نسخے ٹوٹکے بتاتے ہیں وہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ دوسرا ان جڑی بوٹیوں کے نام ایسے نایاب قسم کے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے یہ اس کرۂ ارض کی جڑی بوٹیاں نہ ہوں۔ اور پھر یہ بھی نہیں پتہ کہ دوا تیار ہونے کے بعد کس رنگ کی بنے گی؟

جواب: محترم تم لوگ ڈاکٹروں کی ایلوپیتھک دوائیاں تو بڑے مہنگے داموں جھٹ پٹ خرید کر اپنی کھال اتروا لیتے ہو اور حکیمانہ نسخے تمہیں مہنگے لگتے ہیں۔ میں نے کونسا مشک، عنبر، زعفران ان نسخوں میں ڈالا ہے۔ محترم یہ دوائیاں ہیں کوئی مصالحہ جات نہیں کہ بعد میں ہنڈیا کس رنگ کی بنے گی۔ اور حضرت میں اسی دنیا کی جڑی بوٹیاں بتاتا ہوں کوہ قاف کی نہیں۔

٭٭٭٭

سوال: حکیم صاحب، میری پسلیوں اور پیٹ میں ہوا گردش کرتی رہتی ہے اور کھڑ کھڑ کی آوازیں آتی رہتی ہیں جس سے چار لوگوں میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا علاج بتائیں کہ آوازیں آنا مستقل بند ہو جائیں۔

جواب: ہے شاوا شے بھئی، لگتا ہے تمہارے پیٹ میں کوئی باورولا آفت مچائے ہوئے ہے۔ اس لیے چار لوگ چھوڑ یہ تنہائی میں بھی اپنا ساز بجا کر رہے گا۔ بادی اشیاء گوَبھی گُوبھی، مَٹر مُٹر، بھِنڈی بُھنڈی کھانا بند کر دیں۔ گو مُولیوں کے استعمال سے فضا میں پلوشن بڑھ سکتی ہے پھر بھی سلاد میں ضرور ان کا استعمال جاری رکھیں۔

٭٭٭٭

سوال:حکیم جی، مجھے وہم کی بیماری ہے۔ ہر وقت ہاتھ دھوتی رہتی ہوں۔ کوئی نسخہ عنایت فرمائیے۔ ؟

جواب: بی بی۔ اس سوال کا جواب تو بہت پہلے مشہورِ زمانہ مفکر لقمان حکیم نے دے دیا تھا کہ وہم کا کوئی علاج نہیں۔ اب بتاؤ میں لقمان حکیم کی بات کیسیجھٹلا سکتا ہوں۔ ویسے بار بار ہاتھ دھونے میں حرج کیا ہے۔ ساتھ ساتھ لَکس لُکس صابن سے منہ بھی دھو لیا کرو تو مسکراتا ہوا نورانی چہرہ دیکھ کر تمہارے گھر والے کا دل بھی باغ باغ ہو جائے گا۔ وہ خود بخود گاتا پھرے گا، ،

تعریف کروں کیا اس کی جس نے تمہیں بنایا

٭٭٭٭

سوال: جناب، مجھے بچپن سے انگوٹھا چوسنے کی عادت ہے۔ اب میں جوان ہو چکا ہوں لیکن نیند میں اب بھی یہ عادت ہے۔ جب صبح اٹھتا ہوں تو خود کو انگوٹھا چوستے ہوئے پاتا ہوں۔ کوئی نسخہ بتا دیں جس سے یہ عادت چھوٹ جائے۔

جواب: اے لو کر لو بات۔۔ میاں کل کو تمہاری شادی ہو گی تو تمھیں انگوٹھا چوستے دیکھ بیوی کیا سوچے گی کہ میں نے کسی منے سے شادی کر لی ہے۔ جو عادت تمہارے والدین کو چھڑوانی چاہیے تھی اس کے لیے تم میرے پاس لپکے چلے آ رہے ہو۔ خیر۔۔ بازار سے ایک تولہ ایلوا لا کر اس کا گاڑھا لیپ بنا کر انگوٹھے پر لگا لیا کرو۔ جب انگوٹھا منہ میں ڈالو گے تو لگ پتہ جائے گا تمہیں۔

٭٭٭٭

سوال: حکیم صاحب!

میرا دل گھبرائے میری آنکھ شرمائے

کچھ سمجھ نہ آئے رے کہ مجھے کیا لاگے

جواب:

(اونہوں، یہ کس طرح کے انٹ شنٹ، ال بٹل سوال آنے لگے ہیں )

برخوردار، میں تمہاری نبض کا معالج ہوں۔ تمہاری بے شرم آنکھ، اول جلول جذبات، دل کی بے ہنگم دھڑکنوں کا معالج نہیں ہوں۔ نہیں ہوتا کسی طبیب سے اس مرض کا علاج۔۔ ۔ عشق لاعلاج ہے، بس پرہیز کیجئے

٭٭٭٭

سوال: جناب مکرم، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں دریائے راوی میں زبردست سیلاب آیا تھا اور لاہور شہر کو بڑا نقصان پہنچا تھا لیکن باوجود دریائے راوی کے کنارے ہونے کے بادشاہی مسجد نہیں ڈوبی تھی بتائیے گا کہ کیوں؟

جواب:او میاں تاریخ کی اولاد، یہ سوال تمھیں کسی خشک، بور تاریخی استاد سے پوچھنا چاہیئے تھا پھر بھی طفلِ مکتب تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اکبر کے زمانے میں بادشاہی مسجد نہیں بنی تھی۔

٭٭٭٭

سوال :حکیم جی، کیا ناشتہ کرنا بہت ضروری ہے ؟ کیا میں ناشتہ ترک کر سکتی ہوں یا مجھے زبردستی ناشتہ کر لینا چاہیئے ؟

جواب:اے لو۔۔ ۔۔ ۔

اپنے ہر سوال کا جواب ہو تم

بچی ناشتہ کرنے کے لیے بنا ہے ترک کرنے کے لیے نہیں۔ میرے خیال سے ناشتہ زبردستی دھَکے دُھکے سے کر لینا چاہیئے۔ بے چاری بھینس صبح صبح اٹھ کر صرف ناشتے کے اللے تللے پورے کرنے کے لیے دودھ دیتی ہے۔ کیونکہ چائے کے بغیر پوستی دنیا والوں کی آنکھ نہیں کھلتی۔ سارا جہان روز صبح صبح ناشتے کے نام پہ انڈے، پراٹھے، کُلچے کَلچے، نہاری، پائے، نان چنے، حلوہ پوری، قیمے کے تر بتر پوڑے اور جانے کیا کیا کھا جاتا ہے۔ پھر بھاگتی دوڑتی زندگی کے لیے صبح کا ناشتہ بہت ضروری ہے۔ ویسے بھی اچھے دن کا ا?غاز اچھے ناشتے سے ہوتا ہے۔ بھوکا پیٹ تو دہائیاں مچاتا رہتا ہے۔ سو اب اپنے بے قابو جی کو منانا تمہارا کام۔

٭٭٭٭

سوال:جناب عزت مآب میرا مسئلہ بڑا عجیب ہے جو مجھے کچھ عرصے سے درپیش ہے۔ میں جب بھی دانت برش کرتا ہوں تو مجھے قے اور متلی محسوس ہوتی ہے۔ کیا اس کا کوئی حل ہے ؟

جواب: برخوردار، لگتا ہے تم اپنے دانتوں کو اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی دینی چاہیئے۔ ٹوتھ برش جب تک چڑیل کے بالوں کی طرح نہ ہو جائے تم اسے استعمال کرتے رہتے ہو۔ اسی لیے جوابی ری ایکشن مل رہا ہے۔ رنگ برنگے نئے نئے ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ خرید لو۔ ڈنٹونک، ویکو وجردنتی منجن اور اخروٹ کوئلے کا منجن استعمال کیا کرو۔ دانتوں کو نیا برش اور زبان کو نئے نئے ذائقے ملیں گے تو مسئلہ حل سمجھو۔

اضافی ٹپ: برش کو حلق میں گھسیڑنے سے احتیاط رکھو۔

٭٭٭٭

سوال: جناب میں پہلے دبئی سے امریکہ شفٹ ہو گیا۔ تب سے میرے بال بہت گرنے لگے ہیں۔ پتہ نہیں یہ امریکہ کے موسم کا اثر ہے یا گھر والوں سے جدائی کا۔ جس کا تاوان مجھے بالوں کی صورت بھگتنا پڑ رہا ہے۔ الجھن اور سوچ بچار میں۔ ۔۔ ۔ یہاں اچھا لائف سٹائل اور پیسہ ہے۔ کیا بالوں کو بچانے کی خاطر واپس چلا جاؤں؟

جواب: مسئلہ تو واقعی بڑا گھمبیر ہے۔ ۔ یہ تو پیسے اور بالوں میں پیچا پڑ گیا۔ ویسے اتنا کہہ دوں کہ دنیا کے بڑے بڑے ارب پتی امریکہ سے ہی ہوئے ہیں۔ میاں بال چلے گئے تو نئی وگ کا چانس باقی رہے گا۔ اور پیسہ چلا گیا تو گھر والے بھی پہچاننے سے انکار کر دیں گے۔ اب خوب اچھی طرح سوچ لو کہ کرنا کیا ہے۔

٭٭٭٭

سوال: میرے گھر والوں کا کہنا ہے ؎

کہتے ہیں ڈاکٹر، حکیم کی وفا نہیں اچھی

لوگوں کے سب سوالوں کا جواب ہو تم

جواب:کبوتر کی اولاد، جا کر ان سے کہہ دو ؎

ہر سوال کا جواب نہیں مل سکتا

میری حکمت کا حساب نہیں مل سکتا

٭٭٭٭

سوال: جناب والا!ماں کی دعا کو جنت کی ہوا کہتے ہیں تو ساس کی دعا کو کیا کہیں گے ؟

جواب: میاں یہ سوال کسی جورو کے غلام سے کیا ہوتا۔ ویسے ساس کی دعا بھی تو بندے کو کسی نہ کسی پاسے لے ہی جائے گی۔ اُمید بہار رکھ!

٭٭٭

تشکر: نوید ظفر کیانی جنہوں نے جریدے کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید