FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

نسیم ہدایت کے جھونکے

 

جلد سوم

نو مسلمات سے انٹرویو

 

اسما ء ذات الفوزین، سدرۃ ذات الفیضین، احمد اواہ ندوی

ماہنامہ ارمغان، پھلت سے ماخوذ

 

 

 

 

 

 

 ڈاکٹر صفیہ {سروج شالنی} سے ایک ملاقات

 

اسما ء ذات الفوزین

 

اسما ء ذات الفوزین : السلام علیکم و رحمۃ اللہ

ڈاکٹر صفیہ : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  : ڈاکٹر صاحبہ، ابی کا اجمیر سے فون آیا تھا، انھوں نے بتایا کہ آپ کا فون آیا تھا، میں آپ کو بلا لوں اور آپ سے کچھ باتیں کروں، آپ کے علم میں ہو گا کہ ہمارے یہاں پھلت سے اپنے خونی رشتہ کے بھائی بہنوں خصوصاً برادرانِ وطن تک ان کا دعوتی حق پہونچانے اور ان کو دوزخ سے بچانے کی فکر اور ذمہ داری پیدا کرنے اور مسلمانوں کو بیدار کر نے کے لئے ایک اردو میگزین نکلتی ہے اس میں اسلام کے دستر خوان پر آنے والے نئے خو ش قسمت بھا ئیوں کی آپ بیتی ہر ماہ شائع کی جا رہی ہے ابی کی خواہش تھی کہ ۲۰۰۵ ء کے شمارے میں آپ کا انٹر ویو شائع ہو جائے۔

جواب  :اصل میں میں پندرہ روز سے مولانا صاحب کو فون کرنے کی کو شش کر رہی تھی میرے پاس ان کا یوپی اور دہلی کے موبائل تھے مگر مل نہیں رہے تھے، کل اتفاق سے فون مل گیا انہوں نے مجھے دہلی گھر کا نمبر دیا اور بہت تاکید کی کہ آپ فون کر کے ضرور چلی جائیں اس لیے کہ میگزین پریس میں جانا ہے اور بالکل آخری تاریخ ہے مجھے مولانا صاحب نے بتایا کہ یہ انٹرویوز دعوت  کا ماحول بنانے میں بڑا رول ادا کر رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ میرا بھی اس میں کچھ حصہ (شیرَ) ہو جائے آپ مجھ سے جو چاہیں معلوم کریں،

سوال  :  شکریہ آپ پہلے اپنا تعارف ( پریچئے ) کرائیں۔

جواب  :میرا پرانا نام سروج شالنی ہے میں ۲۴/ ستمبر ۱۹۷۸  ء میں لکھنو کے پاس موہن لال گنج میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی میرے والد ڈاکٹر کے  اے شرما، پروفیسر تھے اور کارڈیا لوجی میں ڈی ایم کیا تھا ‘اس کے بعد کافی زمانہ تک وہ پنتھ ہوسپٹل میں رہے،  دس سال سے لکھنوَ میں گھر کے قریب کوشش کر کے ٹرانسفر کرا لیا، میری ( ماتا ) والدہ گھریلو خاتون ہیں، میرے والد مزاج کے لحاظ سے بالکل ہندوستانی ہیں وہ صرف مشرقی تہذیب سے اتفاق رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے گھر والوں پر دباؤ دیکربہت سے ڈاکٹروں کو چھوڑ کر میری والدہ کو پسند کیا اور شادی کی، میرے دو بھائی ہیں، ایک بنارس یونیورسٹی میں ریڈر ہیں اور دوسرے بی ایچ ایل میں انجینئر ہیں دونوں مجھ سے بڑے ہیں، میں نے انٹر سا ئنس بایولوجی میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور پھر PMT مقابلہ پاس کیا، لکھنو میڈیکل کالج سے ایم، بی، بی ایس کیا اور مولانا آزاد میڈیکل دہلی سے ایم ڈی کیا، اپنے والد کی خواہش پر کارڈیالوجی (امراض قلب )کو منتخب کیا اب میں AIMS میں D.M. بھی کر رہی ہوں اور آجکل AIMS میں ڈپارٹمنٹ آف کارڈیالوجی میں ملازمت بھی کرتی ہوں، میں نے اب سے ایک سال چھ ماہ چار روز دو گھنٹے پہلے، بیس مئی ۲۰۰۴ء کو برہسپتوار (بروز جمعرات ) گیارہ بجے، گرین پارک کی مسجد میں جا کر آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

سوال  : ا پنے اسلام قبول کرنے کے واقعہ اور اس کے اسباب کو آپ ذرا تفصیل سے بتایئے ؟

جواب  :جون  ۲۰۰۳ ء میں I.C.C.U بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تھی میں نے دیکھا کہ ایک مولانا صاحب ہریانہ کے ایک بچہ کو دیکھنے آئے، بچہ کے پاس صرف ایک (Attendant) تیمار دار کیسے اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا ‘ بچے کی ماں ہریانہ والے بچے کے پاس کھڑی ہو گئی، مولانا صاحب نے دوسرے بچے پر بھی دم کیا اس کو دیکھ کر برابر والی ماں نے بھی اپنے بچے کو پھونکنے کے لئے کہا، ایک کے بعد ایک چھ بچوں کے پاس مولانا صاحب آ کر کھڑے ہوئے اور پھونکتے رہے، ڈاکٹر تیاگی جو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، ان کے راونڈ کا ٹا ئم تھا میں سامنے سے دیکھ کر وارڈ میں آئی اور مولانا صاحب سے پوچھا : آپ کا مریض کون ہے ؟ آپ کبھی اس مریض کے پاس، کبھی اس مریض کے پاس آ رہے ہیں اور پھونک رہے ہیں، یہ I.C.C.U ہے یہاں پر انفکشن(Infection) کا خطرہ رہتا ہے، مولانا صاحب نے کہا یہ سارے مریض میرے ہیں اس لئے کہ ہمیں ہمارے بڑوں نے یہ بتایا  ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لئے یہاں پر ایڈ مٹ ہر مریض سے میرا خونی رشتہ ہے، جس مالک نے آپ کو اور ہمیں پیدا کیا ہے اس کو یہ تیرا میرا بالکل پسند نہیں اور جو چیز ہم پڑھ کر پھونک رہے ہیں وہ اسی مالک کا کلام ہے جس نے اپنے کلام میں یہ بات کہی ہے، اپنے سچے سندیش واہک حضرت ابراہیم کی زبان سے یہ بات کہلوائی اور حضرت ابراہیم وہ ہیں جن کے نام پر بھارت کے لوگ اپنے کو براہمن (براہیمی) کہلاتے ہیں کہ جب میں بیمار ہوتا ہے تو وہ مالک شفا دیتا ہے یعنی ٹھیک کرتا ہے، آپ روز دیکھتی ہوں گی آپ اپنی سوچ سے اچھی اچھی دوا مریض کو دیتی ہیں اور مریض ٹھیک ہونے کے بعد مر جاتا ہے اور بعض مرتبہ علاج میں غلطی ہوتی ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے، ایسی بات میں نے پہلی بار سنی تھی  پچھلے ہفتہ ہمارے وارڈ کے چھ بچے ایکسپائر (مر گئے ) ہو گئے تھے، ان میں سے چار بچے تو بہت سندر تھے اور دو ہفتہ تک وارڈ میں رہنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے بہت تعلق ہو گیا تھا، ان کی موت سے دل پر بہت صدمہ تھا، مولانا صاحب کی محبت بھری باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کی کچھ اور باتیں سننی چاہیے میں نے مولانا صاحب سے اپنے کیبن میں آنے کو کہا، مولانا صاحب نے میری درخواست قبول کی مولانا صاحب نے مجھ سے کہا آپ میری چھوٹی بہن یا میری اولاد کی طرح ہیں اور محبت سے مجھے بلا کر لائی ہیں تو میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے وارڈ میں آنے والے مریض کو اپنا بچہ یا اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درد اور تکلیف کو اس طرح لیں، مالک نے آپ کو کیسا اچھا موقع دیا کہ آپ کو پریشان حال لوگوں کے درد میں شریک کیا، آپ کو خوب اندازہ ہو گا کہ جس ماں کا بچہ ہو اور وہ اتنا بیمار ہو کہ ICCU میں ایڈمٹ  ہو اور سرکاری اسپتال میں ایسے مریض آتے ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں ہو ان کے ساتھ ذراسی ہمدردی آپ کریں تو ان کے روئیں روئیں، بلکہ انتر آتما سے آپ کے لئے دعائیں نکلیں گی، آ خر میں مولانا صاحب نے بڑے درد سے میرا نام پوچھا اور بولے، ڈاکٹر شالنی ! آپ میری خونی رشتہ کی بہن ہیں، اس لئے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں بلکہ وصیت کرتا ہوں اور وصیت اس کو کہتے ہیں جو کوئی مرنے والا اپنے بچے سے مرنے کے وقت اپنی آخری بات کے طور پر کہتا ہے کہ آپ وارڈ میں آنے والے کا علاج سب سے بڑی پوجا سمجھ کر کریں آپ کو سینکڑوں سال کی تپسیا اور کٹھن پوجا (مشکل عبادت ) میں مالک کے یہاں وہ جگہ نہیں ملے گی جو کسی پریشان حال مریض اور اس کے مصیبت زدہ ماتا پتا کو تسلی دینے میں ملے گی۔

میں نے مولانا صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں کوشش کروں گی، مولانا صاحب چلے گئے، ڈ اکٹر صاحب کے راؤنڈ کے بعد میں نے پانی پت ہریانہ کے اس بچے کے باپ سے معلوم کیا کہ یہ مولانا صاحب کون ہیں، اس نے بتایا کہ یہ ہما رے حضرت جی ہیں، یہ بہت اچھے آدمی ہیں، ان کے ہاتھوں پر ہزاروں ہندو مسلمان ہو گئے، کافی دنوں تک مجھے مولانا صاحب کی باتوں کا دل پر اثر رہا، خاص طور پر یہ بات کہ یہ سارے مریض میرے ہیں، جس مالک نے ہمیں پیدا کیا اس کو یہ تیرا میرا پسند نہیں، میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مولانا صاحب کے پھونکنے سے مریضوں کی حالت میں عجیب فرق آیا ہے اور سارے مریض ٹھیک ہو کر وارڈ سے گئے، لیکن کچھ دن گذرنے کے بعد ذہن سے بات نکلتی گئی، مولانا آزاد میڈیکل کالج میں میری ایک روم پاٹنر ڈاکٹر رینا سہگل تھی وہ گائنی میں ایم، ایس کر رہی تھیں اور بعد میں وہ صفدر جنگ اسپتال میں گائنی ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئی ہم لوگوں میں خاصی دوستی ہے، ایک دن انہوں نے مجھے کھا نے پر بلایا کھا نے کے بعد باتیں ہو رہی تھیں، ان کے یہاں مسلمان کام کر نے والی آتی تھی، وہی کھانا وغیرہ بناتی تھی۔ میں نے ان سے کہا تم نے مسلمان کھانا بنانے والی کیوں رکھ رکھی ہے ؟ تمہیں کوئی ہندو نہیں ملی ؟ وہ کہنے لگیں یہ بڑی اچھی لڑکی ہے بہت ایماندار ہے، کئی بار میرا پرس گر گیا جوں کاتوں مجھے لا کر دیا، باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں، ڈاکٹر رینا کہنے لگیں جیسے جیسے ہمارے دیش بلکہ پورے سنسار میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں باتیں آ رہی ہیں لوگ مسلمان ہوتے جا رہے ہیں، کیسے کیسے بڑے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں، مائیکل جیکسن کے با رے میں تمہیں معلوم ہو گا وہ بھی مسلمان ہو گیا، ہمارے ہوسپٹل میں کارڈیالوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹر بلبیر نام کے ہیں وہ بھی دو ایک سال پہلے مسلمان ہو گئے ہیں اور وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ پورے اسپتال کے لوگ مسلمان ہو جائیں، ایک مریض کے سلسلہ میں ان کو چیک اپ کے لئے بلایا بس مجھ سے کہنے لگے اگر مرنے کے بعد نرک سے بچنا ہے تو مسلمان ہو جاؤ، مجھے یہ سن کر اپنے وارڈ میں آئے مولانا صاحب یاد آ گئے اور ان کی ساری باتیں تازہ ہو گئیں، میں نے ڈاکٹر رینا سے کہا آپ مجھے ڈاکٹر بلبیر سے ضرور ملائیں  انہوں نے اگلے روز فون کرنے کو کہا اور بتایا کہ اتوار کو ڈاکٹر بلبیر کو میں نے کمرے پر بلایا ہے، آپ دس بجے میرے کمرے پر آ جائیں اتوار کے روز میں ڈاکٹر سہگل کے کمرے میں گئی، ڈاکٹر بلبیر بھی آ گئے، سانولے رنگ کے بہت ہی سجن نوجوان، جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہوں، میں نے ان سے معلوم کیا آپ نے کتنے دن پہلے اسلام قبول کیا، انہوں نے بتایا آٹھ نوسال پہلے، میں نے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا صرف اور صرف اسلام  ہی سچا اور سب سے پہلا اور سب سے انتم دھرم ہے اور اسلام کے بغیر مرنے کے بعد کی زندگی میں نہ تو موکش ہے نہ مکتی  (نجات ) اور ہمیشہ ہمیشہ کی نرک ہے اور اسلام قبول کرنا آپ کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا میرے لئے، میں نے معلوم کیا کہ آپ نے نام بھی بدل لیا ہے، انہوں نے بتایا کہ ہاں میرا اسلامی نام ولی اللہ ہے، جس کا ارتھ (معنی) ہے اللہ کا یعنی ایشور کا دوست، میں نے ان سے کہا کہ ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ایک مولانا صاحب آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کچھ باتیں کی تھیں وہ آج تک میرے دل کو لگی ہوئی ہیں وہ وارڈ کے ہر مریض کو پھونک رہے تھے، میرے معلوم کرنے پر کہ آپ کا مریض کونسا ہے انہوں نے کہا کہ سارے مریض میرے ہیں، ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد، خونی رشتہ کے بھائی ہیں یہ’ تیرا میرا‘  پیدا کرنے  والے مالک کو بالکل پسند نہیں ڈاکٹر بلبیر کہنے لگے، مولانا صاحب نے یہ باتیں بالکل سچی کہی  تھیں یہ تو اسلام کے اور ہم سب کے رسول حضرت محمدﷺ نے اپنے آخری حج کے بھاشن میں کہی تھیں، میں نے کہا وہ بھاشن چھپا ہوا ملتا ہے انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارے نبی کا ہر بول پوری طرح سورکشت ( محفوظ)  ہے اور چھپا ہو ملتا ہے میں کسی سے لے کر ڈاکٹر رینا کے ہاتھ آپ کو بھجوا دوں گا۔

دو چار روز کے بعد ڈاکٹر رینا سہگل نے مجھے وہ پمفلٹ جس میں انگریزی میں ہمارے نبیﷺ کے آ خر ی حج کا خطبہ انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ تھا لا کر دیا، اس کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی  خاص طور پر عورتوں کے بارے میں بار بار ان کی چرچا میرے دل کو اور لگ گئی، مجھے مولانا صاحب کی یاد آئی اور خیال ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میں مولانا صاحب کا پتہ لے لیتی، میں نے ہاسپٹل میں پرانے مریضوں کی فائلیں تلاش کیں کہ پانی  پت کے مریض کا پتہ مل جائے تو میں خود مریض کے گھر جا کر مولانا صاحب کا پتہ معلوم کروں، مگر مجھے پتہ نہیں مل سکا، مجھے اسلام کو پڑھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہو گیا تھا، میں نے ڈاکٹر بلبیر کا فون لیا اور ان سے ملنے کے لئے وقت طے کیا صفدر جنگ ہو سپٹل جا کر ان کے وارڈ میں ان سے ملی ان سے اسلام کو جاننے کے لئے لٹریچر دینے کو کہا، دوسرے روز وہ میرے ہوسپٹل آئے اور مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ’’ آپ کی امانت‘ آپ کی سیوا میں ‘‘ ہندی میں دی اور انہوں نے کہا کہ اسلام کی ضرورت اور اس کے بارے میں جاننے کے لئے یہ چھوٹی سی کتاب سو کتابوں کی ایک کتاب ہے، بس یہ کتاب آپ کو یہ سوچ کر پڑھنی ہے کہ ایک سچا ہمدرد صرف مجھ سے یہ بات کہہ رہا ہے اور آپ کتاب پڑھیں گی تو آپ کو خود ایسا ہی لگے گا میں نے اس کتاب کے لیکھک کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کیا ہے کتاب کے دو شبد کتاب کی جان ہے ان کو پڑھ کر آپ کتاب اور کتاب لکھنے والے کو جان جائے گی، ڈاکٹر بلبیر نے مجھے بتایا کہ وہ دہلی کے پاس یوپی کے ایک شہر کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، کتاب دے کر اور کچھ دیر چائے وغیرہ پی کر وہ چلے گئے میں نے وارڈ میں بیٹھ کر وہ کتاب بس ایک بار میں پڑھ ڈالی، کتاب پڑھ کر مجھے مولانا صاحب کی بہت یاد آئی، کتاب نے میرے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی، میں نے کتاب کو پڑھ کر ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کتاب کے لیکھک کی اور کوئی کتاب مجھے دیجئے اور اگر ان سے مجھے آپ ملا سکیں تو آپ کا مجھ پر بڑا آبھار (احسان ) ہو گا۔

چار روز بعد اٹھارہ مئی تھی، ڈاکٹر بلبیر کا میرے پاس فون آیا انہوں نے بتایا کہ اگر آپ چھٹی لے سکتی ہوں تو ’’آپ کی امانت ‘‘ کے لیکھک مولانا محمد کلیم صاحب  سے گرین پارک کی مسجد میں ملاقات ہو جائے گی میں فوراً تیار ہو گئی، ہم آٹو سے گرین پارک کی مسجد پہونچے، مولانا صاحب گیارہ بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے وہاں پہنچ گئے تھے، ان کو آگے سفر کرنا تھا مولانا صاحب کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بھول نہیں سکتی جب میں نے دیکھا کہ آپ کی امانت کے لیکھک مولانا کلیم وہی مولانا صاحب ہیں، جو ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ہریانہ کے بچے کو دیکھنے آئے تھے اور جن کو میں اس قدر تلاش کر رہی تھی، محبت اور عقیدت سے مولانا صاحب کے قدموں میں گر ی، مولانا صاحب نے بہت سختی سے منع کیا اور مجھ سے کہا اب کیا دیر ہے، آپ کی امانت پڑھنے کے بعد بھی آپ کو کوئی شک رہ گیا ہے ؟میں حالانکہ مولانا صاحب سے ملنے ہی آئی تھی، مگر میں اپنے کو روک نہیں سکی اور میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میں مسلمان ہونے ہی آئی ہوں، مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے فوراً کلمہ پڑھایا اور میرا اسلامی نام سروج شالنی کی جگہ صفیہ شالنی (ایس شالنی) رکھا مولانا صاحب نے مجھے کچھ کتابیں لکھ کر دیں اور نماز یاد کرنے اور پڑھنے کی تاکید کی۔

سوال  : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اس کا اعلان کیا یا نہیں ؟

جواب  :مولانا صاحب نے مجھے اعلان کرنے کے لئے سختی سے منع کر دیا، مگر پھر بھی میں نے اپنے خاص خاص لوگوں سے ذکر کر دیا کبھی کبھی مجھے بہت جوش سا بھی آتا ہے کہ اسلام جب حق ہے تو اسے چھپانا اور گھٹ گھٹ کر جینا کیسا؟ مگر مجھے یہ خیال آ جاتا ہے کہ جب ایک ایسے آدمی کو جس کی وجہ سے بالکل تصور کے خالف اسلام کی روشنی ایک گندی کو ملی، رہبر مان لیا ہے تو اب اس کا کہا ماننا ہی اچھا ہے۔

سوال  : اپنی دوست ڈاکٹر رینا سہگل کو آپ نے بتا دیا ؟

جواب  : میں نے نہ صرف یہ کہ اس کو بتا دیا بلکہ میں اور ڈاکٹر ولی اللہ دونوں اس پر لگے رہے اور الحمدللہ اس نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے مگر وہ شادی شدہ ہیں ان کے شوہر ڈاکٹر۔بی۔کے۔ سہگل اپنی کلینک کرتے ہیں، بڑے سخت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ادھر چند سالوں سے وہ رادھا سوامی ست سنگ سے جڑ گئے ہیں، اس لئے ان کی وجہ سے وہ دبی ہوئی ہیں۔

سوال  : ڈاکٹر ولی اللہ سے آپ کا رابطہ ہے ؟

جواب  :اصل میں ڈاکٹر ولی اللہ خود دل کے بیمار ہو گئے ان کو دل کی ایک ایسی بیماری ہو گئی جس سے رفتہ رفتہ دل کمزور ہو جاتا ہے اور پھر اس میں ’پیس میکر ‘لگانا پڑتا ہے، و ہ اپنے علاج کے سلسلہ میں مجھ سے زیادہ رابطہ میں رہے، میں نے علاج میں بہت دلچسپی لی، ان کی شادی ایک سرکاری ملازمت پر لگی لڑکی سے ہوئی، انہوں نے اس کو شادی سے پہلے بتا دیا تھا اور شرط بھی طے کر لی تھی کہ پہلے مسلمان ہو کر نکاح کرنا ہو گا پھر خاندانی رواج کے مطابق شادی ہو گی، انہوں اسے کلمہ پڑھو اکر نکاح بھی کیا مگر بعد میں وہ اسلام کی طرف زیادہ دلچسپی نہ رکھ سکیں، ان کی ملازمت بھی اس میں حائل رہی، اسلام سے ان کی بیوی کی دلچسپی نہ ہونا ان کو گھن کی طرح کھاتی رہی اور وہ دل  کے بیمار ہو گئے، ایلو پیتھک علاج کار گر نہ ہوا تو مولانا صاحب نے ان کو یونانی دوا اور کچھ خمیر ے وغیرہ بتائے، ا للہ کا کرم کہ وہ دو ماہ میں تقریباً بالکل ٹھیک ہو گئے، مولانا صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ عرب ملکوں میں چلے جائیں اور اپنی بیوی کو وہیں بلا لیں، ان کو ماحول مل جائے گا اللہ کا شکر ہے ان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور اب گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی بیوی کو بلا لیا ہے، ان کے جانے سے ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا مگر میں اکیلی سی ہو گئی، ڈاکٹر رینا جس کا نام آپ کے ابی کے مشورہ سے فاطمہ رکھا گیا تھا ان کے شوہر پر ڈاکٹر ولی اللہ کام کر رہے تھے اب اس میں کمی آئی ہے، میں ذرا کھل کر ان سے بات نہیں کر سکتی۔

سوال  : کیا آپ کے والد اور والدہ کو بھی آپ کے مسلمان ہونے کا علم ہو گیا ہے ؟

جواب  :ہاں میں نے اپنے والد کو صاف صاف بتا دیا ہے انہوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا مگر اب رفتہ رفتہ ان کی کم از کم نا گواری کم ہوتی جا رہی ہے۔

سوال  : آپ کی شادی ہو گئی یا نہیں ؟

جواب  :میرے والد میری شادی کے سلسلہ میں چھ سات سال سے فکر مند ہیں، بہت اچھے اچھے رشتے خود ان کے شاگردوں کے آئے، مگر شاید میرے اللہ کو کچھ اور منظور تھا اس لئے میں اپنے کو تیار نہ کر سکی اور DM کرنے کا بہانہ کر کے منع کر دیا، میں نے مولانا سے کئی بار اپنے اسلام کے اعلان کی اجازت مانگی مگر انہوں نے ابھی خاموشی سے گھر والوں پر کام کرنے کو کہا، جب میں نے اپنی نماز، روزہ کی تکلیف کا ذکر کیا تو مولانا صاحب نے ڈاکٹر ولی اللہ کے جانے کے بعد مجھے بھی کسی عرب ملک میں ملازمت کے بہا نے جا نے کو کہا اور ڈاکٹر ولی اللہ صاحب سے بھی انہوں نے فون پر کسی جگہ کے لئے بات کی، الحمدللہ جدہ میں کنگ عبدالعزیزاسپتال میں میرا تقرر ہو گیا ہے اور مجھے دو سال کے لئے چھٹی مل گئی ہے، تین ماہ سے میں تیاری میں چھٹی پر ہوں، ۔

اسماء  بہن ! آپ نے شادی کا ایسا سوال کیا ہے کہ یہ سوال خود آپ کے لئے لطیفہ ہے کہ شاید آپ کے علم میں ہو کہ پی جی آئی چندی گڑھ کے ایک سرجن ڈاکٹر اسعد فریدی سے آپ کا رشتہ آیا تھا اور وہ بہت کوشش میں تھے کہ آپ سے ان کا رشتہ ہو جائے وہ اپنے ہسپتال کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر تھے، مگر مقدر سے آپ کا رشتہ علی گڑھ میں ہو گیا تھا مولانا صاحب نے ایک بار مجھ سے معلوم کیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کو شش کروں، میں نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرے لئے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی، مگر ایک طرف تو آپ کا اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتے دوسری طرف یہ فیصلہ کس طرح ہو سکتا ہے انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ پہلے راضی ہوں تو میں مسئلہ حل کرتا ہوں میں نے منظوری دے دی، انہوں نے ڈاکٹر اسعد اور ان کے والد اور والدہ سے مجھے ملایا، دونوں طرف لوگ بہت مطمئن اور خوش ہوئے، انہوں نے چند لوگوں کو بلا کر میرا نکاح کر دیا، اللہ کا کرنا ڈاکٹر اسعد کی پوسٹنگ بھی جدہ کنگ عبدالعزیزاسپتال میں ہو گئی انہوں نے بھی اپلائی کر رکھا تھا، وہ جدہ ۶/ستمبر کو چلے بھی گئے میرا ویزہ وغیرہ آنے والا ہے، خدا کرے جلدی آ جائے، میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سال ہی حج کرا دیں۔

سوال  : ایک داڑھی شیروانی والے مسلمان سے شادی آپ کو اپنے ماحول کے لحاظ سے عجیب سی نہیں لگی؟

جواب  :الحمدللہ بالکل نہیں، میرے اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی ہر بات مجھے اندر سے پسند ہے سچی بات یہ ہے کہ اسلام میرے اندر کا فطری مذہب ہے، جب میں نے سنا کہ میرے شوہر ڈاکٹراسعد پی جی آئی کی تاریخ میں شیروانی داڑھی والے اکیلے ڈاکٹر ہیں، تو میرا دل چاہا کہ میں اسلام کا اعلان کر کے برقعہ اوڑھ لوں اور آل انڈیا میڈکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنس میں اکیلی برقع والی ڈاکٹر بنوں، مگر مولانا صاحب نے میرے اس جذبہ کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ابھی دو چار سال سعودی رہ آنے کو کہا، میرا خیال ہے اور مجھے اس خیال سے بھی مزا آتا ہے کہ پورے اسپتال  میں اکیلی برقعہ والی نومسلم ڈاکٹر، پورے اسپتال کے لوگوں کے اسلام کے جاننے کی طرف ایک قدم ضرور ہو گا۔

سوال  : آپ نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر لی، اس سے آپ کے والدین کو تکلیف نہیں ہو گی؟

جواب  : میرا نکاح تو اچانک ہی ہو گیا، مگر مولانا صاحب نے میرے والد، والدہ کو جب لڑکے کو دکھایا اور بتایا کہ ایک پیسہ یا انگوٹھی جہیز کے بغیر یہ شادی ہو گئی اور سماج کے جھگڑے سے بچنے کے لئے یہ کریں گے کہ پہلے ڈاکٹر اسعد صاحب جائیں گے اور بعد میں ڈاکٹر شالنی جائیں گی، کسی کو پتہ بھی نہ لگے گا اور بعد میں یہ خیال رہے گا کہ سعودی عرب جا کر یہ شادی ہوئی ہو گی، تو برادری اور عزیزوں کو زیادہ برا نہیں لگے گا، وہ راضی ہو گئے خصوصاً ڈاکٹر اسعد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، بار بار مجھ سے میرے والد کہتے کہ شالنی تیری قسمت ہے !چاند سا دولہا تجھے مل گیا، واقعی وہ مجھ سے بہت خوبصورت ہیں، وہ ڈاکٹر اسعد کو دہلی ائیر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور بہت پیار بھی کیا۔

سوال  :   واقعی آپ بہت خوش قسمت ہیں اللہ نے غیب سے آپ کا ایسا اچھا انتظام کیا؟

جواب  :  بلا شبہ میرے اللہ کا بہت کرم ہے میں جب بھی خیال کرتی ہوں، اپنے اللہ کے حضور سجدہ میں دیر تک پڑ جاتی ہوں واقعی میں اس لائق کہاں تھی، کفر و شرک کے اندھیرے میں مجھے اسلام نصیب ہوا، یہ اس گندی پر میرے مالک کا کرم ہے۔

سوال  :  آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت نہیں دی؟

جواب  :  اللہ کا شکر ہے میں رفتہ رفتہ کام کر رہی ہوں اور اب اسلام سے ان سبھی کا فاصلہ بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔

سوال  :  ارمغان کے واسطے سے مسلمانوں کو آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب  : میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی یافتہ دنیا کو صرف اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کے بغیر یہ دنیا بالکل کنگال ہے، اسماء بہن یہ میں کوئی شاعری نہیں کر رہی ہوں، بلکہ اس ترقی یافتہ دنیا کو بہت قریب سے دیکھ کر یہ بات کہتی ہوں، اس کنگال دنیا کو صرف اسلام بنا سکتا ہے ورنہ یہ دنیا دیوالیہ ہو گئی ہے، اس کے دیوالیہ پن اور اندھیرے کا علاج صرف اور صرف اسلام ہے اور یہ دولت صرف اور صرف مسلمان کے پاس ہے پھر بھی اس کنگال دنیا سے ہم مرعوب کیوں ہیں ؟مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے جب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اس دیوالیہ اور اندھیری دنیا میں اپنے پاس دیوالیہ پن کا علاج اور سب سے بڑی دولت رکھنے کے باوجود ہم احساس کمتری میں مبتلا کیوں ہیں ؟ہمیں اس پر شکر ہونا چاہئے بلکہ فخر ہونا چاہئے اور اس دیوالیہ دنیا پر ترس کھانا چاہئے، ہمیں اس معنی میں اپنے کو سخی اور دنیا کو حقیر سمجھناچاہئے بس۔

سوال  : بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صفیہ!  السلام علیکم و رحمۃ اللہ، فی امان اللہ،

جواب  :  آپ کا شکریہ اسماء بہن ! وعلیکم السلام و رحمۃ و بر کا تہٗ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہن عائشہ {بلوندر کور} سے ایک ملاقات

 

اسما ء ذات الفوزین

 

اسماء   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہٗ

عائشہ  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

سوال  :   عائشہ دیدی، اب کی مرتبہ تو آپ بہت زمانہ کے بعد آئیں، کیا بات ہے ؟

جواب  :اسماء بہن میں تو تڑپ رہی تھی، مگر حضرت صاحب سے فون ہی نہیں مل پاتا، نہ جانے کس طرح اس مرتبہ فون پر بات ہوئی، تو میں نے وقت لیا اور آ گئی،

سوال  :   اصل میں ہمارے یہاں پھلت سے ایک اردو میگزین ارمغان نکلتا ہے، ابی نے مجھے حکم دیا تھا کہ آپ آنے والی ہیں، میں آپ سے اس کے لئے ایک انٹرویو لوں،

جواب  :  ارمغان، ہاں میں ارمغان کو خوب جانتی ہوں، میں تو کچھ کچھ اردو پڑ ھنے لگی ہوں اور ارمغان بھی اٹک اٹک کر پڑھ لیتی ہوں،

سوال  :   آپ پہلے اپنا خاندانی پریچے کرائیے ؟

جواب  : میں ضلع فیروز پور پنجاب کے ایک قصبہ کے سکھ گھرانے میں ۳/جون ۱۹۶۵ء میں پیدا ہوئی، میرے پتا جی شری فتح سنگھ تھے، وہ علاقے کے پڑھے لکھے اور زمین دار لو گوں میں تھے، میرا پرانا نام بلوندر کور تھامیں نے اپنے شہر کے گرو گووند سنگھ کا لج سے گریجویشن کیا میری شادی جالندھر کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہو گئی، میرے شوہر اس وقت پو لیس میں ایس او( S.O ) تھے، ان کی بہادری اور اچھی کارکر دگی کی وجہ سے ان کے پر موشن ہو تے رہے اور وہ ڈی ایس پی بن گئے، میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور تینوں پڑھ رہے ہیں۔

سوال  : آپ اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے ؟

جواب  :میری ایک چھوٹی بہن آشا کور تھی اس کی شادی بھی میرے پتا نے ایک پولیس تھانہ انچارج سے کر دی تھی وہ بہت خوبصورت تھی اس کا شوہر اس کو بہت چاہتا تھا، شادی کے بعد وہ اکثر بیمار رہنے لگی، روز روز اس کو کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا، علاج کراتے تو کچھ ٹھیک ہو جاتی پھر بیمار ہو جاتی، اس کے شوہر نے اس کا دہلی تک علاج کرایا اور لاکھوں روپئے خرچ کئے، مگر کوئی خا ص فائدہ نہیں ہوا، مجبوراًسیانوں اور جھاڑ پھونک والوں کو دکھایا، کسی نے بتایا کہ اس پر تو اوپری اثر ہے مگر علاج کوئی نہیں کرپاتا، کسی نے بتایا کہ مالیر کوئلہ میں ایک صاحبہ ہیں وہ علاج کرتی ہیں، ان کو وہاں بھیجا گیا انھوں نے جھاڑا پھونکا، اس سے اس کو بڑی راحت ہوئی، لیکن انھوں نے آشاسے کہا جب تم کو دو چار روز کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو تم دوذخ کی ہمیشہ کی تکلیف کو کیسے برداشت کر سکتی ہو ؟اس لئے اس تکلیف کی فکر کرو اور اس کا علاج یہ ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ اور اگر تم مسلمان ہو جاؤ گی تو مجھے امید ہے کہ تم یہاں بھی ٹھیک ہو جاؤ گی، پھر میں تمہیں اپنے حضرت صاحب کے پاس بھیجوں گی وہ دعا کریں گے، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرورٹھیک کر دے گا، آشا نے ان سے کہا کہ میں اپنے شوہر سے مشورہ کروں گی، انھوں نے آشاسے کہا کہ ایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اس میں شوہر سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ اگر شوہر مخالفت کرے، بلکہ وہ اگر اس بات پر مارے یا چھوڑدے تو بھی انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان قبول کر لے تاکہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو راضی کر کے ہمیشہ کی جنت حاصل کر لے، آشانے کہا کہ پھر بھی گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سوچنا سمجھنا تو ضروری ہے، انھوں نے کہا تم جلدی مشورہ کر کے آ جاؤ تو میں تمھیں کلمہ پڑھا کر اپنے حضرت کے پا س بھیج دوں گی، وہ وہاں سے بھٹنڈ ہ آئی اپنے شوہر سے کہا، مجھے بہت آرام ملا ہے مگر باجی کہتی  ہیں کہ اگر تومسلمان ہو جائے تو بالکل ٹھیک ہو جائے گی، اس کے شوہر اس سے بہت محبت کرتے تھے بولے تو کچھ بھی کر لے اور کچھ بھی بن جا، مگر تو ٹھیک ہو جائے، مجھے خوشی ہی خوشی ہے، اس نے فون پرباجی سے بات کی کہ مجھے حضرت صاحب کے یہاں جانے کا پتہ بتا دیں میں ان کے پاس جا کر ہی مسلمان ہوناچاہتی ہوں، انھوں نے حضرت کا فون نمبر دیا، ۲۵/مئی ۲۰۰۴ئکو صبح صبح آشا نے حضرت صاحب (مولانا محمد کلیم صاحب )کو فون کیا آشا نے مجھے بتایا کہ میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ میں اسلام لینے کے لئے آنا چاہتی ہوں، میرے شوہر میرے بچے اور گھر کابندہ مسلمان نہیں ہو گا، بس اکیلے میں مسلمان ہوں گی مولانا صاحب کے معلوم کرنے پر آشا نے اس کو مالیر کوٹلہ کی باجی سے جو باتیں ہوئی تھیں بتائیں، حضرت صاحب نے آشا سے کہا تم نے ان سے ہی کلمہ کیوں نہ پڑھ لیا؟آشا نے اصرار کیا کہ مجھے کلمہ آپ ہی کے پاس پڑھنا ہے، مولانا صاحب نے کہا مجھ سے پڑھنا ہے تو ابھی فون پر پڑھ لو، آشا نے کہا نہیں، آپ کے پا س آ کر ہی کلمہ پڑھوں گی، مولانا صاحب نے کہا بہن موت زندگی کا کوئی اطمینان نہیں، تم تو بیمار بھی ہو تندرست آدمی کے بھی ایک سانس کا اطمینان نہیں کہ اگلا سانس آئے گا بھی کہ نہیں، اس لئے کلمہ فون پر پڑھ لو، جب یہاں آؤ گی تو دوبارہ نیا کر لینا، مولانا صاحب کے کہنے پر آشا نے کہا کہ پڑھوا دیجئے مگر اصل تو میں آ کر ہی پڑھوں گی، مولانا صاحب نے کہا اصل تو اسی وقت پڑھ لو نقل یہاں آ کر کر لینا، وہ تیار ہو گئی مولانا صاحب نے اس کو کلمہ پڑھوایا، اس کی موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور کہا کہ اب تمھیں نماز یاد کرنی ہے اور کسی بھی غیر اسلامی تہوار، پوجا یا رسم سے بچنا ہے، نام معلوم کر کے مولانا صاحب نے اس سے کہا تمہارا اسلامی نام آشا سے بدل کر عائشہ ہو گیا ہے، یہ ہمارے رسولﷺ کی بیوی صاحبہ کا نام بھی ہے، فون پر بات کر کے اس نے خوشی خوشی سارے گھر کو بتایا، اپنے شوہر کو بھی بتایا، میں بھی جالندھر سے اس سے ملنے آئی ہوئی تھی، مجھے بھی بتایا مجھے ذرابرا بھی لگا کہ دھرم بدل کریہ کیسے خوش ہو رہی ہے، مولانا صاحب سے فون پر بات کر کے اور کلمہ پڑھ کر نہ جانے اس کو کیا مل گیا تھا، میں بار باراس کے منھ کود یکھتی تھی، جیسے پھول کھل رہا ہو، عجیب سی چمک اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی میں نے اس سے کہا بھی کہ آشا آج تیرا چہرہ کیسا دمک رہا ہے، بولی میرے چہرے پر ایمان کا نورچمک رہا ہے، سارے دن اس قدر خوش تھی کہ شاید دس سال میں پہلی بار گھر والوں نے اسے ایسا خوش اور تندرست دیکھا، کئی سال کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا، خوب ضد کر کے سب کو کھلایا، سونے سے پہلے وہ نہائی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا، ایک کاغذ پر اس نے وہ لکھ رکھا تھا، پہلے اس نے اسے خوب یاد کیا اور پھر زورزور سے پڑھتی رہی، اچانک وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگی، کہنے لگی یہ محل سونے کا کتنا اچھا ہے ؟یہ کس کاہے ؟جیسے کسی سے بات کر رہی تھی، بہت خوش ہو کر بولی کہ یہ میرا ہے، یہ میرا ہے، یہ جنت کا محل ہے، بہت خوش ہوئی، اچھا ہم جنت میں جا رہے ہیں، تھوڑی دیر میں کہنے لگی پھولوں کے اتنے حسین گلدستے کس کے لئے لائے ہو؟ْکتنے پیارے پھول ہیں یہ!اچھا تم لوگ ہمیں لینے آئے ہو، تھوڑی دیر میں ہنس کر بولی، اچھا ہم تو اپنی جنت میں چلے تمھاری جیل سے چھوٹ کر اور زورزور سے پھر تین بارکلمہ پڑھا اور بیٹھی بیٹھی بیڈپر ایک طرف کو لڑھک گئی، ہم سبھی لوگ گھبرا گئے، اس کو لٹایا، بھائی صاحب ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے، ڈاکٹر صاحب آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو مر چکی ہے، مگر وہ جیسے ہنستے ہوئے سو گئی ہو، گھر میں کہرام مچ گیا، گھر میں مشورہ ہوا کہ یہ مسلمان ہو کر مری ہے، اگر ہم لوگوں نے اس کو اپنے مذہب کے مطابق جلایا تو کبھی ہم پر کوئی بلا آ جائے، صبح کو جیجا نے مالیر کوٹلہ باجی کو فون کیا کہ آشا کا رات میں انتقال ہو گیا ہے، ہمارے یہاں تو مسلمان نہیں ہیں ان کے کریا کرم کے لئے مالیر کوٹلہ سے کچھ لوگ آ جائیں، دس بجے تک ایک گاڑی بھر کے مالیر کوٹلہ سے مرد عورتیں آ گئیں اور ان کو دفن کیا،  ۱۹۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ اس شہر میں کوئی آدمی دفن ہوا تھا قبرستان ابھی تک موجود تھا۔

سوال  :   یہ تو آپ نے اپنی بہن کے مسلمان ہونے کی بات بتائی بات تو واقعی حیرت ناک ہے، موت بھی کس قدر قابل رشک، زندگی میں نہ کوئی نماز پڑھی نہ کوئی روزہ رکھا، نہ کوئی اسلامی عمل کیا اور کیسی پاک صاف، گناہوں سے پاک، دنیا سے گئی، کیساقابل رشک انتقال ہوا، مگر آپ سے میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ذکر کرنے کی درخواست کی تھی، وہ سنائیے ؟

جواب  : اصل میں میرا اسلام عائشہ کے اسلام سے جڑا ہوا ہے، آشا اور مجھ میں حد درجہ محبت تھی، اس کی اچانک موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا مگر اس کی موت اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دن کی زندگی مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کرتی تھیکہاس دنیا کی جیل سے وہ جنت کے محل کی طرف صرف ایک کلمہ کی برکت سے پہنچ گئی وہ کس طرح ہنستے ہوئے دنیا سے گئی، میں نے اپنے میکے اور سسرال میں کئی لوگوں کو مرتے دیکھا، کس طرح تڑپ تڑپ کر کتنی مشکل سے جان نکلی، میں سوچتی کہ آشا کو کیا مل گیا جس کی وجہ سے اتنا مشکل مرحلہ آسان ہو گیا، ایک رات میں نے خواب دیکھا آشا بہت خوبصورت ہیرے اور موتی ٹنکے کپڑے پہنے تخت پر خوبصورت تکیہ لگائے بیٹھی ہے، تاج سر پر لگا ہے، جیسے کوئی رانی یا شہزادی ہو، میں نے اس سے سوال کیا کہ آشا تجھے اتنی آسان موت کیوں کر مل گئی؟بولی ایمان کی وجہ سے، اور دیدی میں تجھے سچ بتاتی ہوں کہ مجھے ایمان کے ساتھ صرف ایک دن ہی تو ملا ہے، ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جو مزہ ہے سیکڑوں سال بغیر ایمان رہ کر جینے میں وہ مزہ نہیں، یقین نہ آئے تو کچھ وقت کے لئے مسلمان بن کر دیکھ لے، میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لئے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہئے، میں نے اپنے شوہر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا میں ہفتہ دو ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایمان کیا چیز ہے، آشا کی موت کے بعد میں چوں کہ ہر وقت غمگین رہتی اور چپکے چپکے کمرہ بند کر کے روتی رہتی، تو میرے شوہر نے مجھے اجازت دے دی کہ تجھے تسلی ہو جائے گی، تو کر کے دیکھ لے مگر یہ سوچ لے کہ کبھی تو بھی آشا کی طرح ایک دن بعد مر جائے، میں نے کہا، اگر میں مر گئی تو شاید میں بھی جنت میں چلی جاؤں اور آپ کوئی اچھی دوسری بیوی کر لیجئے، مگر دیکھئے میرے بچوں کو وہ نہ ستائے۔

دو روز بعد میں نے اپنے  بہنوئی سے مالیرکوٹلہ والی باجی کا فون نمبر لیا اور ان سے حضرت  صاحب (مولانا محمد کلیم صاحب ) کا فون نمبر لیا اور میں نے ان سے فون پر کہا کہ میں حضرت صاحب کے پاس جانا چاہتی ہوں اور مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں، وہ بہت ہنسی کے مسلمان ہونا کوئی ناٹک یا ڈرامہ تو نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنا روپ بدل لیں، پھر بھی انھوں نے خوشی کا اظہار کیا آپ ہمارے حضرت صاحب کے پاس جائیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے، میں نے فون حضرت صاحب کو ملایا، کئی روز کی کوشش کے بعد ان سے بات ہو پائی، میں نے ان سے ملنے آنے کی خواہش کا ذکر کیا، وہ مجھ سے ملنے آنے کی وجہ معلوم کرتے رہے اور بولے آپ مجھے خدمت بتائیے، کیا  معلوم فون پر ہی وہ مسئلہ حل ہو جائے مجھے خیال آیا کہ کہیں مجھے بھی فون پر ہی کلمہ پڑھوا دیں اور مسلمان ہونے کو کہیں، اس لئے میں نے بتانا نہیں چاہا، مولانا صاحب نے مجھ سے کہا، بہن میں بالکل بیکار آدمی ہوں اگر آپ ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں یا جادو وغیرہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں یا کوئی تعویذ گنڈہ  وغیرہ بنوانا چاہتی ہیں تو ہمارے باپ داداؤں کو بھی یہ کام نہیں آتا، آپ مجھے ملنے کا مقصد بتائیں اگر وہ مقصد یہاں آ کر حل ہو سکتا ہے تو سفر کرنا مناسب ہے، ورنہ اتنا لمبا سفر کر کے پریشان ہونے سے کیا فائدہ ہو گا، مولانا صاحب نے جب بہت زور دیا تو مجھے بتانا پڑا کہ میں ایک ہفتہ کے لئے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور میں اس آشا کی بڑی بہن ہوں جس کو آپ نے فون پر کلمہ پڑھوایا تھا اور اس کا اسی رات میں انتقال ہو گیا تھا، آشا کا نام سن کر مولانا صاحب نے بڑی محبت سے کہا، اچھا اچھا آپ ضرور آئیے اور جب آپ کو سہولت ہو آپ آ جائیے، مجھے آج بتا دیجئے، میں آپ کے لئے اپنا سفر ملتوی کر دوں گا مولانا صاحب نے مجھے جالندھر سے آنے کا راستہ بتایا کہ شالیماراکسپریس سے سیدھے کھتولی اتریں اور اسٹیشن سے آپ کو کوئی لینے آ جائے گا، سفر کی تاریخ طے ہو گئی کوئی مناسب آدمی میرے ساتھ جانے والا نہیں تھا، میں نے اپنی نن سُس (شوہر کے رشتے کی نانی) کو تیار کیا، گھر میں کام کرنے والی بھی اور نانی بھی تینوں ہم لوگ ۱۴ /نومبر کی صبح کو نو بجے کھتولی پہنچے کھتولی حضرت صاحب کی گاڑی لینے کے لئے آ گئی تھی، پھلت آرام سے پہنچ گئے مولانا صاحب پھلت میں موجود نہیں تھے، مگر آپ کی امی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب ابھی دو پہر تک پھلت پہنچ جائیں گے انشاء اللہ، ہم لوگوں نے نہا کر ناشتہ کیا اور تھوڑی دیر آرام کیا اور اس کے بعد گھر کی عورتوں سے ملاقات ہو گئی اور میں اپنے آنے کی غرض بتائی، منیرہ دے دی اور امی جان نے مجھے سمجھایا کہ ایک ہفتہ کے لئے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا یہ تو موت تک کے لئے فیصلہ کر نا ہوتا ہے میں پریشان ہو گئی کہ مجھے اپنا مذہب اور سب کچھ بالکل چھوڑنا  ہو گا یہ کس طرح ہو سکتا ہے، دو پہر دو بجے مولانا صاحب آ گئے، باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے، مولانا صاحب دو منٹ کے لئے ہمارے پاس آئے، ہمیں تسلی دی، بہت خوشی ہوئی، آپ آئیں عائشہ مرحومہ کی وجہ سے آپ کے پورے خاندان سے مجھے بہت تعلق ہو گیا ہے، میراواپسی کا نظام معلوم کیا جب میں نے بتایا کہ میں تین روز کے لئے آئی ہوں تو کہا اصل میں باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں جن میں کئی ایسے ہیں جو دو تین روز سے پڑے ہوئے ہیں، رات کو انشاء اللہ اطمینان سے آپ سے ملیں گے، اسماء بہن آپ کو یاد ہو گا آپ نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت ‘ آپ کی سیوا میں ‘‘ لا کر دی، میں نے شام تک اس کو تین دفعہ پڑھا  میرا دل ایمان کو ہمیشہ کے لئے قبول کرنے کے سلسلہ میں صاف ہو گیا، مغرب کی نماز پڑھ کر مولانا صاحب ہما رے پاس آئے، مجھے ایمان کی ضرورت کے بارے میں بتایا مرنے کی بعد کی زندگی میں جنت  دوزخ اور اپنے پیدا کرنے والے کو راضی کرنے کے بارے میں بتایا آپ کی امانت پڑھ کر میرے ذہن سے ایک ہفتہ کے لئے اسلام قبول کرنے کا خیال ختم ہو گیا تھا، میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کیا تو مجھے اسلام کا کلمہ پڑھوایا، گھر کی سب عورتیں جمع تھیں، میں نے کہا آپ میرا نام، جو آشا کا نام رکھا تھا رکھ سکتے ہیں ؟انھوں نے کہا کیوں نہیں، آپ کا نام بھی عائشہ ہی رکھتے ہیں اور عائشہ ہمارے نبیﷺ کی بہت ہی لاڈلی اہلیہ محترمہ ہیں۔

اسماء تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے مولانا صاحب سے دو سوال کیے تھے، میں نے دیکھا مولانا صاحب بات تو ہم سے کر رہے تھے، مگر رخ ان کا آپ کے گھر والوں کی طرف تھا، میں نے سوال کیا کہ آپ ہم سے منھ پھیر کر کیوں بات کر رہے ہیں، تو مولانا صاحب نے کہا، اسلام عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ کا حکم دیتا ہے، وہ سب عورتیں جن سے اسلام کے قاعدہ کے مطابق مسلمان کی شادی ہو سکتی ہو، سب عورتیں ایک مرد کے لئے نا محرم ہیں ان سے پردہ کر نے کا اسلام حکم دیتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ مجھے پردہ کے پیچھے سے آپ سے بات کرنی چاہئے تھی مگر مجھے خیال ہوا کہ آپ کو بڑی اجنبیت سی لگے گی اس لئے میں نے سامنے آ کر اپنے رخ کو دوسری طرف کر کے نا محرم پر نگاہ نہ ڈالنے کے اسلام کے حکم پر عمل کیا، ایمان کی دعوت جیسی سب سے محبوب عبادت میں، کسی نا محرم پر نگاہ پڑنے کے گناہ کے ساتھ اثر نہیں رہتا، میں نے کہا: میری بہن آشا نے جب آپ سے ایمان لے آنے کی بات کہی تو اتنا ان کار کرنے پر بھی آپ نے ان کو فون پر کلمہ پڑھوایا، میں اس لئے آپ سے آنے کی غرض نہیں بتا رہی تھی کہ کہیں آپ مجھے بھی فون پر کلمہ پڑھوایا کر ٹال دیں، مگر آپ نے مجھے فون پر کلمہ پڑھنے کے لئے نہیں کہا اس کی کیا وجہ ہے ؟حضرت صاحب نے جواب دیا، فون پر کلمہ پڑھوانا ٹالنا نہیں ہے، بلکہ نا پائیدار، پانی کے بلبلے کی طرح کی فانی زندگی کا خیال اور سچی ہمدردی ہے، واقعی نہ جانے مجھے کیوں خیال نہیں آیا، میں نے غلطی کی، خدا نہ کریں آپ کا راستہ میں یا اس دوران انتقال ہو جاتا تو کیا ہوتا یا میرا انتقال ہو جاتا خود میرے لئے بڑی محرومی تھی، نہ جانے کس خیال میں مجھ سے بھول ہوئی اور پھر آپ چار پانچ روزاسلام سے محروم رہ گئیں اور اتنی بڑی ضرورت اور خیر میں تاخیر ہو گئی، اللہ تعالی مجھے معاف فرمائے، واقعی میں نے بڑی غلطی کی، اصل میں اللہ تعالی کام کرنے والوں کے دلوں میں خود ہی تقاضے ڈالتے ہیں، آپ ایک ہفتے کے لئے اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں، ظاہر ہے یہ کوئی کھیل تھوڑی ہے، اقبال ایک شاعر ہیں انہوں نے کہا ہے   ؎

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں  مسلماں ہونا

اسلام قبول کرنا تو اپنی چاہت کو، اپنی انا کو قربان کر دینا ہے، اس کے لئے آپ کے ساتھ فون پر بات کرنا کافی نہیں تھا، اس لئے اللہ نے دل میں فون پر کلمہ پڑھوانے کی بات نہیں ڈالی، آشا سے بات کر کے تو مجھے خود اندر سے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے اسی وقت کلمہ نہ پڑھا تو شاید اس کی موت ایک دو روز میں ہو جائے، حضرت صاحب نے سمجھایا کہ اب ہر قربانی دے کر اس ایمان کو قبر تک ساتھ لے جانا ہے، اس کے لئے آپ پر مشکلیں بھی پڑسکتی ہیں، قربانیاں دینی پڑسکتی ہیں، ایک مٹی کا برتن بھی کمہار سے کوئی خریدتا ہے تو ٹھونک ٹھونک کر دیکھتا ہے، اتنا قیمتی ایمان لانے والے کو آزمایا بھی جاسکتا ہے، اگر آپ ایمان پر جمی رہیں تو موت کے بعد کی زندگی میں یہ محسوس ہو گا کہ کتنے سستے داموں میں یہ نعمت ملی ہے، حضرت صاحب نے گھر کے لوگوں کو مجھے نماز اور کھانے وغیرہ کے طریقے سکھانے کو کہا، میری نانی اور کام کرنے والی کے بارے میں معلوم کیا، امی جان اور منیرہ دیدی ان لوگوں کو سمجھاتی رہیں، اگلے روز حضرت صاحب سفر پر چلے گئے، ہمار ی وا پسی سے دو گھنٹہ پہلے لوٹے، ہماری بوا اور نانی کوسمجھایا، آ پ ا س دولت سے محروم کیوں جا رہی ہیں، کافی حد تک تو وہ پہلے سے ہی تیار ہو گئی تھیں، حضرت صاحب کے سمجھانے سے وہ کلمہ پڑھنے پر تیار ہو گئیں، ان کو کلمہ پڑھوایا اور بوا کا نام حضرت نے ماریہ اور نانی کا نام حضرت نے آمنہ رکھا، خوشی خوشی ہم بامرادہو کر رخصت ہوئے، گھر کے سبھی لوگوں نے ہمیں ایسی محبت سے رخصت کیا جیسے میں اسی گھر میں پیدا ہوئی ہوں، اسی گھر کی ایک فرد ہوں، نہ جانے کیوں آج تک میں جب پھلت یا دہلی آتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے، جیسے میں اپنے میکے آتی ہوں۔

سوال  :   گھر جانے کے بعد آپ کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا اس وقت آپ کو کیسا لگا ؟انتقال کس طرح ہوا ذرابتائیں ؟

جواب  :   حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اب اپنے رشتہ داروں سے محبت کا حق یہ ہے کہ آپ سب کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں اور اپنے شوہر کو بھی اسلام کی طرف لائیں، بچوں کو بھی مسلمان کریں، مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اسلام کے لئے تمہیں آزمائشیں سہنی پڑیں گی، مجھے ایسا لگا جیسے حضرت صاحب دیکھ کر کہہ رہے تھے، مجھے سخت امتحان سے گذرنا پڑا، میں نے جا کر اپنے شوہر سے اپنا پورا حال بتایا کہ اب میں ہمیشہ کے لئے مسلمان ہو گئی ہوں اور ان پر زور دیا آپ بھی مسلمان بن جائیں، وہ مجھ سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے، پہلے تو سرسری طور پر لیتے رہے، جب میں نے زور دینا شروع کیا تو انھوں نے مخالفت کرنا شروع کی اور مجھے اسلام پر رہنے سے روکا، میں اپنے اللہ سے دعا کرتی، میں نے حضرت صاحب سے فون پر بات کی ایک مسلمان اور ایک سکھ میاں بیوی کس طرح رہ سکتے ہیں ؟تو حضرت نے بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد آپ سے ان کا شوہر بیوی کا رشتہ نہیں رہا اور شادی (نکاح) ٹوٹ گیا مگر اس امید پر آپ احتیاط کے ساتھ ان کے ساتھ رہئے کہ ان کو ایمان نصیب ہو جائے اور بچوں کی زندگی اور ایمان اور مستقبل کا مسئلہ بھی حل ہو جائے، یہ معلوم کر کے مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بڑی گھٹن محسوس ہونے لگی، روز رات کو ہم میں لڑائی ہوتی، آدھی آدھی رات گزر جاتی مجھے حضرت صاحب نے اللہ سے دعا کے لئے کہا اور بتایا کہ تہجد کی نماز میں دعا کروں، ایک رات سار ی  ر ات ہی نماز پڑھتی رہی اور روتی رہی، میرے اللہ آپ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے آپ میرے شوہر کو ہدایت کیوں نہیں دے سکتے، میرے اللہ نے میری دعا سن لی، اگلی رات جب میں نے ان سے مسلمان ہونے کو زور ڈالا تو انھوں نے مخالفت نہیں کی اور بولے روز روز کے جھگڑوں سے میں بھی عاجز آ گیا اگر تو اس میں خوش ہے تو چل میں بھی مسلمان ہو جاتا ہوں، کر لے مجھے مسلمان، میں نے کہا میری خوشی کے لئے مسلمان ہونا کوئی مسلمان ہونا نہیں، بلکہ پیدا کرنے والے، دلوں کا بھید جاننے والے مالک کو راضی کرنے کے لئے مسلمان ہونا ہے، میں نے ان کو حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی، پہلے بھی میں نے ان کو یہ کتاب پڑھوانا چاہی تو وہ پھینک دیتے مگر اس  روز انھوں نے وہ کتاب لے لی اور پڑھنا شروع کی، پوری کتاب بڑے غورسے پڑھی جیسے جیسے وہ کتاب پڑھتے رہے میں نے محسوس کیا ان کا چہرہ بدل رہا ہے اور پھر اس کتاب میں سے زور زور سے تین بار کلمہ شہادت پڑھا  بولے یہ کلمہ اب میں تیری خوشی کے لئے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور اپنے رب کی خوشی کے لئے پڑھ رہا ہوں، میں بے اختیار ان سے چمٹ گئی، میں بیان نہیں کر سکتی دو مہینے کے مسلسل کہرام کے بعد میرے گھر میں خوشی آئی تھی، اگلے روز معلوم ہوا کہ ان کا روپڑ ٹرانسفر ہو گیا ہے وہاں گئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں چیف منسٹر کا دورہ ہوا، ان کے پروگرام میں وہ مصروف تھے ایک جگہ سیکورٹی کا معائنہ کر نے کے لئے وہ گئے اور کالج کی باؤنڈری کے نیچے کھڑے تھے تیز ہوا چلی اور ہوا کا ایک بگولہ ایسا آیا کہ باؤنڈری کا وہ حصہ جس کے نیچے وہ کھڑے تھے ان کے اوپر گر گیا اور اس دیوار کے نیچے دب کر اسی وقت ان کا انتقال ہو گیا۔

اسماء بہن میں بیان نہیں کر سکتی کہ یہ حادثہ میرے لئے کتناسخت تھا مگر میرے اللہ کا کرم ہے اس نے مجھے ہمت دی ایمان پر اس کا الٹا اثر نہیں ہوا، مجھے اندر سے اس بات کا احساس دل کو تھامے رہا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ جنت میں چلے گئے، جہاں چند دن کے بعد مجھے بھی انشاء اللہ جانا ہے، ان کے گھر ان کے کریا کرم (تجہیز و تدفین)  پر بڑا ہنگامہ ہوا میں نے کہا میں ہرگز ان کو جلنے نہیں دوں گی میں اس لاش کی وارث ہوں، مجھے اس کا قانونی حق ہے مگر گھر کے سب لوگ ضد کر رہے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے، ڈی جی پی، ا ے ڈی جی پی، آئی جی، ڈی آئی جی، سب موجود تھے بہت محنت کے بعد یہ طے ہوا کہ ان کی سمادھی بنا دی جائے، ان کی سمادھی بنا دی گئی اور میں نے ایک مولانا صاحب کو بلا کر ان کی جنازہ کی نماز سمادھی بنانے کے بعد پڑھوائی۔

سوال  :  اس کے بعد آپ پھر جالندھر آ گئیں ؟

جواب  : رو پڑ چھوڑ کر میں جالندھر آ گئی حضرت صاحب کے بتانے کے بعد میں نے اپنی عدت پوری کی میرے بھائی لندن میں رہتے ہیں انھوں نے مجھ سے کہا آپ انگلینڈ آ جائیں، میں نے پاسپورٹ بنوایا، ایک روز میں نے کعبہ کو خواب میں دیکھا، اٹھ کر میں نے فون پر حضرت صاحب کو بتایا حضرت نے بتایا کہ آپ پر حج فرض ہو گا، مگر کوئی محرم ہونا ضروری ہے اور آپ کا کوئی محرم نہیں ہے، اس کے لئے آپ کسی سے شادی کریں میں اپنے بچوں کے مستقبل کے وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجود اپنے کو راضی نہیں کر پائی، مگر نہ جا نے کیوں مجھے حج کو جانے کی، جنون کی حد تک دھن لگ گئی، اس کے لئے بار بار پھلت اور دہلی کا سفر کیا، مگر ایجنٹوں کے پاس بار بار کوشش کے باوجود کوئی صورت نہ بن سکی، آپ اور گھر کے سب لوگ حج کو چلے گئے اور میں تڑپتی رہ گئی، یہ حج سے محرومی خود میرے لئے بڑا امتحان تھا، میں بہت رویا کرتی تھی، اپنے اللہ سے فریاد کیا کرتی تھی، مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید اب بھی میں حج کو چلی جاؤں بقر عید سے تین دن پہلے جب مجھے خیال آیا کہ اب حج کے تین دن باقی ہیں، اس لئے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ حج بقر عید کے دنوں میں ہوتا ہے، میں صبح تہجد میں روتے روتے بے ہوش ہو گئی، میں نے نیم بیداری میں دیکھا میرے سر پر احرام کا اسکارف بندھا ہے اور میں ہوں اور پھر منیٰ کے لئے چلے، غرض مکمل حج کیا، میری آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو میں بیان نہیں کر سکتی کہ مجھے کتنی خوشی تھی، میں نے کسی طرح حضرت صاحب کا مکہ مکرمہ کا فون لیا اور خوشی خوشی تقریباًپچیس منٹ تک پورے حج کی یہ تفصیل بتائی، حضرت صاحب خود حیرت میں رہ گئے۔

سوال  :   ابی بتا رہے تھے کہ پچھلے سال آپ حج کو گئی تھیں، امسال تو ہم حج میں بار بار آپ کا ذکر اور افسوس کرتے رہے۔

جواب  :  میں اپنے اللہ کے قربان جاؤں کہ اس نے میری حج کی دعا سن لی، پہلے سال تو مجھے بغیر جائے حج کرا دیا، اگلے سال میں نے اپنے ایک بھائی پر کوشش کی اور اس کو باہر کا سفر کرانے یعنی حج کا لالچ دے کر مسلمان ہونے پر زور دیا اور بتایا کہ گرونانک جی بھی حج کو گئے تھے، کوشش کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور ہم دونوں کو پچھلے سال حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔

سوال  :   ارمغان کے حوالے سے آپ مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چا ہیں گی؟

جواب  :  بس میں اپنی بہن عائشہ کی بات دہراتی ہوں کہ ایمان کی نعمت کی قدر کریں اور ایمان کے ساتھ ایک دن سینکڑوں سال کے بغیر ایمان کی زندگی سے افضل ہے اور پھر سارے جہانوں کے لئے رحمت والا نبیﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دنیا کی قید سے جنت میں لے جانے کی فکر کریں، میرے اور میرے گھر والوں کے لئے دعا کریں کہ سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔

آمین بہت بہت شکریہ

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

جمیلہ بہن {پشپا } سے ایک ملاقات

 

میں نے شہناز بہن کی دلی تمنا اور کوشش سے نو مسلم جمیلہ صاحبہ کو غریب خانہ پر آنے کی دعوت دی، اہلیہ مولانا ذوالفقار کی بہن افسانہ صاحبہ کے ہمراہ جمیلہ صاحبہ تشریف لائیں، سلام و دعا ء کے بعد چائے پانی کے دوران ہی شہناز بہن کاپی پین لے کر بیٹھ گئیں، تب میں نے کہا کہ ارمغان اور اللہ کی پکار جیسے شمارہ میں جو بھائی بہن اپنی اصل کی طرف یعنی ایمان کے اندر آتے ہیں تو لوگوں کی ترغیب کے لئے ان کے انٹرویو چھاپے جاتے ہیں اور اس کے بے حد اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں اور یہ بے حد مقبول ہیں، شہناز بہن بولیں کہ ہندوستان میں ہی نہیں، سعودی عرب، برطانیہ، افریقہ میں بھی یہ انٹرویو بے حد مقبول ہیں اور نفع دے رہے ہیں اور لوگ اپنے خرچ سے ان کی کاپیاں کر ا کر تقسیم کراتے ہیں، تب جمیلہ بہن تیار ہو گئیں ورنہ یہ نظر یہ رکھتی تھیں کہ میں جو کچھ ہوں خدا کے لئے ہوں اور خدا سے اجر کی طالب ہوں، دنیا کی شہرت بھی عزیز نہیں حسب معمول ہمارا پہلا سوال تھا :

سوال  :  آپ کا پہلا نام کیا تھا ؟

جواب  :جمیلہ بہن ! میرا پہلا نام پشپا تھا،

سوال  : آپ کے والد کا نام ؟

جواب  :میرے والد کا نام شیورام بھگت تھا  والدہ کا نام سومی بائی تھا،

سوال  : آپ کا تعلق کس خاندان سے اور کس جگہ سے تھا ؟

جواب  :میرا تعلق پنجاب راجپور ہ ضلع پٹیالہ کے بھگت خاندان سے تھا، ہم لوگ تین بہنیں تھیں

سوال  : آپ نے اسلام کیوں قبول کیا اور اپنے پرانے مذہب کو کیسے چھوڑا ؟

جواب  : سیدھا سچا جواب تو یہ کہ میرے اللہ کو مجھ سے پیار تھا اور میرے رب نے پھر کرم کیا کہ ایمان کی دولت سے نوازا اور کفر کو مجھ سے دور کیا اور بظاہر ’’مسلم عورت کی ستر پوشی ‘‘ میرے اسلام لانے کا سبب بنی ( آگے بولیں ) میری بہن !میری ایک لمبی داستان ہے شہناز بہن افسانہ بہن اور میں ، تینوں بر جستہ بولے۔

سوال  :  ہاں ہاں، وہی تو آپ سب بتایئے اور بلا جھجھک بتایئے ؟

جواب  : (تب انہوں نے اپنی حیات کو پرت در پرت کھولنا شروع کیا )ہمارا گھرانہ غریب تھا، میری والدہ کی بہن کی شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی، جب میری شادی ہوئی اس وقت میری عمر ۲۰/سال تھی میری خالہ نے سوچا کہ میری بھانجی بھی بڑے گھرانے میں آ جائے، اس لئے انہوں نے اپنے دیور کے بیٹے سے جو کہ سی بی آئی آفیسر تھے میری شادی کرا دی، میری والدہ امیر غریب کے خوف کی وجہ سے شادی پر آمادہ نہ تھیں، ایک طرح سے زبردستی یہ شادی کرائی گئی شادی کے بعد معلوم ہوا کہ جن سے میرا بندھن بندھا ہے وہ بے حد لا پرواہ اور شرابی ہیں، سسرال میں میرا حال تو نوکر سے بھی بدتر تھا اور میں کٹھ پتلی کی طرح سسرال مائکہ میں گھمائی جاتی رہی ۱۹۸۰ء میں میری شادی ہوئی اور ۱۹۸۳ء میں میرا بیٹا پیدا ہوا اس وقت میں بے حدستم رسیدہ حالت میں اسپتال میں تھی، میری ماں نے بھی میری پرواہ چھوڑ دی بیچاری کیا کرتی حالات ہی ایسے تھے میں نے لوگوں کے جھاڑو برتن تک کئے اور ایسے حالات میں دو بیٹے اور ایک بیٹی کی خدا نے مجھے ماں بنا دیا، اللہ نے مجھے دماغ بہت تیز دیا، میں نے ۱۹۸۰ء میں سلائی کڑھائی کے کارخانہ میں ۲۵۰/روپئے ماہانہ تنخواہ پر کام شروع کیا، وہیں سے میرا اسلام سے تعلق جڑا، وہ کارخانہ کسی ہندو کا تھا لیکن اس میں نوکر مسلمان تھے اور مسلمان بریلوی تھے میں ساڑی پہن کر کارخانہ جاتی اور میرا بلاؤز بغیر آستین کا ہو تا تھا، مسلم نوکر لڑکے بولے بہن جی آپ ہمارا ایمان خراب کرتی ہیں، میں بولی ایمان کیا ؟ وہ بولے ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارے یہاں مسلم عورت سترپوش یعنی ڈھکی چھپی رہتی ہے اور اس لئے مردوں کا ایمان بھی سلامت رہتا ہے اور عورتوں کا بھی۔

میں نے کہا کہ ایمان کیا ہے ؟ بولے کہ ایک کلمہ ہے جو پڑھا لیا جاتا ہے، میں بولی کہ وہ تو مسلمان عورتیں ہیں اپنے دھرم کی وجہ سے کرتی ہیں، مسلم ورکر بہت دردمندی سے بولے کہ بہن جی آپ چاہے جو بھی ہوں ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ بھی ہماری ماں بہنوں کی طرح کپڑے پہنو میرے دل میں ان کے ایمان کی اور ستر پوشی کی بات گھر کر گئی اور میں سوچنے لگی کہ کیسا اچھا ایمان ہے ان کا اور ان کے یہاں کس قدر عورت کی عزت کی جاتی ہے میرا دل بیقرار ہو اٹھا ان ورکر کے ایمان کے اندر آنے کے لئے، اگلے دن میں نے کہا کہ بھائی میں تمہارے ایمان میں آنا چاہتی ہوں مجھے کیا کرنا ہو گا ؟ ایک کلمہ ہے وہ پڑھنا ہو گا، میں نے کہا جلدی مجھے پڑھاؤ بولے کہ ہم نہیں پڑھا سکتے ہمارے بابا پڑھائیں گے اور وہ فلاں دن آتے ہیں اب مجھے اس فلاں دن کا بے قراری سے انتظار رہنے لگا، خدا خدا کر کے وہ دن آ گیا، ایک لمبا سا چوغا اور طرح طرح کی گلے میں مالائیں پہنے اور ہری ٹوپی پہنے بابا کارخانہ میں تشریف لائے اور انہوں نے رومال پکڑوا کر کہلوایا ’’صلی علی کا یا محمد، یا اللہ یا محمد یا علی المدد کر مدد (جمیلہ بہن نے جب یہ کلمہ سنایا ہمیں ہنسی بھی آئی اور تعجب بھی ہوا )ہم لوگ بیچ میں بولے یہ کلمہ نہیں ہے وہ بولیں کہ ہاں ہاں یہ اس زمانہ کا میرا ایمان تھا بھئی جیسے کہا، جو بتایا میں نے کہا اور پڑھا اور بہت زمانہ تک ہر وقت یہ ورد زباں رکھتی تھی اور پھر بتایا گیا کہ قبروں پر جانا ہے میں ان بابا کی مرید بن گئی اور میں نے ہندوستان کے بڑے بڑے مزاروں پر حاضری دی اور جیسا وہاں ہوتے دیکھتی، کرتی۔

ادھر میں ساڑی کی جگہ سوٹ پہننا شروع کیا اور خود کپڑے ڈیزائن کرنا شرو ع کیا اور میری ڈیزائن ڈریس کی بہت قیمت لگی، میں نے الگ سے مشین خریدی اور خود ڈیزائن کر کے ڈریس تیار کی اور بازار میں فروخت کی میرا کاروبار چل نکلا،  ۱۹۸۲ء میں اوکھلا، فیس، 2میں  میں نے اپنے کارخانہ کی بنیاد ڈالی اور الگ سے مسلم ورکر رکھے، مجھے کمانے کی دھن لگ گئی اور اللہ نے بھی اس قابل بنا دیا کہ میں نے نہرونگر میں ۳ /منزلہ ایک پورا کیمپس خریدا، ہاں ایک بات اور یاد آئی جب میں کارخانہ میں کام کرتی تھی، بابا کو خانقاہ کی ضرورت تھی مری ماں نے میرے نام ایک دوکان کر دی تھی وہی ان کی کل جائیداد تھی، بابا کو خانقاہ کے لئے زمین کی ضرورت تھی سلطان پور غوث آباد میں میں نے اپنی ماں سے کہا وہ دوکان کے کاغذات دے دو اور مجھے ایک مکان خرید نا ہے، میں نے ماں سے جھوٹ بولا ورنہ ماں کبھی کاغذات نہ دیتی، میں نے کاغذات لے کر وہ دوکان اس زمانہ میں ۱۲/ ہزار کی فروخت کر دی ۱۱/ہزار ان بابا کو خانقاہ کے لئے دے دیئے ایک ہزار خود رکھی اس وقت سروس کر تی تھی ۲۵۰/ روپیہ تنخواہ ۳/ بچے اور خود اور مکان کرائے کا، ایک ہزار کرایہ جمع کیا اور دلی کورٹ پٹیالہ ہاوس میں جا کر باقی پیسہ سے اسلام قبول کرنے کی کاروائی پوری کی بس پھر خدا کے نام پر دینے کی دھن سوار تھی میں چاہتی تھی کہ کماؤں اور خدا کے لئے لٹاؤں مجھے کمانے کی دھن لگ گئی، نہرو نگر میں خدا نے جائیداد دلوا دی، وہاں جو ورکر کام کرتے تھے وہ ورکر نماز پڑھتے تھے وہ نماز پڑھنے جاتے اور باہر جا کر نماز کے بہانے پکچر دیکھنے چلے جاتے اور میں نمازیوں کو ہی کام دیتی تھی مگر ورکر چالاکی کرتے، میں نے سوچا مجھے ایسی جگہ کارخانہ کی تلاش کرنی چاہیئے، جہاں مسجد کارخانہ سے ملی ہوئی ہو تب میں نے حاجی کالونی، غفور نگر میں زمین خریدی اور کارخانہ ادھر شفٹ کیا لیکن ادھر چونکہ میں اکیلی کام کرتی تھی اور مسلم ایریا میں مسجد کی وجہ سے میں شفٹ ہوئی تھی تا کہ ورکر نماز ضرور پڑھیں اور دیر تک غائب بھی نہ ہوں کہ کارخانہ میں کام کا نقصان نہ ہو لیکن ادھر کے مسلمانوں نے مجھے بہت تنگ کیا کہ یہ کیسی مسلمان بنی ہے لڑکوں سے کام کراتی ہے طرح طرح کی باتیں۔۔۔۔۔۔میرا ذہن پریشان ہو گیا حتیٰ کہ میرا کارخانہ ٹھپ ہونے لگا اور میں بچوں کے پاس نہرو نگر چلی گئی کام بالکل بند کر دیا کہ اسلام میں ورکر سے کام کروانا جائز نہیں اور میں غریبی میں چلی گئی، فاقے ہونے لگے میں نے کترن بیچنا شروع کی اور پھر کچھ سہارا شروع ہوا ادھر کچھ اور اچھی مسلمان بہنیں ملیں، انہوں نے کہا آپ کو غلط بتایا گیا ہے آپ اپنا کاروبار شروع کیجئے اور یہ افسانہ ہے اس کے شوہر مولوی ذوالفقار نے میری بڑی رہنمائی کی اس نے مجھے اپنی ماں بنا لیا اور حقیقی ماں کی طرح میرا خیال رکھنے لگا میں نے حاجی کالونی میں کارخانہ شروع کیا اور نائٹی، ٹاپ اور پٹیالہ شلوار کی ڈیزائننگ کر کے مارکیٹ میں فروخت شروع کر دی اور یہاں بھی میں نے عمارت بنا لی اور خود بھی ادھر ہی شفٹ ہو گئی اور تب میں نے جانا کہ جس اسلام پر میں چلتی ہوں قبرپرستی، وہ صحیح نہیں، کلمہ صحیح طرح پر یہیں پڑھا، نماز یہاں آ کر سیکھی، قرآن کریم پڑھا، تبلیغی جماعت کی بہنوں سے میل جول پیدا ہوا میں نے جب نماز سیکھی اور اس کو ادا کیا تو سمجھ میں آیا کہ حدیث نبویﷺ ’’نماز مومن کی معراج ہے ‘‘واقعی معراج ہے، (یہ سب کہتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئیں ہمیں ان کی کیفیت دیکھ کر ان پر بڑا رشک آیا ہم نے کہا کہ آپ تو بڑی ولی صفت اور اونچی ہستی ہیں ) جمیلہ بہن بولیں کہ میں کچھ بھی نہیں اور پھر بڑی تڑپ سے بولیں کہ کسی طرح کاش میری وہ نماز کی کیفیت لوٹ آئے اور مجھ سے کہنے لگیں کہ کوئی عمل بتاؤ کہ مجھے نماز میں پہلے کی طرح معاملہ ہو، ہم نے کہا کہ اللہ بے حد رحیم و کریم ہے اس سے گڑ گڑ ا کر جو مانگو ملتا ہے جمیلہ بہن برجستہ بولیں کہ میرے ساتھ تو ہمیشہ ہی جب جب مانگا سب کچھ ملا بندہ بڑا ناشکرا ہے، بے وفا ہے اسے مانگنا ہی نہیں آتا، مانگتا ہی نہیں ہم نے کہا۔

سوال  :  اپنے کوئی خاص لمحات بتایئے ؟

جواب  : رمضان المبارک کا مہینہ تھا میں روزے برابر رکھتی رہی، نمازیں بھی اد ا کرتی، لیکن نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتی، مجھے شوگر ہو گئی اور گھٹنوں نے کام کرنا بند کر دیا، جہاں میں رہتی ہوں وہاں میرے ایسے پورشن ہیں کہ بہ آسانی کرایہ دار بھی رکھتی ہوں لیلۃ القدر آ گئی سب لوگ کھڑے ہو کر نوافل میں مصروف تھے میں بھی اسی رات جاگ رہی تھی، پیروں کے درد کی وجہ سے اٹھ نہ سکتی تھی کسی مسلم بہن نے بھی مجھے اس رات کے بارے میں کچھ خاص نہ بتایا اور میرا دل پھٹا جا رہا تھا کہ کوئی آئے مجھے تسلی دے اس رات کی عظمت کے بارے میں بتائے میں ایسے میں کیسے عبادت کروں، میری مدد کرے، پھر بے بسی کی کیفیت طاری ہوئی میں بیٹھے بیٹھے سجدہ میں جا گری اور اسی طرح مالک کے سامنے آہ و فغاں کی تڑپ تڑپ کر روئی، روتے روتے زور زور سے میری چیخیں لگ گئی مجھے کچھ ہوش نہ رہا بس خدا اور میں فریادی اور بے بسی ایسی کہ عبادت اور نماز بھی کھڑے ہو کر نہ پڑ ھ سکوں اس کا احساس ہوا کہ یکا یک مجھے لگا میں کھڑی ہو سکتی ہوں اور میں سیدھی کھڑی ہو گئی اور اس رات میں نے کھڑے ہو کر خوب نماز ادا کی اور میں چلنے پھرنے سے معذور چلنے پھرنے لگی اور کئی سال تک میں ایسی رہی کہ مجھے کوئی بیماری نہیں تھی شوگر بھی ختم ہو گئی آگے بولیں کہ بس بہن ہم بہت نکمے ہیں، پھر دنیا داری میں پھنس گئی اور پھر وہی بیماری۔

میں نے فضائل اعمال پڑھنا شروع کی، جب میں نے یہ پڑھا کہ جس کا بیٹا حافظ قرآن ہو گا اس کو آخرت میں اس بیٹے کی ماں کو جنت میں تاج پہنایا جائے گا میں تڑپ گئی کہ اللہ اب میں کیا کروں میرے دو بیٹے ہیں ان کی شادی ہو چکی، بچے بھی ہو گئے اور کیونکہ میں بس صلی علی کا یا محمد، المدد کر مدد اور قبروں پر جانے کو مسلمان سمجھتی تھی بس خود ہی مسلمان بنی رہی مجھے خاندانی حالت پر رہے ان کی شادی میں نے ہندو لڑکی سے کی اور بچے پھر اس نعمت سے محرومی نے دکھی کر دیا، میں زار و قطار روئی کہ سب حافظوں کی ماؤں کو تاج پہنایا جائے گا، میرے لیئے کو ئی تاج نہ ہو گا میرا کوئی بیٹا حافظ نہیں ایک پڑوسن دیندار تھی میرے ہر وقت کے رونے کو دیکھ کر کہنے لگیں کہ تم میرے بیٹے کو پڑھا لو حافظ بنا لو، دوسروں نے کہا کہ کوئی غریب بچہ پڑھا لو، میں نے غریب بچہ کی تلاش شروع کر دی، ایک بچہ جس کا نام احتشام تھا اس کو پڑھانے کے لئے سہارنپور مدرسہ سوکڑی میں چھوڑا اور وہ الحمد للہ حفظ کر رہا ہے، پھر مجھے لوگوں نے کہا، ایسے تاج نہیں پہنایا جائے گا آپ بن ماں باپ کا بچہ تلاش کرو اس کو حفظ کراؤ، اب میں اور رونے لگی اور لگتا تھا کہ روتے روتے جان چلی جائے گی کہ ہائے محرومی مجھے تاج نہ پہنایا جائے گا، اب میں نے کسی ہندو غریب کی جھگی جھونپڑی میں تلاش شروع کر دی ایک بچہ خدا نے مجھے ملوایا، جو بن ماں باپ کاہے عبداللہ اس کا نام رکھا اسے رائے پور سہارن پور کی طرف لے کر گئی اور اسے پڑھا رہی ہوں، ما شاء اللہ اس کا ۱۲/واں پارہ ہے رائے پور میں پڑ رہا ہے دونوں بچوں کے لئے کپڑا خرچ وغیرہ لے جاتی ہوں میرا پوتا میرے پاس رہتا ہے، ۱۳/سال کاہے، اسے حوض والی مسجد میں بھیجا ہوا ہے امن نام ہے دعا کرو وہ بھی حافظ ہو جائے، آمین، یہ سب سنتے ہوئے ہم سناٹے میں گنگ بیٹھے ہوئے تھے کہ یا اللہ فضائل اعمال کی حدیث پڑھی اور کس طرح عمل پیرا ہوئی ؟ اور ہمارا کیا حال ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان حفظ تو حفظ ناظرہ پڑھنا بھی کِسر شان اور سب سے پہلے انگلش میڈیم اسکول کی دوڑ۔ رواں رواں خوف خدا سے کھڑا ہو گیا کہ ہمارے اس سلوک کی وجہ سے خدا ہمارے ساتھ کیسا معاملہ فرمائے گا میں نے کہا جمیلہ بہن آپ قابل مبارک باد ہیں دعاء کریں اللہ ہمیں بھی آپ کی طرح بنا دے، آمین ثم آمین

ہم حالانکہ کافی وقت لے چکے تھے مگر دل چاہتا تھا کہ اپنی روداد سنائی جائیں اور ہم سنتے جائیں ہم نے کہا اور کچھ خاص بتایئے بولیں فضائل اعمال میں پڑھا کہ سود خور کے ساتھ یہ معاملہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں سانپ بچھو ہوں گے۔

ہمارے یہاں ہفتہ میں اجتماع ہوتا ہے اور میں پنجاب وغیرہ بھی جاتی ہوں وہاں ہندو بہنیں میرا وعظ سنتی ہیں جالندھر میں میں نے جب یہ سود والی حدیث سنائی تو سب نے یقین کر کے وہاں سود لینا دینا چھوڑ دیا ہندو ہو کر اور وہ بے چین رہتی ہیں کہ اپنے دھرم کی اور بات بتاؤ تب میں نے کہا آپ پروگرام بنائیں انشاء اللہ ہم لوگ بھی چلیں گے، دعوت کے اوپر بات کریں گے بولیں کہ جی لوگ پیاسے ہیں مجھے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں بس فضائل اعمال اور قرآن ہندی ترجمہ سے پڑھا ہے آپ لوگ اگر آگے آئیں تو لوگ پیاسے کھڑے ہیں ذراسے اشارے کی دیر ہے دامن اسلام میں آ جائیں گے، (تب اور اپنے اوپر شرمندگی ہوئی اور اپنے ساتھ تمام مسلم لوگوں سے شکوہ ہوا کہ واقعی ہم اپنے ہی دائرہ میں رہتے ہیں کھانا پینا اور اپنے کو بچوں کو کھلانا پلانا اور انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ وغیرہ کی آرزو رکھنا یہ ہی مقصد حیات سمجھے ہوئے ہیں اللہ سے ہم نے توبہ کی اور کچھ کرنے کا عزم کیا) آگے سلسلہ کلام کو جاری رکھنے کے لئے ہم نے پوچھا کہ :

سوال  :  شہناز بہن بتا رہی تھیں کہ آپ شوہر سے ۲۵/سال بعد ملی ہیں اور آپ کے شوہر بھی مسلمان ہو گئے ہیں اور آپ کا دوبارہ نکاح ہوا ہے یہ سب کیا قصہ ہے ؟

جواب  :جمیلہ بہن بولیں کہ میرے شوہر نے ۲۵/سال سے میرا اور میرے بچوں کا کو ئی خرچ نہیں اٹھایا اب وہ پچھلے دنوں ریٹائر ہوئے اور انہوں نے فنڈ کے پیسے سے ایک فلیٹ خریدا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ وہ فلیٹ انہیں گروی رکھنا پڑا، ناچار میرے نہرو نگر والے فلیٹ میں جہاں میرے دونوں لڑکے اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں ان کو وہاں آنا پڑا میں برابر سب رشتہ داروں سے ملتی ہوں، جب کچھ دن باپ کو بیٹے اور بہو کے پاس رہتے ہو گئے تو بڑی بہو نے انہیں باہر کر دیا اب یہ دوسرے بیٹے کے گھر میں گئے، دیکھتی کیا ہوں ایک دن میری بڑی بہو ان کو کھانا دیتی ہے ایسے جیسے کسی کتے کو ڈالتے ہیں میں نے کہا تم اس طرح کرتی ہو، اس طرح تو کسی کتے کو بھی نہ دیتے ہوں، خیر میں حسب معمول خرچ دینے کے لئے رائے پور حافظ بچے کے پاس گئی وہاں ایک دہلی جامعہ ملیہ کا بچہ سروس چھوڑ کر گیا ہے اب حفظ کرتا ہے رائے پور میں رہتا ہے خدا نے اسے دین پر لگا دیا ہے وہ بولا اماں جی ! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے، اس نے میری سب کہانی کا حال اس نو مسلم بچے نے بتا دیا ہو گا، بولا آپ کے شوہر ہندو ہیں، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے شوہر کو دین کی دعوت دیں مجھے ان کے سلوک کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا، میں نے کہا کہ بیٹے وہ تو بہت بڑے شرابی ہیں شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے، وہ بچہ بولا کہ اماں !اگر آپ کو شراب کا گلاس بھر کر بھی دین کی دعوت دینی پڑے، آپ دین کی دعوت دیں یہ دعوت دینا اتنا ضروری ہے مجھے امید ہے انشاء اللہ وہ ضرور ایمان لے آئیں گے، آپ ایسے جذبہ والی ہیں، آپ یہ کام ہر حال میں کریں، اب میں گھر آ گئی میں نے فون اٹھایا ادھر سے فون انھوں نے اٹھایا مگر میں کچھ ہمت نہ کر سکی عجیب شرم محسوس ہو ئی مگر دل میں اللہ سے گڑ گڑاؤں، اے اللہ ایمان کی دعوت دے دوں ایسی ہمت عطا کر، میری بہن ہندو ہے مگر سب کلمہ درود جانتی وہ بھی بہنوئی کی ایسی درگت سے دکھی تھی، وہ روز کہتی کہ تو مسلمان بن جا تیری زندگی بن جائے گی دیکھ میری بہن کی مسلمان بننے سے کیسی زندگی بنی ہوئی ہوئی ہے روز روز کہتی رہی ایک دن دیکھتی کیا ہوں کہ زبردستی میرے شوہر کو میرے گھر لے آئی ہے، میں ناراض ہوئی کہ تو اس ہندو شرابی کو کیوں لے کر آئی ہے ؟وہ بولی یہ مسلمان بننے کو تیار ہے غفار منزل کی مسجد میں صبح ۱۰ /بجے کسی مولانا کا بیان ہوا، ان کو وہاں لے کر گئے اور وہاں پر مولانا نے ان کا نکاح پڑھایا کلمہ پڑھا یا، انہیں کا بیان تھا، وہ کلمہ پڑھا کر جانے لگے میں روٹھی روٹھی تھی، میرے بیٹے ذوالفقار نے ان سے کہا میری جمیلہ ماں کو سمجھایئے پردہ کئے بیٹھی ہیں، پردہ چھوڑیں اور ناراضگی بھی ختم کریں، مولانا نے مجھے سمجھایا میری  سمجھ میں بات آ گئی، مگر ۲۵سال سے الگ رہتی ہوں عجیب سا حجاب آتا ہے، ویسے جتنا کچھ ہو رہا ہے خدمت کر رہی ہوں، آج ۲۲/ دن ہو گئے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے۔

سوال  : آپ ان کی نماز وغیرہ کے بارے میں اور تمام ارکان اسلام کے بارے میں کیا فکر کرتی ہیں ؟

جواب  :ماشاء اللہ پانچوں وقت مسجد جا رہے ہیں کسی نے کہا کہ پھلت میں ایک بہت بڑے حضرت جی ہیں ان سے ضرور ملوایئے، وہ ۳/دن کے لئے پھلت گئے مگر حضرت جی نہیں مل سکے، ہم نے کہا کہ آپ ان کو دہلی بٹلہ ہاوس دار ارقم میں بھیجئے وہاں ان کو فائدہ ہو گا اور حضرت جی سے ملاقات بھی ہو جائے گی جمیلہ بہن کہنے لگی، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی، اگر آپ ان کی تربیت کا انتظام فرما دیں میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ کاش جگہ جگہ پر تربیتی سینٹر قائم ہو جائیں اور خداسے دل ہی دل میں دعاء کی رب العالمین مجھے اس قابل بنا دے کہ نو مسلم بھائی بہنوں کو آشیا نہ فراہم کر سکوں اور تربیت کے لئے درد مند، پر خلوص اسکالر جمع کر دوں کہ ان لوگوں کو لگے ’’ہم اسلام میں آ کر امن میں آ گئے جنت میں آ گئے محبت کی چھاؤں میں آ گئے، حالانکہ کافی دیر ہو چکی تھی مگر سب سے اہم سوال ان کی اولاد کے بارے میں پوچھنا باقی تھا میں نے کہا کہ :

سوال  :  جمیلہ بہن جب آپ شروع سے علیحدہ اور اپنے بل بوتے پر اپنے بچوں کے ساتھ ہیں تو پھر آپ نے اپنے بچوں کو ہندو کیسے رہنے دیا ؟

جواب  :وہ بولیں کہ کسی مسلمان نے مجھے کچھ بتایا نہیں سچ پوچھئے تو ادھر حاجی کالونی میں صحیح مسلمان میں خود بنی ہوں ویسے میرے دونوں لڑکے بسم اللہ، الحمد للہ سب پڑھتے ہیں بڑی بہو تو کٹر ہے لیکن چھوٹی بہو نرم دل ہے چھوٹا بیٹا میرے ساتھ کام کرتا ہے بلکہ اب فیکٹری دوکان سب کچھ وہی سنبھالتا ہے بس بہو سے ڈرتا ہے۔

ہم نے کہا، ایسا کرتے ہیں کہ آپ کے بیٹے کی بیوی کو دعوت کھانے پر بلا تے ہیں اور ہم کچھ کوشش کر کے دیکھتے ہیں وہ بہت خوش ہو گئیں بولیں نہیں پہلے میں آپ کی دعوت کروں گی اور اپنی بہو کو بلا لوں گی، سویرے شام سے بلا لوں گی آپ اس سے مل لیجئے اور پھر اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے دیجئے ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیئے کچھ دیر خاموشی طاری رہی اور سب سر جھکائے بیٹھے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی اور دیس کی باتیں سن رہے ہیں میں نے کہا افسانہ آپ بھی بہت خوش قسمت ہیں اور قابل مبارک باد بھی کہ بیچ میں ہی جمیلہ بہن بولیں : میرا یہ منھ بولا بیٹا ذوالفقار اور بہوافسانہ مثالی بہو بیٹے ہیں، میں ان کے ساتھ حج بھی کر چکی ہوں اور ان دونوں کے لئے بے حد تعریفی کلمات بولتی گئیں اور دعاؤں کا دریا بہاتی رہیں اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ شہناز بہن کی وجہ سے جاوید اشرف صاحب کی وجہ سے اللہ کتنے اچھے اچھے مثالی لوگوں سے ہمارا تعلق جوڑ رہا ہے، جمیلہ بہن نے جس طرح سے ان بیٹے بہو کی قربانی ایثار، خلوص و محبت کا تذکرہ کیا، اگر لکھنا شروع کر دوں تو انٹرویو اور لمبا ہو جائے گا اور ڈر ہے چھپنے سے رہ جائے میں تو شہناز، افسانہ جمیلہ صاحبہ کی گرویدہ ہو گئی اور اپنے حال پر ندامت اور شرمندگی کہ اللہ دنیا میں اب بھی دور نبیﷺ کی نقل کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ہمارا کیا ہو گا اپنے میں مست رہتے ہیں سچ لکھ رہی ہوں میرا رونگٹا رونگٹا خوف خدا سے کانپ رہا تھا اور کانپتا ہے آپ سب لوگوں سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ ہمیں دین کی خدمت کے لئے چن لے۔ آمین ثم آمین

اب ایک اور سوال میرے دل میں مچل رہا تھا کہ میں ایسی عبادت گزار اور خوش اخلاق ملنسار اور صدقہ خیرات کرنے والی اور تبلیغ کے لئے ہر وقت چلت پھرت کرنے والی کے اللہ سے معاملات سرگوشیاں بھی عجیب طرح کی ہوتی ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں، نیکی کی شرط ہے مگر گمان ایسا قدرتی ہوتا ہے، میں نے کہا :

سوال  :   کچھ خاص اللہ کے کرم فرمائیاں سنایئے ؟

جواب  :  بولیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میرا ایک کمرہ ہے جو بے حد حسین ہرے طوطیا رنگ کاہے کہ رنگ کا حسن بیان سے باہر ہے وہاں میں اور ایک آدمی مسجد میں پڑے ہوئے ہیں بے حد حسین ناقابل بیان عورتیں، ہیرے جواہرات، زمرد، موتیوں کے تھال لیے بیٹھی ہوئی ہیں، دوسرا خواب کہ میں لا انتہا اونچائی پر کھڑی ہوں بے حد سفید لباس میں اور میرے چاروں طرف بے حد شفاف پانی، میری آنکھ کھل گئی تعبیر تو اللہ جانتا ہے کیا ہے مگر بے حد سکون محسوس ہوتا ہے، ایک بار دیکھا کہ چٹیل میدان ہے میں اور میرا پوتا امن میرے ساتھ ہے کہ زبردست زلزلہ آتا ہے بڑا خوفناک، میں الحمد شریف پڑھنے لگتی ہوں کہ ایک دم زلزلہ الحمد پڑھنے سے رک جاتا ہے، اب کافی دیر ہو چکی تھی اور ان کو گھر جانے کی جلدی بھی تھی کیونکہ ان کے شوہر جو کہ پہلے کیلاش اور اب جمیل احمد ہیں اکیلے تھے ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آخری سوال کیا۔

سوال  :  ارمغان پڑھنے والوں کے لئے کوئی پیغام ؟

جواب  : بولیں میرا پیغام ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں ہندوؤں سے میل جول رکھیں یہ سرحدیں دور یاں گرائیں، ہندو قوم، مسلم دھرم کے بارے میں جاننے کو بے چین، متجسس رہتی ہے قریب آئیں لوگ جوق در جوق اسلام میں کھنچے چلے آئیں گے، سلام دعاء اور آئندہ مستقل ملاقات کے وعدوں کے ساتھ وہ ہمارے گھر سے رخصت ہوئیں، اور اب میں سوچ رہی ہوں کہ جب صرف ایک جاہل ان پڑھ ورکر کے ستر پوشی کے خیال سے ایک بہن ایمان میں آ گئی اور ان کے ذریعہ حفاظ اور خاندان کا اسلام میں آنا اور تبلیغ غیر مسلموں میں اور مسلمانوں میں کرنا خانقاہیں بنوانا، مسجدوں اور مدارس میں دینا دلانا اور جانے کتنے خیر خواہی کے کارنامے ہیں اور اگر جو عالم لوگ ہیں ہمارے ہندوستان کے اور بیرونی ہندوستان کے اٹھ کھڑے ہوں اور ایک جملہ ہی خیر خواہی کا کسی ہندو بھائی بہن سے بول دیں تو بیس کروڑ تو مسلمان ہندوستان میں ہیں اور باقی دنیا میں کتنے ہوں گے، دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی کاش مسلمان اپنا منصب پہچانیں اور اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو اتنی تو میری التجاء ہے ضرور کریں کہ اپنے ان خونی رشتوں کے بھائی بہن کے لئے رات کو تنہائی میں  آنکھوں سے دو آنسو گرا لیا کریں کہ اللہ ان کے لئے ایمان کی ہدایت مقدر فرما دے۔آمین

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جولائی ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

ایک خوش قسمت نومسلمہ آمنہ {انجو دیوی} سے  ملاقات

 

سدرۃ ذات الفیضین

 

سدرۃ ذات الفیضین  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

آمنہ               :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : بہن آمنہ !اللہ تعالی کی ہدایت کا کرشمہ ہے  کہ اللہ نے  آپ کو بت پرستی کے  گڑھ میں اپنی شان ہدایت دکھا کر ہدایت عطا فرمائی، آپ سے  ملاقات کا بہت اشتیاق تھا، آپ کو دیکھ کر اور مل کر بہت خوشی ہوئی، ابی آج کل اپنی تقریروں میں آپ کا بہت ذکر کرتے  ہیں۔

جواب  : (روتے  ہوئے )سدرہ بہن!بلاشبہ میرے  کریم رب کیسے  کریم ہیں، کہ مجھے  کس طرح در در کی پوجا کی ذلت سے  نکال کر اپنے  در پر لگا لیا، بس آپ دعا کیجئے  کہ مرتے  دم تک اللہ ہمیں ایمان پر رکھے  اور  مجھ سے  راضی رہے۔

سوال  :  ابی نے  آپ کو یہاں، خاص طور پر بلایا ہے  تاکہ میں ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کروں، ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ارمغان‘‘ نکلتا ہے  اس میں چند سالوں سے  اسلام قبول کرنے  والے  لوگوں کے  انٹر ویو شائع  کئے  جا رہے  ہیں، ادھر کچھ روز سے  مردوں کے  انٹرویو ہی چھپ رہے  ہیں، اس لئے  ابی نے  آپ کو خاص طور پر بلایا ہے، آپ سے  مجھے  کچھ باتیں کرنی ہیں، عام طور پر اسماء باجی یہ انٹرویو لیتی ہیں، میں پہلی بار آپ سے  انٹر ویو لے  رہی ہوں ؟

جواب  :  مجھے  بھی حضرت مولانا نے  یہی بتایا ہے، آپ بتائیں کہ میں کیا بتاؤں ؟

سوال  :    سب سے  پہلے  آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :  پوری دنیا میں شرک و بت پرستی کے  سب سے  بڑے  ملک کے، سب سے  بڑے  شرک و بت پرستی کے  مرکز رشی کیش میں، میں پیدا ہوئی، رشی کیش میں چار بڑے  آشرموں میں سے  ایک، بڑے  آشرم کے  ذمہ دار میرے  پتاجی(والد صاحب) ہیں جو بہت مشہور ہیں اور ہندوستان کے  بڑے  پنڈت جانے  جاتے  ہیں، میں ۲۰/ اپریل ۱۹۸۵ء کو رشی کیش میں پیدا ہوئی میرا نام میرے  گھر والوں نے  انجو دیوی رکھا، میرے  ایک بڑے  بھائی اور بڑی بہن ہے، ابتدائی تعلیم رشی کیش کے  ایک انگلش میڈیم اسکول میں ہوئی، جو ہمارے  پتاجی کی ٹرسٹ چلا رہی ہے، میں نے  ہائی اسکول کے  بعد سائنس سے  انٹرمیڈیٹ اس کے  بعد بی ایس سی کیا، اس سال ایم ایس سی کر رہی ہوں

سوال   :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :  بہن کیا بتاؤں، میرا رب جس کی شان ہدایت نے  مجھے  اپنی گود میں اٹھا لیا، اس کی شان یہ ہے  کہ روز رات کے  اندھیرے  سے  دن کو نکالتا ہے  ایسے  ہی میری زندگی کو بھی بت پرستی کے  اندھیرے  سے  اس رب کریم نے  ایمان کے  اجالے  میں نکالا، ہمارے  آشرم میں ایک گھناؤنا حادثہ پیش آیا، ایک ہندو بہن اپنی جوان بچی کے  ساتھ پوجا کے  لئے  گئی، ایک سادھو جو ابھی چند مہینوں سے  وہاں رہتا ہے، نے  ان کو کچھ دینے  کے  بہانے  سے  بلا کر اپنے  ساتھی کے  ساتھ ان دونوں سے  منھ کالا کیا، بعد میں بات کھل گئی پورے  آشرم میں چرچا ہوا، مجھے  بھی معلوم ہوا، میں نے  اپنے  پتاجی سے  کہا کہ اس آشرم کو ان تمام سادھووں کے  ساتھ آگ لگا دینی چاہئے  بلکہ آپ کو اور ہم کو سب کو سزا کے  طور پر جل جانا چاہئے  کہ آشرم کے  ذمہ دار آپ ہیں، اس کی وجہ سے  مجھے  آشرم سے  نفرت ہو گئی اور پوجا کے  لئے  جانا بند کر دیا، ایک رات میں سوئی تو خواب دیکھا کہ میں آشرم میں پوجا کے  لئے  گئی تو میرے  پیچھے  دو سادھو لگ گئے، وہ مجھے  پکڑ کر اپنے  کمرے  میں لے  جانے  لگے، میں کسی طرح چھٹ کر بھاگی، وہ بھی میرے  پیچھے  دوڑے، میں دوڑتی رہی، بیسوں میل تک وہ بھی میرے  پیچھے  مجھے  پکڑنے  کے  لئے  دوڑتے  رہے، ان سب میں سے  ایک جو مہاراج کہلاتے  ہیں پچاس سال کی عمر کے  باوجود میرے  پیچھے  دوڑ رہے  ہیں، میں تھک کر ہلکان ہو رہی ہوں اور خیال آیا کہ بس اب میری ہمت جواب دے  چکی ہے  یہ مجھے  ضرور پکڑ لیں گے  اور میری عزت جائے  گی، عین اس وقت میں نے  دیکھا کہ ایک چھوٹی سی مسجد کے  دروازے  پر ایک مولانا چشمہ اور ٹوپی لگائے  کھڑے  ہیں اور بولے  بیٹا رکو! ادھر آ جاؤ، یہاں مسجد کے  اندر آ جاؤ، میں جان بچا کر مسجد کے  اندر داخل ہو گئی فوراً انھوں نے  دروازہ بند کر دیا اور بڑی محبت سے  بولے  بیٹا اب یہ تمھارا گھر ہے، یہاں تمھیں کوئی بری آنکھ سے  بھی نہیں دیکھ سکتا میری آنکھ کھل گئی میری عجیب سی کیفیت تھی، رات کے  تین بج رہے  تھے، اس کے  بعد صبح تک میری آنکھ نہیں لگی، مجھ پر اس خواب کا ایسا اثر تھا، جیسے  یہ واقعہ میرے  ساتھ جاگتے  میں ہوا ہو، عجیب بے  تابی سی مجھ پر سوار تھی، دن میں دس بجے  میرے  دل میں خیال آیا کہ ان پنڈتوں سے  میری عزت بچنے  والی نہیں، مجھے  مولویوں کو تلاش کرنا چاہئے، شاید اسلام میں میری عزت بچے  گی، میں نے  اپنے  آپ کو سمجھایا کہ یہ سپنا(خواب)تھا کوئی حقیقت تو نہیں تھی، مگر جیسے  اندر سے  مجھے  کوئی جھنجھوڑ رہا تھا، یہ خواب تھا مگر سوسچائیوں کاسچا، اس کشمکش میں میرے  دل میں خیال آیا  کہ میں اپنے  موبائیل سے  ایسے  ہی فون ملاؤں، اگر وہ فون کسی مسلمان کے  فون پر مل گیا تومیں سمجھوں گی کہ اسلام میں میری عزت بچے  گی  مجھے  مسلمان ہو جانا چاہئے، اور اگر فون کسی ہندو کا ملا تومیں سمجھوں گی کہ یہ خواب ہے۔میں نے  ویسے  ہی من من میں اپنے  مالک سے  پرارتھنا(دعا) کی، میرے  مالک!  میرے  دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے، یہ دعا کر کے  میں نے  فون ملایا، گھنٹی بجی تو میں نے  پوچھا کہ آپ کون صاحب بول رہے  ہیں ؟ انھوں نے  کہا: میں محمود بول رہا ہوں۔میں نے  کہا: کہاں سے  بول رہے  ہیں ؟انھوں نے  کہا: مظفرنگر ضلع کے  فلاں گاؤں سے  بول رہا ہوں  میں نے  کہا: مجھے  مسلمان ہونا ہے۔وہ بولے : مسلمان کیوں ہو نا چاہتی ہو؟ میں نے  کہا کہ اسلام سچا دھرم ہے  اور اسلام ہی میں ایک لڑکی کی عزت بچ سکتی ہے۔ وہ بو لے  :تم کہاں سے  بول رہی ہو؟میں نے  کہا رشی کیش سے، انھوں نے  بتایا کہ مسلمان ہونے  کے  لئے  آپ کو پھلت ہمارے  حضرت کے  پاس جانا ہو گا ان کا نام مولانا محمد کلیم صاحب صدیقی ہے، پھلت ضلع مظفر نگر میں کھتولی کے  پاس گاؤں ہے، میں ان کا فون نمبر آپ کو دے  دوں گا، میں نے  کہا دے  دیجئے، انھوں نے  کہا کہ ابھی میرے  پاس نہیں ہے، ایک گھنٹہ بعد تم فون کر لینا میں تلاش کر لوں گا، میں نے  ان سے  کہا کہ میں اگر اسلام قبول کروں گی تو میرے  گھر والے  تو مجھے  نہیں رکھ سکتے، میں پھر کہاں رہوں گی؟ انہوں نے  کہا: میرا ایک بڑا بیٹا تو ایکسیڈینٹ میں انتقال کر گیا ہے، میرا ایک لڑکا ہے  جس کی عمر ابھی پندرہ سال ہے، اگر تو مسلمان ہو گئی تو میں تمہاری اس سے  شادی کر دوں گا اور تم میرے  گھر میں رہنا۔ میں نے  کہا کہ وعدہ یاد رکھنا۔ انہوں نے  کہا کہ یاد رہے  گا۔ مجھے  بے  چینی تھی، مجھے  ایک گھنٹہ انتظار کرنا مشکل ہو گیا، پچاس منٹ کے  بعد میں نے  فون کیا، مگر ان کو مولانا کا فون نہ مل سکا، اس کے  بعد گھنٹہ آدھ گھنٹہ بعد ان کو فون کرتی رہی اور معذرت بھی کرتی رہی کہ آپ کو پریشان کر دیا مگر مجھ سے  بغیر اسلام کے  رہا نہیں جاتا، انہوں نے  کہا کہ صبح کو میں خود تمہیں فون کروں گا۔ بڑی مشکل سے  صبح ہوئی  نو بجے  تک میں انتظار کرتی رہی، نو بجے  کے  بعد میں نے  پھر فون کیا فون اب بھی نہ ملا تھا، انہوں نے  بتایا کہ میں نے  آدمی بھیجا ہے  بڈولی، وہ وہاں سے  فون نمبر لے  کر آئے  گا، ساڑھے  گیارہ بجے  فون ملا، میں نے  فون نمبر لے  کر مولانا صاحب کو فون کیا، فون کی گھنٹی بجی، مولانا صاحب نے  فون اٹھاتے  ہی کہا: السلام علیکم، میں نے  کہا: جی سلام، کیا آپ مولانا کلیم ہی بول رہے  ہیں ؟ انہوں نے  کہا جی کلیم بول رہا ہوں، میں نے  کہا کہ مجھے  مسلمان ہونا ہے، مولانا صاحب نے  کہا آپ کہاں سے  بول رہی ہیں ؟  میں نے  کہا رشی کیش سے، مولانا نے  کہا کہ آپ کیسے  آئیں گی؟ میں نے  کہا، اکیلے  ہی آؤں گی، مولانا نے  کہا، فون پر ہی آپ کلمہ پڑھ لیجئے، انہوں نے  کہا کہ فون پر بھی مسلمان ہو سکتے  ہیں، کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہو سکتے، بس اپنے  مالک کے  لئے  جو دلوں کے  بھید جاننے  والا ہے  اس کو حاضر ناظر جان کر سچے  دل سے  کلمہ پڑھ لیجئے  کہ اب میں مسلمان بن کر قرآن اور اسکے  سچے  نبی کے  بتائے  ہوئے  طریقہ کے  مطابق زندگی گذاروں گی، میں نے  کہا، پڑھائیے  ! مولانا صاحب نے  کلمہ پڑھایا اور کہا کہ اب ہندی میں اس کا ارتھ (ترجمہ )بھی کہہ لیجئے، ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میرے  فون میں پیسے  ختم ہو گئے  اور بات کٹ گئی، میں جلدی سے  بازار گئی اور فون میں پیسے  ڈلوائے، مگر اس کے  بعد مولانا صاحب کا فون نہیں مل سکا، میں بہت تلملاتی رہی اور اپنے  کو کوستی رہی کہ’’ انجو‘‘ تیرے  من میں ضرور کوئی کھوٹ ہے، تبھی تو تیرا ایمان ادھورا رہا، میں اپنے  مالک سے  دعا کرتی رہی، میرے  سچے  مالک! آپ نے  کہاں اندھیرے  میں میرے  لیے  ایمان کا نور نکالا، میں تو گندی ہوں، میں ایمان کے  لائق کہاں ہوں، مگر آپ تو داتا ہیں جس کو چاہیں بھیک دے  سکتے  ہیں، تیسرے  روز میں نے  آنکھ بند کر کے  رو رو کر دعا کی اور فون ملایا تو فون مل گیا، میں بہت خوش ہوئی میں نے  کہا مولانا صاحب میری گندی آتما کی وجہ سے  میرا یمان ادھورا رہ گیا تھا، فون میں پیسے  ختم ہو گئے  تھے، اس کے  بعد لگاتار آپ کو فون کر رہی ہوں مگر ملتا نہیں، مولانا صاحب نے  بڑے  پیار سے  کہا بیٹا آپ کا ایمان بالکل پورا ہو گیا تھا، میں خود سوچ رہا تھا کہ میں ادھرسے  فون ملاؤں مگر میں اس وقت نوئیڈا میں ایک پروگرام میں جا رہا تھا، ہمارے  ساتھی ایک بات کر رہے  تھے  اس کی وجہ سے  میں فون نہ کر سکا، پھر ایسی مصروفیت رہی کہ  فون بس برائے  نام کھولا، میں نے  کہا پھر بھی آپ مجھے  دوبارہ کلمہ پڑھا دیجئے، فون دوبارہ کٹ گیا، میرا حال خراب ہو گیا، میری ہچکیاں بندھ گئیں، میں اپنے  مالک سے  فریاد کر رہی تھی میرے  مالک کیا آج بھی میرا ایمان ادھورا ہی رہ جائے  گا، کہ اچانک مولانا کا فون آیا، میں نے  خوشی سے  رسیو کیا، مولانا نے  بتایا کہ میں نے  فون کاٹ دیا تھا کہ پتہ نہیں کہ آج بھی تمہارے  پاس فون میں پیسے  ہوں گے  کہ نہیں، اس لئے  اپنی طرف سے  فون کروں، کلمہ پڑھ لو، میں نے  کلمہ پڑھا، ہندی میں عہد کیا اور پھر کفر و شرک اور سب گناہوں سے  مجھے  توبہ کرائی اور اللہ اور اس کے  رسول کی تابعداری کا عہد کرایا، مولانا صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ یہ فون نمبر آپ کو کس نے  دیا ہے، میں نے  کہا مظفر نگر کے  فلاں گاؤں کے  محمود صاحب نے، مولانا صاحب نے  پوچھا کہ اب تم کیا کرو گی؟ میں نے  کہا کہ میں نے  سب سوچ لیا ہے  اور محمود صاحب نے  وعدہ کیا ہے  کہ وہ سب میری ذمہ داری سنبھالیں گے، مولانا صاحب نے  مجھے  دعائیں دیں اور کہا، کوئی مشکل ہو تو جب چاہے  مجھے  فون کر لینا۔

سوال  : اس کے  بعد آپ نے  کیا کیا؟

جواب  : میں نے  محمود صاحب کو جو اَب میرے  ابا ہیں، ان کو فون کیا کہ میں نے  اسلام قبول کر لیا ہے، انھوں نے  معلوم کیا کیسے  ؟ میں نے  کہا حضرت صاحب نے  مجھے  فون پر کلمہ پڑھوایا اور بتایا کہ فون پر اور سامنے  کلمہ پڑھنے  میں کوئی فرق نہیں ہے، میں نے  ابا جی سے  کہا کہ اب میں رشی کیش میں نہیں رہ سکتی، ابا جی نے  مجھ سے  کہا کہ بیٹی نہ تم نے  ہمیں دیکھا، نہ ہم نے  تمہیں دیکھا، تم کون ہو؟ تمہارے  باپ کیا کرتے  ہیں ؟ میں نے  کہا میرے  پتا جی کا بہت بڑا آشرم ہے  اور میں ایم ایس سی کر رہی ہوں۔ ابا جی نے  کہا کہ بیٹی تم ایسے  بڑے  گھرانے  کی لڑکی ہو، میں تو بالکل غریب آدمی ہوں۔ میں نے  کہا کہ میں آپ کے  یہاں آ کر مزدوری کر کے  گذارہ کر لوں گی، انھوں نے  کہا: میرا لڑکا پندرہ سال کاہے، وہ ابھی کچھ نہیں کرتا، میں نے  کہا میں اسے  پال کر پرور ش کر لوں گی، انہوں نے  کہا کہ تم گوشت کھاتی ہو ؟ میں نے  کہا گوشت سے  مجھے  گھبراہٹ ہوتی ہے، مگر میں گوشت کھانے  لگوں گی، انہوں نے  کہا کہ میری مرغے  کی دکان ہے، 100روپئے  کماتا ہوں اور میں  قصائی ہوں، تم کیسے  ہمارے  یہاں رہو گی؟ میں نے  کہا کہ میں بھی قصائی بن جاؤں گی، میں نے  کہا کہ بیٹی تو ایسے  بڑے  گھرانے  کی بچی ہے  تو کیسے  ہمارے  یہاں گذارا کرے  گی ؟ پوری زندگی گزارنا دوچار دن کی بات نہیں ہے، میں نے  کہا وعدہ توڑ نا اسلام میں کعبہ کو ڈھا دینا ہے، انہوں نے  کہا کہ ہم حضرت سے  مشورہ کر کے  پھر تمہیں بتائیں گے۔

سوال  :  اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : ابا جی نے  حضرت صاحب کو فون کیا کہ بہت ضروری ملنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ لگا تار سفر میں ہوں، پھلت ابھی دو ہفتہ آنا نہیں ہو گا، انہوں نے  کہا کہ بمبئی بھی ہو گے  تو میں وہیں آ جاؤں گا مجھے  بہت ضروری ملنا ہے، حضرت صاحب نے  کہا آپ کے  قریب کاندھلہ کے  قریب ایک گاؤں رٹھوڑہ ہے، وہاں آ جانا، ابا جی وہاں پہنچے  مولانا صاحب کو پورا ماجرا بتایا، حضرت صاحب نے  ان سے  کہا کہ آپ بڑے  خوش قسمت ہیں آپ اس لڑکی کو لے  کر آئیے  اور آپ کو پورے  گھرانے  کو جان دینی پڑے  تو ایسی سچی مومنہ کی ایمان کی حفاظت کرنا چاہئے  اور ان سے  کہا کہ میرا نام بھی آمنہ رکھنا اور شادی کی قانونی کارروائی اور وکیلوں کے  پتے  وغیرہ دیئے، میرے  لیے  شرک کے  ماحول میں منٹ مہینے  سے  لگ رہے  تھے، مجھ سے  رہا نہیں گیا اور دو روز بعد میں خود اکیلی پتہ معلوم کر کے  ابا جی کے  گھر پہنچ گئی، دو روز میں وہاں رہی، اس کے  بعد وہ مجھے  لے  کر میرٹھ گئے  اور راستہ میں پھلت حضرت صاحب سے  مل کر جانا طے  ہوا، میری خوش قسمتی تھی کہ حضرت صاحب پھلت میں تھے، سدرہ بہن! میں بیان نہیں کر سکتی کہ حضرت صاحب کو دیکھ کر میرا کیا حال ہوا، میں حضرت صاحب سے  بچوں کی طرح چمٹ گئی، میں نے  حضرت صاحب کو دیکھا خواب میں مسجد میں جن صاحب نے  میری ان سادھووں سے  جان بچائی تھی وہ چشمہ اور ٹوپی لگائے  مولانا صاحب، مولانا کلیم ہی تھے، میں بے  اختیار بول اٹھی: آپ ہی تھے، آپ ہی تھے، میں انہیں دیکھ کر ایسی جذباتی ہو گئی، یہ بھی خیال نہیں رہا کہ پہلی بار ایک انجانے  مرد سے  میں جوانی میں مل رہی ہوں۔ مجھے  ایسا لگا جیسے  کوئی بچی اپنی ماں سے  مل رہی ہو، میرٹھ میں نکاح اور قبول ایمان کی قانونی کارروائی پوری کرا کے  ہم گاؤں پہنچے، ایک مہینہ میں میں نے  نماز یاد کی، روزانہ فضائل اعمال پڑھتی، گھر کے  لوگ مجھ سے  بہت محبت کرتے، گاؤں کی عورتیں میرے  ساتھ رہتیں۔

ہمارے  ابا جی کے  ایک رشتہ دار کی ہمارے  اباجی سے  بہت لڑائی ہے  انہیں معلوم ہو گیا، انہوں نے  تھانے  میں شکایت کر دی کہ یہ لوگ رشی کیش سے  ایک لڑکی کو اغوا کر لائے  ہیں، تھانے  نے  رشی کیش رابطہ کیا، وہاں پر ایف آئی آر لکھی ہوئی تھی، رشی کیش پولیس آ گئی، اور مقامی پولیس کے  ساتھ دس بجے  مجھے  اور میرے  ابا جی کو اٹھا کر لے  گئی، جیپ میں، میں اور ابا جی بیٹھے  تھے، میں نے  ابا جی سے  کہا، میں ڈرائیور کو آواز دیتی ہوں، جیسے  یہ گاڑی ہلکی ہو آپ فوراً کود جانا، اباجی نے  کہا تمہارا کیا ہو گا؟ میں نے  کہا اللہ پر بھروسہ رکھئے، میرے  اللہ مجھے  میرے  گھر بھیج دیں گے، میں نے  ڈرائیور کو آواز دی، ڈرائیور صاحب ! ذرا رکئے، گاڑی ذرا ساٹھ کلو میٹر پر آئی تو ابا جی کود گئے، گرے  اور چوٹ لگی، پیچھے  سے  گاؤں والے  پتھراؤ کر رہے  تھے، اس لئے  پولیس نہیں رکی اور بھاگ گئی۔

سوال  :  اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  :  اسکے  بعد میرے  اللہ نے  میرا ایمان بنایا، فضائل اعمال کے  حکایات صحابہ کے  قصے، میں نے  سب پڑھ لئے  تھے، ان کا مزہ لیا، میرے  گھر والوں نے  مجھے  بہت سزائیں دیں اور لیڈیز پولیس نے  مجھے  بری طرح اذیتیں دیں اور مارا، میں نے  ہر بار ان سے  کہہ دیا، میرے  جسم کی بوٹی بوٹی کر لو، تب بھی جو کلمہ اور ایمان روئیں روئیں اور خون کے  قطرے  قطرے  میں بس گیا ہے  وہ نکل نہیں سکتا، میرے  جسم سے  خون نکلتا دیکھ کر دیکھنے  والے  رونے  لگتے، پیٹنے  والے  میرے  حال کو دیکھ کر رونے  لگتے  مگر مجھے  تکلیف کے  بجائے  مزہ آتا، مجھے  لگتا جس اللہ کی محبت میں میں ستائی جا رہی ہوں وہ مجھے  دیکھ رہا ہے، وہ کتنا خوش ہو رہا ہو گا، میری ماں نے  دو دفعہ میرا گلا گھونٹا، میرے  بڑے  بھائی مجھ پر بار بار چڑھتے، بس ایک میرے  رشتہ کی خالہ تھیں جنہیں اللہ نے  نرم کر دیا تھا، بار بار مجھے  چھڑاتیں میری شادی کرنے  کا پروگرام بنایا گیا، میں نے  صاف صاف کہہ دیا کہ شادی میری ہو چکی ہے، اب جس کی میں ہوں اس کے  علاوہ مجھے  کوئی چھو بھی نہیں سکتا، یہ مسلمان کی جان ہے  کوئی آپ کے  آشرم کے  عیاشوں کی چاہت نہیں ہے، میں یہاں شرک میں ہرگز زندہ نہیں رہ سکتی، یا مجھے  مار دو یا مجھے  جانے  دو، اگر مجھے  اس گھر میں رکھنا چاہتے  ہو تو بس ایک راستہ ہے  کہ گھر والے  مسلمان ہو جائیں، مار مار کر لوگ تھک گئے  اور ہار گئے، کئی بار مجھے  زہر دینے  کا پروگرام بنایا، ایک دو بار میرے  ابا جی کو بھی ہار کر فون کیا کہ اس کی لڑکی کو لے  جاؤ، وہ آنے  کی تیاری کرتے  مگر پھر ان کو منع کر دیتے، ایک روز میرے  پتا جی (والد صاحب) نے  ابا جی کو فون کیا کہ ہم اس لڑ کی کو رخصت تو کر دیتے  مگر کس طرح کریں کہ آپ مسلمان اور ہم ہندو ہیں، ابا جی نے  کہا کہ اس کا علاج تو بہت آسان ہے  کہ آپ مسلمان ہو جائیں، اور اگر آپ مسلمان ہو جائیں گے  اور آپ لڑکی کو رخصت نہ کرنا چاہیں تو میں اپنا اکلوتا لڑکا رخصت کر کے  آپ کو دے  دوں گا وہ چپ ہو گئے۔

ایک روز میرے  گھر والے  مجھے  مار رہے  تھے، میری خالہ نے  مجھے  چھڑایا، جب سب لوگ چلے  گئے  تو میری خالہ نے  کہا انجو تو جس مالک پر ایمان لائی ہے  اگر وہ تجھے  چاہتا ہے  تو اس سے  کہتی کیوں نہیں ؟کہ مجھے  یہاں سے  نکال لے، خالہ یہ کہہ کر چلی گئیں میں نے  وضو کیا، کمرہ بند کیا اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور خوب اپنے  رب سے  فریاد کی، میرے  اللہ مجھے  نہ کوئی شکایت ہے  اور نہ کوئی شکوہ ہے، میرے  لیے  آپ کا یہ کرم کیا کم ہے  کہ مجھ گندی کو شرک کی نگری میں ایمان نصیب کیا اور مجھ گندی کو اپنے  نبی کے  مظلوم صحابہ کی طرح مار کھانا نصیب ہوا، میرے  اللہ آپ نے  میرے  لیے  ساری تکلیفوں کو مسرت کی چیز بنا دیا، میں کہاں اور ایمان کہاں، مگر میرے  اللہ میری خالہ یہ سوچیں گی کہ اس کا خدا اسے  نہیں چاہتا، یا وہ کچھ نہیں کر سکتا، میرے  مولا! آپ مجھے  میرے  شوہر کے  گھر ان کے  ذریعہ پہنچا دے۔

سوال  :  پھر کیا ہوا؟

جواب  :  میرے  پتا جی (والد صاحب) نے  عاجز آ کر آشرم کے  لوگوں سے  مشورہ کیا سب نے  مشورہ کیا کہ لڑکی ادھرم ہو گئی ہے، اب دھرم میں آ سکتی، اب جتنا اس کو مارا جائے  گا پورے  رشی کیش میں رو رو ہو گی، اس لئے  اچھا ہے  کہ اس کو اس کے  شوہر کے  گھر خاموشی سے  پہنچا دیا جائے، میرے  پتا جی نے  میرے  ابا جی کو فون کیا، آپ ہم سے  ڈر رہے  ہو ہم آپ سے  ڈر رہے  ہیں، ہم دونوں ایک درمیان میں جگہ طے  کریں وہاں ہم انجو کو لے  کر آ جائیں اور آپ وہاں آ جائیں، سہارنپورطے  ہو گیا، ابا جی نے  اپنے  جاننے  والے  کا پتہ دیا، اگلے  روز صبح کو میرے  پتا جی (والد صاحب) اور خالہ مجھے  لے  کر سہارنپور آ گئے، ہمارے  ابا جی بھی آ گئے  اور خوشی خوشی ہم لوگ اپنے  شوہر کے  یہاں آ گئے، میں نے  اپنی خالہ سے  کہا: خالہ!  آ پ نے  دیکھا، ادھر میں نے  اپنے  اللہ سے  کہا، ادھر اللہ نے  میری سنی، خود میرے  پتا جی کو مجبور کیا کہ مجھے  پہنچا دیں، کیا میری خالہ ایسے  اللہ پر ایمان کے  بغیر جینا اچھا ہے، میری خالہ بہت حیرت میں آ گئیں، میں نے  سہارنپور میں ان کو ایمان قبول کرنے  کے  لئے  کہا وہ تیار ہو گئیں، چلتے  چلتے  میں نے  ان کو کلمہ پڑھوایا۔

سوال  : گاؤں میں پہنچ کر کیا ہوا؟

جواب   : گاؤں والوں کو خبر ہو گئی تھی، پورا گاؤں استقبال کے  لئے  باہر آ گیا، پورے  گاؤں میں عید ہو گئی، اور اب میں خوشی خوشی رہ رہی ہوں، میں ملنے  کے  لئے  ایک پروگرام میں حضرت صاحب کے  یہاں آئی، حضرت صاحب نے  مجھے  پورے  گاؤں کی عورتوں میں کام کے  لئے  کہا، الحمد للہ بہت سی مسلمان عورتیں جو پہلے  نماز، روزے  اور دین سے  دور تھیں، وہ نماز کی پابند ہو گئیں، میرے  اللہ کا کرم ہے، پانچ نماز کے  علاوہ  تہجد اور اکثر نفلی نمازیں پڑھنے  لگیں، کوشش کرتی ہوں نفلی روزے  بھی شروع کروں، قرآن شریف پڑھ رہی ہوں، میرے  گھر والے  مجھ سے  بہت محبت کرتے  ہیں۔

سوال  : گوشت آپ کھانے  لگی ہیں ؟

جواب :  میرے  اللہ نے  گوشت حلال کیا ہے، میرے  اللہ نے  کھانوں کا سردار گوشت کو رکھا ہے، اب گوشت میرے  لیے  مرغوب غذا ہے، اسلام تو کہتے  ہی اس کو ہیں کہ اپنے  اللہ اور اس کے  رسول کی پسند کو اپنی پسند بنا لے، میرے  اللہ کا کرم ہے  مجھے  یہ معلوم ہو جائے  کہ میرے  نبی کو یہ پسند ہے، بس اب وہ مجھے  پسند ہو جاتا ہے  اور دل سے  پسند ہو جاتا ہے، مجھے  پہلے  میٹھا اچھا نہیں لگتا تھا، اپنے  اسکول کی لڑکیوں کے  ساتھ مل کر اصل میں کہ میرا ذائقہ بگڑ گیا تھا کہ میں میٹھا نہیں کھا تی تھی مگر مجھے  معلوم ہوا کہ میرے  نبی میٹھے  کو پسند کرتے  تھے، بس اب مجھے  میٹھا پسند ہو گیا اور ا ب مجھے  یہ محسوس ہوتا ہے  کہ میٹھا مجھے  پہلے  بھی پسندتھا۔

سوال  :  آپ کے  گھر والوں سے  آپ کا رابطہ ہے ؟

جواب  : میرے  والد اور بہن کے  فون آتے  رہتے  ہیں، انہوں نے  آنے  کا وعدہ بھی کیا ہے۔

سوال  : ان کو آپ نے  دعوت نہیں دی؟

جواب  : ابھی ان کے  لئے  دعا کرنی شروع کی ہے، سچی بات یہ ہے  کہ دعا بھی کی نہیں، بس ارادہ ہے  ایک دعاجس کو دعا کہتے  ہیں ہو جائے، تو پھر وہ ایمان میں ضرور آ جائیں گے، اصل میں دعا بھی اللہ ہی کراتے  ہیں، بس اللہ وہ دعا کروا دے  اس کا انتظار کر رہی ہوں ؟

سوال  : آمنہ بہن !ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیں گی؟

جواب  : میرے  حضرت جی کی تقریر میں نے  سنی، کہ اللہ نے  ہدایت اتار دی ہے، ہر کچے  پکے  گھر میں اسلام کو داخل کرنے  کا فیصلہ ہو چکا ہے، اب اگر مسلمانوں نے  اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو اللہ اپنے  بندوں کی ہدایت کے  لئے  مسلمانوں کے  محتاج نہیں ہیں حضرت فرماتے  ہیں کہ رشی کیش کے  گڑھ سے  مجھے  ہدایت ملنا اس کی طرف سے  مسلمانوں کو وارننگ ہے، اس سے  پہلے  کہ دوسرے  راستوں سے  ہدایت کا کام لیا جائے، مسلمانوں کو اپنے  داعیانہ منصب پر کھڑا ہو جانا چاہئے۔

سوال  : بہت بہت شکریہ!آپ سے  حالات سن کر ایمان تازہ ہو گیا۔

جواب  : بہن! بس دعا کیجئے  کہ اللہ تعالیٰ موت تک ایمان پر ثابت قدم رکھے

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، جون  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

  ایک خوش قسمت بہن زینب {چوہان} سے  ایک ملاقات

 

اسما ء ذات الفوزین

 

اسماء امت اﷲ  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

زینب چوہان   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : زینب آپا ! آپ کے  آنے  سے  بہت خوشی ہوئی، آپ کی ذات اللہ تعالی کی ہدایت کی عجیب نشانی ہے، جب ابی سے  آپ کی کہانی سنی تھی خیال ہو تا تھا کہ ابی کوئی افسانہ سنا رہے  ہیں، بہت اشتیاق تھا ملاقات کا، اللہ تعالی نے  ملاقات بھی کرا دی اور یہ موقع دیا کہ ابی نے  ذمہ داری لگا دی کہ آپ کی کہانی آپ کی زبان سے  سنوں اور قارئین ارمغان کی خدمت میں ہدیہ پیش کروں  ؟

جواب   : سچی بات یہ ہے  اسماء ! کہ تمہارے  بچپن کے  قصے  جو مولانا صاحب کے  ہم جیسے  جہنم کے  راستہ پر پڑے  لوگوں کے  ایمان کا ذریعہ بنانے  کا ذریعہ بنے، میں نے  بھی دو مرتبہ حضرت کی تقریر میں سنے  تھے، اس لئے  مجھے  بھی بڑی حسرت تھی کہ تم سے  ملوں، اللہ نے  میری بھی پرانی مراد پوری کر دی۔

سوال  : چلئے  اللہ کا فضل ہوا دونوں کا کام بن گیا، آپ کو ابی نے  بتا ہی دیا ہے  کہ ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کرنی ہیں، اس لئے  کچھ باتیں پوچھ لوں ؟

جواب   :  جی !  بس آج میں دلّی صرف اسی لئے  آئی ہوں۔

سوال   :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب   : میں راجستھان کے  چورو ضلع کے  ایک راجپوت خاندان میں ۲۰/ اپریل ۱۹۶۸ء کو پیدا ہوئی، ہمارے  پتاجی ہائی اسکول میں پرنسپل تھے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے  ایک اسکول میں ہوئی، بعد میں چورو میں ایک ڈگری کالج سے  میں نے  بی اے  کیا، ہنومان گڑھ کے  ایک پڑھے  لکھے  خاندان میں ۶/ جون ۱۹۹۰ء کو ہماری شادی ہوئی، میرے  شوہر مدھیہ پردیش میں رتلام میں نائب تحصیل دار تھے، وہ ہاکی کے  بہت اچھے  کھلاڑی رہے  ہیں اور ان کو اسی بنیاد پر نوکری ملی تھی، دو سال میں اپنی سسرال ہنومان گڑھ  میں رہی، بعد میں ہم رتلام ضلع کی ایک تحصیل میں جہاں میرے  شوہر کی ملازمت تھی وہیں رہنے  لگے، ٹرانسفر کی وجہ سے  اجین اور بعد میں مندسور میں چھ سال رہے، ا سد ور ان  میرے   یہاں دو بیٹے  اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، ۲۰۰۰ء میں میرے  شوہر کا پرموشن ہوا اور وہ تحصیل دار بن کر بھوپال کی ایک تحصیل میں چلے  گئے، گھر پریوار سب کچھ اچھا تھا، ہم دونوں میں بہت محبت تھی، اچانک نہ جانے  کیا ہوا ہمارے  گھر کو کسی کی نظر لگ گئی اور اگر میں یہ کہوں کہ ہدایت کی ہوا لگ گئی اسماء بہن ! میرا حال عجیب ہے، میری زندگی کا بگاڑ میرے  سنورنے  کا ذریعہ بن گیا۔

سوال  : ہاں ہاں ! وہی میں تو سننا چاہتی ہوں، اللہ نے  آپ کی اسلام کی طرف کیسے  رہ نمائی کی، ذرا تفصیل سے  سنائیے ؟

جواب  : میرے  شوہر کے  دفتر میں ایک برہمن لڑکی کلرک تھی، بہت خوب صورت اور ایکٹیو(فعال)بلکہ اگر میں کہوں کہ اووَر ایکٹیو(Over active) تو یہ بات بھی سچ ہو گی، اس لڑکی کی ہر ادا میں، اس کی شکل میں، اس کی آواز میں، اس کے  انداز میں غرض ہر چیز میں بلا کی کشش تھی، اسماء بہن، میرے  شوہر کی خطا نہیں، بلکہ وہ لڑکی ویسی تھی کہ پتھر کی مورتی بھی اس کے  سامنے  پگھل جاتی، میرے  شوہر اپنے  کو بہت بچانے  کی کوشش کرتے  رہے  اور سنبھلنے  کی کوشش کرتے  رہے، مگر اللہ نے  مرد و عورت کے  رشتہ میں جذبہ رکھا ہے  وہ بچ نہ سکے  اور اس لڑکی سے  ان کو تعلق ہو گیا، اب ہر وقت بس اس کی محبت میں گھلتے  رہتے  تھے، اس کا مجھے  سوفیصد یقین ہے  کہ جب تک انھوں نے  شادی نہیں کی ان میں جسمانی تعلقات نہیں ہوئے، مگر ظاہر ہے  کہ ایک جسم میں دو دل تو ہوتے  نہیں اس سے  محبت کے  ساتھ ان کا مجھ سے  تعلق کم ہو نا شروع ہو گیا، وہ شروع میں تو بہت کوشش کرتے  رہے  کہ مجھے  کچھ پتہ نہ لگے  مگر بات چھپ نہ سکی اور مجھے  بھی پتہ لگ گیا اور دفتر میں بھی لوگوں کے  علم میں آ گیا، مجھ سے  بھلا کیسے  برداشت ہو سکتا تھا انتشار رہنے  لگا، بات بگڑتی گئی اور انھوں نے  پروگرام بنایا کہ مجھے  چھوڑ کر اس سے  شادی کر لیں، اس کے  لئے  انھوں نے  مجھے  ہنومان گڑھ چھوڑا، مئی ۲۰۰۰ء میں بچوں کی چھٹیاں تھیں، وہ دہلی گئے   مجھے  یہ بتایا کہ مجھے  ٹریننگ میں جانا ہے، دہلی میں آشا شرما کو بلا لیا، آشا شرما نے  ان کے  ساتھ ایک کمرے  میں رہنے  سے  منع کیا کہ پہلے  ہم شادی کریں اس کے  بعد ایک کمرے  میں رہ سکتے  ہیں، انھوں نے  دو کمرے  شروع میں ہوٹل میں لئے، اس کے  بعد وکیلوں سے  مشورہ کیا، ایک وکیل نے  مشورہ دیا کہ قانونی گرفت سے  بچنے  کا سب سے  اچھا طریقہ یہ ہے  کہ آپ دونوں مسلمان ہو کر شادی کر لیں، یہ رائے  ان کو پسند آئی میرے  شوہر نے  آشا کو بھی اس کے  لئے  تیار کیا، شروع میں ایک ہفتہ تک تو وہ اسلام قبول کرنے  سے  منع کرتی رہی، مگر بعد میں بہت دباؤ دینے  پر راضی ہو گئی، وہ دونوں جامع مسجد دہلی گئے  وہاں کے  امام بخاری صاحب نے  ان کو مسلمان کرنے  سے  منع کر دیا، کئی مسجدوں میں میرے  شوہر گئے  مگر کوئی مسلمان کرنے  اور کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  تیار نہ ہوا، کسی وکیل نے  انھیں بتایا کہ پرانی دہلی میں سرکاری رجسٹرڈ قاضی ہوتے  ہیں، وہ نکاح پڑھاتے  ہیں، میرے  شوہر نے  ان کا پتہ معلوم کیا اور پرانی دہلی کے  قاضی صاحب کے  پاس گئے، انھوں نے  کہا پہلے  آپ دونوں مسلمان ہو کرمسلمان ہو نے  کا بیان حلفی سرکاری وکیل سے  بنوا کر لاو، میرے  شوہر نے  کہا آپ ہمیں مسلمان بنا لو، انھوں نے  مسلمان کرنے  سے  انکار کر دیا اور آپ کے  والد حضرت مولانا کلیم صاحب کے  پاس جانے  کو کہا، وہ دونوں اگلے  روز پھلت گئے  تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب دہلی گئے  ہوئے  ہیں، ایک مولانا صاحب نے  ان دونوں کو کلمہ پڑھوا دیا اور بتایا کہ مسلمان ہونے  کے  لئے  مولانا صاحب کا ہونا ضروری نہیں ہے، آپ میرٹھ یا دہلی سے  کسی سرکاری وکیل (نوٹری) سے  اپنے  کاغذات بنوا لیں، میرٹھ ایک گپتا جی کا پتہ بھی بتا دیا انھوں نے  میرٹھ جا کر بیان حلفی بنوایا اس کے  بعد قاضی صاحب نے  اپنی فیس لے  کر ان دونوں کا نکاح پڑھوا دیا اور نکاح کو عدالت سے  رجسٹرڈ کرانے  کو بھی کہا، آشا نے  ہمارے  شوہر سے  کہا، ہم جب مسلمان ہو گئے  ہیں تو پھر ہمیں اسلام کو پڑھنا بھی چاہئے، انھوں نے  اردو بازار سے  ہندی اور انگریزی میں اسلام پر کتابیں خریدیں اور ہندی قرآن مجید بھی لیا، ان کو کسی نے  مولانا صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا، اوکھلا میں ایک مسجد میں تلاش اور کوشش سے  ان کی ملاقات بھی ہو گئی  مولانا نے  ان کو اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی اور سمجھا یا کہ بلا شبہ اپنے  خاندان، اپنے  پھول سے  بچوں اور ایسی نیک بیوی کو چھوڑنا خود کیسی عجیب چیز ہے، مگر اگر آپ سچے  دل سے  اسلام قبول کریں تواس الجھی ہوئی زندگی میں اللہ کے  قبضے  میں سب کچھ ہے، وہ اچھی زندگی عطا کریں گے، مولانا صاحب نے  یہ بھی کہا کہ آپ کو اپنی پہلی بیوی اور بچوں بلکہ سب خاندان والوں پر دعوت کا کام کرنا چاہئے، کم از کم دعا تو ہدایت کی ابھی سے  شروع کر دینی چاہئے، میرے  شوہر بتاتے  ہیں کہ انھوں نے  قرآن کی آیت پڑھ کر یہ بات بتائی کہ جو بھی مرد ہو یا عورت اچھے  کام کرے  گا شرط یہ ہے  کہ وہ مومن ہو تو اللہ تعالی اس کو اچھی اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے،

سوال  : ہاں قرآن مجید کی آیت :مَنْ عَمِلَ صَا لِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَہُوَ مُومِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طِیِّبَۃً اسک ا ترجمہ یہ ہی ہے۔آگے  بتائیے ؟

جواب  : پہلے  ذرا اس آیت کا ترجمہ کیجئے۔

سوال  : جو بھی مرد ہو یا عورت نیک عمل کرے  گا شرط یہ ہے  کہ وہ مومن ہو ہم اس کو ضرور پاکیزہ زندگی عطا کرتے  ہیں۔

جواب  : ہاں یہی بالکل یہی آیت ہے، میرے  شوہر کہتے  ہیں، اس آیت نے  میری زندگی کو روشن کیا ہے، پوری آیت ان کو یاد ہے، سچی بات یہ ہے  فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طِیِّبَۃً کیسی سچی بات کہی ہے۔

سوال  : ہاں تو آگے  سنائیے  کہ آپ کو ایمان کیسے  ملا، یہ تو آشا کے  اسلام کا ذکر آپ کر رہی ہیں ؟

جواب  : ہاں بہن! اسی سے  جڑا ہے  میرا اسلام بھی، ہوا یہ کہ میرے  شوہر کو تو شروع میں اسلام کو پڑھنے  کا موقع نہ ملا، مگر آشا کو پڑھنے  کا بہت شوق تھا، جیسے  جیسے  اسلام کو وہ پڑھتی گئی اسلام اس کے  اندر اترتا گیا، بچوں کی چھٹیاں ختم ہو گئیں میرے  شوہر کی بھی چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ بھوپال پہنچے، مگر مجھے  ہنو مان گڑھ سے  نہیں بلایا، مجھ سے  رابطہ بھی بہت کم کیا، مجھے  فکر ہوئی تو میں نے  اپنے  چھوٹے  بھائی کو بھوپال بھیجا، اتفاق سے  آشا رات کو گھر تھی، اس کا نیا اسلامی نام عائشہ تھا، میرے  بھائی نے  معلوم کیا کہ یہ لڑکی آپ کے  گھر رات میں کون ہے، انھوں نے  کہا دفتر میں کام کرتی ہے  دفتری کام کے  لئے  بلایا ہے، میرا بھائی ان سے  بہت لڑا، تیسرے  روز مجھے  اس نے  فون کر کے  بلایا، میں اپنے  پتاجی کے  ساتھ بھوپال پہنچی، کئی روز تک جھگڑا چلتا رہا، آخر میں انھوں نے  وہ کاغذات قبول اسلام کے  نکال کر میرے  سامنے  رکھ دئیے، میرے  لئے  اس سے  افسوس اور صدمہ کی کیا بات تھی، میرے  والد نے  وکیلوں سے  مشورہ کیا اور ایف آئی آر کرائی اور عدالت میں کئی روز گئے، پولیس آئی ان کو گرفتار کر کے  لے  گئی، کچھ روز کے  بعد ضمانت تو ہو گئی مگر دفتر سے  ان کو معطل کر دیا گیا، میرے  گھر والے  میری محبت میں میرے  شوہر کے  دشمن ہو گئے، جگہ جگہ سے  ان پر مقدمے  چلوائے، زندگی ان کے  لئے  مشکل سے  مشکل ہو گئی، آشا اس دوران اسلام کو پڑھتی رہی اور وہ بہت مذہبی مسلمان بن گئی، وہ بھی سسپنڈ ہو گئی، گھر رہ کر اس نے  قرآن مجید پڑھ لیا اور کچھ مسلمان عورتوں سے  رابطہ کیا، وہ اجتماع میں جانے  لگی، پردہ  کرنے  لگی، برقع منگوا لیا، میرے  اور میرے  گھر والوں کی طرف سے  جب حد درجہ کی مخالفتیں ہوئیں اور میرے  سسرال والے  بھی میرے  ساتھ تھے، تو عائشہ اور میرے  شوہر نے  مشورہ سے  طئے  کیا کہ ہمیں دہلی جا کر مولانا کلیم صاحب سے  مشورہ کرنا چاہئے، وہ دہلی پہنچے، مولانا صاحب سے  عائشہ نے  کہا حضرت الحمد للہ مجھے  تو اسلام سمجھ میں آ گیا ہے، میرے  دل میں تو یہ آتا ہے  کہ اگر ساری زندگی مجھے  جیل اور مشکلات میں گزارنی پڑے  اور میرا ایمان سلامت رہ جائے  تو مرنے  کی بعد کی زندگی میں جنت بہت سستی ملے  گی، اس لئے  میرے  دل میں آتا ہے  کہ ان کی پہلی بیوی نے  ایک زندگی ان کے  ساتھ گزاری ہے  اور بہت محبت اور خدمت کے  ساتھ گزاری ہے، اس بے  چاری کی کیا خطا ہے، یہ اگر اس کے  ساتھ جا کر رہنا چاہیں تو مجھے  کوئی اعتراض نہیں، البتہ یہ دل چاہتا ہے  کہ ان کا ایمان بچا رہے، یہ ان کے  ساتھ جا کر رہیں اور ان کو مسلمان کرنے  کی کوشش کریں، اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ان سے  نکاح کر لیں، مجھے  چاہیں طلاق دے دیں یا رکھیں، اس کے  لئے  ضروری ہے  کہ کچھ وقت جماعت میں لگا لیں تاکہ وہاں جا کر مرتد نہ ہوں، مولانا صاحب نے  میری رائے  سے  اتفاق کیا، مجھے  بہت شاباشی دی، پھر میرے  شوہر کو اس پر راضی کیا اور کہا آپ عائشہ کی بات مان لیجئے، آپ چالیس روز جماعت میں لگا آئیں، آپ کی زندگی کے  سارے  مسائل مجھے  امید ہے  کہ انشاء اللہ ضرور حل ہو جائیں گے، وہ تیار ہو گئے  اور مولانا صاحب نے  نظام الدین سے  ان کو جماعت میں بھیج دیا، گجرات میں ان کا وقت لگا، حیدرآباد کی جماعت کے  ساتھ وقت بہت اچھا لگا، ان کو بہت اچھے  خواب دکھائی دئیے  اور الحمد للہ اسلام ان کے  اندر اتر گیا، جماعت سے  واپس آئے  تو وہ عائشہ کے  یہاں گئے، عائشہ نے  انھیں ہنومان گڑھ جا کر بات کرنے  کو کہا، مگر ان کی ہمت نہ ہوئی، عائشہ خود ایک اچھی داعیہ بن گئی تھی، اس کے  بچپن کی کئی سہیلیاں اس کی کوشش سے  مسلمان ہو چکی تھیں، عائشہ نے  مجھے  فون کیا کہ آپ بھی مسعود صاحب (میرے  شوہر کا اسلامی نام مسعودہے ) سے  کب تک لڑائی اور مقدمہ بازی کرتی رہیں گی،  آپ ایک بار دس منٹ کی میری بات سن لیجئے، بس ایک روز کے  لئے  بھوپال آ جائیے، میں ان سے  الگ ہو نے  کو تیار ہوں  میں نے  اس کو شروع میں تو بہت گالیاں سنائیں، مگر اس اللہ کی بندی نے  ہمت نہ ہا ری، بار بار فون کرتی رہی اور جب میں کسی طرح تیار نہ ہوئی تو اس نے  مجھ سے  یہ کہا کہ اچھا پھر ہم اپنے  اللہ سے  کہہ کر بلوائیں گے، عائشہ بتاتی تھی اس کے  بعد اس نے  دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور اللہ کے  سامنے  فریاد کی: میرے  اللہ! جب میں آپ پر ایمان لائی ہوں اور آپ مجھ سے  محبت کرتے  ہیں تو آپ اس کے  دل کو نرم کر دیجئے  اور میرے  مولیٰ اس کی ہدایت کا فیصلہ فرما کر اس کو یہاں بھیج دیجئے، اس کے  بعد تہجد میں دعا کرتی رہی، اس اللہ والی کا اللہ کے  ساتھ اسماء بہن بہت ناز کا تعلق ہو گیا تھا، اس کی دعائیں میرے  گلے  کا پھندہ بن گئیں، تین دن کے  بعد میرے  دل میں ایم پی جانے  کا تقاضا پیدا ہوا، میں اپنے  تینوں بچوں کو چھوڑ کر اپنے  بھائی کے  ساتھ وہاں پہنچی، میرے  شوہر کی تو مجھ سے  ملنے  کی ہمت نہ ہوئی، عائشہ میرے  پاس آئی اور مجھے  اسلام قبول کرنے  کو کہا اور مجھے  سمجھایا کہ ان کے  ساتھ یہیں رہنے  کے  لئے  ایک ہی راستہ ہے  کہ آپ بھی مسلمان ہو جاؤ اور مسلمان ہو کر آپ کا نکاح دوبارہ ان سے  ہو گا  اگر آپ ان کے  ساتھ مسلمان ہو کر رہو تو میں الگ ہو نے  کو تیار ہوں، وہ روکر میرے  پاؤں پکڑتی اور خوشامد کرتی رہی، مرنے  کے  بعد کے  حالات اور جہنم کی بات کرتی رہی، اس کی بات میرے  دل میں گھستی چلی گئی یہاں تک کہ میرے  دل میں آیا کہ میں مسلمان ہو جاؤں، میں نے  مسلمان ہو نے  کو کہہ دیا، وہ مجھ سے  چمٹ کر خوب روئی اور میرے  شوہر کو فون کر کے  بلا لیا، ایک عورت کو فون کر کے  ان کے  شوہر حافظ صاحب کو بلایا، انھوں نے  دو لوگوں کو مزید بلا کر مہر فاطمی پر میرا نکاح ان سے  پڑھوا دیا، وہ اپنے  کپڑے  لے  کر میرا گھر چھوڑ کر چلی گئی، چند روز فاطمہ آپا جن کے  یہاں اجتماع ہوتا تھا، ان کے  یہاں رہی اور پھر ایک چھوٹا مکان کرائے  پرلے  لیا، ایک ہفتہ تک وہ تھوڑے  وقت کے  لئے  میرے  یہاں آتی اور مجھے  مبارک باد دیتی، میری بلائیں لیتی اور کہتی، زینب تم کتنی خوش قسمت ہو کہ اللہ نے  تم پر کیسا رحم کیا کہ تمھیں ایمان دیا اب اس ایمان کی قدر جب ہو گی جب تم اس کو پڑھو گی، وہ ایک ایسی لڑکی تھی جواب شاید جنت میں رہتی تھی، بس اس کا جسم دنیا میں تھا، مگر اس کا دل و دماغ اور سوچ سب جنت و آخرت میں رہتی تھی، وہ اس دنیا کو بالکل ایک دھوکہ کا گھر، ایک سفر جانتی تھی، اس کی باتوں میں ایسی سچائی اور محبت اور خلوص ہوتا کہ مجھے  وہ دنیا میں اپنی سب سے  بڑی خیرخواہ دکھائی دینے  لگی، ایک ہفتہ کے  بعد ایک روز مجھ سے  کہا کہ اب میں اس گھر میں نہیں آؤں گی، اب آپ کچھ وقت کے  لئے  میرے  کمرے  پر آیا کریں   میں ان کے  کمرے  جانے  لگی، اپنے  شوہر سے  سارے  مقدمے  ہم نے  واپس لے  لئے، میں دفتر کے  وقت میں کئی گھنٹے  اس کے  پاس گزارتی، اس نے  مجھے  قرآن مجید پڑھایا اور اردو شروع کرائی، ایک روز صبح گیارہ بجے  میں (زینب )اس (عائشہ )کے  پاس گئی، اس کا چہرہ خوشی سے  چمک رہا تھا، جمعہ کا دن تھا اس نے  کہا، ایک خوشی کی بات سناؤں، اب اللہ سے  ملنے  کے  لئے  اور جنت میں جانے  کے  لئے  مجھے  انتظار نہیں کرنا پڑے  گا، رات میں نے  خواب دیکھا، ہمارے  حضور تشریف لائے  تھے  اور مجھ سے  فرمایا:عائشہ یہ دنیا تو قید خانہ ہے، تم کب تک یہاں رہو گی؟پیر کے  دن ہم تمھیں جنت کے  لئے  لینے  آئیں گے، یہ کہہ کر بہت ہنسی، بس تین روز اور ہیں زینب، بس پھر وہیں ملیں گے، بہت اطمینان سے  وہاں مزے  میں ساتھ رہیں گے، مجھے  بہت عجیب سا لگا، اگلے  روز میں وہاں گئی تو وہ کل کی طرح ہشاش بشاش تھی، مجھے  پڑھایا اور مجھ سے  کہا کہ اللہ نے  ہمیں ایمان دیا ہے  تو اب ہمیں دوسرے  لوگوں کو ایمان کی دعوت دے  کر دوزخ کی آگ سے  بچانے  کی کوشش کرنی چاہئے، اتوار کے  روز میں وہاں پہنچی تو میں نے  دیکھا وہ چادر اوڑھے  ہوئے  ہے، میں نے  کہا عائشہ آپ کو کیا ہوا؟انھوں نے  بتایا کہ مجھے  صبح سے  بخار آ رہا ہے، میں اس کو بہت زور دے  کر ڈاکٹر کے  یہاں لے  گئی دوا دلوائی اور کہا:کہو تو میں رک جاؤں، یاپھر آپ ہمارے  یہاں ہی چلیں اکیلے  بخار میں رہنا ٹھیک نہیں، وہ بولی مومن اکیلا کہاں ہوتا ہے  اور یہ شعر پڑھا   ؎

تم مرے  پاس ہو تے  ہو              جب دوسرا کوئی نہیں ہوتا

سوال  :   شعر  یوں ہے    ؎

تم مر ے  پا س ہو تے  ہو        گویا جب کو ئی دو سر ا نہیں ہو تا

جواب  :  ہاں ہاں ! جیسے  بھی ہو، میں چلی آئی، میں نے  خواب دیکھا کہ میں اس کے  پاس گھر میں ہوں، اچانک ایک بہت حسین خوب صورت نورانی شکل کے  حضرت تشریف لائے، حضرت مولانا کلیم صاحب بھی اسی گھر میں ہیں، مجھ سے  کہا یہ ہمارے  رسول ﷺ ہیں، عائشہ کو لینے  کے  لئے  تشریف لائے  ہیں، اس کے  بعد وہ عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر لے  گئے، میری آنکھ کھلی تو مجھ پر خواب کی خوشی ہونے  کے  بجائے  کہ پہلی مرتبہ پیارے  نبیﷺ کی زیارت ہوئی تھی عجیب صدمہ سا ہوا، رات کے  تین بج رہے  تھے  میں نے  اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھی اور بہت روئی، صبح سویرے  میں عائشہ کے  گھر پہنچی، بخار اس کو بہت زیادہ تھا، میں نے  پانی کی پٹیاں اس کے  سر وغیرہ پر رکھیں اس سے  اس کو راحت ہوئی، مجھ سے  کہا زینب! تمھاری زندگی کو میں نے  اجیرن کیا، مجھے  معاف کرنا خدا کے  لئے  دل سے  معاف کر دینا، مگر اس مشکل کے  بعد یہ ایمان جو آپ کو ملا ہے  پھر بھی بہت سستا سودا ہے، بس میری آپ سے  ایک آخری التجا ہے  کہ تینوں بچوں کو عالم اور داعی بنانا، یہ دین کا کام کریں گے  تو تمھارے  مرنے  کے  بعد تمھارے  لئے  ثواب کا کارخانہ لگا رہے  گا، میں نے  کچھ کھا نے  کے  لئے  کہا تو انھوں نے  کہا کہ دودھ ذرا سا پیوں گی، میرے  نبی نے  فرمایا کہ دودھ اچھا رزق ہے، پینے  اور کھانے  دونوں کا کام کرتا ہے، میں نے  دودھ دیا تو گرم تھا، بولی ذرا سا ٹھنڈا کر دو، زیادہ گرم کھانے  کی حدیث میں ممانعت آئی ہے، دودھ ٹھنڈا کر کے  دیا، دودھ پیا کمزوری بڑھتی گئی، سرمیں درد کی شکایت کی، میں نے  گود میں سر رکھ کر دبانا شروع کیا، عصر کے  بعد اچانک کہنے  لگی، لو میرے  نبی تو لینے  آ گئے، زور زور سے  درود پڑھنے  لگی اٹھنے  کی کوشش کی مگر ہلنے  کی ہمت نہ ہوئی اچانک کلمہ شہادت پڑھا، دو ہچکیاں آئیں اور انتقال ہو گیا۔

سوال  :  پھر ان کے  کفن دفن کا کیا انتظام ہوا؟

جواب  :  نہ جانے  کس طرح فاطمہ آپا گئیں، بس انھوں نے  سب لوگوں کو خبر کر دی، نہ جانے  کیسی خوشبو اس کے  جنازہ سے  پھوٹ رہی تھی، گھر تو گھر محلہ خوش بو سے  معطر ہو گیا، بڑی تعداد میں لوگوں نے  جنازہ میں شرکت کی۔

سوال  : آپ کے  شوہر کا کیا ہوا؟کیا انھوں نے  اسے  طلاق دے  دی تھی؟

جواب  : اصل میں عائشہ میرے  شوہر سے  اصرار کرتی تھی کہ زینب کی خوشی کے  لئے  مجھے  طلاق دے  دو، مگر انھوں نے  طلاق نہیں دی تھی، ان کے  انتقال کا ان پر بہت اثر پڑا، ان کی زندگی بالکل خاموش ہو گئی۔

سوال  : اور آپ کوکیسا لگا؟

جواب  : یہ بالکل عجیب و غریب اتفاق ہے، سچی بات یہ ہے  کہ ایک عورت کے  لئے  سوکن کا وجود سب سے  بڑا کانٹا ہو تا ہے، مگر میرے  اللہ جانتے  ہیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے  کہ عائشہ کے  انتقال کا مجھے  غم زیادہ ہوا یا میرے  شوہر کو، بس میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ اگر کوئی مجھ سے  سو قسمیں دے  کر یہ سوال کرے  کہ دنیا میں پوری زندگی میں مجھے  سب سے  زیادہ محبوب کون ہے  تو میں بغیر سوچے  سمجھے  یہ کہوں گی میری سب سے  محبوب اور خیرخواہ شخصیت اللہ اور اس کے  رسول کے  بعد عائشہ مرحومہ ہے، وہ زمین پر ایک زندہ ولی تھی، اسما بہن! سچی بات یہ ہے  کہ میں اپنے  شوہر پر اُن حالات میں جس قدر روتی تھی، اس سے  سو گنا زیادہ مجھے  عائشہ کے  انتقال کے  صدمہ نے  رلایا

سوال  : آپ نے  اپنے  بچوں کی تعلیم کیا کیا؟

جواب  : میں نے  بچوں کو اسکول سے  اٹھا لیا، میرے  دونوں بیٹوں کا نام حسن اور حسین ہے، ان دونوں کو ایک بڑے  مدرسے  میں داخل کیا، الحمد للہ حسن کے  ۲۶/ پارے  حفظ ہو گئے  ہیں، حسین کے  ۴/ پارے  ہوئے  ہیں اور فاطمہ بیٹی بھی الحمد للہ حفظ کر رہی ہے  اس کے  ۱۶/ پارے  حفظ ہو گئے  ہیں، میری خواہش ہے  وہ داعی بنیں اور عالم دین بن کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی طرح دعوت کا کام کریں۔

سوال  : آپ کے  شوہر کا کیا حال ہے ؟

جواب  : ان کو عائشہ کے  انتقال کا بڑا صدمہ ہے، ہمارے  پاس رہنے  لگے  ہیں، بار بار کہتے  ہیں اب دنیا سے  دل بھر گیا ہے  بس اللہ تعالی ایمان پر خاتمہ کرا دے، لیکن جب زیادہ پریشان ہوتے  ہیں تو میں مولانا صاحب کے  پاس ان کو بھیج دیتی ہوں وہ کچھ دعوت پر ابھارتے  ہیں اب بھی ان کو لے  کر آئی ہوں، الحمد للہ اس مرتبہ انھوں نے  ہشاش بشاش رہنے  کا وعدہ کیا ہے۔

سوال  : آپ کے  شوہر ابی سے  ملنے  آتے  رہتے  ہیں ؟

جواب  :  وہ ابی سے  بیعت ہیں، عائشہ بھی ان سے  بیعت تھی، اور میں اور میرے  چھوٹے  بچے  بھی حضرت سے  بیعت ہیں، میں نے  جب بیعت کے  لئے  کہا تھا تو حضرت نے  بہت منع کیا، انھوں نے  کہا بیعت تو ضرور ہو نا چاہئے  مگر کسی اللہ والے  اور کامل شیخ سے  بیعت ہونا چاہئے، جسم کی بیماری میں جب آدمی اچھے  سے  اچھے  طبیب کو تلاش کرتا ہے  تو روح کی بیماری میں تو اور بھی اچھے  سے  اچھے  شیخ کامل کو تلاش کرنا چاہئے، حضرت نے  فرمایا کہ جو خود آخری درجہ میں بیمار ہو وہ کیا کسی کا علاج کر سکتا ہے، میں تو اپنے  شیخ کے  حکم کی تعمیل میں توبہ کر لیتا ہوں کہ شاید سچے  طالب کی برکت سے  اللہ تعالی میرے  گناہ معاف فرما دیں، میرے  شوہر نے  کہا حضرت ہمیں آپ کی برکت سے  اللہ تعالی نے  کفر و شرک کی بیماری سے  نکال لیا آپ کے  علاوہ ہمیں کون طبیب ملے  گا، بہت اصرار کرنے  پر حضرت نے  ہم سب کو بیعت کر لیا۔

سوال  : بہت بہت شکریہ زینب آپا، واقعی آپ کی زندگی ایک عجیب زندگی ہے۔

جواب  :  اسماء بہن ! میری زندگی میں اور بھی عجیب عجیب واقعات ہیں جن کو اگر میں بتا دوں تو ایک لمبی کتاب بن جائے  گی مگر اس وقت ہماری گاڑی کا وقت قریب ہے، ابھی باہر سے  بار بار تقاضہ آر ہا ہے، پھر کسی وقت آ کر ساری کہانی سناؤں گی۔

سوال  : ضرور زینب آپا، اب کی مرتبہ آپ چند روز کے  لئے  آئیے  پھر ہم کچھ عورتوں کو اکٹھا کریں گے  اس وقت آپ سنائیے  گا

جواب  :  اسماء یہ نہیں ہو سکتا، بس تمہیں سنا سکتی ہوں، عورتوں کے  سامنے  میں کوئی مولوی نہیں ہوں، مجھے  تو بہت رعب ہو جاتا ہے۔

سوال  : اچھا ٹھیک ہے، اللہ حافظ !  ا لسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

دستر خوان اسلام پر نووارد بہن خدیجہ {سیما گپتا} سے  ملاقات

 

سدرہ ذات الفیضین

 

سدرہ ذات الفیضین  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

خدیجہ             :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ بہن مثنیٰ

سوال  : آپ دہلی کب تشریف لائی ہیں ؟

جواب   : ہم تین دن سے  دہلی میں ہیں، میرے  شوہر ڈاکٹر صاحب بھی ساتھ تھے، حضرت نے  ہمیں مرکز بھیج دیا تھا کہ تین روز ہم دونوں مرکز میں لگائیں، بہت ہی اچھا لگا، کل جمعرات بھی تھی، الحمد للہ حضرت مولانا سعد صاحب کی تقریر بھی کل سننے  کو ملی، یوں تو وہاں ہر وقت دین کی باتیں ہوتی رہتی ہیں، مرکز کی عورتیں بھی بہت محبت سے  ملیں  بہت اچھا وقت لگا

سوال  : آپ سے  شاید  ا بی نے  بتا دیا ہو گا کہ ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  :  ہاں آج شام کو ہماری گاڑی ہے، حضرت نے  ہم سے  بتایا تھا، مرکز میں تین دن لگا کر جمعہ اوکھلا میں پڑھنا ہے، خدیجہ کا انٹر ویو مثنیٰ لیں گی، ہم حضرت کے  حکم پر  آئے  ہیں۔ڈاکٹر صاحب جامعہ ملیہ میں کسی صاحب سے  ملنے  چلے  گئے  ہیں اور مجھے  یہاں چھوڑ گئے  ہیں۔

سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب  :  میں مغربی یوپی کے  ایک بڑے  قصبہ میں ایک تاجر لالہ خاندان میں ۳/ستمبر ۱۹۸۴ء کو پیدا ہوئی، میرا خاندانی نام سیما گپتا تھا، ابتدائی تعلیم قصبہ کے  محلہ کے  ایک اسکول میں ہوئی، پرائمری کے  بعد گرلس انٹر کالج سے  انٹر کیا، اس کے  بعد بی کام کیا، پھر پرائیویٹ سوشیالوجی(سماجیات)سے  ایم اے  کیا، میرے  دو بھائی اور ایک بہن ہیں، ایک بھائی بڑے  ہیں اور دو بھائی بہن چھوٹے  ہیں، ہمارے  پتاجی (والد صاحب) کرانہ کی تھوک کی دوکان کرتے  ہیں، بہت شریف بھلے  آدمی ہیں، میری ماتاجی (والدہ) بھی بہت نیک اور بھلی عورت ہیں۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :  ہمارے  قصبہ میں ہندو مسلمان دونوں رہتے  ہیں، بڑی تعداد میں مسلمان ہمارے  محلہ سے  ملے  ہوئے  محلہ میں رہتے  ہیں، جن سے  ہمارے  گھر کا بہت گہرا تعلق ہے، والد صاحب کاکرانہ کی دوکان کی وجہ سے  سب سے  لین دین بھی تھا  ہماری دیوار سے  ایک گھر چھوڑ کر ایک زمین دار خان صاحب رہتے  تھے  ان کے  بچے  ہمارے  ساتھ پرائمری اسکول میں پڑھتے  تھے، ہمارا اور ان کا ایک دوسرے  کے  گھر آنا جانا تھا، ان کی ایک لڑکی صبیحہ خان میرے  ساتھ انٹر تک پڑھتی رہی، اس سے  میری بہت دوستی تھی، ان کا گھرانہ بہت صاف ستھرا اور دینی گھرانہ ہے، صبیحہ کا ایک بڑا بھائی بہت شریف اور بہت خوب صورت تھا، وہ مجھے  دیکھتا تو صبیحہ سے  کہتا سیما تو بالکل ایسی لگتی ہے  جیسے  ہمارے  گھر کی ہی فرد ہو، یوں وہ بہت شرمیلا نوجوان تھا، میں گھر میں ہوتی تو وہ شرم کی وجہ سے  باہر چلا جاتا، مجھے  کچھ اس کے  ساتھ عجیب سا لگاؤ ہو گیا تھا، میں کبھی صبیحہ سے  کہتی کہ صبیحہ تمھارا بھائی تو لڑکیوں سے  بھی شرمیلا ہے، صبیحہ کہتی، بہن اب تو زمانہ الٹا ہو گیا ہے، اب لڑکیاں کہاں شرماتی ہیں لڑکے  ہی شرماتے  ہیں، اس طرح کبھی کبھی زمانہ کی خرابیوں کی بات شروع ہو جاتی، ایک اخبار میں بے  شرمی اور بے  حیائی کی خبر، ایک باپ کے  اپنی بیٹی کے  ساتھ منھ کالا کرنے  کی، ایک سگے  ماموں کی بے  شرمی کی خبر پڑھی تو ہم دیر تک زمانہ کے  خراب ہو نے  کا ذکر کرتے  رہے، میں نے  کہا کہ کل یُگ آ گیا ہے، اس کے  ٹھیک کرنے  کے  لئے  ہمارے  دھارمک گرنتھ میں آیا ہے  کہ کلکی اوتار آئیں گے  اور وہ اس بگاڑ کو سدھاریں گے   میں نے  کہا پتا نہیں، ہمارے  جیون(زندگی)میں کلکی اوتار آئیں گے  یا نہیں، یا ہمارے  مرنے  کے  بعد آئیں گے ؟ صبیحہ نے  کہا کہ سیما جن کلکی اوتار کی تم بات کر رہی ہو وہ تو آ کر چلے  گئے، میں نے  کہا تم کیسے  کہتی ہو؟وہ بولی میں تمھیں ایک کتاب دیتی ہوں، اس نے  اپنی الماری سے  ایک چھوٹی سی کتاب ’’کلکی اوتار اور محمد صاحب‘‘ نکالی اور مجھے  دی، دیکھو یہ بہت بڑے  اسکالرہیں، پنڈت وید پر کاش اپادھیائے، جن کی یہ کتاب ہے، میں نے  وہ کتاب لے  لی، اسی دن میں نے  صبیحہ سے  ان کے  بھائی کے  ساتھ عجیب لگاؤ کا ذکر کیا اس نے  بتایا کہ بھائی جان بھی تمھیں پسند کرتے  ہیں، مگر شرم کی وجہ سے  تمھارے  سا منے  نہیں آتے، میں نے  کہا، کیا تمھارے  بھائی جان شادی کے  لئے  ہندو ہو سکتے  ہیں، اس نے  کہا کہ ایک مسلمان کا ہندو ہونا تو ناممکن ہے، ہاں اسلام کو جانتا ہی نہ ہو تو دوسری بات ہے، اس لئے  کہ اسلام ایسا حق اور سچا مذہب ہے  کہ اگر آدمی اسے  جاننے  کے  بعد اسلام چھوڑ نا چاہے  تو چھوڑ نہیں سکتا، دل سے  اسلام کے  حق ہونے  کا یقین نہیں نکل سکتا، اس نے  کہا ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دن نکل رہا ہے،  اب اگر کوئی مجھ سے  کہے  دس لاکھ روپئے  لے  لو اور  یہ کہو کہ رات ہو رہی ہے، یا پھر رائفل کی گولی سرپر لگا کر کہے  کہ کہو رات ہو رہی ہے  تو ہو سکتا کہ کسی بڑے  لالچ اور کسی خوف سے  زبان سے  کہہ دوں کہ ہاں رات ہو رہی ہے، مگر میرا دل اور ضمیر یہ کہتا رہے  گا کہ دن کو رات کیسے  سمجھوں، جانوں اور یقین کروں، صبیحہ نے  کہا: سیما اگر تم اسلام کو پڑھو گی اور سچائی جاننے  کی کوشش کرو گی تو تم بھائی جان کو ہندو بنانے  کے  بجائے  خود ضروری سمجھو گی کہ شادی تو ہو مگر مجھے  مسلمان بن جانا چاہئے، میں نے  کہا صبیحہ یہ بات توہے  کہ مسلمان اپنے  مذہب میں بہت کٹر ہو تے  ہیں، دوسرے  مذہب والے  اتنے  کٹر نہیں ہو تے، صبیحہ نے  کہا کہ ہر آدمی جو سچ پر ہوتا ہے  مضبوط ہو تا ہے  اور جو خود ہی شک میں ہو وہ کیسے  کسی بات پر جم سکتا ہے، بہت دیر تک ہم بات کرتے  رہے، دن چھپنے  کو ہو گیا، میں گھر آ گئی، صبیحہ کی باتوں کے  بارے  میں سوچتی رہی، رات کو سوتے  وقت میں نے  وہ کتاب اٹھا ئی اور پڑھی، چھوٹی سی کتاب تھی، پوری پڑھ ڈالی تو حیرت ہوئی کہ وہ کلکی اوتار تو حضرت محمدﷺ ہیں، یہ کتاب دیوبند سے  چھپی ہے، اس کے  پیچھے  کچھ اور کتابوں کے  نام بھی لکھے  تھے، نراشنس اور انتم رشی، اسلام ایک پریچے، مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟ اسلام کیا ہے  ؟ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں وغیرہ، میں نے  اگلے  روز صبیحہ سے  کہا یہ کتابیں مجھے  چاہئیں، اس نے  کہا اس میں سے ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ تو ہمارے  ماموں مولانا کے  یہاں مل سکتی ہے، میں تمھیں لا کر دوں گی، میں نے  ان سے  کہا، بھول مت جانا، اس کو ماموں کے  یہاں جانے  کا موقع نہ لگا، میں تقاضا کرتی رہی،  دس روز تک میں کہتے  کہتے  بے  چین سی ہوتی رہی، دس روز کے  بعد ایک چھوٹی سی کتاب’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘ صبیحہ نے  مجھے  لا کر دی، اس کتاب کا نام ایک انسان کے  لئے  ایسا دل کو چھونے  والا ہے  کہ نام پڑھ کر ایک عجیب طلب پیدا ہو جاتی ہے، کہ ہماری کیا امانت ہے  معلوم تو کریں ’’دو شبد‘‘ اس میں مولانا وصی صاحب نے  لکھے  ہیں، میرا خیال ہے  کہ ’دو شبد‘ کی دو تین لائن پڑھنے  کے  بعد کو ئی آدمی اس کتاب کو پڑھے  بغیر نہیں رہ سکتا اور بالکل مسلمانوں اور اسلام کے  بارے  میں دل میں دشمنی اور نفرت رکھنے  والا انسان بھی ان دو شبدوں کو پڑھنے  کے  بعد اس کتاب کو غیر کی بات سمجھ کر نہیں پڑھ سکتا ہے، اس کا دل و دماغ اس کتاب کے  لکھنے  والے  کو اپنا سچا دوست سمجھ کر ہی اس کو پڑھے  گا، میں اس کتاب کو لے  کر گھر آئی اور بس کتاب پوری پڑھی، میں نے  اپنی چھوٹی بہن اور ماں سے  کہا کہ میں آپ کو بہت اچھی چیز پڑھ کر سناؤں گی، ان کو بٹھا لیا اور پڑھنا شروع کیا، وہ سنتی رہیں اور بولیں یہ کس کی کتاب ہے، میں نے  کہا مظفر نگر کے  ایک مولانا جی کی لکھی کتاب ہے، میری ماں نے  کہا ان سے  تو ضرور ملنا چاہئے  اس کتاب کے  پیچھے  ٹائٹل پیج پر بھی کچھ کتابوں کے  نام لکھے  تھے، اسلام ایک پریچے، مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟ اسلام کیا ہے ؟ کتنی دور کتنے  پاس؟ وہی ایک ایکتا کا آدھار، نراشنس اور انتم رشی، کلکی اوتار اور محمد صاحب، وید اور قرآن وغیرہ، میری ماں نے  کہا بیٹی یہ ساری پستکیں (کتابیں )منگا لے۔

سچی بات یہ ہے  مثنیٰ بہن! آپ کی امانت نے  میری اندر کی دنیا کو بدل دیا، میں بس یہ سوچتی تھی کہ اس سماج میں میں مسلمان ہو کر کس طرح رہوں، اگر گھر چھوڑ کر جاؤں تو میں لڑکی ذات کہاں جاؤں گی، کون مجھے  رکھے  گا، میرے  جانے  کے  بعد میرے  گھر والوں پر کیسی مشکل آئے  گی، میرے  بھائی بہنوں کا کیا ہو گا، میرے  ماں باپ ایسے  بھلے  اور سجن لوگ کیسے  جئیں گے، بس ایک عجیب خیالات کا طوفان میرے  دل و دماغ پر تھا، اسلام کو اور جاننے  کی خواہش پیدا ہو گئی، میں نے  اپنی ایک دوسری سہیلی فاطمہ کو پانچ سو روپئے  دئیے  اور ان کتابوں کو منگانے  کے  لئے  کہا، ایک ہفتہ کے  بعد اس نے  صرف’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟ لا کر دی اور باقی پیسے  واپس دے  دئیے  کہ اور کتابیں ملی نہیں، میں نے  مرنے  کے  بعد کیا ہو گا کتاب کو پڑھا جنت دوزخ کا ایسا حال اور گناہوں کی سزاؤں کا ایسا ذکر اس کتاب میں ہے  کہ بے  حس سے  بے  حس آدمی بھی خوف کھا جائے، اس کتاب کو پڑھنے  کے  بعد جنت دوزخ میری آنکھوں کے  سامنے  بالکل آنکھوں دیکھی چیز بن گئی، رات کو سونے  لیٹتی تو ہر وقت میری آنکھوں کے  سامنے  قبر کا، حشر کا اور جنت دوزخ کا منظر چلتا رہتا تھا، دو بار میں نے  خواب میں جنت دیکھی اور دوزخ تو نہ جانے  کتنی بار دکھا ئی دی، اب میں نے  اپنی ماں سے  مسلمان ہونے  کی خواہش ظاہر کی انھوں نے  کہا کہ دین سے  دنیاسنبھالنی مشکل ہوتی ہے، آج کل کے  سماج میں دھرم بدلنا آسان نہیں ہے، بس اندر سے  سچ کو سچ سمجھو یہ بھی کافی ہے، وہ مالک دلوں کے  بھید کو جانتا ہے، میں نے  صبیحہ سے  کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو تمھارے  بھائی مجھ سے  شادی کر سکتے  ہیں یا نہیں ؟اس نے  کہا کہ وہ کئی بار مجھ سے  کہہ چکے  ہیں کہ اگر سیما مسلمان ہو جائے  تو امی ابو اس سے  میری شادی کر سکتے  ہیں یا نہیں ؟ میں ان سے  بات کروں گی، اب وہ نوکری کے  لئے  ملک سے  باہر چلے  گئے  ہیں، ان کا فون آئے  گا تو میں بات کروں گی، صبیحہ کے  بھائی کا فون آیا تو اس نے  ان سے  بات کی، مجھے  بتایا کہ بھائی جان کہہ رہے  ہیں کہ اگر میں امی ابو کو راضی کر لوں اور ساری قانونی کاروائی کر لوں اور سیما کے  گھر والے  بھی راضی ہوں اور وہ سچے  دل سے  مسلمان ہو جائے  تو میں شادی کر کے  بہت خوشی محسوس کروں گا، مگر میں کوئی خطرہ مول نہیں لے  سکتا، اس دوران میں نے  کسی طرح قرآن شریف کا ہندی ترجمہ حاصل کر لیا، ا س کو پڑھنا شروع کیا، ساتھ ساتھ میں اپنی ماں کو سناتی تھی، مجھے  بعض ایسے  خواب دکھائی دئیے  جن کے  بعد مسلمان ہو نے  کی بے  چینی بہت زیادہ بڑھ گئی، راتوں کو دیر تک مجھے  نیند نہیں آتی تھی، میں منھ ہاتھ دھو کر قرآن پڑھنے  لگتی، بات یہاں تک بڑھی کہ میں نے  گھر چھوڑنے  کا فیصلہ کر لیا، اس سلسلہ میں مجھے  کسی نے  بتایا کہ پھلت’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ کے  لیکھک (لکھنے  والے )مولانا صاحب کے  یہاں تمھارے  لئے  یہ کام آسان ہے، میں نے  ایک پندرہ سال کے  مسلمان لڑکے  کو تیار کیا جو بہت دین دار تھا اور اس کے  ساتھ پھلت پہنچی، مولانا صاحب سفر پر گئے  ہوئے  تھے، وہاں پر کچھ لوگوں نے  مجھ سے  اسلام قبول کرنے  کی غرض معلوم کی، میں نے  کہا صرف اسلام قبول کرنا اور حق کو ماننا، مجھے  کلمہ پڑھوایا گیا اور میرٹھ بھجوا کر ایک وکیل صاحب سے  سرٹیفکٹ بنوا دیا گیا، ایک مولانا کے  گھر میں رہی، ان کی بہنوں نے  مجھے  بہت محبت سے  رکھا، ایک ہفتہ کے  بعد مولانا صاحب آئے۔

سوال  :  آپ کی گھر میں تلاش نہیں ہوئی؟

جواب  : میری گھر میں تلاش ہی نہیں ہوئی، میرا آنا میرے  پورے  علاقہ میں قیامت بن گیا، جب ڈھونڈ ھ پڑی اور خاندان والے  اکٹھا ہوئے  تو میری چھوٹی بہن نے  بتا دیا کہ وہ صبیحہ کے  بھائی سے  شادی کرنا چاہتی تھی، حالانکہ اب ایسا کچھ نہیں تھا، اب صرف مجھے  اسلام قبول کرنا تھا، اس پر پورے  علاقہ کے  ہندو سماج میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا، صبیحہ کے  گھر والوں کی مصیبت آ گئی، انھوں نے  لاکھ کہا کہ ہمارا لڑکا ابھی ملک کے  باہر ہے، مگر لوگ کہتے  رہے  کہ آپ نے  ہی اس لڑکی کو غائب کیا ہے، اخباروں میں خبروں پر خبریں چھپتی رہیں، کئی بار بالکل آمنے  سامنے  فساد ہونے  کو ہوا کچھ سمجھ دار لوگوں نے  معاملہ کو ٹھنڈا کیا۔

سوال  :  اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب   :  مولانا صاحب ایک ہفتہ کے  بعد پھلت آئے، تو انھیں لوگوں نے  میرے  بارے  میں بتایا، مولانا صاحب نے  کہا کہ وہاں کے  لوگوں کے  میرے  پاس فون آئے، میں نے  کہا ہمارے  یہاں اس طرح کی کوئی لڑکی نہیں آئی ہے، پورے  علاقہ میں فساد ہو نے  کو ہے، بہر حال مجھے  بلایا اور مجھ سے  کہا کہ وہاں تو یہ مشہور ہے  کہ تم کسی لڑکے  سے  شادی کرنا چاہتی ہو، مجھ سے  کہا کہ تم سچ سچ بتاؤ، میں نے  کہا کہ پہلے  میں واقعی ایساہی چاہتی تھی، مگر اب صرف اسلام پڑھ کر میں مسلمان ہو ئی ہوں، میں کچھ روز اسلام پڑھنا چاہتی ہوں اگر اس لڑکے  سے  بعد میں شادی ہو جائے  تو اچھا ہے، ورنہ آپ جس سے  چاہیں میری شادی کر دیں، مولانا صاحب نے  مجھے  دہلی بھیج دیا، وہاں کے  کچھ وکیلوں سے  بات ہوئی تو انھوں نے  کہا کوئی لڑکا ان سے  شادی کو تیار ہو جائے  تو سب سے  بہتر قانونی آسانی اس میں ہے، مولانا صاحب نے  کہا آگرہ میں ایک ڈاکٹر ہیں، انھوں نے  مجھ سے  کسی نو مسلم سے  شادی کے  لئے  کہا ہے، وجے  واڑہ کے  رہنے  والے  ہیں، اگر تم کہو تو میں تمھیں ان کے  یہاں بھیج دوں، مجھے  تکلف ہوا، میں رونے  لگی، تو مولانا صاحب سمجھے  کہ میں اسی لڑکے  سے  شادی کرنا چاہتی ہوں، ہمارے  علاقہ میں بات اور بگڑ گئی تو مولانا نے  مجھ سے  کہا اس وقت بہتر یہ ہے  کہ تم اپنے  گھر چلی جاؤ اور پنے  گھر والوں پر کام کرو، میں نے  کہا وہاں جا کر میں بالکل بے  بس ہو جاؤں گی، آپ مجھے  اس کفر و شرک میں نہ بھیجیں، آپ وہاں میری کیسے  مدد کر سکتے  ہیں، مولانا نے  کہا بہن آپ چلی جاؤ، میں اللہ کے  بھروسے  پر تم سے  وعدہ کرتا ہوں کہ تمھارے  والد اور والدہ کے  ساتھ اللہ آپ کو نکالیں گے، مجھے  یقین نہیں آتا تھا، میں بہت روئی بار بار مجھے  پانی پلایا گیا، مولانا کے  جو ساتھی مجھے  دہلی لے  گئے  تھے  انھوں نے  مجھے  بہت سمجھایا کہ حضرت کی بات مان لو، اللہ تعالی تمھارے  لئے  ضرور راستہ نکالیں گے  میں نے  کہا آپ میری شادی کسی مزدور سے، جھاڑو دینے  والے  کسی فقیر سے  کر دیں مگر مجھے  وہاں نہ بھیجیں، انھوں نے  کہا کہ اب حضرت نے  کہا ہے  اس کے  خلاف ہم تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتے، میں مجبوراً روتے  ہوئے  گھر جانے  پر راضی ہو گئی، بس میں مجھے  ٹکٹ دلوا کر بٹھا دیا گیا مغرب کے  بعد میں اپنے  گھر پہنچی اور میں نے  سب خاندان والوں کے  سامنے  اپنی ماں سے  کہا: کیا میں آپ سے  دس روز کے  لئے  کہہ کر نہیں گئی تھی کہ میں تیرتھ پر جا رہی ہوں اور مجھے  سپنے  میں جانے  کو کہا گیا تھا، آپ نے  گھر والوں کو کیوں نہیں بتایا؟آج دس دن میں میں آ گئی کہ نہیں ؟صبیحہ کے  گھر والوں اور بہت سے  لوگوں کو پولیس نے  اٹھا رکھا تھا، کسی طرح چھوڑا گیا، میرے  خاندان والے  جمع ہوئے  اور مجھ پربرسنے  لگے، میں نے  سوچا، خدیجہ تو حق پر ہے، حق والوں کو ڈرنا نہیں چاہئے، میں نے  کہا کہ میں نے  اسلام قبول کر لیا ہے  اور میرا نام سیما نہیں خدیجہ ہے  اور اسلام سے  مجھے  کوئی نہیں ہٹاسکتا، میری پھوپھو اور ایک تائے  نے  مجھے  بہت مارا اور نہ جانے  کیسی بری بری گالیاں دیں، ہمیں معلوم ہے  تو مسلمان ہونے  کا ڈھونگ بھر کراس سے  منھ کالا کرنے  گئی تھی اور ایسی بری بر ی سنائیں کہ بیان کرنا مشکل ہے، میری ماں اور باپ البتہ بالکل نرم تھے، میری ماں تو اندر سے  اسلام کی سچائی کو مان چکی تھی، مجھے  قریب کے  بڑے  شہر میں میرے  تایا کے  یہاں پہنچا دیا گیا، میں وہاں نماز پڑھنے  کی کوشش کرتی تو گھر والے  میرے  ساتھ بہت زیادتی کرتے، ایک رات میں بارہ بجے، عشا کی نماز پڑھنے  لگی  میرے  تائے  کے  لڑکے  نے  میری کمر پر سجدہ میں ایک بہت بھاری چکی جو پرانے  زمانے  کی وہاں تھی وہ رکھ دی میرا دم نکلنے  کو ہو گیا، مجھے  صحابہ کے  حالات یاد آئے  میں نے  کچھ کھانے  سے  انکار کر دیا، مجھے  ان کے  یہاں ناپاکی کی وجہ سے  بھی کھانے  کو دل نہیں چاہتا تھا اور مجھے  یہ بھی ڈر تھا کہ یہ مجھے  زہر دے  دیں گے  میرے  تایا نے  میرے  ماں باپ کو بلوایا اور پھر میری بوا (پھوپھی) کے  یہاں مجھے  بھجوا دیا گیا، میں نے  کہا میں کسی کے  گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گی، اس میں زہر کا خطرہ ہے، بازار کا کھانا کھاؤں گی جو ماں لا کر دیں گی، میری بوا کے  یہاں میری اتنی احتیاط کے  باوجود بھی مجھے  تین مرتبہ زہر دینے  کی کوشش کی گئی، مگر جس کو اللہ رکھے  اسے  کون چکھے، ایک بار بلی نے  کھیر گرا دی، ایک بار مجھے  پہلے  خواب دکھا ئی دے  گیا اور ایک دفعہ میری بوا کے  پوتے  نے  وہ کھا لیا، پندرہ دن تک اسے  اسپتال میں رہنا پڑا، جان تو بچ گئی مگر گردے  خراب ہو گئے۔

سوال  : وہاں سے  پھر اللہ نے  کس طرح نکالا؟

جواب  :  اللہ نے  حضرت کے  وعدہ کی لاج رکھ لی، حضرت بتاتے  ہیں کہ تمھیں میں نے  فسادات اور حالات خراب ہو نے  کے  ڈر سے  بھیج تو دیا مگر جیسے  ہی تم چلی تو میرے  کان میں غیب سے  کسی نے  قرآن کی یہ آیت پڑھی جس میں اللہ نے  ان عورتوں کو جو ایمان قبول کر کے  ہجرت کے  لئے  آئیں یہ یقین ہونے  کے  بعد کہ وہ اس میں سچی ہیں کافروں کے  پاس لوٹانے  سے  منع کیا گیا ہے۔

سوال  :  ہاں ہاں ابی بار بار بہت افسوس کے  ساتھ کہہ رہے  تھے  کہ قرآن حکیم کی میں نے  خلاف ورزی کی ہے، پہلے  سے  خیال نہیں آیا، سب لوگ دعا کرو اللہ مجھے  معاف فرمائے۔

جواب  : آپ کو معلوم ہے  وہ آیت ؟

سوال  : ہاں بار بار ابی اسے  پڑھتے  تھے :

یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُوْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ َفامْتَحِنُوْہُنَّ ط اَﷲُاَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ ج فَاِنْ عَلِمْتُمُوْ ہُنَّ مُوْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْ ہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِط                                (الممتحنۃ:۱۰)

اس کا ترجمہ یہ ہے  :اے  ایمان والو! جب تمھارے  پاس ایمان والی عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کو جانچ لو، اللہ خوب جانتا ہے  ان کے  ایمان کو، پھر اگر تم ان کو ایمان پر جانو، تم ان کو کافروں کی طرف مت پھیرو۔

جواب   : حضرت بتاتے  ہیں کہ اس آیت شریفہ نے  مجھے  جھنجھوڑ دیا میں بار بار صلاۃ التوبہ پڑھتا اور اللہ کے  حضور دعا کرتا میرے  اللہ !  آپ کو اگر دعوت محبوب ہے  اور آپ نے  اس کم ظرف بندے  کو اپنے  کام سے  جوڑا ہے  تو میری غلطیوں اور گناہوں کو کون معاف کرے  گا، میرے  اللہ!  میں بہت بڑا مجرم ہوں، مجھ سے  انجانے  میں قرآن حکیم کی خلاف ورزی ہو گئی، میرے  اللہ! میری بچی کیسی بلکتی ہو ئی واپس گئی، میرے  اللہ میں نے  آپ کے  بھروسے  اس سے  وعدہ کر لیا ہے  آپ اپنے  گندے  بندے  کی وعدہ کی لاج رکھ لیجئے، میرے  اللہ میرے  بگاڑ کو آپ کے  علاوہ کون سنوار سکتا ہے، مولانا صاحب نے  مجھے  بتایا کم از کم پندرہ دن تک ہر دعا میں بس تمھارے  لئے  دعا کرتا تھا اور تمھارے  واپس آنے  کے  شکر میں روزوں صدقوں اور نفلوں کی نذر مانتا تھا، اللہ نے  حضرت کی دعا اور وعدہ کی لاج رکھی، چھ مہینے  مجھ پر ایک سے  ایک سخت گزرا، اس دوران ان چھ مہینوں کی داستان میں سناؤں تو ایک لمبی کتاب ہو جائے  گی، میں نے  ایک ڈائری بھی لکھی ہے، میری ماں میرے  ساتھ روتی رہتی، چھ مہینہ کے  بعد میری ماں نے  میرے  باپ کو راضی کر لیا کہ ایک نو مسلم لالہ خاندان کے  ڈاکٹر صاحب جو وجے  واڑہ کے  ہیں سے، میری شادی کر دیں، مالا ڈال کر شادی ہو جائے  گی بعد میں وہ نکاح کر لیں گے۔

سوال  : وہ آپ کی ماں کو کیسے  ملے ؟

جواب  : اصل میں میری ماں کی ایک پرانی سہیلی تھی، جن کو ہم حقیقی موسی(خالہ)کی طرح جانتے  تھے  وہ بھی میرے  ساتھ مسلمان ہو گئی تھیں مگر انھوں نے  اسلام ظاہر نہیں کیا تھا وہ تیاگی خاندان سے  تھیں، وہ میرے  ساتھ ہونے  والے  ظلم سے  واقف تھیں، ہمارے  یہاں ایک تبلیغی جماعت آئی وہ پانی پر دم کروانے  کے  بہانے  اس جماعت سے  ملیں اور میری داستان سنائی، اس جماعت میں وہ ڈاکٹر صاحب جو سات مہینے  پہلے  مسلمان ہوئے  تھے، حضرت کے  ایک ساتھی کی کوشش سے، کسی طرح اپنی نوکری سے  چھٹی لے  کر گھر والوں سے  ٹریننگ کے  بہانے  جماعت میں آئے  تھے، امیر صاحب نے  کہا کہ ان کے  ڈاڑھی بھی نہیں آئی ہے  اگر ان سے  شادی ہو جائے  تو اچھا ہے  یہ بھی لالہ ہیں، یہ اپنے  گھر والوں کو تیار کر لیں گے، اس پر بات طئے  ہو گئی، ڈاکٹر صاحب نے  جماعت میں پندرہ دن چلّے  کے  چھوڑ کر مجھے  وہاں سے  نکالنے  کے  لئے  امیر صاحب کے  مشورہ سے  گھر کا سفر کیا اور گھر والوں سے  مجھ سے  شادی کرنے  کا خیال ظاہر کیا، میرے  پتاجی نے  خاندان والوں کو یہ کہہ کر کہ دور چلی جائے  گی تو مسلمانوں سے  دور ہو جائے  گی راضی کر کے  میری شادی کر دی، ۱۱/ لوگ میری سسرال سے  آئے، ڈاکٹر صاحب مجھے  لے  کر ہنی مون منانے  کے  بہانے  یہاں دہلی اور شملہ وغیرہ لے  کر آئے  ہیں، مولانا صاحب سے  فون پر ان کا رابطہ تھا، مجھے  لے  کر یہاں آئے  اور مجھے  ان کے  ساتھ دیکھ کر بس مت پوچھئے  کہ مولانا صاحب کا کیا حال ہوا، بار بار خوشی سے  روتے  تھے، کہتے  تھے  میرے  اللہ آپ کیسے  کریم ہیں، اپنے  کتنے  گناہ گار بندے  کے  ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے، قرآن کے  حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے  ایک مومنہ کو کفار میں لوٹا دینے  والے  مجرم کے  وعدہ کی آپ نے  کیسی لاج رکھی، مولانا صاحب نے  بتایا کہ ۲۵/ روزے  میں نے  نذر مانے  ہیں، دوسو نفلیں اور تین ہزار صدقہ تمھارے  واپس آنے  کے  لئے، مولانا صاحب نے  بڑی حیرت اور خوشی سے  بتایا کہ جن آندھرا کے  ڈاکٹر صاحب کے  پاس تمھیں بھیج کر شادی کرنے  کو کہتا تھا وہ ڈاکٹر شارق یہی ہیں، جس کے  ساتھ میرے  اللہ نے  تمھاری شادی کر کے  میرے  گھر بھیج دیا۔

سوال  :  عجیب بات ہے  ؟

جواب   :  اللہ تعالی اپنے  دین کی دعوت کا کام کرنے  والے  کی، سچی بات یہ ہے  کہ بڑی ناز برداری کرتے  ہیں۔

سوال  : آپ کی وہ چھ مہینے  کی تکلیفیں جھیلنے  کی کہانی والی ڈائری آپ کے  پاس ہے ؟

جواب   : ابھی نہیں لائی، میں اس کا زیراکس کرا کے  آپ کو بھیجوں گی، حضرت صاحب نے  کہا ہے  کہ وہ ہم چھپوائیں گے، مولانا صاحب نے  کہا کہ وہ قسط وار ارمغان میں چھپوانے  کے  لائق ہے

سوال  : اب آپ کے  شوہر اپنے  گھر والوں کے  ساتھ میں رہتے  ہیں ؟

جواب  :  نہیں ! وہ ابھی وہاں مہاراشٹر ناگپور میں ایک سرکاری اسپتال میں عارضی ملازمت پر ہیں، دہلی میں انھوں نے  اپلائی کیا تھا، الحمد للہ انٹر ویو بھی ہو گیا اور انھوں نے  ایم ڈی کے  لئے  کوالیفائی کر لیا ہے، اب ہم بہت جلدی دہلی آ جائیں گے  ہم دونوں ہی بس ساتھ رہتے  ہیں۔

سوال  : آپ کے  ماں باپ کا کیا ہوا؟

جواب  : میں نے  ان کو پرسوں دہلی بلایا تھا، ہمایوں کے  مقبرے  کے  پارک میں ملاقات ہوئی وہ اب اپنا قصبہ چھوڑ کر ہمارے  ساتھ رہنے  کا پروگرام بنا رہے  ہیں، الحمد للہ دونوں مسلمان ہو گئے  ہیں۔

سوال  : بہت بہت شکریہ خدیجہ بہن! واقعی ایمان تو آپ کاہے، ہم لوگ خاندانی مسلمانوں کو ایمان و اسلام کی کیا قدر ہو سکتی ہے، آپ ہمارے  لئے  دعا کیجئے، کچھ حصہ اس ایمان کا ہمیں بھی نصیب ہو جائے  ؟

جواب  : :مثنی ٰ آپ کے  گھر کے  جوتوں کے  صدقے  میں مجھے  ایمان ملا ہے، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں، آپ کے  گھر کے  لئے  میری سات پشتیں دعا کریں تو کم ہے۔

سوال  : یہ آپ کی بڑائی کی بات ہے، بہر حال بہت بہت شکریہ،

ا لسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جواب  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ  میں انشاء اللہ جلد ہی دہلی آ جاؤں گی پھر اطمینان سے  باتیں کریں گے  اور بھی مزے  کی باتیں سناؤں گی۔ ڈاکٹر صاحب آ گئے  ہیں، باہر کھڑے  ہیں، اچھا میں چلتی ہوں۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، اپریل  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر ارم صاحبہ {ایک نو مسلمہ} سے  ایک ملاقات

 

اسماء ذات الفوزین

 

اسماء ذات الفوزین  : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ڈاکٹر ارم صاحبہ     : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : آپ بڑے  وقت پر تشریف لائیں، ابی سے  آپ کا تذکرہ سنتے  رہتے  تھے، وہ فرما رہے  تھے  کہ ارمغان کے  لئے  آپ سے  انٹرویو لینا ہے  شاید آپ کے  علم میں ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک میگزین اردو میں ارمغان کے  نام سے  نکلتا ہے  جس میں اسلام قبول کرنے  والے  نو مسلموں کے  انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ؟

جواب  : ہاں میں نے  کچھ پرچے  دیکھے  ہیں ،مگر میں اب نو مسلم کہاں ہوں میری پیاری تم سے  کم از کم دس سال قبل سے  میں ظاہری طور پر مسلمان ہو گئی تھی اور حقیقتاً اور مزاجاً تو پیدائشی طور پر میں مسلمان ہوں۔

سوال  : بات تو آپ کی صحیح ہے  یوں تو ہر بچہ اسلامی فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے ؟

جواب  : عام طور پر ہر بچہ اسلام پر پید ا ہوتا ہے  یہ تو ہمارے  نبی ﷺ کا مبارک ارشاد ہے  اس میں کس کوشک ہو سکتا ہے، مگر ہمارے  خاندان خاص طور پر ہمارے  پاپا(والد) خود بھی مزاجاً مسلمان تھے  یعنی ان کو سو فیصد اسلامی معاشرت قبولِ اسلام سے  پہلے  پسند تھی۔

سوال  : برائے  کرم پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  : میرا نام ارم ہے  میرے  والد ڈاکٹر انل مودی بیجاپور کرناٹک کے  رہنے  والے  تھے  وہ آنجہانی پیلو مودی جو سوشلسٹ پارٹی کے  صدر کے  حقیقی بھتیجے  تھے، انہوں نے  امریکہ سے  ایم ڈی کیا تھا اور بہت اچھے  فزیشین تھے، بعض دوستوں اور جاننے  والوں کے  اصرار پر وہ میرٹھ آ گئے  تھے  اور بینک اسٹریٹ پر ایک کوٹھی خرید کر اس کے  ایک حصہ میں اپنا کلینک بنایا تھا، میرے  دو بھائی مجھ  سے  چھوٹے  ایک کا نام طارق اور دوسرے  کا نام شارق ہے  بارہویں کلاس تک میری تعلیم بیجاپور میں ہوئی، میرٹھ آنے  کے  بعد میں نے  میرٹھ کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا بی ایس سی کے  بعد پی ایم ٹی مقابلہ میں بیٹھی اور مولانا آزاد میڈیکل کالج سے  ایم بی بی ایس کے  تین سال مکمل کرنے  کے  بعد اپنی بوا کے  اصرار پر لندن چلی گئی وہیں ایم بی بی ایس اور بعد ایم ایس کیا اور دلی کے  ایک سید گھرانے  میں ڈاکٹر سید عامر سے  میری شادی ہوئی جو اچھے  نیورولوجسٹ ہیں لکھؤ سنجے  گاندھی پی جی آئی میں ہم دونوں کا تقرر ہو گیا الحمدللہ ہم دونوں پروفیسر ہو گئے، ہماری بوا جو لندن میں رہتی ہیں انکے  کوئی اولاد نہیں ہے، ان کا بہت اصرار تھا کہ ہم دونوں لندن آ جائیں ان کے  حد درجہ اصرار پر   ۲۰۰۱ء میں تین سال پہلے  ہم نے  ملازمت چھوڑی اور لندن چل گئے  ہماری نند کی شادی میرے  چھوٹے  بھائی شارق سے  ہو رہی ہے  جس کی وجہ سے  ہمارا ہندوستان آنا ہوا ہے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  : اصل میں میرے  والد صاحب کو اسلامی معاشرت بہت پسند تھی، بریانی، قورما اور کباب کے  دلدادہ  تھے، نہ یہ کہ وہ اردو جانتے  تھے  بلکہ فارسی بھی اچھی جانتے  تھے  پارسی مذہب سے  ان کا خاندانی تعلق تھا، اس کے  باوجود انہوں نے  میرا نام ارم میرے  چھوٹے  بھائیوں کا شارق اور طارق نام رکھا، خود اپنا نام ڈاکٹر انل وارث مودی لکھنے  لگے  تھے، بیجاپور میں ہم رہتے  تھے، جنوبی ہند کا ماحول بڑا صاف ستھرا ہے  ہم لوگ میرٹھ آئے  تو یہاں کا ماحول عجیب تھا، خصوصاً میرٹھ کالج میں دیہات کے  جاٹ اور چودھری طلبہ بڑی چھچھوری حرکتیں کرتے  تھے، وہ اس قدر حرکتیں کرتے  تھے  کہ میرا خیال تھا کہ مجھے  پڑھائی چھوڑ نی پڑے  گی اور کسی دوسرے  کالج کوسلیکٹ کرنا پڑے  گا، لیکن اللہ کو اسی گندے  ماحول میں میری ہدایت کا فیصلہ کرنا تھا، انہیں گندے  لڑکوں میں چند شریف لڑکے  بھی پڑھتے  تھے  ان میں آپ کے  ابی بھی تھے  جن کی شرافت سے  ہمارے  سب ساتھی یہاں تک کہ اساتذہ بھی مرعوب تھے، ان کو لوگ احتراماً کلیم بھائی کہتے  تھے، میں نے  بارہا دیکھا کہ لوگ کسی فلم کی بات کرتے  ہوتے  کلیم بھائی آ جاتے  لوگ فوراً خاموش ہو جاتے، اپنی کلاس میں وہ ذہین سمجھے  جانے  والے  لوگوں میں تھے، آواز بھی بہت اچھی تھی، وہ شاعری بھی کرتے  تھے  اور اچھے  مصوّر بھی تھے  ہمارے  کالج میں ایک پورے  صوبہ کا مقابلہ تھا اس میں انہوں نے  اول درجہ کا انعام حاصل کیا تھا، کلیم بھائی کو کلاس میں اس طرح کی گندی حرکتوں سے  بہت اذیت ہوتی تھی میں گھر میں والد صاحب سے  ان کی شرافت کا ذکر کرتی، پاپا مجھ سے  ان کو کبھی گھر بلانے  کو کہتے  تھے، وہ روزانہ پھلت اپنے  گاؤں سے  کھتولی کے  راستے  سے  بذریعہ ریل میرٹھ چھاونی اور پھر میرٹھ کالج سے  اپ ڈاؤن کرتے، کبھی کبھی بیگم پل سے  وہ کالج جاتے  ہوئے  پیدل ہمارے  گھر کے  سامنے  سے  گزرتے، ایک روز صبح میں نے  ان کو آواز دے  دی اور اپنے  والد سے  ملوایا، میرے  والد ان سے  اور وہ خود میرے  والد سے  بہت متاثر ہوئے، ہماری کلاس کے  زیادہ چھچھورے  لڑکے  اکثر میرٹھ کالج کے  ہوسٹل میں رہتے  تھے، رکشا بندھن کا تیوہار آیا، کلیم بھائی ساڑھے  آٹھ بجے  ہمارے  گھر آئے  اور مجھ سے  کہا: ارم بہن کلاس کے  گندے  ماحول سے  ہم لوگ عاجز ہیں چلو کچھ راکھیاں خرید لو اور ہوسٹل چلتے  ہیں، میں نے  پچیس راکھیاں خریدیں اور کلیم بھائی کے  ساتھ ہوسٹل پہنچے  اور ان تمام جاٹ اور چودھری اسٹوڈنٹ کو بھیا بھیا کہہ کر راکھیاں باندھ دیں، وہ لوگ بہت شرمندہ سے  ہوئے  اور ہماری کلاس کا ماحول بدل گیا، اس حکمت عملی نے  مجھے  بہت متاثر کیا میں نے  پا پا ممی کو بھی بتایا، جس کی وجہ سے  ہماری ممی پاپا ان کا حد درجہ احترام کرنے  لگے، مجھے  اردو زبان سیکھنے  کا شوق تھا میرے  پاپا کی بھی خواہش تھی کہ میں اردو پڑھوں، ان کا خیال تھا بلکہ وہ بہت زور دے کر کہتے  تھے  کہ اردو زبان سے  اچھی اور شائستہ تہذیب آتی ہے، میں نے  کلیم بھائی سے  فرمائش کی وہ ہمیں اردو پڑھا دیں، انھوں نے  وقت نہ ہونے  کا عذر کیا، مگر انہوں نے  اردو ڈپارٹمینٹ جا کر ایک صاحب مولوی مسرور کو تلاش کیا جو اردو میں ایم اے  کر رہے  تھے  اور ان کو تیار کیا کہ مجھے  اردو پڑھائیں، وہ مجھے  لائبریری میں آدھا گھنٹہ روز اردو پڑھانے  لگے، مجھے  اردو بہت جلد آ گئی، کلیم بھائی نے  مجھی’’ اسلام کیا ہے ‘‘ اور ’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا‘‘ پڑھنے  کو دیں، مجھے  ان کتابوں نے  بہت متاثر کیا ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا‘‘ نے  میری نیند اڑا دی مجھ پر موت کے  بعد کے  عذاب کا سخت خوف تھا میں نے  اپنا حال ان سے  بتایا تو انہوں نے  مجھے  مرنے  کے  بعد کی عافیت کے  لئے  ایمان قبول کرنے  کو کہا، میں نے  پاپاسے  مشورہ کیا انہوں نے  مجھے  سوچ سمجھ کے  فیصلہ کرنے  کو کہا اور کہا کہ تم بڑی ہو گئی ہو، اپنی مرضی سے  فیصلہ کر سکتی ہو، یکم جنوری ۱۹۷۴ء کو میں نے  لائبریری میں ہی کلیم بھائی کے  ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا، الحمدللہ میرے  والد ین نے  میرے  اس فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، ۱۹۷۹ء میں بوا کے  اصرار پر میں لندن چلی گئی اور ۱۹۸۴ء میں ایم ایس کر کے  میرٹھ واپس آئی، کلیم بھائی کو میرے  والد نے  شادی کے  سلسلہ میں اختیار دے  دیا، الحمد للہ انہوں نے  میرے  لئے  انتہائی موزوں رشتہ تلاش کیا اور دلی  کے  ایک سید گھرانے  میں میری شادی ہو گئی، میرے  شوہر ڈاکٹر عامر ڈی ایم ہیں اور اچھے  نیورولوجسٹ ہیں وہ بہت دین دار خلیق انسان ہیں، جہاں رہے  لوگ ان کی قدر کرتے  ہیں ان کی شرافت سے  مرعوب رہتے  ہیں وہ اپنے  فن میں بھی ماہرین میں شمار کئے  جاتے  ہیں۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

جواب  : اصل میں جیسا کہ میں نے  پہلے  بھی کہا کہ میں اور ہمارا پورا گھرانہ خصوصاً ہمارے  والد صاحب فطرتاً مسلمان تھے، مجھے  اسلام قبول کرنے  کے  بعد ایسا لگا جیسے  صبح کا بھولا شام کو اپنے  گھر آ جاتا اور اس کو بڑی راحت محسوس ہوتی ہے۔

سوال  : لندن کے  مغربی ماحول میں اپنے  کو مسلمان سمجھ کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے ؟

جواب  : لندن میں آنے  کے  بعد الحمد للہ ہم لوگ شریعت پر عمل کے  سلسلہ میں زیادہ حساس ہو گئے  ہیں، میرے  شوہر نے  یہاں آ کر داڑھی رکھ لی ہے  خود میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ مجھے  بے  پردگی  سے  کم از کم عریانیت سے  سخت کراہت ہو گئی ہے، ہم دونوں الحمد للہ تہجد پابندی سے  پڑھتے  ہیں کم از کم شفاء کو اللہ کے  ہاتھ ہونا اب ہمارے  لئے  حق الیقین ہو گیا، مسلمان مریض بھی خاصی تعداد میں ہمارے  یہاں آتے  ہیں مریض کو او۔ ٹی  میں میز پر لٹا کر پہلے  میں اسکو کلمہ پڑھواتی ہوں اسکو تسلی بھی دیتی ہوں اور یہ بھی سمجھاتی ہوں کہ ہو سکتا ہے  کہ موت واقع ہو جائے  اسلئے  اچھی طرح دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیجئے  غیر مسلم مریض آتے  ہیں تو ہماری کلنیک ایک روحانی شفا ء خانہ بھی ہے، ہم دونوں کی میزوں پر بہت اچھا اسلامی لٹریچر رہتا ہے  جس میں سے  اپنے  اپنے  حصہ کا ہر مریض لے  کر جاتا ہے، اصل میں ہم نے  مغرب کو بہت قریب سے  دیکھا ہے، بے  حیائی اور مادیت زدہ مغربی دنیا بے  چین ہے  اور ان میں اکثر لوگ زندگی کی لذت اور سکون سے  محروم خودکشی کے  کنارے  کھڑے  دکھائی دیتے  ہیں، ان کی بے  چینی اور اضطراب کا علاج صرف اسلام کی مقدس تعلیمات ہیں، کاش ان کو اس نعمت سے  آشنا کر دیا جائے۔

سوال   :غیر مسلم مریضوں کو  لٹریچر دینے  سے  کچھ دعوتی نتائج بھی سامنے  آ رہے  ہیں ؟

جواب  : الحمدللہ ہم دونوں کی دعوت پر ان تیس سالوں میں دوسوتہتر لوگ مسلمان ہو چکے  ہیں ہمارے  سسر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒؒؒؒ سے  بیعت تھے  اور وہ  دلی سے  امریکہ چلے  گئے  تھے  میرے  شوہر بھی ان کے  ایک خلیفہ مولانا ولی آدم صاحب سے  بیعت کا تعلق رکھتے  ہیں، ہم لوگ اپنے  لندن میں قیام کا مقصد اسلام کی دعوت سمجھتے  ہیں، مجھے  سب سے  زیادہ خوشی اس بات کی ہے  کہ میری بوا جو مجھے  میرے  ماں باپ سے  زیادہ چاہتی تھیں انہوں نے  ہمارے  لندن آنے  کے  دو ماہ کے  بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور گزشتہ سال ان کا بہت اچھی ایمانی حالت میں کلمہ طیبہ پڑھتے  ہوئے  مصلیٰ پر انتقال ہوا۔

سوال   : قبول اسلام کے  بعد بھی آپ نے  اسلام کے  مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا؟

جواب  : الحمدللہ کلیم بھائی نے  مجھے  اس پر زور دیا کہ میں روزانہ کا نصاب طے  کر کے  اسلام کا مطالعہ کروں، میں نے  ارادہ کیا کہ اوسطاً ۵۰ صفحے  روزانہ پڑھوں گی، مگر ۵۰ صفحوں کا نصاب تو مجھ سے  نہیں ہو سکا البتہ اگر میں یہ کہوں کہ ان تیس سالوں میں میں نے  ۲۵ صفحے  روزانہ سے  کم نہیں پڑھے  ہوں گے  تو انشاء اللہ یہ بات بہت احتیاط کے  ساتھ سچ ہو گی، میں نے  ایک سو سے  زائد سیرت کی کتابوں کو پڑھا ہے، حضرت مولانا علی میاں کی سب کتابیں اور حضرت مولانا تھانویؒ کی ساری کتابیں تقریباً میں نے  پڑھی ہیں، حضرت مولانا مودودی کو بھی میں نے  پڑھا ہے، اس کے  علاوہ لندن میں اسلام پر روز نئی کتابیں چھپتی ہیں، ہم لوگ عیسائیوں کے  یہاں سے  چھپنے  والی کتابوں کو دیکھتے  رہتے  ہیں۔

سوال   : اس طرح تو آپ نے  لاکھوں صفحات پڑھ ڈالے  ہوں گے ؟

جواب  : الحمد للہ ۲۵ صفحات سے  کم تو اوسط کسی بھی طرح نہیں رہا ہو گا، اس اوسط سے  سال میں دس ہزار کے  قریب صفحات ہو جاتے  ہیں، شروع میں مجھے  مطالعہ کا شوق نہیں تھا، کلیم بھائی نے  مجھے  زور دیا کہ زبردستی آپ کو نصاب پورا کرنا ہے، ایک محسن کا حکم سمجھ کر میں نے  چند ماہ زبردستی مطالعہ کیا اب یہ حال ہے  کہ کھانا نہ کھانے  سے  ایسا نہیں لگتا جیسا مطالعہ نہ کرنے  سے  تشنگی محسوس ہوتی ہے، کئی بار نئی کتاب نہیں ملتی تو پرانی کتاب دوبارہ پڑھتی ہوں، اس طرح الحمد للہ ہمارے  یہاں ایک اچھا کتب خانہ جمع ہو گیا ہے  اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ذہن میں بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔

سوال  : آپ کے  کتنے  بچے  ہیں اور وہ کہاں تعلیم حاصل کر رہے  ہیں ؟

جواب  : میرے  تین بچے  ہیں بڑے  بیٹے  کا نام حسن عامر ہے  اور چھوٹے  کا حسین عامر ہے  اور بچی کا نام فاطمہ زہراء ہے، دونوں بیٹے  ڈیوزبری کے  مدرسہ میں تعلیم حاصل کر رہے  ہیں، حسن نے  جس کی عمر دس سال سے  زیادہ ہے  حفظ مکمل کر لیا ہے  اور عا  لمیت کا پہلا سال ہے، حسین کی عمر نو سال ہے  اس کے  سولہ پارے  ہو چکے  ہیں، فاطمہ ایک اسلامی اسکول میں دوسری کلاس میں پڑھ رہی ہے، ان کے  والد نے  اسکو قرآن حکیم گھر پر پڑھایا ہے، ہم دونوں نے  پروگرام بنایا ہے  کہ اپنے  بچوں کو زور گار سے  بے  فکر کر دیں گے  اور اتنا نظم کر دیں گے  کہ ان کو کمانے  کی فکر نہ رہے  اور وہ یکسوئی کے  ساتھ زندگی کو دعوت کے  لئے  وقف کر سکیں۔

سوال   : آپ نے  اپنے  والد اور والدہ کی فکر نہیں کی؟

جواب  : الحمدللہ میں نے  جس سال ایم ایس سی کیا، فارغ ہو کر میں ہندوستان آئی تو میں کلیم بھائی کو بلایا اور والد صاحب پر کام کرنے  کی درخواست کی انہوں نے  والد صاحب کو بہت سی کتابیں دیں حضرت مولانا علیؔ  میاںؒ کی کتاب ’’ نبی رحمت ‘‘ نے  ان کو بہت متاثر کیا۔

وہ اسلام سے  تو پہلے  سے  ہی متاثر تھے  مگر اتنی عمر تک ایک مذہب میں رہنے  اور خاندان کے  لوگوں خصوصاً اپنے  چچا جناب پیلو مودی صاحب اور انکے  خاص دوست آر کے  کرنجیا کی وجہ سے  ان کو جھجک تھی، میری شادی ڈاکٹر عامر سے  انہوں نے  باقاعدہ اسلامی طریقہ بلکہ مسلمانوں کے  طریقہ پر یعنی رواج کے  مطابق کی اور خوب خرچ کیا، ظاہر ہے  خوب خرچ کرنا خوداسلامی طریقہ نہیں، مگر مسلمانوں نے  اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے، ہم لوگوں کے  پی، جی، آئی ملازمت کے  دوران ایک بار گومتی نگر میں ہمارے  یہاں دو روز کے  لئے  آئے  ہم دونوں نے  چھٹی لے  لی اور ان سے  اسلام قبول کرنے  پر اصرار کیا وہ شروع میں ٹالتے  رہے  کہ رسم سے  کیا ہوتا ہے ؟ میں دل و دماغ سے  تم لوگوں سے  پہلے  مسلمان ہوں، مگر میرے  شوہر نے  کہا: بلا شبہ اصل چیز  تو دل و دماغ کا اسلام ہے  اور ہم اسی کواسلام کی روح مانتے  ہیں مگر روح کے  لئے  جسم بھی ضروری ہے  اگر جسم نہ ہو تو روح کس چیز میں پڑے  گی آپ کلمہ پڑھ لیجئے  وہ تیار ہو گئے  اور انہوں نے  اسلام قبول کر لیا ممی بھی ان کے  ساتھ تھیں پاپا کے  مسلمان ہونے  کے  بعد ممی کو منانا ہمارے  لئے  آسان ہو گیا انہوں نے  بھی کلمہ پڑھ لیا میرٹھ آ کر دو ماہ کے  بعد ان کو  سخت ترین ہارٹ اٹیک ہوا ان کے  دل کی دو والیں خراب ہو گئی تھیں ہم ان کو لکھنو لے  گئے  مگر زندگی کا فیصلہ کرنے  والا اپنا فیصلہ کر چکا تھا لکھنو میں ہی ان اکا انتقال ہو گیا اور وہیں تدفین ہوئی الحمدللہ آخری وقت ان کا ایمان کے  لحاظ سے  بہت اچھا تھا اور وہ اپنے  اسلام پر حد درجہ اللہ کی تعریف اور شکر کرتے  تھے۔

سوال  : آپ کے  بھائیوں کا کیا حال ہے ؟

جواب  : مجھ سے  چھوٹے  بھائی طارق نے  سی اے  کیا اور ممبئی میں ایک بڑے  کارخانہ میں منیجر ہیں ان کی شادی ممبئی کے  ایک تبلیغی گھرانہ میں ہوئی ہے  چھوٹے  بھائی شارق نے  ایم  بی اے  کیا ہے  وہ لکھنؤ میں ایک ہوٹل کے  منیجر ہیں، ان کی شادی میرے  شوہر کی چھوٹی بہن راشدہ سے  ہو رہی ہے، ابھی ۲۹ جون کو ان کا نکاح ہونا ہے  انشاء اللہ۔

سوال   : آپ کو خود اللہ نے  ہدایت سے  نوازا ہے  اور آپ خود دعوت کا کام کر رہی ہیں دعوتی زندگی میں آپ کا تاثر کیا ہے  کہ کسی غیر مسلم کی ہدایت کے  لئے  کیا چیز سب سے  زیادہ موثر ہوتی ہے ؟

جواب  : یوں تو یہ علم اور عقل کا زمانہ ہے  بے  چین اور بلکتی انسانیت کے  لئے  علم اور عقل کے  پیمانے  پر پورے  اترنے  والے  مذہب کا تعارف ہی انسان کو حد درجہ متاثر کرتا ہے  مگر میں اپنے  قبول اسلام اور اپنے  واسطے  سے  ہدایت پانے  والے  لوگوں کے  حالات پر غور کر نے  سے  اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ آپ اپنی تقریری دعوت سے  لوگوں کو قائل تو کر سکتے  ہیں مگر اس درجہ متاثر کرنے  کے  لئے  کہ ایک زندگی کے  طریقہ پر رہنے  والا آدمی مذہب تبدیل کرنے  پر آمادہ ہو جائے، اس کے  لئے  آپ کی دعوت کے  ساتھ آپ کے  کر دار کی عظمت ضروری ہے، میں سمجھتی ہوں ہمارے  گھرانہ کو مشرف با سلام کرنے  بلکہ ہم دونوں کو دعوت پر کھڑا کرنے  میں آپ کے  ابی کی فطری شرافت اور مجسم دعوتی کر دار سب سے  اہم ذریعہ رہی، کتابوں کے  ساتھ نبیوں کو بھیجنا خود میرے  خیال میں بڑی دلیل ہے، انسان کو کتاب کے  ساتھ افراد چاہئے  یعنی قول کے  ساتھ کر دار کی ضرورت ہوتی ہے  تب کہیں انقلاب برپا ہوتا ہے۔

سوال   : شکریہ ارم پھو پھو !  میں آپ کی بہت مشکور ہوں، آپ قارئین ارمغان کے  لئے  کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟ خصوصاً ان قارئین میں مستورات بھی ہوتی ہیں، ان کے  لئے  کوئی خاص پیغام ؟

جواب  : ارمغان کے  واسطے  سے  میں قارئین بہنوں کی خدمت میں یہ درخواست پیش کروں گی کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری پوری انسانیت تک اسلام کے  پیغام کو پہنچانا ہے، اس میں مردوں کے  ساتھ عورتوں کو بھی مکلف بنایا گیا ہے، بلکہ اسلامی دعوت کی ترتیب تو تاریخ اسلام میں یہ ملتی ہے  کہ اسلامی دعوت کی مدعو مردوں سے  پہلے  عورتیں ہیں، ہمارے  نبیﷺ نے  سارے  رفقاء محسنین اور محرم راز مردوں کے  ہوتے  ہوئے  غارِ حرا میں پہلی وحی کے  نزول کے  بعد، اپنی دعوت کا سب سے  پہلا مدعو اپنی رفیقہ حیات حضرت خدیجہؓ  کو بنایا تھا، اس سے  یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ عورتوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے  بلکہ مردوں سے  زیادہ سمجھنا چاہئے، میدان دعوت میں غیر مسلم اقوام خصوصاً مغربی دنیا سے  قریب ہو کر ان کو اس حقیقت سے  بھی واقفیت ہو گی کہ جس مادیت اور عریانیت زدہ مغربی تہذیب کی چکا چوند  سے  ہم مرعوب ہو رہے  ہیں اور اسکو ہم ترقی کی معراج سمجھ رہے  ہیں   وہ کس درجہ پستی کا شکار ہے  وہ بے  چینی اور اضطراب میں خود خوشی کے  دہانے  پر کھڑی اسلامی تعلیمات کی کس قدر پیاسی ہے  اور دین اسلام کی نعمت سے  نواز کر اللہ تعالیٰ نے  ہمارے  اوپر کس قدر بڑا احسان کیا ہے۔

سوال   : دل چاہتا تھا کہ آپ سے  آپ کی تفصیلی دعوتی کار گذاری کے  بارے  میں معلومات حاصل کی جائیں مگر آپ کو جلدی جانا ہے، انشاء اللہ آئندہ ملاقات میں پھر استفادہ کیا جائے  گا، بہت بہت شکریہ۔

جواب  : ضرور، واقعی دعوتی زندگی میں بڑے  تجربات اور ہدایت کے  حیرت ناک واقعات ہم دونوں کی زندگی میں پیش آئے  ہیں، انشاء اللہ اب کی ملاقات میں۔  فِیْ اَمَانِ اللّٰہ،

اَسْتَوْدِعُکُمُ اللّٰہَ دِیْنَکُمْ وَاَمَانَتَکُمْ وَخَوَاتِمُ اَعْمَالِکُمْ۔

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جولائی ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

مدینہ منورہ کی مکین ایک خوش قسمت خاتون محترمہ شہناز صاحبہ {نومسلمہ} سے  ایک ملاقات

اسماء ذات الفوزین

 

اسماء       : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

شہناز   :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : شہناز پھو پھو !الحمدللہ ہماری حاضری پیارے  نبی ﷺ کے  شہر میں ہوئی ہے، اس محسن شہرِمقدس کا حق ہے  کہ یہاں نبوی دردا ور دعوت دین کا جذبہ حاصل کیا جائے، آپ ہمارے  ارمغان سے  واقف ہیں، کچھ زمانہ سے  دعوتی جذبہ پیدا کرنے  کے  لئے  اس میں خوش قسمت نو مسلموں کے  انٹرویو شائع کئے  جا رہے  ہیں، اَبی کی خواہش ہے  کہ میں آپ سے  کچھ باتیں کروں، تاکہ وہ باتیں آئندہ کسی شمارے  میں شائع ہو جائیں مدینہ منورہ سے  آپ کی باتیں ارمغان میں شائع ہونا بڑی برکت کی بات ہو گی۔

جواب  : مجھ سے  فون پر بھائی کہہ رہے  تھے، ضرور میرے  لئے  بھی خوشی کی بات ہو گی، تاکہ اس عظیم اور مبارک کار دعوت میں میرا بھی حصہ ہو جائے۔

سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب  : میں جموں شہر کے  ایک پڑھے  لکھے  ملہوترا خاندان میں پیدا ہوئی میری پیدائش ۴ مئی ۱۹۷۵ء کو ہوئی میرے  والد کل دیپ ملہوترا کامرس کے  لیکچرر تھے، میری والدہ بہت شریف اور مصیبت زدہ خاتون تھیں کم عمری ہی سے  وہ بیمار ہو گئی تھیں اور قسمت کی بات یہ ہے  کہ شادی کے  بعد بھی ان کو سکھ چین نہیں مل سکا میری عمر ۵ یا ۶ سال کی ہو گی کہ انکا انتقال ہو گیا میرے  ایک بڑے  بھائی تھے  سندیپ ملہوترا انکی عمر ۱۰ سال تھی، ایک مرتبہ میری والدہ مجھے  دریا میں ڈالنے  کے  لئے  لے  گئیں، ایک آدمی نے  ان کو دریا کے  پل پر کھڑا دیکھا تو وجہ معلوم کی وہ بولیں میں اپنی اس بچی کو دریا میں ڈالنے  آئی ہوں انہوں نے  کہا کہ اگر میری طرح اس کا بھی مقدر خراب ہوا تو ساری زندگی مصیبت بھرے  گی، اس سے  تو اچھا ہے  ابھی مر جائے  اس آدمی نے  انکی خوشامد کی اور سمجھایا کہ اس بچی کی تقدیر تو بہت اچھی ہو گی تم اس کی فکر نہ کرو اور اس کو دریا میں نہ ڈالو اس نے  نہ جانے  کس ہمدردی میں اس نے  یہ الفاظ کہے  تھے  کہ میری والدہ نے  مجھے  دریا میں ڈالنے  کا ارادہ ملتوی کر دیا، مجھے  گھر لے  آئی اور ایک سال بعد انکا انتقال ہو گیا میری والدہ کے  انتقال کے  ۶ ماہ بعد میرے  والد نے  دوسری شادی کر لی سوتیلی ماں  (اللہ تعالیٰ ان کے  احسان کا بدلہ عطا فرمائے ) ان کا برتاؤ میرے  ساتھ بڑا سخت تھا مجھ پر کام کا بہت بوجھ رہتا تھا، سخت حالات میں میں نے  میٹرک پاس کیا، میرا گھر میرے  لئے  جیل بلکہ جہنم کی طرح تھا، میں گھر کے  مظالم سے  اس قدر تنگ آ گئی کہ کئی بار خود کشی کی نا کام کو شش کی ایک بار نیند کی بہت ساری گولیاں کھالیں، کئی بار پہاڑ پر چڑھ کر گرنے  کی کوشش کی مگر میرے  کریم اللہ کو مجھے  نوازنا تھا اس لئے  خود کشی کی کو ئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی میری سوتیلی والدہ ہمارے  والد صاحب کو میرے  خلاف شکایت لگا کر بھڑکاتی رہتیں وہ مجھ پر ترس کھانے  کے  بجائے  مجھے  ڈانٹا کرتے، میں مندروں میں جاتی، مزاروں پر جاتی اور بجائے  پوجا کے  میں یہ سوال کرتی کہ مجھے  بتاؤ میری اندھیری رات کی صبح کب ہو گی، ہو گی بھی یا نہیں ؟ مگر وہ بے  جان میرے  سوال کا جواب کیا دیتے، کاش میں قرآن کی اس صدا کو جانتی تو ان بیجان چیزوں سے  منھ نہ مارتی، میں آج قرآن حکیم پڑھتی ہوں تو خیال آتا ہے  کہ قرآن کی یہ آیت میرے  ہی بارے  میں نازل ہوئی تھی۔

اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَایَسْمَعُوْدُعَآئُ کُمْ وَلَوْسَمِعُوْامَا اسْتَجَابُوْالَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَایُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ (سورۃ فاطر : ۱۴)

اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے  اور اگر سنتے  تو تم کو جواب نہیں دیتے  اور قیامت کے  دن منکر ہوں گے  تمہارے  شریک ٹھہرانے  کے  اور کوئی خبر رکھنے  والے  کی طرح نہیں بتلائے  گا۔

ایک روز میں نے  ایک قبر میں مردے  کو دفن ہوتے  دیکھا تو میں اپنی سہیلی سے  کہا کہ میری قبر ہی بنانا مجھے  جلانا نہیں، میری سوتیلی ماں روز مجھے  ڈانٹنے  اور والد صاحب سے  ڈنٹوانے  کے  لئے  نئی نئی باتیں نکالتی تھیں، انہوں نے  ایک روز مجھ پر پرس سے  پانچ سو روپے  نکالنے  کا الزام لگایا، میری برداشت کی حد ہو گئی مجھے  یہ بھی خیال آیا کہ انہوں نے  آج مجھ پر چوری کا الزام لگایا ہے  میرا وجود ان کو گوارا نہیں نہ جانے  کل کوئی اس سے  بڑا الزام مجھ پر لگا دیں، میرے  پاس ۱۰۰/ روپئیے  تھے  چند جوڑی کپڑے  اور وہ روپئیے  لے  کر میں نکل پڑی اور گھر ہمیشہ کے  لئے  چھوڑ دیا۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  : میں نے  اصل میں وہی بتانے  کے  لئے  بات شروع کی ہے، میری سوتیلی ماں کا احسان ہے  کہ ان کے  مظالم ہی میری ہدایت کا سبب بنے، میرے  کریم اور ہادی رب کے  قربان جس نے  ظلم کے  اندھیروں سے  نکال کر مجھ پر رحمت اور ہدایت کی بارش فرمائی میں گھر سے  نکلی تو ایک کپڑے  بیگ میرے  ہاتھ میں تھا، ہمارا گھر ایک تنگ گلی میں تھا میں گلی سے  نکل رہی تھی میرے  والد کالج سے  آ گئے  وہ میرے  برابر سے  نکلے  مگر انکی نگاہ مجھ پر نہیں پڑی ورنہ وہ مجھے  اس طرح سامان کے  ساتھ جاتا دیکھ کر واپس لے  جاتے  اور نہ جانے  کیا کرتے، میں ریلوے  اسٹیشن پہنچی گھر سے  باہر کبھی نکلی نہیں تھی میں نے  دہلی کا ٹکٹ لیا اور دہلی کی ٹرین میں بیٹھ گئی، مجھے  یہ بھی معلوم نہیں تھا کس ڈبہ میں بیٹھنا چاہئے، فوجیوں کے  ایک ڈبہ میں چڑھ گئی ان بیچاروں نے  لڑکی سمجھ کر جگہ دے  دی گاڑی چلی ریزرویشن ٹی ٹی آیا فوجیوں کے  ڈبے  میں مجھے  دیکھا تو ٹکٹ معلوم کرنے  لگا برابر میں بیٹھے  فوجی نے  کہا یہ میری بہن ہے، یہ میرے  اللہ کی مدد تھی اس فوجی نے  بہن بنانے  کے  بعد سارے  راستہ میرا بہن کی طرح خیال رکھا اوپر کی برتھ خالی کر کے  اس پر سونے  کو کہا اور بار بار تسلی دیتا رہا بہن تم فکر نہ کرو۔

میں آرام کے  ساتھ دہلی پہنچی اسٹیشن سے  باہر نکلی تو سامنے  سی ٹی بس آتی دکھائی دی میں اس پر چڑھ گئی میری سیٹ کے  آگے  دو نوجوان لڑکے  بیٹھے  تھے، جو آپس میں باتیں کر رہے  تھے، ان کی باتوں سے  مجھے  شرافت کا احساس ہوا میں نے  ان سے  کہا بھیا مجھے  یہاں دہلی میں کوئی گرلس ہوسٹل بتا دو انہوں نے  مجھ سے  میرا پتہ معلوم کیا میں نے  اپنا پتہ بتا دیا وہ میری مشکل کو بھانپ گئے  انہوں نے  کہا گرلس ہوسٹل دور ہے  آپ ایسا کریں کہ ہماری بہن سے  مل لیں تھوڑی دیر وہاں آرام کریں وہ پڑھی لکھی ہیں، آپ کو گرلس ہوسٹل خود پہنچا دیں گی، ان کے  گھر میں کوئی مرد بھی نہیں ہے  مجھے  ان کی شرافت کی وجہ سے  اطمینان ہو گیا وہ مجھے  ساوتھ ایکسٹینشن اپنی بہن کے  یہاں لے  گئے  ان کی بہن نے  میرے  ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ناشتہ وغیرہ کرایا ایک دو روز اطمینان سے  رہنے  کو کہا اور اطمینان دلایا کہ میں خود آپ کو اچھے  ہوسٹل میں لے  چلوں گی، ان کی بہن نے  مجھے  اپنے  ایک عزیز عشرت صاحب سے  ملنے  کو کہا کہ ان سے  ملنے  کے  بعد ہی میں ہوسٹل وغیرہ کا فیصلہ کروں، میں عشرت صاحب کے  آفس گئی انہوں نے  کچھ دیر بات کر کے  اپنے  آفس کی ایک عورت کو بلا کر انکے  ساتھ اپنی بیوہ بہن کے  پاس بھیج دیا، ان کے  ایک عزیز عارف صاحب تھے  جو ان کے  یہاں آتے  تھے، انہوں نے  مجھے  مورتی پوجا کے  بارے  میں سمجھایا، ان کی باتیں میری عقل کو بہت بھائیں اور مجھے  مورتی پوجا بڑی حماقت لگنے  لگی، ایک کے  بعد ایک کئی مسلمانوں کے  معاملات ان کی شرافت اور ایک جوان لڑکی کے  ساتھ محتاط شرافت اور کچھ کچھ ا اسلامی تعلیمات کے  تعارف نے  مجھے  اسلام کی طرف راغب کیا اور ایک روز میں نے  عارف صاحب سے  مسلمان ہونے  کی خواہش ظاہر کی انہوں نے  مجھے  سمجھایا کہ ایمان ہر انسان کی سب سے  بڑی ضرورت ہے  مگر تم پریشان حال ہو ہمارے  یہاں رہ رہی ہو کسی مجبوری یا ہماری تھوڑی سی ہمدردی کا بدلہ دینے  کے  لئے  اسلام قبول کرنا ٹھیک نہیں لیکن سوچ سمجھ کر اپنی سب سے  بڑی ضرورت جان کر اسلام قبول کرنا چاہتی  ہو تو اس سے  زیادہ ہمارے  لئے  خوشی کی بات اور کیا ہو گی کہ ہماری ایک بہن ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ کی آگ سے  بچ جائے، میں نے  بہت اطمینان اور خوشی سے  اسلام قبول کرنے  کو کہا انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا میں نے  اسلامی تعلیم حاصل کرنے  کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے  مجھے  میوات بھیج دیا۔

سوال  : میوات کے  دیہاتی ماحول میں تو آپ کو بڑا عجیب سا لگا ہو گا؟

جواب  : ابتداء میں ذرا پریشانی ہوئی مگر بعد میں مانوس ہو گئی اسلامی تعلیم کے  سلسلہ میں میرا وہاں رہنا بہت مفید ثابت ہوا، نماز وغیرہ الحمدللہ اچھی طرح یاد ہو گئی نو دس مہینہ میں کچھ قرآن شریف اور اردو پڑھنا بھی آ گئی۔

سوال  : مولانا جاؤ ید اشرف ندوی سے  آپ کی شادی کس طرح ہوئی؟

جواب  : میوات سے  دہلی آئی تو عارف صاحب نے  بارہ بنکی کے  ایک لڑکے  سے  میرا رشتہ کر دیا وہ لڑکا دیندار نہیں تھا، میرے  لئے  اب دین ہی سب کچھ تھا میں نے  ڈرتے  ڈرتے  عارف صاحب سے  کہا کہ میرے  لئے  کسی دیندار لڑکے  کو تلاش کریں، چاہے  بالکل فقیر ہی کیوں نہ ہو، میری خواہش پر انہوں نے  وہ رشتہ رد کر دیا، عارف صاحب نے  اپنی لڑکی کے  رشتہ کے  لئے  قومی آواز میں اشتہار دیا تھا وہ اشتہار مولانا(جاؤ ید اشرف ندوی صاحب)  نے  دیکھا انکی شادی ہو گئی تھی مگر بد قسمتی سے  بلکہ میری خوش قسمتی سے  وہ شادی نِبھ نہیں سکی اور طلاق ہو گئی ان کے  والدین کا انتقال ہو گیا تھا، اشتہار دیکھا تو بھائیوں کی مرضی کے  بغیر عارف صاحب کے  یہاں رشتہ کے  لئے  پہنچے  شاید عارف صاحب نے  انکی دوسری شادی کی وجہ سے  یا میری محبت میں، یا اپنی بیٹی سے  جوڑ نہ بیٹھنے  کی وجہ سے  میرے  بارے  میں بتایا اور مجھ سے  شادی کرنے  کو کہا اس دوران میں نے  اپنی آپ بیتی اور قبول اسلام کی کہانی ’’ کڑواسچ ‘‘ کتاب کے  طور پر لکھ لی تھی عارف صاحب نے  مولانا کو وہ کتاب دکھائی، مولانا کتاب دیکھ کر بہت متاثر ہوئے  اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ملاقات ہوئی اور نسبت طے  ہو گئی چند روز کے  بعد ایک دن ظہر کی نماز میں میرا  نکاح ہو گیا، مولانا مجھے  اپنے  گھر نہیں لے  جاسکتے  تھے، خاندان اور برادری کی مخالفت کا خوف تھا، اس لئے  لکھنؤ لے  گئے  پھر اپنے  ایک اور ساتھی مفتی عبدالحمید صاحب کے  پاس بمبئی لے  گئے  ان کے  یہاں ایک سال رکھا، مفتی صاحب اور انکی والدہ نے  میرے  ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ حقیقی ماں اور بھائی بھی نہیں کر سکتے۔

سوال  : آپ مدینہ منورہ کس طرح آئیں ؟

جواب  : میرے  اللہ کے  کرم کی ہوا چلی تھی کہ کرم پہ کرم ہوتا گیا مولانا صاحب (مولانا جاؤ ید اشرف ندوی) کا مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا مولانا نے  کسی طرح مجھے  عمرہ کے  ویزے  پر یہاں بلا لیا اللہ تعالیٰ نے  مجھے  مدینہ کی محبت عطا کی تھی میرا دل واپسی کو نہ چاہا اور سالوں تک غیر قانونی طور پر یہاں رہی میرے  تین بچے  اللہ نے  مجھے  مدینہ منورہ میں عطا کیے، مدینہ کی گلیوں میں کھو جانے  کا مزہ میرے  کریم اللہ نے  مجھے  چکھایا مولانا کی شکل میں مجھے  اللہ تعالیٰ نے  انتہائی نرم خو، حلیم، سلیم الطبع اور کریم النفس شوہر عطا کیا اس پر مدینہ منورہ کی رہائش عطا کر کے  میرے  سارے  غم بھلا دئے۔

سوال  : حضرت مفتی عاشق الٰہی بلند شہریؒ کے  گھرانے  سے  آپ کا تعلق کیسے  ہوا؟

جواب  : ہمارے  شوہر مولانا صاحب میں شرم بہت ہے  کسی بڑے  آدمی یا عالم سے  ملتے  ہوئے  جھجکتے  ہیں مجھے  معلوم ہوا کہ ہمارے  یہاں کے  بڑے  عالم حضرت مفتی صاحب یہاں رہتے  ہیں میں ان کے  گھر گئی اور حضرت مفتی صاحب کی بیوی(امّی جان) سے  ملی پہلی ملاقات کے  میرے  تعارف نے  ان کو مجھ پر شفیق بنا دیا انہوں نے  حضرت مفتی صاحب سے  میرا ذکر کیا مفتی صاحب پر غیر مسلموں میں دعوت کا بہت غلبہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے  وہ آپ کے  ابی مولانا کلیم صاحب سے  بہت تعلق رکھتے  تھے  انہوں نے  ہمارے  شوہر کو بلوایا اور دونوں نے  مجھے  اپنی بہن بنا لیا اور واقعی ماں باپ کی طرح میری سرپرستی فرمائی امی جان اب بھی ضعف کے  باوجود میرے  بچوں کے  کپڑے  اپنے  ہاتھ سے  سی کر پہناتی ہیں میں کسی کی دعوت کر دوں تو کوئی چیز خود بنا کر لے  آتی ہیں، وہ مجھ سے  میرے  بچوں سے  کس قدر محبت کرتی ہیں میں بیان نہیں کر سکتی حضرت مفتی صاحب میرے  پورے  خاندان سے  حد درجہ محبت فرماتے  تھے، الحمدللہ حضرت کے  گھر والے  بیٹے  بیٹیاں بھی مجھ سے  بالکل بہنوں جیسا سلوک کرتے  ہیں بلکہ سب بہنوں سے  زیادہ میرا خیال کرتے  ہیں۔

سوال  : ہماری امی جان (دادی) بھی تو آپ کو بیٹی کہتی ہیں اور آپ کو بہت یاد کرتی ہیں ان سے  آپ کا تعلق کس طرح ہوا؟

جواب  : آپ کے  ابی مولانا کلیم صاحب سے  میرے  شوہر مولانا جاؤ ید صاحب کے  کچھ تعلقات تھے  ایک بار وہ والدہ کو لے کر عمرہ کے  لئے  آئے  میں ان سے  ملنے  گئی اور مدینہ کا مکین ہونے  کی وجہ سے  کچھ ضیافت کی کوشش کی ان کو مجھ سے  محبت ہو گئی، میں تم کو تجربے  کی بات بتاتی ہوں، خدمت میں اللہ نے  بڑی تاثیر رکھی ہے، آدمی اگر خدمت کا عادی ہو تو پتھر جیسے  دل میں بھی جگہ بنا لیتا ہے، مجھے  اپنے  بڑوں کی خدمت کا پیدائشی شوق ہے، کسی بڑے  کے  کپڑے  دھونے، اس کے  سر پر مالش کرنے، یا پاؤں وغیرہ دبانے  میں بہت مزہ آتا ہے، بوڑھی عورتوں کو تو خدمت کی ضرورت بھی ہوتی ہے  اور بڑوں کا کیاذراسی دیر میں کلیجہ سے  دعائیں دینے  لگتے  ہیں اگر ذراسا آرام قربان کر کے  آدمی کسی خدمت کر لے  تو پھر ان دعاؤں سے  دنیا اور آخرت بنتی ہے، میں نے  بڑوں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر دیکھی ہے۔

سوال  : مدینہ منورہ میں پوری دنیا سے  لوگ آتے  ہیں میں نے  سنا ہے  آپ کا کوئی دور کا جاننے  والا یا ملنے  والا آ جائے  ایک پاؤں پر آپ اس کے  لئے  کھڑی ہو جاتی ہیں پانچ چھوٹے  چھوٹے  بچے  اور آپ ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں کیا آپ تھکتی نہیں ہیں؟

جواب  : میرے  اللہ نے  مجھے  مدینہ منورہ کی سکونت کا شرف بخشا ہے، یہاں کے  پانی اور فضاء میں اکرام ضیف اور مہمانوں کی خاطر داری رکھی ہے، ہم غیر اختیاری طور پر مجبور ہوتے  ہیں کہ مدینہ کے  مہمانوں کی خدمت اور ضیافت کا مزہ لیں میرے  دل میں آتا ہے  کہ ہمارے  رسولﷺ کے  مہمان ہیں اور آپ ﷺ تک ہمارے  حالات پہنچتے  ہیں اپنے  مہمانوں کی ضیافت سے  آپ کس قدر خوش ہوتے  ہوں گے  جب یہ بات ہو تو تھکن کا کیا مطلب، میری پیاری اس خیال سے  بھی خوشی اور مزہ محسوس ہوتا ہے  کہ ہمیں رسول اللہﷺ کے  مہمانوں کی ضیافت اور خدمت کا شرف مل رہا ہے، میں تو بچوں کی خدمت بھی اللہ کا حکم سمجھ کر کرتی ہوں اور ٹیوشن اپنے  شریف اور مسائل کے  بوجھ تلے  دبے  ہوئے  شوہر کا بوجھ کم کرنے  کے  لئے  پڑھاتی ہوں، مجھے  الحمدللہ اس نیت کی وجہ سے  ہر کام میں مزہ آتا ہے، کرنے  کے  بعد فرحت ہوتی ہے، واقعی ہمارے  دین نے  ہمیں نیت کو خالص کرنے  کا حکم دے  کر احسان کیا ہے، نیت ٹھیک ہو تو ہر چیز میں مزہ ہے۔

سوال  : سنا ہے  آپ مدینہ منورہ سے  جانا پسند نہیں کرتیں یہاں پر روزگار وغیرہ کے  مسائل بھی بہت ہوئے  اور دوسری جگہوں سے  بلاوے  بھی بہت آئے ؟

جواب  : اصل میں مدینہ جس نے  دیکھ لیا وہ جنت کے  علاوہ کہیں جانا چاہے  ایسا کیسے  ہو سکتا ہے ؟  میری خواہش اور آخری تمنا ہے  کہ بقیع پاک کی خاک مجھے  مل جائے، تم بھی دعاء کرنا (روتے  ہوئے ) میں یہاں کے  کبوتروں کو دیکھتی ہوں تو دعاء کرتی ہوں کہ یا اللہ آپ نے  بقیع پاک کے  دانے  ان کو مقدر کر دئیے  میرے  لئے  اپنے  نبی ﷺ کے  قدموں کی یہ خاک مقدر فرما دیجئے۔

سوال  : آپ نے  اپنے  گھر والوں کی کچھ خیر خبر نہیں لی، انہوں نے  آپ کو تلاش بھی نہیں کیا؟

جواب  : شاید انہوں نے  تو مجھے  تلاش نہیں کیا، اصل میں انہوں نے  تو یقین کر لیا تھا کہ میں نے  خودکشی کر لی ہے، گذشتہ سال سے  میرے  والد اور بھائی  سے  میرا رابطہ ہوا ہے، یہاں مدینہ منورہ میں جموں کے  ایک طالب علم پڑھتے  تھے  انہوں نے  میرے  والد کو میرا پتہ  بتا دیا وہ بے  چین ہو گئے  میں ویزا لگوانے  ہندوستان گئی تھی جب ہی جھجک کر بار بار ہاں اور نہ نہ کر کے  ایک جگہ میری ان سے  پرانی دہلی میں ملاقات ہو گئی، وہ بہت روئے  اور جب میں نے  سارے  حالات بتائے  تو وہ بہت نادم ہوئے، اب وہ مجھے  دوسرے  تیسرے  روز فون کرتے  ہیں، مولانا جاوید اشرف اور میں نے  ان کو اسلام کی دعوت بھی دی ہے  انہوں نے  بت پرستی چھوڑ دی ہے، ہم لوگوں نے   آپ کے  ابی مولانا کلیم صاحب سے  درخواست کی ہے   بلکہ انھوں نے  خود ہی ان کا پتہ لیا ہے، انہوں نے  اپنے  ساتھیوں کو لگایا ہے  اور امید دلائی ہے  کہ وہ انشاء اللہ ضرور اسلام قبول کر لیں گے۔

سوال  : آ پ کی سوتیلی والدہ حیات ہیں ؟ ان سے  بھی کوئی رابطہ کیا؟

جواب  : ہاں وہ بھی زندہ ہیں ان سے  بھی میں نے  فون پر ایک بار بات کی وہ بہت معافی مانگ رہی تھیں، مگر میں اپنی قسمت کے  بننے  اور غم کے  اندھیرے  کی صبح ہونے  میں سب سے  بڑا احسان ان ہی کا مانتی ہوں کہ ان کے  مظالم ہی میری ہدایت کا ذریعہ بنے، میں نے  ملتزم پر اور ہر خاص موقع پر اپنے  ایک بڑے  محسن کی طرح ان کے  لئے  دعائیں کی ہیں، میرے  اللہ کی عجیب شان کہ ان کے  سارے  مظالم مجھے  آخری درجہ کے  احسان لگتے  ہیں، ان کے  لئے  میں بلک بلک کر ہدایت کی دعائیں کرتی ہوں، گذشتہ حج کے  موقع پر عرفات میں میں نے  سب سے  زیادہ ان کے  لئے  ہدایت کی دعاء مانگی۔

سوال  : بچوں کی تعلیم کے  لئے  آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟

جواب  : یہاں سعودی عرب کے  اسکولوں میں تربیت کا نظم بہت عجیب ہے، ہمارا ارادہ ہے  کہ ہمارا ایک ایک بچہ داعی بنے  اور دین کی خدمت کرے، الحمدللہ میں نے  بھی حضرت مفتی عاشق الٰہی کی تفسیر ’’انوار البیان‘‘  کا ہندی ترجمہ حضرت کی حیات میں شروع کیا تھا میری خواہش ہے  کہ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم کی یہ خدمت مجھ سے  لے  لے، اس لئے  ہم لوگ مدرسہ سے  زیادہ گھر پر انکی تعلیم و تربیت کی فکر میں ہیں

سوال   : ارمغان کے  واسطے  سے  آپ مسلمانوں کے  لئے  کچھ پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب  : میں درخواست ہی کر سکتی ہوں کہ وہ اپنا منصب پہچانیں اور غیر مسلموں سے  رابطہ قائم کریں اور ساتھ ہی اپنے  کر دار کو اسلام سے  آراستہ کریں اور اپنے  آپ کو مجسم دعوت بنائیں اور اپنے  عمل سے  حضور اقدسﷺ کا تعارف کرائیں، اگر ہمارے  نبی ﷺ کا اسوہ لوگوں کے  سامنے  آ جائے  تو لوگ ایکٹروں، لیڈروں، کھلاڑیوں کو آئیڈیل بنانے  کے  بجائے  صرف صرف ہمارے  نبی کو آئیڈیل بنائیں گے، اس سے  زیادہ پر کشش کوئی اور کر دار ہو ہی نہیں سکتا دوسرے  یہ کہ ریڈیو، ٹی، وی اور میڈیا کے  واسطے  سے (حدود شریعت میں رہ کر) اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے  اور اس کے  لئے  تحریک چلائی جائے۔

دوسری درخواست یہ ہے  کہ میرے  لیے  دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے  بھی اپنے  دین کی دعوت کے  لئے  قبول کر لیں اور مجھ سے  کچھ کام لے  لیں بس میری یہی حسرت ہے  کہ میں اور میری نسلیں دین کی خدمت خصوصاً دین کی دعوت کے  لئے  قبول ہو جائیں، ہمارے  بعض متعلقین کہتے  ہیں  کہ تم لوگ اتنے  دنوں سے  مدینہ میں رہتے  ہو گھر بھی نہیں بنایا ؟ میں اکثر ان سے  کہتی ہوں کہ ہم مدینہ میں بقیع پاک کا پیوند بننے  کے  لئے  پڑے  ہیں، دنیا بسانے  کے  لئے  تو ہم پیرس جاتے  یا نیویارک جاتے  یہ ان کے  جواب کے  لئے  کہتی ہوں، ورنہ میرا خیال ہے  کہ دنیا کی زندگی کا مزہ اور راحت بھی مدینہ منورہ کی زندگی میں ہے، پیرس کے  لوگوں کو اس کی خاک بھی نصیب نہ ہو گی۔

سوال   : بہت بہت شکریہ  شہناز پھو پھو ! آپ ہمارے  لئے  بھی دعاء کیجئے، آپ پر تو بڑا رشک آ رہا ہے ؟

جواب  : پیاری اسماء تمہارا نام کب سے  سنتے  اور ارمغان میں پڑھتے  تھے  تم کو دیکھنے  کو آنکھیں ترستی تھیں ہم تم پر رشک کرتے  ہیں، ہم مدینہ منورہ میں رہ رہے  ہیں، ہمیں نبی اکرم ﷺ کے  شہر میں رہنا نصیب ہو گیا ہے  مگر تم تو نبی اکرم  ﷺ کا کام بلکہ محبوب ترین کام کر رہی ہو، اللہ تعالیٰ اسمیں اور بر کت عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ تم کو مدینہ منورہ بلکہ حرمین شریفین کی بار بار زیارتِ خاص قبولیت اور برکت کے  ساتھ نصیب فرمائے۔ آمین۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان ڈسمبر  ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

محترمہ سلمیٰ انجم صاحبہ {مدھو گویل} سے  ایک ملاقات

 

اسما ء ذات الفوزین

 

اسماء ذات الفوذین  :  السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سلمیٰ انجم          :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   :  آپ کی خدمت میں قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ ضروری باتیں کرنے  کے  لئے  حاضر ہوئی ہوں۔

جواب  : میرے  لائق جو خدمت ہو میرے  لئے  لائق سعادت ہے۔

سوال   :  برائے  کرم اپنا مختصر تعارف کرائیں۔

جواب  : میرا نام اب الحمدللہ سلمیٰ انجم ہے  میرا پہلا نام مدھو گویل تھا، میں غازی آباد کے  ایک بہت مذہبی ہندو گویل خاندان میں پیدا ہوئی میرے  والد لالہ سنگل سین گویل ایک معمولی سبزی کے  تاجر تھے  اور میرے  بچپن میں انتقال کر گئے  تھے  میری پرورش میری والدہ کیلاش وتی اور بڑے  بھائی بابو جگدیش گویل کے  زیر سایہ ہوئی ہم لوگ غازی آباد کے  قریب گلدھرگاؤں میں رہتے  تھے  میری والدہ ماجدہ جن کا اسلامی نام ام نسیم ہے  اور میرے  سب سے  بڑے  بھائی بابو جگدیش جن کا اسلامی نام کلیم غازی ہیں اور دوسرے  بھائی ہیم کمار جو الحمدللہ اب مولانا نسیم غازی ہیں میری چھوٹی بہن بھی جس کا نام اب اسماء ہے  اپنے  پورے  خاندان کے  ساتھ الحمدللہ مسلمان ہیں، میری تین بڑی بہنیں مسلمان نہیں ہوئیں جن میں ایک حیات ہے  ان کا نام لجا ہے  اور دو راجیشوری اور لیلاوتی کا انتقال ہو گیا ہے۔

سوال   : اپنے  خاندان کے  اسلام لانے  کے  سلسلہ میں ذرا بتائیے ؟

جواب  : میرے  بڑے  بھائی بابو جگدیش بڑے  مذہبی ہندو تھے  اور انہیں ہندو مذہب کی بڑی گہری معلومات تھیں، اسلام اور مسلمانوں سے  ان کو بڑی نفرت سی تھی، مسلمان کے  یہاں سے  سبزی لینا بھی وہ پسند نہیں کرتے  تھے  اور اگر خرید تے  تو بہت دھوکر پکواتے  تھے، وہ غازی آباد نگر پالیکا میں چنگی انسپکٹر تھے  وہ ہندو مذہب کو اپنے  مالک کو خوش کرنے  اور اس تک پہنچنے  کا سہارا سمجھتے  تھے  وہ مذہب سے  بہت عقیدت کا تعلق رکھتے، ایک روز وہ ایک چنگی پر جانچ کے  لئے  گئے، دوپہر کا وقت تھا، غازی آباد بھٹے  کے  ایک مسلمان جناب عبدالرحمٰن صاحب جو چوڑیوں کا کاروبار کرتے  تھے  کسی ہفتہ واری بازار میں دوکان لگانے  کے  کئے  چوڑیاں لے  کر آئے  مگر ان کے  پاس چنگی کے  پیسے  نہیں تھے، انہوں نے  چنگی پر آ کر درخواست کی کہ میں شام کو واپسی میں چنگی کے  پیسے  دے  دوں گا مجھے  شام پانچ بجے  تک کی مہلت دے دی جائے، بابوجی نے  کہا کہ واپسی پر بھی کوئی چنگی دیتا ہے ؟ انہوں نے  جواب دیا کہ بابو جی مسلمان دیتے  ہیں، بابو جی کو یہ بات لگ سی گئی اور وہ باوجود  دوسری جگہ کے  تقاضوں کے  شام تک وہیں بیٹھ گئے  کہ دیکھتا ہوں مسلمان کس طرح چنگی دیتا ہے، عبدالرحمٰن صاحب وقت سے  قبل گاہکوں کی بھیڑ سے  دوکان سمیٹ کر پانچ بجے  سے  ۱۵ منٹ قبل چنگی پر آئے  اور چنگی جمع کرا دی، بابو جی ان کے  اس ایفائے  وعدہ سے  متاثر ہوئے  اور پھر ان سے  دوستی کر لی، حقیقت یہ ہے  کہ ایفائے  وعدہ کا یہ اسلامی انداز ہی ہمارے  خاندان کے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنا بابو جی نے  اسلام کا مطالعہ شروع کیا گھر آئے  ایک سنجیدہ مسلمان جناب قاضی جمیل صاحب بابوجی کو مل گئے، انہوں نے  بابو جی کو اسلامی لٹریچر مہیا کیا اور ساتھ میں چھوٹے  بھائی نسیم غازی کوبھی قریب کیا، بابو جی اسلام کے  مطالعہ سے  بہت متاثر ہوئے  اور انھوں نے  دوستوں اور عزیزوں سے  اسلام کی تعریف شروع کی اور اسلام قبول کرنے  کا ارادہ ظاہر کیا، انہوں نے  ان کو روکنے  کی بہت کوشش کی مگر چھوٹے  بھائی (ہیم کمار) مولانا نسیم غازی نے  اسلام قبول کر لیا، اس دوران لوگوں نے  دباؤ دینے  اور اسلام سے  باز رکھنے  کے  لئے  ایک جھوٹے  قتل کے  مقدمہ میں پھنسا دیا، مقدمہ شروع ہوا غازی آباد کا ایک بڑا  بدمعاش صادق تھا اس کو معلوم ہوا کہ مقدمہ کی تاریخ ہے  اور لوگ جھوٹی گواہی دینے  آئیں گے، وہ  عدالت کے  باہر چاقو وغیرہ لے  کر بیٹھ گیا کہ جو جھوٹی گواہی دینے  آئے گا آج اپنا انجام دیکھے  گا اس کے  ڈر کی سے  لوگ گواہی دینے  نہیں آئے، مقدمہ میں بابو جی برَی ہو گئے  صادق کی اس ہمدردی سے  بابو جی اور بھی متاثر ہوئے  اور انہوں نے  بھابھی اور بچوں سے  مشورہ کیا اور پورا خاندان مشرف با اسلام ہو گیا پانچ بیٹے  اور چار بیٹیاں جس میں تین بلریا گنج سے  عالم ہیں سب مسلمان ہو گئے، مولانا نسیم غازی جس وقت مدرسۃ الفلاح بلریا گنج میں پڑھتے  تھے  انہوں نے  گھر والوں پر بہت کام کیا انکی کوشش سے  میری چھوٹی بہن اسماء مسلمان ہوئیں اور انکی شادی اعظم گڑھ کے  ایک معزز خاندان میں ہوئی ان کے  شوہر جامعہ میں ایک بڑے  عہدے  پر ہیں، اس کے  بعد نسیم بھائی والدہ اور مجھ پر بہت محنت کرتے  رہے  وہ بڑے  درد بھرے  خطوط ہمیں لکھتے  تھے  انکا ایک درد بھرا خط ’’ نو مسلم بیٹے  کا اپنی ماں کے  نام خط‘‘ کے  عنوان سے  شائع بھی ہوا چند سالوں کی فکر اور کوشش سے  میری والدہ بھی مسلمان ہو گئیں۔

سوال   : آپ اپنے  اسلام کے  سلسلہ میں کچھ بتائیے  ؟

جواب  : میں اپنے  بارے  میں بتانے  جا رہی ہوں مجھے  بچپن سے  اسلام سے  بڑی چڑ تھی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمارے  علاقہ اور غازی آباد کے  اکثر علاقے  میں مسلمانوں کو دیکھتی تھی کہ وہ بہت گندے  رہتے  ہیں اور انکے  گھر بھی بہت گندے  ہوتے  ہیں نسیم بھائی جب بھی غازی آباد آتے  ایک گھنٹہ مجھے  سمجھاتے  مجھے  انکا سمجھانا بہت برا لگتا کبھی کبھی میں کانوں میں انگلیاں دے  لیتی کبھی روئی لگالیتی ان کی طرف پیٹھ پھیر کر دیوار کی طرف منھ کر کے  لیٹ جاتی مگر وہ کہتے  رہتے، ایک بار وہ مجھے  اعظم گڑھ لے  گئے  وہاں میں نے  بہت سلیقہ اور صفائی کا خیال رکھنے  والے  خاندانی مسلمانوں کو دیکھا غازی آباد کے  ابراہیم خاں کے  گھر مجھے  لے  گئے  ان کے  گھر کی عورتوں سے  میں متاثر ہوئی وہ دس سال تک مجھے  سمجھاتے  رہے  کبھی کبھی وہ رونے  لگتے  مجھے  اسلام کی باتیں تو سمجھ میں آتی تھیں مگر میں گندے  مسلمانوں میں شامل ہونا نہیں چاہتی تھی، مجھے  ڈر رہتا کہ ان مسلمانوں میں خاص طور پر عبدالرحمن صاحب کے  بیٹے  سے  میری شادی کر دی جائے  گی اسلئے  میں مسلمان ہوتے  ہوئے  ڈرتی تھی ایک بار میں اعظم گڑھ گئی ہوئی تھی نسیم بھائی میری خوشامد کرتے  تھے  ایک روز انکی ڈبڈبائی آنکھیں دیکھ کر میرا دل بھر آیا میں نے  کہا بھیا تم کیا چاہتے  ہو، انہوں نے  کہا مدھو بہن اسلام کا کلمہ پڑھ کر ہمیشہ کی آگ سے  بچ جاؤ میں نے  کہا اچھاپڑھاؤ اور میں نے  کلمہ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا، نسیم بھائی کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ خوشی میں مجھے  گلے  لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے  لگے  اس لئے  کہ تقریباً دس سال کی متواتر کڑھن، لگن اور مسلسل دعوتی کوشش کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  میرے  دل کو اسلام کے  لئے  کھولا یہ تقریباً اٹھائیس سال پرانی بات ہے۔

سوال   : آپ کی شادی کس طرح ہوئی ؟

جواب  : شادی کے  سلسلہ میں میری کچھ شرائط تھیں ایک زمانہ تک سخت ترین مذہبی ہندو رہنے  کی وجہ سے  فوراً ذہن سازی نہیں ہو سکی تھی، اس لئے   میری پہلی شرط تھی کہ میں کسی ڈاڑھی والے  شخص سے  شادی نہیں کروں گی، لڑکا الگ رہتا ہو، زیادہ بھائی بہن وغیرہ نہ ہوں یعنی بڑا خاندان نہ ہو مجھے  ابھی اسلام قبول کئے  ہوئے  تقریباً ایک سال ہوا تھا حکیم علیم الدین سنبھلی نے   ہمارے  شوہر محمود صاحب سے  شادی کے  لئے  کہا وہ اس وقت روزگار کے  لئے  کھتولی سے  پھلت آ کر رہنے  لگے  تھے، انہوں نے  اپنی والدہ سے  مشورہ کیا اور پھر کھتولی بھائیوں سے  مشورہ کرنے  کے  لئے  گئے  وہاں آ پ کے  دادا حاجی محمد امین صاحب انکے  خاندان کے  بزرگ تھے  انہوں نے  تائید کی غازی آباد آ گئے  کہ رشتہ پکا کریں گے  اور اشارے  سے  آپ کے  ابی ( مولانا کلیم صاحب) کو دعوت دیتے  آئے، رشتہ پر آمادگی دیکھ کر لوگوں کا مشورہ ہوا کہ نکاح کر دیا جائے  اصل میں ان کو میری طرف سے  اطمینان نہیں تھا بہر حال سادگی سے  سے  نکاح ہو گیا عزیزوں اور گھر والوں میں سے  صرف آپ کے  والد (کلیم بھائی ) شادی میں شریک ہوئے  دو ماہ بعد ہمارے  بھائی اور والدہ نے  مجھے  سادگی سے  میرے  شوہر کے  ساتھ اس طرح رخصت کر دیا جیسے  کئے  سال کی شادی شدہ لڑکی کو رخصت کر دیتے  ہیں۔

سوال   : آپ کو اب کیسا محسوس ہوتا ہے، محمود چچا جان نے  تو اتنی اچھی داڑھی بھی رکھ لی ہے ؟

جواب  : مجھے  بہت اچھا محسوس ہوتا ہے، میرے  شوہر محمود صاحب ایک اچھے  شوہر ہیں ایک مثالی مسلمان ہیں، مجھے  ان کے  ساتھ شادی پر فخر ہے، میں اس پر اللہ کا شکر کرتی ہوں، ان کی ڈاڑھی مجھے  بہت اچھی لگتی ہے   بلکہ اب مجھے  اسلام کی ہر چیز بہت اچھی لگتی ہے، میرے  خاندان کے  اکثر لوگوں کے  ڈاڑھیاں ہیں، بڑے  بھائی، بابو جی مرحوم تو بہت بہادر مسلمان تھے، ہندو  کے  محلہ میں رہتے  تھے  بابری مسجد کے  قضیہ اور اس سے  قبل غازی آباد میں بارہا فسادات ہوئے  مسلمان دوستوں کے  فون آتے  تھے  کہ ہم آپ کو لینے  آ رہے  ہیں، ان حالات میں آپ کا وہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے، بابوجی بڑے  اعتماد سے  جواب دیتے  اگر آپ اطمینان دلا دیں کہ مسلمانوں کے  محلہ میں ملک الموت نہیں آ سکتے  اور ہندوؤں کے  محلہ میں موت وقت سے  پہلے  آ جائے  گی تو میں آنے  کو تیار ہوں اور موڑھا بچھا کر سڑک پر بیٹھ کر مشروع حلیہ میں اخبار پڑھنے  بیٹھ جاتے  ان کا ایمان بڑا قوی تھا۔

قبول اسلام کے  بعد ہمارے  خاندان کو ہندوؤں نے  بڑی دھمکیاں بھی دیں اور بڑے  لالچ بھی دئے، رام گوپال شال والا وغیرہ بارہا ملنے  آئے  اور کروڑوں روپے  کی پیش کش کی کہ آپ کسی بھی شرط پر اسلام سے  باز آ جائیے، مگر انہوں نے  حق کے  مقابلہ پر لالچ اور خوف کو ٹھکرا دیا اور زندگی بھر نہ صرف خود مضبوط مسلمان رہے  بلکہ ان کی وجہ سے  اللہ نے  خاصے  لوگوں کو ہدایت دی، میرے  دوسرے  بھائی مولانا نسیم غازی بھی جو الحمد للہ ملک کے  مشہور داعی ہیں انسانی رشتہ کے  بھائیوں کو دوزخ کی آگ سے  بچانے  کے  لئے  بغیر کسی سیاسی فکر اور لالچ کے  مخلصانہ دعوت پر زور دیتے  ہیں الحمدللہ اس کا فائدہ جماعت اسلامی کے  لوگوں کو بھی ہوا ہے، خاصے  لوگ ان کی دعوت سے  مشرف با اسلام ہوئے  ہیں۔الحمد للہ

سوال   : اگر خدانخواستہ آپ کو ہدایت نہ ملتی تو؟

جواب  : اگر خدانخواستہ مجھ کو ہدایت نہ ملتی اس تصور سے  بھی کانپ جاتی ہوں، میرا رواں رواں کانپ جاتا ہے، دیکھئے  ابھی میرا حال خراب ہو رہا ہے  میری دو بہنیں اسلام کے  بغیر دنیا سے  چلی گئیں وہ اسلام کے  قریب ہو گئی تھیں، مگر ان کے  مقدر میں ہدایت نہیں تھیں، میرے  والد بھی اسلام سے  محروم دنیا سے  رخصت ہوئے، جب میں سوچتی ہوں تو نیند اڑ جاتی ہے  اور کبھی کبھی مسلمانوں پر مجھے  بہت غصہ آتا ہے، دس سال تک میں صرف اسلئے  مسلمان نہیں ہوئی کہ میں جن اکثر مسلمانوں کو دیکھتی تھی وہ بہت گندے  رہتے  تھے  ان کا رہن سہن اور ماحول جن میں چوری چکاری جوا اور جہالت ہے، میرے  لئے  حجاب بنا رہا، اگر مسلمان اسلام پر حقیقت میں عمل کرتے  تو میری بہنیں اور والد ایمان سے  محروم نہ جاتے۔

سوال   : چچی جان اچھا یہ بتائے  آپ گوشت نہیں کھاتیں مگر آپ مرغ اور گوشت اس قدر لذیذ بناتی ہیں آپ کو کیسا لگتا ہے؟

جواب  : میرے  شوہر محمود صاحب ایک اچھے  مسلمان شوہر ہیں، میں کچھ نماز ذکر وغیرہ تو زیادہ نہیں کر پاتی اپنی عبادت یہی سمجھتی ہوں، کہ میں ایک اچھی مسلمان بیوی بنوں، میں نے  اپنے  آپ کو اپنے  شوہر کے  لئے  بالکل وقف کر دیا ہے، وہ گوشت کے  بہت شوقین ہیں  اس لئے  مجھے  گوشت بنانے  کا شوق ہو گیا ہے  میں گوشت کھانے  کے  حکم کو اللہ کی نعمت سمجھتی ہوں میں نے  اپنے  بچوں کو ترغیب دے  کر گوشت کا شوقین بنایا ہے، میں کوشش کے  باوجود نہیں کھا پاتی تو اسے  اپنی معذوری بلکہ محرومی سمجھتی ہوں۔

سوال   : ماشاء اللہ آپ نے  اپنے  بچوں کی بڑی اچھی تربیت کی ہے  عائشہ بھابھی صفیہ بھابھی اور سلمان بھائی آپ کے  تینوں بچے  بہت سعادت مند اور نیک مسلمان ہیں آپ نے  ان کی کس طرح تربیت کی۔

جواب  : بچوں کی تربیت میں مجھ سے  زیادہ ان کے  والد کا ہاتھ ہے  وہ بہت اچھے  اور سچے  مسلمان ہیں، اکثر غیر مسلم کے  محلہ میں رہے  مگر پڑوسیوں کے  محبوب رہے  اور جب محلہ چھوڑ کر آئے  تو ہندوؤں نے  روتے  ہوئے  رخصت کیا پکی مہری محلہ میں ایک چھوٹے  مکان میں ہم ایک زمانے  تک رہے  مالک مکان ایک انتہائی مذہبی ہندو تھا، رام کشور نام تھا دو مضامین میں ایم، اے  تھا مگر وہ ہمارے  شوہر کے  اخلاق و ہمدردی سے  حد درجہ متاثر تھا ا ور اسلام کی طرف مائل ہو گیا تھا کہتا تھا محمود صاحب جس قدر دیوتاؤں کی پوجا کرتا ہوں حال خراب ہوتا جاتا ہے  سوچتا ہوں یہ جھوٹے  بھگوان چھوڑ دوں اور آپ کی طرح ایک سچے  مالک کا ہو جاؤں اس کے  مقدر میں ہدایت نہیں تھی بے  چارہ محروم دنیا سے  چلا گیا میں نے  بچوں کو مسلمان بنانے  کی فکر کی اور بچپن سے  نماز پڑھنے  کے  وقت ان کے  سر رہتی تھی غیر مسلمانہ عادتوں سے  بچنے  کو کہتی تھی مجھے  اسلام قبول کرنے  کے  بعد جس طرح پہلے  مسلمان برے  لگتے  تھے  غیر مسلم برے  لگنے  لگے  اس لئے  میں باوجود غیر مسلموں کے  محلہ میں رہنے  کے، بچوں کے  لئے  یہ پسند نہیں کرتی تھی کہ وہ غیر مسلم بچوں سے  دوستی کریں بلکہ ان کے  ساتھ کھیلیں۔

سوال   : آپ کے  ہندو عزیزوں سے  اب کیسے  تعلقات ہیں ؟

جواب  : اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  ہم لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی نہیں تھی ہم لوگ غریبی کی زندگی گزارتے  تھے  مگر اسلام قبول کرنے  کے  بعد اللہ نے  ہم کو سب کچھ دیا ہمارے  بھائیوں اور بھانجوں نے  اپنے  ہندو رشتہ داروں کے  ساتھ اچھا سلوک کیا اب وہ لوگ ملتے  جلتے  ہیں اور شادی غمی میں شریک ہوتے  ہیں ہم سے  تعلقات بنائے  رکھنا ان کی ضرورت بن گئی ہے، نسیم بھائی فائدہ اٹھا کر ان پر کام کر رہے  ہیں۔

سوال   : ارمغان کے  واسطے  سے  آپ مسلمانوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

جواب  : مجھے  صرف یہ کہنا ہے  کہ مسلمان گندے  نہ رہیں اس کی وجہ سے  لوگ اسلام میں آنے  سے  رکتے  ہیں، اسلام نے  پاکی اور صفائی کو کس قدر اہمیت دی ہے، ہمیں تو دنیا کو صفائی اور پاکی کا سلیقہ سکھانا چاہئیے، ہماری زندگی اسلامی کر دار کا نمونہ ہونی چاہئے  اسلام کی ہر ادا میں کشش ہے، دیکھئے  پچاس سے  زائد افراد پر مشتمل خاندان کی ہدایت کا ذریعہ صرف عبدالرحمٰن صاحب کے  وعدے  پر چنگی جمع کرنے  کا عمل ہوا بلکہ ہمارے  واسطے  سے  مسلمان ہونے  والے  سبھی لوگوں کا ذریعہ ان کا ایک اسلامی عمل ہوا افسوس ہم خود گندے  رہتے  ہیں اور کم از کم ہندوستان میں گندگی مسلمانوں کی شناخت سمجھی جانے  لگی ہے، ہمیں اس برائی کو دور کرنے  کی کوشش کرنی چاہئے۔

سوال   : بہت بہت شکریہ سلمیٰ چچی جان آپ ہمارے  لئے  دعاء کیجئے۔

جواب  : ضرور، آپ بھی میرے  لئے  دعاء کریں آپ اللہ کی نیک بندی ہیں۔

اللہ حافظ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان فروری۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

محترمہ حلیمہ سعدیہ صاحبہ {نومسلمہ} سے  ایک ملاقات

اسماء ذات الفوزین

 

اسماء امت اللہ :  السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

حلیمہ سعدیہ    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : امی نے  کہا تھا کہ آپ آئیں گی تو میں آپ کے  حالات کے  سلسلہ میں آپ سے  کچھ معلومات کر لوں ؟

جواب  :  کس لئے  ان کو تو سب معلوم ہے۔

سوال  : اصل میں پھلت میں ہماری جمعیت شاہ ولی اللہ سے  ایک اردو ماہانہ میگزین نکلتا ہے، اس میں اسلام کے  سائے  میں آنے  والے  خوش قسمت بھائی اور بہنوں کے  حالات معلوم کر کے  شائع کرنے  کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے  تاکہ پرانے  مسلمانوں کو عبرت ہو۔

جواب  :  میرے  حالات سے  کیا عبرت ہو گی میں تو خود اپنے  حال شرمندہ ہوں مگر خیر کچھ معلوم کرنا ہو تو معلوم کر لو۔

سوال  : آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

جواب  : میں جنوبی دہلی کے  ایک ہندو سینی خاندان سے  تعلق رکھتی ہوں، میرے  والد ڈی، ڈی اے  میں چیف اکاؤنٹینٹ ہے، میرے  تین بھائی ہیں تینوں اعلی پوسٹوں پر الگ الگ منسٹریوں میں افسرہیں میں نے  انگریزی میں ایم اے  اور ماس کمیونیکیشن میں ڈپلوما کیا ہے  میں بھی ملک کی ایک اہم وزارت میں سکریٹری کی پوسٹ پر کام کرتی ہوں میں نے  اپنے  لئے  اپنا اسلامی نام حلیمہ سعدیہ تجویز کیا ہے  اگر چہ مجھے  اس نام سے  بہت کم لوگ یاد کرتے  ہیں، میری عمر ۳۳ سال سے  کچھ زیادہ ہے۔

سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں بتایئے  ؟

جواب  : حکومت ہند نے  اپنے  ملازمین کو غیر ملکی زبان سکھانے  کے  لیئے  ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا تھا جس میں دفتر کی طرف سے  مجھے  عربی زبان سیکھنے  کے  لئے  بھیجا گیا عربی سکھانے  والے  اکثر مسلمان اساتذہ تھے  انہوں نے  عربی کیساتھ اردو بھی سکھانی شروع کی، ہمارے  والد صاحب اچھی اردو جانتے  ہیں اور بہت اچھی اردو بولتے  ہیں اسلئے  مجھے  اردو سیکھنے  میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہمارے  اساتذہ میں ایک استاد ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب تھے  انہوں نے  تمام ہی اسٹوڈینٹس کو عربی پڑھانے  کے  ساتھ ساتھ اسلام کا تعارف بھی کرایا اور تھوڑی سی عربی کی شدھ بدھ ہو جانے  کے  بعد ہمیں قرآن حکیم سے  عربی پڑھوانے  لگے  ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب جو اس وقت دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے  انہوں نے  ہم سبھی عربی پڑھنے  والوں کو ہندی اور انگریزی میں اسلام پر لٹریچر فراہم کیا آپ کے  والد کی کتاب’’ آپ کی امانت‘‘ بھی لا کر دی، واقعی وہ درد کی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے، اس کتاب کے  پڑھنے  بعد میری قرآن شریف سے  دلچسپی بڑھ گئی اور بالآخر اللہ نے  مجھے  ہدایت دی اور میں نے  ڈاکٹر صاحب کو خوشخبری دی کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں، انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اس کے  بعد میں اسلام کی معلومات اور نماز وغیرہ سیکھنے  کہ لئے  مرکز نظام الدین جانے  لگی، جہاں پر جنوبی ہند وستان کے  ایک مولانا صاحب کے  گھر جا کر میں نماز وغیرہ یاد کرتی اور چند مسلمانوں سے  میرے  تعلقات ہو گئے  تھے  میں ان کے  گھر پر میرا آنا جانا ہو گیا۔

سوال   : آپ کے  گھر والوں کو آپ کے  قبول اسلام کا علم ہو گیا ہے ؟

جواب  : نہیں ابھی تک ان کو میرے  مسلمان ہونے  کا علم نہیں ہے۔

سوال  : تو آپ کے  لئے  بڑی مشکل رہتی ہوں گی ؟

جواب  : بلا شبہ مشکل تو ہے  مگر اس سے  زیادہ میرے  سامنے  اور مشکلیں ہیں۔

سوال   : آپ بہت مایوس سی محسوس ہو رہی ہیں آپ کے  سامنے  کیا مشکلات ہیں ؟

جواب  : میری بہن، میری زندگی کا سب سے  بڑا درد ناک پہلو یہ ہے  کہ میں نے  قرآن حکیم عربی سیکھنے  کے  لئے  ایک کتاب سمجھ کر پڑھا یہ تو قرآن کریم کا احسان ہے  کہ اس سے  مجھے  اللہ اور  مالک کی پہچان ہو گئی اور ظاہری طور پر مجھے  کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے  کی بھی توفیق ہو گئی مگر قرآن پاک کی باتوں پر جو یقین ہونا چاہئے  تھا اور مرنے  کے  بعد دوزخ کی آگ اور گناہوں کی سزا پر جو ڈر پیدا ہونا چاہئے  تھا وہ بالکل نہیں ہوا، میں کلمہ پڑھتی ہوں اور اس خیال سے  کلمہ طیبہ بہت پڑھتی ہوں کہ شاید پڑھتے  پڑھتے  اندر اتر جائے  مگر مجھے  صاف محسوس ہوتا ہے  کہ لا الہ الا اللہ میرے  گلے  سے  نیچے  نہیں اترتا جیسے  صرف زبان سے  ہی مسلمان ہوں دل سے  مسلمان نہ ہوں مجھے  دیوتاؤں اور بتوں کی پوجا تو بڑی حیرت کی بات لگتی ہے  مگر لا الہ الا اللہ کہہ کر جس طرح ہر چیز کی نفی کی کیفیت اندر اترنی چاہئے  اس کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی میں اپنے  اندر نہیں پاتی، نہ دوزخ کا خوف نہ مرنے  کے  بعد کے  حساب و کتاب کا ڈر جیسا اس کا حق ہیں، میں اپنے  اندر نہیں پاتی مثال کے  طور پر میں مسلمان ہوں تو نماز میرے  اللہ نے  مجھ پر فرض کی ہے  اور نماز نہ  پڑھنے  یا کم از کم قضا کرنے  پر مرنے  بعد کی سزا کی خبر پر مجھے  ظاہری طور پر یقین ہے، تو مجھے  ہر حال میں نماز کو اپنے  وقت پر پڑھنا چاہئے  مگر میرا حال یہ ہے  کہ میں دیکھتی رہتی ہوں کہ موقع ملے، ماں، باپ بہن، بھائی سے  چھپ کر نماز پڑھنے  کا موقع مل جائے  تو پڑھتی ہوں اگر موقع نہ ملے  تو کبھی کبھی قضاء بھی ہو جاتی ہے، گویا گھر والوں کا خو ف اللہ کے  خوف اور دوزخ کی آگ کے  سے  زیادہ ہے  یہ بھی کوئی ایمان ہے  میں نماز پڑھتی ہوں آدمی نماز پڑھتا ہے  سجدے  میں جاتا ہے  مجھے  سجدے  میں جانا بہت اچھا لگتا ہے  اور شاید میں اپنے  آپ کو سب سے  زیادہ سکون اور لذت سجدے  میں محسوس کرتی ہوں بلکہ میں سجدے  کی حالت میں اپنے  کو سب سے  زیادہ اچھی بھی لگتی ہوں میری خواہش ہوتی ہے  کہ جس طرح سجدے  کی حالت میں ہر انسان اس دنیا میں آیا ہے  اسی حالت میں میری موت آئے، مگر جس طرح انسان کو اپنی تمام تر کمزوریوں کے  اعتراف کے  ساتھ اپنے  پورے  وجود کو اپنے  عظمت والے  رب کے  حضور بچھا دینا چاہیئے  اس طرح کا سجدہ مجھے  آج تک ایک بھی نصیب نہیں ہوا، میں کبھی ساری ساری رات بے  چین رہتی ہوں کہ اس حال میں اگر موت آ گئی تو یہ تو منافق کی موت ہو گی یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِھِمْ مَالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ شاید یہ آیت میرے  بارے  میں نازل ہوئی ہے۔

سوال   : یہ تو آپ کے  ایمان کی دلیل ہے، آپ نے  شادی نہیں کی؟

جواب  : میرے  گھر یلو حالات ایسے  نہیں کہ میری شادی کسی مسلمان سے  ہو اسلئے  میں نے  گھر والوں سے  ابتداء ہی میں شادی کے  لئے  معذرت کر لی تھی، مگر اب مجھے  حقیقی ایمان حاصل کرنے  کے  لئے  اس طرف توجہ ہو گئی ہے  میں سوچتی ہوں کسی سچے  مسلمان سے  شادی کر لوں کہ اس کے  ساتھر ہ کر مجھے  حقیقی ایمان نصیب ہو جائے  مرکز نظام الدین کے  ایک مولانا صاحب سے  میں نے  کہا تھا انہوں نے  مجھے  ایک صاحب سے  ملوایا، انہوں نے  مجھ سے  کہا کہ میں آپ سے  شادی کرنے  کو تیار ہوں اور آپ پر کسی طرح کی ظاہری پابندی بھی نہ ہو گی اگر آپ گھر والوں کو دکھانے  کے  لئے  مندر جانا چاہیں گی تو جاسکتی ہیں، بلکہ آپ کہے  گی تو میں آپ کو مندر چھوڑ آیا کروں گا، مجھے  بہت مایوسی ہوئی کہ یہ شخص جب خود آدھا ہندو بننے  کو تیار ہے  تو مجھے  ایمان کہاں سے  آ جائے  گا، میں نے  معذرت کر دی، میں صرف ایسے  آدمی سے  شادی کرنے  کو سوچ سکتی ہوں جو مجھے  اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر زبردستی عمل کرائے۔

سوال   : آپ تو سرکاری ملازم ہیں ملازمت کا کیا ہو گا پھر تو آپ کو پردے  میں گھریلو زندگی گزارنی پڑے  گی؟

جواب  : میں نوکری چھوڑ دوں گی میں عورتوں کے  لئے  نوکری، روزگار کرنا بلکہ گھر سے  باہر رہنا بوجھ سمجھتی ہوں عورت بچے  بھی پالے  گھر کا کام بھی کرے  اور نوکری بھی کرے ؟اللہ نے  اس کا جسم کمزور بنایا ہے  اسکے  لئے  ملازمت بالکل غیر فطری ہے  میں پردے  کو عورت کی بنیادی ضرورت سمجھتی ہوں، میں دفتر میں ر ہ کر تو غیر مسلم عورتوں کے  لئے  بھی پردے  کو بڑی نعمت سمجھتی ہوں عورت اگر بے  پردہ رہے  گی تو اسکو مردوں کی ہوس بھری نگاہوں کو سہناپڑے  گا، یہ عورت کے  لئے  بڑی ذلت اور شرمندگی کی بات ہے  ایک گائے  گاڑی میں جڑنا پسند نہیں کرتی نہ جانے  عورتوں کو کیا ہو گیا ہے  جانوروں سے  گئی گزری ہو گئیں۔

سوال   : آپ قرآن شریف پڑھتی ہیں ؟

جواب  : یوں تو اللہ کا کرم ہے  جب سے  میں مسلمان ہوئی ہوں بلکہ میں نے  ظاہری طور پر کلمہ پڑھا ہے  اس روز سے  مجھ سے  قرآن شریف پڑھنے  کے  سلسلے  میں ناغہ نہیں ہوئی، اللہ کا شکر ہے  عم کا پارہ مکمل سورہ ملک، سورہ مزمل، سورہ رحمن، سورہ یسین اور سورہ الم سجدہ مجھے  حفظ یاد ہے، سوتے  وقت سورہ ملک اور الم سجدہ اور صبح سویرے  یٰسین شریف تو روزانہ پڑھتی ہوں آدھی سورہ کہف بھی مجھے  یاد ہو گئی ہے  انشاء اللہ، جلدی پوری یاد ہو جائیگی جمعہ کے  روز سورہ کہف اور صلوۃالتسبیح بھی پڑھی ہوں، کبھی کبھی میں جمعرات کے  روزے  بھی رکھتی ہوں مگر بغیر ایمان کے  اعمال کس کام کے  ؟میں قرآن حکیم میں اعرابیوں کا حال پڑھتی ہوں   قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاقُلْ لَمْ تُوْمِنُوْوَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَاوَلَمَّایَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاِنْ تُطِیْعُواللّٰہَ وَرَسُوْلَہ لاَ یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْٗاً (سورۃحجرات:۱۴)

ترجمہ: اعرابی لوگ کہتے  ہیں ہم ایمان لائے (اے  نبی) آپ کہہ دیجئے  تم ایمان نہیں لائے  ہو ا سلئے  کہو کہ ہم (ظاہری ایمان) اسلام لائے، اسلئے  کہ ایمان تمہارے  دلوں میں اب تک داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اسکے  رسول کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے  اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے  گا، سچی بات یہ ہے  کہ مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ یہ آیت صرف میرے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  ورنہ ایمان کے  ساتھ مکمل اطاعت ضروری ہے۔

سوال  : آپ کی حس بہت بڑھی ہوئی ہے  آپ پر بڑا رشک آ رہا ہے، حال تو ہمارا بھی اس سے  بہت گرا ہوا ہے  مگر ہمیں اس کا احساس تک نہیں ؟

جواب  : میری بہن آپ تو بچپن سے  مسلمان ہیں آپ ایک بڑے  صاحب ایمان کی بیٹی ہیں آپ میرے  حال کو کہاں سمجھ سکتی ہیں۔

سوال   : آپ ہمارے  لئے  دعا کیجئے  آپ کا تعلق اللہ کے  ساتھ بہت قوی ہے ؟

جواب  : کاش آپ کی بات سچی ہوتی تو میری زندگی ایک اچھی زندگی ہوتی۔

سوال   : آپ کی زندگی بہت اچھی اور قابلِ رشک زندگی ہے۔

جواب  : اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔

سوال   : بہت بہت شکریہ جزاکم اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ وعلیکم السلام و رحمۃاللہ

سوال   : آپ مسلمان بہنوں سے  کچھ کہنا چاہیں گی۔

جواب  : میرا خیال یہ ہے  کہ مسلمان بہنیں اسلام کی نعمت کی قدر نہیں پہچانتیں وہ بھی اس ننگی تہذیب کے  زہر میں اپنا ذائقہ کھو بیٹھی ہیں بعض مسلم محلوں میں جا کر پہچاننا مشکل ہوتا ہے  کہ یہ مسلمانوں کا محلہ ہے، بے  پردگی بلکہ بے  حیائی اور عریانیت حد درجہ فیشن ہوتی جا رہی ہے  اسلام سے  پہلے  کے  عورتوں کے  حالات اور تاریخ ضرور پڑھنی چاہئے  میں سمجھتی ہوں اس سے  اسلام کے  عورتوں پر احسانات کا احساس ہو گا اور دینِ فطرت کی کچھ قدر معلوم ہو گی۔

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان اپریل ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

محترمہ عائشہ باجی صاحبہ {نو مسلمہ} سے  ایک ملاقات

اسماء ذات الفوزین

اسماء ذات الفوزین  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عائشہ باجی               :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  عائشہ باجی کتنی حیرت کی بات ہے  کہ ارمغان میں کتنے  لوگوں کی کارگزاری چھپی ہے  مگر آج تک آپ سے  انٹرویو نہیں لیا، میں نے  کئی بار ابی سے  کہا کہ عائشہ باجی کا انٹرویو ضرور چھپنا چاہئے ؟

جواب  : مجھے  خود خیال ہوتا تھا میں نے  عمر کے  ابو سے  کئی بار کہا کہ حضرت جی سے  کہو اس خیر میں ہمارا بھی نام آ جائے، کیا خبر یہی ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے، حضرت نے  کئی بار فون پر کہا بھی مگر ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے  اس لئے  پچھلے  مہینہ حضرت نے  حکم دیا کہ یہیں گھر آ کر انٹرویو دینا ہے  اگلے  ماہ وہی چھپنا ہے  اللہ کا شکر ہے  کہ اس کا وقت آ گیا۔

سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

جواب  : میرا تعلق ہریانہ کے  پانی پت ضلع سے  ہے، آپ کے  علم میں ہے  کہ ہندوستان کی علمی، سیاسی، سماجی، ادبی اور روحانی ہر طرح کی تاریخ میں پانی پت کو ملک میں بنیادی حیثیت حاصل ہے، وہاں کا ایک گاؤں جو دریائے  جمنا کے  قریب ہتھوالا ہے  وہاں کے  شرما برہمن خاندان میں پیدا ہوئی، میرا گھر بہت مذہبی تھا میرے  چار بھائی ہیں اور تین بہنیں مجھ سے  بڑی ہیں اور میں سب سے  چھوٹی ہوں، ہماری بستی میں چند گھر مسلمانوں کے  رہتے  ہیں، بے  چارے  مزدور یعنی دنیاوی لحاظ سے  بھی کمزور ہیں اور دینی لحاظ سے  اور بھی کمزور، بہت سے  لوگوں کو تو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ اسلام کیا ہوتا ہے  بلکہ بعض ان میں ایسے  ہیں جو نام کے  بھی مسلمان نہیں، یعنی ہندوؤں جیسے  یا ملتے  جلتے  نام ان کے  اور ان کے  بچوں کے  ہیں، میں نے  اسکول میں داخلہ لیا تو میرے  ساتھ دو تین لڑکیاں مسلمانوں کی پڑھتی تھیں، ان میں سے  ایک کی والدہ یوپی کی تھی جس کی وجہ سے  ان کو کچھ دینی شدھ بدھ تھی، ورنہ اکثر لڑکیوں کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ کلمہ بھی کیا ہوتا ہے، پرائمری کے  بعد میرے  بڑے  بھائی مجھے  لدھیانہ لے  گئے  اور وہیں پر داخلہ کرا دیا اور وہیں پر میں نے  پہلے  ہائی اسکول کیا پھر الحمدللہ بارہویں کلاس پاس کی، اللہ کو مجھے  دوسرا امتحان دلوانا تھا بس لدھیانہ جانا ہی میری زندگی کا رخ بدلنے  کا ذریعہ بنا۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب  : جیسا کہ میں نے  بتایا کہ میرے  بڑے  بھائی راجندر شرما لدھیانہ میں رہتے  تھے  وہ مجھے  لدھیانہ لے  گئے  وہاں ایک مشن اسکول میں میرا داخلہ ہو گیا وہاں مجھے  ایک عیسائی لڑکی نے  بائبل دی، مذہب سے  بچپن سے  مجھے  لگاؤ تھا، اصل میں سچّے  نبیﷺ کا سچّا ارشاد ہے  کہ ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے  اس کے  ماں باپ اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے  ہیں، بعض لوگ ایسی فطرت کے  ہوتے  ہیں کہ ان پر ماحول کا اثر دوسروں کے  مقابلہ میں کم ہوتا ہے  شاید میری فطرت ایسی تھی، اپنے  خاندان کے  مذہب سے  میرا دل مطمئن نہ تھا مجھے  یہ ڈھونگ اور بے  تکا سا لگتا، جیسے  بس بے  جان کوئی ڈرامہ ہو، اس لئے  اندر سے  جیسے  مجھے  حق کی پیاس لگی تھی میں نے  بائبل پڑھی مگر اس میں تین میں ایک اور ایک میں تین کی بھول بھلیاں میری ذہن کی الجھن بنی رہی، میں نے  خواب دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور فرما رہے  ہیں کہ میرا مذہب تو اسلام ہے  یہ میرے  لائے  ہوئے  مذہب کی بگڑی ہوئی شکل ہے، میری آنکھ کھلی تو مجھے  اسلام پڑھنے  کا شوق پیدا ہوا، مگر لدھیانہ میں میرے  لئے  اسلامی لٹریچر ملنا بہت مشکل تھا، ایک بار میں اسکول سے  جا رہی تھی ایک مسجد میں چھوٹا سا تبلیغی جلسہ ہو رہا تھا باہر کچھ چائے  اور ٹوپی مسواک والوں نے  دوکانیں لگا رکھی تھیں وہیں کچھ ہندی اور اردو کی اسلامی کتابیں بھی تھیں میں نے  کچھ کتابیں خریدیں، ان میں ہمارے  نبی کی سیرت پاک بھی تھی، اب تو مجھے  یاد بھی نہیں رہا کہ کس کی لکھی ہوئی تھی میں نے  اسے  پڑھا تو مجھے  لگا کہ میری پیاس مجھے  مل گئی اور مجھے  اسلام کو مزید جاننے  کا شوق پیدا ہوا، اللہ نے  فضل فرمایا کہیں نہ کہیں سے  مجھ نہ کچھ پڑھنے  کو ملتا رہا اور میں نے  لدھیانہ میں ہی فیصلہ کر لیا کہ مجھے  مسلمان ہونا ہے، معلومات کی تو معلوم ہوا کہ یہ کام جامع مسجد دہلی کے  شاہی امام کراتے  ہیں، چھٹیوں میں میرا گھر آنا ہوا تو مجھے  شرک کے  ان کے  بکھیڑوں میں گھٹن محسوس ہوئی، دل میں بار بار گھر کو چھوڑنے  کا تقاضہ ہوا، میں نے  ایک مسلمان گھرانہ سے  تعلق پیدا کیا اور ان سے  یوپی سے  برقعہ منگوایا اور ایک دن سحری کے  وقت گھر سے  نکل پڑی، جنگل کے  راستہ پیدل جمنا تک پہنچی اور جمنا کو پار کرنے  کے  لئے  جمنا میں گھس گئی، میرے  گلے  تک پانی آرہا تھا کئی بار خیال آیا کہ شاید میں ڈوب جاؤں گی، مجھے  کسی نے  بتایا تھا کہ زیادہ سے  زیادہ کمر تک پانی آتا ہے  مگر اس روز رات میں بارش ہوئی تھی اس کی وجہ سے  پانی بڑھ گیا میں دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتی رہی  میرے  اللہ دیکھ رہے  ہیں، اگر میں ڈوب کر مری تو پھر یہ موت میری آپ کی محبت میں، آپ کی تلاش میں ہو گی، اسماء بہن نہ جانے  مجھے  کہاں سے  حوصلہ اور ہمت ملی تھی، اللہ کا شکر ہے  کہ جمنا پار کی، جمنا پارکر کے  میں نے  دہلی جانے  کا راستہ معلوم کیا تو لوگوں نے  بتایا کہ بڑوت جا کر دہلی جانا ہو گا، ایک مسلمان بھائی مجھے  ملا اس نے  کہا کہ وہاں پر مسلمان ہونے  کے  لئے  دو جاننے  والے  گواہ لے  جانے  ہوں گے  ورنہ یہ کام وہاں نہیں ہو سکے  گا، میں نے  کہا تو پھر میں کیا کروں، مجھے  ضرور مسلمان ہونا ہے، اس نے  کہا کہ اچھا یہ ہے  کہ تم دیوبند چلی جاؤ ، میں نے  کہا کہ میں اکیلی کس طرح دیوبند جاؤں اس کو مجھ پر ترس آیا کہا: بہن دیوبند تک میں ہی پہنچا دوں گا، مگر ہم دونوں ذرا دور دور بس میں بیٹھیں گے  اگر کوئی رشتہ دار مل جائے  تو یہ مت بتانا کہ میں اس کے  ساتھ جا رہی ہوں، میں نے  کہا ٹھیک ہے  وہ مجھے  پہلے  کیرانہ، وہاں سے  شاملی اور پھر نانوتہ سے  دیوبند لے  گیا، دو بجے  کے  بعد ہم دیوبند پہنچے، مدرسہ میں گئے  مگر وہاں سب نے  منع کر دیا، ایک مولانا ملے  انھوں نے  کہا ان کو صدر دروازہ کے  سامنے  مولانا اسلم عطر والوں کے  پاس لے  جاؤ ، وہاں یہ کام ہو جائے  گا، وہ مولانا اسلم کے  یہاں لے  گئے  انھوں نے  ہمیں کھانا کھلایا بہت تسلی دی اور حضرت (مولانا محمد کلیم صاحب) سے  پھلت بات کی حضرت نے  کہا کہ کلمہ تو فوراً پڑھوا دیجئے  اور ایک دو روز بعد پھلت بھیج دیجئے، مجھے  کلمہ پڑھوایا اور میرا نام عائشہ رکھ دیا، دو یا تین روز کے  بعد مجھے  پھلت بھیج دیا، پھلت میں کچھ روز وہاں رہی، وہاں پر نماز وغیرہ سیکھنا شروع کی پھر پڑھائی اور دین سیکھنے  کے  لئے  مجھے  اللہ تعالیٰ نے  مالیر کوٹلہ شاکرہ باجی کے  یہاں بھیج دیا، وہاں میں نے  قرآن مجید اور دینیات پڑھی، شاکرہ باجی بڑی نیک خاتون ہیں، انھوں نے  مجھے  بہت محبت سے  رکھا، قرآن مجید وغیرہ مکمل کر کے  میں واپس پھلت اور دیوبند آئی اور حضرت جی نے  میری شادی دہلی کے  ایک نوجوان حبیب الرحمن سے  کر دی۔

سوال  : آپ کو اس نئے  ماحول میں عجیب سا نہیں لگا؟ والدین کے  بغیر شادی آپ کو کیسی لگی؟

جواب  : حضرت نے  اور پھر مولانا اسلم صاحب اور دونوں کے  گھر والوں نے  میرے  ساتھ بہت محبت کا معاملہ کیا اور جس بڑی چیز ایمان کے  لئے  میں گھر سے  نکلی تھی اس کے  مل جانے  اور اس نے  نتیجہ میں آخرت کی کامیابی نے  مجھے  کوئی احساس نہیں ہونے  دیا، کبھی خیال جاتا بھی تھا تو میں اپنے  دل کو سمجھا لیتی تھی۔

سوال  :  آپ کے  سسرال والوں نے  شادی کس طرح کی؟

جواب  : میرے  شوہر الحمدللہ حضرت سے  بیعت ہیں، ان کی والدہ ایک نیک خاتون ہیں، بالکل سنت کے  مطابق سادگی سے  میری شادی کی اور الحمدللہ مجھے  اس طرح کوئی غربت اور اجنبیت نہیں محسوس ہونے  دی۔

سوال  :  آپ کے  شوہر کیا کرتے  ہیں ؟

جواب  : وہ ایکسپورٹ کا کام کرتے  ہیں مگر ان پر بہت حالات آئے  ہیں، اس طرح تو شاید جس طرح ہمارے  ساتھ حالات آئے  ہیں، بہت کم لوگوں کے  ساتھ آتے  ہوں گے  مگر میرے  اللہ ہمیں ہمت دے دیتے  ہیں اور میرے  شوہر کا دعوتی شوق اور روز روز کی خبریں ان حالات میں ہمارے  لئے  حوصلہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔

سوال  :  آپ کے  گھر والوں نے  آپ کو تلاش نہیں کیا؟

جواب  : شروع میں بہت تلاش کیا، تھانے  میں رپورٹ بھی لکھوائی، گاؤں کے  بعض لوگوں کو پریشان بھی کیا، میں چلتے  وقت ایک خط لکھ کر آئی تھی کہ میں نہ کسی لڑکے  کی وجہ سے  جا رہی ہوں نہ کوئی مجھے  ساتھ لے  جا رہا ہے  نہ میں خود کشی کرنے  جا رہی ہوں، مجھے  حق کی تلاش تھی وہ مجھے  مل گیا، اس کو پانے  اور اپنے  خدا کی ہونے  جا رہی ہوں، میری تلاش کرنا فضول ہے، اگر میرے  اللہ نے  چاہا تو میں خود رابطہ کروں گی لیکن اس کے  باوجود بھی انھوں نے  بہت تلاش کیا میرے  والد کا انتقال تو میرے  سامنے  ہی ہو گیا تھا، میں کسی طرح گھر کی خیر خیریت لیتی رہتی تھی مجھے  معلوم ہوا کہ میری ماں بہت بیمار ہے  اور بستر مرگ پر ہیں مجھے  بہت یاد آئی اور فکر ہوئی کہ وہ شرک پر نہ مر جائے، میں نے  اپنے  شوہر سے  کہا کہ کتنے  لوگوں کو آپ نے  کلمہ پڑھوایا میری ماں کلمہ کے  بغیر مر جائیں گی تو ایسے  داعی سے  شادی کرنے  سے  مجھے  کیا خاک فائدہ ہو گا، وہ جذبہ میں آ گئے  اور بولے  آج ہی چلتے  ہیں، ہماری امی (ساس اماں ) بولی میں تم لوگوں کو اکیلے  جانے  نہیں دوں گی میں بھی ساتھ چلوں گی، ہم لوگ گھر سے  چلے  بچے  بھی ساتھ تھے، میں نے  اپنی ساس اماں اور شوہر سے  کہا کہ آپ یہاں ایک مسلمان کے  گھر  ٹھہریں، میں بچوں کے  ساتھ جاتی ہوں، اگر تین بجے  تک ہم واپس آ گئے  تو آپ سمجھنا کہ ہم زندہ ہیں، ورنہ آپ چلے  جانا یہ سوچ کر کہ ہم چاروں کو مار دیا گیا، میری ساس اماں مصلیٰ پر بیٹھ گئیں، میں برقعہ میں جب گھر پہنچی تو لوگ حیران رہ گئے، میری ماں مجھ سے  چمٹ چمٹ کر خوب روئی، مجھے  انھوں نے  نہیں چھوڑا چار بج گئے، میری ساس اماں بہت گھبرا گئی اور میں نے  اپنے  شوہر اور سسرال کی بہت تعریف کی تو انھوں نے  ملنے  کی خواہش ظاہر کی، میں نے  کہا اب تو مجھے  جلدی جانا ہے  دو تین روز کے  بعد ہم آئیں گے، میں اپنے  شوہر کو لے  کر گئی میں نے  اور انھوں نے  والدہ کو سمجھایا، الحمدللہ انھوں نے  سب گھر والوں کو بھیج کر اکیلے  میں بات کی اور کلمہ پڑھا اور کہا کہ میں سچے  دل سے  کلمہ پڑھ رہی ہوں اور مجھے  اپنے  زیور میں سے  کئی تولہ سونا دیا، میرے  شوہر اور مجھے  اور بچوں کو کپڑے  دیئے۔

سوال  :  اس کے  بعد بھی آپ لوگ وہاں گئے ؟

جواب  : ان کی زندگی میں دو بار اور گئے  مگر میرے  دو بھائی بلکہ ان کی بیویاں ہمارے  جانے  سے  بہت ناراض تھیں، خصوصاً ماں کے  ہر دفعہ کچھ دینے  سے، اس لئے  ہمارے  لئے  مشکل ہونے  لگی، پھر ایک مہینہ کے  بعد میری والدہ کا انتقال ہو گیا، الحمدللہ ان کا کلمہ پڑھنے  کے  بعد انتقال ہوا۔

سوال  :  باقی گھر والوں کا کیا رویہ ہے ؟

جواب  : میری دو بہنیں اور دو بھائی تو محبت اور تعلق رکھتے  ہیں، ہم ان کے  لئے  دعا کر رہے  ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو ہدایت عطا فرمائیں، اصل میں گھر والے  تو اتنے  مخالف نہیں ہیں جن کو معلوم ہوا وہ لوگ ان پر دباؤ بناتے  ہیں جس کی وجہ سے  وہ ڈرتے  ہیں، بھائی صاحب نے  کہا کہ جب تم کو ملنا ہو تو ہمیں بلا لیا کرو تمہارے  یہاں آنے  سے  ہمیں مشکل ہوتی ہے۔

سوال  :  آپ کے  شوہر مجیب بھائی تو بڑے  داعی ہیں، ابی ان کا بہت ذکر کرتے  ہیں کیا وہ آپ کو بھی دعوت میں شریک کرتے  ہیں ؟

جواب  : الحمدللہ، اللہ نے  ان کو تو بہت نوازا ہے، نہ جانے  کتنے  لوگ بڑے  اہم اہم ان کی دعوت پر مشرف باسلام ہو چکے  ہیں، وہ کہتے  ہیں : ہمارے  حضرت کہتے  ہیں کہ داعی کو حساب رکھنا چاہئے  کہ کم از کم ایک دن میں ایک آدمی کو اس کی دعوت پر مسلمان ہونا ہی چاہئے، اسماء بہن کبھی تو مہینوں تک ان کا حساب پورا ہوتا رہتا ہے، آج کل تو ایک یومیہ سے  زیادہ ان کے  ہاتھوں مسلمان ہو رہے  ہیں، کبھی کبھی کام رک سا جاتا ہے  تو بہت پریشان ہوتے  رہتے  ہیں، کبھی کبھی بس روتے  رہتے  ہیں کہ میرے  کسی گناہ کی وجہ اللہ نے  راستہ بند کر دیا، حضرت سے  ملنے  جاتے  ہیں، کبھی کبھی فون بھی نہیں مل پاتا، پچھلے  دنوں دو مہینے  تک حضرت سے  نہ ملاقات ہوئی نہ فون ملا، دعوت کا کام بھی سست ہو گیا بس گھر ماتم کدہ تھا جب دیکھو رو رہے  ہیں، میں بہت سمجھاتی، ہو سکتا ہے  حضرت سفر پر ہوں، کہتے  نہیں حضرت ناراض ہیں، اللہ کا شکر ہے  فون مل گیا حضرت نے  فرمایا کہ تم میرے  کماؤ پوت ہو تم سے  کیوں ناراض ہونے  لگا، بس فون پر بات کر کے  آئے  جیسے  عید ہو گئی ہو اور پھر کام پر لگ گئے  بس تو کوئی صبح کو کلمہ پڑھ رہا ہے  کوئی شام کو، مجھے  بھی خیال ہوا کہ ان کی بات ہی سچی ہے، حضرت سے  ملے  حضرت نے  فرمایا کہ اللہ کی طرف سے  داعی کی حفاظت کے  لئے  یہ نظم ہوتا ہے  کہ کبھی داعی یہ نہ سمجھنے  لگے  کہ ہماری وجہ سے  کام ہو رہا ہے، جب اللہ چاہے  اور جس کو چاہے  ہدایت ہوتی ہے  یہ یقین ضروری ہے  اور داعی کا رونا بھی اللہ کو بہت پیارا لگتا ہے  اس لئے  کبھی اللہ راستے  کھولتے  ہیں اور کبھی روکتے  ہیں۔

سوال  :  آپ کے  بچے  کیا پڑھ رہے  ہیں ؟

جواب  : میرے  دو بیٹے  اور دو بیٹیاں ہیں، الحمدللہ چاروں پڑھ رہے  ہیں ان شاء اللہ چاروں کو حافظ و عالم بنانے  کی نیت ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے  ارمان پورے  فرمائے  اور ان چاروں کو داعی بنائے۔

سوال  :  ابی بتا رہے  تھے  کہ آپ پر بہت حالات آتے  رہتے  ہیں، آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

جواب  : کاروباری اور ہمارے  گھر میں بیماری وغیرہ کے  مسائل آتے  ہیں تو اکثر صحابہؓ  کی قربانیاں یاد آ جاتی ہیں کہ ہم نے  تو ایمان کے  لئے  کچھ بھی قربانی نہیں دی اور ذرا ہمت کم سی ہوتی ہے  تو کوئی اچھا خواب آ جاتا ہے، اللہ کے  رسول  ﷺ کی خواب میں زیارت الحمدللہ بہت ہوتی ہے  اور مہینوں اس کا مزہ اور خوشی رہتی ہے، پچھلے  ہفتے  مجھے  الحمدللہ بڑی اچھی حالت میں زیارت ہوئی، عمر کے  ابو کہتے  ہیں بہت وقت تک تمہارا چہرہ بھی کھلا رہتا ہے۔

سوال  :  قارئین ارمغان کے  لئے  کوئی پیغام بھی دینا چاہیں گی؟

جواب  : سچائی اور حق کے  لئے  آدمی کو قربانی دینی پڑتی ہے، آدمی عزم کرے  اور سچائی اور حق جو انسان کا حق ہے  اس کے  لئے  پُر عزم ہو جائے  تو اس کو پانا انسان کے  لئے  مشکل نہیں، میں ایسے  حالات میں گھر سے  نکلی تھی بس حق پر اللہ نے  اعتماد کی طاقت سے  میری مدد فرمائی اور مجھے  ہمت دی اور الحمدللہ میں اپنی مراد کو پہنچی، اللہ تعالیٰ بس موت تک اس پر استقامت نصیب فرمائے  کہ اصل مسئلہ تو ابھی باقی ہے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ عائشہ باجی!  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اگست  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

        ایک نومسلم داعیہ ڈاکٹر اسماء علی( کلپنا) سے  ایک ملاقات

اسماء امت اللہ

 

اسماء امت اللہ        :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ڈاکٹر اسماء علی:  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ اسماء بہن آپ کیسی ہیں ؟ کب سے  آپ کا ذکر سنتی آئی ہوں، آج اللہ نے  آپ سے  ملوا دیا۔

سوال  : میرا ذکر آپ نے  کہاں سنا ؟

جواب :ڈاکٹر آصف، حضرت کے  ایک بہت چاہنے  والے  مرید ہیں، وہ آپ کا ذکر کرتے  ہیں کہ آپ حضرت کی صاحب زادی اسماء سے  ملئے، آپ کو بہت دعوتی فائدہ ہو گا، ہمارے  حضرت فرماتے  ہیں کہ اسماء نے  مجھے  دعوت سکھائی ہے۔

سوال  :استغفر اللہ، مجھ سے  مل کر کیا کسی کو فائدہ ہو سکتا ہے  میں کسی کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہوں آپ دہلی کب تشریف لائی ہیں ؟

جواب  :ہم لوگ دہلی میں ایک ہفتہ سے  ہیں، اصل میں سی سی آئی ایم کی طرف سے  ایک میڈیکل ورک شاپ تھا اس میں میرے  شوہر ڈاکٹر یوسف علی اور میں دونوں شریک ہونے  آئے  تھے، حضرت کو ڈاکٹر صاحب فون کرتے  رہے  مگر حضرت کا مسلسل سفر رہا کل راجستھان کے  سفر سے  واپسی ہوئی تو آج ہم لوگوں کی حاضری ہوئی ہے  میرے  شوہر کے  ساتھ انکے  دو غیر مسلم ساتھی بھی باہر ہیں۔

سوال  :آپ سے  ابی نے  بتا ہی دیا ہو گا کہ ارمغان کے  لئے  مجھے  آپ سے  کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  :جی حضرت فرما رہے  تھے  کہ میں ان لوگوں سے  باہر بات کروں اتنی دیر میں آپ اسماء کو انٹرویو دے  دیں، نو مبر میں چھپ جائے  گا۔

سوال  : جی تو اپنا خاندانی تعارف کرا دیجئے  ؟

جواب  :میرا نام تو اسماء علی ہے۔

سوال  : مجھے  بڑی خوشی ہوئی کہ پہلی بار میں اپنی ہم نام بہن کا انٹرویو ارمغان کے  لئے  لے  رہی ہوں ؟

جواب  :مجھے  بھی خوشی ہے  کہ ڈاکٹر آصف نے  میرا نام آپ کے  نام پر اور آپ کی وجہ سے  رکھا۔

سوال  :جی تو آپ اپنا خاندانی تعارف کرا رہی تھیں ؟

جواب  :میں گنگا نگر راجستھان کے  ایک زمین دار خاندان میں ۶/جنوری ۱۹۷۷ء میں پیدا ہوئی میرے  دادا راجستھان میں بی جی پے  کے  بڑے  لیڈر ہیں، کئی بار راجستھان گورنمنٹ میں وزیر بھی رہے  ہیں اکثر ایم ایل اے  اور ایک بار ایم پی رہے  ہیں، گذشتہ الیکشن میں وہ پہلی بار الیکشن ہارے  ہیں، میرے  والد صاحب بھی دادا کیساتھ شروع سے  رہے  انھوں نے  ایم بی بی ایس کیا تھا کچھ روز پریکٹس کی بعد میں سیاست سے  جڑ گئے  ایک بار وہ بھی ایم ایل اے  ہوئے  میرا نام کلپنا انھوں نے  رکھا تھا میرا ایک بڑا اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔

بایوسبجیکٹ سے  بارہویں کلاس کی ایم بی بی ایس کے  داخلہ کے  کئی امتحانوں میں پاس نہ ہو سکی تو ہمارے  والد نے  آرمینیا میں ایم بی بی ایس میں داخلہ کرا دیا، وہیں سے  میں نے  ایم بی بی ایس کیا اور وہیں ڈاکٹر یوسف علی سے  میری شادی طے  ہوئی کوٹہ میں چھٹیوں کے  دوران چوتھے  سال میں میری شادی ہوئی اور اسی سال میں نے  اسلام قبول کیا آج کل ہم لوگ ہما چل میں ایک ہاسپٹل میں کام کر رہے  ہیں۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں ذرا بتایئے ؟

جواب :آرمینیا میں میں زیر تعلیم تھی، میرے  کلاس فیلو ڈاکٹر یوسف علی سے  میرے  تعلقات ہو گئے  اگر چہ وہ دین دار گھرانہ سے  تعلق رکھتے  تھے، میرا گھرانہ بھی ہندوانہ روایات کا بہت کٹر حامی بلکہ داعی رہا ہے  مگر عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے  کہ کیسی ہی مشرقی اور مذہبی روایات میں پلے  بڑھے  لڑ کے  لڑکیاں ہوں، باہر ملکوں میں جا کر اپنی خاندانی روایات کو بالکل بھول جاتے  ہیں بلکہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے  کہ مشرقی روایات کے  لوگ نہ جانے  کیوں وہاں جا کر یوروپین لوگوں سے  بھی زیادہ آزادی اور مغربی طریقوں میں بہ جاتے  ہیں، ایسا ہی ہم دونوں کے  ساتھ ہوا، بہت ہی جلد ہم دونوں نے  طے  کر لیا کہ ہم دونوں کو شادی کرنی ہے، یہ خیال کئے  بغیر کہ ہم دونوں دو بالکل مخالف مذہبوں اور مخالف سوچ رکھنے  والے  خاندان کے  ہیں۔

سوال  :ابی کہتے  کہ یہ خیال غلط ہے  کہ ہندو اور اسلام دو مخالف مذہب ہیں، بلکہ یہ  فرماتے  ہیں کہ اصل میں ہندو مذہب جس کو مذہبی اصطلاح میں سناتن دھرم کہا جاتا ہے  دین قیم اسلام کی پرانی بلکہ پہلی شکل ہے  اور اسلام اس کی آخری اور کامل و مکمل شکل ہے، وید اگر اللہ کے  قانون کی پہلی شکل ہے  تو قرآن اس کی فائنل اور آخری شکل ہے، بس یہ ہے  کہ سناتن دھرم مذہبی لوگوں کی کارفرمائی سے  تحریف کا شکار ہو گیا ہے، مذہب اور دین تو دنیا میں ہمیشہ سے  ایک ہی ہے  اور ایک ہی رہے  گا، ایک اللہ کا قانون پوری دنیا میں ایک ہی ہو سکتا ہے  دو نہیں۔

جواب  :بات تو یہ بالکل سچی ہے  مگر دنیا میں اور جو موجود ہ حالات ہیں اس میں تو ہندو مسلم دو بالکل متصادم مذہب سمجھے  جاتے  ہیں۔

سوال  : یہ تو واقعی بات ہے، بتایئے  آگے  کیا ہوا؟

جواب  :ڈاکٹر یوسف علی نے  مجھ سے  کہا کہ مذہب تو اپنا ذاتی معاملہ ہے  شادی سے  اس کا کیا تعلق ہے  یہ تو پرانے  زمانے  کی باتیں تھیں، اب دنیا بہت آگے  نکل گئی ہے  ہم لوگ ڈاکٹر بننے  جا رہے  ہیں تم اپنے  مذہب کو فالو کرنا (مانتے  رہنا )اور میں اپنے  مذہب کو مانتا رہوں گا، ہم لوگ ہندوستان جا کر کورٹ میریج کر لیں گے، میں بھی تیار ہو گئی، ڈاکٹر یوسف علی کے  ایک خالہ زاد بھائی ڈاکٹر عابد آرمینیا میں رہتے  تھے  ان سے  ڈاکٹر یوسف علی نے  بتا دیا وہ بہت دین دار اور نماز ی نوجوان تھے  انھوں نے  ڈاکٹر یوسف علی کو بہت سمجھایا کہ تم دین دار گھرانے  کے  آدمی ہو، تمھارے  تائے  اتنے  بڑے  عالم ہیں کسی کافر مشرک سے  کسی مسلمان کی شادی ہرگز نہیں ہو سکتی قرآن میں صاف صاف منع کیا گیا ہے  ساری عمر حرام کا ری ہو گی، اولاد بھی حرام کی ہو گی، مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا دو تین مہینہ تک وہ کوشش کرتے  رہے، مجبور ہو کر ڈاکٹر یوسف علی کے  گھر اطلاع کر دی، ہندوستان سے  گھر والوں کے  فون آتے  رہے  ڈاکٹر صاحب کے  تایا مولانا حامد علی کے  کئی فون آئے، ایک بار ایک گھنٹہ تک بات کی مگر ڈاکٹر یوسف کی سمجھ میں نہیں آیا وہ مسلمان کرنے  اور پھر نکاح کو دردسری سمجھتے  تھے  ان کو یہ بھی خیال تھا کہ میں بی جے  پی کے  نیشنل لیڈر کی بیٹی ہوں، میں کسی طرح مسلمان ہونے  کو تیار نہیں ہو سکتی، مسلمان ہونے  کو کہنے  میں میں ان سے  ناراض ہو کر ارادہ ترک نہ کر دوں اصل میں وہ مجھے  بے  حد چاہتے  تھے  مجھے  بھی دل چسپی تھی مگر لوگوں کے  مزاج ہوتے  ہیں کچھ لوگ بہت جذباتی ہوتے  ہیں میرے  مزاج میں اللہ نے  ہمیشہ ٹھہراؤ دیا ہے  وہ میرے  رویہ سے  یہ سمجھتے  تھے  کہ مجھے  کچھ زیادہ ان کی طرف جھکاؤ نہیں ہے  پھر یہ بھی خیال تھا کہ ایسے  سرکردہ ہندو رہنما کی بیٹی کو مسلمان کر نے  سے  ایک زبردست لابی ان کی اور ان کے  خاندان کی مخالف ہو جائے  گی اور نہ جانے  بات فسادات وغیرہ کہاں تک پہنچے، ڈاکٹر عابد کوشش کر کے  تھک گئے  مگر ڈاکٹر یوسف علی مسلمان کر کے  نکاح کے  لئے  آمادہ نہیں ہوئے  مگر میرے  کریم رحمن و رحیم خدا کو تو مجھ کمترین و ذلیل بندی پر رحمت فرمانی تھی (روتے  ہوئے  )اسماء بہن میرے  پیارے  محسن رسول اللہ ﷺ کروڑوں اور اربوں درود و سلام ہوں آپ پر (روتے  ہوئے  )آپ کی آل پر، آپ کے  اصحاب پر، آپ کے  شہر مقدس کے  تنکوں پر، آپ نے  کیسی سچی بات فرمائی کچھ لوگ ایسے  ہیں جن کی گردن پکڑ کر اللہ تعالیٰ جنت میں زبردستی داخل فرمائیں گے۔میرا حال بھی اسماء بہن کچھ اسی طرح ہے  کہ زبردستی میرے  اللہ نے  مجھے  ایمان والوں میں شامل کر دیا، اگر چہ اس کا مجھے  احساس ہے  کہ ابھی میں نام کی مسلمان ہوں میرے  کریم اللہ جس نے  مجھے  نام کے  لئے  کلپنا سے  اسماء علی بنا دیا اس کی رحمت سے  ہی کیوں امید نہ کروں کہ وہ ضرور ضرور مجھے  میری ساری ناکارگی کے  باوجود مومن حقیقی بنا دیں گے، میرے  اللہ میرے  کریم اللہ ماں سے  ستر گنا ممتا رکھنے  والے  میرے  رحمن و رحیم اور ہادی رب ضرور ضرور مجھے  کامل مومنہ نہیں تو کسی درجہ میں ایمان کی حقیقت سے  نواز کر اپنے  گھر بلائیں گے  بلکہ اللہ کے  خزانہ میں کیا کمی ہے  ضرور انشاء اللہ ضرور (روتے  ہوئے  )کامل مومنہ بنا کر بلائیں گے  میرے  اللہ ضرور کامل مومنہ بنا کر بلائیں گے  (بہت رونے  لگتی ہیں )

سوال  :آپ تو یہ فرما رہی تھیں، آپ جذباتی نہیں ہیں ؟

جواب  :اسماء بہن، اپنے  اللہ اور اللہ کے  پیارے  رسول  ﷺ سے  انسان کا اگر والہانہ اور عاشقانہ اور جذباتی تعلق نہ ہو تو پھر انسان کا دل پتھر کی مورتی ہے، اس دل کو دل کیا کہیں گے، اس سے  تو پتھر اچھا ہے  جو اپنے   رحمن و رحیم اور کریم اللہ سے  اور اس کے  لاڈلے  رسول  ﷺ اربوں درود و سلام ہو آپ پر، سے  بھی عقیدت اور جذباتی تعلق نہ رکھے۔سچی بات تو یہ ہے  کہ بہن اسماء آپ اس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتیں آپ مسلمان گھر میں پیدا ہوئی ہیں پلی ہیں۔بی جے  پی کے  سرکردہ لیڈر کے  یہاں پیدا ہوئی لڑکی کے  لئے  اس طرح اسلام لانا کیسا عجوبہ ہے  یہ احساس رونگٹے  کھڑے  کر دینے  والا ہے  اور پھر بغیر طلب اپنی تلاش اور اپنی حاجت کے  بغیر میری بہن خواب میں بھی مجھے  حق کی تلاش کا تصور نہیں تھا نہ اس کا احساس تھا کہ حق کو تلاش کر کے  اس کو ماننا میرے  پہلی ذمہ داری ہے، ایسا رواج اور ماحول نہیں تھا، آرمینیا میں میرے  ساتھ خاصے  مسلم لڑکے  لڑکیاں ہندوستانی پاکستانی اور عرب کے  بھی پڑھتے  تھے، مگر ان میں کسی کو بھی دعوت کا احساس نہیں تھا، میرے  جاننے  والوں میں صرف ڈاکٹر عابد تھے  جو بس یہ چاہتے  تھے  کہ ڈاکٹر یوسف ہندو یا ہندو جیسے  نہ بنیں، اس حال میں میرے  اللہ کا زبردست کفر و شرک کی آگ میں جلتی ہوئی بندی کو اسلام کے  سایہ رحمت میں ڈھکیل دینا کیسا بڑا کرم ہے  ا س کا اندازہ آپ کو نہیں ہو سکتا۔

سوال  :بلا شبہ بات آپ کی بالکل سچی ہے، یہ احساس خود اللہ کا بہت بڑا کرم ہے  جو آپ پر ہے، تو آپ اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتا رہی تھیں۔

جواب  :ہوا یہ کہ ڈاکٹر عابد جب ڈاکٹر یوسف کو سمجھا کر تھک گئے  اور وہ مجھے  مسلمان ہونے  کے  لئے  کہنے  کو آمادہ نہ ہوئے  تو ڈاکٹر عابد میرے  قریب ہوئے  اور ایک روز مجھ سے  وقت لے  کر بات کی اور کہا بتایئے  کیا آپ ڈاکٹر یوسف علی سے  شادی کرنے  والی ہیں ایک ضروری بات آپ سے  کرنا چاہتا ہوں، انسان ایک سماجی حیوان ہے، اسے  پل پل خاندان عزیز و اقارب کی ضرورت ہوتی ہے، آپ تو بی جے  پی کے  سرکردہ رہنما کی بیٹی ہیں اگر آپ نے  ایک مسلمان سے  کورٹ میریج کی تو آپ کے  خاندان والے  تو آپ سے  بالکل کٹ جائیں گے، ڈاکٹر یوسف علی صاحب کے  گھر والے  بھی آپ کو قبول نہیں کریں گے، اگر آپ مسلمان ہو کر اسلامی طریقہ پر نکاح کر لیں تو میں کوشش کروں گا ڈاکٹر یوسف علی کے  گھر والے  آپ کو بہو بنا کر قبول کر لیں اور مجھے  امید ہے  کہ میں ان کو راضی کر لوں گا، ایک خاندان سے  آپ کٹیں گی تو ایک خاندان تو آپ کا ہو گا۔

یہ بات ایسی مناسب تھی کہ میرے  دل کو لگ گئی، میں نے  ڈاکٹر یوسف علی سے  کہا میں مسلمان ہو کر اسلامی طریقہ پر آپ سے  نکاح کروں گی، ڈاکٹر یوسف علی مجھے  منع کرتے  رہے  مگر میرے  ذہن میں ڈاکٹر عابد کی بات ایسی بیٹھ گئی تھی کہ میں اس پر اَڑ گئی اور میں نے  ڈاکٹر یوسف علی سے  صاف صاف کہہ دیا کہ میں صرف اس شرط پر آپ سے  شادی کے  لئے  تیار ہوں کہ آپ مجھے  مسلمان بنائیں اور پھر اسلامی انداز میں آپ کے  والدین مجھ سے  آپ کا نکاح کریں، یہ کام ان کے  لئے  بہت مشکل لگا مگر ڈاکٹر عابد نے  اس میں بہت اچھا رول ادا کیا، انھوں نے  ڈاکٹر یوسف کے  گھر والوں کو سمجھایا کہ اگر آپ ڈاکٹر یوسف صاحب کا نکاح کلپنا سے  نہیں کریں گے  تو یہ لوگ کورٹ میریج کر لیں گے، بلکہ وہ کورٹ میریج کر رہے  تھے، میں نے  بہت کوشش کر کے  خاندان کی عزت بچانے  کے  لئے  خصوصاً مولانا حامد علی صاحب کے  نام کی لاج بچانے  کے  لئے  مہینوں میں ان کو تیار کیا ہے  بہر حال گھر والے  تیار ہو گئے۔

چوتھے  سال کی چھٹیاں تھیں، میں نے  اس بار گھر والوں سے  چھٹیوں میں گھر نہ آ سکنے  کا بہانہ بنا لیا اور کوٹہ ہم لوگ پہنچے  ڈاکٹر یوسف علی کے  دوست ڈاکٹر آصف ہیں جو اسی سال مولانا آزاد میڈیکل کالج دہلی سے  ایم بی بی ایس سے  فارغ ہوئے  تھے  وہ حضرت مولانا کلیم صاحب سے  تعلق رکھتے  تھے  حضرت کے  بالکل عاشق زار ہیں، وہ ملنے  آ گئے، ڈاکٹر یوسف نے  ان کو ساری بات بتائی انھوں نے  مجھ سے  کلمہ پڑھنے  کو کہا کہ شادی جب ہو گی ہو جائے  گی، آپ کلمہ فوراً پڑھ لیں موت کا وقت نہ جانے  کب آ جائے، میں نے  کہا جب شادی ہو گی تب کلمہ پڑھیں گے  ہم لوگوں نے  بہت زور دیا کہ ایک سال اور ایم بی بی ایس کرنے  کے  بعد ہم لوگ شادی کریں گے، مگر وہ ضد کرتے  رہے، انھوں نے  کہا کہ کلمہ بھی ابھی پڑھیں اور نکاح بھی فوراً کر لیں، اس لئے  کہ قانون اصل اللہ کاہے  اس قانون کے  مطابق آپ دونوں کو ملنے  دیکھنے  اور اس طرح بولنے  کا حق نہیں ہے  جب تک آپ کا نکاح نہیں ہو گا، آپ زنا کے  گناہ گار ہوتے  رہیں گے، ڈاکٹر آصف ماشاء اللہ بہت دیندار ڈاکٹر ہیں دیکھنے  سے  مولانا سے  لگتے  ہیں میرے  شوہر ان سے  بہت تعلق رکھتے  ہیں، ان کے  زور دینے  پر یوسف اور ان کے  گھر والے  راضی ہو گئے  میں نے  کلمہ پڑھا اور ڈاکٹر آصف نے  میرا نکاح پہلے  بس چند گھر والوں کے  سامنے  مہر فاطمی پر پڑھایا، میرا نام اسماء علی رکھا اور بتایا کہ ہمارے  حضرت کی صاحب زادی کا نام اسماء ہے  جو حضرت کے  بقول ان کی دعوت کی استاذ ہیں، ان کے  نام پر میں نے  آپ کا نام رکھا ہے  انشاء اللہ، اللہ آپ سے  بہت کام لیں گے۔بعد میں مولانا حامد علی کو معلوم ہو انھوں نے  میرا نکاح دوبارہ پڑھایا اور عدالت سے  رجسٹریشن اور قانونی کاروائی پوری ہوئی۔

نکاح کے  ایک ہفتہ بعد ڈاکٹر آصف کی فرمائش اور ضد پر ان کے  گھر دہلی آئے، ڈاکٹر آصف کی بہن ایک گرلس اسکول میں پڑھاتی ہیں، ارمغان ان کے  یہاں پابندی سے  آتا ہے، انھوں نے  مجھے  سب سے  پہلے  حضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘پڑھنے  کو دی اور مجھے  زور دیا کہ اس کتاب کو آپ کم از کم تین بار پڑھیں، تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اللہ نے  آپ کے  ساتھ کیسا کرم کا معاملہ کیا ہے، ڈاکٹر آصف صاحب کی بہن صفیہ باجی بہت ہی قابل اور بڑی محبت بھری شخصیت ہیں، میں پہلی ملاقات میں ان سے  بہت متاثر ہوئی، اور میں نے  ’’آپ کی امانت ‘‘تین بار پڑھی، چھوٹی سے  اس کتاب کے  تین بار پڑھنے  نے  اسلام کو میری سب سے  بڑی ضرورت کے  ساتھ میری پہلی پسند بنا دیا، میں مسلمان اتفاقاً ہوئی تھی مگر الحمد للہ اب شعوری طور پر مسلمان ہو گئی تھی، میں نے  ڈاکٹر آصف صاحب سے  درخواست کی کہ میں چاہتی ہوں کہ اللہ نے  مجھے  اپنے  فضل سے  زبر دستی بنایا ہے  تو میرے  شوہر جو میری زندگی کے  ساتھ ہیں اور جن کے  سایہ میں مجھے  اپنی پوری زندگی گزارنی ہے  وہ بھی مسلمان ہو جائیں وہ مسلمان گھرانے  میں پیدا تو ضرور ہو گئے  ہیں مگر وہ مسلمان کہاں ہیں، جو مجھ سے  غیر اسلامی طریقہ پر کورٹ میریج کرنے  پر تیار ہیں، مسلمان کسی قوم کا نام نہیں، بلکہ اللہ اس کے  رسول ﷺ کی شریعت کے  سامنے  اپنے  کو سرنگوں کرنے  اور اسے  ماننے  کا نام ہے  میری خواہش ہے  کہ میرے  شوہر بھی مسلمان ہو جائیں، انھوں نے  چھٹیوں میں ایک چلہ کے  لئے  جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا، شروع میں یہ بات ڈاکٹر یوسف علی کے  لئے  بڑی مشکل تھی مگر میں نے  بھی ضد کی اور ڈاکٹر آصف نے  بھی ضد کی وہ زبر دستی راضی ہو گئے  مگر جاتے  وقت ان کو بہت زور پڑ رہا تھا وہ خود کہتے  ہیں کہ ڈاکٹر آصف جب مجھے  جماعت میں جانے  سے  پہلے  حضرت مولانا کلیم صاحب کے  یہاں لے  کر گئے  مجھے  ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے  گرفتار کر کے  جیل میں لے  جا رہے  ہیں، چالیس دن میں کیسے  گزاروں گا، مگر اوکھلا جا کر حضرت سے  ملاقات ہوئی حضرت نے  چند منٹ بات کی، تو وہ خوش دلی سے  جماعت میں جانے  کے  لئے  تیار ہو گئے، ممبئی کی ایک جماعت کے  ساتھ ان کا وقت متھرا میں لگا اور الحمد للہ وہاں سے  باقاعدہ داڑھی بلکہ اگر یہ کہوں کہ میرے  شوہر مسلمان ہو کر واپس آئے  تو یہ بھی سچ ہو گا۔

سوال  :اس کے  بعد آپ واپس آرمینیا گئیں ؟

جواب  :ہمیں واپس آرمینیا ایم بی بی ایس مکمل کرنے  جانا تھا جانے  سے  پہلے  ہم لوگ حضرت سے  ملنے  کیلئے  گئے  حضرت نے  ہمیں سمجھایا کہ اسلام قبول کر کے  گو یا آپ کی نئی زندگی شروع ہوئی ہے  اب آپ مسلمان اور صرف مسلمان ہیں بلکہ خیر امت کے  ایک فرد ہو نے  کی حیثیت سے  داعی ہیں، مسلمان کو جہاں بھیجا جاتا ہے  دعوت کے  لئے  بھیجا جاتا ہے  اب آپ اپنی نیت ایم بی بی ایس مکمل کرنے  کی نہ کر کے  آرمینیا میں دعوت کی نیت سے  جایئے  الحمد للہ ہم دونوں نے  نیت کو ٹھیک کیا چلتے  وقت حضرت سے  بہت دعا کی درخواست کی اور ہم دونوں نے  ڈاکٹر آصف کے  مشورہ پر حضرت سے  بیعت بھی کی اور دعوت کے  مقصد سے  اس بار کے  سفر کا عہد بھی کیا، الحمد للہ اس نیت کی برکات کھلی آنکھوں دکھائی دیتی رہیں، اسماء بہن شاید آپ یقین نہ کریں ایک سال میں میں نے  قرآن بھی ایک عرب لڑکی سے  پڑھا، اردو پڑھی، عربی زبان مجھے  ایک درمیانی عالمہ کی طرح آ گئی ہے  اکثر ماثورہ دعائیں یاد ہو گئیں اور پاکستان سے  منگا کر میں نے  سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔

سوال  :آپ کے  ایم بی بی ایس کا کیا ہو؟

جواب :دین کو بلکہ دعوت کو مقصد بنا نے  کی برکت سے  میں نے  پچھلے  چار سالوں سے  زیادہ فائنل ایئر میں نمبر حاصل کئے۔

سوال  :دعوت کی نیت کا کیا ہوا؟

جواب  :اصل تو وہی بتانا ہے  دعوت ہماری زندگی کی دھن تھی، الحمد للہ آرمینیا، بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان کے  ۱۲۱/لڑکے  لڑکیاں اور ہمارے  کالج کے  چھ اساتذہ مسلمان ہوئے۔

سوال  :پاکستان اور بنگلہ دیش کے  غیر مسلم کہاں سے  آ گئے  ؟

جواب  :بنگلہ دیش کے  دو برہمن اور چار سندھی ہندو پاکستان کے  جو الحمد للہ بڑے  اچھے  ڈاکٹر بن کر دعوت کی نیت کر کے  واپس ہوئے  ہیں ہندوستان آ کر احساس ہوا کہ وہاں کام کرنا زیادہ آسان ہے  اگر آدمی کو دھن لگ جائے  تو کام یہاں بھی آسان ہے  مگر وہاں زیادہ آسان ہے۔

سوال  :آپ کو ہندوستان لوٹے  ہوئے  کتنا زمانہ ہو گیا، آپ نے  یہاں دعوت کا کام نہیں کیا آپ لوگ حج کو بھی تو گئے  تھے  ؟

جواب :ہمیں واپس آئے  چوتھا سال ہے، الحمد للہ ہم جہاں بھی رہے  باقاعدہ عورتوں کا اجتماع اور ہمارے  شوہر با جماعت نماز کا اہتمام کرانے  لگتے  ہیں دو سال ہم دہلی میں رہے، صفدر جنگ اور رام منوہر لوہیا اسپتال میں کام کیا اب دو سال ہماچل میں ہونے  والے  ہیں، الحمد للہ ۲۸/ڈاکٹر میری دعوت پر مسلمان ہو گئے  ہیں جن میں چھ لڑکیوں کی مسلمانوں سے  شادی ہو گئی ہے، چند ایسی ہیں جنھوں نے  اعلان نہیں کیا ہے، میرے  شوہر اور ہمارے  وسیلہ سے  ایک سو سے  زائد لوگ اللہ نے  ہدایت یاب فرمائے  ہیں، ان میں ایک آل انڈیا کے  بہت بڑے  افسر بھی ہیں جو اب رٹائر ہو گئے  ہیں مگر ظاہر ہے  ابھی بہت کمی ہے، ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

سوال  :آپ کے  گھر والوں کا کیا ہوا ؟

جواب  :میں نے  آرمینیا سے  آخری سال میں فون پر شادی کی اطلاع دے دی تھی، میرے  والد اور دادا نے  فون پر کہہ دیا کہ تو تو ہم سے  مر گئی ہے  ہمیں فون مت کرنا، اس کے  بعد سے  میرا فون رسیو نہیں کرتے  ہیں آواز سنتے  ہی کاٹ دیتے  ہیں انھوں نے  اپنے  علاقے  میں اور لوگوں میں میرے  بارے  میں بتا دیا ہے  کہ کلپنا آرمینیا میں جا کر مر گئی ہے۔

سوال  :آپ نے  ان سے  رابطہ کی کوئی صورت نہیں نکالی ؟

جواب  :میں بہت خط لکھتی ہوں مگر وہ جواب نہیں دیتے، میرے  گھر والے  ایک کٹر تنظیم سے  سیاسی طور پر وابستہ ہیں، مگر ذاتی زندگی میں اکثر لوگ اچھے  انسان ہیں نہ جانے  میرے  خاندان کا کیا ہو گا میں حضرت سے  جب بھی ملتی ہوں بہت گزارش کرتی ہوں، پچھلی بار جب میں گرمیوں میں آئی تھی تو حضرت کے  ہاتھ پکڑ کر خوب روئی حضرت میرے  خاندان کا کیا ہو گا حضرت میرے  دادا میری دادی، میری ممی، میرے  بھائی میرے  انکل اگر کفر میں مر گئے  توکس طرح دوزخ میں جلیں گے  حضرت بہت عجیب سے  ہو گئے  مگر مجھے  احساس نہ ہونے  دیا، ذرا مجھے  ہوش سا آیا تو حضرت نے  سمجھا یا کہ شریعت کا ہر حکم ہمارے  لئے  اصل ہے  آپ شریعت کی نگاہ میں میرے  لئے  نا محرم ہیں برقعہ پہننے  سے  حدود ختم نہیں ہوتیں اگر آپ جذبات میں شریعت کے  احکام کا لحاظ کرنے  کی عادت نہیں ڈالیں گی تو شیطان آپ کو برباد کر دے  گا۔

سوال  :برقعہ آپ نے  کب سے  پہننا شروع کیا ؟آپ کو اسپتال میں دقت نہیں ہوتی؟

جواب  :الحمد للہ تیسرا سال ہے  جب میں نے  برقعہ پہننا شروع کیا، کچھ لوگ ذرا اجنبیت محسوس کر تے  ہیں مگر اکثر لوگ مرعوب ہوتے  ہیں۔

سوال  :قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیں گی؟

جواب  :پہلی درخواست تو میرے  خاندان والوں کی ہدایت کے  لئے  دعا کی ہے  اور دوسری درخواست یہ ہے  کہ اسلام کسی قوم یا برادری کا نام نہیں کہ گو جر کے  گھر میں پیدا ہوا تو گوجر، جاٹ کے  گھر میں پیدا ہوا تو جاٹ، اور مسلمان کے  گھر میں پیدا ہوا تو مسلمان بلکہ اللہ اور اس کے  رسول  ﷺ کے  حکم اور اس کے  قانون اسلام کو اپنے  لئے  خیر سمجھ کر اس کے  سامنے  خود سپردگی اور اسے  ماننے  کا نام اسلام ہے، جس کا شعور دعوت کو مقصد زندگی بنائے  بغیر نصیب نہیں ہو سکتا۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ ڈاکٹر اسماء علی !اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے  خیر عطا فرمائے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، شکریہ تو آپ کا اور حضرت کا کہ مجھے  ارمغان کی بزم دعوت میں حصہ دار بننے  کی سعادت نصیب ہوئی۔

مستفاد از ماہنامہ ’ارمغان‘ نومبر  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

ایک بالکل امی اور مخلص داعیہ ( فاطمہ) سے  انٹرویو

اسماء ذات الفوزین

اسماء ذات الفوزین:  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

فاطمہ:وعلیکم سلام جی

سوال  :آپ کی پیدائش کہاں ہوئی ؟

جواب  :میرا میکہ کا ندھلہ کے  پاس جاٹوں کا ایک گاؤں ایلم ہے، میرے  ابا کا نام عبدالرشید ہے  وہ کھدر بیچتے  تھے۔

سوال  :آپ کی شادی کہاں ہوئی ؟

جواب  :میری پہلی شادی بڈھانہ کے  پاس سلطان پور گاؤں میں ہوئی تھی میرے  شوہر اچانک بہت بیمار ہوئے  اور ان کا انتقال ہو گیا وہ ٹی بی کے  مریض تھے  اس کے  بعد محمد پور میں میری شادی ہو گئی عین الدین ان کا نام ہے  میرے  شوہر سیدھے  آدمی ہیں، پانی پت میں کھدر بیچتے  ہیں وہ دو باتوں کا بہت خیال رکھتے  ہیں ایک تو سو روپئے  میں ڈھائی روپئے  سب سے  پہلے  نکالتے  ہیں دوسرے  بالکل ایمان داری سے  کپڑے  بیچتے  ہیں۔

سوال  : محمد پور میں کتنے  مسلمان ہیں ؟

جواب  : محمد پور میں مسلمان بس تھوڑے  سے  گھر ہیں ہندوؤں کا گاؤں ہے، چھوٹی سی ایک مسجد ہے  مسلمان بھی بس نام کے  ہیں۔

سوال  : آپ کو کویہ دین کے  کام سے  کیسے  دلچسپی پیدا ہوئی؟

جواب  : میں ان پڑھ، جاہل، دین سے  بالکل دور نام کی مسلمان تھی ہمارے  گاؤں میں ایک جاٹ کی گھر والی مر گئی اس نے  کسی دوسری عورت کو رکھ لیا پہلی عورت کی دو جوان لڑکیاں تھیں وہ میرے  پاس آیا کرتی تھیں، میں چوڑیاں بیچتی تھی وہ مجھے  امی کہا کرتی تھیں گاؤں کے  اکثر بچے  بچیاں مجھے  امی کہتے  تھے  گاؤں والے  سبھی مجھ پر اعتماد کرتے  تھے، جس کو کوئی کام ہوتا، سودا منگوانا ہوتا میں لا دیتی کسی کو کوئی دکھ تکلیف ہوتی میں بڈھانہ لے  جا کر دوا دلواتی، جاٹ اور دوسرے  لوگ اپنی جوان بچوں اور بچیوں کو میرے  ساتھ بھیج دیتے  ان دونوں لڑکیوں کو سوتیلی ماں اور باپ نے  بہت ستایا، و ہ لڑکیاں مجھ سے  کہنے  لگیں امی مجھے  تو اسلام دھرم اچھا لگے  ہمیں تو کہیں مسلمان کروا دے  میں نے  سوچا دو پریشان حال لڑکیاں پریشانی سے  بچ جائیں گی اور دوزخ کی آگ سے  بھی بچ جائیں گی میں ان کو لے کر مرکز نظام الدین چلی گئی وہاں آپا جی نے  ان کو کلمہ پڑھوایا ایک کا نام ’انوری ‘ اور دوسری کا نام ’سروری ‘ رکھ دیا ہندی کی کتاب لے کر وہ نماز یاد کر نے  لگیں اور پھر پابندی سے  نماز پڑھنے  لگیں مجھے  بھی شرم آئی کہ یہ کل کی مسلمان تو نماز کی ایسی پابند اور میں پرانی مسلمان نماز سے  دور ؟ میں نے  بھی نماز شروع کر دی، مجھے  یہ بھی خیال آیا کہ ان مٹی کی بنی ہوئی لڑکیوں کی شرم میں تو تُو نماز پڑھے  اور اپنے  اللہ کے  حکم کی شرم نہیں، میں نماز میں خوب روئی اور دعا کی میرے  اللہ میاں ! مجھے  معاف کر دو، میں اب آپ کے  حکم اور آپ کی محبت میں نماز پڑھوں گی۔

پھر میں نے  ان دونوں لڑکیوں کے  رشتے  تلاش کئے  اور پانی پت میں دو اچھے  مسلمان تیار ہو گئے  دونوں کے  نکاح کروائے، اللہ کا شکر ہے  کہ بہت خوشی خوشی ان کی گزر ہو رہی ہے۔اس کے  بعد میں محمد پور آئی ہمارے  یہاں کا ایک بہت بڑا بدمعاش جاٹ کا لڑکا بڑھانہ کے  قصائیوں کے  ساتھ آ کر آپ کے  یہاں پھلت میں مسلمان بنا تھا حضرت جی نے  اس کا نام اسلم رکھا تھا میں نے  سوچا کہ وہ اب نمازی ہو گیا اور اپنے  سارے  برے  کام چھوڑ دئے، تو مجھے  اور بھی خیال آیا کہ ایسا بڑا بدمعاش مسلمان ہو کر سدھر جائے  تو یہ جو لوگ مجھ سے  محبت کرتے  ہیں اگر یہ دین لے  لیں اور مسلمان ہو جائیں تو کتنا اچھا ہو۔

میں آنے  والی عورتوں اور لڑکیوں کو سمجھانے  لگی مجھے  کچھ آتا تو ہے  نہیں جو کچھ اللہ کہلواتا میں کہتی، پہلے  ایک دو لڑکیاں اور اس کے  چھ مہینے  کے  بعد ایک اور لڑکی تیار ہوئی میں نے  ان کو دہلی لے  جا کر مسلمان کرایا اور اللہ نے  رشتے  بھی دلوا دیئے  ان کی شادیاں بھی ہو گئیں۔

سوال  : آپ کو جو ان پرائی لڑکیاں لے  جاتے  ہوئے  ڈر نہیں لگا؟

جواب  : پہلی دفعہ ڈر لگا، مگر میں نے  سوچا کہ گاؤں کے  لوگ مجھ پر اعتماد کرتے  ہیں اگر کسی نے  دیکھ لیا تو کہہ دوں گی کہ دوا دلانے  لے  جا رہی ہوں یا علاج کروانے  لے  جا رہی ہوں اور بات سچی بھی تھی کہ اصل علاج کروانے  لے  جا رہے  تھے  مگر بعد میں ڈر نکلتا گیا اپنے  اللہ پر بھروسا ہوتا گیا میرے  دل میں تھا کہ اگر کوئی کہے  گا تو صاف کہہ دوں گی کہ نرک سے  بچانے  کے  لئے  لے  جا رہی ہوں مگر اللہ کا شکر ہے  کہ کوئی نہیں ملا نہ کسی کو مجھ پر شبہ ہوا۔

سوال  : اس کے  بعد بھی آپ نے  کسی پر کام کیا ؟

جواب  : ایک زمین دار باپ کا لڑکا میرے  گھر کی دکانوں میں دواؤں کا اسٹور کرتا تھا وہ ڈاکٹر بھی تھا وہ مجھے  نماز پڑھتے  دیکھتا تھا، ایک دن مجھ سے  کہنے  لگا، اری اماں ! تو یہ نماز کیوں پڑھتی ہے ؟سامنے  موم بتی جل رہی تھی میں نے  کہا بھیا!میرے  بھیا! ذرا اپنی انگلی موم بتی میں لگا وہ کہنے  لگا میں کیوں لگاؤں جل نہیں جائے  گی ؟میں نے  کہا بیٹے  جب تو ذرا سی موم بتی میں انگلی نہیں جلا سکتا تو دوزخ کی آگ کو کیسے  سہن کر ے  گا ؟پھر میں نے  اس سے  کہا تو نے  کسی ہندو کو مرتے  نہیں دیکھا ؟اس نے  کہا دیکھا ہے، میں نے  کہا اسے  جلتے  ہوئے  بھی دیکھا ہے  اس نے  کہا دیکھا ہے، میں نے  کہا تو نے  نہیں دیکھا ورنہ تو ہندو نہیں رہتا دو روز کے  بعد ایک ہندو عورت مر گئی، پھر اس کو شمشان لے  گئے  وہاں اس کو آگ لگا دی سارا کفن جل گیا وہ ننگی ہو گئی پھر لاٹھیوں سے  اس کے  سر کو پھوڑا اور بری طرح جلایا اتفاق سے  اگلے  روز ایک مسلمان دھوبی مر گیا وہ اس کو دیکھنے  گیا بہت اچھی طرح نہلایا گیا اہتمام سے  کفن پہنایا گیا خوشبو لگائی گئی کتنے  پیارسے  اس کو قبر میں اتارا گیا جب لوگ مٹی ڈالنے  لگے  تو اس نے  کہا میں بھی مٹی ڈال دوں ؟لوگوں نے  کہا اگر تو نہایا دھویا ہو تو مٹی ڈال دے  ورنہ ہاتھ مت لگانا، اس کے  دفنانے  کے  بعد جب وہ واپس آیا تو بالکل چپ چپ رہنے  لگا۔

میں ایک دن بڈھانہ گئی تو ایک حدیث کی کتاب اس کے  لئے  لے  آئی وہ اس کو پڑھتا وہ چپکے  چپکے  نماز پڑھنے  لگا اس نے  اپنی بیوی سے  بتایا وہ بیوی اس کو نماز پڑھاتی رہی پھر اس کی بیوی نے  گھر کے  لوگوں کو بتا دیا گھر کے  لوگوں نے  اس پر ظلم شروع کئے  کیسے  کیسے  پہاڑ اس پر ٹوٹے، اس کو دیکھ کر ہم سب بھی روتے  رہتے  وہ پٹتا رہتا اور کہتا رہتا تم میرا گلا کاٹ دو میں اپنے  رب سے  یہ کہہ دوں گا کہ تیرے  لئے  میں نے  زبان کٹوا دی، اس کو کمرے  میں بند کر کے  مرچیوں کی دھونی دی، ایک دن جان بچاکر وہ میرے  گھر میں گھس گیا مجھے  خبر نہیں ہوئی، اس کے  گھر والے  میرے  پیچھے  پیچھے  گھر میں آ گئے  میرے  گھر کی تلاشی لی میں بے  فکر تھی کہ وہ میرے  گھر میں نہیں ہے  میں نے  چِڑھانے  کے  لئے  کہا کہ اوپر چوپارے  میں دیکھ لو ؟وہ چوپارے  میں گئے  وہاں تین گٹھریاں سرسوں کی لکڑیوں کی کھڑی تھیں، میں نے  ان سے  کہا ان لکڑیوں کو بھی دیکھ لو کہیں ان کے  پیچھے  چھپ رہا ہو ؟ انھوں نے  لکڑیاں ہٹا کر دیکھیں پھر چلے  گئے  جب میں کواڑ بند کر کے  اوپر گئی تو وہ ان لکڑیوں میں سے  نکلا، کہنے  لگا اری امی !اگر میرے  اللہ یہاں ان کو اندھا نہ کرتے  تو، تو مجھے  مروا ہی دیتی اس نے  بتایا جب وہ مجھے  دیکھنے  آئے  تو میں لکڑیوں کے  پیچھے  کھڑا تھا، میرا سر اوپر دکھائی دے  رہا تھا مگر ان میں سے  کسی کو نہیں دکھائی دیا اس کے  بعد ہی ہمیں سچا ایمان نصیب ہوا میرا لڑکا انتظار بھی اگلے  روز جماعت میں چلا گیا میری بچیاں بھی نماز پڑھنے  لگیں میرے  دونوں بھائی بھی ایلم سے  یہ قصہ سن کر جماعت میں چلے  گئے۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب : حسین پور کے  مولانا معاذ اور حافظ نواب اس کو لے کر پھلت آئے  اور حضرت جی نے  اس کو کلمہ پڑھایا اس کا صہیب نام رکھا اور جماعت میں بھیج دیا۔

اس کے  بعد اس کے  گھر والے  ہمیں ستانے  لگے  روز آتے  کہ یا تو اس کا پتہ بتاؤ ورنہ تیرے  گھر کے  سب لوگوں کو مار دیں گے۔ایک دن جب لوگوں نے  بالکل مارنے  کی ٹھان لی تومیں بچوں کو لے کر بڑھانہ آ گئی اور گھر کو تالہ لگا دیا سوچا کہ گھر کو اکھا ڑ کر دوسرا بنا لیں گے  مگر وہاں کے  جاٹوں نے  ایک چیز بھی نکالنے  نہیں دی اور روزانہ پولیس بڑھانہ آتی جب لوگ مجھے  ستانے  لگے  تو میں سٹھیری آ گئی پھر پھلت آ کر حضرت جی سے  مرید ہو گئی،

سوال  : تم نے  یہ سب گھر بار چھوڑا، کیا تمہیں اس کا دکھ نہیں ہوتا ؟

جواب  : سچی بتاؤں، پہلے  تھوڑا تھوڑا ہوتا تھا پھر میں نے  سوچا کہ دین کے  واسطے  اللہ کی محبت میں چھوڑا ہے  تو خوش ہونے  لگی۔

میرے  شوہر کو بہت دکھ ہوتا ہے  وہ کہتے  بھی ہیں کہ تو نے  ہمیں برباد کر دیا، میں نے  ان سے  کہہ دیا کہ اپنے  دین کے  لئے، اللہ کی محبت میں، اپنے  پیارے  رسول  ﷺ کے  راستہ پر چلنے   کے  لئے  اگر تم بھی چاہو تو مجھے  چھوڑ دو، اپنے  منھ سے  ایسی بات کہنا گناہ ہے، مگر ایک دن وہ کہنے  لگے  تو مجھے  مروا دے  گی، میں تو تجھے  طلاق دے  دوں گا، تو میں نے  یہ (مذکورہ )بات کہی۔

سوال  : تمہارے  بچوں کا ان حالات میں کیا خیال ہے ؟

جواب  : بچوں کا بالکل دکھ نہیں، میرا لڑکا انتظار چودہ سال کاہے  وہ یوں کہہ رہا تھا امی ابھی تو ہم نے  گھر ہی چھوڑا ہمارے  نبی ﷺ کو فاقے  ہوتے  تھے  ابھی تو ہمیں فاقوں کا بھی انتظار ہے  میری دونوں بچیاں شائستہ اور گلستاں بہت خوش ہیں وہ کہتی ہیں امی سامان کیا چیز ہے  وہ تو مر جاتے  جب بھی چھوٹ جاتا ہمارے  کہاں نصیب کہ نبی کی نقل میں گھر چھوڑتے

سوال  : آپ کے  میکہ والے  ان حالات میں کیا کہتے  ہیں ؟

جواب  : میرے  میکہ والے  سب مجھ سے  ناراض ہیں وہ نہ جانے  کیسے  لوگ ہیں کیا ہو گیا ان کو ؟جس کے  گھر جاتی ہوں اپنے  گھر میں گھسنے  نہیں دیتے  کہتے  ہیں کہ تو ہمیں مروا دے  گی میرے  ابا کہنے  لگے  کوئی تجھے  بھی قتل کر دے گا اور تیرے  بچوں کو اٹھا کر مار دے گا میں نے  کہا اگر کوئی مجھے  مار دے گا تو مجھے  مرنا تو ہے  ہی اور شہادت کی موت سے  اچھی تو کوئی موت ہوتی  نہیں جس کی ہمارے  نبی نے  بھی تمنا کی۔ میں نے  اپنے  گھر والوں سے  کہا میں یہاں پھلت میں ہوں میرے  بچے  کاندھلہ میں ہیں کوئی میرے  بچوں کو کیا اٹھائے  گا تم سب مل کے  اٹھوا دو اور انھیں مروا دو میں تو اس پر خوش ہوں گی اور اپنے  اللہ سے  کہہ دوں گی میرے  اللہ !تیرے  دین کے  واسطے  میں نے  اپنے  بچے  بھی قربان کر دئے۔

سوال  : سٹھیری میں رہتے  ہوئے  بھی آپ نے  کسی کو دعوت دی؟

جواب  : ہر جمعرات کو وہاں کی عورتوں کو آپ کے  یہاں اجتماع میں لے  کر آتی ہوں کئی عورتیں تو پکی ہو گئی ہیں کہ سب کو دین پہنچائیں گی، ایک لوہار کا لڑکا مسلمان ہونے  کو تیار ہے  اب کی جمعہ کو حضرت جی کے  پاس مسلمان ہونے  آئے  گا میں تو جہاں بھی جاتی ہوں یہی بات کرتی ہوں جب میں (جیند ہریانہ) میں اپنے  رشتہ داروں میں جاتی ہوں جہاں مسلمان کہیں کے  بھی نہیں نام تک ہندوؤں کے  ہیں وہاں سب عورتوں کو اکھٹا کر لیتی ہوں اور خوب سمجھاتی ہوں ہندو عورتیں بھی آ جاتی ہیں بس جنت اور دوزخ کا ذکر آیا اور میرے  آنکھوں میں آنسو آ گئے  (روتے  ہوئے  )اری بہنو!  جلدی پکی مسلمان بن جاؤ ، دین لے  لو اگر ایمان کے  بغیر مر گئیں تو دوزخ کی آگ میں کتنی تکلیف ہو گی کلمہ پڑھ لو آگ سے  بچ جاؤ گی جہاں میری آنکھوں میں آنسو آئے  عورتوں کے  دل موم ہو جا تے  ہیں، میں جانا بھی چاہوں تو ہندو عورتیں روکتی ہیں اری اور سنا …اور سنا!

میں نے  کتنے  لوگوں کو حضرت جی کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دے  دی دسیوں لوگوں نے  تو اس کو پڑھ کر اپنے  شیوجی پھوڑ دئے۔صہیب کے  تین دوست آئے  تھے  حضرت جی سے  کلمہ پڑھنے، حضرت جی ملے  نہیں پھر آویں گے۔میں اگر کچھ پڑھ لیتی، قرآن پڑھ لیتی (روتے  ہوئے  ) تو میں کتنے  لوگوں کو سمجھایا کرتی، بس مجھے  یہ ہی دکھ ہے۔

سوال  : اب پڑھنے  لگو تم اب بھی پڑھ سکتی ہو؟

جواب : ایک دن میں نے  خواب دیکھا تھا ایک نقاب ڈالے  ہوئے  بزرگ ہیں کچھ کچھ دل میں آیا کہ وہ ہمارے  پیارے  رسول  ﷺ ہیں مجھے  قرآن شریف دے  رہے  ہیں اور کہہ رہے  ہیں لے  پڑھ لے  (روتے  ہوئے  )کاش میں پڑھی لکھی ہوتی۔

پڑھے  لکھے  لوگ جانے  کیوں ہمارے  نبی ﷺ کے  راستے  نہیں چلتے  چاروں طرف بغیر ایمان کے  لوگ آگ میں چلے  جا رہے  ہیں مگر کچھ بھی خیال نہیں مجھے  تو جب معلوم ہو کہ کوئی ہندو مر گیا دیر تک نیند نہیں آتی ایسا لگے  جیسے  میں مری ہوں اور جل رہی ہوں اتنی تکلیف مجھے  ہوتی ہے۔

سوال  : دعوت کے  اس کام میں لگنے  سے  پہلے  اور اب میں آپ کیا فرق محسوس کرتی ہیں ؟

جواب  : دعوت تو میں کبھی کبھی کسی ملنے  والے  کی کرتی ہوں اب نہ تو میرا گھر ہے  نہ دار ایسے  میں کہاں دعوت کروں مجھے  ذراسکون مل جائے  اور اللہ کی مرضی ہو اور ذرا سا ٹھکانہ مل جائے  تو پھر میں دین میں لانے  کے  لئے  دعوت کیا کروں گی کہ دعوت کے  بہانے  سے  لوگ ایمان میں آ جائیں۔ میری ایک سہیلی ہے  ششی میں نے  اسے  حضرت جی کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی تھی اس نے  اپنے  گھر کے  سارے  شیوجی پھوڑ دیئے، مجھ سے  کہنے  لگی کہ میں تو آریہ سماجی ہو گئی، میں نے  ڈھونگ چھوڑ دیئے  میں نے  سمجھایا جھیرے  میں سے  نکلی کنویں میں گری آریہ سماج بننے  سے  کیا ہو گا ؟جس نے  پیدا کیا اس کے  سماج میں آ مسلمان بن کلمہ پڑھ تب ہو گی مکتی، میرا جی چاہتا ہے  اس کی دعوت کروں۔

سوال  :اصل میں تم جو لوگوں کو ایمان قبول کرنے  کے  لیے  کہتی ہو اس کو دین میں دعوت کہتے  ہیں اور اصل دعوت یہی ہے  اس کام میں لگنے  سے  پہلے  اور بعد میں آپ کیا فرق محسوس کرتی ہیں ؟

جواب  :(رونے  لگتی ہیں )اس لئے  تو کہتی ہوں کاش میں پڑھ لیتی تم سچ کہتی ہو اصل دعوت تو یہی ہے  کہ پیارے  رسول  ﷺ کے  دستر خوان پر لوگوں کو بلایا جائے۔

سچی بات یہ کہ اس کام میں لگنے  سے  پہلے  بلکہ میں کیا اس کام میں لگی پتہ نہیں اللہ کو کیا اس گندی پر ترس آیا اللہ میاں نے  ہمیں زبردستی کام میں لگا دیا جب تک میں نے  اپنے  آپ کو کام میں نہیں لگایا تھا میں اپنے  کو اس وقت میں مسلمان ہی نہیں مانتی اور ایمان کا مزا تو محمد پور کا گھر بار چھوڑ کر ہی آیا میں تو مانتی نہیں کہ نبی ﷺ کے  کام میں لگے  بغیر آدمی مسلمان ہو سکتا ہے  ایمان کا ایسے  پتہ ہی نہیں لگتا جب تک دین کے  کام میں لوگوں کو ایمان میں لانے  کے  کام میں کچھ قربان نہ کرے  یوں تو نام رکھ لینے  سے  اپنے  آپ کو سب مسلمان سمجھتے  ہیں۔پرسوں کاندھلہ والے  حضرت جی (حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی )کہہ رہے  تھے  صرف اللہ اللہ کہنے  سے  دل صاف نہیں ہوتا، اللہ کی محبت میں کچھ کرنے  سے  کچھ قربان کرنے  سے  کچھ ملتا ہے۔

سوال  :آپ کا بہت بہت شکریہ ! آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے  آپ کو ایک بڑے  کام میں لگا دیا اور ہمارے  لئے  بھی دعا کریں۔

جواب  :دعا تو آپ کریں، میں کس قابل ہوں، میں بھی کروں گی۔  اللہ حافظ

مستفاد از ماہنامہ ’ارمغان ‘اگست۲۰۰۶ء

٭٭٭

 

 

 

 

محترمہ خیر النساء صاحبہ {شالنی دیوی} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ   : السلام علیکم

خیرالنساء  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : آپ کا نام ؟

جواب  :  خیرالنساء

سوال  : آپ کہاں کی رہنے  والی ہیں ؟ کچھ اپنا تعارف کرائیں۔

جواب  :  میں تھانہ بھون کے  قریب ایک گاؤں کی رہنے  والی ہوں، میرا پرانا نام شالنی دیوی تھا، میرے  والد کا نام چودھری بلی سنگھ تھا، میری شادی ہریانہ میں پانی پت ضلع کے  ایک قصبہ میں کر پال سنگھ سے  ہوئی، اپنے  پہلے  شوہر کے  ساتھ چودہ سال رہی اب سے  آٹھ سال پہلے  میرے  اللہ نے  مجھے  اسلام کی دولت سے  نوازا،  اللہ کے  شکر سے  میرے  پانچ بچے  ہیں جو میرے  ساتھ مسلمان ہیں۔

سوال  : اپنے  اسلام لانے  کے  بارے  میں کچھ بتائیں ؟

جواب  : مجھے  بچپن ہی سے  اپنے  ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہیں بھاتی تھی۔ میں پیڑ پودوں، پھولوں، چاند ستاروں کو دیکھتی تو سوچتی کہ ایسی خوبصورت اور سندر چیزوں کو بنانے  والا کیسا سندر ہو گا ہماری سسرال کے  گاؤں میں یوپی کے  بہت سے  مسلمان کپڑے  وغیرہ کی تجارت کے  لئے  آتے  تھے، وہ مجھے  ایک مالک کی پوجا اور اللہ کے  آخری رسول حضرت محمدﷺ کی باتیں بتاتے، میرے  ساتھ میرے  بچے  بھی بڑی دلچسپی سے  انکی باتوں کو سنتے، ان کے  جانے  کے  بعد میرے  چھوٹے  چھوٹے  بچے  مجھ سے  باتیں کرتے  کہ ماں ! ہم سب مسلمان ہوتے  تو کتنا اچھا ہوتا، کچھ دنوں کے  بعد میں نے  مسلمان ہونے  کا فیصلہ کر لیا اور گنگوہ کے  علاقہ کے  دو مسلمانوں کے  ساتھ میں جا کر اپنے  بچوں سمیت مسلمان ہو گئی۔

سوال  : اسلام لانے  کے  بعد آپ کے  سسرال والوں اور مائیکے  والوں کی طرف سے  مخالفت نہیں ہوئی؟

جواب  : اسلام کا نام آتے  ہی میرے  گھر والوں اور سسرال والوں نے  قیامت برپا کر دی   میرے  چھوٹے  چھوٹے  بچوں کو بے  حد ستایا، ہم سبھی کو جان سے  مارنے  کے  لئے  ہر ممکن کوشش کی، مگر موت و زندگی کا مالک ہماری حفاظت کرتا رہا میرے  اللہ پر مجھ کو بھروسہ رہا اور ہر موڑ پر میں مصلیٰ پر جا کر فریاد کرتی رہی اور اللہ نے  ہر موڑ پر میری مدد کی۔

سوال  : گھر اور سسرال کے  لوگوں کی طرف سے  آپ کی دشمنی اور اللہ کی مدد کی کچھ باتیں بتائے۔

جواب  : میں کس منہ سے  اپنے  مالک کا شکر ادا کروں، میرے  گھر والوں اور سسرال والوں نے  (جو بڑے  زمین دار بھی تھے  اور بڑے  طاقتور بھی) مجھے  مٹانے  کی ہر ممکن کوشش کی، دو چار روز تو وہ سمجھاتے  رہے  اور جب میں نے  ان کو فیصلہ سنایا کہ میں مر تو سکتی ہوں مگر اسلام سے  نہیں پھر سکتی تو پھر انھوں نے  میرے  ساتھ بڑی سختی کی، مجھے  پیڑ سے  ٹانگ دیا گیا، دسیوں لوگ مجھے  لاٹھی ڈنڈوں سے  پیٹتے  تھے، مگر وہ لاٹھیاں نہ جانے  کہا لگ رہی تھیں میں اپنے  مالک سے  فریاد کرتی تھی اور مجھے  ایسا لگا کہ مجھے  نیند آ گئی یا میں بے  ہوش ہو گئی، بعد میں مجھے  ہوش آیا و پولیس وہاں موجود تھی اور وہ لوگ بھاگ گئے  تھے، مجھے  لوگوں نے  بتایا کہ اس پٹائی میں اپنی لاٹھی سے  میرے  چچا اور جیٹھ کے  ہاتھ ٹوٹ گئے، وہ میرے  بچوں کو مجھ سے  چھین کر لے  گئے، میرے  بڑے  بیٹے  جس کا نام میں نے  عثمان رکھا ہے، اسکو گھر لیجا کر بہت مارا، دو روز کے  بعد وہ جان بچا کر گھر سے  چلا گیا، تھانہ بھون اپنے  ایک مسلمان دوست کے  یہاں وہ پھر پکڑا گیا، اسکو مارنے  کے  لئے  بدمعاشوں کے  ساتھ میرے  گھر والے  آ گئے، تیرہ سال کا بچہ اور آٹھ دس لوگ چھرا چاقو لے  کر اسے  جان سے  مارنے  لگے، اس بچے  نے  چھری چھیننے  کی کوشش کی اور جان بچانی چاہی، نہ جانے  کس طرح ان میں سے  ایک آدمی کے  پیٹ میں وہ چھری گھس گئی اور وہ فوراً مرگیا، اتنے  میں ایک بس آ گئی، بس والے  نے  بس روک دی، سواریاں اتریں تو وہ لوگ سب بھاگ گئے، وہاں ایک لڑکا جس کے  سارے  جسم پر زخم تھے  اور ایک آدمی مرا ہوا پڑا ہوا تھا، پولیس آ گئی اور لڑکے  کو جیل بھیج دیا، جیل میں پٹائی ہوتی رہی، لڑکے  نے  صاف بیان دیا کہ چھری چھینتے  ہوئے  میرے  ہاتھ سے  اس کے  پیٹ میں گھس گئی لڑکے  کو آگرہ جیل میں بھیج دیا گیا، میں راتوں کو مصلیٰ پر پڑی رہتی، میں نے  اپنے  سہارے  کے  لئے  طالب نام کے  ایک آدمی سے  نکاح کر لیا، عورتیں مجھے  ڈراتیں، مسلمان عورتیں بھی مجھے  چڑھاتیں کہ تیرے  بچے  اب تجھے  ملنے  والے  نہیں اور تیرے  بچے  کی ضمانت کوئی نہیں کرے  گا۔

میرا بچہ عثمان آگرہ جیل میں نماز پڑھتا اور دعا کرتا، ایک دن اس نے  خواب میں دیکھا کہ ایک پردہ آسمان سے  آیا اور لوگ کہہ رہے  ہیں کہ بی بی فاطمہ آسمان سے  عثمان کی ضمانت کرانے  آئی ہیں، ایک ہفتہ کے  بعد آگرہ کی ایک بڑی دولت والی عورت نے  عثمان کی ضمانت کرائی، وہ مظفر نگر آیا کرتی تھیں، ضمانت ہو گئی تو میں نے  دین سیکھنے  کے  لئے  اسکو جماعت میں بھیج دیا میں اپنے  چار بچوں کی وجہ سے  رویا کرتی اور میرے  بچے  بھی بہت تڑپتے، میری بڑی بچی چھپ کر نماز پڑھتی، اس کو نماز پڑھتا دیکھ کر میری سسرال والوں نے  اس پر مٹی کا تیل ڈال دیا اور آگ جلانی چاہی مگر میرے  اللہ نے  بچایا چار بار دیا سلائی جلائی مگر ایک بال بھی نہیں جلا، میرے  جیٹھ دیوروں نے  مشورہ کر کے  کھیر پکائی اور کھیر میں زہر ملا دیا، وہ میری دونوں بڑی بچیوں کو کھلائی، مگر کچھ بھی نہ ہوا، میری جٹھانی نے  یہ سوچا کہ زہر تھا ہی نہیں، اس نے  کھیر چکھی اور فوراً مر گئی۔

میرا بیٹا عثمان جماعت سے  آیا، میں اور وہ پانی پت کے  پاس سے  ایک جگہ جا رہے  تھے، ہمیں سسرال والوں نے  گھیر لیا، گولیاں چلائیں، گولیاں بچ بچ کر نکل جاتی تھیں ۲۳ فائر انھوں نے  کئے  ۲۳ واں فائر ان میں سے  ایک آدمی کے  لگا اور وہ مرگیا۔

میں اپنے  اللہ سے  اپنے  بچوں کو مانگا کرتی، میرے  اللہ مجھے  میرے  بچے  مل جائیں، ایک روز ایک مولانا غوث علی شاہ مسجد میں آئے، انھوں نے  موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا قصہ سنایا کہ اللہ نے  فرعون کے  گھر سے  ان کو ان کی ماں سے  کیسے  ملوایا، میں گھر گئی اور سجدہ میں پڑ گئی، میرے  اللہ جب تو موسیٰ علیہ السلام کو موسیٰ کی ماں کی گود میں پہنچا سکتا ہے  تو میرے  بچوں کو مجھ سے  کیوں نہیں ملا سکتا، میں تجھ پر ایمان لائی ہوں، میں فریاد کرنے  کس سے  جاؤں، میں تیرے  علاوہ کسی سے  فریاد نہیں کروں گی، ساری رات سجدہ میں پڑی رہی میری آنکھ لگ گئی، کوئی کہہ رہا ہے  اللہ کی بندی خوش ہو جا، تیرے  بچے  تیرے  ساتھ ہی رہیں گے  صبح کو میرا بچہ عثمان پانی پت سے  کرنال کے  لئے  بس اڈے  گیا اس نے  دیکھا کہ تینوں بہنیں چھوٹے  بھائی کے  ساتھ بس سے  اتریں، وہ موقع دیکھ کر اندازے  سے  پانی پت آ رہی تھیں، چاروں کو لے  کر وہ خوشی خوشی گھر آیا، میں پھر ساری رات سجدہ میں پڑی رہی، میرے  مالک آپ کتنے  اچھے  ہیں آپ کتنے  پیارے  ہیں، اپنی دکھیاری بندی کے  بچوں کو خود ہی بھیج دیا، اس کے  بعد سے  پانچ چھ بار ایسا ہوا کہ میری سسرال کے  لوگ مجھے  اور میرے  بچوں کو تلاش کرتے  ہیں، ہم ان کو دیکھ لیتے  ہیں، مگر ایسا لگتا ہے  کہ وہ اندھے  ہو جاتے  ہیں، مجھے  ہر موڑ پر میرے  مالک نے  سہارا دیا، میں اس مالک کے  کس منہ سے  گن گاؤں۔

سوال  : آپ نے  اپنے  بچوں کی تربیت کا کیا انتظام کیا؟

جواب  : میرے  لڑکے  عثمان نے  قرآن شریف پڑھ لیا، ہر سال جماعت میں جاتا ہے، اب کام کر رہا ہے، میں دم کر کے  بھیج دیتی ہوں اور بے  فکر ہو جاتی ہوں کہ حفاظت کرنے  والا مالک اس کی حفاظت کرے  گا۔

میری دو بڑی لڑکیوں کی شادی اللہ نے  کرا دی ہے  دونوں لڑکے  بہت دیندار اور نیک ہیں، میری بچیاں بھی بہت پکی اور نیک مسلمان ہیں، ان کی شادی کے  وقت میرا بیٹا آگرہ جیل میں تھا میرے  اللہ نے  ضمانت کا انتظام کر ا دیا اور اس نے  اپنے  بہنوں کو خوشی خوشی رخصت کیا، اب وہ اللہ کے  شکر سے  بری ہو گیا ہے، چھوٹی بچی اور بچہ مدرسہ میں پڑھ رہا ہے۔

سوال  : آپ ماشاء اللہ پردہ میں رہتی ہیں اور نماز کی بھی خوب پابندی کرتی ہیں، آپ کو کیسا لگتا ہے  ؟

جواب  : میں نے  ایمان لانے  کے  بعد قدم قدم پر اپنے  مالک کی مدد دیکھی، مجھے  نماز میں بہت مزہ آتا ہے، میں نے  چھ سال سے  تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین نہیں چھوڑی، میں نے  کیا نہیں چھوڑی، صحیح یہ ہے  کہ میرے  مالک نے  مجھ سے  پڑھوائی، مجھے  کوئی ضرورت ہوتی ہے  تو میں مصلیٰ پر چلی جاتی ہوں اور اپنے  مالک سے  فریاد کر کے  دل کو یقین ہو جاتا ہے  کہ اب ضرورت پوری ہو جائے  گی اور مشکل حل ہو جائے  گی، میں پردہ کو اپنے  مالک کا حکم سمجھتی ہوں، مجھے  پردہ میں ایسا لگتا ہے  کہ میں قلعہ میں آ گئی اور میرے  مالک مجھے  اس قلعہ میں دیکھ کر خوش ہو رہے  ہیں، مجھے  تو عجیب سا لگتا ہے، پورے  پانی پت میں بہت کم عورتیں پردہ کرتی ہیں نہ کے  برابر، پتہ نہیں ہم کیسے  مسلمان ہیں، نہ اللہ پر بھروسہ، نہ یقین، میرا تو ایمان ہے  کہ اگر اللہ پر یقین اور ایمان کو مسلمان سمجھ جائیں تو چاند ستارے  ساتھ چلنے  لگیں۔

سوال  : آپ کی بیٹیاں بھی پردہ کرتی ہیں ؟

جواب  : اللہ کا شکر ہے  کہ میری بیٹیاں پکا پردہ کرتی ہیں، ان کو دیکھ کر ان کی سسرال میں بھی پکا پردہ ہونے  لگا، بھلا ایسے  رحیم و کریم نے  ہمیں پردہ کا، ہماری شیطان سے  حفاظت کے  لئے، تحفہ دیا اور ہم اسے  دوسرے  لوگوں کی طرح قید سمجھنے  لگیں، مجھے  تو بے  پردہ ہندو عورتوں کو بھی دیکھ کر ترس آتا ہے، میں سچ کہتی ہوں، میں نے  سنا تھا کہ عورت اپنے  اوپر پڑنے  والی نگاہوں کو خوب تاڑ لیتی ہے، مجھے  تو مسلمان ہونے  اور پردہ میں رہنے  سے  پہلے  رشتہ دار اور غیر رشتہ دار ہر مرد کی آنکھوں سے  ایسا لگتا تھا کہ یہ کپڑے  اتار کر میری عزت لوٹنے  والا ہے، مجھے  بہت غصہ بھی آتا تھا اور شرم بھی، میرے  اللہ نے  مجھے  ایسا دین دے دیاجس نے  مجھے  اس عذاب سے  بچا لیا۔

سوال  : مسلمان بھائی بہنوں سے  آپ کچھ کہنا چاہیں گی؟

جواب  : مجھے  صرف دو باتوں کی دھن ہے، ایک تو یہ کہ ہمارے  مسلمان بھائی، بہن، ، جن کو باپ دادوں سے  اسلام مل گیا ہے  انھیں اس پیارے  دین کی قدر نہیں  بلکہ افسوس ہوتا ہے  کہ دین کی باتوں کو وہ بوجھ سمجھتے  ہیں، جیسے  پردہ، نماز وغیرہ کو، وہ اس نعمت کی قدر کریں، اپنے  اللہ اور رسول پر یقین کریں اور ایمان کے  بعد اس کی مدد کو دیکھیں اور جب وہ ایمان کی اہمیت کو نہیں سمجھتے  تو ان کو اس کا درد اور فکر نہیں کہ کوئی ایمان پر مرے  یا بغیر ایمان دوزخ میں جائے  ہمیں پوری انسانیت کو دوزخ سے  بچانے  کی فکر کرنی چاہئیے۔

سوال  : آئندہ آپ کا کیا پروگرام ہے ؟

جواب  : میرا ارادہ قرآن شریف حفظ کرنے  کاہے، میں نے  بات پکی کر رکھی ہے، مجھے  پھلت جا کر قرآن پاک حفظ کرنا ہے  اور اپنی دونوں بچیوں کو دین کی سپاہی اور دعوت دینے  والا بنانا ہے، بڑا بچہ تو کام پر لگ گیا ہے، چھوٹے  بچہ کو میں چاہتی ہوں کہ وہ اجمیر والے  حضرت کی طرح لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنائے  میں روزانہ تہجد میں اپنے  اللہ سے  دعا کرتی ہوں کہ میرے  اللہ تو نے  بت بنانے  والے  کے  گھر میں ابراہیم کو پیدا کیا، تیرے  لئے  کیا مشکل ہے  ؟ چھوٹے  بچے  کو مجھے  عالم، حافظ اور دین کا داعی بنانا ہے، میرے  اللہ میری تمنا ضرور پوری کریں گے  انھوں نے  میرا کوئی سوال آج تک رد نہیں کیا۔

سوال  : بہت بہت شکریہ!آپ ہمارے  لئے  بھی دعا کیجئے۔

جواب  : میں کس لائق ہوں آپ بھی میرے  لئے  دعا کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے  نبی احمد  ﷺ کا سچا وارث بنائے۔آمین۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان جون۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

تشکر ادارہ ماہنامہ ’ارغوان‘ اسور جناب عمر کیرانوی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید