نوادرات
فہرست مضامین
شمس الرحمن فاروقی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی
صفدر مرزا پوری اپنی کتاب "مشاطۂ سخن” میں لکھتے ہیں کہ منشی امیر اللہ تسلیم کے مشہور شاگرد عرش گیاوی (مصنف "حیات مومن” اور "حیات تسلیم”)کا شعر تھا ؎
ہوں سرخ رو جہان میں وہ دن خدا کرے
میرا ازل سے دانت ہے انگیا کے پان پر
انگیا کے دو کپڑے جن میں چھاتیاں کسی جاتی ہیں، کٹوری کہلاتے ہیں۔ ہر کٹوری خود دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے، بڑے ٹکڑے کو بنگلہ یا دوال اور چھوٹے کو پان کہتے ہیں۔ تسلیم نے شعر کاٹ کر نیچے لکھا:
کیا چھاتیاں کاٹ کھاؤ گے؟
استاد کامل اسے کہتے ہیں۔ عرش کا ایک اور شعر تھا ؎
غضب کا حسن ہے خال لب جاں بخش دلبر میں
کوئی کشتی رواں ہے موج بحر آتش تر میں
اس پر استاد نے لکھا:”خال مشبہ ہے،کشتی مشبہ بہ۔ان دونوں میں وجہ تشبیہ کیا ہے؟صرف الفاظ جمع کر دینے سے کیا فائدہ؟ شعر نکال دو۔” کاش کہ جوش صاحب وغیرہ نے یہ سبق سیکھا ہوتا۔
تسلیم لکھنوی(1819تا1911)بادشاہان اودھ کے یہاں نوکر رہے، اودھ پر آفت ٹوٹی تو رامپور چلے گئے۔وہاں کبھی آرام سے گذری،کبھی تنگی سے۔فارسی کی استعداد بہت اچھی تھی۔ خوشنویس بھی تھے۔ شاعری میں سینکڑوں شاگرد بنائے جن میں حسرت موہانی کا نام سب جانتے ہیں۔ تسلیم بالکل آخر عمر میں آنکھ کے عملیے کے لیے لکھنؤ آئے لیکن بقول حسرت موہانی، "نشتر گہرا لگ گیا۔”اور چند ہی دن کے بعد اللہ کو پیارے ہوئے۔رامپور کی ملازمت کے دوسرے دور میں تسلیم نے نواب حامد علی خان کا سفر نامہ مثنوی کی شکل میں لکھا۔کوئی پچیس چھبیس ہزار شعر کی مثنوی دفتر سرکار میں جمع ہوئی،پھر داخل دفتر ہی رہ گئی،کسی نے اسے غائب کر دیا۔ تسلیم جو صلۂ شعر کی امید چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے،جب دوبارہ رامپور آئے اور مثنوی کا حال انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے کہا، "آج سے پیسے روز تیل کا صرف اور سہی۔۔۔ ۔ ” پھر معمول یہ کر لیا کہ روز بعد نماز مغرب قلم کاغذ لے کر بیٹھ جاتے اور عشا تک سفر نامہ نظم کرتے۔ جب یہ دفتر لاثانی تیار ہوا تو پہلے سے بہتر کہلایا۔حامد علی خان نے قدردانی کا اظہار کیا اور تسلیم کو پہلے سے بھی زیادہ مشاہرے پر بحال کر دیا۔ یہ واقعہ بقول حسرت موہانی 1907 کا ہے۔یعنی اس وقت تسلیم کی عمر بارہ کم سو برس کی تھی۔
حکیم مومن خان مومن دہلوی کے شاگرد نواب اصغر علی خان نسیم دہلوی، ان کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیم،ان کے شاگرد سید فضل الحسن حسرت موہانی۔مومن اور حسرت بیحد مشہور ہیں، نسیم دہلوی کا نام صرف خواص جانتے ہیں۔ تسلیم کو خواص میں بھی چند ہی لوگ جانتے ہیں ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
امیر اللہ تسلیم آخری شاعر تھے جنھیں قصیدہ، مثنوی،اور غزل پر یکساں اور غیر معمولی قدرت تھی۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر جوش صاحب، فراق صاحب وغیرہ نے امیر مینائی، جلال لکھنوی، تسلیم لکھنوی کے قصائد پڑھے ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ مربوط، پر زور،اور مغز سے مملو شعر کیسے کہتے ہیں۔
تسلیم کا شعر ہے ؎
میں تو ہوں تسلیم شاگرد نسیم دہلوی
مجھ کو طرز شاعران لکھنؤ سے کیا غرض
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نسیم خود اسی طرز کے شاعر تھے جسے "طرز لکھنؤ” کہہ کر بدنام کیا گیا،ورنہ غالب، ناسخ، ذوق،سب اسی رنگ کے شاعر تھے جسے خیال بندی کہتے ہیں۔ چنانچہ نسیم کا شعر ہے ؎
مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں
کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض
اور ان کے شاگرد منشی امیر اللہ تسلیم بھی اکثر اسی رنگ میں شعر کہتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ بعد میں انھوں نے خیال بندی سے کچھ گریز بھی کیا۔ ممکن ہے تسلیم کا اشارہ اس طرف رہا ہو کہ ‘طرز ناسخ’ یا ‘طرز لکھنؤ’ کوئی لکھنؤ والوں کی ایجاد نہیں۔ شاہ نصیر نے اسے بکثرت برتا اور ان کے پہلے بقا اکبر آبادی بھی خیال بند شاعر تھے۔میر سوز کے یہاں بھی بہت شعر خیال بندی کے ہیں۔ بہر حال، خیال بندی کا کمال دیکھنا ہو تو تسلیم کی یہ غزل ان کے دوسرے دیوان "نظم ارجمند”(1872) سے نقل کرتا ہوں ؎
چاندنی رہتی ہے شب بھر زیر پا بالائے سر
ہائے میں اور ایک چادر زیر پا بالائے سر
خار ہائے دشت غربت داغ سودائے جنوں
کچھ نہ کچھ رکھتا ہوں اکثر زیر پا بالائے سر
بھاگ کر جاؤں کہاں پست و بلند دہر سے
ہیں زمین و چرخ گھر گھر زیر پا بالائے سر
کون ہے بالین تربت آج سر گرم خرام
وجد میں ہے شور محشر زیر پا بالائے سر
بے تکلف کیابسر ہوتی ہے کنج گور می
خاک بستر خاک چادر زیر پا بالائے سر
اوڑھ کر آب رواں کا گر ڈوپٹا تم چلو
موج زن ہو اک سمند زیر پا بالائے سر
کچھ اڑا کر شوخیوں سے وہ ستارے بزم میں
کہتے ہیں دیکھ لو اختر زیر پا بالائے سر
جادہ و موج ہوا بے تیرے دونوں دشت میں
کر رہے ہیں کار خنجر زیر پا بالائے سر
جز خراش خار یا خاک مذلت قیس کو
اور کیا دیتا مقدر زیر پا بالائے سر
جیتے جی سب شان تھی مر کر بجائے تخت و تاج
خاک رکھتا ہے سکندر زیر پا بالائے سر
سایہ ہوں کیا اوج میرا کیا مری افتادگی
ایک عالم ہے برابر زیر پا بالائے سر
مردے ہیں پامال مشتاق نظارہ ہیں مسیح
دیکھتا چل او ستم گر زیر پا بالائے سر
جسم و جاں دونوں زمین و آسماں کے ہیں مکیں
ایک میں رکھتا ہوں دو گھر زیر پا بالائے سر
ہو نہیں سکتا کبھی خاصان حق کو کچھ حجاب
ایک تھا پیش پیمبر زیر پا بالائے سر
دعویٰ تشنہ سے اے تسلیم لکھی یہ غزل
ورنہ مہمل ہے سراسرزیر پا بالائے سر
ذرا دیکھئے،ایک بھی شعر ایسا نہیں جس میں ردیف پوری طرح ثابت نہ ہو۔ہر شعر میں کوئی تازہ بات ہے۔ گھر کا قافیہ دو بار لکھا اور دونوں بار الگ طرح سے،اور پوری طرح ثابت بھی کر دیا۔ ستم گر کے کڈھب قافیے کے ساتھ حضرت مسیح پیغمبر کو باندھ لانا کمال نہیں اور کیا ہے۔سمندر بالائے سر بھی بہت خوب ہے۔ بظاہر یہ غزل کسی شاعر تشنہ کی چنوتی پر،یا ان کی دی ہوئی زمین میں کہی گئی تھی۔تشنہ صاحب کے حالات معلوم کرنے کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔ یہ غزل بعض الفاظ کے تغیر اور بعض شعروں کی کمی کے ساتھ داستان "ہرمز نامہ” میں بھی ملتی ہے۔ داستان گو (شیخ تصدق حسین) نے بھی داستان گوئی کے قاعدے سے انحراف کر کے کہہ ہی دیا:
شاہ طلسم نے اس نازنین سے مخاطب ہو کر کہا،کیا خوب یہ غزل تم نے گائی ہے۔اس کی زمین سخت ہے،ردیف مشکل ہے۔زیر پا بالائے سر کا ثبوت مشکل ہے۔تسلیم،جن کی یہ غزل ہے،انھوں نے بڑی فکر سے یہ غزل کہی ہو گی(ص947)۔
آج کل ہم لوگ،اور پاکستان میں خاص کر کے، نعت گوئی پر بہت مہربان ہیں۔ ڈھیر کی ڈھیر نعتیں ہر گھر سے بن کر نکل رہی ہیں، لیکن مضمون کی جدت،یعنی جناب رسالت مآب کی توصیف میں کوئی نئی بات، ہمائے مضامین کی طرح عنقا ہے۔عسکری صاحب نے محسن کاکوروی کے قصیدۂ لامیہ کی بہت تعریف کی ہے،لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ خیال بندی کے باعث محسن کاکوروی حقیقت محمدیہ تک نہ پہنچ سکے، خیالی باتیں کہتے رہے۔انھوں نے حالی پر بھی اعتراض کیا ہے کہ وہ بھی حقیقت محمد یہ سے دور رہے اور انھوں نے پیغمبر کو سماج سدھار کے میدان کا آدمی بنا کر رکھ دیا۔عسکری صاحب کی بات بڑی حد تک ٹھیک تھی،اگر چہ اختلاف کی گنجائشیں ہیں۔ لیکن عسکری صاحب یہ غور کر لیتے کہ خیال بندی کے بغیر وصف رسول کے لئے نئے مضمون ہاتھ نہ آتے۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شاید ہی ایسا ہو جس کا عشق رسول پکا ہو اور جسے شعر گوئی بھی آتی ہو۔ایسے کو خیال بندی کی ضرورت نہیں۔ ورنہ تسلیم کا یہ ایک نعتیہ شعر صرف خیال بندی کی بدولت آج کی ہزاروں نعتوں پر بھاری ہے ؎
ہو نہیں سکتا کبھی خاصان حق کو کچھ حجاب
ایک تھا پیش پیمبر زیر پا بالائے سر
زبان کی صفائی اور شعر کی روانی اس پر مستزاد۔ پوری ہی غزل روانی کا شاہکار ہے۔
تسلیم نے کئی دیوان لکھے۔ایک تو 1857 کے ہنگامے میں ضائع ہوا، تین شائع ہوئے۔ دو میرے پاس ہیں، ان میں "نظم دل افروز”، نامی پریس لکھنؤسے اپریل 1903میں شائع ہوا۔میرا نسخہ ناقص الاول والآخر تھا۔ میں اپنے بھائی اور نامور مورخ نعیم الرحمٰن فاروقی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی لائبریری سے یہ دیوان مجھے لا دیا۔وہاں بھی صرف یہی ایک دیوان مل سکا۔ اس کا مختصر انتخاب حاضر کرتا ہوں۔ دوسرے دیوان "کلیات امیر اللہ تسلیم، معروف بہ اسم تاریخی نظم ارجمند” کی اشاعت نول کشور پریس لکھنؤ سے1289 مطابق1872 میں ہوئی۔(کتاب میں شامل کئی تاریخیں ہیں جن سے1872ظاہر ہوتا ہے۔)اس کے ساتھ ہی تسلیم کی دو مثنویاں "نالۂ تسلیم” اور "شام غریباں ” بھی ہیں، الگ سر ورق کے ساتھ،لیکن یقین ہے تینوں یکجا شائع کی گئی ہوں۔ کئی لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخیں شامل اشاعت ہیں، لیکن مرزا مچھو بیگ ستم ظریف نے کچھ حرفوں سے اور تسلیم کے ہم تخلص انوار حسین تسلیم نے کچھ الفاظ کے ذریعہ بطریق معما تاریخ نکالی ہے۔ مرزا مچھو بیگ کی تاریخ سے مختلف سنین، مثلاًسمبت،سکندری، فصلی، وغیرہ میں بھی تاریخ نکلتی ہے۔انوار حسین تسلیم کی تاریخ سے ہجری اور عیسوی سنہ کئی طرز سے نکلتے ہیں۔ دونوں تاریخیں بشکل دائرہ ہیں۔ افسوس کہ میں انھیں مطلق نہ سمجھ سکا۔
انتخاب نظم دل افروز
(1)
شوق نظارہ نے گھر غیر کو کرنے نہ دیا
آگیا اشک جو آنکھوں میں ٹھہرنے نہ دیا
ہم قدم سد رہ منزل مقصد نکلے
راستہ مجھ کو مری گرد سفر نے نہ دیا
رو سیہ سے نہ رکھ امید برو مندی کی
ایک بھی پھل کبھی گل ہائے سپر نے نہ دیا
کچھ تو اس دل کی لگی بجھتی جو پی جاتے اشک
بوند بھر پانی مجھے دیدۂ تر نے نہ دیا
بد گماں سمجھا کہ سمجھے گا نشانی میری
داغ دل بھی مجھے اس رشک قمر نے نہ دیا
٭
مطلع کتنے لطف سے کسی قدر پیچیدہ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں گے تو کچھ دکھائی نہ دے گا۔ اور معشوق کو آنکھوں میں بساتے بھی ہیں۔ اس کو یوں کہا کہ اشک مانع نظارہ ہوتے، اور وہ غیر بھی ہیں، اس لئے میں نے انھیں آنکھوں میں ٹھہرنے نہ دیا۔تیسرے شعر مین نکتہ یہ ہے کہ سپر کالی ہوتی ہے،اور اس پر جو نقش و نگار بنے ہوتے ہیں انھیں ڈھال کا پھول کہتے ہیں۔ پھول کے بعد پھل آتے ہیں، لیکن سپر کے پھولوں سے کوئی پھل نہیں ملتا۔
(2)
ان کو پیارا ہے جبیں سے مری پتھر اپنا
کہتے ہیں پھوڑ لے سر اور کے در پر اپنا
سخت جاں وہ ہوں کہ رکتا ہے گلے پر چل کر
دم چراتا ہے مرے قتل سے خنجر اپنا
جوش وحشت میں یہ دھن وادی غربت کی بندھی
دے دیا خانہ خرابی کو یوں ہی گھر اپنا
٭
مطلعے میں کئی نکتے ہیں۔ (1)سر اس زور سے ٹکرائیں گے کہ سنگ در ہی ٹوٹ جائے گا۔(2)سر پھوڑنے کی اجازت ہے،لیکن کہیں اور۔یعنی عاشق تو ہمارے ہی رہو، پریشان کسی اور کو کرو۔(3)معاملہ بندی بہت خوب ہے۔دوسرے شعر میں رعایتیں مزے دار ہیں : خنجر کا رکنا بمعنی خنجر کی دھار کا تیز نہ ہو نا۔دم، بمعنی خنجر کی دھار،لیکن یہاں دم چرانا بمعنی جی چرانا ہے۔دم بمعنی لچک بھی کار آمد ہے۔یہ زمین میر کی ہے، میر نے بارہ (12)شعر کہے ہیں، تسلیم نے اٹھارہ (18)۔ میر کا ایک شعر تو ایسا ہے کہ بس وجد کیجئے اور سر دھنئے ؎
دل بہت کھینچتی ہے یار کے کوچے کی زمیں
لوہو اس خاک پہ گرنا ہے مقرر اپنا
(3)
اس سراپا نور نے لکھا جو مجھ کو حال دل
خط صحیفہ ہو گیا قاصد پیمبر ہو گیا
ڈھونڈتی ہے مرگ مجھ کو میں نظر آتا نہیں
رفتہ رفتہ ضعف سے تن تار بستر ہو گیا
بے حجاب اس کو کیا شوخی نے میری وصل میں
ایک بات ایسی کہی جامے سے باہر ہو گیا
٭
پہلا شعر پڑھئے اور اس زمانے کے لوگوں کی آزاد خیالی پر غور کیجئے۔آج ایسا شعر کوئی کہے تو واجب القتل ٹھہرے۔دوسرے شعر کے آگے ناسخ کا مشہور شعر رکھئے اور خیال بندی کا ایک اور کمال دیکھئے ؎
انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں
ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیئے
ناسخ نے لاغری کا ثبوت نہیں لکھا تھا،کیوں کہ ضعف کا مضمون تو مسلمات میں ہے۔لیکن تسلیم نے دوہرا ثبوت فراہم کر دیا،ایک تو یہی مسلمات شعر میں سے،کہ عاشق تو لاغر ہوتا ہی ہے،اور دوسرا مشاہدے سے، کہ ضعف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔ اور مزید لطافت یہ کہ خود موت بھی مجھے نہ ڈھونڈ پائی کیونکہ میں تو بستر کا ایک تار بن گیا تھا۔الگ سے میرا کوئی وجود باقی ہی نہ رہا تھا۔تیسرے شعر کے آگے میر کا شعر رکھئے تو خیال بندی اور عاشقانہ مضمون کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ میر کا شعر ہے ؎
مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں
خیال بندی میں شوخی اور طبیعت کی تیزی زیادہ ہوتی ہے،جیساکہ تسلیم کے شعر سے ظاہر ہے۔
(4)
پردۂ خم سے جو نکلی آ کے مینا میں چھپی
رندوں سے اب تک وہی ہے دختر رز کا حجاب
دفن ہوتا ہے چھپا کر منھ بشر زیر کفن
خاک سے کرتا ہے کیا کیا خاک کا پتلا حجاب
جسم ہے پنہاں کفن میں گور میں پنہاں کفن
موت کے آتے ہی کیا کیا بڑھ گیا اپنا حجاب
٭
پہلے شعر کے ساتھ اقبال کا شعر ذہن میں لائیے ؎
کس قدر اے مے تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردۂ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی
اقبال کا شعر زیادہ مکمل ہے،لیکن اولیت تسلیم کو ہے اور حجاب کا ثبوت بہتر ہے،کیوں کہ حجاب رندوں سے ہے۔
(5)
نہ سوز دل نے چھینٹیں پڑنے دیں قاتل کے دامن پر
برنگ شمع کشتہ جل گیا خون اپنی گردن پر
عبث ڈرتے ہو محشر سے کرو بھی وار دشمن پر
اگر پوچھے خدا یہ خون ناحق میری گردن پر
خبر گیری رفیق راہ کی ہے ختم سوزن پر
چلی جاتی ہے لیکن آنکھ ہے رشتے کی الجھن پر
شریروں کی شرارت اہل رفعت سے نہیں چلتی
کبھی گرتے نہ دیکھی ہم نے بجلی مہ کے خرمن پر
جلائی آج رو رو کر حنائی ہاتھ سے کس نے
چراغ طور پروانہ ہے میری شمع مدفن پر
خط مشکیں نہیں ہے گرد گورے گورے گالوں کے
چڑھائی کی ہے یہ فوج حبش نے شہر لندن پر
٭
یہ کہنے کی ضرورت شاید نہ ہو کہ یہ زمین غالب کی ہے۔تسلیم کی غزل میں انتیس (29) شعر ہیں۔ غالب کی غزل میں نو (9)،لیکن ظاہر ہے کہ غالب کے یہاں شاہکار شعروں کا تناسب زیادہ ہے۔تسلیم کے آخری شعر میں مضمون آفرینی بہت عمدہ ہے۔عام طور پر خط اور عارض کو شب اور سحر،کفر اور اسلام،چیونٹی اور شکر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ تسلیم نے بالکل نئی بات پیدا کی ہے۔رشتے کی الجھن والا شعر بھی خیال بندی کا شاہکار ہے۔شمع مدفن والے شعر کی نزاکت خیال پر مومن بھی وجد کرتے۔
(6)
گرم جولاں آج فرش گور پر کس کا ہے رخش
شاد ہو کر کر رہا ہے ہر شرار سنگ رقص
٭
اس شعر کے سامنے غالب کا شعر رکھئے۔دونوں ایک سے بڑھ کر ایک مضمون آفریں ہیں ؎
شو ر جولاں تھا کنار بحر پر کس کا کہ آج
گرد ساحل ہے بہ زخم موجۂ دریا نمک
غالب کے یہاں رعایتیں اور مناسبتیں بکثرت اور خوبصورت ہیں، اور مضمون ایسا ہے کہ اس کا جواب غیر ممکن معلوم ہوتا ہے۔لیکن تسلیم نے کئی باتیں پیدا کر دیں۔ پتھر میں شرر ہوتا ہے اور جب گھوڑا تیز دوڑتا ہے تو اس کے نعلوں سے چنگاری بھی پیدا ہوتی ہے۔معشوق گھوڑے پر سوار عاشق کے مزار کو پامال کر رہا ہے،یہ مضمون بالکل درست ہے۔سنگ کا قافیہ رقص کے ساتھ بے انتہا مشکل تھا،تسلیم نے خوب نبھایا۔
(7)
کی تھی دم کن یار سے آغوش ذرا گرم
اب تک مرے سینے سے نکلتی ہے ہوا گرم
اک روز تو آ کر مری آغوش میں بیٹھو
ٹھنڈا دل پر سوز ہو پہلو ہو ذرا گرم
پانی کو بنا دیتی ہے الفت کی ہوا آگ
آنسو مری آنکھوں سے نکلتے ہیں بلا گرم
کیونکر کف نازک کو بنا دیتی ہے شعلہ
مشہور ہے رکھتی نہیں تاثیر حنا گرم
تسلیم جگر سوختۂ عشق ہوں اس کا
جس ماہ کا بستر شب اسریٰ میں رہا گرم
٭
مطلع میں تلمیح قرآنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام خلقت سے روز تخلیق پر سوال کیا کہ الست بربکم(کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟)، اس پر سب نے کہا، بلیٰ(ہاں )۔ اسی اعتبار سے تخلیق کے پہلے دن کو روز الست بھی کہتے ہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ صوفیہ کی رو سے تمام انسانی روحیں واپس ملائے اعلیٰ کو جانے کے لئے بیچین رہتی ہیں۔ تسلیم نے دو لمبے مضامین کو چند لفظوں میں بیان کر دیا،روانی اس پر مستزاد۔تیسرے شعر کے ساتھ غالب کا شعر یاد آنا لازمی ہے۔تسلیم نے الگ ہٹ کر وہی مضمون بیان کیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ غالب کے یہاں ضعف کی بات ہے اور تسلیم کے یہاں شعلۂ عشق کی۔مقطع ہر پہلو سے شاہکار ہے۔تلمیح بالکل درست اور مناسبتیں (جگر سوختہ،ماہ، عشق، شب،بستر) مستزاد۔نعت کا شعر ہو تو ایسا ہو،کہ عاشقانہ بھی ہے اور نعتیہ بھی۔ایسا امتزاج بڑے بڑوں کے بس میں نہیں۔ سبحان اللہ۔
(8)
کیا کہوں کیا گذری دل پر سینۂ پامال میں
خون کے دھبے ہیں بدلے اشک کے رومال میں
ناتواں وہ تھے کہ آخر انتہائے ضعف سے
رفتہ رفتہ پس گئے عمر رواں کی چال میں
جیتے جی سب ذلت و عزت تھی مر جانے کے بعد
لاش لپٹی ہے نہ کملی میں نہ پنہاں شال میں
٭
مطلعے کا مصرع ثانی کیفیت اور پیکر کے لحاظ سے خوب ہے۔رومال کا مضمون ولی نے بہت عمدہ باندھا ہے،میر نے وہیں سے لیا ؎
نہ پوچھو عشق میں جوش و خروش دل کی ماہیت
برنگ ابر دریا بار ہے رومال عاشق کا
دوسرے شعر کا مضمون، اور پیکر دونوں غضب کے ہیں۔
(9)
ایسی ہے کچھ حنا کو ستم گر لگی ہوئی
پس کر بھی ہے قدم سے برابر لگی ہوئی
دیتی ہے بوسے کیوں جو نہیں واسطہ کوئی
گلگیر سے ہے شمع مقرر لگی ہوئی
آیا تھا کون خواب میں رنگیں ادا یہاں
مہندی ہے جا بجا سر بستر لگی ہوئی
لائے گی ایک دن خبر زندگی ضرور
پیچھے گئی ہے عمر برابر لگی ہوئی
٭
ذوق کی غزل اس زمین میں بجا طور پر مشہور ہے۔ردیف میں امکانات تھے اور دونوں نے انھیں خوب برتا ہے۔لگتا ہے تسلیم نے ذوق کا مطلع سامنے رکھا ہے ؎
ہے کان اس کے زلف معنبر لگی ہوئی
چھوڑے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
تسلیم کے مطلعے میں ردیف دو الگ الگ معنی میں آئی ہے۔وہی حال ذوق کا بھی ہے،لیکن تسلیم کے یہاں معنی بہتر ہیں۔ ذوق نے بستر کا قافیہ ترک کیا ہے اور تسلیم نے اسے اس قدر عمدگی سے برتا ہے اور جنسی اشارے بھی کیا عمدہ ہیں۔ آخری شعر کا ابہام اور باریکی خیال بھی آپ اپنا جواب ہیں۔ زندگی گذرتی ہے تو عمر بھی گذرتی ہے، گویا عمر گذرتی نہیں بلکہ زندگی کے تعاقب میں جاتی ہے۔عمر اور زندگی کا نازک فرق خوب نمایاں کیا ہے۔
(10)
ا ے فلک تجھ سے مجھے عشرت نہ راحت چاہیئے
رات دن میں دو گھڑی رونے کی فرصت چاہیئے
جیتے جی اسباب دنیا سے مفر ممکن کہاں
ایک چادر مر کے بھی بالائے تربت چاہیئے
کم سے کم اے چرخ اس عمر دو روزہ میں مجھے
ایک تو خورشید سیما ماہ طلعت چاہیئے
دیدۂ ظاہر سے کیا آئے نظر زاہد تجھے
ان بتوں کی دید کو چشم حقیقت چاہیئے
گوہر مقصد کا طالب ہے تو مانند صدف
گوشۂ دریائے ہستی میں قناعت چاہیئے
رہ گیا ہے سینے میں اک یاد گار گل یہی
دل سے اے دل تجھ کو پاس خار حسرت چاہیئے
ایک بوسہ بھی نہیں دیتا کبھی تسلیم کو
کس توقع پر تجھے اے بے مروت چاہیئے
٭
یہ غزل میر کی زمین میں ہے۔میر کے اس شعر کا جواب تو تسلیم سے نہ ہو سکا ؎
عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بعد اس جا برابر ہے محبت چاہیئے
اور خود میر نے اسی غزل میں بنکار کر کہا بھی تھا ؎
ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کے قدرت چاہیئے
لیکن حق یہ ہے کہ تسلیم کے جو شعر میں نے انتخاب کئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ پہلوان شاعر بھی داد دینے پر مجبور ہو جاتا۔بتوں کی دید کا مضمون،حسرت کا قافیہ، اور مقطع میں ردیف کا لاجواب ہنر مندی سے استعمال، یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ تسلیم کو وہ قدرت حاصل تھی جس کے بغیر بقول میر،صاحب فن کے سامنے ہونا غیر ممکن ہے۔
٭
حیرت ہے کہ یہ دونوں دیوان تسلیم کی رباعیات سے خالی ہیں۔ اس قدر قدرت کلام اور پر گوئی کے باوجود انھوں شاید رباعی نہیں کہی۔
ضرور تھا کہ "نظم ارجمند” سے بھی انتخاب کرتا،لیکن سردی کی سختی اور جگہ کی تنگی کے باعث تسلیم کے ان شعروں کے ساتھ ( یہ شعر”نظم ارجمند”میں شامل ہیں )،ختم کلام کرتا ہوں ؎
سرد اعضا ہو چکے لب پر وہی ہے آہ گرم
آگ قسمت میں لکھی ہے چلتی لو جاڑے میں ہے
تھرتھراتا ہے جگر تسلیم پڑھئے شعر کیا
سخت مشکل دم کا آنا تا گلو جاڑے میں ہے
٭٭٭
طوطا رام عاصی لکھنوی کی گالیاں
عاصی تخلص کے شاعر کئی گذرے ہیں، لیکن خدا جانے کیا بات اس تخلص میں ہے کہ یہ کسی کو بھی شہرت نہ دلا سکا۔سب سے زیادہ مشہور عاصی تخلص کے شاعر، گھنشیام لال نامی دلی کے بڑے شاعر تھے۔وہ شاہ نصیر کے شاگرد اور اپنے استاد کے عاشق زار تھے۔لیکن انھیں بھی جو نمود نصیب ہوئی وہ محمد حسین آزاد کی "آب حیات” سے ملی،کیونکہ جن اکا دکا ہندو شعرا کو آزاد کے آب حیات سے ایک دو گھونٹ مل سکے، ان میں گھنشیا م لال عاصی بھی تھے،اگر چہ آزاد نے ان کا ذکر بس روا روی میں کیا ہے،اور کچھ اچھے انداز میں بھی نہیں۔ گھنشیام لال عاصی کا دیوان ایک ہی بار چھپا،اور وہ بھی ان کے اعقاب کی سعادت مندی اور ادب دوستی کی بدولت ممکن ہو سکا تھا۔یہ دیوان غالباً1939 میں من موہن لال ماتھر کی مساعی سے کائستھ اردو سبھا، دہلی نے شائع کیا تھا اور اس کے دوبارہ چھپنے کی نوبت شاید نہیں آئی۔گھنشیام لال عاصی کا مزید تذکرہ انشا ء اللہ کسی آئندہ صحبت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ وہ خیال بندی کے انداز(یعنی اپنے استاد شاہ نصیر اور استاد بھائی شیخ ابراہیم ذوق کے انداز) میں بہت عمدہ کہتے تھے۔
جن عاصی کے ایک خاص رنگ کے کلام کا ذکر اور انتخاب آج منظور ہے،ان کا نا م ایک کے سوا کسی تذکرے میں مجھے نہ ملا۔ممکن ہے اور تذکروں بھی ہو،لیکن جو تذکرے میں نے دیکھے،اور میں نے دو چار نہیں بلکہ کئی تذکرے دیکھے،ان میں موہن لعل انیس کے "انیس الاحبا” میں طوطا رام عاصی کا ذ کر ضرور ہے،اگر چہ بہت مختصر۔اس وقت "انیس الاحبا”سامنے نہیں، لیکن انصار اللہ نظر نے اپنی "جامع التذکرہ”کی جلد اول (ص335)میں موہن لعل انیس کے حوالے سے حسب ذیل عبارت لکھی ہے:
منشی طوطا رام عاصی،ابن راجا بشن سنگھ،ولد راجا بھکاری داس،قوم سکسینہ کائستھ۔عاصی کے والد شجاع الدولہ کے منشی تھے۔صاحب استعداد ہے[کذا،ہیں ]۔اپنے دادا کے انتقال کے بعد اپنی موروثی خدمت پر مامور ہوئے۔شروع میں رائے سرب سکھ دیوانہ سے مشورۂ سخن لیتے ہیں [کذا،تھے]۔
"انیس الاحبا”چونکہ فارسی شاعروں کا تذکرہ ہے،اس لیے اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ طوطا رام عاصی اپنے زمانے کے قابل ذکر فارسی گو، بڑے گھرانے کے، خود بھی بڑی حیثیت کے حامل اور ذی علم تھے۔رائے سرب سکھ دیوانہ چونکہ بیشتر فارسی گو تھے،لہٰذا اغلب ہے کہ طوطا رام عاصی اپنا فارسی کلام رائے سرب سکھ دیوانہ کو دکھاتے ہوں۔ اردو میں بھی رائے سرب سکھ دیوانہ کا رتبہ بہت بلند تھا (جعفر علی حسرت لکھنوی ان کے شاگرد تھے)لہٰذا ممکن ہے عاصی نے اپنا اردو کلام بھی رائے سرب سکھ دیوانہ کو دکھایا ہو۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تذکرۂ "انیس الاحبا” کی تکمیل (1783)کے وقت طوطا رام عاصی بقید حیات تھے۔
طوطا رام عاصی کا جو کلام میری نظر سے گذرا ہے اس کا نام "دیوان غزل ہائے سمدھن و جواب سمدھن”ہے اور شاعر کے بارے میں لکھا ہے کہ(فارسی سے ترجمہ) رائے طوطا رام منشی، متخلص بہ عاصی، ولد راجہ بشن سنگھ،بن راجہ بھکاری داس، کہ یہ دونوں نوا ب سعادت خان [کذا،سعادت علی خان]بہادر کے زمانے سے خدمت میر منشی گری اور خطاب راجگی سے سرفراز اور ممتاز رہے ہیں۔ یہ غزلیں بچوں کی خوشنودی کے لیے ہیں، کہ بچے انھیں شادی کی تقاریب میں "برادری کی محفل” میں پڑھتے ہیں۔
موہن لعل انیس نے لکھا ہے کہ عاصی کے باپ شجاع الدولہ کے منشی تھے،لیکن زیر نظر دیوان میں ان کی سرکاری ملازمت سعادت علی خان کے وقت سے بتائی جا رہی ہے جو شجاع الدولہ کے بہت بعد تھے۔چونکہ موہن لعل انیس اور عاصی معاصر تھے،اس لیے انیس کا بیان زیادہ قابل قبول ہے۔دیوان کی عبارت کسی اور کی لکھی ہوئی ہے اور اغلب یہ ہے کہ عاصی کے انتقال کے بعد ارباب مطبع،یا دیوان کے مرتب کی تصنیف کردہ ہے۔
یہ مختصر "دیوان غزل ہائے سمدھن و جواب سمدھن”بڑی تقطیع کے نو(9) صفحات پر مشتمل ہے اور علی بخش خان کے مطبع علوی واقع لکھنؤ میں ذی قعدہ کے "آخری عشرے”،سنہ 1271ہجری میں طبع ہوا تھا۔لہٰذا اس کی تاریخ طباعت ستمبر1855کے اواخر کی متعین کی جاسکتی ہے۔اس دیوان کے ساتھ شروع کے انچاس صفحات پر میر جعفر زٹلی کا دیوان "زٹل نامہ” کے نام سے طبع ہوا تھا،لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ عاصی لکھنوی کے "دیوان غزلیات سمدھن و جواب سمدھن” کا جو نسخہ میرے سامنے ہے وہ میرے دوست اور مشہور کتاب شناس اسلم محمود کے کتب خانے میں محفوظ اصل نسخے کی فوٹو نقل ہے۔ میں یہ مختصر تحریر اور انتخاب ان کے نام معنون کرتا ہوں۔
فارسی گوئی سے طوطا رام عاصی کے شغف کو دیکھتے ہوئے یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ اس چھوٹے سے دیوان میں فارسی غزلیں بھی ہیں۔ سمدھن کو گالیاں فارسی میں دی جائیں، یہ ضرور تعجب کی بات ہے۔شمالی ہندوستان کے ہندو مسلمانوں میں شادی کے موقعے پر سمدھن (اور اسی اعتبار سے سمدھیانے والوں، بشمول نوشہ) کے "استقبال” میں گالی گانے کی رسم بہت عام ہے۔ممکن ہے یہ جنوب میں بھی ہو،لیکن میں نے بھوپال کے علاقے میں ایک دلچسپ رسم کے بارے میں سنا تھا کہ شادی کے موقعے پر کوئی مناسب وقت دیکھ کر عورتیں جمع ہوتی ہیں اور مردوں کے لہجے میں (یعنی اپنے لیے صیغۂ مذکراستعمال کرتے ہوئے) سمدھیانے والوں کے حوالے سے آپس میں فحش گفتگو کرتی ہیں، اور ممکن ہے خود سمدھیانے والیاں بھی شریک محفل ہوتی ہوں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے،یہ رسم ان علاقوں کے ہندو مسلمانوں میں عام ہے۔
دوسری بات یہ کہ زیر نظر دیوان میں لکھا ہوا ہے کہ "طفلاں ” یہ غزل گاتے ہیں۔ پھر یہ بھی درج ہے کہ یہ کلام "خوشنودی طفلاں ” کے لئے کبھی کبھی "بنام طفلاں ” کہا گیا تھا۔ میرے لڑکپن میں فحش گالیاں دیہاتی عورتیں دیہاتی شادیوں میں گاتی تھیں۔ (ان گانوں کی حیثیت ایک صنف کی تھی اور اس صنف کو بھی "گالی” کہتے تھے اور اس کی خاص دھنیں ہوتی تھیں۔ )شہر کی شادیوں میں مجھے یاد نہیں کہ فحش گالیوں یا فحش ہنسی مذاق کی باتوں کادستور رہا ہو۔اگر تھا تو یہ کارروائی ہم "طفلاں ” سے خفیہ رکھی جاتی تھی۔ظرافت پر مبنی گانے بھی عورتیں گاتی تھیں، اور شاید کبھی لڑکیاں بھی شریک کر لی جاتی ہوں۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ گانے جیسے بھی رہے ہوں ان میں شوخ کلام کچھ بہت شوخ نہ ہوتا تھا۔اس صورت میں یہ بات دلچسپ اور استعجاب انگیز ہے کہ زیر نظر دیوان میں سارا کلام،خواہ اردو اور خواہ فارسی،بہت شوخ ہے۔ "طفلاں ” سے مراد لڑکے ہی ہوں گے جو اس کلام کو گاتے ہوں گے۔(دیوان زیر نظر میں لفظ”خوانند” ہے، "سرایند” نہیں، لہٰذا ان غزلوں کو تحت لفظ یا ترنم سے پڑھا جاتا ہو گا۔)چونکہ "برادری” کا بھی ذکر ہے،اس لیے ممکن ہے کہ یہ پڑھنا (یا گانا )گھر کی خاص محفلوں میں ہوتا ہوگا اور کسی باہری، یا کم مرتبہ شخص کو اس میں شریک نہ کیا جاتا ہوگا۔گانے والے،یا سنانے والے،لڑکے رہے ہوں گے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ اشعار میں لڑکوں کے نام بطور تخلص یا بطور متکلم آئے ہیں، مثلاً ؎
دل سے رہتی ہے چیت رام کے ساتھ
خواب میں آتی ہے ہر دم پاس گوبند رام کے
گھر کو ظاہر میں گو گئی سمدھن
دولت بیدار شاید پا گئی نوشہ کی ماں
یہ اردو زبان کی شان ہے کہ اس میں ایسا کلام بھی لکھا گیا اور اسے محفوظ رکھا گیا۔ہم میں سے کچھ لوگ اب بھی اس خیال کے ہیں کہ اردو میں "عوامی ادب” نہیں ہے اور اردو صرف شہریوں کی زبان رہی ہے۔”عوامی ادب”کی اصطلاح بے معنی ہے،لیکن یہ بات غور کے لائق ہے کہ جس صنف کو صرف "عوام” سے متعلق سمجھا گیا ہے اس میں بہت کچھ کلام "خواص” اور وہ بھی شہر کے "خواص”کا لکھا ہوا ہے۔ایسی صورت میں "عوامی” اور "خواصی”[اشرافیہ] کی تفریق بے معنی ہو جاتی ہے۔ہماری زبان کی بڑائی یہ ہے کہ گالی جیسے "عامیانہ” فعل کو بھی ہم لوگوں نے فن بنا دیا۔ طوطا رام عاصی کے زیر نظر دیوان میں ظرافت،خوش طبعی،طباعی،طنز،مضمون آفرینی، سب کچھ موجود ہے۔علاوہ بریں، ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عورتوں کا ذکر ان اشعار میں اس نہج سے ہوتا تھا کہ وہ بڑی خوبصورت، کھائی کھیلی ہوئی،ہر چیز پر تیار، معشوق صفت ہیں، تو اس سے ان کی تعریف بھی مقصود ہوتی تھی۔یعنی سمدھن اتنی عمر کی ہونے پر بھی معشوقی کا رنگ رکھتی ہے،یا یہ کہ دولہے کی بہن کا حسن لائق تحسین ہے،خواہ اس کے چلن کیسے ہی ہوں۔ ان اشعار میں کنایہ یہ ہے کہ یہ سب عورتیں مطلوبی اور معشوقی کے درجے پر فائز ہیں۔ حقیقت میں خواہ ایسا نہ ہو،لیکن توقع کی جاتی تھی کہ عورتیں اپنی مطلوبی اور معشوقی کے تذکرے سن کر خوش ہوں گی۔
انتخاب کلام
(1)
آج جو پہنے تھی زرتار کی ساری سمدھن
دیکھتے ہی لگی دل کو مرے پیاری سمدھن
سب براتی ہیں ملاقات کے طالب راضی
ایک شب میں کرے کس کس کو بچاری سمدھن
شیشہ لے بزم میں آسب کو دے بھر بھر پیالی
چشمۂ فیض کرے خلق میں جاری سمدھن
ملاقات=ہم بستری؛تیسرے شعر میں "بزم میں آسب کو دے”کا اشارہ دلچسپ ہے۔عورت کے اندام نہانی کی چشمہ یا نہر سے تشبیہ کئی ادبی تہذیبوں میں ملتی ہے۔
(2)
ہو دیکھی جس نے وہ نغزک کی قاش سمدھن کی
رہے وہ خواب میں کب بے تلاش سمدھن کی
خدا کے واسطے کر دو مری خبر جلدی
کوئی دو گانہ جو ہو یار باش سمدھن کی
نہیں مساس کیا گر نشے میں یاروں نے
تو کیوں یہ چولی ہوئی پاش پاش سمدھن کی
ہے کھل کے ملنے لگی کس طرح حریفوں سے
مبادا ہووے چھپی بات فاش سمدھن کی
نغزک=آم کی ایک قسم؛نغزک کی قاش=کنایہ از اندام نہانی؛دوسرے شعر کی متکلم شاید کوئی عورت ہے،کیونکہ مضمون میں ہم جنسی کا اشارہ ہے۔
(3)
ہنستی پھرتی سر بازار تھی ماں نوشہ کی
بادۂ حسن سے سرشار تھی ماں نوشہ کی
3
صاحب حسن ہوئی جب سے جنا نوشہ کو
چھٹپنے میں تو بہت خوار تھی ماں نوشہ کی
جس نے دیکھا ہو اسے طفلی میں وہ ہی جانے
کیا ہی عیار طرح دار تھی ماں نوشہ کی
تھی نہ پہچانتی سمدھی سے جدا یاروں کو
مستی میں کام کی ہشیار تھی ماں نوشہ کی
دوسرے شعر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بے اولاد کی عورت خواہ کتنی ہی حسین ہو،اس کی قدر اس عورت سے کم ہوتی تھی جس کے اولاد،اور خاص کر بیٹا ہو؛ چوتھے شعر میں مستی=شہوت،”کام” میں ایہام ہے۔
(4)
سب دلبروں سے پیاری ہے نوشے کی والدہ
کیا چت لگن ہماری ہے نوشے کی والدہ
خوش رنگ سینہ سنگ دہن تنگ شوخ و شنگ
جوں غنچۂ بہاری ہے نوشے کی والدہ
اب تک ہے گلی ڈنڈے جوانوں میں کھیلتی
ماں باپ کی دلاری ہے نوشے کی والدہ
خورشید سی شفق میں چمکتی ہے وقت شام
پہنے جو سوہی ساری ہے نوشے کی والدہ
چت لگن=دل کو اچھی لگنے والی؛تیسرے شعر میں جوانوں کے ساتھ گلی ڈنڈے کھیلنے کے مضمون میں فحش اشارہ دلچسپ ہے ؛سوہی=خوبصورت،عمدہ۔
(5)
کل دیکھی جو کوٹھے پہ کھڑی مادر نوشہ
زیور سے سراپا تھی جڑی مادر نوشہ
پھسلا جو ذرا پاؤں مری گود میں ناگاہ
مانند پری ٹوٹ پڑی مادر نوشہ
کیا لطف ہوا روٹھ کے آسوئی مرے پاس
مے پی کے جو سمدھی سے لڑی مادر نوشہ
خدمت سے دوبارہ مری تسکیں نہیں اس کو
ہے تیسری صحبت کو اڑی مادر نوشہ
مطلعے میں "کوٹھے پہ کھڑی” کا کنایہ ظاہر ہے؛ آخری شعر میں "خدمت”میں جو اشارہ تھا وہ لفظ "صحبت” کے ایہام سے مزید پر لطف ہو گیا۔
(6)
پری ہے حور ہے نوشے کی چچی
طلسم نور ہے نوشے کی چچی
خدا کے واسطے یارو نہ چھیڑو
نشے میں چور ہے نوشے کی چچی
نہ دیکھیں خواب میں ہم جانب حور
ہمیں منظور ہے نوشے کی چچی
بحمد اللہ کہ خدمت سے ہماری
بہت مسرور ہے نوشے کی چچی
چچی کا تلفظ بر وزن فَعَل کے بجائے عام لہجے کے لحاظ سے بر وزن فع لن رکھا ہے جس سے اشعار میں بے تکلفی بڑھ گئی ہے؛ تیرے شعر میں "دیکھیں ” اور "منظور” کی رعایت خوب ہے۔
(7)
شب جو مستی میں اکیلی آ گئی نوشے کی ماں
گرچہ سیانی تھی پہ دھوکا کھا گئی نوشے کی ماں
ولولے سے شوق کے لپٹی جو عاشق ہو کے تنگ
سیوتی کے پھول سی مرجھا گئی نوشے کی ماں
عشق پیچاں کی طرح لپٹی تو کھول آغوش پھر
دھوپ کھا کر بیل سی مرجھا گئی نوشے کی ماں
پاس سے اٹھتے جو دیکھا گھیرا لونڈوں نے اسے
بوسہ دے ہر ایک کو پھسلا گئی نوشے کی ماں
آخری شعر میں کنایہ یہ ہے کہ "لونڈوں گھیری” اس عمر رسیدہ عورت کو کہتے ہیں جو نوجوانوں میں اٹھنے بیٹھنے کی شائق ہو۔ردیف میں گالی کا پہلو نظر انداز نہ ہونا چاہیے۔
کئی غزلیں نوشے کی پھوپھی،خالہ، بہن وغیرہ کے بارے میں بھی ہیں، لیکن ان میں کوئی خاص بات نہیں۔ فارسی غزلیں بھی ہیں اور انھیں مضامین پر مبنی ہیں۔ ایک فارسی غزل البتہ نوشہ کی "جدہ” یعنی دادی پر ہے۔ مضامین سب وہی ہیں، لیکن ایک شعر بہت برجستہ ہے۔ مضمون بھی خوب ہے کہ ابھی درخواست وصل کی نہیں ہو رہی ہے،صرف "اذن عام” کی درخواست ہے،یعنی کچھ خاص لوگوں کو تو اذن ہے ہی، طلبگاروں کا تقاضا ہے کہ اذن خاص کو اذن عام سے بدلا جائے ؎
خوشا وقتے کہ بہر اذ ن عام خلوت یک شب
نہادے ہر جوانے سر بہ پائے جدۂ نوشہ
آخری تین صفحات پر کچھ فارسی غزلیں، بہاریہ اور تہنیت کے رنگ میں ہیں۔ یہ عاصی کے کلام سے منتخب کی گئی ہیں اور انتخاب غالباً اس کتاب کے مرتب نے کیا ہے۔عاصی کے فارسی کلام میں شستگی ہے،لیکن مضمون آفرینی بہت نہیں۔
٭٭٭
شمشاد لکھنوی – تعارف، انتخاب کلام و شرح
مولوی عبدالاحد شمشاد لکھنوی کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں، یا یوں کہیں کہ میں بہت کم جانتا ہوں۔ ان کا نام پہلی بار میں نے شاید حضرت شاہ عبد العلیم آسی سکندر پوری (1834 تا1917) کے شاگرد رشید کی حیثیت سے سنا۔اس سے معلوم ہوا کہ ان کی شاعرانہ نسبت بہت قوی تھی۔آسی سکندر پوری کے استاد شاہ غلام اعظم افضل الٰہ آباد ی (1810تا1858) ناسخ کے ارشد شاگردوں میں تھے۔
اس طرح شمشاد لکھنوی دو داسطوں سے ناسخ کے شاگرد تھے۔لیکن شمشاد لکھنوی کا کلا م میری دسترس میں نہ تھا۔کئی سال بعد مجھے شمس الدین فقیر کی "حدائق البلاغت”کا ایک نسخہ حاصل ہوا جس پر شمشاد لکھنوی کے نہایت عالمانہ حاشیے”نہر الافاضۃ” نام سے تھے۔”حدائق البلاغت” مع”نہر الافاضۃ” کا جو نسخہ مجھے ملا وہ مفید عام پریس لکھنؤ سے1913میں چھپا تھا۔
"حدائق البلاغت”(سال تصنیف 1754/1755)کی بات نکلی ہے تو یہ بھی عرض کر دوں کہ اس کتاب کے جتنے نسخے میرے پاس ہیں، سب کی کچھ نہ کچھ خصوصیت ہے۔سب سے پرانا نسخہ نستعلیق ٹائپ میں کولکاتا سے1813 میں چھپا تھا۔پہلا صفحہ نہ ہونے کی وجہ سے پریس کا نام نہیں معلوم،لیکن نستعلیق ٹائپ کی کچھ اور کتابیں میں نے فورٹ ولیم کالج کی چھپی ہوئی میں نے دیکھی ہیں۔ اس کتاب کا ٹائپ بالکل ویسا ہی ہے۔لہٰذا یہ نسخہ وہیں کا مطبوعہ ہوگا۔دوسرا نسخہ نول کشور پریس پٹیالہ کا مطبوعہ ہے۔نول کشور پریس پٹیالہ کی کتابیں بہت کم یاب ہیں۔ افسوس کہ اس نسخے پر تاریخ نہیں ہے۔تیسرا نسخہ امام بخش صہبائی کا اردو ترجمہ ہے۔صہبائی نے اپنا ترجمہ (بلکہ تالیف،کیونکہ انھوں نے عربی فارسی کے بجائے اردو اشعار کی مثالیں درج کی ہیں اور متن کی پابندی ہر جگہ نہیں کی ہے) 1844میں مکمل کیا۔میرے پاس جو نسخہ ہے وہ نول کشور پریس کانپور کا مطبوعہ ہے (1915)۔آخری بات اطلاعاً عرض ہے کہ ہندوستان میں علم بدیع و بیان پر جتنی کتابیں فارسی میں لکھی گئیں، ان میں شمس الدین فقیر کی "حدائق البلاغت” شاید سب سے زیادہ مستند ہے۔
شمشاد لکھنوی کا دیوان کب میرے ہاتھ آیا،یہ مجھے یاد نہیں کیونکہ میں نے اس پر اپنے دستخط تو کیے لیکن تاریخ کہیں نہیں درج کی۔جیسا کہ میرا اندازہ تھا، شمشاد لکھنوی کا کلام نہایت پختہ اور شگفتہ ہے۔ان کا دیوان ہاتھ آنے کے پہلے مجھے ان کے بارے میں صرف اتنا اور معلوم تھا کہ وہ مدرسۂ چشمۂ رحمت غازی پور میں مدت دراز تک صدر مدرس رہے اور 1917 میں شاید وہیں مرے اور وہیں مدفون ہیں۔ ان کے دیوان "خزانۂ خیال” سے تاریخ1304بر آمد ہوتی ہے۔اس پر تاریخ اشاعت جولائی1887 درج ہے۔ یہ دیوان محمد نثارحسین نثار جو مشہور رسالے "پیام یار” کے مدیر تھے،ان کے اہتمام سے قومی پریس لکھنؤ میں چھپا تھا۔اگر شمشاد لکھنوی نے کوئی اور دیوان چھوڑا تو مجھے اس کی خبر نہیں۔
دیوان شمشاد لکھنوی میں کثرت سے تاریخیں درج ہیں۔ ان میں سے بہت سی خود شمشاد لکھنوی نے کہی ہیں۔ ان تاریخوں اور کچھ تقاریظ سے شمشاد کی مہارت تاریخ گوئی کے علاوہ خود ان کی زندگی کے بارے میں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ شمشاد لکھنوی فرنگی محلی تھے،وہ اپنے باپ مولوی محمد عبد الحلیم فرنگی محلی کے دوسرے بیٹے تھے۔پہلے وہ قلق (غالباً آفتاب الدولہ قلق لکھنوی،وفات 1879) کے شاگرد تھے۔بعد میں انھوں نے حضرت آسی سے سلسلۂ تلمذ باندھا اور یقین ہے کہ آخر تک انھیں کے شاگرد رہے۔دیوان میں مندرج تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمشاد1282مطابق1865میں غازی پور آئے اور 1874میں ان کی شادی ہوئی۔اس سے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ1850کے آس پاس پیدا ہوئے ہوں گے کیونکہ ان کے قطعۂ تاریخ آمد غازی پور سے کچھ اشارہ ملتا ہے کہ وہ تعلیم کی غرض سے غازی پور آئے تھے۔یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی(1863تا1904) جو اپنے وقت کے جید عربی فارسی کے استاد اور علم حدیث و تفسیر میں بھی ماہر تھے،شمشاد لکھنوی کے شاگرد تھے۔ان کی کچھ تقریباً نایاب اگرچہ مختصر کتابیں، "اصلاح مع ایضاح” اور "ازاحۃ الاغلاط” میرے پاس ہیں۔ تینوں لغت اور لسان اور علم شعر سے متعلق ہیں۔ اول الذکر کو یو۔پی۔اردو اکیڈمی نے شائع کر دیا تھا لیکن اب وہ بھی کمیاب ہے۔
شمشاد لکھنوی کا کلام میری حسب توقع ناسخ کے رنگ خیال بندی(یعنی تجریدی اور دور کے مضامین باندھنا) کی اچھی مثال نکلا۔لیکن شمشاد کی شاعری میں ایک بات ایسی ہے جو انھیں اپنے معاصروں میں ممتاز کرتی ہے۔یعنی ان کے یہاں مومن کی سی نازک خیالی بھی ہے۔یعنی مومن کی طرح ان کے یہاں بھی اکثر مضامین بالکل معمولی ہیں اور محدود ہیں لیکن وہ انھیں ہر بار کسی نہ کسی تازہ انداز سے یا نئے لہجے میں باندھتے ہیں۔ مومن کے مضامین کی فہرست بنائیے تو بس وعدہ خلافی، آہ، ضبط آہ،وصال کی تمنا، رشک،اغیار کی شکایت، اس طرح کے نہایت رسمی مضامین نکلیں گے۔لیکن ہر شعر پھر بھی دلکش اور تازہ معلوم ہوتا ہے۔در اصل یہی نازک خیالی ہے۔اس کا کچھ زیادہ تعلق خیال بندی سے نہیں ہے،لیکن خیال بند شعرا کو نازک خیالی سے بھی طوع و رغبت ہوتی ہے۔غالب نے اسی لیے مومن کو معنی آفریں کہا تھا۔
غزلیات
(1)
جوہر تیغ ادا شمشیر آہن میں نہ تھا
زہر جو چوٹی میں تھا ہر گز وہ ناگن میں نہ تھا
وہ جو بہر فاتحہ آیا قیامت آ گئی
ایک مردہ چین سے دیکھا تو مدفن میں نہ تھا
٭
دیکھنا شاید کہ میرا دل ہو وہ اے چارہ گر
نقطۂ خوں بستہ اک طرف خط سوزن میں تھا
کیوں مرے زخم جگر سینے میں گتھی پڑ گئی
رشتۂ جان عدو کیا رشتۂ سوزن میں تھا
کیا قیامت تھا یہ رخنہ سینے کا اے چارہ گر
آفتاب حشر مثل ذرہ اس روزن میں تھا
افسر عالم جو سر تھا اس کو کاٹا بے دھڑک
کیا فلک کا نفس ناطق شمر ذی الجوشن میں تھا
شعر 1:طرف خط سوزن =سوئی کی سرا، یعنی اس کی نوک ۔دل کو سوئی کی نوک کے ایک طرف ٹکا ہوا ایک قطرۂ خوں بستہ کہنا نہایت نادر بات ہے،اور یہ بھی کہ چارہ گر تو زخم دل کو سینے کے لیے آیا تھا لیکن زخم کی سلائی میں دل ہی نکل گیا۔نقطہ اور خط میں ضلع کا لطف ہے۔
شعر2:رشتۂ جان عدو اور رشتۂ سوزن کیا خوب ہے۔زخم اور سینے میں ضلع کا لطف بھی ہے۔
شعر 3:افسر اور سر کی رعایت ظاہر ہے۔ افسر کے مجازی معنی بھی” سر”ہیں۔
شعر4:رخنہ اور سینے میں ضلع کا لطف ہے۔ ناسخ کا یہ مطلع بھی ذہن میں لائیے ؎
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
شمشاد نے ناسخ کے مضمون کو بلند تر کر دیا کہ میرے سینے کے چاک(روزن،اور روزن میں ذرہ ہوتا ہی ہے)کا ایک ذرہ آفتاب صبح محشر تھا۔
شعر 5۔شمر لعین کے باطن میں فلک کے نفس ناطق کا ہونا غیر معمولی بات ہے اور بڑی جرأت کی بات ہے۔آج کوئی شاعر ایسی ہمت نہیں کر سکتا۔قافیہ نہایت نادر ہے۔
(2)
تو ہی کھولے جسے ایسی گرہ دل دینا
اے مرے عقدہ کشا عقدۂ مشکل دینا
رات دن تازگی زخم غم دل دینا
کشت زار ہوس درد میں حاصل دینا
اے فلک خوب اگیں دانۂ زنجیر جنوں
کشت امید میں آب چہ بابل دینا
کس سے سیکھے ہو مری جان چرا کر آنکھیں
زخم شمشیر نگہ بر سر غافل دینا
یہ غزل شاہ آسی کی مشہور زمین میں ہے۔دو شعر ان کے سنئے ؎
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منھ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں
کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا
مطلع :استاد کے مطلعے میں کیفیت زیادہ ہے لیکن شاگرد کا مطلع خیال بندی اور نازک خیالی دونوں کا شاہکار ہے۔دل کو گرہ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
شعر 3۔ ایک رقاصہ زہرہ کے عشق میں دو فرشتے دیوانے ہو گئے تھے۔ بطور سزائے الٰہی انھیں چاہ بابل میں الٹا لٹکا دیا گیا۔
(3)
کیا ہوا تجھ سے جو گل بلبل نالاں چھوٹا
جائے عبرت تو یہ ہے گل سے گلستاں چھوٹا
تو وہ قحبہ ہے جو آغوش میں تیرے آیا
تا قیامت نہ پھر اے گور غریباں چھوٹا
شعر 2۔قبر کو آغوش قحبہ سے تشبیہ دینا بہت بدیعی بات ہے۔اس بات کا پورا ثبوت بھی ہے کہ قبر کی آغوش سے کوئی نکلتا نہیں،کیونکہ بات گور غریباں،یعنی بے گھر اور اجنبی لوگوں کی قبر کی ہے۔انھیں بھلا کون قبر سے نکال کر ان کے وطن لے جانے کی زحمت کرے گا۔
(4)
اس سمت سے گذر ہو جو اس شہسوار کا
تعظیم دے غبار ہمارے مزار کا
پھیلا جنوں میں جامۂ ہستی کی سمت ہاتھ
ممنون کب ہوں جیب و گریباں کے تار کا
قاصد تڑپ کے ہاتھ سے نامہ نکل نہ جائے
لکھا ہے اس میں حال دل بے قرار کا
سبزے کے بدلے تیغ دو دم قبر سے اگے
کشتہ ہوں میں جٹے ہوئے ابروئے یار کا
(5)
دیکھئے دل کی کشش سے وہ ادھر آتے ہیں آج
یا ہمیں گھبرا کے اس جانب چلے جاتے ہیں آج
جان دے کراب لحد میں کیوں نہ پچھتانا پڑے
حشر پر موقوف اٹھنا اور وہ آتے ہیں آج
کیا کسی کی آتش فرقت بجھانی ہے انھیں
سردئی اپنا دوپٹہ کیوں وہ رنگواتے ہیں آج
چھین کر آدم سے جنت کیا ملا تھا کل انھیں
اپنے کوچے سے جو ہم کو بھی نکلواتے ہیں آج
شعر 2:آتے ہیں آج=وہ آج آنے والے ہیں۔
شعر 3:سردئی=سبزی مائل زرد ۔آتش اور سردئی کی رعایت بھی پر لطف ہے۔قافیہ بھی نادر ہے۔
شعر4:اس شعر کی شوخی حیرت انگیز ہے۔
(6)
شیخ کو عقبیٰ کی خواہش رند کو دنیا پسند
مرد کامل ہے وہی جس کو ہوں دونوں ناپسند
اے برہمن آب و آتش میں بتا کیا ربط ہے
بعد مردن کیوں کیا سوز لب دریا پسند
دل کو کیا بھائے مرقع مانی و بہزاد کا
ہم ہیں شاعر ہم کو ہوتے ہیں بت گویا پسند
سوز=جلنا۔
(7)
کیا خوش نما ہے دل سے ترے غم کی چھیڑ چھاڑ
کیا لطف دے رہی ہے یہ باہم کی چھیڑ چھاڑ
اس کی گلی میں کیوں نہ ستائے مجھے رقیب
شیطان سے نہ جائے گی آدم کی چھیڑ چھاڑ
(8)
خدا سے مانگتا اک دوسرا دل
جو ملتا بے غرض بے مدعا دل
اڑاتا خوب سوداے ہوس میں
جو کچھ پاتا بھی نقد مدعا دل
وفور بے خودی سے وصل کی شب
تمھیں مطلق نہیں پہچانتا دل
نشان کوے دلبر سن لے قاصد
پڑے ہیں اس گلی میں جا بجا دل
خدائی کا اگر کرنا ہے دعویٰ
بتوں کو چاہیئے حاجت روا دل
(9)
کفر ہم ایمان ہم تسبیح ہم زنار ہم
پردۂ اسرار رمز و پردۂ اسرار ہم
آج نوک خار غربت آبلوں کے منہ میں ہے
وہ بھی دن ہوں گے کہ چوسیں گے زبان یار ہم
اس کے ہوتے سوے طفل برہمن کیوں دیکھتے
کیا رگ جاں سے ملا تے رشتۂ زنار ہم
کیا عجب دم میں فنا ہو صورت قصر حباب
چرخ کو بھی دیکھتے ہیں بے درو دیوار ہم
شعر4۔حباب کو قصر کہنا اور آسمان کو بھی حباب ٹھہرانا خیال بند شاعر ہی سے ممکن تھا۔محل کو قصر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں داخلہ ممنوع یا مشکل ہوتا ہے۔بلبلے میں داخلہ غیر ممکن ہے۔
(10)
قطرہ تو سمندر میں ہے میں کس میں نہاں ہوں
کھلتا ہی نہیں بھید کہ میں کیا ہوں کہاں ہوں
عالم ہے اگر نام تری جلوہ گری کا
کیا عیب جو میں شیفتۂ طرز جہاں ہوں
در اصل نہیں مجھ میں کوئی اور نمائش
ہاں ذرہ صفت مہر درخشاں سے عیاں ہوں
میر کی غزل آپ کے ذہن میں ہو تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میر کے یہاں بھی خیال بندی کی جھلک مل جاتی ہے،لیکن میر یہاں معنی زیادہ ہیں ، اور زور بھی بہت وافر ہے ۔
(11)
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
(12)
ہیں نہیں سادے ہمیں تو ان کے گھر جاتے ہیں کیوں
اور اگر جاتے ہیں تو دل دے کے پچھتاتے ہیں کیوں
بال و پر بیضے میں کب ممکن ہیں طائر کے لئے
زیر گردوں ہم پئے شہرت مرے جاتے ہیں کیوں
جب کہ یاران کہن ہیں باعث آرام روح
پھر تپ کہنہ سے اکثر لوگ مر جاتے ہیں کیوں
شعر 2۔ زیر فلک تنگی کا مضمون فارسی اور اردو کے خیال بند شعرا نے باندھا ہے۔لیکن زمین آسمان کو ملا کر ایک بیضہ کہنا، اور پھر اس مضمون کو اس طرف لے جانا کہ طائر جب تک بیضے میں ہوتا ہے اس کے بال و پر نہیں ہوتے،نہایت لطیف بات ہے۔پھر شہرت کا ذکر کر کے بات اور بھی عمدہ کر دی کیونکہ شہرت پر لگا کر اڑتی ہے،یہ مشہور روز مرہ ہے۔
(13)
ہے جو دانا عاشق زلف پری پیکر نہ ہو
دیدہ و دانستہ اے دل طعمۂ اژدر نہ ہو
بار ہیں عکس رگ سنبل کی مجھ پر بیڑیاں
زلف کے سودے میں اس درجہ کوئی لاغر نہ ہو
ابروئے قاتل کا نقشہ کھینچنا ممکن نہیں
مو قلم میں صرف جب تار دم خنجر نہ ہو
مطلع۔دانا اور طعمہ کا ضلع خوب ہے۔
شعر 3۔دم خنجر =خنجر کی دھار۔اور جب دھار ہے تو تار بھی ہوگا (جیسے پانی کی دھار،اور خنجر میں آب= چمک، تیزی بھی ہوتی ہے۔)خیال بندی ہو تو ایسی ہو۔
(14)
شرح لکھی ہے جو خط نے صفحۂ رخسار پر
مصرع برجستۂ کاکل مگر پیچیدہ ہے
اشک بے تاثیر سے کھلتا نہیں مضمون عشق
صفحۂ چشم بو الہوس کاغذ نم دیدہ ہے
تو اگر ہے سرو موزوں میں ہوں شمشاد رواں
تیرے مصرعے پر میرا مصرع بہت چسپیدہ ہے
یہ غزل بھی آسی سکندر پوری کی ایک بے حد مشہور زمین میں ہے۔دو شعر آپ بھی ملاحظہ کریں ؎
وصل ہے پر دل میں اب تک ذوق غم پیچیدہ ہے
بلبلہ ہے عین دریا میں مگر نم دیدہ ہے
بے حجابی وہ کہ ہر شے میں ہے جلوہ آشکار
گھونگھٹ اس پر یہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے
استاد کی غزل خیال بندی میں تصوف کا طرز نبھانے کے لحاظ سے ایک معجزے کا حکم رکھتی ہے،اور پھر سب شعر بھر پور مع ثبوت ہیں۔شمشاد وہاں تک کہاں پہنچتے، لیکن پھر بھی دوسرا شعر بہت خوب کہا۔مقطع میں یہ حسن ہے کہ سرو کی طرح شمشاد کو بھی قد معشوق سے تشبیہ دیتے ہیں اور سرو رواں کی طرح شمشاد رواں بھی مستعمل ہے اور سرو اور شمشاد کو معشوق کے قد سے مناسبت ہونے کی وجہ سے انھیں بھی موزوں کہتے ہیں،کیوں کہ موزوں ہونا قد کی صفت ہے۔ علاوہ بریں ،روانی شعر کی ایک بہت بڑی صفت بھی ہے۔
(15)
اے گل نو خیز تجھ سے اوس سب پر پڑ گئی
نو عروسان گلستاں پر بہار آنے کو تھی
شیخ جی اب کیا پئیں ہو گئی جب مہنگی شراب
پیتے تھے وہ خم کے خم جب تین چار آنے کو تھی
کچھ وہ سمجھے دل میں کچھ ہم بات یوں ہی رہ گئی
ورنہ کیا کیا گفتگو روز شمار آنے کو تھی
شعر 2۔قافیہ اور مضمون ،دونوں کی شوخی کمال کی ہیں۔
(16)
تصور کھینچتا ہے جو ہمارے دل کے صفحے پر
نہ وہ تصویر عکسی ہے نہ وہ تصویر دستی ہے
نہیں وہ دیکھ سکتے مفلسوںکو اپنی حالت پر
خداوندان نعمت کی یہ کیا کم سرپرستی ہے
تصویر عکسی=فوٹوگراف؛ تصویر دستی= جو تصویر مصور نے بنائی ہو۔
شعر2۔”اپنی حالت” سے مراد "اپنی جیسی تونگری کی حالت”۔خوب بات نکالی۔
(17)
مجھے جیسے عشق کمر ہو گیا ہے
مرا جسم تار نظر ہو گیا ہے
جو موہوم وہ ہے تو معدوم یہ بھی
تن لاغر ان کی کمر ہو گیا ہے
مرے طفل اشک آج کیوں مضمحل ہیں
کسی کی نظر کا اثر ہو گیا ہے
تن زار پر رحم اے سیل گریہ
پرانا یہ مٹی کا گھر ہو گیا ہے
شعر 3۔اشک یا آنسو کو طفل سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ مچلنا دونوں کی صفت ہے۔یہاں یہ لطف ہے کہ طفل اشک بھی آنکھ سے نکلتے ہیں اور نظر بھی آنکھ ہی سے لگتی ہے۔ممکن ہے اپنی ہی نظر ہو۔
(18)
کبھی ہم شوخی طبع جواں تھے
کبھی ہم حرص پیر ناتواں تھے
کبھی ہم تھے مسیحائے زمانہ
کبھی ہم کشتۂ لعل بتاں تھے
کبھی تھے بادۂ ہستی کی وحدت
کبھی درد خمار این و آں تھے
کبھی تھے آفتاب عالم آرا
کبھی ہم ذرۂ ریگ رواں تھے
کبھی تھے رونق بازار ایجاد
کبھی ہم گنج اسرار نہاں تھے
کبھی تھے دیر میں فریاد ناقوس
کبھی مسجد میں ہم بانگ اذاں تھے
ہماری بھی کبھی بھاتی تھیں باتیں
کبھی مشہور ہم بھی خوش بیاں تھے
کمال کی غزل کہی ہے۔ میں نے اختصار کی غرض سے کئی شعر چھوڑ دیے ہیں۔ انسانی صورت حال کی دو رنگی اور اس کے تلون اور انسان کے باطن میں تضادات کا جوش، یہ سب بے حد قوت اور ساتھ ہی ساتھ محزونی سے بیان ہوئے ہیں۔اصلی شاعری اور جعلی شاعری کا فرق دیکھنا ہو تو جوش صاحب کی نظم "شاعر کا دل”ملاحظہ کیجئے۔میں پوری نظم نقل کرتا ہوں۔پہلا ہی مصرع ایسا ہے گویا مرغا بانگ دے رہا ہوں۔اور آخری دو شعر ایسے ہیں گویا کوئی پولیس والا کسی لفنگے کو ڈانٹ رہا ہو۔شمشاد کے ہر شعر میں بات مکمل ہے اور امکانات انسانی کی حامل ہے۔جوش صاحب کے یہاں صرف بے لطف مبالغہ ہے اور اتنی مختصر نظم میں بھی آخری دو شعر فضول ہیں۔
شاعر کا دل
جوش ملیح آبادی
کبھی دل فخر سے دیتا ہے آواز
کہ اک تنکے سے ہلکا آسماں ہے
کبھی فریاد کرتا ہے کہ مجھ پر
نفس کا ثقل بھی کوہ گراں ہے
کبھی ہر ذرۂ خاکی کا محکوم
کبھی شمس و قمر پر حکمراں ہے
کہیں ہے کامراں ہو کر بھی ناکام
کبھی ناکام ہو کر کامراں ہے
کبھی لطف خداوندی سے مغموم
کبھی جور بتاں سے شادماں ہے
کبھی مژگاں کی جنبش سے کہن سال
کبھی صدیوں کی کاوش سے جواں ہے
سن اے غافل کہ جس دل کے ہیں یہ طور
وہ دل ہم شاعروں کا آشیاں ہے
دماغوں پر کھلیں ہم کیا کہ ہم کو
وہ سمجھے گا جو دل کا راز داں ہے
٭٭٭
رباعیات
شمشاد لکھنوی کی اکثر رباعیاں خیال بندی کے عالم سے ہیں،لیکن ان کا کمال ان رباعیوں میں خوب کھلا ہے جہاں انھوں نے معشوق کے عیب کو حسن بنا کر پیش کیا ہے۔
درحسن تعلیل تنگی چشم
اب ذکر تمھارا ہے وظیفہ اپنا
الفت میں ہے کچھ اور طریقہ اپنا
آنکھیں در اصل ہیں چھوٹی چھوٹی
یا شرم سے روکتے ہو غمزہ اپنا
٭٭
دیگر درحسن تعلیل تنگی چشم
ہے قد سہی کہ نخل گلزار جناں
میوے جنت کے ہیں کہ نار پستاں
تنگ آنکھیں یا نیم شگفتہ نرگس
کلیاں بیلے کی ہیں کہ سلک دنداں
٭٭
در حسن تعلیل داغ ہائے چیچک
ہر عضو بدن ہے عاشقوں کے دلخواہ
کیا حسن ہے کیا رنگ ہے ماشاء اللہ
چیچک کے نہیں داغ رخ روشن پر
اکھڑے ہیں نزاکت کے سبب پائے نگاہ
٭٭
دیگر در حسن تعلیل تنگی چشم
اس نے کب مجھ سے گرم جوشی کی ہے
میں نے شمشاد سر فروشی کی ہے
دراصل نہیں یہ اس کی آنکھیں چھوٹی
عاشق سے شروع چشم پوشی کی ہے
٭٭
دیگر در حسن تعلیل داغ ہائے چیچک
صورت کوئی آ کے اس پری کی دیکھے
رنگت گوری تو گال پھولے پھولے
کب آئینۂ رخ میں ہیں داغ چیچک
ہیں عکس ہجوم مردمک کے دھبے
٭٭
معشوق کے عیب کو خوبی بنا کر پیش کرنا، خیال بند شعرا کے سوا کس کو ایسی بات سوجھ سکتی ہے؟ اس ضمن میں پہل شاید کمال اسمٰعیل نے کی (شاید ایسی ہی باتوں کی وجہ سے اسے "خلاق المعانی”=مضامین کو خلق کرنے والا) کہا جاتا ہے۔کانے معشوق پر اس کی رباعی ملاحظہ ہو ؎
داری ز پئے چشم بد اے در خوش آب
یک نرگس نا شگفتہ در زیر نقاب
ویں از ہمہ طرفہ تر کہ از بادۂ حسن
یک چشم تو مست است و دگر چشم بخواب
نرگس نیم شگفتہ کا مضمون شمشاد نے شاید یہیں سے لیا تھا۔لیکن شمشاد لکھنوی نے اور کئی مضامین نکالے ہیں،جیسا کہ مندرجہ بالا رباعیوں سے ظاہر ہے۔چیچک رو معشوق کا مضمون ہمارے یہاں شاید میر نے شروع کیا(اور یہ پھر اس بات کی دلیل ہے کہ میر کو خیال بندی کا بھی ذوق تھا)۔میر کا شعر نہایت شگفتہ اور نادر خیال پر مبنی ہے ؎
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
شمشاد کے مصرعے ع اکھڑے ہیں نزاکت کے سبب پاے نگاہ پر میر کا پرتو معلوم ہوتا ہے۔اب جرأت کا شعر دیکھیں ؎
چیچک سے نہایا تو ہے اس گل کا بدن یوں
لگ جائے ہے جوں مخمل خوش رنگ میں کیڑا
چیچک سے نہانا=چیچک کے داغوں کا تمام جسم پر ہو جانا۔
یہ بات خیال میں رکھئے کہ آج کل ہم لوگ بھلے ہی جرأت کو چوما چاٹا کا شاعر سمجھتے ہوں،لیکن ان کے معاصرین انھیں معنی آفریں کہتے تھے(معنی آفرینی سے مراد مضمون آفرینی بھی تھی) ۔اور میرا خیال ہے ناسخ نے ان دونوں سے بڑھ کر خیال بند شعر کہا ہے ؎
آبلے چیچک کے نکلے جب عذار یار پر
بلبلوں کو برگ گل پر شبۂ شبنم ہوا
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید