FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

محمد حمید شاہد کے افسانے

 

 

حصہ سوم

 

 

محمد حمید شاہد

 

 

 

 

 

 

آٹھوں گانٹھ کمیت

 

یوں نہیں ہے کہ میری بیوی میرا دھیان نہیں رکھتی بل کہ واقعہ تو یہ ہے کہ اس کم بخت کا دھیان میری ہی طرف رہتا ہے۔ اَجی یہ کم بخت جو میری جیبھ سے پھسل پڑا ہے تو اس سے یہ تخمینے مت لگا بیٹھنا کہ خدانخواستہ ہم دونوں میں محبت نہیں ہے۔ میں اس خُوشبو بھرے جذبے سے دست کش ہو سکتا ہوں، نہ میری بیوی، کہ یہ سالی محبت ہی تو ہے جس کی آڑ میں کئی جھلاہٹوں کو جھاڑنے کا موقع مل جاتا ہے اور زندگی گوارا ہو جاتی ہے۔

یہ جو میں نے محبت کو سالی کہا ہے تو خاطر جمع رکھو کہ سالی کی محبت میں نہیں کہا بل کہ سالی کی بہن کی محبت میں کہا ہے، جو اِتفاق سے میری جورو بھی ہے۔ یہ غریب کی جورو کی طرح نہیں کہ ہر ایک کی بھابی ہو جائے، ساری محبت مجھ پہ لٹاتی ہے اور مجھے دھیان میں رکھتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ سارے، جو شادی سے پہلے اس کے اپنے تھے، فاصلوں پر بیٹھے ہیں اور ہم دونوں کے بیچ کوئی فصل نہیں ہے۔۔۔ مگر مجھ پر یہ افتاد آ پڑی ہے کہ میں اس کے بہت زیادہ دھیان سے بہت زیادہ اُلجھنے لگا ہوں۔

میں کئی کام اپنی مرضی اور اپنی سہولت سے کرنا چاہتا ہوں، مزے لے لے کر، اور ہونے والے کام کے ایک ایک مرحلے سے لطف اُٹھا کر۔ وہ ہر بار میری اِس عادت کو سُست روی سے تعبیر کرتے ہوے طعنہ زَن ہو جاتی ہے کہ میں کچھوا ہو گیا ہوں۔ اِسی طرح میں کئی ایسے امور کو، جنہیں وہ اَہم سمجھتی ہے، جیسے تیسے نمٹا کر ایک طرف ہو جانا چاہتا ہوں۔ وہ اڑنگا لگا کر مجھے عین بیچ میں گرا لیتی ہے، کہتی ہے :

’’یہ چھلانگیں لگا کر کہاں نکلے جاتے ہیں آپ؟‘‘

ایسے میں، میں سمجھتا ہوں کہ میرا اُلجھنا بنتا ہے۔

مجھ سے اُلجھتے رہنے میں اُسے لطف آتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس اُلجھا اُلجھی میں وہ ایسے لذّت لیتے محسوس ہوتی ہے جیسے میں اپنی چھاتی کے بالوں میں اُس کی اُنگلیاں اُلجھنے پر لیا کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ یہ سب کچھ خلوص نیت اور میری محبت میں کر رہی ہوتی ہے۔ محبت میں جو کچھ وہ کر سکتی ہے کرتی ہے۔۔۔ او۔۔۔ ر۔۔۔ ر۔۔۔ میں ٹھس آدمی نہیں ہوں، مجھ سے بھی جو بن پڑتا ہے کرتا ہوں مگر یوں ہے کہ میں اِظہار نہیں کرتا۔ جب اُس سے محبت کرتا ہوں، تو اُسے خود جان لینا چاہیے کہ محبت کرتا ہوں۔ کہنا تو جتانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ بدلے میں ویسے ہی جذبوں کے مطالبے کے ساتھ۔ کتنا چھچھورا پن ہے یہ ؟ مگر وہ اِس معاملے میں حد درجہ چھچھوری ہے۔ چھچھوری بھی اور لالچی بھی۔ جتنا کہتی اور کرتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ کا مطالبہ سامنے رکھ دیتی ہے۔ وہ مجھے محبت کے سلسلے میں گھُنا کہتی ہے۔ میں نہیں جانتا اس سے اُس کی مراد کیا ہوتی ہے تاہم جب وہ ایسا کہتی ہے تو میں آدھا مطمئن اور آدھا مضطرب ہو جاتا ہوں۔ یہ جو آدھا آدھا تقسیم ہونا ہے، یہ مجھے حد درجہ لطف اَندوز کرتا ہے۔

مگر۔۔۔ اور یہ مگر میں نے اِس لیے کہا ہے کہ اَب میں اِس مزے کے غارت ہونے کی بات دہرانے لگا ہوں۔ میں نے کہا نا، یہ سارا مزہ تب غارت ہو تا ہے جب اُس کا دھیان مسلسل میری ہی طرف رہنے لگتا ہے۔ اور سنو، میں ایسے میں مشتعل ہو جایا کرتا ہوں۔ مشتعل بھی اور اَندر سے باغی بھی۔ اس کھدر وجود سے باغی جو وہ اپنے نہ ٹوٹنے والے دھیان دھاگے سے بُنتی رہتی ہے۔

بس یوں جان لو کہ میں گھر میں وہ نہیں ہوں، جو باہر ہوتا ہوں۔ گھر میں بس وہ ہی وہ ہوتی ہے۔ یا اس کی محبت میں ڈھلا ڈھلایا میر اوہ وجود جس سے میں بغاوت کر چکا ہوں۔

’’آج آپ بتائیں نا کیا پکاؤں۔‘‘

’’زین، نومی کیا کرتے ہو ڈیڈی کو سب آوازیں جا رہی ہیں۔‘‘

’’اے بہن کیسے وقت آ گئی ہو، وہ گھر پر ہیں، ابھی اُن کے لیے مجھے شاہی ٹکڑے بنانے ہیں۔‘‘

’’واش روم اچھی طرح صاف کرنا نگوڑی، زین کے ڈیڈی صبح شیو کرتے ہوے بُو سے بچنے کو ناک سکیڑ رہے تھے۔‘‘

’’اِدھر کچن ہی میں آ جائیں نا، اُدھر اکیلے میں پڑے کیا چھت کو گھُورے جاتے ہیں۔‘‘

’’بہن میں یہی سوٹ سلواؤں گی، زین کے ڈیڈی کو یہ رنگ تو بہت پسند ہے۔‘‘

’’اوہ آپ اِدھر کہاں گھسے آتے ہیں، پیاز کاٹ رہی ہوں، آنکھوں میں چبھن ہو گی۔‘‘

’’کیا کہا قورمہ بنا لوں، ۔۔۔ بنا تو لوں۔۔۔ مگر آپ کھانے کو بیٹھتے ہیں تو ہاتھ کھینچتے ہی نہیں۔۔۔ پہلے ہی ڈھڈی نکل آئی ہے‘‘

’’اے ہے، دودھ لاتے ہو کہ نل کے نیچے سے ڈبا اُچک لاتے ہو۔ زین کے ڈیڈی کو اِس کی چائے ذرا نہیں بھاتی۔‘‘

غرض بات بات میں وہ مجھے ڈال لیتی ہے کہیں چٹکی میں لے کر۔۔۔ یوں، جیسے آٹے میں نمک ڈالتے ہیں، کہیں قلاوہ بھر کر۔۔۔ کچھ اِس وَالہانہ پن سے کہ اُسے کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ نہ بچوں کے اَندر، نہ اُس خاتون میں جو اُسے ملنے آئی ہوتی ہے۔ کام کاج میں ہاتھ بٹانے والی، سائیکل کے کیرئیر پر میلے کپڑوں کی گٹھڑی لے جانے والا دھوبی، گیٹ کھٹکھٹا کر کچرا وصول کرنے والا، دُودھ والا، اخبار والا، باہر سے گھنٹیاں بجا بجا کر بھیک طلب کرنے والا، گلی گلی پھر کر ’’ سپارے، قاعدے، نور نامے، جنتریاں‘‘ کی آوازیں لگانے والا، گھرکے اَندر گھُس آنے والی نوجوان سیلز گرل جو اِمپورٹیڈ پیڈز، اَنڈر گارمنٹس، میک اَپ کا سامان اور نہ جانے کیا کچھ بیچتی پھرتی ہے۔۔۔ سب کے اَندر سے میں نکل آتا ہوں۔

’’یہ اخبار اُنہیں پسند نہیں بدل دو، وہ کہتے ہیں کوئی خبر ہی نہیں ہوتی اس میں۔‘‘

’’ذرا دیکھنا بھائی، کچرے میں ان کا کوئی ضروری کاغذ نہ چلا جائے۔‘‘

’’ذرا دم بھی لیا کرو با با زین کے ڈیڈی آرام کر رہے ہیں اور تم گھنٹی پر گھنٹی بجائے جاتے ہو۔‘‘

’’میں یہ جنتریاں لے کر کیا کروں گی ان کی اپنی کتابیں سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔‘‘

’’رہنے دے یہ ساوی گچار، اُنہیں تو بلیک اَنڈر گارمنٹس ہی اَچھے لگتے ہیں۔‘‘

’’اے ہے اس کی تو ہُک ہی نہیں کھلتی، وُہ اِسی میں اُلجھے رہیں گے۔‘‘

باتیں کرتے کرتے وہ ہنستی ہے، کبھی تو بے اِرادہ، جیسے بند ٹوٹنے پر سارا پانی ایک ہی ہلے میں بہہ نکلے۔۔۔ اور کبھی طے کر کے، ہنسی کو روک روک کر چھوڑتے ہوے، یوں جیسے پائپ ٹونٹی پر چڑھا ہو اور سرے پر انگوٹھا دھرا ہو۔ جب چاہا دبا لیا، جب چاہا چُس چُس کر کے گرتے پانی کی تیز دھار بنا لی۔ اُس کی ہنسی میں ایک خمار ہے۔۔۔ اور ایک چٹکی بھی۔ یہ خمار وہ خود رکھ لیتی ہے اور چٹکی میری سمت اُچھال دیتی ہے۔ میں اسٹڈی میں ہوں یا بیڈ روم میں، لاونج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہوں یا ٹیرس پر دھُوپ سینکوں، مجھے اُس کی آوازیں مسلسل آتی رہتی ہیں اور پتہ چلتا رہتا ہے کہ کب اُس نے آنکھیں شرارت سے نچائی ہیں، کب سرکو میری سمت جنبش دی ہے اور کب فقط ایک جملہ اَدا کرتے ہوے پورے بدن کو یوں جھول جانے دیا گیا ہے جیسے رنگ دی ہوئی چنری کو جھلارا دیتے ہیں۔

اتوار چوں کہ چھٹی کا روز ہوتا ہے لہذا میں دیر سے اٹھتا ہوں۔

میں بھی اور وہ بھی۔

بل کہ سچ تو یہ ہے کہ وہ جب تک لیٹنا چاہتی ہے، مجھے اُٹھنے ہی نہیں دیتی۔ میں جانتا ہوں کہ جب وہ سچ مچ سوئی ہوتی ہے تو اس کے سانسوں کے آہنگ اور بدن کی خُوشبو میں عجب سا اَلھڑپنا اُتر آتا ہے۔ اور جب وہ جاگنے کے بعد بھی مکر مار کر پڑی رہتی ہے، خود کو سوتا ظاہر کرنے کے لیے، تو سانسیں ہموار ہو جاتی ہیں اور مہک میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔

تو وہ اتوار کی صبح تھی۔ اُس کی سانسیں ہموار ہوے آدھ گھنٹے سے بھی زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔

اور وہ لمحہ آ گیا تھا کہ جب میں نے سوچا تھا کہ سارا دن میں وہ بن کر نہ رہوں گا جواس نے مجھے بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کہیں نکل بھاگوں گا۔ کہیں بھی۔ مفرور لمحوں کا ساتھ دینے کے لیے۔ جی، یہ میں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا۔

اس کا بازو میرے اُوپر تھا، پھول سا بازو۔ مگر جب میں نے فیصلہ کر لیا تو اس کا بازو، وزن میں پہاڑ سا لگ رہا تھا اور اس کے تلے میری چھاتی دبنے لگی تھی۔

میں نے سوچا اگر میں تھوڑا سا دائیں کو کھسکتا ہوں اور دائیں ہی کو پہلو بدلتا ہوں تو وہ اپنے بازو سمیت پوری کی پوری وہیں پڑی رہ جائے گی اور میں بہ سہولت نکل جاؤں گا۔ میں نے کھسکنے سے پہلے اُس کے چہرے کو دیکھا، ہونٹوں پر تھوڑا سا دباؤ تھا۔ ننھّی مُنّی ناک کے نتھنوں کے دونوں طرف گال قدرے پھول رہے تھے۔ بند آنکھوں کے تلے خفیف سے لرزے کا شائبہ سا ہوتا تھا۔ نظریں چہرے سے پھسلتی نیچی آئیں۔ شفاف گردن میں دونوں طرف کی رگوں میں کچھ کھچاؤ تھا۔ نرخرہ سوتے وقت جہاں پڑا ہونا چا ہیے، وہاں نہیں تھا، ذرا اوپر کو تیر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ سچ مچ سو نہیں رہی تھی، سونے کا ڈرامہ کر رہی تھی۔ میں مزید محتاط ہو گیا اور سارے بدن کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ مگر یہ اِحتیاط اُلٹی پڑی کہ ایک تناؤ سا خلیے خلیے میں تیر گیا تھا۔ اس کا بدن ایسا کائیاں ہے کہ اِدھر کی معمولی سی لرزش کو بھی فورا گرفت میں لے لیتا ہے۔ میں ایسا نہیں چاہتا تھا مگر ایسا ہو گیا تھا تاہم مجھے ہمت تو کرنا ہی تھی۔ ہمت کی بھی۔ مگر اس سے پہلے کہ کھسک کر پہلو بدلتا اور اٹھ جاتا، اس کے بازو میں تناؤ آ گیا۔ وزن بڑھتا گیا۔ اتنا زیادہ کہ میری چھاتی چٹخ گئی۔

لو، مزے کی بات سنو۔۔۔ اِس چٹخی ہوئی چھاتی کو سہلانے میں اُس لڑکی کو بہت مزا آتا ہے جس سے میں محبت نہیں کر سکتا۔ تم ہی کہو بھلا ایک شوہر ایک محبت کرنے والی بیوی کے ہوتے ہوے ایک ایسی لڑکی سے کیسے محبت کر سکتا ہے جس کا بازو کسی بھی اَچھی لگنے والی لڑکی کے لیے بہ سہولت جھٹکا جا سکتا ہو۔

(یہ کہانی پہلے پنجابی میں لکھی گئی تھی)

 

 

پارو

 

جب وہ آنگن میں چت کبَرے کو باندھ رہا تھا تو دھیرے دھیرے یہ بھی بڑبڑا رہا تھا:

’’جب اساڑھ آئے گا اور بھڑولے بھر جائیں گے تو تجھ جیسا ایک اور ضرور لاؤں گا‘‘

کھونٹے سے بندھی رسی کوا س نے کھنچ کر گرہ کی مضبوطی کا اِطمینان کیا پھر سیدھا کھڑا ہو گیا اور چِت کبَرے کی پشت پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

ایسا کرنے پرا سکے بدن میں عجب سی سرشاری اترنے لگی۔

ابھی اطمینان کی یہ سرشاری پوری طرح اس کے بدن میں نہ اُتر پائی تھی کہ اُسے اپنی پُشت پر بے ہنگم سانسوں کے طوفان کا ا حساس ہوا۔ وہ جلدی سے گھوما، مگر تب تک یہی بے ہنگم سانس ایک دردناک چیخ میں ڈھل کر فضا کو چیر چکے تھے۔

لوگ کہتے ہیں :

’’وہ پارو کی آخری چیخ تھی‘‘

پارو، ولایت خان کی بیوی تھی جس پر جنات کا سایہ تھا۔

لوگ یہ بھی کہتے ہیں :

’’اس آخری چیخ کے بعد پارو کو کبھی دورہ نہ پڑا‘‘

لیکن یہ واقعہ بھی اپنی جگہ ہے کہ اس کے بعد کسی نے اُسے بولتے بھی نہ سنا۔

لوگ پارو کی اِس کیفیت پر دُکھ کا اِظہار کرتے ہیں اور اُن دنوں کو بہتر خیال کرتے ہیں جب اُسے دورے پڑتے تھے مگر جونہی وہ جنات کے اثر سے نکلتی تھی تو چنگی بھلی ہو جاتی۔ اتنی ا چھی کہ ولایت خان اُسے دیکھتا رہ جاتا اور سارا گھر اس کی مسکراہٹوں سے بھر جاتا۔

لیکن اس آخری چیخ کے بعد یوں ہوا کہ اُس کے سارے لفظ، اُس کی ساری مسکراہٹیں، حتّیٰ کہا س کی چیخیں بھی کہیں گم ہو گئی تھیں۔ اُسے دورے نہ پڑتے تھے مگر اُس کے ہونٹوں پر فقط چپ کی پپڑی تھی۔

اماں حجن پارو کی ویران گود اور لمبی چپ کو دیکھ کر ولایت خان سے کہتی:

’’میں جانتی ہوں تم پارو کا بہت خیال رکھتے ہو۔ پارو جنات کے زیر اَثر رہی، چیخی چلائی مگر تم نے اُسے پھولوں کی طرح رکھا۔ اب دل جکڑ لینے والی چپ ہے اور گھر کا سُونا پن۔ مگر تم واقعی حوصلے والے ہو جو تم نے دوسری عورت کا سوچا تک نہیں۔ کوئی اور ہوتا تو کب کی دوسری لا چکتا۔ میری مانو تو وقت کو تھام لو۔ ایک اور بیاہ کر لو۔ خدا نے چاہا تو اس سونے آنگن میں بہار آ جائے گی۔‘‘

ولایت خان جب بھی یہ سنتا اُس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ وہ کچھ کہنے کی بہ جائے پارو کے ہونٹوں کو تکنے لگتا جن پر فقط چپ کا پہرہ تھا۔

شروع شروع میں اس گھر میں اُس کی مسکراہٹیں تھیں جو پورے گھر کو اُجال دیا کرتی تھیں۔ یہ مسکراہٹیں بہت جلد مدھم پڑنے لگیں۔ ایسے میں ولایت خان آنگن کے اُ س سرے پر کھرلیوں کے پاس بندھی بیلوں کی وہ جوڑی پر اپنا دھیان مرکوز کر لیا کرتا تھا، جو ہر میلے میں جیت کر لوٹتی تھی۔

ولایت خان اپنے سوہنے بیلوں کی جوڑی کو دیکھتا تو سر فخر سے بلند کر لیتا اور جب پارو کو دیکھتا تو آنکھیں چمک کر بجھنے لگتیں اور سینے کے اَندر دل کہیں گہرائی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا۔

اُدھر پارو بھی عجب مخمصے میں تھی۔

ابھی اُن کے بیاہ کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا۔

اور بہ ظاہر مخمصے میں پڑنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی۔۔۔ مگر کچھ تھا جو اُسے سمجھ نہ آ رہا تھا۔ اور جو اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ اُسے اُلجھاتا چلا جاتا تھا۔ یہی اُلجھاوا ہنسی کے اُس پرنالے میں پھنس کر رکاوٹ بن گیا تھا جو بے اِختیار شڑاپ شڑاپ بہتا سارے گھر کو جل تھل کر دیا کرتا تھا تاہم ولایت خان، کہ جو کبڈی کے ہر اکھاڑے میں مقابل کو مٹی چاٹنے پر مجبور کر دیتا تھا، کی وجاہت کسی نہ کسی طور اس کے اندر اطمینان اتار دیتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ اطمینان کے کڑوے گھونٹ، جو وہ اپنے حلق سے جبراً اُتارتی رہی تھی، اُس کے سارے وجود میں زہر بن کر سرایت کرنے لگے۔

یہ تب کی بات ہے جب ولایت خان کو گھر میں چِت کبرا لائے سال، سوا سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

گاؤں بھر کے وہ چند ایسے جوانوں میں سر فہرست تھا جنہیں ہر کوئی محبت سے دیکھتا ہے۔

محبت سے دیکھے جانے کی ایک وجہ تو اس کا اپنا مضبوط جثّہ، مناسب کلا جبڑا، اونچا قد کاٹھ اور کبڈی کے ہر میدان میں فتح تھی تو دوسری وجہ بیلوں کی وہ خوبصورت جوڑی تھی جو ہر میلے اور ہر مقابلے میں پنجالی گردن پر پڑتے ہی یوں کراہ لے کر دوڑتی کہ مقابل اس کی دھول تک کو نہ چھو پاتے۔

اپنا جثّہ بنائے رکھنے کا فن وہ جانتا تھا۔ منھ اندھیرے اُٹھ کھڑا ہوتا۔ میلوں دوڑتا، پلٹتا تو کلہاڑا لے کر کئی کئی من لکڑیاں کاٹ ڈالتا۔ غذا میں دیسی گھی میں تلے پراٹھے، دودھ اور لسی کا اہتمام کرتا۔ شام کو بدن کی مالش ہوتی۔ گھنٹہ بھر کے لیے دوستوں سے زور اور ڈنڑ پیلنا اُس کے معمولات کا حصہ تھے۔

بیلوں کی جوڑی کے ساتھ بھی وہ خوب تھکتا۔ انہیں نہلاتا، خوب رگڑ کر ان کا بدن صاف کرتا، سینگوں اور کھروں پر تیل لگاتا۔ خود چارہ کاٹ کر لاتا، کترا بناتا، ونڈا بھگوتا، ونڈے اور کترے کو چھی طرح صاف کیے ہوے بھوسے میں ملا کر گتاوا بناتا اور کھرلی تک خود بیلوں کو کھول کر لاتا تھا۔

اور جب دونوں بیل مزے مزے سے گتاوا کھانے لگتے تو اسے تب چین آتا تھا۔

لیکن جب اتنا تھک چکنے کے بعد اُسے بے چینی رہنے لگی تو وہ چِت کبرا لے آیا۔

اُس کا اِرادہ تھا، اساڑھ میں جب بھڑولے بھر جائیں گے تو وہ چت کبرے کے مقابل کا ایک اور بیل لے آئے گا جو پہلی جوڑی کی جگہ لے لے گا۔

اَساڑھ آیا اور گزر گیا۔

منھ تک بھر جانے والے بھڑولے دھیرے دھیرے خالی ہوتے چلے گئے۔

مگر، دوسرا بیل نہ آیا۔ کیسے آتا؟کہ ولایت خان کا ارادہ بدل چکا تھا۔

یوں تو وہ دھُن کا پکا تھا، جو من میں آتا اُسے پتھر پر لکیر سمجھتا، جب تک کر نہ چکتا چین سے نہ بیٹھتا تھا۔

لیکن اس بار نہ صرف ارادہ بدل چکا تھا بل کہ ایک لذّت بھی اس کے بدن میں اُتر رہی تھی۔

ہوا یوں کہ ابھی چت کبرے کو آئے چند ہی روز ہوے تھے اور ولایت خان اس کے فوطے کچلوانے کے لیے ہسپتال لے جانے کا ارادہ باندھ ہی رہا تھا کہ فضلو اپنی گائے لے آیا۔

گائے پر دن آئے ہوے تھے۔

اور فضلو کے خیال کے مطابق دور نزدیک کے کسی گاؤں میں کوئی اچھی نسل کابیل نہ تھا۔

جب کہ وہ گائے کی نسل نہ بگاڑنا چاہتا تھا۔

ولایت خان کو پہلے پہل تامل ہوا۔

ویسا ہی تامل، جیسا پارو سے شادی کے وقت ہوا تھا۔

اُس کا خیال تھا، اکھاڑے میں اُترنے والوں کو عورت ذات کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا چاہیے۔ لیکن ضد میں آ کر اسے اپنا خیال بدل دینا پڑا۔

وہ ضد میں یوں آیا کہ اس کے اکھاڑے کے دوستوں نے اُسے پارو دکھائی اور کہا:

’’ مرد، وہ ہے جو اُسے حاصل کرے گا۔‘‘

پارو نمبردار فیروز کی بیٹی تھی اور پچھلے کچھ عرصے میں یک دم جوان ہو گئی تھی۔

اس قدر جوان کہ سارے گاؤں پر اس کی جوانی چھا گئی تھی۔

ایک مُدّت سے گاؤں کی لڑکیوں پر جوانی چپکے چپکے آ رہی تھی، یوں کہ اِرد گرد والوں کو تو کیا خود لڑکیوں کو بھی اس کی خبر نہ ہوتی تھی۔

مگر پارو پر جوانی چیختی چنگھاڑتی آئی تھی۔ کچھ اس دھج سے کہ اس کا سارا بدن اپنے جوان ہونے کا زور زور سے اعلان کرنے لگا تھا۔

یہ اعلان ولایت خان نے بھی سنا۔ تاہم نہ تو اس کے اندر کوئی خواہش جاگی، نہ بدن پر بے چینی کی چیونٹیاں رینگیں لیکن لنگوٹ کَس کر اکھاڑے میں اُترنے والے اُس کے ساتھی پارو کو حاصل کرنے والے ہی کو مرد تسلیم کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔

اور وہ چاہتا تھا ا سے مرد تسلیم کیا جائے۔

وہ ضد میں آ گیا اور قسم کھا بیٹھا کہ وہ پارو کو حاصل کر کے دم لے گا۔

اگرچہ وہ بہت بڑا زمیندار نہ تھا مگر جتنی بھی زمین اس کی ملکیت تھی وہ اس کی ضرورتوں سے کہیں زیادہ تھی۔ خوبصورت جسم، کبڈی کے ہر میدان کا فاتح، صاف ستھرا شجرہ نسب۔ یہ وہ عوامل تھے جو پارو کے حصول میں اُس کے معاون بنے تھے۔

اور جب وہ پارو کو حاصل کر چکا تو بالکل ویسی ہی بے کلی اُس کے بدن میں اُتری تھی جیسی کہ اب فضلو کی بات سنتے ہوے اُتری تھی۔

فضلو کہہ رہا تھا۔

’’دیکھ پُت ولایت گائے اعلیٰ نسل کی ہے۔ دریا پار سے لایا تھا تو بوری نوٹوں کی اُٹھ گئی تھی اِس پر۔ دودھ دیتی ہے تو ولٹوہے کناروں تک چھلکنے لگتی ہیں۔ سچ جانو تو میں اس کی کھیری بھی دیکھتے ہوے جھجکتا ہوں کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ اور ماشا اللہ تمہارا بیل، واہ، دیکھنے میں اس قدر صحت مند لگتا ہے کہ آنکھ دیکھتے ہوئے بھتی نہیں ہے۔ یقیناً اس سے نسل بھی اچھی چلے گی۔‘‘

فضلو اس کے بعد بھی بہت کچھ کہتا رہا مگر ولایت خان چپ چاپ اپنے قدموں پر اُٹھا اور فضلو کو گائے چِت کبرے کے پاس لانے کا اشارہ کیا۔

جب فضلو کی گائے کا خوبصورت اور صحت مند سا بچھڑا ہوا اور دُودھ کی مِقدار پہلے سے بھی بڑھ گئی تو وہ سیدھا ولایت خان کے ہاں پہنچا۔

ولایت خان نے سنا تو عجب سی سرشاری اُس کی نَس نَس میں دوڑ گئی۔

فضلو مہینہ بھر اُس کے ہاں دُودھ بھیجتا رہا۔

ولایت خان اُسے منع کرتا رہا مگر وہ باز نہ آیا۔

اسی دودھ کی لَسّی بلوتے بلوتے ایک روز پارو کو دورہ پڑا۔ یوں کہ اُس نے بدن کے کپڑے پھاڑ ڈالے، بال نوچ لیے، جبڑے اکڑ گئے اور ہاتھ پاؤں ٹیڑھے میڑھے ہونے لگے۔

اماں حجن کا خیال تھا، پارو پر جنات کا سایہ ہو گیا ہے۔

تعویذ گنڈے ہونے لگے۔ مزاروں کے چکر کاٹے گئے۔ دھونی دہکائی گئی۔ حصار باندھا گیا۔ چلہ کشی ہوئی۔ مگر جنات کا سایہ ویسے کا ویسا رہا۔

ولایت خان پارو کی اِس کیفیت کو دیکھتا تو دُکھی ہوتا۔ اُسے سمجھ نہ آ رہا تھا اس معصوم نے جنات کا کیا بگاڑا تھا جو وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔

پارو کے دورے اور چت کبرے کی تعریفیں ایک ساتھ شروع ہوئی تھیں۔

فضلو نے اپنے بچھڑے کی خوبصورتی اور دودھ میں اِضافے کا ڈھنڈورا یوں ہر کہیں پیٹا تھا کہ ولایت خان نہال ہوتا چلا گیا۔

پھر یوں ہوا کہ نہ صرف اُس کے اپنے گاؤں بل کہ اردگرد کے مواضعات کے لوگ اپنی گائیں چت کبرے کے پاس لانے لگے۔

صحت مند بچھڑوں کی پیدائش کی خبریں اور بعد ازاں دودھ نذرانے آنا، معمول بن گئے۔

گھر میں دودھ گھی کی فراوانی نے اُس کے بدن میں مزید نکھار پیدا کیا۔

مگر پارو، کہ جس پر پہلے پہل لَسّی بلوتے جنات آیا کرتے تھے، اَب موقع بے موقع دوروں میں لوٹنے لگتی تھی۔

جب وہ جنات کے زیر اثر آتی تو عجب عجب حرکتیں کرتی۔ کبھی کبھی یوں لگتا وہ کسی ننھے منے بچے کو پیار سے پچکار رہی ہو۔

غالباً یہی وہ حرکت تھی، جسے دیکھ کر اماں حجن نے خیال ظاہر کیا تھا:

’’ اگر پارو کے ہاں اولاد ہوتی تو شاید اسے دورے اس شدت سے نہ پڑتے۔‘‘

دوروں میں شدت بڑھتی چلی گئی کہ پارو کی گود ہری ہونے کا دُور دُور تک نشان تھا نہ آس اُمید۔

’’یہ جو عورت کا بدن ہوتا ہے نا! یہ نرا گورکھ دھندا ہے۔ باہر سے نواں نکور ہو گا مگر اندر نہ جانے کیا کیا روگ پال رکھے ہوتے ہیں۔ اب جو ولایت خان جیسے شینہہ جوان کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی تو یقیناً پارو میں کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔‘‘

اماں حجن نے جو کہا سب نے اس پر یقین کر لیا۔

ایک مرتبہ پھر پیروں فقروں کے پاس لے جایا گیا۔ سنیاسیوں کے نسخے اِستعمال ہوئے۔

مزاروں پر منتیں مانی گئیں۔۔۔ مگر نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔

پارو اب اپنے لیے آسانی سے تعویذ لینے یا دوا کھانے پر راضی نہ ہوتی تھی۔ اماں حجن کا اصرار تھا۔

’’پارو کا علاج ہونا چاہیے۔‘‘

علاج ہوتا رہا مگر اولاد نے نہ ہونا تھا۔۔۔ نہ ہوئی۔

ولایت خان یہ سب کچھ لاتعلقی سے دیکھ رہا تھا، جیسے راضی بہ رضا ہو۔

اُس کے لیے یہ بھی بہت کچھ تھا کہ گاؤں سے کوئی نہ کوئی فرد اپنے ہاں بچھڑا پیدا ہونے کی خبر سناتا تھا اور دودھ کی بھری بالٹیاں بھیج دیتا تھا۔

دنوں کا یہی معمول تھا۔ وہ اپنے صحن میں چِت کبرے کے بدن پر محبت سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ پاس کھڑا، ساتھ والے گاؤں کا ایک شخص اُسے اپنے ہاں صحت مند بچھڑے کی پیدائش کی خبر سنا رہا تھا۔ ایسے میں اُسے برآمدے میں لسی بلوتی پارو کے تڑپ کر گرنے اور چیخنے کی آواز سنائی دی۔ وہ بھاگ کر برآمدے میں آیا۔ پارو چت زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا منھ اَدھ رڑکے کی جھاگ سے بھرا ہوا تھا۔ چیخیں ہونٹوں پر جم گئی تھیں اور وہ نہایت محبت سے چکنی گیلی مدھانی پر یوں ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے کہ وہ ایک ننھا سا بچہ ہو۔

تب ولایت خان نے ایک فیصلہ کیا۔ اپنے قدموں پر پلٹا چت کبرے کو کھونٹے سے کھولا سیدھا ہسپتال جا پہنچا۔

اور جب وہ چت کبرے کے فوطے کچلوا کر واپس پلٹا تھا توا پنی پشت پر پارو کی بے ہنگم سانسوں کو کرب ناک چیخ میں ڈھلتے پایا۔

لوگ کہتے ہیں :

’’وہ پارو کی آخری چیخ تھی جو سنی گئی تھی۔‘‘

لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اب اُس پر دورے نہیں پڑتے مگر لوگ افسوس کرتے ہیں کہ جنات پارو کے سارے لفظ اپنی گٹھڑیوں میں باندھ کر لے گئے تھے۔

 

 

ٍ

 

 

کتابُ الاموات سے میزانِ عدل کا باب

 

 

جس قدیم کتاب کو اُنہوں نے موت سے منسوب کر رکھا تھا اُس کے نیم تصویری باب میں ایک بہت بڑی ترازو تھی جس کے پلڑوں میں زنگار نے سوراخ کر دیے تھے۔ قدیم کتاب کے پاورقی حاشیے میں جو عبارت لکھی ہوئی ملی اس کو پڑھ لینے کا دعویٰ رکھنے والوں نے بتایا ہے کہ اس ترازو کو میزانِ عدل کا نام دیا گیا تھا۔ کتاب الاموات پر تحقیق کرنے والوں نے گزر چکے وقتوں کی نامانوس عبارت سے اِس واقعے کو بھی اخذ کیا ہے کہ اس میزانِ عدل پر خود کو تلوانے کی خواہش رکھنے والوں کو پہلے اس آتشیں گڑھے میں اُترنا ہوتا، جو راہ میں پڑتا تھا۔ اس ترازو کی راہ میں اور بھی بہت کچھ پڑتا تھا، گہری دھند، سرمئی بادل، کڑکتی بجلیاں اور کالی بارشیں۔ قدیم کتاب کے اُن صفحات پر جو ابھی تک کِرم خوردہ نہیں ہوے، اِس طرح کی عبارت کی بھی نشاندہی ہوئی ہے جس کے مطابق یہ راہ کی رکاوٹیں دراصل شیطان مردُود کی طرف سے ہوا کرتیں کہ جس کی آخری لمحے تک یہی کوشش رہتی تھی کہ کوئی میزانِ عدل تک نہ پہنچ پائے۔

اِس قدیمی میزانِ عدل پر جسم نہیں روحیں تُلتی تھیں۔

جسے ہم نے اپنی سہولت کے لیے اوپر شیطان مردُود لکھ دیا گیا، اُسے اِن خستہ اور بوسیدہ اوراق میں ’سَت‘ کا نام دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ دیوتا تھا۔ یہ وہی سَت دیوتا ہے جس نے اپنے بھائی ’اَسر، کو قتل کر دیا تھا۔ سَت اور اَسر کا یہ قصہ یوں دلچسپ ہو جاتا ہے کہ اَسر قتل ہونے کے بعد پھر زندہ ہو گیا تھا۔ اور اِس زندہ ہو جانے والے دیوتا پر قاتل دیوتا نے کئی گھناؤنے الزامات لگائے اور اُسے میزانِ عدل تک کھینچ لایا تھا۔

کتابُ الاموات کے عبارت والے حصے میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اس واقعہ نے سَت کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ کوئی قتل ہو کر کیسے زندہ ہو سکتا تھا ؟ بعد کے زمانے کے اپنے قاری کو اس مخمصے میں پڑنے سے بچانے کے لیے قدیم متن نے یہ وضاحت بھی محفوظ رکھی ہوئی ہے کہ مقتول سَت بھی دیوتا تھا۔ اِنصاف کا دیوتا۔ لہذا اُس کا یوں قتل ہونا بنتا ہی نہیں تھا۔ ایک دیوتا اگر اپنے دیوتا بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا تو انہی قدیم روایات کے مطابق اُس کا پھر سے جی اُٹھنا بھی لازم تھا۔

بوسیدہ کتاب کے وہ حصے جو اَبھی تک زمانے کی دست برد اور تصرفِ بے جا سے محفوظ رہ گئے ہیں اُن میں مرقوم ہے کہ پہلے دونوں بھائیوں میں ایسی مخاصمت نہ تھی کہ ایک، دوسرے کو قتل کر دیتا اور دوسرا، اپنا مُقدّمہ لے کر میزان عدل کی جانب رجوع کرتا۔ وہ بھائی جسے اُوپر شیطان سے تشبیہہ نہیں دی گئی ہے وہ سَت کی خباثتوں کو درگزر کر دیا کرتا تھا۔ اِس لیے کہ ایک تو وہ اُس کا بھائی تھا اور دوسرا یہ کہ وہ بھی تو آخر کو ایک دیوتا تھا۔ ضابطہ جو اپنایا جا رہا تھا، یہ تھا کہ ایک دیوتا بھائی کو اپنے دیوتا بھائی کا پاس ہونا ہی چاہیے۔ اِس عبارت کی تفہیم کرنے والوں نے کہا ہے کہ اَسر دیوتا کو بھائی کا پاس تھا یا نہیں اِس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم یہ یقینی تھا کہ وہ اپنے بھائی کی طاقت سے بہت خائف تھا۔ اُس کے بھائی کے پاس ایسے لوگوں کی سرداری بھی تھی جو اپنی پیٹھوں پر ڈھالیں اور بغل میں تلواریں سجائے رکھتے تھے اور گروہ کی صورت آگے بڑھتے تھے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تب تک کسی دیوتا کو میزانِ عدل کے سامنے لا کھڑا کرنے کی روایت نہیں پڑی تھی۔ کیسے پڑتی کہ سَت دیوتا کے جی میں جو آتا اپنے پشت پنا ہوں کے بِرتے پر نڈر ہو کر کرتا تھا۔

سَت کیا کِیا کرتا تھا؟ اس ضمن میں اِس قدیم نوشتے میں ایک مُفصَّل باب موجود ہے۔ اِسی باب میں، ذَرا آگے چل کر، بتایا گیا ہے کہ سَت دیوتا نے میزانِ عدل کی طرف جانے والوں کو روکنے کے لیے توات کے علاقے کو بچھا دیا تھا۔ توات کے ایک سرے پر، چُوں کہ آسمانی سمندر کی نیلی لہریں ٹکرا ٹکرا کر ایک بھید بھری گونج پیدا کرتی رہتی تھیں لہذا وہاں وہ لوگ بستے چلے گئے جن سے ان کے اپنے پاؤں کی زمینوں کے بھید چھین کر اُنہیں باہر دھکیل دیا گیا تھا۔ ان لوگوں کی اس زمین بدری کو ان کی مجبوری بنا ڈالنے کا وظیفہ سَت دیوتا نے اپنے ایک پیارے کے ذمہ لگایا تھا۔ اِس پیارے نے توات کو ایسا علاقہ بنا ڈالا جس میں لوگوں کو سہولت سے اغوا کیا جا سکتا اور اُن کے پہلوؤں میں چھُرے گھونپے جا سکتے تھے۔ اُنہیں بوریوں میں بند کر دیا جاتا۔ حتّیٰ کہ اُن کی روحیں الگ ہو جاتیں۔ اِن الگ ہو جانے والی روحوں کو اُن سیاہ گھوڑوں پر بٹھا کر اَمن تت لے جایا جاتا، جن کی چھاتیاں سفید تھیں۔

امن تت کی ترکیب سے اس علاقے کے امن سے تعلق کا مغالطہ ہو سکتا ہے۔ تاہم پرانی عبارتوں کو خواب جیسا جان کر ان کی تعبیر کرنے والے ایک معَبّر نے وضاحت کی ہے کہ امن تت علاقے کا نقشہ اور اس میں جنگل اُگانے کی ترکیب میں یہ قرینہ تو ضرور پیش نظر رہا ہو گا کہ اُس کے اَندر کوئی جھانک نہ سکے۔ اور جو کوئی دُور سے دیکھے وہ اس سر سبز علاقے کو امن کا خطہ جانے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اِس علاقے کا اِنتخاب ہی اِس لیے کیا گیا تھا کہ میزانِ عدل اور اُس کے بیچ ایک اوٹ میسر آ جائے۔

تو یوں ہے کہ وہ اوٹ میسر تھی۔

سَت کے حوصلے بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ اُسے میسر آڑ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اِنصاف کا دیوتا اس کا اپنا ہی دیوتا بھائی تھا۔ وہ بھائی جس کے دل میں اُس کی قوت کا سہم بیٹھ چکا تھا۔ جن روحوں کو کالے گھوڑوں پر سوار کر کے امن تت لایا جاتا، اُنہیں ایک آرے سے چیر کر اُس گہرے گڑھے میں پھینک دیا جاتا تھا جس میں روح خور درندے رہتے تھے۔ قدیم متن کے مطابق ارواح کے وہ حصے، جن کا تعلق بدنوں کے زیریں حصے سے ہوتا تھا، اِن درندوں کی چیر پھاڑ سے محفوظ رہتے تھے۔ تاہم بدنوں کے اُوپر والے حصے وہ رغبت سے کھاتے تھے۔ اپنا مرغوبہ کھاجا شکموں میں اُتارنے کے بعد وہ باقی بچ جانے اور تڑپے چلے جانے والے آدھے حصوں سے منھ موڑ لیتے۔ ایسے میں وہ منھ بلند کر کے ایسی خوفناک آوازیں نکالا کرتے تھے کہ آدھی تڑپتی روحیں اپنا تڑپنا بھول جاتی تھیں۔

موت کی اِس بوسیدہ کتاب کے جس حصے میں آدھی روحوں کا قصہ بیان ہوا ہے وہ بہت کٹا پھٹا ہے۔ اتنا کٹا پھٹا کہ قدیم عبارتوں کو پڑھنے کا ہنر رکھنے والے اسے ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکے ہیں۔ تاہم کتاب کے دوسرے حصوں کی عبارات کو اس حصے کے غیر مربوط متن سے ملا کر پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ روح خور درندوں کا اِس طرح اُوپر دیکھ کر مکروہ آوازیں نکالنے کا مطلب اِس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا کہ ان کا دیوتا سَت ان کی طرف متوجہ ہو اور اسے یہ اطلاع بھی ہو جائے کہ وہ اپنا کام کر چکے تھے۔ اَمن تَت کے گڑھے سے آدھی بچ جانے والی روحوں کو گھسیٹ کر باہر نکالا جاتا اور اُنہیں سیاہ گھوڑوں پر لاد دیا جاتا۔ یہی سیاہ گھوڑے اُنہیں یہاں لائے تھے۔ اِس بار چوں کہ اُن پر پہلے کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم وزن لدا ہوتا تھا لہذا گھوڑے برق رفتار ہو جاتے۔

آدھی روحوں کو اُٹھا کر واپس بھاگنے والے گھوڑوں کی رفتار حد سے حد پہلے کے مقابلے میں دو نی ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر قدیمی متن چغلی کھاتا ہے کہ واپسی پر اُن کی رفتار اس قدر تیز ہوتی کہ امن تت کی جانب جاتے سمے کی چال سے اس نئی چال کے تناسب کا تخمینہ ممکن ہی نہ تھا۔ دانش وروں اور ماہرین نے اِس سے یہ اِستخراج کیا ہے کہ ان روحوں کا غالب وزن اوپر والے اس حصے کا تھا جو دماغ اور دل سے کھینچ کر باہر نکالی گئی تھیں اور جنہیں روح خور درندے چٹ کر گئے تھے۔

امن تت کا گڑھا اُس گڑھے سے مختلف تھا جو میزان عدل کی راہ میں پڑتا تھا۔ میزانِ عدل کے ذِکر کے ساتھ جس گڑھے کا حوالہ آتا ہے، اُسے آتشیں گڑھے سے موسوم کیا جا چکا ہے اور اُس کی بابت یہ بھی بتایا جا چکا کہ اُس میں سے ہو کر ہی انصاف کے ترازو تک رسائی ہو سکتی تھی۔ اُوپر جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ سَت دیوتا اس جانب آنے والے لوگوں کو روکنے کا ہر حیلہ کیا کرتا تھا، وہیں گہری دھُند، سرمئی بادلوں، کڑکتی بجلیوں اور کالی بارشوں کا ذِکر ہوا تھا اور انہیں شیطانی حیلوں کے زُمرہ میں رکھا گیا تھا۔ جب کہ بادل، بارش اور حاملہ ہوائیں قدرت کی عطا تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ قدیمی نسخوں کے ماہرین نے سارے حوالے اِکٹھا کرنے کے بعد کہا ہے کہ قدرت کے معاملات کا تعلق چوں کہ کتاب کے دوسرے حصوں میں سَت دیوتا کے بہ جائے اسَر دیوتا سے جوڑا گیا ہے لہذا یہاں یہ معاملہ مشکوک ٹھہرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو نہ ہو سفید چھاتیوں والے سیاہ گھوڑے آدھی روحوں کو اُٹھا کر پلٹتے ہوے، وہیں اُوپر سے، جسَت لگاتے ہوے گزرتے تھے۔ اُن کے بدنوں کی باقی ماندہ سیاہ جلد چھاتی کے سفید رنگ میں مل کر سرمئی ہو جاتی تھی۔ وہ اِتنی اونچی زقند بھرتے کہ نیچے سے اُن کے بدن سرمئی بادل لگنے لگتے۔ برق رفتار گھوڑوں کے سُم ٹھٹھری ہوے منظر کی چٹان پر پڑتے تو چنگاریاں اُٹھتیں۔ اِن چنگاریوں کو بجلی کا لپکا سمجھا جاتا۔ وہ پانی جو گھوڑوں کے بدن چھوڑتے اُس پر بارش کا گمان ہوتا تھا۔

قدیم متون کا درک رکھنے والے اس مخمصے میں پڑتے رہے ہیں کہ جب عدل سے منسوب اسَر دیوتا نے اپنے دیوتا بھائی سَت کی جانب سے سیاہ پٹی باندھ کر اپنی آنکھوں کو بند کر رکھا تھا تو آخر وہ کیا افتاد ٹوٹ پڑی تھی کہ سَت کو اِسی کی میزان سے رجوع کرنا پڑا۔ اِس پرانے نسخے میں لکھا ہوا ہے کہ اسَر دیوتا کو اُن لوگوں کے بارے میں بہت تشویش تھی جو مسلسل غائب ہو رہے تھے۔ غائب ہونے والے جب کہیں بازیاب ہوتے تو وہ محض لس لس کرتے وجود رہ جاتے تھے۔ یہیں یہ المناک حقیقت بھی لکھی ہوئی ملتی ہے کہ وہ عہد سوچنے سمجھنے اور بے ریا محبت کیے چلے جانے والوں سے بہت سُرعت سے خالی ہوتا جا رہا تھا۔ جب عدم پتہ ہو جانے والوں کی عورتوں کے بین جگر پھاڑنے لگے تو اسَر دیوتا کو اَپنی کالی پٹی تھوڑا سا سرکانا پڑی۔ اُس نے از خود نوٹس لے کر حقیقت کو میزانِ عدل پر چڑھانا چاہا۔ اُس کے بھائی سَت دیوتا نے اسے اپنے خلاف ایک سازش جانا اور بپھر گیا۔ اُس نے طیش میں اپنے دیوتا بھائی کو آتشیں گڑھے کے اُوپر سے اپنی جانب گھسیٹنا چاہا مگر ترازو کے اوپر نکلے ہوے بانس پر بیٹھے چوکس بندر نے اپنی بصیرت سے خطرہ بھانپ لیا تھا۔ اس نے خوب شور مچایا۔ سَت دیوتا نے بوکھلا کر اپنے دیوتا بھائی کو قتل کر دیا۔

کتاب الاموات کے چند اور اوراق پلٹیں تو اوپر کو نکلے بانس پر بیٹھنے اور شور مچانے والا بندر اس دیوی میں بدل گیا تھا جس کے نیچے کا بدن ڈھکا ہوا ہوتا تو اس کی زبان سچ بولتی تھی اور دیوی لباس گرا دیتی تو سارے بدن سے شہوت ٹپکتی تھی۔ یہ دیوی جو سَت دیوی پر بہت مہربان تھی، اس کے چہرے کی کرختگی کو پڑھ کر نامہربان ہو گئی تھی اور اپنا بدن سمیٹ کر سب کو اس کے مذموم ارادوں کی خبر دے رہی تھی۔ قتل کرنا سَت دیوتا کے لیے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر اس بار یہ اُسے مہنگا پڑا۔ وہ دیوی جس نے بندر کی جگہ لے لی تھی اور کتاب میں جسے معات دیوی کا نام دیا گیا تھا، جگر پھاڑ دینے والی آوازوں میں اپنی آواز ملانے لگی۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے اِحتجاج کے نعرے بھی گونجنے لگے۔

جسے قتل کر دیا گیا تھا، اسے ان آوازوں نے زندہ کر دیا تو سَت نے میزان عدل سے رجوع کرنے کا ڈھونگ رچایا۔ کچھ معَبّر یہ کہتے ہیں کہ اسَر دیوتا کو ان گونجتی آوازوں نے نہیں بل کہ پسد جسَت نے زندہ کیا جو، بقول اُن کے، ایسے منصف دیوتاؤں کی مجلس تھی جو ترازو ہاتھ میں لیتے وقت آنکھوں پر سیاہ پٹی نہیں باندھا کرتے تھے۔ دوسرے معَبّر اس تعبیر کو ماننے سے اِنکاری ہیں۔ وہ اس خوف کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اس مجلس کے ہر رکن کے دل میں کپکپاہٹ پیدا کرتا تھا۔ خیر حقیقت کچھ بھی ہو میزان عدل قائم کر دی گئی تھی۔ کوئی نہیں جانتا، یہ کتنے وقت کے لیے تھی۔ وہ جسے قتل کیا گیا تھا، نیم زندہ ہو گیا تھا۔ عجب مُقدّمہ تھا، جس میں سے کئی اور مقدمے پھوٹ نکلے تھے۔ وہ دھُول اُڑائی جا رہی تھی کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ سَت دیوتا مسلسل اُن گنا ہوں کی فہرست سب کو سناتا رہا تھا جو، بقول اس کے، اسَر دیوتا سے سرزد ہوے تھے۔ امن تت کے علاقے سے بھی اس کے حق میں آوازیں اٹھتی تھی کہ بقول اس کے یہ علاقہ بھی اُس کی طاقت کا استعارہ تھا۔

کتاب الاموات کی اس قدیم میزانِ عدل کا قصہ بھی عجیب ہے۔ قتل کا معاملہ سامنے کا تھا اور قاتل کو بہ سہولت اپنے انجام تک پہنچایا جا سکتا تھا مگر دلوں کو لرزانے والے خوف کی ابتلا نے انہیں بوکھلا رکھا ہے۔ وہ فیصلے پر فیصلہ دیتے ہیں مگر ہر فیصلہ ادھورا رہ جاتا ہے حتّیٰ کہ انہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ ادھورے فیصلوں میں کئی اور قتل گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ دیوتاؤں کے قوانین کی کتابیں ایک طرف دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ یوں لگنے لگتا ہے کہ وہ بے معنی دلیلوں اور نامکمل فیصلوں کو ہی کافی سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے اپنے مقتولین پر بین کرنے والیوں کے گلے رُندھ گئے ہیں۔ احتجاجی نعروں کی گونج ماند پڑ گئی ہے اور معات دیوی ادھر سے اُوب کر اپنا جامہ گرا کر لوگوں کو رُجھانے میں مگن ہو جاتی ہے۔ وہ مُقدّمہ کون جیتا؟ اسَر دیوتا یا سَت دیوتا ؟ کتابُ الاموات کے اگلے سارے صفحات کو دیمک نے کچھ اِس طرح چاٹ ڈالا ہے کہ یہ سوال ہی بے معنی ہو گیا ہے۔

 

 

سجدۂ سہو

 

ایکا ایکی اُسے ایسے لگا جیسے کوئی تیز خنجر اُس کی کھوپڑی کی چھت میں جا دھنسا ہو۔ اس کا پورا بدن کانپ اُٹھا۔ جسم کے ایک ایک مسام سے پسینے کے قطرے لپک کر باہر آ گئے۔ اُس نے سر پر دو ہتڑ مار کر لَاحَول وَلا قُوۃ کہا۔ عین اُس لمحے اُس کے ذِہن کی سکرین پر اپنے ایک سالہ سعیدے اور اس کی ماں نوری کی تصویر اُبھری۔ نوری سعیدے کو لوری دے کر سُلا رہی تھی اور وہ سونے کی بہ جائے اُسے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

اِس خیال کے آتے ہی اُس کے جسم کا تناؤ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے سر کو دبا کر نچوڑا تو اُسے یوں لگا، جیسے سر نچوڑنے سے عاشو منھ میں آ گئی ہو۔ منھ اِدھر اُدھر ٹیڑھا کر کے لعاب جمع کیا اور تھوک کے ساتھ عاشو کو بھی زور سے دور پھینک دیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اِنسان سوچوں اور خیالات کے آگے بے بس کیوں ہو جاتا ہے، پیچھا چھڑانا بھی چاہے تو نہیں چھڑا سکتا۔

کہیں یہ سوچیں مجھے شکست نہ دے دیں۔

اِس خیال کے ذہن میں آتے ہی وہ کانپ اُٹھا۔ بے شک وہ گبھرو جوان تھا لیکن سوچیں تو جسم پر نہیں ذہن پر وار کرتی تھیں۔ اس نے س سرکو شرقاً غرباً کئی جھٹکے دیے۔ صافہ سر پر باندھا، چادر کے پلو کسے، ایک نظر رہٹ چلاتے بیل پر ڈالی۔ بیل بڑے سکون کے ساتھ کھڑا تھا۔ اُسے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ منھ ہی منھ میں بڑبڑانے لگا۔

’’کیسا چالاک ہے اُلو کا پٹھہ، مجھے غافل پا کر نہ جانے کن خیالوں میں مگن کھڑا ہے‘‘

اپنی سوچ پر پہلے تو وہ جھینپا پھر اپنے آپ پر ہنسنے لگا۔

بھلا بیل بھی سوچتے ہیں کیا؟ بیل انسان تو نہیں ؟

لیکن وہ تو اِنسان تھا اور ابھی ابھی سوچوں سے چھٹکارا پا کر اُٹھا تھا۔

کئی مرتبہ ایسا ہوتا، وہ نوری، سعیدے اور ماسی رضو سے بچ بچا کر سوچوں کے جوہڑ میں جا دھنستا اور دیر تک ڈبکیاں لگاتا رہتا۔ پھر جس آن اُسے اندیشہ ہوتا کہ کوئی دیکھ نہ لے، جھٹ پٹ لَاحَول وَلا قُوۃ کہتا اور دھیان جوہڑ سے باہر نکل آتا۔ ایسے میں اُسے لگتا جیسے اُس کے جسم سے اس جوہڑ کے گندے پانی کی بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے ہوں۔

بیل اپنی جگہ خاموش کھڑا تھا۔

اور وہ بھی اپنی جگہ خاموش کھڑا نتھنوں کو پھڑپھڑا رہا تھا۔

اُسے اپنے اور بیل میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔

’’وہ مجھے غافل پا کر اپنے خیالات میں مگن، نہیں نہیں، خاموش کھڑا ہے۔ اور میں بھی کسی کو غافل پا کر سوچوں میں غرق ہوں‘‘

اس نے ایک موٹی سی گالی اپنے آپ کو اور ایک اِسی وزن کی گالی بیل کو دی۔

بیل تو جیسے اِسی گالی کا منتظر تھا، فوراً چل پڑا۔ ٹینڈیں پانی بھر بھر کر اُوپر لانے لگیں تو وہ کھالے کے ساتھ چلتا ہوا گنگنانے لگا:

نیچاں دی اَشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا

کِکر تھ اَنگور چڑھایا تے ہر گُچھا ز خمایا

ہو۔۔۔ و۔۔۔ نیچاں دی اَشنائی کولوں۔۔۔

آخری کھیت پر پہنچ کر پانی کا رُخ بائیں کھیت کی طرف موڑنے کے لیے اُس نے پانی کا ناکا کھول دیا۔ پانی دائیں بائیں دونوں کھیتوں میں جا رہا تھا۔ اُس نے دائیں کھیت کے ناکے کو بند کر دیا کہ وہ سیراب ہو چکا تھا۔ اِس کام سے فارغ ہو کر اُس نے کمر پر ہاتھ رکھا اور سیدھا کھڑا ہو کر گاؤں کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس کے اَندازے کے مطابق نوری کو کھانا لے کر اَب تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔

اور اس کا خیال درست نکلا۔

نوری واقعی ایک ہاتھ سے سعیدے کو اور دوسرے میں کھانا تھامے چلی آ رہی تھی۔ وہ واپس رہٹ کے پاس آیا اور اُسی بوہڑ کے نیچے آ بیٹھا جہاں کچھ دیر قبل عاشو کے خیال سے جنگ کرتا رہا تھا۔

یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عاشو بہت حسین تھی۔ اُس کا قد سرو کی مانند تھا نہ گردن صراحی کی طرح۔ اُس کے ہونٹ گلاب کی پنکھڑی جیسے تھے نہ رنگت ہی سرخو سپید۔ یہ سب کچھ تو بس عام لڑکیوں جیسا تھا لیکن اُس کی آواز میں بلا کی کشش تھی۔ وہ بولتی تو راہ چلتوں کے قدم تھم تھم جاتے۔ سرسوں کے پیلے پیلے پھول، کہ جن سے عاشو نے اپنے چہرے کا رنگ چرایا تھا، جھوم جھوم اُٹھتے۔ گاؤں کی تمام اَلہڑ مٹیاروں کی طرح وہ بھی کھیتوں پر کام کو جاتی۔ گھر کے ڈھور ڈنگر سنبھالتی، بالکل ایسے ہی جیسے خود عبدل کی بیوی نوری یہ سارے کام کرتی تھی۔

لیکن عبدل پر عاشو کا خیال بھوت بن کر سوار ہو گیا تھا۔

وجہ عبدل خود بھی نہ جانتا تھا۔

جونہی اُس کا ذہن دیگر تفکرات سے خالی ہوتا، عاشو آ کر قبضہ جما لیتی۔ کئی بار تو یوں ہوتا کہ وہ رات کو اچھا بھلا سونے لگتا مگر دیر تک دشتِ خیالات میں بھٹکتا رہتا۔ پھر جب رات کے پچھلے پہر سعیدا اپنے پوتڑے گندے کر کے رونے لگتا تو وہ چونک اٹھتا اور لَاحَول وَلا قُوۃ کہہ دیتا۔ نوری بے چاری سمجھتی، اس ننھے شیطان کے رونے پر عبدل نے غصے میں آ کر لَاحَول وَلا قُوۃ کہا ہے۔ چناں چہ وہ جلدی جلدی اُس کے پوتڑے بدلتی۔ اُسے تھپکتے اور دودھ پلاتے سلانا شروع کر دیتی۔ اُس کے ساتھ ہی عبدل کو یوں لگتا، نوری نے سعیدے کو نہیں خود اُسے تھپکیاں دے کر سُلادیا تھا۔

نوری قریب پہنچی تو اُسے ڈر لگنے لگا، کہیں سوچوں کے گندے جوہڑ کی بو نوری بھی نہ سونگھ لے۔ اُسے دُکھ ہو رہا تھا کہ وہ عاشو کے بارے میں کیوں سوچتا رہتا تھا؟ اس جرم کے احساس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے وہ نوری کو دیکھ کر مسکرا دیا۔ اور جب اُس کی نظر سعیدے پر پڑی تو اس کا چہرہ گلِ نو شگفتہ کی طرح کِھل اُٹھا۔ لپک کر آگے جھکا، نوری کی گود سے سعیدے کو اُچکا اور سینے سے لگا لیا۔

بے تحاشا پیار کی پھوار تھی جو سعیدے پر مسلسل برس رہی تھی۔

نوری نے یہ دل رُبا منظر دیکھا تو نہال ہو گئی۔ کھانا بوہڑ کی چھاؤں تلے رکھا اور بانہیں پھیلا کر کہنے لگی۔

’’سعیدا مجھے دو اور تم کھانا کھاؤ کہ بھوک ستا رہی ہو گی‘‘

عبدل نے نوری پر ایک اُچٹتی نگہ ڈالی، سعیدے کی پیشانی پر پیار سے ایک اور بوسہ دیا اور اُسے نوری کی پھیلی بانہوں میں ڈال دیا۔ جب وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تو نوری بھی اُس کے سامنے بیٹھ گئی۔ سعیدا اُس کی گود میں لیٹا مسکرا کر باپ کو دیکھ رہا تھا اور توتلی زُبان میں کچھ کہے جاتا تھا۔ اُس نے روٹی کے کپڑے کی گرہ کھولی۔ باجرے کی روٹی اُس پر سرسوں کا ساگ اور مکھن کی سوندھی خُوشبو۔ اُس کی بھوک چمک اُٹھی۔ لسی کا گلاس بھر کر قریب رکھا اور کھانے میں مگن ہو گیا۔ نوری اُ س سے بھولی بھالی باتیں کرتی رہی۔ وہ سنتا رہا۔ اور جانے کب نوری خاموش ہو کر بچے کو پانی پلانے چوبچے کے پاس لے گئی تھی کہ عاشو کہیں سے آ کر عبدل کے ذہن پر براجمان ہو گئی۔ دوسرے ہی لمحے سعیدے کی کلکاریوں اور ’’مم مم‘‘ نے خیال کے اس کھلونے کو توڑ کر دور پھینک دیا اور وہ مطمئن ہو کر کھانا کھانے میں لگ گیا۔ کھانا کھا چکا تو نوری نے برتن سمیٹے اور سعیدے کو اُٹھا کر واپس چل دی۔ عبدل وہی صافہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ ابھی نوری نظروں سے اوجھل نہ ہوئی تھی کہ وہ دھڑام سوچوں کے گندے جوہڑ میں جا گرا۔

عاشو سے اُس کی ملاقات دو سال قبل فضلو کی شادی پر ہوئی تھی۔ بارات دلہن کو لینے دوسرے گاؤں گئی تھی۔ ابھی وہ دلہن کے گاؤں کے قریب پہنچے ہی تھے کہ شمال سے بادل اُٹھے اور پورے آسمان پر بکھر گئے۔ بجلی کڑکی اور اس کے ساتھ ہی رم جھم بارش برسنے لگی۔ گاؤں پہنچنے تک بارش کچھ اور تیز ہو گئی تھی۔ بارات میں موجود سیانوں کا یہی فیصلہ تھا:

دلہن لے کر فوراً واپس چل پڑنا چاہئے کہ کہیں راہ میں پڑنے والے برساتی نالے میں طغیانی نہ آ جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پانی اُترنے تک یہیں رکنا پڑے گا۔

چناں چہ دلہن لے کر برات بارش ہی میں واپس چل پڑی۔

وہ دوسرے باراتیوں کے ساتھ نالے میں اُترا ہی تھا کہ اُس کے پہلو سے عاشو لڑکھڑا کر اُس کے ساتھ ٹکرا گئی۔ عبدل کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے اور وہ بھی عاشو کے ساتھ ہی پانی میں گر پڑا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ابھی نالے کا آغاز تھا، پانی گھٹنوں سے اُوپر نہ تھا۔ وہ خود سنبھلا، عاشو کو سنبھالا دیا۔ عاشو نے ہنس کر اُسے دیکھا۔ شکریہ ادا کیا اور اپنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھاتے ہوے کہا:

’’ذرا پار تک مجھے تھامے چلو‘‘

عاشو کے ذِہن پر اُس لمحے کسی اور خیال کی پرچھائیں تک نہ تھی۔ وہ تو بس نالے کے پار تک جانا چاہتی تھی مگر عبدل کے خیالات کا منھ زور گھوڑا لگام تڑا کر سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ اُ س کے بعد جب بھی وہ اکیلا ہوتا، لڑکھڑا کر ندی میں جا پڑتا، پھر عاشو کو سنبھالا دیتے ندی کے پار تک آتا۔ ذہن کے بحر الکاہل میں کتنی ہی موجیں اُٹھتی تھیں اور وہ بے حال ہو جاتا تھا۔

لمحہ لمحہ کر کے دو سال بیت گئے مگر عاشو کے ہاتھوں کا لمس تھا کہ وہ بھول نہ پایا تھا۔ تاہم جیسے ہی اُسے سعیدے کی ماں کا خیال آتا وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا اور آسمان کی طرف دیکھ کر زور زور سے کہنے لگتا:

’’خدایا! تیرا شکر ہے کہ تو نے میری اور میری ماں کی دُعائیں سن لیں اور مجھے سعیدا عطا کیا‘‘

ٍ

عبدل کی ماں رضو، گاؤں بھر کے لیے ماسی تھی۔ سب کے مسئلوں کا حل ماسی رضو کے پاس تھا، لیکن ماسی رضو خود جس کرب میں مبتلا تھی اُس کا حل کسی کے پاس نہ تھا۔ پیش اِمام کی بیوی صغراں اس کی رازداں تھی۔ جب بھی اُس سے مشورہ کیا، اُس نے یہی کہا:

’’عبدل کو ایک اور شادی کرا دو‘‘

ماسی رضو سے اپنے بیٹے کا دُکھ دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ شادی سے پہلے اور دو سال بعد تک تو وہ گاؤں بھر کی محفلوں کی جان بنا رہا تھا۔ کُشتی ہوتی یا بیلوں کا میلہ، کتوں کی دوڑ ہوتی یا مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی ہر موقع پر وہ آگے ہی آگے ہوتا، مگر اب الگ تھلگ، نہ کسی سے تعلق، نہ کسی واسطہ۔ یوں لگتا تھا، وہ اندر ہی اندر سے ٹوٹتا چلا جاتا تھا۔

اِدھر عبدل کی بیوی گاہراں تھی کہ خزاں کے ٹنڈ منڈ شجر کی طرح۔

چناں چہ اُ س نے صغراں کے مشورے پر عمل کرتے ہوے فیصلہ دے دیا:

’’عبدل کے لیے دوسری شادی بہت ضروری ہے‘‘

ماسی رضو کے لیے یہ کام کون سا مشکل تھا۔ ادھر عبدل سے کہا: گاہراں کو فیصلہ سنا دو، اُدھر نازو کو دُلہن بنا کر گھر لے آئی۔ پھر کئی سال اِنتظار میں بیت گئے۔ عبدل کے سر میں چاندی کی طرح سفید بال چمکنے لگے۔ ماسی رضو نڈھال ہو گئی۔ اتنی سکت نہ رہی کہ خود چل کر پانی پی سکے۔ برتن اٹھانا چاہتی تو وہ کپکپا کر گر جاتا۔ پوتے کے اِنتظار کے دُکھ نے اُس کے لبوں پر چُپ کا جالا بُن رکھا تھا۔ صغراں آتی تو اپنے غم کی پٹاری اُ س کے سامنے کھولتی۔ لیکن صغراں کا تو بس ایک مشورہ تھا:

’’ماسی رضو اللہ کا دیا سب کچھ ہے تمہارے پاس۔ اللہ بخشے تمہارا گھر والا تمہیں بہت کچھ دے کر اس دنیا سے گیا ہے۔ روپے پیسے اور جائیداد کی کمی نہیں۔ عبدل کے لیے عورتوں کا کیا کال ہے۔ دوسے اولاد نہیں ہوئی تو تیسری کرا دو۔‘‘

اور عبدل سے ماسی رضو نے کہہ دیا:

’’بیٹا ایک شادی اور کر لو‘‘

عبدل نہ مانا۔ مایوسی نے اُسے چاروں شانے چِت گرا دیا تھا۔ ماسی رضو منتوں پر اُتر آئی:

’’بیٹا ایک شادی اور۔۔۔ میرے لیے اور صرف میرے لیے۔۔۔ میں تمہیں بے اولاد دیکھ کر مرنا نہیں چاہتی‘‘

ماں کی التجا اور آنسو بھری آنکھیں عبدل سے دیکھی نہ گئیں۔ یوں نوری دلہن بن کر گھر آ گئی تھی۔ شاید قدرت بھی اسی لمحے کی منتظر تھی۔ عبدل اور ماسی رضو کو مزید اِنتظار نہ کرنا پڑا۔ جس روز سعیدا پیدا ہوا، اس روز تو عبدل کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ ماسی رضو کو کوئی دیکھتا تو یوں محسوس کرتا، جیسے اُ س کے پیکر میں کوئی جواں روح داخل ہو گئی تھی۔ کئی روز تک جشن کی سی کیفیت رہی اور پھر خُوشی کے یہ لمحات دیکھتے دیکھتے ماسی رضو اللہ کو پیاری ہو گئی۔

وہ دولت کہ جس کے لیے عبدل نے طویل اِنتظار کا کرب اُٹھایا تھا، سعیدے کے روپ میں عبدل کے سامنے تھی، نہ جانے یہ کمبخت عاشو کہاں سے ٹپک پڑی تھی۔ اس نے اُس کا سکون درہم برہم کر دیا تھا۔ عبدل کب کا بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ چکا تھا۔ بالوں میں سفیدی ہی سفیدی تھی۔ جلد جو کبھی تنی ہوئی ہوتی تھی، اب ڈھلک گئی تھی۔ لیکن اِس عمر میں بھی اُسے اَٹھارہ سالہ عاشو کا خیال نڈھال کیے دے رہا تھا۔

پہلے پہل تو عبدل لَاحَول وَلا قُوۃ کہہ کر عاشو سے چھٹکارا پاتا رہا۔ رفتہ رفتہ لَاحَول وَلا قُوۃ کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور پھر وہ لمحہ بھی آیا جب سعیدا، نوری اور لَاحَول وَلا قُوۃ تینوں بے بس ہو گئے اور اُس نے عاشو کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔

کرمو غریب مزارع تھا۔ عبدل جیسے صاحبِ حیثیت زمیندار نے رشتہ طلب کیا تو بھلا وہ کیسے انکار کر سکتا تھا۔

اور یوں عاشو دُلہن بن کر عبدل کے گھر آ گئی تھی۔

ٍنوری روئی، چلائی، سعیدے کے واسطے دیے۔ عبدل کے ارادوں نے بدلنا تھا، نہ بدلے۔ اُس کے سامنے اجازت نامے کا کاغذ رکھا اور کہہ دیا:

’’شادی کی اجازت دے دو یا پھر مجھ سے فیصلہ سن لو‘‘

فیصلے کی بات سن کر اس کی روح تک لرز گئی۔ چپکے سے انگوٹھا اٹھایا اور کاغذ پر ثبت کر دیا۔

گویا اب عبدل کو قانونی تحفظ اور عاشو کی جانب سے باقاعدہ اجازت نامہ مل چکا تھا۔

اسی اجازت نامے کے سہارے عاشو اُس گھر میں داخل ہو گئی تھی جو کبھی نوری کا تھا۔ اس کے سعیدے کا تھا۔ وہ لہو کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔

عاشو گھر میں اِٹھلاتی پھرتی تھی۔۔۔ یہاں وہاں۔

جب کہ سعیدا اور نوری گھر میں ہوتے ہوے یوں نظر انداز کر دیے گئے تھے، جیسے پھٹے پرانے لیر لیر کپڑے۔ وہ بھری دوپہر کے اس سائے کی طرح تھی جو کونوں کھدروں میں پناہ تلاش کرتا ہے۔ خوف اس کی نس نس میں بھرا ہوا تھا۔بے یقینی اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھی اور مایوسی اس کے دل میں پوری طرح اُتر گئی تھی۔

ہاں جب جب وہ سعیدے کو دیکھتی تھی تو عبدل کے حوالے سے ایک آس بندھتی تھی۔

مگر نوری کا بھائی محمد حسین بیچ میں یوں کودا، کہ رہی سہی اُمید کا کچا دھاگہ بھی ٹوٹ گیا۔

وہ کراچی میں ملازمت کرتا تھا، بہن پر بیتی سنی تو مشتعل ہو گیا۔ سیدھا گاؤں پہنچا دوڑا دوڑا بہن کے گھر گیا اور نوری کو ساتھ لے کر چل دیا۔ نوری جاتے جاتے کہتی رہی:

’’میں اِس گھر سے نہیں جاؤں گی۔ کیا ہوا جو عبدل نے نئی شادی کر لی ہے۔ میں اس گھر کی دہلیز سے مر کر ہی نکلوں گی‘‘

زبان کچھ اور کہہ رہی تھی جب کہ اس کے اندر اُٹھتی اِنتقام کی لہریں نفرت کے ایسے بیچ بو چکی تھیں کہ اُس کے قدموں میں بھائی کا ساتھ دینے کا حوصلہ بھر گیا تھا۔

محمد حسین کا لہو کھول رہا تھا۔ وہ نوری کو تقریباً گھسیٹتا گھر لے گیا۔ ادھر عاشو تو جیسے اسی لمحے کی منتظر تھی۔ اس کا جادو عبدل کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ لہٰذا نوری کو طلاق کا فیصلہ بھی سنا دیا گیا۔

نوری نے یہ سنا تو چکرا کر رہ گئی۔ خود کو کوسنے دئیے۔ بھائی کا گریبان پکڑ لیا اور اس پر برس پڑی:

’’تم نے مجھے اُس گھر سے لا کر بہت بُرا کیا۔ اب میں کس کے سہارے جیوں گی۔ پہاڑ سی زندگی کیسے کٹے گی؟‘‘

نوری نے سعیدے کو دیکھا تو کلیجہ منھ کو آ گیا۔ دھاڑیں مار کر روتے ہوے اسے سینے سے لگا لیا۔ جب خوب رو چکی تو کہنے لگی:

’’اس معصوم نے کون سا گناہ کیا ہے کہ اسے بھی میرے ساتھ سزا مل رہی ہے۔ اس کا باپ زندہ ہے لیکن یہ یتیم ہو گیا ہے‘‘

جب نوری، محمد حسین کا گریبان پکڑے اسے جھنجھوڑ رہی تھی تو محمد حسین پتھر کے مجسمے کی طرح ڈول رہا تھا۔ دُکھ کی ایک گہری جھیل میں اس کا بدن ڈوبے جا رہا تھا۔ اُس کے دل میں لمحہ بھر کو ایک چنگاری چمکی اور نہایت اَہم فیصلے کا شعلہ بھڑگا گئی۔ بہن کو دلاس ادیا۔ سعیدے کو پیار سے تھاما اور کہنے لگا:

’’بہن فکر نہ کرو، سعیدا یتیموں کی طرح نہیں، شہزادوں کی طرح پلے گا۔ میں پوری زندگی تمہیں کوئی غم نہ آنے دوں گا۔‘‘

جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو اس کا گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ جو غم اور روگ نوری کو لگ چکا تھا، اس کا علاج ممکن ہی نہ تھا۔ کتنے ہی غم ہوتے ہیں جو انسان ہنسی خُوشی سہہ جاتا ہے لیکن کچھ دُکھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کو قبر کی مٹی اور کفن کی طرح چاٹتے رہتے ہیں۔

محمد حسین نے اپناآبائی مکان اور وہ تھوڑی سی زمین، جو اُس نے خُون پسینے کی کمائی سے خریدی تھی، بیچ ڈالی۔ بہن اور اس کے بیٹے کو ساتھ لیا اور کراچی پہنچ گیا۔ اس نے سوچا ماحول بدلے گا تو زخموں پر مرہم لگ جائے گا۔

ٍ’’انسان بڑا ہی نا شکرا ہے‘‘

پیش امام کی بیوی صغراں عبدل کا دُکھ سن کر کہنے لگی:

’’تم اولاد کو ترستے تھے، جب اولاد ملی تو اُس سے بے نیاز ہو گئے۔ آہ!۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ماسی رضو زندہ نہیں۔ وہ زندہ ہوتی تو یہ دُکھ جَر نہ سکتی۔ تم نے ڈاکٹروں، حکیموں اور سنیاسیوں کو آزما دیکھا۔ اب عاشو کی گود کیا ہری ہو گی۔ تم آج بھی اولاد کو ترس رہے ہو۔ اب تو میں تمہیں یہ مشورہ بھی نہیں دے سکتی کہ ایک اور شادی کر لو۔ خبر نہیں نوری کہاں اور کس حال میں ہو گی؟ محمد حسین تو اُسے ساتھ لے کر یوں گم ہوا ہے کہ کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔ کراچی میں اُس نے اپنا ٹھکانہ تک بدل لیا تھا کہ کہیں تم پچھتا کر اُدھر نہ جا نکلو اور اپنا بیٹا نوری سے چھین کر اس کے زخم ہرے کرو۔اللہ کرے سعیدا ٹھیک ہو۔‘‘

صغراں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی برس رہی تھی۔ اُسے ماسی رضو کے ساتھ اُنس تھا اور عبدل ماسی رضو کی نشانی تھی۔ مگر ماسی رضو کی اس نشانی کو دیکھتی تو کلیجہ کٹ کٹ جاتا۔ صغراں سے مزید وہاں بیٹھا نہ گیا۔ چادر کے پلو سے آنسو پونچھے، لاٹھی اُٹھائی اور وہاں سے اُٹھ گئی۔

عبدل کے سینے سے درد کی ایک لہر اُٹھی اور پورے وجود کو چیرتی چلی گئی۔

عبدل کا دُکھ عاشو کے لیے جان لیوا تھا۔ لیکن وہ کیا کر سکتی تھی؟ بس عبدل کو دیکھتی اور دیکھتی ہی رہ جاتی۔ یوں جیسے پیاسی زمین بانجھ بادلوں کو حسرت سے تکتی رہ جاتی ہے۔ پورے بارہ سالوں کا ایک ایک پل عبدل نے دُکھ کے پل صراط پر چل کر گزارا تھا۔

گاؤں کے ایک ایک فرد سے محمد حسین کا پتہ پوچھ ڈالا۔

خود کئی مرتبہ کراچی سے ہو آیا۔

لیکن نوری کا سراغ ملا نہ اس کے سعیدے کا۔

فجر کی نماز پڑھ کر عبدل کھانستا کھانستا گھر کی جانب پاؤں گھسیٹے جا رہا تھا کہ پٹواری لال دین نے پیچھے سے آواز دی۔ عبدل رُک گیا۔ لال دین کہنے لگا:

’’عبدل میں کراچی گیا تھا۔ اپنے بیٹے چراغ دین سے ملنے۔ اِس مرتبہ محمد حسین سے بھی ملاقات ہو گئی۔‘‘

عبدل کا دل اُچھلا اور حلق میں آ پھنسا۔ جلدی سے پوچھا:

’’کہاں رہتے ہیں وہ؟ کس حال میں ہیں ؟ سعیدا کیسا ہے ؟ نوری کا کیا حال ہے ؟‘‘

ایک ہی سانس میں اتنے سوال۔ یہی وہ سارے سوال تھے، جو بارہ سالوں سے اس کے سینے کو اندر سے ڈس رہے تھے۔ لال دین ہنس دیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے سے ہنسی غائب تھی اور دُکھ سے وہ ہاتھ ملتے ہوے کہہ رہا تھا:

’’عبدل بڑے بَدنصیب ہو تم۔ تم نے اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا۔ محمد حسین مجھے صدر میں ملا تھا۔ سودا سلف خریدنے آیا تھا۔ سعیدا اُس کے ساتھ تھا۔ تمہارے گبھرو پتر کو دیکھا۔ خدا کی قسم یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی سعیدا ہے۔ تین سال کا بچہ تھا، جب ماں کے ساتھ گیا تھا اور اب ایسا خوبصورت جوان بنا ہے کہ جوانی پر رشک آتا ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ گھر چلنے کو بڑا اصرار کیا تھا لیکن میں نہ جا سکا کہ میرے ساتھ اور لوگ۔۔۔‘‘

عبدل نے لال دین کی بات درمیان میں کاٹ ڈالی۔ ان کا پتہ پوچھا اور اسی روز کراچی چل پڑا۔

لانڈھی پہنچا، مطلوبہ مکان ڈھونڈا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

اس کے ساتھ ہی اس کا اپنا دل بھی زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔

بالکل ایسے ہی جیسے اس کے اندر دل پر کوئی زور زور سے دستک دے رہا ہو۔

چند لمحوں کے بعد ایک پندرہ سالہ خوبصورت لڑکا اُس کے سامنے کھڑا، اُسے سوالیہ نظروں سے تک رہا تھا۔ عبدل کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ اس کا بیٹا سعیدا تھا۔ برسوں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، دیوانہ وار آگے بڑھا اور بے اختیار پکار اُٹھا:

’’میرے بیٹے۔۔۔ میرے سعیدے‘‘

وہ اُسے بانہوں میں جکڑے، سینے سے لگائے رو رہا تھا کہ اندر سے نسوانی آواز آئی۔

’’سعیدے بیٹے۔۔۔ کون ہے باہر؟‘‘

عبدل کو یوں لگا، وہ آواز نہ تھی، بجلی کا کوندا تھا جو اس کے بدن پر دوڑگیا تھا۔ آواز نوری کی تھی۔ بالکل ویسی ہی۔ بس اس میں کپکپاہٹ بھر گئی تھی۔ بارہ لمبے سالوں کی گرد بھی اس کے ذہن میں محفوظ نوری کی آواز کی پہچان نہ دھندلا سکی تھی۔ سعیدا عبدل کے سامنے حیرت کی تصویر بنا کھڑا تھا۔ نوری سعیدے کا جواب نہ پا کر خود دروازے تک آئی۔ عبدل نے نوری کو دیکھا تو یوں لرزنے لگا جیسے بارش کی زد میں آیا ہوا وہ خشک پتا لرزتا ہے جو خزاں زدہ پیڑکی کسی لرزیدہ شاخ پر کسی بھی پل ٹوٹنے والا ہوتا ہے۔

نوری کے ہاتھوں میں سہارے کے لیے لاٹھی تھی۔ اس لاٹھی سے وہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر قدم آگے بڑھا رہی تھی۔ ویران آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ ان سے نور کب کا رُخصت ہو چکا تھا۔ نوری نے ایک مرتبہ سعیدے سے پوچھا:

’’بیٹا بتاؤ نا! کون ہے تمہارے ساتھ؟‘‘

اِس سے پہلے کہ سعیدا کچھ کہتا۔ عبدل نے ایک فیصلہ کیا۔ یوں ہی واپس پلٹ جانے کا فیصلہ۔

وہ اس فیصلے کی کٹار سے اپنے وجود جو چیر کر جرم کے اِحساس کی شدّت کو کم کرنا چاہتا تھا۔

اُس نے اپنے بوجھل قدم اٹھائے، واپس پلٹا اور کہنے لگا، رک رک کر۔۔۔ یوں کہ جیسے لفظ زبردستی حلق سے باہر دھکیل رہا ہو:

’’جی مجھے غلط فہمی ہوئی۔۔۔ غلط جگہ پر آ گیا ہوں۔۔۔ دراصل میں کسی اور صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔۔۔‘‘

نوری نے یہ آواز سنی تو عبدل کی طرح اُسے بھی پہچاننے میں دیر نہ لگی تھی۔ کیا ہوا آنکھوں سے نور رخصت ہو گیا تھا مگر دل کے نہاں خانے میں، دماغ کے ایک ایک گوشے میں عبدل کی آواز اور تصویر دونوں اسی طرح سجی ہوئی تھیں، جیسے آج سے بارہ سال قبل تھیں۔ فوراً پکار اُٹھی:

’’بیٹا! تم نے پہنچانا نہیں، یہ تمہارے ابا ہیں۔ ہاں ہاں بیٹا تمہارے ابا‘‘

اس کے لہجے میں یقین تھا۔

عبدل ایک دم نوری کی جانب گھوما۔

بس ایک ساعت کے لیے اس کا چہرہ اور اس پر برستے یقین کے رنگوں کو دیکھ سکا۔ اور پھر اس کی جانب کٹے ہوے شجر کی طرح یوں گرا جیسے سجدہ سہو کر رہا ہو۔

ٍ

 

 

تماش بین

 

عورت اور خُوشبو ہمیشہ سے میری کمزوری رہے ہیں۔

شاید مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ عورت اور اس کی خُوشبو میری کمزوری رہے ہیں۔

یہ جو، اَب میں عورت کو بہ غور دیکھنے یا نظر سے نظر ملا کر بات کرنے سے کتراتا ہوں تو میں شروع سے ایسا نہیں ہوں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا، عورت اور اُس کی خُوشبو ہمیشہ سے مجھے مرغوب رہے ہیں۔

اس روز، جب وہ میرے آفس میں داخل ہوئی تھی، عورت کو چہرے کی بہ جائے نیچے سے اوپر قسطوں میں دیکھنے کی خواہش میرے اَندر شدّت سے مچل رہی تھی۔

ہوا یوں کہ میں نے جیفرے آرچر کی کہانیوں کی کتاب ’’اے ٹوسٹ اِن دی ٹیل‘‘ رات ہی ختم کی تھی اور اس کی کہانی جو ایمینڈا کرزن نامی دل کش دوشیزہ کے گرد گھومتی تھی، میرے حواس پربُر ی طرح چھائی ہوئی تھی۔

میں رات بھر وقفے وقفے سے خواب دیکھتا رہا۔ نامکمل خواب۔

نامکمل کی بہ جائے مجھے تشنہ کہنا چاہیے۔

پہلے سارے میں دھُند ہی دھُند ہوتی، پھر اُونچی ایڑی والے سیاہ جوتوں اور سٹاکنگ سے جھانکتی گوری گوری سڈول ٹانگیں نظر آتیں، پھر مجھے یوں لگتا جیسے کوئی شطرنج کی چال چل رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی خواب ری وائنڈ ہو کر ری پلے ہونے لگتا۔

ایک ہی منظر بار بار دیکھ کر میں خواب میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا۔ میں نے لڑکی کا پورا ہیولا دیکھنا چاہا مگر ہر بار میرا تصور ٹوٹ ٹوٹ جاتا۔

جب وہ میرے آفس میں داخل ہوئی تب تک میں اُس کہانی کے چنگل سے نہ نکلا تھا۔ اُس کی آواز سن کر چونکا تو اس کا چہرہ دیکھنے کی بہ جائے نگاہ اس کے قدموں کی طرف لپکی۔ میں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میں عموماً لڑکیوں کو کس ترتیب سے دیکھنے کا عادی رہا ہوں۔ ٹھہریے، مجھے سوچ لینے دیجئے۔ شاید میں پہلے ہونٹ دیکھتا ہوں گا۔ رس بھری قاشوں کی طرح سرخ، تر و تازہ چھوٹے بڑے، ادا سے کھلتے آپس میں جڑتے ہونٹ۔ یا پھر آنکھیں دیکھتا ہوں گا، گہری جھیل جیسی آنکھیں، بڑی بڑی آنکھیں کہ جن میں کائنات سما جائے۔ کالی، نیلی یا پھر بھوری آنکھیں۔ نہیں میرا خیال ہے میں چہرہ لخت لخت نہیں بل کہ مکمل دیکھتا رہا ہوں۔ جب کبھی کوئی چہرہ مجھے متاثر کرتا ہو گا تو اُسے مُفصَّل دیکھتا ہوں گا۔

لیکن یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی کو قدموں سے دیکھنا شروع کیا ہو۔ تاہم جیفرے آرچر کی کہانی کے زیر اَثر میری نظر اُس کے قدموں پر پڑی۔ ایمینڈا کرزن جب اس کلب کی عمارت میں داخل ہوئی تھی، جہاں شطرنج کا ٹورنامنٹ ہو رہا تھا تو اس نے اونچی ایڑی والے سیاہ ویلوٹ کے جوتے پہن رکھے تھے۔ میں گذشتہ رات اِنہی سیاہ جوتوں کے اُوپر گوری گوری سڈول پنڈلیاں دیکھتا رہا تھا۔ میں نے جب اُس کے قدموں کو دیکھا تو مجھے پہلا دھچکا لگا۔

اس کے پاؤں میں جو سینڈل تھے، وہ کبھی سیاہ رہے ہوں گے، لیکن کثرت اِستعمال اور پالش نہ ہونے کے سبب اب ان کا کوئی رنگ نہ تھا۔

دوسرا دھچکا مجھے اس وقت لگا، جب میں نے بے رنگ سینڈلوں میں سے جھانکتے سانولے پاؤں اور ٹخنے دیکھے۔ میں بے دلی سے اوپر دیکھتا چلا گیا۔

راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی جو میری نظر کو گرفت میں لے لیتی۔

ہاں، یہ بتانا تو میں ہی بھول گیا کہ جب میں نے جھولتے پائنچوں کے نیچے اس کے سانولے ٹخنوں کو دیکھا تھا ا ور گوری شفاف جلد کا تصور ٹوٹ گیا تھا، تو میرا باطن مشتعل ہو گیا تھا۔ دل کرتا تھا اُٹھوں اور اُس کے پائنچے نیچے کھینچ کر اُس کے سانولے ٹخنے، پاؤں اور بے رنگ جوتے اُن میں چھپا ڈالوں۔

میں جانتا ہوں یہ ایک بے ہودہ خیال تھا۔ مگر میں اس شاعرانہ خیال کا شدّت سے حامی رہا ہوں کہ۔۔۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔۔ ایسے رنگ جو میں اَدھورے اَدھورے گذشتہ رات خواب میں دیکھتا رہا تھا، اب دھنک کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے دیکھنا چاہتا تھا۔

غالباً میں یہ بتا چکا ہوں کہ ٹخنوں سے اُس کے چہرے تک بیچ میں رُکنے کا کوئی مَقام نہ آتا تھا۔

وہ آگے بڑھی اور میرے مقابل کرسی پر بیٹھ گئی۔

’’جی میں بشریٰ ہوں۔۔۔ شاہنواز کی بیوہ۔‘‘

شاہنواز کو میں جانتا تھا۔ میں کیا دفتر کا ہر فرد جانتا تھا۔

اِس تعارف کے بعد میں نے بشریٰ کو غور سے دیکھا۔ وہ کیا بات تھی کہ کمہاروں کی اِس لڑکی کے لیے شاہنواز کو اپنے خاندان کی لڑکی سے منگنی توڑ کر عزیزوں کی ناراضی مول لینا پڑی۔

میں نے آنکھوں میں جھانکا۔ بہ ظاہر آنکھیں کالی تھیں مگر بہ غور دیکھنے پر بھورا رنگ غالب آنے لگتا تھا۔ پلکیں اُٹھا کر جب وہ اُوپر دیکھتی تھی تو کوئی بھی دل والا اُن میں ڈوب سکتا تھا۔ چہرہ گول نہ لمبوترا، بھرا بھرا، سانولا مگر شفاف۔ منھ کا دہانہ چھوٹا تھا۔ ہونٹوں پر عموداً نفاست سے بنی لکیریں، یوں جیسے پیمانہ رکھ کر اور مناسب فاصلے دے کر کھنچی گئی ہوں۔ وہ بات ٹھہر ٹھہر کر کرتی تھی، ایسے کہ سیدھی دل میں جا اُترتی۔

یہ تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بشریٰ جیسی لڑکی کے لیے کچھ ناراضیاں مول لی جا سکتی تھیں۔

شاہنواز سے سب ناراض تھے مگر وہ بشریٰ کے ساتھ خُوش تھا۔

یہ بات اس نے کوئی ڈیڑھ برس پہلے تب بتائی تھی، جب اُس کی شادی کو صرف دو ماہ گزرے تھے۔ تب وہ میرے پاس صدر دفتر میں کام کرتا تھا۔ جب اُسے کوئی کام ہوتا تھا تو وہ بار بار سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا۔ منھ سے کچھ نہ کہتا۔ حتّیٰ کہ میں خود پوچھنے پر مجبور ہو جاتا۔

ایک روز وہ حسب معمول جب تیسری بار میرے سامنے چپ چاپ کھڑا ہو گیا تو میں نے معنی خیز نظروں سے اُسے دیکھا۔ اُس نے جیب سے تہہ کی ہوئی درخواست نکالی، اُسے سیدھا کیا اور میرے سامنے رکھ دی۔

وہ کینٹ برانچ میں تبادلہ چاہتا تھا۔

میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا:

’’وہ جی یہاں سے روز گاؤں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

اس نے یہ اس قدر شرماتے ہوے کہا کہ میں ہنسے بنا نہ رہ سکا۔

اس کا تبادلہ کینٹ برانچ ہو گیا۔

یہ تبدیلی اس کے حق میں بہتر ثابت نہ ہوئی۔کینٹ برانچ میں دن دہاڑے ڈاکہ پڑا۔گولی چلی اور وہ مزاحمت کرتے ہوے گولیوں کا نشانہ بن گیا۔

برانچ لٹنے سے بچ گئی تھی۔

مجھے شاہنواز کے مارے جانے کا بڑا دُکھ تھا۔ میں نے مناسب اِمدادی رقم کا کیس بنا کر اعلیٰ حکام کو بھیجا، جو منظور ہو گیا۔

میں نے مرحوم کی بیوہ کو اِطلاع کے لیے چٹھی لکھ دی۔

جب وہ آئی تو میں نے جیفرے آرچر کی کہانی زیر اَثر اُسے ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا۔ پھر جب وہ سامنے بیٹھ گئی اور دھیرے دھیرے گفتگو کرنے لگی تو مجھے اُس کے ہونٹوں کی جنبش بہت اچھی لگی تھی۔ اِس قدر اچھی کہ میں نے اُس روز اُسے چیک نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے اُس سے کیا گفتگو کی تھی۔ ہاں اِتنا یاد ہے کہ اُس کے شوہر کی ہمت اور جرأت کی تعریف کی تھی تو اُس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ یوں کہ مجھے اُس کے ہونٹوں پر توجہ مرکوز رکھنے میں دقت ہو رہی تھی۔ پھر جب اُس کے اور شاہنواز کے عزیزوں کا تذکرہ چھیڑا تو اس نے بتایا، اسے منحوس گردانا جا رہا تھا اور یہ کہ وہ بالکل اکیلی ہو گئی تھی۔ اُسے زمانے کے خراب ہونے کا بھی گلہ تھا۔ وہ اکیلی شہر آنا نہیں چاہتی تھی مگر کسی کو ساتھ لاتی تو کیسے ؟ کہ جوان جہان تھی اور لوگ تو ایسے ہی موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ لوگوں کی زبانیں بھلا کیسے بند کی جا سکتی تھیں ؟ لہٰذا وہ احتیاطاً کسی کو بھی ساتھ نہ لائی تھی۔

جب وہ زمانے کی خرابی کا ذِکر کر رہی تھی تو میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ میں خراب نہ تھا۔ میری خواہشات ہمیشہ سے بے ضرر رہی ہیں۔ میں فقط پھول کو دیکھتا اور خُوشبو سے مشامِ جاں معطر کرتا ہوں۔ ہنستی مسکراتی تر و تازہ چہروں والی لڑکیاں کسے اَچھی نہیں لگتیں مجھے بھی اَچھی لگتی ہیں۔ میں ذرا ہمت والا ہوں اور اُن سے راہ و رسم بڑھا لیتا ہوں کہ اُن سے باتیں کر سکوں۔ اُن کی آنکھوں میں جھانک سکوں اور اُن کے کھنکتے قہقہوں کے پھولوں سے سماعت کی کارنس کو سجا لوں۔

غالباً میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ بشریٰ اُس روز جلد ی میں تھی۔ اُسے خدشہ تھا، گاؤں جانے والی آخری گاڑی نکل جائے گی۔ مجھے اُس کی یہ بات اچھی نہ لگی تھی۔ جی چاہتا تھا، وہ کچھ اور بیٹھے۔ مگر جب وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے اس سے معذرت کی کہ چیک اُسے آج نہ مل سکے گا۔

میں نے اُسے آئندہ بدھ آنے کا کہا۔ وہ نہایت لجاجت سے کہنے لگی:

’’اس روز چیک ضرور مل جانا چاہئے کہ بار بار شہر آنا ممکن نہیں۔‘‘

میں نے اُسے یقین دلایا: ’’ایسا ہی ہو گا۔‘‘

مگر جب اگلا بدھ آیا، میں دفتر میں کچھ فائلیں نکال رہا تھا اور بشریٰ ابھی تک نہیں آئی تھی کہ شکیلہ کا فون آ گیا۔

وہی شکیلہ جو بات کرتی ہے تو اُس کے گال اُوپر کو اُچھلتے ہیں، ہنستی ہے تو آنکھیں میچ لیتی ہے اور بولتی ہے تو پہروں بولتے ہی چلی جاتی ہے۔

اُس کا فون بہت دنوں بعد آیا تھا۔ وہ شہر سے باہر تھی۔ اب آئی تھی تو چاہتی تھی، میں اِسی وقت دفتر سے نکلوں، اُسے پک کروں اور کہیں بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں سنوں۔

مجھے اس کی آفر اچھی لگی۔

میرے فرائض میں شامل ہے کہ میں وقتاً فوقتاً ذیلی دفاتر کو سرپرائز دوں۔ اُن کی کار کر دگی چیک کروں۔ لہٰذا میرا دفتر سے بغیر اِطلاع غائب ہو جانا بھی اِسی زمرہ میں آتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور وہ بیت گیا۔

شکیلہ جیسی لڑکی کا ساتھ ہو تو وقت پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے۔

اُس روز دوبارہ دفتر نہ جا سکا۔

اور اگلے روز جب میں دفتر پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ بشریٰ آئی تھی اور یہ کہ وہ دفتر بند ہونے تک اِنتظار کرتی رہی۔

’’مگر اس کی آخری گاڑی تو ساڑھے تین بجے جاتی تھی؟‘‘

’’جی۔ وہ بھی یہی کہتی تھی پھر بھی اِنتظار کرتی رہی‘‘

’’پھر کہاں گئی؟‘‘

’’جی پتہ نہیں۔‘‘

میں رات دیر سے سونے اور صبح دیر سے اُٹھنے کے باعث جلدی جلدی دفتر کے لیے تیاری کرتا ہوں۔ یوں نہ تو ناشتہ سکون سے کر سکتا ہوں اور نہ ہی اخبار پڑھ پاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دفتر آتے ہی پہلے اخبار پڑھتا ہوں۔

اخبار میرے سامنے تھا اور روز مرہ کی طرح سیاست دانوں کے بیانات، حادثات، قتل و اغوا کی خبریں شائع ہوئی تھیں۔ من چلے نوجوان، جو راہ چلتی لڑکیوں پر آوازیں کستے ہیں۔ نئے نئے طریقوں سے ستاتے ہیں۔ جدید ماڈل کی کاروں میں لفٹ دیتے ہیں۔ یا پھر سائلنسر اُترے شور مچاتے موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر آتے ہیں اور پرس لے اُڑتے ہیں۔ اِن مَن چلوں کی سرگرمیاں بھی اَخبارات کے چوکھٹوں میں جگہ پانے میں کام یاب ہو گئی ہیں۔ میں نے اَخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھ دیا اور ہاتھ فائلوں کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ بشریٰ آ گئی۔

اَب کے وہ آئی تو میرے اَندر اُسے نیچے سے اُوپر قسط در قسط دیکھنے کی مطلق خواہش نہ تھی۔ تاہم نہ چاہتے ہوے بھی میں اُسے اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر دیکھ رہا تھا۔ اور دل سینے کے اَندر ہی کہیں گہرا اور گہرا ڈوبتا جا رہا تھا۔

اُس نے دروازے سے کرسی تک کا فاصلہ یوں طے کیا تھا جیسے اُس پر صدیوں کی مسافت طے کرنے کی تھکن ہو۔

وہ کرسی پر گر گئی۔ نظر سیدھی اُس کے ہونٹوں پر پڑی تو کلیجہ منھ کو آ گیا۔

ہونٹ، یوں لگتا تھا، کسی نے چبا ڈالے تھے۔

اُس نے آنکھیں اُوپر اُٹھائیں۔ سوجی اور اُجڑی آنکھوں سے آنسو کب کے خشک ہو چکے تھے۔

میں بے قرار ہو گیا۔

’’خیریت تو ہے نا خاتون؟‘‘

’’خیریت؟‘‘

وہ سامنے خلا کو دیکھ رہی تھی۔

میرے اَندر بے شمار وسوسے سر اُٹھانے لگے، مگر پوچھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ میں نے گھنٹی دے کر چپڑاسی کو بلایا۔ اُسے چیک لانے کو کہا۔ اور جب وہ چیک لے آیا تو اُسے تھمانے کے لیے بڑھایا۔

’’یہ رہا آپ کا چیک‘‘

وہ سسک پڑی۔ منھ ہی منھ میں بڑبڑائی:

’’چیک۔۔۔ معاوضہ۔۔۔ کس بات کا؟۔۔۔ میرے شوہر کے مارے جانے کا

یا پھر۔۔۔ ؟‘‘

وہ اور کچھ نہ کہہ سکی۔ اپنے کٹے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔

اور مجھے یوں لگا جیسے اس کے گاؤں جانے والی آخری گاڑی مجھے روندتی کچلتی گزر رہی تھی اور میرے سامنے آخری بازی جیتنے والی ایمینڈا نہیں آخری بازی ہارنے والی ایک دوسری بشریٰ تھی۔

 

 

ٍ

نِرمَل نِیر

 

اِدھر اُدھر جَل تھا۔ جَل ہی جَل۔ پَوِتر جَھر جَھر گِرتا۔

وہ جو مدمتا تھی، مدمَاتی، مَدن مَد۔

وہ اِسی جَل میں اَشنَان کرتی، چھینٹے اُڑاتی، دوڑتی پھرتی تھی۔

اِس جَل کے بیچوں بیچ وہ جتنا آگے جاتی اتنا ہی جَل اور بڑھ جاتا۔

وہ تھی۔ بس وہ۔ اور جَل۔

ایک بگھی اُس کے واسطے تھی، رنس سے بنی ہوئی، جَگر جَگر کرتی۔

جِس کی راہ میں کوئی وِگھن نہ تھی

اس کے آگے بارہ بدلیاں جتی ہوئی تھیں۔

بدلیاں بھی ایسی، کہ جن کے پاؤں میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں، ہر دم، تازہ دم۔

لگامیں اُ س کے ہاتھ میں تھیں۔

وہ اِس جَل کے اُوپر اِس بگھی کو دوڑاتی پھرتی تھی۔ قہقہے لگاتی یا پھر ہنس ہنس کر دوہری ہو ہو جاتی۔

ایسے میں اُس کا سُندر بدن اور سُندر ہو جاتا۔

تارے جِھل مِل کرتے ساری کرنیں اُس پر نچھاور کر دیتے۔

اور لہریں اُچھل اُچھل کر اُس کا اَ نگ اَنگ چومنے لگتیں۔

تب وہ شانت ہو جاتی۔

کہ، وہ تھی ا ور جل تھا۔

جل تھا اور وہ تھی۔

ایک روز کہ وہ اپنے جوبن میں مست تھی۔

ایک کَنّی اُس پر اُتری۔

اُتری اور قطرہ بن گئی۔

قطرہ بن گئی اور ٹھہر گئی۔

پوری طریوں ٹھہری بھی نہ تھی، وہیں لرزتی جاتی تھی۔

اور عین اُس کے بیچ ایک رنس سمٹی ہوئی تھی جو، مَن کے بیچ کھبتی تھی۔

اس نے اپنے تئیں سوچا۔

کہ وہ تو اِس سَنمانی کَنّی کے سمان ہے قطرہ بننے والی، رنس سمیٹے ہوئے۔

تب اِسی طرح کی ایک اور کَنّی اُوپر سے بَرسی۔

وہیں پہلی کے آلے دوالے۔

دونوں ایک دوسرے کے اور کھسکیں اور مل گئیں۔

دو سے ایک ہوئیں۔

سنجوگ کیا ہوا، دونوں جواَب ایک ہو گئی تھیں، اپنے جَوبن پر آ گئیں۔

وہ جَل میں یوں ملیں کہ جَل اُن کی چَھب میں چھُپ گیا۔

یہ جَل اب سارے میں لہروں کی طرح اُچھلنے لگا تھا۔

اُس نے جانا یہ سارا جَل جو پہلے جھر جھر گرتا تھا، اور اَب اِدھر اُدھر شُوکتا پھرتا ہے، دو بوندوں کے سنجوگ کے سمان ہے۔

دو بوندیں، جو پہلے دو کنّیاں تھیں۔ اور اَب جَل ہی جَل تھا، شُوکتا، شور مچاتا، اُچھلتا کودتا۔

تب اُس کے بِھیتَر سے شانت نے شما چاہی۔

اور عجب طرح کی جوالا بھڑکنے لگی۔

اُسے اپنی سُرت نہ رہی۔

وہ شانتی جو اُس کی دھروٹ تھی، دو بوندوں کے کارن لٹ گئی تھی

وہ سوچتی:

ایک کَنّی جو بوند بنی، وہ تو وہ خود تھی مگر دوسری ؟

پھر اُسے چِنتا ہوئی:

وہ سمندر کے سمان کیسے ہو سکے گی؟۔۔۔ کیسے ؟؟۔۔۔ کیسے ؟؟؟

یہ جَل جو کبھی اُسے مَدھُو لگتا تھا۔

اَب اَگنی بن کر اُسے جلاتا تھا۔

اُس کے اندر سے ساری للک نچڑ گئی۔

ایک کلپنا تھی جو اُسے کلپاتی تھی۔

ایک ہی چِت تھی جس میں وہ اپنی بُدھ کھو بیٹھی تھی۔

اُس کی بڑھوتری اِسی جل میں ہوئی تھی۔

مگر اب اُسے لگتا تھا، وہ اور تھی اور جَل اور۔

یہ کیسا یُدھ تھا جو اس کے اندر ہو رہا تھا۔

اس نے لہروں کے ساز پر مَدھُمَات کو چھیڑا۔

یہ ُسر پہلے اُسے شانت کرتا تھا، اب تڑپانے لگا۔

عین اُس سمے اُس نے اوپر سے نیچے جھانک لیا۔

نیچے، بہت نیچے، ڈابھ کے اندر، ڈَابک کی چمک تھی، یوں کہ جھلک پڑنے پر آنکھیں چندھیاتی تھی۔

اُس نے جانا، پَرنتو، وہ ڈابک نہیں، اک کَنّی ہے دوسری کنی۔ قطرہ بنے اُس کی منتظر۔

اُس نے اپنی بگھی کی لگامیں اُس اور موڑ لیں۔

اور دھرتی پر اُتر آئی۔

ڈابک میں مِل جانا تو اس کے مقدّر میں نہ لکھا تھا، مَن میں جا اُتری۔

اور آنکھوں میں جا سمائی۔

اور اَب قطرہ قطرہ دامن بھگوتی رہتی ہے۔

 

 

ٍ

معزول نسل

 

جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اُس نے طے کر لیا تھا کہ وہ سب سے چھُپ کر گاؤں میں داخل ہو گی، چپکے سے صحن میں قدم رکھے گی پنجوں کے بل چلتی ہوئی اپنی ماں جائی صفو کے عقب میں جا کھڑی ہو گی اور ہولے سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھے گی:

’’بوجھو تو میں کون ہوں ؟‘‘

بالکل ویسے ہی جیسے کئی برس پہلے کے اُس سارے عرصے میں اُس کی بہن کو جب بھی موقع ملتا رہا تھا دبے پاؤں پیچھے سے آتی تھی اور اپنی نرم نرم ہتھیلیوں کو اُس کی آنکھوں پر دھر دیا کرتی تھی۔

عجب خیال تھا کہ جس کی لذّت اور سرشاری سے اُس کا سارا بدن بھیگ رہا تھا۔ اگر گزرتے وقت کا تعین یہی ہے کہ اس دورانیے میں کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے کا اِمکان پایا جاتا ہے تو اُس پر یہ عجب لمحہ ٹھہر سا گیا تھا۔ مُدّت پہلے ہو چکی ایک اٹکھیلی اپنی ہئیت بدل کر اس پر پھوار کی صورت برس رہی تھی۔ وقت کا پہیہ جس دھُرے پر گھوم رہا تھا، اُس کی دو طرفہ چال کے ہلکوروں میں عجب طرح کا کیف اور بے پناہ مستی تھی۔

گاڑی آگے ہی آگے جس سمت بھا گ رہی تھی اُدھر راہ میں ملکوٹ کا چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ وہیں سے اُسے امن پور جانا تھا۔ کیسے جانا تھا؟ یہ ابھی اُس نے نہیں سوچا تھا کہ اُسے ماضی کے ایک لمحے کو حال میں یا پھر حال کے لمحات کو ماضی میں بلو ڈالنے سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی تھی کہ وہ اگلی مسافت کی بابت سوچتی۔

اسٹیشن اور امن پور کے بیچ دو کوس کی مسافت پڑتی تھی۔ جن دنوں وہ اس گاؤں میں تھی تب اسٹیشن پر اُترنے والے لوگ پیدل ہی چل دیا کرتے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں اور شہر سے خریدے گئے سامان کو اپنی اپنی کھاریوں میں ڈال کر سروں پر رکھ لیتیں۔ مرد اپنے صافے کندھوں پر ڈالے وارث شاہ کی ہیر یا پھر بلھے شاہ کی کافیاں گاتے آگے آگے ہو لیتے۔ کچھ شوقین مزاج ماہیے  ڈھولے یا ٹپے کی لَے میں قدم بڑھاتے جاتے اور سفر کٹ جاتا۔ تاہم کسی کا کوئی خاص مہمان یا کوئی حکومتی کارندہ آ رہا ہوتا تو شکورا منذاتی اپنا اونٹ لے آتا جس پر کجاوا کس دیا جاتا۔ اونٹ جھٹکے دے دے کر قسطوں میں اُٹھتا تو سوار کی چیخیں نکل جاتیں۔ شکورا منذاتی سوار کو تسلیاں دیتا اپنے اونٹ کے اصیل ہونے کے گُن گاتا اُس کے نتھنوں کو چیر کر ڈالی گئی لکڑی کی مُنّی سی رنگین نکیل سے بندھی لمبی مہار کو دھیرے دھیرے تُنکا دیتا اور اُٹھ اُٹھ شاباش  اُٹھ، حکم اور لاڈ کے مِلے جُلے انداز میں یوں کہتا کہ اونٹ اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر دو کوس کی ریتلی مسافت پر مستی سے رواں ہو جاتا تھا۔

مشہور تھا کہ دو کوس کی یہ پٹی کبھی دریائے نیلان کے پانیوں کی گزرگاہ تھی۔ ایک ہی وقت میں نہیں  وقفے وقفے سے۔ جیسے گہری نیند میں کوئی پہلو بدلتا ہے  بالکل ایسے ہی نیلان پہلو بدلتا رہا تھا۔ کچھ اِس انداز سے کہ پہلے بہاؤ کی گزرگاہ پر ریت چھوڑتا چلا جاتا اور خود اپنے قدم چکنی اور دلدلی مٹی میں دھنسا لیتا۔ سرخ مٹی ٹھنڈے میٹھے پانیوں کی ننگی پنڈلیوں سے لپٹ جانے کی چاہ میں اپنی جڑوں سے اُکھڑ جاتی اور سنگلاخ پہاڑوں سے ذرّہ ذرّہ ٹوٹ کر اُترتی ریت وہاں بچھ بچھ جاتی۔ حتّیٰ کہ دو کوس کا یہ ٹکڑا پوری طرح ریت سے اَٹ گیا اور نیلان اپنا راستہ بدل کر امن پور کی دوسری سمت یوں بہنے لگا تھا جیسے گاؤں سے بہت دور عاشی کے دل کے بیچ ماضی کے گزرے لمحے اپنی جڑوں سے اُکھڑ کر محبت کے پر جوش پانیوں کے سنگ بہتے ہوے اُس پاٹ سے اپنی گزرگاہ بدل رہے تھے جو حال کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ پھسلتی خالی پن کی ریت سے اَٹ گیا تھا۔

عین اُس لمحے کہ جب گاڑی دو متوازی پٹڑیوں پر پوری رفتار سے آگے ہی آگے بڑھ رہی تھی، وہ اِس خالی پن سے نکل آئی تھی۔ اب وہ اُس لمحے کی لذّت میں اسیر تھی جس میں اُس کی بہن صفو کے ہاتھ اُس کی آنکھوں پر تھے اور اُس کی ہتھیلیوں کی نرم نرم تپش اُس کے پورے بدن میں اُتر رہی تھی۔

’’میں کون ہوں ؟‘‘

صفو کہتی تھی۔ حالاں کہ اُس کے ہاتھ اُس کی چغلی کھا جایا کرتے تھے اور یہ وہ خود بھی جانتی تھی مگر عاشی گاؤں بھر کی لڑکیوں کے نام ایک ایک کر کے گِنوانا شروع کر دیتی کہ اُسے ان لمحات کو طول دینے میں لطف آتا تھا۔ صفو ’’نہیں نہیں‘‘ کہتی جاتی اور وہ نام گِنوائے چلی جاتی حتّیٰ کہ وہ ہاتھ سمیٹ کر خود ہی سامنے کھڑی ہو جاتی اور پوچھنے لگتی :

’’تم جھوٹ موٹ کیوں نام گِنوائے چلی جاتی ہو ؟‘‘

تب عاشی، کچھ کہے بغیر، اُس کی نیل گُوں آنکھوں میں دیکھتی جنہیں دیکھنے سے اُسے یوں لگتا تھا جیسے نیلان کا سارا پانی اُن میں اُتر آیا ہو۔ پھر وہ اپنی بہن کے بھرے بھرے بدن سے لپٹ جاتی اور بے سبب ہنستی چلی جاتی۔

نمبردار فقیر محمد کی یہ دو بیٹیاں تھیں۔ دونوں اپنے باپ کی بہت لاڈلیاں۔ اُن تین مشکل ترین برسوں میں کہ جب لوگ کڑوا باجرہ کھانے پر مجبور تھے  یہ دونوں میٹھے باجرے کی ڈھوڈیاں اور وَصَلنیاں کھاتی تھیں۔ یہ باجرہ شوما کر اڑپِنڈی سے ملحق ایک گاؤں سے اپنی گدھی پر بطور خاص لاتا تو اُسے دو دن کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ سیاہ رنگ کی اُون سے بُنی ہوئی دوہری چَھٹ کے دونوں پلڑے گدھی کے اِدھر اُدھر جھول رہے ہوتے اور شوما کراڑ تھکاوٹ سے چور پاؤں گھسیٹتا گاؤں میں داخل ہوتا تو لوگ اُسے حسرت سے دیکھتے اور نمبردار فقیر محمد کی اُس محبت پر حیرت کا اِظہار کرتے جو اُسے اپنی بیٹیوں سے تھی۔

اتنی شدید محبت کا روگ تو اُن دنوں بیٹوں کے لیے پالنا بھی ممکن نہ تھا۔

مسلسل تین برس کی بے وقت بارشوں نے ہر بار کھلیان میں پڑے باجرے کے سِٹوں کو یوں بھگو ڈالا تھا کہ وہ گُمہرا گئے تھے۔ یہ اُن دنوں کا تذکرہ ہے، جب گندم کی کاشت عام نہ تھی کہ بیج بہت مہنگا تھا۔ سب جوار یا باجرے پر گزر بسر کرتے تھے۔ مگر گُمہر نے باجرے کے آٹے میں بھی کڑواہٹ بھر دی تھی۔

یہ کڑواہٹ ایک مرتبہ صفو کے حلق میں ناگوار ی بن کر اُتری تھی اور اُس نے پہلے لقمہ لینے کے بعد ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ عاشی باقاعدہ اِحتجاج کرتے ہوے اُٹھ گئی تھی۔

ماں نے یہ دیکھا تھا تو کہا تھا:

’’بیٹا خدا کا شکر ادا کرو جس نے یہ بھی عطا کیا ہے۔ اور ان کا سوچو جو بھوک سے بلک بلک کر مر جاتے ہیں۔‘‘

صفو نے جھینپ کر دوسرا لقمہ توڑ لیا تھا مگر عاشی کے ذہن میں گمہرائی ہوئی کڑواہٹ نے تلخی کی شدّت بھر دی تھی، کہنے لگی:

’’تُمبے مارے اِس اناج کو کھانے سے کہیں بہتر ہے آدمی مر ہی جائے۔‘‘

نمبر دار فقیر محمد جو اپنی بچیوں کو دیکھ دیکھ کر خُوش ہو رہا تھا یہ سن کر تڑپ اُٹھا۔ دونوں کو چھاتی سے لپٹا لیا اور کہا :

’’تمہیں میری زندگی بھی لگ جائے  ایسا بھول کر بھی نہیں کہتے۔‘‘

یہ کہتے ہوے اس کی آواز کپکپا گئی تھی۔ صفو اور عاشی کو یوں لگا جیسے اُن کے ابا کے اندر ہی اندر کوئی چھاتی پیٹ رہا ہو۔ دونوں نے ابا کے چہرے کی طرف دیکھا ہونٹ سختی سے بھنچے ہوے تھے  نتھنے تیز تیز سانسوں سے پھڑپھڑا رہے تھے اور آنکھیں کناروں تک بھر گئی تھیں۔

ماں اُس روز بہت ناراض ہوئی تھی۔ انہیں اپنے روّیے پر پشیمانی بھی تھی۔ شام کو ابا کہیں چلے گئے تھے اور اُنہیں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ماں سے اِس بابت پوچھتیں۔ رات بھر وہ سو نہ سکی تھیں تاہم اگلے روز جب ابا پلٹے تو چہرے پر پہلی جیسی محبت کی گرمجوشی کے رنگ دیکھ کر دونوں مطمئن ہو گئی تھیں۔ ابا نے بتایا، میٹھے باجرے کا بندوبست ہو گیا تھا۔

چاند کی چڑھتل کی ساتویں تھیں جب شوما کر اڑ آخری بار باجرے کی اُونی چھٹ گدھی پر لادے گاؤں میں داخل ہوا تھا اور چاند گھاٹویں کے ساتویں پر تھا کہ سانپ نے نمبردار فقیر محمد کو ڈس لیا۔ وہ اپنی بیوی سے بس اِتنا وعدہ لے سکا تھا کہ وہ بیٹیوں کا دھیان رکھے گی اور نیلاگھمٹ ہو کر مر گیا۔

رضیہ پہلے تو سُدھ بُدھ کھو بیٹھی ہوش آیا تو اُس وعدے کے ایفا میں جُت گئی جو نمبردار فقیر محمد نے اُس سے لیا تھا۔ وہ پہلے ہی بچیوں کا بہت خیال رکھتی تھی یتیم ہوئیں تو اُس نے اپنے کامل دھیان کی بُکّل میں دونوں کو اچھی طرح سمیٹ لیا۔

نمبردار فقیر محمد کے مرنے کے بعد بہت کچھ بدل گیا تھا۔ جب تک وہ زندہ تھا، لوگ اس کے مرحوم باپ کو خُوش بخت کہتے تھے کہ اُسے نمبرداری اور بیٹا دونوں ملے تھے۔ اس پر وہ بجا طور پر ناز بھی کیا کرتا کہ دونوں طاقت کی علامت تھے۔ ایک طاقت کا وجود دوسرا طاقت کی توسیع اور تسلسل۔ مگر فقیر محمد نے وراثت میں ملنے والی نمبرداری کو آمنے سامنے آ کر رُکتی اُن دیوارچوں کے باہر کھڑا کر کے بھُلا دیا تھا، جہاں اُس وقت دروازہ لگا دیا گیا، جب رضیہ اُس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔

رضیہ کیا تھی؟ سدا کی راضی بہ رضا۔ نمبر دار فقیر محمد بھولے سے بھی کہہ دیتا ’ذرا ٹھہرو، وہ وہیں ٹھہر جاتی اور شاید عمر بھر ٹھہری رہتی اگر نمبردار فقیر محمد کو اُس کا دھیان نہ آ جاتا۔ وراثت میں ملی نمبرداری کی کچھ تلچھٹ اُس کے بدن کے پیندے میں کہیں اگر رہ بھی گئی تھی تو اُسے رضیہ کے دھیان کی چھاننی نے چھان کر اُس کے وجود کو نتھار دیا تھا۔

جب نمبردار فقیر محمد سانپ کے کاٹے سے مرا تھا تو وہ تقسیم کا زمانہ تھا۔ امن پور فسادات سے محفوظ رہا تھا۔ تاہم ایک دو خاندان جو مکان خالی کر کے اُدھر سرحد پار سِٹک گئے تھے، اُدھر سے آنے والے اس میں بسنے کو آ پہنچے تھے۔

دائیں سمت دو گھر چھوڑ کر جو مکان تھا اُس میں سفیر احمد اپنی بیوی بیٹی اور بیٹے پر مشتمل مختصر سے خاندان کے ساتھ قابض ہو گیا تھا۔ پہلے پہل یہ لوگ بہت اجنبی اجنبی سے لگے مگر گاؤں والوں نے بہت جلد انہیں قبول کر لیا۔ سفیر احمد کی بیٹی عظمٰی صفو اور عاشی کی سہیلی بن گئی۔ میل جول بڑھا تو عظمٰی کی ماں بھی آنے جانے لگی۔ وہ پہروں رضیہ کے پاس بیٹھے باتیں کرتی جس کا غالب حصہ اس تشویش پر مشتمل ہوتا جو اُسے اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے لاحق تھی۔ اُس کا خیال تھا، گاؤں میں رہ کر بچوں کے آگے بڑھنے کے اِ مکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔

شہر منتقل ہونے کے فیصلے تک پہنچتے پہنچتے سفیر احمد اور اُس کی بیگم، دونوں اِس پر متفق ہو چکے تھے کہ اُنہیں اپنے بیٹے علیم کے لیے عاشی کا رشتہ طلب کرنا چاہیے۔ یوں تو اُنہیں صفو بہت اچھی لگتی تھی مگر نمبردار فقیر محمد نے اپنی زندگی ہی میں اُس کا رشتہ رضیہ کے اکلوتے بھانجے سلطان سے طے کر دیا تھا۔

اگلے چند برسوں میں بس اتنا موافق رہا کہ رضیہ اپنی دونوں بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو گئی۔ اس کے بعد حادثے پر حادثہ ہوتا چلا گیا۔ رضیہ اپنی ذمہ داری نباہنے کے بعد نمبردار فقیر محمد سے یوں جا ملی جیسے وہ اِسی اِنتظار میں تھی۔ سفیر احمد نے زرعی زمینوں کے لیے حکومت کو کلیم داخل کیا ہوا تھا جو منظور ہو گیا تھا۔ زمین ملی تو اس نے بیچ ڈالی۔ بہو کو باپ کی طرف سے معقول وراثت پہلے ہی مل چکی تھی۔ ماں کے مرنے کے بعد وہ مزید جائیداد کی حقدار ٹھہری۔ علیم نے اصرار کیا کہ موروثی مکان کے بدلے کچھ اور زمین کا مطالبہ کیا جائے۔ صفو کے شوہر سلطان کو یہ سب کچھ اچھا نہ لگا تھا مگر صفو نے فراخ دلی سے وہ سب کچھ دے دیا جو عاشی کے سسرال والوں نے طلب کیا تھا۔ شہر منتقل ہونے کے لیے اس سب کا بِکنا ضروری تھا۔ لہذا اس کا بھی سودا طے ہو گیا۔

اس کے بعد تو وقت نے جیسے پَر لگا لیے تھے حتّیٰ کہ وہ اتنی تیزی سے اُڑا تھا کہ پیچھے کرب کی ایک تیز دھار لکیر چھوڑتا چلا گیا۔ اتنی تیز دھار لکیر جو عاشی کے وجود کو چیرتی اور اُس کے پارچے بناتی چلی جاتی تھی۔ تاہم اب جب کہ وہ تیزی سے ملکوٹ کی سمت بھاگتی گاڑی میں بیٹھی وقت کے پہیے کی عجب چال کے ہلکورے لے رہی تھی تو اس درد اور کسک کو اُسی وجود میں چھوڑ آئی تھی جسے پارچوں میں بٹ کر وہ بھولے بیٹھی تھی۔

ملکوٹ کے اسٹیشن پر کچھ زیادہ گہما گہمی تھی۔ اُس نے سرسری اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی شناسا چہرہ نظر آ جائے۔ بیچ میں اتنا زیادہ وقت گزر چکا تھا کہ یوں سرسری دیکھنا کسی کو پہچان لینے کے لیے بہت ناکافی تھا۔ وہ اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکلی۔ یہاں بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔ یہاں وہاں کچھ دکانیں بن گئی تھیں۔ سوزوکیوں  ریہڑوں اور تانگوں والے بھی موجود تھے۔ یہ سب کچھ پہلے نہ تھا۔ ایک طرف ایک شخص اپنے اونٹ کے پاس اُکڑوں بیٹھا بے زاری سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ عاشی کے قدم خود بخود اُدھر اُٹھنے لگے۔ اونٹ والا ایک اجنبی سلجھی ہوئی بزرگ خاتون کو دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ عاشی کو پہلے تو شکورے منذاتی کا شائبہ پڑا۔ مگر وہ تب بھی اتنا ہی تھا جتنا یہ اونٹ والا اب لگ رہا تھا۔ وہ خود ہی اپنے خیال پر مسکرا دی۔ یہ یقیناً اس کا بیٹا ہو گا، اس نے تخمینہ لگایا۔ شکلو صورت اور ڈیل ڈول سے ایسا ہی لگتا تھا۔ پھر اونٹ کی موجودگی بھی اس کی تصدیق کیے دیتی تھی۔ عاشی نے قصداً اپنے چہرے کو دوپٹے کی اوٹ میں دیے رکھا کہ پہچانی نہ جائے۔

عاشی کجاوے میں بیٹھ گئی۔ دوسری طرف اس کا سامان اور ایک بھاری بھر کم پتھر رکھ کر وزن برابر کیا گیا۔ شتر بان راستے میں اُسے بتا رہا تھا کہ اُدھر دوسری جانب سے گاؤں تک سڑک جاتی ہے لہذا زیادہ تر لوگ موٹروں اور تانگوں پر گاؤں جانے لگے ہیں۔ وہ گزرے وقت کو اچھا کہہ رہا تھا جب اونٹوں کے طفیل اُس کے گھر میں خُوشحالی کی ریل پیل تھی۔ وہ جنگل سے لکڑیاں شہر پہنچاتا تھا اور شہر سے اسباب گاؤں لاتا۔ جب کہ گاؤں کے مہمانوں کو بلا اُجرت اسٹیشن لے جاتا اور لے آتا تھا، مگر اب تو صرف یہی اسٹیشن کی سواریاں رزق کا وسیلہ تھیں۔ جب وہ اپنے سارے دُکھ کہہ چکا تو اس نے پوچھا:

’’بی بی جی آپ کو کہاں جانا ہے‘‘

عاشی چُپ رہی۔ اُس نے اپنا سوال دہرایا تو عاشی نے الٹا سوال کر دیا :

’’ہم امن پور ہی جا رہے ہیں نا‘‘

’’جی جی‘‘

اُس نے تُرت جواب دیا تھا۔ امن پور کے نام پر شتربان نے پلٹ کر دیکھنے کی کوشش میں اوپر کا آدھا جسم موڑ لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔

جب وہ امن پور میں داخل ہوے تو عاشی کو لگا جیسے واقعی سب کچھ بدل گیا تھا۔ پھر جب اس نے نمبردار فقیر محمد کی حویلی کی سمت چلنے کو کہا تھا تو شتر بان نے ایک بار پھر چونک کر، اپنا بدن موڑا اور حیرت سے اُس کی سمت دیکھا۔ بزرگ خاتون نے چہرے کو دوپٹے کی اوٹ میں کیا ہوا تھا۔ شتر بان شاید کسی نتیجے پر پہنچ کر خود ہی خود مسکرائے جا رہا تھا۔

عاشی بھی خُوش تھی۔ سب کچھ اُس کی منشا کے مطابق ہو رہا ہے۔

اُونٹ جونہی اُس گھر کے پاس پہنچا جو کبھی اُس کا اپنا گھر بھی تھا تو عاشی کو اُسے پہچاننے میں ذرا دیر نہ لگی۔ اونٹ جب اچھی طرح بیٹھ گیا تو وہ کجاوے سے اُتری۔ اس نے کچھ رقم شتر بان کی طرف بڑھائی مگر وہ کہنے لگا:

’’میں جانتا ہوں آپ اللہ بخشے چاچا نمبردار فقیر محمد کی وہ بیٹی ہیں جو پناہ گیر بیاہ کر لے گئے تھے۔۔۔ وہی ہیں نا آپ؟‘‘

پھر اُس کے جواب کا اِنتظار کیے بغیر کہنے لگا:

’’آپ تو ہماری مہمان ہیں جی میں یہ نہیں لوں گا۔‘‘

اس نے اصرار سے مٹھی بڑھائے رکھی مگر شتر بان نے ہاتھ کے اِشارے سے روک دیا اور اس کا سامان اتارنے میں مصروف ہو گیا۔

عاشی گھر کی سمت بڑھی۔ اس کا دل مُدّت ہوئی ایک ہی رفتار سے دھڑکنے کی عادت میں مبتلا ہو چکا تھا مگر اَب کے اس زور سے دھڑکا کہ اُچھل کر حلق تک آ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور دروازے پر دھیرے دھیرے اپنی ہتھیلی کا بوجھ بڑھا گیا۔ دروازہ چرچڑاہٹ پیدا کرتا کھُل گیا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ شتر بان نے بھی ہاتھ بڑھا کر سامان اندر صحن میں رکھ دیا تھا۔ اُس نے گھوم کا چاروں طرف دیکھا، یوں لگتا تھا، جیسے یہاں وقت کی نبضیں بہت ٹھہر ٹھہر کر چل رہی تھیں۔ وہ اپنے قدموں پر جھکی اور جوتیاں اُتارنے لگی کہ اگلا فاصلہ اُسے پنجوں کے بل طے کرنا تھا۔ مگر جب اس نے کمر سیدھی کی تو حیرت اور دُکھ کی ایک نئی لہر سے اُس کی آنکھیں چوپٹ ہو گئی تھیں۔ ایک اِنتہائی بوڑھی عورت پَسار کی دیوار کے ساتھ پڑی لاٹھی ٹٹول ٹٹول کر تلاش کر رہی تھی۔ اُسے جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ یہ اُس کی اپنی بہن صفو تھی۔

ملنے  رونے اور رو رو کر ملنے کا طوفان تھما تو صفو کُرید کُرید کر پوچھنے لگی۔ اُس کے بارے میں۔ اُس کے بچوں کے بارے میں۔ علیم کے بارے میں۔ اور جب عاشی نے بتایا کہ علیم ایک مُدّت سے ملک سے باہر ہے  خوب پیسہ بھیجتا رہا ہے، دونوں بیٹے کارخانوں کے مالک ہیں  اپنے اپنے گھروں میں خُوش ہیں تو صفو نے خدا کا شکر ادا کیا تھا اور اس کی خُوش بختی پر ناز کیا تھا۔

تاہم عاشی نے جان بوجھ کر نہ بتایا تھا کہ علیم نے شہریت کے حصول کے لیے وہاں ایک اور شادی کر لی تھی اور مستقل طور پر وہیں سیٹل ہو گیا تھا۔ بیٹے جب بھی اُسے ملنا چاہتے تھے جا کر مل آتے تھے۔ اور یہ کہ بچے اپنی اپنی زندگی سے اس قدر مطمئن ہو گئے تھے کہ اِس اطمینان کے بیچ ماں کو اپنا وجود بے مصرف لگنے لگا تھا۔ اور یہ بھی کہ بیٹوں کی یہی وہ بے اعتنائی کی ریت تھی جس نے اس کے اندر کے بہتے پانیوں کا رُخ موڑ دیا تھا۔ اور اب وہ گاؤں میں تھی۔ اپنی بہن صفو کے پاس۔

مگر صفو کہاں تھی اس نے دُکھ سے سوچا اور اُس کی آنکھیں ایک بار پھر آنسوؤں سے بھر گئیں۔

وہ دونوں پسار ہی میں بیٹھ گئی تھیں۔ اندر سے لرزتی آواز آئی:

’’صفو کس سے باتیں کر رہی ہو۔‘‘

صفو چونک کر اُٹھی، لاٹھی کا سہارا لیا پھر اُس کا ہاتھ تھام کر لاٹھی ٹیکتی اندر داخل ہو گئی۔ یوں کہ عاشی اُس کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اندر قدرے تاریکی تھی اُسے دیکھنے کے لیے آنکھوں کو پورا کھولنا پڑا۔ چارپائی پر ہڈیوں کا ایک ڈھانچ پڑا تھا جس سے صفو مخاطب تھی۔

’’یہ بہن ہے میری عاشی۔ ابھی ابھی آئی ہے۔ دیکھو تو کیسی لگ رہی ہے ؟

میری آنکھیں تو اس کی راہ دیکھتے دیکھتے پھوٹ گئیں۔ تم ہی بتاؤ نا کیسی ہے ؟‘‘

ہڈیوں کے ڈھانچ میں حرکت ہوئی چہرے کے دانت اور آنکھیں چمکنے لگیں۔ کچھ ہمت کر کے وہ بیٹھنے میں کام یاب ہو گیا دو چار سانسوں کو اوپر نیچے کر کے ہاتھ عاشی کی سمت بڑھایا اور کہنے لگا:

’’مجھے مل تولینے دے بھلیئے۔ بتاتا ہوں، ابھی بتاتا ہوں، کیسی لگ رہی ہے ہماری بہن۔

جی آیاں نوں۔ بیٹھو جی۔ کتنی بڑی ہو گئی۔۔۔ ہیں۔۔۔ آپ۔‘‘

اس کا لہجہ بات کرتے کرتے بیچ ہی میں مؤدب ہو گیا تھا۔ وہ پائنتانے بیٹھ گئی۔ صفو اپنے شوہر کی پشت پر ہاتھ پھیرتے وہیں ٹک گئی اور اصرار کر کے پوچھنے لگی۔

’’بتاؤ نا !کیسی لگ رہی ہے میری بہن۔‘‘

وہ ہنسا یوں کہ ہنسی کھانسی کی کھائی میں پھسل گئی۔ سنبھلا اور کہنے لگا:

’’جھلیے، کیسے بتاؤں ؟ کیا بتاؤں ؟ بالکل تمہارے جیسی ہیں یہ بھی۔ بس اتنا فرق ہے کہ جو روشن چراغ تمہارے اندر ہیں، وہی ان کے چہرے پر سجے ہوے ہیں۔‘‘

صفو نے اس کی پشت پر سر رکھ دیا۔ کہا:

’’کتنے اچھے ہیں آپ۔‘‘

اور اطمینان کی ایک لہر اُس کے پورے وجود میں سرایت کر گئی۔ سر اُٹھا کر چہرہ ا ُس کے قریب لائی اور کہا:

’’آپ کی ان ہی باتوں نے تو مجھ بے اولادن کو عمر بھر نہال کیے رکھا ہے۔‘‘

صفو کی بات سن کر وہ زور سے ہنسا۔ اِتنی زور سے کہ اُس کی کھانسی ایک دفعہ پھر اُچٹ کر باہر گرنے لگی۔

کتنی تکلیف سے ہنسا تھا وہ، مگر کتنی خالص اور بے ریا ہنسی تھی۔ عاشی نے سوچا تھا۔

پھر وہ جھوٹ موٹ ڈانٹنے لگا۔

’’بکواس نہ کر ہاں بکواس نہ کر۔‘‘

عاشی کو لگا، اس ڈانٹ میں بھی بے پناہ اپنائیت تھی۔ اب صفو کے ہنسنے کی باری تھی۔ وہ ہنسی کے فوارے کو روک کر کہنے لگی:

’’میں بکواس نہیں کر رہی اولاد ہوتی تو تمہارا سہارا بنتی۔‘‘

بات مکمل کرنے سے پہلے ہی ہنسی کا فوارہ رُک چکا تھا۔ سلطان کا چہرہ تن گیا۔ کہنے لگا :

’’خدا، اور تمہارے سہارے کے بعد مجھے کسی اور سہارے کی تمنا کبھی نہیں ہوئی۔ اُس کا شکر ادا کرو کہ ایک دوسرے کے لیے ہم ہیں۔ اگر اولاد ہوتی اور ہمیں نہ پوچھتی یا پھر ہم دونوں کے بیچ دیوار بن جاتی تو کیا یہ حیاتی موت سے بھی بدتر نہ ہو جاتی۔‘‘

صفو کی بے نور آنکھیں چھلک کر بہنے لگیں۔ عاشی کو اپنی زندگی کے گُمہر کی کڑواہٹ اور تلخی اپنے حلق میں محسوس ہوئی۔ اُسے یوں لگنے لگا تھا جیسے محبت سے چھلکتے اِن دو وجودوں کے بیچ وہ خود بھی لگ بھگ اتنی ہی اضافی ہو گئی تھی جتنی کہ وہ اپنے بیٹوں کی مصروفیتوں کے بیچ اِضافی تھی۔

 

 

ہار جیت

 

جب اُن کا باپ مر گیا تھا تو ساری اُونچ نیچ کو بڑے نے سنبھال لیا۔چھوٹا پہلے بھی لاڈلا تھا اب بھی رہا۔ گویا بڑا بھائی نہ تھا، باپ تھا۔ مگر وہ ایسا باپ تھا کہ اُس کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔

اور اماں روشاں کا خیال تھا بڑے کو ایک اور شادی کر لینی چاہیے۔

اماں روشاں کو شیر خان کی بیوی سے ہم دردی تھی۔ وہ اُس کی اپنی سگی تھی۔ اُسے بڑے چا ہوں سے بیاہ کر لائی تھی۔ مگر صرف ہم دردی سے آنگن میں بچوں کی چہکاریں تو نہیں گونج سکتیں نا!وہ چاہتی تھی، شیر خان اُس کی بات مان لے اور دوسری شادی کر لے شاید نئی کے بھاگوں گھر کا سونا آنگن بھر جائے اور وہ سکون سے مر سکے۔

وہ سکون سے یوں ہی مر جاتی مگر گاؤں والے اُسے سُکھ سے جینے ہی نہ دیتے تھے اور بیٹے کو دوسری شادی کرا دینے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔

وہ بڑی شا کرو صابر تھی مگر عمر کے ساتھ ساتھ صبر بھی اُس کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔

شیر خان اور فیروز خان، دو ہی اُس کے بیٹے تھے۔ جب وہ شیر خان کے فرض سے سبک دوش ہوئی تب اُس کے سر کا تاج سلامت تھا۔ اُس کے لیے اپنی مرحومہ بہن کی بیٹی ملکانی لے آئی تو فیروز خان کے لیے سوہنی سی کڑی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔ ممکن ہے وہ فیروز خان کے لیے گوہر مقصود پا لیتی مگر بیو گی کے دُکھ نے اُسے آلیا تھا۔ اس دُکھ سے سنبھلنے تک چار پانچ سال گزر چکے تھے۔ گزر چکے وقت نے اُسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہا ُسے فی الحال فیروز خان کی بہ جائے شیر خان کے لیے ایک اور رشتہ تلاش کرنا چاہیے۔

یہ بات نہ تھی کہ فیروز خان کو کوئی اپنی لڑکی دینے کو تیار نہ تھا۔ بل کہ یوں ہے کہ وہ ابھی لنگوٹ کَسے رکھنا چاہتا تھا کہ اُسے ابھی بڑے بڑے پِڑ مارنے تھے۔

شاید فیروز خان مان ہی جاتا اگر اُس کی ماں زیبو کے گھر جاتی اور اُسے اُس کے لیے مانگ لیتی۔ ایک زیبو ہی تھی جس کے اَندر صلاحیت تھی کہ وہ اس کے کسے ہوے لنگوٹ کے بند ڈھیلے کروا سکے اور اُسے اَکھاڑے سے باہر کھینچ لائے۔

ابھی اماں زیبو کے گھر نہ گئی تھی اور فیروز خان میں بھی اتنی ہمت نہ پیدا ہوئی تھی کہ وہ اماں کو زیبو کے گھر چلنے کا مشورہ دے سکے۔ پھر اماں بھی اب اس کی بہ جائے شیر خان کے بارے میں فکر مند رہنے لگی تھی۔ لہٰذا اپنے لیے اماں کو بھیجنا اُس کے دھیان کو اپنی طرف موڑنا تھا جب کہ وہ خود بھی چاہتا تھا کہ اس کے بھائی کو دُنیا کی تمام نعمتیں مل جاتیں کہ وہ اس کا بھائی نہ تھا باپ تھا۔

وہ جو بھائی نہ تھا باپ تھا، اُس نے سارے حق اَدا کرنے کا گویا تہیہ کر رکھا تھا۔ زمینوں کی دیکھ بھال، فصلوں کی کاشت برداشت، مقدموں کی پیروی وکیلوں کی فیس، برادری کے جھگڑے اور گھر کے بکھیڑے، اِن سب سے فیروز خان کا کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ تو بس صبحو شام اَکھاڑے میں رہتا، اُسی کی بابت سوچتا تھا۔

شیر خان بھی یہی چاہتا تھا وہ ہر اکھاڑا جیتے کہ ُاسے ایک آخری معرکہ سر کرنا تھا۔

وہ آخری معرکہ خانو تھا کہ جسے اُسے پچھاڑنا تھا۔

خانو کڑیل جوان تھا۔ گزشتہ کئی سالوں سے جیتتا چلا آ رہا تھا اور اب تو کچھ یوں لگنے لگا تھا جیسے جیت اس کی تلاش میں رہتی تھی۔

شیر خان چاہتا تھا فیروز خان کوا ُسے شکست دے۔

جو شیر خان چاہتا تھا وہی کچھ زیبو بھی چاہتی تھی۔

فیروز خان کو یہ بات تب پتہ چلی جب وہ گھبرائی ہوئی آئی اُس کی راہ روکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب وہ خوب رو چکی اور اُس کی سسکیوں میں لفظوں کی گنجائش پیدا ہو گئی تو اس نے کہا تھا:

’’فیروزے میرا اَبا مجھے مار ڈالے گا۔‘‘

’’مار ڈالے گا، آخر کیوں ؟‘‘

’’وہ مجھے خانو کے پلے باندھنا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا، تو۔۔۔ تو میں مر ہی جاؤں گی نا!‘‘

فیروز خان کے لیے یہ اطلاع بھی موت کے فرشتے سے کم نہ تھی۔ وہ زیبو کو دیکھتا رہا اور اس کا دل بیٹھتا چلا گیا۔ روتی ہوئی زیبو یک دم بپھر گئی، اُسے گریبان سے پکڑ لیا اور جھنجھوڑ ڈالا۔

’’فیروزے اگر تم ہمت ہار بیٹھے تو میں سچ مچ مر جاؤں گی۔ خود کو مار ڈالوں گی، کنویں میں چھلانگ لگا کر، چھت سے کود کر، یا پھر نہر میں ڈوب کر‘‘

فیروز خان کے لیے زیبو کے یہ جملے گویا حوصلے کے لبالب چھنّے تھے۔ اُس کے حواس درست ہوے اور اُس نے ہمت سے کہا۔

’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

زیبو نے اُسے بازو سے پکڑا، کھینچتے ہوے کھیت کی منڈیر پر بیٹھ گئی اور یوں بولنے لگی جیسے اس کی آواز بہت دور سے آ رہی ہو:

’’فیروزے، تم خوب جانتے ہو میرا ابا اکھاڑے میں پلا بڑھا ہے اور ساری حیاتی اکھاڑا اُس کے حواس پر سوار رہا ہے۔ ابا کہتا ہے خانو اِس پنڈ کی عزت ہے، اُس جیسا کڑیل جوان اِرد گرد کے کسی بھی گاؤں میں نہیں۔ ہونہہ، کیا سمجھتا ہے خانو کو؟ جب سے چوہدری فتح علی کے گاؤں جا کر شرفو کو پچھاڑا ہے اس نے، بس اسی روز سے ابا کی زُبان پر صبحو شام خانو ہی کا نام ہے۔ کل رات پچھلے پہر اتفاقاً میری آنکھ کھل گئی۔ ابا اور اماں سرگوشیوں میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میں بھی دم سادھے سننے لگی۔ پتا ہے ابا کیا کہہ رہا تھا اماں کو؟‘‘

فیروز خان نے زیبو کو دیکھا اور چپ چاپ اُسے دیکھتا رہا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ زیبو نے اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر دُور خلا میں گھورتے ہوے کہا:

’’ ابا کہہ رہا تھا، خانواس پنڈ کی عزت ہے اور یہ کہ میری اور اُس کی جوڑی خوب جچے گی ہونہہ۔ ہائے اللہ میں تو مر ہی جاؤں گی اگر ایسا ہو گیا تو۔‘‘

فیروز خان اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا۔ اُس کی مٹھیاں بھنچ گئیں اور اس نے لفظوں کو چباتے ہوے کہا:

’’زیبو نہ تم مرو گی نہ میں۔ میں خانو کو ہی مار ڈالوں گا‘‘

’’تم اُسے مار ڈالو گے ؟‘‘

زیبو نے چونکتے ہوے کہا۔

’’ہاں، ہاں۔ میں اُسے قتل کر ڈالوں گا‘‘

زیبو اُس کے مقابل کھڑی ہو گئی۔ اس کی ننھّی مُنّی ناک کے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے۔ شہابی رخسار خُون کی حدّت سے تمتمانے لگے اور جھیل جیسی گہری آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھر گئی تھیں۔

’’تم اُسے مار ڈالو گے خوب! خود پھانسی چڑھ جاؤ گے، اور میں ؟‘‘

وہ اپنی سسکیوں پر ضبط کا بند نہ باندھ سکی اور گاؤں کی جانب تقریباً بھاگتی ہوئی چل پڑی۔ فیروز خان کے دماغ میں بھونچال اُٹھ رہے تھے۔ زیبو اور خانو۔ یعنی زیبو اس کی زندگی اور خانو۔ وہ اِس کے آگے سوچ نہ سکتا تھا۔ وہ بڑبڑایا:

’’ایسا نہیں ہو گا‘‘

’’ایسا ہو جائے گا؟‘‘

اُسے اپنی عقب میں زیبو کی آواز سنائی دی۔ وہ جانے کب واپس آئی تھی اور کہہ رہی تھی:

’’تمہارے یوں کہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ میرا اَبا اپنی دھُن کا پکا ہے۔ اُدھر گندم کی فصل اُٹھے گی اور اِدھر۔ ہاں یہی کہہ رہا تھا ابا۔‘‘

اِتنا کہہ کر وہ پھر سسک پڑی اور پہلے ہی کی طرح دوڑتی ہوئی اپنے گاؤں کی راہ ہولی۔

فیروز خان اُسے جاتے دیکھتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ پلٹ آئے مگر وہ اس بار پلٹ کر نہیں آئی۔

’’اُدھر گندم کی فصل اُٹھے گی اور اِدھر۔‘‘

یہ جملہ مسلسل اُس کے ذِہن میں گونج رہا تھا۔

اُس کی آنکھوں سے آنسو اُبل پڑے۔ اُسے اپنا وجود نمک کی طرح گھلتا محسوس ہوا۔ وہ وجود جو اُس نے بڑی ریاضت اور محنت سے بنایا تھا۔

’’ایسا ہو جائے گا۔‘‘

اُسے اپنے عقب سے زیبو کی آواز سنائی دی۔ وہ جلدی سے مڑا مگر وہاں زیبو نہ تھی فقط اُس کے خدشوں کی گونج تھی۔ اِس گونج نے اُس کے خُون کی حدّت بڑھا دی۔ وہ دانت چبا کر بڑبڑایا:

’’ایسا نہیں ہو گا۔ میں اس کتے ّ کے پِلّے کو قتل کر دوں گا۔‘‘

وہ بے شک جی دار تھا۔ بڑے سے بڑے جوان کو پِڑ میں پچھاڑ دینے کا حوصلہ رکھتا تھا مگر کسی کو قتل کرنے کا خیال اُس کے دل میں پہلی مرتبہ اُترا تھا۔

’’قتل؟‘‘

اُس کے اندر یہ لفظ زور سے گونجنے لگا۔

اُس نے اَندر کی گونج پر بڑبڑاہٹ کا پتھر پھینکا:

’’ہاں ہاں قتل‘‘

وہ اپنے تئیں بڑبڑایا تھا مگر اُسے یوں لگا، جیسے اُس کی بڑبڑاہٹ چیخ کی طرح فضا میں چاروں طرف گونجنے لگی تھی۔ اُس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ گونج اُس کے اَندر وجود کی دیواروں سے ٹکرانے لگی۔ دفعتاً ایک ایسا جملہ جو وہ بچپن سے سنتا چلا آیا تھا، سرگوشی کی طرح اُس کے اندر سرسرایا:

’’ایک بے گناہ شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔‘‘

’’بے گناہ، اَخ تھو۔‘‘

اُس نے زمین پر تھوک دیا اور گیلی ہو جانے والی مونچھوں کو ہتھیلی کی پشت سے کلائی تک رگڑ کر صاف کرتے ہوے یوں مطمئن ہو گیا جیسے اس نے زمین پر نہیں خانو کے منھ پر تھوک دیا ہو۔

’’زیبو، میری زیبو کو مجھ سے چھیننے والا بھلا بے گناہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس مردُود کا قتل تو عین واجب ہے۔‘‘

وہ بڑبڑایا۔ اس کی بڑبڑاہٹ میں اِشتعال بھی تھا اور جھنجھلاہٹ بھی۔ اور اس نے جانا اُس کی بڑبڑاہٹ مکمل ہو گئی تھی۔ مگر آخری جملہ انجانے میں اُس کے ہونٹوں پر ایک مرتبہ پھر پھسلنے لگا۔ کچھ رُک رُک کر:

’’عین واجب ہے ؟‘‘

اب وہ اپنے آپ سے کشتی لڑ رہا تھا۔

’’زیبو کو اُس کے باپ سے مانگ لینے پر خانو گناہ گار اور واجب القتل کیسے ہو گیا؟‘‘

’’زیبو تو میری تھی۔‘‘

’’تمہاری تھی مگر کیسے ؟ کیا اُس کا رشتہ تم سے طے ہو گیا تھا۔‘‘

’’رشتہ؟ نہیں۔۔۔ مگر‘‘

وہ بے بسی سے تڑپا۔

’’کچھ بھی ہو میں زیبو کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

خانو بھی قتل نہ ہو اور زیبو بھی نہ چھوٹے۔ وہ اِس اِمکان پر سوچنے لگا اور بے بسی کے جال میں الجھتا چلا گیا۔

زیبو اور خانو۔

خانو اور زیبو۔

فقط دو نام تھے، جو اُس کے ذِہن میں گونج رہے تھے۔ اور بے بسی تھی جو اسے اپنے شکنجے میں کسے ہوے تھی۔

وہ رو پڑا۔ بلک بلک کر، بالکل بچوں کی طرح۔

اُس نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ اُسے شک گزرا تھا کہ شاید کوئی ہے، مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ پھر اپنی بے بسی کے اَکھاڑے میں چت لیٹ گیا۔ اس نے رہی سہی ہمت یکجا کی۔ دل کو سنبھالا دیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کی ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں۔ پیپل کے تنے کا سہارا لیا۔ اُس کی نظر گندم کی اَنگڑائی لیتی فصل پر پڑی اور اس کے چاروں جانب زیبو کی آواز گونجنے لگی:

’’ اُدھر گندم کی فصل اٹھے گی اور ادھر‘‘

وہ گھٹنوں کے بل جھک گیا۔ ہاتھ بڑھا کر گندم کے ایک خُوشے کو توڑا اور دونوں ہتھیلیوں کے بیچ مسل ڈالا۔ دودھ بھرے کچے دانے اس کی ہتھیلی میں چمکنے لگے۔ اُس نے غور سے دانوں کو دیکھا اور اسے جھر جھری آ گئی۔ اس نے زور سے مٹھی بھینچ لی۔ اُسے لگا، جیسے دانے اُس کی ہتھیلی کے اَندر اُس کی جلد میں چبھتے چلے جا رہے تھے۔ اس نے بند مٹھی کو فضا میں گھماتے ہوے دانوں کو دور اُچھال دیا اور بے بسی سے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ ہتھیلیوں کی لکیریں گڈمڈ ہونے لگیں۔ آنکھیں آنسوؤں سے ایک بار پھر بھر گئیں۔ اُس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور گڑگڑا کر دُعا کرنے لگا:

’’اے خدا، خود ہی کوئی صورت پیدا کر۔ یا پھر یوں کر، کہ فصل کٹنے کو پہنچے تو خوب خوب بارشیں ہوں، ژالہ باری ہو، جھکڑ چلیں، آندھیاں اندھیر مچائیں اور ساری فصل تباہ و برباد ہو جائے۔

اے خدا، اس دفعہ گندم کو بیماری لگ جائے، آگ جلا کر راکھ کر ڈالے۔

اے خدا، پکھیرو بھیج کہ ساری فصل چگ لیں یا پھر فصل کٹ چکے تو سیلاب بھیج دے جو ساری گندم بہا لے جائے۔‘‘

نہ جانے وہ کیا کچھ دعاؤں میں مانگتا رہا حتیٰ کہ چپکے سے شرمندگی اُس کی دعاؤں پر غالب آنے لگی اور وہ اپنی دعاؤں پر پچھتانے لگا۔

’’میں کتنا خود غرض ہوں دوسروں کے لیے عذاب طلب کر رہا ہوں۔۔۔ توبہ توبہ‘‘

اُس نے سنا تھا کسی کو بَد دُعا دینے سے اپنے دل کی زرخیز زمین بنجر ہو جاتی ہے اور دل کی زمین بنجر ہو تو محبت کی فصل نہیں اُگ سکتی۔ اس نے اپنے دل کو ٹٹولا۔

اُس کا دل تو محبتوں کا خزینہ تھا۔

خانو کے لیے وہ پہلی نفرت تھی جس نے اُسے تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔

’’خدا نہ کرے کہ دل سے محبتیں رخصت ہو جائیں۔‘‘

وہ بڑبڑایا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے دل کو ٹٹولا۔ اُس کا دل اَب بھی محبت سے لبالب بھرا ہوا تھا۔

وہ اِس خیال سے ہی لرز گیا تھا کہ اُس کے دل سے زیبو کی اس محبت کی فصل اُجڑ جائے جو اس کے دل میں لہلہا رہی تھی یا اس کی ماں کی محبت باقی نہ رہے جو اُس کے لیے پل پل دُعائیں مانگتی تھی یا پھر وہ بھائی کے لیے محبت سے محروم ہو جائے جس نے اُسے تمام بکھیڑوں سے آزاد کر رکھا تھا۔ اسے یاد آیا خانو کی مات تو بھائی کی بھی خواہش تھی۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جب بھی وہ کوئی کشتی جیت کر آتا تھا تو شیر خان یہی کہتا تھا :

’’فیروز خان اب تمہارا اگلا پڑ خانو سے پڑنا چاہیے‘‘

مگر شاید ابھی اس کا مرحلہ نہیں آیا تھا۔ ابھی اُسے اور تیاری کرنا تھی۔

اور وہ تیاری کرتا رہا۔ منھ اندھیرے اُٹھتا، گھنٹوں ڈنڑ پیلتا، سرسوں کے تیل کی مالش کراتا، کئی کئی میل دوڑتا، اکھاڑے میں دوسروں سے زور آزمائی کرتا۔ وہ چاہتا تھا خانو کے مقابل آئے تو اس کے بڑے بھائی کو مایوسی نہ ہو۔

وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے بھائی کو ذرا سا بھی دُکھ پہنچے۔ وہ اپنے اس بھائی کے لیے جان تک قربان کر سکتا تھا جس کی شفقتوں کی گھنی چھاؤں اُسے ملی تھی۔ لہٰذا وہ تیاری کرتا رہا۔

مگر خانو عجیب انداز سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

وہ چاہتا تھا کہ خانو کو اُٹھا کر پرے پٹخ دے اور اس کی چھاتی کو قدموں تلے روندتا ہوا اس پار زیبو کے پاس پہنچ جائے۔ اگرچہ اس کی تیاری مکمل نہ تھی مگر گندم کے خُوشوں میں دودھ بھرے دانے اپنا رنگ بدل رہے تھے اور اس کے پاس وقت بہت ہی کم تھا۔

وقت کتنی تیزی سے گزر گیا تھا

زیبو جو کبھی انار کے اَدھ کھلے پھول کی طرح تھی، گلیوں میں سُرخ سا فراک پہنے گھومتی رہتی تھی، اُس کی نظروں کے سامنے بڑھتی بڑھتی سرو قد ہو گئی تھی۔ وہ اُسے ہمیشہ اَدھ کھلے اَنار کے پھول جیسا سمجھتا رہتا کہ اک روز جب وہ پانی کے دو گھڑے بھر کر، ایک بغل میں اور دوسرا سر پر رکھے، گاؤں کی طرف جا رہی تھی کہ بے دھیانی میں فیروز خان سے ٹکرا گئی۔ گھڑے زیبو کی گرفت سے نکل گئے اور دونوں کے بدن بھگوتے زمین پر چکنا چور ہو گئے۔ زیبو بوکھلا گئی، شرم سے گال مزید سرخ ہو گئے۔ اُس نے فیروز خان کو دیکھا تو وہ پلک جھپکائے بغیر اُسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی نظروں کا سامنا نہ کر پائی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔

وہ اُسے بھاگتے ہوے دیکھتا رہا۔

اسے تب پتا چلا تھا کہ جوانی کیا ہوتی ہے۔

اس نے پہلی مرتبہ اپنے اندر بھی جوانی کو محسوس کیا۔

فیروز خان عجب مخمصے میں تھا۔

اِس سے پہلے اُسے اِحساس کیوں نہیں ہوا کہ زیبو اس قدر حسین تھی۔ اِتنی حسین کہ خود اس کے اندر سوئی جوانی کو انگڑائیاں لے کر جاگنے پر مجبور کر سکتی تھی۔ تب اُسے سمجھ آیا کہ بھائی شیر خان اُسے بھولا بادشاہ کیوں کہتا تھا۔ اماں بھی کبھی کبھار بھولا بادشاہ کہہ کر چوٹ کر لیا کرتی تھیں اور عموماً یہ اُس وقت ہوتا، جب اماں اس کی شادی کے لیے گاؤں کی کسی لڑکی کا نام لیتیں اور وہ اٹھ کر وہاں سے چل دیتا۔

اُس کا خیال تھا ابھی اُسے بھائی کی خُوشی کی خاطر خانو کو پچھاڑنا تھا۔ عورت بیچ میں آ گئی تو بھائی کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔

جب کہ وہ نہیں چاہتا تھا، بھائی کا خواب ٹوٹے کہ اس نے تو اس کا ہر طرح سے خیال رکھا تھا۔

شیر خان اگر فیروز خان کی طرح اونچا لمبا اور تگڑا ہوتا تو شاید وہ خود اکھاڑے میں اترتا مگر ایک تو اس کی ایک ٹانگ قدرے چھوٹی تھی اور دوسرے اس کی کاٹھی ہی ایسی تھی کہ اس پر دائمی بیمار ہونے کا گماں ہوتا تھا۔ حالاں کہ وہ بلا کا پھرتیلا اور ذہین تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گھر، زمینوں، ڈھور ڈنگر اور برادری کے سارے جھنجھٹ اس نے خود سنبھال رکھے تھے۔ جب کہ فیروز خان کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ اکھاڑے میں اپنا نام کمائے۔

وہ بھی خوب محنت کر کے نام کماتا رہا۔ اب وہ خانو کے مقابل ہونے کی تیاری کر رہا تھا کہ چراغ دین کی بیٹی زیبو کے گھڑوں نے ٹوٹ کر اسے جوانی کے پانی میں بھگو دیا تھا۔

یہ نہیں تھا کہ اسے اپنے جوان ہونے کی خبر نہ تھی۔ وہ لنگوٹ کس کر اَکھاڑے میں اترتا تھا اور لوگوں کی نظریں اپنے پنڈے پر پڑتی محسوس کر تا تھا تو اسے اپنے جوان ہونے کی بابت یقین سے بھی آگے کی حد تک خبر ہو جاتی تھی۔ جب وہ بڑے بڑے جوانوں کو اکھاڑے میں چت کرتا تھا اور لوگ بڑکیں لگاتے تھے تو جوانی کا نشہ اُسے مست کر دیتا تھا۔ مگر اب وہ جوانی، کہ جس کے پانی سے وہ بھیگا تھا، اس کا ڈھنگ ہی کچھ اور تھا۔ ایک لذّت تھی، جو پورے بدن میں تیر رہی تھی۔ اک سرور تھا جو اَنگ اَنگ پر چھا رہا تھا۔ اسی کیف میں کئی دن گزر گئے۔ وہ سوتے میں مسکرانے لگتا، باتیں کرتے کرتے گم ہو جاتا پہروں کنویں کے چوبچے میں ٹانگیں لٹکائے پڑچھے سے گرتے پانی کو دیکھتا رہتا اور خیال ہی خیال میں بھیگتا رہتا۔

یوں تو زیبو ہر لمحے اُ س کے سامنے تھی۔ وہ اسے دیکھ سکتا تھا۔ باتیں کر سکتا تھا۔ اس کے بدن سے اُٹھتی مہک کو سونگھ سکتا تھا۔ اُس کے چہرے پر کھلتے سرخ رنگ سے اپنے لہو کی حدّت بڑھا سکتا تھا۔ مگر اس وقت وہ بے بس سا ہو گیا جب اس نے سوچا کہ اگر وہ زیبو کو چھو لیتا تو کیسا لگتا۔

اُسے افسوس ہوا کہ اس روز اس نے زیبو کو چھو کر کیوں نہیں دیکھا تھا۔

اور جب چھو لینے کی خواہش ضبط کا رسا تڑانے لگی تو وہ پنڈ سرگاں کی طرف چل دیا۔

پھر ہوا یوں کہ راہ میں چراغ دین سے ملاقات ہو گئی۔

ایک وقت تھا چراغ دین اَکھاڑے میں اُترتا تھا تو لوگوں کی سانسیں رُک رُک جاتی تھیں مگر اب وہ دمے کا مریض ہو گیا تھا۔ اور خود اس کی اپنی سانسیں بسا اوقات رُک رُک کر چلتی تھیں۔ دمے کے بعد جوڑوں کے درد کا عارضہ ایسا تھا جس نے اُسے محض اَکھاڑے کے کنارے پر لا بٹھایا تھا۔

اُس نے فیروز خان کو دیکھا تو کِھل اُٹھا۔ کہا:

’’میں تمہاری طرف ہی آ رہا تھا۔‘‘

فیروز خان کی باچھیں بھی قابو میں نہ آ رہی تھیں۔ پوچھا:

’’ کیوں چاچا خیریت تو ہے نا۔‘‘

کہنے لگا:

’’ فیروز بیٹا اس چاند کی بارہ کو اپنا شوکا ہے نا! پہلی بار اَکھاڑے میں اُتر رہا ہے، ایک جوڑ شرفو سے کرے گا، ایک تمہارے ساتھ ہو جاتا تو اُسے کھیل کے کچھ داؤ پیچ کا پتا چل جاتا‘‘

’’ہاں چاچا کیوں نہیں ؟‘‘

وہ فوراً بول اٹھا۔

’’جیتے رہو بیٹے۔ مجھے تم سے یہی امید تھی۔ جانتا ہوں شوکا ابھی بچہ ہے تمہارا اور اس کا جوڑ نہیں مگر جب تک وہ اُن سے زور نہیں کرے گا جن سے اَکھاڑا سج سج جاتا ہے وہ بچے کا بچہ ہی رہے گا۔‘‘

’’ہاں چاچا یہ تو ہے‘‘

اُس نے بات آگے بڑھائی۔

’’اکھاڑا تو ہمارے لیے مقدس ہے چاچا۔ جو بھی اس میں اترتا ہے اس کو اس کے داؤ پیچ سکھانا ہم پر فرض ہو جاتا ہے۔‘‘

’’یہ ہوئی نا بات‘‘

چراغ دین نے خُوش ہو کر اُس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔ پھر کہا:

’’تمہارے یہ خیالات ہیں اور اُدھر خانو ہے کہ صاف مکر گیا، کہنے لگا، یہ جوڑ اس کے برابر کا نہیں۔ تم تو بہت اچھے ہو فیروز بیٹے۔‘‘

فیروز خان خُوشی سے پھول کر کُپا ہو گیا۔ چراغ دین اُسے بہت اچھا کہہ رہا تھا۔ اور وہ اتنا اچھا بن گیا کہ اگلے روز صبح ہی صبح پنڈ سُرگاں چل دیا۔ سیدھا چراغ دین کے گھر پہنچا اور چاچا، چاچا کی آوازیں دینے لگا۔ چراغ دین کی بہ جائے زیبو صحن میں نمودار ہوئی۔ اُسے یوں لگا وہ وہاں صحن میں نہ تھی عین اُس کے دل میں آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔

’’جی ابا تو گھر پر نہیں ہے‘‘

آواز تھی یا پائیل کی چھنکار۔ فضا میں دیر تک چھن چھن ہوتی رہی اور وہ مست اسے دیکھتا رہا۔ اور گم صم کھڑا رہا۔

وہ جھینپ گئی۔ سنبھلی تو کہا:

’’وہ جی ابا گئے ہیں باہر کھیتوں کی طرف‘‘

اب کے آواز کچھ تیز تھی۔ پائیل نہ تھی گھنگھروؤں کی جھنکار تھی مگر اس کی گونج بھی فضا میں معلق ہو گئی وہ اُسے سنتا رہا۔ سنتا رہا اور دیکھتا رہا۔ پھر جب اُس نے مزید سرخ ہوتے ہوے منھ پھیر لیا اور دو پٹے میں خود کو لپیٹتے ہوے کہنے لگی:

’’ اندر آ جائیں جی چار پائی دھری ہے ادھر صحن میں، بیٹھیں۔ ابھی ابا آ جائے گا‘‘

تب وہ بیدار ہوا۔ جلدی سے صحن میں بچھی چارپائی تک پہنچا اور اس پر دھڑام سے جا گرا۔

زیبو ہنس دی۔ ہنس کیا دی پورا صحن جگمگا اُٹھا۔ ہر طرف روشنی ہی روشنی پھیل گئی۔

وہ جلدی سے گئی، پیتل کا بھرا ہوا لسی کا چھنا اُٹھا لائی اور اُس کی جانب بڑھایا۔

اُس نے چھنا نہیں تھاما، زیبو کے ہاتھ کو تھام لیا۔ چھنا ہاتھوں سے پھسلتا دور جا گرا اور وہ ہاتھ چھڑا کر زمین سے چھنا اُٹھانے کو جھکی تو چراغ دین کے کھنگورے نے اسے مزید بوکھلا دیا:

’’خیر ہے پتر لسی گر گئی دوسرا چھنا بھر لا، بڑا بیبا مہمان آیا ہے ہمارے گھر۔‘‘

وہ بھی بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’سلام چاچا۔‘‘

اور پھر سانس لیے بغیر کہنے لگا:

’’چاچا کون سی تاریخ بتائی تھی تم نے جوڑ کی‘‘

چراغ دین اوپر نیچے ہوتے سانسوں کے بیچ کچھ کہنے ہی کو تھا کہ شوکی جو اپنے باپ کے پیچھے پیچھے آ پہنچا تھا، جھٹ بولا:

’’چاند کی بارہ بھائی فیروزے‘‘

پھر وہ فیروز خان کے گلے جا لگا اور ہنس کر کہنے لگا:

’’اپنا با بھی عجیب ہے، تمہیں یہ تو بتا آیا کہ جوڑ ہو گا، یہ نہیں بتایا کہ کب ہو گا؟‘‘

چراغ دین کھسیانی ہنسی ہنس دیا۔ اُسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس نے تاریخ بتائی بھی تھی یا نہیں۔ یہ پہلا بہانہ تھا جو اس نے زیبو سے ملنے اور اُسے چھونے کے لیے گھڑا تھا اور جب چاند کی بارہ گزر گئی تو بھی اُس نے بہانے بہانے سے پنڈ سرگاں جانے اور زیبو سے ملنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر جینے کا سوچنے کو بھی گناہ تصور کرنے لگے۔

پھر یوں ہوا کہ خانو بیچ میں آ گیا۔

خانو شاید پہلے ہی بیچ میں تھا مگر نہ تو زیبو کو اُس کی خبر تھی نہ فیروز خان کو۔

اب کیا ہو گا؟ اک سوال سامنے تھا۔

وہ نئے حوصلے کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’میں خانو کو گندم کی کٹائی سے پہلی ہی پچھاڑ دوں گا۔پھر میں دیکھوں گا چراغ دین مجھے کیسے نظر انداز کرتا ہے ؟‘‘

اس نے اپنے گاؤں پہنچتے ہی خانو کو پیغام دے بھیجا۔

جوں ہی یہ خبر شیر خان کو پہنچی وہ بھاگتے ہوے اکھاڑے میں آیا۔ خُوشی سے فیروز خان کو اپنی بانہوں میں بھر کر اس کا ما تھا چوم لیاٍ

’’خدا تمہیں کام یاب کرے‘‘

پھر اُس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اور کہا:

’’میں تو مُدّت سے تمہارے منھ سے یہ سننے کو ترس رہا تھا، مجھے یقین ہے خانو ضرور شکست کھائے گا۔ ہاں وہ بڑی بُری طرح مار کھائے گا۔‘‘

فیروز خان نے ڈنڑ پیلنے کی تعداد اور رفتار بڑھا دی۔ کئی کئی میل دوڑنا، پھر شاگردوں سے زور آزمائی، تیل کی مالش، مرغن غذائیں اور پہلے سے کہیں زیادہ زور کی مشق، یہ اُس کے روز کے معمول کا حصہ تھے۔

جس روز دونوں شہتیر جیسے جوان اَکھاڑے میں اُترے، یوں لگتا تھا ارد گرد کسی بھی گاؤں میں ایک بھی مرد ایسا نہ بچا تھا جو پیچھے رہ گیا ہو۔ کس انہماک سے سب دونوں کے چکنے جثوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ اندازہ ہی نہ کر پا رہے تھے کہ کون پچھاڑے گا؟ خانو اتراتا ہوا آگے بڑھا۔ فیروزے نے اپنے ہاتھوں کی اُنگلیاں اکڑاتے ہوے اس کی ہتھیلیوں پر ٹکا دیں اور پورے بدن کا زور ہتھیلیوں پر منتقل کر دیا۔ پھر انگلیوں کی کنگھی سے اس کی انگلیاں جکڑ لیں۔ خانو ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔ یوں کہ فیروز خان کا پورا بدن ڈگمگا گیا۔ ابھی وہ سنبھلا بھی نہ تھا کہ خانو پھرتی سے اپنے قدموں پر گھوما۔ وہ چاہتا تھا کہ قینچی کا داؤ لگاتے ہوے لڑکھڑاتے فیروز کی ٹانگیں قابو کر کے مروڑ ڈالے۔ مگر فیروز خان سنبھل گیا۔ اپنے ہی قدموں پر اُچھلا اور دونوں پاؤں اُس کی جانب اُچھال دئیے۔ پاؤں اگرچہ چھاتی پر نہیں پڑے تھے لیکن یوں لگا تھا کہ جیسے اس کے کندھوں پر فیروزے کے پاؤں جم سے گئے تھے۔ وہ درد سے بلبلا اُٹھا اور پرے جا پڑا۔ دونوں پھرتی سے اُٹھے اور پھر پنجوں میں پنجے پھنسا لیے۔ اب کے فیروز خان نے اپنے ہاتھوں کو اُوپر سے نیچے کچھ یوں جھٹکا دیا کہ وہ لڑکھڑا کر اُس کے بدن سے آ لگا۔ اُس کے بازو گھمائے، گردن سے دبوچا، پٹخنی دی اور نیچے گرا لیا۔ پورا مجمع چیخ اُٹھا۔

خانو نے گردن چھڑانے کے لیے ٹانگوں کو اُوپر اُٹھا کر جھٹکا دینا چاہا مگر فیروزے نے دونوں ٹانگوں کے بیچ ٹانگیں پھنسا لی تھیں۔ اب وہ دونوں ہاتھوں میں اس کے ہاتھ جکڑ کر اسے چت زمین پر لٹا سکتا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ خانو نے اپنے طور پر بہت کوشش کی مگر فیروز خان کا شکنجہ سخت ہوتا چلا گیا۔ پھر اس نے گھٹنوں کو سمیٹا، جھٹکے سے اپنے نچلے بدن کو اُچھالا اور گھٹنے خانو کی چھاتی پر جما دیے۔ ساتھ ہی اپنے ہاتھ فضا میں بلند کئے اور زور کی بڑھک لگائی۔

پورا مجمع للکاروں اور بڑھکوں سے گونج اٹھا۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی نے اُسے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ ڈھول بج اٹھے۔ بھنگڑے نے عجب سماں باندھ دیا تھا۔

ان سب کے بیچ فیروز خان نے دیکھا چراغ دین ایک ایک روپے کے نوٹ اُس کی جانب اُچھال رہا تھا اور خُوشی سے چیخ رہا تھا۔ اُسے اُس کی آواز اسے سارے مجمعے پر بھاری لگی تھی۔ الگ، سب سے جدا، وہ مطمئن ہو گیا۔

اور جب اس نے مطمئن ہو کر اپنے بڑے بھائی شیر خان کو دیکھا تو اور زیادہ نہال ہو گیا کہ وہ بھی خُوشی میں اُچھل رہا تھا۔ شام پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ چاول کی دیگیں تقسیم ہوئیں۔ جب ذرا ہنگامہ تھما تو فیروز خان نے پنڈ سُرگاں جانے کا فیصلہ کیا۔ چراغ دین سے بات کرنے کے لیے کہ اب بیچ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اُس نے مناسب جانا بڑے بھائی کی بھی ساتھ لیتا جائے۔ وہ اسے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا۔

’’بھائی جی آپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ آج میں جس عزّت کا حق دار ٹھہرا ہوں وہ آپ ہی کی بدولت ہے۔ میں آپ کو پنڈ سُرگاں لے جانا چاہتا ہوں۔ چراغ دین کے پاس۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘

شیر خان نے بات مکمل ہونے کا اِنتظار نہ کیا اور کہا:

’’ہاں ٹھیک ہے مگر تم اکیلے پنڈ سرگاں جاؤ اور ایک نہایت اَہم بات میں تم سے یہ کرنا چاہتا ہوں کہ چراغ دین اکھاڑے میں جیتنے والوں کی بہت قدر کرتا ہے۔ تم میرے لیے زیبو کے رشتے کی بات ضرور کرنا، میں چاہتا ہوں مجھے اولاد کے لیے اب دوسری شادی کر ہی لینی چاہیے۔‘‘

فیروز خان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ بڑبڑایا: ’’زیبو‘‘

شیر خان نے کہا: ’’ہاں بھئی زیبو، چراغ دین کی بیٹی۔ میری تو کب سے خواہش تھی، تم اکھاڑے میں خانو کو مات دو کہ ماسڑ چراغ دین پیروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتا۔‘‘

فیروز خان چکرا کر گرا۔ اُسے لگا جیسے وہ چاروں شانے چِت اَکھاڑے میں پڑا تھا اور کوئی اُس کی چھاتی پر گھٹنے گاڑے للکرے مار رہا تھا۔

 

 

ٍ

کہانی کیسے بنتی ہے

 

وہ میری پاس آئی اور مجھے کُرید کُرید کر پوچھنے لگی:

’’کہانی کیسے بنتی ہے ؟‘‘

مجھے کوئی جواب نہ سوجھ رہا تھا کہ میرا سیل میری مدد کو آیا۔ دوسری جانب گاؤں سے فون تھا:

’’سیموں مر گئی۔‘‘

’’کون سیموں ؟‘‘

میں نے اپنے وسوسے اوندھانے کے لیے خواہ مخواہ سوال جڑ دیا۔ حالاں کہ ادھر ہمارے خاندان میں ایک ہی سیموں تھی۔

’’جی بالے کی بیوی۔‘‘

اِطلاع دینے والے کی ہچکی بندھ گئی۔

ابھی تک مجھے بھی یقین نہ آیا تھا۔ اُس کے مرنے کے دن تو نہ تھے۔ چھوٹے چھوٹے چار بچے تھے۔ اِتنے چھوٹے کہ جنہیں ممتا کے گھنّے سایے کی اشد ضرورت تھی۔

’’وہ کیسے مر گئی؟‘‘

میری آواز بھی رندھا گئی۔ اطلاع دینے والے کی سانسیں ہچکولے کھا رہی تھی۔ اور پھر رابطہ منقطع ہو گیا۔

آج دوسرا دن تھا کہ ایسی جگر چیرنے والی خبریں آئے چلے جاتی تھیں۔ کل صبح میں ابھی گھر سے دفتر لے لیے نکلا ہی تھا کہ سامنے رہنے والی نائلہ کے منّے سے پیارے بیٹے ارباز کو ایک نو  دولتیے کی نابالغ اولاد نے ویلنگ کرتے ہوے ٹکر مار دی تھی۔ میں اُسے بچانے آگے بڑھا۔ وہ میرے بازوؤں میں مچھلی کی طرح تڑپا اور دم توڑ گیا تھا۔ جب میں اُس کی لاش اُس کی ماں کی گود میں ڈال رہا تھا تو میں اس کی طرف دیکھنے کی ہمت اپنے دل میں نہ پاتا تھا حالاں کہ جب سے اس کا شوہر اسے چھوڑ گیا تھا اسے چوری چھپے دیکھنا مجھے اچھا لگنے لگا تھا۔

کل ہی دفتر میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر محبت سے باتیں کرنے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے طاہر خان کو ویگن نے کچل ڈالا تھا۔ وہ سڑک پر دیر تک تڑپتا رہا۔ گاڑیاں اُس کے پاس سے گزرتی رہیں۔ تھانہ کچہری کے چکروں سے بچنے کے لیے کوئی مدد کے لیے آگے نہ بڑھا۔ یہ تو اِتفاق تھا کہ ہمارے دفتر کے نفیس کی نظر اُس کے کچلے ہوے بدن پر پڑی۔ نفیس اُسے ہسپتال لے گیا۔ مگر بہت دیر ہو گئی تھی۔ رگوں سے سارا خُون نچڑ چکا تھا۔

سب دعا کرتے رہے مگر وہ مر گیا۔

ایک نوخیز شاعرہ شرمین کچھ دنوں سے ہی ہمارے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا شروع ہوئی تھی۔ ابھی تک اس نے بے ریا محبت کی کچی نظمیں ہی لکھنا سیکھی تھیں۔ کل شام اُس نے محبت کی ایک اُداس کر دینے والی ایک نظم ہمیں سنائی تھی۔ یوں کہ ہم دیر تک کچھ کہہ نہ پائے تھے۔ اس نے اپنی ساری نظمیں سمیٹ کر پرس میں ڈال لیں اور چپکے سے باہر گلی میں قدم رکھ دیا۔ باہر موت تاک میں بیٹھی تھی۔ دو موٹرسائیکل سوار نوجوانوں نے اِدھر اُدھر آ کر اُس سے پرس چھننا چاہا۔ وہی پرس جس میں اس کی نظمیں تھیں۔ اُس نے مزاحمت کی اور اُسے گولی مار دی گئی۔

زخمی حالت میں ہم اُسے ہسپتال لے گئے۔ بہت ساری دعائیں کیں مگر وہ بھی مر گئی۔

مجھے اپنی دعاؤں کے قبول نہ کیے جانے کا دُکھ تھا۔ رات سونے سے پہلے میں نے موت کے تین چہرے کا عنوان جما کر ایک نظم لکھ ڈالی تھی :

’’یہ کیسی پت جھڑ ہے کہ اے مالک، کسی دعا کی شاخ پر قبولیت کی کوئی کونپل نہیں پھوٹتی۔

اے جہانوں کو پالنے والے !ایک ننھّی مُنّی جان کے لیے آخر کتنا رزق درکار ہوتا ہے۔

اے دلوں کو محبت کے نور سے منور رکھنے والے، ایک محبت کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے زندگی کے کتنے ایندھن کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

اے حرف میں معنی اور معنی میں تاثیر رکھنے والے، نازک جذبوں کو کومل لفظوں میں ڈھالنے والی کی کل کائنات تمہاری اِتنی بڑی کائنات سے بڑی تو نہ ہو سکتی تھی۔‘‘

میں لکھتا رہا۔۔۔ حتیٰ کہ یہ تین اموات کا دُکھا اس نظم میں سما گیا۔ اتنا بڑا دُکھ جو تین گھروں میں نہ سما رہا تھا، میری اکلوتی نظم ڈکار گئی تھی اور میں صبح معمول سے جاگا تھا۔

مگر آج صبح ہی صبح مجھے اندر سے ایک بار پھر یوں اُدھڑنا تھا کہ کئی نظمیں لکھ ڈالتا تو بھی دل کو واپس ٹھکانے پر نہ لا سکتا تھا۔

بات کرنے والا سسکیاں لے کر خاموش ہو گیا۔ پھر سیل کا روشن ڈسپلے بھی بجھ گیا مگر میں مسلسل اُسے دیکھ رہا تھا۔ جتنی دیر تک میں سیل کو دیکھتا رہا، وہ مجھے دیکھتی رہی۔ یوں جیسے اپنے سامنے کہانی کو بنتا دیکھ رہی ہو۔

جب میں گاؤں جا رہا تھا تو میں اُس کا سوال بھول چکا تھا۔

بالے کے گھر کے باہر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ سب ہی دُکھ میں ڈوبے ہوے تھے۔ گھر کے اندر سے عورتوں کے رونے اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

میں دُکھ میں ڈوبے لوگوں کو چیرتا دروازے تک پہنچ گیا تھا۔ اندر سے آنے والی چیخوں سے میں نے ایک مانوس آواز کو صاف الگ کر لیا۔ یہ مرنے والی کی ماں تھی :

’’سوجھا، نی مینڈھیے دھیے توں تاں لمے پینڈے پیے گئی ایں

اِنج نییں کریدا۔‘‘

(دھیان، اے میری بیٹی کہ تم نے تو طویل مسافت اختیار کر لی ہے۔ ایسا تو نہیں کرتے۔

جوں ہی بین کا ایک ٹکڑا مکمل ہوتا، عورتوں کی چیخیں نکل جاتیں۔

جب میت اُٹھا کر باہر لائی گئی تو مردوں کی چیخیں بھی نکل گئیں۔

میت والی چارپائی کو ایک طرف سے سیموں کے سسر شیفے نے کندھا دے رکھا تھا اور دوسری طرف اس کا شوہر بالا تھا۔

بالے نے شیفے سے جوئے میں بھینس جیتی تھی لیکن اسے بدلے میں پیاری سی لڑکی مل گئی تھی۔ یہ اُس کی دوسری بیوی تھی۔ مگر گھر میں گھستے ہی بالے کو پہلی سے زیادہ عزیز ہو گئی تھی۔ اب تو اُس کا گھر اِس ہی کے نصیبوں سے محبت کا گہوارہ تھا۔

جب دونوں کندھا دے کر چارپائی گھر سے نکال رہے تھے تو سیموں کی ماں کے بینوں اور عورتوں کی چیخوں میں کوئی آہنگ نہیں رہا تھا۔

جب میں کندھا دینے کے لیے چارپائی کی دائیں جانب گھوم کربالے کے قریب ہو گیا تو مجھے یوں لگا جیسے مرنے والی کی ماں کے بین یک لخت تھم سے گئے تھے۔ میں نے چور نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ یکا یک اس نے عارضی خاموشی توڑ دی اور پہلے سے کہیں زیادہ درد بھری آواز میں بین کرتے ہوے اپنی بھاری چھاتیاں تھپا تھپ پیٹ ڈالیں :

’’توں دل لائیا سی حیاتی نال چپ چپیتے۔

لمیاں چپاں تینوں موت جئے روگ دتے۔

سوجھا نی مینڈھیے دھیے تینوں کندھا دین اپنے آ گئے نیں۔

انج نئیں کریدا۔‘‘

(تم نے چپکے چپکے زندگی کے ساتھ دل لگایا تھا۔ لمبی چپ نے تمہیں موت جیسے روگ دیے

دھیان، اے میری بیٹی کہ تمہاری میت کو کندھا دینے والے تمہارے اپنے آ پہنچے ہیں۔

ایسا تو نہیں کیا جاتا۔

کہتے ہیں بالا، اَب پہلے جیسا اَکھڑ اور بدمزاج نہیں رہا تھا۔ سیموں نے اُسے بدل کر رکھ دیا۔ بدلے ہوے بالے نے رو رو کر اپنی آنکھیں سرخ بیرا بنا لی تھیں۔

گاؤں کا ہر شخص میت کو کندھا دینے کے لیے یوں آگے بڑھ رہا تھا جیسے یہ بالے کی سیموں کا نہیں اس کی اپنی بیٹی کا جنازہ تھا۔

جب میں اپنا کندھا کھسکاتے کھسکاتے چارپائی کے پچھلے پائے سے ٹکرا کر جنازے کے عقب میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مرحومہ کے بچے گم صم پیچھے پیچھے یوں چل رہے تھے جیسے اس اچانک صدمے نے انہیں کچھ سمجھنے ہی نہ دیا ہو۔ بچوں کی نانی کے بین تعاقب میں تھے :

’’تتّیاں دھُپّاں وِچ اپنے بالاں تے ٹھنڈی چھاں ہوں والیے مینڈھیے دھیے۔

کس دے آسرے اِنہاں نوں چھوڑچلی ایں توں۔

انج نئیں کریدا۔‘‘

(تپتی دھوپوں میں اپنے بچوں پر ٹھنڈی چھاؤں ہو جانے والی اے میری بیٹی

اب کس کے سہارے انہیں چھوڑ کر تم چل پڑیں۔

یوں تو نہیں کیا جاتا

میں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ جنازے کے پیچھے گلی میں آ گئی تھی۔ اُس کے بال کھُلے ہوے تھے اور سر کی چادر پیچھے گر کر گھسٹ رہی تھی۔

’’ایہہ کچے کولے معصوم ہن کہدی چنّی وِچ سِر لکان گے مینڈھیے دھیے

انج نئیں کریدا‘‘

(یہ نرم و نازک معصوم بچے اب کس کے آنچل کی اوٹ لیں گے اے میری بیٹی

یوں تو نہیں کیا جاتا

بین اتنے دردیلے تھے کہ دُکھ میرے پورے وجود کے اندر بھر گیا تھا۔

میت جنازہ گاہ پہنچی۔ صفیں ترتیب دی گئیں۔ جنازہ بالے کے دادا نے پڑھایا تھا۔ جب وہ تکبیر کہتا تو اُس کی آواز لڑکھڑا جاتی۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب دُکھ کے شدید حملے کی وجہ سے تھا۔

دُعا کے بعد میت وہاں لائی گئی جہاں کھُدی ہوئی قبر اُسے اپنی آغوش میں لینے کو تیار تھی۔ میت قبر میں اُتار دی گئی۔ قبر کی بغل میں چیرویں کھدائی اس طرح کی گئی تھی کہ اس کا جسم پوری طرح اس میں سما گیا تھا۔ اُوپر پتھروں کی ترشی ہوئی سلیں پہلو بہ پہلو رکھ کر چیرویں کھپّے کو پاٹ دیا گیا۔

بالا آگے بڑھا۔ اس نے بھر بھری مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کر پہلے تو قبر پر ڈالیں اور پھر اُپنے سر پر ڈال کر پاگلوں کی طرح سر پیٹنے اور چیخنے لگا۔ وہ جنازہ اُٹھنے سے لے کر میت کے قبر میں اُترنے تک یوں چپ تھا، جیسے اُس نے جتنا رونا تھا، رو چکا تھا۔ اس کا یوں اچانک پھٹ پڑنا سب کو رُلا گیا تھا۔

اُس کے باپ نے ’’حوصلہ، حوصلہ‘‘ کہہ کر اُسے اپنے بوڑھے بازوؤں میں جکڑ لینا چاہا اور پھر اپنی ہی بات کو دہراتے دہراتے رو رو کر دوہرا ہو گیا۔

مجھ سے یہ منظر دیکھا نہ جا رہا تھا۔ میرے بھائی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:

’’مرنے والی کا جتنا غم کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ اُس نے اس گھر کو مکمل تباہ ہونے سے بچا لیا تھا۔اور جو بچا لیتا ہے اُس کا جنازہ اپنے کندھوں پر اُٹھانا اور اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘

میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔

میں نے سوچا کیا میں چاہتا تو سیموں کے نصیب بدل سکتا تھا؟

مگر، اب جب کہ وہ زمین میں دبا دی گئی تھی، میں نے ایسا کیوں سوچا تھا؟

میں نے اپنا سر جھٹکا۔ یوں جیسے اپنا دامن جھٹک کر تب الگ ہو گیا تھا جب سب کچھ ہو سکتا تھا۔

سیموں کے مرنے کی وجہ مجھے معلوم ہو گئی تھی۔ اُسے بجلی کا شاک لگا تھا۔ قبرستان سے پلٹنے کے بعد جب میں اندر زنان خانے گیا تھا تو مجھے بجلی کے وہ تار دکھائے گئے جو صحن کے اوپر سے گزارے گئے تھے۔

یہی تار ٹوٹ کر سیماں کی موت کا سبب بن گئے تھے۔

صحن میں سٹیل کا ایک تار دھُلے ہوے کپڑے پھیلانے کے لیے شمال اور جنوب کی دیواروں کے درمیان بندھا ہوا تھا۔ سیموں اُس پر گیلا کھیس ڈال رہی تھی کہ ایک جانب سے یہی تار کھل کر اُچھلا اور اُوپر سے گزرتے بجلی کے تاروں میں اُلجھ گیا۔

پورا کھیس بجلی سے بھر گیا تھا۔

کھیس بھی اور گیلی سیموں بھی۔

پھر وہ اُچھلی اور دیوار کی سمت سر کے بل گئی یوں کہ اُس کا سر ٹکرا کر کھل گیا تھا۔

اور اب جب کہ میں واپس شہر آ گیا ہوں۔ اور مجھے اُس کا اِنتظار ہے جو یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہانی کیسے لکھی جاتی ہے ؟ تو سوچ رہا ہوں کہ وہ آئے گی تو بتاؤں گا کہ حادثات کس طرح کہانی کا مواد بن جایا کرتے ہیں۔

لو، وہ آ گئی ہے اور میری آنکھوں میں یوں جھانک رہی ہے کہ میں کہانی کا گُر اُسے بتانا بھول گیا ہوں۔ وہ میرے چہرے پر نظریں ٹکائے ٹکائے دھیرے سے کہتی ہے :

’’میں جان گئی ہوں جی، کہ کہانی دُکھ سہے بغیر نہیں لکھی جاتی۔ محبت میں دُکھ۔‘‘

وہ یہ ایک ڈیڑھ جملہ میری لڑھکا کر خاموش ہو گئی ہے۔ میں کھسیانا ہو رہا ہوں۔ وہ مستقل چپ رہتی ہے۔ یوں کہ مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ اب وہ کچھ بھی نہ کہے گی۔ مگر اس نے سوال جیسا جملہ لڑھکا کر مجھے بوکھلا دیا ہے :

’’آپ کی کہانیوں میں ایک لڑکی بار بار آتی رہی ہے

محبت کی علامت بن کر

کہیں وہ مرنے والی ہی تو نہیں ہے ؟‘‘

 

ٍ***

ماخذ:

TieLabs HomePage

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید