FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

 

 

حصہ دوم

 

                   ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی

 

 


 

 

 

ردیف ’’پ‘‘

 

 (۱) پابوس ہونا۔

ہمارے یہاں قدموں کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے اس کا اندازہ اُن محاوروں سے ہوتا ہے جو قدموں سے نسبت کے ساتھ ہماری زبان میں رائج ہیں اور  رائج رہے ہیں۔ پیر دھونا پیر دھو دھوکر پینا۔ پیروں کی دھُول ہونا۔ قدموں پر نچھاور ہونا قدم چومنا قدموں کو بوسہ دینا قدم بوس ہونا قدم چھونا قدم رنجہ فرمانا یا قدومیمنت (مبارک قدم) قدموں کی برکت قدم گاہ وغیرہ اس سے معاشرے میں احترام کے تقاضوں کی نشاندہی ہوتی ہے یہ ہند ایرانی تہذیب کا ایک مشترک رو یہ سمجھا جانا چاہیے ہمارے ہاں بزرگانِ دین کے ساتھ اور خاص طور سے صوفیوں کے ساتھ یہ رو یہ آج بھی برتا جاتا ہے کہ ان کے قدموں کو چھوتے ہیں ہندوؤں میں پنڈتوں کے لئے کہتے ہیں ’’پالا گن مہاراج‘‘ یعنی ہم حضور کے قدم چھوتے ہیں اور اُن پر نچھاور ہوتے ہیں جب کسی سے دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو اس کے قدموں کی دھول کے برابر ہے یا میں تو آپ کے قدموں کی خاک ہوں یا خاک کے برابر بھی نہیں ہوں اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس طرح سوچتا سمجھتا اور کرتا رہا ہے۔ غالبؔ کاشعر یاد  آتا ہے۔

؂ کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لئے

کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں

یعنی آسمان کو قدم بوسی کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں ہے

 

(۲) پاپ چڑھنا، پاپ ہونا، پاپ کرنا، پاپ سے بچنا، پاپ کاٹنا، پاپ کھانا۔

اِن جیسے محاورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سماج کچھ باتوں کو گناہ قصور اور بڑی خطاؤں کے دائرے میں رکھتا ہے اور  انہیں پاپ کہتا ہے ہندوؤں میں بڑے قصور کے لئے مہا پاپ کہا جاتا ہے اور اسی نسبت سے قصور کرنے والے کو پاپی یا  مہا پاپی کہہ کر یاد کیا جاتا ہے پاپ چڑھنا پاپ کے وارد ہونے کو کہتے ہیں ایسا کرنا تو پاپ کرنا ہے۔ اور اس سے بچنا چاہیے کہ ہم سے کوئی پاپ ہو جائے پاپ کا ٹنا بھی اسی ذیل میں آتا ہے کہ اپنے دفع کرو پاپ کاٹو۔

 

(۳) پاپڑ بیلنا، پاپڑ پیٹنا۔

پاپڑ ہندوستان کی کھائی جانے والی اشیاء میں ایک خاص قسم کی غذا ہے جو باریک روٹی کی طرح تیار کیا جاتا ہے پھر تل کر کھایا جاتا ہے چونکہ روٹی پکانے کے مقابلہ میں پاپڑ بیلنا ایک مشکل کام ہے دیر طلب ہے۔ اور  بہت سے پاپڑ تیار کرنے میں آدمی تھک جاتا ہے۔ اسی لئے تھکا دینے والے کاموں کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے دنوں پاپڑ بیلتا رہا کہ پاپڑ چکلہ بیلن سے تیار ہوتا ہے۔

 

 

 

(۴) پاپوش بھی نہ مارُوں، پاپوش پر مارنا،پاپوش سے یا پاپوش کی نوک سے، پاپوش کی برابر سمجھنا۔

پاپوش جُوتے کو کہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں جُوتی یا  جُوتا صرف ایک ضرورت کی چیز نہیں ہے اس کی ایک غیر معمولی سماجی حیثیت بھی ہے اسی لئے بہت سے محاورے جُوتی اور جُوتے کے نام کے ساتھ ہماری زبان میں داخل ہیں جُوتے مارنا زبان سے ذلیل کرنا جُوتے کھانا دوسروں کے درمیان ذلیل ہونا۔

اصل میں جُوتا ہمارے ہاں ایک سماجی درجہ رکھتا ہے بہت نیچا درجہ اسی لئے جب کسی کو ذلیل کرنا ہوتا ہے تو جوتے کی نوک پر رکھنا کہتے ہیں۔ تو جوتا ایک طرح کی سماجی سزا ہے اور بڑے آدمی کی نسبت سے خدمت کرنا جوتیاں سیدھی کرنا ہیں کہ ہم نے فلاں کی جوتیاں سیدھی کیں یعنی اس کی ادنی سے ادنی خدمت سے کوئی گریز نہیں کیا۔

 

(۵) پاسا پڑنا، پاسا پلٹنا۔

پاسا چوسر کی ایک خاص طرح کی گوٹ ہوتی ہے پھینکا جاتا ہے تو اُس پر جو نشانات ہوتے ہیں اور سامنے آتے ہیں اُن کے مطابق چال چلی جاتی ہے اور اس معنی میں پانسہ پورے کھیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اور کھیل کا دارومدار پانسہ پڑنے پر ہوتا ہے اسی کو سماجی طور پر ہم زندگی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پانسہ غلط پڑا ہے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے اور اگر صحیح ہے تو یہ خوشی کی بات ہے اور اچھی قسمت کی علامت ہے۔

 

(۶) پال ڈالنا۔

آموں کو لحاف اور  گدّے کے درمیان رکھنا تاکہ وہ تیا رہو جائیں اس کو ایک سماجی محاورے کے طور پر استعمال کرنا ایک طرح سے طنز کے معنی میں آتا ہے کہ کیا ان کی پال ڈالو گے آم ڈال کا پکا بھی ہوتا ہے اور پال کا پکا اچھے اور تازہ آم کو کہتے ہیں کہ یہ ڈال کا پکا ہے اور ایسے آدمی کے لئے بھی ڈال کا پکا استعمال ہوتا ہے جو عقل مند ہو چاق چوبند ہو اور ہر طرح مُستعد ہو۔ اس سے ہمارے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ محاوروں کی صورت میں ہم اپنے عام تجربوں کو خاص معنی دیتے ہیں۔ جس سے ہماری سوچ کے سفر کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے بات کو کہاں سے اٹھایا اور کہاں پہنچایا۔
(۷)پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پڑنا، پانی پھر جانا،(کون کتنے پانی میں ہے) پانی توڑنا پانی ڈالنا، پانی دکھانا، پانی دینا، پانی ڈھلنا (آنکھوں کا پانی ڈھل گیا ہے) پانی رکھنا یا بھرنا،پانی چھونا،پانی پی پی کر کوسنا، پانی پی کر ذات پوچھنا، پانی کا بتاسا یا بلبلا وغیرہ۔

پانی ہماری ضرورت کی چیز ہے اگر پانی نہ ہو تو زندگی بھی نہ ہو بہت محاورے پانی پر ہیں  مثلاً گہرے پانی پیٹھ،گہرے پانی میں اگر اتر کر دیکھو۔ یہیں سے یہ محاورہ آیا ہے اور اس مفہوم کے ایک رخ کو ظاہر کرتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا تجربہ کار ہے کون کتنا بھرم رکھنے والا ہے۔ کون کتنا لائق ہے یا کتنا پیسہ والا ہے پانی پلانا ثواب کا کام ہے اور پیاسے کو پانی پلانا اور بھی زیادہ ثواب کا کام ہے آنحضرتؐ کو  اسی لئے ساقی کوثر کہا جاتا ہے۔ کہ وہ میدان حشر میں پیاسوں کو آب کوثر پلائیں گے۔ پانی لگانا جانوروں کی گردن پر  چھُری چلانے سے پہلے پانی اس لئے لگایا جاتا ہے کہ چھری آسانی سے چل جائے پانی دکھانا بھی اُس جانور کے لئے ہوتا ہے جس کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے۔ پانی دینا پودوں کو سینچنا پانی پی  کر کوسنا طنز کرنا ہے یعنی جس نے پانی پلایا اُسی کو کوسنے بیٹھ گئے۔ پانی پی کر ذات پوچھنا بھی اِسی طرح سے اپنی ایک روشِ فکر کا اظہار ہے کہ جس کے گھر کا پانی  پی لیا اب اس کی ذات کیوں پوچھتے ہو۔ یعنی اس سے چھوت چھات برتنے کی بات کیوں کرتے ہو پانی پانی ہونا شرمندہ ہونا یعنی ندامت کے پسینے میں ڈوب جانا ہے اور پانی پانی کرنا شرمندہ کرنا ہے کہ میں نے سارا چٹھا سنا دیا اور اسے پانی پانی کر دیا ہے آنکھوں کا پانی مر جانا یا ڈھل جانا دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی لحاظ یا س نہ رہنا ہے اور کمینہ پن اختیار کرنا۔ پانی چھوڑنا عورتوں کی زبان میں اس لیے آتا ہے کہ پکانے کے عمل میں پانی کی مقدار کا کم اور زیادہ ہونا یا پکتے وقت پانی چھوڑنا پانی کا بتاسا بلبلے کو کہتے ہیں اس طرح سے پانی سے وابستہ تصورات ہماری معاشرتی فکر کا اک اہم حصہ رہے ہیں۔

 

 (۸)پاؤں اُکھڑنا، پاؤں اُکھاڑنا، پاؤں جمنا یا جمانا، پاؤں پڑنا، پاؤں باہر نکالنا، پاؤں ملنا، پاؤں ٹپکنا، پاؤں پسارنا، پاؤں پر سر رکھنا پاؤں میں ٹوپی پگڑی یا ڈوپٹہ ڈالنا پاؤں پاؤں چلنا یا پیادہ ہونا۔

پاؤں کے ساتھ جہاں چلنے کے محاورات آتے ہیں جو انسان کے اہم تجربات میں سے ہیں اس کی اہم ضرورت ہے وہاں نہ چلنے کے ساتھ بھی بہت سے محاورات وابستہ ہیں مثلاً پیڑ توڑ کر بیٹھنا پیر کی کیفیات کو ظاہر کرتے ہیں ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں بیٹھنے کے علاوہ پیروں کے جمنے اور  ٹھہرے کے بارے میں محاورات انسانی کردار اور سماجی ضرورت کی طرف نئے نئے پہلوؤں سے اشارہ کرتے ہیں مثلاً قدم جمانا، قدم جمنا جیسے ہم دوسرے لفظوں میں پیر جمنا، اور پیر جمانا، کہتے ہیں یہ مستقل مزاجی کی طرف اشارہ کرنے والے محاورے ہیں جن کے مقابلہ میں قدم اکھڑنا اور قدم اکھاڑنا آتے ہیں۔ پامردی اور بہادری کے خلاف ایک صورتِ حال ہے کہ جنت میں اُن کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اکھڑتے ہوئے نظر آئے یا اکھاڑ  دیئے گئے سرپر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ بھاگ کھڑے ہونے کی ایک نئی عجیب اور مبالغہ آمیز صورت ہے ان محاوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیروں کے بارے میں کیا کیا سوچتے ہیں اور کس طرح سوچتے ہیں۔

قدم سے متعلق کچھ دوسرے محاورے بھی ہیں جیسے دو قدم کا فاصلہ یا قدم قدم آگے  بڑھنا دو قدم چل کر ٹھہر گئے یا  دو دم چل کر تو دیکھو یا پھر ہمارا آج کے دور کا محاورہ کہ انہوں نے اپنے قلم یا اور  قلم کی حرکت کو کبھی رکنے نہیں دیا مستقل طور پر کام کرتے رہے جو ایک بڑا سماجی قابلِ تحسین صورت ہے پاؤں میں سر رکھنا ڈوپٹہ رکھنا، انتہائی احترام کا اظہار کرنا مگر مقصد یہ ہوتا ہے کہ قصور معاف کر دیا جائے خطا در گزر کر دی جائے چونکہ دوپٹہ پگڑی، اور ٹوپی کسی بھی شخص کا اظہار عزت ہوتا ہے اور مقصد اس عمل سے یہ ہے کہ آپ ہمیں عزت دیں بخشیں اور ہمارے قصور کو در گزر کریں یہ ایک سماجی طریقہ رسائی ہے۔

 

(۹) پاؤں پاؤں پھونک پھونک کر رکھنا۔

احتیاط سے قدم اٹھانا اور  خطرات کا خیال رکھنا آج اس حد تک سمجھ میں نہیں آتا کہ کل تک جب راستہ پر خطر ے تھے قدم قدم پر خطرہ تھا دھوکہ بازی تھی ٹھگی اور ڈکیتی کا اندیشہ تھا دوستوں اور  رشتہ داروں کی طرف سے بھی آدمی مشکلات میں گھر جاتا تھا اس وقت قدم پھونک پھونک رکھنا اپنے معنی اور معنویت کے اعتبار سے انسان کے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۱۰) پاؤں پھیرنے جانا۔

یہ محاورہ خاص طور پر دہلی کی تہذیبی زندگی سے وابستہ ہے اور یہاں کی بعض رسمیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں مثلاً پاؤں پھیرنے جانا، بچہ پیدا ہونے سے پہلے (نواں مہینہ) شروع ہوتے وقت لڑکی سسرال سے میکے جاتی ہے پھر ایک دو دن بعد اپنی سسرال واپس آ جاتی ہے۔ منشی چرنجی لال نے اس  کے مقابلہ میں لکھا ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد چلّہ نہا کر لڑکی میکے جاتی ہے کہ یہ بات تو ضرور ہے لیکن اس کو پاؤں پھیرنا نہیں کہتے۔ چلہ نہا کر میکے یا کسی قریبی رشتہ دار کے گھر جانا وہ دہلی میں الگ معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

 

(۱۱) پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنا، پاؤں پیٹا،پاؤں پٹخنا۔

یہ دوسری طرح کے محاورات ہیں اور فرد کے رو یہ سے تعلق رکھتے ہیں جب آدمی کوئی کام کرنا نہیں چاہتا اور نا خوشی کے اظہار کے لئے قدم اس طرح اٹھاتا ہے جیسے وہ پاؤں پٹخ رہا ہے پاؤں پیٹ رہا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اظہار نا خوشی کر رہا ہے۔

نا خوشی کے ساتھ زندگی گزارنا اور ذہنی تکلیفیں اٹھاتے رہنا پاؤں پیٹ پیٹ کر مرنے یا جینے کو کہتے ہیں بات وہی ناخوشی میں مبتلا رہنے کی ہے۔

 

(۱۲) پاؤں میں مہندی لگا ہونا یا لگنا۔

عورتوں کا محاورہ ہے کہ مہندی وہی لگاتی ہیں اور پیروں میں جب مہندی لگائی جاتی ہے تو چلنا پھرنا بندہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مہندی خشک ہو جائے۔

اور اُس کو اتار دی جائے اس کے بعد بھی ہاتھ پیروں کو دھویا نہیں جاتا تاکہ مہندی رچ جائے بہرحال جب مہندی لگی ہوتی ہے تو آنا جانا ممکن نہیں ہوتا اسی لئے طعنہ یا طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ آپ نہیں آ سکتے کیا پیروں کو مہندی لگی ہے۔ یعنی آپسی معاملات میں آدمی اپنا حق یہ سمجھتا ہے کہ جب بھی وہ یاد کرے یا موقع ہو تو دوسرے کو آنا چاہیے اور  اگر وہ نہیں آتا تو اس سے شکایت ہوتی ہے شکوہ کیا جاتا ہے اور  اس کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ تم خوامخواہ کی بہانہ بازی کر رہے ہو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔

 

(۱۳) پتھر برسنا، یا پتھراؤ کرنا، پتھر پڑنا۔

پتھر برسنا گاؤں والوں کی اصطلا ح میں اولے پڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ ’’اولوں ‘‘ سے فصل کا ناس ہو جاتا ہے وہ تیار ہو تب اور نہ ہو تیار تب بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اسی لئے جب کوئی کا م خراب ہو جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کیا تمہاری عقل پہ پتھراؤ پڑ گئے تھے یعنی وہ کام نہیں کر رہی تھی تم سوچ نہیں پا رہے تھے پتھر برسانا پتھراؤ کرنا ہے یہ سزا دینے جنگ کرنے اور  احتجاج کرنے کی ایک صورت ہے پتھراؤ کرنے کا رواج آج بھی ہے قدیم زمانہ میں اور خاص طور پر یہودیوں کے یہاں پتھر مارکر ہلاک کرنا ایک سخت سزا تھی بعض جرائم کے سلسلے میں دی جاتی تھی اسلام میں وہ منقطع ہو گئی۔

پتھر بے حس و ہلاکت ہونے کی علامت ہے  اس لئے کہ بیوقوف آدمی کو بھی پتھر کہتے ہیں بے حس ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آدمی کسی کے دکھ درد کو محسوس نہ کرے اس کا دل کسی کے بُرے حالات پر پسیجے بھی نہیں تو اسے بھی پتھر دل کہا جاتا ہے انتظار کرتے کرتے آنکھیں تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں اس عمل کو بھی آنکھیں پتھرانا کہتے ہیں کہ آنکھیں پتھرا گئیں۔

 

(۱۴) پتھر چھاتی  پر دھرنا یا دل پر پتھر رکھنا۔

بے صبر کرنا اور ایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے لئے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے وہاں یہ کہتے ہیں کہ دل پر پتھر رکھ کر یہ کام کیا یا اس کا فیصلہ کرنے کے لئے دل پر پتھر رکھنا پڑا وغیرہ۔ پیٹ سے پتھر باندھنا انتہائی بھوک کے عالم میں بھی صبر و ضبط سے کام لینا اور کسی سے اظہار نہ کرنا پیٹ سے پتھر باندھنا کہلاتا ہے اور مشکلات برداشت کر کے جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پیٹ سے پتھر باندھ کر یہ کام کیا ہے۔ یہ یا ایسے کاموں کے لئے تو پیٹ سے پتھر باندھنا ہوتا ہے یعنی سختیاں جھیلنا اور  مشکلات برداشت کرنا۔

 

(۱۵)پُرانے مُردے اکھیڑنا

غیر ضروری باتوں کو بار بار دہرانا جن کا وقت بھی گزر چکا اور اُن کا ذکر بار بار زبان پر لانا گڑے مُردے اُکھیڑنا کہلاتا ہے یہ ہماری سماجی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ہم کسی کی نیکی کو یاد نہیں کرتے اس کے احسانات کو بھول جاتے ہیں اور بُرائی کو بار بار دہراتے ہیں۔ بلکہ بھولی بسری باتوں کو بھی ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں اس محاورہ میں ایک طرح کا طنز اور اس سماجی روش کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اچھائیوں کا اعتراف کرنے میں بے حد بخیل ہیں اور کمزوریوں،عیبوں، برائیوں کو طرح طرح سے سامنے لاتے ہیں۔

 

(۱۶)پرائی آنکھیں کام ہیں آتیں۔

کام تو خیر پَرائی آنکھیں بھی آ جاتی ہیں اور  دوسرے لوگ اپنی آنکھوں اور اپنے ذہن کی روشنیوں اور  اپنے علم کے ذریعہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کرتے بھی ہیں مگر محاورہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں سے ہی کام لینے پر اکثر مجبور رہنا پڑتا ہے اور  یہی بہتر بھی ہے کہ اپنی عقل سے کام لے اپنی سُوجھ بُوجھ کی روشنی میں فیصلہ کرے اور اپنے ارادے کی مضبوطی کے ساتھ قدم اٹھائے ورنہ دوسروں کا مشورہ ان کی رہنمائی اور عقل گاہ گاہ گمراہی کا باعث بھی بن جاتی ہے کہ لوگ ہمیں دوست بن کر بھی تو فریب دیتے ہیں۔

 

(۱۷) پَرائے شگون کے لئے اپنی ناک کیوں کٹواتا ہے۔

آدمی کا حال کچھ عجیب ہے بہت سے کام وہ دوسروں سے حِرص کا رشتہ رکھنے کی وجہ سے محض لاگ کے طور پر کرتا ہے کہ تم ایسا کرتے ہو تو ہم ایسا کریں گے اور ایسی صورت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ جو کچھ میں دوسرے کی مخالفت کے طور پر کر رہا ہوں وہ خود میرے لئے نقصان کی بات ہے۔ بہت بڑے نقصان کی بات ہے اسی کی طرف اِس محاورے کی طرف اشارہ ہے کہ پرائے شگون کی وجہ سے اپنی ناک کیوں کٹواتے ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھا دیکھی کام نہیں کرنا چاہیے اپنی عقل سے بھی کام لینا چاہیے اس میں ایک بات اور بھی قابل لحاظ ہے اور وہ شگون لینا ہے جو  توہم پرستی کی ایک صور ت ہے اور قابل تعریف نہیں ہے آدمی اس کی وجہ سے بے عقل اور  وہمی ہو جاتا ہے اور  اپنے بُرے بھلے اور نفع و نقصان کے بارے میں بھی نہیں سوچ پاتا۔

 

(۱۸) پَرچھاواں پڑنا، پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا۔

پرچھاواں پڑنا بھی اسی طرح کی ایک نفسیاتی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پرچھاواں پڑنے سے بھی آدمی کی عقل خبط ہو سکتی ہے اس کی جڑ بنیاد تو ہمارے ہاں چھوت چھات کے تصور میں ہے کہ اگر کسی آدمی پر چھائی بھی پڑ گئی تو کھانے پینے کی کوئی شئے یا پھر آدمی کا اپنا وجود ناپاک ہو گیا ہم ایسا سوچتے اور سمجھتے آئے ہیں اور یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ برے آدمی کی پرچھائیں پڑنے سے آدمی کا ا خلاق تباہ ہو جاتا ہے یعنی برے آدمی کی پرچھائیں بھی بری ہوتی ہے ہمارے معاشرتی رویوں میں موقع بہ موقع اس صورت حال کو دیکھا اور  پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے سماجی رویوں میں جائز اور نہ جائز حدود کا خیال نہیں رکھتے یہ آدمی کا عام ذہن ہے اور ہمارے معاشرے کی کمزوری ہے اسی سے پرچھاویں سے بچنا یا دُور بھاگنا بن گیا۔

 

(۱۹) پردہ ڈالنا یا اٹھا دینا، پردہ پوشی، پردہ داری، پردہ ہونا۔

پردہ ہمارے معاشرے میں ایک غیر معمولی رجحان ہے مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی عورتوں کو پردہ کرواتا ہے یہاں تک کہ اس میں یہ مبالغہ برتتا ہے کہ عورت کے لئے تو آواز کا بھی پردہ ہے۔

پردہ ایک حد تک ہندوؤں میں بھی رائج رہا ہے اور  اب بھی ہے مگر اس شدت کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں میں پردہ داری کی رسم ملتی ہے اب اُس کا رواج کم ہو گیا ہے لیکن مسئلے مسائل کی صورت میں اب بھی جب گفتگو آتی ہے تو وہی تمام مبالغہ احتیاط اور شدت کی پرچھائیاں اس گفتگو میں ملتی ہیں۔ باتوں کو چھپُانا بھی داخل ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ گھر کی بات باہر نہ نکلے یہ رجحان ہمارے قدیم معاشرے میں اور بھی زیادہ تھا کہ لوگ خواہ مخواہ کی باتیں کرتے ہیں اور  دوسروں کی کوئی کمزور ی کوئی مجبوری یا کسی شکر رنجی کا حال اُن کو معلوم ہو جاتا ہے تو وہ اس کو بری طرح اڑاتے ہیں مشہور کرتے ہیں اسی لئے وہ محاورہ آتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یا منہ سے نکلی بات پرائی ہو جاتی ہے بعض باتوں کو چھُپانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسروں کی ان باتوں کا پہنچنا اچھا نہیں لگتا ہے کہ راز داری ہماری سماجی ضرورتوں کا تقاضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم کتنی بات ضرورت کے تحت کرتے ہیں اور کتنی بات غیر ضروری طور پر۔

اس طرح پردہ داری ہو پردہ نشینی ہو پردہ گیری ہو یہ سب ہمارے معاشرتی رویوں کا حصّہ ہیں۔ اور اِن سے موقع بہ موقع ہماری سوچ کا  اظہار ہوتا ہے راز درون پردہ جیسی ترکیبیں بھی اسی ذہنی رو یہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں پردہ ہے پردہ عام طور پر ہمارے گھروں میں بولا جا تا ہے۔

 

(۲۰) پلیتھن نکالنا یا نکلنا۔

گھریلو سطح کی زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے لفظوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محاورے چیوں کا محاورہ ہے پیلتھن نکالنا زیادہ سے زیادہ مکے یا مکیاں لگانا ہے جس سے دوسرا ادھ مرا ہو جائے میر تقی میرؔ کا مشہور شعر ہے اور بازاری زبان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

؂ ہاں پلیتھن نکل گیا واں غیر

اپنی مُکیّ لگائے جاتا ہے۔

 

 (۲۱) پھوٹ پڑنا یا ہونا، پھُوٹ ڈالنا۔

پھُوٹ کے معنی ہیں ٹوٹ پھُوٹ پیدا کرنا اختلاف کو جنم دینا ہندوستان میں ہمارے معاشرے کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے ہیں اور اپنے تعلقات میں تلخی شکر رنجی یا اختلافات کی صورت پیدا کر لیتے ہیں اور ہمارے آپسی میل جول یا اتحاد میں فرق آ جاتا ہے اُسی کو پھُوٹ پڑنا کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سکھا پڑھا کر غلط سلط مشورہ دے اختلافات پیدا کرتے ہیں اور دلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔ جس سے تعلقات میں اُستواری یا ہمواری باقی نہیں رہتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔

 

(۲۲) پھُول کھیلنا، پھُول کی جگہ پنکھڑی، پھُول نہیں پنکھڑی ہی سہی، پھُول کی چھڑی بھی نہیں لگائی۔ پھُولوں کا گہنا۔ پھُولوں کی چھڑی، پھُولوں کی سیج، پھولوں میں ملنا، پھول پان۔

پھول ہماری دنیا کا ایک بہت ہی خوبصورت قدرتی تحفہ ہے یہ ہماری سماجی رسموں میں بھی شریک ہے خوشی کے موقع پر خاص طور سے پھولوں کا استعمال ہوتا ہے۔ پھُولوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہے ہار پہنائے جاتے ہیں پگڑی میں لگائے جاتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ اپنے ہاتھ میں گلاب کا پھول رکھتے تھے اکبر جہانگیر اور شاہ جہاں کی ایسی تصویریں ملتی ہیں جن میں گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں ہے۔ پھول دواؤں میں بھی کام آتے ہیں۔ اور فنونِ لطیفہ میں بھی اور ہماری سماجی زندگی سے ان کا ایک واسطہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی شاعری کے علاوہ اپنے محاوروں میں پھول کو شامل رکھتے ہیں جس کا اندازہ مندرجہ بالا محاوروں سے بھی ہو سکتا ہے پھول سونگھنا  یا پھول سونگھ کر جینا انتہائی کم خوراک ہونا ہے۔ پھول چننا یا موتی چننا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے۔

دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے ہیں۔ دلی میں تو گرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیں جو عورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں۔ یا کانوں میں پہنتی ہیں۔ یا ہاتھوں میں پہنتی ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں تو مزدور عورتیں بھی عام طور سے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے تشبیہیں استعارے اور  تمثیلیں پیدا ہوئی ہیں۔ پھول کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ قابلِ قدر ہوتا ہے اور محاورے میں یہ کہتے ہیں پھول نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیں ماری تمام تر ناز بردار یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

(۲۳) پیر پھیرنے جانا۔

یہ کسی کی آمد کے سلسلے میں بطورِ تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالبؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے ان کا ایک آنا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے آنے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں یہ ایک خاص رسم ہے جو کسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی سُسرال سے میکے نوے مہینے آتی ہے اسے پاؤں پھیرنا بھی بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طور پر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہو جاتی ہے۔

 

(۲۴) پیر نابالغ۔

پیر بوڑھے کو کہتے ہیں اور جب کسی آدمی کو  بُڑھاپے تک عقل نہ آئے تو طنز کے طور پر اُسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگر پیر نا بالغ ہیں اس سے ملتا جُلتا ایک اور  محاورہ ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے یہاں اُن کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑھاپے میں عود کر آتی ہیں اور آدمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔

 

(۲۵) پیندی کا ہلکا ہونا، پیندی کے بل بیٹھ جانا۔

جو آدمی مستقل طور پر جم کر نہیں بیٹھتا کبھی یہاں کبھی وہاں کبھی اِدھر کبھی اُدھر رہتا ہے۔ اور اس طرح مستقل مزاجی نہیں ہوتی اُس کو پیندی  کا ہلکا ہونا کہتے ہیں پیٹ کا ہلکا ہونا ایک دوسری صورت ہے اور اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کسی بات کا ہضم نہیں کر سکتا بلکہ کہہ ڈالتا ہے۔ وہ پیٹ کا ہلکا کہلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارے ہاں مستقل مزاجی ایک بڑی صفت ہے اور جو آدمی مستقل مزاجی سے کام نہیں لیتا اور کسی بات پر نہیں جمتا اُسے آدمی کا ہلکا پن کہا جاتا ہے یہاں تک کہ جو بات گمبھیر نہیں ہوتی اسے بھی ہلکی بات کہا جاتا ہے۔

 

 

 

(۲۶) پیوند ہماری اوقات ہے۔

غریبی میں اکثر آدمی پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتا ہے اور  کبھی کبھی تو پیوند پر پیوند لگانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ اس میں کسی آدمی کی مالی حیثیت بھی شریک رہتی ہے۔ اور وہی اُس کا سوشل اسٹیٹس بن جاتا ہے۔ بعض پھل پھول پیوند لگا کر ہی تیار کئے جاتے ہیں۔ وہ اک الگ طریقہ ہے اور اُس کا سماجی رتبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسے پیوندی آم یا پیوندی بیر وغیرہ۔

 

***

 

 

ردیف’’  ت‘‘

 

 

 (۱)تاک لگانا، تاک میں رہنا۔

تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتا رہا تاک جھانک اسی سے بنا ہے میر تقی میرؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا

یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح بعض سوالات خیالات اور  تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اور ہم ان کے نظر بچا کر یا چوری چھُپے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اُردو شاعری میں حسن و عشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں آتی رہتی ہیں۔

 

(۲) تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کو ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی اور بظاہر کیا کہ کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کا کوئی پہلو ہو کسی ایک آدمی پر نہیں ہوتی وہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے اور دوسرا کوئی شخص یا فریق بھی اس میں شریک رہتا ہے شرکت کا پیمانہ جو بھی ہو جتنا بھی ہو۔

 

(۳) تجاہلِ عارفانہ۔

جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اور جانتے بوجھتے ہوئے ظاہر نہ کرنا جو ایک مکار رد عمل ہوتا ہے اور سماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نا واقف ہیں۔

 

 

(۴)تعزیہ ٹھنڈا ہو جانا۔

تعزیہ دراصل اظہار ملال ہے بعض طبقوں میں تعزیہ اندھے کنوؤں میں پھینک دیئے جاتے ہیں بعض دریا میں بہا دیئے جاتے ہیں ایسا بھی ہوتا انہیں سفید چادروں میں لپیٹ کر کسی تنہا جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تغیر یہ دلالی کی رسمیں ختم ہو جاتی ہیں تو محاورتاً اُسے تعزیہ ٹھنڈا کرنا کہتے ہیں۔

 

 

 

(۵)تقدیر پھرنا، تقدیر کا لکھا یوں تھا، تقدیر کا بناؤ، تقدیر کا پلٹا کھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کا کھیل۔

ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اور کاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتا جتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اور ہندو مسلمانوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ کہ وہ ہر بات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیں جو ہماری زبان پر آتے رہتے ہیں۔ اور اس لئے آتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اور اُن سے باہر آ کر سوچنا سمجھنا نہیں چاہتے اوپر دیئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کا لفظ بدل کر کبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اور بگڑنا کہا جاتا ہے۔

 

(۶) تلوار کو میان میں رکھنا، تلوار کی آنچ، تلوار گر جانا، تلوار میان سے نکلی پڑتی ہے۔ تلواروں کی چھاؤں میں۔

تلوار جسے تیغ بھی کہا جاتا ہے وسطی عہد کا ایک بہت معروف اور ممتاز ہتھیار رہا ہے قدیم زمانہ کی تلوار ایک خاص طرح کی ہوتی تھی جسے کھانڈا کہتے تھے جہاں ’’ل‘‘ کو ’’ڑ‘‘ سے بدلا جاتا ہے وہاں تلوار کا تلفظ ’’ترواڑ‘‘ ہو جاتا ہے۔ جو لوگ سپاہی پیشہ خاندانوں کے افراد ہوتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تلواروں کی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں اقبالؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ تیغوں کی چھاؤں میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔

تلوار چلنا، تلوار کا کسنا یعنی اس کی لچک دیکھنا تلوار کا پانی، اس کی دھار، اس کی آب و تاب اور دھار، تلوار کا میان سے نکلنا یا میان میں رکھا جانا یہ سب تلوار کے استعمال سے متعلق باتیں ہیں تو اُس زمانہ کی زندگی میں عام تھیں ان میں تلوار کے گھاٹ اتار دینا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اردو میں محبوب کی بھوں کو تلوار سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے بھی تلوار سے ذہنی اور سماجی رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔

 

(۷) تمہارے منہ میں کبھی شکر یا گھی کھانڈ۔

شکر ہویا پھر شکر وہ  مٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑ کھانڈ اور  راب بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑ نہ دبے گڑ جیسی بات کہہ دیئے گڑ اور گھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طور پر گھی اور کھانڈ یا گھی اور شکر استعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر اور شہروں میں گھی اور پورا خاص طور پر استعمال میں آتا تھا اور اس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔

بہرحال جب ہم ان امور پر  غور کرتے ہیں تو گھی اور  شکر کی سماجی حیثیت اور معنویت سامنے آتی ہے اور یہ کہاوت ہے تمہارے منہ میں گھی شکر اُسی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہے کہ تمہارا کہنا پورا ہوا اور مراد بر آئے اب بھی ایسے موقع پر ایسی کہاوت اور  بولی جاتی ہے اور میٹھا ئی کھلانے یا کھانے کا وعدہ کیا کہا جاتا ہے۔ مقصد اظہارِ خوشی ہے۔

 

(۸)تنکے کا احسان ماننا، تنکے کا سہارا، تنکے کو پہاڑ کر دکھانا، تِنکا تِنکا کر دینا۔

تنکا لکڑی کا چھوٹے سے چھوٹا اور کم سے کم درجہ کا حصہ ہوتا ہے اس سے جانور اپنا گھونسلا بناتے ہیں اور جب گھانس پھونس کے جھونپڑے، ٹٹیاں اور  چھپر بنتے ہیں تب بھی گویا تنکے ہی کام آتے ہیں دیہات میں اس طرح کے مکانات چھپرا اور  چھپریاں اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں سرکٹیاں بھی اسی کی مثالیں پیش کرتی ہیں اور سرکنڈے بھی تنکے کے سے وابستہ کہاوتیں اور محاورے کمزوری بے ثباتی اور کم سے کم درجہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں سوکھ کر تنکا ہونا انتہائی کمزور ہو جانا ہے تنکا تنکا بکھر جانا گھاس پھونس کی چھپری یا چھپروں کا ہوا میں اڑ جانا ہے یا باقی نہ رہنا ہے۔

اب اس کے مقابلہ میں تنکے کا احسان ماننا ہماری سماجی زندگی کا ایک دوسرا رخ ہے عام طور پر لوگ دوسرے کی ہمدردی محبت اور خلوص کا بدلہ تو دیتے ہی نہیں بلکہ احسان بھی نہیں مانتے جب کہ احسان تو چھوٹے سے چھوٹا بینک عمل میں جس کا دوسروں کو شکر گزار ہونا چاہیے ذوقؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ ارے احسان مانوں سر سے میں تنکا اتارے کا

تنکے کا پہاڑ کر دکھانا ایک تیسری صورت ہے کہ اس کا بھی ہماری سماجی زندگی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ کہ بات کو کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ تنکے کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بتانا اور بات کو بہت آگے بڑھا دینا ایک دوسری صورت ہے داڑھی میں تنکا ہونا ایک اور  صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ جو دراصل کسی غلطی یا نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوتا ہے اسے احساس تو رہتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے میں قصور وار ہوں اس کا کوئی ایکشن یا ری ایکشن اس کی طرف اشارہ بھی کر دیتا ہے اسی کو چور کی داڑھی میں تنکا کہتے ہیں۔

ایک اور  محاورہ بھی اسی سلسلے کا ہے دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھتے ہیں اور اپنی آنکھوں کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جس کے معنی ہیں کہ اپنی عیب داریاں کوئی نہیں دیکھتا اور دوسروں کی بات پر اعتراض کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں اس طرح تنکے سے ہم رشتہ بہت سے محاورے ہماری سماجی فکر کا مختلف پہلوؤں سے اظہار کرتے ہیں اور ہماری سوچ پر روشنی ڈالتے ہیں۔

 

(۹) تن من وارنا۔

تن من کے معنی ہیں جسم و جان (Body and Soul)جب کسی سے اپنی مکمل وفاداری اور  ایثار و قربانی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ہم تن من سے تمہارے ساتھ ہیں کبھی کبھی تن من دھن بھی کہتے ہیں من ہندی لفظ ہے اس کے معنی رُوح کے ہیں اس لئے اس کا کسی عمل میں ساتھ ہونا بڑی بات ہوتی ہے جب یہ کوئی کہتا ہے کہ میں تم پرتن من وار کرتا ہوں تو گیتوں یا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے تو گویا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے گیتوں میں تن من وارنا آتا بھی ہے۔

 

(۱۰) تن من میں پھُولے پھُولے نہ سمانا۔

تن من میں پھُولا نہ سمانا بھی محاورہ ہے لیکن زیادہ تر اپنے من میں پھولا نہ سمانا بولا جاتا ہے۔ اپنے تن من کی کچھ خبر نہ رہی یعنی میں بالکل غافل ہو گیا یہ بھی ہماری زبانوں پر اکثر آتا ہے صرف تن کے ساتھ بھی بہت سے لفظ اور لفظی ترکیبیں بطورِ محاورہ آتے ہیں جیسے تن پوشی تن پرستی تن دہی تن ڈھانپنا اگر غور کیا جائے تو یہ لفظی ترکیبیں محاورے کے ذیل میں آتی ہیں اور ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ محاورے کیوں اور  کیسے بنتے ہیں اور لغوی معنی سے مجازی معنی تک کیسے آتے ہیں تن پرستی اپنے وجود کو یا اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینا ہے اور تن دہی محنت و مشقت برداشت کر کے اگر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اسے تن دہی کہتے ہیں۔

 

(۱۱) تنگ حال ہونا، تنگ وقت ہونا، تنگ ہاتھ ہونا۔

یہ محاورات دراصل ہماری سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں خاص طور پر اُس طبقہ کی جو کم آمدنی اور  اخلاص کے ساتھ اپنے زندگی کے دن گزارتا ہے اسی کو تنگی ترشی کہتے ہیں۔ یا ہاتھ کا تنگ ہونا بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اس کا ذکر اکثر ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے یاوہ تنگ حالی میں اپنا وقت گزارتا ہے تنگ وقت ہونا محاورے کی ایک دوسری صورت ہے یہاں پیسہ مراد نہیں ہوتا بلکہ وقت کا کم رہ جانا مراد ہوتا ہے جیسے نماز کا وقت کم ہو رہا ہے۔ تنگ ہونا تکلیف کی حالت میں ہونا ہے اور تنگ کرنا دوسروں کو پریشان کرنے کے معنی میں آتا ہے اور یہ ہماری سماجی روش ہے کہ جب ہم دوسروں سے کوئی ناچاقی یا اختلاف یا خود غرضانہ اختلاف رکھتے ہیں تو ان کو طرح طرح سے ستاتے اور  پریشان کرتے ہیں اسی کو تنگ کرنا کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔

 

(۱۲) تازہ کرنا۔

نئے سرے سے کسی خیال کو زندہ کرنا ہے جیسے غم تازہ کرنا کہ جس غم کو آدمی بھول گیا تھا اسے پھر یاد دلایا ویسے ہم ’’تازہ‘‘ بہت چیزوں کے لئے بولتے ہیں جیسے تازہ کھانا’’ تازہ روٹی‘‘ ’’تازہ گوئی‘ اور  تازہ روئی (تازہ خیالی، تازہ دم ہونا (نئی بات کہنا) تازہ کاری (نیا کام کرنا) وغیرہ۔

 

(۱۳) تیوری بدلنا یا چڑھانا تیوری میں بل ڈالنا تیوری کا بل کھلنا۔

تیوری انسان کی پیشانی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کے حصّے کو کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتا ہے ہم گفتگو کرتے وقت آنکھ بھون چڑھاتے ہیں نا خوشی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اسی کو تیوری چڑھانا کہتے ہیں اُردو کا ایک مصرعہ ہے جس سے سماجی رو یہ کی نقش گری ہوتی ہے۔

؂ تیوری چڑھائی تم نے کہ یہاں دم نکل گیا

تیوری کو تیور بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی Expirationمیں شامل رہتے ہیں جیسے آج کل ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ نظریں بدل گئیں ہیں اگر ناگواری ختم ہو گئی تو اسے تیوری کا بل کھلنا کہتے ہیں یہ تیوری کے ہر بل پڑنے کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔

 

***

 

ردیف ’’ٹ‘‘

 

 (۱) ٹاپا توڑ نکل جانا۔

مُرغیاں خریدنے والے ایک خاص طرح کا گھیرے دار جال رکھتے تھے وہ ٹاپا کہلاتا تھا وہ لوگ ٹاپے والے کہہ کر یاد کئے جاتے تھے۔ مُرغیاں گھر کے ماحول سے نکل کر اُس ٹاپے میں پھنس جاتی تھیں تو پریشان ہوتی تھیں اور اس سے نکلنا چاہتی تھیں اسی مشاہدہ سے یہ محاورہ بنا ہے۔ یعنی مصیبت میں پھنسنا اور پھر نکلنے کی کوشش کرنا۔

 

(۲) ٹالم ٹول (ٹال مٹول) کرنا۔

اس معنی میں ایک اہم محاورہ ہے کہ ہماری یہ ایک عام سماجی روش اور معاشرتی طرزِ فکر ہے کہ ہم بات کو سلجھاتے وقت ہر قدم اُٹھانے اور  تدبیر کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اپنے معاملہ میں بھی اور دوسروں کے معاملہ میں بھی یہ ایک طرح کا سماجی عیب ہے کہ معاملات کو نمٹاؤ نہیں ٹالتے رہو اور کوئی نہ کوئی غلط سلط بہانہ بناتے رہو ہم آج کے معاشرے میں بھی شہری وہ معاشرہ ہویا قصباتی معاشرہ یہی ٹال مٹول کی صورت دیکھتے ہیں خود بھی اس سے گزرتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔

 

(۳) ٹانکا ٹوٹ جانا، ٹانکے کا کچّا ہونا، ٹانکے کھُل جانا۔

ٹانکا ہماری معاشرتی سماجی اور گھریلو زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے یہاں تک کہ بہت اہم سطح پر ہم ٹانکا  ٹھپا کہتے ہیں پھٹے پُرانے کپڑے میں ٹانکا لگانا اور اسے جوڑنا ہماری ایک تمام سماجی ضرورت ہے اسی لئے یہ کام گھریلو طور پر کیا جاتا ہے کپڑوں کے علاوہ چادر، بستر، لحاف میں ٹانکا لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جُوتی میں ٹانکا موچی لگاتا ہے اب کچّا ٹانکا ہوتا ہے تو جلدی ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارے محاورے کا حصّہ ہے اور پکّا ٹانکا لگانا بھی اور موتی ٹانکنا بھی باریک ٹکائی بھی اس طرح سے یہ محاورے ہماری گھریلو زندگی کے اپنے انداز اور ماحول کو پیش کرتے ہیں۔

 

(۴) ٹسر ٹسر رونا، ٹسوے بہانا۔

اصل میں رونے کے لئے ایک طنزیہ محاورہ ہے جو سماجی رد عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سوچا نہیں سمجھا نہیں اب ٹسر ٹسر رو رہی ہے اور ٹسوے بہا رہی ہے دہلی میں ’’ٹ ‘‘کے نیچے کسرا لگاتے ہیں اور ٹسوے کہتے ہیں۔

 

(۵) ٹُکر ٹُکر دیکھنا۔

جب آدمی احساسِ محرومی اور تصورِ نامرادی کے ساتھ کسی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے گھر یلو سطح کی ٹکر ٹکر دیکھنا کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم دوسروں کی نظروں کو پہچانتے ہیں اُن کے جذبات و احساسات کی تصویر اُن کی آنکھوں میں اس کا خاص انداز سے ذکر کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ الگ بات ہے۔

 

(۶) ٹُکّر ٹُکُر لگنا، ٹُکر کھانا۔

دیہاتی زبان میں روٹی کو کہتے ہیں اور طنز کے طور پر ٹکر لگنا یا  ٹکڑ کھانا بھی بولتے ہیں ٹکٹر لگنے میں یہ طنز چھپا ہوا ہے کہ پہلے بھوکے مرتے تھے کھانے کو نصیب نہیں ہوتا تھا اب کھانے کو ملنے لگا تو  یہ انداز آ گئے یعنی نخرے کرنے لگے برائی کا اظہار کرنے لگے اسی کو قصباتی زبان میں روٹیاں لگنا کہتے ہیں۔

ٹکڑے ٹکڑے کر دینا کسی  چیز کو بُری طرح توڑ دینا پھاڑ دینا اور ضائع کر دینے کا عمل ہے سزا کے طور پر بھی پہلے زمانہ میں ٹکڑے ٹکڑ کر دینے کا رواج تھا۔ جس کو اور آگے بڑھا کر بوٹی بوٹی کر دینا یا قیمہ کر دینا بھی کہا جاتا ہے اور قدیم زمانہ کی سزاؤں کی طرف اس سے اِشارہ کرنا مقصود چاہے نہ ہو کہ جب لوگ اسے جانتے بھی نہیں مگر قدیم زمانہ کی روایت کسی نہ کسی سطح پر اس میں موجو دہے اور تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔

 

(۷)ٹکسالی بولی، زبان، ٹکسالی بول چال، ٹکسالی محاورہ، ٹکسالی باہر۔

ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے سکّے رائج کئے جاتے ہیں اور کھرے سکّے مانے جاتے ہیں ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور جو سکّہ سرکاری ٹکسال کا نہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا سکّہ یا ٹکسال قرار دیا جاتا ہے۔

شہری کی بولی جو بات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کو ٹکسالی کہا جاتا ہے اور جس سے اِدھر اُدھر کی بولی کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور اُس کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اُسے ٹکسال باہر کیا جاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے آس پاس کی زبان ہی کو سند مانتے تھے چنانچہ میر تقی میرؔ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری زبان ان کے لئے یا محاورہ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان اُن کے نزدیک پسند نہیں تھی ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا تھا جو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے آس پاس سنا جاتا تھا۔

 

(۸) ٹوپی اُتارنا، ٹوپی پیروں میں ڈالنا، ٹوپی اُچھالنا، ٹوپی بدلنا۔

یہ محاورات نسبتاً نئے ہیں ٹوپی سر کو ڈھکنے کے لئے کُلاہ کی صورت میں ایک زمانہ سے ایران، افغانستان اور مرکزی ایشیاء میں موجود رہی ہے مگر عام طور پر تنہا نہیں اُس کے ساتھ پگڑی بھی ہوتی تھی ہندوستان میں جہاں تک قدیم کلچر کا سوال ہے صرف کبھی ٹوپی کبھی چیز سے ڈھکتے تھے دیہات میں پگڑی رائج رہی ہے بدن پر چاہے لباس کم سے کم رہا ہو مگر سرپر پگڑی رہی۔ اُس کی وجہ سرکو دھوپ کی شدت سے بچانا بھی تھا۔ مدراس میں ہم دیکھتے یہی ہیں۔

پگڑی کے طرح طرح کے انداز مرہٹوں میں راجپوتوں میں اور جنوبی ہندوستان کے مختلف قبائل میں رہا ہے جس کا اندازہ ان تصویروں سے ہوتا ہے جو مختلف زمانوں اور خاص طور پر وسطی عہد میں رائج رہی ہیں قدیم تر ہندوستانی تہذیب میں سادھو سنت ’’بال‘‘ رکھتے تھے اور اونچا طبقہ مکٹ پہنتا تھا (تاج کی طرح کی کوئی چیز)سر عزت کی چیز ہے اسی لئے سر پر رکھنا سر جھکانا ہمارے ہاں خاص معنی رکھنے والے محاورات میں سر اٹھانا سرکشی اختیار کرنا ہے اور سر سے ٹیک دینا دوسری طرح کے محاورے ہیں جو آگے بڑھ کر سرگوشی تک آ جاتے ہیں۔ سر کو ڈھکنا مرد سے زیادہ عورت کے لئے ضروری تھا جیسے آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ٹوپی اسی کی ایک علامت ہے۔ اوپر دیئے ہوئے محاورے ہوں یا دوسرے محاورے جو سر سے متعلق ہوں جیسے سر سے چادر اُتر گئی۔

انہی محاوروں میں سر جھکانا،سر پیروں پر رکھنا،سرپر خاک ڈالنا، بھی اور ہم اپنی عزت کے نشان کے طور پر شخصی خاندانی قومی اور قبائلی وقار کے طور پر پگڑی یا دوپٹہ کو یا چادر اور  آنچل کو سر سے گرنے نہیں دیتے تھے اور جب اُسے دوسرے کے قدموں پر رکھتے تھے تو اپنی انتہائی وفاداری کا اظہار کرتے تھے جسے ہم مکمل بھی کہہ سکتے ہیں دیہات قصبات اور  شہروں میں جب دوسرے کی عزت کو بڑا دکھانا چاہتے ہیں اور اپنی شخصیت کو کمتر ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے پیروں میں کوئی دوپٹہ پگڑی رکھتے ہیں اور اس کو اپنی طرف اظہارِ عاجزی کی سب سے بہتر صورت خیال کرتے ہیں۔ اِس معنی میں یہ محاورے ہمارے سماج کے رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

 

***

 

 

ردیف’’ث‘‘

 

 (۱) ثابت قدم رہنا یا ثابت قدمی دکھانا۔

ثبات کے معنی ہیں ٹکنا،قائم رہنا لیکن قدموں کے ساتھ اس کا تصور انسانی کردار سے وابستہ ہو جاتا ہے خاص طور پر اِن افراد یا ان قوموں کے کردار سے جو جنگ کرتی تھی اور مشکل مرحلوں سے گزرتی تھی جنگ میں پیر اُکھڑنا اور قدم اُکھڑنا بہرحال ایک محاورے کے طور پر وہاں آتا تھا جہاں ڈٹے رہنا ضروری ہوتا تھا۔ قدم جمائے رکھنا لازمی تھا اسی لئے قدم اُکھڑ  جانے یا پیر اُکھڑ جانے کے معنی بزدلی دکھانا اور بھاگ کھڑا ہونا تھا جو بری بات تھی اور کردار کی اِستقامت کے لحاظ سے ناپسند یدہ بات تھی اسی لئے ثابت قدم رہنا ایک سپاہی ایک عالی حوصلہ اور مستقل مزاج انسان کے لئے ایک بہت اچھی صفت تھی جس کی تعریف کی جاتی تھی اور  اس کو موقع بہ موقع سراہا جاتا تھا۔ مثنویوں اور قصیدوں میں اس طرح کے بہت سے شعر مل جائیں گے جن میں ثابت قدمی کی تعریف کی گئی اور اس معنی میں وہ انسانی کردار کی خوبی اور  سماجی تقاضوں کی ایک علامت کے طور پر محاورے میں سامنے آتی ہے۔

 

(۲) ثواب کمانا۔

ہمارا بنیادی طریقہ فکر مذہبی اور  اخلاقی ہے ہم ہر بات کو تعبیر اور تشریح مذہبی طرزِ فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں اور نیک عمل کا اَجرا بھی ہم قدرت یا خُدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اسی کو ثواب کہتے ہیں کہ یہ کام کرو گے تو ثواب ہو گا یا ملے گا اگر ایسا کیا گیا تو تم ثواب کماؤ گے اس اعتبار سے ثواب کمانا نیکی کرنے اور اُس کے بدلہ یا انجام کو خُدا سے وابستہ کرنے کا ایک نفسیاتی عمل جس کو ہم ثواب کمانے سے تعبیر کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ثواب کمانا ایک طرح سے مذہبی رو یہ کے ذیل میں بھی آتا ہے اور اس سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اچھے برے عمل کا نتیجہ ثواب یا عذاب سے ہے۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ج‘‘

 

 (۱) جادو لگانا، جادو چلانا، ڈالنا، کرنا، مارنا، جادو کا پتلا۔

جادو سحر کو کہتے ہیں اور سحر کے معنی ہیں ایسی بھیدوں بھری رات جس کے ذریعہ عقل کو حیرت میں ڈالنے والے کام کئے جاتے ہیں ہندوستان میں جادو ٹونے کا رواج بہت رہا ہے اسی لئے ہم یہاں منتر کے ایک معنی جادو بھرے الفاظ لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس نے کیا منتر پڑھ پھونک دیا ہے یہ تصور دوسری قوموں میں بھی ہے اور خود عرب بھی جادو کے قائل تھے کافر قرآن کی آیت کو نعوذ باللہ سحرِ عظیم کہتے ہیں ہمارے ہاں جادو ڈالنا، جادو چلانا، جادو کرنا، عام طور پر بولا جاتا ہے جیسے اس کا جادو چل گیا اس نے جادو چلا دیا جادو تو وہ ہوتا ہے جو سرپر چڑھ کے بولتا ہے اردو کا مشہور شعر ہے۔

؂کیا لطف جو  غیر پردہ کھولے

جادُو وہ جو سر چڑھ کے بولے

اس معنی میں جادُو ہماری سماجیاتی سوچ کا حصّہ کیا ہے اور ہم ماورائے جن چیزوں کے قائل ہیں۔ اور انہیں مافوق العادت کہتے ہیں یہ انہی کا ایک حصّہ ہے ایسے ہماری کہانی حقوق داستان اور شاعری کے نمونوں میں دیکھا پرکھا اور  سمجھا ہندوستان میں خاص خاص موقعوں پر جادُو کیا جاتا ہے۔

 

(۲) جاگرن کرنا۔

جاگرن کرنا ہندو کلچر کا ایک اہم رسمی اور مذہبی پہلو ہے کچھ خاص منتر پڑھ کر چراغ روشن کر کے اور دھیان گیان کے سلسلہ کو اپنا کر عقیدتوں کو دل میں جگایا اور من میں بسایا جاتا ہے اُسے بھگوتی جاگرن کہتے ہیں مغربی یوپی میں جا گئے کو یا جاگ اُٹھنے کو جاگر کہا جاتا ہے جاگر میں صرف آنکھیں کھلتی ہیں نیند کا سلسلہ ٹوٹتا ہے ’’جاگرن‘‘ میں دل کی غفلت دُور ہوتی ہے اور عقیدتیں جاگ اٹھتی ہیں اس معنی میں جاگرن  کلچر،تہذیب، اور مذہب سے وابستہ ایک عمل ہے۔

 

(۳)جال بچھانا، پھیلانا، یا ڈالنا، جال میں پھنسنا، یا پھنسانا۔

جال ایک طرح کا وسیلہ شکار ہے شیر سے لیکر مچھلی تک اور مچھلی سے لیکر پرندوں تک جال میں پھنسایا جاتا ہے۔ جال پانی میں پھینکا جاتا ہے اونچی چھتری پر لگایا جاتا ہے جہاں کبوتر آ کر بیٹھتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں یہی صورت مچھلیوں کی ہوتی ہے اور یہی شکل اُن پرندوں کی ہوتی ہے جو زمین میں دانہ چُگنے کے لئے اترتے ہیں اور اُس جال میں پھنس جاتے ہیں جس پر دانہ بکھیرا ہوتا ہے۔

انسان بھی فریب جھوٹ دغا اور  فکر کا شکار ہوتا ہے اور ان زبانی وسائل کو بھی جال ہی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی فریب دہی کا عمل ہے جس کا سلسلہ کون جانے کب سے رائج ہے مگر یہ بات برابر ہو رہی ہے اِس کا پیمانہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اِس دام فریب کے حلقوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور سماج اس سے باہر نہیں نکل پایا غالبؔ کا شعر یاد آ گیا۔

 

؂ دامِ ہر مو ج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک۔

 

(۴) جامے سے باہر ہو جانا یا جامے میں پھُولا نہیں سمانا، جامہ زیب ہونا۔

جامہ دراصل لباس کو کہتے ہیں ہم زیر جامہ اور  چار جامہ بھی بولتے ہیں زیر جامہ انڈوریر کو بھی کہتے ہیں چار جامہ چار طرح کے کپڑے جن سے تن پوشی یا جسم کی زیب و زینت کا کام لیا جاتا ہے۔ گھوڑے کے ساتھ اور زین و لگام وغیرہ کے لئے بھی چار جامہ ’’تسمہ‘‘ کا محاورہ آتا ہے۔

جامہ میں پھُولا نہ سمانا انتہائی خوشی کے اظہار کو کہتے ہیں جو دوسرے بھی دیکھ لیں سمجھ لیں اور محسوس کر لیں کپڑے سب لوگ پہنتے ہیں اور معاشرہ میں اسی پوزیشن کے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اس میں مذہب سے اپنے تعلق و وفاداری کو بھی شامل رکھنا چاہتے ہیں اور ایک طبقہ تو اُس پر زور دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر لباس ہر رنگ ہر وضع قطع ہر آدمی کے لئے وجہ زینت نہیں بنتی بعض بدن جامہ زیب ہوتے ہیں۔ بعض لباس کچھ اِس طرح کے ہوتے ہیں کہ ہر آدمی کے اچھے لگتے ہیں لباس کا اچھا لگنا ہی جامہ زیبی کا سبب ہوتا ہے لباس کا رشتہ ہمیشہ ذاتی پسند سے زیادہ سب کی پسند کا مسئلہ رہا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کھاؤ من بھاتا اور پہنے جگ بھاتا ہے۔

 

(۵) جان پر کھیلنا،جان دینا، جان پڑنا،جان جانا، جان جھوکنا، جان چرانا، جان چھُڑانا، جان چھوڑنا،جان سُکوھنا، جان سے جانا، جان سے زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا،جان جوکھوں میں ڈالنا، جان ہوا ہونا وغیرہ۔

جان آدمی کو بہت ہی عزیز ہے وہ اس کی روحِ رواں ہے سر چشمۂ حیات ہے اُس کے وجود کا باعث ہے اور اپنے وسیع مفہوم اور معنی کے ساتھ اس کی زندگی میں شریک ہے اسی لئے ہم طرح طرح سے جان کے لفظ اور معنی کو اپنی زبان میں استعمال کرتے ہیں اور جان کے ساتھ جو محاورے بنتے ہیں وہ ہماری سماجی فکر اور سائل کو ظاہر کرتے ہیں جیسے جان دینا، جان چھڑکنا، جان نہ ہونا، جان و ایمان کے برابر ہونا وغیرہ۔

 

 

(۶) جانے کے لچھن ہیں۔

جانے کے معنی بھاگ جانے کے بھی ہیں نکل جانے اور  چھوڑ جانے کے بھی ہیں جان نکلنا تو محاورہ ہے جانے کے لچھن ہیں کہ معنی ہیں کہ اس کے روپ اور  روش سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ رہنے والا نہیں ہے چھوڑ کر جانے والا ہے یہ گویا ان لوگوں کا رد عمل ہوتا ہے جو کسی نہ کسی سطح پر کچھ توقعات رکھتے ہیں غالب ؔکا  شعر اس موقع پر یاد آ گیا۔

؂ جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی۔۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

 

(۷) جُگ جیئے، یا جیؤ، جگت لڑنا۔

جُگ  جُگ جینا ہمارے ہاں کی دعا ہے ہم ایک خاص دور کو  جُگ کہتے ہیں جو یگ کا ہندی تلفظ ہے جُگ جینے کے معنی ہوئے کہ تم دور بہ دور جیؤ اسی لئے ہندی میں چل جیو ہونا بھی کہتے ہیں جُگ جینے یا جُگ بیتا ایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بہت لمبی مدّت بیتنا۔  اردو کا شعر ہے۔

؂ جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے

کہ اِس ظالم کی ہم پر جو گھڑی بیتی سو جگ بیتا

 

(۸) جلتی آگ میں تیل ڈالنا، جلتی پر تیل چھڑکنا، جلتے کو جلانا، جی جلنا، جی جلانا۔

جلنا شدید گرمی کا عمل ہے جس سے رُوکھ (درخت) جل جاتے ہیں بدن جل جاتا ہے آگ میں ہر چیز جل جاتی ہے آگ کے قریب آ کر ہر شے جل اٹھتی ہے اُس سے جلنا ایک استعارہ بن گیا ہے۔ جی جلنا، جی جلانا یعنی تکلیف دہ باتیں کرنا یا اچانک جل اٹھنا بھڑک اٹھنا غصہ میں بھر جانے کو کہتے ہیں جی کا جلاوا وہ شخص چنریا بات جو مسلسل ذہنی تکلیف کا سبب ہو ان سب باتوں کا رشتہ ہماری سماجی فکر اور  معاشرتی زندگی سے ہے اوپر لکھے ہوئے محاورے اسی سلسلۂ فکر یا خیال یا دائرہ قول و عمل میں آتے ہیں۔

 

(۹) جلے پر ون یا نمک چھِڑکنا یا لگانا،جلے پھپولے پھوڑنا، دل کے پھپولے پھوڑنا جلی کٹی سنانا جل اٹھنا اسی سلسلہ کے محاورے ہیں۔

ہماری عام روش ہے کہ جب ہم کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو خواہ مخواہ بھی اُس سے اختلاف کرتے ہیں اسی کو جلے نال کے پھپولے پھوڑنا کہتے ہیں پھپھولوں کا جلنا محاورہ کی ایک اور  صورت ہے جس کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے۔

؂ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینہ کے داغ سے

اِس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے

 

(۱۰) جنگل میں منگل ہونا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔

جنگل ہماری تہذیبی زندگی کا ایک حوالہ ہے ہندوستان اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جنگلوں سے بھرا پڑا تھا یہ جنگل طرح طرح کے تھے پہاڑی جنگل بھی اور میدانی جنگل بھی جنگل پر محاورے موجود ہیں جنگل آباد ہونا ایسے علاقہ کو جس میں کھیتی ممکن ہے کام میں لانے کے لئے کہتے ہیں کہ تمہارا جنگل آباد ہو جائے گا۔ جنگل کا تصوّر ویرانی کا تصور بھی ہے اس لئے جب میلے ٹھیلے لگتے تھے اور طرح طرح کی دوکانیں اور کھیل تماشہ جنگل میں ہوتے تھے تو اس کو جنگل میں منگل ہونا کہتے تھے اِس کا ہماری معاشرتی زندگی سے بھی ایک رشتہ ہے خانہ بدوش قبائل جنگلوں میں کچھ دنوں کے لئے آباد ہو جاتے تھے تو بھی جنگل میں منگل ہو جاتا تھا۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی آدمی ترقی کرے بڑے عہدے پر پہنچے اور اُس کے ہاتھ میں یہ ہوا کہ وہ بھلائی کر سکے تو اُس کو اپنے وطن کو بھولنا نہیں چاہے وطن والوں کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے، نہ ہوا تو وہ مثل ہو گئی کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا خوش ہونے والے تو وطن کے لوگ ہوتے ہیں انہی کے سامنے ترقیوں کا مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔

 

(۱۱) جنم سُدھر جانا، جنم جنم کی دوستی، جنم جنم کا بیر، جنم جنم کا ساتھ، جنم میں تھوکنا۔

ہندوستان کے لوگ پنر جنم میں یقین رکھتے ہیں اسی لئے یہاں محاورے میں جنم جنم کا ذکر بہت آتا ہے کہ ایک ہی زندگی میں لگاتار جتنی زندگیاں ہوں گی اُس میں یہ دوستی یہ محبت پایہ پیتر قائم رہے گا اس لئے کہ ہندو عقیدہ کے مطابق ایک جنم کے سنسکار دوسرے جنم میں بھی انسان کے ساتھ رہتے ہیں اسی لئے جنم جنم کی بات سامنے آتی ہے جنم سُدھر نا زندگی بہتر ہو جانے کے معنی میں آتا ہے اور  اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیدائش تو ایک بُرے ماحول میں ہوئی تھی لیکن حالات بدل گئے اور  جنم سدھر گیا ایک اور  محاورہ اسی سلسلہ کا ہے اور معاشرہ کے اچھے بُرے رو یہ کی طرف عجیب انداز سے اشارہ کرتا ہے جنم میں تھوکنا مراد یہ ہوتی ہے کہ اگر تمہارے اخلاقی رو یہ اتنے ہی بُرے ہیں تو کوئی کیا تمہارے جنم میں تھوکے گا کیا کہے گا کہ تم کیا ہو تمہارے ماں باپ کیا تھے۔

 

(۱۲) جوبن اُمنڈنا، یا اُبھرنا۔

جوبن سنسکرت لفظ یوون کا بدلا ہوا تلفظ ہے جوانی کے زمانہ کو ’’یوون‘‘ کہتے ہیں اور اُس کا اظہار انسان کے چہرے مہرے اور اعضائے بدن کے تناؤ سے ہوتا ہے بعض لڑکے اور  لڑکیاں اپنی جوانی کے زمانہ میں اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُن پر جوانی پھٹتی پڑی ہے جوبن چھایا ہوا ہے یا پھر جوبن طوفان کی طرح اُمنڈ رہا ہے یہ ایک احساسِ مسرّت کی بات بھی ہوتی ہے اور اِس پر رشک بھی کیا جاتا ہے جوانی کا ڈھل جانا بھی ایک ایسی ہی کیفیت ہے جو ڈھلتے ہوئے دن یا ڈھلتی ہوئی رات کی مدھم کیفیت کی طرح ہوتی ہے جیسے کسی پودے درخت یا باغ کی بہار گزر گئی ہو۔ اور  خزاں کے آثار اس پر غلبہ پا رہے ہوں۔


 

 

 (۱۳) جوڑ توڑ، جوڑ توڑ کرنا، جوڑ جوڑیا جوڑ جوڑ کر  مر جانا، جوڑ جوڑ کے دھرنا، جوڑ جوڑنا، جوڑ چلنا، جوڑ لگانا، جوڑیا سنجوگ۔

جوڑنا ایک دوسرے سے بلانا یا جوڑی لانا ایک دوسرے سے شادی کر دینا جیسے اللہ ملائی جوڑی کہتے ہیں مگر جوڑ کے ساتھ ہماری سماجی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں جُڑی ہوئی ہیں اُن میں جوڑ جوڑ دُکھنا بھی ہے جو تکلیف کی ایک صورت ہے لیکن جوڑ توڑ ایک طرح کا سماجی عمل ہے آدمی اپنی غرض پوری کرنے کے لئے طرح طرح کے جوڑ توڑ کرتا ہے جھُوٹ سچ بولتا ہے زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے یہی سب باتیں جوڑ توڑ کے زمرے میں آتی ہیں تعلقات کی اچھائی برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مگر اس کا استعمال ذہنی طور پر اچھے معنی میں نہیں آتا۔ ہاں ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ بہت جوڑ توڑ کا آدمی ہے اور  اپنا کام نکالنا اُسے خوب آتا ہے۔

جوڑ جوڑ کر مر جانا ایک دوسرا عمل ہے جس کا تعلق پیسے کے خط اور گھٹا کرنے سے ہے جو لوگ کنجوس ہوتے ہیں پیسہ اکھٹا تو کرتے ہیں خرچ نہیں کرتے اُن کے لئے کہا جاتا ہے کہ میاں جوڑ جوڑ کر مر جاؤ گے یعنی سب رکھا رہ جائے گا تمہارے کام نہ آئے گا جوڑ جوڑنا جوڑ لگانے کے معنی میں آتا ہے اور اُس سے سنجوگ پیدا کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔ جبکہ جوڑے بننا شادی کے جوڑوں کو ایک خاص انداز سے طے کر کے رکھتے۔ اور ان میں سجاوٹ پیدا کرنے کو کہتے ہیں جوڑی دار برابر کے ساتھی کو کہا جاتا ہے جوڑے تقسیم ہونا بھی شادی بیاہ یا خوشی کے موقع کی ایک رسم ہے۔ جس میں جوڑے دیئے جاتے ہیں اور ان کا اپنا ایک سماجی اور  رسمی انداز ہوتا ہے۔

 

(۱۴) جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔

اگرچہ یہ بادلوں سے متعلق ایک بات ہے کہ میں بادلوں کا کڑک گرج زیادہ ہوتی ہے وہ اکثر بوندا باندی بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں اس سے ایک معاشرتی یا سماجی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جو لوگ زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ کام کم سے کم کرتے ہیں اس لئے کہ کام کرنے والے کو زیادہ باتیں بنانے کی ضرور ت اور فرصت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے سماج کا نسبتاً ایک نکما اور  ناکارہ حصہ ہوتا ہے جس سے تعلق رکھنے والے لوگ باتیں زیادہ بناتے ہیں دیکھا جائے تو باتیں بنانا اور کام کرنا ہماری سوسائٹی کے نہایت اہم مسائل ہیں اور  انہی سے متعلق یہ گفتگو ہے جو محاورے کی شکل میں یا بطور Comment کے سامنے آتی ہے۔

 

(۱۵) جونک پتھروں میں نہیں لگی۔

جونک لگنا خود ایک محاورہ ہے۔ جونک پانی کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو کھال سے چمٹ جاتا ہے اور خون چوستا رہتا ہے اسی لئے محاورہ ہے کہ وہ تو جونک کی طرح لگ جاتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ تو جو نہایت سخت دل سخت طبیعت اور  سخت مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح مزاج ہوتے ہیں اُن سے جونک کی طرح لگ کر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اس لئے کہ پتھر میں جونک لگتی ہی نہیں جہاں خون ہو گا وہیں تو جونک چُوسے گی پتھر میں اُسے کیا ملے گا۔

 

(۱۶) جی ہے تو جہان ہے (جان ہے تو جہان ہے)۔

اِس محاورے کو جان ہے تو جہان ہے کی صورت میں بھی استعمال کیا جاتا ہے یہ فرد کی اپنی اہمیت اور اس کی اپنی جائز فلاح و بہبود سے متعلق ایک سوچ ہے۔ اس کا استعمال دو موقعوں پر ہوتا ہے ایک کہ آدمی کی اگر صحت ہے وہ زندہ ہے اور بقول غالبؔ۔

 

؂ تنگ دستی اگر نہ ہو غالبؔ

تندرستی ہزار نعمت ہے

یہی تندرستی جی ہے جہان ہے جہان ہے اور یہی ہزار نعمت دنیا جہان کی خوشیاں ہیں اسی طرح ہم یہ بھی سوچتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم ہی نہ ہوں گے تو دنیا کا ہونا نہ ہونا ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا جی ہے گویا جہان ہے۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’چ‘‘

 

(۱)چادر اُترنا یا اُتارنا۔

چادر ہمارے یہاں احترام کی علامت ہے اور  ہماری کئی سماجی رسمیں ہیں جو چادر کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمارے سماجی مسائل اور  معاملات میں چادر کے کیا معنی ہیں۔ چادر اوڑھانا، چادر ڈالنا، چادر پیش کرنا۔

ہم جب بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضر ہوتے ہیں تو مزار پوشی کے لئے چادر پیش کرتے ہیں کپڑے کی چادر کے علاوہ پھولوں کی چادر بھی پیش کی جاتی ہے خاص طور پر مزارات اولیاء کی مزار پوشی کے لئے پھولوں کی چادر بھی چڑھائی جاتی ہے۔

چادر اترنے کے معنی ہوتے ہیں عزت کے سایہ کا ختم ہو جانا خاندان کے بعض لوگ خاندانی عزت کا سبب ہوتے ہیں اُن کی وجہ سے کنبہ کا وقار بنا رہتا ہے اور جب وہ نہیں رہتے تو  یہ کہا جاتا ہے کہ خاندان کی چادر اتر گئی۔ اِس کے یہ معنی ہیں کہ چادر عزت و وقار کے لئے ایک علامت ہے۔

 

(۲)چار آنکھیں ہونا یا چار چشم ہونا

جب آدمی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور آنکھ ملا کر دیکھتے ہیں تو اس کو چار آنکھیں ہونا کہتے ہیں آنکھیں چار ہو گئیں یعنی اُن کو دیکھا اُن سے ملاقات ہوئی۔ اُس کے مقابلہ میں چار آنکھوں کی ہونا۔ ایک دوسرا محاورہ ہے۔ اور اس کے معنی ہیں اپنے آپ کو بری چیز سمجھنا کہ وہ تو چار آنکھوں کی ہو رہی ہیں ’’چار چاند لگنا‘‘،خوبصورتی آ جانا کہ اس سے تو کتاب کو اس کی شخصیت کو یا اس عمارت کو چار چاند لگ گئے۔

ایک ہی چاند ٹپکے، جھُومر یا خوبصورتی پیشانی کے باعث اگر اتنا اچھا لگتا ہے کہ اُس کو ’’نیوفون‘‘ کہتے ہیں تو چار چاند لگنے پر حُسن کتنا دوبالا ہو جاتا ہے چار ابرو کا صفایا مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں جب سر کے بال، بھنویں، مونچھیں اور  داڑھی سب کو اُسترے سے مونڈ دیا جاتا ہے تو اُسے چار ابرو کا صفایا کہتے ہیں۔

ہندوؤں میں موت کی رسموں کے سلسلے میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کا بڑا بیٹا اپنی چار ابروؤں کی موڑائی یا صفائی کروا دیتا ہے یہ دہلی اور  لکھنؤ کے بانکوں کی ایک ادا بھی رہی ہے کہ وہ چار ابروؤں کا صفایا کروا دیں اس معنی میں چار کا عدد ایک تہذیبی اہمیت بھی رکھتا ہے اور  ہمارے معاشرے کی مختلف روشوں پر اُس سے روشنی بھی پڑتی ہے۔ ’’چار چندے اگلی ‘‘ہے یعنی چار گنا اچھی ہے یہ بھی اسی سلسلے کا ایک محاورہ ہے۔ ’’چار یار بھی‘‘ محاوراتی سطر پر استعمال ہوتا ہے۔

 

 

(۳)چال چلنا،چال میں آنا

چال چلنے سے بنا ہوا ایک محاورہ ہے چال دوکانوں اور  مکانوں کے ایک خاص طرح کے سلسلہ کو بھی کہتے ہیں یہ خاص طور پر ممبئی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ’’چال‘‘ شطرنج کی ایک اصطلاح بھی ہے اور  شاید وہیں سے چال چلنا اُردو کا محاورہ بنا۔ اُس کے معنی ہیں دوسروں کو شکست دینے کے لئے کوئی ترکیب استعمال کرنا۔ شکست دینے کے معنی راستہ روک دینا بھی ہے۔ مات کرنا بھی اور  مات دینا بھی یعنی ہرا دینا چال میں آ جانا اسی سلسلے کا محاورہ ہے یعنی دوسرے کی مکاری اور  چالاکی کے پھندے میں پھنسنا اسی کو چال میں آ جانا کہتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں محاورے ہماری سماجی زندگی میں ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اسی کو چال بازی کہتے ہیں۔ چال ڈھال ایک الگ صورت ہے جس سے آدمی کی شخصی یا سماجی پہچان ہوتی ہے۔

 

(۴)چاندنی مار جانا۔

اصل میں ہمارا سماج توہم پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو جوان اور  خوبصورت لڑکوں اور  لڑکیوں کو چاندنی میں کوٹھے یا کھلے صحن میں تنہا سونے نہیں دیتے اور  یہ خیال کرتے ہیں اور  چاند کی چاندنی ان پر جادو کر دے گی۔ کوئی جن، بھوت ان پر عاشق ہو جائے گا۔ کہ یہ اپنے طور پر پاگل ہو جائیں گے۔ LUNATICلیونیٹک پاگل کو کہتے ہیں اس سے مراد چاندنی مار جانا اور  دیوانہ ہو جانا ہے ویسے چاندنی مار جانا گھوڑوں کی بھی ایک بیماری ہے اور  انسانوں کی بھی۔

 

(۵)چائیں چائیں مچانا یا لگانا۔

جب آدمی بہت بولتا ہے اور  چڑیوں کی طرح برابر چہکنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے چڑھ چڑھ کے باتیں کرنا کہتے ہیں یہ گویا سماجی طور پر ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ چِڑھ چِڑھ کے باتیں کرنا۔ اسی نسبت سے ایک اور  طریقۂ گفتگو ہے جس کو عام طور سے ناپسند کیا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑھ بڑھ کر یا چِڑھ چِڑھ باتیں کرتا ہے۔

چِڑھ جانا بھی ایک نفسیاتی عمل ہے کہ آدمی کچھ باتوں یا کاموں کو ناپسند کرے اور  جب وہ ہوتے رہیں تو اُن سے چِڑھ جائے اور  بات نہ کرنا چاہے ایسے آدمی عام طور پر بدمزاج خیال کئے جاتے ہیں اور  یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک چڑے ہوئے آدمی ہیں۔ اور  چِڑی چِڑی باتیں کرتے ہیں۔

 

(۶) چراغ بتی کرنا۔ چراغ بتی کے وقت، چراغ جلے، چراغ بڑھانا، چراغ کو ہاتھ دینا، چراغ ٹھنڈا، خاموش،یا گُل کرنا، چراغ پا ہونا، چراغ رُخصت ہونا، چراغِ سحری، چراغ سے چراغ جلتا ہے، چراغ تلے یا نیچے اندھیرا۔

چراغ پر ہمارے بہت سے محاورے ہیں جو اس عمل پر روشنی ڈالتے ہیں کہ چراغ ہماری زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے چراغ بتی کرنا۔ گھر کا انتظام اور  کام سنبھالنا ہے تاکہ شام ہو تو  کوئی چراغ روشن کر دے۔ اس لئے کہ عام طور سے گھروں میں ایک ہی چراغ ہوتا تھا اور  غربت کے عالم میں تو اُس ایک چراغ کے لئے بھی بتی اور  تیل کا انتظام نہیں ہوتا تھا چراغ بتی کہاں سے ہوتی۔ بڑی بڑی وباؤں یا غارت گروں کے حملوں کے بعد کبھی کبھی ساری ساری بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ جس پر کہا جاتا تھا کہ بستیاں بے چراغ ہو گئیں۔

چراغ بجھنا۔ اولاد سے محروم ہو جانا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بیٹا گھر کا چراغ ہوتا ہے چراغ جلنا بھی محاورہ ہے اور  گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگنا بھی۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب گھر کا اپنا کوئی آدمی نقصان پہنچاتا اور  تباہی و بربادی پھیلاتا ہے چراغ سے چراغ جلنا ایک شخص کی نیکی،ذہانت اور  شرافت کا اثر دوسرا شخص قبول کرے وہی چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ ایک نے دوسرے کو بڑھایا اور  دوسرے نے تیسرے کو یہی گویا چراغ جلنا ہوا اور  سماج کی وہ نیکی اور  بھلائی کہ ایک آدمی سے دوسرا آدمی کوئی سبق سیکھے، کو ئی روشنی حاصل کرے۔

کبھی کبھی کوئی ایسا شخص بھی ہوتا ہے جو تمام کنبے،خاندان، بستی، یا شہر کے لئے شہرت یا عزت کا باعث ہوتا ہے۔ اُس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شہر کا چراغ ہے۔ غالبؔ کے مرثیہ میں حالیؔ نے کہا تھا۔

؂ شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا

چراغ روشن مراد حاصل ایک دُعا ہے کہ چراغ روشن ہو گا تو گویا مرادیں حاصل ہوں گی۔ چراغاں ہمارے یہاں خوشی کے موقع پر بہت سے چراغ جلائے جاتے ہیں۔

اُس کو چراغاں کہتے ہیں۔ دیوالی پر یا عُرس کے موقع پر یہی چراغاں تو کیا جاتا ہے۔

ہندوانی رقص ایک وہ بھی ہوتا ہے جو چراغوں کی تھالی سر پر رکھ کر کیا جاتا ہے اُس کو رقص چراغ کہتے ہیں بعض مندروں خانقاہوں اور  مزارات پر بہت سے چراغ جلانے کے لئے مینار بھی تعمیر کئے جاتے ہیں جسے چراغ مینار کہتے ہیں۔

 

(۷)چشم پوشی کرنا۔

چشم سے متعلق ہمارے ہاں بہت سے محاورے ہیں اُن میں ’’ چشم نمائی‘‘، چشم بد دُور، چشمِ بیمار جیسے ترکیبی محاورے شامل ہیں مثلاً چشمِ بیمار ایک شاعرانہ اندازِ نظر ہے خماری آنکھیں، چشمِ نیم بار یا چشمِ نیم خواب جن آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اُن کو محاورہ چشمِ بیمار بھی کہا جاتا ہے۔ غالبؔ اپنے ایک دوست اور  شاگرد میرنؔ صاحب کی آنکھوں کو چشمِ بیمار کہتے تھے اس سلسلے میں یہ تشریح بھی آئی ہے کہ خمار آلود یا متوالی آنکھیں یہ عام طور پر معشوقوں کی آنکھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور  اُس سے ہمارے معاشرے کی تہذیبی سطح کا بھی شاعرانہ اظہار ہوتا ہے۔

’’چشم نمائی کرنا‘‘۔ طنزیہ انداز سے کوئی فِقرہ کہنا اور  آنکھوں کا اشارہ کرنا چشم نمائی کہلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ترکیبی محاورہ انگشت نمائی سے چشم پوشی تہذیبی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے جب ہم دوسروں کی طرف سے کوئی برائی دیکھتے ہیں اور  اُس پر کوئی اختلاف پیدا کرنا بھی نہیں چاہتے تو اُس کو نظر انداز کرتے ہیں اور  اُس کو چشم پوشی اختیار کرنے سے بھی تعبیر کرتے ہیں یہ نہایت اہم معاشرتی رو یہ ہے جو وقتاً فوقتاً اس لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اختلافات کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور اِس اَمر کی شعوری کوشش کی جائے۔ تاکہ تعلقات میں کوئی بدمزگی یا بد نمائی پیدا نہ ہو۔

 

(۸)چمک چاندنی۔

چاندنی کے ساتھ روشنی اور  نور کا تصور وابستہ ہے چمک دمک کا نہیں ایسی عورت جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اور  غیر ضروری طور پر سنگار پٹار کرتی ہے وہ معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ اُس کو ایک طرح پر فاحشہ عورت تصور کرتے ہیں۔ اس نسبت سے یہ محاورہ ہماری معاشرتی فِکر اور اندازِ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔

 

(۹)چندے آفتاب،چندے ماہتاب،چودہویں رات کا چاند۔

جو آدمی دوسروں کی نظر بہت قبول صورت اور  پُر کشش ہوتا ہے اُس کو بطورِ تعریف کہتے ہیں کہ وہ چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ وہ چاند سورج کی طرح دل آویز ہے۔ اور  نگاہوں کو فرحت بخشنے والا ہے۔ چاہے اُنہیں کسی وقت بھی دیکھا جائے رات کو دن کو صبح کو شام کو وہ ہر وقت اور  ہر حالت میں خوش منظر ہیں، خوبصورت ہیں۔ اس سے معاشرے کی خوش ذوقی اور  زبان کی خوبصورتی کا پتہ چلتا ہے۔ اور  یہ بھی کہ ہمارے یہاں مبالغہ آرائی کو حُسن بیان سمجھا جاتا ہے اور  اِسی سے ہماری شاعری اور  دوسرے فنون لطیفہ کی مقصدیت اور  Approachسامنے آتی ہے۔ چودھویں رات کا چاند ہونا اُسی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

 

(۱۰) چور کی داڑھی میں تنکا۔ چور محل، چوری اور  سینا زوری یا چوری اور  سینہز وری، چوری چوری، چوری چھُپے، چور کی ماں کوٹھی میں سر دیوے۔ اور  رو وے۔ چورنی دیدہ، چوری چنکاری یا چوری جاری۔

چوری چکاری یا چوری جاری ہمارے بہت بڑے سماجی عیبوں میں سے ہے۔ اِس سے چوری چھُپے بہت سے بُرے لوگ اپنے ساتھیوں یا غیر ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور  اُس طریقہ سے سماج میں ناہمواریوں اور  عیب داریوں کو رواج دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ اسے پہچانتے یا اُسے جانتے نہ ہوں۔ اسی لئے ہمارے ہاں ایسے محاورے رائج ہوئے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا جس کے یہ معنی ہیں کہ چوری کا عیب اگر آدمی کی فطرت میں داخل ہو جاتا ہے تو پھر ایک سطح پر یہ اُس کی عادت بن جاتی ہے اور  وہ اُسے کہیں نہ کہیں موقع پاکر اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔

اور  لوگ قیافے اور  قیاس سے یہ پتہ چلا لیتے ہیں کہ یہ کام کس کا ہے اسی وقت کہتے ہیں کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے جو مجرم ہوتا ہے وہی چھپاتا پھرتا ہے اور  اپنی حرکات سے سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔

چور محل امراء کے محل کا وہ حصہ ہوتا جہاں چوری چھُپے کسی کو رکھا جاتا ہے رجب علی بیگ سرورؔ نے اُس کو ایک موقع پر ’’فسانۂ عجائب ‘‘ میں استعمال بھی کیا ہے کہ اُمراء کے چور محل نہیں ہو پاتے تھے۔ چورنی دیدہ ایسی لڑکی یا لڑکا کہلاتا ہے جو چوری چھُپے دوسروں کو تاکتا جھانکتا رہتا ہے۔ چور پکڑنا بھی اِسی نوعیت کا محاورہ ہے کہ بیماری تکلیف یا رویّہ کا اگر سبب نہیں معلوم ہوتا تو کسی نہ کسی ذریعہ یا وسیلہ یا قیاس یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ برائی یہاں ہے اُسی کو چور پکڑنا کہتے ہیں اِن محاوروں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ سماج کس طرح اپنے انداز پر غور کرتا ہے، کمنٹ کرتا ہے اور  کسی عمل یا ردِ عمل پر اپنے تبصرہ کو محاورے یا ذہانت سے بھرنے کمینٹ کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔

 

(۱۱)چوڑیاں پہنانا چوڑیاں پہننا چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔

چوڑیاں ہندوستان کی عورت کا خاص زیور ہے چوڑیاں کانچ کی بھی ہوتی ہیں لاکھ کی بھی، سونے چاندی کی بھی، اور  کم درجہ کے کسی میٹریل کی بھی۔

چوڑیوں کے ساتھ ہمارے محاورے بھی وابستہ ہیں مثلاً چوڑیاں بجنا، چوڑیاں پہنانا، چوڑیاں پہننا،اس کے علاوہ چوڑیاں بڑھانا، چوڑیاں ٹھنڈی کرنا۔ چوڑیاں اُتارنا، چوڑیاں توڑنا، اور  اِن سب محاوروں کا رشتہ ہماری تہذیبی اور  سماجی زندگی سے ہے۔ مثلاً چوڑیاں بجنا سہاگ کی اپنی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔

چوڑیاں پہنانا شادی کرنے کی ایک رسم بھی ہے۔ جس طرح چادر ڈالنا ایک رسم ہے اسی طرح چوڑیاں پہنانا ہے یعنی جس کے نام سے جو چوڑیاں پہنائی جائیں گی لڑکیاں یا عورتیں اُس کی دولہن یا بیوی بن جائیں گی۔

چوڑیاں پہننا اسی نسبت سے بیوی بننے کے لئے کہا جاتا ہے۔ تم چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاؤ یہ مردوں کے لئے طعنے کے طور پر کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ چوڑیاں پہننا عورتوں کا کام ہے مرد اگر چوڑیاں پہنتا ہے تو اُس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بزدلی کا ثبوت دیتا ہے۔ اسی لئے ایک اور  محاورہ بھی ہے کہ ’’بنگا‘‘ پہنا دوں گی گاؤں والے چوڑی بنگڑی کہتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ تجھے چوڑیاں پہنا دوں گی بُزدل اور  شکست خوردہ بنا دوں گی وغیرہ۔

اب اِن محاوروں کے مقابلے میں چوڑیاں بڑھانا یا ٹھنڈی کرنا بیوہ ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ جب کوئی عورت سہاگن نہیں رہتی تو اُس کی چوڑیاں اُتار دی جاتی ہیں تو اُس کو چوڑیاں بڑھانا کہتے ہیں اور  اگر کانچ کی چوڑیاں توڑ دی جائیں تو اِس عمل کو چوڑیاں ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں۔ جب چراغ اور  شمع کو بجھایا جاتا ہے تو اُسے بھی چراغ ٹھنڈا کرنا یا شمع ٹھنڈی کرنا کہتے ہیں۔ بیخودؔ دہلوی کا شعر ہے۔

؂ مجھکو ہے بیخود نہ سمجھ خوب سمجھتا ہوں تجھے

شمع میرے ہی جلانے کوتو ٹھنڈی کر دی

(بیخود دہلویؔ)

اِس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ محاورہ ہماری معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کس کس طرح ترجمانی کرتا ہے۔

 

(۱۲)چولی دامن کا ساتھ۔

چولی دامن، قمیض، کُرتے یا ساڑی کے پَلّو سے متعلق دو ایسی اصطلاحیں ہیں جو ایک سے زیادہ معنی دیتی ہیں اور  جب وہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوتی ہیں تو اُن سے بہت گہری باتوں یا رشتوں کا تعلق ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اُن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور  اس سے مراد مرد اور  عورت کا گہرا تعلق ہوتا ہے جو سماج کی باہمی قُربتوں کو ظاہر کرتا ہے۔

 

(۱۳)چھاتیاں چڑھنا، چھاتی بھرجانا۔

عورتوں کے خاص محاورات ہیں اور  اُن کا تعلق بچے کے دودھ پینے یا نہ پینے سے ہے جب پستان دُودھ سے بھر جاتے ہیں اور  بچہ دُودھ نہیں پیتا اور  اُنہیں چھاتیوں کا چڑھنا یا  بھر جانا کہتے ہیں۔

 

(۱۴)چھاتی پر پتھر رکھنا۔ چھاتی پر سانپ لوٹنا۔ چھاتی پر مُونگ دلنا، چھاتی میں گھونسہ مارنا، چھاتی پکنا، چھاتی پیٹنا، کوٹنا، چھاتی سے لگانا، چھاتی تلے رکھنا، چھاتی ٹھُکنا، چھاتی ٹھنڈی کرنا یا ہونا،چھاتی جلنا، چھاتی چھلنی ہو جانا، چھاتی دبانا یا لینا، چھاتی دھڑکنا، چھاتی نکال کر یا اُبھار کر چلنا۔

چھَاتی یاسینہ مَرد یا عورت کے لئے شخصیت کے اظہار یا سماجی افکار و اعمال میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔ عورتوں کی شخصیت میں اُس سے جمال کا اظہار ہوتا ہے اور  مرد کی شخصیت میں جلال کا جس سے مُراد عورت پن اور  مردانہ وجاہت ہے اسی لئے چوڑا سینہ یا بھرا سینہ یا بھرا بھرا سینہ قابلِ تحسین یا لائق تعریف باتیں خیال کی جاتیں ہیں۔

چھاتی سے لگانا یا چھاتی پھٹنا یا چھاتی کے سائے میں رکھنا محبت اور  شفقت کی باتیں ہیں۔ چھاتی سے لگائے رکھنا بھی اسی زمرہ میں آتا ہے چھاتی ٹھنڈی ہونا سکون ملنا ہے اسی لئے دُعادی جاتی ہے کہ اللہ پاک چھاتی ٹھنڈی رکھے۔

نفرت اور  دشمنی کے جذبات بھی سینہ سے وابستہ کئے جاتے ہیں۔ جیسے چھاتی پر گھونسا مارنا یا چھاتی پر مونگ ڈالنا یا چھاتی جلنا، چھاتی کوٹنا ماتم کے لئے آتا ہے۔ چھاتی پیٹنے سے بھی یہی مُراد ہے۔

چھاتی پر بال ہونا مَرد کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے خون میں آئرن ہونے کی ایک علامت ہے مگر عورت کے لئے نہیں اب عام طور پر مہذب سوسائٹی میں چھاتی پر بال ہونے کا ذکر بھی نہیں آتا۔ دیہات اور  گاؤں کی بات الگ ہے۔

جب بہت زخم مل جائیں اور  کسی طرف سے طعنہ و تشنیع برابر جاری رہے گویا تیروں کی بارش ہوتی رہے تو محاوروں کے طور پر زخم پڑنا یا چھاتی چھلنی ہونا استعمال کیا جاتا ہے۔ بچہ کی طرف سے دُودھ پینے کی عمل میں عورتوں کے محاورے کے لحاظ سے چھاتی دبانا بھی شامل ہے۔ جنسی اور  جذباتی روش میں بھی یہ محاورہ آتا ہے چھاتی اُبھار کر یا نکال کر چلنا ایک طرح کا سماجی اور  نفسیاتی طرزِ عمل ہے جس میں اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کارو یہ شامل ہوتا ہے۔ چھاتی چوڑی کرنے کا انداز بھی دراصل محاورتاً یہی اپنی شخصیت کا اظہار ہے۔

 

(۱۵) چھَٹی کا دودھ یاد آنا۔

ہمارے یہاں بچہ کی پیدائش سے متعلق بہت سی رسمیں ہیں اُن میں سے ایک چھٹی کی رسم بھی ہے جو بچے کی پیدائش سے چھ دن بعد ادا کی جاتی ہے۔ اُس میں دُودھ دھُلائی کی رسم شامل ہے۔ جس میں بہنوں یا نندوں کو نیگ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔

جب کوئی شخص مصیبت میں پڑتا ہے یا تکلیف اُٹھاتا ہے تو کہتے ہیں کہ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا یعنی اچھے دن یاد آ گئے بہت پرانی بات یاد آ گئی۔   پُرانی بات یاد آنا زیادہ اہم نہیں ہے جتنا اہم چھَٹی کا دُودھ ہے کہ اُس کا تعلق سماجی رسم سے ہے۔

 

(۱۶)چہرہ لکھنا۔ چہرہ بندی کرنا۔

اصل میں چہرہ لکھنا حیوانات سے متعلق ایک طریقہ ہے کہ جب اُن کو خریدا یا فروخت کیا جاتا ہے تو اُن کا چہرہ لکھ لیا جاتا ہے یعنی سینگ ہیں یا نہیں دُم کٹی ہوئی تو نہیں ہے دانت کیسے ہیں وغیرہ۔ اسی طرح چہرہ لکھنے کا رواج ان لوگوں کے بارے میں بھی رہا ہے۔ جو کسی کی ملازمت میں آتے ہیں۔

چہرہ بندی مرثیہ کے تمہید ی حصّے کو کہتے ہیں یہ مرثیہ نگاری ہی کی ایک اصطلاح ہے۔ بہرحال چہرہ لکھنا ایک طرح کا شناخت نامہ تیار کرنا ہے جو ہماری سماجی زندگی میں ایک نہایت ضروری کارگزاری ہے۔

 

(۱۷) چھکّے چھُوٹ جانا۔

چھکّا آج بھی کرکٹ کے رشتہ سے ہمارے لئے ایک خاص لفظ ہے اِس سے پہلے چھکّے چھُوٹ جانا استعمال ہوتا تھا۔ جس کے معنی ہوتے تھے کہ اُس کے پانچوں حواس اور چھٹی حِس غائب ہو گئی اوسان خطا ہو گئے ہوش حواس گم ہو گئے۔ یہ ایسے وقت کے لئے کہتے ہیں جب کسی ناقابلِ برداشت صورت حال سے آدمی دوچار ہوتا ہے۔ اور کچھ سوچ نہیں پاتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔

 

(۱۸)چھَلنی میں ڈال کر چھاج میں اُڑانا۔

چھلنی اور چھاج ہماری وہ معاشرتی زندگی کے دو اہم حوالہ رہے ہیں ایک میں چھانا جاتا ہے۔ اور ایک میں پھٹکا جاتا ہے۔ پھٹکنے کا عمل ایک طرح سے حواس اُڑانے کا عمل بھی ہے۔ اور بات اُڑانا افواہ اُڑانا مزہ اڑانا ہمارے ہاں سماجی رویوں میں شامل ہے۔ اُسی کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا جاتا ہے کہ’’ چھاج‘‘ میں رہ کر اُڑا  رہے ہیں اور ’’چھلنی‘‘ میں چھاَن رہے ہیں۔ ایک طرف باریکیاں نکال رہے ہیں اور دوسری طرف مذاق اُڑا رہے ہیں اور بدنامی پھیلا رہے ہیں۔

 

(۱۹) چہ میگوئیاں۔

ہمارے معاشرے میں خواہ مخواہ کی باتیں کرنے کا بہت رواج ہے غیر ضروری طور پربھی ہم کمینٹ کرتے رہتے ہیں اور باتوں کاچرچہ کرتے ہیں اسی کوچہ میگوئیاں کہتے ہیں کہ وہاں بہت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں لوگ اپنی اپنی سوچ مزاج اور ماحول کے مطابق باتیں کرتے ہیں۔

 

 

(۲۰) چھوٹا منہ بڑی بات

ہر آدمی کواپنی حیثیت اپنے حالات اور ماحول کے مطابق سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے  اگرایسا نہیں ہوتا اور لوگ اکثر اس کا خیال نہیں کرتے تو ایسی باتیں کرجاتے ہیں جو اُن کے منہ پر پھبتی نہیں ہے یا اُن جیسے کسی آدمی کی زبان سے اچھی نہیں لگتیں۔ اسی موقع پر کہتے ہیں چھوٹا مُنہ بڑی بات کرنا یعنی تمہارا مُنہ اس لائق نہیں ہے کہ تم اِس طرح کی یا اس سطح کی باتیں کرو۔

اس سے سماجی آداب ورسوم کاپتہ چلتا ہے۔ کہ کس کو کیا بات کرنی چاہیئے اور اگرمعاشرے کی سوجھ بوجھ کی سطح گِرجاتی ہے تو پھرکس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔

 

(۲۱)چھوئی موئی۔

ایک پودے کا نام بھی ہے جواس اعتبار سے بہت نرم ونازک پودا ہے کہ جیسے ہی اُس کو ہاتھ لگاؤ وہ مرجھایا ہوا نظر آنے لگتا ہے یہ غیرمعمولی طور پر حسّاس ہونے کی ایک صورت ہے اور ایسے لوگوں کی یا ان کی طبیعتوں کی چھُوئی موئی سے نسبت دیتے ہیں اور ایسی لڑکیوں کو خاص طور پر چھوئی موئی کہاجاتا ہے۔ جو ذراسی بات پر بُرا مان جاتی ہیں یا ذرا ہوا چلنے یا ٹھنڈ لگنے یا گرمی کا اثرہو جانے پر بیمار ہو جاتی ہیں یہ گویا سماج کا گہرا طنز ہے جو ایسے لوگوں پر کیا جاتا ہے جو مزاج کے بہت نازک ہوتے ہیں۔

 

(۲۲)چھینٹادینا۔چھینٹا پھینکنا۔

ایک سے زیادہ معنی رکھتا ہے عام طور سے جب کسی پر اعتراض کیاجاتا ہے یاچُٹکی لی جاتی ہے تو اُسے چھینٹاپھینکنا یا دینا کہتے ہیں یہ بھی ایک سماجی روش ہے۔ لیکن چھینٹا دینے کے ایک معنی ایک خاص طرح کی رسم بھی ہے جب کوئی بچّہ بیماری سے اٹھتا ہے اور صحت یاب ہوتا ہے تو اُسے غُسل صحت سے پہلے چھینٹا دیا جاتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیم کی ٹہنی کو پانی میں بھگویا جاتا ہے اور  پھراُس سے بیماری سے شِفایاب ہونے والے کو چھینٹا دیتے ہیں۔

پکانے کے سلسلے میں بھی یہ محاورہ کام میں آتا ہے اور  ایک خاص وقت میں روٹی یا سالن کو پانی کا چھینٹادیا جاتا ہے پراٹھے اور چاولوں کو بھی خاص طور پر چھینٹے اُڑانا بھی اسی سلسلہ کا ایک محاورہ ہے۔ ۔

 

 (۲۳)چیتھڑے بکھیرنا یا اُڑانا، چیتھڑے چیتھڑے کر دینا۔

معروف محاورات میں سے ہے ’’چیتھڑے ‘‘ایسے کپڑوں کو کہتے ہیں جو  گھِس کر پھٹ گئے ہوں بالکل جھِری  جھِری ہو گئے ہیں جسے مغربی یوپی میں جھیر جھیر ہونا یا  لھیر لھیر ہونا بھی کہتے ہیں اور اس سے مُراد یہ ہے کہ کسی بات کو کسی پروگرام کو یا عزت آبرو کو بُری طرح خاک میں مِلا دینا۔ کسی خیال کی شدید مخالفت کرنا کہ اُس نے فلاں بات فلاں دعویٰ یا دلیل کے چیتھڑے اُڑا دیئے سماج میں اس طرح کی صورتِ حال کا پیش آنا بہت بے عزتی کی بات ہوتی ہے اور ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اُس کے چیتھڑے اڑ گئے۔ اور بات بگڑ گئی۔

 

(۲۴)چیل کی طرح منڈلاتے پھرنا۔ یا چیل کو وّں کی طرح منڈلانا

جب آدمی کوکسی بات کا لالچ ہوتا ہے تو وہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ وہ کب اور کس سے کیا جھپٹ لے۔ چیل جھپٹا بچوں کا ایک کھیل بھی ہے اور چیل کی طرح جھپٹا مارنا اور موقع سے فائدہ اُٹھانا سماج کا ایک رو یہ بھی ہے۔ اور چیل جھپٹا مارنے سے پہلے منڈلاتی ہے چکّر لگاتی ہے۔ اسی لئے چیل کووّں کی طرح منڈلانا بھی کہتے ہیں جو کسی کے لالچی طریقہ کا کپڑا ایک طرح کا طنز ہوتا ہے اور ہمارے زیادہ محاورے اگر دیکھا جائے تو طنز اور تبصرہ ہی ہوتے ہیں۔

 

(۲۵)چیں بولنا یا بُلوانا۔

عجیب و غریب محاورہ ہے اور جس کے معنی ہوتے ہیں دوسرے کو بے طرح دبا دینا کہ وہ پناہ مانگنے پر مجبور کر دینا یہ جانداروں کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور غیر جانداروں کے لئے بھی جیسے ایسی مُوسلا دھار بارش ہوئی یا طوفانی مینہ برسا کہ اچھی اچھی عمارتیں چیں بول گئیں یا انہوں نے اِس بُری طرح اُن کی خبر لی کہ وہ چیں بولنے پر مجبور ہو گئے یا اُن سے چیں بُلوا دی اگر دیکھا جائے تو  یہ بھی ہمارے سماجی رویوں پر بھی تبصرہ ہیں۔

کبھی اتنی زور زبردستی ہوتی ہے کہ اچھے اچھے اُس صورتِ حال کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔

 

(۲۶)چیونٹی کے پر نکلے ہیں۔

یہ محاورہ بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ چیونٹی کا ذکر تو ہمارے روایتی قصوں میں آتا رہا ہے لیکن چیونٹی کے پر نکل آنا ایک بڑے طنز کا درجہ رکھتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ جب چیونٹی کی موت قریب آتی ہے تو اُس کے پر نکل آتے ہیں یہ ایک طرح پر خطرہ کا اعلان بھی ہے۔ لیکن اس سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے ہی مفہوم کو اخذ کیا کہ اب چیونٹی کے بھی پر نکل آئے وہ بھی اُڑنے لگی اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نا دانستہ اپنے لئے نقصان اور تباہی کے راستہ پر بڑھ رہی ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کیا گیا ہے اور کیسی کیسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

***

 

 

 

ردیف ’’ح‘‘

 

 (۱) حاشیہ چڑھانا۔

حاشیہ کسی عبارت کے سلسلے میں ذیل تحریروں کو کہتے ہیں بعض کتابیں حاشیہ ہوتے ہوئے بھی مستقل کتابوں کے درجہ میں آ جاتی ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے حاشیہ چڑھانا یا حاشیہ لگانا ایک طرح کا مجلسی رو یہ ہے کہ بات کچھ نہیں ہوتی اُس کو اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُسی کو حاشیہ چڑھانا کہتے ہیں اور حاشیہ لگانا بھی کم و بیش اسی معنی میں آتا ہے۔

 

(۲) حاضری دینا یا حاضری میں کھڑا رہنا۔

یہ درباری آداب کا حصّہ ہے بزرگانِ دین کے مزارات بھی جانے کو حاضری دینا کہتے ہیں نوکری بجانا دہلی کا ایک محاورہ ہے اُس کے معنی بھی کسی رئیس یا ادارے کی ملازمت کو پوری توجہ اور محنت سے انجام دینا۔

حاضری میں کھڑا رہنا تابعداری ہے اطاعت ہے پُرانے زمانے میں عبادت بھی کھڑے ہو کر ہی کہی جاتی تھی اسی لئے حاضری دینے کے معنی کسی کے سامنے سر جھکائے ہوئے کھڑے رہنے کے ہیں اور اِس سے ایک طبقہ کے سماجی رویوں کا پتہ چلتا ہے۔

 

(۳) حرام موت مرنا۔

حرام حلال کے مقابلہ کا لفظ ہے یعنی جائز کے مقابلہ میں ناجائز حرام کی کھانا حرام کی روزی حرام کا پیسہ حرام کی کمائی سب اسی ذیل میں آتے ہیں جب کوئی کہتا ہے کہ حرام موت مرنے سے کیا فائدہ تو اس سے مراد ہوتی ہے خواہ مخواہ جان دینا بڑا نقصان اٹھانا ہے۔ ایسے موقعوں پر سماج والے یہ کہتے ہیں کہ وہ تو حرام موت مرا ہے۔ خودکشی کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حرام موت ہے مگر اس میں کوئی طنز یا تعریف شریک نہیں ہے۔ جس طرح حرام موت مرنے میں ہے۔

 

(۴) حرف آنا،حرف اُٹھانا، حرف آشنا، حرف بنانا، حرف پکڑنا، حرف لانا۔

حرف بات کو کہتے ہیں اور جس طرح بات کے ساتھ بہت سے محاورے وابستہ ہیں جیسے حرف رکھنا اعتراض کرنا۔ حرف اُٹھانا تھوڑا بہت پڑھنے کے لائق ہو جانا۔ حرف شناسی بھی اسی معنی میں آتا ہے حرف پکڑنا غلطی پکڑنے کو کہتے ہیں حرف لانا بھی اسی معنی میں آتا ہے اِس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ الفاظ کا استعمال سماج کی سطح پر کس طرح اپنے معنی اور معنویت کو بدلتا رہتا ہے۔ اُس میں نئے نئے پہلو پیدا ہوتے رہتے ہیں اور  نئی نئی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں۔

 

(۵)حشر توڑنا یا برپا کرنا، حشر دیکھنا، حشر کا دن ہونا، حشر کا سا ہنگامہ ہونا۔

حشر قیامت کو کہتے ہیں اور حشر کے معنی طرح طرح کے فتنے اُٹھنا، اور ہنگامہ برپا ہونا ہے۔ اسی لئے حشر کے لغوی معنی کے علاوہ محاوراتی معنی بھی سامنے آتے ہیں۔

محشر بھی حشر کو کہتے ہیں اور اِس کے ساتھ بھی بعض محاورات وابستہ ہیں اور  اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لفظوں کے ساتھ معاشرتی اور تہذیبی ماحول میں کیا کیا تصورات اور تاثرات وابستہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور زبانِ فکر و خیال کی کِن کِن راہوں سے گزرتی ہے۔ حشر کا دن کیونکہ قیامت سے وابستہ ہے اس لئے مسلمان حشر کے ساتھ فتنہ اور ہنگامہ کا لفظ وابستہ نہیں کرنا چاہتے اگرچہ یہ محاورہ خود اسلامی کلچر سے وابستگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۶) حلق بند کرنا،حلق چُوں کرنا، حلق دبانا۔

حلق گلے کو کہتے ہیں آدمی کی آواز بند کرنے کے لئے اُس کا منہ دبا دیا جاتا ہے گلہ دبایا جاتا ہے۔ اُسے خاموش کیا جاتا ہے یہ مُجرمانہ انداز سے بھی ہوتا ہے کہ قاتل چور اور ڈکیت ایسا کرتے ہیں۔ سماجی اور  سیاسی زندگی میں بھی کسی کی آرزو دبائی جاتی ہے اُس کو محاورتاً گلہ دبانا بھی کہتے ہیں۔ اور  قصبہ کی زندگی میں یہ محاورہ کسی کو خاموش رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ اپنے ’’حلق چوں ‘‘ اور اس کی آواز کوئی نہ سنے اس کی کوشش کی جاتی ہے حلق سے جب آواز نکالی جاتی ہے تو وہ زیادہ قوت سے اُبھرتی ہے حلق سے باہر آتی ہے اسی لئے جو لوگ یا بچے روتے وقت زیادہ زور سے آواز نکالتے ہیں اُن کے لئے بھی کہا جاتا ہے۔ کہ وہ حلق سے روتے ہیں اسی مناسبت سے حلق چُوں کرنا اور حلق دبانے کا محاورہ آتا ہے۔

 

(۷) حُور کا بچّہ۔

حوُر اور پری ہمارے ہاں خوبصورتی اور حُسن کا آئیڈیل ہے جب کسی کو بہت خوبصورت ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ تو اُس کو ’’پری رو‘‘ پری چہرہ، پری تمثال اور  پری کا نمونہ کہا جاتا ہے کہ آخری لفظ طنز اور  تعریض کے طور پر بھی کسی کم صورت یا بدصورت آدمی کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حُور کا بچّہ کسی خوبصورت بچے یا بچی کے لئے یا زیادہ سے زیادہ کسی حسین مرد یا عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ پُری اولاد ہوتی ہے نہ حُور کے ماں باپ ہوتے یہ آئیڈیل ہیں آئیڈیل یعنی اُن کا رشتہ تخلیق سے وابستہ نہیں ہوتا۔

***

 

ردیف ’’خ‘‘

 

 (۱) خار رکھنا، خار گزرنا۔

خار کانٹے کو کہتے ہیں اور کانٹے کی خصوصیت چُبھنا اور  شدید اذیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ یہ اُس کی فِطری خوبی ہے لیکن اُسی سے محاورے کے معنی پیدا ہو گئے اور خار کھانا خار کی طرح کھٹکنا اور خار گزرنا محاورات بن گئے کہ یہ صُورت ناگواری کا باعث ہوتی ہے وہ آدمی بُرا لگتا ہے اور اِس معنی میں وہ خار کی طرح کھٹکتا ہے اور اُس کا موجود ہونا خار گزرتا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہے اور  یہ احساس دلاتا ہے کہ لفظ اپنے معنی کے اعتبار سے لغت کا حصّہ ہوتا ہے۔

لیکن جب تک اُس کے مُرادی معنی نہ ہوں وہ محاورہ نہیں بنتا، محاورہ ایک طرح کا ذہنی مفہوم رکھتا ہے جو لغوی معنی سے الگ ہوتا ہے اور  تہذیب و سماج سے اُس کا رشتہ نسبتاً گہرا ہوتا ہے۔

 

(۲)خاص خاص،خاص محل،خاص اور خاصہ وغیرہ۔

اس کے معنی ہوتے ہیں ’’مختص‘‘ لیکن یہ لفظ کچھ خاص معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ’’دیوانِ خاص‘‘ (لال قلعہ) اِس کے علاوہ مغل دور میں بادشاہوں کاجو شخص خط بناتا تھا اور بال کاٹتا تھا وہ خاصہ تراش کہلاتا تھا علاوہ بریں بادشاہ کے اپنے لئے یا کسی امیر کے لئے جو خاص کھانا تیار ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ بیگمات شاہی کو جو خطابات عطا ہوتے تھے اُن میں زینت محل،ممتاز محل جیسے خطابات کے ساتھ خاص محل بھی ہوتا تھا۔ یہ سب محاورات کے ذیل میں نہیں آتے اس لئے کہ اِن کے جو بھی معنی ہیں وہ لغت کے اعتبار سے ہیں محاورے کے اعتبار سے نہیں۔

 

(۳)خاطر میں رکھنا،خاطر میں لانا، یا نہ لانا وغیرہ۔

خاطر طبیعت کو کہتے ہیں جو باتیں طبیعت کے لئے ناگواری کا باعث ہوتی ہیں وہ ناگوارِ خاطر کہلاتی ہیں کچھ باتیں طبیعت کے لئے ایک گُونہ پریشانی کا باعث ہوتی ہیں وہ غبار خاطر کہلاتی ہیں ابوالکلام آزاد کے ایک مجموعہ خطوط کا نام ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے ہم جب دوسرے کو خوش آمدید کہتے ہیں تو وہ اس کی خاطر و مدارات کرتے ہیں تو وہ خاطر داری کہلاتی ہے۔ اس کے معنی خیال خاطر کے بھی ہیں بقولِ میر انیسؔ

؂ خیالِ خاطرِ احباب چاہیئے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

خاطر نشان ہونا دل میں بیٹھ جانا ہے۔ اسی کو دل نشیں ہونا بھی کہتے ہیں۔ خاطر خواہ کے معنی ہوتے ہیں حسبِ پسند ہونا ہم کسی کو جب توجہ اور تحسین کے لایق سمجھتے ہیں تو گویا اُس کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اور جب قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے تو گویا خاطر میں نہیں لاتے۔

 

(۴) خاک اڑانا،خاک ڈالنا، خاک چھاننا، خاک چاٹنا، خاک ہو جانا، خاک پھاکنا، خاک میں ملنا وغیرہ۔

خاک ہمارے یہاں مٹی کو کہتے ہیں جو ہماری زمین کا بہت بڑا مادی عنصر ہے۔ زمین میں جو چیز گِر پڑ جاتی ہے وہ زمین ہی کا حصّہ بن جاتی ہے۔ خاک ہو جاتی ہے یا خاک میں بدل جاتی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب اُس کا اپنا وجود باقی نہیں رہا وہ خاک کے برابر ہو گئے۔ ۔

خاک دھول اڑنا ایک طرح سے ویرانی کی علامت ہے جو سرسبزی اور شادابی کی مخالف ایک صورت ہے سرسبزی اگر ہو گی تو آبادی بھی ہو گی رونق اور تازگی ہو گی۔ اگر خاک دھُول اور مٹی کے سوا کچھ نہیں تو ویرانی کے تصوّر کے سوا اُس کے بارے میں اور کیا سوچا جا سکتا ہے اسی لئے جب کوئی خاندان کوئی ادارہ کوئی بستی یا کوئی مُلک  اُجڑ جاتا ہے تو  یہ کہتے ہیں کہ وہاں تو دیکھتے دیکھتے خاک اُڑنے لگی یا انہوں نے اپنی نالائقی سے خاک اُڑا دی۔

اِسی طرح سے خاک ڈالنا بھی ایک محاورہ ہے اور سماج کے عمل اور  ردِّ عمل کو پیش کرتا ہے کہ وہ اس لایق بھی نہیں ہے کہ اُس کا ذکر کیا جائے کہ خاک ڈالو کے معنی ہیں لعنت بھیجو خاک چٹکی بہت کم حیثیت دوا کو کہتے ہیں۔ جب خدا کا حکم ہوتا ہے اور  شِفاء مقدّر میں ہوتی ہے تو خاک کی چٹکی سے آرام ہو جاتا ہے یا خاک کی چٹکی بھی اکسیر ثابت ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں خاک پھانکنا، پریشان پھرنا باد ہوائی پھرنا ہے جب کہیں کسی کا کہیں ٹھور ٹھکانہ نہ ہو تو اُسے باد ہوائی پھرنا کہتے ہیں۔ خاک پڑنا بے رونق بے سہارا اور  بے عزت ہو جانا ہے کہ ہمارا وہ منصوبہ تو خاک میں مل گیا یا دشمن کے ارادوں پر خاک پڑ گئی۔

 

(۵)خاک و خون میں ملنا۔

قتل و غارت گری کے نتیجہ میں بربادی پھیلنا موت کا منظر سامنے ہونا وغیرہ اس سے ہم اپنے محاوروں میں سماجی حالات اور سماج کے ذہنی رویوں اور اُن پر گفتگو یا Commentکو بہتر صورت میں سمجھ سکتے ہیں۔

 

(۶)خام پارہ۔

اصل میں نادان یا بیوقوف لڑکی کو کہتے ہیں اور ایک مفہوم اِس کا کسی کم عمر لڑکی کا آوارہ ہونا ہے گلزارِ نسیم میں یہ محاورہ اسی معنی میں آیا ہے خام کار نہ تجربہ کار کو کہتے ہیں جو غلط باتیں کرتا ہے غلط کام کرتا ہے۔ غلط فیصلہ کرتا ہے۔ تو اُسے خام کاری کہتے ہیں۔ خام کے معنی کچّے کے ہیں اور اسی سے نا تجربہ کاری کے معنی محاورتاً اخذ کئے گئے ہیں۔

 

 

(۷)خانہ خراب ہونا۔

برباد ہونا، خانہ ویران ہونا بھی ہے اور کوسنے کے طور پر بھی کہا جاتا ہے کہ تیرا خانہ خراب ہو، تیرا گھر برباد ہو جائے ہم نے محاورات کا مطالعہ تبصرہ کے طور پر تو کیا لیکن گالی، کوسنے یا بُرے خیالات کے اظہار کے طور پر اس کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ خانہ خراب ہونا ایک صورتِ حال بھی ہے۔ مگر تیرا خانہ خراب ہویا اُس کا خانہ خراب ہو، یہ ایک کوسنا ہے۔

 

(۸)خُدا خُدا کرنا۔

بڑی کوشش خواہش اور کاوش سے کوئی کام کرنا اور نتیجہ کا انتظار کرنا۔ جیسے۔ ’’کفر ٹوٹا،خدا خُدا کر کے ‘‘یا خُدا خُدا کر کے وہ مانے یہ وقت گُزارے بھئی خُدا خُدا کر یہاں کون کسی کی سُنتا ہے۔

 

(۹)خُدا رکھے۔ خُدا سمجھے، خُدا سے لو لگنا،خُدا کا گھر، خدا کی پناہ، خدا ماری (اللہ ماری)، خُدا بخش(اللہ بخشی، الہٰی بخش،مولابخش) وغیرہ۔ (خُدا کی اگر نہیں چوری تو بندہ کی کیا چوری) خُدا کی سنوار( اللہ کی سنوار)خدا کے گھر سے پھرنا۔ خدائی خوار، خدائی خراب، خدائی دعویٰ کرنا۔

مسلمان تہذیب پر مذہب کا بہت گہرا  اثر ہے چاہے عمل پر نہ ہو مگر قول پر ہے اسی لئے بات بات میں وہ اللہ کا نام لیتے ہیں اور  خُدا خُدا کرتے ہیں اُن کے ہاں نام بھی خدا پر رکھے جاتے ہیں جیسا کہ اوپر لکھے گئے محاوروں سے ہم پتہ چلا سکتے ہیں محاورے حصہ بن جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ہم اِس سے بھی کر سکتے ہیں۔

خدا لگتی بات کہو خدا نہ کردہ یا خدا نہ کرے خدا کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں جب کوئی کام نہیں ہوتا تو کہتے ہیں کہ اللہ کا حکم نہیں ہوا۔ یا خدا کی مرضی اگر یہی ہے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔ یا اگر خدا کی چوری نہیں تو بندہ کی چوری کیا یا بندہ خدا (کوئی آدمی ) بالکل بدل گیا یا بالکل مکر گیا خدا ماری کو محبت میں کہتے ہیں اللہ سنواری کسی بچے یا بچی کے لئے کہتے ہیں۔ خدا سمجھے یعنی خدا ہی اس بات کو جانتا ہے وہی سمجھ سکتا ہے جو ذوق ؔ کا مصرعہ ہے۔

؂ جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اُس بت سے خدا سمجھے

مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے اور کعبۃ اللہ کوتو خدا کا گھر کہا ہی جاتا ہے اقبالؔ کا مشہور شعر ہے۔

؂ دنیا کے بُت کدے میں پہلا یہ گھر خدا کا

ہم اِس کے پاسباں ہیں یہ پاسباں ہمارا

(اقبالؔ)

خدا کے گھر جانے کے یہ معنی ہیں کہ آدمی موت کی منزل سے گزر گیا خدا کو پیارا ہوا اور ایسے ہی اس منزل تک پہنچ گیا جہاں سب کو جانا ہے لیکن جب آدمی شدید بیماری سے شِفایاب ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے گھر سے لوٹ آیا۔ اُس کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ جب آدمی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا تو وہ اکثر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ خدا کی باتیں خدا ہی جانیں۔ غرض کہ خدا پہلے یا اللہ ہماری تہذیبی نفسیات میں داخل ہے اسی لئے ہم توبہ کرتے وقت بھی ایسی توبہ کرتے ہیں اور قسم کھاتے وقت اللہ کی قسم یا قسم بخدا کہتے ہیں قرآن کو اللہ کا کلام کہتے ہیں۔ اور کلام اللہ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

’’خدا رسیدہ‘‘ ایسے بزرگ کو کہتے ہیں جو رُوحانی طور پر بہت بلند مرتبہ کا انسان ہوتا ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں کرتے اور اللہ کو پہنچا ہوا نہیں کہتے۔ صرف پہنچا ہوا کہتے ہیں۔

 

(۱۰)خلوت و جلوت،خلوت اختیار کرنا،خلوت میسر آنا، خلوت پسند ہونا، خلوت نشیں ہونا۔

خلوت کے معنی تنہائی، تنہا نشینی، جلوت اُس کے مقابلہ کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں دوسروں کے درمیان ہونا، انجمن یا محفل میں ہونا جو آدمی کسی جلوت کا ساتھی کہتے ہیں اس کے مقابلہ میں پسند کرنا ہے جو بعض لوگوں کی اور خاص طور پر صوفیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت تنہائی میں گزار دیتے ہیں اور اللہ سے لو لگائے رکھتے ہیں جو (خود ایک محاورہ ہے)۔

’’خلوت کدہ ‘‘’’خلوت خانہ‘‘ ایسے کمرہ کو بھی کہتے ہیں جہاں آدمی تنہائی کے لمحات گزارتا ہے یا کوئی شوہر اپنی بیوی یا محبوبہ کے ساتھ ہوتا ہے۔

 

(۱۱)خون پینا،خونِ جگر پینا،خون سر چڑھنا،خون سفید ہونا، خون کا پیاسا، خون کا دشمن ہونا، خون اترنا، خون سوار ہونا، خون کے بدلے خون۔

خون زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے اُس کے بغیر بہت سے حیوانات میں زندگی باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے خون کا ذکر ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جہاں زندگی کا سوال ہوتا ہے اور موت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے خون گرانا،خون کرنا، قتل کرنا،خون پینا،کسی کے ساتھ انتہائی دشمنی کا اظہار کرنا ہے۔

اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ ہے کہ وہ اس کے خون کا پیاسا ہے اور جہاں کسی کے لئے قربانی دینے کا سوال ہوتا ہے یا وہاں بھی ایک چلّو خون گرانا کہتے ہیں یا یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جہاں تمہارا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ خون کے بدلے خون کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ خون کا بدلہ خون سے لیا جائے گا۔ جہاں خون کے بدلہ میں قیمت لے لی جاتی ہے وہاں خون بہا کہتے ہیں۔

خون کی ندیاں بہنا یا  بہا دینا بے حد خون خرابہ کو کہتے ہیں قتلِ عام کی صورت میں یہی تو ہوتا تھا۔ جس گھر میں جوان لڑکی بیٹھی ہوتی ہے وہاں یہ کہا جاتا ہے کہ خون کی بارش ہوتی ہے۔ لہو رونا بھی ایک طرح سے آنسوؤں کی صورت میں خون بہانا ہے۔ خون پینا اور  خون کے گھونٹ پینا دو الگ الگ محاورے ہیں پہلے محاورے کے معنی ہیں دشمنی میں کسی کو قتل کرنا یا اُس کی شہ رگ کاٹ کر اس کا خون پینا۔ قدیم دورِ وحشت میں یہ ہوتا بھی تھا اور ترک و تاتاری سپاہی تو گھوڑے کا خون پیتے تھے۔ خون پلانا انتہائی محبت کا اظہار کرنا یا ایثار و قربانی کرنا ہے۔

جب کسی آدمی کا کوئی عزیز قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے سرپر گویا خون سوار ہو جاتا ہے اور  وہ یہ چاہتا ہے کہ خون کے بدلے میں اس کا’’ خون‘‘ کر دے اسی کو خون سوار کہتے ہیں اس کے علاوہ جب کوئی آدمی انتہائی جوش و جذبہ کے عالم میں کسی کا خون کر دیتا ہے تو اس پر جنون کی سی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو خون سوار کہتے ہیں۔

خون پسینہ ایک کرنا انتہائی کوشش کرنے کو کہتے ہیں کہ اس مہم کو سر کرنے یا اس کام کو انجام دینے کے لئے اس نے خون پسینہ ایک کر دیا۔ خون سے خون اور خون کا پانی کر دینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ ’’ خون جگر پینا ‘‘بھی خلوصِ خاطر کے ساتھ کسی بات کو نبھانا ہے مثلاً عشق کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں لخت جگر کھانا اور  خون دل پینا پڑتا ہے۔

اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم محاوروں کے ذریعہ کس طرح اپنے احساسات جذبات، سماجی رویوں، محبتوں اور نفرتوں کا اظہار کرتے ہیں اور ہمارے جذبات کی نرمی و گرمی کس طرح ہمارے اظہار میں شریک رہتی ہے۔

 

(۱۲)خیالی پلاؤ پکانا۔

پلاؤ ہمارے یہاں چاول،گوشت، یا گوشت کی یخنی سے تیار کیا ہوا ایک خاص کھانا ہوتا ہے۔ اسی لئے پلاؤ کھانا بھی ایک محاورہ بن گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی کا شعر ہے۔

؂ بتائیں ہم تمہیں مرنے کے بعد کیا ہو گا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا

یہاں پلاؤ کھانے کے محاوراتی معنی لئے گئے ہیں یعنی لوگ مرنے والے کا غم نہیں مناتے بلکہ پلاؤ پکاتے اور کھاتے ہیں۔

خیالی پلاؤ دوسری بات ہے یعنی اپنے طور پر سوچنا کہ یوں نہیں تویوں ہو جائے گا ہم یہ کر دیں گے وہ کر لیں گے یہ سب خیالی پلاؤ ہے۔ جس کو انگریزی میں Wosjfi; tjomlomgکہتے ہیں۔

یہ انسان کی عجیب سی حالت ہوتی ہے اور اس کی اچھی بری نفسیات اس میں شریک ہوتی ہے۔ انہیں معنی میں یہ فرد کا یا پھر سوسائیٹی کا ایک معاشرتی رو یہ ہوتا ہے۔ جو لوگ صحیح وقت پر قدم نہیں اٹھاتے وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے وہی زیادہ تر خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔

***

 

ردیف ’’د‘‘

 

(۱)داتا دے بھنڈاری کا پیٹ پھٹے۔

ہماری تہذیبی معاملات اور  معاشرتی رو یہ بھی کچھ عجیب و غریب ہیں۔ اور  سماجی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں بھنڈاری اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی ذخیرہ کا نگہبان ہوتا ہے۔ بھنڈار بڑے ذخیرے ہی کو کہتے ہیں دینے والا دیتا ہے اور سب کو دیتا ہے لیکن جو ذخیرہ کا نگہبان ہے وہ اللہ واسطے میں یہ سوچتا ہے کہ کسی کو یوں دیا جا رہا ہے کہ بہت سے لوگ دوسروں کا کام بنتے ہوئے دیکھ کر جلتے ہیں اور خواہ مخواہ اختلاف کرتے ہیں اُن کے اپنے پاس سے کچھ نہیں جاتا۔ پھر بھی انہیں تکلیف پہنچتی ہے اس سے ہمارے سماج کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے۔

 

(۲) داد دینا،داد کو پہنچنا،داد نہ فریاد۔

’’داد‘‘ فارسی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں داخل ہو گیا ہے اور ایک سے زیادہ محاوروں میں یہ موجود ہے شِعر  پر جب ہم تحسین و آفریں کہتے ہیں تو اُسے داد سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس شعر کی بہت داد ملی۔ داد دینا انصاف کرنے کو بھی کہتے ہیں اور انصاف کرنے والا اکثر داد گر کہلاتا ہے۔ کچہری کو داد گاہ کہا جاتا ہے۔ انصاف پیشگی کو دادِگیری کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ جب کسی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو اُسے داد فریاد کہتے ہیں اور جب کوئی کچھ نہیں بولتا اور بڑے سے بڑے ظلم و زیادتی پر لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُس کی داد نہ فریاد اس طرح یہ محاورے سماج میں حق گزاری اور حق شناسی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اور  نہ حق باتوں کی طرف جن میں ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا رو یہ شریک رہتا ہے۔ ہمارے محاورات انہی سچائیوں کی پردہ کُشائی کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر کبھی غور کریں یا نہ کریں۔

 

(۳)داغ دینا، داغ اُٹھانا، داغ بیل ڈالنا،داغ لگانا، یا داغ لگنا۔

داغ ایک طرح کا دھبّہ ہوتا ہے جو کسی بھی چیز پر خاص طور سے اچھے کپڑے اور  کاغذ پر لگ جائے تو بہت بُرا لگتا ہے قدیم زمانہ میں جو آدمی کسی کا غلام ہوتا تھا خاص طرح سے نشان سے اُس کو داغا جاتا ہے اور وہ داغی غلام کہلاتا تھا۔ یعنی وہ آئندہ منہ دکھلانے کے لائق نہ رہتا تھا۔ اس قابل کر دیا جاتا تھا۔

اسی حقیقت کے پیشِ نظر خاندانی عزت کو اگر کوئی بات کوئی کام یا کوئی روش خراب کرتی یا مٹاتی تھی تو اُسے بھی کام لگنا یا داغ لگنا کہتے تھے۔ داغ ؔ دہلوی کا شعر ہے۔

 

؂ میں اگر چاہوں تو گویا رب ابھی توبہ کر لوں

داغ لگ جائے گا لیکن تیری غفاری میں

 

داغ اٹھانا، صدمہ سے گزرنا ہے۔ داغ دیکھنا اور  داغ کھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے کسی شاعر کا شعر ہے۔

 

؂ داغ دیکھے ہیں ‘ داغ کھائے ہیں

دل نے صدمے بہت اُٹھائے ہیں

داغ کے معنی جلنے یا جل اٹھنے کے بھی ہیں جواس شعر کی طرف اشارہ ہے۔

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

’’داغ بیل ڈالنا‘‘ ایک الگ صورت ہے جس کے معنی ہیں شروعات کرنا کسی کام کا ابتدائی منصوبہ تیار کرنا اور اُس پر عمل کرنا اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کام کی داغ بیل فلاں شخص نے ڈالی تھی۔ یعنی سلسلہ قائم کیا تھا۔

 

(۴)دال روٹی سے خوش ہونا، دال روٹی صبر و شُکر سے کھانا۔

دال ہمارے یہاں غریب آدمی کی خوراک کا ایک ضروری حصہ ہوتا تھا کباب،قلیہ،قورمہ، مُتنجن وغیرہ اعلیٰ درجہ کے سالن غریب آدمی کو کہاں میسر آتے تھے۔ بکرے کا گوشت اگرچہ آٹھ آنے سیر تھا اور اس سے پہلے اور  بھی سستا ہو گا۔ مگر ایک غریب آدمی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے وہ تو دال دلیا سے اپنا کام چلا لیتا تھا اس کا اصل مسئلہ تو پیٹ بھرنا تھا۔ روکھی روٹی نہ کھا کر وہ دال سے کھاتا تھا۔ اس پر بھی خوش ہوتا تھا اور خدا کا شکر ادا کرتا تھا آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دال روٹی آرام سے کھانے دو یہ ہمیں پیٹ بھرکر مل رہی ہے یہ بھی کیا کم ہے۔

اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تو اتنی غربت تھی کہ شادی کے موقع پر دال چاول اسپیشل کھانے کے موقع پر کھلائے جاتے تھے دال دیگ میں پکتی تھی اور چاول کڑھائی میں اُبالے جاتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ محاورے ہماری معاشی یا مالی حالت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا روکھی روٹی اور خشک نوالے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کبھی کبھی تو ایک ہی روٹی ہوتی تھی اس کے مقابلہ میں اس کو خوشحالی تصور کیا جاتا تھا کہ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانے کا موقع مل رہا ہے۔

اس سطح پر  اگر محاوروں کا مطالعہ کیا جائے توہم ایسی تاریخی معاشرت کے بارے میں بھی بہت سی سچائیوں کو جان سکتے ہیں اور ایک زمانہ کے زبان کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو اس دور کی ذہنی اور نفسیاتی سطحوں اور حالتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے غور نہ کرنا۔

 

 

(۵)دال میں کچھ کالا ہے،دال نہ گلنا۔

دال پکائی جاتی تھی اور وہ بھی دھوئی ہوئی دال تو اُس میں ایسا تو تھا نہیں کہ اُس میں گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہو۔ لونگیں،سیاہ مرچیں اور کالا زیرہ، دال میں کون ڈالے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے جو بے چارہ دال کھا رہا ہے وہ اوپر سے خرچ کرنے کے لئے مزید پیسے کہاں سے لائے اسی لئے دال میں کوئی کالی چیز نہیں ہوتی تھی اور اگر نظر آ جاتی تھی تو شبہ کی بات بن جاتی تھی کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اسی کو سماجی زندگی میں محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا تو اسی سے شکوک و شبہات کی طرف اشارے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

دوسرا محاورہ دال گلنا ایک اور صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جو غربت کی صورت حال ہے اب سے کچھ زمانہ پہلے تک غریب گھروں میں ایندھن کی بڑی دشواری ہوتی تھی۔ آگ بھی ایک بڑی نعمت تھی اور گھروں سے آگ مانگی جاتی تھی۔ اور کرچھی لے کر ایک گھر سے دوسرے گھر جایا جاتا تھا کہ ایک دو انگارے مل جائیں اور اکثر ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ہوتا تھا کہ دال پوری طرح پکتی بھی نہیں تھی اور کچی رہ جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے دال گلنا ایک محاورہ بن گیا اور  جہاں کسی کی بات نہیں بنتی تھی وہاں بھی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔

 

(۶) دام میں آنا،دام میں لانا، دامن پکڑنا، دامن پھیلانا، دامن جھاڑنا، دامن جھٹکنا، دامن سے لگنا۔

دام میں آنا یا لانا کسی کے جال میں پھنسنا فریب دہی کا شکار ہونا۔ یہ ہمارے سماج کا ایک رو یہ ہے کہ وہ دھوکا دیکر دوسروں سے کام نکالتے ہیں اور ان کو مصیبت میں پھانس دیتے ہیں اور آدمی اپنی کسی ضرورت مجبوری یا سادہ لوحی کے زیر اثر دوسرے پر اعتبار کرلیتا ہے۔ اور پھر پریشانیوں میں پھنس جاتا ہے۔

دام میں آنا یا دام میں لانا اسی فریب دہی کے عمل کو کہتے ہیں جس کا مظاہرہ ہماری معاشرتی زندگی میں صبح و شام ہوتا رہتا ہے دامن پکڑنا یا پھیلانا دو الگ الگ محاورے ہیں دامن ہمارے لباس کا ایک بہت اہم حصہ ہوتا ہے جس سے ہم بہت سا کام لیتے ہیں چھوٹے بچے کو دامن سے ڈھکتے ہیں عورتیں پردہ میں منہ چھپانے کے لئے اپنے دامن سے نقاب کا کام لیتی ہیں ہم دوسرے کا دامن پکڑ کر اس کی دیکھ ریکھ یا نگرانی اور  رہنمائی میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں دامن جھاڑنا یا جھٹکنا، ذمہ داری سے دامن بچانے کا عمل ہے۔ جو اکثر ہمارے تہذیبی رویوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دامن سے لگ کر بیٹھنا کسی سے قریب تر آتا رہنا اور پناہ لینے کی کوشش کرنا ہے دامن چاک کرنا انتہائی بے صبری بے سکون اور جوش کا اظہار کرنا ہے جس کو جنون کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اُردو کا ایک معروف شعر ہے۔

؂ اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک‘ اور  گریباں کے چاک میں

دامن کو تار تار کرنا بری طرح چاک کر دینا اور اسی کو دامن کے ٹکڑے اڑا دینا بھی کہتے ہیں۔

 

 

 

(۷)دانت بجنا،دانت پیسنا،دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت دکھانا۔

دانت سے متعلق مختلف محاورات ہیں سردی میں جب آدمی کپکپاتا ہے تو اس کے دانت بھی کپکپانے لگتے ہیں اسی کو دانت بجنا کہا جاتا ہے۔ دانت پیسنا ایک دوسرا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اظہارِ نا خوشی کرنا اور غصہ میں بھر جانا۔

دانت کاٹی روٹی ہونا ایک دوسری نوعیت کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی ہیں بہت قریبی تعلق ہونا گہری دوستی ہونا۔ اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی جھُوٹی اور  کھائی ہوئی روٹی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے۔ چھُوت چھات ہمارے معاشرے پر بے طرح اثرانداز ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے ہم دوسرے کے برتن میں کھانا نہیں کھاتے دوسرے کا پیا ہوا پانی نہیں پیتے۔ لیکن کسی سے ایسا رشتہ بھی ہوتا ہے قریبی تعلق کہ اس کے دانتوں سے کاٹی ہوئی روٹی بھی کھا لیتے ہیں ایسا ہوتا بھی ہے نہیں یہ ایک الگ بات ہے مگر اس محاورے سے بہرحال گہری دوستی اور  اپنائیت کے رشتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔

جانوروں کی عمر کا  تعیّن کرنے کے لئے ان کے دانت دیکھے جاتے ہیں اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ کوئی نہیں پوچھتا کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ دانت دکھانا منہ چڑانے کو بھی کہتے ہیں اور بے مروتی  اختیار کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اسی لئے طنز کے طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ تو وقت آنے پر دانت دکھا دیتے ہیں۔ کام نہیں کرتے اور ذمہ داری نبھانے سے منہ موڑتے ہیں۔

 

(۸)دانتوں میں انگلی دینا۔ دانتوں تلے انگلی کاٹنا یا دابنا، دانتوں میں تنکا لینا، دانت ہونا۔

دانتوں سے متعلق جو محاورے ہیں ان میں دانتوں تلے انگلی دینا یا دابنا سماجی ردِعمل کا اظہار ہے کہ یہ کیا ہوا کیسے ہوا اور  کیوں ہوا۔

اِس کے مقابلہ میں دانتوں میں تنکا لینا ایک خاص طرح کا سماجی عمل ہے جس کا تعلق اظہار عاجزی کرنے سے ہے غالبؔ نے اِس کی ایک موقع پر تشریح کی ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی طرف کے لوگوں نے یہ رسم رہی ہے کہ جب وہ اظہار عاجزی کرتے ہیں تو اپنے دانتوں میں تنکا دباتے ہیں اور دوسروں کے سامنے جاتے ہیں ان کا شعر ہے۔

؂ نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

دانت رکھنا اور دانت ہونا ایک طرح کا نفسیاتی عمل اور  سماجی رویوں کا اظہار ہے کہ آدمی پہلے سے کسی بات کو دل میں ٹھان لیتا ہے اور لالچ کا ایک رو یہ اس کے بارے میں پیدا کر لیتا ہے کہ اگر ایسا ہو جائے اور موت نکلے تومیں یہ کروں گا اس مکان دوکان کھیت زمین یا چیز پر قبضہ کروں گا یہی دانت رکھنا کہلاتا ہے اور اس سے لالچ کا اظہار ہوتا ہے دانت ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔

 

(۹) داؤں پر اڑنا۔ داؤں  پر چڑھنا، داؤں کرنا، داؤں کھا جانا، داؤں لگنا، داؤں میں آنا، داؤں کھیلنا، داؤں پر لگانا۔ وغیرہ

اصل میں فنِ کشتی گری سے متعلق محاورات ہیں جو ہماری سماجی زندگی میں بھی کا م آتے ہیں۔ اور مختلف انسانی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً داؤں آنا داؤں جاننے کو بھی کہتے ہیں اور موقع ملنے کو بھی یہ شطرنج کے کھیل سے متعلق بھی محاورے کی ایک صورت ہے اسی لئے داؤں کھیلنا کہتے ہیں۔ جس کا مقصد دوسرے کو پھنسانا ہوتا ہے۔ جو اس طرح پھنس جاتا ہے وہ گویا داؤں پر چڑھ جاتا ہے اور پھنسا نے والے کو داؤں ہاتھ آ جاتا ہے یا اس کا داؤں چل جاتا ہے۔ اسی کامیابی کو داؤں لگنا بھی کہتے ہیں کہ اس کا داؤں لگ گیا بلی جب چڑیوں کو یا چوہے کو شکار کرنا چاہتی ہے تو کوئی نہ کوئی داؤں کھیلتی ہے یہ فریب دینے کا طریقہ ہوتا ہے یعنی ایک ہی بات پر زور دینا ہے جبکہ داؤں کا تعلق تو صورتِ حال پر نظر رکھنے سے ہوتا ہے۔

داؤں دینا مکّاری کر جانے کو کہتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ایسے محاورات سے پتہ چلتا ہے کہ محاورے طبقاتی ہوتے ہیں پہلے انہی طبقوں میں رائج ہوتے ہیں جس سے اُن کا خاص تعلق ہوتا ہے رفتہ رفتہ وہ عمومیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان میں معنیاتی اعتبار سے نئی نئی تہہ داریاں اور پہلو داریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

 

(۱۰)دائیں بائیں کر دینا،دبی آگ کریدنا، دبی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے۔ یا بھیگی بلی چوہوں سے کان کترواتی ہے۔

دائیں بائیں کرنے کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کر دینا یہ ایک اہم سماجی عمل ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں جھگڑے کو وقتی طور پر نمٹانا کہ وہ دونوں آپس میں بُری طرح جھگڑ رہے تھے اُن کو دائیں بائیں کر دیا دوسرے معنی ہوتے ہیں پریشر کو کم کر دینا۔ اس لئے کہ آدمی کی طبعیت پر جب جوکھ ہوتا ہے حالات ناساز گار ہوتے ہیں تو وہ اُس پریشر کو ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ قابلِ برداشت کڑ اسی لئے بات کو اِدھر اُدھر کر دینا چاہتا ہے خیالات یا سوالات کو بکھیر دینا چاہتا ہے تاکہ ان کا دباؤ یا جماؤ کم ہو جائے۔

دباؤ کو کم کرنا ہماری سماجی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے اس لئے کہ ہمارے یہاں متعدد محاورے دباؤ سے متعلق ہیں اس کو دباؤ بھی کہتے ہیں اور داب بھی وہ اس کو اپنی داب میں رکھنا چاہتا ہے داب کا لفظ رعب و داب کے ساتھ بھی آتا ہے۔

آگ کو دبا کر رکھا جاتا ہے یہ اس کی حفاظت کی غرض سے ہوتا ہے لیکن دبی آگ کو کریدنا ایک سماجی عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ یہ کہ جو جھگڑے اختلافات اور الجھنیں دبا کر رکھی گئیں تھیں۔ یعنی اُن پر گفتگو نہیں کی جاتی تھی انہیں چھپایا جاتا تھا اب اگر اسے پوچھا جا رہا ہے بات کو اس رخ پر لایا جا رہا ہے اور  ہوا دی جا رہی ہے تو اس عمل کو جو دانستہ اور  بڑی حد تک فریب کارانہ ہوتا ہے۔

جب آدمی کسی وجہ سے مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو معمولی لوگ بھی اس کے منہ آنا چاہتے ہیں اُس کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر تنقید کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ بلّی بچاری کہیں پھنس گئی ہے۔ اور چُوہے جسے اُن کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے وہ اُن کے سرپر سوار ہوتے ہیں بلکہ اس کے کان کترتے ہیں۔ اِس محاورے کے ذریعہ بھی ہم سماج اور  کسی معاشرے سے متعلق افراد کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔

 

(۱۱)دروازے کی مٹی۔

دروازہ کسی بھی مکان کا بے حد اہم حصّہ ہوتا ہے کہ اُسی کے ذریعہ آمد و رفت ممکن ہوتی ہے۔ دروازے کو سجایا جاتا ہے جانے والے کو دروازے تک پہنچایا جاتا ہے اور آنے والے  کا دروازے پر استقبال کیا جاتا ہے چوکھٹ کا تعلق خاص طور پر دروازے سے ہوتا ہے اور چوکھٹ بڑے دروازے سے ہوتا ہے

اور چوکھٹ بڑے احترام کی چیز ہوتی ہے۔

قدیم قوموں میں دروازے کو سجدۂ احترام بھی کیا جاتا تھا۔ ہندوؤں میں چوکھٹ کا پوجن بھی ہوتا ہے اسے تلک لگاتے ہیں بند دروازے کاغذوں سے سجاتے ہیں بعض قدیم گھروں پر جو دروازے ہوتے ہیں ان پر ہاتھی گھوڑے بنے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اُن کے دروازے پر ہاتھی جھُولتے ہیں دربان بھی دروازوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

دروازے کو ویران کرنا گویا اس گھر اس خاندان کی عزت لے لینا ہے اسی لئے دروازے کی مٹی ایک خاص معنی اختیار کر لیتی ہے۔ دروازے کی مٹی لے ڈالنا اسی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے اسے چرنجی لال نے لیولے بھی کہا ہے۔ جسے مغربی یوپی والے اپنے تلفظ کے اعتبار سے ’’لیوڑ‘‘نے بھی کہتے ہیں اور ’’لیوڑے ڈالنا‘‘ مٹی کی تہوں کو بھی اٹھا اٹھا کر اکھاڑ اکھاڑ کر لے جانے کے عمل کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس گھر میں کچھ نہیں چھوڑا اور  جو ہاتھ لگا اٹھا کر اسے لے گئے اِس سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج اور بعض سماجی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

 

(۱۲)دریا،دریا دلی، دریا میں ڈالنا، دریا کو کوزے میں بند کرنا، دریا کو ہاتھ سے روکنا۔

دریا کے معنی ندی کے بھی ہیں بڑی ندیوں کے بھی اور خود سمندر کے بھی، دریا اپنے معنی اور معنویت کے ساتھ ہمارے معاشرے کی بہت باتوں میں شریک رہتا ہے اور اس سے ہم موقع بہ موقع اپنی معاشرتی روشوں اور  رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام لیتے ہیں۔ مثلاً دریا بہنا، زیادہ پانی بہنا بھی ہے اور دولت کی فراوانی بھی۔ دریا میں ڈالنا، اس طرح کسی چیز کو پھینک دینا کہ واپسی کی کوئی توقع نہ رہ جائے ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ ایسے ہی کسی نفسیاتی عمل اور  رد عمل کی طرف اشارہ ہے۔ دریا دلی’’ بڑے دل‘‘ کے لئے آتا ہے۔ دریا  سُوکھ جانا بہت مشکل پریشانی اور قحط کے زمانے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس موسم میں تو دریا بھی سُوکھ جاتے ہیں۔

دریا کو کوزے میں بند کرنا کسی بہت بڑی بات کو چھوٹی سی گفتگو میں سمیٹ لینا، علم دریا ہے۔ یعنی عِلم کا کوئی کنارہ نہیں جتنا چاہو علم سیکھتے رہو۔ وہ آگے بڑھتا رہے گا یہی اُس کی فطرت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں علم کے متعلق کیا تصورات پائے جاتے ہیں دریا کو بہاؤ سے نسبت دی جاتی ہے دریا چڑھتا اُترتا ہے لیکن اس کے بہاؤ کو ہاتھ سے روکا نہیں جا سکتا جیسے مٹھی میں ہوا کو تھاما نہیں جا سکتا۔

سماج میں بعض ایسے رو یہ اور  روشیں ہیں کہ اُن کو ہم بُرا کہتے رہتے ہیں لیکن وہ روکی نہیں جا سکتیں۔ آخر دریا کی روانی بھی تو نہیں رک سکتی وقت کا دھارا بھی تو ہاتھ سے نہیں روکا جا سکتا۔

 

(۱۳) دریا میں رہنا مگرمچھ سے بیر کرنا۔

ہم جہاں رہتے ہیں اس ماحول کو پہچاننا اچھے بُرے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اُس سے مناسب تعلق رکھنا یہ ہمارے سماج کا ہماری زندگی کا اور ہمارے معاملات اور مسائل کا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔

جن کے درمیان ہم رہتے ہیں وہ ہمارے اپنے بھی ہو سکتے ہیں غیر بھی دشمن بھی ہو سکتے ہیں اور دوست بھی یہ مشکل ہے کہ جس کے درمیان ہم رہتے ہوں اُن سے ہم غیریت برتیں دشمنی مول لیں اور پھر آرام و اطمینان سے رہیں اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر تو نہیں رکھا جا سکتا۔ مگرمچھ طاقتور بھی ہوتا ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی وہ گھات لگاتا ہے ایسا ہی کوئی شخص خطرناک دشمن اِس ماحول میں بھی ہو سکتا ہے جہاں ہم جا رہے ہوں اور اُس آدمی کے اور ہمارے درمیان مخالفت ہو۔

 

(۱۴)دست بدست دینا، دست درازی کرنا۔

ہاتھ ہماری ذاتی و معاشرتی زندگی کا نہایت اہم  وسیلۂ  کار ہے۔ اِسی لئے ہاتھ پیروں کے چلتے رہنے کی دعاء مانگی جاتی ہے۔ ہاتھ ہمارے ہر کام آتا ہے۔ ہم ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اور دوسرے کو ہاتھ سے لیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس آدمی کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک سے لیکر دوسرے دیتے رہتے ہیں

شادی بیاہ کے موقع پر کھانا کھلاتے وقت یہ اکثر دیکھنے کو ملتا تھا اِسی لئے ہاتھوں ہاتھ لینا یا دست بدست لین دین کا محاورہ سامنے آیا۔ کسی شاعر کا شعر ہے۔

؂ اُن کی محفل میں مِرا خُون بٹا دست بدست

جیسے معشوق لگاتے ہیں حِنا دست بدست

اسی طرح اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے

ہاتھ اُدھار کی بات اکثر ہم لوگوں کی زبان پر آتی رہتی ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے ہاتھ سے اُس نے اُدھار دیا ہے کوئی لکھا پڑھی نہیں ہوئی۔ ایسے ہی موقع پر ہاتھ کو ہاتھ پہچاننا بھی کہتے ہیں۔ یہ اُن کے دست و دماغ کی بات ہے یعنی اُن کے سوچنے اور کام کرنے کا معاملہ ہے کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں۔ ایسے موقع پر دست و قلم بھی کہتے ہیں۔ دستِ خود دہانِ خود بھی محاورہ ہے یعنی خود نوالہ توڑو بناؤ اور کھاؤ یہ ظاہر ہے کہ اُس موقع کے لئے کہا جاتا ہے جب آدمی دوسرے کا سہارا تکتا ہے۔ کہ کوئی دوسرا ہی سب کچھ کرے اور وہ خود کچھ نہ کرے۔

ہمارے معاشرے کی یہ بہت عام کمزوری ہے۔ کہ ہم خود نہیں کرنا چاہتے ہر کام کی انجام دہی میں دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔

 

(۱۵)دسترخوان بڑھانا۔

دسترخوان لگانا یا سجانا بھی محاورہ ہے۔ مثلاً اپنے دسترخوان کو غریبوں سے سجاؤ یعنی اُن کو دعوت دوکہ وہ کھانا ساتھ کھانا کھائیں دسترخوان لگانا اپنے دسترخوان پر اچھے اچھے کھانوں کا چُننا۔ ظاہر ہے کہ یہ اُمراء کے لئے آتا ہے غرباء کے لئے نہیں۔ دسترخوان اُٹھانا نہیں کہتے اِس کے مقابلہ میں بڑھانا کہتے ہیں جو گویا ایک دعا ہے کہ دسترخوان چھوٹا نہ ہو دولت و نعمت میں کمی نہ آئے بلکہ دسترخوان بڑھتا رہے زیادہ سے زیادہ لوگ اِس سے فائدہ اٹھائیں اسی لئے ہمارے یہاں چراغ کے ساتھ بجھانے کا لفظ نہیں آتا۔ ایران والے چراغ گُل کردن کہتے ہیں اور ہم چراغ بڑھانا کہ اِس میں بھی دعاء کا یہ پہلو شامل رہتا ہے کہ چراغ بجھے نہیں بلکہ اس کی روشنی پھیلتی رہے۔ اِس سے ہم اپنی سماجی نفسیات اور تہذیبی رُسوم و آداب کا پتہ چلا سکتے ہیں۔

 

(۱۶)دست گرداں، دسواں دوار کھُل جانا، دست و پا مارنا، دسوں انگلیاں دسوں چراغ۔

دست (ہاتھ) سے جو محاورات بنے ہیں اُن میں دست مال بھی ہے جو رومال کو کہتے ہیں دست دینا بھی ہے دلوں پر دستک دینا بھی اس میں شامل ہے لیکن اِن میں آخرالذکر کے علاوہ محاوراتی انداز کم ہیں۔ دلوں پر دستک دینا لوگوں کو اپنے حال کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اُردو کے ایک شاعر کا  شعر ہے۔

؂ اب تلک میں نے دِلوں پرہی تو دستک دی ہے

اب کہاں جا کے بھلا خُود کو پکارا جائے

جو چیز ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے اُسے ’’دست گرداں ‘‘ کہتے ہیں جیسے سکّے، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتے بولتے ہیں اسی طرح جو چیز بازار میں عام ملتی ہے اور فروخت ہوتی ہے اُس جنس کو دستِ گرداں کہا جاتا ہے اب ایسی ہی کوئی شخص بھی ہو سکتا ہے جو کبھی اِس کے ساتھ اور کبھی اس کے ساتھ اسی کو عام زبان میں چالو ہونا کہتے ہیں کہ وہ تو چالو آدمی ہے۔

 

(۱۷)دعوتِ شیراز۔

دعوت کے معنی بلانے یا توجہ دلانے کے ہیں اور کسی کام کی انجام دہی کے لئے خواہش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے مقابلہ میں کھانے پر بُلانا اور شریکِ طعام کرنا دعوت کرنا کہلاتا ہے۔ جس دعوت میں بہت سے تکلف کے سامان ہوتے ہیں وہ پُرتکلف دعوت کہلاتی ہے۔

اور جس میں بہت سادہ کھانا ہوتا ہے وہ محاورتاً دعوتِ شیراز کہلاتی ہے۔ یعنی غریبی کی حالت میں کی جانے والی دعوت۔

(۱۸)دل اُٹھنا،دل اُچاٹ ہونا، دل آنا، دل بجھنا، دل بُرا کرنا، دل بڑھانا، دل بھاری کرنا، دل دھڑکنا، دل بھر آنا، دل بیٹھ جانا، دل پانا، دل دھڑکنا، دل پر چوٹ لگنا، دل پر نقش ہونا، دل پر ہاتھ رکھنا، دل دہی کرنا، دل پکنا، دل پھٹنا، دل پھیکا ہونا، دل توڑنا، دل ٹوٹنا، دل ٹھکانے لگانا، دل جلانا، دل جلنا، دل جمنا، دل چیر کر دیکھنا، دل خوش کرنا، دل سے دل ملنا، دل سے گرنا، دل برداشتہ ہونا، دل سے دھُواں اٹھنا، دل کا بخار نکالنا، دل کا خریدار، دل کی بھڑاس نکالنا، وغیرہ وغیرہ۔

دل اعضائے رئیسہ میں سے ہے۔ جذباتِ انسانی کا دل سے گہرا رشتہ ہے اور بہت سے محاورے دل ہی احساسات،جذبات اور حسیات سے وابستہ ہیں اور اُس کی معنی داریوں اور معنی نگاریوں کو پیش کرتے ہیں سماج یا انسانی معاشرہ اپنی سوچ کے جو مختلف دائرے رکھتا ہے اُن کی تصویر کشی یا عکاسی میں دل ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور ایک علامتی لفظ ہے جو فکر  و فن اور شعر و شعور کی دنیا میں اپنا ایک اہم معاشرتی تہذیبی اور نفسیاتی کردار ادا کرتا ہے یہاں اُردو کے دو تین شعر پیش کئے جا رہے ہیں اُن سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ دل ہمارے وجود کا کتنا اہم حصّہ اور ہماری معاشرتی زندگی کا کتنا غیر معمولی سطح پر علامتی کردار ہے۔

 

؂ دل گیا رونقِ حیات گئی

غم گیا ساری کائنات گئی

(جگرؔ)

 

؂ دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو

(اقبالؔ)

 

؂ کہتے ہو نہ دیں گے ہم، دل اگر پڑا پایا

دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مُدعا پایا

(غالبؔ)

 

مختلف محاورے مختلف ذہنی تجربوں تخیلی منظر ناموں اور تمثیلی پیکروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کہیں نزاکتوں کی طرف کہیں سختیوں کی طرف دل کو پتھر کدہ کہا جاتا ہے اور صنم خانۂ شوق قرار دیا جاتا ہے۔ خوابوں کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور خیالوں کی متحرک تصویر جس کی دھڑکن لمحہ بہ لمحہ زمانے اور  زندگی کے تغیّرات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

؂ میری تاریخ دل کی یادیں ہیں

جن کو دیر و حرم کہا جائے

زندگی کی یہی ہیں شمع و چراغ

جن کو شہرِ صنم کہا جائے

(تنویرؔ علوی)

دل لگی کی باتیں ہوتی ہیں اس کے مقابلہ میں سنجیدگی سے کسی بات کو دل میں جگہ دینا اور محسوس کرنا ہے دل بہار دل پسند دل خوش کُند جیسی ترکیبیں اُردو میں فارسی میں بہت آتی ہیں۔

 

 

(۱۹)دماغ تازہ کرنا، دماغ ہونا، دماغ خالی ہونا، دماغ روشن ہونا، دماغ میں خلل ہونا، دماغ نہ ہونا وغیرہ۔

جب کسی آدمی کو بہت غرور ہوتا ہے تو اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اُس کا دماغ آسمان پر ہے۔ دماغ ہونے کے معنی بھی یہی ہیں اِس کے مقابلہ میں دماغ خالی کرنا یا ہلکا کرنا ایک حد تک خلاف معنی رکھنا ہے۔ خالی دماغ ہونا انتہائی بے وقوف آدمی کو کہتے ہیں جس کو عقل ہوتی ہی نہیں اِس کے مقابلہ میں دماغ میں بھُوسا بھرا ہونا ایسے آدمی کے لئے آتا ہے جو بالکل ہی عقل سے خارج ہو۔

جو لوگ بہت عقلمند ہوتے ہیں یا عقل مند شمار کئے جاتے ہیں اُن کو روشن دماغ کہتے ہیں حالیؔ نے غالبؔ کی موت پر جو مرثیہ لکھا تھا اس میں ایک شعر میں یہ کہا گیا تھا۔

 

؂ شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

(حالیؔ)

 

عالی دماغ بھی ایسے ہی لوگوں کو کہتے ہیں جس کا دماغ روشن ہوتا ہے اور جو غیر معمولی سطح پر ذہین ہوتے ہیں دیہات میں کُند ذہن آدمی کو کھٹل دماغ کہتے ہیں یعنی اُس کا دماغ تو اینٹ پتھر کی طرح ہے۔ اُس سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا۔

 

(۲۰)دم آنکھوں میں اٹکنا، دم بخود رہ جانا، دم توڑنا یا ٹوٹنا، دم چُرانا، دم میں دم آنا۔

’’دم‘‘ ہماری زبان میں بہت سے معنی رکھتا ہے مثلاً یہ کہ فلاں کا دم تھا کہ اتنے کام ہو گئے جیسے ایک بھائی کا دم تھا یا ایک چچا کا دم تھا وغیرہ کہ جس کے باعث یہ سب کچھ ہوا۔ دم دلاسا دینا سمجھانے بجھانے اور ہمت بڑھانے کو کہتے ہیں دم خم ہونا ہمت حوصلہ اور تاب و تواں کے لئے کہا جاتا ہے۔ دم مارنا حوصلہ کرنا، دم دینا مر مٹنا، مر جانا اور  غیر معمولی طور پر کسی سے محبت کرنا کہ وہ تو اس پر دم دیتا ہے۔ دم کرنا پھونک کریا پڑھ کر دَم کرنا ہے۔

باورچی خانہ کی اصطلاحوں میں بھی دم دینا آتا ہے جیسے چاولوں کو دم دے دو یا پلاؤ کو کو دم دے دو یہ گرم کرنا، بگھارنا اور  پکانا تینوں معنوں میں آتا ہے دَم دُرود ہونا بھی دم خم ہونا ہی ہے جیسے اس میں اِتنا دم و دُرود نہیں کہ وہ اتنا کام کر سکے۔

دم کا مہمان ہونا موت سے قریب ہونا کہ وہ تو کوئی دم کا مہمان ہے دم قدم کا ساتھی ہونا ہر حالت میں ساتھ دینا، دم کے دم میں یہ کام ہو گیا۔ ذرا بھی دیر نہیں لگی دم توڑنا موت آ جانا۔ اُس نے راہ میں دم توڑ دیا اور اگر آدمی اپنا سانس روک لے تو اس کو دم چُرانا کہتے ہیں۔

دم بخود رہ جانا، حیران اور  شش در رہ جانا جب کوئی آدمی منہ سے کچھ کہہ بھی نہ سکے۔ اور خاموش رہ جائے۔ آنکھوں میں دم اٹکنے کے معنی ہوتے ہیں۔ اُس بیمار نے بہت انتظار کیا اور آخر وقت تک اس کا دم آنکھوں میں اٹکا رہا۔ یہ اس خیال پر مبنی ہے کہ سب سے آخر میں آنکھوں کا دم نکلتا ہے۔

اِن محاورات میں ہمارے معاشرے کاObservationبھی شامل ہے رو یہ اور  روش بھی تجربہ اور تجزیہ بھی محاوروں کو اگر اس رشتہ سے دیکھا جائے تو بہت سی باتیں سمجھ میں آتی ہیں اور ایک معاشرتی جاندار کے اعتبار سے انسان کے عمل اور  ردِ عمل کے مختلف معنی اپنے بھید کھولتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

 

(۲۱)دن کو تارے نظر آنا یا دکھانا، دن کو دن اور  رات کو رات نہ سمجھنا یا تارے گننا۔

دن اور  رات پر ہمارے یہاں بہت سے محاورے ہیں مثلاً دن نکلنا صبح ہو جانا، دن گننا،وقت کو اس طرح گزارنا کہ ایک ایک دن پر نظر رہے کہ کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا۔ تھوڑا سا دن رہے یعنی جب دن کا بہت تھوڑا سا وقت باقی رہ گیا میرؔ کا شعر ہے۔

 

صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ

تو نہ جیتا اور  بہت دن کم رہا

بڑھاپے کی صبح شام ہونے کے قریب آ گئی تو نہ جیتا اور بہت کم دن رہا یعنی تجھے ہوش نہ آیا اور  دن بہت کم رہ گیا وقت ختم ہو گیا موقع ہاتھ سے نکل گیا اُردو میں دن کا استعمال علامت کے طور پر ہوتا ہے جیسے اچھے دن سکھ کے دن ہوتے ہیں اور برے دن دُکھوں سے بھرے دن ہوتے ہیں۔ دنوں کو دھکّے دینا بھی ایسے محاورات میں سے ہے جس سے مراد ہے مصیبت کا وقت گزارنا جب آدمی کے پاس وقت ہو گا اور کوئی کم نہ ہو گا مفید کام تو وہ دن گزارنا دِنوں کو دھکّے دینے کے مترادف ہو گا۔

بُرے دنوں کے دھکّے ہیں یہ بھی ہمارے محاورات میں سے ہیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا انتظار کرنا جاگتے ہوئے رات گزارنا ایسے عالم میں آسمان کو تکتا رہتا ہے اسی حالت کو تارے گننا کہتے ہیں۔ تارے تو اَن گنت ہوتے ہیں اُن کو گِنا نہیں جا سکتا لیکن بیکار وقت میں جب کوئی کام نہیں ہوتا تو آدمی اسی طرح کی باتیں کرتا ہے۔ جو پانی اور بے معنی ہوتی ہیں۔

 

(۲۲)دو دو منہ ہنسنا۔

عام طور پر یہ محاورہ استعمال نہیں ہوتا لیکن دلچسپ محاورہ ہے اور اُس محاورہ کی یاد دلاتا ہے۔ جس میں دو منہ ہونا۔ اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب وہ چاہتے ہیں اپنی بات بدل دیتے ہیں۔ ابھی کچھ کہا اور کچھ دیر کے بعد کچھ اور  کہ دیا یہ  یاد نہیں رہا اور جان کر یاد نہیں رکھا کہ پہلے کیا کہا تھا اور  کیوں کہا تھا۔ دو دو منہ ہنسنا کسی پُر فریب انداز کی طرف تو اشارہ نہیں کرتا لیکن اس میں ایک نہ ایک حد تک یہ مفہوم موجود رہتا ہے کہ کسی بات پر یہاں ہنس دیئے اور کسی بات پر وہاں یعنی اُن کی ہنسی سنجیدگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کسی بات پر یہاں تبسم بلب ہو گئے اور کسی بات پر وہاں چرنجی لال نے اسی مفہوم پر مشتمل ایک شعر بھی پیش کیا ہے۔ جواس محاورہ کی طرح خود بھی Rareہے۔

 

؂ یہاں ٹھہرے کبھی وہاں ٹھہرے

دو دو مُنہ ہنس لئے جہاں ٹھہرے

 

(۲۳)دودھ بڑھانا، دودھ بھر آنا۔

ہمارے گھر آنگن کی زندگی کا عکس یا  تو ہمارے علاقائی گیتوں میں ملتا ہے جنہیں ’’لوک گیت‘‘ کہتے ہیں یا ہماری سماجی رسمیں اُس کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب بچہ کو دُودھ پلانا شروع کیا جاتا ہے تو اس کو چھٹی کی رسم کہتے ہیں اس میں دُودھ دھُلائی کی رسم بھی شامل ہے۔ جس پر نندوں کو نیگ دیا جاتا ہے۔ دُودھ بڑھانا دُودھ چھُڑانے کو کہتے ہیں۔ چونکہ چھُڑانے کا لفظ اچھا نہیں لگتا اسی لئے دودھ بڑھانا کہا جاتا ہے۔

دُودھ کو ماں کے احسانات میں بڑا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارے ہاں یہ رسم بھی ہے کہ ماں کے مرنے پراس کا جنازہ اٹھنے سے پہلے دُودھ معاف کرایا جاتا ہے۔ جو بچہ کسی وجہ سے دوسری ماؤں کا دُودھ پیتے ہیں وہ ان بچوں کے دُودھ شریک بھائی ہوتے ہیں جن کی ماں اُن کی دُودھ پلائی ہوئی ہے۔

اس معنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دودھ کا بہت احترام کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوؤں میں گائے کو گؤ ماتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بچے بڑے اس کا دودھ پیتے ہیں۔ مندروں میں ایسی مقدّس عورتیں بھی ہوتی تھیں جو مادر برہمنا کہلاتی تھیں یعنی اُن کو جگت ماتا کہا جاتا تھا۔ مشہور گیت ہے۔

 

؂ جے جے جے جُگدمے ماتا

اے جگت کی ماں تجھے ہزار بار پر نام اور سلام۔

اِس سے ماں دُودھ اور  دودھ کے حقوق جو ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہیں اُس پر روشنی پڑتی ہے۔

 

(۲۴)دو کوڑی کا آدمی۔ دو کوڑی کی بات کر دینا، دو کوڑی کی عزت ہو جانا، دو کوڑیوں کے مول بِکنا کوڑی پھیرا ہونا وغیرہ۔

کوڑی سِیپ کی ایک قسم ہے اور سمندروں ہی سے آتی ہے بیسویں صدی کے نصف اوّل تک یہ ہمارے سکوں میں بھی داخل تھی اور چھدام کے بعد کسی شے کا مول کوڑیوں میں ادا کیا جاتا تھا دیہات اور قصبات کے لوگوں کو کوڑی کا تلفظ ’’ڑ‘‘ کے بجائے ’’ڈ‘‘ سے کرتے ہیں۔ اور جو چیز بہت سستی اور  بہت معمولی قیمت کی ہوتی ہے اسے کوڑی سے نسبت کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ تو اس لائق بھی نہیں کہ اُسے ایک کوڑی دے کر خریدا جائے اس کے لئے دیہات والے کہتے ہیں یہ تو کوڑی کام کا بھی نہیں یا دو کوڑیوں کا آدمی ہے کسی چیز کو شہر والے بھی جب سننا ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو کوڑیوں کے مول بولتے ہیں حویلیاں کوڑیوں کے مول بک گئیں جس کو بہت چالاک ظاہر کرنا چاہتے ہیں یہ طنز کے طور پر کہا جاتا ہے وہ تو دو منٹ میں اچھے سے اچھے آدمی کی کوڑیاں کر لے یعنی کوڑیوں کے مول بیچ دے۔

دو کوڑی کی بات کرنا یا  دو کوڑی کی عزت ہو جانا بے عزتی کو کہا جاتا ہے ایسے ہی آدمی کے لئے کہتے ہیں کہ وہ تو دو کوڑی کا آدمی ہے اسی بات کو ہم ٹکے کے ساتھ ملا کر کہتے ہیں۔ جیسے دو ٹکے کا آدمی اس بات کو پیسے کی نسبت سے بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے تین پیسے کی چھوکری، یا ڈیڑھ پیسے کی گڑیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوڑی سے لیکر پیسے تک قیمت کا تعین کبھی ہوتا تھا اور اسے سماجی اونچ نیچ کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس طرح کے محاورے ہمارے ذہن کو زندگی سے اور زندگی کو زمانے سے جوڑتے ہیں آج کوڑیاں دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ پیسے دھیلے اور چھدام کے صرف نام رہ گئے ہیں لیکن ایک وقت اِن سے ہم سماجی درجات کے تعین میں فائدے اُٹھاتے تھے۔ اور کسی وجہ سے وہ محاورات سانچے میں ڈھل گئے۔

 

(۲۵)دونوں گھر آباد ہونا۔ دونوں وقت ملنا، دونوں ہاتھ تالی بجتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سلام کرنا۔ دونوں ہاتھ جوڑنا۔ دو دو ہاتھ اُچھلنا۔

ہاتھ انسانی زندگی میں کارکردگی کی ایک اہم علامت ہے وہیں سے داہنے ہاتھ اور  بائیں ہاتھ کی تقسیم بھی عمل میں آتی ہے۔ اور  یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو میرے ہاتھ کا کھیل ہے۔ یا یہ  تو اس کا دایاں ہاتھ ہے۔ دونوں ہاتھ جوڑنا یا  دو دو ہاتھ ہونا دوسری طرح کے محاورے ہیں جب دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا جاتا ہے تو اس کے معنی انتہائی احترام کے ہوتے ہیں اور دست بستہ آداب کہتے ہیں اِس کے مقابلہ میں دونوں ہاتھ جوڑ دیئے یعنی اپنی طرف سے بے تعلقی بیزاری اور معذرت کا اظہار کیا۔

’’تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے یعنی ذمہ داری کسی بھی برائی کے لئے دو طرفہ ہوتی ہے۔ غلطی پر کوئی ایک نہیں ہوتا دوسری طرف سے بھی اکثر غلطیاں ہوتی ہیں۔ سماجی جھگڑوں میں اس طرح سے فیصلے زیادہ بہتر اور  بے کار ہوتے ہیں جس میں دونوں طرف کا بھلا ہوا محاورے کے اعتبار سے دونوں گھر میں جائیں یہ نہیں کہ دونوں گھر اُجڑ جائیں۔ دونوں وقت ملنا شام کے وقت کے لئے کہا جاتا ہے اُردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں

مگر یہ ایک طرح کا شاعرانہ اندازِ بیان ہے اور سماجی فکر پربھی اثرانداز ہوا ہے کہ جب دن رات مل رہے ہوں تو کوئی دوسرے درجہ کی بات نہ کہنی چاہئے یا کرنی چاہئے یہ وقت احتیاط کا تقاضہ کرتا ہے اور  اس میں کوئی شک نہیں کہ جب دن گزر جا تا ہے شام ہو جاتی ہے تو آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس زیادہ شدت سے ہوتا ہے جس کی طرف میرؔ کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے۔

 

؂ صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ

تو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا۔

 

اردو کا یہ مشہور شعر بھی یاد آ رہا ہے۔

 

؂ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عُمر یونہی تمام ہوتی ہے

جب آدمی کسی بات پر خوشی کا اظہار کرتا اور بے طرح کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس کا دل دو دو ہاتھ اُچھل رہا ہے یہاں ہاتھ پیمانہ ہے یعنی بہت اُچھل رہا ہے ویسے بلیّوں اُچھلنا بھی کہتے ہیں جو ایک نعرہ آمیز صورت ہے مگر مبالغہ ہماری سوچ اور ذہنی Approachکا حصّہ ہے عام گفتگو میں اور محاورات میں بھی جہاں مبالغہ Preserveہو جاتا ہے۔

 

(۲۶)دھبا،دھبا لگنا،دھبا آنا۔

دھبّا ہماری سماجی لغت کا نہایت اہم لفظ قرار دیا جا سکتا ہے یہ لفظ بعض مواقع پر داغ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور  داغ دھبا کہلاتا ہے۔ اسی سے دھبے کی سماجی نوعیت اور  اہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ کہ دھبّا کسی چیز پر آتا ہے، لگتا ہے۔ یا لگایا جاتا ہے۔ تو وہ داغ کا حکم رکھتا ہے۔ اور  عام طور پر جب دھبّا لگتا یا  دھبا آنا بولتے ہیں تو اُس سے مُراد داغ لگنا ہی لیا جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ دھبّا پڑ گیا خاندان کو دھبا لگ گیا یعنی خاندان بے عزت ہو گیا۔

 

(۲۷)دھجی،دھجیاں اڑانا،دھجیاں اڑنا،دھجیاں لگنا، دھجیاں ہونا، دھجی دھجی ہونا۔

یہ سب محاورے اپنی مختلف صورتوں میں بے حِس ہونے یا بے قدر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ وہ کپڑا کہاں ہے ذرا سی دھجی ہے یا اُس کے کپڑے دَھجی دَھجی ہو گئے یا وہ دھجیاں لگائے پھرتا ہے۔ یا دھجیوں کو بھی وہ تہہ کر کے رکھتا ہے یعنی اسی طرح کے کپڑے کہیں ریزوں کی طرح تہہ کر کے رکھے جاتے ہیں اِن میں تو دھجیاں لگی ہوئی ہیں۔

اِس سے ہم سماجی ردِ عمل اور معاشرتی سطح پر جو سوچ بنتی رہتی ہے اور ہمارے کمینٹ (Comments)سے گزرتی ہے۔ اس کا اظہار ہوتا ہے کپڑا ہماری سماجی زندگی کی ایک نہایت اہم جزء ہے اس کا پہننا اوڑھنا اور اچھا اور برا ہونا بھی قیمتی اور بے قیمت ہونا بھی دوسروں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس کا اظہار اس کہاوت سے بھی ہوتا ہے’’ کھائیے من بھاتا پہنے جگ بھاتا ‘‘یعنی دوسروں کی نظر بے اختیار لباس کی طرف اٹھتی ہے اور اسی کی حیثیت کے مطابق آدمی کی شخصیت شعور اور ذاتی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔

 

(۲۸) دَھرم کرنا،دَھرم لگتی کہنا، دَھرم سے کہتا ہوں۔

دَھرم ہندو اپنے مذہب کو کہتے ہیں اور  اُس کو قانون قدرت اور دستورِ فطرت سمجھتے ہیں اسی لفظ کا تلفظ بدھزم میں دھمّا ہے۔ اور  بودھ مذہب کی مذہبی کتاب کو ’’دھم پد‘‘ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ دھرم گر و، مہاتما گوتم بدھ کے لفظ میں اب چاند گرہن کے موقع پر نیچ قوم کے جو لوگ خیر خیرات مانگنے آتے ہیں وہ دھرم گرو کہتے ہیں۔ دھرم کی کہنا اس سے مراد ہے دیانت دار ی کے ساتھ ایمان کی بات کہنا۔ دھرم لگتی کہنا بھی ایمان داری کی بات ہے۔ دھرم مُورت ہے کسی بہت بڑے مہاتما یا سادھو سنتھ کو کہا جاتا ہے اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ محاورے کلچر،عقیدہ،خیال کئی دائروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن میں ہندو مسلمان دراوڑ،آریہ اور ہند ایرانی کلچر کے اثرات کو موقع بہ موقع جگہ بہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ دَھرم سے کہتا ہوں یعنی خدا کو حاضر و ناظر کر کے کہتا ہوں۔ یا قسم کھاتا ہوں۔ دھرم سوامی نام بھی رکھے جاتے ہیں۔ مگر زیادہ تر مذہب کے بڑے نمائندوں کو دھرم سوامی کہا جاتا ہے۔ دھرم داس،دھرم نارائن،دھر م پال جیسے نام ہندوؤں میں عام ہوتے ہیں۔

 

(۲۹)دھُرے اڑانا۔

مغربی یوپی میں یہ محاورہ عام ہے اور اِس کے معنی ہوتے ہیں بُری طرح پیش آنا سخت سزا دینا اور اذیت پہنچانا،ممکن ہے یہ لفظ دُرے سے بنا ہو۔ عربوں میں دُرے مارکر سزا دی جاتی ہے اور  یہاں بھی دھُرے اُڑانے میں سزا ایذا پہنچانے کا تصور شامل رہتا ہے۔

’’چرنجی لال ‘‘نے ا س کے مفہوم میں دھجیاں اُڑانے کو بھی شامل کیا ہے۔

 

(۳۰)دہلی کا کُتّا، دہلیز کا کتا، دہلیز نہ جھانکنا۔

کتا اگرچہ ایک وفا دار جانور ہے لیکن اُس کا نام تک ذلت کے ساتھ لیا جاتا ہے ہم اپنی سماجی زندگی میں کتے کو بے عزت سمجھتے ہیں۔ اور بے عزتی کے ساتھ اُس کا نام لیتے ہیں۔ بلکہ کُتّا کہنا یا کُتّا کہہ کر پکارنا ہماری سماجی زبان میں ایک طرح کی گالی ہے۔ ’’کتے بلی کی زندگی گزارنا ہے، بے عزت ہو کر جینا ہے اسی لئے جسے ’’دہلی کا کتا‘‘ کہتے ہیں اُسے مفت خور، بے عزت اور  گرا پڑا قرار دیتے ہیں۔ ’’کتے بھونکنا‘‘ ویرانی کے لئے آتا ہے۔ اور  جب یہ کہتے ہیں کہ اُن گلیوں میں کُتے روتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آسیب زدہ ہے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب آسمان سے بلائیں اترتی ہیں تو وہ کتوں کو نظر آ جاتی ہیں۔ اور اسی کو دیکھ کر روتے ہیں۔ اسی لیے کتے بلی کا رونا منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی تو اہم پرستی ہے اور یہ بھی واقع ہے کہ کتے بعض چیزوں کو سونگھ کر اچھے بُرے کا پتہ چلا لیتے ہیں۔ اور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

کتے کی دُم ہونا،یعنی اس کا اپنا ایک کردار ہے، بُرا کردار جس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ کُتے کے گلے پٹہ باندھنا،یعنی ’’تابعدار بنانا، کتے کی طرح دم ہلانا ‘‘یعنی عاجزی اور خوشامد کا اظہار کرنا۔

گلی کا کُتّا ہونا کسی کام کا نہ ہونا اسی لئے کہتے ہیں اور دھوبی کے کتے سے اُسے تشبیہہ دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا،دہلیز نہ جھانکنا، دہلیز پر کھڑا ہونا، اس کے یہ معنی ہیں کہ ادھر کوئی آیا بھی نہیں۔ دروازے پر کھڑا بھی نہیں ہوا۔ مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ اصل میں دروازے پر جانا اس کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے گیا ہے اِس کی طرف ہمارے فارسی اور اردو لٹریچر میں برابر اشارے آتے رہے ہیں۔

 

(۳۱)دہلی کے لیولے ڈالنا۔

یہ عجیب و غریب محاورہ ہے ’’لیور‘ مٹی کی تہوں کو کہتے ہیں اگر کسی آدمی کے بار بار آنے جانے سے ’’لیور‘‘ اُکھڑ جائیں اور مٹی کی تہیں باقی نہ رہیں تو آنے جانے کی زیادتی کا اندازہ ہوتا ہے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا

مگر کسی فرض کی ادائیگی یا ضروری کام سے جانا اس حکم میں نہیں آتا۔ اس سے ہم سماجی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ وقت کی بھی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے اور آدمی کی بھی خواہ مخواہ اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع کرنا، اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

 

(۳۲)دھُند کا پسارا ہونا۔

دھُند کا پھیلا رہنا آنکھوں سے نہ نظر آنا ہے خواہ وہ آنکھوں کی کمزوری کے باعث ہو یا دھُواں گھٹنے کی وجہ سے ہو یا دھُند پھیل جانے کی وجہ سے ہم جب نہیں دیکھ سکتے تو دھوکا  کھا جاتے ہیں فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی لئے دھوکہ یا فریب کو یعنی  ’’دھُند کا بسارا‘‘ کہتے ہیں۔ ’’دھُندلکا‘‘ اسی سلسلے کا ایک بہت معنی خیز لفظ ہے دھندلکا چھایا ہوا ہے یعنی صورتِ حال صاف نہیں ہے۔

 

(۳۳)دَھن دَھن کرنا۔

مبارک باد دینا،بہت مشہور فقرہ ہے کام سنواروں اپنا دَھن دَھن کریں لوگ کا بگاڑو اپنا پَھٹ پَھٹ کریں لوگ، سماج میں دَھن دولت کو بھی کہتے ہیں اور خوشی کے اظہار کو بھی خواہ مخواہ دَھن دَھن کرنا زور زور بولنا بیکار باتیں کرنا ہے۔

’’دھن‘‘ سوار ہونا کسی چیز کا بے حد شوق ہونا۔ اور اس کے لئے مارے مارے پھرنا جیسے ہم داستانوں میں دیکھتے ہیں۔ دھُن کا پکا ہونا اپنی بات پر اڑے رہنا اور ذرا اسی دیر میں اِدھر اور ذرا سی بات میں اُدھر ہونے کا جو عام رو یہ ہوتا ہے اُس کے خلاف ہونا دھونی زمانہ سادھو سنت جہاں بیٹھ جاتے ہیں وہاں آگ جلاتے ہیں وہ آگ اُن کے ’’ہون‘‘ کی علامت ہوتی ہے۔

جس میں خوشبو دار چیزیں بھی ڈالی جاتی ہیں اُسے دھونی ’’رمانا‘‘ کہتے ہیں اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک جگہ دھیان گیان کے خیال سے بیٹھ گئے اور  دوسری باتوں سے اپنا رشتہ منقطع کیا تو اس کو دھونی رمانا کہتے ہیں کہ وہ تو وہاں دھونی رما کر بیٹھ گئے یہ ہندو روایت سے وابستہ محاوروں میں ہے۔ اور ہمارے سماج پر ہندو مذہب کے اثرات کا اظہار کرنے والی ایک روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 

(۳۴)داہنے اور بائیں ہاتھ سے ایک ساتھ کھانا حرام ہے۔

دایاں ہاتھ سے کھانا کھانا حرام ہے ہم لوگ اچھے بُرے جائز ناجائز مناسب یا مناسب کو مذہبی انداز سے پیش کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ داہنا ہاتھ ہمارے خیال میں عزت و احترام کی ایک علامت ہے اور بہت قدیم زمانے سے اِس پر زور دیا جاتا ہے داہنے ہاتھ سے کھاؤ داہنے ہاتھ سے لکھو یا داہنا ہاتھ ملاؤ یا پھر داہنے ہاتھ سے سلام کرو وغیرہ اس کے مقابلہ میں بائیں ہاتھ سے کھانا ایک طرح کا سوئے ادب یا بدتمیزی خیال کی جاتی ہے اور دونوں ہاتھ ایک ساتھ ملا کر کھانا ایک بہت ہی بے تکی بات ہے اِشارہ اسی کی طرف کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔

اِس سے ہماری اپنی معاشرتی فکر کا اندازہ ہوتا ہے اور  مذہب پراس کے اعتماد و اعتقاد کا کہ وہ ہر بات کو حلال و حرام کے دائرے میں تقسیم کر دیتی ہے ہم بائیں ہاتھ سے آب دست لیتے ہیں اس لئے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن کچھ لوگ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں (Left Hander)یہ اُن کی فطری مجبوری ہوتی ہے اس کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ہمارا ایک عام رو یہ ہے کہ ہم ایسے معاملات کو الگ الگ خانوں میں رکھ کر نہیں دیکھتے انہیں تعمیم (Over simplification)کی منزل سے گزارتے ہیں جب کہ فرق و امتیاز کا باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

 

(۳۵)دھنیے کی کھوپڑی میں پانی پلانا۔

ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اور ہمارے مشرقی مزاج کی نمائندگی کرتا ہے ’’دھنیا‘‘ ایک بہت چھوٹا سا اندر سے کھوکھلا بیج ہوتا ہے۔ وہ اگر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس کا ایک ٹکڑا وہ کوئی سا بھی ہو دھنیے کی کھوپڑی کہلاتا ہے۔ اس میں کوئی چیز بھری تو جا سکتی ہے۔ مگر اس کی مقدار کچھ بھی نہیں ہو گی۔ اور اس میں پانی پلانا حد درجہ کی بخیلی بلکہ دوسرے کے ساتھ ایک سطح پر ذلیل سلوک ہے جو ہرگز نہ ہونا چاہیے۔

پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑا ثواب ہوتا ہے۔ پانی کی مقدار بھی زیادہ ہونی چاہئیے اور صاف سُتھرے برتن میں ہونا چاہیے اسی لئے جب کسی کے ساتھ بُرا سلوک ہوتا ہے اور  اُس میں بخیلی شامل ہوتی ہے۔ تو اُسے دھنیے کی کھوپڑی میں پانی پلانا کہتے ہیں۔

 

(۳۶)دھُواں دھار برسنا۔

ہمارے ہاں پانی دھُوئیں کا لفظ عوامی معاشرت میں بڑی اہمیت رکھتا تھا اس لئے کہ دھوئیں کا تعلق آگ سے ہے اور آگ پرستش کا عنصر بھی رہی ہے اور مقدّس سمجھی گئی ہے اسی لئے مسلمانوں کے بعض مذہبی کاموں میں بھی دھواں شامل رہتا ہے۔ مثلاً لوبان جلانا جو تیجے کی رسم میں ہوتا ہے۔ یعنی خوشبو  کے لئے وہ کام کیا جاتا ہے مگر دھوئیں کے ساتھ اسی لئے بھُوت پریت کا اثر دور کرنے کی غرض سے دھونی دی جاتی ہے جہاں مویشی باندھے جاتے ہیں وہاں بھی دھونی دینے کا رواج رہا ہے اور اب بھی ہے۔

گھر سے دھُواں اُٹھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آگ موجود ہے اور ’’چولھا ‘‘جل رہا ہے ایک کے گھر سے آگ مانگ کر دوسرے کے گھر میں چولہا جلایا جاتا تھا۔ اس طرح سے ’’دھُواں گھٹنا‘‘ دھُواں اٹھنا بھی محاورہ بنا۔ اور دھوئیں اُٹھانا بھی یہاں تک کہ جب بارش بہت زور سے پڑتی ہے یا برستی ہے تو اُسے دھواں دھار بارش کہتے ہیں۔

اس طرح سے ہم اپنے محاوروں کے ذریعہ ایسی معاشرتی نفسیاتی تہذیبی اور  اس زندگی کو پیش کرتے ہیں جو  ہم موسموں کے تحت گزارتے ہیں۔

 

(۳۷)دھُوپ میں بال سفید کرنا۔

بالوں کا سفید ہو جانا بہت سے تجربوں سے گزرنا ہے بہت سی معلومات حاصل کرنا ہے۔ اور دقت سے بہت کچھ سیکھنا ہے ہمارے ملک میں اسی لئے اس کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ کوئی شخص زیادہ عمر کا ہے انگریزی میں بھی اسے سینئر شہری SeniorCitizenکہتے ہیں یعنی اس کی زیادہ عمر کا احترام کرتے ہیں۔

بالوں کی سفیدی کو عُمر سے اور عُمر کو عقل سے اور تجربہ سے نسبت دی جاتی ہے۔ اسی لئے گاؤں کے لوگ بڑے بوڑھوں کو ’’بدمنئر‘‘ بڑے سروالا کہا جاتا ہے۔ اور سفید بال Maturityکا نشان سمجھے جاتے ہیں اسی لئے ہمارے یہاں روایتی طور پر لوگ اپنی عمر کو اپنی بڑائی کا نشان بھی خیال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بال دھُوپ میں سفید نہیں کئے یعنی اُن کی سفیدی سے ہماری عمر ہماری عقل اور ہمارے تجربہ کا پتہ چلتا ہے۔ اور جب کسی کی عقل کی کمی اور عمر کی زیادتی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کیا تم نے یہ بال دھوپ میں سفید کئے ہیں اس سے ہمارے محاوروں کا ہماری زندگی ہماری معاشرت اور ہمارے تہذیبی رشتوں سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔

 

(۳۸)دھوکے کی ٹٹّی۔

پُر فریب صورت، مکاری اور دغا بازی کا طریقہ’’،ٹٹا‘‘، ٹٹی،گھاس پھونس کے پردے کو کہتے ہیں جو گھروں کے سامنے عام طور پر لگایا جاتا تھا۔ ایسے ہی کچّے پکّے اور گھاس پھُوس کے جھونپڑے بھی ہوتے تھے جب ٹٹی کے ذریعہ کسی دھوکے بازی کو چھُپا یا جاتا تھا۔ یعنی اس کی کوشش کی جاتی تھی تو اُسے ٹٹی کی اوٹ میں فریب دینا کہتے تھے ممکن ہے یہ طریقہ خاص طور سے شکار کرنے کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہو اِس لئے کہ ذوقؔ نے اپنے ایک شعر میں ٹٹی کی اوجھل (اوٹ ) شکار کرنے کی بات کی ہے اور کہا ہے۔

؂ کرتی ہے قصد ٹٹی کی اوجھل شکار کا

(ذوقؔ)

؂ خط نکلنے پر بھی گیسو میں پھنسے مرغ نظر

دھوکے کی ٹٹی تیرے عارض کا سبزہ ہو گیا

(نامعلوم)

 

(۳۹)دھُول اُڑانا یا خاک اُڑانا۔

ہلکی باریک مٹی کو کہتے ہیں جو ہوا کے ساتھ اُڑتی رہتی ہے بچے کھیل میں بھی مٹھیاں بھر بھر کر ہوا میں اچھلتے اور خاک اڑاتے رہتے ہیں جب تیز ہوا چلتی ہے تو خاک بے طرح اڑتی ہے اسی سے ہمارے یہاں یہ محاورہ آیا کہ خاک دھُول کی طرح اڑا دیا یہ عام طور سے اُن لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے اور کہا جاتا رہا ہے جو دوسروں کی محنت کو برباد کرتے ہیں اور خاندانی اثاثہ کو اپنی بیوقوفیوں سے برباد کر دیتے ہیں اس میں زمین و جائیداد بھی ہو سکتی ہے زر و زیور بھی ہو سکتا ہے اور عزت و وقار بھی اسی لئے ہمارے یہاں خاک دھُول سے مطابق بھی بہت سے محاورات ہیں۔

 

(۴۰) دہلیز کا کتّا، دہلیز نہ جھانکنا۔

دہلیز گھرکی چوکھٹ کو کہتے ہیں ایک زمانہ میں یہ ہمارے یہاں بڑی اہمیت کی بات ہوتی تھی کہ کوئی آدمی بزرگوں کی چوکھٹ کو آ کر چُومے اور اُسے سلام کرے ۔ہندو جاٹیوں میں دُوکان کی چوکھٹ کو آج بھی چوما جاتا ہے اور گھرکی چوکھٹ کو سلام کیا جاتا ہے۔

صوفیوں کی خانقاہوں کے ساتھ یہ رو یہ عام مسلمانوں میں بھی موجود ہے جو لوگ اُس کی پرواہ نہیں کرتے اُن کے لئے کہا جا تا ہے کہ وہ کبھی دہلیز بھی نہیں جھانکتے یعنی کبھی آ کر بھی نہیں پھٹکتے اس کے مقابلہ میں جو آدمی بے غیرتی کے ساتھ کسی کے دروازے پر پڑا رہتا ہے اس کو دہلیز کا کتّا کہتے ہیں اب اس لفظ کا استعمال ہمارے یہاں کم ہو گیا ہے۔ گاؤں والے اپنے تلفظ کے مطابق اس کو دہلیج کہتے ہیں۔

 

(۴۱) دہلی کے لیولے ڈالنا، یا لے ڈالنا۔

اسی طرح وہ آدمی جو اپنی غرض کے لئے کسی کے دروازے کے چکر لگا تا رہتا ہے اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ دہلیز کے لیولے لے ڈالتا ہے ’’لیوڑ‘‘ دراصل بدن یا زمین پر الگ سے جو مٹی یا میل کچیل جم جاتا ہے تو اُسے  لیور کہتے ہیں اور یہاں لیوڑے لینے کے معنی اُسی کو ہٹا دینے کے ہیں۔

ہمارے جغرافیائی حالات کا اثر ہماری سوچ پر کس طرح مرتب ہوتا ہے اور ہماری جو معاشی اور معاشرتی زندگی ہوتی ہے اِس سے ہماری فِکر اور ہماری زبان کس طرح کے اثرات قبول کرتی ہے۔

 

(۴۲) دھُوم ڈالنا، دھُوم مچانا، دھُوم ہونا۔

دھُوم دھُوم دَھام حواشی سے تعلق رکھنے والی لفظیات میں سے ہے اسی لئے دھُوم مچانا خوشی کے ساتھ آوازیں نکالنے کو بھی کہتے ہیں کسی اچھی خبر کی شہرت کو بھی کہ اُس کی دھُوم مچ گئی سارے شہر میں دھُوم مچ رہی ہے دھُوم دھام ہو رہی ہے یعنی خوشیوں کا ماحول ہے۔ باجے تاشے بج رہے ہیں زمینداروں جاگیرداروں بڑے بڑے ساہوکاروں بادشاہوں اور نوابوں کے یہاں جب خوشی کے جشن منائے جاتے تھے تو عام طور پر سارے شہر یا علاقے میں دھُوم دَھام کا ماحول ہوتا تھا۔ اِن لفظوں سے بنے ہوئے محاورات کے ذریعہ ہم ماضی میں گزاری جانے والی اپنی معاشرتی اور تاریخی زندگی کے کچھ پہلوؤں سے واقف ہوتے ہیں اور آج بھی یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو اُس سے لطف لیتے ہیں اور اُس کا ذکر اچھا لگتا ہے۔

 

(۴۳)دھونس دینا، دھونس میں آنا، دھونس کی چلنا۔

دھونس دیہاتی زبان میں نقّارے کو کہتے ہیں اور نقارہ شہرت و اقتدار اور انتظام کی ایک علامت کے اعلان کے بھی ہیں اسی لئے نوبت ونشان بادشاہی حکومت کی نشانیاں ہوتی ہیں۔ نوبت نقارہ ہی کو کہتے ہیں۔

یہاں سے گزر کر دھونس ایک نئے معنی اور نئے پس منظر کے ساتھ ہمارے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اور جب ہم دھونس دینا کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شخص زبردستی اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور اپنی بات کا پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔

دیہات والے بھی دھونس دینے کو اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں شہر کے عام لوگوں کی زبان پربھی یہ محاورہ اسی معنی میں آتا ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سماج میں اچھے بُرے لوگوں کا رو یہ کیا کیا شکلیں اختیار کرتا ہے تو دھونس دینا دھونس نہیں لینا یا دھونس میں آ جانا انہی سماجی رویوں اور  اُن کے اثرات کی طرف اشارہ ہے۔

 

(۴۴)دھینگا دھینگی کرنا۔

دھینگا مُشتی کرنے کو بھی کہتے ہیں اور یہ اسی طرح کا ایک عمل ہے جیسے دھول دھیّا کرنا جو عام لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے جھگڑنے کے لئے تیا رہو جاتے ہیں۔ یہاں ہم ایک بار پھر اس طرف توجہ دینے پر مجبور ہوتے ہیں کہ محاورات دراصل ہمارے سماج کے رویوں کا مطالعہ ہے کیونکہ وہ عام زبان میں ہے اور عوامی بولی ٹھولی کا حصّہ ہے اس لئے اس کا احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے سماجی رویوں کے کون کون سے پہلو ایسے ہیں جو ہمارے محاورے جن پر روشنی ڈالتے ہیں اور  Comment کرتے ہیں۔

 

(۴۵)دید نہ شنید۔

دونوں لفظ فارسی کے ہیں ’’دیدن‘‘ کے معنی دیکھنا اور  شنیدن کے معنی سننا عام طور پر اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا آدمی تمام تر بھروسہ اپنی معلومات کے لئے دیکھنے پر کرتا تھا یا سننے پر اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے تھے کہ نہ کہیں دیکھا نہ سنا لکھنے پڑھنے کا ذکر ہی نہیں آتا۔ اس سے ہم اپنے گزرے ہوئے زمانہ کی تہذیبی فضاء کو جان سکتے ہیں اور یہ بھی کہ فارسی کے اثرات ہماری زبان پر اس طرح مرتب ہوئے ہیں کہ ہم نے فارسی محاوروں کا ترجمہ کیا ہے ’’دید و شنید‘‘ فارسی محاورہ ہی ہے دیکھا نہ سنا اس کا ترجمہ ہے جس سے اِس امر کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ فارسی اثرات کو ہم نے اپنی زبان اپنے بیان اور اپنے فکری رویوں میں اسی طرح ایک زمانہ میں جذب کیا ہے جیسے آج کل انگریزی خیالات اور لفظیات کو جذب کرتے ہیں۔

 

(۴۶)دیدہ دلیر،دیدہ دلیری، دیدہ دھوئی، دیدہ ریزی، دیدہ ہوائی ہونا، دیدے کا پانی ہونا، دیدے کی صفائی دیدے نکالنا۔

دیدہ دیکھے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن اردو میں دیدہ آنکھوں کے معنی میں آتا ہے اور آنکھوں کا ہمارے خیالات ہمارے سوالات اور  چہرے کے تاثرات سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ آدمی میں جب ایک طرح کی بے حیائی آ جاتی ہے اور وہ اپنی کسی بری بات پر شرماتا بھی نہیں تو اُسے دیدہ دلیری کہتے ہیں اور ایسا آدمی دیدہ دلیر کہلاتا ہے عورتوں میں ایک اور  محاورہ بھی رائج ہے دیدہ دھوئی یعنی اس نے اپنی آنکھوں کی شرم و حیاء، غیرت اور  پاسداری بالکل ختم کر دی اسی کو آنکھوں کا پانی ڈھل جانا بھی کہتے ہیں۔

’’ہوائی دیدہ یا دیدہ ہوائی‘‘ عورتوں کا محاورہ ہے اور اس کے معنی غیر سنجیدہ طرز نگاہ ہے کہ اُدھر بھی دیکھ لیا اِدھر بھی دیکھ لیا لیکن سوچ سمجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اسی لئے ایسے لڑکے اور لڑکیوں کو جو اپنی ذمہ داریوں سے دُور رہنا چاہتے ہیں اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اِس کو ’’دیدہ ہوائی‘‘ کہتے ہیں۔

’’دیدہ ریزی‘‘ فارسی ترکیب ہے اور اُس کے معنی ہیں بہت دیکھ بھال کر یا کسی تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے میں محنت شاقہ برداشت کرنا جوکم ہی لوگ کرپاتے ہیں۔ دیدے کی صفائی ‘‘اسی معنی میں آتا ہے جس معنی میں دیدہ دھوئی آیا ہے ’’دیدے نکالنا‘‘ آنکھیں دکھانے کو کہتے ہیں اور جو بہت گھٹیا آدمی ہوتا ہے اسے نہ دیدہ کہتے ہیں یعنی اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔

 

 

 

(۴۷)دیواریں چاٹنا،دیوار کھینچنا، دیوار ڈھانا، دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں، دیوار قہقہہ ہونا، دیوار اُٹھانا، دیوار اُٹھنا، دیوار کوٹھے چڑھنا۔

دیوار سے مطابق بہت سی روایتیں ہمارے مذہبی لٹریچر میں بھی آئی ہیں تاریخ میں بھی سچ یہ ہے کہ دیوار ہماری معاشرتی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ چینیوں نے منلولوں کے حملے روکنے کے لئے ایک بہت لمبی دیوار بنائی تھی جو پندرہ سو کوس تک جاتی تھی۔ اس کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور تعمیری لحاظ سے دنیا کے سات عجائبات میں گنا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’یاجُوج  ماجُوج‘‘ قوم کے لوگ کسی قدیم ملک میں گھس کر تباہی مچانا چاہتے تھے روایت کچھ اس طرح ہے کہ اُن کے اور اِس ملک کے درمیان سیسہ کی دیوار کھڑی کر دی گئی تھی جس سے وہ گزر کر  اندر نہ  جا پائیں اور وہ ملک ان کی تباہی سے محفوظ رہے۔

یاجُوج ماجُوج اس دیوار کو صبح سے شام تک چاٹتے ہیں جس سے وہ پتلی ہو جاتی ہے اور وہ یہ خیال کر کے کہ ہم کل اسے ضرور ختم کر دیں گے یہ کہہ وہ چلے جاتے ہیں رات کو پھر دیوار اپنی جگہ پر اسی طرح بھاری بھرکم ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک دیوار کا اور تصور ہے جو ’’الف لیلہ‘‘ میں آیا ہے اور اُسے ’’دیوار قہقہہ‘‘ کہتے ہیں۔ کہ جواس کے اوپر چڑھ کر دوسری سمت دیکھتا ہے وہ بے طرح ہنستا ہے اور ہنستے ہنستے گر کر مر جاتا ہے اور یہ نہیں بتلا سکتا کہ ادھر ہے کیا۔

دیوار کا تصور حصا رسے بھی وابستہ ہے اور اُسے دیوارِ شہر کہتے ہیں گھریلو سطح پر دیوار کے اپنے ایک معنی ہیں وہ دیوارِ پردہ ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ گویا گھرکا تصور قائم ہوتا ہے۔ کوٹھے دیوار چڑھنا عورتوں کا محاورہ ہے اور اس ماحول کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کہ گھرکی دیوار سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور کوٹھے دیوار چڑھنے کو اس لئے منع کیا جاتا تھا کہ کوٹھے دیوار میں اس طرح ملی ہوتی تھیں کہ یہاں سے وہاں اور  وہاں آنا جانا کوئی مشکل بات نہیں ہوتی تھی مگر اسے عام طور سے پردہ دار عورتوں کے لئے اچھا نہیں سمجھا جا تا تھا۔

دیواریں پردہ کا بھی کام دیتی ہیں اور  راز داریوں کا بھی احتیاط اتنی بڑھتی جاتی تھی کہ بات کرنے کا وقت بہت آہستہ اس لئے بولا جاتا تھا کہ کوئی پاس پڑوس کا آدمی نہ سُن لے۔ اسی لے کہا جاتا تھا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ کوٹھے دیوار جھانکنا بھی محاورہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اِدھر اُدھر آدمی جھانکتا پھرے یہ اچھا نہیں لگتا کنواری لڑکیوں کے لئے تو یہ اور بھی بُرا سمجھا جا تھا اسی لئے جب کسی لڑکی کی تعریف کی جاتی تھی تو یہ کہا جا تا تھا کہ کسی نے اِس لڑکی کو کوٹھے دیوار نہ دیکھا۔

دیوار اٹھنا یا دیوار اُٹھانا گھرکی تعمیری ضرورت کے لئے بھی ہوتا ہے اور دیواریں کھڑی کرنا گھرکی تعمیری ضرورت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے دیوار کھڑی کرنا مشکلات اور مصیبتیں پیدا کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ میرے سامنے مشکلات کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ہیں۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ڈ‘‘

 

 (۱) ڈاڑھی کا ایک ایک بال کرنا۔

ہمارے یہاں مذاہب میں اپنی اپنی جو وضع قطع رکھنا چاہا اور اپنے ماننے والے طبقات میں اس کو رائج کیا اُن میں کیا کس کی وضع قطع کے علاوہ ڈاڑھی کو بھی ایک سماجی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاڑھی عزت و وقار اور بڑی حد تک تقدس کی علامت ہے اسی لئے ڈاڑھی پکڑنا اور ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالنا بے عزتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اور کسی ذلیل کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ میں تیری ڈاڑھی کے ایک ایک بال کر دوں گا اِس سے ہم اپنے ماحول کی تہذیبی قدروں کو سمجھ سکتے ہیں ڈاڑھی نوچ لینے کے بھی یہی معنی ہیں اور بال بال کر دینے کے ہیں یعنی بے عزتی کرنا ہے۔

 

(۲) ڈال کا پکا،ڈال کا ٹوٹا۔

ہمارے ہاں ’’آم‘‘ ایک مشہور پھل ہے قدیم زمانہ سے سنسکرت اور ہندی لٹریچر میں اس کا ذکر آتا رہتا ہے اور تعریفوں کے ساتھ آتا ہے ہمارے ہاں آموں کے باغ کے علاوہ ایک سطح پر آموں کے جنگل ہوتے تھے جب آموں کے باغ لگائے جانے لگے تو وہ آم ملنے لگے جو ڈال پر پک کر تیار ہو اور جس کو ڈال سے توڑ کر کھایا جا سکے اس لئے کہ تازگی اسی پھل میں ہوتی ہے ایسے پھل بھی ہوتے ہیں جنہیں پال میں دبا کر یا کوئی دوا چھڑک کر پکایا جائے۔ آم تو عام طور سے پال میں دبائے جاتے ہیں اور پسند کئے جاتے ہیں ایک ڈال کے پکے ہوئے آم کی یا کسی بھی پھل کی لذت اور  لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ڈال کا پکا کہتے ہیں ویسے آم مٹکے کا بھی ہوتا ہے اور  اس کو محاورے میں ٹپکے کا آم بھی کہتے ہیں کہ جب وہ پکتا ہے تو شاخ کو چھوڑ کر زمین پر گر جاتا ہے۔

اُس کے مقابلہ میں وہ پکا پھل جسے ڈال سے توڑا جاتا ہے وہ زیادہ قابلِ تعریف اور خوش مزہ سمجھا جاتا ہے اسی لئے ڈال کا ٹوٹا کہتے ہیں اور اسی نسبت سے آدمیوں کے کردار اور اُن کی قدر و منزلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور پھلوں کا اِطلاق آدمیوں کی شخصیتوں پرکیا جاتا ہے۔

 

(۳) ڈنکے کی چوٹ کہنا۔

’’ڈنکا ‘‘ہمارے دیہاتی قصباتی اور شہری سماج میں ایک خاص معنی رکھتا ہے ڈنکے کی چوٹ کہنا ڈنکا بجنا جیسے محاورے ہمارے یہاں ایک خاص معنی رکھتے ہیں ہم کسی بات کا اعلان کروانے کے لئے مُنادی کروا دیتے تھے تاکہ سب کو خبر ہو جائے اس کو ’’ڈھنڈھورا‘‘  بھی کہتے تھے ڈنکا پیٹنا بھی اسی سے نکلا ہے اور ڈنکا پیٹنا بھی دونوں شہرت دینے اور شہرت پانے کا عمل ہے مگر بُرائی کے معنی ہیں۔ جس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس کی شہرت ہوتی ہے اسے ڈنکا بجنا کہتے ہیں مگر وہ صرف برے معنی میں نہیں آتا۔ اُن کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے۔

دہلی میں ملکہ زینت محل جب محل سے باہر آتی تھیں تو اُن کے ساتھ ڈھول بجتا ہوتا تھا یا دوسرے باجے تاشے بجتے تھے اِسی لئے اُن کو ڈنکا بیگم کہا جاتا تھا۔ آج شہرت پانے اور  شہرت دینے کے ذریعہ میڈیا کی وجہ سے دوسرے ہو گئے تواب ڈنکے کا لفظ محاورہ میں رہ گیا مگر معاشرہ اس سے دُور ہوتا گیا ’’ڈھول پیٹنا‘‘ بھی اسی مفہوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور ڈھول بجنا بھی یہ ہمارے تمدن کی ایسی یادگاروں میں سے ہے جن کو ہم بھولتے جا رہے ہیں مگر ہمارے محاوروں کے ذریعہ گویا یہ حالات اور یہ ماحول Preserve ہو گیا ہے۔

 

 (۴) ڈوبتے کو تنکے کا سہارا (بہت ہوتا ہے) ڈوب مرنا۔

ڈوبنا ہمارے ایسے الفاظ میں سے ہے جو سماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ ’’ڈوبے ڈھیری‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اُس کا قصّہ ختم ہو گیا۔ جب ہاتھ اُدھار کی رقم واپس نہیں آتی تو اُسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی صُورت میں بھی رقم ڈوبنے کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح گھر ڈوب گیا تباہی کے معنی میں آتا ہے یا پھر بہہ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا میخانہ بھی

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑ گیا ہو اور سہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ دوسروں کے غیر مخلصانہ رویوں کی وجہ سے آدمی کسی پراعتماد بھی نہ کر سکتا ہو ایسے بُرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزور سہارا بھی آدمی کو بڑی بات نظر آتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعتاً وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اور بس۔

 

(۵)ڈھاک کے تین پات، ڈھائی دن کی بادشاہت، ڈھائی گھڑی کی آنا۔

ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور ’’ ٹیسو کے پھول‘‘ ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں۔ اِس کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام آتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام آتے تھے گوشت اسی میں رکھ کر دیتے تھے اور ’’پھول‘‘ اور ’’ہا ر‘‘ وغیرہ انہی پتوں میں رکھ کر دیئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اور وہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور  ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثر کوششیں نا کام ہوتی ہیں اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پر ڈھاک کے تین پات کہتے ہیں۔

 

(۶)ڈھائی چلّو لہو پینا یا پلانا،ڈیڑھ اینٹ کی مسجد چُننا۔

چُلّو ہاتھ کے پیمانے کو کہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اور دور بھی ختم ہوا ورنہ دیہات و قصبات میں بعض محاورات میں چُلّو کا لفظ بہت آتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ ڈیڑھ چُلّو پانی میں ڈوب مرو۔

ڈیڑھ اور ڈھائی بھی محاوراتی، کلمات میں آتے ہیں۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ عورتیں کو سننے کے طور پر محاورہ استعمال کرتی تھیں۔

’’ڈھائی دن کو جھونپڑا‘‘ دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہو پینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے معاشرتی فکر اور پیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔

مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کو مقر ر کیا جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں آتا ہے۔

 

(۷)ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے۔

’’چھاؤں ‘‘ ہمارے یہاں سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ سرپرستی محبت اور  عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی میسر نہ آیا۔ سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے تو چھاؤں میں بٹھا تا ہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔

اسی چھاؤں کو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے تو ابھی دھوپ ہے اور جہاں جہاں دھُوپ آتی ہے وہاں وہاں چھاؤں تو ہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اُن کے’’ پینترے ‘‘بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اور بُرے دن بھی گزر جاتے ہیں ظاہر کرنے کے لئے چلتی پھرتی دھُوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔

 

(۸)ڈھونگ رَچانا، ڈینگ مارنا۔

ڈھونگ خواہ مخواہ کی بات کو کہتے ہیں اور جو آدمی اس طرح کی باتیں کرتا یا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس کو ڈھونگ رچانا کہتے ہیں کہیں کہیں یہ محاورہ ڈھونگ باندھنے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے اور  ’’ڈینگ مارنا‘‘ اس کی ایک اور  شکل ہے یعنی جھوٹی سچی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ یہ وہی ہے جو ہوا باندھنا کے معنی کے طور پر آتا ہے غالب کا مصرعہ ہے۔

؂ ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں

 

(۹)ڈھیل دینا، ڈھیلی ڈور چھوڑنا یا کرنا، (ڈور ڈھیلی کرنا)۔

نظر انداز کرنا ہے اسی لئے محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ اس نے ڈھیل دے رکھی ہے ڈھیل دینا دراصل پتنگ بازوں کی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھا بلکہ اُسے آزاد چھوڑ دیا اسی لئے ڈور ڈھیلی کرنا اور ڈھیلی چھوڑنا غیر ضروری آزادی دینے کو کہتے ہیں جس میں نرمی برتنے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے ہمارے تہذیبی رویوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم انتظام میں ایک گونہ سختی اور باقاعدگی کو ضروری سمجھتے تھے جوشؔ نے تو ایک موقع پر یہ بھی کہا ہے۔

؂ کھُردُرے ہاتھوں میں رہی ہے حکومت کی لگام

یعنی حکومت کے لئے سختی لازمی ہے اور انتظام میں ذرا سی بھی ڈھیل دینا اُس میں خلل پڑنے کا باعث ہو جاتا ہے اسی لئے زندگی کو پُل صراط کا سفر کرنا قرار دیا جاتا ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور دھار سے زیادہ باریک ہے اور  ذرا سی توجہ اگر راستہ سے ہٹ جاتی ہے اور پیروں میں لغزش آ جاتی ہے تو آدمی ایسے گہرے کھڈ میں گرجا تا ہے کہ وہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔

 

***

 

 

 

ردیف ’’ذ‘‘

 

’’ذ‘‘ کے محاورہ کل چھ ہیں لیکن بہت معمولی طور پر شامل کئے گئے ہیں اس لئے اُن کا مطالعہ باقاعدہ طور پر یہاں پیش نہیں کیا گیا۔ اس سے ذہن اُس طرف منتقل ہوتا ہے کہ تمام حرفوں سے بننے والے الفاظ ایک ہی سی نوعیت نہیں رکھتے اور اُسی سے اُن کی تعداد میں بھی فرق آتا ہے اور اُن کے استعمال میں بھی۔

 

***

 

 

 

 

ردیف ’’ر‘‘

 

(۱)رات تھوڑی ہے سانگ بہت ہے۔

سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ بھی ہے جو ایک طرح سے ’’سوانگ‘‘ ڈرامہ ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ اس کے علاوہ سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمود و نمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تا ہے تو اُسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرا ہے یاوہ بہت ’’سانگ ‘‘بھرنے کا عادی ہے یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے اِس کو سانگ کرنا وار بھرنا بولتے ہیں اور اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ ابھی تو بہت سا ’’سانگ ‘‘باقی ہے اور یہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اور سانگ بہت ہیں۔

چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اور کبھی کبھی تو صبح ہو جاتی تھی اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا اسی طرف اِس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔

 

(۲)راجا اندر کا اکھاڑا۔

راجا اندر در اصل موسم کا راجا ہے۔ موسم کے ساتھ طرح طرح کے کام گیت ’’سنگیت‘‘ اور کھیل تماشہ ہوتے ہیں تماشہ کرنے والی’’ منڈلیاں ‘‘ ہوتی تھیں وہ اکھاڑے کہلاتے تھے ہم اکھاڑا صرف کشتی ہی کے اکھاڑے کو سمجھتے ہیں اِس سے ایک طرح کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ راجا اندر کا اکھاڑا پر یوں کے غول پر مشتمل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے راجہ اِندر کے اکھاڑے کی پریاں اور  راجا اندر وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس بہت سی حسینائیں جمع ہوں اسی لئے مذاق کے طور پر یا طنزیہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ راجا اِندر بنے رہتے ہیں یہ محاورہ ہویا مذکورہ محاورہ دونوں سانگ و سنگیت سے متعلق ہیں دونوں کی ایک سماجی حیثیت ہے۔

 

(۳)راستہ یا رستہ بتانا یا دیکھنا راستہ پر آنا، راستہ یا رستہ ناپنا۔ راہ لگانا، راہ پیدا کرنا وغیرہ۔

رستہ ہمارے لئے زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کی غرض سے ایک ضروری وسیلہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ چلنے کا راستہ ہو چاہے کام کرنے کا سلیقہ طریقہ اِس کو جاننا بھی پڑتا ہے اِس کے بارے میں سوچنا سمجھنا بھی ہوتا ہے اور دوسروں کی مدد بھی درکار ہوتی ہے جو ہمیں راستہ بتا دیں طریقہ سکھلا دیں وقت پر مناسب مشورہ دیدیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کوئی راستہ بتلائے اس لئے کہ اگر راستہ غلط ہو گیا تو منزل بھی غلط ہو جائے گی اور مقصد پورا نہ ہو گا۔

یہیں آدمی دوسروں کی اچھائیوں سے بھی واقف ہوتا ہے اور برائیوں سے بھی کہ لوگ کچھ بتلانا نہیں چاہتے اور  خود غرض لوگ غلط راستہ بتاتے ہیں یعنی مکاریوں سے بھرا کوئی مشورہ دیتے ہیں راستہ بتانا یا راستہ دکھانا صلاح و مشورہ دینا خلوص کی بات ہوتی ہے مگر اسی میں ساری بد خلوصیاں انتقام کا جذبہ یا مکاری بھی شامل ہوتی ہے آدمی کبھی ٹالتا ہے کبھی بہانے بازیاں کرتا ہے کبھی بہت دلچسپ اور پُر فریب صورتِ حال کو سامنے لاتا ہے تاکہ جس کو غلط راستہ پر ڈالنا مقصد ہے وہ اپنی سُوجھ بُوجھ سے کام نہ لے سکے۔

راستہ سے متعلق جو محاورے ہیں اور جن کے اوپر درج کیا گیا ہے وہ اسی دھوپ چھاؤں جیسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راستہ نکالنا، راستہ نکل آنا، راستہ سے بھٹکے جانا، راستہ بھول جانا یا بھلا دینا سب اسی سلسلہ کے محاورے ہیں اور اِس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے محاوروں کا ہماری سماجی صورتِ حال سے کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کا ہماری سماجی صورت حال سے اور ماحول کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کے ساتھ ا س میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں راستہ کو راہ بھی کہتے ہیں اور یہ محاورے ’’راہ‘‘ سے بھی وابستہ ہیں۔

 

(۴)رام رام کرنا (رام رام جپنا) رام نام کی لُوٹ،رام دُہائی، رام کی کہانی، رام کی مایا، رام لیلا، رام کی بچھیا وغیرہ۔

رام کی مذہبی اور تہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اور ہندو معاشرے کی سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اور  آدمیوں کے نام’’ رام‘‘ کے نام پر رکھے جاتے ہیں ’’راون‘‘ رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کو بُرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے’’ راون کی سیتا ‘‘’’راون کی نگری‘‘ یا راون کی لنکا اسی نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔

’’رام ‘‘کو یاد کرنا نیکیوں کے سر چشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے ’’رام رام کرو‘‘ رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ مُفت کا مال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہو یہ دولت تمہاری بن سکتی ہے۔

مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اور مصیبتوں بھری کہانی کو ’’رام کہانی‘‘ کہا جاتا ہے ’’رام کتھا‘‘ بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رام کے نام پر آنے والے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور محاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اور کن سماجی مُحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق مفہوم و معنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب ’’رام کی مایا ‘‘ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنے والے محاورہ ہے۔

 

(۵)رُستم یا افلاطون کا سالا

بعض کردار عوام کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔ اُن میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جو یونان کا تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو ’’ارسطو‘‘ کا استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں علمِ حکمت اور دینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل تو کیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے اُسے بطورِ برائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہو رہا ہے خود کو افلاطون کا سالا سمجھتا ہے یا افلاطون بنا کر پھرتا ہے افلاطون کو اُن نفسیاتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اور ہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصور ہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کو کیا جانیں۔

رُستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہو گئی ہے اور بہادری میں اس کانام بطورِ مثال آتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان اور طاقتور سمجھتے ہیں اس کو’’ رستم زمان‘‘ خیال کرتے ہیں ’’گاماں ‘‘پہلوان کا خطاب ’’رستم‘‘ ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کی زبان پر طنز کے طور پر آتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو’’ رستم کا سالا‘‘ سمجھتے ہیں افواہِ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آسانی سے ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تو ہمارے محاورہ کا حصّہ بن جاتی ہے اور جیسا کہ روز اشارہ کیا گیا ہے جو محاورہ میں آئی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اتر گئی ہے نفسیات کا جُز بن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا حصّہ ہے۔

 

(۶)رس مارے رسائن ہو۔

’’رس‘‘ کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی ’’لطف و لذت‘‘ کے بھی ہیں جذبہ و احساس کے بھی،مشروبات (پینے) کی چیز میں اور  مسموعات میں بھی یعنی جو ہم سنتے ہیں جیسے کانوں میں ’’رس گھولنا‘‘ رسیلی آواز’’ رس بھرا لہجہ‘‘ ایسا پھل جس کا عرق میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اور  رس بھرا کہلاتا ہے۔ ’’رس بھری‘‘ ہمارے یہاں ایک پھل بھی ہے۔

ہندی میں مختلف جذبوں کو ’’رس‘‘ کہتے ہیں جیسے ہاسیہ سے ہاسیہ رس، ویر رس شر نگار رس یہاں اس محاورے میں ’’رس‘‘ کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی ہیں۔

دوا علاج کی غرض سے کھِلائی پلائی جانے والی اشیاء اِس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگر وہ رس کا چھینٹا مار دے اچھی بات کہہ دے تو جی خوش ہو جائے اور ایسا محسوس ہو جیسے کسی دُکھ درد کی دوا مل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے اُردو میں مستعمل نہیں مگر بہت اچھا ہے۔

 

(۷)رسّی جل گئی پربل نہیں جلا، یا رسّی جل گئی پربل نہیں نکلا(گیا)۔

ایک اہم سماجی محاورہ ے ’’رسی‘‘ ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جو گل بھی جاتا ہے اور جل بھی جاتا ہے لوہے کی رسیّوں کا تصور پہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایسی صورت میں اگر رسّی جل بھی جاتی تھی تو اس کے بل راکھ میں بھی نظر آتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذ کیا گیا کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ اور اس کا اطلاق ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب آدمی دولت مند نہیں رہتا یا با اقتدار نہیں رہتا مگر اس کے ناز نخرے یا ادب و آداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے طور طریقے وہی رہے جو نوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔

 

(۸)رفوچکر ہونا۔

لفظی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے کہ رفو اور شئے ہے چکر کچھ اور  رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ اُن دونوں سے جو محاورہ بنا ہے اس کے معنی غائب ہو جانے کے ہیں اور عام طور سے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی آدمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تا ہے اور وہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اور وہاں سے غائب ہو جاتا ہے تو اُسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی کسی ذمہ داری سے بچنا اور غیر ذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔

 

(۹)رکابی مذہب ہونا۔

رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اور پلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طور پر غریب آدمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھر روٹی پر رکھ کر کھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اور اچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب آتے تھے اور اُن کی خوشامدیں طرح طرح سے کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلا کر  رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اور اس خوشامد کے طور پر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیں گے۔

اس صورتِ حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیار کر لیتے تھے۔

اُردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جو اِسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ’’جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات‘‘ یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہو رہے اور انہی کی سی بات کرنی شروع کر دی۔

 

(۱۰)رگ پٹھے سے واقف ہونا،رگ و ریشہ میں پڑنا۔

یہ محاورہ حکیموں یا پہلوانوں کا ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ رگ پٹھوں سے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خوب جانتا ہوں۔ آدمی اپنے آپ کو طرح طرح کے نقابوں میں چھُپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی طرف سے یہ آتا ہے کہ وہ ہم سے نہیں چھُپ سکتے۔ داغ کا مصرعہ ہے۔

؂ وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاں کے ایسے ہیں

اور اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو ان کے رگ و ریشے سے یا رگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھید جانتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو شخصی، جماعتی یا خاندانی راز چھُپائے جاتے ہیں۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگر عزیزوں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک کہ پاس پڑوس والوں کی یہ خوشی اور خواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حد تک اور خاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رو یہ کی عمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔

 

 

 

(۱۱)رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ

رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ رنگوں کا احساس اور اُس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کا رنگ پھولوں پھلوں کا رنگ پتھروں اور پانیوں کا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکا پڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور اُس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اور عمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ’’رنگ پھیکا پڑنا‘‘ بھی اور یہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظر میں یہ سب باتیں بھی ہیں اُردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’رنگ کے بدل‘‘ جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اس کا پہلا مصرعہ ہے۔

؂ زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

یعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اور زندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔

 

(۱۲)رنگ رلیاں منانا، رنگیں مزاج ہونا۔

ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیں رنگین مزاج بھی اور اُس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ اور طریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور  وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اور زمین دار خاندانوں کے افراد اکثر عیش اور مزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو ’’رنگ رلیاں منانا‘‘ کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہو جاتی ہیں خاندان مفلس ہو جاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور  اس پر غیر سنجیدہ افراد اور امیر زادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کو کیا ہو گا۔

اِس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اور ان سے اچھے بُرے نتیجے کیا نکلتے ہیں۔

 

(۱۳)رُوح بھٹکنا، رُوح تھرانا یا کانپنا، رُوح نکالنا، رُوح نکلنا وغیرہ۔

’’رُوح‘‘ ہمارے جسم میں وہ جوہر یاقوّت ہے جو بھیدوں بھری ہے وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگر اسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اور اسی کے تقاضہ ہمیں اپنی مادّی ضرورتوں سے اوپر اٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اور  رُوحانی اخلاقی اور مذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم اُسے روحانی طریقہ فکر کہتے ہیں۔

ہمارا خوف دہشت تکلیف اور  راحت سب رُوح کے ساتھ ہے رُوح بدن سے نکل گئی تو نہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا بدن یا جسم ناشور ہے (فنا ہونے والا ہے) اور باقی رہنے والی رُوح ہے جو نہ کٹ سکتی ہے نہ گُل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں۔

رُوح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے اُس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے

مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اور ہماری زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اور اُس سے آگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھرّانا انتہائی خوفزدگی ہے سراسیمگی اور پریشانی کا عالم ہے۔

 

(۱۴)روغنِ قاز ملنا۔

روغنِ قاز ملنا ایک عجیب و غریب محاورہ ہے ’’قاز‘‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک آبی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں اُڑ کر اِدھر آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ اِس کا روغن ایک فرضی بات معلوم ہوتی ہے خاص طور پر اس لئے کہ کہ روغنِ قاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور  اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یا خوشامد کر کے دوسروں کو بیوقوف بنانا اور یہی صورت حال ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

(۱۵)رونگٹے یا روئیں کھڑے ہونا، رُونگ رُونگ میں بسنا، رونمائی دینا، روتی صورت یا شکل رومال پر رومال بھگونا۔

بعض محاورے سماجی زندگی سے اتنا تعلق نہیں رکھتے جتنا ان کا رشتہ ہمارے شاعرانہ طرز فکر سے ہوتا ہے رونگٹے کھڑے ہونا سنسنی خیز ہونے کی ایک صورت ہوتی ہے جو ایسی باتوں کو سن کر جو انتہائی دکھ درد والی ہوتی ہیں ہم جذباتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے اُن کے مظالم کی کہانیاں سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ یا روم روم میں سنایا مرا رونگٹا رونگٹا میرا حسان مند ہے یا اس طرح کے محاورے شاعرانہ حیثیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور تشبیہہ و استعارہ کی مبالغہ آمیز صورت کو پیش کرتے ہیں جیسے میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔ یا آگ کھائے گا انگارے اُگلے گا یہ ایک طرح کی شاعری ہے عمل ہے اور اس معنی میں محاورہ معاشرت کے اس تہذیبی پہلو سے رشتہ رکھتا ہے جس کا تعلق ہماری شعر و شعور سے ہے رُونمائی دینا رسم ہے ’’دلہن کو منہ دکھائی دی جاتی ہے‘‘ اور دولہا کو سلامی اس طرح کے محاورے اور بھی ہیں جس کا تعلق بڑی حد تک ہماری سوچ سے ہے طرز اظہار سے ہے۔ تشبیہوں استعاروں سے ہے سماج کے کسی رو یہ پر  روشنی ڈالنے سے نسبتاً کم ہے جو ہمارے لئے قابلِ گرفت یا لائقِ اعتراض ہوتا ہے۔ ’’روتی صورت‘‘ یا مشکل بھی ایسے ہی محاوروں میں ہے رومال پر رومال بھگونا یعنی بہت رُونا ہے یہ ایک شاعرانہ اندازِ بیان بھی ہے۔ اور ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ بھی ہے۔

 

(۱۶)ریت بِلونا، ریت کی دیوار کھڑی کرنا۔

ریت ایک طرح کی شاعری ہے اس لئے کہ ریت جمتا نہیں ہے۔ بکھرتا رہتا ہے ریت کی دیوار کھڑی ہوہی نہیں سکتی اِس سے مراد ایک بے تکی اور بے بنیاد بات کو اٹھانا اور اس پر زور دینا ریت کی دیوار کھڑی کرنا ہے۔

ریت پانی نہیں ہوتا پانی کو بھی ’’بلونے‘‘ سے کوئی فائدہ نہیں کہ جتنا چاہے پانی کو بلو نے کا عمل کرو نتیجہ کچھ نہیں۔ دیوتاؤں نے سات سمندروں کو ’’بلو کر‘‘ بھلے ہی اَمرت نکالا ہو آدمی تو نہیں نکال سکتا چہ جائیکہ ریت کو ’’بلویا‘‘ جائے۔ سوائے دھُول اٹھنے یا دھول اڑنے کے کوئی نتیجہ نہیں ہو گا اسی بے نتیجہ بات کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا گیا ہے۔

سماج کا رو یہ یہاں بھی پیشِ نظر رہا ہے کہ لوگ بے تُکی باتیں کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اُس کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں۔

اگر ہم محاورات پر نظر ڈالیں اور اُن کے معنی کو زندگی کے مسائل و معاملات سے جوڑ کر دیکھیں توہم بہت کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ ریت کے ساتھ اور بھی محاورے ہیں جیسے’’ ریت مٹی ہونا‘‘ ریت کی طرح بکھرنا ریت کو مٹھی میں تھامنا اب یہ ظاہر ہے کہ زندگی کے تجربہ ہیں روزمرہ کے مشاہدہ ہیں کہ انسان کے نیک اعمال بھی اچھے کام بھی گاہ گاہ بُرے نتائج پیدا کرتے ہیں اس میں تقدیر کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور تدبیر کو بھی سُوجھ بُوجھ کو بھی نہ سمجھی کو بھی جسے بے تدبیری کہنا چاہیے۔ ۔

 

(۱۷)ریوڑی کے پھیر میں آ جانا۔

’’ریوڑی‘‘ تل اور شکر سے بنی ہوئی ایک مٹھائی ہے اس کے لئے شکر کا قوام تیا ر کرنا اور پھر اسے ایک خاص ترکیب اور عمل کے ذریعہ اس مرحلہ تک لانا جہاں اس سے ریوڑیاں بن جائیں ایک محنت طلب اور  دشوار مرحلہ ہوتا ہے جن لوگوں نے شکر کے قوام سے ’’ریوڑیاں ‘‘ بنتی دیکھی ہیں وہ اُس بات کے معنی سمجھ سکتے ہیں کہ’’ ریوڑی‘‘ کے پھیر میں پڑنا کس طرح کے پیچیدہ عمل سے گزرنا ہے جس کو سب سمجھ بھی نہیں سکتے عام طور پر دشوار عمل کو اِس محاورے سے تعبیر کرتے ہیں کہ وہ تو آج کل ریوڑی کے پھیر میں پڑا ہوا ہے۔

 

(۱۸)ریشم کے لچھے۔

’’ریشم کے لچھے‘‘ ایک خاص طرح کا شاعرانہ انداز ہے ریشم خوبصورت پُرکشش نرم اور گُداز شے ہے خوبصورت بالوں کو بھی ریشم کے لچھے کہتے ہیں اور اسی طرح سے خوبصورت باتوں کو بھی اگر ہم اس سچائی کو سامنے رکھیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محاورے ہمارا شعور بھی ہیں اور ان کا تعلق شعریت سے بھی ہے کہ محاوروں میں تشبیہہ استعارہ اور کنایہ جو کام کرتے ہیں اُن کا تعلق گاہ گاہ ہماری شعری حیثیت سے ہوتا ہے۔

***

٭٭٭٭٭٭

 

تشکر: کتاب گھر ڈاٹ کام،

پروف ریڈنگ اور  ای بک کی تشکیل: محمد شمشاد خان، اعجاز عبید