FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آغا سکندر مہدی کی مرثیہ گوئی

 

 

 

               پروفیسر سید زوار حسین شاہ


 

 

 

 

 

 

سانحہ کربلا کے زیرِ اثر جس قدر ادب دنیا کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہوا ہے۔، تاریخِ انسانیت میں ایسی مثال شاید مشکل سے ملے گی۔اور اردو زبان و ادب کی تو ابتداء ہی واقعہ کربلا کے ذکر سے ہوتی ہے۔یوں تو واقعہ کربلا کے اثرات تمام اردو اصنافِ سخن پر نمایاں نظر آتے ہیں مگر مرثیہ، نوحہ اور سلام جیسی اصنافِ سخن کا تو تمام تر تعلق ہی واقعہ کربلا سے بنتا ہے۔اگرچہ اردو میں شخصی اور قومی مرثیہ بھی لکھا گیا ہے مگر مذہبی مرثیہ، جس کا تعلق واقعہ کربلا ہے ، اس قدر تواتر اور کثرت سے لکھا گیا ہے کہ اردو ادب میں مرثیے کا اطلاق واقعاتِ کربلا سے ہونے لگا ہے۔ابتدا ء میں مرثیہ شہدائے کربلا سے اظہارِ عقیدت کے لیے لکھا جاتا تھا مگر جلد ہی مرثیہ گو شعراء نے مرثیے کو عقیدت کے نہاں خانے سے نکال کر وقیع علمی و ادبی صنف کے درجے پر فائز کر دیا۔میر خلیق اور ضمیر نے فنی اجتہاد سے کام لے کر مرثیے میں عناصرِ ترکیبی کا اضافہ کیا تو انیس و دبیر نے مرثیے کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ کشور سخن کے شہنشاہ کو یہ کہنا پڑا کہ مرثیہ انیس و دبیر کی قلم رو ہے ان جیسا مرثیہ کہنے کے لیے اک عمر چاہیے۔

چنانچہ اب مرثیہ غزل کی طرح نو آموزوں کا تختہ مشق نہیں، مثنوی کی طرح ترتیب و تنظیم و واقعات کا نام نہیں، جدید نظم کی طرح آزاد خیالی کا نام نہیں، حمد کی طرح مرثیے میں عجز اور انکسار نمائی سے کام نہیں چلتا، مرثیہ میں نعت کی طرح صرف عقیدت و ارادت کافی نہیں ؛مرثیہ قصیدے کی طرح شکوہ الفاظ اور علوئے تخیل کا نام نہیں۔بلکہ مرثیے میں حمد کی طرح عجز ذات، نعت کی طرح اظہارِ عقیدت، قصیدے کا سا شکوہ، مثنوی کی سی ترتیب و تنظیم اور غزل کے سے سوز و گداز کی ضرورت ہے۔ان سب کے قوام سے مرثیے کی تخلیق و تکمیل ہوتی ہے۔اس پر مستزاد تاریخِ اسلام و حدیثِ نبویؐ اور تعلیماتِ اسلام و قرآن کا وافر علم رکھنے والا ہی کامل مرثیہ گو کہلا سکتا ہے۔

ادب سمیت ہر شے دھیمی رفتار کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی کہ بیسیویں صدی کے انقلابات نے تمام پرانے معیارات و اقدار میں ترمیم وتوسیع کے در وا کر دئیے۔انقلابِ روس، جنگِ عظیم اول و دوم کے اثرات نے تمام پرانی سوچوں اور سانچوں کو بدل ڈالا۔اد ب اور ادیب کا ان حالات سے متاثر ہونا قدرتی امر تھا۔چنانچہ دیگر اصناف شعر و ادب کی طرح مرثیے نے بھی جدید اثرات قبول کیے۔مرثیہ جو واقعاتِ کربلا کے فنکارانہ اظہار کا نام تھا۔واقعاتِ کربلا کے بیان تک محدود نہ رہا بلکہ مولانا محمد علی جوہر کی انقلابی شاعری اور اقبال کے حیات آفریں پیغام کی بدولت مرثیہ گو شعراءء نے شہادتِ حسینؑ اور سانحہ کربلا کے اسباب و اثرات کو مرثیے میں جگہ دی۔جدید مرثیے میں واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ امامؑ کے پیام کو اولیت دی جانے لگی۔اس طرح ادب میں جدید مرثیے کو روایتی مرثیے سے الگ دیکھا جانے لگا۔

جدید مرثیہ گوئی کے ابتدائی نقوش پہلے مرزا دبیر کے فرزند اوج لکھنوی اور پھر شاد عظیم آبادی کے ہاں مل جاتے ہیں مگر جن شعراءء نے حقیقی معنوں میں جدید مرثیے کی بلند وبالا عمارت تعمیر کی ان میں جوشؔ، آل رضا، علامہ جمیل مظہری، نسیم امروہی اور نجم آفریدی کے نام سرِفہرست ہیں۔جدید مرثیے کے ان عظیم شعراءء کے اتباع میں جن شعراء نے جدید مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ہے ان میں آغا سکندر مہدی کا نام قابلِ احترام ہے۔

آغا سکندر مہدی کی شاعری کی آغاز اس وقت ہوا جب وہ نویں جماعت کے طالب علم تھے۔ان کے اس دور کی نظمیں ’’آج کل ‘‘دہلی اور ’’افکار‘‘ بھوپال میں شائع ہوئیں۔(۱)آغا ابھی بارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کے والد سید ظفر مہدی کا رضوی کا اچانک انتقال ہو گیا تو انہوں نے بڑے بھائی کے کہنے پر شاعری ترک کر دی (۲)اور تعلیم کی تکمیل میں منہمک ہو گئے۔تعلیم کی تکمیل کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت کر لی اور بہاول پور میں سکونت اختیار کی۔دورانِ ملازمت انہوں نے خطابت کا شغل بھی جاری رکھا۔اسی دوران بھائی کے کہنے پر دوبارہ شاعری شر وع کر دی۔۱۹۶۷ء تک آغا غزلیں اور نظمیں کہتے رہے۔۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر انہوں نے جوشیلی قومی نظمیں بھی کہیں۔ان کے اس دور کی شاعری بھی طبعی مناسبت اور گھر کی تربیت کے زیرِ اثر شہدائے کربلا کے ذکر سے کبھی خالی نہیں رہی۔ماجد قریشی کہتے ہیں :۔

’’آغا صاحب شہیدِ کربلا، فخرِ عالم حضرت امام حسینں کے شیدائیوں میں سے ہیں اور اکثر اپنی غزلوں اور نظموں میں شہیدِ کربلا اور دوسرے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ان کے ایسے اشعار میں گہری مذہبی اور جذباتی عقیدت کارفرما ہوتی ہے۔‘‘(۳)

آغا سکندر مہدی، شہدائے کربلا اور اہل بیت رسولؐ سے یک گونہ عقیدت وارادت تو پہلے بھی رکھتے تھے کہ ۱۹۶۷ء میں شہاب دہلوی کے دولت کدے پر ایک نعتیہ محفلِ مقاصدہ میں آغا سکندر مہدی کے قصیدے کو حاصلِ مشاعرہ قرار دیا گیا تو انصار حسین نفیس فتح پوری نے آغا کو مشورہ دیا کہ آپ مرثیہ کہیے ، مرثیہ تو آپ میں چھلک رہا ہے (۴)یہ پہلا موقع تھا جب آغا مرثیہ گوئی کی طرف مائل ہوئے۔سید مسعود حسین شہاب دہلوی کہتے ہیں :۔

’’انہوں نے بہاول پور میں مرثیہ نگاری کی طرح ڈالی۔خود بھی مرثیے لکھے اور دوسروں سے بھی لکھوائے۔‘‘(۵)

۱۹۶۷ء سے اپنی وفات ۱۹۷۶ء تک آغا مرثیہ گوئی کی طرف متوجہ رہے۔اس دوران میں انہوں نے سولہ مرثیے تصنیف کیے۔ان کے مرثیوں کے مطلع اور بندوں کی تعداد درج ذیل ہے :

۱۔اسم اللہ سے آغاز بیاں کرتا ہوں۵۰

۲۔مطلع فکر ہے ایماں کی ضیا سے روشن ۵۹

۳۔فکر کی ارض وسماوات میں جولانی ہے ۶۰

۴۔ہے آج پھر قلم نکتہ رس وقار سخن۵۲

۵۔آج پھر کاوشِ آرائش فن کرتا ہوں ۴۹

۶۔آتش بدوش نغمہ ساز سخن ہے آج ۵۴

۷۔مجلس میں ذکر عظمت نوعِ بشر ہے آج ۵۵

۸۔مجلس میں آج روشنی ء صبح یقیں ہے ۵۴

۹۔عالم کی ابتری پہ قلم اشک بار ہے ۵۲

۱۰۔فرشِ عزا پہ مجمع اہلِ نظر ہے آج ۵۱

۱۱۔آج پھر مائل پرواز ہے شہباز قلم ۵۷

۱۲۔ہے گرفتارِ انا روزِ ازل سے انساں ۴۶

۱۳۔انساں کو آج امن و سکوں کی تلاش ہے ۴۷

۱۴۔ایماں کی ضیأ مطلع انوار سخن ہے ۵۳

۱۵۔بزمِ جہاں میں آج عجب خلفشار ہے ۴۷

۱۶۔اوجِ فلک پہ آج قلم کی نگاہ ہے ۴۶

آغا کے یہ تمام مرثیے مرثیہ معلیٰ جلد اول، دوم اور سوم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ان کے مراثی کی پہلی دو جلدیں ان کی زندگی میں شائع ہوئیں۔مرثیہ معلیٰ جلد سوم آغا کی وفات (اپریل ۱۹۷۶ء)کے تقریباًسات ماہ بعد شائع ہوئی۔ان کی مرثیہ گوئی کے حوالے سے اب تک لکھے گئے تعارفی و تعریفی مضامین میں عقیدت کا پہلو زیادہ کار فرما رہا ہے ، جس کے سبب سے آغا کی مرثیہ گوئی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔اس کا باعث آغا کا اپنا بیان بھی ہے وہ مرثیہ معلیٰ جلد اول میں لکھتے ہیں :۔

’’میرے پیشِ نظر انیس و دبیر کے شاہکار تھے۔اس لیے میں نے اس گلزار فکر وسخن سے ہٹ کر ایک الگ راستہ اختیار کیا اور روایتی اجزائے ترکیبی یعنی چہرہ، سراپا، آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین کو ان کی قلمرو پاتے ہوئے اپنی راہ الگ متعین کی۔اجزائے ترکیبی میں توحید، عدل، نبوت، امامت اور شہادت کو پیشِ نظر رکھا اور خدا نے کامیابی عطا کی۔‘‘(۶)

اکثر ناقدین نے آغا کی رائے کو بلا سوچے سمجھے من و عن تسلیم کر لیا ہے۔مثلاً عاصی کرنالی کہتے ہیں :۔

’’آغا صاحب نے مرثیہ نویسی کی روایت میں بعض خوشگوار اضافے بھی کیے ہیں۔مرثیے کے روایتی اجزائے ترکیبی یہ ہیں :چہرہ، سراپا، آمد، رجز، جنگ، شہادت اور بین۔آغا صاحب نے الگ راہ نکالی۔ان کے یہاں توحید، عدل، نبوت، امامت اور شہادت کے اجزائے ترکیبی ملتے ہیں۔‘‘(۷)

ان کے علاوہ دیگر ناقدین جن میں ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی (۸)سید عاشور کاظمی(۹)پروفیسر سیدہ حشمت جہاں (۱۰)علی اختر زیدی (۱۱)، سید اسلام حسین زیدی (۱۳)اور صدیق طاہر (۱۳)شامل ہیں۔ان تمام ناقدین کے خیال میں آغا سکندر مہدی نے اپنے مرثیوں میں روایتی مرثیے کے اجزائے ترکیبی کو یکسر ترک کر دیا ہے۔البتہ ڈاکٹر اسد اریب نے ان تمام ناقدین کی رائے کے برخلاف مرثیہ معلیٰ جلد اول کے چوتھے مرثیے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا ہے :۔

’’آغا کے چاروں مرثیے میں نے دیکھے ہیں، باقی تینوں مرثیوں اور اس مرثیے کے اجزائے ترکیبی نہایت درجہ کمال خوبی سے آراستہ وپیراستہ ہیں۔اس مرثیے کے سراپا میں بھی ایک عمدگی ہے کہ وہ مختصر ہے اور مکمل ہے ………….البتہ رجز کے مقام پر شاعر خاموش رہا ہے۔یہ خاموشی بے سبب معلوم ہوتی ہے۔‘‘(۱۴)

آغا کے مرثیوں کے مطلعوں پر نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے مرثیوں کے چہرے نہایت اہتمام سے لکھے ہیں۔تقریباً نصف سے زائد مرثیوں کے مطلعوں میں آج کا لفظ یہ بتلا رہا ہے کہ شاعر عصری مسائل میں گہری دلچسپی رکھتا اور آج کے مسائل کو واقعہ کربلا کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔دوسری اہم بات جو ایک حقیقت بھی ہے کہ آغا کے مرثیوں میں روایتی اجزائے ترکیبی سے یکسر انحراف نہیں کیا گیا۔البتہ ان کے مرثیوں میں آمد اور رجز کے مضامین کم ملتے ہیں مگر دیگر اجزائے مرثیہ کی ان کے ہاں پوری پابندی ملتی ہے۔

آغا سکندر مہدی نے مختصر مرثیے کہے ہیں ان کا کوئی مرثیہ ساٹھ بند سے متجاوز نہیں ہے۔لہٰذا نہوں نے مرثیے کے عناصر ترکیبی میں سے ہر ایک پر بیسیوں بند نہیں لکھے۔ایک اور بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ توحید، عدل، نبوت، امامت اور شہادت کی ترتیب واقعاتِ کربلا کے حوالے سے نئی نہیں اس لیے کہ اکثر علماء و ذاکرین مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے اسی ترتیب کو سامنے رکھتے ہیں۔آغا سکندر مہدی مرثیہ گوئی شروع کرنے سے پہلے خطابت سے وابستہ رہ چکے ہیں چنانچہ ان کے ابتدائی مرثیوں پر مذکورہ ترتیب ا ور خطابت کی چھاپ صاف دکھائی دیتی ہے ، مگر اس کے باوجود مرثیہ معلیٰ کی جلد اول کے پانچوں مرثیوں میں حمد، نعت، منقبت اور شاعرانہ تعلّی(جو جزو مراثی ہو گئی ہے )کے ساتھ ساتھ جنگ، شہادت اور بین کے اجزائے ترکیبی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

مرثیہ معلیٰ جلد اول کے مراثی کو شعوری طور پر خطیبانہ انداز کے مطابق ڈھالنے کے باوجود وہ روایتی مرثیے کی عظیم روایت سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکے مرثیہ معلیٰ جلد اول کے د وسرے مرثیے میں امام عالی مقامؑ کا رجز، تیسرے مرثیے میں شہادت حضرت عباسؑ کا بیان رقم کرنے سے پہلے عَلم کی تعریف، حضرت عباسؑ کی جنگ کے لیے اجازت، شمر سے مکالمہ، ابتریِ فوج شام اور جنگ جیسے اجزاء جو خالصتاً روایتی مرثیے کی چیز ہیں، شامل مرثیہ ہیں۔اسی جلد کے چوتھے مرثیے کا چہرہ اکیس بند تک پھیلا ہوا ہے پھر حضرت علی اکبرؑکا سراپا، رخصت، جنگ اور بین کے روایتی اجزائے مرثیہ پوری توانائی کے ساتھ موجود ہیں۔اسی جلد کا پانچواں مرثیہ جو حضرت حُر کے حال میں ہے اس میں بھی شاعرانہ تعلّی، عظمت فن کی باتوں اور حمد و نعت کے بیان سے آگے بڑھ کر شاعر مرثیے کی روایت کے زیرِ اثر آ جاتا ہے۔حضرتِ حُر کے ضمیر کی بیداری، فوج عمر ابن سعد سے حُر کا امام حسینؑ کی طرف آنا، تقصیر معاف کرانا، تلوار کی تعریف اور آمد کے بند بدیہی طور پر مرثیے کی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ تمام شواہد بتاتے ہیں آغا خواہش اور کوشش کے باوجود مرثیے کے لیے اپنے بِنا کردہ اجزائے ترکیبی پر قائم نہیں رہ سکے۔

جلد دوم کے مراثی کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ شاعر خطابت کے جوش وسر مستی کی خمار آگیں کیفیت سے نکل آیا ہے۔اب وہ خطیب کی بجائے مرثیہ گو کے انداز میں سوچتا ہے۔یہی سبب ہے کہ اس جلد کے ہر مرثیے کے چہرے میں آغا نے فکر بلند اور علوئے تخیل سے ایسے مضامین نکالے ہیں جو شاعر کی فن مرثیہ سے آگاہی اور زبان پر قدرت کے شاہد ہیں۔انہوں نے شعوری کوشش سے مرثیوں کے چہرے کو عہدِ حاضر کے مسائل کے بیان سے مزین کیا ہے۔۔آغا کے عہد کا انسان ہوسِ زرگری، انانیت و انتشار اور خلفشار کا شکار ہے۔بغض وعناد وفتنہ و فساد اور مردہ ضمیری کے شعلوں نے اس سے زندگی کا گوہرِ مقصود چھین لیا ہے۔حرص و آز نے انسان کو شمر کا مزاج اور ابلیس کی خود سری تفویض کر دی ہے۔عصرِ حاضر کے اس المیے کو آغا نے کچھ یوں بیان کیا ہے :۔

حرص وہوس کی لاش پہ زندہ ہے آدمی

حمزہ کا دل چبائے وہ ہندہ ہے آدمی

صحرائے زندگی میں درندہ ہے آدمی

ہے شیش ناگ مار گزندہ ہے آدمی

انسانیت کا خون ہے منہ کو لگا ہوا

لیتا نہیں ہے لہر بھی اس کا ڈسا ہوا (۱۵)

یا پھر یہ بند دیکھئے :۔

ہے اسلحے کی دوڑ زمانے میں چارسُو

آفاق پر ہے سب کو تسلط کی آرزو

پھرتے ہیں شہرِ زیست میں قزاق کُوبہ کو

عنقا ہر ایک چیز ہے ارزاں فقط لہو

تقسیم جام کرتے ہیں بغض و عناد کے

ہر گلستاں میں بوتے ہیں کانٹے فساد کے (۱۶)

مرثیہ معلی جلد دوم کے مراثی میں دوسری خوشگوار بات یہ نظر آتی ہے کہ مرثیہ نگار نے کردار نگاری، منظر نگاری، واقعہ نگاری اور مکالمہ نگاری کے فنی پہلوؤں کی طرف بھر پور توجہ کی ہے۔ان خوبیوں سے مرثیہ معلی جلد اول خالی ہے۔آغا بطور مرثیہ گو اب اس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ وہ بدیہی طور پر جدید مرثیے کا پختہ کار شاعر نظر آتا ہے۔جس کا مرثیہ مصائب پر رلاتا بھی ہے اور تاسی حسینؑ پر ابھارتا بھی ہے۔وہ نفسیاتی گرہ کشائی کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہے اور ایجاز و اختصار کی منزل سے بھی بہ آسانی گزر سکتا ہے۔قدرتِ کلام اس بات کی متقاضی ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم اور بڑے سے بڑے موضوع کو مختصر سے مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے۔آغا کے مراثی میں یہ خوبی بہت نمایاں ہے۔ایجاز واختصار زبان پر قدرت کی بدولت ان کے مراثی کے بعض حصے اپنی اثرانگیزی اور بلاغت میں درجہ کمال پر نظر آتے ہیں۔وہ بلیغ اشاروں سے مضمون و مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچادیتے ہیں۔جب دس محرم کی ڈھلتی عصر کو آلِ نبیؐ کاباغ اجڑچکا، خیام لُٹ چکے ، شامِ غریباں آچکی، چاند اپنا داغ داغ چہرہ لیے آیا توآغا نے اس مصیبت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے :۔

حیرت زدہ ہے دشتِ بلا کی اجاڑ رات

زینبؓ نے کس طرح سے گزاری پہاڑ رات(۱۷)

اہلِ کوفہ کی مکاری اور دھوکہ دہی کی عادت کا اس انداز میں ذکر کیا ہے۔

شبیر جانتے تھے حقیقت پیام کی

بھیجا جو ان کو شاہ نے حجت تمام کی(۱۸)

حضرت علی ؓ کے عہد کے بعض تکلیف دہ واقعات کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔

صفین کا میدان ہو یا جنگِ جمل ہو

مولا کا یہ مقصد تھا کہ قرآں پہ عمل ہو (۱۹)

مرثیہ معلی جلد دوم کا پہلا مرثیہ عون و محمد کے حال میں ہے اس میں حضرت زینبؓ کی سیرت، سراپا، اذنِ جنگ، مکالمہ، جنگ، ابتریء فوجِ شام، شہادت اور بین سبھی کچھ مرثیے کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔دوسرے مرثیے میں حضرت زینبؑ کی سیرت و کردار کی تفسیر مفکرانہ انداز میں بیان ہوئی ہے۔کوفہ و شام کے درباروں میں علیؓ کی جلالت مآب بیٹی کے خطبات مرثیے کی روایت بھی ہے اور امام حسینؑ کے اقدام سے بحث بھی۔تیسرا مرثیہ حضرت علی اصغرؓ کے حال میں ہے اس میں بھی تمام روایتی اجزائے مرثیہ موجود ہیں۔چوتھا مرثیہ حضرت علی قاسمؓ کے حال میں ہے۔اس مرثیے میں حضرت قاسم کے سراپا سمیت اذنِ جنگ مادر قاسمؓ کا حضرت قاسمؓ سے مکالمہ، جنگ، شہادت اور بین روایت کا اتباع ہے۔پانچواں مرثیہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کے حال میں ہے ، روایتی اندازِ بیان کا حامل ہے۔اس جلد کے پانچوں مرثیوں میں جدید مرثیے کے تمام لوازم کی پابندی کے باوجود روایتی مرثیے کی بھی تمام خوبیاں موجود ہیں سوا اس کے کہ شاعر نے تلوار و رہوار کی تعریف کی طرف توجہ نہیں کی۔اس جلد کے مراثی میں حضرت امام حسینؑ کے پیغام اور اقدام سے بحث کی گئی ہے جو تفکر آفریں ہے۔ڈاکٹر اسلم فرخی نے کہا ہے۔

’’آغا سکندر مہدی نے شہادت کے مقاصد عظیم کو ہر جگہ مدِ نظر رکھا ہے اور وہ محض ایک عقیدت مند اور مداح نہیں۔صاحب فکرو نظر بھی ہیں جو اپنی بصیرت کو دوسروں تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں ‘‘ (۲۰)

آغا سکندر مہدی نے جدید مرثیہ نگار ہوتے ہوئے روایتی اجزاء مرثیہ کی پابندی سے دامن نہیں چھڑایا۔مرثیہ معلی

جلد سوم کے مراثی سے معلوم ہو تا ہے کہ آغا نے خطیبانہ انداز بیان سے تو مکمل طور پر دوری اختیار کر لی ہے لیکن شاعرانہ تعلّی سے گلو خلاصی نہیں ہوسکی بلکہ نرگسیت کی لے کچھ اور تیز ہو گئی ہے۔شاعر سانحہ کربلا کے واقعات کو مفکرانہ انداز میں بیان کرنے لگا ہے۔مرثیے کے چہرے کے موضوعات، واقعات مرثیہ کے لیے پس منظر کا م دیتے ہیں۔اس جلد کے مراثی میں واقعاتِ کربلا کا بیان ہو یا اہلبیت کی اسیری ء شام کا تذکرہ، شاعر نے مقاصدِ قربانی اور امامؑ کے پیام کو مرثیے میں اولیت دی ہے۔وہ واضح کرتے ہیں کہ اگر شرافت کی قبا تار تار ہے اور محبت و مروت کا چمن اجڑ گیا ہے تو اس کا سبب انسان کی نا فہمی، بد اعمالی اور دینِ اسلام کی سچی محبت سے منہ موڑنا ہے۔ایسے میں امام حسینؑ اور آپؑ کے جانثاروں کا کردار و عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔وہ کہتے ہیں :

انگلی نہ اٹھے دشمنِ اسلام کی ہم پر

گر آج مسلمان چلیں ان کے قدم پر (۲۱)

اسی طرح ایک اور جگہ پر امامؑ عالی مقام کے رفقاء کے کردار و عمل کا ذکر یوں کرتے ہیں :

فخرِ اسلام ہے عالم میں حسینی لشکر

جن کے کردار پہ نازاں تھے شہ جن و بشر

نصرِ ت حق کے لیے باندھی تھی ہر اک نے کمر

اس کا شاہد ہے حبیب ابن مظاہر کا سفر

نہ تو دولت کے لیے اور نہ حکومت کے لیے

یہ فقط آئے تھے شبیر کی نصرت کے لیے (۲۲)

آغا سکندر مہدی جدید مرثیہ نگار ہیں ان کے مرثیے ہر لحاظ سے جدید مرثیے کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ان کے اکثر مراثی جذبات خیز ہونے کی بجائے فکر انگیز ہیں۔اسی لیے سید عاشور کاظمی کہتے ہیں۔

’آغا سکندر مہدی وہ تیشہ بدست شاعر ہیں جنہوں نے روایت کے چراغ کو ماضی سے لیا اور اس میں اپنے شعور و ادراک کا تیل ڈال کر اس کے اجالے کو زیادہ منور کر کے نئی نسل کے حوالے کر دیا۔‘‘

مگر اس تمام جدت پسندی کے باوجود ان کے مراثی میں روایت کا اتباع اور احترام ملتا ہے۔قدیم مرثیے کے روایتی اجزاء سے شعوری طور پر اجتناب کرنے کے باوجود وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے۔جس کے شاہد آغا کے مرثیے ہیں۔جن کا تجزیہ اس مقالے کے پہلے حصے میں پیش کیا جاچکا ہے۔اسی لیے سجاد باقر رضوی کہتے ہیں :۔

’’آغا سکند رمہدی صاحب کے مرثیے کے مؤثر اور نسبتاًزیادہ جاندار حصے وہی ہیں جہاں مرثیے کی عظیم روایت پوری قوت کے ساتھ اپنا پورا لوہا منواتی ہے۔‘‘ (۲۴)

اب آغا کے مرثیوں سے روایتی اجزاء مرثیہ کے کچھ بند پیشِ خدمت ہیں تاکہ ثبوت مہیا ہوسکے :۔

حضرت قاسم کا سراپا:

زلفیں ہیں یا کہ سایہ شمشیر حیدری

مثل گل شگفتہ ہیں رخسار نقرئی

آنکھیں ہیں یا کہ نور کی کلیاں کھلی ہوئی

صبح یقیں ہے چہرہ اقدس کی تازگی

باغِ حسن کے حسن کا آئینہ دار ہے

سر سے قدم تلک یہ سراپا بہار ہے۔ (۲۵)

 

حضرت علیؓ اکبر کی میدانِ جنگ میں آمد:

برائے جنگ جو وہ صاحب کمال بڑھا

اُٹھا یہ شور کہ خیبر کشا کا لال بڑھا

مثال نور مبیں، حسن لازوال بڑھا

جلال آیا تو کچھ اور بھی جمال بڑھا

اُٹھا یہ غل کہ ہٹوقلعہ گیر آتے ہیں

قیامت آئی جناب امیر آتے ہیں

 

فرس سے اڑ کے جو اکبر چلے سُوئے مقتل

در آیا فوجِ عدو میں سوار رخشِ اجل

سمندکانپے ، سواروں میں مچ گئی ہلچل

لرز کے رہ گئے آگے نہ بڑھ سکے پیدل

سموں میں گھوڑوں کے جیسے نشان شاہی تھی

قدم جو تھک گئے ، ملک عدم کے راہی تھے (۲۶)

 

امام حسینؑ کا رجز:

یاد تو ہو گا تمہیں بدر و احد کا میداں

زعم میں طاقت و کثرت کے تم آئے تھے جہاں

جب چلی حیدرؑ کرار کی تیغِ براں

ایسے بھاگے تھے کہ ملتا نہ تھا قدموں کا نشاں

پھر وہی زور ید اللہ دکھاتا ہے حسینؑ

لو!چلو! آؤ کہ میدان میں آتا ہے حسینؑ (۲۷)

 

ابتریِ فوجِ شام:

حملۂ حُر سے ہراساں تھا یزیدی لشکر

موت سے ڈھونڈتا پھرتا تھا ہر اک راہِ مفر

وہ تلاطم تھا، نہ تھی باپ کو بیٹے کی خبر

نفسا نفسی تھی ہر اک سمت، بپا تھا محشر

میمنہ قلب سے لشکر کے جو ٹکراتا تھا

میسرہ فرطِ ندامت سے گڑا جاتا تھا (۲۸)

 

عون و محمد کا امام حسینؑ سے اذنِ جنگ:

بولے ادب سے سر کو جھکا کر وہ نیک خو

ہم کو بھی ہے جہاد کی دنیا میں آرزو

مل جائے اذنِ جنگ تو ہم بھی ہوں سرخرو

کام آئے راہِ حق میں ہمارا بھی یہ لہو

دیں گے رضا حضور تو لڑنے کو جائیں گے

ہم دشمنوں کے خون کی ندی بہائیں گے (۲۹)

 

حضرت مسلم بن عقیلؓ کی جنگ:

مسلم نے تیغِ تیز کے جوہر دکھا دئیے

بدبخت اشقیا کے پرخچے اڑا دئیے

بڑھتے ہوئے لعین زمیں پر گرا دئیے

لاشیں گرائیں، کشتوں کے پشتے لگا دئیے

مسلم بن عقیل کے حملے شدید تھے

آئے جو سامنے وہ جہنم رسید تھے (۳۰)

 

بین:

رخصت کے وقت خیمے میں کہرام تھا بپا

اہلِ حرم میں شور تھا ہائے حسینؑ کا

غفلت میں تھا مگر اُٹھا بیمار کربلا

بے چین ہو کے حضرت فضہ سے یہ کہا

کہرام کیوں بپا ہے یہ کیا شور شین ہے

فضہ کہو کہاں میرا بابا حسینؑ ہے (۳۱)

 

شہادت حضرت علی اصغر :

بے جاں جو ہوا گود میں آغوش کا پالا

کہتے ہیں کہ ہونے لگا عالم تہہ و بالا

ہوتا نہیں اندازۂ صبر شہِ والا

کس طرح سے شبیر نے وہ تیر نکالا

آئی نہ قیامت تو یہ حضرت کا کرم تھا

اصغر کا لہو ناقہ صالح سے نہ کم تھا (۳۲)

 

بین:

مولا گئے تو کہنے لگی سوگوار ماں

اے بیبیو!بتاؤ میرے لال ہیں کہاں

لاشیں دکھاؤ تاکہ تصدق ہو نیم جاں

چھایا ہوا ہے آنکھوں کے آگے مرا دھواں

سورج تو اتنا جلد کبھی ڈوبتا نہیں

کیا رات ہو گئی ہے مجھے سوجھتا نہیں

 

بتلاؤ بیبیو!مرے خورشید ہیں کہاں

مجھ کو بٹھا دو دونوں کی لاشوں کے درمیاں

اماں سے سرخ رو کیا قربان جائے ماں

ان پر زمیں بھی روئے گی روئے گا آسماں

میدان کار زار میں کیا نام کر کے آئے

میں جیسا چاہتی تھی وہی کام کر کے آئے (۳۳)

آغا نے مراثی میں روایت کے احترام کے باوجود مرثیے کے مزاج کو بدلنے کی سعی کی۔جہاں وہ مرثیے میں حزنیہ کیفیات کو اجاگر کرتے ہیں مگر کرداروں سے بین نہیں کراتے۔ان کے مراثی میں کرداروں کو بین کرتے ہوئے کم دکھایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آغا کے مرثیوں میں سامعین کو رلانے کے لیے کرداروں کو مسخ نہیں کیا گیا۔

جدید مرثیہ گوئی میں آغا سکندر مہدی کو یقینا ایک منفرد مقام حاصل ہے۔مگر سید عاشور کاظمی کی طرف سے انہیں جدید مرثیے کے ارکانِ خمسہ میں شامل کرنا کسی قدر وضاحت طلب ہے (۳۴)میرے خیال میں اس غلط فہمی کا سبب آغا کی شاعرانہ تعلیاں ہیں۔چنانچہ اکثر ناقدینِ مرثیہ نے کہیں مصلحت پسندی کے زیرِ اثر اور کہیں دوست نوازی کے شوق میں آغا کے دعوے کو تسلیم کر لیا ہے۔جدید اردو مرثیے کے نامور شعراء جنہوں نے جدید مرثیے کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اس کا ذکر سید ضمیر اختر نقوی نے اپنی تصنیف ’’اردو مرثیہ پاکستان میں ‘‘میں کیا ہے۔انہوں نے جدید مرثیے کے معماروں میں جوش ملیح آبادی، سیدآل رضا، نسیم امروہی، راجہ محمودآباد اور نجم آفندی کو شامل کیا ہے۔(۳۵)

ڈاکٹر ہلال نقوی نے اپنے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے میں جدید مرثیے کے عناصر اربعہ جوش، نسیم امروہی، جمیل مظہری اور سید آل رضا کو قرار دیا ہے (۳۶)ڈاکٹر ہلال نقوی کے بعد ڈاکٹر سید طاہر حسین کاظمی نے اپنے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے ’’مرثیہ میر انیس کے بعد‘‘ میں جدید مرثیے کی تعداد سات تک پہنچا دی ہے انہوں نے نجم آفندی، امن لکھنوی اور دلو رام کوثری کو بھی شامل کیا ہے۔(۳۷)ان محققین و ناقدین میں سے کسی نے بھی آغا سکندر مہدی کو ان شعراء کی فہرست میں جگہ نہیں دی۔پھر جدید مرثیے کی ابتدأبیسیویں صدی کے ربع اول میں جوش، نسیم امروہی اور جمیل مظہری کے ہاتھوں ہو چکی تھی۔آغا سکندر مہد ی کی مرثیہ گوئی کا آغاز کوئی نصف صدی بعد ۱۹۶۷ء میں ہوتا ہے۔لہٰذا ان کو جدید مرثیے کے عناصر اربعہ میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔البتہ آغا سکندر مہدی اس لحاظ سے لائق احترام وتحسین ہیں کہ انہوں نے بہاول پور جیسے چھوٹے سے شہر میں اردو مرثیہ گوئی کے لیے فضا تیار کی۔شہاب دہلوی لکھتے ہیں :۔

’’مجالس سے بہاول پور میں مرثیہ خوانی اور مرثیہ گوئی کی ایک خاص فضا تو قائم ہو ہی گئی تھی۔چنانچہ آغا سکندر مہدی صاحب نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف لوگوں کو مرثیہ لکھنے کی دعوت دی‘‘ (۳۸)

جدید مرثیے کے لیے آغا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسد اریب کہتے ہیں :۔

’’جناب آغا کا اردو ادب پر یہ بڑا کرم ہے کہ مرثیے کی حیاتِ نو میں بقدر ہمت و کمال حصہ لیا اور بہاول پور کو کراچی، پنڈی اور لاہور کے مماثل بنا دیا۔‘‘(۳۹)

آغا سکندر مہدی بلا شبہ زبان پر قدرت اور فن مرثیہ گوئی میں کمال رکھتے تھے لیکن کہیں کہیں سے ان سے لفظی و معنوی سطح پر کچھ تسامحات ہوئے ہیں جن کا ذکر کرنا ادبی دیانتداری کا تقاضا ہے۔مثلاً!آغا اپنے پہلے مرثیے میں جو حضرت علی ؓکی شہادت سے متعلق ہے۔حضرت علیؓ کے حسنِ اخلاق کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں :

حسنِ اخلاق زمانے کو دکھا دو بیٹا

جام شربت کا پیاسے کو پلا دو بیٹا(۴۰)

یہ تقریر کسی صورت مقتضائے حال نہیں اور امام علیؓ کے شایان شان نہیں۔یہ درجہ بلاغت سے گری ہوئی بات ہے۔اسی طرح ایک اور مرثیے میں آغا نے لفظ ’مشتری، کو مونث باندھا ہے۔کہتے ہیں

ع

مشتری چاند کے پہلو میں چھپی جاتی ہے (۴۱)

مشتری کا لفظ ہر لحاظ سے مذکر ہے۔ایک اور مرثیہ جو حضرت وہب ؓکی شہادت سے متعلق ہے۔حضرت وہبؓ میدان کی طرف جاتے ہوئے بیوی کے خیمے میں رخصت ہونے کے لیے آتے ہیں۔اس موقع پر آغا کہتے ہیں

بات کہتے ہوئے رخصت کی مگر شرمائے (۴۲)

شرمانے کا سبب معلوم نہیں ہوتا۔ماں حضرت وہبؓ کو جلد میدانِ جنگ میں دیکھنا چاہتی ہیں۔حضرت وہبؓ اپنی ماں کے سامنے آتے ہیں تو منظر ملاحظہ ہو!

ع

ماں کو افسردہ جو دیکھا تو بہت شرمائے (۴۳)

دونوں باتیں مقتضائے حال نہیں۔اسی مرثیے میں جب حضرت وہبؓ شہید ہو جاتے ہیں تو ظالم حضرت وہبؓ کا سر کاٹ کر ماں کی طرف پھینک دیتے ہیں۔اس مرحلے پر آغا کہتے ہیں ؛

ع لشکر ظلم نے انساں کا شرف پھینک دیا

کاٹ کے بیٹے کا سر ماں کی طرف پھینک دیا (۴۴)

شرف پھینکنا نہ روزمرہ ہے نہ محاورہ۔اسی مرثیے کے اگلے بند میں کہتے ہیں ؛

ع مامتا بھڑکی لیا گود میں بیٹے کا سر

دل جو بھر آیا تو جی بھر کے اسے پیار کیا

پھر سُوئے فوجِ لعیں کہہ کے اسے پھینک دیا

میں نہیں لیتی یہ سر جس کا کیا ہے صدقہ

(۴۵)

آغا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اُمِ وہبؓ اپنے بیٹے کو حضرت امام حسینؑ پر قربان کرنے کو سعادت سمجھتی ہیں اس لیے انہیں

بیٹے سے اب سروکار نہیں مگر پیرایۂ اظہار ٹھیک نہیں۔زبان و بیان کے کچھ اور تسامحات بھی ہیں مگر ان سے درگزر کیا جا سکتا ہے۔بحیثیتِ مجموعی آغا سکندر مہدی کی مرثیہ گوئی کے لیے خدمات قابلِ قدر ہیں۔جن کے ہاں قدیم و جدید کا حسین امتزاج ملتا ہے۔انہوں نے مراثی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ان کے بارے میں ڈاکٹر ہلال نقوی کہتے ہیں :

’’سکندر مہدی کی مرثیہ گوئی کا آغاز جذبے کی سرشاری میں ہوا۔انہوں نے اپنی عقیدت کو ایسے مرثیے کی زبان دینا چاہی جس میں احترام تو ہواُس کی نقالی نہ ہو‘‘

(۴۶)

بہاول پور میں مرثیہ نگا ری کے حوالے سے ان کا نام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ان کے مرثیوں میں خطابت کی دھوم دھام کے باوجود سانحۂ کربلا کے تاریخی اور فکری گوشے نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتے۔اگرچہ انہوں نے مرثیے کے بیانیہ اور بینیہ حصے پر کم نوحہ کی ہے جو اختصار پسندی کے سبب سے ہے۔اس کے باوجود جب وہ بین نگاری پر آتے ہیں تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں۔ان کے مرثیے فکری سطح پر انسان کے ذہن وشعور کو جھنجھوڑتے ہیں اور نتیجے کے طور ان کے مرثیوں کا قاری ابلیس اور یزیدی نظام سے متنفر ہو کر امام حسینؓابنِ علیؓ کے اخلاقی اور فکری نظام سے محبت کرنے لگتا ہے۔

٭٭٭

 

حوالہ جات کی تفصیل

 

۱۔آغا صاحب مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول آغا سکند رمہدی از پروفیسرسیدہ حشمت جہاں حقی آفسٹ پریس، کراچی، ص۸

۲۔مرثیہ نظم کی اصناف میں جدید مرثیہ اور سکندر مہدی ازسید عاشور کاظمی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی اشاعت اول۱۹۹۶ء ص۸

۳۔دبستانِ بہاول پور از ماجد قریشی ادارہ مطبوعات آفتاب شرق بہاول پور ۱۹۶۴ء ص۔۴۲۷

۴۔مرثیہ نور کے سانچے میں ڈھلا جاتا ہے مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول آغا سکندرمہدی ازسید انصار حسین نفیس فتح پوری حقی آفسٹ پریس کراچی، ص۲۱

۵۔آہ سکندر مہدی از سیدمسعود حسن شہاب دہلوی ہفت روزہ الہام۔بہاول پور ۱۴اپریل، ۱۹۷۶ء

۶۔جو ملا مجھ کو وہ توفیقِ الہٰی سے ملا مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول از آغا سکندر مہدی حقی آفسٹ پریس کراچی ص۱۴

۷۔مرثیہ معلی دانشوروں کی نظر میں مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم ازعاصی کرنالی آغا سکندرمہد ی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۶ء ص۱۹

۸۔مرثیہ نظم کی اصناف میں سب سے افضل مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول تبصرہ از ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی حقی آفسٹ پریس کراچی، ص۸۱

۹۔مرثیہ نظم کی اصناف میں سب سے افضل جدید مرثیہ اور سکندر مہدی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۱۹۹۶ء ص۱۸

۱۰۔اردو مرثیے کے ارتقاء میں ’’مرثیہ معلی‘‘ کا مقام مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم از پروفیسر حشمت جہاں ناز مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۶ء ص۴۱

۱۱۔حامل رائیت اقلیم وفا ہیں عباس(مرثیہ)مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول تبصرہ از سید علی اختر زیدی حقی آفسٹ پریس کراچی،ص۱۴۴

۱۲۔ ’’مرثیہ معلی‘‘ دانشوروں کی نظر میں مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم از سید اسلام حسین زیدی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول ۱۹۷۲ء ص۲۲

۱۳۔مختصر مرثیے کی تحریک اور آغاسکندر مہدی مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم از صدیق طاہر مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول۱۹۷۲ء ص۴۷

۱۴۔سخن حق ہمہ پیمانہ ء ذوقِ تحسین مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول از ڈاکٹر اسد اریب حقی آفسٹ پریس کراچی، ص۲۱۷۔۲۱۸

۱۵۔مرثیہ معلی جلد دوم آغا سکندر مہدی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۲ء ص۶۲

۱۶۔ایضاً ص۲۵۸

۱۷۔ایضاً ص۱۶۲

۱۸۔ایضاً ص۳۴۳

۲۰۔’’مرثیہ معلی‘‘ دانشوروں کی نظر میں مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم از ڈاکٹر اسلم فرخی مئی ۱۹۷۲ء ص۱۷

۲۱۔ ’’مرثیہ معلی جلد سوم‘‘آغا سکندر مہدی ادارہ پاک پبلشرز، کراچی ستمبر۱۹۷۶ءص۲۲۱

۲۲۔ ’ ’مرثیہ معلی جلد سوم‘‘آغا سکندر مہدی ادارہ پاک پبلشرز، کراچی ستمبر۱۹۷۶ء ص۱۹۹

۲۳۔مرثیہ نظم کی اصناف میں سب سے افضل جدید مرثیہ اور آغا سکندر مہدی سید عاشور کاظمی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۱۹۹۶ء ص۳۳

۲۴۔نوشاہ فکرحسن عروس سخن ہوا مشمولہ مرثیہ معلی جلد دوم تبصرہ از باقر رضوی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۲ء ص۲۴۸

۲۵۔ ’ ’مرثیہ معلی جلد دوم‘‘آغا سکندر مہدی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۲ ص۲۷۰

۲۶۔مرثیہ معلی جلد اول آغا سکندر مہدی حقی آفسٹ پریس کراچی ص۲۵۹

۲۷۔ایضاً ص۱۳۱

۲۸۔ایضاً ص۳۱۹

۲۹۔ ’ ’مرثیہ معلی جلد دوم‘‘آغا سکندر مہدی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اولمئی ۱۹۷۲ء ص۸۷

۳۰۔ایضاً ص۳۵۰

۳۱۔ ’’مرثیہ معلی جلد سوم‘‘آغا سکندر مہدی ادارہ پاک پبلشرز، کراچی ستمبر۱۹۷۶ء ص۳۵۱

۳۲۔ ’ ’مرثیہ معلی جلد دوم‘‘آغا سکندر مہدی مکتبہ اشاعتِ ادب لاہور، بارِ اول مئی ۱۹۷۲ء ص۲۲۶

۳۳۔ایضاً ص۱۰۹۔۱۱۰

۳۴۔مرثیہ نظم کی اصناف میں سب سے افضل جدید مرثیہ اور آغا سکندر مہدی سید عاشور کاظمی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۱۹۹۶ء ص۸۲

۳۵۔اردو مرثیہ پاکستان میں سید ضمیرؔاختر نقوی سید اینڈ سید کراچی۱۹۸۲ء ،ص۲۳

۳۶۔بیسیویں صدی اور مرثیہ ڈاکٹر ہلال نقوی محمدی ٹرسٹ لندن کراچی۱۹۹۴ء ص۲۳

۳۷۔اردو مرثیہ میر انیسؔ کے بعد ڈاکٹر سید طاہر حسین کاظمی ۱۹۹۷ء

۳۸۔بہاول پور میں مرثیہ گوئی کی ابتدأ از شہاب دہلوی ہفت روزہ الہام بہاول پور۔۱۰مئی۱۹۶۷ء

۳۹۔سخن حق ہمہ پیمانہ ء ذوقِ تحسین مشمولہ مرثیہ معلی جلد اول از ڈاکٹر اسد اریب حقی آفسٹ پریس کراچی ص۲۱۴

۴۰۔مرثیہ معلی جلد اول آغا سکندر مہدی حقی آفسٹ پریس کراچی ص۴۷

۴۱۔ایضاً ص۱۰۲

۴۲۔’’مرثیہ معلی جلد سوم‘‘آغا سکندر مہدی ادارہ پاک پبلشرز، کراچی ستمبر۱۹۷۶ء ص۶۷

۴۳۔ایضاً ص۷۱

۴۴۔ایضاً

ص۷۹

۴۵۔ایضاً ص۸۰

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، جرمنی شمارہ ۳، جولائی ۔ دسمبر ۲۰۰۴

مدیر: حیدر قریشی

تشکر: پنجند ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید