FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

رنگِ تصوّف

 

 

شاہ نیاز بریلوی

 

جمع و ترتیب: حسان خاں

 

 

تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اُٹھا دیا

وہیں محو حیرتِ بیخودی مجھے آئینہ سا بنا دیا

 

وہ جو نقشِ پا کی طرح رہی تھی نمود اپنے وجود کی

سو کشش سے دامن ناز کی اسے بھی زمیں سے مٹا دیا

 

کیا ہی چین خوابِ عدم میں تھا، نہ تھا زلفِ یار کا کچھ خیال

سو جگا کے شور ظہور نے مجھے کس بلا میں پھنسا دیا

 

رگ و پئے میں آگ بھڑک اُٹھی، پھونکے ہی پڑا سبھی بدن

مجھے ساقیا مئے آتشیں کا یہ جام کیسا پلا دیا

 

جبھی جا کے مکتبِ عشق میں سبق مقام فنا کیا

جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا

٭٭٭

 

 

نیستی ہستی ہے یارو اور ہستی کچھ نہیں

بے خودی مستی ہے یارو اور مستی کچھ نہیں

 

لامکاں کی منزلت پاتا ہے کب کون و مکاں

ہو کے ویرانے کے آگے، ہے گی بستی کچھ نہیں

 

کچھ نہیں سب کچھ ہے یارو اور سب کچھ، کچھ نہیں

غیر اس کے معنیٰ، رمزِ الٰہی کچھ نہیں

 

یہ جو کچھ ہونا جسے کہتے ہیں پستی ہے میاں!

فقر میں پستی یہی ہے اور پستی کچھ نہیں

 

بندگی اور حق پرستی، کچھ نہ ہوتا ہے نیازؔ

کچھ نہ ہونے کو سوا اور حق پرستی کچھ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یار کو ہم نے جا بجا دیکھا

کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

 

کہیں ممکن ہوا کہیں واجب

کہیں فانی کہیں بقا دیکھا

 

دید اپنے کی تھی اسے خواہش

آپ کو ہر طرح بنا دیکھا

 

صورتِ گُل میں کھل کھلا کے ہنسا

شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

 

شمع ہو کر کے اور پروانہ

آپ کو آپ میں جلا دیکھا

 

کر کے دعویٰ کہیں انالحق کا

بر سرِ دار وہ کھنچا دیکھا

 

تھا وہ برتر شما و ما سے نیاز

پھر وہی اب شما و ما دیکھا

 

کہیں ہے بادشاہ تخت نشیں

کہیں کاسہ لئے گدا دیکھا

 

کہیں عابد بنا کہیں زاہد

کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا

 

کہیں وہ در لباسِ معشوقاں

بر سرِ ناز اور ادا دیکھا

 

کہیں عاشق نیاز کی صورت

سینہ بریاں و دل جلا دیکھا

٭٭٭

 

 

 

مدرسے میں عاشقوں کے جسکی بسم اللہ ہو

اوس کا پہلا ہی سبق یارو فنا فی اللہ ہو

 

یہ سبق طولانی ایسا ہے کہ آخر ہو ، نہ ہو

بے نہایت کو نہایت کیسی یا ربّاہ ہو

 

دوسرا پھر ہو سبق علم الفنا کا انتفا

یعنی اس اپنی فنا سے کچھ نہ وہ آگاہ ہو

 

دوڑ آگے تب چلے جب چوڑ پیچھے ہو مدد

اس دقیقے کو وہی پہنچے جو حق آگاہ ہو

 

تیسرا اس کا سبق ہے پھر کے آنا اس طرف

اب بقا باللہ حاصل اوسکو خاطرخواہ ہو

 

ڈھائی انچھر پیم کے مشکل ہے جن کا ربط و ضبط

حافظ و ملّا یہاں پر کب دلیلِ راہ ہو

 

حضرتِ عشق آپ ہوویں گر مدرّس چند روز

پھر تو علم و فقر کی تعلیم خاطر خواہ ہو

 

اے نیاز اپنے تو جو کچھ ہو تمہیں ہو بس فقط

حضرتِ عشق آپ ہو اور آپ دام اللہ ہو

 

اک توجّہ آپ کی وافی و کافی ہے ہمیں

کیسا ہی قصہ ہو طولانی تو وہ کوتاہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہتے ہیں جس کو عشق ہمارا ہی نام ہے

شور و فغاں کی اپنے یہاں دھوم دھام ہے

 

گر پھونک دوں جہان کو تو کچھ عجب نہیں

میں آگ کا بھبوکا ہوں میرا یہ کام ہے

 

ہوش و خرد سے ہم کو سروکار کچھ نہیں

اِن دونوں صاحبوں کو ہمارا سلام ہے

 

منزل ہماری پاتے ہیں کب شیخ و برہمن

اسلام و کفر سے پرے اپنا مقام ہے

 

دیر و حرم میں اور کلیسا کنشت میں

بھرتا ہمارے نام کا دم ہر کدام ہے

 

پر اک نیاز اپنے سے ہمراز ہے کہ وہ

شاہِ نجف امیرِ عرب کا غلام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں وہ کوئی ہوں جس کا خدائی میں نام ہے

کہتے ہیں جس کو حُسن سو مجھ پر تمام ہے

 

عالم میں میری جلوہ نمائی کا ہر طرف

غوغا ہے غل ہے شور ہے اور دھوم دھام ہے

 

خلقت کے کان پُر ہیں اسی ذکر سے ہوئے

ہر ہر زبان پر یہی بات اور کلام ہے

 

جس دل میں دیکھئے تو ہماری ہی چاہ ہے

جو آنکھ ہے سو تک رہی ہم کو مُدام ہے

 

ہر سر کے بیچ اپنا ہی سودا ہے بھر رہا

اپنی تڑپ میں ریشہ و رگ ہر کدام ہے

 

دیکھا ہے جس نے حُسن ہمارا بچشمِ دل

خوبانِ اس جہان سے کب اُس کو کام ہے

 

حاضر ہے بندگی میں ہماری تمام خلق

از عرش تا بفرش سب اپنا غلام ہے

 

رکھتا ہے ہم سے ہر کوئی راز و نیاز شیخ

پر ایک نیاز اپنا مدار المہام ہے

٭٭٭

 

 

 

عاشقِ زار ہوں میں طالبِ آرام نہیں

ننگ و ناموس سے کچھ اپنے تئیں کام نہیں

 

بے سروپائی سے عشاق کو خطرہ کیا ہے

اثرِ عشق ہے یہ گردشِ ایام نہیں

 

نشۂ چشم سے ہوں ساقیِ توحید کے مست

احتیاج اپنے تئیں ظرفِ مئے و جام نہیں

 

بوالہوس پانوں نہ رکھیو کبھی اس راہ کے بیچ

کوچۂ عشق ہے یہ رہگذرِ عام نہیں

 

بے نہایت ہے کہ پایا نہیں جس کا پایاں

جس جگہ پہنچئے آغاز ہے انجام نہیں

 

عالمِ عشق کی دنیا ہی نرالی دیکھی

سحر و شام وہاں یہ سحر و شام نہیں

 

زاہدا حال مرا دیکھ کے حیراں کیوں ہے

مشربِ کفر ہے یہ ملتِ اسلام نہیں

 

ساقیِ مست کے دیدار کا سرشار ہوں میں

اِس لئے دل کو تمنائے مئے و جام نہیں

 

عار کیا ہے تجھے لوگوں کی ملامت سے نیاز

عاشقوں میں تو اکیلا ہی تو بدنام نہیں

٭٭٭

 

 

رواں آنکھوں سے ہے سیلابِ گلگوں

الٰہی چشم ہے یا چشمۂ خوں

 

جو شیریں تجکو دیکھے کوہکن ہو

اگر لیلیٰ ہو یہاں ہو جائے مجنوں

 

یہ دل وہ نیرِ خاکی ہے یارو

بلا گرداں ہے جس پر مہرِ گردوں

 

ترے آئینۂ رخ کا صفا دیکھ

تحیر میں ہے اشراقِ فلاطوں

 

علیِ مرتضیٰ ختم الرسل کے

نیاز ایسے ہیں جوں موسیٰ کے ہاروں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ملکِ خدا میں یارو آباد ہیں تو ہم ہیں

تعمیرِ دو جہاں کی بنیاد ہیں تو ہم ہیں

 

دیکھا پرکھ پرکھ کر آخر نظر چڑھا یہ

گر نقد ہیں تو ہم ہیں نقاد ہیں تو ہم ہیں

 

اپنا ہی دیکھتے ہو تم بندوبست یارو

گر داد ہیں تو ہم ہیں فریاد ہیں تو ہم ہیں

 

پھیلا کے دامِ الفت گھرتے گھراتے ہم ہیں

گر صید ہیں تو ہم ہیں صیاد ہیں تو ہم ہیں

 

ٹھہرا ہے عشق بازی دن رات کھیل اپنا

گر قیس ہیں تو ہم ہیں فرہاد ہیں تو ہم ہیں

 

شادی و غم یہ دونوں اپنی ہی حالتیں ہیں

دلگیر ہیں تو ہم ہیں اور شاد ہیں تو ہم ہیں

 

کاریگری کی اپنے یہ سب مصوری ہے

تصویر ہیں تو ہم ہیں بہزاد ہیں تو ہم ہیں

 

ہستی کے کاغذوں پر ہیں دستخط ہمارے

گر فرد ہیں تو ہم ہیں اور صاد ہیں تو ہم ہیں

 

جو کچھ کہ یہ گڑھت ہے سو ہے ہتھوڑی اپنی

فولاد ہیں تو ہم ہیں حداد ہیں تو ہم ہیں

 

روئے زمیں کے اوپر مانندِ گردبادے

گر خاک ہیں تو ہم ہیں اور باد ہیں تو ہم ہیں

 

تعلیم اور تعلّم سب ہے نیاز اپنا

شاگرد ہیں تو ہم ہیں اُستاد ہیں تو ہم ہیں

٭٭٭

 

 

 

معمور ہو رہا ہے عالم میں نور تیرا

از ماہ تا بماہی سب ہے ظہور تیرا

 

اسرارِ احمدی سے آگاہ ہو سو جانے

تو نورِ ہر شرر ہے ہر سنگ طور تیرا

 

ہر آنکھ تک رہی ہے تیرے ہی منہ کو پیارے

ہر کان میں ہوں پاتا معمور شور تیرا

 

جب جی میں یہ سمائی جو کچھ کہ ہے سو تو ہے

پھر دل سے دور کب ہو قرب و حضور تیرا

 

بھاتا نہیں ہے واعظ جز دیدِ حق مجھے کچھ

تجھ کو رہے مبارک حور و قصور تیرا

 

وحدت کے ہیں یہ جلوے نقش و نگارِ کثرت

گر سرِّ معرفت کو پاوے شعور تیرا

 

گر حرفِ بے نیازی سرزد نیاز سے ہو

پتلے میں خاک کے ہے پیارے غرور تیرا

٭٭٭

 

 

 

افسانہ مرے درد کا اُس یار سے کہہ دو

فرقت کی مصیبت کو دل آزار سے کہہ دو

 

جھکتا نہیں یہ دل طرفِ قبلۂ عالم

محرابِ خمِ ابروئے دلدار سے کہہ دو

 

ایک تو ہی نہیں میں بھی ہوں اُن آنکھوں کا مارا

اے اہلِ نظر نرگسِ بیمار سے کہہ دو

 

سِسکے ہے پڑا خنجرِ مژگاں کا یہ گھائل

تیرِ نگہِ دیدۂ خونخوار سے کہہ دو

 

میں عشق کی ملت میں ہوں اے شیخ و برہمن

جا عشق مرا سبحہ و زنّار سے کہہ دو

 

کیا جوش میں ہے اب مئے وحدت خمِ دل میں

اُبلے ہے پڑی رومی و عطار سے کہہ دو

 

جوں مہر کے سنمکھ کہے آئینہ انا الشمس

بولوں ہوں انا اللہ سرِ دار سے کہہ دو

 

مشکل جو نیاز آئے تمہیں فقر میں درپیش

جا شاہِ نجف حیدرِ کرّار سے کہہ دو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کافرِ عشق ہوں میں بندۂ اسلام نہیں

بت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں

 

عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا

ایک پل دل کو مرے اُس کے بن آرام نہیں

 

ڈھونڈھتا ہے تو کدھر یار کو میرے اے ماہ

منزلش در دلِ ماہست لبِ بام نہیں

 

بوالہوس عشق کو تو خانۂ خالہ مت بوجھ

اُس کا آغاز تو آساں ہے پہ انجام نہیں

 

پھانسنے کو دلِ عشاق کے الفت بس ہے

گھیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں

 

کام ہو جائے تمام اُس کا پڑے جس پہ نگاہ

کشتۂ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں

 

ابر ہے جام ہے مینا ہے مئے گلگوں ہے

ہے سب اسبابِ طرب ساقیِ گلفام نہیں

 

ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصلِ بہار

کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں

 

جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسمِ گل

ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں

 

دل کے لینے ہی تلک مہر کی تھی ہم پہ نگاہ

پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں

 

رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز

یہ دل آزاری مری جان بھلا کام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ یار ہے میرا ارے او دیکھنے ہارو

دیکھا نہ ہو گر تم نے خدا دیکھ لو یارو

 

اس نقشے کی تصویر بنی ہے نہ بنے گی

کس ہاتھ کے ہو تم بنے او نقش نگارو

 

ہے شاہدِ گل جلوہ نما تختِ چمن پر

اے بلبلو سب مل کے چلو جی کو نثارو

 

در ملکِ دلم شاہِ جنوں لائے ہیں تشریف

اے عقل و خرد اب چلو باہر کو سدھارو

 

ٹھانی ہے یہاں مغبچوں نے آج یہ دل میں

واعظ جو ملے اُس کے عمامے کو اتارو

 

ہم آگ میں جلنے سے بہت راضی ہیں ناصح

لو اپنی بہشتوں کو تمہیں سر ستی مارو

 

اے چشم و جگر مل کے بہم سینہ و دل ساتھ

دھرنا دیو اُس یار کے دروازے پہ چارو

 

کس دل کی عمارت ہوئی ہے آج یہ مسمار

آتے ہو کہاں سے اٹھے او گرد و غبارو

 

کہتا ہے نیاز اور غزل ایسی ہی سنیو

کانوں کو ادھر رکھ کے ذرا حُسن شعارو

٭٭٭

 

 

 

ہم جرمِ محبت کے گنہگار ہیں یارو

پکڑے ہیں کئے اپنے کو لو گردنیں مارو

 

مشکل ہے جو چپ رہتے ہیں جی ہوتا ہے بیکل

وہ یار برا مانے ہے گر رو رو پکارو

 

گر راحت و آرام گیا جانے دو اے دل

ثابت رہو ٹک عشق میں ہمت کو نہ ہارو

 

درخواست بھلائی کی فلک سے نہیں بہتر

دوں ہمتوں آگے نہ میاں ہاتھ پسارو

 

جاؤ جہاں ہے ساقیِ سرمستِ قدح نوش

کیوں آئے ہو جھک جھک مری آنکھوں میں خمارو

 

سیرِ چمنِ حُسن میں کیا لطف و مزا تھا

کیدھر سے نکل آئے تم اے ہجر کے خارو

 

جب تک نہیں وہ شوخ تمہیں دیکھے ہے خوباں

خورشید کے نکلے پہ کہاں ہو گے ستارو

 

پھولی نہ سماتی تھی کہیں انگ میں اپنے

آتی ہے خزاں رہیو خبردار بہارو

 

اے شاہِ نجف ہوں میں نیاز آپ کے گھر کا

بگڑے مرے سب کام تمہیں آن سنوارو

٭٭٭

 

 

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

Urdu web

ٹائپنگ: حسان خان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید