FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 طارق غازی اور سلمان غازی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔

  بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔

’’  پطرس یہ تانپورے  اور  تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔‘‘

  پطرس نے ایک لمحہ سوچا  اور  پھر بولے۔  ’’مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟‘‘

 اس پر مولانا گڑ بڑا گئے  اور  بولے۔  ’’بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہو گی۔‘‘

  پطرس کہنے لگے۔

’’ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال  اور  گذار لیجئے۔ ‘‘

٭٭

 

میرے پڑ دادا مولانا عبداللہ انصاری، پہلے ناظم دینیات، علی گڑھ، کے قرابتی بھائی، مولانا خلیل احمد  محدث سہارنپوری، جنہوں نے صحاح ستہ کی کتاب سنن ابی داود کی شرح بذل المجہود عربی میں لکھی ہے، خطوط میں دستخط سے پہلے خود کو ننگِ اسلاف (بڑوں کے لئے باعث شرم و عار) لکھا کرتے تھے ۔ ان کے ایک بھتیجے، مولانا محمد فاروق مظاہر العلوم، سہارنپور میں پڑھنے کے لئے آئے ۔ وہاں سے گھر خط لکھا، جس میں اپنے بڑوں کی روایت  کی پاسداری میں دستخط سے پہلے خود کو ننگ اسلاف  لکھا۔ ان کی والدہ نے خط پڑھوا کر سنا تو آبدیدہ ہو گئیں  اور  چہرہ  سے غصہ بھی  ہویدا تھا۔ خط پڑھنے والے نے کہا، ’’خط میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر رونا یا غصہ آئے‘‘  تو بولیں، ’’ یہ رونے کی بات نہیں ؟ آج کل کے لڑکے  ایسے آپ خود ہو گئے کسی کا بڑے چھوٹے کا لحاظ باقی نہیں رہا‘‘ پوچھا آخر فاروق میاں نے ایسی کیا بات لکھ دی جو آپ اتنا ناراض ہو رہی ہیں ؟

جواب دیا:

"”دنیا سے شرم غیرت اٹھ گئی۔ پہلے مولانا خلیل احمد، مولانا رشید احمد گنگوہی، جیسے عالی رتبہ بزرگ خود کو ننگ اسلاف لکھتے تھے،  اور  اب یہ کل کے لڑکے ان کی برابری کر رہے ہیں  اور  خود کو  ننگ اسلاف لکھنے لگے ۔‘‘

٭٭

 

تاریخ میں عدل سلیمانؑ  مشہور ہے ۔ رسول اللہ  نے اپنے صحابہ کو انبیا کا مثیل قرار دیا ہے ۔ ان کے عدل  و انصاف کے قصوں سے بھی ہماری تاریخ تابناک ہے ۔

       حضرت ابودردا ؓ ایک انصاری صحابی تھے ۔ اسلام لانے سے پہلے تجارت کرتے تھے ۔ اسلام لانے کے بعد سارا وقت علم حاصل کرنے میں لگا  دیا، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں ان کو دمشق میں معلم بنا کر بھیجا۔ وہاں   ایک  بار حضرت ابودردا ؓ  شہر کے بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ کچھ لوگ  ایک شخص کو زد و کوب کر رہے ہیں ۔ آپ نے اس کا سبب پوچھا تو مارنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ اس شخص سے ایک گناہ کبیرہ سرزد ہوا ہے اس لئے سب مل کر اس کی پٹائی کر رہے ہیں ۔

حضرت ابودردا نے مجمع سے پوچھا: اگر کوئی شخص کنویں میں گر جائے تو کیا کرو گے ؟ کیا اسے کنویں سے باہر نہ نکالو گے ؟

سب نے کہا بے شک!

حضرت ابو درداؓ نے فرمایا: تو پھر اس شخص کی توہین نہ کرو، اس کے بجائے اسے غلطی  اور  آخرت میں اس کی سزا  کا احساس دلاؤ ۔ پھر کہا اس کے عمل سے مجھے نفرت ہے، خود اس سے نہیں ۔ یہ توبہ کر لے تو بہر حال میرا  دینی بھائی ہے ۔ اس گنہ گار شخص  کو  اپنے فعل پر ندامت ہوئی۔وہ رو پڑا  اور سب کے سامنے تو بہ کر لی۔

حضرت ابودردا ؓ کے ایسے فیصلوں کی خبر مدینہ پہنچی تو حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں  انہیں معلم کے ساتھ دمشق کا قاضی  اور  امام مسجد جامع مقرر فرمایا۔

٭٭

 

علامہ انور صابری ایک زمانے کے مقبول ترین شعرا میں تھے۔ شاعر انقلاب ان کا لقب تھا،  اور  شاعری بھی بڑی انقلابی تھی۔  تحریک آزادی کے ہراول میں شامل تھے۔  مشاعروں کی جان تھے۔  بڑے تن توش کے آدمی تھے۔ اورنگ گہرا سانولا تھا۔۔  ڈاڑھی سر سید کی ڈاڑھی سے بس اُنیس تھی  اور بہ سبب خضاب شب دیجور کو شرماتی تھی۔ بدیہہ گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ہم نے خود دیکھا بیٹھے بیٹھے بیس تیس شعر کہہ ڈالتے، سامنے پڑے ہوئے کسی بھی کاغذ پر لکھ کر وہیں چھوڑ کر اٹھ جاتے تھے۔ اس وجہ سے نہ جانے کتنا کلام لاپتہ  اور  ضائع ہو گیا۔  نبض دوراں کے عنوان سے ان کی کچھ منتخب غزلوں  اور  نظموں کا ایک مجموعہ شائع ہوا تھا، اب وہ بھی معدوم ہے۔

            انور صابری کے لطیفے بھی بہت مشہور ہیں۔

            ایک بار وہ پاکستان گئے ہوئے تھے۔ راولپنڈی کے مشاعرہ میں شرکت کے بعد تفریحاً بس سے مری جانے کی ٹھانی  اور  تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے۔ بس میں ان کے ساتھ والی نشست پر انہی کے سے جان جثہ کی ایک بزرگ خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔  انور صابری صاحب نے وقت گزاری کے لئے ان خاتون سے پوچھا: آپ کہاں جا رہی ہیں ؟

            خاتون نے کہا:

            میں مری جا رہی ہوں۔

            صابری صاحب خاموش بیٹھے رہے۔  اب ان خاتون نے پوچھا،  اور بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں ؟

            انور صابری صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا:

            میں مرا جا رہا ہوں !

٭٭

 

علیگڑھ نمائش کا مشاعرہ تھا۔۔ انور صابری  اور  گلزار دہلوی ایک ساتھ ہی آئے تھے۔ مشاعرہ میں بے ضرورت ہوٹنگ چل رہی تھی۔  ناظم مشاعرہ نے حالات ( اور  طلبہ) پر قابو پانے کے لئے گلزار دہلوی کو دعوت کلام دی۔ وہ مشاعروں کے سرد و گرم چشیدہ تھے۔ انہوں جگہ، موقعہ  اور  سامعین کا لحاظ کرتے ہوئے نعتیہ قطعات پڑھنے شروع کئے۔  مگر سامعین میں موجود لڑکے ہلڑ کے موڈ میں تھے۔  آخر انور صابری مائک پر آئے  اور  لڑکوں کو شرم و غیرت دلائی کہ ایک غیر مسلم نعتیہ قطعات پڑھ رہا ہے  اور  آپ لوگ چیخ پکا ر کر رہے ہیں۔  بات درست تھی۔  طلبہ شرمندہ ہوئے،  اور  اتنے کہ گلزار دہلوی کو داد دینے کے لئے بھی کسی نے لب نہ ہلائے۔ انور صابری پر اس بات کا بھی تاثر ہوا۔  چنانچہ جب ان کو بلایا گیا تو انہوں نے مکدر مزاجی کے لئے ناسازی طبع کا بہانہ بنا کر کہا بس دو شعر پڑھوں گا۔

            مجمع میں سے ایک دل جلے طالب علم نے آوازہ مارا: ’’دو روپے ملیں گے !‘‘

            طلبہ میں قہقہہ پڑا  اور  انور صابری نے دو شعر بھی نہ سنائے۔ بعد میں گلزار دہلوی کی درخواست پر انہوں نے بے دلی سے چند شعر سنا دئے تھے۔

٭٭

 

آزادی کے بعد انور صابری پہلی بار پاکستان گئے تو لاہور کے ایک مشاعرے میں ان کا سامنا ایک ایسے شخص سے ہو گیا جو تحریک آزادی کے دوران ان کا سیاسی حریف تھا۔ اپنی باری آئی تو انور صابری نے جو غزل سنائی اس کا ایک شعر تھا

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

شعر سن کر وہ صاحب ذرا خفیف بھی ہوئے  اور  چہرے پر ناگواری کے اثرات بھی نظر آئے، تو انور صابری نے فی البدیہہ مطلع کہا

تم اسے شکوہ سمجھ کر کس لئے شرما گئے

مدتوں کے بعد دیکھا تھا تو آنسو آ گئے

٭٭

 

جدہ میں ایک بار پاک ہند مزاحیہ مشاعرہ ہوا۔  دل اور  فگار، ضمیر جعفری، انور مسعود، حمایت  اللہ، مصطفیٰ علی بیگ، خوامخواہ وغیرہ آئے ہوئے تھے۔  مشاعرہ کے دوسرے روز کسی نے ایک خصوصی نشست رکھی، جس میں مقامی شعرا نے بھی کلام سنایا۔ ایک مقامی بزرگ شاعر کافی دیر سے کاغذی گلاس سے چسکیاں لے کرپانی پی رہے تھے۔  ان کا نام پکارا گیا تو گلاس ہاتھ میں لئے ہوئے ہی مائک پر پہنچ گئے۔

کسی نے پوچھا  ’’یہ ہاتھ میں کیا لئے بیٹھے ہیں؟‘‘

            شاعر نے کچھ جھلائے ہوئے انداز میں کہا:

            ’’پانی ہے بھائی!‘‘

            برجستہ جواب آیا:

            ’’چُلو بھر؟‘‘

            شاعر کی بزرگی کے پیش نظر مشاعرہ گاہ میں قہقہہ لوگوں کے حلق میں اٹک گیا  اور  مہمان شعرا زیر لب مسکرا کر رہ گئے۔

٭٭

 

اردو اکیڈمی دہلی کا ایک مشاعرہ تھا۔ صدارت استاد شاعر والی آسی کر رہے تھے مشاعرے میں محمود ہاشمی،زبیر رضوی، مخمور سعیدی حضرت گلزار دہلوی ، راحت اندوری، منور رانا،منظر بھوپالی چند شاعرات اور دیگر شعرا  شرکت کر رہے تھے۔ نظامت مخمور سعیدی کر رہے تھے۔ انھوں نے مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوے شعرا سے درخواست کی کہ وہ اپنے پانچ منتخب شعر سنائیں۔سبھی شعرا نے اس کی پابندی کی اور صدارتی کلام کی باری آئی ۔ حضرت والی آسی کو دعوت کلام دی گئی۔

آسی صاحب نے مائیک سبھالا اور کہا ’’کیا ہم پر بھی پانچ اشعار کی پابندی ہے؟‘‘

 مخمور صاحب نے کہا ’’آپ نہ صرف جتنے شعر چاہیں سنائیں بلکہ جتنی غزلیں چاہیں سنائیں ، صدر پر کوئی پابندی نہیں۔‘‘

والی آسی صاحب نے کہا ’’بہتر ہے میں اپنی پہلی غزل پیش کر رہا ہوں۔‘‘

محمود ہاشمی صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا

’’والی بھائی جھوٹ تو نہ کہئے ہم جب سے آپ کی تیرا غزلیں تو سن چکے ہیں‘‘

 اس پر ایک قہقہہ پڑا ۔

٭٭

 

حیدرآباد میں ایک مشاعرہ ہو رہا تھا  جس کی سدارت علامہ حیرت بدایونی فرما رہے تھے مشاعرے میں جگن ناتھ آزاد،مخدوم محی الدین ،قاضی سلیم،بشر نواز،زبیر رضوی، انور معظم راشد آزر،  وحید اختر، شاذ تمکنت، عزیز قیسی،  سعید شہیدی ،طالب رزاقی، ابن احمد تاب ،منوہر لال شارب ،کنول پرشاد کنول اور تاج مہجور شرکت کر رہے تھے ۔ شاذ اور راشد آزر بازو بازو بیٹھے ہوے تھے۔جگن ناتھ آزاد کو دعوت کلام دی گئی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر مائیک کی سمت جا رہے تھے۔شاذ تمکنت نے آہستہ سے راشد آزر سے کہا ’’یہ اس قدر پڑھے لکھے ، ماہر اقبالیات زبان و بیان کے ماہر ہیں مگر اتنی بری شاعری کیوں کرتے ہیں‘‘

راشد صاحب نے پوچھا ’’پھر تم نے کبھی ان سے کہا؟ ‘‘

شاذ نے برجستہ جواب دیا ’’ہم نے کبھی تم سے کہا؟‘‘

٭٭

 

ریل کے سفر میں سب سے اوپر والی برتھ پر مجاز، درمیان میں جوش ملیح آ بادی اور نچلی برتھ پر فراق گورکھپوری  سفر کر رہے تھے۔

معاً جوش نے فراق سے پوچھا: رگھو پتی اس وقت تمہاری عمر کیا ہوگی؟

فراق نے جواب دیا : ’یہی کوئی دس برس‘

 جوش خاموش ہو گئے تو فراق نے  جوش سے پوچھا: ’شبیر حسن تمہاری عمر کیا ہوگی؟‘

  جوش نے بر جستہ جواب دیا

‘یہی کوئی پانچ چھ سال۔‘

 اس پر اوپر کی برتھ پر لیٹے ہوئے مجاز نے اپنا منھ چادر میں چھپاتے ہوئے کہا

’بزرگو اب مجھ سے عمر مت پوچھنا کیونکہ میں تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔‘

٭٭

 

ایک مشاعرے میں بزرگ شاعر نوح ناروی اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ ان کے نقلی دانتوں کی بتیسی شائد ڈھیلی تھی اچانک شعر پڑھتے ہوئے نیچے گر گئی۔

نوح صاحب جیسے ہی بتیسی اٹھانے کے لئے جھکے مجاز نے مائک پر آ کر نہایت ادب سے کہا:

’حضرات ان آپ استاد سے ایک خالص زبان کا شعر سنئے۔‘

٭٭

 

ساغر نظامی کی بہن بھی شاعرہ تھیں اور مینا تخلص رکھتی تھیں۔ ماجد حیدرابادی سے چونکہ ساغر صاحب کی چشمکیں چلتی رہتی تھیں اس لئے ساغر صاحب مشاعرے میں اس شرط پر جاتے تھے کہ ماجد صاحب کو نہیں بلایا جائے گا۔ ایک مشاعرے میں صدارت ساغر نظامی کی تھی۔ چونکہ ماجد صا حب مدعو نہیں تھے اس لئے وہ مشاعرہ سننے کے لئے سامعین میں آ کر بیٹھ گئے۔ لوگوں کو جب پتہ چلا تو سب نے شور مچا دیا کہ ماجد صاحب کو ضرور سنیں گے اور مجبوراً منتظمین کو ماجد صاحب کو دعوت سخن دینی پڑی۔ ماجد صاحب مائک پر آئے تو کہنے لگے کہ چونکہ مجھے مدعو نہیں کیا گیا تھا اس لئے کوئی غزل ساتھ نہیں ہے البتہ دو شعر فی البدییہ کہے ہیں جناب صدر اجازت دیں تو پیش کروں۔ اجازت ملتے پر یہ دو شعر سنائے

پھر آ   گیا ہے لوگو بر سا ت  کا مہینا

لازم ہوا ہے اب تو سب کو شراب   پینا

پہنچا جو میکدے میں حیران رہ گیا میں

الٹا پڑا تھا ساغر اوندھی پڑی تھی مینا

٭٭

 

ایک بار کسی دعوت میں بہت سے شعرا و ادبا مدعو تھے کھانا آنے سے قبل اس بات پر  پر گفتگو ہو رہی تھی کہ صاحب طرز انشا پردازی یا شاعری اکتسابی چیز نہیں ہے کہ  انسان اسے محنت سے حاصل کر لے اور وہ اپنے انداز تحریر سے پہچانا جائے بلکہ ایک وہبی صفت ہے جو فطری طور پر اسے ملتی ہے اسی لئے ہم بعض دفعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ غزل غالب یا علامہ اقبال کے رنگ میں ہے یا یہ مولانا آزاد کی سی نثر ہے۔

اتفاق سے سب سے پہلے رائتہ لا کر رکھا گیا  تو مجاز کہنے لگے کہ اب دیکھئے رائتے ہی کو لے لیجئے اگر اسے مختلف شعرا استعمال کرتے تو کیسے کرتے۔ جیسے علامہ اقبال کہتے

حیف شاہیں رائتہ  کھانے لگا

یا جوش ہوتے تو یوں کہتے:

وہ کج کلاہ جو کھاتا ہے رائتہ اکثر

اور اختر شیرانی کہتے

رائتہ جب رخ سلمیٰ پہ بکھر جاتا ہے

اور میں تو یوں ہی کہتا کہ

ٹھہریئے ایک ذرا رائتہ کھالوں تو چلوں

(دوسری روایتوں میں یوں آیا ہے کہ مجاز نے جذبی کی طرف اشارہ کر کے کہا ’اور تم کہتے تو یوں کہتے۔۔ ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ پی لوں تو چلوں۔ یہ جذبی کے مصرع کی ہی پیروڈی ہے اس لئے لگتا ہے کہ غازی صاحب سے  کچھ فرو گزاشت ہوئی ہے۔ ا ع)

٭٭

 

تخلص بھوپالی فطری طور پر  ظریف اور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ ان کی بات چیت میں بھی بڑی شوخی ہوتی تھی۔ ان کے دو واقعات حال ہی میں نظر سے گزرے وہ پیش ہیں۔ ایک مرتبہ وہ مولانا علی میاں رحمت اللہ علیہ کے پاس بیٹھے تھے اچانک ایک صاحب آئے اور اطلاع دی کہ پنڈت نہرو کا انتقال ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مولانا سے سوال کیا کہ اب مسلمانوں کا کیا ہو گا۔

 مولانا نے تخلص صاحب کی طرف دیکھا گویا وہ چاہتے ہیں کہ تخلص صاحب ہی اس کا جواب دیں۔

 تخلص صاحب نے بر ملا کہا: ’’میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ  اب پنڈت نہرو کا کیا ہوگا۔‘‘

٭٭

 

ایک بار اور تخلص بھوپالی مولانا (ابو الحسن ندوی) کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے ’’حضرت آپ سعودی عرب تشریف لے جا رہے ہیں اس درمیان اگر میں مر جاؤں تو کتبے پر کیا لکھواؤں۔‘‘

 مولانا  نے مسکرا کر تخلص کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا :

’’میرا خیال ہے آپ کتبے پر یہ لکھوائیے کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔‘‘

٭٭

 

٭صحافتی لطائف میں اکثریت کا تعلق ترجمے سے ہوتا ہے۔ ایسے ہی دو ترجمے ہم نے بھی دیکھے تھے۔ بچپن میں چارلس ڈکنس کی  مشہور کتاب اے ٹیل آف ٹو سٹیز پر فلم بنی تھی اس کا ترجمہ اخباروں کے اشتہارات میں تھا: دو شہروں کی د م۔

٭اسی طرح چند سال پہلے پرویز مشرف کی کتاب ۔ ان دا لائن آف فائر  پر بمبئی کے ایک اخبار میں تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں کتاب کا ترجمہ انہوں نے  آگ کی قطار میں کیا تھا۔

٭          کلکتہ کے لوگوں کو ایک وقت بھات نہ ملے تو جی لیں گے، ایک دن فٹ بال کا میچ نہ ہو تو جان دے دیں گے۔کسی زمانے میں وہاں تین ٹیمیں بہت مضبوط تھیں: مسلمانوں کی محمڈن سپورٹنگ، ہندؤوں کی موہن بگان اور دونوں کی ایسٹ بنگال۔ سالانہ ٹورنامنٹ میں فائنل میں عام طور سے انہی میں سے کوئی دو ٹیمیں آیا کرتی تھیں۔ اگر محمڈن اور موہن بگان آ جائیں تو زیادہ مزہ آتا تھا۔ ایک  بار ایسا ہی ہوا اور محمڈن کے ایک کھلاڑی نے موہن بگان کے خلاف لگاتار تین گول کر دئے۔ کھیلوں کی اصطلاح میں ایسی انفرادی کامیابی کو ہیٹ ٹرک(hat trick) کہا جاتا ہے۔ دوسرے روز ایک موقر روزنامے کے کھیل کے نامہ نگار نے ہیٹ ٹرک کی  اصطلاح کے ترجمہ کے ساتھ خبر دی:

          محمڈن کے کھلاڑی نے ٹوپی کا کرتب دکھایا

٭٭

دوسرا لطیفہ مجھے ظ۔انصاری صاحب نے سنایا تھا۔ ان کا ہفتہ وار آئنہ بند ہوا تو اس کے عملہ کے ایک صاحب نے کہیں نوکری دلوانے کی درخواست کی۔ ظ۔ انصاری صاحب نے حیدرآباد کے روزنامہ سیاست کے مدیر عابد علی خان مرحوم کے نام سفارشی خط لکھ کر ان صاحب کو حیدرآباد بھجوا دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ویتنام کی جنگ زور پر تھی اور امریکی فضائیہ روزانہ شہری علاقوں پر بمباری کر رہی تھی۔ ان   ہوائی حملوں کے لئے انگریزی  میں سرکاری اصطلاح  (air strikes)  تھی۔عابد علی خاں نے امتحاناً  ان صاحب کو ایک چھوٹی سی خبر ترجمہ کے لئے دی۔ ان صاحب نے  ترجمہ کیا:

          امریکہ نے ویتنام میں ہوائی ہڑتالیں کر دیں

عابد علی خان نے ترجمہ شدہ خبر ڈاک سے اور ان صاحب کو ٹرین سے  ظ۔انصاری صاحب کے پاس بھیج دیا۔

٭٭

 

شوکت تھانوی ایک مرتبہ  شدید بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ مرض میں سر کے سارے بال جھڑ گئے۔

 دوست احباب عیادت کو آتے تو  گنجے سر کو دیکھ کر پوچھتے کہ یہ کیا ہوا۔

شوکت تھانوی اپنے مخصوص انداز میں کہتے: ’’ملک الموت آئے تھے، صورت دیکھ کر ترس کھا گئے

لیکن جاتے ہوئے سر پر ایک چپت رسید کر کے چلے گئے۔‘‘

٭٭

 

شملہ میں ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔  گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی  بات مین کچھ الجھاؤ پیدا ہو گیا تو جوش خطابت میں مولانا نے انگریزی میں بولنا شروع کر دیا اور سب کو لا جواب کر دیا۔  مجلس میں ایک ہندو رانی بھی تھی۔ اس نے جب ایک مولانا کو اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی اور پوچھا:

’’مولانا آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سیکھی؟‘‘

 مولانا نے  جواب دیا ۔

’’میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے۔‘‘

 انہوں نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔کہاں

 تو مولانا شگفتگی سے بولے: ’’آ کسفورڈ میں۔‘‘

 جس پر سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

٭٭

 

کنور مہندر سنگھ بیدی سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے جن کے مذہب میں بال کٹوانے یا سگریٹ حقہ وغیرہ پینے کی پابندی ہے یا یوں سمجھئے ان کے مذہب میں حرام ہے۔ ایک مشاعرے میں اپنی نعت سنانے سے قبل انہوں نے کہا کہ میں اردو زبان سے محبت کر تا ہوں با وجود اس کے کہ اس زبان میں کچھ محاورے ایسے ہیں کہ جنہیں اگر میں استعمال کروں تو سکھ مذہب کے مطابق کفر کا فتویٰ لگ جائے ۔ مثال کے طور پر میں یہ نہیں کہ سکتا کہ کل فلاں جگہ میری حجامت بن گئی۔

یا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے۔ یا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوئی کہ برادری نے میرا حقہ پانی بند کر دیا۔ بیدی صاحب کے ہر جملے پر ایک قہقہہ گونج رہا تھا۔

٭٭

 

علیگڑھ نمائش میں کُل ہند مشاعرہ ہو رہا تھا۔یہ بات  ہماری طالب علمی کے زمانے کی ہے۔بڑے بڑے نامور شعرا حضرات اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔بیدی صاحب مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے۔وہ اپنی تقریر کر ہی رہے تھے، کہ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا

ان کو اچھا نہیں لگا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو علی سردار جعفری صاحب آ رہے تھے۔چونکہ علی سردار صاحب کا نام شاعروں کی فہرست میں نہیں تھا اور وہ اچانک علیگڑھ آئے تھے۔ان کے میزبان یونیورسٹی انجیئر اویس صاحب،ان کو لے کر مشاعرے میں آئے تھے۔اے ایم یو کے لڑکے سردار صاحب کو بہت پسند کر تے تھے۔اس لئے ان کی اچانک آمد پر شور برپا ہونے لگا خوشی کا۔

 بیدی صاحب نے کھڑے ہو کر سردار جعفری صاحب کا استقبال کیا،اور کہا۔۔۔۔’’ یوں تو سردار جعفری صاحب بہت اچھے شاعر ہیں اور بہت مقبول بھی ہیں۔‘‘

لڑکوں نے کہا۔ ’’نہیں۔‘‘

اس پر بیدی صاحب بے برجستہ کہا ’’کیونکہ ان کے نام کے ساتھ بھی سردار لگا ہوا ہے‘‘

یہ سن کر بہت دیر تک قہقہوں کی بارش ہوتی رہی۔

٭٭

 

برنارڈ شا ایک عظیم مصنف تھے لیکن خود پرست بھی تھے۔

اکثر کہتے تھے کہ میرے ہر لفظ کی قیمت ایک پونڈ ہے۔ اس زمانے میں ایک پونڈ کی بڑی وقعت تھی۔

ایک صاحب نے از راہ مذاق انہیں ایک پونڈ بھیجا اور لکھا کہ برائے مہربانی اپنا ایک لفظ بھیج دیجئے۔

جواب میں برنارڈ شا نے صرف ایک لفظ لکھا :”شکریہ

٭٭

 

شکیل بدایونی جگر مرادابادی کے شاگرد تھے اور ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ایک بار راند یر ( سورت) میں شکیل کی صدارت میں مشاعرہ تھا۔ بیرونی شعرا میں حضرت جگر مرادابادی  بھی تشریف لائے۔ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے شکیل نے مائک پر آ کر کہا :

’’چونکہ جگر صاحب میرے بزرگ ہیں اس لئے میں اس مشاعرے کی صدارت کرنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔‘‘

 جگر صاحب نے فوراً مائک ہاتھ میں لیا اور کہا

’’ اگر شکیل مجھے اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں تو بحیثیت بزرگ میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ مشاعرے کی صدارت کریں‘‘

شکیل مجبور ہو گئے۔ تمام شاعر جب کلام پڑھ چکے اور صرف دو شاعر باقی رہ گئے یعنی جگر صاحب اور خود شکیل جو صدر تھے۔  اس لئے آخری شاعر کے بعد فوراً شکیل مائک پر اپنا کلام سنانے آ گئے تاکہ جگر صاحب سب سے آخر میں کلام سنائیں۔

لیکن جگر صاحب اٹھ کر مائک پر آ گئے اور کہنے لگے۔:’’آپ صدر ہیں آپ سب سے آخر میں اپنا کلام سنائیے گا۔‘‘

 اس پر شکیل بر جستہ بولے: ’’ جگر صاحب اگر آپ مجھے صدر مانتے ہیں تو میں بحیثیت صدر  آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ سب سے آخر میں کلام سنائیں گے‘‘

 محفل میں قہقہے بلند ہوئے اور جگر صاحب کو شکیل کی بات ماننی پڑی۔

٭٭

 

مولانا محمد علی کا تعلق رام پور سے تھا۔ ایک بار ان کا جانا سیتا پور ہوا۔ وہاں میزبان واقف تھے کہ مولانا کا شکر کا پرہیز ہے اس لئے انہوں کھانے کے بعد کہا : ’’مولانا میٹھا تو آپ کھائیں گے نہیں!!‘‘

 مولانا بولے: ’’بے شک میٹھا میرے لئے شجر ممنوعہ ہے لیکن سسرال میں میٹھا کھانے سے انکار بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

 میزبان نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا سیتا پور میں آپ کی سسرال بھی ہے۔‘‘

 مولانا پولے ’’ارے بھائی رام پور سے سیتا پور آیا ہوں ، آپ کو رام اور سیتا کا رشتہ بھی نہیں پتہ!!‘‘

٭٭

 

بنگال میں بنگالیوں کی ہندی اردو کا جہاں تلفظ غلط ہوتا ہے وہیں جمع واحد اور تذکیر و تانیث کے اصول بھی بالکل الگ ہیں۔ مظفر حنفی کا جب کلکتہ یونیورسٹی میں تقرر ہوا تو کچھ عرصے بعد وائس چانسلر بھاسکر راؤ چودھری نے ان سے پوچھا : پروفیسر حنفی۔ آپ تو بنگلہ بول لیتے ہوں گے۔ حنفی نے ہنس کر جواب دیا ۔ جی سر ! چائے کھابو اور جول کھابو کی حد تک۔

بنگلہ تو بہت آ سانی سے سیکھی جا سکتی ہے۔ چودھری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ تو ٹھیک ہے چودھری صاحب۔ حنفی صاحب نے کہا: لیکن میرے پاس وقت ہی کہاں ہے میں تو چوبیس گھنٹے اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں۔

٭٭

ماخذ: انٹر نیٹ فورم علی گڑھ اردو کلب میں طارق اور سلمان غازی صاحبان کی پوسٹنگ سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید