FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

سیرتِ عائشہؓ

 

 

 

تالیف

 مولانا سید سلیمان ندویؒ

 

تلخیص

محمد شکیل شمسی

 

 

ناشر

اقرأ ویلفیئر ٹرسٹ، بنگلور

IQRA PUBLICATIONS TEL:(080) 2289305, 2389680

E-mail: ymd@bgl.vsnl.net.in

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تعارف

 

علامہ شبلی نعمانی کے عزیز ترین شاگرد اور ا ن کی علمی و ادبی روایت کے امین سید سلیمان ندوی نے جلیل القدر خاتون، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت لکھ کر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ، آپ چودہویں صدی ہجری کے ممتاز ترین سیرت نگار تھے ۔اس کتاب کے ماخذ کی تلاش میں آپ نے بہت صعوبتیں برداشت کیں ۔ لکھتے ہیں کہ کتابوں میں حضرت عائشہ کے حالات بہت متفرق اور منتشر تھے لیکن ان کو ڈھونڈ کر اس طرح جمع کیا گیا جس طرح چیونٹیوں کے منھ سے شکر کے دانے کوئی چنے۔ اس کتاب کا اندازِ بیان بھی خوب ہے ۔ قاری کو حضرت عائشہؓ کی زندگی آنکھوں دیکھی جیسی لگے گی ۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ نسوانیت کو کیسے معراجِ علمی حاصل ہو سکتی ہے۔

ناظرین کے پیشِ نظر اس وقت جو کتاب ہے اس کو اقراء ویلفئر ٹرسٹ کے سلسلۂ سیرت کی ایک کڑی خیال کرنا چاہیے ۔ یہ ادارہ تقریباً تیس سال سے اسلام اور جدید مسائل پر وقت کے تقاضے کے مطابق نئے انداز کا لیٹریچر انگریزی اور اردو زبان میں تیار کر رہا ہے اور اس کی شائع شدہ کتابیں تعلیم یافتہ حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔

انگریزی زبان میں تقریباً چھبیس سال سے ایک مشہور علمی اور ادبی ماہنامہ (ینگ مسلم ڈائجسٹ ) بھی اسی کے تحت نکلتا ہے ۔اس ادارہ کا مقصد اسلام اور صحیح عقائد کی تبلیغ و اشاعت ہے ۔

امید کہ یہ کتاب اخلاقی ،معاشرتی اور گھریلو زندگی کو سنوارنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔

 

مُشرِف

 

عبد الباسط قاسمی

 

اقراء ویلفیئر ٹرسٹ بنگلور

 

 

 

 

 

پیشِ لفظ

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی سیرت دیگر تمام امہات المؤمنین اہل بیت کی سیرتوں کے مقابلے ایک الگ خصوصیت کی حامل ہے۔اس سلسلہ میں کچھ اور امور قابلِ توجہ ہیں ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے محض قرآن بھیجنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نبی کریمﷺ کی پاکیزہ زندگی کو اسوۂ حسنہ (ideal) قرار دیا تاکہ قرآن کی بنیاد پر زندگی استوار کرنے کے بعد اس زندگی کی عملی شکل کیا ہو گی وہ انسان اپنی مادی آنکھوں سے دیکھ لے اور کسی شبہہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور بہت سارے ایسے سوالات کا جواب خود مل جائے جو اسوۂ حسنہ کے سامنے نہ رہنے سے پیدا ہو سکتے تھے۔

آج جو اسلام کی اصلی شکل ہمارے سامنے موجود ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ قرآن کے ساتھ ساتھ ایک آئیڈیل زندگی یعنی نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ایسی آئیڈیل زندگی انسان کی نفسیاتی احتیاج بھی ہے اس لئے کہ ہر شخص کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈیل ضرور قرار دیتا ہے۔

گو نبی کریمﷺ کی زندگی مرد و عورت سب کے لئے نمونہ ہے تاہم عورتوں کے چند ایسے مخصوص مسائل ہیں جن میں اگر چہ قرآن نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے لیکن پھر بھی نفسیاتی طور پر عورتوں کو اس پہلو سے بھی ایک آئیڈیل عورت کی ضرورت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کون ہو سکتی ہے جو عورتوں کے لئے نمونہ (ideal) کا کام دے۔جہاں تک صرف ایک پاکیزہ اسلامی زندگی کا تعلق ہے تو ایسی زندگی تو تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات کی تھی ۔ لیکن کتب احادیث پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے قول و فعل سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زندگی کو ان سبھی میں اکمل ترین زندگی قرار دیا ہے اور صاف صاف فرما دیا ہے کہ ’’مردوں میں بہت سے کامل مرد گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے سوا اور کوئی کامل نہیں گزری اور عائشہ کو ان عورتوں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی ثرید کو کھانے کے دوسرے اقسام پر‘‘ (بخاری و مسلم)

( ثرید یعنی روٹی کو شوربے میں بھگو کر تیار کی گئی ایک غذا جو عربوں کی اعلیٰ غذا سمجھی جاتی تھی)

حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زندگی کا یہ وہ پہلو ہے جو ابھی تک امتِ مسلمہ کے سامنے کھل کر نہیں آیا جسکا انجام یہ ہوا کہ مسلمان عورتوں نے غلط قسم کی مثالیں اپنے سامنے رکھ لیں ۔ ہماری عورتوں کے سامنے آزادیِ نسواں ، مساوات اور ترقی پسندی جیسے پر فریب مگر دلکش نعروں کو عملی نمونے کے طور پر پیش کیا گیا اور عورتوں کے نفسیاتی ضرورت کی تسکین ہو گئی۔

مولانا سید سلیمان ندوی نو ر اللہ مرقدہٗ نے شاید اسی ضرورت کے پیش نظر یہ کتاب سیرت عائشہؓ نہایت محققانہ طریقہ پر لکھی ۔ لیکن اس دور کی بے ذوقی اور علمی پستی کا کیا کہیے کہ ۲۰۰  سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک مخصوص حلقہ خواص سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ حالانکہ حضرت عائشہؓ کا نمونۂ زندگی تو ہر گھر بلکہ ہر خاتون کی ضرورت ہے۔

اسی اہم ضرورت کے پیش نظر اقراء ویلفیئر ٹرسٹ نے اس کتاب کی تلخیص کا منصوبہ بنایا ۔ اس ادارہ کے دہلی کے نمائندے جناب حسن امام صاحب نے یہ ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی ۔ اس کتاب کی تلخیص میں حسب ذیل اصول پیش نظر رہے۔

۱۔ دقیق علمی مباحث خصوصاً بحث روایت و درایت اور متن و اسناد حذف کر دئے گئے ہیں

۲۔ جہاں زیادہ طوالت محسوس کی گئی خصوصاً واقعۂ جنگِ جمل وغیرہ تو وہاں ان اجزاء کو جو بہت زیادہ ضروری نہ تھے حذف کر دیا گیا ہے۔

۳۔ باب علم و فضل اور افتاء و ارشاد میں جہاں ایسے مسائل بیان کئے گئے ہیں جن میں حضرت عائشہ منفرد ہیں اور ان کا موقف دیگر صحابہ کرامؓ، علماء جمہور و عملِ متواترہ کے خلاف ہے، چونکہ یہ خالصۃً علمی مسائل ہیں اس لئے حذف کر دئے گئے ہیں ۔

۴۔ اصطلاحات اور ثقیل الفاظ کو حتی الامکان عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

۵۔ عبارتوں کے حذف کی وجہ سے جہاں بے ربطی محسوس ہوئی دو ایک جملے بڑھا کر مربوط کر دیا گیا ہے۔

۶۔ ان ضروری تبدیلیوں کی وجہ سے ابواب کی ترتیب نئے سرے سے کی گئی ہے

۷۔ حتی الامکان یہ کوشش کی گئی کہ سیرت عائشہؓ کا کوئی اہم پہلو چھوٹنے نہ پائے۔

محمد شکیل شمسی

 

 

 

مقدمہ

 

اردو زبان کی نشأۃ جدیدہ نے ہماری زبان میں جن تصنیفات کا ذخیرہ فراہم کیا ہے، ان سے رجالِ اسلام کے کارنامے ایک حد تک منظر عام پر آ گئے ہیں لیکن مخدراتِ اسلام کے کارہائے نمایاں اب تک پردۂ خفا میں ہیں ، سیرۃ عائشہؓ پہلی کوشش ہے، جس کے ذریعہ سے اس صنف کے کارناموں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

آج مسلمانوں کے اس دور انحطاط میں ان کے انحطاط کا بحصۂ رسدی آدھا سبب ’’عورت ‘‘ ہے ،وہم پرستی ،قبر پرستی ، جاہلانہ مراسم ، غم و شادی کے موقعوں پر مسرفانہ مصارف اور جاہلیت کے دوسرے آثار صرف اس لئے ہمارے گھروں میں زندہ ہیں کہ آج مسلمان بیویوں کے قالب میں تعلیمات اسلامی کی روح مردہ ہو گئی ہے ، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ان کے سامنے مسلمان عورت کی زندگی کا کوئی مکمل نمونہ نہیں ۔ آج ان کے سامنے اس خاتون کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو نبوت عظمیٰ کی نہ سالہ مشارکتِ زندگی کی بناء پر خواتین خیر القرون کے حرم میں کم و بیش ۴۰ برس تک شمعِ ہدایت رہی۔

ایک مسلمان عورت کے لئے سیرتِ عائشہؓ میں اس کی زندگی کے تمام تغیرات ، انقلابات اور مصائب ، شادی، رخصتی، سسرال ، شوہر ، سوکن ، لا ولدی، بیوگی، غربت ، خانہ داری، رشک و حسد ، غرض اس کے ہر موقع اور ہر حالت کے لئے تقلید کے قابل نمونے موجود ہیں پھر علمی ، عملی ، اخلاقی ہر قسم کے گوہر گرانمایہ سے یہ پاک زندگی مالا مال ہے، اس لئے سیرۃ عائشہؓ اس کے لئے ایک آئینہ خانہ ہے، جس میں صاف طور سے یہ نظر آئیگا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیا ہے۔

ایک خاص نکتہ جو اس موقع پر لحاظ کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ صدیقہ کی سیرۃ مبارکہ نہ صرف اس لئے قابل مطالعہ ہے کہ وہ ایک حجرہ نشینِ حرمِ نبوت کی پاک زندگی کے واقعات کا مجموعہ ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی اس کا مطالعہ ضروری ہے کہ یہ دنیا کے بزرگ ’’ترین انسان ‘‘ کی زندگی کا وہ نصف حصّہ ہے، جو ’’ مرأۃ کاملہ ‘‘ (کامل عورت ) کا بہترین مرقع ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔

سوانح عمریوں کے لئے عموماً تاریخ کی کتابیں کار آمد ہوتی ہیں ، لیکن اس وقت جس زمانہ کے واقعات لکھنا ہے، اس کی تاریخ صرف حدیث کی کتابیں ہے، یہ تمام ذخیرہ در حقیقت جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اُمّہات المومنینؓ اور اصحاب کبارؓ کی مقدس زندگیوں کی عملی تاریخ ہے اس بناء پر میرے معلومات کا ماخذ صرف احادیث کی کتابیں ہیں ، جوامع مسانید اور سنن سے عموماً اور کہیں کہیں اسماء الرجال کی کتابوں مثلاً طبقات ابن سعد، تذکرۃ الحفاظ ذہبی ، تہذیب ابنِ حجر وغیرہ اور فتح الباری قسطلانی ، خودی وغیرہ شروح احادیث سے بھی مدد لی گئی ہے، عام تاریخ کی کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ہے، جنگ جمل کے متعلق بے شبہہ مجبوری تھی کہ اس کا مفصل تذکرہ احادیث میں نہیں ہے ، اس لئے اس باب میں زیادہ تر طبری پر اعتماد کیا گیا ہے۔

حدیث کی کتابوں میں زیادہ تر صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ابو داؤد اور مسند امام احمد بن حنبل میرے پیش نظر رہی ہیں ، ان کتابوں کا ایک ایک حرف میں نے پڑھا ، مسند کی چھٹی جلد میں حضرت عائشہؓ کے مرویاّت میں ان کے حالات کثرت سے ملے، اس کتاب کے ماخذوں میں سب سے نادر کتاب حاکم کی مستدرک اور سیوطی کی عین الاصابہ فی استدراک عائشہ علی الصحابہ ہے، عین الاصابہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میں وہ حدیثیں جمع کی گئی ہیں جن میں حضرت عائشہؓ نے اپنے معاصرین کی غلطیاں یا غلط فہمیاں ظاہر کی ہیں ۔

اربابِ نظر جانتے ہیں کہ کتب احادیث خصوصاً بخاری میں حالات اس قدر متفرق اور منتشر ہیں کہ ان کو ڈھونڈ کر یکجا کرنا چیونٹیوں کے منھ سے شکر کے دانے چننا ہے تاہم مسلسل مطالعہ نے جو سرمایہ فراہم کر دیا ہے وہ پیش نظر ہے، اس موقع پر یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ ایک ہی واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں یا ایک ہی کتاب کے مختلف ابواب میں مذکور ہوتا ہے، میں نے جہاں کہیں کسی کتاب یا کتاب کے باب کا حوالہ دیا ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ واقعہ حدیث کی دوسری کتابوں یا دوسرے ابواب میں نہیں ہے بلکہ جہاں جو حوالہ مناسب سمجھا گیا ہے دے دیا گیا، اس لیے آپ کہیں کہیں ایک ہی واقعہ کے مختلف حوالے پائیں گے۔

 

سید سلیمان ندوی ۱۹۲۰ء

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ ربّ العالمین و الصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین و آلہ و ازواجہ و اصحابہ اجمعین۔

 

ابتدائی حالات

 

عائشہؓ نام ، صدّیقہ لقب، ام المومنین خطاب ، امّ عبد اللہ کنیّت اور حُمیرا لقب ہے،حضور ﷺ نے بنت الصدّیق سے بھی خطاب فرمایا ہے، چونکہ حضرت عائشہؓ کے اولاد نہ تھی، اس لئے کوئی کنیت بھی نہ تھی، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے حسرت کے ساتھ کہا کہ اور بیویوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر اپنی اپنی کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنّیت کس کے نام پر رکھوں ۔ فرمایا ’’ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر ‘‘۔ چنانچہ اسی دن سے امّ عبد اللہ حضرت عائشہؓ کی کنّیت قرار پائی۔

حضرت عائشہ کے والد کا عبد اللہ نام ، ابو بکرؓ کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام اُمّ رومان تھا یہ باپ کی طرف سے قریشییہ، تیمیہ اور ماں کی طرف سے کنانیہ ہیں ۔حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابو بکرؓ نے ۱۳ھ میں وفات پائی اور ان کی ماں ام رومانؓ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہیں ۔

رسول اللہﷺ اور ام المومنین حضرت عائشہؓ کا نسب ساتویں آٹھویں پشت پر جا کر مل جاتا ہے اور ماں کی جانب سے گیارہویں بارہویں پشت میں کنانہ پر جا کر ملتا ہے۔

ولادت

حضرت امّ رومانؓ کا پہلا نکاح عبد اللہ اَزوعی سے ہوا تھا۔ عبد اللہ کے انتقال کے بعد وہ حضرت ابو بکرؓ کے عقد میں آئیں ۔ ان سے حضرت ابوبکرؓ کی دو اولادیں ہوئیں ، عبد الرحمن اور حضرت عائشہؓ ۔ حضرت عائشہؓ جب پیدا ہوئیں تو نبوّت کے چار سال گزر چکے تھے اور پانچواں گزر رہا تھا۔ اس حساب سے آپ کی پیدائش شوال ۵ نبوی مطابق جولائی ۶۱۴ء میں ہوئی۔

صدّیق اکبرؓ کا گھر وہ خوش قسمت گھر ہے جہاں اسلام کی روشنی سب سے پہلے پہنچی۔ اس بنا پر حضرت عائشہؓ اسلام کے ان برگزیدہ لوگوں میں ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز نہیں سنی۔ خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والدین کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔

حضرت عائشہؓ کو وائل کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ وائل کے بھائی افلح حضرت عائشہؓ کے رضاعی چچا کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے اور رسول اللہﷺ کی اجازت سے وہ ان کے سامنے آتی تھیں ۔ان کے رضاعی بھائی بھی کبھی کبھی ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔

بچپن

غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن ہی سے اپنے رنگ ڈھنگ اور چال چلن میں ممتاز ہوتے ہیں ۔ان کی ایک ایک حرکت میں کشش ہوتی ہے، ان کی پیشانی سے مستقبل کا نور خود بخود چمک چمک کر نتیجہ کا پتہ دیتا ہے۔حضرت عائشہؓ بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھیں ۔ بچپن ہی میں ان کے ہر انداز سے سعادت اور بلندی کے آثار نمایاں تھے۔ تاہم بچہ بچہ ہے وہ صرف کھیلتا ہے اور کھیلنا ہی اس کی عمر کا تقاضا ہے۔ حضرت عائشہ بھی لڑکپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں ۔ محلّہ کی لڑکیاں ان کے پاس جمع رہتیں اور وہ اکثر ان کے ساتھ کھیلا کرتیں ،لیکن اس لڑکپن اور کھیل کود میں بھی رسول اللہ ﷺ کا ادب ہر وقت ملحوظ رہتا۔

اکثر ایسا ہوتا کہ حضرت عائشہؓ کھیلتی ہوتیں ، ارد گرد سہیلیوں کا ہجوم ہوتا کہ اتفاقاً رسول اللہ ﷺ پہنچ جاتے۔ وہ جلدی سے گڑیوں کو چھپا لیتیں ۔ سہیلیاں آپؐ کو دیکھ کر اِدھر ادھر چھُپ جاتیں لیکن چونکہ آپؐ بچّوں سے خاص محبت رکھتے تھے اور ان کے کھیل کود کو برا نہیں سمجھتے تھے، اس لئے لڑکیوں کو پھر بُلا بُلا کر حضرت عائشہؓ کے ساتھ کھیلنے کو کہتے تھے۔ تمام کھیلوں میں ان کو دو کھیل سب سے زیادہ پسند تھے، گڑیاں کھیلنا اور جھولا جھولنا۔

تھا جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے ۔آپؐ نے پوچھا ،عائشہ! یہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ’’ گھوڑا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے‘‘۔ انہوں نے بر جستہ کہا ، کیوں ؟ حضرت سلیمانؑ کے گھوڑوں کے تو پر تھے‘‘۔ آپ اس بے ساختہ جواب پر مسکرا دیئے۔ اس واقعہ سے حضرت عائشہؓ کی فطری حاضر جوابی ، مذہبی واقفیت ، ذہانت اور سمجھ بوجھ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

عموماً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچّوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انھیں کسی بات کا بالکل ہوش نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی بات کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کی مصلحتوں کو بتاتی تھیں ۔ لڑکپن کے کھیل کود میں اگر کوئی آیت ان کے کانوں میں پڑ جاتی تو اس کو بھی یاد رکھتی تھیں ۔ فرمایا کرتی تھیں کہ مکّہ میں جب یہ آیت بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَاَمَرّْ ( بلکہ ان سے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور وہ وقت ہے بڑی آفت والا اور نہایت تلخ)۔ (سورہ القمر ۔۴۶) نازل ہوئی تو میں کھیل رہی تھی۔ ہجرت کے وقت ان کا سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس کمسنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوّتِ حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرت نبویؐ کے تمام واقعات بلکہ تمام چھوٹی چھوٹی باتیں ان کو یاد تھیں ۔ ان سے بڑھ کر کسی صحابی نے ہجرت کے واقعہ کا تمام مسلسل بیان محفوظ نہیں رکھا ہے۔

شادی

رسول اللہ ﷺ کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ بنت خویلد تھیں ۔ ہجرت سے تین برس پہلے ۶۵ برس کی عمر میں انہوں نے وفات پائی ، اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر شریف پچاس برس کی تھی ۔ایسی رفیق و غمگسار بیوی کی وفات کے بعد آنحضرت ﷺ بہت غمگین رہا کرتے تھے بلکہ اس تنہائی کے غم سے زندگی بھی دشوار ہو گئی تھی۔ جاں نثاروں کو اس کی بڑی فکر ہوئی۔ حضرت عثمانؓ بن مظعون ایک مشہور صحابی ہیں انکی بیوی خولہؓ بنت حکیم آپؐ کے پاس آئیں اور عرض کی یا رسول اللہؐ آپ دوسرا نکاح کر لیں ۔ آپؐ نے فرمایا کس سے؟ خولہ نے کہا بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاں موجود ہیں جس کو آپ پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے۔ فرمایا وہ کون ہیں ؟ خولہ نے کہا بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابو بکرؓ کی لڑکی عائشہؓ۔ارشاد ہوا بہتر ہے تم ان کی نسبت گفتگو کرو۔حضرت خولہؓ رسول اللہ ﷺ کی مرضی پا کر پہلے حضرت ابو بکرؓ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا۔جاہلیت کا دستور یہ تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منھ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے ۔اس بناء پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا ، خولہ! عائشہ تو آنحضرت ﷺ کی بھتیجی ہے، آپؐ سے اس کا نکاح کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت خولہؓ نے آ کر آنحضرتﷺ سے اس سلسلے میں پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا ابو بکرؓ میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے قبول کر لیا ۔

حضرت عائشہؓ کم سن بچّی تھیں ۔ کبھی کبھی بچپن کے تقاضے سے ماں کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر بیٹھتی تھیں تو ماں سزا دیتی تھیں ۔آنحضرت ﷺ اس حال میں دیکھتے تو رنج ہوتا۔ اس بناء پرانکی ماں حضرت امّ رومانؓ سے تاکید فرما دی تھی کہ ذرا میری خاطر ان کو ستانا نہیں ۔ ایک بار آپ حضرت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ کواڑ سے لگ کر رو رہی ہیں ۔ آپؐ نے حضرت ام رومانؓ سے کہا کہ تم نے میری بات کا لحاظ نہیں کیا۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ باپ سے میری بات جا کر لگا آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ بھی کرے لیکن اس کو ستاؤ نہیں ۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ نکاح سے پہلے آنحضرت ﷺ نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر آپؐ کے سامنے کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔ پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ یہ آپؐ کی بیوی ہیں ۔ آپؐ نے کھول کر دیکھا تو حضرت عائشہؓ تھیں ۔حضرت عائشہ کا جب نکاح ہو ا تو وہ اس وقت چھ۶ برس کی تھیں ۔یہ نکاح مئی ۶۲۰ ء میں ہوا۔ اس کم سنی کی شادی کا اصل مقصد نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی ویسے بھی عرب کی گرم آب و ہوا میں لڑکیوں کی جسمانی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز لوگوں کی ذہنی اور دماغی ترقی بہت تیز ہوتی ہے اسی طرح قد و قامت کی ترقی بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ بہر حال اس کم سنی میں آنحضرت ﷺ کا حضرت عائشہ سے نکاح کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ لڑکپن ہی سے ان میں غیر معمولی عقل و فہم اور سمجھ بوجھ کے آثار نمایاں تھے۔

حضرت عطیہؓ حضرت عائشہؓ کے نکاح کا واقعہ اس سادگی سے بیان کرتی ہیں کہ ’’ حضرت عائشہؓ لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں ۔ ان کی ماں آئیں اور ان کو لے گئیں ۔ حضرت ابو بکرؓ نے آ کر نکاح پڑھا دیا۔‘‘

مسلمان عورت کی شادی صرف اسی قدر اہتمام چاہتی ہے۔ لیکن آج ایک مسلمان لڑکی کی شادی فضول خرچی اور مشرکانہ رسم و رواج کا مجموعہ ہے۔ لیکن کیا خود سرور عالم ﷺ کی یہ مقدس تقریب اس کی عملی تکذیب نہیں ؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میرا نکاح ہوا تو مجھ کو خبر تک نہ ہوئی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ جب میری والدہ نے باہر نکلنے میں روک ٹوک شروع کی تب میں سمجھی کہ میرا نکاح ہو گیا۔ اس کے بعد میری والدہ نے مجھے سمجھا بھی دیا۔

حضرت عائشہؓ کا مہر رسول اللہﷺ نے پانچ سو درہم مقرر فرمایا تھا جو ۱۳۱ تولہ اور تین ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ بہر حال مہر کی ا س مقدار کا مقابلہ آج کل کے زر مہر کی تعداد سے کرو جو ہمارے ملک میں جاری ہے۔ آج مہر کی کمی خاندان کی ذلّت سمجھی جاتی ہے لیکن کیا اسلام کا کوئی خاندان خانوادۂ صدیقؓ سے شریف تر ہے اور کوئی مسلمان لڑکی صدیقۂ کبریٰؓ سے زیادہ بلند پایہ ہے؟

ہجرت

حضرت عائشہؓ نکاح کے بعد تقریباً تین برس تک میکہ ہی میں رہیں ۔ دو برس تین مہینے مکہ میں اور سات مہینے ہجرت کے بعد مدینہ میں ۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ روزانہ صبح یا شام کو حضرت ابوبکرؓ کے گھر بلا ناغہ آیا کرتے تھے ۔ایک دن خلاف معمول چہرۂ مبارک چادر سے لپیٹے دوپہر کو تشریف لائے ۔ حضرت ابو بکرؓ کے پاس حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ دونوں صاحبزادیاں بیٹھیں تھیں ۔ آپ نے پکار کر آواز دی کہ ابو بکر ذرا لوگوں کو ہٹا دو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہاں کوئی غیر نہیں ، آپؐ ہی کے گھر والے ہیں ۔ آپؐ تشریف لائے اور ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ نے مل جل کر سامان سفر درست کیا ۔دونوں صاحبوں نے مدینہ کی راہ لی اور بال بچوں کو یہیں دشمنوں کے بیچ چھوڑ گئے جس دن یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا مدینہ پہنچا، نبوّت کا چودہواں سال اور ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ تھی۔

مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو آپؐ نے بیوی بچّوں کے لانے کے لئے حضرت زید بن حارثہؓ اور اپنے غلام ابو رافعؓ کو مکہ بھیجا۔ حضرت ابو بکرؓ نے بھی اپنا آدمی بھیج دیا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن ابی بکرؓ اپنی ماں اور دونوں بہنوں کو لیکر مکہ سے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہؓ سوار تھیں وہ بھاگ نکلا اور اس زور سے دوڑا کہ ہر منٹ پر یہ ڈر تھا کہ اب پالان گرا اور اب گرا۔ عورتوں کا جیسا قاعدہ ہے ماں کو اپنی پرواہ تو نہ تھی لیکن بیٹی کے لئے زارو قطار رونے لگیں ۔آخر میلوں پر جا کر جب اونٹ پکڑا گیا تو ان کو تشفی ہوئی ۔یہ مختصر قافلہ جب مدینہ پہنچا تو آنحضرت ﷺ اس وقت مسجد نبویؐ اور اس کے آس پاس مکانات بنوا رہے تھے ۔ آنحضرت ﷺ کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور آپ کی بیوی حضرت سودہؓ بنت زمعہ اسی نئے گھر میں اتریں ۔

 

 رخصتی

حضرت عائشہؓ اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو حارث بن خزرج کے محلّہ میں اتریں اور  سات آٹھ مہینے تک یہیں اپنی ماں کے ساتھ رہیں ۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور بہت سارے لوگ بیمار پڑ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ سخت بخار میں مبتلا ہو گئے کم سن بیٹی اس وقت اپنے بزرگ باپ کی تیمار داری میں مصروف تھی ۔ حضرت عائشہؓ نے آ کر آنحضرت ﷺ سے کیفیت عرض کی ۔ آپ نے دعا فرمائی، اس کے بعد وہ خود بیمار پڑیں اور اب باپ کی غمخواری کا موقع آیا۔ حضرت ابو بکرؓ بیٹی کے پاس جاتے اور  حسرت سے منھ پر منھ رکھ دیتے ۔یہ اس شدّت کی بیماری تھی کہ حضرت عائشہؓ کے سر کے تمام بال گر گئے۔ صحت ہوئی تو حضرت ابو بکرؓ نے آ کر عرض کی یا رسول اللہﷺ اب آپ اپنی بیوی کو اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس مہر ادا کرنے کے لئے روپئے نہیں ہیں ۔ گزارش کی کہ میری دولت قبول ہو۔ چنانچہ رسو ل اللہ ﷺ نے حضر ت ابو بکرؓ سے قرض لے کر حضرت عائشہؓ کے پاس بھجوا دئیے۔ اس واقعہ سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئیے جو مہر کو دنیا کا وہ قرض سمجھتے ہیں جس کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ مہر عورت کا حق ہے اور اس کو ملنا چاہئے۔

مدینہ گویا حضرت عائشہؓ کی سسرال تھی۔ انصار کی عورتیں دلہن کو لینے حضرت ابو بکرؓ کے گھر آئیں ۔ حضرت امّ رومانؓ نے بیٹی کو آواز دی ، وہ اس وقت سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں ۔ آواز سنتے ہی ماں کے پاس ہانپتی کانپتی دوڑی آئیں ۔ ماں بیٹی کا ہاتھ پکڑے دروازہ تک لائی، وہاں منھ دھلا کر بال سنوار دیئے ، پھر ان کو اس کمرے میں لے گئیں جہاں انصار کی عورتیں دلہن کے انتظار میں بیٹھیں تھیں ۔ دلہن جب اندر داخل ہوئی تو مہمانوں نے علی الخیر والبرکۃ و علیٰ خیر طائرٍ یعنی’’ تمہارا آنا بخیر و با برکت اور فال نیک ہو‘‘ کہہ کر استقبال کیا اور دلہن کو سنوارا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود آنحضرتﷺ بھی تشریف لائے۔ اس وقت آپؐ کی ضیافت لئے دودھ کے ایک پیالہ کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت اسماءؓ بنت یزید حضرت عائشہؓ کی ایک سہیلی بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت موجود تھی کہ آنحضرت ﷺ نے پیالہ سے تھوڑا سا دودھ پی کر حضرت عائشہؓ کی طرف بڑھایا، وہ شرمانے لگیں ۔ میں نے کہا رسول اللہ ﷺ کا عطیہ واپس نہ کرو۔انہوں نے شرماتے شرماتے لے لیا اور ذرا سا پی کر رکھ دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اپنی سہیلیوں کو دو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ اس وقت ہم کو خواہش نہیں ۔ فرمایا جھوٹ نہ بولو، آدمی کا ایک ایک جھوٹ لکھا جاتا ہے۔یہ رخصتی شوال ۱ھ مطابق ۶۲۳ ء میں ہوئی جب حضرت عائشہؓ نو برس کی تھیں ۔ ان بیانات سے اتنا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا نکاح ، مہر ، رخصتی غرض ہر رسم کس سادگی سے ادا کی گئی تھی، جس میں تکلّف ،دکھاوا اور فضول خرچی کا نام تک نہیں ۔ وَ فِی ذَالِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الَمُتَنَافِسُونْ ( اور یہ وہ چیز ہے جس میں سبقت کرنے والے کو سبقت کرنا چاہئے)۔ (المطففین۔۲۶)

حضرت عائشہؓ کے نکاح کی تقریب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے عرب کی بہت سے بیہودہ اور بری رسموں کی بندشیں ٹوٹیں جیسے منہ بولے بھائی کی لڑکی سے شادی نہ کرنا، شوال میں شادی نہ کرنا وغیرہ۔

 

 

 

تعلیم و تربیت

 

عرب میں خود مردوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا تو عورتوں میں کیا ہوتا ۔جب اسلام آیا تو قریش کے سارے قبیلہ میں صرف سترہ آدمی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ ان میں شفاء بنت عبد اللہ عدویہ صرف ایک عورت تھیں ۔ اسلام کی دنیوی برکتوں میں یہ واقعہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کا فن بھی ترقی کرتا جاتا تھا۔

آنحضرت ﷺ کی حضرت عائشہؓ سے اس کم سنی کی شادی میں بڑی مصلحت یہ تھی کہ لڑکپن سے ہی جو عین تعلیم و تربیت کا زمانہ ہے۔ آپؐ کی صحبت کا بھر پور فائدہ اٹھا کر وہ سارے جہاں کی عورتوں کے لئے نمونہ اور چراغِ راہ بنیں ۔اس لئے حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا اصلی زمانہ رخصتی کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اسی زمانہ میں پڑھنا سیکھا۔ قرآن دیکھ کر پڑھتی تھیں ۔بہر حال پڑھنا لکھنا تو انسان کی ظاہری تعلیم ہے، حقیقی تعلیم و تربیت کا معیار اس سے بہت بلند ہے۔انسان کی تکمیل ، اخلاق کی پاکیزگی ، ضروریاتِ دین سے واقفیت ، شریعت سے آگہی ، کلامِ الٰہی کی سمجھ ، احکامِ نبوی کا علم بھی اعلیٰ تعلیم ہے۔ حضرت عائشہؓ اس تعلیم سے اچھی طرح واقف تھیں ۔ علوم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کا بھی بہت اچھا علم رکھتی تھیں ۔

علومِ دینیہ کی تعلیم کا کوئی وقت مخصوص نہ تھا۔ معلّمِ شریعتؐ خود گھر میں تھا اور ہر وقت اس کی صحبت میسر تھی۔ آنحضرتﷺ کی تعلیم و ارشاد کی مجلسیں روزانہ مسجدِ نبویؐ میں ہوتی تھیں جو جحرۂ عائشہؓ سے بالکل لگی تھی، اس بناء پر آپؐ گھر سے باہر بھی لوگوں کو جو درس دیتے تھے وہ اس میں شریک رہتی تھیں ۔ اگر کبھی دوری کی وجہ سے کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو آنحضرت ﷺ جب زنان خانہ میں تشریف لاتے دوبارہ پوچھ کر تشفّی کر لیتیں ۔کبھی اٹھ کر مسجد کے قریب چلی جاتیں ۔اس کے علاوہ آپ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتہ میں ایک خاص دن انکی تعلیم و تلقین کے لئے متعیّن فرما دیا تھا۔

دن و رات اسلام کے بیسیوں مسئلے ان کے کان میں پڑتے تھے۔ ان کے علاوہ خود حضرت عائشہؓ کی عادت یہ تھی کہ ہر مسئلہ کو بے جھجھک آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کر دیتی تھیں اور جب تک تسلّی نہ ہو لیتی صبر نہ کرتیں ۔ ایک دفعہ آپؐ نے بیان فرمایا ’’ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ ‘‘یعنی قیامت میں جس کا حساب ہوا اس پر عذاب ہو گیا، عرض کیا یا رسول اللہ ! خدا تو فرماتا ہے: فَسَوفَ یُحَاسَبُ حِسابًا یَّسِیراً (انشقاق) یعنی اس سے آسان حساب لیا جائیگا، آپ نے فرمایا یہ ’’اعمال کی پیشی ہے، لیکن جس کے اعمال میں پوچھ تاچھ شروع ہوئی وہ تو برباد ہی ہوا‘‘۔

دوران وعظ ایک دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’ قیامت میں لوگ ننگے اٹھیں گے‘‘ عرض کی یا رسول اللہ ! عورت و مرد ایک ساتھ ہو نگے تو کیا ایک دوسرے کی طرف نظریں نہ اٹھ جائیں گی‘‘ ارشاد ہوا کہ ’’ عائشہؓ ! وقت عجب نازک ہو گا ‘‘ یعنی کسی کو کسی کی خبر نہ ہو گی۔ ایک بار دریافت کیا کہ’’ یا رسو ل اللہ قیامت میں ایک دوسرے کو کوئی یا د بھی کرے گا ؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کریگا۔ایک تو جب اعمال تو لے جا رہے ہو نگے اور دوسرے جب اعمال نامے بٹ رہے ہونگے ، تیسرے جب جہنم گرج گرج کر کہ رہی ہو گی کہ میں تین قسم کے آدمیوں کے لئے مقرر ہوئی ہوں ‘‘۔

عبد اللہ بن جدعان مکہ کا ایک نیک مزاج اور رحم دل مشرک تھا۔ اسلام سے پہلے قریش کی باہمی خونریزی کو روکنے کے لئے اس نے تمام سردارِ قریش کو جمع کر کے ایک صلح کی مجلس قائم کی تھی جس میں خود آنحضرت ﷺ بھی شریک تھے۔ حضرت عائشہؓ نے سوال کیا ’’ یا رسول اللہ ! عبد اللہ بن جدعان جاہلیت میں لوگوں سے مہربانی کے ساتھ پیش آتا تھا غریبوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ عمل اس کو کچھ فائدہ دیگا‘‘؟ آپؐ نے جواب دیا ’’ نہیں عائشہؓ ! اس نے کسی دن یہ نہیں کہا کہ اللہ قیامت میں میری خطا معاف کرنا‘‘۔

نکاح میں رضامندی شرط ہے لیکن کنواری لڑکیاں اپنے منھ سے آپ تو رضا مندی نہیں ظاہر کر سکتیں ۔ اس لئے دریافت کیا کہ ’’ یا رسول اللہ ! نکاح میں عورت سے اجازت لے لینا چاہیئے ‘‘ فرمایا، ’’ ہاں ‘‘ عرض کی کہ ’’ وہ شرم سے چپ رہتی ہے ‘‘ارشاد ہوا کہ’’ اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے‘‘۔

اسلام میں پڑوسیوں کے بڑے حقوق ہیں اور اس ادائے حق کا سب سے زیادہ موقع عورتوں کو ہاتھ آتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ دو پڑوسی ہوں تو کس کو ترجیح دی جائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ یہ سوال پیش کیا۔ جواب ملا کہ ’’ جس کا دروازہ تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو‘‘۔

اسی طرح حضرت عائشہؓ کے بیسیوں سوالات اور مباحث احادیث میں مذکور ہیں جو در حقیقت ان کے روزانہ تعلیم کے مختلف اسباق ہیں ۔

ان سوالات اور مباحث کے علاوہ آنحضرت ﷺ خود بھی حضرت عائشہؓ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت کی نگرانی کرتے اور جہاں لغزش نظر آتی ، ہدایت و تعلیم فرماتے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں چند یہودی آئے اور بجائے السلام علیک کے (تم پر سلامتی ہو ) زبان دبا کر السام علیک (تم کو موت آئے) کہا آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں صرف وعلیکم (اور تم پر) فرمایا حضرت عائشہؓ سُن رہی تھیں وہ ضبط نہ کر سکیں ، بولیں ، علیکم السام واللّعنۃ ( تم پر موت اور لعنت) آپؐ نے فرمایا ’’ عائشہؓ نرمی چاہئے ، خدائے عز و جلّ ہر بات میں نرمی پسند کرتا ہے‘‘۔

ایک دفعہ کسی نے حضرت عائشہؓ کی کوئی چیز چرائی۔ زنانہ رسم کے مطابق انہوں نے اس کو بد دعا دی ، ارشاد ہوا ’’ بد دعا دے کر اپنا ثواب اور اس کا گناہ کم نہ کرو‘‘۔ ایک بار وہ سفر میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ ایک اونٹ پر سوار تھیں ۔ اونٹ کچھ تیزی کرنے لگا۔ عام عورتوں کی طرح ان کی زبان سے بھی لعنت کا کلمہ نکل گیا۔ آپؐ نے حکم دیا کہ اونٹ کو واپس کر دو ، ملعون چیز ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔یہ گویا تعلیم تھی کہ جانور تک کو بُرا نہیں کہنا چاہئے۔

عام طور سے لوگ اور خصوصاً عورتیں معمولی گناہوں کی پرواہ نہیں کرتیں ۔ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کی طرف خطاب کر کے فرمایا ،عائشہ معمولی گناہوں سے بھی بچا کرو ، خدا کے ہاں ان کی بھی پرسش ہو گی۔ ایک دفعہ وہ آنحضرت ﷺ سے کسی عورت کا حال بیان کر رہی تھیں ۔دوران گفتگو میں بولیں کہ ’’ وہ پست قد ہے‘‘ آپ نے فوراً ٹوکا کہ ’’ عائشہؓ یہ بھی غیبت ہے ‘‘۔

حضرت صفیہؓ کسی قدر پست قد تھیں ۔ ایک دن انہوں نے کہا ’’ یا رسول اللہ ! بس کیجئے صفیہ تو اتنی ہیں ‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ تم نے ایسی بات کہی کہ اگر سمندر کے پانی میں بھی ملاؤ تو ملا سکتی ہو ‘‘ یعنی یہ غیبت ایسی تلخ بات ہے کہ سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو کل پانی بد مزہ ہو جائے ۔ عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ! میں نے تو ایک شخص کی نسبت واقعہ بیان کیا‘‘ فرمایا کہ اگر مجھ کو اتنا اور اتنا بھی دیا جائے تو بھی یہ بیان نہ کروں ‘‘ یعنی مجھ کو کسی قدر بھی لالچ دلائی جائے تو میں ایسی بات کسی کے متعلّق نہ کہوں ۔

ایک دفعہ کسی سائل نے سوال کیا۔ حضرت عائشہؓ نے اشارہ کیا تو لونڈی ذرا سی چیز لیکر دینے چلی۔ آپ نے فرمایا ’’ عائشہؓ گن گن کر نہ دیا کرو ورنہ خدا تم کو بھی گن گن کر دیگا ‘‘ دوسرے موقع پر فرمایا ’’ عائشہ ! چھوہارے کا ایک ٹکڑا بھی ہو تو وہی سائل کو دیکر جہنم کی آگ سے بچو۔‘‘

ایک موقع پر آپ نے یہ دعا مانگی ’’ خداوندا !مجھے مسکین زندہ رکھ، حالتِ مسکینی ہی میں موت دے اور مسکینوں ہی کے ساتھ قیامت میں اٹھا ‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی یہ کیوں یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا ’’ مسکین دولت مندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے ۔ اے عائشہؓ ! کسی مسکین کو خالی ہاتھ واپس نہ کرنا گو چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ مسکینوں سے محبت رکھو اور ان کو اپنے پاس جگہ دیا کرو ‘‘۔

ان مختلف اخلاقی نصیحتوں کے علاوہ نماز ، دعا اور دینیات کی اکثر باتیں آنحضرتﷺ ان کو سکھایا کرتے تھے اور وہ نہایت شوق سے ان کو سیکھا کرتی تھیں اور ہر ایک حکم کی شدّت کے ساتھ پابندی کرتی تھیں ۔

 

 

 

خانہ داری

 

حضرت عائشہؓ جس گھر میں رخصت ہو کر آئی تھیں وہ کوئی بلند اور عالیشان عمارت نہ تھی۔ بنی نجار کے محلہ میں مسجد نبویؐ کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے چند حجرے تھے۔ انھیں میں ایک حجرہ حضرت عائشہؓ کا گھر تھا۔یہ حجرہ مسجد کی پوربی جانب واقع تھا اوراس کا ایک دروازہ مسجد کے اندر پچھم رُخ واقع تھا کہ گویا مسجدِ نبویؐ اس کا صحن بن گئی تھی۔ آنحضرت ﷺ اسی دروازہ سے ہو کر مسجد میں داخل ہوتے تھے۔

حجرہ کی لمبائی چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی ۔ دیواریں مٹی کی تھیں اور کھجور کی پتیوں اور ٹہنیوں کا چھت تھا۔ اوپر سے کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت تک پہنچ جاتا اور دروازہ میں ایک پٹ کا کواڑ تھا لیکن وہ عمر بھر کبھی بند نہ ہوا۔ پردہ کے طور پر ایک کمبل پڑا رہتا تھا۔ حجرہ سے لگا ہوا ایک بالا خانہ تھا جس کو مشربہ کہتے تھے ۔

گھر کی کل کائنات ایک چار پائی، ایک چٹائی ، ایک بستر ، ایک تکیہ جس میں چھال بھری تھی ، آٹا اور کھجور رکھنے کے ایک دو مٹکے ، پانی کا ایک برتن اور پانی پینے کا ایک پیالہ سے زیادہ نہ تھی۔ آپؐ کا گھر گو نورِ الٰہی سے منور تھا لیکن راتوں کو چراغ جلانا بھی صاحبِ خانہ کی استطاعت سے باہر تھا۔ کہتی ہیں کہ چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں تھیں اور گھر میں چراغ نہ جلتا تھا۔

گھر میں کل دو آدمی تھے ۔حضرت عائشہؓ اور رسول اللہ ﷺ ۔ کچھ دن کے بعد بریرہ نام کی ایک لونڈی کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ جب تک حضرت عائشہؓ اور حضرت سودہؓ صرف دو بیویاں رہیں آنحضرتﷺ ایک روز بیچ دیکر حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں شب باش ہوتے تھے۔ اس کے بعد جب اور ازواج بھی اس شرف سے ممتاز ہوئیں ، تو حضرت سودہؓ نے اپنے بڑھاپے کے سبب اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی۔ اس بناء پر نو دن میں دو دن آپؐ حضرت عائشہؓ کے گھر میں رہتے ۔

گھر کے کاروبار کے لئے بہت زیادہ اہتمام اور انتظام کی ضرورت نہ تھی۔ کھانا پکنے کی بہت کم نوبت آتی تھی۔ خود حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی تین دن لگا تار ایسے نہیں گزرے کہ خاندانِ نبوت نے سیر ہو کر کھایا ہو۔ فرماتی تھیں گھر میں مہینہ مہینہ بھر آگ نہیں جلتی تھی۔ چھوہارے اور پانی پر گزارہ تھا۔ فتح خیبر کے بعد آنحضرت ﷺ نے ازواجِ مطہراتؓ کے سالانہ خرچ کے لئے کچھ رقم مقرر کر دیئے تھے، لیکن دریا دلی اور سخاوت کی وجہ سے سال بھر کے لئے یہ سامان کبھی کافی نہ ہوا۔

صحابہؓ اپنی محبت سے تحفے اور ہدیے عموماً بھیجتے رہتے تھے۔ خاص کر جس دن حضرت عائشہؓ کے ہاں قیام کی باری ہوتی لوگ قصداً ہدیے بھیجا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ آپؐ باہر سے تشریف لاتے اور دریافت فرماتے کہ عائشہؓ کچھ ہے ؟ جواب دیتیں کہ یا رسول اللہ ﷺ کچھ نہیں ہے اور پھر گھر بھر روزہ ہوتا۔ کبھی بعض انصار دودھ بھیج دیا کرتے تھے اسی پر قناعت کر لیتے۔

اس عقل و شعور کے باوجود جو قدرت کی طرف سے ان کو عطاء ہوا تھا ۔ کم سنی کی غفلت اور بھول چوک سے وہ بری نہ تھیں ۔گھر میں آٹا گوندھ کر رکھتیں اور بے خبر سو جاتیں ۔ بکری آتی اور کھا جاتی۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آٹا پیسا اور اس کی ٹکیاں پکائیں اور آنحضرتﷺ کی تشریف آوری کا انتظار کر نے لگیں ۔ شب کا وقت تھا۔ آپؐ آئے تو نماز میں مشغول ہو گئے۔ ان کی آنکھ لگ گئی ۔ ایک پڑوسی کی بکری آئی اور سب کھا گئی ۔ دوسری بیویوں کے مقابلہ میں کھانا بھی اچھا نہیں پکاتی تھیں ۔

آنحضرتﷺ کا خانگی انتظام حضرت بلال کے سپرد تھا۔ وہی سال بھر کا غلّہ تقسیم کرتے تھے۔ ضرورت کے وقت باہر سے قرض لاتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے جب وفات پائی ہے تو سارا عرب فتح ہو چکا تھا اور تمام صوبوں سے بیت المال میں خزانے لدے چلے آتے تھے ۔ تاہم جس دن آنحضرت ﷺ نے وفات پائی اس دن حضرت عائشہؓ کے گھر میں ایک دن کے گزارے کا سامان بھی نہ تھا۔

 

 

 

معاشرتِ ازدواجی

 

عورت کے متعلّق لوگوں کے خیالات نہایت مختلف ہیں ۔مشرق میں عورت ایک ناپاک وجود ہے اور نیکی کی راہ کا ایک بڑا کانٹا ہے۔ دوسری طرف مغرب اس کو خدا سمجھتا ہے یا خدا کے برابر جانتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ جو عورت کی مرضی وہ خدا کی مرضی‘‘ ۔ اسلام کا صراط مستقیم نہ عورت کو خدا جانتا ہے نہ زندگی کی راہ کا کانٹا سمجھتا ہے۔ اس نے عورت کی بہترین تعریف یہ کی کہ وہ مرد کے لئے اس دنیا میں تسکین و تسلّی کی روح ہے۔

’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تمہارے جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں کہ تم انکے پاس پہنچ کر تسلی پاؤ اور اسی نے تم دونوں کے درمیان لطف و محبت پیدا کیا‘‘۔ (سورہ روم)

آنحضرتﷺ اور حضرت عائشہؓ کی خانگی زندگی میں عملاً ازدواجی تعلّقات کا کیا حال تھا وہ آنحضرتؐ کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’تم میں اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کیلئے سب سے اچھا ہے اور میں اپنی بیویوں کیلئے تم سب سے اچھا ہوں ‘‘۔

اس کی عملی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ حضرت عائشہؓ کی ازدواجی زندگی نو برس تک قائم رہی، لیکن اس طویل مدّت میں واقعۂ ایلا کے سوا کوئی واقعہ باہمی غیر معمولی کشیدگی کا پیش نہیں آیا ۔ ہمیشہ لطف و محبت اور باہمی ہمدردی و خلوص کی معاشرت قائم رہی خصوصاً جب یہ تصور کیا جائے کہ خاندانِ نبوت کی دنیاوی زندگی کس تنگی اور فقر و فاقہ سے گزرتی تھی تو اس لطف و محبّت کی قدر اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

 

بیوی سے محبّت

آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ سے نہایت محبّت رکھتے تھے اور یہ تمام صحابہ کو معلوم تھا۔ چنانچہ لوگ قصداً اسی روز ہدیے اور تحفے بھیجتے تھے جس روز حضرت عائشہؓ کے ہاں قیام کی باری ہوتی اور ازواجِ مطہرات کو اس کا ملال ہوتا تھا لیکن کوئی ٹوکنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ آخر سب نے مل کر حضرت فاطمہ کو آمادہ کیا۔وہ پیام لیکر رسول اللہﷺ کی خدمت میں آئیں ۔ آپؐ نے فرمایا ’’ لخت جگر ! جس کو میں چاہوں اس کو تم نہیں چاہو گی؟ ‘‘سیدۂ عالمؓ کے لیے اتنا کافی تھا وہ واپس چلی آئیں ۔ ازواج نے پھر بھیجنا چاہا مگر وہ راضی نہ ہوئیں ۔ آخر لوگوں نے حضرت امّ سلمہؓ کو بیچ میں ڈالا۔ وہ نہایت سنجیدہ اور متین بیوی تھیں ، انہوں نے موقع پا کر سنجیدگی کے ساتھ درخواست پیش کی۔ آپؐ نے فرمایا : ’’ ام سلمہؓ مجھ کو عائشہؓ کے معاملہ میں دق نہ کرو کیونکہ عائشہؓ کے علاوہ کسی اور بیوی کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی۔‘‘

حضرت عمرو بن العاص جب جنگ سلاسل سے واپس آئے تو دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں ارشاد ہوا کہ ’’ عائشہ کو ‘‘ عرض کی یا رسول اللہ! مردوں کی نسبت سوال ہے۔ فرمایا’’ عائشہؓ کے باپ کو‘‘ ۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے حفصہؓ کو سمجھایا کہ ’’عائشہ کی ریس نہ کیا کرو وہ تو حضور کو محبوب ہے۔‘‘

ایک دفعہ ایک سفر میں حضرت عائشہؓ کی سواری کا اونٹ بدک گیا اور ان کو لیکر ایک طرف کو بھاگا آنحضرتﷺ اس قدر بے قرار ہوئے کہ بے اختیار زبان مبارک سے نکل گیا ’’ہائے میری دلہن!‘‘۔

ایک دفعہ آنحضرتﷺ باہر سے تشریف لائے۔ حضرت عائشہؓ کے سر میں درد تھا اس لئے کراہ رہی تھیں ۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ آہ میرا سر‘‘ اُسی وقت آنحضرت ﷺ کی بیماری شروع ہوئی اور یہی آپ کا مرض الموت تھا۔ مرض الموت میں بار بار دریافت فرماتے تھے کہ آج کون سا دن ہے؟ لوگ سمجھ گئے کہ حضرت عائشہؓ کی باری کا انتظار ہے۔ چنانچہ آپؐ کو لوگ ان کے حجرے میں لے گئے اور آپؐ اپنی وفات تک وہیں مقیم رہے اور وہیں حضرت عائشہؓ کے زانوؤں پر سر رکھے ہوئے وفات پائی۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ الٰہی جو چیز میرے امکان میں ہے (یعنی بیویوں میں معاشرت اور لین دین کی برابری) میں اس عدل سے باز نہیں آتا لیکن جو میرے امکان سے باہر ہے (یعنی عائشہؓ کی قدرو محبت ) اس کو معاف کرنا۔‘‘

عام لوگ سمجھتے ہیں کہ آپؐ کو حضرت عائشہؓ سے محبت ان کی خوبصورتی کی بناء پرتھی۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے ۔ ازواجِ مطہرات میں حضرت زینبؓ ، حضرت جویریہؓ اور حضرت صفیّہؓ بھی حسین تھیں اور کم سن بھی تھیں ۔اصل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ مسائل کی سمجھ اور احکام کو یاد رکھنے میں تمام ازواج میں سب سے بہتر تھیں اس بناء پر شوہر کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’مردوں میں تو بہت کامل گزرے لیکن مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے سوا عورتوں میں کوئی کامل نہ ہوئی اور عائشہؓ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو تمام کھانوں پر‘‘(ثرید: ایک اعلی عربی غذا جو روٹی کو شوربے میں بھگو کر تیار کیا جاتا تھا)

 

 

شوہر سے محبّت

حضرت عائشہؓ کو بھی رسول اللہ ﷺ سے شدید محبّت تھی ۔ اس محبت کا کوئی اور دعویٰ کرتا تو ان کو ملال ہوتا تھا۔ کبھی راتوں کو حضرت عائشہؓ بیدار ہوتیں اور آپؐ کو پہلو میں نہ پاتیں تو بیقرار ہو جاتیں ۔ ایک دفعہ شب کو آنکھ کھلی تو آپؐ کو نہ پایا۔ راتوں کو گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے اسلئے اِدھر اُدھر ٹٹولنے لگیں ۔ آخر ایک جگہ آنحضرت ﷺ کا قدمِ مبارک ملا، دیکھا تو آپ سجدہ میں ہیں ۔ ایک دفعہ اور یہی واقعہ پیش آیا تو شک سے خیال کیا کہ شاید آپؐ کسی اور بیوی کے ہاں تشریف لے گئے ہیں ۔اُٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگیں ۔ دیکھا تو آپ عبادت میں مصروف ہیں ۔ اپنے قصور پر نادم ہوئیں ۔ اور بے اختیار زبان سے نکل گیا ’’ میرے ماں باپ قربان ! میں کس خیال میں ہوں اور آپؐ کس عالم میں ہیں ‘‘۔

ایک شب کا واقعہ ہے کہ آنکھ کھلی تو آنحضرت ﷺ کو نہ پایا آدھی رات گزر چکی تھی ۔ادھر اُدھر ڈھونڈا لیکن محبوبؐ کا جلوہ نظر نہیں آیا۔ آخر تلاش کرتی ہوئی قبرستان پہنچیں دیکھا تو آپؐ دعاء و استغفار میں مشغول ہیں ۔

ایک سفر میں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ دونوں آپؐ کے ساتھ تھیں ۔ رات کو بلا ناغہ آپؐ حضرت عائشہ کی محمل میں تشریف لاتے اور جب تک قافلہ چلا کرتا باتیں کیا کرتے ۔ ایک دن حضرت حفصہؓ نے کہا لاؤ ہم دونوں اپنا اپنا اونٹ بدل لیں ۔ رات ہوئی تو حسب معمول آپ حضرت عائشہؓ کی محمل میں تشریف لائے دیکھا تو حضرت حفصہؓ تھیں ۔آپؐ سلام کر کے بیٹھ گئے۔ حضرت عائشہؓ تشریف آوری کی منتظر تھیں ۔ جب قافلہ نے پڑاؤ ڈالا تو حضرت عائشہ سے ضبط نہ ہو سکا ، محمل سے اتر پڑیں ، دونوں پاؤں گھاس پر رکھ دیئے اور بولیں ’’ خداوندا ! میں ان کو تو کچھ نہیں کہہ سکتی تو کوئی بچھو یا سانپ بھیج جو مجھ کو آ کر ڈس لے ‘‘۔ دیکھو اس فقرہ میں کس قدر نسوانی خصوصیات کی جھلک ہے۔

جنگ موتہ میں حضرت جعفر طیارؓ کی شہادت کی خبر آئی تو آپؐ کو سخت ملال ہوا۔ اسلام میں نوحہ منع ہے۔ ایک صاحب نے آ کر اطلاع دی کہ حضرت جعفرؓ کے ہاں عورتیں نوحہ کر رہی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا منع کر دو۔ وہ گئے اور واپس آئے کہ نہیں مانتیں ۔ آپؐ نے فرمایا ان کے منھ میں خاک ڈال دو۔ وہ پھر گئے اور واپس آ کر کچھ کہنے لگے۔ حضرت عائشہؓ دروازہ کی دراڑ سے دیکھ رہی تھیں اور بے قرار ہو رہی تھیں کہ نہ یہ صاحب جو آپؐ کہتے ہیں وہ کرتے ہیں نہ آپؐ کی جان چھوڑ کر جاتے ہیں ۔ آپؐ اکثر حضرت عائشہؓ کے زانو پرسر رکھے سو جاتے ۔ آپ ایک دفعہ اسی طرح آرام فرما رہے تھے کہ ایک خاص سبب سے حضرت ابو بکرؓ غصّہ میں اندر تشریف لائے اور بیٹی کو پہلو میں کونچا دیا۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں صرف اس خیال سے نہیں ہلی کہ آپ کی نیند میں خلل ہو گا۔

 

بیوی کی مدارات

آنحضرت ﷺ کی زندگی انسانی معاشرت کے لئے نمونہ تھی۔ اس بناء پر صرف اس تعلیم کے لئے کہ شوہر کو اپنی بیوی کی خوشنودی کی کس طرح کوشش کرنی چاہئے۔ آپؐ کبھی کبھی ان کے ساتھ غیر معمولی محبت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ حضرت عائشہؓ نے ایک انصاری لڑکی کی پرورش کی تھی۔ اس کی شادی ہونے لگی تو اس تقریب کو معمولی سادگی کے ساتھ انجام دینے لگیں ۔ آپؐ باہر سے تشریف لائے تو فرمایا۔ ’’ عائشہؓ گیت اور راگ تو ہے نہیں ۔‘‘

ایک دفعہ عید کا دن تھا۔ حبشی عید کی خوشی میں نیزے ہلا ہلا کر پہلوانی کے کرتب دکھا رہے تھے ۔ حضرت عائشہ نے یہ تماشا دیکھنا چاہا۔ آپؐ آگے اور وہ پیچھے کھڑی ہو گئیں اور جب تک وہ خود تھک کر نہ ہٹ گئیں آپؐ برابر اوٹ کئے کھڑے رہے۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ آنحضرتﷺ سے بڑھ بڑھ کر بول رہی تھیں ۔ اتفاق سے حضرت ابو بکرؓ آ گئے۔ انہوں نے یہ گستاخی دیکھی تو اس قدر برہم ہوئے کہ بیٹی کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ آنحضرتﷺ فوراً آڑے آ گئے۔جب حضرت ابو بکرؓ چلے گئے تو فرمایا کہو میں نے تم کو کیسا بچایا۔

ایک دفعہ ایک لونڈی کو لئے ہوئے آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے پھر پوچھا کہ تم اس کو پہچانتی ہو؟عرض کی نہیں ، یا رسول اللہ ! فرمایا کہ فلاں شخص کی لونڈی ہے تم اس کا گانا سننا چاہتی ہو۔ انہوں نے اپنی مرضی ظاہر کی تو وہ تھوڑی دیر تک گاتی رہی۔ آپ نے گانا سن کر فرمایا۔ اس کے نتھنوں میں شیطان باجا بجاتا ہے۔ یعنی اس قسم کے گانے کو آپؐ نے بذاتِ خود مکروہ سمجھا۔

 

دل بہلانا

کبھی کبھی دل بہلانے کو آپؐ کہانی بھی کہا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ دورانِ گفتگو خرافہ کا نام آیا۔پوچھا خرافہ کو جانتی ہو کون تھا؟ قبیلۂ عذرہ کا ایک آدمی تھا۔ اس کو جن اٹھا کر لے گئے۔ وہاں اس نے جو بڑے بڑے عجائبات دیکھے تھے واپس آ کر ان کو لوگوں سے بیان کرتا تھا۔ اس بناء پر جب کوئی عجیب بات اب لوگ سنتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تو خرافہ کی بات ہے ( ہماری زبان میں اسی کی جمع خرافات مستعمل ہے۔)

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے کہانی کہنی شروع کی اور آپ صبر کے ساتھ دیر تک کہانی سنتے رہے۔ لیکن عین اس وقت جب آپ اسی قسم کی لطف و محبّت کی باتوں میں مشغول ہوتے جیسے ہی اذان کی آواز آتی اور آپ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ پھر ایسا معلوم ہوتا جیسے آپؐ ہمکو پہچانتے ہی نہیں ۔

 

 

ساتھ کھانا

آپؐ اکثر حضرت عائشہؓ کے ساتھ ایک دسترخوان بلکہ ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ حضرت عمرؓ گزرے۔ آپؐ نے ان کو بھی بلایا اور تینوں نے ایک ساتھ کھایا (اس وقت تک پردہ کا حکم نہیں آیا تھا)۔ کھانے میں بھی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ وہی ہڈی چوستے جس کو حضرت عائشہؓ چوستی تھیں ، پیالہ میں وہیں پر منھ رکھ کر پیتے تھے جہاں حضرت عائشہؓ منھ لگاتی تھیں ۔ ایک دفعہ دونوں ساتھ کھانے میں مصروف تھے کہ حضرت سودہؓ شکایت لیکر پہنچیں کہ عمر مجھ کو ضرورت سے بھی باہر نکلنے میں ٹوکتے ہیں ۔ راتوں کو گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا اس لئے کبھی کبھی دونوں کا ہاتھ ایک ہی بوٹی پر پڑ جاتا تھا۔

ایک دفعہ ایک ایرانی پڑوسی نے آپؐ کی دعوت کی۔ آپ نے فرمایا عائشہؓ بھی ہوں گی۔ اس نے کہا نہیں ۔ ارشاد ہوا تو میں قبول نہیں کرتا ۔ میزبان دوبارہ آیا اور پھر یہی سوال و جواب ہوا اور وہ واپس چلا گیا۔تیسری دفعہ پھر آیا ۔ آپؐ نے پھر فرمایا ، عائشہؓ کی بھی دعوت ہے؟ عرض کی ’’جی ہاں ‘‘ اس کے بعد آپؐ اور حضرت عائشہؓ اُس کے گھر گئے۔ آپؐ کے تنہا دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس روز خانہ نبویؐ میں فاقہ تھا۔ آپؐ نے مروت اور اخلاق سے دور سمجھا کہ گھر میں بیوی کو بھوکا چھوڑ کر خود کھانا کھا لیں ۔ پڑوسی نے اس لئے دو دفعہ انکار کیا کہ اس کے یہاں سامان ایک ہی آدمی کے مطابق تھا۔ تیسری دفعہ کچھ اور سامان کر کے حاضر ہوا۔اس لئے بے تکلف دوستوں سے انکارِ دعوت یا کسی اور مہمان کے بڑھانے کے لئے اصرار کرنا جائز ہے۔

 

ہم سفری

سفر میں تمام ازواج تو ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں اور کسی کو خاص طور پر ترجیح دینا بھی خلافِ انصاف تھا اس بناء پر آپؐ سفر کے وقت قرعہ ڈالتے تھے۔جن کا نام آتا وہ سفر میں ساتھ ہوتیں ۔ حضرت عائشہؓ بھی متعدد سفروں میں آپ کے ساتھ رہی ہیں ۔ جنگ بنی المصطلق میں ساتھ ہونا تو یقینی طور پر ثابت ہے۔ اس سفر میں دو عجیب واقعے پیش آئے اور دونوں میں خدائے پاک نے حضرت عائشہؓ کو امتیاز شرف کی لازوال دولت بخشی ۔ پہلے واقعہ کا نتیجہ حکمِ تیمم کا نزول ہے اور دوسرے واقعہ میں معصوم اور پاکباز عورتوں کی برأت کا قانون ہے (تفصیل آگے آتی ہے) حدیبیہ کے سفر میں بھی حضرت عائشہؓ ہمراہ تھیں اور حجۃ الوداع میں تو اکثر ازواج ساتھ تھیں جن میں یہ بھی تھیں ۔

ساتھ دوڑنا

آپؐ کو شہسواری اور تیر اندازی کا بہت شوق تھا۔صحابہ کو اس کی ترغیب دیتے تھے اور خود اپنے سامنے لوگوں سے اس کی مشق کراتے تھے ۔ ایک جنگ میں حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ۔ تمام صحابہ کو آگے بڑھ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عائشہ سے فرمایا آؤ دوڑیں دیکھیں کون آگے نکل جاتا ہے۔ یہ دبلی پتلی تھیں آگے نکل گئیں ۔ کئی سال کے بعد اسی قسم کا پھر ایک اور موقع آیا۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اب میں بھاری بھر کم ہو گئی تھی، اس لئے اس بار آنحضرت ﷺ آگے نکل گئے ۔ فرمایا عائشہ! یہ اس دن کا جواب ہے۔

 

ناز و انداز

ناز و انداز عورت کی فطرت ہے۔ اس قسم کے واقعات جو احادیث میں مذکور ہیں لوگ ان کو قابِلِ تنقید سمجھتے ہیں اور اس کو بھول جاتے ہیں کہ ایک بیوی اپنے شوہر سے باتیں کر رہی ہے۔

آپؐ حضرت خدیجہؓ کو اکثر یاد کیا کرتے تھے جس سے دوسری بیویوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی تعریف شروع کی اور بہت دیر تک تعریف فرماتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مجھے ان پر رشک آیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپؐ قریش کی بوڑھیوں میں سے ایک بوڑھی عورت کا جس کے ہونٹ لال تھے اور جس کے مرے ہوئے ایک زمانہ ہو چکا اتنی دیر سے اتنی تعریف فرما رہے ہیں آپؐ کو ان سے بہتر بیویاں خدا نے دی ہیں ۔ یہ سن کر حضورؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر فرمایا یہ میری وہ بیوی تھیں کہ جب لوگوں نے میرا انکار کیا تو وہ ایمان لائیں اور جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے تو اس نے اپنی دولت سے میری غم خواری کی اور اس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد دی جب کہ دوسری بیویوں سے مجھے اولاد سے محروم کیا۔

کہیں سے کوئی قیدی گرفتار ہو کر آیا تھا اور وہ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں بند تھا ۔ یہ ادھر عورتوں سے باتیں کر رہی تھیں اور وہ ادھر لوگوں کو غافل پا کر نکل بھاگا۔ آپؐ تشریف لائے تو گھر میں قیدی کو نہ پایا۔ دریافت کیا تو واقعہ معلوم ہوا۔غصّہ میں فرمایا ’’ تمہارے ہاتھ کٹ جائیں ‘‘ پھر باہر نکل کر صحابہ کو خبر کی، وہ گرفتار ہو کر آیا۔ آپؐ جب پھر اندر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہؓ اپنے ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی ہیں ۔ پوچھا عائشہؓ کیا کرتی ہو؟ عرض کی دیکھتی ہوں کون ہاتھ کٹے گا۔ آپؐ متاثر ہوئے اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔

ایک دن در پردہ عرض کیا۔ یارسول اللہ! اگر دو چراگاہیں ہوں ، ایک ا چھوتی اور دوسری چری ہوئی تو آپؐ کس میں اونٹ چرانا پسند فرمائیں گے۔ جواب دیا پہلی میں ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بیویوں میں صرف حضرت عائشہؓ ہی ایک کنواری تھیں ۔

افک کے واقعہ میں ( جس کا ذکر آگے آئے گا) جب وحی سے حضرت عائشہؓ کی برأت ظاہر ہوئی تو ماں نے کہا لو بیٹی اٹھو اور شوہر کا استقبال کرو۔ تنک کر بولیں ۔ میں اپنے خدا کے سوا جس نے میری برأت ظاہر کی، کسی اور کی شکر گزار نہیں ہوں ۔

آپؐ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ عائشہؓ جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو یا ناراض ہوتی ہو تو مجھ کو پتہ لگ جاتا ہے ۔ ناراض ہوتی ہو تو ’’ ابراہیم کے رب کی قسم ‘‘ اور خوش رہتی ہو تو محمدؐ کے رب کی قسم کھاتی ہو۔ عرض کی یا رسول اللہ ! صرف زبان سے نام چھوڑ دیتی ہوں ۔

 

خدمت گزاری

گھر میں اگر چہ خادمہ موجود تھی لیکن حضرت عائشہؓ آپ کا کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔آٹا خود پیستی تھیں ، خود گوندھتی تھیں ، کھانا خود پکاتی تھیں ، بستر اپنے ہاتھ سے بچھاتی تھیں ، وضو کا پانی خود لا کر رکھتی تھیں ۔ آپؐ قربانی کے جو اونٹ بھیجتے اس کے باندھنے کے لئے خود رسی بٹتی تھیں ۔ آنحضرتﷺ کے سر میں اپنے ہاتھ سے کنگھا کرتی تھیں ، جسم مبارک میں عطر مل دیتی تھیں ، آپؐ کے کپڑے اپنے ہاتھ سے دھوتی تھیں ،سوتے وقت مسواک اور پانی سرہانے رکھتی تھیں ، مسواک کو صفائی کی غرض سے دھو دیا کرتی تھیں ، گھر میں آپؐ کا کوئی مہمان آتا تو مہمانی کی خدمت خود انجام دیتیں ۔

 

اطاعت اور احکام کی پیروی

بیوی کا سب سے بڑا جوہر شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ حضرت عائشہؓ نے نو برس کی شب و روز کی طویل صحبت میں آپؐ کے کسی حکم کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ اندازو اشارہ سے بھی کوئی بات ناگوار سمجھی تو فوراً ترک کر دی ۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے بڑے شوق سے دروازہ پر ایک تصویر والا پردہ لٹکا یا آپؐ نے اندر داخل ہونا چاہا تو پردہ پر نظر پڑی۔ فوراً تیوری پر بل پڑ گئے۔ حضرت عائشہؓ یہ دیکھ کر سہم گئیں ۔ عرض کی یا رسول اللہ مجھ سے کیا خطا ہو گئی۔ فرمایا، جس کے گھر میں تصویریں ہوں فرشتے اس میں نہیں داخل ہوتے۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ نے فوراً پردہ چاک کر ڈالا اور اس کو اور مصرف میں لے آئیں ۔ ایک صحابی کو ولیمہ کی دعوت کرنی تھی لیکن گھر میں سامان نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ عائشہؓ سے جا کر کہو کہ غلّہ کی ٹوکری بھیج دیں ۔ انہوں نے حضرت عائشہؓ کو آ کر پیغام سنایا تو اسی وقت حضرت عائشہؓ نے پوری ٹوکری بھجوا دی اور گھر میں شام کے کھانے کو کچھ نہیں رہا۔

اوپر گزر چکا ہے کہ آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو سخاوت کی تعلیم دی تھی۔ اس کا یہ اثر تھا کہ وہ مرتے دم تک اس فرض سے غافل نہ رہیں ۔ یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ انہوں نے جہاد کی اجازت چاہی تھی تو آپؐ نے فرمایا تھا کہ عورتوں کا جہاد حج ہے ۔ اس حکم کے سننے کے بعد وہ اس کی پابندی اس شدّت سے کرتی تھیں کہ ان کا کوئی سال حج سے خالی نہ جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے ان کی خدمت میں کچھ کپڑا اور کچھ نقد روپیہ بھیجا۔ پہلے واپس کر دیا پھر لوٹا کر قبول کر لیا اور فرمایا کہ آپؐ کی ایک بات یاد آ گئی ہے۔ ایک دفعہ عرفہ کے دن روزہ سے تھیں گرمی اس قدر شدید تھی کہ سر پر پانی کے چھینٹے دئیے جا رہے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ روزہ توڑ دیجئے ، فرمایا کہ ’’ جب آنحضرتﷺ سے سن چکی ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو میں کیسے روزہ توڑ سکتی ہوں ؟‘‘

رسول اللہﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھ کر وہ بھی برابر چاشت کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ ’’ اگر میرے باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئیں اور منع کریں تو میں نہ مانوں ۔ ‘‘ ایک دفعہ ایک عورت نے آ کر پوچھا کہ ام المؤمنین ! منہدی لگانا کیسا ہے؟ جواب دیا میرے محبوبؐ کو اس کا رنگ پسند لیکن بو پسند نہ تھی اس لئے حرام نہیں ہے تم چاہو تو لگاؤ۔

 

باہمی مذہبی زندگی

حضرت عائشہؓ کا گھر ایک پیغمبر کا گھر تھا ۔ یہاں نہ دولت تھی اور نہ ہی ان کو اس کی پرواہ تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ کا معمول تھا کہ جب گھر میں تشریف لاتے تو کسی قدر آواز سے یہ الفاظ دہراتے:

’’آدم کے بیٹے کی ملکیت میں اگر دولت و مال سے بھرے ہوئے دو میدان ہوں تو وہ تیسرے کی حرص کرے گا۔ اس کی حرص کے منہ کو صرف مٹی بھر سکتی ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ ہم نے دولت تو اپنی یاد دلانے اور مسکینوں کی مدد کرنے کے لئے پیدا کی ہے۔ جو خدا کی طرف لوٹے تو خدا بھی اس کی طرف لوٹے گا‘‘۔

ان الفاظ کی روزانہ تکرار سے مقصود یہ تھا کہ تمام گھر والوں کو دنیا کی بے ثباتی اور دولت کا ہیچ ہونا یاد رہے۔

عشاء نماز پڑھ کر آپ حجرے میں داخل ہوتے، مسواک کر کے فوراً سو رہتے ، پچھلے پہر بیدار ہوتے اور تہجد کی نماز ادا فرماتے۔ جب رات آخر ہوتی تو حضرت عائشہؓ کو اٹھاتے اور وہ اٹھ کر آپؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتیں اور وتر ادا کرتیں ۔ جب صبح ہو جاتی تو آپ صبح کی سنت پڑھ کر کروٹ لیٹ جاتے اور حضرت عائشہؓ سے باتیں کرتے۔ پھر فریضۂ صبح کے لئے باہر نکلتے۔ کبھی رات بھر وہ اور رسول اللہﷺ دونوں عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ آنحضرت ﷺ امام ہوتے، وہ مقتدی ہوتیں ۔ آنحضرت ﷺ مسجد میں امامت کرتے ، یہ اپنے حجرے میں کھڑی ہو کر اقتدا کر لیتیں ۔

نماز پنجگانہ اور تہجد کے علاوہ آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر چاشت کی نماز بھی پڑھا کرتی تھیں ۔ اکثر روزے رکھا کرتیں ۔ کبھی وہ اور رسول اللہﷺ دونوں مل کر ایک ساتھ روزے رکھتے ۔ رمضان کے آخری عشرہ میں آنحضرتﷺ مسجد میں اعتکاف کرتے تھے۔ کبھی حضرت عائشہؓ بھی اس فرض میں شریک ہو جاتی تھیں ۔ مسجد کے صحن میں خیمہ لگوا لیتیں ، صبح کی نماز پڑھ کر آنحضرت ﷺ بھی تھوڑی دیر کو وہاں آ جاتے۔ ۱۱ ھ میں حج کے لئے بھی ساتھ ہی گئیں ۔ حج و عمرہ دونوں کی نیت کی تھی لیکن زنانہ مجبوری سے وہ طواف سے معذور ہو گئیں تو ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ رونے لگیں ۔ آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائے تو سبب دریافت کیا اور تسلّی دیکر مسئلہ بتایا۔ پھر اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کے ساتھ جا کر باقی فرائض ادا کئے۔

گھر میں فرائض نبوت

آپسی لطف و محبت کے جو واقعات اوپر گزر چکے ہیں ان کو پڑھ کر ایک ناسمجھ خیال کر سکتا ہے کہ آپؐ گھر میں آ کر فرائضِ نبوت کو بھول جاتے تھے ۔ لیکن خود عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ آپؐ باتوں میں مشغول ہوتے دفعۃً اذان ہوتی۔ آپؐ اُٹھ جاتے پھر یہ معلوم ہوتا کہ ہم کو پہچانتے بھی نہیں ‘‘

ایک شب آپؐ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لائے اور پھر چپکے سے اٹھ کر ایک طرف کو روانہ ہوئے۔ حضرت عائشہؓ بھی چھپ کر پیچھے پیچھے روانہ ہوئیں ۔ آپؐ بقیع کے قبرستان میں پہنچے، وہاں ہاتھ اٹھا کر دعا میں مشغول ہو گئے۔ حضرت عائشہؓ چھپی کھڑی رہیں ۔ واپسی میں آپؐ نے دیکھ لیا۔ حضرت عائشہؓ لپک کر کمرہ کے اندر داخل ہو گئیں ۔ آپؐ نے پوچھا عائشہؓ یہ کیا تھا ؟ چونکہ یہ تجسس میں داخل تھا ، جو منع ہے۔ عرض کی ’’ میرے ماں باپ قربان‘‘ اور پھر سارا واقعہ بیان کر دیا۔

اگر چہ ریشم اور سونے کا استعمال اسلام میں عورتوں کے لئے جائز ہے لیکن چونکہ دنیا کے آرائشی تکلفات سے آپؐ کو طبعاً نفرت تھی ۔ اس بنا پر اپنے گھر میں اس قدر تکلف بھی نا پسند تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے سونے کے کنگن پہنے ۔ آپ نے فرمایا ۔ ’’میں تم کو اس سے بہتر تدبیر نہ بتاؤں ۔ تم ان کنگنوں کو اتار دو اور چاندی کے دو کنگن بنوا کر ان پر زعفران کا رنگ چڑھا دو‘‘۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپؓ نے ہم کو پانچ چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا۔ ریشمی کپڑے ، سونے کے زیور ، سونے اور چاندی کے برتن ، سرخ نرم گدّے اور کتان آمیز ریشمی کپڑے ۔میں نے عرض کی اگر تھوڑا سا سونا ہو جس میں مشک باندھا جا سکے تو کچھ مضائقہ ہے۔ فرمایا نہیں ، چاندی کو تھوڑی زعفران سے رنگ لیا کرو۔

عرب میں سو سمار (ایک جانور)کھانے کا دستور تھا۔ لیکن آپؐ اس کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک بار کسی نے اس کا گوشت تحفۃً بھیجا ۔آپ نے نہیں کھایا۔ حضرت عائشہؓ نے کہا ’’یا رسول اللہ ! محتاجوں کو نہ کھلا دیں ‘‘ فرمایا ’’ جس کو تم خود کھانا پسند نہ کرو وہ دوسروں کو بھی نہ کھلاؤ‘‘۔

 

 

 

سوکنوں کے ساتھ برتاؤ

 

عورت کے لئے دنیا کی سب سے تلخ چیز ایک سوکن کا وجود ہے۔ حضرت عائشہؓ کی ایک سے لیکر آٹھ آٹھ سوکنوں تک ایک ساتھ رہی ہیں ۔تاہم صحبتِ رسولؐ کے اثر سے آپ کا دل ہر طرح کے گرد و غبار سے پاک تھا۔

حضرت خدیجہؓ کے بعد آپؐ نے کئی اسباب سے مختلف اوقات میں دس نکاح کئے۔ ان میں سے ام المساکین حضرت زینبؓ جن سے ۳ ھ میں نکاح ہوا تھا جو صرف دو تین مہینے زندہ رہیں ۔ باقی نو بیویاں آپؐ کی وفات تک زندہ تھیں ۔ یہ بیویاں حسب ذیل سالوں میں آپؐ کے نکاح میں آئیں ۔ اس سے معلوم ہو گا کہ حضرت عائشہؓ کو کس سال تک کتنی سوکنوں سے سابقہ رہا۔

شمار        نام                                                         نکاح کا سال

۱۔         حضرت سودہؓ بنت زمعہ                                ۱۰ نبوی

۲۔        حضرت حفصہؓ بنت عمر فاروقؓ              ۳ ھ

۳۔       حضرت امّ سلمہؓ                                          ۴ ھ

۴۔        حضرت جویریہؓ بنی مصطلق کی رئیس زادی ۵ ھ

۵۔        حضرت زینبؓ بنت جحش قریشیہ                        ۵ ھ

۶۔        حضرت ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان                        ۶ ھ

۷۔       حضرت میمونہؓ                                            ۷ ھ

۸۔        حضرت صفیہؓ خیبر کی رئیس زادی         ۷ ھ

حضرت عائشہ اور حضرت سودہؓ گو آگے پیچھے ایک ساتھ نکاح میں آئیں تاہم چونکہ حضرت عائشہؓ تقریباً نکاح کے بعد ساڑھے تین برس تک میکہ ہی میں رہیں اس بناء پر اس عرصہ میں عملاً حضرت سودہؓ گویا آنحضرتﷺ کی تنہا بیوی تھیں ۔              ۱ ھ میں جب عائشہؓ رخصت ہو کر آئیں تو حضرت سودہؓ سوکن موجود تھیں ۔ لیکن ان کے درمیان آپس میں بہت محبت تھی ۔ اکثر خانگی مشوروں میں وہ حضرت عائشہؓ کی رفیق تھیں ۔ دوچار برس کے بعد جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دیدی اور انہوں نے خوشی سے قبول کر لی ۔ حضرت سودہؓ کی وہ بے حد تعریف کرتی تھیں ۔ فرماتی تھیں کہ ’’سودہؓ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی‘‘۔

حضرت حفصہؓ ۳ ھ میں ازواج میں داخل ہوئیں اس بنا پر تقریباً آٹھ برس حضرت عائشہ کے ساتھ رہیں ۔ ان دونوں میں ایک صدیق اکبرؓ کی پارہ بیٹی تھی تو دوسری فاروق اعظمؓ کی ۔ دونوں میں نہایت لطف و محبت تھی۔ تمام گھریلو معاملات میں دونوں کی ایک رائے ہوتی اور برابر کی شریک رہتی تھیں ۔ دوسری ازواج کے مقابلہ میں یہ دونوں ایک دوسرے کی حامی تھیں ۔

حضرت جویریہؓ اور حضرت عائشہؓ میں بھی کوئی اختلاف مذکور نہیں ہے۔ البتہ وہ ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر پہلے گھبرا اُٹھی تھیں کہ ان کے مقابلہ میں ان کا رتبہ کم نہ ہو جائے لیکن آخر ان کا خیال غلط ثابت ہوا کہ ان کی قدر و منزلت کے اسباب ہی کچھ اور تھے ۔ اس کا تعلّق ظاہری حسن سے کچھ نہ تھا۔

حضرت زینب بن جحش آنحضرتﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ خود دار اور مزاج کی تیز تھیں ۔وہ رشتہ میں سب بیویوں سے زیادہ آپؐ سے قریب تھیں اس بنا پر وہ اپنے کو اوروں سے زیادہ عزت کا مستحق سمجھتی تھیں ۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ’’تمام بیویوں میں یہی میرا مقابلہ کرتی تھیں ‘‘۔ بعض بیویوں نے حضرت ام سلمہؓ کی خاموشی کے بعد ان کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں سفیر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے بڑی دلیری سے آ کر تقریر کی۔ حضرت عائشہ چپ چاپ ان کی باتیں سنتیں اور کنکھیوں سے آپ کی طرف دیکھتی جاتی تھیں ۔ حضرت زینب جب خاموش ہوئیں تو آنحضرتﷺ کی مرضی پا کر یہ کھڑی ہوئیں اور ایسی مسکت اور مدلل گفتگو کی کہ حضرت زینبؓ لا جواب ہو کر رہ گئیں ۔ آنحضرتﷺ نے مسکرا کر فرمایا’’ کیوں نہ ہو آخر ابو بکرؓ کی بیٹی ہے‘‘۔

ایک دفعہ شب کو حضرت زینبؓ حضرت عائشہؓ کے گھر آئیں ۔ اس زمانہ میں گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے ۔ اسی وقت آپ تشریف لائے تو سیدھے ایک طرف کو بڑھے ۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ وہ زینب ہیں ۔ ان کو اس پر غصہ آیا اور کچھ بول گئیں ۔ حضرت عائشہ نے بھی برابر کا جواب دیا۔ باہر مسجد نبویؐ میں ابوبکر تھے۔ انہوں نے جو یہ آوازیں سنیں تو آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ آپ باہر تشریف لے آئیں ۔حضرت عائشہؓ باپ کی ناراضی دیکھ کر سہم گئیں ۔ نماز کے بعد حضرت ابو بکرؓ بیٹی کے گھر آئے اور گو ابتدائی قصور ان کا نہ تھا ، تا ہم بہت کچھ سمجھایا اور تنبیہ کی۔

ان چند واقعات سے یہ قیاس نہ کرنا چاہئے کہ باہم ان کے دل صاف نہ تھے جہاں چند آدمی ایک جگہ رہتے ہیں ، ان میں کیسی ہی موافقت اور میل ملاپ ہو، نا ممکن ہے کہ کبھی کبھی حقیقت میں یا غلط فہمی سے وقتی رنجش نہ پیدا ہو خاص کر جہاں عورتوں کا مجمع ہو اور وہ بھی سوکنو ں کا۔ پھر بھی اتفاقی اور فوری جذبات کو چھوڑ کر تمام سوکنوں میں لطف و محبت کی بہتر سے بہتر مثال قائم تھی۔

یہی حضرت زینب جب حلقۂ ازواج میں داخل ہوئیں تو حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو مبارکباد دی۔ مدینہ کے بعض منافقوں نے حب حضرت عائشہؓ پر الزام لگایا ہے تو بہن کی محبت میں حمنہ بنت جحش (حضرت زینب کی بہن) بھی سازش میں مبتلا ہو گئیں ۔ لیکن حضرت زینبؓ کا قدم حق کے راستے سے ذرا بھی نہیں ہٹا۔ آنحضرتﷺ نے جب اُن سے حضرت عائشہؓ کی نسبت دریافت فرمایا تو انہوں نے صاف صاف کہا کہ میں انکی نسبت خوبی کے سوا کچھ نہیں جانتی۔

ایک دفعہ حضرت زینبؓ نے حضرت صفیہؓ کو یہودیہ کہہ دیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ ان سے ناراض ہو گئے اور دو مہینے تک ان سے بات نہیں کیا۔ آخر وہ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں کہ تم بیچ میں پڑ کر میرا قصور معاف کرا دو ۔ اب وہی موقع حضرت عائشہؓ کو بھی حاصل تھا لیکن انہوں نے خاص اس غرض سے اہتمام کے ساتھ بناؤ سنگار کیا اور آپؐ آئے تو اس سلیقہ سے گفتگو کی کہ معاملہ ختم ہو گیا۔

ایک دفعہ مرض الموت میں حضرت ام حبیبہؓ نے حضرت عائشہؓ کو بلوا بھیجا۔ وہ آئیں تو حضرت امّ حبیبہؓ نے کہا ’’سوکنوں میں کچھ نہ کچھ کبھی ہو ہی جاتا ہے ، اگر کچھ ہوا ہو تو خدا ہم دونوں کو معاف کرے‘‘ حضرت عائشہؓ نے کہا ’’ خدا سب معاف اور اس سے تم کو بری کرے‘‘ حضرت ام حبیبہؓ نے کہا ’’ تم نے مجھے اس وقت خوش کیا، خدا تم کو بھی خوش رکھے‘‘۔

حضرت میمونہؓ نے جب وفات پائی تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’وہ ہم میں سب سے زیادہ پرہیز گار تھیں‘‘۔

حضرت صفیہؓ کو کھانا پکانے کا خاص سلیقہ تھا۔ خود حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے ان سے بہتر کھانا پکانے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ ایک دن دونوں نے آپؐ کیلئے کھانا پکایا۔ حضرت صفیہؓ کا کھانا جلد تیار ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تھے ۔ انہوں نے وہیں ایک لونڈی کے ہاتھ کھانا بھجوا دیا۔ حضرت عائشہؓ اپنی محبت کی بربادی کو دیکھ کر جھنجلا اٹھیں اور ایک ہاتھ ایسا مارا کہ لونڈی کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کر گر پڑا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ آپؐ خاموشی کے ساتھ پیالہ کے ٹکڑوں کو چننے لگے ۔ اور خادمہ سے فرمایا کہ ’’ تمہاری ماں کو غصّہ آگیا‘‘ چند لمحوں کے بعد حضرت عائشہ کو اپنے کئے پر خود ندامت ہوئی۔ عرض کی ’’ یا رسول اللہ! اس جرم کا کیا کفارہ ہو سکتا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ ایسا ہی پیالہ اور ایسا ہی کھانا‘‘ چنانچہ نیا پیالہ ان کو واپس کیا گیا۔

آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہؓ اپنی سوکنوں کے ساتھ کس لطف ، کس انصاف اور کس عزت کا برتاؤ کرتی ہیں اور کس کھلے دل سے ان کی خوبیوں اور نیکیوں اور تعریفوں کا اظہار کرتی ہیں کبھی کبھی انسانی فطرت سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو کس قدر جلد نادم ہو جاتی ہیں ۔

 

 

 

سوتیلی اولاد کے ساتھ برتاؤ

 

حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضرت عائشہؓ کی چار سوتیلی بیٹیاں تھیں ۔ حضرت زینبؓ ، حضرت رقیہؓ ، حضرت ام کلثومؓ ، حضرت فاطمہؓ زہرا۔ لیکن حضرت عائشہؓ کی رخصتی سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے سوا اور سب اپنی اپنی سسرال جا چکیں تھیں ۔

حضرت عائشہؓ کی رخصتی کے وقت حضرت فاطمہؓ گو کنواری تھیں ۔ لیکن ان سے سن میں پانچ چھ برس بڑی تھیں ۔ایک سال یا اس سے بھی کچھ کم دونوں ماں بیٹی ایک ساتھ رہی ہو گی کہ ۲ ھ کے بیچ میں وہ حضرت علی مرتضیؓ سے بیاہ دی گئیں ۔ شادی کے لئے جن ماؤں نے سامان درست کیا تھا اُن میں حضرت عائشہؓ بھی تھیں اور آنحضرتﷺ کے حکم سے انہوں نے خاص طور پر اس کا اہتمام کیا ۔ مکان لیپا ، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھنکر تکئے بنائے ، چھوہارے اور منقے دعوت میں پیش کئے ، لکڑی کی ایک الگنی تیار کی کہ اس پر پانی کی مشک اور کپڑے لٹکائے جائیں ۔ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ ’’ فاطمہ کے بیاہ سے کوئی اچھا بیاہ میں نے نہیں دیکھا‘‘ شادی کے بعد حضرت فاطمہؓ جس گھر میں گئیں اس میں اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں صرف ایک دیوار کا فصل تھا۔ بیچ میں کھڑکی تھی جس سے کبھی کبھی آپس میں بات چیت ہوتی تھی۔

بیٹی کی تعریف میں کہتی ہیں ’’ میں نے فاطمہؓ سے ان کے باپؐ کے سوا کوئی اور بہتر انسان کبھی نہیں دیکھا ‘‘ ایک تابعی نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ ’’ آنحضرتﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ ‘‘بولیں ’’ فاطمہ‘‘ ۔کہتی ہیں کہ ’’ میں نے فاطمہ سے زیادہ اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقہ میں آنحضرتﷺ سے ملتا جلتا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ جب آپؐ کی خدمت میں وہ آتیں آپ سرو قد کھڑے ہو جاتے ، پیشانی چوم لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب آپؐ ان کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ۔ باپ کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں ‘‘۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دن ہم سب بیویاں آپؐ کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ سامنے سے آئیں ۔ بالکل آنحضرتﷺ کی چال تھی ذرا بھی فرق نہ تھا ۔آپؐ نے بڑے تپاک سے بلا کر پاس بٹھا لیا پھر چپکے چپکے ان کے کان میں کچھ کہا وہ رونے لگیں ۔ ان کی بے قراری دیکھ کر آپؐ نے پھر ان کے کان میں کچھ کہا، وہ ہنسنے لگیں ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا ’’ فاطمہ! تمام بیویوں کو چھوڑ کر صرف تم سے آنحضرتﷺ اپنے راز کی باتیں کہتے ہیں اور تم روتی ہو ‘‘۔ آپؐ جب اٹھ گئے تو میں نے واقعہ دریافت کیا بولیں ’’ میں باپ کا راز نہیں فاش کروں گی‘‘۔ جب آپؐ کا انتقال ہو گیا تو میں نے دوبارہ کہا ’’فاطمہ ! میرا جو تم پر حق ہے اس کا واسطہ دیتی ہوں ، اس دن کی بات مجھ سے کہہ دو‘‘ انہوں نے کہا ہاں اب ممکن ہے۔ میرے رونے کا سبب یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی جلد وفات کی اطلاع دی تھی اور ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ فاطمہ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ تم تمام دنیا کی عورتوں کی سردار بنو ‘‘۔

 

 

واقعہ افک ،تحریم، ایلا و تخییر

 

مدینہ میں مسلمانوں کو جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے خطرناک منافقین کی سازشیں تھیں ۔ یہ لوگ آستین کا سانپ بن کر ہمیشہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار پر طرح طرح سے حملے کرنے کی کوشش کرتے۔ان کوششوں کی سب سے ذلیل مثال اِفک یعنی حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے کا واقعہ ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ نجد کے قریب مریسیع نام کا بنی مصطلق کا ایک چشمہ تھا۔ شعبان ۵ ھ میں مسلمانوں نے اسی چشمہ کے پاس پڑاؤ ڈالا تھا۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ یہاں کوئی خونریز جنگ نہیں ہو گی ، اس لئے منافقوں کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہو گئی تھی۔ اس سفر میں حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ۔ چلتے وقت اپنی بہن اسماء کا ایک ہار پہننے کو مانگ لیا تھا۔ وہ ان کے گلے میں تھا۔ ہار کی لڑیاں اتنی کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتیں ۔ اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر چودہ ۱۴ برس کی تھی۔یہ عورت کا وہ زمانہ ہے جس میں اس کے نزدیک معمولی سے معمولی زیور بھی وہ گراں قیمت سامان ہے جس کے شوق میں ہر زحمت گوارا کر لی جا سکتی ہے۔

سفر میں حضرت عائشہؓ اپنے محمل پر سوار ہوتیں ۔ ساربان محمل اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیتے تھے اور چل کھڑے ہوتے تھے۔ اس وقت کم سنی اور اچھی غذا نہ ملنے کے باعث اس قدر دبلی پتلی اور ہلکی پھلکی تھیں کہ محمل اٹھانے میں ساربانوں کو بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اس میں کوئی سواری بھی ہے ۔

ایک جگہ رات کو قافلہ نے پڑاؤ کیا۔ پچھلے پہر وہ پھر روانگی کو تیار تھا کہ حضرت عائشہؓ قضائے حاجت کے لئے قافلہ سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں ۔ فارغ ہو کر جب لوٹیں تو اتفاق سے گلے پر ہاتھ پڑ گیا، دیکھا تو ہار نہ تھا۔ ایک تو کم سنی اور پھر مانگے کی چیز، گھبرا کر وہیں ڈھونڈنے لگیں ۔ سفر کی نا تجربہ کاری کی بنا پر انکو یقین تھا کہ قافلہ کی روانگی سے پہلے ہی ہار ڈھونڈھ کر واپس آ جائینگی اس بنا پر نہ کسی کو واقعہ کی اطلاع دی اور نہ آدمیوں کو اپنے انتظار کا حکم دے کر گئیں ۔ ساربان حسبِ دستور یہ سمجھ کر کہ اندر عائشہؓ موجود ہیں محمل کو اونٹ پر رکھ کر قافلہ کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔تھوڑی دیر کی تلاش میں ہار مل گیا۔ ادھر قافلہ چل چکا تھا۔ پڑاؤ پر آئیں تو یہاں سنّاٹا تھا۔مجبوراً چادر اوڑھ کر وہیں پڑ رہیں کہ جب لوگ محمل میں نہ پائیں گے تو خود ہی لینے آئیں گے۔ صفوان بن معطل ایک صحابی تھے جو ساقہ (ریر گارڈ) یعنی چھوٹے چھاٹے سپاہیوں اور فوج کی گری پڑی چیزوں کے انتظام کے لئے لشکر کے پیچھے پیچھے رہتے تھے۔ صبح کو جب وہ پڑاؤ پر آئے تو دور سے کوئی نظر آیا۔ حکم پردہ سے پہلے جو اسی سال نازل ہو چکا تھا ۔ انہوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا تھا۔ دیکھتے ہی پہچان لیا اور پاس آ کر انّا للہ پڑھا ۔ آواز سُن کر حضرت عائشہؓ سوتے سے چونک پڑیں ۔ صفوان نے اپنا اونٹ بٹھایا اور ان کو سوار کر کے اگلی منزل کا راستہ لیا۔ قافلہ نے دوپہر کے وقت پڑاؤ کیا ہی تھا کہ محمل سامنے سے نظر آیا۔ صفوان کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور حضرت عائشہ محمل میں سوار تھیں ۔ یہ نہایت معمولی واقعہ تھا اور اکثر سفر میں پیش آتا ہے۔ آج ریل کے زمانہ میں بھی اس قسم کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں ۔

منافقین نے اس واقعے سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا۔ ۔ ۔ نے یہ مشہور کیا کہ نعوذ باللہ اب وہ پاک دامن نہ رہیں ۔ جا بجا اس خبر کو پھیلانا شروع کیا۔ نیک دل مسلمانوں نے اس افواہ کو سنتے ہی کانوں پر ہاتھ رکھا کہ یہ تو سخت بہتان ہے ۔حضرت ابو ایوبؓ نے اپنی بیوی سے کہا ’’ ام ایوب اگر تم سے یہ کوئی کہتا کیا تم مان لیتیں ‘‘ بولیں ’’استغفر اللہ کسی شریف کا بھی یہ کام ہے ‘‘ حضرت ابو ایوبؓ نے کہا ،تو عائشہ ؓ تم سے کہیں زیادہ شریف ہیں ، کیا ان سے ایسا ہو سکتا ہے ۔‘‘

دنیا میں عزت سے زیادہ کوئی چیز نازک نہیں ۔ یہ وہ شیشہ ہے جو پتھر پھینکنے سے نہیں بلکہ پتھر پھینکنے کے ارادے سے بھی چور چور ہو جاتا ہے۔ غلط سے غلط بات بھی جب کسی آبرو دار اور نیک آدمی کی نسبت کوئی شریر کہہ بیٹھتا ہے تو وہ یا تو شرم سے پانی پانی یا غصّہ سے آگ بگولا ہو جاتا ہے۔ اب تک حضرت عائشہؓ ان واقعات سے بے خبر تھیں ۔ جب انہیں معلوم ہوا تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ ان کو اتنی بڑی بات کا یقین نہیں آیا۔ سیدھی میکہ آئیں ، ماں سے پوچھا تو انہوں نے تسکین دی ۔ اتنے میں ایک انصاریہ آ گئی، اس نے پوری داستان دہرائی ۔اب شک کا کیا موقع تھا ، سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں ۔ والدین نے سنبھالا اور سمجھا بجھا کر گھر رخصت کیا۔ یہاں پہنچ کر شدّت کا بخار اور لرزہ آیا۔ اس حالت میں انسان کو طرح طرح کا خیال آتا ہے اور ذرا ذرا سی بات سے بد گمان ہوتا ہے۔ آپؐ باہر سے تشریف لاتے اور کھڑے کھڑے پوچھ لیتے کہ اب ان کا کیا حال ہے۔ حضرت عائشہؓ کو خیال ہوا کہ بیماری میں پہلی سی توجہ میرے حال پر نہیں ، اس بنا پر اجازت لے کر وہ پھر میکہ چلی آئیں ۔ دن رات آنکھوں سے آنسو جاری رہتے ۔ کہتی ہیں کہ نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھوں میں نیند تھی۔ باپ لطف و محبت سے سمجھاتے تھے کہ روتے روتے تمہارا کلیجہ نہ پھٹ جائے۔ ماں دلاسا دیتی تھیں کہ بیٹی! جو بیوی اپنے شوہر کو چہیتی ہوتی ہے اس کو اس قسم کے صدمے اٹھانے ہی پڑتے ہیں ۔ ایک بار غیرت سے ارادہ کیا کہ کنویں میں گر کر جان دیدیں ۔

گو امّ المؤمنین کے بے گناہی مسلّم تھی ۔ تاہم شریروں کے منھ بند کرنے کے لئے تحقیق ضروری تھی ۔ آپ نے حضرت علی اور حضرت اسامہؓ سے مشورہ طلب کیا ۔ حضرت اسامہؓ نے تسکین دی اور حضرت عائشہؓ کو بے گناہ بتایا۔ حضرت علیؓ نے کہا دنیا میں عورتوں کی کمی نہیں (یعنی اگر لوگوں کے کہنے کی پرواہ ہے تو طلاق دے دیجئے) اور خادمہ سے پوچھ لیجئے وہ سچ سچ بتا دے گی۔ اس سے سوال کیا گیا، اس نے کہا ’’ سبحان اللہ خدا کی قسم جس طرح سونار کھرے سونے کو جانتا ہے اسی طرح میں ان کو جانتی ہوں ‘‘ ۔

سوکنوں میں حضرت زینبؓ کو حضرت عائشہؓ کی ہمسری کا دعویٰ تھا اور ان کی بہن حمنہ اس سازش میں شریک بھی تھیں ۔اس لحاظ سے آپؐ نے ان کی رائے بھی دریافت کی۔ انہوں نے کانوں پر ہاتھ رکھا کہ عائشہؓ میں بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتی۔ اس کے بعد آپؐ نے مسجد میں تمام صحابہ کو جمع کر کے ایک مختصر تقریر میں حرم نبوت کی پاکی و طہارت اور عبد اللہ بن ابی کی خباثت کا تذکرہ کیا۔آپ نے فرمایا۔ مسلمانو! اس شریر کو میری طرف سے کون سزا  دے گا، جس کی نسبت مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اہل بیت پر عیب لگاتا ہے۔ قبیلہ اوس کے رئیس حضرت سعد بن معاذؓ نے اٹھ کر کہا،میں ۔ یا رسول اللہ ! اگر وہ ہمارے قبیلہ کا آدمی ہے تو ابھی اس کا سر اڑا دیں گے اور اگر ہمارے بھائی خزرج میں سے ہے تو آپؐ حکم دیجئے ہم تعمیل ارشاد کو تیار ہیں ۔ بہر حال بات آئی گئی ہو گئی۔یہاں سے اٹھ کر آپ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے ۔ وہ بستر علالت پر پڑی تھیں ، آنکھیں آنسوؤں سے پر نم تھیں ، والدین داہنے بائیں تیمار داری میں مصروف تھے۔ آپؐ قریب جا کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ سے خطاب کر کے فرمایا۔ عائشہ اگر تم مجرم ہو تو توبہ کرو خدا قبول کرے گا ۔ ورنہ خدا خود تمہاری طہارت اور پاکی کی گواہی دے گا۔ والدین کو اشارہ کیا کہ آپؐ کو جواب دیں لیکن ان سے کچھ کہتے نہ بنا ۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے آنسو دفعۃً خشک ہو گئے ، ایک قطرہ بھی آنکھوں میں نہ تھا۔ دل نے اپنی برأت (بے گناہی )کے یقین کی بنا پر اطمینان محسوس کیا ۔ پھر خود جواب میں اس طرح گویا ہوئیں ۔ اگر میں اقرار کر لوں حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں ، تو اس الزام کے صحیح ہونے میں کسی کو شک رہ جائے گا؟ اگر انکار کروں تو لوگ کب مانیں گے؟ میرا حال اس وقت یوسف کے باپ (کہتی ہیں کہ سوچنے پر بھی حضرت یعقوب کا نام یاد نہ آیا) کا سا ہے جنہوں نے کہا تھا فصبر جمیل ۔

منافقوں نے اس فتنہ انگیزی سے جو مقاصد پیشِ نظر رکھے تھے یعنی (۱) نعوذ باللہ پیغمبر اور صدیقؓ کے خاندان کی اہانت اور بدنامی (۲) خاندان نبویؐ میں تفریق (۳) اسلام کے برادرانہ اتحاد اور اجتماعی قوت میں رخنہ ڈالنا وہ سب ایک ایک کر کے حاصل ہو چکے تھے۔

اب وہ وقت تھا کہ عالمِ غیب کی زبان گویا ہو۔ بالآخر وہ گویا ہوئی۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپؐ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ پھر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا ۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلک رہے تھے اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں :

’’جن لوگوں نے یہ افترا باندھا ہے وہ تم ہی میں کچھ لوگ ہیں ۔ تم اس کو برا نہ سمجھو بلکہ اس میں تمہاری بہتری تھی (کہ مومنین اور منافقین کی تمیز ہو گئی) ہر شخص کو حصّہ کے مطابق گناہ اور جس کا اس میں بڑا حصہ تھا کو بڑا عذاب ہو گا ۔ جب تم نے یہ سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے بھائی بہنوں کی نسبت نیک گمان کیوں نہیں کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح تہمت ہے اور کیوں نہیں ان افترا پردازوں نے چار گواہ پیش کئے اور جب گواہ پیش نہیں کئے تو خدا کے نزدیک جھوٹے ٹھہرے۔ اگر خدا کی عنایت و مہربانی دین و دنیا میں تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو جو افواہ تم نے اڑائی تھی اس پر تم کو سخت عذاب پہنچتا۔ جب تم اپنی زبان سے اس کو پھیلا رہے تھے اور منھ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تم کو علم نہ تھا اور تم اس کو ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ خدا کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ تم نے سننے کے ساتھ یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم کو ایسی ناروا بات منھ سے نہیں نکالنی چاہئے۔خدا پاک ہے۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ خدا نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو پھر ایسی بات نہ کرو ۔ خدا اپنے احکام بیان کرتا ہے اور وہ دانا اور حکمت والا ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برائی پھیلے ان کیلئے دین و دنیا دونوں میں بڑی دردناک سزا ہے۔ خدا سب جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔(النور ۱۹۔۱۱)

ماں نے کہا۔ لو بیٹی اٹھو اور شوہر کا استقبال کرو۔ حضرت عائشہ نے نسوانی غرور و ناز کے ساتھ جواب دیا۔ میں صرف اپنے خدا کی شکر گزار ہوں کسی اور کی ممنون نہیں ۔

اس کے بعد قانون کے مطابق تین مجرموں کو اسّی اسّی کوڑے کی سزا دی گئی۔

واقعہ تیمم :ایک سفر میں حضرت عائشہؓ ساتھ تھیں ۔ وہی ہار گلے میں تھا۔ قافلہ واپس ہو کر مقام ذات الجیش میں پہنچا تو وہ ٹوٹ کر گر پڑا۔ گزشتہ واقعہ سے ان کو تنبیہ ہو گئی تھی۔ فوراً آنحضرتﷺ کو خبر دی۔ صبح قریب تھی۔آپؐ نے پڑاؤ ڈال دیا اور ایک آدمی اس کے ڈھونڈنے کو دوڑایا۔ اتفاق یہ کہ جہاں فوج ٹھہری تھی وہاں پانی بالکل نہ تھا۔ نماز کا وقت آگیا ۔لوگ گھبرائے ہوئے حضرت ابو بکرؓ کے پاس پہنچے کہ عائشہؓ نے فوج کو کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ وہ سیدھے حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو حضور انورﷺ ان کے زانوں پر سر رکھے آرام فرما رہے ہیں ۔بیٹی کو کہا کہ ہر روز تم نئی مصیبت سب کے سر لاتی ہو اور غصّہ سے ان کے پہلو میں کئی کونچے دیئے اور وہ آپؐ کی تکلیف کے خیال سے ہل بھی نہ سکیں ۔

آپؐ صبح کو بیدار ہوئے تو واقعہ معلوم ہوا۔ چنانچہ اس موقع پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیت نازل ہوئی ۔ جس میں تیمم کا حکم ہے :

’’اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا حاجت ضروری سے فارغ ہوئے ہو یا عورتوں سے مقاربت کی ہو اور تم پانی نہیں پاتے تو پاک مٹّی کا قصد کرو اور اس سے منھ اور ہاتھ پر پھیر لو۔ اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔‘‘

ابھی ابھی مجاہدین کا پر جوش گروہ جو اس مصیبت میں تلملا رہا تھا ۔ اس ابرِ رحمت کو دیکھ کر مسرت سے لبریز ہو گیا۔اسلام کے فرزند اپنی ماں کو دعائیں دینے لگے ۔ حضرت اسیدؓ ایک بڑے پایہ کے صحابی تھے۔ جوش مسرّت میں بول اٹھے ۔ اے صدیقؓ کے گھر والو! اسلام میں یہ تمھاری پہلی برکت نہیں ۔ صدیق اکبر جو ابھی اپنے لخت جگر کی تنبیہ کیلئے بے قرار تھے فخر کے ساتھ صاحب زادی کو خطاب کر کے فرمایا بیٹی! مجھے معلوم نہ تھا کہ تو اس قدر مبارک ہے۔ تیرے ذریعہ سے خدا نے مسلمانوں کو کتنی آسانی بخشی۔ قافلہ کی روانگی کیلئے جب اونٹ اٹھایا گیا تو وہیں اسی کے نیچے ہار پڑا ملا۔

 

واقعۂ تحریم

ازواج مطہرات کی دو ٹولیاں تھیں ۔ ایک میں حضرت عائشہؓ ، حضرت حفصہؓ ، حضرت سودہؓ ، حضرت صفیہؓ اور دوسری میں حضرت زینبؓ اور دوسری بیویاں تھیں ۔

آپؐ کا معمول شریف یہ تھا کہ نمازِ عصر کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر تمام ازواج کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ اگر چہ آپؐ کے عدل کا یہ حال تھا کہ ذرا کسی کی طرف پلہ جھک نہیں سکتا تھا، لیکن اتفاقاً حضرت زینب کے یہاں چند روز تک معمول سے زیادہ دیر تک تشریف فرما رہے اس لئے اوقاتِ مقررہ پر تمام ازواج کو آپؐ کی آمد کا انتظار رہتا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت زینبؓ کی کسی عزیز نے شہد بھیجا ہے۔چونکہ شہد آپؐ کو بے انتہا مرغوب ہے، وہ روز آپ کے سامنے شہد پیش کرتی ہیں اور آپؐ اخلاق سے انکار نہیں فرماتے اس سے روزانہ معمول میں ذرا فرق آگیا ہے۔

حضرت عائشہؓ نے حضرت حفصہؓ اور حضرت سودہؓ سے ذکر کیا کہ اس کی کوئی تدبیر کرنی چاہئے۔ آپ نفاست پسند تھے ذرا سی بو بھی نہایت ناگوار ہو تی تھی ۔ حضرت عائشہؓ نے دونوں کو سمجھا دیا کہ آنحضرتﷺ جب تشریف لائیں تو پوچھنا چاہئے کہ یا رسول اللہﷺ آپ کے منھ سے یہ بو کیسی آتی ہے؟ جب آپؐ یہ فرمائیں کہ شہد کھایا ہے تو کہنا چاہئے کہ شاید مغافیر (ایک قسم کا پھول جس کی بو میں بساند ہوتی ہے) کا شہد ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپؐ کو شہد سے کراہت پیدا ہوئی اور عہد کیا کہ اب شہد نہ کھاؤں گا۔

اگر یہ عام انسانوں کا واقعہ ہوتا تو کوئی ایسی بات نہ تھی ۔ لیکن یہ ایک شارع اعظم کا فعل تھا جس کی ایک ایک بات پر بڑے بڑے قانون کی بنیاد پڑ جاتی ہے اس لئے خدائے پاک نے اس پر عتاب فرمایا اور سورۂ تحریم کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں :

’’ اے پیغمبر خدا نے تیرے لئے جو حلال کیا ہے اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے اس کو اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو‘‘ (سورہ تحریم ۔ ۱)

 

واقعۂ ایلاء

تحریم ہی کے سلسلہ میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا۔ یہ تحریم و ایلاء ۹ ھ کا واقعہ ہے۔اس وقت عرب کے دور دراز صوبے فتح ہو چکے تھے، مال غنیمت ، فتوحات اور سالانہ محاصل کا بے شمار ذخیرہ وقتاً فوقتاً مدینہ آتا رہتا تھا ۔ پھر بھی آنحضرتﷺ کی خانگی زندگی جس زہد و قناعت کے ساتھ بسر ہوتی تھی اس کا ایک دھند لا سا خاکہ خانہ داری کے عنوان میں گزر چکا ہے۔

فتح خیبر کے بعد غلہ اور کھجوروں کی جو مقدار ازواجِ مطہرات کے لئے مقرر تھی ایک تو وہ خود کم تھی پھر سخاوت اور کشادہ دستی کے سبب سال بھر تک بہ مشکل چل سکتی تھی۔ آئے دن گھر میں فاقہ ہوتا تھا ۔ ازواجِ مطہّرات میں بڑے بڑے سردار قبائل کی بیٹیاں بلکہ شہزادیاں داخل تھیں ۔ جنھوں نے اس سے پہلے خود اپنے یا پہلے شوہروں کے گھروں میں ناز کی زندگیاں بسر کی تھیں اس لئے انہوں نے مال و دولت کی یہ بہتات دیکھ کر آپؐ سے مصارف میں اضافہ کی خواہش کی ۔

ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ بیچ میں آپ ہیں اور اِدھر اُدھر بیویاں بیٹھی ہیں اور مصارف کی مقدار بڑھانے پر اصرار کر رہی ہیں ۔ دونوں اپنی صاحبزادیوں کے مارنے پر آمادہ ہو گئے لیکن انہوں نے عرض کیا ہم آئندہ آنحضرتﷺ کو زائد مصارف کی تکلیف نہ دیں گے۔باقی بیویاں اپنے مطالبہ پر قائم رہیں ۔ اتفاقاً اسی زمانہ میں آپؐ گھوڑے سے گر پڑے۔ پہلوئے مبارک میں ایک درخت کی جڑ سے خراش آ گئی۔ حضرت عائشہؓ کے حجرہ سے لگا ہوا ایک بالا خانہ تھا۔ آنحضرتﷺ نے یہیں قیام فرمایا اور عہد کیا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے نہ ملیں گے۔ منافقین نے مشہور کر دیا کہ آپؐ نے بیویوں کو طلاق دیدی۔ صحابہؓ مسجد میں جمع ہو گئے ، گھر گھر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ازواج مطہرات رو رہی تھیں ۔ صحابہؓ میں سے کسی نے خود آپؐ سے واقعہ کی تحقیق کی جرأت نہ کی۔

حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو وہ مسجد نبوی میں آئے۔ تمام صحابہ مایوس اور چپ تھے ۔حضرت عمر نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں آنے کی اجازت چاہی۔ دوبارہ کوئی جواب نہ ملا۔ تیسری دفعہ اجازت ہوئی۔ دیکھا تو آنحضرتﷺ ایک کھری چارپائی پر لیٹے ہیں ۔ جسم مبارک پر بان سے بدّھیاں پڑ گئی ہیں ۔ اِدھر اُدھر نظر اٹھا کر دیکھا تو رحمتِ عالمﷺ کے گھر میں چند مٹی کے برتن اور چند سوکھی مشکوں کے سوا کچھ نہ تھا۔یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ ! کیا آپؐ نے بیویوں کو طلاق دیدی۔ارشاد ہوا، نہیں ۔ عرض کی کیا میں یہ بشارت عام مسلمانوں کو نہ سنا دوں ۔ اجازت پا کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا۔

یہ مہینہ ۲۹ روز کا تھا۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ’’ میں ایک ایک روز گنتی تھی۔ ‘‘ ۲۹ دن ہوئے تو آپ بالا خانہ سے اتر آئے۔ سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ نے ایک مہینہ کے لئے عہد فرمایا تھا ابھی تو انتیس ۲۹ ہی دن ہوئے ہیں ، ارشاد ہوا مہینہ کبھی ۲۹ دن کا بھی ہوتا ہے۔

 

اختیار

چونکہ عام ازواج نفقہ بڑھوانا چاہتی تھیں اور پیغمبر صرف اپنی بیویوں کی رضا مندی کے لئے اپنے دامن کو دنیوی تکلفات سے ملوث نہیں کر سکتا تھا اس پر تخییر کی آیت نازل ہوئی۔ یعنی جو بیوی چاہے فقر و فاقہ کو اختیار کر کے آپؐ کی صحبت میں رہے اور دنیا کے بجائے آخرت کی نعمت پائے اور جو چاہے کنارہ کش ہو کر دنیا طلبی کی ہوس پوری کرے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:

’’اے پیغمبر ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم کو دنیاوی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی ہوس ہے تو آؤ میں تم کو رخصتی جوڑے دیکر رخصت کر دوں اور خدا ور رسول اور آخرت پسند ہو تو اللہ نے تم میں سے نیک عورتوں کیلئے بڑا ثواب مہیّا کر رکھا ہے‘‘ (احزاب ۔ ۴ )

آپ سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ عائشہؓ ! میں تمھارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں اس کا جواب اپنے والدین سے مشورہ کر کے دینا۔ عرض کی ۔ ارشاد فرمائیے۔ آپ نے اوپر کی آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! میں کس امر میں اپنے والدین سے مشورہ لوں ۔ میں خدا اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں ۔ یہ جواب سن کر آپؐ کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں ہو ے ۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی ’’ یا رسول اللہ! میرا جواب دوسری بیویوں پر ظاہر نہ ہو ۔ ارشاد ہوا کہ۔۔’’ میں معلّم بن کر آیا ہوں جابر بن کر نہیں آیا‘‘۔

 

 

 

بیوگی

 

حضرت عائشہؓ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے آخرت کا سفر اختیار کیا۔ صفر ۱۱ھ کے پچھلے مہینہ کی کوئی تاریخ تھی کہ آنحضرت ﷺ حضرتِ عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لائے۔ وہ سر کے درد سے بے قرار تھیں اور ہائے وائے کر رہی تھیں ۔ آپؐ نے فرمایا، اگر تم میرے سامنے مرتیں تو میں اپنے ہاتھ سے تمہاری تجہیز و تکفین کرتا ۔ وہ بے تکلفانہ لہجے میں بول اٹھیں کہ یا رسول اللہ! یہ شاید آپ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ اس حجرے میں کوئی نئی بیوی بیاہ کر آئے۔ آپؐ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا کہ ’’ہائے میرا سر‘‘ اسی وقت سے درد شروع ہو گیا۔ حضرت میمونہؓ کے گھر جا کر آپ بستر پر لیٹ گئے۔ لیکن ہر روز پوچھتے کل میں کہاں رہوں گا۔ ازواج مطہراتؓ نے سمجھ لیا کہ آپؓ کا مقصود یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام کریں ۔ سب نے اجازت دے دی ۔ اس وقت سے آخری زندگی تک آپؐ حضرت عائشہؓ کے ہی حجرے میں قیام فرما رہے ۔

روز بروز درد کی شدّت بڑھتی جاتی تھی یہاں تک کہ مسجد میں امامت کے لئے بھی آپؐ تشریف نہ لا سکے۔ بیویاں تیمار داری میں مصروف تھیں ، کچھ دعائیں تھیں جن کو پڑھ کر آپؐ بیمار پر دم کیا کرتے تھے، حضرت عائشہؓ بھی وہی دعائیں پڑھ پڑھ کر آنحضرتﷺ کو دم کیا کرتی تھیں ۔

صبح کی نماز میں لوگ آپؐ کی آمد کے منتظر تھے۔ کئی دفعہ آپؐ نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ہر دفعہ غش آگیا۔ آخر حکم دیا کہ ابو بکر امامت کریں ۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی ’’ یا رسول اللہﷺ ! ابو بکرؓ بہت نرم دل ہیں ان سے یہ کام نہ بن آئیگا، وہ رو دیں گے۔ کسی اور کو حکم ہو۔‘‘ لیکن آپ نے دوبارہ یہی ارشاد فرمایا۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ تم عرض کرو۔ انہوں نے گزارش کی تو فرمایا ۔تم یوسف ؑ والیاں ہو (یعنی تمہیں وہ عورتیں ہو جنہوں نے حضرت یوسفؑ کو بہکانا چاہا تھا) کہہ دو کہ ابو بکرؓ امامت کریں ۔چنانچہ انہوں نے امامت کی۔

آپ بیماری سے پہلے کچھ اشرفیاں حضرت عائشہؓ کے پاس رکھوا کر بھول گئے تھے۔ اس وقت یاد آئیں ۔ فرمایا کہ’’ عائشہ! وہ اشرفیاں کہاں ہیں ؟ ان کو خدا کی راہ میں صرف کر دو۔ کیا محمد خدا سے بد گمان ہو کر ملے گا؟‘‘ چنانچہ اسی وقت خیرات کر دی گئیں ۔

اب وقت آخر تھا۔ حضرت عائشہؓ سرہانے بیٹھیں تھیں ۔ آپؐ ان کے سینہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اتنے میں حضرت عائشہؓ کے بھائی حضرت عبد الرحمن مسواک لئے اندر آئے۔ آپ نے مسواک کی طرف دیکھا، سمجھ گئیں کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سے مسواک لیکر اپنے دانت سے نرم کر کے آپؐ کو دی۔ آپؐ نے صحیح و تندرست آدمی کی طرح مسواک کیا۔ حضرت عائشہؓ فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آخری وقت میں بھی میرا جوٹھا آپ نے منھ میں لگایا۔

حضرت عائشہؓ آپؐ کی تندرستی کے لئے دعائیں مانگ رہی تھیں ۔ آپ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ فوراً دستِ مبارک کھینچ لیا اور فرمایا، الّھمّ الرّفیقَ الاعلیٰ ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ تندرستی کی حالت میں آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبر کو مرتے وقت دنیاوی و اخروی زندگی میں ایک کے قبول کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ ان لفظوں کو سن کر میں چونک پڑی کہ آنحضرتﷺ نے ہم سے کنارہ کشی ہی قبول کی۔ تاہم وہ ابھی کم سن تھیں کسی کو اب تک اپنی آنکھ سے مرتے نہیں دیکھا تھا، عرض کی یا رسول اللہ! آپؐ کو بڑی تکلیف ہے۔ آپ نے فرمایا، ثواب بھی بقدر تکلیف ہی ہے۔

اب تک حضرت عائشہ آپ کو سنبھالے بیٹھی تھیں ۔ کہتی ہیں کہ اچانک مجھ کو آپ کے بدن کا بوجھ معلوم ہوا۔ آنکھوں کی طرف دیکھا تو پھٹ گئی تھیں ۔ آہستہ سے سرِ اقدس تکیہ پر رکھ دیا اور رونے لگیں ۔ حضرت عائشہؓ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد انھیں کے حجرہ کو پیغمبرﷺ کا مدفن بننا نصیب ہوا اور جسم مبارک کو اسی حجرہ کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا۔ انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔

حضرت عائشہؓ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے حجرے میں تین چاند ٹوٹ کر گرے ہیں ۔انہوں نے اس کا ذکر حضرت ابو بکرؓ سے کیا تھا۔ حب آنحضرتﷺ اسی حجرہ میں مدفون ہوئے تو حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا، ان چاندوں میں سے ایک یہ ہے اور یہ ان میں سب سے بہتر ہے۔بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ دو پچھلے چاند صدیق اکبر اور فاروقؓ اعظم تھے۔

حضرت عائشہؓ اب بیوہ تھیں اور اسی عالم میں انہوں نے عمر کے چالیس سال گزارے۔ جب تک زندہ رہیں ۔اسی مزارِ اقدس کی مجاور رہیں ۔ قبر نبوی کے پاس ہی سوتیں تھیں ۔ ایک دن آپؓ کو خواب میں دیکھا اس دن سے وہاں سونا چھوڑ دیا۔

تیرہ برس تک یعنی جب تک حضرت عمر فاروقؓ وہاں مدفون نہیں ہوئے تھے حضرت عائشہ بے حجاب وہاں آتی جاتی تھیں کہ ایک شوہر تھا دوسرا باپ۔ حضرت عمرؓ کی تدفین کے بعد فرماتی تھیں کہ اب وہاں بے پردہ جاتے حجاب آتا ہے۔

ازواج مطہرات کے لئے دوسری شادی خدا نے ممنوع قرار دی تھی۔ عرب کے ایک رئیس نے کہا تھا کہ آنحضرتﷺ کے بعد حضرت عائشہؓ سے میں عقد کرونگا۔ چونکہ یہ بات دینی و سیاسی مصالح اور شان نبوت کے خلاف تھی، اس لئے خدائے پاک نے فرمایا:

’’ پیغمبر مسلمانوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘ (احزاب ۔ ۱)

’’ اور تمہیں مناسب نہیں کہ تم پیغمبر خدا کو اذیت دو اور نہ کبھی اس کی بیوی سے اس کے بعد بیاہ کرو خدا کے نزدیک یہ بڑی بات ہے۔‘‘ (احزاب۔۷)

اصل یہ ہے کہ ازواج مطہرات جو ایک مدت تک نبیؐ کی محرم راز رہیں ان کا فرض صرف بیٹوں کی تعلیم و تربیت تھی۔ چنانچہ ان کے فرائض خود خدا نے مقرر کر دئے تھے:

’’ اے پیغمبر کی بیویو!تم میں جو بُرا کرے گی اس کو دو گنا عذاب ملے گا اور خدا کے لئے یہ آسان بات ہے اور تم میں سے جو خدا اور رسول کی فرماں بردار ہو گی اور اچھے کام کرے گی اس کو ثواب بھی دوبارہ ملے گا اور اس کے لئے ہم نے قیامت میں اچھی اور پاک روزی مہیّا کی ہے۔اے پیغمبر کی بیویو! تم عام اور معمولی عورتوں میں نہیں ہو، اگر پرہیز گار بنو، دب کر نہ بولا کرو کہ بیمار دل والے (منافقین) حوصلہ کریں اور اچھی بات بولا کرو اور اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہا کرو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بن ٹھن کر نہ نکلا کرو، نمازیں پڑھا کرو ، زکوٰۃ دیا کرو اور خدا اور رسول کی فرمانبرداری کیا کرو۔ خدا یہی چاہتا ہے، اے اہل بیتِ نبوت کہ تم سے میل کچیل دور کر دے اور تم کو بالکل پاک صاف کر دے ۔تمہارے گھروں میں خدا کی جو آیتیں اور حکمت کی باتیں پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں انکو یاد کرو بیشک خدائے پاک لطف کرنے والا اور دانا ہے۔‘‘ (احزاب۔۴)

حضرت عائشہ کی آئندہ زندگی حرف بحرف ان ہی آیات پر عمل کرتے گزری۔

 

 

عام حالات

 

عہد صدیقی

آنحضرتﷺ کی تدفین اور حضرت عائشہؓ کے والد ابو بکر صدیقؓ کے خلیفہ بن جانے کے بعد ازواجِ مطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمانؓ کو سفیر بنا کر حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں بھیجیں اور وراثت کا مطالبہ کریں ۔ حضرت عائشہ نے یاد دلایا کہ آنحضرتﷺ نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ میرا کوئی وارث نہ ہو گا، میرے تمام متروکات (چھوڑی ہوئی جائداد) صدقہ ہونگے۔ یہ سن کر سب خاموش ہو گئیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ بنی کریم ﷺ اپنے پاس رکھتے ہی کیا تھے جو ترکہ میں چھوڑتے سوا اس کے کہ مختلف مقاصد کے لئے چند باغ آپ کے قبضہ میں تھے۔ آنحضرت ﷺ اپنی زندگی میں جس طرح اور جن مصارف میں ان کی آمدنی خرچ کرتے تھے وہ خلافت راشدہ میں ٹھیک اسی طرح اور اسی حیثیت سے قائم رہے اور اپنی زندگی میں بیویوں کے سالانہ مصارف اسی جائداد سے جس طرح ادا فرماتے تھے حضرت ابو بکرؓ نے اپنے زمانہ میں بھی ان مصارف کو اسی طرح برقرار رکھا۔

باپ کی جدائی

۱۳ ھ میں حضرت ابو بکرؓ نے وفات پائی۔ نزع کے وقت صاحبزادی (حضرت عائشہؓ) خدمت میں حاضر تھیں ۔ باپ نے کچھ جائداد بیٹی کو دے دی تھی،پوچھا کہ’’ بیٹی ! کیا تم وہ جائداد اپنے اور بھائی بہنوں کو د ے دو گی‘‘ عرض کی ’’بسر و چشم‘‘ پھر دریافت کیا ’’ آنحضرت ﷺ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے‘‘ عرض کی ’’تین سفید کپڑے‘‘ پوچھا ’’کس دن وفات پائی‘‘ عرض کی ’’پیرکے روز‘‘ دریافت کیا ’’ آج کون دن ہے ‘‘ بتایا ’’پیر ہے‘‘ فرمایا ’’ تو آج رات تک میرا بھی چل چلاؤ ہے۔‘‘ پھر اپنی چادر دیکھی ، اس میں زعفران کے دھبّے تھے، فرمایا ’’ اسی کپڑے کو دھوکر اس کے اوپر دو اور کپڑے بڑھا کر مجھ کو کفن دیا جائے ‘‘ عرض کی ’’ یہ پرانا ہے‘‘ ارشاد ہوا کہ ’’مردوں سے زیادہ زندوں کو نئے کپڑوں کی ضرورت ہے‘‘ اس کے بعد اسی دن منگل کی رات وفات پائی اور حضرت عائشہؓ ہی کے حجرے میں آنحضرت ﷺ کے پہلو میں ادباً آپ کے مزار مبارک سے کسی قدر پیچھے ہٹ کر دفن کئے گئے۔ حضرت عائشہ کو بیوگی کے ساتھ اسی کم عمری میں دو ہی برس کے اندر یتیمی کا داغ بھی اٹھانا پڑا۔

عہد فاروقی

ابو بکرؓ صدیق کے بعد عمرؓ بن خطاب خلیفہ بنے۔ ان کے دور میں دیگر ازواج کے لئے دس، دس ہزار اور حضرت عائشہؓ کے لئے بارہ ہزار سالانہ وظیفہ تھا ۔اس ترجیح کا سبب خود حضرت عمرؓ نے بیان فرمایا تھا کہ ’’ان کو میں دو ہزار اس لئے زیادہ دیتا ہوں کہ وہ آنخصرت ﷺ کو محبوب تھیں ‘‘

ازواجِ مطہرات کی تعداد کے مطابق حضرت عمرؓ نے نو پیالے تیار کرائے تھے۔ جب کوئی چیز آتی ۔ ایک ایک پیالہ میں کر کے ایک ایک کی خدمت میں بھیجتے۔ تحفوں کی تقسیم میں یہاں تک خیال رکھتے کہ اگر کوئی جانور ذبح ہوتا تو بقول حضرت عائشہؓ کے سری اور پایہ ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔ عراق کی فتوحات میں موتیوں کی ایک ڈبیہ ہاتھ آئی تھی مالِ غنیمت کے ساتھ وہ بھی بارگاہ خلافت میں بھیجی گئی۔ سب کو موتیوں کی تقسیم مشکل تھی اس لئے حضرت عمرؓ نے کہا آپ لوگ اجازت دیں تو میں ماں عائشہؓ کو بھیج دوں کہ آنحضرت ﷺ کو وہ زیادہ محبوب تھیں ۔ سب نے بخوشی اجازت دی ، چنانچہ وہ ڈبیہ حضرت عائشہ کی خدمت میں بھیج دی گئی ۔ کھول کر دیکھا تو فرمایا ’’ابن خطاب نے آنحضرت ﷺ کے بعد مجھ پر بڑے بڑے احسانات کئے ہیں ،خدایا مجھے آیندہ ان کے عطیوں کے لئے زندہ نہ رکھنا‘‘۔

حضرت عمرؓ کی تمنّا تھی کہ وہ بھی حضرت عائشہ کے حجرہ میں آنحضرت ﷺ کے قدموں کے نیچے دفن ہوں ۔ آخری وقت میں اپنے صاحبزادے کو بھیجا کہ ام المومنین کو میری طرف سے سلام کہو اور عرض کرو کہ عمرؓ کی تمنا ہے کہ وہ اپنے رفیقوں کے پہلو میں دفن ہو۔ فرمایا ’’ اگر چہ وہ جگہ میں نے خود اپنے لئے رکھی تھی مگر عمرؓ کے لئے خوشی سے یہ گوارا کرتی ہوں ‘‘۔اس اجازت کے بعد بھی حضرت عمرؓ نے وصیت کی کہ میرا جنازہ آستانہ تک لے جا کر پھر اجازت لینا۔ اگر ام المومنین اجازت دیں تو اندر دفن کر دینا، ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں لے جانا ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت عائشہ نے دوبارہ اجازت دی اور جنازہ اندر لے جا کر دفن کیا گیا۔

 

حضرت عثمان کا عہد

حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔یہ تیسرے خلیفہ تھے۔ انہوں نے بارہ برس خلافت کی جس میں تقریباً چھ برس تو سکون کا زمانہ تھا لیکن اس کے بعد چند غلط فہمیوں کی بنا پر کچھ لوگوں میں خلیفہ کی طرف سے بد گمانی پھیل گئی ۔

حضرت عثمان اموی تھے اور انکو اپنے خاندان ہی کے لوگوں پر بھروسہ تھا اس بنا پر بنو امیہ کے نوجوان انتخاب میں سب سے آگے ہوتے تھے اور بڑے بڑے منصبوں پر ممتا ز ہوئے ۔ اس سے قریش کے دوسرے بلند حوصلہ نوجوانوں میں اشتعال پیدا ہوا ۔ انہیں نوجوانوں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے خلاف شورش میں حصہ لیا ۔محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ وغیرہ نے حضرت عثمانؓ کے خلاف علانیہ تحریک شروع کر دی اور مصر میں جدید پولٹیکل فرقہ کے لیڈر بن گئے ۔ حضرت عثمان کی جانب سے مروان نے مصر کے گورنر کے پاس ایک خط لکھا کہ مصری باغیوں کے سرغناؤں کو قتل کر دو یا قید کر دو ۔ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا تو ن سب نے مل کر حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور دو شرطیں پیش کیں ، مروان کو حوالہ کر دیجیئے یا خلافت سے دست بردار ہو جائیے ، حضرت عثمان نے دونوں شرطیں نا منظور کیں ۔ حضرت عائشہؓ نے محمد بن ابوبکر اپنے بھائی کو بلا کر سمجھایا کہ تم اس ضد سے باز آ جاؤ لیکن وہ کسی طرح نہ مانے، سال کے دستور کے مطابق حضرت عائشہؓ اسی اثنا میں حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ چلی گئیں ، محمد بن ابی بکر کو بھی ساتھ لے جانا چاہا ، مگر وہ آمادہ نہ ہوئے اس کے بعد حضرت عثمان دو تین ہفتہ تک محاصرہ میں رہے اور بالآخر باغیوں کے ہاتھ سے انہوں نے شہادت پائی ۔

 

سبائی فرقہ

اسی زمانہ میں ابنِ سبا نام ایک یہودی مسلمان ہو گیا ۔ یہودیوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب وہ دشمن بن کر انتقام نہیں لے سکتے تو فورا سپر ڈال کر اس کے مخلص دوست بن جاتے ہیں ۔ ابنِ سبا نے لوگوں میں یہ پھیلانا شروع کیا کہ حضرت علیؓ در اصل آنحضرت ﷺ کے مستحق جانشیں اور وصی ہیں ۔ اس نے اپنی اس بدعت کی تبلیغ کے لئے پوری کوشش کی اور جگہ جگہ جا کر اس سیاسی شورش کو بہانہ بنا کر اپنی سازش کے جال کو اس نے ہر جگہ پھیلا دیا اس نے سارے ملک کا دورہ کیا ، کوفہ بصرہ اور مصر جہاں بڑی بڑی فوجی چھاؤنیاں تھیں انقلاب پسند لوگ کچھ نہ کچھ موجود تھے، اس نے مصر کو ان انقلاب پسندوں کا مرکز بنا کر ان تمام متفرق اشخاص کو ایک رشتہ میں منسلک کر دیا ۔ اہلِ تاریخ نے ان کا نام سبائیہ رکھا ہے ۔

لوگوں کی ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اہم رول ادا کیا۔

عین حرم نبویؐ میں مسلمانوں ہی کے ہاتھوں خلیفۃ المسلمین کا قتل ایسا عظیم حادثہ تھا کہ لوگوں کے دل دہل گئے۔ بعض دشمنوں نے افواہ اڑا دی کہ اس واقعہ میں حضرت عائشہ بھی شریک ہیں ۔جبکہ ان ایام میں وہ وہاں تھیں بھی نہیں ، وہ سفرِ حج میں تھیں ۔ لیکن ان سے پوچھا گیا تو جواب دیا کہ معاذ اللہ کیا میں مسلمانوں کے امام کے قتل کا حکم دے سکتی ہوں ؟ حق یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ان کو اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی مگر وہ باز نہیں آئے۔ خود حضرت عائشہ نے ایک دفعہ حضرت عثمانؓ کے تذکرہ میں فرمایا ، ’’خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ عثمانؓ کی کسی قسم کی بے عزتی ہو ، اگر میں نے ایسا کبھی پسند کیا ہو تو ویسی ہی میری بھی ہو۔ خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ وہ قتل ہوں ، اگر کیا ہو تو میں بھی قتل کی جاؤں ۔‘‘

 

حضرت علیؓ کا عہد

حضرت عثمانؓ غنی کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی اور وہ اسلام کے چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے۔ جب حضرت علیؓ خلیفہ بنے اس وقت سارے مسلمانوں میں ایک ہیجان اور تلاطم برپا تھا۔ صحابہ کرام کی ایک مختصر سی جماعت جو یہ دیکھ رہی تھی کہ جس باغ کو اس نے اپنے رگوں کے خون سے سینچا تھا وہ بر باد ہو رہا ہے ۔ اصلاح کا علم بلند کیا۔ اس جماعت میں حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہ تھیں ۔

حضرت عثمانؓ محاصرہ ہی میں تھے کہ حضرت عائشہؓ اپنے سالانہ دستور کے مطابق حج کو چلی گئیں ۔ واپس آ رہی تھیں کہ راستہ ہی میں باغیوں کے ہاتھ سے عثمان کی شہادت کی خبر معلوم ہوئی ۔ آگے بڑھیں تو حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ملے، جو مدینہ سے بھاگے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا:

’’ہم لوگ مدینہ سے لدے پھدے  بدوؤں اور عوام الناس کے ہاتھوں سے بھاگے چلے آتے ہیں اور لوگوں کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ حیران و سرگرداں ہیں نہ حق کو پہچان سکتے ہیں نہ باطل سے انکار کر سکتے ہیں اور نہ اپنی حفاظت پر قادر ہیں ۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ باہم مشورہ کرو کہ اس موقع پر ہم کو کیا کرنا چاہئے، پھر یہ شعر پڑھا جس کا مطلب ہے:

’’اگر میری قوم کے سردار میری بات مانتے…تو میں ان کو اس خطرے سے باہر لے آتی‘‘

اس کے بعد وہ مکہ واپس چلی آئیں ۔ عام لوگوں کو اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو لوگ ہر طرف سے سمٹ سمٹ کر ان کے پاس آنے لگے۔ انہوں نے طلب اصلاح کی دعوت دی ۔ امّ المومنین نے فرمایا کہ اس قوم کی طرح کوئی قوم نہیں جو اس آیت کے حکم سے اعراض کرتی ہو:’ ’ اگر دو مسلمان جماعتیں لڑ جائیں تو دونوں کے درمیان صلح کر د و۔ پس اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والی سے لڑو ، یہاں تک کہ حکم الٰہی کی طرف وہ رجوع کرے اور جب رجوع کرے تو دونوں میں صلح کرا دو۔‘‘(سورہ حجرات۔۹)

 

 

 

دعوتِ اصلاح

 

اس عظیم فتنہ کو روکنے اور لوگوں کی اصلاح کی غرض سے حضرت عائشہؓ سات سو لوگوں کے قافلہ کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہوئیں ۔ امہات المومنین اور عام مسلمان دور تک ساتھ آئے۔ لوگ ساتھ چلتے جاتے اور روتے جاتے تھے کہ آہ! اسلام پر کیا دردناک وقت آیا ہے کہ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، اور مادر اسلام اپنے بچوں کی محبت میں گھر سے نکلی ہے۔ راہ میں اور بہت سے لوگ یہ سن کر کہ حضرت عائشہؓ اس فوج کی سردار ہیں نہایت جوش و خروش سے شریک ہوتے گئے اور اس طرح منزل کے ختم ہونے پر تین ہزار لوگ جمع ہو گئے۔

کچھ لوگ فتنہ پھیلانے کے لئے بھی اس فوج میں گھس گئے اور طرح طرح سے سازش کرنا چاہا لیکن حضرت عائشہؓ نے اس کو دبایا۔

حضرت علیؓ اس فوج کا حال سن کر بصرہ کے ارادہ سے مدینہ سے چل پڑے تھے۔ لوگوں نے شور کیا کہ چلو بڑھو پیچھے سے علیؓ کا لشکر آ رہا ہے۔ قافلہ نے جلدی جلدی آگے قدم بڑھایا۔

حضرت عائشہؓ نے اب بصرہ کے قریب پہنچ کر واقعہ کی اطلاع کے لئے چند لوگوں کو بصرہ روانہ کیا۔ شہر کے عرب سرداروں کو خطوط لکھے، بصرہ پہونچ کر بعض رئیسوں کے گھر گئیں ۔ قبیلہ کا ایک سردار آمادہ نہ تھا۔ اس کو خود جا کر سمجھایا ، اس نے کہا ’’مجھے شرم آتی ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانوں ‘‘۔

حضرت علی کی طرف سے عثمان بن حنیف بصرہ کے والی تھے انہوں نے عمران اور ابو الاسود کو تحقیقِ حال کے لئے بھیجا ۔وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور والی کی طرف سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ حضرت عائشہ نے اس کی جواب میں حسب ذیل تقریر کی:

’’خدا کی قسم میرے رتبہ کے اشخاص کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکل سکتے اور نہ کوئی ماں اصل حقیقت اپنے بیٹوں سے چھپا سکتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ قبائل کے آوارہ گردوں نے مدینہ پر جو حرم محترم تھا حملہ کیا اور وہاں فتنے برپا کئے اور فتنہ پردازوں کو پناہ دے رکھا ہے۔ اس بنا پر وہ خدا اور رسول کی لعنت کے مستحق ہیں ۔ علاوہ بریں انہوں نے بے گناہ خلیفۂ اسلام کو قتل کیا ، معصوم خون کو حلال جان کر بہایا، جس مال کا لینا ان کو جائز نہ تھا اس کو لوٹا، حرم محترم نبوی کی بے عزتی کی ، ماہ مقدس کی توہین کی، لوگوں کی آبرو ریزی کی، مسلمانوں کو بے گناہ مار پیٹ کی ، اور ان لوگوں کے گھروں میں زبردستی اتر پڑے جو ان کے رکھنے کے روادار نہ تھے۔ نیک دل مسلمانوں کو نہ ان سے بچنے کی قدرت ہے اور نہ ان سے محفوظ ہیں ۔ میں مسلمانوں کو لے کر اس لئے نکلی ہوں تا کہ لوگوں کو بتاؤں کہ عام مسلمان کو جس کو میں پیچھے چھوڑ آئی ہوں ان سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے اور کن کن جرائم کے مرتکب ہیں ۔ خدا فرماتا ہے کہ ان کی سرگوشی میں کوئی زیادہ فائدہ نہیں لیکن یہ کہ یہ خیرات یا عام نیکی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرائیں ۔

ہم اصلاح کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں جس کا خدا اور رسول نے ہر چھوٹے بڑے اور مرد و عورت کو حکم دیا ہے۔ یہ ہے ہمارا مقصد جس کی نیکی پر ہم تمہیں آمادہ کر رہے ہیں اور جس کی برائی سے تمہیں روکنا چاہتے ہیں ‘‘۔

لوگوں میں ایک عجیب کشمکش کہ کس کا ساتھ دیں ۔ ایک طرف ام المومنین تو دوسری طرف دامادِ رسول حضرت علیؓ۔ مختلف لوگ مختلف طرح سے تقریریں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نہایت پر جلال اور بلند آواز میں گویا ہوئیں ۔حمد و نعت کے بعد ان کی تقریر کے الفاظ یہ تھے:

’’لوگو! خاموش !!خاموش!! ‘‘ اس لفظ کا سننا تھا کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا منھ میں زبانیں کٹ کر رہ گئی ہیں ۔

حضرت عائشہؓ نے سلسلۂ تقریر کو آگے بڑھایا:

’’تم پرمیرا مادری حق ہے اور مجھے نصیحت کی عزت حاصل ہے۔ مجھے اس کے سوا جو اپنے رب کا فرمانبردار بندہ نہیں کوئی الزام نہیں دے سکتا ۔ آنحضرت ﷺ نے میرے سینہ پر سر رکھے ہوئے وفات پائی۔ میں آپ کی جنتی بیویوں میں سے ایک ہوں ۔خدا نے مجھ کو دوسروں سے ہر طرح محفوظ رکھا اور میری ذات سے مومن و منافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب سے تم پر خدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا۔

پھر میرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے اور غارِ حرا میں دو کا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جو صدیق کے لقب سے مخاطب ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے وفات پائی تو اس سے خوش ہو کر اور اس کو خلافت کا طوق پہنا کر۔ اس کے بعد جب مذہبِ اسلام کی رسی ہلنے ڈلنے لگی تو میرا باپ تھا جس نے اس کے دونوں سرے تھام لئے ، جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کا سر چشمہ خشک کر دیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی۔ تم لوگ اس وقت آنکھیں بند کئے عذر و فتنہ کے منتظر تھے اور شور و غوغا پر گوش بر آواز تھے۔اس نے شگاف کو برابر کیا ، بیکار کو درست کیا، گرتوں کو سنبھالا، دلوں کی مدفون بیماریوں کو دور کیا، جو پانی سے سیراب ہو چکے تھے، ان کو تھان تک پہونچا دیا، جو پیاسے تھے ، ان کو گھاٹ پر لے آیا، اور جو ایک بار پانی پی چکے تھے انہیں دوبارہ پلایا۔جب وہ نفاق کا سر کچل چکا اور شرکت کے لئے لڑائی کی آگ مشتعل کر چکا، اور تمہارے سامان کی گٹھری کو ڈوری سے باندھ چکا تو خدا نے اسے اٹھا لیا‘‘۔

’’ وہ اپنے بعد ایک ایسے شخص کو اپنا جانشین بنا گیا جس کی طرف اگر جھکتے تو محافظ بن جاتا، گمراہی سے اس قدر دور جتنی دور مدینہ کی دونوں پہاڑیاں ، دشمنوں کی گوشمالی اور جاہلوں سے در گزر کرتا، اسلام کی نصرت میں راتوں کو جاگا کرتا، اپنے پیش رو کے قدم بہ قدم چلا، فتنہ و فساد کے شیرازہ کو درہم برہم کیا ،قرآن میں جو کچھ تھا اس کی ایک ایک چول بٹھا دی۔‘‘

ہاں ! میں سوالیہ نشانہ بن گئی ہوں کیونکہ فوج لے کر نکلی۔ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے جس کو میں پامال کرنا چاہتی ہوں ۔ جو کچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ، اتمامِ حجت اور تنبیہ کے لئے۔ خدائے پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیغمبر محمدؐ پر درود نازل کرے اور اس کا جانشین پیغمبروں کی جانشینی کے ساتھ تم پر مقرر کر دے‘‘۔

یہ تقریر اس قدر موثر تھی کہ لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ تقریر کا ایک ایک حرف دشمنوں کے دلوں میں بھی تیر بن کر پیوست ہو گیا اور بے اختیار بول اٹھے کہ خدا کی قسم سچ فرماتی ہیں ۔اور اپنی صف سے نکل کر اصلاح طلب فوج کے پہلو میں جا کر کھڑے ہو گئے ۔جو بد گمان تھے انہوں نے اس پر اعتراض کئے دوسروں نے ان کا جواب دیا۔

اب فریقین میں سوالات و جوابات شروع ہو گئے اور آخر بڑھتے بڑھتے معاملہ نے طول پکڑا۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نے اپنی جماعت کو واپسی کا حکم دیا۔ والیِ بصرہ کے طرفداروں میں جن لوگوں نے حضرت عائشہؓ کی تقریر سن کر اپنی رائے بدل دی تھی وہ بھی اپنی جماعت کو چھوڑ کر حضرت عائشہؓ کے لشکر گاہ میں چلے آئے۔

دوسرے دن دونوں طرف سے فوجیں آراستہ ہو کر میدان میں آئیں ۔ حکیم نام کا ایک شخص مخالف سواروں کا افسر تھا۔ اس نے خود جنگ میں پہل کی۔ اصلاح طلب فوج اب تک نیزے تانے خاموش کھڑی تھی۔ حضرت عائشہؓ برابر سکون اور صبر کی تاکید کر رہی تھیں لیکن حکیم کسی طرح باز نہ آیا اور آخر کار حملہ کر ہی بیٹھا۔ حضرت عائشہؓ نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور دوسرے میدان میں لا کر کھڑا کیا۔ مخالف اس پربھی باز نہ آئے اور پتہ لگا کر وہاں بھی پہنچے اور شورش پر آمادہ ہوئے۔ لیکن رات ہو چکی تھی واپس چلے گئے۔

صلح جو اشخاص نے چاہا کہ معاملہ صاف ہو کر طے پا جائے۔ ابو الجبر باتمیمی نے حضرت عائشہ وغیرہ سے گفتگو کی۔سب نے ان کی رائے تسلیم کی اور یہاں سے بھی ہٹ کر دوسری جگہ پڑاؤ ڈالا۔ صبح ہوئی تو والی بصرہ کی فوج پھر سامنے تھی۔ حکیم راستہ سے گزر رہا تھا اور غصّہ میں حضرت عائشہؓ کو ناشائستہ کلمات کہہ رہا تھا ایک قیسی نے پوچھا یہ ناروا کلمے کس کی نسبت کہہ رہے ہو۔ بدتمیزی سے بولا عائشہؓ کی نسبت ۔ اس نے بیتاب ہو کر کہا اے خبیث ماں کے بچّے! یہ امّ المومنین کی شان میں کہتا ہے ! حکیم نے نیزہ مارا تو اس کے سینہ کے پار تھا۔ آگے بڑھا تو ایک عورت نے یہی سوال کیا۔اس کو بھی جواب نیزہ ہی کی زبان سے ملا۔ عبد القیس کا قبیلہ حکیم کے اس فعل سے ناراض ہو کر نا طرفدار بن گیا۔

مخالفین اب پورے طور پر تیار ہو چکے تھے، انہوں نے عام حملہ شروع کر دیا۔ حضرت عائشہؓ کی طرف سے منادی قسمیں دے دے کر روک رہا تھا لیکن وہ کسی طرح نہیں مانتے تھے۔ آخر ادھر بھی لوگ اپنا بچاؤ کرنے لگے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ فوج میں عام منادی کر ا دی کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کی سوا اور کسی سے تعرض نہ کیا جائے اس لئے عام لوگ ہتھیار ڈال دیں ۔ لیکن حکیم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور جنگ کو برابر جاری رکھا۔ ایک دستہ نے شب کو موقع پا کر چاہا کہ چھپ کر حضرت عائشہؓ کی منزل گاہ میں پہنچ جائے اور ان کا کام تمام کر دے۔ دہلیز تک پہنچ چکا تھا کہ راز فاش ہو گیا۔آخر جنگ کا خاتمہ اصلاح پسندوں کی کامیابی پر ہوا ۔ بصرہ پر قبضہ کر لیا گیا اور شہر کے اکثر باشندوں نے اطاعت قبول کر لی۔ بصرہ کے خزانے سے سپاہیوں کی تنخواہیں تقسیم ہوئیں ۔ کوفہ، دمشق ، مدینہ وغیرہ ممتاز شہروں میں فتح نامے بھیج دئے گئے۔

 

جنگ کی نوبت کیوں آئی ؟

یہ جنگ بالکل اتفاقی تھی ، یہ سچ ہے کہ واقعہ کے لحاظ سے حضرت عائشہؓ کو سبائیوں کے اس دعویٰ سے انکار تھا کہ آنحضرتﷺ نے وفات کے وقت حضرت علیؓ کے لئے خلافت کی وصیت فرمائی تھی ۔ انہیں شکایت اس بات کی تھی کہ خلیفۂ ثالث کے قاتلین کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ۔ انہیں پتہ نہ تھا کہ مدینہ میں ایک طوفان برپا تھا ، ہر طرف شورش تھی ، لوگ خوف زدہ تھے ، حکومت وجود میں نہ تھی اور قاتلانِ عثمان بلوائیوں میں مل جل گئے تھے ۔

جب حضرت عائشہؓ مکہ سے مدینہ واپس ہو رہی تھیں ، راستہ میں ان کے ایک عزیز ملے ، ان سے حالات دریافت کئے ، تو معلوم ہو ا کہ عثمانؓ شہید کر دیئے گئے اور علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے ، لیکن ہنوز فتنہ کی گرم بازاری ہے ، یہ خبر سن کر پھر مکہ واپس ہو گئیں ، لوگوں نے واپسی کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ عثمان مظلوم شہید کر دیئے گئے اور فتنہ دبتا ہوا نظر نہیں آتا اس لئے تم لوگ خلیفۂ مظلوم کا خون رائگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لیکر اسلام کی عزت بچاؤ ۔ مدینہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہؓ و زبیرؓ بھی مکہ چلے گئے ، حضرت عائشہؓ نے ان سے بھی وہاں کے حالات دریافت کئے ، انہوں نے بھی شور و غوغا کی داستان سنائی ، ان کے بیان سے حضر ت عائشہؓ کے ارادوں میں اور تقویت ہو گئی اور انہوں نے خلیفۂ مظلوم کے قصاص کی دعوت شروع کر دی ۔

حقیقت یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب اور حضرت علیؓ کے بعض سیاسی احکام نے عام طور پر ملک میں بد ظنی پیدا کر دی تھی ، حضرت عثمان کے قاتلوں کو پتہ نہ لگنا ، ان کے اعداء کو اپنا معاون و انصار بنانا، اور مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ تمام عمال و حکام کو بر طرف کر دینا لوگوں کو بد ظن کر دینے کے لئے نہایت کافی تھا ۔ انہی وجوہات نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو بھی حضرت عثمانؓ کے قصاص پر آمادہ کر دیا ۔ اس وقت لوگ تین گروہ میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک خاموش اور غیر جانب دار ، دوسرا حضرت علیؓ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ وغیرہ کا حامی تھا ۔دونوں گروہ چاہ رہے تھے کہ جنگ نہ ہونے پائے لیکن دونوں فریقوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے ، جن کے نزدیک یہ مصالحت ان کے حق میں سمّ قاتل تھی ، حضرت علی کی فوج میں سبائی انجمن کے ارکان اور حضرت عثمان کے قاتلوں کا گروہ شامل تھا ، اور حضرت عائشہؓ کی طرف کچھ اموی تھے ، حضرت عثمان کے قاتل اور سبائی سمجھے کہ اگر یہ مصالحت کامیاب ہو گئی ، تو ان کی خیر نہیں ، اس لئے انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت عائشہؓ کی فوج پر شبخون مارا ۔ گھبراہٹ میں فریقین نے یہ سمجھ کر کہ دوسرے فریق نے دھوکا دیا ، ایک دوسرے پر حملہ شروع کر دیا۔ ( خلفاء راشدین )

 

جنگ جمل

حضرت علیؓ مدینہ منورہ سے ۷۰۰ آدمی لے کر چلے تھے۔ کوفہ سے سات ہزار آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور بصرہ پہنچتے پہنچتے بیس ہزار کی جمعیت ہو گئی۔ادھر عائشہؓ کے ساتھ تیس ۳۰ ہزار آدمی تھے۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے آ کر میدان جنگ میں خیمہ زن ہوئیں ۔ ہر قبیلہ خود اپنے قبیلہ کا مخالف بن کر اترا۔

یہ دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں ۔ ہر مسلمان کا دل خون تھا کہ کل تک جو تلواریں دشمنوں کے سر اُڑاتی تھیں ، اب وہ خود دوستوں کے سر و سینہ کو زخمی کریں گی۔ حضرت زبیر نے اس منظر کو دیکھا تو فرمایا، ’’آہ مسلمان جب زور و قوت میں پہاڑ بن گئے تو خود ٹکرا کر چور چور ہو جانا چاہتے ہیں ۔‘‘

تاہم دونوں طرف لوگوں کو یقین تھا کہ معاملہ جنگ تک طول نہ کھینچے گا بلکہ باہمی صلح سے طے ہو جائے گا۔چند نیک لوگوں نے صلح کی کوشش کی اور حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کو صلح پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اب ہر فریق مطمئن ہو گیا۔ جنگ و جدل کا خیال دلوں سے نکل گیا۔ صلح کے استحکام اور دیگر معاملات کے بہ آسانی طے ہو جانے میں کو ئی شک نہ رہا لیکن عثمانؓ کے قاتلوں کا جو فاسد عنصر ادھر شامل تھا یعنی سبائی فرقہ اس نے دیکھا کہ اگر حقیقت میں صلح ہو گئی تو ہم محفوظ نہیں رہ سکتے اور پھر ہماری برسوں کی محنت اکارت چلی جائے گی۔ دونوں فریق رات کے پچھلے پہر جب آرام کی نیند سو رہے تھے تو ان لوگوں نے پیش دستی کر کے شبخون مارا۔ دفعۃً ان چند شراروں نے ہر جگہ آگ لگا دی۔ حضرت علی لوگوں کو روک رہے تھے مگر کوئی نہیں سنتا تھا۔ ہر شخص بد حواس ہو کر ہتھیار کی طرف جھپٹ رہا تھا۔ہر فریق کے رئیس یہ سمجھے کہ دوسرے نے غفلت پا کر بد عہدی کی۔

صبح تک یہ ہنگامہ برپا رہا۔ شور و غل سُن کر عائشہؓ نے پوچھا کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ لوگوں نے جنگ شروع کر دی۔ بصرہ کے قاضی کعب بن سور نے حضرت عائشہ سے آ کر عرض کی کہ آپ سوار ہو کر چلیں شاید آپ کے ذریعہ سے لوگ صلح کر لیں ۔ وہ آہنی ہودج میں اونٹ پر سوار ہو کر اپنی فوج کے قلب میں آئیں ۔ کعب بن سور کو حضرت عائشہؓ نے اپنا قرآن دیا کہ لوگوں کو یہ دکھا کر صلح کی دعوت دو۔ وہ قرآن کھول کر دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوئے۔ شریروں نے ایسا تیر مارا کہ جاں بحق ہو گئے۔انہیں ظالموں نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو بھی دھوکے سے قتل کر دیا۔

سبائیوں کا ارادہ تھا کہ اگر حضرت عائشہؓ ہاتھ آ گئیں تو وہ سخت تحقیر کے ساتھ پیش آئیں گے۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے بعد اہلِ کوفہ صرف اُن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے۔مگر ان کے طرفداروں نے ہر طرف سے سمٹ سمٹ کر ان کو اپنے حلقہ میں لیا۔ یہ لوگ مادر اسلام کی عزت و احترام کے لئے اپنی اپنی جانیں نثار کر رہے تھے۔ جوش کا یہ عالم تھا کہ بنو ضبّہ کا ایک ایک آدمی آگے بڑھتا اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ، وہ کام آتا تو دوسرا اس فرض کو انجام دینے کو آگے بڑھتا ، وہ مارا جاتا تو تیسرا دوڑ کر نکیل تھام لیتا اسی طرح ستر آدمیوں نے اپنی جانیں دیں ۔

بنو ضبّہ کے کچھ لوگ ادھر بھی شریک تھے۔یہ دیکھ کر کہ اونٹ اگر ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا تو ہمارا قبیلہ اسی طرح کٹ کٹ کر مر جائے گا ۔ ایک اجنبی پیچھے سے آیا اور اونٹ کے پچھلے پاؤں پر ایسی تلوار ماری کہ اونٹ دھم سے گر پڑا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اور محمد بن ابی بکرؓ نے دوڑ کر ہودج کو سنبھالا۔ محمد بن ابی بکرؓ نے اندر ہاتھ لے جا کر دیکھنا چاہا کہ کہیں زخم تو نہیں آیا۔ حضرت عائشہؓ نے ڈانٹا کہ یہ کس ملعون کا ہاتھ ہے۔ محمد بن ابی بکرؓ نے کہا ’’تمہارے بھائی کا‘‘ بہن! کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔ فرمایا تم محمد نہیں مذمم ہو۔ اتنے میں حضرت علیؓ پہنچے انہوں نے خیریت دریافت کی۔حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ’’اچھی ہوں ‘‘۔

محمد بن ابی بکر حضرت ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادے اور حضرت عائشہؓ کے علّاتی بھائی تھے ان کی ماں حضرت ابوبکر کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں تھیں ، اس لئے حضرت علیؓ ہی کی آغوش میں انہوں نے تربیت پائی تھی اور حضرت علیؓ بھی ان کو بیٹوں کیطرح چاہتے تھے

حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کو ان کے طرفدار رئیس کے گھر میں اتارا۔اس کے بعد بحرمت تمام محمد بن ابی بکر کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو حجاز کی طرف رخصت کیا۔ عام مسلمانوں نے اور خود حضرت علیؓ دور تک ساتھ گئے۔ امام حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی میلوں تک ساتھ گئے۔ چلتے وقت تمام مجمع کے سامنے حضرت عائشہؓ نے اقرار کیا کہ مجھ کو علیؓ سے نہ کسی قسم کی کدورت تھی اور نہ اب ہے۔ ہاں ساس داماد میں کبھی کبھی جو بات ہو جایا کرتی ہے اس کی نفی نہیں کرتی ۔ حضرت علیؓ نے بھی اسی قسم کے الفاظ فرمائے۔اس کے بعد یہ مختصر قافلہ حجاز کی طرف روانہ ہوا۔

حج کے چند مہینے باقی تھے۔ اتنے عرصے تک حضرت عائشہؓ نے مکہ معظمہ میں بسر کیا۔ پھر وہ بدستور روضۂ نبوی کی مجاور تھیں اور اپنی اس اجتہادی غلطی پر کہ اصلاح کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا تھا وہ کہاں تک مناسب تھا انکو عمر بھر افسوس رہا۔

وفات کے وقت انہوں نے وصیّت کی کہ مجھے روضۂ نبوی میں آپؐ کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بقیع میں اور ازواج کے ساتھ دفن کرنا۔ میں نے آپؐ کے بعد ایک جرم کیا ہے۔ جب وہ یہ آیت پڑھتی تھیں :وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنًّ (احزاب۔۴) ’’ اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں ٹھہری رہو‘‘ تو اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہو جاتا۔

 

حضرت معاویہؓ کا زمانہ

حضرت علیؓ کی خلافت کی مدّت چار برس ہے۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ نے تختِ حکومت پر قدم رکھا اور تقریباً بیس برس پوری اسلامی دنیا کے اکیلے فرماں روا رہے۔ ان کی حکومت کے اختتام سے دو برس پہلے حضرت عائشہ نے وفات پائی۔ اس حساب سے امیر معاویہؓ کی حکومت میں انہوں نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال بسر کئے اور یہ پورا زمانہ حضرت عائشہؓ نے جزئی اوقات کے سوا خاموشی میں گزارا۔

ایک دفعہ امیر معاویہؓ مدینہ منورہ آئے تو حضرت عائشہ سے ملنے گئے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا ’’تم اس طرح بے خطر تنہا میرے گھر آ گئے، ممکن تھا کہ میں کسی کو چھپا کر کھڑا کر دیتی کہ جیسے ہی تم آتے وہ تمہارا سر اڑا دیتا‘‘ امیر معاویہ نے کہا یہ دار الامن ہے یہاں آپ ایسا نہیں کر سکتی تھیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے۔ پھر دریافت کیا میرا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ بولیں ’’ ٹھیک ہے‘‘۔امیر معاویہ نے کہا کہ پھر میرا اور ان کا (بنو ہاشم) معاملہ چھوڑ دیجئے، خدا کے یہاں سمجھا جائیگا۔

امیر معاویہ نے ایک دفعہ ان کو خط لکھا کہ مجھ کو مختصر سی نصیحت کیجئے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں لکھا ’’سلام علیکم، اما بعد میں نے آنحضرت ﷺ کو کہتے سنا ہے کہ جو شخص انسانوں کی نا رضا مندی کی پرواہ نہ کر کے خدا کی رضا مندی چاہے گا خدا انسانوں کی نا رضا مندی کے نتائج سے اس کو محفوظ رکھے گا اور جو خدا کو نا رضا مند کر کے انسانوں کی رضا مندی کا طلب گار ہو گا، خدا اس کو انسانوں کے ہاتھ میں سونپ دے گا۔ والسلام علیک‘‘۔

 

 وفات

 

امیر معاویہؓ کی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہؓ کی زندگی کا اخیر زمانہ ہے۔ اس وقت ان کی عمر سڑسٹھ برس کی تھی۔ ۵۸ ھ میں رمضان کے زمانے میں بیمار پڑیں ، چند روز تک علیل رہیں ۔ کوئی خیریت پوچھتا فرماتیں اچھی ہوں ۔ جو لوگ عیادت کو آتے، بشارت دیتے۔ فرماتیں ’’اے کاش میں پتھر ہوتی ، اے کاش میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی‘‘ ۔

مرض الموت میں وصیّت کی کہ اس حجرہ میں آنحضرتﷺ کے ساتھ مجھے دفن نہ کرنا۔ مجھ کو دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنا اور رات ہی کو دفن کر دی جاؤں ، صبح کا انتظار نہ کیا جائے۔ ۵۸ ھ تھا اور  رمضان کی سترہ تاریخ مطابق جون ۶۷۸ء تھی کہ نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ ماتم کا شور سن کر انصار اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا مجمع نہیں دیکھا گیا۔ حضرت امِّ سلمہؓ نوحہ اور ماتم سن کر بولیں کہ عائشہؓ کے لئے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری بیوی تھیں ۔

حضرت ابوہریرہؓ ان دنوں مدینہ کے قائم مقام حاکم تھے۔ انہوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر ، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرؓ ، عبداللہ بن ابی بکرؓ ، عبد اللہ بن عتیق ، عروہ بن زبیرؓ اور عبد اللہ ابن زبیرؓ بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور حسبِ وصیّت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔ مدینہ میں قیامت برپا تھی کہ آج حرمِ نبوت کی ایک اور شمع بجھ گئی۔ ایک مدنی سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت عائشہؓ کی وفات کا غم اہلِ مدینہ نے کتنا کیا، جواب دیا جس جس کی وہ ماں تھیں (یعنی تمام مسلمان) اسی کو ان کا غم تھا۔

حضرت عائشہؓ نے اپنے بعد کچھ متروکات چھوڑے جن میں ایک جنگل بھی تھا۔ یہ ان کی بہن حضرت اسماءؓ کے حصہ میں آیا۔ امیر معاویہؓ نے تبرّکاً اس کو ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ حضرت اسماء نے یہ کثیر رقم عزیزوں میں تقسیم کر دی۔

 

 

 

 

 

 

اخلاق و عادات

 

حضرت عائشہؓ ان لڑکیوں میں تھیں جو جسمانی طور پر بہت جلد بڑھ جاتی ہیں ۔ نو دس برس میں وہ اچھی خاصی بالغ ہو گئی تھیں ۔ لڑکپن میں وہ دبلی پتلی چھریری سی تھیں ۔جب سن کچھ زیادہ ہوا تو کسی قدر بدن بھاری ہو گیا تھا۔ رنگ سرخ و سفید تھا اور وہ نہایت خوبصورت تھیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس ﷺ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے آئی تھی اور جس کے اخلاق کو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن میں اخلاق کا سب سے اونچا مرتبہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ کی تربیت نے ازواج مطہرات کو حسن اخلاق کے اس رتبہ تک پہنچا دیا تھا جو انسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزل ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہؓ صدیقہ کا اخلاقی مرتبہ کافی بلند تھا۔ وہ نہایت سنجیدہ ، سخی، قناعت پسند ، عبادت گزار اور رحم دل تھیں ۔ انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی جس تنگی اور فقر و فاقہ میں بسر کی ۔لیکن وہ کبھی شکایت کا کوئی حرف زبان پر نہ لائیں ۔ بیش بہا لباس ، گراں قیمت زیور ، عالیشان عمارت ، لذیذ الوانِ نعمت ، ان میں سے کوئی چیز شوہر کے یہاں ان کو حاصل نہیں ہوئی اور دیکھ رہی تھیں کہ فتوحات کا خزانہ سیلاب کی طرح ایک طرف سے آتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ تاہم کبھی ان کی طلب بھی ان کو دامن گیر نہیں ہوئی۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک دفعہ انہوں نے کھانا طلب کیا پھر فرمایا میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی کہ مجھے رونا نہ آئے۔ ان کے ایک شاگرد نے پوچھا یہ کیوں ؟ فرمایا مجھے وہ حالت یاد آتی ہے جس میں حضور ﷺ نے دنیا چھوڑا۔ خدا کی قسم دن میں دو دفعہ کبھی سیر ہو کر آپؐ نے روٹی اور گوشت نہیں کھایا۔

 

متبنّی(گود لئے ہوئے بچے ) کے ساتھ برتاؤ

حضرت عائشہؓ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ لیکن ان کی پوری زندگی میں کوئی واقعہ ایسا مذکور نہیں جس سے ثابت ہو کہ ان کو قسمت سے اس کا گلہ تھا۔ شرفائے عرب میں دستور تھا کہ نام کے علاوہ اپنی اولاد کے نام سے اپنی کنیت رکھتے تھے۔ معززین کا نام نہیں لیتے تھے۔ کنیت سے مخاطب کرتے تھے۔حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ عرض کی ’’یا رسول اللہﷺ آپ کی تمام بیویوں نے اپنے (پہلے شوہروں کے ) بیٹوں کے نام سے اپنی کنیتیں رکھ لی ہیں ۔ میں کس کے نام سے رکھوں ۔‘‘آپؓ نے فرمایا تم بھی اپنے بیٹے عبد اللہ کے نام سے رکھو۔

اس عبد اللہ سے مقصود حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ ہیں جو حضرت عائشہؓ کے بھانجے اور حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے صاحبزادہ ہیں ۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں میں سب سے پہلے وہی پیدا ہوئے تھے۔کافر کہنے لگے تھے کہ مسلمان بیویاں یہاں آ کر بانجھ ہو گئی ہیں ۔جب یہ پیدا ہوئے تو مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی۔آنحضرت ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے ان کے تالو میں چھوہارا اور اپنا لعاب دہن ملا۔ حضرت عائشہؓ نے گویا ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا اور انکو دل سے چاہتی تھیں ۔ وہ بھی ماں سے زیادہ ان سے محبت کرتے تھے۔ان کے علاوہ حضرت عائشہؓ نے اپنے آغوش تربیت میں اور بھی بچوں کو لیکر پرورش کی ۔خود آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک انصاریہ لڑکی کی پرورش اور بیاہ کا ذکر حدیثوں میں ہے۔ مشروق بن اجدع ، عمرہ بنت عائشہ بن طلحہ ، عمرہ بنت عبد الرحمن انصاریہ ، اسماء بنت عبد الرحمن ابی بکرؓ صدیق ، عروہ بن زبیر بن زبیر ، قاسم بن محمد اور ان کے بھائی اور عبد اللہ بن یزید وغیرہ حضرت عائشہؓ کے پروردہ تھے۔محمد بن ابی بکرؓ کی لڑکیوں کو بھی انہوں نے پالا تھا اور انکی شادی بیاہ بھی وہی کر دیتی تھیں ۔

عورتوں کی امداد

خدا نے ان کو کاشانۂ نبوت کی ملکہ بنایا تھا۔ اس فرض کو وہ نہایت خوبی سے انجام دیتی تھیں ۔ عورتیں جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کوئی ضرورت لے کر آتیں ، اکثر ان کی مدد اور سفارش حضور سے کیا کرتی تھیں ۔

 

شوہر کی اطاعت

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپؐ کی خوشی و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں ۔ اگر ذرا بھی آپؐ کے چہرے پر رنج و افسوس کا اثر نظر آتا بیقرار ہو جاتیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں ۔ ایک دفعہ عبد اللہ بن زبیر سے خفا ہو کر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھی تھیں ۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ کے نانہالی لوگوں نے سفارش کی تو انکار کر تے نہ بنا ۔آپؐ کے دوستوں کی بھی اتنی ہی عزت کرتی تھیں اور ان کی کوئی بات رد نہیں کرتی تھیں ۔

 

 

غیبت اور بد گوئی سے پرہیز

وہ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتی تھیں ۔ ان کی روایتوں کی تعداد ہزاروں تک ہے۔ مگر اس دفتر میں کسی شخص کی توہین یا بد گوئی کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ سوکنوں کو بُرا کہنا عورتوں کی خصوصیت ہے مگر اوپر گزر چکا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی سوکنوں کی خوبیوں کو بیان کرتی تھیں ۔ حضرت حسانؓ جن سے افک کے واقعہ میں حضرت عائشہؓ کو سخت صدمہ پہنچا تھا ان کی مجلس میں شریک ہوتے اور وہ ان کو بڑی خوشی سے جگہ دیتیں ۔ بعض عزیزوں نے افک کے واقعہ میں انکی شرکت کے سبب سے حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت حسانؓ کو بُرا کہنا چاہا تو انہوں نے سختی سے روکا کہ ان کو بُرا نہ کہو کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مشرک شاعروں کو جواب دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ ایک شخص کا ذکر چلا۔ آپ نے اس کو اچھا نہیں کہا۔ لوگوں نے کہا ،ام المومنین اس کا تو انتقال ہو گیا۔یہ سن کر فوراً ہی مغفرت کی دعا مانگی۔ سب نے سبب پوچھا کہ ابھی آپ نے اس کو اچھا نہیں کہا اور ابھی آپ اس کی مغفرت کی دعا مانگتی ہیں ۔ جواب دیا کہ حضور کا ارشاد ہے کہ مردوں کو بھلائی کے سوا یاد نہ کرو۔

 

عدم قبول احسان

کسی کا احسان کم قبول کرتی تھیں اور کر لیتیں تو اس کا معاوضہ ضرور ادا کر دیتی تھیں ۔فتوحاتِ عراق کے مالِ غنیمت میں موتیوں کی ایک ڈبیہ آئی۔ عام مسلمانوں کی اجازت سے حضرت عمرؓ نے وہ عائشہؓ کو بھیجی۔ حضرت عائشہؓ نے ڈبیہ کھول کر کہا’’ خدایا ! مجھے ابن خطاب کا احسان اٹھانے کے لئے اب زندہ نہ رکھ۔ ‘‘

اطرافِ ملک سے ان کے پاس ہدیے اور تحفے آیا کرتے تھے۔ حکم تھا کہ ہر تحفہ کا معاوضہ ضرور بھیجا جائے۔ عبد اللہ بن عامر عرب کے ایک رئیس نے کچھ روپئے اور کپڑے بھیجے ۔ ان کو یہ کہہ کر واپس کر دینا چاہا کہ ہم کسی کی کوئی چیز قبول نہیں کرتے لیکن پھر آپؐ کا ایک فرمان یاد آگیا تو واپس لے لیا۔

خود ستائی سے پرہیز

اپنے منھ سے اپنی تعریف پسند نہیں کرتی تھیں ۔ مرض الموت میں حضرت ابنِ عباس نے عیادت کے لئے آنا چاہا، لیکن وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ آ کر میری تعریف کریں گے اس لئے اجازت دینے میں تامل کیا۔ لوگوں نے سفارش کی تو منظور کیا۔اتفاق یہ کہ حضرت ابن عباسؓ نے آ کر واقعتاً تعریف شروع کی۔سن کر بولیں کاش میں پیدا نہ ہوئی ہوتی۔

 

خود داری

زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک ہی جوڑا پاس رکھتی تھیں ۔اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں ۔ ایک اور کرتا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ یہ اس زمانہ کے لحاظ سے اس قدر بیش قیمت تھا کہ تقریبوں میں دلہن کے لئے عاریتاً مانگا جاتا تھا۔ کبھی کبھی زعفران میں رنگ کر کپڑے پہنتی تھیں ۔ گاہے گاہے زیور بھی پہن لیتی تھیں ۔ گلے میں یمن کا بنا ہوا خاص قسم کے سیاہ و سپید مہروں کا ہار تھا۔ انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنتی تھیں ۔

اس زہد و خاکساری کے باوجود وہ خود دار بھی تھیں ۔ کبھی کبھی یہ خود داری دوسروں کے مقابلہ میں تنک مزاجی کی حد تک پہنچ جاتی اور خود آنحضرت ﷺ کے مقابلہ میں وہ ناز محبوبانہ بن جاتی۔ واقعہ افک کی موقع پر آنحضرت ﷺ نے برأت کی آیتیں پڑھ کر سنائیں اور ماں نے کہا کہ بیٹی شوہر کا شکریہ ادا کرو ۔ بولیں میں صرف اپنے پروردگار کا شکریہ ادا کروں گی جس نے مجھ کو پاک دامنی و طہارت کی عزت بخشی۔آنحضرت ﷺ سے روٹھتیں تو آپؐ کا نام لے کر قسم کھانا چھوڑ دیتیں ۔ یہ سب محبوبانہ انداز ہیں جن کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ میاں بیوی کے درمیان کے معاملات ہیں ۔

حضرت عبد اللہ بن زبیر اکثر اپنی خالہ یعنی حضرت عائشہؓ کی خدمت کیا کرتے تھے اور فیاضی طبع سے ان کو ہمیشہ ادھر اُدھر دے دیا کرتی تھیں ۔ ابنِ زبیر نے تنگ آ کر کہا کہ اب ان کا ہاتھ روکنا ضروری ہے۔حضرت عائشہؓ کو یہ معلوم ہوا تو قسم کھائی کہ اب بھانجے کی کوئی چیز نہ چھوؤں گی لوگوں نے بڑی بڑی سفارشیں کیں اور آنحضرت ﷺ کے رشتہ داروں کو درمیان میں ڈالا تب جا کر صاف ہوئیں ۔

عام خود دار انسانوں سے انصاف پسندی کا ظہور کم ہوتا ہے لیکن حضرت صدّیقہؓ کمال خود داری کے ساتھ انصاف پسند بھی تھیں ۔

 

دلیری

نہایت دلیر اور پر دل تھیں ۔ راتوں کو تنہا اٹھ کر قبرستان چلی جاتی تھیں ۔ میدان جنگ میں آ کر کھڑی ہو جاتی تھیں ۔ غزوہ احد میں جب مسلمانوں میں اضطراب برپا تھا،اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔ غزوہ خندق میں جب چاروں طرف سے مشرکین محاصرہ کئے ہوئے پڑے تھے اور شہر کے اندر یہودیوں کے حملہ کا خوف تھا۔ وہ بے خطر قلعہ سے باہر نکل کر مسلمانوں کا نقشہ جنگ معائنہ کرتی تھیں ۔آنحضرت ﷺ سے لڑائیوں میں بھی شرکت کی اجازت چاہی تھی لیکن نہ ملی۔ جنگ جمل میں جس شان سے وہ فوجوں کو لائیں وہ بھی طبعی شجاعت کا ثبوت ہے۔

 

سخاوت

حضرت عائشہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی سخاوت تھی۔ دونوں بہنیں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ نہایت کریم النفس اور سخی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ ان دونوں سے زیادہ سخی اور صاحب کرم میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہؓ ذرا ذرا جوڑ کر جمع کرتی تھیں اور جب کچھ رقم اکٹھی ہو جاتی تھی تو بانٹ دیتی تھیں ۔ حضرت اسماءؓ کا یہ حال تھا کہ جو کچھ پاتی تھیں اس کو اٹھا کر نہیں رکھتی تھیں ۔ اکثر مقروض رہتی تھیں اور ادھر ادھر سے قرض لیا کرتی تھیں ۔ لوگ عرض کرنے لگے کہ آپ کو قرض کی ضرورت ہے۔ فرماتیں کہ جس کی قرض ادا کرنے کی نیت ہوتی ہے خدا اس کی اعانت فرماتا ہے۔ میں اس کی اسی اعانت کو ڈھونڈھ رہی ہوں ۔خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں ، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں ۔

ایک دفعہ ایک سائلہ آئی جس کی گود میں دو ننھے بچے تھے ۔اتفاق سے اس وقت گھر میں کچھ نہ تھا، صرف ایک چھوہارا تھا۔ اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں تقسیم کر دیا۔ آنحضرتﷺ جب باہر سے تشریف لائے تو ماجرا عرض کیا۔ ایک دفعہ ایک سائل آیا ۔سامنے کچھ انگور کے دانے پڑے ہوئے تھے۔ ایک دانا اٹھا کر اس کے حوالہ کیا۔ اس نے دانہ کو حیرت سے دیکھا کہ ایک دانہ بھی کوئی دیتا ہے۔ فرمایا یہ دیکھو کہ اس میں کتنے ذرّے ہیں ۔ یہ اس آیت کی طرف اشارہ تھا:

’’جس نے ایک ذرہ بھر بھی نیکی کی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔‘‘(زلزال)

حضرت عروہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کے سامنے پوری ستّر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دیدی اور دوپٹہ کا گوشہ جھاڑ دیا۔

امیر معاویہؓ نے ایک لاکھ درہم بھیجے۔شام ہونے تک کچھ بھی پاس نہ رکھا سب محتاجوں کو دلا دیا۔اتفاق سے اس دن روزہ رکھا تھا ، لونڈی نے عرض کی کہ افطار کے سامان کے لئے تو کچھ رکھنا تھا۔فرمایا ، تم نے یاد دلایا ہوتا۔

 

خوف الٰہی اور رقیق القلبی

دل میں خوف و خشیتِ الٰہی تھی اور رقیق القلب بھی بہت تھیں ۔بہت جلد رونے لگتی تھیں ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر جب نسوانی مجبوری سے حج کے بعض فرائض ادا کرنے سے معذوری پیش آ گئی تو اپنی محرومی پر بے اختیار رونے لگیں ۔ آخر آنحضرت ﷺ نے تشفی دی تو قرار آیا۔ایک دفعہ دجال کا خیال کر کے اس قدر رقت طاری ہوئی کہ رونے لگیں ۔ مرض الموت میں بعض اجتہادی غلطیوں پر اس درجہ ندامت تھی کہ فرماتی تھیں کہ کاش میں نیست و نابود ہو گئی ہوتی۔

ایک دفعہ کسی بات پر قسم کھا لی تھی۔ پھر لوگوں کے اصرار سے ان کو اپنی قسم توڑنی پڑی اور گو اس کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے تاہم ان کے دل پر اس کا اتنا گہرا اثر تھا کہ جب یاد کرتیں تو روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک سائلہ ان کے دروازے پر آئی ۔ دو ننھے ننھے بچے اس کے ساتھ تھے۔ اس وقت گھر میں کچھ اور نہ تھا۔ تین کھجور اس کو دلوا دیں ۔ سائلہ نے ایک ایک کھجور ان بچوں کو دی اور ایک اپنے منھ میں ڈال لی۔بچوں نے اپنا حصہ کھا کر حسرت سے ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے اپنے منھ سے کھجور نکال کر آدھی آدھی دونوں میں بانٹ دی اور خود نہیں کھائی ۔ ماں کی محبت کا یہ حسرت ناک منظر اور اس کی یہ بیکسی دیکھ کر بیتاب ہو گئیں اور ان کے دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

عبادتِ الٰہی

عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہتیں ۔ چاشت کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئے اور مجھ کو منع کرے تو میں باز نہ آؤں ۔آنحضرت ﷺ کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتیں تھیں ۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی اس قدر پابند تھیں کہ اگر اتفاق سے آنکھ لگ جاتی اور وقت پر نہ اٹھ سکتیں تو سویرے اٹھ کر نماز فجر سے پہلے تہجد ادا کر لیتیں ۔ ایک دفعہ اسی موقعہ پر ان کے بھتیجے قاسم پہنچ گئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ پھوپھی جان یہ کیسی نماز ہے؟ فرمایا رات کو نہیں پڑھ سکی اور اب اس کو چھوڑ نہیں سکتی ہوں ۔ رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں ۔ ذکوان نام کے انکے ایک خواندہ غلام تھے وہ امام ہوتے تھے۔ سامنے قرآن رکھ کر پڑھتے تھے اور یہ مقتدی ہوتیں ۔

اکثر روزہ رکھا کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ گرمی کے دنوں میں عرفہ کے روز روزے سے تھیں ۔ گرمی اور تپش اس قدر شدید تھی کہ سر پر پانی کے چھینٹے دیئے جاتے تھے۔ عبد الرحمن آپ کے بھائی، نے کہا کہ اس گرمی میں روزہ کچھ ضروری نہیں ، افطار کر لیجئے ۔ فرمایا کہ جب آنحضرت ﷺ کی زبانی یہ سن چکی ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا سال بھر کے گناہ معاف کرا دیتا ہے تو میں روزہ توڑوں گی؟ حج کی شدت سے پابند تھیں کوئی ایسا سال بہت کم گزرتا تھا جس میں وہ حج نہ کرتی ہوں ۔

 

 

معمولی باتوں کا لحاظ

جو چیزیں منع ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں تک سے بھی پرہیز کرتی تھیں ۔کبھی راستہ میں اگر ہوتیں اور گھنٹے کی آواز آتی تو ٹھہر جاتیں کہ کان میں اس کی آواز نہ آئے۔ انکے ایک گھر میں کچھ کرایا دار تھے جو شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ ان کو کہلا بھیجا کہ اگر اس حرکت سے باز نہ آؤ گے تو گھر سے نکلوا دوں گی۔

ایک دفعہ گھر میں ایک سانپ نکلا اس کو مار ڈالا۔کسی نے کہا آپ نے غلطی کی ممکن ہے کہ یہ کوئی مسلمان جن ہو۔ فرمایا اگر یہ مسلمان ہوتا تو امہات المومنین کے حجروں میں نہ آتا۔ اس نے کہا جب وہ آیا آپ ستر پوشی کی حالت میں تھیں ۔ یہ سُن کر متاثر ہوئیں اور اس کے فدیہ میں ایک غلام آزاد کیا۔

غلاموں پر شفقت

صرف ایک قسم کے کفارہ میں ایک دفعہ انہوں نے چالیس غلام آزاد کئے۔ آپ کے کل آزاد کئے ہوئے غلاموں کی تعداد ۶۷ تھی۔ تمیم کے قبیلہ کی ایک لونڈی انکے پاس تھی۔ ایک بار آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے سنا کہ یہ قبیلہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کی اولاد میں سے ہے تو آنحضرت ﷺ کے اشارہ سے اس کو آزاد کر دیا۔ بریرہ نام کی مدینہ میں ایک لونڈی تھی۔ ان کے مالکوں نے ان کو مکاتب کیا تھا یعنی یہ کہہ دیا تھا کہ اگر تم اتنی رقم جمع کر دو تو آزاد ہو۔ اس رقم کیلئے انہوں نے لوگوں سے چندہ مانگا۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو پوری رقم اپنی طرف سے ادا کر کے ان کو آزاد کر دیا۔

فقراء کی ان کی حیثیت کے مطابق مدد

فقراء اور اہلِ حاجت کی مدد ان کے حسب حیثیت کرنا چاہئے۔ اگر کسی نیچے طبقہ کا آدمی تمہارے پاس آتا ہے تو اس کی حاجت پوری کر دینا کافی ہے لیکن اگر کسی بلند درجہ کا آدمی ہے تو وہ اس کے ساتھ کسی قدر عزت و تعظیم کا بھی مستحق ہے۔حضرت عائشہ اس نکتہ کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں ۔ ایک دفعہ ایک معمولی سائل آیا۔ اس کو روٹی کا ٹکڑا دے دیا وہ چلا گیا۔اس کے بعد ایک اور شخص آیا جو کپڑے و پڑے پہنے تھا اور کسی قدر عزت دار معلوم ہوتا تھا۔ اس کو بٹھا کر کھانا کھلایا اور پھر رخصت کیا۔ لوگوں نے عرض کی کہ ان دونوں آدمیوں کے ساتھ دو قسم کے برتاؤ کیوں کئے گئے؟ فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے حسبِ حیثیت برتاؤ کرنا چاہئے۔

 

پردہ کا اہتمام

پردہ کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ آیت حجاب کے بعد تو تاکیدی فرض تھا۔ جن ہونہار طالب علموں کا اپنے یہاں بے روک ٹوک آنا جانا روا رکھنا چاہتی تھیں آنحضرت ﷺ کی ایک خاص حدیث کے مطابق اپنی کسی بہن یا بھانجی سے ان کو دودھ پلوا دیتی تھیں اور اس طرح ان کی رضاعی خالہ یا نانی بن جاتی تھیں اور ان سے پھر پردہ نہیں ہوتا۔ ورنہ ہمیشہ طالب علموں کے اور ان کے درمیان پردہ پڑا رہتا تھا۔ ایک دفعہ حج کے موقع پر چند بیویوں نے عرض کی کہ ام المومنین چلئے حجر اسود کو بوسہ دے لیں ۔ فرمایا تم جا سکتی ہو،میں مردوں کے ہجوم میں نہیں جا سکتی۔ کبھی دن کو طواف کا موقع پیش آتا تو خانۂ کعبہ مردوں سے خالی کر لیا جاتا تھا۔ اسحٰق تابعی نا بینا تھے۔ وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے ان سے پردہ کیا۔ وہ بولے کہ مجھ سے کیا پردہ میں تو آپ کو دیکھتا نہیں ۔ فرمایا تم مجھے نہیں دیکھتے تو میں تو تمہیں دیکھتی ہوں ۔ مُردوں سے شریعت میں پردہ نہیں لیکن ان کا کمالِ احتیاط دیکھئے کہ وہ اپنے حجرہ میں حضرت عمرؓ کے دفن ہونے کے بعد بے پردہ نہیں جاتی تھیں ۔

 

مناقب

انا تارک فیکم الثقلین اولھا کتاب اللہ واھل بیتی:’’میں تمہارے درمیان دو عظیم الشان چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اہلِ بیت۔‘‘

مقصد یہ ہے کہ کتاب الٰہی گو اپنی سہولت بیان کے لحاظ سے ہر عملی مثال سے بے نیاز ہے۔ تاہم دنیا میں ہمیشہ ایسے اشخاص کی ضرورت رہے گی جو اس کے اسرار و رموز کو حل کر سکیں اور ان کی علمی و عملی تعبیر بتا سکیں ۔ آپ کے بعد ان اشخاص کو آپ کے اہل بیت میں تلاش کرنا چاہئے۔

اس قدر شناسی کے لحاظ سے جو آپ حضرت عائشہ کے بابت فرماتے تھے ، اس صحبت و تعلیم کی بناء پر جو ان کو میسر آتی تھی اور اس فطری جو ہر اور صلاحیت کے لحاظ سے جو قدرت کاملہ نے ان کو عطا کی تھی، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا کہ اہلِ بیتِ نبوی میں حضرت عائشہؓ کو خاص مرتبہ حاصل تھا۔ اس بناء پر کتاب اللہ کا ترجمان، سنتِ رسول کا معتبر اور احکام اسلامی کا معلّم ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔ اور لوگ پیغمبر کو صرف جلوت میں دیکھتے تھے اور یہ خلوت و جلوت دونوں میں دیکھتی تھیں ۔

خود آنحضرت ﷺ کو سچے خواب نے ان کے حرمِ نبوی میں ہونے کی خوش خبری سنائی۔حضرت عائشہؓ کے بستر کے سوا کسی دوسری ام المومنین کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی۔ جبرئیل امین نے ان کے آستانہ پر اپنا سلام بھیجا۔ دو بار جبرئیل امین کو اِن آنکھوں نے دیکھا۔ وحی الٰہی نے ان کی عفت و عصمت پر شہادت دی۔ نبوت کے الہام صادق نے ان کو آخرت میں پیغمبر کی چہیتی بیویوں میں ہونے کی بشارت سنائی۔

حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ خدا نے مجھ کو نو باتیں ایسی عطا کی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کو نہیں ملی۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت ﷺ کے سامنے میری صورت پیش کی، جب میں سات برس کی تھی تو آپؐ نے مجھ سے نکاح کیا، جب میرا سن نو برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی، میرے سوا کوئی اور کنواری بیوی آپؐ کی خدمت میں نہ تھی، آپؐ جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی، میں آپؐ کی محبوب ترین بیوی تھی، میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ، میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپؐ نے میری ہی گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔

 

علم و اجتہاد

 

علمی حیثیت سے حضرت عائشہؓ کو نہ صرف عام عورتوں پر نہ صرف امہاتؓ المونین پر نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر ، بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ پر فوقیت عام حاصل تھی۔ حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ جس کو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں ۔

امام زہری جو تابعین کے پیشوا تھے اور جنہوں نے بڑے بڑے صحابہ کے آغوش میں تربیت پائی تھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں ۔ بڑے بڑے صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔

ایک دن امیر معاویہؓ نے ایک درباری سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے، اس نے کہا ’’امیر المومنین آپ ہیں ‘‘۔انہوں نے کہا نہیں میں قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاؤ۔اس نے کہا ’’اگر یہ ہے تو عائشہؓ‘‘۔

یہ حضرت عائشہ کا رتبہ علم کتاب و سنت اور فقہ و احکام میں اس قدر بلند ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ ، علیؓ مرتضی، عبد اللہؓ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباسؓ کے ساتھ بے تکلف ان کا نام لیا جا سکتا ہے۔

 

 

علم قرآن

سب کو معلوم ہے کہ قرآن مجید تیئیس سال کے اندر نازل ہوا ، حضرت عائشہؓ نبوت یا نزول کے چودہویں سال نو برس کی عمر میں آنحضرت ﷺ کے گھر میں آئیں ، اس لئے ان کے آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہنے کا زمانہ تقریباً دس سال ہے ، اس سے ظاہر ہو گا کہ نزول قرآن کا آدھا حصہ ان کے ابتدائے ہوش سے پہلے کا واقعہ ہے، لیکن اس غیر معمولی دل و دماغ کی ہستی نے اس زمانہ کو بھی جو عموماً طفلانہ بے خبری کھیل کود زمانہ کاہے، رائگاں نہیں کیا، آنحضرت ﷺ روزانہ بلا ناغہ حضرت صدیقؓ کے گھر تشریف لاتے تھے، حضرت صدیق نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنا لی تھی اس میں بیٹھ کر نہایت رقت اور خشوع کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے ، ناممکن ہے کہ ان موقعوں سے حضرت عائشہؓ کے فو ق الفطرۃ حافظہ نے فائدہ نہ اٹھایا ہو، فرماتی تھیں کہ جب یہ آیت اترتی تھی:’’بَلِ السَّاعَۃُ مَوعِدُہُم و السَّاعَۃُ اَدھٰی وَ اَمَرّ‘‘

’’بلکہ قیامت کا روز ان کے وعدہ کا دن ہے، وہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہو گی۔‘‘

تو میں کھیل رہی تھی۔

حضرت عائشہؓ کو تیرہ چودہ برس کے سن تک ( ۵ ھ تک) قرآن زیادہ یاد نہ تھی، خود اس کا اقرار کرتی ہیں : واناجاریۃ حدیثۃ السن لا اقرء من القرآن کثیراً۔ ’’میں اس وقت کمسن تھی، زیادہ قرآن پڑھی ہوئی نہیں تھی۔‘‘

لیکن اس عالم میں بھی وہ قرآن ہی کا حوالہ دیتی تھیں ۔

ابو یونس حضرت عائشہؓ کے ایک غلام تھے، جو لکھنا جانتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے اُن کے ہاتھ سے اپنے لئے قرآن لکھوایا تھا۔

عراق کے ایک صاحب ان سے ملنے آئے ، تو درخواست کی کہ ام المومنین! مجھے اپنا قرآن دکھائیے، وجہ دریافت کی تو کہا ہمارے ہاں قرآن اب تک لوگ بے ترتیب پڑھتے ہیں ، چاہتا ہوں کہ اپنے قرآن کی ترتیب آپ ہی کے قرآن کے مطابق کر دوں ، فرمایا سورتوں کے آگے پیچھے ہونے میں کوئی نقصان نہیں پھر اپنا قرآن نکال کر ہر سورہ کی سرِ آیات پڑھ کر لکھوا دیں ۔

عادت یہ تھی کہ جس آیت کریمہ کا مطلب سمجھ میں نہ آتا ، خود آنحضرت ﷺ سے دریافت کر لیتیں ، چنانچہ صحیح حدیثوں میں متعدد آیتوں کی نسبت آنحضرت ﷺ سے ان کاسوال مذکور ہے، امہات المومنین کو خدا کی طرف سے حکم تھا۔

واُذْ کُرْنَ ما یُتْلٰی فِی بُیوتِکُنَّ مِن آیاتِ اللہِ وَالْحِکْمَۃ (احزاب۔۴)

’’تمہارے گھروں میں خدا کی جو آیت اور حکمت کی جو باتیں پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں ان کو یاد کرو۔‘‘

اس حکم کی تعمیل بھی ضروری تھی۔ آنحضرت ﷺ تہجد میں قرآن مجید کی بڑی بڑی سورتیں نہایت غور و فکر اور خشوع و خضوع سے تلاوت فرماتے۔ حضرت عائشہؓ ان نمازوں میں آپؐ کے پیچھے ہوتیں ۔ فرماتی ہیں کہ سورہ بقرہ اور سورہ نساء اتری تو میں آپؐ کے پاس تھی، غرض یہ اسباب و مواقع ایسے تھے کہ عائشہؓ کو قرآن مجید کی ایک ایک آیت کی طرزِ قرأت اور معانی پر عبور کامل ہو گیا تھا، وہ ہر مسئلہ کے جواب کے لئے پہلے عموماً قرآن پاک کی طرف رجوع کرتی تھیں ، عقائد و فقہ و احکام کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق و سوانح کو بھی جو ان کے سامنے کی چیزیں تھیں ، وہ قرآن ہی کے حوالہ کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ چند صاحب زیارت کو آئے ، عرض کیا کہ ام المومنین! حضور انور ﷺ کے کچھ اخلاق بیان فرمائے ، بولیں کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ، آپؐ کا اخلاق سر تا پا قرآن تھا، پھر دریافت کیا کہ آپؐ کی عبادتِ شبانہ کا کیا طریقہ تھا، فرمایا ، کیا سورۂ مزمل نہیں پڑھا؟

چند ایسی آیتوں کی تفسیر جس میں خاص نکتہ ہے نیچے درج کی جاتی ہیں :

قرآن مجید کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے:

’’صفا اور مروہ کی پہاڑیاں ، شعائرِ الٰہی میں سے داخل ہیں ، پس جو خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے کچھ مضائقہ نہیں ، اگر ان کا بھی وہ طواف کرے۔‘‘

عروہ نے کہا خالہ جان ! اس کے تو یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں ، فرمایا، بھانجے! تم نے ٹھیک نہیں کہا ، اگر آیت کا مطلب وہ ہوتا ، جو تم سمجھے ہو تو خدا یوں فرماتا لاجناح ان لا یطوف بھما اگر ان کا طواف نہ کرو کچھ حرج نہیں ، اصل میں یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اوس و خزرج اسلام سے پہلے مناۃ کو پکارا کرتے مناۃ مشلل میں نصب تھا، اس لئے صفا اور مروہ کا طواف بُرا جانتے تھے۔اسلام لائے تو آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے؟ اس پر خدا نے ارشاد فرمایا کہ ’’صفا مروہ کا طواف کرو، اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں ‘‘ اس کے بعد انہوں نے کہا، آنحضرت ﷺ نے صفا و مروہ کا طواف فرمایا ہے۔ اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا حق نہیں ۔

ان کو حضرت عائشہؓ کی یہ تقریر معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا ’’علم اس کو کہتے ہیں ‘‘۔

جس آیت پاک میں چار بیویوں تک کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :واِنْ خِفْتُم الاّ تُقْسِطُوا فِی الْیَتَمٰی فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُم مِن النِّسَاٰءِ مَثنٰی وثُلٰثَ ورُبٰعَ(نساء۔۱)

’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں تم انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے دو ۲ دو۲ ،تین۳ تین ۳ ، چار ۴ چار ۴ سے نکاح کر لو اگر عدل نہ ہو تو ایک۔‘‘

بظاہر آیت کے پہلے اور پچھلے ٹکڑوں میں باہم ربط نہیں معلوم ہوتا ، یتیموں کے حقوق میں عدم انصاف اور نکاح کی اجازت میں باہم کیا مناسبت ہے؟ ایک شاگرد نے ان کے سامنے اس اشکال کو پیش کیا، فرمایا ’’ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ یتیم لڑکیوں کے ولی بن جاتے ہیں ، ان سے موروثی رشتہ داری ہوتی ہے، وہ اپنی ولایت کے زور سے چاہتے ہیں کہ اس سے نکاح کر کے اس کی جائداد پر قبضہ کر لیں اور چونکہ اس کی طرف سے کوئی بولنے والا نہیں ہے، اس لئے مجبور پا کر اس کو ہر طرح دباتے ہیں ۔ خدائے پاک ان مردوں کو خطاب کرتا ہے کہ تم ان یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف سے پیش نہ آ سکو تو ان کے علاوہ اور عورتوں سے دو تین چار نکاح کر لو ، مگر ان یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لے کر اپنے بس میں نہ لے آؤ۔‘‘

عورت کو اگر اپنے شوہر سے شکایت ہو تو اس موقع کی آیت ہے:

وَاِنْ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِھَا نُشُوزاً اَو اِعرَاضاً فلَا جُنَاحَ عَلَیھِما اَن یُّصلِحَا بَینَھُمَا صُلحاً و الصُّلحُ خَیر(نساء ۔۱۹)

’’اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے نا رضامندی اور اعراض کا خوف ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کر لیں اور صلح تو ہر حال میں بہتر ہے‘‘۔

ناراضی دور کرنے کے لئے صلح کر لینا تو بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے، اس کے لئے خدائے پاک کو اس خاص حکم کے نزول کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’آیت اس عورت کی شان میں ہے، جس کا شوہر اُس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں یا بیوی سن سے اتر گئی ہے اور شوہر کی خدمت گزاری کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس خاص حالت میں اگر بیوی طلاق لینا پسند نہ کرے اور بیوی رہ کر شوہر کو اپنے حق سے سبکدوش کر دے تو باہمی مصالحت بُری نہیں ، بلکہ قطعی علیحدگی سے یہ صلح بہتر ہے،غرض اس طرح کے بہت سارے تفسیری نکتے ہیں جسے حضرت عائشہؓ نے اپنے خدا داد فہم سے واضح فرمایا۔

 

 

 

 

علمِ حدیث

 

حدیث کا معاملہ خاص نبیؐ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے فطری طور پر جو سب سے زیادہ آپؐ کی صحبت میں رہا اس نے زیادہ حدیث سیکھی۔ابھی اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت عائشہؓ کو نہ صرف دیگر صحابہ کرام بلکہ خود دیگر ازواج مطہرات کے مقابلے سب سے زیادہ فیض حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ نہ صرف ازواج مطہرات ، نہ صرف عام عورتوں بلکہ مردوں میں بھی چار پانچ کے سوا کوئی ان کے برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

نام                    تعداد روایات

۱۔ حضرت ابو ہریرۃؓ             ۵۳۶۴

۲۔ حضرت ابنِ عمرؓ              ۲۶۳۰

۳۔ حضرت انسؓ                ۲۲۸۶

۴۔ حضرت عائشہؓ               ۲۲۱۰

۵۔ حضرت ابنِ عباسؓ         ۱۶۶۰

۶۔ حضرت جابرؓ                 ۱۵۴۰

۷۔ حضرت ابو سعید خدریؓ   ۱۱۷۰

 

معلوم ہوا کہ کثرتِ روایت میں حضرت عائشہؓ کا چوتھا نمبر ہے، جن لوگوں کا نام اُن سے اوپر ہے ان میں سے اکثر ام المومنین کے بعد بھی زندہ رہے ہیں اور ان کی روایت کا سلسلہ چند سال اور جاری رہا ہے، اس کے بعد حضرت عائشہؓ کی نسبت اگر یہ بھی لحاظ رہے کہ وہ ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور اپنے مرد معاصرین کی طرح نہ وہ ہر مجلس میں حاضر رہ سکتی تھیں اور نہ مسلمان طالبینِ علم ان تک ہر وقت پہنچ سکتے تھے اور نہ ان بزرگوں کی طرح ممالک اسلامیہ کے بڑے بڑے شہروں میں ان کا گزر ہوا، تو ان کی حیثیت ان سبع سیاروں میں سب سے زیادہ روشن نظر آئے گی۔

 

 

 روایت کے ساتھ درایت

لیکن محض روایت کی کثرت ، ان کی فضیلت اور عزت کا باعث نہیں ہے، اصل چیز دقّت رسی اور نکتہ فہمی ہے اس مخصوص فضیلت میں حضرت عائشہؓ کے ساتھ صرف عبد اللہ بن عباس شریک ہیں جو روایت کی کثرت کے ساتھ تفقہ ، اجتہاد ، فکر اور قوّتِ استنباط میں بھی ممتاز تھے۔

روایت کی کثرت کے ساتھ اور قوّت استنباط کے علاوہ عائشہؓ کی روایتوں کی ایک خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں ، اکثر ان کے علل و اسباب بھی بیان کرتی ہیں ، وہ خاص حکم جن مصلحتوں پر مبنی رہتا ہے ان کی تشریح کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت سعید خدریؓ اور حضرت عائشہ تینوں سے پہلو بہ پہلو روایتیں ہیں کہ جمعہ کے دن غسل کرنا چاہئے، اب تینوں بزرگوں کی روایتوں کے الفاظ کو پڑھو، اس سے حضرت عائشہؓ کی امتیازی حیثیت واضح ہو گی۔

سمعت رسول اللہﷺ یقول ’’من جاء منکم الجمعۃ فلیغتسل‘‘

میں نے آنحضرتﷺ کو فر ما تے ہوئے سنا کہ جو جمعہ میں آئے وہ غسل کرے۔

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں :

ان رسول اللہﷺ قال ’’غسل یوم الجمعۃ واجب علی کل محتلم‘‘

آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر فرض ہے۔

اسی مسئلہ کو حضرت عائشہؓ ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں :

قالت کان الناس ینتابون الجمعۃ من منازلھم والعوالی فیاتون فی الغبار یصیبھم الغبار والعرق فیخرج منھم العرق فاتی رسول اللہﷺ انسان منھم و ھو عندی فقال النبیﷺ لو انکم تطہر تم لیومکم ھٰذا (کتاب الجمۃ)

۔’’لوگ اپنے اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادیوں سے جمعہ کے روز آتے تھے ،وہ غبار اور پسینہ میں شرابور ہوتے تھے، ان کے بد ن سے پسینہ نکلتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک صاحب ان میں سے آپ کے پاس آئے اور آپ میرے پاس بیٹھے تھے، آپؐ نے فرمایا بہتر ہوتا، اگر تم اس دن غسل کر لیا کرتے۔‘‘

ابو داؤد کے سوا صحاح کی تمام کتابوں میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا، لیکن حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ دست کا گوشت آپ کو بہت پسند نہ تھا، بلکہ چونکہ گوشت کم میسر تھا اور دست کا گوشت جلد پک جاتا تھا ، اس لئے آپ اسی کو کھاتے تھے۔ (ترمذی)

احادیث میں مذکور ہے کہ آپؐ ہر سال ایک آدمی خیبر بھیجتے تھے، وہ پیداوار کو جا کر دیکھتا اور تخمینہ لگاتا تھا، دوسرے راوی اس واقعہ کو صرف اس قدر بیان کر کے رہ جاتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہؓ جب اس روایت کو بیان کرتی ہیں ، تو فرماتی ہیں ۔

وانما کان امر النبیﷺ بالخرص لکی یحصی الزکوہ قبل ان توکل التمرۃ وتفرق۔

آپ نے تخمینہ لگانے کا اس لئے حکم دیا کہ پھل کھانے اور اس کی تقسیم سے پہلے زکوٰۃ کا اندازہ کر لیا جائے۔

بار بار پوچھنا

حضرت عائشہؓ کی روایتوں میں غلطی کم ہونے کا ایک خاص سبب یہ بھی ہے کہ عام لوگ آنحضرتﷺ سے ایک دفعہ کوئی بات سن لیتے، یا کوئی واقعہ دیکھ لیتے تھے اس کی پھر اسی طرح روایت کر دیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا اصول یہ تھا کہ جب تک وہ واقعہ کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتی تھیں ، اس کی روایت نہیں کرتی تھیں ، اگر آپؐ کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپؐ سے اس کو بار بار پوچھ کر تسکین کرتی تھیں ۔

وہ جس روایت کو آپؐ سے بلا واسطہ نہیں سنتی تھیں ، بلکہ دوسروں سے حاصل کرتی تھیں ان میں سخت احتیاط کرتی تھیں اور اچھی طرح جانچ لیتی تھیں ، تب اس پر اعتماد کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بن العاص نے ایک حدیث بیان کی، ایک سال کے بعد جب وہ پھر آئے تو ایک آدمی کو بھیجا کہ ان سے جا کر پھر وہی حدیث پوچھئے انہوں نے بے کم و کاست وہی حدیث بیان کی ، اس نے لوٹ کر حضرت عائشہؓ کے سامنے دہرائی، سن کر تعجب سے فرمایا کہ’’ خدا کی قسم ابن عمرؓ کو بات یا د رہی‘‘۔

 

روایتِ مخالفِ قرآن حجت نہیں

فنِ حدیث میں حضرت عائشہؓ کا سب سے پہلا اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت کلام الہی کے مخالف نہ ہو۔

اس اصول کی بناء پر انہوں نے متعدد روایتوں کی صحت سے انکار کیا ہے اور ان کی اصل حقیقت اور مفہوم کو اپنے علم کے مطابق ظاہر کیا ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور بعض صحابہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:ان المیت لیعذب ببکاء اہلہٖ علیہ ۔

’’مردہ پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘

حضرت عائشہؓ کے سامنے جب یہ روایت بیان کی گئی تو اس کے تسلیم کرنے سے انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ آنحضرتﷺ نے یہ کبھی نہیں فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ ایک دن آپؐ ایک یہودیہ کے جنازہ پر گزرے، اس کے رشتہ دار اس پر واویلا کر رہے تھے، آپؐ نے فرمایا،’’یہ روتے ہیں اور اس پر عذاب ہو رہا ہے‘‘۔

رونا دوسروں کا فعل ہے جس کا عذاب یہ رونے والے خود اٹھائیں گے ، مردہ اس کا ذمہ دار کیوں ہو ، ہر شخص اپنے فعل کا جواب دہ ہے اس بناء پر عائشہ نے اس کے بعد کہا قرآن تم کو کافی ہے، خدا فرماتا ہے: وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزرَ اُخریٰ۔

’’اور کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا‘‘ (بنی اسرائیل۔۲)

راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے جب حضرت عائشہؓ کے اس بیان اور استدلال کو سنا تو کچھ جواب نہ دے سکے۔

غزوہ بدر میں جو کفار مارے گئے تھے، آنحضرتﷺ نے ان کے مدفن پر کھڑے ہو کر فرمایا:

فھل وجدتم ما وعد ربّکم حقاً (اعراف۔۵)

’’خدا نے تم سے جو وعدہ کیا تھا تم نے اس کو سچا پایا۔‘‘

صحابہؓ نے (ایک روایت میں ہے کہ صرف حضرت عمرؓ نے ) عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ عالیہ و سلم آپؐ مردوں کو پکارتے ہیں ، حضرت ابنِ عمرؓ غالباً حضرت عمرؓ سے اور انس بن مالک ابو طلحہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا۔

ماانتم باسمع منھم و لاکن لا یجیبون

’’تم ان سے زیادہ نہیں سنتے ، لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘

حضرت عائشہؓ سے جب یہ روایت بیان کی گئی ، تو انہوں نے کہا کہ آپؐ نے یہ نہیں کہا بلکہ یہ ارشاد فرمایا:

انھم لیعلمون الان ان ما کنت اقول لھم حق

’’وہ اس وقت یقیناً جانتے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا وہ سچ تھا۔‘‘

اس کے بعد عائشہؓ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔

اِنِّکَ لَا تُسمِعُ المَوتٰی (نمل ۔۶)

’’اے پیغمبر! تو مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتا۔‘‘

وَمَا اَنتَ بِمُسمِعِ مَن فِی القُبُورِ (فاطر۔۳)

’’اور آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں نہیں سنا سکتے۔‘‘

لوگوں نے حضرت عائشہؓ سے آ کر بیان کیا کہ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے ، عورت میں ، گھوڑے میں ، گھر میں ، حضرت عائشہؓ نے کہا یہ صحیح نہیں ، ابو ہریرہؓ نے آدھی بات سنی اور آدھی نہیں سنی، آپؐ پہلا فقرہ کہہ چکے تھے کہ ابو ہریرہؓ پہونچے، آپ نے یہ فرمایا کہ’’ یہود کہتے ہیں کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے ، عورت میں ، گھوڑے میں ، گھر میں ۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے دو بار خدائے عزوجل کو دیکھا ، مسروق تابعی نے حضرت عائشہؓ سے جا کر پوچھا ’’مادرِ من! کیا محمدﷺ نے خدا کو دیکھا تھا۔‘‘ حضرت عائشہؓ نے کہا تم ایسی بات بولے جس کو سن کر میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ، جو تم سے یہ کہے کہ محمدؐ نے خدا کو دیکھا وہ جھوٹ کہتا ہے، پھر یہ آیت پڑھی:

لَا تُدرِکُہ الاَبصَارُ وَھُوَ یُدرِکُ الاَبصَارَ وَھُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیر (انعام ۔۱۳)

’’نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے کہ وہ ذات لطیف ہے اور دانا ہے۔‘‘

اس کے بعد یہ دوسری آیت پڑھی:

وَمَا کَانَ لِبَشَرِ اَن یُّکلِّمَہُ اللہُ اِلّا وَحیاً اَو مِن وَّرَاءِ حِجَابِ۔

’’اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس سے باتیں کر سکے مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے۔‘‘

بعض اور حدیثوں سے بھی حضرت عائشہؓ کی تائید ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ وہ نور ہے، میں اس کو کیونکر دیکھ سکتا ہوں ۔

متعہ یعنی ایک مدّت معین تک کے لئے نکاح ، جاہلیت اور آغاز اسلام میں ۷ھ تک جائز تھا، خیبر میں اس کی حرمت کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد روایتوں میں کسی قدر اختلاف ہے، حضرت ابن عباسؓ اور بعض لوگ اس کے جواز کے قائل تھے، لیکن جمہور صحابہ اس کی حرمت کے قائل ہیں اور اپنے دعویٰ کی توثیق میں حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ سے جب ان کے ایک شاگرد نے جوازِ متعہ کی روایت کی نسبت پوچھا تو انہوں نے اس کا جواب حدیثوں سے نہیں دیا ، بلکہ فر ما یا میرے تمہارے درمیان خدا کی کتاب ہے، پھر یہ آیت پڑھی:

وَالَّذِینَ ھُم لِفُرُوجِھِم حَافِظُونَ اِلَّا عَلٰی اَزوَاجِہِم او مَامَلَکَت اَیمَانَھُم فَاِنَّھُم غَیرَ مَلُومِینَ (مومنون۔۱)

’’جو لوگ کہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، مگر اپنی بیویوں کے ساتھ یا اپنی باندیوں کے ساتھ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔‘‘

اس لئے ان دو صورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت جائز نہیں اور ظاہر ہے ممتوعہ عورت نہ بیوی ہے اور نہ باندی، اس لئے وہ جائز نہیں ۔

۶۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کی کہ ناجائز لڑکا تینوں میں (ماں باپ اور بچّہ) بدتر ہے۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا یہ صحیح نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص منافق تھا ، آپؐ کو بُرا بھلا کہا کرتا تھا، لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! اس کے علاوہ وہ ولد الزنا بھی ہے، آپؐ نے فرمایا کہ وہ تینوں میں بد تر ہے، یعنی اپنے ماں باپ سے زیادہ بُرا ہے، یہ ایک خاص واقعہ ، عام نہ تھا، خدا فرماتا ہے:۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزرَ اُخریٰ (بنی اسرائیل۔۲) ’’اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا،یعنی قصور تو ماں باپ کا ہے بچہ کا کیا گناہ؟‘‘

 

مغز سخن تک پہنچنا

بعض مسائل کی نسبت صحابہ میں جو اختلاف روایت ہے وہ کسی قدر اختلاف فہم پر مبنی ہے، حضرت عائشہؓ کو اس فہم و ذکا کے عطیّہ الٰہی سے بھی بہت حظِ وافر ملا تھا اور انہوں نے اس دولتِ عظمیٰ سے فنِ حدیث میں بہت فائدہ اٹھایا۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے ایک قصہ مذکور ہے کہ ایک عورت نے ایک بلّی باندھ دی تھی اور اس کو کچھ کھانے پینے کو نہیں دیتی تھی، بلی اسی حالت میں بھوک پیاس سے مر گئی اور اس کو اس بناء پر عذاب ہوا ، حضرت ابوہریرہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے ملنے گئے، انہوں نے کہا تم ہی ہو جو ایک بلّی کے بدلے ایک عورت کے عذاب کی روایت بیان کرتے ہو ، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا ’’میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے‘‘ فرمایا ’’خدا کی نظر میں ایک مومن کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بلّی کے باعث اس پر عذاب کرے، وہ عورت اس گناہ کے علاوہ کافر بھی تھی، اے ابو ہریرہؓ !جب آنحضرتﷺ سے کوئی بات روایت کرو تو دیکھ لو کہ کیا کہتے ہو۔‘‘

اسلام میں حکم یہ ہے کہ مطلقہ عورت عدّت کے دن شوہر کے گھر میں گزارے اس حکم کے خلاف فاطمہؓ نام کی ایک صحابیہ اپنا واقعہ بیان کرتی ہیں کہ مجھ کو آنحضرتﷺ نے عدت کے زمانہ میں شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی، انہوں نے مختلف اوقات میں متعدد صحابہ کے سامنے اپنے واقعہ کو بطور استدلال کے پیش کیا۔ بعض نے قبول کیا اور اکثر نے اس کو ماننے سے انکار کیا، اتفاق سے مروان کی امارت مدینہ میں اسی قسم کا ایک مقدمہ پیش ہوا، فریق نے فاطمہؓ کے قول سے استدلال کیا، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فاطمہؓ پر سخت نقطہ چینی کی اور فرمایا کہ فاطمہؓ کے لئے بھلائی نہیں ہے کہ وہ اپنے اس واقعہ کو بیان کرے آنحضرتﷺ نے عدّت کی حالت میں ان کو شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کی بیشک اجازت دی لیکن سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر کا گھر ایک غیر محفوظ اور خوفناک مقام میں تھا۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ’’مجھے خدا کی راہ میں ایک کوڑا بھی ملے تو مجھ کو ناجائز بچہ کے آزاد کرنے کے مقابلہ میں پسند ہے‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناجائز لڑکے اگر غلامی کی حالت میں ہوں تو انکو آزاد کرنا کوئی ثواب کا کام نہیں ۔ حضرت عائشہؓ کو یہ روایت معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا ’’خدا ابوہریرہؓ پر رحم کرے ، اچھی طرح سنا نہیں تو اچھی طرح کہا بھی نہیں ، واقعہ یہ ہے کہ جب یہ آیت اتری :

فَلَا اِقتَحَمَ العَقَبَۃَ وَمَا اَدرَاکَ مَاالعَقَبَۃَ فَکُّ رَقَبَۃ (بلد )

’’وہ گھاٹی میں گھسا نہیں ،معلوم ہے کہ گھاٹی کیا چیز ہے کسی کو آزاد کرنا۔‘‘

کسی نے کہا یا رسول اللہﷺ ہم غریبوں کے پاس لونڈی غلام کہاں ؟ کسی کسی کے پاس کوئی ایک حبشن ہے جو گھر کا کام کاج کرتی ہے ، اس کو ناجائز طریقے کی اجازت دی جائے اس سے جو بچہ ہو اس کو آزاد کر دیا جائے ، ارشاد ہوا کہ ’’مجھ کو خدا کی راہ میں کوئی کوڑا بھی ملے تو مجھ کو اس سے پسند ہے کہ میں اس بُری بات کی اجازت دوں اور پھر اس سے بچہ پیدا ہو، اس کو کہوں کہ آزاد کر دو۔‘‘

ابو داؤد کے سوا بقیہ تمام صحاح میں یہ حدیث مذکور ہے کہ آپؐ کو بکری کے دست کا گوشت بہت پسند تھا، حضرت عائشہؓ نے فرمایا، دست کا گوشت فی نفسہٖ پسند نہ تھا بلکہ بات یہ تھی کہ گوشت روز نہیں ملتا تھا، دست کا گوشت پکنے میں جلد گل جاتا ہے اس لئے آپؐ اس کو پسند کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ اور متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ صبح اور عصر کی نمازوں کے بعد کسی قسم کی کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہئے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’خدا عمرؓ پر رحم کرے ان کو وہم ہوا، آنحضرتﷺ نے یہ فرمایا کہ آفتاب کے غروب اور طلوع کے وقت کو تاک کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے، فقہاء نے ان اوقات میں نماز کی ممانعت کی یہ علّت بیان کی ہے کہ یہ آفتاب پرستی کے اوقات ہیں ،اس لئے اشتباہ اور آفتاب پرستوں کی مماثلت سے احتراز کرنا چاہئے، اگر یہ تعلیل صحیح ہے تو حضرت عائشہؓ کی روایت زیادہ قریب صواب ، صحیح اور انسب ہے اور معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے ممانعت کیا اصل مقصد کو سمجھ لیا تھا۔

ذاتی واقفیت

 

یہ امر مسلّم ہے کہ محرم اسرار سے محرم اسرار دوست کی بنسبت بیوی بہت کچھ زیادہ جان سکتی ہے ، آنحضرتﷺ ہمہ تن مثال اور اسوہ تھے، اس لئے گویا آپؐ کا ہر فعل قانون تھا، اس بناء پر آپؐ کی بیویوں کو اس کے متعلق جس قدر ذاتی واقفیت کے ذرائع حاصل تھے، دوسروں کے لئے نا ممکن تھے۔متعدد مسائل ایسے ہیں ، جن میں صحابہ نے اپنے اجتہاد یا کسی روایت کی بناء پر کوئی مسئلہ بیان کیا اور حضرت عائشہ نے اپنی ذاتی واقفیت کی بناء پر اس کو رد کر دیا اور آج تک ان مسائل میں حضرت عائشہؓ ہی کا قول مستند ہے۔

حضرت ابن عمروؓ فتویٰ دیتے تھے کہ عورت کو نہاتے وقت چوٹی کھول کر بالوں کا بھگونا ضروری ہے حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا وہ عورتوں کو یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ اپنے چوٹی منڈوا ڈالیں ، میں آنحضرتﷺ کے سامنے نہاتی تھی اور بال نہیں کھولتی تھی۔

حضرت ابن عمرؓ کہتے تھے کہ تقبیل یعنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا ’’ آنحضرتﷺ تقبیل کے بعد تازہ وضو نہیں کرتے تھے ‘‘یہ کہ کر مسکرائیں ۔

(۲) حضرت ابوہریرہؓ کی نسبت معلوم ہوا کہ وہ کہتے ہیں کہ نماز میں مرد کے سامنے سے عورت یا گدھا یا کتّا گزر جائے ، تو مرد کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، حضرت عائشہؓ کو یہ سن کر غصہ آیا اور فرمایا کہ تم نے ہم عورتوں کو گدھے اور کتّے کے برابر کر دیا، میں آنحضرتﷺ کے سامنے پاؤں پھیلائے سوتی رہتی (حجرہ میں جگہ نہ تھی) آنحضرتﷺ نماز میں مصروف ہوتے، جب آپؐ سجدے میں جاتے ہاتھ سے ٹھوکر دیتے میں پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ کھڑے ہوتے تو پھر پاؤں پھیلا دیتی، کبھی ضرورت ہوتی ، تو بدن چرا کر سامنے سے نکل جاتی۔

حضرت ابو درداءؓ نے ایک دن وعظ میں یہ مسئلہ بیان کیا کہ اگر صبح ہو جائے اور وتر قضا ہو گئی ہو تو پھر وتر نہ پڑھے۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا، ابو درداءؓ نے صحیح نہیں کہا صبح ہو جاتی تب بھی آنحضرتﷺ وتر پڑھ لیتے تھے۔

بعض لوگوں نے بیان کیا کہ آنحضرتﷺ کو یمنی چادر میں کفنایا گیا ، حضرت عائشہؓ نے سنا تو کہا اتنا صحیح ہے کہ لوگ اس غرض سے چادر لائے تھے، لیکن آپؐ کو اس میں کفنایا نہیں گیا۔

حضرت ابو ہریرہؓ نے ایک دن وعظ میں بیان کیا کہ اگر روزے کے دنوں میں کسی کو صبح کو نہانے کی ضرورت پیش آئے تو اس دن وہ روزہ نہ رکھے ۔ لوگوں نے جا کر حضرت عائشہ (اور حضرت ام سلمہؓ ) سے اس کی تصدیق چاہی ، فرمایا کہ آنحضرتﷺ کا طرز عمل اس کے خلاف تھا، لوگوں نے حضرت ابو ہریرہؓ کو جا کر ٹوکا، آخر ان کو اپنے پہلے فتوے سے رجوع کرنا پڑا۔

قوّت حفظ

حفظ کی قوت قدرت کا ایک گراں مایہ عطیہ ہے ، حضرت عائشہؓ اس عطیہ سے بدرجۂ اتم سرفراز تھیں ، گزر چکا ہے کہ لڑکپن میں کھیلتے کھلتے بھی اگر کوئی آیت ان کے کانوں میں پڑ گئی، تو یاد رہ گئی، احادیث کا دار و مدار زیادہ تر اسی قوت پر ہے ، عہد نبوت کے روز مرہ کے واقعات کو یاد رکھنا اور ان کو ہر وقت ٹھیک ٹھیک بیان کرنا آنحضرتﷺ کے ارشادات کو انہیں الفاظ میں بیان کرنا ایک محدث کا سب سے بڑا فرض ہے، ام المومنین نے اپنے معاصرین پر جو نکتہ چینیاں کی ہیں ، ان میں قوتِ حفظ کے فرقِ مراتب کو بھی دخل ہے۔

 

 

فقہ و قیاس

علمی حیثیت سے کتاب و سنت در حقیقت بمنزلۂ دلائل کے ہیں ، اور فقہ اُن دلائل کے نتائج نکالنے کا نام ہے، قرآن اور حدیث کی سرخیوں کے تحت میں جو واقعات لکھے گئے ہیں اور فتاویٰ و ارشادات کے تحت میں جو واقعات آئیں گے ، ان سے روشن ہو گا کہ علم فقہ میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کیا پایہ تھا اور اُن کے فقہ اور قیاس کے کیا اصول تھے۔

 

قرآن مجید

حضرت عائشہؓ کے استنباط کا اصول یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے قرآن مجید پر نظر کرتی تھیں ، اگر اس میں نا کامی ہوتی تو احادیث کی طرف رجوع کرتیں ، پھر قیاس عقلی کا درجہ ، علم حدیث میں گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے متعہ کی نسبت انکی رائے پوچھی تو انہوں نے حسبِ ذیل آیت اس کی حرمت کی سند میں پیش کی۔

وَالَّذِینَ ھُم لِفُرُوجِھِم حٰفِظُونَ اِلَّا عَلٰی اَزواجِھِم اَو مَا مَلَکَت اَیمَانُھُم فَاِنَّھُم غَیرَ مَلُومیِن (مومنون۔۱)

’’اور جو لوگ اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہیں ، لیکن اپنی بیویوں کے ساتھ یا اپنی باندیوں کے ساتھ ، ان پر کوئی ملامت نہیں ۔‘‘

ممتوعہ نہ بیوی ہے، نہ باندی ہے، اس لئے متعہ جائز نہیں ۔

قرآن مجید میں ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو تین ’’قروئ‘‘ تک انتظار کرنا چاہئے یعنی عدّت کا زمانہ تین قروء ہے، قروء کے معنی میں اختلاف ہے، حضرت عائشہؓ کی بھتیجی کو ان کے شوہر نے طلاق دی، تین طہر گزر کر جب نیا مہینہ آیا، تو انہوں نے شوہر کے گھر سے اُن کو بلوا لیا، اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے اور ثلاثۃ قروء کی آیت سے استدلال کیا، ام المومنین نے کہا، ثلاثۃ قروء صحیح ہے ، لیکن جانتے ہو کہ قروء کیا ہے، قروء سے مراد طہر ہے، امام مالکؒ اپنے شیوخ سے نقل کرتے ہیں ، کہ مدینہ منورہ کے تمام فقہاء نے حضرت عائشہؓ کی پیروی کی ہے۔

 

حدیث

قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ ہے، مسئلہ یہ پیش ہوا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق لے لینے کا اختیار عطا کر دے اور بیوی اس اختیار کو واپس کر کے اپنے شوہر ہی کو قبول کر لے تو کیا بیوی پر کوئی طلاق پڑے گی، حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے نزدیک ایک طلاق واقع ہو جائے گی، حضرت عائشہؓ کے نزدیک اس صورت میں ایک بھی طلاق واقع نہ ہو گی،اس ثبوت میں انہوں نے تخییر کا واقعہ پیش کیا کہ آنحضرتﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا کہ خواہ دنیا قبول کریں یا کاشانۂ نبوت میں رہ کر فقر و فاقہ پسند کریں ، سب نے دوسری صورت پسند کی، کیا اس سے ازواج مطہرات پر ایک طلاق واقع ہو گئی؟

 

قیاس عقلی

اس کے بعد قیاس عقلی کا درجہ ہے، قیاس عقلی کے یہ معنی نہیں کہ ہر کس و ناکس صرف اپنی عقل سے شریعت کے احکام کا فیصلہ کر دے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علماء جو شریعت کے راز داں اور علوم دینی کے ماہر ہیں ، کتاب و سنت کی ممارست سے ان میں یہ ملکہ پیدا ہو جاتا ہے، کہ ان کے سامنے جب کوئی نیا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ، تو وہ اس ملکہ کی بناء پر سمجھ لیتے ہیں کہ اگر شارع علیہ السلام زندہ ہوتے ، تو اس کا یہ جواب دیتے ، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی لائق وکیل کے سامنے کسی خاص عدالت کے نظائر اس کثرت سے گزریں کہ گذشتہ نظائر پر قیاس کر کے کسی خاص مقدمہ کی نسبت یہ رائے دیدے کہ اگر اس عدالت کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہو گا تو یہ فیصلہ ہو گا، شریعت کے نظائر اور فیصلوں سے حضرت عائشہؓ جس قدر آگاہ تھیں ، آپ کو معلوم ہے، اس لئے ان کے قیاسِ عقلی کی غلطی کی بہت کم امید ہو سکتی ہے۔

آنحضرتﷺ کے زمانے میں عموماً عورتیں مسجدوں میں آتی تھیں اور جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، مردوں کے بعد بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی صفیں ہوتی تھیں ، آپؐ نے عام حکم دیا تھا کہ لوگ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں ۔ارشاد تھا۔

لاتمنعوا اماء اللہ من مساجد اللہ۔ ’’خدا کی لونڈیوں کو خدا کی مسجدوں سے نہ روکا کرو۔‘‘

عہد نبوت کے بعد مختلف قوموں کے میل جول، تمدن کی وسعت ، اور دولت کی فراوانی کے سبب سے عورتوں میں زیب و زینت اور رنگینی آ چلی تھی، یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نے فرمایا اگر آنحضرتﷺ زندہ ہوتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے رو ک دیتے:

عمرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا عورتوں نے جو نئی باتیں پیدا کی ہیں اگر آنحضرتﷺ اس زمانہ میں ہوتے اور دیکھتے تو جس طرح یہود کی عورتیں مسجدوں میں آنے سے روکی گئی ہیں یہ بھی روک دی جاتیں ۔

حضرت ابو ہریرہؓ کا فتوی تھا کہ جو مردہ کو غسل دے ۔ اس کو غسل کرنا چاہئے اور کوئی جنازہ اٹھائے تو دوبارہ وضو کرے ، حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا:’’کیا مسلمان مردہ بھی ناپاک ہوتا ہے اور اگر کوئی لکڑی اٹھائے تو اس کو کیا ہوتا ہے۔‘‘

معاصرین سے اختلاف

حضرت عائشہؓ نے بہت احکام فقہی میں اپنے معاصرین سے اختلاف کیا ہے اور حق ان ہی کی جانب رہا اور فقہائے حجاز کا زیادہ تر ان ہی پر عمل ہے۔

 

 

 

 علمِ کلام و عقائد

 

اسلام ایک سادہ دین تھا۔ اس کے عقائد بھی سیدھے سادے تھے۔ لیکن غیر مذہب والوں کے میل جول اور عقلی بحث و مباحثوں کے سبب سے صحابہ کے اخیر زمانہ میں نئی نئی بحثیں پیدا ہونی شروع ہو گئی تھیں ،آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہر مسئلہ کا قطعی فیصلہ صرف آپؐ کا ارشاد تھا، جس کو جو شک پیدا ہوا اس نے جا کر تسلی کر لی، اس عہد مبارک کے بعد ایسے موقعوں پر مسلمانوں نے صحابہ کرامؓ کی طرف رجوع کیا ان کو اگر اس باب میں کوئی صریح آیت یا حدیث معلوم ہوتی تو پیش کر دی ورنہ کتاب و سنت کے زیر سایہ ان کے جوابات دیئے اس سلسلہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے جو روایات ثابت ہیں ان میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

 

رویت باری تعالیٰ

اللہ تعالی کا دیدار اس دنیا میں نہیں ہو سکتا ، لیکن آخرت میں اس کا دیدار اس طرح ہو گا ، جس طرح چودہویں کا چاند سب کو ایک ساتھ نظر آتا ہے، مگر حضرت عائشہؓ سے نہایت مصرح روایتیں مروی ہیں ، انہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ’’جو شخص تم سے یہ کہے کہ محمدﷺ نے اپنے خدا کو دیکھا وہ جھوٹ بولا، ‘‘ اس دعوے پر انہوں نے قرآن مجید کی دو آیتوں سے استدلال کیا ہے۔

لا تُدْرِکُہ الابصارُ وَھُو یدرِکُ الابصارَ و ھو اللطیفُ الخبیرُ (الانعام۔۱۳)

’’اس کو (خدا کو) نگاہیں نہیں پا سکتی اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ لطیف اور خبیر ہے۔‘‘

یعنی چونکہ وہ لطیف ہے، اس لئے نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں ، اور چونکہ وہ خبر دار اور آگاہ ہے، اس لئے وہ سب کی نگاہوں کو پا لیتا ہے، دوسری آیت ہے۔

وَمَا کَانَ لِبَشَر اَن یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلّا وَحْیا اَو مِن وَرَاء حِجَاب (شوریٰ ۔۵)

’’اور کسی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اس سے (خدا سے) باتیں کر سکے، مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے اوٹ سے۔‘‘

 

 

علم غیب

غیب کی باتیں خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، عالم الغیب ہونا صرف اللہ تعالی کی شان ہے، عالم الغیب و الشہادۃ وہی غیب اور شہادت کا جاننے والا ہے۔

دوسری آیت میں ہے:لَا یَعلَمُ مَن فِی السَّمَوٰتِ وَالارضِ الغیبِ اِلَّا اللہُ (نمل۔۵)

’’جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں غیب کی باتوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔‘‘

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر کے خصائص میں غیب کی ساری باتوں کا جاننا بھی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے اس سے سختی کے ساتھ انکار فرمایا ، فرماتی تھیں کہ ’’جو تم سے یہ بیان کرے کہ آنحضرتﷺ غیب کی باتیں جانتے تھے، وہ جھوٹا ہے ‘‘ استدلال قرآن مجید کی اس آیت سے کرتی تھیں ۔

وَمَاتَدْرِی نَفسُ مَّا ذا تَکسِبُ غَدا ۔’’اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔‘‘

جب کوئی نہیں جانتا تو رسولﷺ کو بھی اس کی خبر نہیں ہو گی، اس سے غیب کے کلّی علم کی نفی ہوتی ہے۔

اس ارشاد سے آنحضرتﷺ کی ذاتِ پاک سے علم غیب کلی کے دعوی کی نفی ہوتی ہے، ہاں البتہ اللہ تعالی غیب کے بعض امور سے اپنے انبیاء علیہم السلام کو اپنی مصلحت و حکمت کے مطابق مطلع فرماتا رہتا ہے۔

 

پیغمبر اور اخفائے وحی

پیغمبر کی نسبت یہ سوء ظن نہیں ہو سکتا کہ اس کو جو کچھ وحی ہوتی ہے اس میں سے وہ کچھ چھپا لیتا ہے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو تم سے یہ بیان کرے کہ محمدﷺ نے خدا کے احکام میں سے کچھ چھپا لیا اور مخلوق پر ظاہر نہیں کیا، تو اس کر سچ نہ جانو، خدا فرماتا ہے۔

یَا ایّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ وَاِن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَرِسَالَتَہ (مائدہ۔۱۰)

’’اے پیغمبرؓ! خدا کی طرف سے تجھ پر جو کچھ اترا ، وہ لوگو ں کو پہونچا دے، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔‘‘

 

 

الصحابۃ عدول

اہلِ سنت کا مسلک یہ ہے کہ صحابہؓ تمام تر عدول ثقہ اور مامون تھے، تا آنکہ کسی خاص شخص کی نسبت کوئی بات عدالت و ثقاہت کے خلاف ثابت نہ ہو، حضرت عثمان کے واقعہ کے بعد حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی خانہ جنگیوں میں اہلِ مصر و عراق اور اہلِ شام ایک دوسرے کے حامی اور طرف دار صحابہؓ کو لعن طعن کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے اس کو حکمِ الٰہی کے خلاف سمجھا اور اس پر قرآن مجید سے استدلال کیا اور فرمایا:

یا ابن اختی امروا ان یستغفروا لا صحاب النبیﷺ فسبّوا

’’اے بھانجے! حکم دیا گیا تھا کہ رسول کے اصحاب کے لئے رحمت کی دعائیں کریں تو یہ لوگ گالی دیتے ہیں ۔‘‘

حضرت عائشہ نے یہ حکم قرآن مجید کی اس آیت سے مستنبط کیا، جو مہاجرین و انصار کی تعریف کے سلسلہ میں ہے۔

وَالَّذِینَ جَاؤا مِن بَعدِھِم یَقُولُونَ رَبَّنَا اِغْفِرلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالِایمَانِ وَلَا تَجْعَل فِی قُلُوبِنَا غِلّا لِلَّذِینَ آمَنوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَؤفٌ رَحِیمٌ (حشر ۔۱)

’’اور ان (صحابہ) کے بعد جو نسل آئے ، وہ کہے کہ خداوندا ہم کو معاف کر اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے ساتھ کینہ نہ پیدا کر ، اے ہمارے پروردگار تو مہربان اور رحیم ہے۔‘‘

 

عذابِ قبر

قرآن مجید میں قبر کے ساتھ لفظِ عذاب کا ذکر نہیں ، البتہ برزخ (یعنی موت کے بعد اور قیامت سے پہلے) میں عذاب کا ذکر ضرور ہے، لیکن اس سے قبر میں عذاب ہونے کی طرف بتصریح ذہن منتقل نہیں ہوتا۔

اسلام میں اس مسئلے کی تحقیق حضرت عائشہ ہی کی ذات سے ہوئی دو یہودی عورتیں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آئیں ۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا ’’خدا آپ کو عذابِ قبر سے بچائے‘‘ حضرت عائشہؓ کے لئے یہ بالکل نئی بات تھی، سن کر چونک پڑیں ، انکار کیا کہ قبر میں عذاب نہ ہو گا ، پھر تسکین نہ ہوئی۔ آنحضرتﷺ تشریف لائے تو دریافت کیا، فرمایا سچ ہے، پھر حضرت عائشہؓ نے آپؐ کی دعاؤں کو غور سے سنا تو دیکھا کہ عذابِ قبر سے بھی پناہ مانگتے تھے، پہلے ان کی گویا ادھر توجہ نہیں ہوئی تھی۔

 

سماع موتی

حضرت عائشہؓ سماع موتی کی منکر ہیں ۔ ان کا انکار صرف قیاس اور عقل پر مبنی نہیں ، بلکہ وہ اپنے اس دعوی پر آیات ذیل سے ثبوت پیش کرتی ہیں ۔

اِنَّکَ لا تُسمِعُ المَوتٰی (نحل ۔۶) ’’ اے پیغمبر تو مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتا۔‘‘

وَمِا انتَ بِمُسمِعِ مَن فِی القُبُورِ (فاطر۔۳) ’’ اور نہ ان کو سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ مردے موت کے بعد سماعت سے محروم ہیں ۔ الا یہ کہ بعض خاص حالات میں ان کو کوئی آواز سنا دی جائے۔

 

 

علم اسرار دین

 

اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ شریعت کے سارے احکام مصلحتوں پر مبنی ہیں لیکن ان مصلحتوں پر بندوں کا مطلع ہونا ضروری نہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنے لطف و کرم سے ان مصلحتوں کا بیان بھی فرما دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے احکام کے بہت سے مصالح خود بتائے ہیں اور آنحضرتﷺ نے جو احکام دئیے اس کی مصلحتیں کبھی خود ظاہر فرما دی ہیں اور کبھی کسی نے پوچھا ہے تو بتا دیا ہے۔ صحابہ میں جو لوگ شریعت کے راز داں تھے ، وہ بھی ان نکتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔

حضرت عائشہ صدّیقہؓ اسرار شریعت سے بھی بخوبی واقف تھیں بلکہ انہوں نے اس علم کو سب سے زیادہ عام کیا ہے۔چند مثالیں ذیل میں دی جاتی ہیں ۔

اوپر گزر چکا ہے کہ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں عورتیں بے تکلف مسجد نبوی میں آتی جاتی تھیں اور جماعت کی نماز میں مردوں اور بچوں کے پیچھے ان کی صف ہوتی تھی آنحضرتﷺ کا بھی تاکیدی حکم تھا کہ ان کو آنے سے روکا نہ جائے، لیکن عہد نبوت کے انقضاء کے بعد مال و دولت کی فراوانی اور غیر قوموں کے اختلاط نے ان کی سادگی، بے تکلفی اور پاکیزہ نفسی کو باقی نہ رکھا، حضرت عائشہؓ نے جب یہ حالت دیکھی تو فرمایا ’’اگر آج آنحضرتﷺ زندہ ہوتے اور عورتوں نے اب جو جدّتیں پیدا کر لیں ہیں ، ان کو وہ دیکھتے تو ان کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے۔‘‘ یہ ایک جزئی واقعہ ہے، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک شریعت کے احکام مصالح اور اسباب پر مبنی ہیں اور ان کے بدلنے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں ۔

ایک دفعہ ایک صاحب حضرت عائشہؓ سے ملنے آئے اور اندر آنے کی اجازت چاہی حضرت عائشہؓ نے ان کی بھاوج کا دودھ پیا تھا۔ انہوں نے اجازت نہ دی، آنحضرتﷺ جب تشریف لائے تو واقعہ عرض کیا۔فرمایا تم کو اجازت دے دینی تھی۔ عرض کی اس کے بھائی نے مجھ کو دودھ نہیں پلایا، اس کے بھائی کی بیوی نے پلایا (یعنی بھاوج اور دیور میں کوئی نسبی تعلق نہیں ہے جو حرمت ثابت ہو ) آپؐ نے فرمایا نہیں ، وہ تمہارا چچا ہوا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ احکام کے اندر مصالح عقلی کو بھی تلاش کرتی تھیں ۔

اب ہم ذیل میں ان مسائل کو لکھتے ہیں جن کے اسرار و حقائق احادیث میں حضرت عائشہؓ نے ظاہر کئے ہیں ۔ گو ہم نے اس کے لئے حدیث کی تمام کتابوں کا استقصاء کر لیا ہے، تاہم ممکن ہے کہ بہت سی باتیں رہ گئی ہوں ۔ والکمال للّٰہ وحدہ۔

 

قرآن مجید کی ترتیب نزول

مقام نزول کے لحاظ سے قرآن مجید کے دو حصّے ہیں ، مکی اور مدنی یعنی ایک قرآن کا وہ حصّہ جو مکہ میں نازل ہوا اور دوسرا جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوا یہ دونوں ٹکڑے معنوی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں گو عام لوگوں کو اس کا مطلق احساس نہیں ہوتا لیکن جو لوگ عربی زبان پر عبور کامل رکھتے ہیں اور اس کے رموز سے واقف ہیں ، وہ صرف سورہ کے الفاظ کو سن کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ مکی سورہ ہے یا مدنی۔

ان دونوں میں جلی امتیازات حسب ذیل ہیں :

مکی سورتیں

زیادہ تر پر جوش اور جذبات سے بھری ہوئی ہیں ،

الفاظ پر عظمت اور شاندار ہوتے ہیں ۔

زیادہ تر نصائح ، مواعظ، توحید ،ذکر ، قیامت اور آیات حشر و نشر پر مشتمل ہیں ۔

ان میں اکثر قافیوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور عموماً قافیے بھی چھوٹے ہیں ان میں یہود و نصاری سے مناظرہ نہیں سیدھی باتیں ہیں ۔ان میں اعمال و عبادات کا مطالبہ کمتر ہے زیادہ تر عقائد کی بحث ہے ۔جہاد کا ذکر نہیں ، بلکہ صرف دعوت و تبلیغ اور نرمی کلام کا ہے۔

مدنی صورتیں

مدنی صورتیں ۔ٹھوس اور عمیق ہیں ۔ قانونی الفاظ ہوتے ہیں ۔احکام اور قوانین پر مشتمل ہیں ۔قافیوں کا لحاظ کم ہے اور اگر کہیں ہے تو بڑے بڑے قافیے۔یہود و نصاریٰ سے بکثرت مناظرے ہیں ۔ان میں اعمال و عبادات کا مطالعہ ہے۔ دعوت و تبلیغ کے ساتھ جہاد کا حکم ہوتا ہے۔

حضرت عائشہؓ نے ، مکی اور مدنی سورتوں میں جو لطیف فرق ہیں انکو اس طرح واضح کیا ہے :

’’قرآن کی سب سے پہلے جو سورہ نازل ہوئی وہ مفصل کی سورہ ہے، جس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو پھر حلال و حرام اترا، اگر پہلے ہی یہ اترتا کہ شراب مت پیو، لوگ کہتے ہم ہر گز شراب نہیں چھوڑیں گے اور اگر یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے ہم ہر گز زنا نہ چھوڑیں گے ، مکہ میں جب میں کھیلتی تھی تو یہ اترا، ان کے وعدہ کا وقت قیامت ہے اور قیامت نہایت سخت اور نہایت تلخ چیز ہے، سورہ بقرہ اور سورہ نساء جب اتری تو میں آپؐ کی خدمت میں تھی۔‘‘

مقصود یہ ہے کہ اسلام نے اپنا اصول یہ رکھا ہے کہ آہستہ اور رفتہ رفتہ وہ اپنی تعلیم کا دائرہ وسیع کرتا رہا، اسلام جاہل قوم میں آیا ، پہلے خطیبانہ اور موثر طریقۂ ادا سے ان کو جنت اور دوزخ کا ذکر سنایا گیا، جب لوگ اس سے متاثر ہوئے تو اسلام کے احکام و قوانین اور اوامر و نواہی نازل ہوئے، زنا اور شراب خواری وغیرہ عاداتِ بد کے ترک کا اگر پہلے ہی دن مطالبہ کیا جاتا تو اس آواز کو کون سنتا ہے کہ ایک موعظت و نصیحت کی کتاب کی اور قانون تعزیرات کی زبان ایک ہو سکتی ہے، سورۂ بقرہ اور نساء جن کی نسبت حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہ مدینہ میں نازل ہوئیں ، چونکہ مدینہ میں یہود و نصاریٰ تھے ، اس لئے ان میں ان سے مناظرات ہیں اور چونکہ اسلام کی دعوت یہاں کا م کر چکی تھی، اس لئے ان میں احکام نازل ہوئے اور احکام و قانون کی زبان کی بناء پر ان میں قافیے کم ہیں اور سورۂ قمر کے نزول کو مکہ میں بتاتی ہیں ، اس میں قیامت کا ذکر ہے کہ آغازِ اسلام تھا، مشرکین کی تردید ہے کہ وہاں انہی سے سابقہ تھا، چھوٹے چھوٹے قافیے ہیں کہ ان سے عبارت میں رقت اور تاثیر پیدا کرنا مقصود تھا، الغرض مکی اور مدنی سورتوں میں فرق حالات کے اختلاف کی بناء پر ہے اور حالات کے اختلاف سے زبان تعبیر اور طرز ادا میں فرق ہے۔

 

جمعہ کے دن نہانا

جمعہ کے دن غسل کرنا واجب ہے، اس وجوب کا سبب حضرت عائشہ سے سننا چاہیئے ۔

’’لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادی سے جمعہ کی نماز میں آ کر شریک ہوتے تھے، گرد و غبار میں اٹے ہوتے تھے۔ پسینہ چلتا تھا، ان میں سے ایک آدمی آپ کے پاس آیا، آپ میرے یہاں تشریف فرما تھے، آپؐ نے فرمایا اس دن کیلئے تم نہا لیتے۔‘‘(بخاری)

 

سفر میں دو رکعت نماز

وہ نمازیں جو چار رکعت ہیں ، قصر کی حالت میں صرف دو رکعتیں ادا کی جاتی ہیں ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ چار میں سے دو سہولت کی خاطر ساقط کر دی گئی ہیں لیکن اصل واقعہ سنو فرماتی ہیں ۔

فرضت الصلوۃ رکعتین ثم ھاجر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ففرضت اربعاً و ترکت صلوۃ السفر علی الاولی۔ (بخاری باب ہجرت)

’’مکہ میں دو رکعتیں فرض تھیں جب آپؐ نے ہجرت فرمائی تو چار فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اصلی حالت پر چھوڑ دی گئی۔‘‘

 

نماز صبح اور نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت

احادیث میں حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ عصر کی اور صبح کی نماز پڑھ لینے کے بعد پھر کوئی نماز یعنی نفل و سنت بھی جائز نہیں ، بظاہر اس ممانعت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ، عبادت کا تو خدا نے ہر وقت حکم دیا ہے یہ حیرت و استعجاب حضرت عائشہؓ دور فرماتی ہیں ۔

’’آفتاب پرستی کا شبہ نہ ہو یا آفتاب پرستوں کے ساتھ وقتِ عبادت میں تشابہ کا گمان نہ ہو‘‘ (مسند احمد )

اسی قسم کی روایتیں اور صحابہ سے بھی بخاری میں مروی ہیں ۔

 

بیٹھ کر نماز پڑھنا

آنحضرتﷺ کی نسبت ثابت ہے کہ آپؐ نوافل بیٹھ کر بھی ادا فرماتے تھے، اسی لئے بعض لوگ کسی عذر کے بغیر بھی بیٹھ کر نفل پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں ، حالانکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے۔ ایک شخص نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ آپؐ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے، جواب دی: حین حطمہ الناس۔

جب لوگوں نے آپ کو توڑ دیا (یعنی آپؐ کمزور ہو گئے)

دوسری روایت میں ہے:

’’میں نے کبھی آپؐ کو تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا ، لیکن ہاں جب آپؐ کی عمر زیادہ ہو گئی۔‘‘

یہ دونوں روایتیں ابو داؤد ، باب الصلوٰۃ القاعد میں ہیں ۔مسلم میں بھی (باب صلوۃ الیل) میں اسی قسم کی روایتیں ہیں ۔ ایک روایت ہے:

’’جب آپ کا بدن بھاری ہو گیا تو آپؐ اکثر نفل بیٹھ کر پڑھنے لگے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ نے بحالت عذر نصف ثواب پر قناعت فرمائی ہے۔ اب جن کی نظر ثواب کی قلت و کثرت پر ہے وہ تو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کو اچھا سمجھتے ہیں ، لیکن جو محبت کے آشنا ہیں وہ ثواب کی کثرت پر محبوب کی اتباع کو اہمیت دیتے ہیں ، اس لئے گو ان کو نفلوں کے بیٹھ کر پڑھنے کا ثواب کم ملے گا مگر ان کی تلافی اتباعِ محبت کے ثواب سے انشاء اللہ تعالی پوری ہو جائیگی۔

 

 

مغرب میں تین رکعتیں کیوں ہیں

ہجرت کے بعد نمازوں میں جب دو رکعتوں کے بجائے چار رکعتیں ہو گئیں تو مغرب میں تین رکعتیں کیوں رہیں ۔حضرت عائشہؓ اس کا جواب دیتی ہیں :الا المغرب فانھا وترا النھار (مسند جلد ) ’’مغرب کی رکعتوں میں اضافہ نہ ہوا کیوں کہ وہ دن کی نمازِ وتر ہے۔‘‘

جس طرح رات کی نمازوں میں تین رکعتیں وتر کی ہیں ۔ اسی طرح یہ دن کی نمازوں میں وتر کی تین رکعتیں ہی۔

 

صبح کی نماز دو ہی رکعت کیوں ہے؟

صبح کی نماز میں تو اطمینان زیادہ ہوتا ہے اس میں اور رکعتیں ہونی چاہئیں ۔ فرماتی ہیں :

صلوۃ الفجر لطولِ قرأتہا (مسند جلد ۶ص ۔۲۴۱)

نماز فجر میں بھی رکعتوں کا اضافہ نہ ہوا، کیونکہ صبح کی دونوں رکعتیں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں ۔

صبح کی نماز میں مخصوص طور سے شریعت نے خشوع و خضوع کا لحاظ زیادہ رکھا ہے، بار بار کے اٹھنے بیٹھنے سے اس میں فرق آتا ہے، اس لئے کمیت کی بجائے اس میں کیفیت کا اضافہ کر دیا گیا، یعنی رکعتوں کی تعداد دو ہی رہی لیکن قرات لمبی کر دی گئی۔

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے بھی اسی قسم کی روایت احادیث میں مذکور ہے، لیکن یہ وہ بیان نہیں کرتے کہ جاہلیت میں یوم عاشورہ کو کیوں روزہ رکھا جاتا تھا۔ اس کا سبب حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں :

کانوا یصومون یوم عاشوراء قبل ان یفرض رمضان وکان یوم تستر فیہ الکعبۃ

’’رمضان کی فرضیت سے پہلے قریش عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے، اس روز کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔‘‘

 

پورے رمضان میں آپؐ نے تراویح کیوں نہ پڑھی

آپ رات کو جو نمازیں پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کوئی اُن سے تحقیقی طور سے واقف نہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ آپؐ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی تیرہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان میں آپؐ نے ایک دن مسجد میں تراویح کی نماز پڑھی، تیسرے دن بھی لوگ جمع ہوئے، چوتھے دن اتنا مجمع ہوا کہ مسجد میں جگہ نہ رہی، لیکن آپؐ باہر تشریف نہ لائے، لوگ انتظار کر کے مایوس ہو کر چلے گئے۔ صبح کو آپ نے لوگوں سے فرمایا:

’’آج شب کو تمہاری حالت مجھ سے پوشیدہ نہ تھی، لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر تراویح فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا سے قاصر رہو۔‘‘

لیکن آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب کہ فرضیت کا گمان جاتا رہا تو صحابہ نے پا بندی کے ساتھ اس کو ادا فرمایا ۔ اب جن کی نظر اصل حدیث پر ہے وہ اس کو مستحب ہی سمجھتے ہیں ، لیکن جنہوں نے صحابہ کی پیروی کی، انہوں نے اس کو سنت مؤکدہ قرار دیا۔

 

حج کی حقیقت

ناواقف اعتراض کرتے ہیں کہ حج کے تمام ارکان مثلاًَ طواف کرنا، بعض مقامات میں دوڑنا ، کہیں کھڑا ہونا، حج میں کہیں ٹھہرنا، کہیں کنکری پھینکنا ،یہ بے سود عمل ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ۔

انما جعل الطواف بالبیت وبالصفا والمروۃ ورمیٰ الجمار لاقامۃ ذکر اللہ عز وجل۔(مسنداحمدجلد ۶،ص۔۶۴)

خانۂ کعبہ ، صفا اور مروہ کا طواف ، کنکریاں پھینکنا تو صرف خدا کی یاد قائم کرنے کے لئے ہے۔

یعنی اصل مقصود یہ اعمال نہیں ہیں ، بلکہ یاد الٰہی کے مقامات ہیں ۔ اور قرآن سے اشارہ پایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں یہ بھی ایک طرز عبادت تھا۔ حج جو یادگارِ ابراہیمی ہے، اس میں وہی پہلا طرزِ عبادت باقی رکھا گیا، جس کو ہر مستطیع مسلمان کو عمر بھر میں ایک دفعہ ادا کرنا ضروری ہے۔

 

آپؐ کا حجرہ میں دفن ہونا

آنحضرتﷺ کا جب وصال ہوا تو صحابہ میں اختلاف ہوا کہ آپؐ کو کہاں دفن کیا جائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ پیغمبر جہاں وصال فرماتے ہیں وہیں دفن ہوتے ہیں ، اس لئے آپؐ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں جہاں آپؐ نے وفات پائی تھی دفن کیا گیا، ممکن ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ کہا ہو، تاہم یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے اور ثبوت کا محتاج ہے، اس کا اصلی سبب حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں ۔

’’آپ نے مرض الموت میں فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجو کیونکہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا (حضرت عائشہؓ کہتی ہیں ) اگر یہ نہ ہوتا تو آپؐ کی قبر کھلے میدان میں ہوتی، لیکن چونکہ اس کا خوف تھا کہ وہ بھی سجدہ گاہ نہ بن جائے(اس لئے آپؐ حجرہ کے اندر دفن ہوئے)‘‘۔

اسی سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے قبر شریف کو دیواروں اور چھت کے ذریعہ محفوظ رکھا جانا اب بھی کیوں ضروری ہے۔

 

 

طب، تاریخ، ادب، خطابت و شاعری

 

حضرت عائشہؓ کے شاگردوں کا بیان ہے کہ تاریخ، ادب، خطابت اور شاعری میں ان کو اچھی دستگاہ حاصل تھی اور طب میں بھی ان کو کسی قدر دخل تھا۔ ہشام بن عروہ کی روایت ہے:

’’میں نے قرآن ، فرائض ،حلال و حرام (یعنی فقہ) شاعری ، عرب کی تاریخ و نسبت کا حضرت عائشہؓ سے زیادہ واقف کار کسی کو نہ پایا۔

 

طب

ہشام بن عروہ کہتے ہیں ’’ میں نے حضرت عائشہؓ سے زیادہ کسی کو طب کا ماہر نہیں پایا۔‘‘ یہ ظاہر ہے کہ عرب میں فنِ طب کا باقاعدہ رواج نہ تھا۔ عرب کا سب سے بڑا طبیب اس زمانہ میں حارث بن کلدہ تھا اور ملک میں چھوٹے چھوٹے طبیب و معالج تھے، ان کا فن طب وہی تھا جو جاہل قوموں میں رائج ہوتا ہے، کچھ جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم ہوں گے کچھ بیماریوں کی مجرب دوائیں معلوم ہو گئیں ۔ حضرت عائشہؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ شعر کہتی ہیں تو میں نے مانا کہ آپ ابو بکرؓ کی بیٹی ہیں ، کہہ سکتی ہیں ، لیکن آپ کو طب سے یہ واقفیت کیونکر ہوئی۔ فرمایا:

’’ آنحضرتﷺ آخر عمر میں بیمار رہا کرتے تھے، اطبائے عرب آیا کرتے تھے، جو وہ بتاتے تھے میں یاد کر لیتی تھی۔‘‘

ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی طبی واقفیت ویسی ہی ہو گی جیسے پہلے خاندان کی بڑی بوڑھیاں بچوں کا علاج کرتی تھیں اور کچھ اور بیماری کے مجرب نسخے یاد رکھتی تھیں ۔ مسلمان عورتیں عموماً لڑائیوں میں آنحضرتﷺ کے ساتھ جاتی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔ خود حضرت عائشہؓ بھی جنگِ احد میں مصروفِ خدمت تھیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد مبارک میں خاتونِ اسلام کو حسبِ ضرورت اس فن سے واقفیت تھیں ۔

 

 

تاریخ

عرب کے حالات ، جاہلیت کے رسوم اور قبائل کے باہمی انساب کی واقفیت میں حضرت ابوبکرؓ کو مہارت تامّہ تھی۔ حضرت عائشہؓ ان کی بیٹی تھیں ، اسلئے ان فنون کی واقفیت ان کا خاندانی ورثہ تھی۔ عروہ کہتے ہیں :

ما رایت احداً من الناس اعلم……بحدیث العرب و لا النسب من عائشہؓ ۔ ’’میں نے حضرت عائشہؓ سے زیادہ کسی کو عرب کی تاریخ و نسب کا ماہر نہ پایا۔‘‘

عرب جاہلیت کے رسوم اور معاشرتی حالات کے متعلق بعض نہایت قیمتی معلومات حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہؓ ہی کی زبانی منقول ہیں ، مثلاً عرب میں شادی کے کتنے طریقے جاری تھے۔ طلاق کی کیا صورت ہوتی تھی۔ شادیوں میں کیا گایا جاتا تھا، ان کے روزہ کا دن کون تھا، قریش حج میں کہاں اترتے تھے، میّت کو دیکھ کر کیا کہا جاتا تھا۔

محدثین کی محفل میں انصار کی جنگ بعاث کا تذکرہ ہم نے حضرت عائشہؓ ہی کی زبانی سنا، انصار کے بعض مذہبی رسوم مثلاً یہ کہ وہ جاہلیت میں مشلل کے بت پوجتے تھے ، انہی سے ہم کو معلوم ہوئے۔ اسلام کے بعض اہم تاریخی واقعات مثلاً آپ کے آغازِ وحی اور ابتدائے نبوت کے مفصل کیفیت کو انہی کی زبان سے لوگوں نے سنا۔ صحاح میں احادیث دو تین سطروں سے زیادہ کی نہیں ہوتیں ، لیکن حضرت عائشہؓ کے یہ واقعات احادیث کے دو دو تین تین صفحوں میں مسلسل بیان ہوئے ہیں ۔ قرآن کیوں کر اور کس ترتیب سے نازل ہوا، نماز کی کیا کیا صورت اسلام میں پیدا ہوئی، انہی نے بتایا۔ آنحضرتﷺ کے مرض الموت کی شروع سے مفصل کیفیت صرف انہی کی زبان سے سن کر دنیا نے جانا، آپ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے اور کس قسم کے تھے، انہی نے بتائی۔ (صحاح ابواب الجنائز)

خیر یہ تو گھر کے اندر کی باتیں تھیں ۔ میدانِ جنگ کے حالات بھی انہوں نے ہم کو سُنائے ہیں ، غزوۂ بدر کے بعض واقعات ، جنگ احد کی کیفیت ، غزوہ خندق کے کچھ حالات غزوۂ بنی قریظہ کے بعض جزئیات ، حجۃ الوداع کے واقعات کے ضروری اجزاء انہی سے ہاتھ آئے، آنحضرتﷺ کی سیرت مبارک کے متعلق صحیح و مفصل معلومات انہی نے بہم پہنچائے، مثلاً قصّہ بدء وحی، واقعہ ہجرت ، واقعہ وصال کے علاوہ آپؐ کی عبادتِ شبانہ، آپؐ کے خانگی مشاغل، آپؐ کے ذاتی اخلاق کا صحیح نقشہ، انہی نے ہم کو کھینچ کر دکھایا، آنحضرتﷺ پر سب سے سخت دن کون سا گزرا انہی نے ہم کو بتایا۔ آپؐ کے بعد حضرت ابو بکرؓ کی خلافت ، حضرت فاطمہؓ اور ازواج مطہرات کا دعویٰ ،حضرت علیؓ کا ملالِ خاطر اور پھر بیعت کے تمام مفصل واقعات بروایاتِ صحیحہ انہی سے ہم کو معلوم ہوئے۔

 

ادب

ادب سے مراد عام گفتگو کی خوبی اور نثر کی انشاء پردازی ہے۔ بہت سی روایتیں اس باب میں متفق ہیں کہ حضرت عائشہؓ نہایت شیریں کلام اور فصیح اللسان تھیں ، ان کے ایک شاگرد موسیٰ بن طلحہ کی روایت ہے کہ:

ما رأیت افصح من عائشہؓ (مستدرک حاکم ترمذیِ مناقب) حضرت عائشہؓ سے زیادہ فصیح اللسان میں نے نہیں دیکھا۔

احنف بن قیس تابعی بصری لکھتے ہیں :

ماسمعت الکلام من فم مخلوق افخم ولا احسن منہ من فی عائشۃ رضی اللہ عنھا (مستدرک حاکم)

’’کسی مخلوق کے منھ کی بات حسنِ بیان اور متانت میں حضرت عائشہؓ کے منھ کی بات سے عمدہ اور بہترین نہیں سنی ۔‘‘

حضرت عائشہؓ اسی عہد میں پیدا ہوئی تھیں ۔ ان کے پدر بزرگوار عرب میں شعر وسخن کے جوہری تھے، اس لئے یہ فن آغوش پدر ہی میں انہوں نے سیکھا،ان کے شاگرد کہا کرتے تھے کہ ہم کو آپ کی شاعری پر تعجب نہیں ، اس لئے کہ آپ ابو بکر کی بیٹی ہیں ۔

احادیث کی کتابوں میں حضرت عائشہؓ کی زبانی بہت سے اشعار مروی ہیں ،ان کے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر کا وطن سے باہر انتقال ہوا تھا، لاش مکہ معظمہ لا کر دفن کی گئی، جب مکہ معظمہ آنے کا اتفاق ہوا، بھائی کی قبر پر آئیں ، اس وقت ایک جاہلی شاعر کے یہ شعر ان کی زبان پر تھے۔

وکنا کندما نی جذیمۃ حقبتہ

من الدہر حتی قیل لن یتصدعا

ہم مدت تک بادشاہ جذیمہ کے دونوں مصاحبوں کی طرح ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے، اب ہر گز علیحدہ نہ ہونگے۔

غزوۂ بدر قریش کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے تھے۔ شعرائے قریش نے ان کا پر درد مرثیہ لکھا تھا۔ حضرت عائشہؓ کی زبانی اس کے چند اشعار محفوظ رہ گئے ہیں جو صحیح بخاری (باب الہجرۃ) میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس سے انکے شعری ذوق کا پتہ چلتا ہے۔

وما ذا بالقلیب بدر

من القینات والشرب الکرام

بدر کے کنوئیں میں کیا کیا ناچنے والیاں اور شریف مے خوار پڑے ہیں ۔

حضرت عائشہؓ کے اس ذوقِ شاعری اور سخن فہمی کو دیکھ کر شعراء اپنا کلام ان کو سناتے تھے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت جو انصار میں شاعری کے استاد تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے اشعار سناتے تھے، حضرت عائشہ ان کی تعریف کرتی تھیں اور ان کے مناقب بیان کرتی تھیں ۔

شاعری کے سلسلے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں اور بعض برے ، اچھے لے لو اور برے چھوڑ دو۔

 

 

 

تعلیم، افتا و ارشاد

 

علم کی ایک خدمت یہ بھی ہے کہ اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے اور اس سے تزکیۂ نفوس اور اصلاح امت کا کام لیا جائے۔ آنحضرتﷺ کا حکم تھا کہ جو حاضر ہو وہ غائب تک پہنچائے ۔

علم کی اشاعت اور تعلیم جو مردوں کی مخصوص صفت سمجھی جاتی ہے اسے حضرت عائشہؓ نے بحسن و خوبی انجام دیا۔

آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کے بعد زبردست سیاسی شورشوں کے باوجود مدینہ میں حضرت عائشہؓ کی سب سے بڑی درسگاہ قائم تھی،لڑکے ، عورتیں اور جن مردوں کا حضرت عائشہؓ سے پردہ نہ تھا، وہ حجرہ کے اندر آ کر مجلس میں بیٹھتے تھے اور لوگ حجرہ کے سامنے مسجد نبوی میں بیٹھتے ، دروازہ پر پردہ پڑا رہتا ، پردہ کی اوٹ میں وہ خود بیٹھ جاتیں لوگ سوالات کرتے یہ جوابات دیتیں ، اپنے شاگردوں کی زبان ،طرز ادا اور صحتِ تلفظ کی بھی سخت نگرانی کرتی تھیں ۔

ان عارضی طالب علموں کے علاوہ جو کبھی کبھی حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے، وہ خاندانوں کے لڑکوں اور لڑکیوں کو اور شہر کے یتیم بچّوں کو اپنے آغوشِ تربیت میں لیتی تھیں اور ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں ، امام نخعی جو عراق کے متفق علیہ امام تھے، وہ لڑکپن میں حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، ان کے دوسرے معاصرین کو اس پر رشک تھا۔

معمول تھا کہ ہر سال حج کو جاتیں ، کوہ حرا کے پاس حضرت عائشہؓ کا خیمہ نصب ہوتا ، تشنگانِ علم جوق در جوق دور دراز ممالک سے آ کر حلقۂ درس میں شریک ہوتے، مسائل پیش کرتے تھے، اپنے شبہات کا ازالہ چاہتے، لوگ بعض مسائل کو پوچھتے ججھکتے تو ڈھارس بندھاتیں ، ایک صاحب ایک بات پوچھنا چاہتے تھے، لیکن شرماتے تھے، آپ نے فرمایا کہ جو تم اپنی ماں سے پوچھ سکتے تھے، مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو اور حقیقۃً وہ اپنے شاگردوں کو ماں ہی بن کر تعلیم دیتی تھیں ، انکے شاگردوں کی تعداد بہت ہے جن میں بڑے بڑے صحابہ کرامؓ اور تابعین بھی ہیں ۔

 

افتاء

افتا ء یعنی فتویٰ دینے میں حضرت عائشہؓ کا نام سرِ فہرست اور طبقۂ اول میں ہے،حضرت عائشہؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد ہی اپنے پدر بزرگوار کی زندگی ہی میں مرجعیتِ عام اور منصب افتاء حاصل کر لیا تھا اور آخر زمانہ تک بقیہ خلفائے راشدینؓ کے زمانوں میں بھی وہ ہمیشہ اس منصب پر ممتاز رہیں ۔ حضرت قاسم جو صحابہ کے بعد مدینہ کے سات ۷ مشہور تابعیوں میں شمار ہوتے تھے۔ فرماتے ہیں :

’’حضرت عائشہ، حضرت ابو بکرؓ کے عہد خلافت ہی میں مستقل طور سے افتاء کا منصب حاصل کر چکی تھیں ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور ان کے بعد آخری زندگی تک وہ برابر فتوے دیتی رہیں ۔

حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مخصوص صحابہ کبار کے علاوہ اور لوگوں کو افتاء کی اجازت نہ تھی، اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حضرت عائشہؓ کے علم اور واقفیت پر کس درجہ اعتماد تھا،ابن سعد میں ہے:

یسئلھا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

’’ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام آ کر مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔‘‘

ایک مجلس میں حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ابن عباس دونوں بزرگ تشریف فرما تھے، مسئلہ یہ پیش ہوا کہ اگر کوئی حاملہ عورت بیوہ ہو گئی اور چند روز کے بعد اس کو وضع حمل ہوا تو اس کی عدت کا زمانہ کس قدر ہو گا، قرآن مجید میں دونوں کے الگ احکام مذکور ہیں بیوگی کے لئے چار مہینہ دس دن اور حاملہ کیلئے تا زمانہ وضعِ حمل حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان دونوں میں جو سب سے زیادہ مدت ہو گی ، وہ زمانۂ عدّت ہو گا، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ وضعِ حمل تک عدّت کا زمانہ ہے، دونوں میں فیصلہ نہ ہوا تو لوگوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت امّ سلمیؓ کے پاس آدمی بھیجا، انہوں نے وضعِ حمل تک بتایا اور دلیل میں سبیعہ کا واقعہ پیش کیا، جن کی

کے تیسرے ہی دن ولادت ہوئی، اور اسی وقت ان کو دوسرے نکاح کی اجازت مل گئی ، یہ فیصلہ اس قدر مدلل تھا کہ اسی پر جمہور کا عمل ہے۔

ابو سلمہؓ ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے صاحبزادے تھے۔ ایک زمین کی نسبت چند لوگوں کو ان سے نزاع تھی، حضرت عائشہؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے ابو سلمہؓ کو بلا کر سمجھایا کہ اے ابو سلمہ! اس زمین سے باز آؤ ، آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ بالشت بھر زمین کے لئے بھی اگر کوئی ظلم کرے گا، تو ساتوں طبقے اس کے گلے میں ڈالے جائیں گے۔

مدینہ میں جب بچے پیدا ہوتے تو پہلے تبرکاً وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں لائے جاتے ، وہ ان کو دعائیں دیتیں ، ایک بچہ آیا، تو اس کے سر تلے ایک لوہے کا استرہ نظر آیا، پوچھا یہ کیا ہے، لوگوں نے کہا اس سے بھوت بھاگتے ہیں یہ حضرت عائشہؓ نے استرہ اٹھا کر پھینک دیا اور بولیں کہ حضور انورﷺ نے شگون سے منع کیا ہے، ایسا نہ کیا کرو۔

عجم کے فتح ہونے کے بعد عرب شراب کے جدید اقسام اور اس کے نئے ناموں سے آشنا ہو گئے ، جن میں سے ’’بادق‘‘ تھا، یعنی بادہ، عربی میں لغۃً خمر کا اطلاق شراب کی خاص قسموں پر ہوتا ہے، اس بناء پر لوگوں کو شبہ ہوا کہ ان نئی شرابوں کا کیا حکم ہے، حضرت عائشہؓ نے اپنی مجلس میں بالاعلان کہہ دیا کہ شراب کے برتنوں میں چھوہارے تک نہ بھگوئے جائیں ، پھر مخصوص عورتوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا،اگر تمہارے خمر کے پانی سے نشہ پیدا ہو تو وہ بھی حرام ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے ہر نشہ آور چیز کو منع فرمایا ہے۔

ایک دفعہ شام کی عورتیں زیارت کو آئیں ، وہاں حمام میں جا کر عورتیں برہنہ غسل کرتی تھیں ، فرمایا کہ تم ہی وہ عورتیں ہو جو حماموں میں جاتی ہو، آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’جو عورت اپنے گھر سے باہر اپنے کپڑے اتارتی ہے ، وہ اپنے میں اور خدا میں پردہ دری کرتی ہے۔‘‘

موسم حج میں حضرت عائشہؓ کو عورتیں چاروں طرف سے گھیر لیتیں وہ امامت کی صورت میں آگے آگے اور تمام عورتیں ان کے پیچھے چلتیں ، اسی درمیان میں ارشاد و ہدایت کے فرائض بھی انجام پاتے جاتے۔ ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا، جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے تھے، دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو ، اتار دو، آنحضرتﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔

عورتوں کو ایسا زیور پہننا جس سے آواز پیدا ہو ممنوع ہے، نیز گھنٹے وغیرہ کی آواز منع ہے، ایک دفعہ ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر حضرت عائشہؓ کے پاس آئی، فرمایا گھنگھرو پہنا کر میرے پاس نہ لایا کرو ، اس کے گھنگھرو کاٹ ڈالو، ایک عورت نے اس کا سبب دریافت کیا، بولیں کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں اور جس قافلہ میں گھنٹا بجتا ہو ، وہاں فرشتے نہیں آتے ۔

حفصہؓ بنت عبد الرحمن آپ کی بھتیجی تھیں وہ ایک دن باریک دوپٹہ اوڑھ کر پھوپھی کے پاس آئیں ، دیکھنے کے ساتھ ان کو دوپٹہ کو غصہ سے چاک کر ڈالا پھر فرمایا ’’تم نہیں جانتی کہ سورہ نور میں خدا نے کیا احکام نازل کئے ہیں ‘‘ اس کے بعد دوسرا گاڑھے کا دوپٹہ منگوا کر اڑھایا۔

ایک دفعہ ایک عورت نے آ کر عرض کی کہ میری ایک بیٹی دلھن بنی ہے، بیماری سے اس کے بال جھڑ گئے ہیں ، کیا بال جوڑ دوں ، فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے بال جوڑنے والیوں اور جڑوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔

ایک شخص نے آ کر پوچھا ، اے ام المومنین! بعض لوگ ایک شب میں قرآن دو دو تین تین بار پڑھ ڈالتے ہیں ، فرمایا کہ ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، آنحضرت تمام تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے ، لیکن سورہ بقرہ، آل عمران اور نساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے، یعنی اطمینان سے سمجھ سمجھ کر پڑھتے۔

 

 

 

 

جنس نسوانی پر حضرت عائشہؓ کے احسانات

 

عورت پر ان کا سب بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ ایک مسلمان عورت پردہ میں رہ کر بھی علمی ، مذہبی ، اجتماعی اور سیاسی اور پند و موعظت اور اصلاح و ارشاد اور امت کی بھلائی کے کام بجا لا سکتی ہے، غرض اسلام نے عورتوں کو جو رتبہ بخشا ہے اور ان کی گذشتہ گری ہوئی حالت کو جتنا اونچا کیا ہے ام المومنین کی زندگی کی تاریخ اس کی عملی تفسیر ہے، صحابہ میں اگر ایسے لوگ گزرے ہیں جو مسیح اسلام کے خطاب کے مستحق اور عہد محمدی کے ہارون بننے کے سزاوار تھے تو الحمد للہ کہ صحابیات میں بھی ایک ایسی ذات تھی جو مریم اسلام کی حیثیت رکھتی تھی۔

صحابیات اپنی عرضداشتیں حضور ﷺ تک ام المومنین کی وساطت سے پہنچاتی تھیں اور ان سے جہاں تک بن پڑتا تھا، ان کی حمایت کرتی تھیں ۔ حضرت عثمان بن مظعون ایک پارسا صحابی تھے اور راہبانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک دن ان کی بیوی حضرتِ عائشہؓ کے پاس آئیں ، دیکھا کہ وہ ہر قسم کی زنانہ زیب و آرائش سے خالی ہیں ، سبب دریافت کیا ، کیا کہہ سکتی تھیں ، پردہ پردہ میں بولیں میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھا کرتے ہیں ۔ آنحضرتﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ کیا، آپؐ حضرت عثمانؓ کے پاس گئے اور فرمایا کہ عثمانؓ ہم کو رہبانیت کا حکم نہیں ہوا ہے ۔کیا میرا طرزِ زندگی پیروی کے لائق نہیں ، میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور اس کے احکام کی سب سے زیادہ نگہداشت کرتا ہوں ، یعنی پھر بھی بیویوں کے فریضہ کو ادا کرتا ہوں ۔

عورتوں کو جو لوگ ذلیل سمجھتے تھے۔ ام المومنین ان پر سخت برہم ہوتی تھیں ، کسی مسئلہ سے اگر ان کی ذلت اور حقارت کا پہلو نکلتا تو وہ اس کو صاف کر دیتی تھیں ۔ بعض صحابیوں نے روایت کی ہے کہ عورت ، کتا اور گدھا اگر نمازی کے سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا ’’ تم نے کیسا برا کیا کہ ہم کو گدھے اور کتے کے برابر کر دیا۔ آنحضرتﷺ نماز پڑھا کرتے تھے اور میں آگے لیٹی رہتی تھی،‘‘ جب آپؐ سجدہ کرنا چاہتے ، میرے پاؤں دبا دیتے ، میں سمیٹ لیتی۔

حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان کیا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہے، گھوڑا ،گھر اور عورت یہ سن کر حضرت عائشہؓ کو بہت غصّہ آیا بولیں قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد پر قرآن اتارا ، آپؐ نے یہ ہر گز نہیں فرمایا یہ البتہ فرمایا ہے کہ اہل جاہلیت ان سے نحوست کی فال لیتے تھے۔

حضرت ابن عمرؓ کا فتویٰ تھا کہ عورتیں شرعی طہارت کے لئے جوڑے کھول کر نہایا کریں ۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو فرمایا کہ ’’ یہی فتوے کیوں نہیں دیتے کہ عورتیں اپنے جوڑے منڈوا ڈالیں ، میں آنحضرتﷺ کے ساتھ غسل کرتی تھی اور صرف تین دفعہ پانی ڈال لیتی تھی اور ا یک بال بھی نہیں کھولتی تھی‘‘۔

عرب میں اسلام سے پہلے وراثت میں عورت کا حق نہ تھا، اسلام نے آ کر ان کو بھی ان کا حق دلایا، وراثت کے اکثر مسائل تو قرآن مجید ہی میں مذکور ہیں اس میں لڑکیوں کے حصہ کی بھی تفصیل ہے، لیکن بعض ایسی نئی صورتیں بھی پیش آئیں ، جن کے حل کرنے کے لئے کتاب و سنت سے فکر و استنباط کی ضرورت پیش آتی ہے ، ان موقعوں پر حضرت عائشہؓ نے اپنی جنسی بہنوں کا حق فراموش نہیں کیا۔

اسلام میں نکاح کے جواز کیلئے لڑکیوں کے رضا مندی حاصل کرنی ضروری ہے، آپ نے فرمایا کہ کنواری عورتوں سے اجازت لی جائے اور بیوہ سے اس کا حکم طلب کیا جائے لیکن خدا نے عورتوں کو جو فطری حیا اور شرم عطا کی ہے، اس کی بنا پر زبان سے رضا مندی کا اظہار تقریباً محال ہے، ام المومنین اس مشکل سے آگاہ تھیں فرمایا کہ ’’ان کی خاموشی ان کی رضا مندی ہے۔

بعض اولیاء لڑکی کی رضا مندی کے بغیر صرف اپنے اختیار سے نکاح کر دیتے ہیں ۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا۔ عورتوں کی عدالت عالیہ حضرت عائشہؓ ہی کا حجرہ تھا ، لڑکی اسی آستانہ پر حاضر ہوئی ، آنحضرتﷺ تشریف فرما نہ تھے،حضرت عائشہؓ نے اس کو بٹھا لیا، جب آپؐ تشریف لائے تو صورت واقعہ عرض کی ،آپؐ نے لڑکی کے باپ کو بلایا اور لڑکی کو اپنا مختار آپ بنایا، یہ سن کر لڑکی نے عرض کی، یا رسول اللہ! میرے باپ نے جو کچھ کیا اب میں اس کو جائز ٹھہراتی ہوں ، میرا مقصد صرف یہ تھا کہ عورتوں کو اپنے حقوق معلوم ہو جائیں ۔

جاہلیت میں عورتوں کی نازک گردنیں جن رسوم کے بار سے ٹوٹ جاتیں تھیں ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اس زمانہ میں طلاق کی تعداد تعین نہ تھی، اس لئے ظالم مرد جتنی بار چاہتا طلاق دیتا اور پھر واپس رکھ لیتا، یعنی نہ تو بیوی بنا کے رکھتا اور نہ چھوڑتا۔

مسلمان عورتوں پر ام المومنینؓ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ان کو جاہلیت کی اس لعنت سے ہمیشہ کے لئے آزاد کرا دیا، زمانۂ اسلام میں اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا، مظلوم بیوی چارہ گری کے لئے امّ المومنین کے پاس دوڑی آئی، انہوں نے یہ مقدمہ آنحضرتﷺ کے سامنے پیش کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

’’وہ طلاق جس کے بعد رجعت جائز ہے دو بار ہے، اس کے بعد حسن اسلوب سے اس کو زوجیت میں رکھ لینا ہے یا بخیر و خوبی اس کو رخصت کر دینا‘‘۔(سورہ بقرۃ ۔۲۲۹)

 

 

 

 

عالمِ نسوانی میں حضرت عائشہ کا درجہ

 

آپ صدیقۂ کبریٰ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی سیرتِ پاک کا ایک ایک حرف پڑھ چکے ، ان کی مقدس زندگی کا ایک ایک واقعہ آپ کی نظر سے گزر چکا، آپ دنیا کی سیکڑوں بڑی بڑی خواتین کے حالات سے واقف ہوں گے ، تاریخ نے آپ کے سامنے دنیا کی مشہور خواتین کی زندگیوں کے بے شمار مرقعے پیش کئے ہوں گے، لیکن کبھی آپ نے ان کا باہم مقابلہ بھی کیا۔

دنیا کی غیر مسلم مشہور عورتوں کی فہرست میں جو نام داخل ہیں اس میں زیادہ تر ایسی عورتیں ہیں جن سے اپنی سطحِ جنسی سے ذرا بلند کوئی ایک اتفاقی کارنامہ ظہور میں آگیا ، وہی ان کی شہرت کا بال و پر بن گیا۔ ایک عورت نے کسی پر جوش مجمع میں کوئی تقریر کر دی ، کسی تدبیر سے دشمنوں کی سازش کو توڑ دیا یا اپنی قوتِ بازو سے کسی میدان کو مار لیا یہ فوری اسباب اس کی تاریخ بقا اور شہرت کا ذریعہ بن گئے، غور سے دیکھئے کیا اس کا مقابلہ حضرت عائشہ کے کارنامہ سے ہو سکتا ہے۔

بے شمار عورتوں کے لئے ایک کامل زندگی اور گراں بہا عملی نمونہ چھوڑا ہو اور جس نے اس عظیم الشان تعدادِ نسوانی کو اپنے مذہبی ، اجتماعی اور علمی احسانات سے گراں بار کیا ہو۔

مسلمان عورتوں کی تاریخ میں ازواجِ مطہراتؓ اور بنات طاہراتؓ کے سواء حضرت عائشہؓ کی زندگی کا کس سے مقابلہ ہو سکتا ہے؟ تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ اسلام میں حضرت خدیجۃ الکبریؓ ، حضرت فاطمہ زہراؓ، اور حضرت عائشہؓ صدیقہ عورتوں میں سب سے افضل ہیں ۔

اگر علمی کمالات ، دینی خدمات اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات و ارشادات کے نشر و اشاعت کی فضیلت کا پہلو سامنے ہو تو ان میں صدیقہؓ کبریٰ کا کوئی حریف نہیں ہو سکتا ۔ ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: مردوں میں بہت سے کامل گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہ ہوئی اور عائشہؓ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کو کھانوں کے دوسرے اقسام پر۔

 

*************

 

***

ناشرین کی اجازت سے اور ان کے تشکر کے ساتھ

اردو تحریر میں تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید