FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نمود

 

 

سحر انصاری

 

 

 

 

 

 

انتسابیہ

 

کچھ لفظ ہیں جو میں نے سوچے ہیں

کچھ معانی ہیں جو میں نے محسوس کیے ہیں

لفظ و معانی کی اس دھُوپ چھاؤں کو میں

ان تمام ذہنوں کے نام معنون کرنا چاہتا ہوں

جو میری سوچ اور میرے احساس کے ہمسفر

بننے میں عار محسوس نہ کریں

٭٭٭

 

آتش کدہ ہے سینہ مرا ، راز نہاں سے

اے وائے ! اگر معرض اظہار میں آوے

 

 

(غالب)

 

 

 

 

نسل زیاں گزیدہ

 

 

 

ہم آج تہذیب کے سفر میں

کہاں سے کس سمت آ گئے ہیں

ہمارے احساس کے نگر میں

یہ کیسے آسیب چھا گئے ہیں

 

نہ کوئی اوّل ، نہ کوئی آخر

نہ کوئی باطن ، نہ کوئی ظاھر

نہ کوئی پنہاں ، نہ کوئی پیدا

نہ کوئی توریت ہے ، نہ گیتا

نہ کوئی گوتم ، نہ کوئی عیسٰی

 

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ

ہماری دنیا کہیں نہیں ہے

کہیں ہماری زمیں نہیں ہے

مہیب وسعت میں بے علاقہ گروہ ہیں ہم

چلے تھے انسانیت کا سرخیل بن کے لیکن

قدم قدم ٹھوکریں ہی کھائیں

ہمیں ملے آگہی کے طعنے

ہماری بینائیاں ہمارے لیے سزا تھیں

ہماری سچائیاں ہمارے لیے سزا تھیں

 

ہماری اقدار مختلف تھیں

 

ہم اپنے دل میں یہ سوچتے تھے

نہ کوئی قاتل ، نہ کوئی مجرم

نہ کوئی سارق ، نہ کوئی رہزن

یہ نام وقتی سیاستوں کی فریب کاری

 

مگر ہماری تمام اقدار پر طمانچوں کے وہ نشاں ہیں

جو آئینہ خانہ تمدن میں نوحہ خواں ہیں

ہم اپنے ماضی کی خاک سے اب کسے ابھاریں

ہم اپنی گونگی صداقتوں سے کسے پکاریں

رفاقتوں کا غرور بھی غم

محبتوں کا شعور بھی غم

 

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ

یہی ہماری خطا ہے شاید

کہ ہم نے جینے کی سعی کی ہے

ہمیں یہ دنیا عزیز بھی ہے

جبھی ہمارے تمام دعووں کے رد کی خاطر

عداوتیں ہیں کدورتیں ہیں

یہ سب ہمارے دوام کا مضحکہ اڑانے کی صورتیں ہیں

 

ہمارا ماحول

اب ہمارے وجود سے ہو چکا ہے نالاں

ہمارے سب خط و خال دھندلا کے رہ گئے ہیں

ہم ایک تنکے کی طرح بحر تعب کی موجوں میں بہہ گئے ہیں

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ کے خواب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں

ہم اپنے ہونے کے بر گزیدہ عذاب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں

کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

 

صدی کی ساتوں دہائیاں ہم پہ خندہ زن ہیں

کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

 

وہ عہد جس میں ہماری نسل زیاں گزیدہ نے بار پایا

زمیں کی آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا

اس آدم عہد نو کو دیکھو

کبھی سمندر میں ہے یہ رقصاں

کبھی ہے صحرا میں پا بجولاں

کبھی خدائے فضائے عریاں

ہے اک ہتھیلی پہ ہیر و شیما ، تو دوسری پہ قمر فروزاں

زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ چھپا ہوا ہے

سب اس کے دامن میں آ رہا ہے

 

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ

کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

 

اس ارتقا کے سفر میں ہم گردِ کارواں ہیں

ہماری حیرت ، ہمارے لمحے

ہمارے رشتوں پہ نوحہ خواں ہیں

ہم آئنسٹائن ، مارکس اور ڈارون سے پوچھیں

فرائیڈ کی معملوں سے گزریں

کہ ماؤ اور ہوچی منہہ کو دیکھیں

ہماری درد آشنا کتابیں

نمود احساس کی نقابیں

تو سازشوں کے سیاہ شعلوں میں جل رہی ہیں

جنہیں کتابوں کی آگ سے ہات تاپنے میں خوشی ملی ہو

ہم ان سے تعبیر لفظ و معنی کی کس توقع پہ داد پائیں

ادھر چتائیں

اُدھر چتائیں

 

ہمارے چاروں طرف تو ہے وحشتوں کا اک غولِ ہول انگیز

لرز رہا ہے وجود چنگیز

زباں نہ کھولو ، زباں نہ کھولو

دلیل و دعوے کی منزلیں اب گذر چکی ہیں

نشید و نغمات کی روایات مر چکی ہیں

ہمارے محبوب جسم ہر سُو سسک رہے ہیں

وہ بے یقینی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں

کسی کی کپڑے پھٹے ہوئے ہیں

کسی کے پستاں کٹے ہوئے ہیں

یہ آگ اور خون کے سمندر

اُبھر رہے ہیں عتاب در بر

نہ جنگ نا وار و دار ہے اب

نہ پھول ہے اب ، نہ خار ہے اب

 

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ

بہار دیدہ ، خزاں رسیدہ

ہماری خاطر کوئی نہ سوچے

کہ آج تو سوچ سوچ کر خود ہمارے اذہان تھک گئے ہیں

یہ لوگ جن کی زباں ہے خنجر

یہ لوگ جن کا نفس ہے اژدر

یہ لوگ کیا یوں بھی سوچتے تھے

کہ چھین لیں حق زیست ہم سے

نہ کوئی ان میں اداس ہوگا

نہ کوئی لاشوں کے پاس ہوگا

 

جو شہر صحرا میں ہم نے بوئے

اب ان کے سائے بھی ڈس رہے ہیں

سمندروں کو اسیر کر کے

ہم اوس تک کو ترس رہے ہیں

حریم و ریشم کی کار گاہیں بنا کے خود بے لباس ہیں ہم

بجا کہا : بے اساس ہیں ہم

 

میں جن کا قصہ سنا رہا تھا

اسی گروہ زیاں رسیدہ کا قرض ہوں میں

مگر یہ تم شرمسار کیوں ہو

ادھر ذرا میری سمت دیکھو

کسی سے میں نے یہ کب کہا ہے

کہ میں ہوں مایوس آدمی سے

ہبوط انساں کا ذکر ہی کیا

مجھے خبر ہے کہ جو بھی طوفان نوح کے بعد بچ گئے تھے

وہی علامت تھے روشنی کی

وہی صداقت تھے آدمی کی

وہی شہادت تھے زندگی کی

اس ایک طوفاں کا ذکر ہی کیا

افق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی تھی

اُفق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی ہے

٭٭٭

 

راستوں میں اک نگر آباد ہے

اس تصّور ہی سے گھر آباد ہے

 

کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں

دل کسی صورت مگر آباد ہے

 

کیسی کیسی محفلیں سُونی ہوئیں

پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے

 

زندگی پاگل ہوا کے ساتھ ساتھ

مثلِ خاکِ رہگذر آباد ہے

 

دشت و صحرا ہو چکے قدموں کی گرد

شہر اب تک دوش پر آباد ہے

 

بے خودی رُسوا تو کیا کرتی مجھے

مجھ میں کوئی بے خبر آباد ہے

 

دھوپ بھی سنولا گئی ہے جس جگہ

اس خرابے میں سحر آباد ہے

٭٭٭

 

 

کہیں وہ چہرہ زیبا نظر نہیں آیا

گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا

 

کہوں تو کس سے کہوں آ کے اب سرِ منزل

سفر تمام ہوا ، ہم سفر نہیں آیا

 

صبا نے فاش کیا رمزِ بوئے گیسوئے دوست

یہ جرم اہلِ تمنا کے سر نہیں آیا

 

پھر ایک خوابِ وفا بھر رہا ہے آنکھوں میں

یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا

 

کبھی یہ زعم کہ خود آ گیا تو مل لیں گے

کبھی یہ فکر کہ وہ کیوں ادھر نہیں آیا

 

میں وہ مسافرِ دشتِ غمِ محبت ہوں

جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا

 

مرے لہو کو مری خاکِ ناگزیر کو دیکھ

یونہی سلیقہ عرضِ ہُنر نہیں آیا

 

فغاں کہ آئینہ و عکس میں بھی دنیا کو

رفاقتوں کا سلیقہ نظر نہیں آیا

 

مآلِ ضبطِ تمنا سحر پہ کیا گزری

بہت دنوں سے وہ آشفتہ سر نہیں آیا

٭٭٭

یوحنا

 

 

 

جو کہہ رہے ہیں کہ عقل و دانش کی طاقتیں خام ہو چکی ہیں

بلند بینی کو پست کرنے کی سازشیں عام ہو چکی ہیں

وہ میری آمد سے بے خبر ہیں

انہیں خبر دو

میں آ گیا ہوں

ستارہ شرقِ وحی و الہام آ گیا ہے

کہ جس کی آمد زمینِ اشرار و ارضِ ادبار پر گراں ہے

جو قاطعِ حمد و مدح و تمجید بن کے آیا ہے

ہجومِ انساں میں ناسخِ اعتبارِ تقلید بن کے آیا ہے

 

میں جانتا ہوں کہ وہ نہ مانیں گے

ان کے سینے گناہگاروں کی قبر کی طرح تنگ و تاریک ہو چکے ہیں

ہوس کی آب و ہوا نے ان کا ضمیر مرجھا کے رکھ دیا ہے

اور ان کی رگ رگ میں طبعِ طاغوت آگ بن کر دہک رہی ہے

اور ان کے جسموں کی کھیتیوں میں جذام کی فصل پک رہی ہے

وہ ماہ کو ماہ ، مہر کو مہر ماننے سے گریز کر کے یہ چاہتے ہیں

میں ان کی بیماریوں کو اپنے غلافِ مقدس میں جذب کر لوں

اور ان کی کمزوریوں کو حرزِ نفس بنا لوں

وہ چاہتے ہیں کہ میرے کہنے سے سنگ نانِ شعیر بن جائے

کہ میرے کہنے سے خشک صحرا بھی موجِ آبِ کبیر بن جائے

 

میں اپنی ان آزمائشوں کے ہجوم سے دُور دیکھتا ہوں

کہ رب الارباب اپنی ہیکل کے

کنگرے پر کھڑا ہوا مجھ سے کہہ رہا ہے

ہلاک ہو جا ، ہلاک ہو جا

فصیلِ خود آگہی سے گر کر ہلاک ہو جا

مرے فرشتے تجھے ہلاکت سے قبل اپنی پنہ میں لے لیں گے

کہ تیرے زخموں سے چہرہ آفتاب تاریک ہو گیا ہے

 

گواہ رہنا

ضمیرِ اقوامِ عہدِ حاضر گواہ رہنا

 

یہی مری آزمائشیں تھیں

سو میں نے ان آزمائشوں کو

اپنی معجز نمائیوں سے جدا نہ پایا

گواہ رہنا کہ دخترِ حرص و آز کے لب

نہ پا سکے جب مرے لبوں کی حیات افزا حلاوتوں کو

تو میرا سر طشت میں سجا کر دیا گیا ہے

کہ اس کے شعلہ نژاد لب

میرے برف جیسے لبوں سے لیں انتقام اپنا

 

گواہ رہنا

ضمیرِ اقوامِ عہدِ حاضر گواہ رہنا

کہ رب الارباب اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے

 

میں اب بھی کانٹوں کا تاج پہنے ہوئے ہوں

اور میرے دست و پا میں

مظالم و مصلحت کی کیلیں

چبھی ہوئی ہیں

میری بینائی شام کے ہولناک اندھیروں میں کھو گئی ہے

مگر مرے کربِ آتشِ افروزِ جاں نے اب تک نہیں کہا ہے

ایلی ایلی لما شبقتنی

 

میں آسمان و زمین کی پہنائیوں میں تنہا کھڑا ہوا ہوں

میں اپنی تنہائیوں کی تنہائیوں میں تنہا کھڑا ہوا ہوں

اور آج اس جانکنی کے عالم میں دیکھتا ہوں

کہ اپنے اپنے وجود کی اعتراف گاہوں میں

اپنے اپنے گناہ کی بازگشت سن کر

ہللّو یاہ ! کہنے والے

خجالت و انفعال کے شرمسار فرزند

اپنی اپنی صلیب اٹھائے ہوئے مرے پاس آ رہے ہیں

٭٭٭

 

 

انتظار

 

 

رات بھر بارش دریچے کے قریب

موتیے کی بیل سے لپٹی ہوئی

قطرہ قطرہ زہر برساتی رہی

 

میری آنکھوں کو ترے چہرے کی یاد آتی رہی

 

صبح کو تھا فرش پر پتوں کا ڈھیر

بے نمو مٹی کے چہرے کا نقاب

انتقامِ انتظارِ آفتاب

٭٭٭

 

میرے خواب

 

 

 

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

اپنے احساس کی کتاب لکھوں

اپنے انفاس کا حساب لکھوں

جبر حالات کا جواب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ابر و کہسار و آبشار کے خواب

خواب ، ژولیدہ زلف یار کے خواب

اپنی ہی چشم انتظار کے خواب

مثل رفتار موج آب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ہیں صدف کتنے ریگ ساحل پر

صف بہ صف کتنے داغ ہیں دل پر

کتنے رہرو لُٹے ہیں منزل پر

لوح افسانہ شباب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

کتنے الفاظ بے اثر نکلے

کتنے احباب بے خبر نکلے

کتنے ذرات ہم سفر نکلے

ذرے ذرے کو آفتاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

کون سا دشت دل میں ہے آباد

روح میں گم ہے کون سی فریاد

"خون فرہاد بر سر فرہاد”

خون فرہاد کو گلاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

کتنے اجسام ہو گئے تحلیل

بہہ گیا کتنے آنچلوں کا نیل

کون ڈھونڈے گناہ کی تفصیل

ہر تمنا کو بے ثواب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

شکن بستر بہار آمیز

بدن آہوئے خمار انگیز

ہوس بزم خسرو پرویز

حسرت نشہ شراب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

قہر ہے جگمگاتی آنکھوں میں

زہر ہے مسکراتے ہونٹوں میں

آگ پنہاں گداز بانہوں میں

کس ستم گر کو انتخاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ذہن میں رقص کر رہا ہے دھواں

پیاس سے خشک ہو رہی ہے زباں

ہے کراہوں کا اک ہجوم یہاں

کن ارادوں کو کامیاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ہے کبھی زندگی بہار کا رنگ

ہے کبھی زندگی دہان نہنگ

زخم سر میں نہاں ہے لذت سنگ

خود کو کب تک یونہی خراب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

دھند میں ڈوبتے ہوئے افکار

خون میں غرق دیدہ بیدار

اور ہر سمت گردشوں کا فشار

کس حقیقت کو باریاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

جاگتے شہر کا سیاہ ضمیر

بن گیا سرد راستوں کی لکیر

قمقمے روشنی کے دامن گیر

ہر اندھیرے کو بے نقاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ہیں ہوا کی قبا میں میرے خواب

ہیں گُلوں کی حیا میں میرے خواب

ہیں دل آشنا میں میرے خواب

اپنے خوابوں کا کیا حساب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

منتشر منتشر خیاباں ہا

سر بسر خاکداں گلستاں ہا

دشمن علم و فن و بستاں ہا

کیوں نہ ہر بات بے حجاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

ہیچ افسانہ ہمہ اشیاء

ہو کے پیمانہ ہمہ اشیاء

دل ہے بیگانہ ہمہ اشیاء

کیوں نہ دریا کو بھی سراب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

شہر سے دور سج گئی ہے صلیب

سنگ اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں رقیب

موت ہے جادہ وفا کی نقیب

کیوں نہ آیات بے نقاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

 

پھر یہ لمحے گذر نہ جائیں کہیں

ریزہ ریزہ بکھر نہ جائیں کہیں

سب مرے خواب مر نہ جائیں کہیں

زود و مضطر لکھوں ، شتاب لکھوں

سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

٭٭٭

 

 

بھول جانا تو رسم دنیا ہے

آپ نے کون سا کمال کیا

 

 

 

 

 

 

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں

وہ فاصلے بھی گئے ، اب وہ قربتیں بھی گئیں

 

دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز

محبتیں تو گئی تھیں ، عداوتیں بھی گئیں

 

لُبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے

ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں

 

غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا

وہ جراتیں بھی گئیں ، وہ جسارتیں بھی گئیں

 

نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل

ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں

 

دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیار

سو اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں

 

ہوئے ہیں جب سے برہنہ ضرورتوں کے بدن

خیال و خواب کی پنہاں نزاکتیں بھی گئیں

 

ہجوم سرو و سمن ہے نہ سیل نکہت و رنگ

وہ قامتیں بھی گئیں ، وہ قیامتیں بھی گئیں

 

بھلا دیے غم دنیا نے عشق کے آداب

کسی کے ناز اٹھانے کی فرصتیں بھی گئیں

 

کرے گا کون متاع خلوص یوں ارزاں

ہمارے ساتھ ہماری سخاوتیں بھی گئیں

 

نہ چاند میں ہے وہ چہرہ ، نہ سرو میں ہے وہ جسم

گیا وہ شخص تو اس کی شباہتیں بھی گئیں

 

گیا وہ دور غم انتظار یار سحر

اور اپنی ذات پہ دانستہ زحمتیں بھی گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم اہل ظرف کہ غم خانہ ہنر میں رہے

سفال نم کی طرح دست کوزہ گر میں رہے

 

ہے چاک چاک رقم داستان گردش خاک

نمود صورت اشکال کیا نظر میں رہے

 

فرار مل نہ سکا حبس جسم و جاں سے کہ ہم

طسم خانہ تکرار خیر و شر میں رہے

 

کسی کو ربط مسلسل کا حوصلہ نہ ہوا

مثال دُود پریشاں ہم اپنے گھر میں رہے

 

نہ ہم شرار دل سنگ تھے نہ رنگ حنا

سخن کی آگ بنے حرف تازہ تر میں رہے

 

نہ سنگ میل تھا کوئی ، نہ کوئی نقش قدم

تمام عمر ہوا کی طرح سفر میں رہے

٭٭٭

 

قابیل کا سایہ

 

 

 

خدا کے خوف سے ، اپنے گناہوں پر خجل ہو کر

وہ پیہم گریہ کرتا تھا

وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا

لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے

خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر

برادر کش سزا پاتے تھے ، پتھر بن کے جیتے تھے

اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں

اور ان کا خون ان کی سرد شریانوں پہ ہنستا تھا

 

مگر اس دور میں کوئی خدا ایسا نہیں کرتا

کہ اب شہروں کی حالت اگلے صحراؤں سے بہتر ہے

کہ شہروں میں مار و اژدر و کرگس نہیں ملتے

کتب خانوں میں افکار و عقائد جلوہ فرما ہیں

ہزاروں درس گاہیں داعی اقدار انساں ہیں

سیہ سڑکوں پہ کاریں ہیں فضاؤں میں ہیں طیارے

عمارات بلند اپنے فلک پیما دریچوں سے

مکوڑوں کی طرح چلتے ہوئے جسموں کو تکتی ہیں

ہمارے شہر مامن ہیں ، ہمارے شہر گلشن ہیں

اب ان شہروں میں فرسودہ خدا کی کیا ضرورت ہے

 

خدا خاموش ہے اور خوف و غم سے نیم جاں انساں

ہوا کی لہر کو بھی موت کی آہٹ سمجھتے ہیں

کسی کو کچھ نظر آتا نہیں لیکن کوئی جذبہ

یہ چپکے چپکے کہتا ہے کہ اے ہابیل اے ہابیل

ہلاکت کے نئے سامان سے آراستہ ہو کر

گلی کوچوں میں آ پہنچا ہے پھر قابیل کا سایہ

٭٭٭

 

 

 

ہوا

 

 

اس بیاباں میں کہ یکسر گرد ہے

اک ہوا سرخیل اہل درد ہے

زرد رُو پتوں کو سینے سے لگائے

جوئے خوں انصاف کی رو میں چھپائے

بن گئی ہے تازہ گامی کا پیام

 

ورنہ اس ماحول میں اپنے لیے

تنگ ہے رسوائیوں کا پیرہن

رقص کرتا ہے تصور میں ابھی

زخم خوردہ شہر کا عریاں بدن

منہ چھپاتی تیرگی کا کیا ضمیر

اپنی پرچھائیں ہے خود اپنا کفن

 

اس بیاباں میں گریزاں ساعتیں

بھول کر بھی اب قدم رکھتی نہیں

 

وصل یاراں اس بیاباں میں کہاں

جگمگاتے شہر کی گلیوں کا لمس

کون فرزانہ ہے اس طرح کا دیوانوں میں

کون ہے موت کو یوں زیست بنانے والا

سنگ میں رنگ کی مانند سمانے والا

 

آج کتنے بصد انداز بلاتے ہیں ہمیں

امن اور صلح کا پیغام سناتے ہیں ہمیں

منتظر آج بھی ہے زیست کی ہر راہ گذر

آج ہر گام پہ ہیں کتنے ہی برگد کے شجر

کون ہر سانس میں سنگیت جگا سکتا ہے

کون پتھر میں زباں بن کے سما سکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

دلوں پہ کتنا اندھیروں کا خوف طاری ہے

چراغ شام سے پہلے ہی جل گئے ہیں یہاں

دیار لمس میں تا چند خد و خال کی بات

کہ ذہن جسم سے آگے نکل گئے ہیں یہاں

 

 

گوتم کی مورتی

 

 

سنگ سادہ سے تراشا ہوا برگد کا شجر

نقش یہ کتنا حسیں ، کتنا سکوں پرور ہے

اور پتھر کے سنگھاسن پہ نشستہ اک شخص

کس قدر حلم و متانت کا حسیں مظہر ہے

ہے منقش ورق سنگ پہ سارا ماحول

زندگی کا لب اظہار فقط پتھر ہے

 

پھول پتھر کے ، ثمر اور چمن پتھر کا

پاؤں پتھر کے ، ردا اور بدن پتھر کا

گوش و رخسار و لب و چہرہ و سر پتھر کا

یہ ہے گوتم جو پیمبر ہے مگر پتھر کا

تیاگ کر بیٹھا ہے جو تاج شہی صدیوں سے

اس پہ طاری ہے سکوت ابدی صدیوں سے

نہ کبھی محو سخن ہے ، نہ کبھی محو سفر

ایک دن جبر غم زیست سے بد دل ہو کر

اپنے سینے میں لیے امن و صداقت کی طلب

آ گیا تھا اسی برگد کے تلے نغمہ بلب

جلوہ فرما ہے ابھی تک اسی انداز کے ساتھ

اس کے ہونٹوں پہ تبسم ہے اک اعجاز کے ساتھ

 

اس تبسم میں فرشتوں کے نفس رقصاں ہیں

اس تبسم میں ازل اور ابد پنہاں ہیں

سر سے پا تک ہے حیات ابدی کی تصویر

امن اور علم و صداقت کی مکمل تفسیر

ہے جبیں مطلع دیوان سکون ہستی

چشم ہے مخزن اسرار فسون ہستی

اور پتھر کی ردا میں یہ ابھرتی شکنیں

علم و عرفاں کے سمندر کی امڈتی موجیں

کتنی نادیدہ خلش ہائے دروں کا مالک

پھر بھی ناقابل اظہار سکوں کا مالک

 

پاس جاؤ تو غریبوں کو ، دل افگاروں کو

رنج و آلام کے ماروں کو ، گنہگاروں کو

اپنی آغوش محبت میں چھپا لے ہنس کر

دور ہو جاؤ تو ہونٹوں کا تبسم اکثر

گھول دے روح کے ساگر میں سکوں کا امرت

اس کی نظروں میں گدا ہے نہ شہنشاہ کوئی

 

کتنے بُت آج بھی رکھے ہیں صنم خانوں میں

جاں کنی میں مُبتلا صدیوں کا لمس

اس ہوائے قاصد جاں کے طفیل

اپنے ہاتھوں کو میسر آ گیا

 

اب کہاں نظارہ روئے نگار

شبنمیں آنکھوں میں اُڑتا ہے غبار

ہے کسی خورشید نو کا انتظار

ہو گئی ہے زندگی اس دور میں

راہ چلتے اجنبی کا اعتبار

کشتگان آرزو کا اختیار

 

پھر بھی دنیا طنز کے نشتر لیے

ڈھونڈتی پھرتی ہے دل کی رہگذار

 

اے ہوا سرخیل اہل درد و غم

کب ملا تیرا کوئی نقش قدم

٭٭٭

 

 

گفتگو

 

 

 

اس سے گفتگو کے بعد

روح کی طویل رات

شمع حرف تازہ سے

جگمگا اُٹھی

اس کے پاس بیٹھ کر

ذہن کی اُداس شام

سحر لمس جسم سے

گنگنا اُٹھی

 

کاش لوگ سوچتے

زندگی کی تلخیوں میں شہد گھولنے کا فن

صرف نفع و زر کی جستجو نہیں

اک تبسم حسیں

ایک قُرب پُر خلوص

ایک حرف نو بھی ہے

٭٭٭

 

دلوں میں آتش احساس کا زیاں دیکھو

دھواں دھواں نظر آتے ہیں جسم و جاں دیکھو

 

نہ کوئی چاپ ، نہ آہٹ ، نہ گفتگو ، نہ سوال

کہاں لٹے ہیں خیالوں کے کارواں دیکھو

 

ہزار آئینہ خانوں کے درمیاں رہ کر

وہی وجود ، وہی سعی رائیگاں دیکھو

 

زمیں کی قید سے اکتا گئے ، غنیمت ہے

اب آسمان پہ زنجیر کہکشاں دیکھو

 

بھٹک رہا ہوں میں پرچھائیوں کے جنگل میں

فریب خوردگی یاد ہمرہاں دیکھو

 

غریب شہر کا احوال پوچھتے کیا ہو

کمال جرم و سزا بن گئی زباں دیکھو

 

ادھر بھی آؤ کبھی صورت نسیم سحر

گُلوں کے شہر میں بارود کا دھواں دیکھو

 

گلی گلی ہے لہو ، زخم زخم ہیں بازار

ہمارے شہر کی تصویر خونچکاں دیکھو

 

ادھر زمین پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں

فلک نے کھینچ رکھی ہے ادھر کماں دیکھو

 

ہزار دار و رسن پر بھی بے شکن ہے جبیں

ستم کشوں کا جلالِ پیمبراں دیکھو

 

سر بریدہ بے نیزہ ، قمیص خوں آلود

صف عدو سے ابھرتے ہوئے نشاں دیکھو

 

نہ ہم وفا پہ پشیماں نہ وہ جفا پہ خفیف

نیا شعور ، نئی طرز امتحاں دیکھو

 

بچھڑنے والی ہواؤں کی اجنبی خوشبو

ہوئی ہے ہم پہ بھی اس بار مہرباں دیکھو

 

ملیں گے اور کئی رنگ دلنوازی کے

نگاہ یار میں تمہید امتحاں دیکھو

٭٭٭

 

کیا کسی لمحہ رفتہ نے ستایا ہے تجھے

ان دنوں میں نے پریشان سا پایا ہے تجھے

 

بحر شادابی جذبات کی اے موج رواں

کون اس دشت بلا خیز میں لایا ہے تجھے

 

تیری تنویر سلامت مگر اے مہر مبیں

گھر کی دیوار پہ یوں کس نے سجایا ہے تجھے

 

شکوہ تلخی حیات بجا ہے لیکن

اس پہ روتا ہوں کہ میں نے بھی رلایا ہے تجھے

 

گاہ پہنا ہے تجھے خلعت زریں کی طرح

گاہ پیوند کے مانند چھپایا ہے تجھے

 

تو کبھی مجھ سے رہی مثل صبا دامن کش

اور کبھی اپنے ہی بستر پہ سلایا ہے تجھے

 

میری آشفتہ مزاجی میں نہیں کوئی کلام

رُوٹھ کے سارے زمانے سے ، منایا ہے تجھے

٭٭٭

 

 

اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں

پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں

 

شہر و صحرا کی کچھ نہیں تخصیص

وسعت دشت جاں سے تنگ ہوں میں

 

جیت بھی اک شکست ہی ہو گی

آرزوؤں سے محو جنگ ہوں میں

 

کیسے تجھ کو بہا کے لے جاؤں

موج ہمسایۂ نہنگ ہوں میں

 

ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں

اور حیرانیاں پہ دنگ ہوں میں

 

باد صر صر کی طرح گرم عناں

سینہ ریگ کی امنگ ہوں میں

 

کس نے دیکھا فشار موجۂ جاں

آج تک آب زیر سنگ ہوں میں

٭٭٭

 

خزاں کا چاند

 

 

گرجا کے ستوں کے پاس ہے چاند

عیسٰی کی طرح اُداس ہے چاند

کیا جانے کدھر گئے حواری

تارے ۔۔۔ در ماہ کے بھکاری

خاموش سی اک صلیب سنگیں

تصویر وفور جاں سپاری

تثلیث کا مرمریں تبسم

کفّارہ دہِ گناہ گاری

 

بھیگی ہوئی رات میں صنوبر

کچھ سوچ رہا ہے سر جھکائے

اُلجھی ہوئی شرمسار شاخیں

ہنگامِ وصالِ بے محابا

تکتی ہیں اُداس چاند کی سمت

 

گرجا کے قریب چند سائے

بکھری ہوئی زرد چاندنی میں

 

حیراں ہیں کہ نصف شب کو میں نے

آنکھوں میں سجائی بے قراری

میں جاگ رہا ہوں اور ہر سُو

عالم پہ ہے خوابِ عیش طاری

پھیلی ہوئی کُہر کی ردا میں

لمحات ہیں محو اشکباری

کیا سود و زیاں کی فکر کیجیے

ہر شئے ہے یہاں کی اعتباری

انعام شعور و آگہی ہے

احساسِ زیاں کی ضربِ کاری

ماحول کی بے حسی سلامت

کیا کربِ نہاں کی پردہ داری

اصحابِ یمین کی نظر میں

میں روزِ ازل سے ہوں یساری

٭٭٭

زرد سورج

 

مہیب روحوں کے قہقہوں سے

مآثرِ جاں لرز اُٹھے ہیں

لہو کی رفتار زہرِ قاتل کی دھار بن کر

دل کی گہرائیوں میں پہیم اتر رہی ہے

ہڈیاں آگہی کی بیدار آگ میں پھر پگھل رہی ہیں

حیات سے بے خبر فضاؤں میں

جسم تحلیل ہو رہا ہے

 

شبِ سیہ کے ڈراؤنے فاصلوں سے لٹکی ہوئی

شپرّہ چشم آرزوئیں یہ چاہتی ہیں

کہ تیرگی کو میں روح اپنی فروخت کر دوں

اور اس اجالے کو بھول جاؤں

جو اب بھی میرا مسیحِ موعودِ جسم و جاں ہے

 

مہیب روحوں کے قہقہوں نے

میری آواز چھین لی ہے

میں گھر کی دیوار پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہوں

جیسے میرے تمام الفاظ گھر کی دیوار میں نہاں ہیں

 

مہیب روحوں کے قہقہوں میں

کچھ اجنبی اجنبی صدائیں ابھر رہی ہیں

وقت کا چاک چل رہا ہے

زمین کی سانس اُکھڑ رہی ہے

میں سوچتا ہوں

وہ زرد سورج نجانے کب آئے گا

کہ جس کا

کتابِ سیارگاں میں وعدہ کیا گیا ہے

 

کتابِ سیارگاں کے مالک

میں اس اندھیرے سے تھک گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جبِر تضادِ زندگی ، خوب ہے یہ مذاق بھی

مرہمِ زخم جس کے ہات ، سینہ فگار بھی وہی

 

 

 

 

تم اور میں

 

 

تم کیوں کسی کو خاطر میں لاؤ

تم شاخِ گُل ہو

دستِ خزاں کے ناز کیوں اُٹھاؤ

میں کیوں یہ سوچوں

میں ہوں "انا” کا زخمی پرندہ

زخموں کو لے کے اُڑ کیوں نہ جاؤں

 

لیکن یہ دنیا

جس کے قفس میں

تم بھی ہمیشہ دستِ خزاں سے ڈرتی رہو گی

میں بھی ہمیشہ زخموں کی پوشاک پہنے رہوں گا

 

آؤ ، پھر آؤ

اک دوسرے کی تعظیم کر لیں

تسلیم کر لیں

ہم اپنی اپنی مجبوریاں ہیں

٭٭٭

موئن جو دڑو

 

 

 

قدیم تہذیب کے شکستہ بدن

تہہ بہ تہہ خاک کے اندھیروں سے

مسخ ہو کر

زمیں پہ اُبھرے ہیں اور

تہذیب نو کی آنکھوں کو

اپنی عظمت کی داستانیں سنا رہے ہیں

 

شکستہ آثار

نسل انساں کی گمشدہ ساعتوں کے نوحے

زندہ تہذیب کی امنگوں پہ دم بخود ہیں

 

یہ نصف عظمت ، یہ نیم تہذیب

اپنی بے جا برہنگی پر

بہت خجل ہے

کہ اس کے جسم سفیم کے داغ

طشت تہذیب نو میں اب تک چمک رہے ہیں

 

شکستہ آثار

شرم سے دھنس رہے ہیں قاتل زمیں کے اندر

کہ میوزیم کے تمام کمروں میں

موت ہے موت کی نمائش

 

تمام انسان موت کے مسخ کردہ لمحوں کی کھوج میں ہیں

متاع پس خوردہ اجل کو

تبرکات بشر سمجھ کر

تمام انساں

بزرگ نسلوں کی مدح کرتے ہیں ان خرابوں میں

اور پیہم یہ سوچتے ہیں

 

کہ کیسی تہذیب

مردہ مٹی میں دھنس گئی تھی

کہ ان کے ہاتھوں نے

کوزہ گر کی دکان کے

سارے ٹھیکروں کو

اپنی تہذیب کے عجائب گھروں میں

محفوظ کر لیا ہے

 

شکستہ تہذیب دیکھتی ہے

کہ وقت کی نیم خوردہ خوراک

عصر حاضر کو کتنی مرغوب ہے کہ اب تک

ہے مردہ تہذیب زندہ تہذیب کے

قبائل کا خوان یغما

 

مردہ تہذیب دیکھتی ہے

کہ زندہ تہذیب کے فلک بوس قصر و ایواں

ہلاکتوں سے سجے ہوئے ہیں

اور اس کے مامن

تابکاری کی وحشتوں کے بنے ہوئے ہیں

اور اس کے اجسام

کوہ آتش فشاں پہ غافل کھڑے ہوئے ہیں

 

زندہ تہذیب کوہ آتش فشاں پہ ایستادہ

سوچتی ہے

کہ مردہ تہذیب کو بچائے

 

مردہ تہذیب

زندہ تہذیب کے ارادوں پہ ہنس رہی ہے

مردہ تہذیب شرم سے

لمحہ لمحہ مٹی میں دھنس رہی ہے

٭٭٭

 

من کے مندر میں ہے اُداسی کیوں

نہیں آتی وہ دیو داسی کیوں

 

ابر برسا ، برس کے کھُل بھی گیا

رہ گئی پھر زمین پیاسی کیوں

 

اک خوشی کا خیال آتے ہی

چھا گئی ذہن پر اُداسی کیوں

 

زندگی بے وفا ازل سے ہے

پھر بھی لگتی ہے با وفا سی کیوں

 

ایسی فطرت شکار دنیا میں

اتنی انسان ناشناسی کیوں

 

کیوں نہیں ایک ظاہر و باطن

آدمی ہو گئے سیاسی کیوں

 

غمگساری ،خلوص ، مہر ، وفا

ہو گئے ہیں یہ پھول باسی کیوں

 

اک حقیقت ہے جب بدن کی طلب

پھر محبت کریں قیاسی کیوں

 

یہ ملاقات ، یہ سکوت ، یہ شام

ابتداء میں یہ انتہا سی کیوں

 

ملنے والے بچھڑ بھی سکتے ہیں

تیری آنکھوں میں ہے اداسی کیوں

٭٭٭

 

 

 

کسی اشک خاک رسیدہ کی طرح تُو نے ہم کو گنوا دیا

تری چشم ہی میں نہاں تھے ہم ، ترے قلب ہی میں تپاں تھے ہم

 

 

 

گُل و سمن سے بھی رشتے قرار جاں کے ہیں

بہت فریب یہاں عمر رائیگاں کے ہیں

 

نہیں ہے کوئی بھی منزل اگر مری منزل

تو پھر یہ پاؤں تلے راستے کہاں کے ہیں

 

قمر سے دیکھ طلوع زمیں کا نظارہ

نگاہ پر تو بہت قرض آسماں کے ہیں

 

نظر نظر میں یہاں پھر رہی ہیں تعبیریں

کچھ اور خواب مگر چشم پاسباں کے ہیں

 

یہ کس نے پھر مری تحریر سے خطاب کیا

کہ حرف حرف میں انداز راز داں کے ہیں

 

اُداس جس نے رکھا ہے تمہاری آنکھوں کو

اسیر ہم بھی اسی خواب رائیگاں کے ہیں

 

سحر ، نصیب وفا قتل گاہ شب ہی سہی

مرے لہو میں ستارے تو کہکشاں کے ہیں

٭٭٭‎

عہد فراموش

 

 

مرے لبوں میں تمہارے لبوں کی خوشبو ہے

تمہارے دل کے دھڑکتے ہوئے مہ و انجم

بکھر گئے ہیں مرے دل میں روشنی کی طرح

 

مرے تصور خُلد آفریں کے پردے میں

ہیں محو خواب ابھی تک تمہاری بند آنکھیں

تمہاری ساق و کمر کی سپردگی کا خُمار

ہے آج بھی مرے حق میں نوید مے نوشی

مرے وجود کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں

نہاں ہے آج بھی خمیازہ ہم آغوشی

مرے بدن میں تمہارے بدن کا لمس جواں

رواں ہے صورت سیال خود فراموشی

 

خلوص و عشق کے ان تجربات میں لیکن

یہ تجربہ بھی نیا ہے کہ بزم ناز میں تم

ملی ہو آج اک انجان اجنبی کی طرح

٭٭‎٭

 

 

 

 

فسانۂ غم دل ناتمام ہے دیکھو

بجھی بجھی سی مگر شمع شام ہے دیکھو

 

کھٹک رہا ہے جو دل بار بار سینے میں

یہ زندگی کا نیا اہتمام ہے دیکھو

 

عذاب بن گئے ہیں ہم ایک دوسرے کے لیے

محبتوں کو بھی کتنا دوام ہے دیکھو

 

ہوا ، بکھیر دیا جس نے چار سُو ، مجھ کو

یہ میری خاک سے پھر ہمکلام ہے دیکھو

 

میں کہہ رہا تھا کہ دل ، ہے مرا اُداس بہت

مگر دلوں کی اُداسی تو عام ہے دیکھو

 

کیا تو ہو گا کسی نے کسی سے یوں بھی کلام

تمہیں پہ میری محبت تمام ہے دیکھو

٭‎٭٭‎

 

سودائی

 

 

 

کُہر میں مہر درخشاں کھو گیا

تھا عبارت موسم گُل سے جو شہر

محبس فصل گلستاں ہو گیا

 

سب مکانوں کے دریچے بند ہیں

عارض ویرانیوں کو دیکھ کر

کچھ سگان گرسنہ خورسند

 

شہر کی سنسان گلیوں میں مگر

زرد پتوں کے کھڑکنے کی صدا

مثل شور دستک طفلان شہر

ہے زمستاں کے تعاقب میں رواں

 

خاک ہے آوارہ ہر رہگذار

یا ہجوم کُودکان سنگ بار

رنگ زرد موسم نا آشکار

 

ساغر فصل جنوں کی دُزد ہے

اور خاک رہ نورد شہر کا

ذرہ ذرہ گنج باد آورد ہے

 

کُہر میں پنہاں ہے اب تک

ساکت و صامت در و دیوار شہر

مثل دزدان شعور زندگی

تاک میں ہیں گنج باد آورد کی

 

شہر کی سنسان گلیوں میں مگر

زرد پتوں کے کھڑکنے کی صدا

مثل شور دستک طفلان شہر

ہے زمستاں کے تعاقب میں رواں

 

اے مرے چاک جگر یہ تو بتا

میں ہوں سودائی کہ آوارہ ہوا

٭٭٭

 

یاد داشت

 

 

میں یہ کہہ سکتا ہوں سورج آگ کی اولاد ہے

چاند رودِ نیل کی آغوش میں آباد ہے

اور ہوا ہے چاند سورج کی نگاہوں کا پیام

 

پھر بھی میں اپنی گزشتہ ساعتوں کے دشت میں

سر گراں ذرّوں کے دامن کو پکڑ سکتا نہیں

حافظہ پر زور دے کر بھی یہ کہہ سکتا نہیں

زندگی کے کون سے لمحے میں میری آنکھ نے

چاند سورج کی نگاہوں سے کیا تھا اکتساب

کب ہوا کے لمس نے مہکائے تھے غم کے گلاب

کون سا لمحہ تھا بحرِ وقت کا پہلا حباب

٭٭‎٭

 

 

 

محبت کا گماں ہونا بہت ہے

کہ اب یہ لفظ بھی رُسوا بہت ہے

 

میں انساں کو خدا کیسے سمجھ لوں

خدا کو بھی خدا کہنا بہت ہے

 

اداسی کا سبب میں کیا بتاؤں

گلی کُوچوں میں سناٹا بہت ہے

 

ترے غم کی فسوں کاری سے پہلے

میں سمجھا تھا غم دنیا بہت ہے

 

تجھے معلوم تو ہو گا مری جاں !

تُجھے اک شخص نے چاہا بہت ہے

 

نہ ملنے کی قسم کھا کے بھی میں نے

تجھے ہر راہ میں ڈھونڈا بہت ہے

 

یہ آنکھیں اور کیا دیکھیں کسی کو

ان آنکھوں نے تجھے دیکھا بہت ہے

 

تڑپتا ہوں تو یہ بھی سوچتا ہوں

تری یادوں نے بہلایا بہت ہے

 

کبھی خود سے رہا ہوں بے تعلق

کبھی اس باب میں سوچا بہت ہے

 

نجانے کیوں بچا رکھے ہیں آنسو

ابھی شاید مجھے رونا بہت ہے

 

نہ آ ، طوفاں ، ڈبونے کو ہمارے

خلوصِ موجۂ دریا بہت ہے

 

سُبک رفتار آوارہ ہوا کو

فریب وسعتِ صحرا بہت ہے

 

بہت آباد ہے یہ شہر پھر بھی

سحر اس شہر میں تنہا بہت ہے

٭٭٭

 

دیمک

 

 

کتابوں کی دشمن

کتابوں کی دشمن بھی ایسی کہ لفظوں کے رشتے کو یکسر مٹا دے

غنیموں کے لشکر کی جاسوس بن کر

فصیلوں کے ہمراہ شہروں کو ڈھانے کے سب گُر بتا دے

تو یوں ہو کہ سنسان ہو جائیں سب سانس لیتی ہوئی بستیاں ایک پل میں

 

خداوند حرف و معانی کی ہیکل کے بیدار کاہن

جو لفظوں کے معبد میں آنکھوں کی شمع جلائے

ہر نوشتے کی تقدیر سے باخبر ہیں

کس افسردگی سے خود اپنی نگاہوں کو روداد ساری سناتے ہیں ، دیکھو

یہاں سارے صفحے مرصع تھے پہلے

یہاں جدولیں تھیں طلائی

یہاں ہر ورق سحر شنگرف سے جگمگاتا تھا مانند دست حنائی

جہاں آج بنجر زمینوں کی وحشت برسنے لگی ہے

جہاں اب مشام وفا حرف کی نکہتوں کو ترسنے لگی ہے

وہاں خط گلزار و طاوس کے موسموں کا گذر تھا

یہ پس خوردہ و مسخ اوراق ایک تازیانہ سوالات کا ہیں

خداوند لوح و قلم ہی بتائے

کہ تاراجی لفظ و قرطاس کیسا ہنر ہے

کتابوں میں مٹی کے گھر آ کے تعمیر کرنے کا فن

عظمت حرف و تقدیس معنی سے کیوں بے خبر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بائے خواب میں کھلتے ہیں باد باں جن کے

وہ کشتیاں مرے بے خواب ساحلوں میں نہیں

 

کبھی کبھی میں انہی قافلوں میں ہوتا ہوں

جو راستوں میں نہیں ہیں جو منزلوں میں نہیں

 

 

 

 

کبھی کبھی

 

 

 

کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کرتا ہے

جیسے لفظ کے سارے رشتے بے معنی ہیں

لگتی ہے کانوں کو اکثر

خاموشی

آواز کے سناٹے سے بہتر

سادہ کاغذ

لکھے ہوئے کاغذ سے اچھا لگتا ہے

خوابیدہ لفظوں کو آخر

جاگتی آنکھوں کی تصویریں دکھائیں کیسے

پلکوں پر آواز سجائیں کیسے

 

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے تم میری نظمیں ہو

جن کو پڑھ کر کبھی کبھی میں یوں بھی سوچا کرتا ہوں

لفظوں کے رشتے بے معنی ہوتے ہیں

لفظ کہاں جذبوں کے ثانی ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

اب یہی رنجِ بے دلی مجھ کو مٹائے یا بنائے

لاکھ وہ مہرباں سہی ، اس کی طرف بھی کون جائے

 

رُوٹھے ہوئے وجود بھی درسِ ”انا’ سے کم نہیں

کیوں میں کسی کے ناز اُٹھاؤں ، مجھ کو بھی کوئی کیوں منائے

 

سایہ قرب میں ملیں آ وہی وقت دونوں پھر

ہونٹ پہ صبح جگمگائے ، آنکھ میں شام مسکرائے

 

دن کو دیارِ دید میں وسعتِ لمس سے گریز

سب کو حصارِ چشم میں خود ہی مثالِ خواب آئے

 

ختم ہیں واقعات بھی ، زیست کی واردات بھی

اب وہ جھکی جھکی نظر خود کوئی داستاں سنائے

 

مونسِ خلوتِ وفا آج بھی ہے وہ دل کہ جو

شمع کی لَو میں تھرتھرائے ، چاند کے ساتھ ڈوب جائے

 

موت کے بعد زیست کی بحث میں مبتلا تھے لوگ

ہم تو سحرؔ گزر گئے تہمتِ زندگی اُٹھائے

٭٭٭

 

میں کہوں اپنے باب میں کیا

مُنکرِ دیں کا دین و مذہب کیا

 

زندگی خود دلیل ہے اپنی

اس میں بحثِ کتاب و مکتب کیا

 

ہے مری روح کے تعاقب میں

نشہ زہرِ نیشِ عقرب کیا

 

خواب کی سی ہے ایک کیفیت

جاگنے کی سبیل ہو اب کیا

 

چاہتا ہوں کہ تجھ کو پیار کروں

اس میں تخصیصِ عارض و لب کیا

 

بے نوا کیوں گذر رہی ہے ہوا

میں نہیں ہوں ترا مخاطب کیا

 

رہ نوردی کریں کہ خوار پھریں

تجھ کو ہم سر پھروں سے مطلب کیا

 

تیرے بیدار رہنے والوں کو

نیند آئی ہے آخرِ شب کیا

 

اعترافِ ہوس کے بعد سحر

لَب تک آئے گا حرفِ مطلب کیا

٭٭٭

 

 

 

نگاہ ڈھونڈتی رہتی ہے زاویوں کا جواز

بہارِ زیست کے منظر گزر بھی جاتے ہیں

 

جو کامیاب ہے اس وقت کی ستائش پر

جو رائگاں تھے وہ لمحے بھی یاد آتے ہیں

 

 

 

 

تجربہ گاہ میں ایک دن

 

 

تجربہ گاہ کی وہ صبح ابھی

یاد ہے خواب کی مانند مجھے

 

نلکیوں اور مشینوں کی فضاؤں میں آ کر

اپنے کمرے کے دریچے سے لگی بیل کا کچھ دھیان آیا

نہ مجھے رات کی آوارہ ہوا یاد آئی

میری آنکھوں نے مرے ذہن سے سازش کر لی

اپنے دامن میں نئے رمز کی لذت بھر لی

 

میز پر ایک طرف

"ایکس رے” اپنی سیاہی میں مرے جسم کی تمثال چھپائے

ساکت و خاموش ملا

ایک نلکی میں مرے خون کا بے صورت رنگ

میری جانب نگراں

جیسے تعارف کے بغیر

گفتگو کا کوئی امکاں ہی نہ ہو

ایک طرف میری حرارت کے نقوش

سرمئی چارٹ پہ لرزاں لرزاں

ایک طرف ذہن کی لہروں کا گراف

اور کاغذ کے لچکتے ہوئے فیتے پہ عیاں

دل کی دھڑکن کے نشاں

 

ایک طرف زیست کی تمہید لیے

اپنے اجزاء سے الگ سوچ رہا تھا میں بھی

میرے اجزاء کے بہم کرنے کو

اب پرشک اور پرستار کہاں سے آئیں

اور اجزاء یہ بہم ہوں بھی تو پھر زیست کے آثار کہاں سے آئیں

٭٭٭

 

 

 

 

مری صدا پہ کسی کی صدا نہیں آئی

مزاجِ عصرِ رواں سازشِ سکوت ہے کیا

 

 

 

وہ زندگی کہ جس میں اذیت نہیں کوئی

اک خواب ہے کہ جس کی حقیقت نہیں کوئی

 

میری وفا کو زلف و لب و چشم سے نہ دیکھ

کارِ خلوصِ ذات کی اُجرت نہیں کوئی

 

تسلیم تیرے ربط و خلوص و وفا کے نام

خوش ہوں کہ ان میں لفظِ محبت نہیں کوئی

 

خلوت میں گر وجود پہ اصرار ہو تو ہو

بازار میں تو ذات کی قیمت نہیں کوئی

 

ہم برزخِ وفا کے جزا یافتوں کے پاس

اک جسم ہے سو جسم کی جنت نہیں کوئی

 

ہر فیصلے کو روزِ قیامت پہ چھوڑ دیں

اس جبر سے تو بڑھ کے قیامت نہیں کوئی

 

یہ شہر قتل گاہ نہیں پھر بھی اے سحر

کیا قہر ہے کہ جسم سلامت نہیں کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

کس کا رنج و الم زیادہ نہیں

کون یاں سر بکف نہادہ نہیں

 

میں مسافر ہوں ایسی منزل کا

جس کی قسمت میں کوئی جادہ نہیں

 

سب کو چھوڑا ترے لیے اور اب

تجھ سے ملنے کا بھی ارادہ نہیں

 

ہو نہ برہم کہ زندگی اپنی

چند روز اور ہے زیادہ نہیں

 

میں وفا کیش ہوں مرا انعام

زہرِ قاتل ہے ، جامِ بادہ نہیں

 

تو بھی چالاک ہے محبت میں

اور اس درجہ میں بھی سادہ نہیں

 

وہ توجہ بھی سوچی سمجھی تھی

یہ تغافل بھی بے ارادہ نہیں

 

آدمی ہوں ، زمیں کا بیٹا ہوں

شکر ہے میں بہشت زادہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

نہ کسی سے کرم کی امید رکھیں ، نہ کسی کے ستم کا خیال کریں

ہمیں کون سے غم ملے ہیں نئے کہ جو دل کے زیاں کا ملال کریں

 

ابھی صرف خیال ہے خواب نما ، ابھی صرف نظر ہے سراب نما

ذرا اور خراب ہو وضع جنوں تو وہ زحمت پرسش حال کریں

 

وہی شہر ہے شہر کے لوگ وہی ، غم خندہ و سنگ و صلیب وہی

یہاں آئے ہیں کون سے ایسے سخی کہ جو لطف سخن کا سوال کریں

 

سنے کون یہ طعنہ چاک گری ، سہے کون یہ داغ کمال رفو

چلو درد وجود جگائیں سحر ، چلو زخم حیات بحال کریں

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا کے نوحے

 

 

یہ اک خرابہ

جو میرے اشکوں کا منتظر ہے

یہ استعارہ ہے میرے دل کا

وہی اداسی ، وہی خموشی

جو سر خوشی کی تمام سمتوں پہ چھا چکی ہے

 

کسی شکستہ مکاں کی دہلیز

اور سوکھے درخت کی کرم خوردہ شاخیں

مجسموں اور طاقچوں کی شکستہ قوسیں

شکستہ سائے ، شکستہ چہرے

 

چہار جانب ہے ہُو کا عالم

ہیں بود و نابود محو پیکار

ان کے مابین اعتبار وجود پرچھائیں ہے

جو قعر عدم سے ابھری ہے رفتہ رفتہ

 

یہ ایک پرچھائیں جسم کو ڈھونڈنے چلی ہے

جو شاید اپنی اداس پرچھائیں سے بچھڑ کر

ہوا کے نوحوں میں بازگشت کی تشکیل کر رہا ہے

کسی ادھورے گنہہ کی تکمیل کر رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پھر اس کے حق میں دلیلیں سنائی جائیں گی

یہ عہد ترک محبت ہے آخری کوئی

 

—————

 

جس بزم میں گیا طلب سر خوشی لیے

مجھ سے ترے خیال نے پوچھا یہاں کہاں

 

 

 

 

عرصۂ جنگ

 

 

عرصہ زیست ہے وہ عرصۂ جنگ

جس میں ہر ہر قدم پہ ہے پیکار

کہیں کہسار کشتہ تیشہ

کہیں دریا کی راہ میں کہسار

ہے کہیں نوک خار قاتل گُل

کہیں صر صر ہے یرغمال بہار

 

سوچتا ہوں تو ہر دغا میں مجھے

اپنی صورت دکھائی دیتی ہے

ہے مرا جسم ہی بہت شاطر

میرے ہی رُوپ ہیں بہار و خزاں

میرے ہی ہات ہیں تفنگ و سناں

کار زار حیات میں آخر

میں خود اپنے پہ کیسے تیر چلاؤں

خود کو کس طرح دار پر کھینچوں

اپنے ہونٹوں پہ کیسے مُہر لگاؤں

اپنی آنکھوں پہ کیسے وار کروں

خنجر بے نیام کے مانند

اپنے سینے میں کس طرح اُتروں

ہے ہر اک شخص پر گماں اپنا

کون دُشمن ہے کون دوست کہ میں

خود ہی اپنا ہوں ، خود پرایا ہوں

نُور و ظلمت کی رزم گاہوں میں

میں ہی سورج ہوں ، میں سایہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اے مہر تابناک تری روشنی کی خیر

کچھ لوگ زیر سایہ دیوار جل گئے

 

 

 

کچھ کرم ہم پہ برملا تو ہوئے

بندگانِ خدا ، خدا تو ہوئے

 

یاں تو ردّ عمل ہی تھا ناپید

کم سے کم لوگ کچھ خفا تو ہوئے

 

نہ سہی ہم چمن میں موجِ صبا

دشت و در کے لیے ہوا تو ہوئے

 

نہ سہی ہم افق پہ رنگِ شفق

تابشِ شعلہ حنا تو ہوئے

 

خیر ہم کچھ نہ ہو سکے لیکن

کچھ نہ ہونے سے آشنا تو ہوئے

 

کارِ دنیا اب اور کیا سیکھیں

مسکراتے ہوئے خفا تو ہوئے

 

دوستوں کی طرح ملے نہ مگر

دوستوں کی طرح جدا تو ہوئے

 

خیر ہو تیرے جاں نثاروں کی

لوگ شرمندہ جفا تو ہوئے

 

ہم زیاں کوش زندگی کے طفیل

خوگرِ ترکِ مدعا تو ہوئے

 

دے کے صدیوں کے انتظار کا غم

چند لمحے گریز پا تو ہوئے

 

سرِ یومِ حسابِ ذات سحر

ہم ہی اپنے لیے سزا تو ہوئے                     ٭٭٭

 

 

تمنا کا عذاب

 

 

میں کسی خواب کی وادی میں نہیں ہوں زندہ

میری رگ رگ میں بھی ہے شہر وفا تابندہ

یہ الگ بات کہ رفتہ ہے نہ اب آیندہ

 

کونپلیں شاخ تمنا پہ سجی دیکھی ہیں

اور پھر درد کی مٹی میں ملی دیکھی ہیں

چاند کو چاند سمجھنے کی حقیقت جو کھلی

رنگ ادراک پہ کرنی ہی پڑی طعنہ زنی

 

یوں ہی طاقوں میں سجائے ہوئے نازک گلدان

نکل آتے ہیں کبھی خار مغیلاں کی دکان

ایسے صدمات کو سہنے کا طریقہ کیا ہے

زندگی ایک سیاست ہے سلیقہ کیا ہے

ہے سراب اصل حقیقت کہ حقیقت ہے سراب

ہے یہی کشمکش ذہن ، تمنا کا عذاب

 

میں جو پتھر ہوں ہمیشہ سے نہیں ہوں پتھر

نہ مری روح تھی پتھر نہ مرا خُوں پتھر

میں بھی ہستی تھا ، حرارت تھا ، توانائی تھا

داد خواہ خرد افروزی بینائی تھا

میں تماشا ہی نہیں خود بھی تماشائی تھا

 

مجھ کو معلوم ہے اس دور کے حساس وجود

دیکھتے دیکھتے بن جاتے ہیں کیسے پتھر

کس سے کیجیے کسی معیار کی ، اقدار کی بات

گردش وقت میں گُم ہے مری رفتار کی بات

٭٭٭

 

 

 

جو غرق ہو گئے انہیں ساحل نہ راس تھا

اور وہ جو لوٹ کر لب ساحل سے آئے ہیں

 

 

کنارِ بحر

 

 

کیا تمہیں یاد ہے وہ شامِ گریزاں اب تک

دامنِ بحر میں چہرے کو چھپائے سورج

موج در موج گزرتا ہی چلا جاتا تھا

 

ساحلِ بحر کی نم ریت پہ بیٹھے بیٹھے

تم نے انگشت حنائی سے لکھا تھا مرا نام

اور دزدیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا

 

میں نے بے جان لکیروں سے کئی پھول بنائے

اپنی دانست میں سو رنگ کے گلزار کھلائے

کتنے شاداب تھے ، کس درجہ سبک تھے وہ خطوط

 

ہم نے اس ریت کو سمجھا تھا کوئی صفحہ سنگ

یا اک آئینہ جس پر کبھی لگتا نہیں زنگ

پھر کسی خوف سے تھرّا گئے دونوں کے بدن

 

بحر کی بڑھتی ہوئی موج نے آگے آ کر

ریت پر لکھے ہوئے نام مٹا ڈالے تھے

حسن اور عشق کے پیغام مٹا ڈالے تھے

٭٭٭

 

برٹرینڈ رسل

 

 

وہ ایک عہدِ تغیر ، وہ اِک صدی کا ضمیر

بدن کی شکل میں قائم نہیں رہا لیکن

اداس ، اداس ، فسردہ فضاؤں کی صورت

اب اس کی راکھ کو چہروں پہ اپنے مَل لیجیے

خرد کے شہر میں جس سے چلی ہے رسمِ جنوں

اب اس کی فکر سے روحوں میں روشنی کیجیے

 

تھی اس کی فکر اندھیروں میں آفتابِ یقیں

وہ اپنی ذات سے اِک محشرِ بغاوت تھا

عدالتوں سے کب انصاف کی تھی اُس کو اُمید

وہ مُجرمانِ زمانہ کو خود عدالت تھا

رقم ہوا وہ کبھی پرچمِ صداقت پر

کبھی وہ امن کی ہیکل میں مثلِ عود جلا

دل تباہ سے اٹھتی ہوئی فغاں کی طرح

سکوتِ شام میں گونجی ہوئی اذاں کی طرح

رہا ہمیشہ وہ اہلِ وفا کے دوش بدوش

وہ کیوبا ہو کہ ویت نام و ہیروشیما ہوں

ہر ایک موڑ پہ ہیں ثبت اس کے نقشِ قدم

شباب و شیب کی تعزیر ہے گواہ کہ وہ

ہر ایک دَور کے زندانیوں میں شامل تھا

نگار و بادہ و رقص و سرود کے با وصف

وہ اپنے عہد کی ویرانیوں میں شامل تھا

دکھائے اس کے تصور نے اک جہان کے خواب

نئی زمین کی آنکھوں سے آسمان کے خواب

یہی سبب ہے کہ ایوانِ فکر و دانش میں

ہزار راکھ کے پردے گرائے جائیں مگر

وہ جسم و ذہن بھی زندہ ہے ، لب بھی زندہ ہیں

وہ خواب مشرق و مغرب میں اب بھی زندہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے

ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے

 

وہ پاس آئے تو موضوعِ گفتگو نہ ملے

وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے

 

ہم اپنی راہ چلے ، لوگ اپنی راہ چلے

یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے

 

وہ گردشیں ہیں کہ چھُٹ جائیں خود ہی ہات سے ہات

یہ زندگی ہو تو کیا ربطِ جاں کسی سے رہے

 

کبھی ملا وہ سرِ رہ گزر تو ملتے ہی

نظر چُرانے لگا ، ہم بھی اجنبی سے رہے

 

گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی

خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے

٭٭٭

 

 

 

نظامِ شمسی

 

 

 

سطحِ زمیں بھی چرخِ بریں سے کم تو نہیں

ذرّوں میں بھی روشن چاند ستارے مل جاتے ہیں

گلیوں کی سنسان فضا میں لمحہ لمحہ

زیست کی گردش ماہ و سال بنا کرتی ہے

 

دنیا بھی ہے ایک نظامِ شمسی جس کو

نا پختہ ، ناقص ذہنوں نے

جب بھی وہم و گماں کی تنگ رصد گاہوں کے

دھندلے عدسوں سے دیکھا ہے

نظمِ جہاں کو بے ترتیب سمجھ کر

سطحِ زمیں کے سیّاروں کی بابت اکثر یہی کہا ہے

ان میں باہم کوئی کشش موجود نہیں

اپنے اپنے محور پر سب گھوم رہے ہیں

٭٭٭

 

 

جا کے طرحدار یار اب نہ کبھی آئے گا

حُسن کا پروردگار اب نہ کبھی آئے گا

 

عُمرِ رواں کی طرح اپنے خُتن کی طرف

آہوئے شہرِ نگار اب نہ کبھی آئے گا

 

میکدہ زیست میں میرے لبوں کی طرف

جامِ لبِ نغمہ بار اب نہ کبھی آئے گا

 

لاکھ مچے ہائے و ہو ، لاکھ سجے کاخ و کو

شہر میں وہ شہر یار اب نہ کبھی آئے گا

 

اب نہ ملے گا کسی بزم میں وہ جانِ بزم

راہ میں وہ شہسوار اب نہ کبھی آئے گا

 

اب نہ کبھی آئے گی لب پہ ہمارے ہنسی

دل کو ہمارے قرار اب نہ کبھی آئے گا

 

زیست ہے بُت خانہ وہم و طلسمِ خیال

نقش گرِ اعتبار اب نہ کبھی آئے گا

٭٭٭

 

جہان گزراں

 

 

رکھے ہیں میری میز پہ سب خاک کے ذرات

بکھرے ہیں میرے سامنے اوراق سماوات

ہے خوابگہ ارض و فلک جوف شب تار

ہیں جوف شب تار میں بیدار خیالات

ہیں شعلہ فگن وقت کی بے رحم زبانیں

ہیں لرزہ بر اندام شکایات و مفادات

 

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس عرصۂ غم میں

ہیں وقت کی خوراک نباتات و جمادات

انسان کے ہاتوں میں ہیں فطرت کی عنانیں

انسان ہے آقائے فلزات و بخارات

انسان کے قبضے میں ہے کُل گردش و رفتار

انسان ہے معمار محلات و عمارات

ہیں ثابت و سیار پہ انساں کی کمندیں

تکوین کے آثار ہیں انساں کے اشارات

کچھ سوچ رہے ہیں کہ بایں حکمت و دانش

احساس زیاں کیوں ہے بھلا معتکف ذات

اس کہنہ گزرگاہ کی ہر شے گزراں ہے

اشجار کہ اجسام کہ افکار و خیالات

ہر آن گزر جاتا ہے بے گانہ وشی سے

رہ جاتے ہیں ہر آن کے ناخواستہ صدمات

محروم ہے ، شاکی ہے، فسردوہ ہے ، حزیں ہے

وہ تارک دنیا ہو کہ ہو بندہ لذات

عاجز ہے نباتات و جمادات کے مانند

ہو صاحب الحاد کہ پیغمبر تورات

 

ہر سمت ہے اک کشمکش گردش و رفتار

ہر سمت ہے اک جبر پُر اسرار و پُر آفات

ہر سانس ہے اک معرکہ صرصر وکہسار

اس رزم میں کیا ضرب پر کاہ کی اوقات

کیا جذب و کشش ، ربط و وفا ، انس و محبت

کیا دوستی و رشتہ و اخلاص و عنایات

 

ہر چیز ہے بے معنی و لمحاتی و فانی

ہر شخص ہے آئینہ اوہام و طلسمات

انفاس کی جنبش کی حقیقت ہے بھلا کیا

جب گھات میں ہو زہر سر خنجر آنات

 

کمرے میں مرے کون ہے اے خلوت جاں بول

اب کاکل و عارض ہیں نہ افسانہ و نغمات

اب حکمت و دانش ہے نہ شعر و ہنر و رنگ

معمل ہے نہ معبد ہے ، نہ آلات ، نہ آیات

اک میں ہوں نگارندہ تقویم مہ و سال

اک سوزن ساعت ہے شمارندہ لمحات

٭٭٭

 

 

میرے قبضے میں نہ رفتہ ہے نہ آیندہ ہے

اک یہی لمحہ موجود ابھی زندہ ہے

 

 

 

 

فصل

 

 

میں ہوں دریچے کے قریب

اور بادلوں کے قافلے

آکاش کے خیمے تلے

پھر کوچ کو تیار ہیں

لمحے مگر عیار ہیں

پھر میرے تنہا ذہن پر

ہنس ہنس کے طاری کر گئے

سب تجربوں کے سلسلے

 

ہیں اعتبارات خرد

کیوں درپئے رسم جنوں

انسان ہے خوار و زبوں

یہ کار گاہ جبر ہے

اور آب و گل کا ہر محل

محرومیوں کی قبر ہے

 

یہ اعتبارات خرد

شاید نہ واقف ہو سکیں

امید و عزم و آرزو

تحریک و شوق و جستجو

سعی و تگ و تاز و طلب

توقیر ہستی کا سبب

کہسار کے جامد قدم

کب کر سکے رقص طرب

 

دار الشفائے جبر میں

زخموں کو مرہم کب ملا

دست صبا کو دشت میں

خوشبو کا پرچم کب ملا

دن بھر کے تنہا شہر میں

سورج کو ہمدم کب ملا

اور سبزہ خوابیدہ کو

پیغام شبنم کب ملا

 

اُڑتی ہوئی چنچل ہوا

آ کر دریچے کے قریب

شیشے کے بنجر کھیت میں

بارش کے قطرے بو گئی

اور فصل برق و باد کو

امکان تازہ ہو گئی

احساس کی دیوار سے

گرد الم کو دھو گئی

٭٭٭

 

 

 

قائل ہم اپنے دیدہ پُر آب ہی کے ہیں

پھر منتظر تلاطم و سیلاب ہی کے ہیں

 

سیارگان چرک سے تا زلف مشکبار

حلقے تمام عالم گرداب ہی کے ہیں

 

مرجانہ و حسینہ و سلمی و نازیہ

یہ سارے نام خواب کے تھے خواب ہی کے ہیں

 

پیراہنوں کی سُرخ شفق ، عارضوں کی دھوپ

یہ عکس میرے ساغر خونناب ہی کے ہیں

 

آہنگ و رنگ و چنگ کا دشمن نہیں کوئی

دشمن تمام نغمہ کمیاب ہی کے ہیں

 

برگ خزاں رسیدہ ہیں لبریز جوش غم

نوحے ہواؤں میں دل بیتاب ہی کے ہیں

 

لب تشنگاں کو جام مئے ارغواں سے کیا

ہم تشنگاں تو جرعہ زہراب ہی کے ہیں

 

یہ بھی کھُلا کہ خاک نشینان کوئے غم

دلدادگان ریشم و کمخواب ہی کے ہیں

 

یہ حسرتیں کہ سینہ مہتاب میں سحر

دیکھا تو داغ مہر جہانتاب ہی کے ہیں

٭٭٭

 

 

 

مآل سنگ باری دیکھ اے طفل غم ہستی

شکستہ ہو گئے ہیں عکس اور آئینہ باقی ہے

 

 

 

دُوسرا غم

 

 

شہر ، انسانوں کا سیل بیکراں

مجھ سے بچ کر بہہ رہا ہے عرصہ شام و سحر کے درمیاں

اجنبی چہرے ، گریزاں جسم ، لرزاں ساعتیں

ہیں طسلم گردش و رفتار میں

اپنے اپنے دل کی نازک آہٹوں سے بے خبر

 

شہر کے سب سے بڑے بازار میں

ناسزا جنس تجارت بن گیا میرا وجود

سود و سرمایہ کا یہ بیدار مقناطیس بھی

ہو گیا ہے میرے حق میں آہن زنگ آشنا

سنگ و آہن کے حصاروں میں اسیر

میں ہوں ، اور میری رگوں میں گھل رہا ہے

میری تنہائی کا زہر

 

میں ہوں اپنے میں مقید

اور میرے ذہن میں محو سفر ہے سوچ کی گہری لکیر

سوچتا ہوں ذات کے اظہار کا

ایک غم لفظ و بیاں کے ساتھ رسوا ہو چکا

دُوسرے غم کو چھپانے سے بھی کیا مل جائے گا

دوسرا غم بھی اسی غم کی طرح

مجھ کو مجھ سے چھین کر لے جائے گا

 

آخر اس دیوانگی کا کیا علاج

لے رہا ہوں فصل گُل سے یوں خراج

پھر رہا ہوں شہر میں باد بیاباں کی طرح

آخر اس دیوانگی کا کیا علاج

اک ہجوم نور و نکہت سے جدا

راستوں پر یوں اکیلے گھومتے رہنے سے کیا

چپکے چپکے جبر حس و آگہی سہنے سے کیا

ضبط غم کا گر یہی عالم رہا

ٹوٹ جائیں گی طنابیں جسم کی

اور بُجھ جائے گا یادوں کا الاؤ

دھند میں کھو جائیں گے رج کے خواب

راستوں پر یوں اکیلے گھومتے رہنے سے کیا

آدمی سے آدمی کے اجنبی رہنے کا غم

ذات کے سارے غموں سے ہے شدید

 

رات ڈھلتی جا رہی ہے پاؤں شل ہونے لگے

راستوں کی بے حسی سے ذہن بھی تھکنے لگا

گھر پہنچ کر پھر خیال صبح میں کھو جاؤں گا

روح کی تاریک راتیں اوڑھ کر سو جاؤں گا

٭٭٭

 

سیپیاں

 

 

 

ہے اپنی زندگی گہرا سمندر

جہاں ہم انبساط و غم کے مارے

خود اپنی تھاہ پانے کے جنوں میں

تمنّاؤں کی امواج سکوں میں

خرد کے نرم کنکر پھینکتے ہیں

 

کبھی جذبات کے آبی پرندے

فضائے بیکران جسم و جاں میں

اٹھا لاتے ہیں آوارہ ہوا کو

دماغ و دل میں در آتی ہے فرحت

 

ہم اپنے تجربوں کی ریگ نم پر

نقوش پائے حسرت ثبت کر کے

بہت مسرور ہوتے ہیں کہ جیسے

مکمل ہو گئی تجسیم وجدان

 

کبھی اکتا کے اس یکسانیت سے

ہم اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپائے

بڑی سنجیدگی سے سوچتے ہیں

کہ ہم لمحات کی موجوں میں گُم صُم

جواز سعی لا حاصل کی خاطر

اسی گہرے سمندر کے کنارے

نجانے کتنے قرنوں تک مسلسل

طلب کی سیپیاں چنتے رہیں گے

پیام ریگ نم سنتے رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

ہنستے چہرے بھی دھوکا ہیں ، روتی آنکھیں بھی ہیں فریب

لوگ نجانے دل میں کیا کیا بھید چھپائے پھرتے ہیں

 

 

دو راہا

(خود کلامی)

 

تم جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر تھے

گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا

"کیا تم سچ کی راہ پر چل سکتے ہو؟”

تم چپ ہی رہے

گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا

"کیا تم جھوٹ کی راہ پر چل سکتے ہو؟”

تم چپ ہی رہے

اور "ہاں” کے سارے لمحے گزر گئے

 

تم جانتے ہو "ہاں” کہنے کے سارے لمحے گزر گئے

اب جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر یوں کھڑے ہوئے

"نہیں” کے لمحوں کو بے کار گنواتے کیوں ہو

٭٭٭

 

شہر کا شہر ہے شہید فغاں

پائیے جا کے داد ضبط کہاں

 

میری حالت پہ دیدہ گریاں

اس قدر رو کہ ڈوب جائے مکاں

 

کوئی کرتا بھی اعتبار تو کیا

میں نہ تھا اعتبار سود و زیاں

 

یہ مسرت بھی کیا دل برباد

یہ تبسم بھی کیوں غم پنہاں

 

کون سی فصل آ گئی آخر

لمس باد صبا ہے نوک سناں

 

کیا لکھا ہے میری بہار کے نام

خندہ گُل کہ شبنم مژگاں

 

کیا چراغوں کی آرزو کیجیے

پھیلتا جا رہا ہے دل میں دھواں

 

اے خداوند درہم و دینار

جنس احساس اور شرط دکاں

 

کون آزاد کر سکے گا مجھے

میں ہوں صید یقیں ، اسیر گماں

 

کس نے لکھی ہے اس سلیقے سے

ورق گل پہ داستان خزاں

 

بھولتا جا رہا ہوں اپنی وفا

یاد ہیں تیرے وعدہ و سماں

 

اپنی بربادیاں بھی میرا ضرر

تیری افسردگی بھی میرا زیاں

 

میں ہوں اپنا شہود ، اپنی نمود

مجھ میں گُم ہیں میرے زمان و مکاں

 

کیا قیامت ہے یہ فریب ابد

لکھ رہا ہوں ازل سے فرد زیاں

 

خوب ہیں یہ رفاقتیں بھی سحر

کوئی ساحل ہے ، کوئی موج رواں

٭٭٭

 

 

 

آثار خانہ

 

 

زمیں کی تہہ بہ تہہ تاریکیوں میں جھانک کر دیکھو

نہ جانے کتنے سورج سو گئے اس قید خانے میں

یہ زنگ آلود آوازیں ، یہ گرد آثار فریادیں

نہ جانے محرم صیقل رہی ہیں کس زمانے میں

نہ ارشادات کی فصلیں ، نہ ایجادات کی نسلیں

نمو مرجھا گئی ہے زندگی کے دانے دانے میں

شناسا چاپ ہے کوئی ، نہ کوئی آشنا دھڑکن

سبھی خاموش ہیں خاموشیوں کے کارخانے میں

نہ دانش کی کوئی وقعت ، نہ وحشت کا کوئی مصرف

شکستہ آئینے رکھے ہیں اس آئینہ خانے میں

یہ ریزہ ریزہ حکمت پارہ پارہ فلسفے کتنے

یہ گرد اُڑتی ہوئی علم و ہنر کے آستانے میں

یہ کن سانسوں کی الجھی گتھیاں اب تک سسکتی ہیں

لبوں سے دُور اپنی حسرتوں کے قید خانے میں

یہ کن ادوار کے خود کار سائے ہو گئے ساکت

سر میزان غم ، نفع و زیاں کا رمز پانے میں

یہ نغموں کا دھواں ، یہ بربطوں کی آتش سیال

نہ جانے کون سا آہنگ تھا کس کے ترانے میں

نہ جانے کون خط و خال و جسم و وزن سے عاری

نہ جانے کیا ، گزشتہ وقت کے تصویر خانے میں

نہ فرش و سقف کی زینت نہ بام و در کی آرائش

عمارت گر گئی تعمیر کی تہمت اُٹھانے میں

زمیں نے اپنے سینے میں چھپا رکھا ہے قوموں کو

ہزاروں مردہ تہذیبیں ہیں اس آثار خانے میں

 

شعور رفتہ و حاضر میں شاید فرق ہے اتنا

کہ ہم نے قلب انسانی رکھے ہیں مرتبانوں میں

فضائے دہر کو پاکیزہ رکھنے کی تمنا میں

ہلاکت خیز گیسیں بھر رکھی ہیں اسطوانوں میں

ہزاروں زخم خوردہ جسم راہوں مین سسکتے ہیں

مگر لاشیں حفاظت سے رکھی ہیں مردہ خانوں میں

ہے دل آزاد مرگ سبزہ و اشجار کے غم سے

بریدہ برگ رکھ کر معملوں کے برگ دانوں میں

زمیں کے زہرہ و مریخ اندھیروں میں بھٹکتے ہیں

جلی ہے مشعل فولاد و آہن آسمانوں میں

چلی ہے فکر استبداد شہر موسم گل کو

سموم دشت بھر کر پھول جیسے بادبانوں میں

 

حریر و مخمل و کمخواب کی تذلیل کی خاطر

برہنہ جسم بکتے ہیں تمدن کی دکانوں میں

قبائل کے برشتہ گوسفندوں پر ترس کھا کر

سگ و خنزیر کو ہم نے سجا رکھا ہے خوانوں میں

دماغ و دیدہ و دل شامل اسباب نایابی

لب و پستان و ناف ارزاں ، ہوس کے کارخانوں میں

غذائے کرگسان روز و شب قلب ہنر منداں

جنوں ہے بستہ زنجیر طاعت کی چٹانوں میں

 

زمیں کی تہہ بہ تہہ تاریکیوں میں جھانک کر دیکھو

یہ کس نے راکھ بھر دی ماہ و انجم کے خزانوں میں

نہ جانے ہم سے پہلے کتنی نسلوں نے کہا ہوگا

نہ جانے بحث ہوئی ہوگی کتنے نکتہ دانوں میں

ابھی تو مقتل ماضی ہے اور امروز کا خنجر

ہماری زندگی گزرے گی آئندہ زمانوں میں

٭٭٭

 

 

زندگی

 

 

 

زندگی تیرے نام پر ہم نے

خیر و شر کے طلسم خانے میں

آفرینش کے وقت سے اب تک

کتنے افسوں جگائے ہیں لیکن

ہر فسوں تو نے ہنس کے توڑ دیا

 

صفر و اعداد کی کمندوں میں

باندھ کر ہندسی مسافتیں

ہم نے کون و مکاں اسیر کیے

انہی اعداد سے یہ راز کھلا

ذرہ و کائنات کے مابین

ابتدا ، انتہا ، حدیث و قدیم

ہیں فقط ہندسی مسافتیں

 

آگہی کی انہی کلیدوں سے

قفل ذرات ہم نے کھول دیے

ہو گئے چاک طاقتوں کے لباس

نغمہ و حرف و رنگ خاک ہوئے

 

اک سماروغ شکل کا عفریت

فرش سے تابہ عرش پھیل گیا

یہی عفریت ذہن انساں میں

بن گیا جبر مرگ کا کابوس

زندگی ، زندگی سے ہے مایوس

موت اور زیست کی کشاکش میں

یہ بھی ممکن ہے چند ہونٹوں کے

حکم سے زندگی کے دامن میں

آ کے چھپ جائے موت کا عفریت

کچھ نہ باقی رہے فنا کے سوا

 

پھر بھی اے زندگی بنام بقا

تو ہی الفا ہے تو ہی اومیگا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں

 

 

میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں

ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں

جو اپنی ماؤں کی کوکھ میں زندگی سے ہم رشتہ ہو چکے ہیں

جو گردش خون وحدت قلب سے بھی وابستہ ہو چکے ہیں

میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں

کہ میں بھی اک دن انہی کے مانند

علائق دہر سے مبرا نجانے کس ذرہ تمنا میں

سانس لیتا رہا تھا برسوں

یہ زندگی جانے کس ہنر سے

مجھے اُٹھا لائی اجنبی اجنبی فضاؤں میں سانس لینے کی

اک مشقت میں خود کو پہچاننے کی خاطر

 

میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں

ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں

کہ ان کے آنے سے زندگی اپنی کون سی راہ چھوڑ دے گی

یہ زندگی تو وہی رہے گی جو میرے حق میں رہی ہے اب تک

وہی شب و روز کی مشقت

وہی شکم پروری کی خاطر

خود اپنی فطرت کے بر خلاف اپنی محنتوں کو فروخت کرنا

اور اپنی تنہائیوں سے بچنے کی آرزو میں

کبھی کسی ماہ وش سے پیمان دوستی باندھ کر شب و روز

سبک ہواؤں کی طرح راہوں میں رقص کرنا

اور اس کے وعدوں کے زخم سہنا

کبھی کبھی حرف و کلک و قرطاس میں سما کر

یہ سوچنا ، زندگی تو اک سود لازمی ہے

کو کتنے انجانے سودخوروں کی جیب میں جا رہی ہے پیہم

 

جو ذہن رکھتے ہیں سوچنے کو

جو آگہی کا لباس پہنے برہنہ شہروں میں آ گئے ہیں

وہ یوں ابھرتے ہیں اس حصار جمود و گردش مین رفتہ رفتہ

کہ جیسے چشم حباب ابھرتی ہے تند موجوں کے دیکھنے کو

مگر سمندر کی تند موجیں

سبھی حبابوں کو پھوڑ دیتی ہیں

اور ان کے سفید چھینٹے

سیہ سمندر کی بیکروں وسعتوں میں کھو کر

وجود کی سب نشانیوں کی ہنسی اُڑاتے ہیں لمحہ لمحہ

 

یہ کھیل یوں ہی رہا ہے اب تک

یہ کھیل یوں ہی رہے گا شاید

کہ اس کے پردے میں اب بھی انجان لوگ معصوم جسم لے کر

ہماری بوجھل رفاقتوں سے

ہماری پنہاں محبتوں سے

نچوڑ لیتے ہیں بادہ اعتبار ہستی

 

میں اپنے زخموں کے آئینوں میں

زمیں کی پرچھائیوں اور اپنے اداس چہرے کے ساتھ ان کے

نہفتہ چہروں کو دیکھتا ہوں

ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں

٭٭

 

(یکم اگست ۱۹۶۶ء)

٭٭٭

 

 

خزاں کی برف

 

 

خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر

افق پہ آئی نظر طائروں کی پہلی صف

سفیر موسم احساس ، ہجرتوں کے نقیب

پروں میں تازہ ہواؤں کی نرمیاں لے کر

نئی فضا میں بنانے کو ہیں نئے مسکن

 

کرن کرن یہ نئے آفتاب کے قشقے

دمک اٹھی ہے پہاڑوں کی سرمئی چتون

سفید برف کی سب دھجیاں تمام ہوئیں

اتارتی ہے زمیں تار تار پیراہن

ہیں انگ انگ میں قوس قزح کے ساتوں رنگ

ملا ہے ساق و قمر کو یہ کون سا آہنگ

 

زمیں کی ایک ہی کروٹ نے کیا کیا جادو

بدن کی خُشک رگوں میں اُٹھا وہ سیل نمو

کہ ذرہ ذرہ دریچہ ہے تازہ چہروں کا

کسی کی آنکھ ہے نرگس ، کسی کے ہونٹ گلاب

یہ نیلوفر سے تبسم ، یہ یاسمن سے خطاب

 

نہ اوس ہے نہ کہیں دھُند ہے ، نہ ویرانی

اُجاڑ پیڑ کہ تھے شاخ شاخ ویرانہ

نئے لباس پہن کر تمام سج دھج کر

سنا رہے ہیں نئی کونپلوں کا افسانہ

خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر

 

مکان کُہر میں پنہاں ، نہ چمنیوں میں دھواں

بجھے بجھے نظر آنے لگے ہیں آتش فشاں

وہ سرخیاں کہ رہیں گرم کوئلوں میں اسیر

پھر آج توڑ کے شعلوں کی آتشیں زنجیر

ہیں تازہ تازہ گلابوں کے فرش پر رقصاں

نہ کُہر کُہر اُداسی ، نہ برف برف خزاں

خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر

(کوئٹہ)

٭٭٭

 

حرف و صوت و صدا کا نشانہ ہوں میں

اپنی مجبوریوں کا بہانہ ہوں میں

 

سوچتا ہوں ہر ایک عکس کو دیکھ کر

کتنے چہروں کا آئینہ خانہ ہوں میں

 

مجھ کو صدیوں کے صحرا میں رُسوا نہ کر

لمحۂ خلوت محرمانہ ہوں میں

 

تُو گریزاں سہی ، سر کشیدہ سہی

تیرے ملنے کا تنہا بہانہ ہوں میں

 

خواب کی طرح آ کر چلا جاؤں گا

رہرو شب ہوں ، باد شبانہ ہوں میں

 

میں زمانے کو آخر بُرا کیوں کہوں

جانتا ہوں کہ خود ہی زمانہ ہوں میں

 

ہیں جو غم بہر تقدیر آیندگاں

ان غموں کا بھی آثار خانہ ہوں میں

 

درد مندی کے حق میں ہوں میں برگ گُل

بے حسی کے لیے تازیانہ ہوں میں

 

اس کو شک ہے مرے زخم دل پر سحر

جس خدنگ نگہ کا نشانہ ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب کبھی تذکرہ چھڑا نکہت و رنگ و نور کا

نکہت و رنگ و نور کے خواب دکھا دیے گئے

 

 

 

 

سر راہ

 

 

 

لمحہ بھر کے لیے چلتے چلتے قدم رُک گئے

خون کے تازہ تازہ نشان چھوڑ کر

کھانستی زندگی دونوں ہاتوں سے سینے کو تھامے ہوئے

جانے کس موڑ پر جا کے گُم ہو گئی

راستے کی سیاہی سے لپٹا رہا

اک اثاثہ جسے اپنے وارث کی کوئی ضرورت نہ تھی

ایک ٹوٹا ہوا آئینہ

جس میں آئینہ گر کی بھی صورت نہ تھی

 

میری آنکھوں نے اس خون تازہ کا نوحہ پڑھا

میری سانسوں کا ڈورا اُلجھنے لگا

اور پھر میرا انسان کچھ دیر میں

اپنے ہی جیسے انسان کے خون سے ڈر گیا

ایک نادیدہ مخلوق کے خوف سے مر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

    کیوں مقید رہوں نقش کف پا کے مانند

میں ہوں آزاد ، سمندر کی ہوا کے مانند

 

مطمئن ، خندہ بلب ، دیر سے تنہا تنہا

جانے کس سوچ میں بیٹھا ہوں خدا کے مانند

 

کنج احساس کو انفاس سے مہکائے ہوئے

مجھ سے ملتا ہے کوئی باد صبا کے مانند

 

خون ارماں ہی سہی ، آتش سوزاں ہی سہی

دل میں اک رنگ تو ہے رنگ حنا کے مانند

 

میں تھا خاکستر پروانہ ارمان و امید

لے اُڑا کوئی مجھے موج ہوا کے مانند

 

وضع اخلاص بھی بدنام ہے وحشت کی طرح

میں بھی رسوا ہوں ابھی چاک قبا کے مانند

 

تجھ کو پانے کے لیے جاں سے گزر جانا ہے

لیکن اک موجۂ سیلاب بلا کے مانند

٭٭٭

 

 

 

    شکست و ریخت

 

 

میں اپنے آپ پہ جس وقت غور کرتا ہوں

کہ چند سال مین کتنا بدل گیا ہوں میں

تو مجھ کو آج بھی ہوتا ہے بار ہا محسوس

کہ اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں میں

 

مری حیات کو تھا ناز جن سہاروں پر

انہی کو میں نے بڑی سرکشی سے ٹھکرایا

رہا ہے قلب کو اصرار جن کی عظمت پر

انہی "عظیم روایات ” پر ستم ڈھایا

 

میں کہہ رہا ہوں ہر اک بزم میں ببانگ دہل

خدائے قادر کن اب شعور ہے میرا

مگر یہ طرز یہ اقرار اتنا سہل نہ تھا

گواہ اس کا دل ناصبور ہے میرا

 

نئے خیال ، نئے کلیے ، نئے افکار

جب آئے بن کے مرے ذہن کے ندیم و حبیب

تو وہم و عقل کی ہر کشمکش کے بدلے میں

رہا ہے دل میں مرے مدتوں خلائے مہیب

 

ہے یاد مجھ کو، روایت شکن فضاؤں میں

صنم کدوں کی تباہی کا جب اٹھا تھا سوال

تو چیخ اٹھے تھے مری روح کے زمان و مکاں

کہ ان کی پشت پہ صدیوں کا ہے وقار و جلال

 

کسی کو بحث میں جب بھی شکست دی میں نے

تو سینہ کوب رہیں بے شمار تاویلیں

ملا بھی عقل کو منطق کی دوپہر میں سکوں

دیار جاں میں مگر چیختی پھریں چیلیں

 

شکست سحر و منار و کلس پہ ہو کے حزیں

خرد کی سیج پہ کب سوئی ہیں مری آنکھیں

بجھی ہے دل میں مرے جب بھی شمع وہم کوئی

تو صبح و شام لہو روئی ہیں مری آنکھیں

 

جلے ہیں جب بھی مرے جسم و جاں میں دیر و حرم

تو ہڈیوں کے چٹخنے کا شور میں نے سنا

ہنسا ہوں جب بھی کسی اعتبار مذہب پر

تو سیل اشک امڈنے کا شور میں نے سنا

 

کتاب وہم پہ کھینچا ہے جب خط تنسیخ

لرز اٹھا ہے قلم ، کانپ اٹھا ہے دست جنوں

لہو نچوڑ لیا جان کنی کی شدت نے

کھرچ کے چھوڑ دیا رنج نے بہ حال زبوں

 

کہا ہے مجھ سے مرے گھر کے ہر دریچے نے

سکون زیست گنوانے پہ کیوں ہو آمادہ

کہا ہے جاگتی راتوں میں مجھ سے بستر نے

کہ عقل و ہوش کے کیوں ہو گئے ہو دلدادہ

 

کبھی رہی ہے مری میز جیسے مجھ سے خفا

کبھی خموش کتابوں نے احتجاج کیا

کبھی ثواب نے گردن میں ڈال دیں بانہیں

کبھی عذاب نے درس خرد شکار دیا

 

میں مارا مارا پھرا اجنبی دیاروں میں

کہ جیسے دسترس غم سے بھاگ جاؤں گا

ہر اک قدم پہ یہی وسوسہ سا رہتا تھا

کہ ہر قدم پہ کئی بار لڑکھڑاؤں گا

 

میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ، الجھنے لگا

ہر ایک بزم میں تنہا رہا وجود مرا

کسی نے مجھ کو مری طرح کی پناہ نہ دی

کہ میں نے اپنی پناہوں کو پھونک ڈالا تھا

 

اور آج میں ہوں جو کہتا ہوں اک زمانے سے

کہ میں حریف ہوں اوہام کے زمانے کا

کسے خبر کہ مری جرات تکلم میں

ہے کرب کتنے عقیدوں کے ٹوٹ جانے کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

استفسار

 

 

بدی کو پانی کی طرح پی کر

گنہہ کو کھانے کی طرح کھا کر

یہ کون لوگ اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں معبدوں میں

یہ کون ہیں جن کے جسم بینکوں کا بوجھ اٹھائے

کتاب نفع و زیاں کی آیات بن چکے ہیں

یہ کون ہیں جن کی بے حیا گرسنہ نگاہیں

شریف جسموں کو بے قراری سے کھا رہی ہیں

یہ کون ہیں جن کے لب انہی کے خلاف تقریر کر رہے ہیں

یہ کون ہیں جن کے ہات انہی کا عذاب تحریر کر رہے ہیں

یہ کون ہیں جو خود اپنی نظروں میں گر چکے ہیں

اور ان کے ملبوس ان کے جسموں پہ معترض ہیں

یہ کون ہیں جن کے قصر و ایواں پہ کرگسوں کے

مہیب غول آ کے بیٹھتے ہیں

 

یہ کون ہیں جن کی روشنی تیرگی کی ہمسر بنی ہوئی ہے

جو جہل کی اجرتوں پہ قانع

گداز اعضاء پہ فخر کرتے ہیں محفلوں میں

یہ ریشمیں بستروں پہ سو کر

مہیب خوابوں سے ڈرنے والے

یہ اپنے در پہ کھڑے ہوئے

اپنے دست ممسک سے خود ہی کیوں بھیک مانگتے ہیں

یہ کون ہیں جن کی زندگی کرم خوردہ پوشاک بن چکی ہے

یہ کون ہیں جن کی آبرو خاک بن چکی ہے

یہ خشک پتوں کی ناشنیدہ روایتیں

اور ریگ صحرا کی بے سروپا کہاوتیں

سماعتوں کی تلاش میں کیوں بھٹک رہی ہیں

یہ کون ہیں جن کو اب یہ احساس ہو چلا ہے

کہ ان کی نسلوں کو اور ان کو

گزرتے وقت اور بہتے پانی کا غم رہے گا

اور ان کے دل پر

متاع جاں کا زیاں ہمیشہ رقم رہے گا

٭٭٭

 

 

 

    پائیز

 

 

آج بھی سرد ہواؤں کے نکیلے ناخن

دیر تک جسم میں پیوست رہے

شہر پر کہر کی یلغار رہی

اور سنسان گلی کوچوں میں

زندگی گردش و رفتار سے بیزار رہی

 

بے دلی معتکف ذات ہوئی لیکن

نظر آتے نہیں بام و در و دیوار حصار

زخم عُریاں کی پنہ گاہ یہاں کوئی نہیں

رب پائیز کی قدرت ہے کہ اس موسم میں

بجھ گئیں آگ کے شعلوں کی قناتیں یکسر

ہیں علم سرد ہواؤں کے تیر

نیم جاں برگ شجر

خاک بسر

اور اس بے سر و سامانی میں

بے ضرر زیست بھی سفاک نظر آتی ہے

عظمت خاک تہہ خاک نظر آتی ہے

زرد سورج کی ہلاکت کے لیے

ذرے ذرے میں آویزش پائیز و بہار

دیکھ کر تیز ہوا کی یلغار

چیختی ہیں مرے سینے کی خراشیں کیا کیا

نوحہ خواں رہتی ہیں لمحات کی لاشیں کیا کیا

نرغہ وقت سے اب بھاگ کے جاؤں تو کہاں

عسوتیں بند ہیں بے رحم لکیروں میں ابھی

دشت کی ریگ رواں شیشہ ساعت میں اسیر

اور میں ساعت و تقویم کا اک زندانی

ہوں کسی حرف تمنا کے اسیروں میں بھی

٭٭٭

 

 

 

حیراں کھڑی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں

اس بار فصل کاٹنے والے کہاں گئے

 

 

 

 

    تُو ہوا ، میں صرف گرد رہگزر کیسے رہوں

یوں ترے کوچے میں اے بیداد گر کیسے رہوں

 

بار ہوں جب ہر مسافت پر مرے نقش قدم

میں پرائے راستوں کا ہمسفر کیسے رہوں

 

نیم شب میں صبح کے آثار کا میں ہوں سفیر

ٹوٹتے تاروں سے لیکن بے خبر کیسے رہوں

 

ہے خود اک جبر مسلسل منصب آوارگی

در بدر جب خاک اُڑانی ہو تو گھر کیسے رہوں

 

میز پر رکھا ہوا گلدان دلکش ہے مگر

بے نیاز وحشت دیوار و در کیسے رہوں

 

کیوں نہ چاہوں پھر مکان حرف و معنی میں پناہ

وار کرتے دشمنوں میں بے سپر کیسے رہوں

 

کُوچہ و بازار میں گُم سانس لیتی خواہشیں

سانس لیتی خواہشوں کا نوحہ گر کیسے رہوں

 

لال پیلی دشمنی کے چیختے وحشی طیور

مجھ کو جنگل ہی میں رہنا ہے مگر کیسے رہوں

 

چھیڑ کر مٹی کے سارے تہہ بہ تہہ لمحوں کی بات

میں سحر رہن حیات مختصر کیسے رہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن

مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

 

    جواز برہمی نیک و بد نہیں معلوم

خلوص میں بھی مجھے اپنی حد نہیں معلوم

 

 

 

    محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت

میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت

 

آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر

ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت

 

ہر شخص پُر خلوص ہے ہر شخص با وفا

آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی بہت

 

عجز و نیاز ہیں صلہ شوق کی اساس

میرے مزاج میں ہے مگر سر کشی بہت

 

شاید کہ تیرے بادہ لب سے ہو کچھ سکوں

حصے میں میرے آئی ہے گو تشنگی بہت

 

اس احتیاط وضع کی زنجیر کے لیے

میں نے بھی کی ہے شہر میں آوارگی بہت

 

مستانہ وار وادی غم طے کرو سحر

باقی ہیں زندگی کے تقاضے ابھی بہت

٭٭٭

 

 

 

 

تاریکیوں کا حساب

 

 

 

نیم خوابیدہ بوجھل سبک سر ہوا

شب کی آغوش میں دفعتاً جاگ اٹھی

کسمساتی ہوئی سَر اٹھا کے چلی

شب کی آغوش سے سرد بوجھل ہوا

لڑکھڑا کے چلی بے خطر بے حذر

 

چُور نشے میں یک چشم عفریت شب

آنکھ کی سُرخ گولائی روشن کیے

ہے ہوا کے تعاقب میں ہر موڑ پر

کون روکے اسے کون ٹوکے اسے

 

ہیں تضادوں کے آسیب اس شہر میں

نفع و حرص و ہوس کی جبینوں کو بھی

چاند کے روپ میں ڈھالنے کے لیے

دست شب نے دو رویہ عمارات پر

روشنی کی لکیروں سے لکھے ہیں نام

 

شہر کی شاہراہوں پہ ہیں رقص میں

نیلگوں ، سُرخ ، پیلے ، ہرے دائرے

گاہ جلتے ہوئے ، گاہ بُجھتے ہوئے

 

ہر اندھیرے پہ ہے روشنی کا نقاب

اک ہوا ہے کہ جس کی نگاہوں میں ہے

شہر کے دل کی تاریکیوں کا حساب

 

شہر کے شب زدہ پیرہن میں کہیں

کہکشاں کی طرح روشنی تو نہیں

پیرہن میں سیاہی کے ہر داغ پر

روشنی کی لکیروں کے پیوند ہیں

اور اس شہر کے دل کی قندیل پر

روشنی کی لکیروں کے در بند ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ایک آواز

 

 

تم یہ کہتے ہو احساس کیا چیز ہے

اور احساس کی زندگی میں کوئی قدر و قیمت نہیں

زندگی تو کسی اور ہی رمز کا نام ہے

 

مگر تم نے اس رمز کو رمز کی طرح سمجھا کہاں ہیں

کبھی اپنے احساس کی آگ میں جل کے دیکھو

خود فریبی کے سب آبگینے پگھل جائیں گے

جہنم کے ان نیلے شعلوں کی بابت سنا ہے کبھی

جو کہسار پاروں کو خس کی طرح پھونک دیتے ہیں زہر نفس سے

اتنے سفاک شعلوں کی آماجگاہ

وہ جہنم

کوئی اور عالم نہیں

وہ احساس ہے جو تمہارے ہی سینے میں بیدار ہوتا ہے پہلے

 

اگر اس جہنم کی تاثیر سے بے خبر ہو چکے ہو

اگر اس جہنم کے شعلوں پر راکھ آ گئی ہے

اگر آخری اخگر خون برباد تک بجھ چکا ہے

تو سمجھو کہ ہستی کی نبضیں ہیں فصل زمستاں کے خاموش خیموں کی ٹوٹی طنابیں

جہاں اب الاؤ کے چاروں طرف چند خانہ بدوشوں کے نقش قدم رہ گئے ہیں

جہاں اب ہواؤں کے دامن میں خاک رہ کارواں تک نہیں ہے

یہ کنگال مفلس ہوائیں

بہت سر چھپاتی ہیں یخ بستہ پیڑوں کی شاخوں میں لیکن

وہ شاخیں جو خود ڈھونڈتی ہوں پناہیں

ہواؤں کی کیا میزبانی کریں گی

 

تم اپنے بھیانک خرابوں سے گھبرا کے بھاگو گے لیکن

ہواؤں کے نوحے تمہارا تعاقب کریں گے

تو پھر تم یہ سوچو گے اب ذہن میں سوچنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں ہے

عناں گیر لمحوں سے بچتے پھرو گے

مگر اپنے قدموں کی آہٹ کو کیسے چھپاؤ گے آخر

یہ دل اور دل کی یہی دھڑکنیں جن سے بے زار ہو

درد کے قافلوں کا جرس ہیں

ان کے خاموش ہوتے ہی تم اپنی راہوں سے نفرت کرو گے

 

تو پھر زندگی کا یہی رمز پوچھے گا تم سے

بتاؤ تمہیں اپنے احساس کی موت منظور ہے

بتاؤ تمہیں اپنے احساس کی موت منظور ہے

 

اور تم ، اپنے سارے دلائل کے با وصف

مٹی کے بت کی طرح چپ رہو گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود ساختہ حریف اٹھے ہیں پئے ستیز

اور وہ جو میری شان کے شایان بھی نہیں

 

————————–

 

اس آرزو میں کہ پہچان لیں مجھے مرے لوگ

بتا رہا ہوں خود اپنی نشانیاں کیا کیا

 

 

 

 

    بہت اُداس ہوں ، کوئی فسانہ کہہ مجھ سے

نہیں یہ عہد بھی ، عہد وفا ، نہ کہہ مجھ سے

 

اسی فضا میں مرے روز و شب گزرتے ہیں

شکست ذات کا ہر ماجرا نہ کہہ مجھ سے

 

حیات اصل میں ہے اپنے قرب کا احساس

ترے بغیر بھی جینا ہوا ، نہ کہہ مجھ سے

 

یہ گفتگو تو رفاقت کی اک ضرورت ہے

کوئی حدیث سُخن آزما نہ کہہ مجھ سے

 

جمال زیست ، تغافل شعاریاں تا چند

حکایت نگہ ، محرمانہ کہہ مجھ سے

 

میں اپنی خاک کے ذروں میں چھپ کے بیٹھا ہوں

مجھے بھی ڈھونڈ رہی ہے ہوا ، نہ کہہ مجھ سے

 

شکست دے گئی کاجل کو آنسووں کی لکیر

بچھڑ گیا ہے وہ رنگ حنا ، نہ کہہ مجھ سے

٭٭٭

الاؤ

 

ہم اجنبی تھے ، مسافر تھے ، خانہ ویراں تھے

اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی ہاتوں نے

بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے

تو اس کی روشنیِ احمریں کی تابش میں

 

خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا

کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو

ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش

کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر گرداں

 

ہماری اپنی صدا اجنبی تھی اپنے لیے

دلوں نے پہلے پہل زیر لب کہا ہم سے

کہ اہل ظرف و غریبان شہر احساسات

ترس رہے ہیں سخن ہائے گفتنی کے لیے

اور اس الاؤ کے شعلوں نے ہم سے باتیں کیں

ہماری گنگ زبانوں کو پھر زبانیں دیں

اور اپنی اپنی سنائیں کہانیاں ہم نے

کہانیاں جو حقیقت میں ایک جیسی تھیں

 

پھر اس الاؤ نے ہم سے کہا کہ دیوانو

وہ شے جو شعلہ فشاں ہے تمہارے سینوں میں

اسی کو زیست کا روشن الاؤ کہتے ہیں

یہی الاؤ ہے جس نے مہیب راتوں میں

شعور شعلہ طرازی عطا کیا تم کو

اسی الاؤ سے ابھرا ہے آرزو کا فسوں

اسی الاؤ سے سیکھا ہے تم نے اسم جنوں

اور اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ ہم سب نے

یہ ایک عہد کیا تھا اسی الاؤ کے گرد

کہ اس کی آگ میں خاشاک غم جلائیں گے

اور اس الاؤ کو اپنا خدا بنائیں گے

٭٭٭

 

 

 

ریزہ وجود

 

 

مرے وجود کا مکان

خار دار تار کا حصار جس کے ارد گرد

آدمی کا خون پینے والی زرد جھاڑیوں کے خار دار ہات ہیں

مری زمیں کے ارد گرد

کہکشاں کے خاردار دائروں کا رقص ہے

زمیں سے آسماں تک

وجود اپنے ان گنت حواس کا گناہ ہے

شعور و لمس و لذت و مشام کے سراب میں

میں پوچھتا ہوں سنگ میں گداز پنبہ ڈھونڈنے سے کیا ملا

 

یہ زندگی یہی تو ہے

کہ ریزہ ریزہ جمع کی ہوئی متاع زیست کو

ہوائے تند پھینک آئے دشت بے سواد میں

 

مری نظر کے سامنے

نہ جانے کتنے جسم تھے کہ ٹوٹ کر بکھر گئے

میں ایسے ہولناک تجربوں کے بعد بار بار

خود کو یوں سنبھالتا ہوں جیسے اپنے ہات سے

میں گر کے ٹوٹ جاؤں گا

مرا بدن اذیتوں کا خوان ہے

کبھی میں برف کی سلوں کی ہوں غذا

کبھی میں تیرگی کا رزق ہوں

کبھی میرے لیے ہے نوک دار خنجروں کا تخت خواب

اور آج ان اذیتوں کے درمیان

مرا وجود جیسے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا

میں برگ سبز تھا جسے

خزاں کا ہات شاخ تر سے توڑ کر چلا گیا

 

میں ایک سمت فلسفے کے ان گنت نکات کی پناہ ہوں

اور ایک سمت آگہی کے جبر کی کراہ ہوں

مسابقت کے دور میں وہ ساعتیں بھی آ گئیں

کہ حسن اور عشق میں متاع اور مشتری کا رمز جاگنے لگا

نہ عشق اتنا بے خبر

نہ حسن اتنا معتبر

کہ بے دلیل قضیہ وفا کی داد دے سکے

 

یہ کائنات بے حسی کی اک بسیط شکل ہے

نہ زندگی کا کچھ اثر

نہ موت سے کوئی خطر

اب ایسی کائنات میں

اس ایک ریزہ وجود کے حواس کیا کریں

اب ایسے سرد جسم کی برہنگی کو دیکھ کر

خلوص و مہر و لطف کے حسیں لباس کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

یہ ایک موج نظر میں کہاں سے ابھری ہے

مرے سراب سے کیا دُشمنی ہے دریا کو

 

 

    پیمانہ حال ہو گئے ہیں ہم

گردش مثال ہو گئے ہیں ہم

 

تکمیل کمال ہوتے ہوتے

تمہید زوال ہو گئے ہم

 

ہر شخص بنا ہے ناز بردار

جب خود پہ وبال ہو گئے ہم

 

دریوزہ گروں کی انجمن میں

کشکول سوال ہو گئے ہم

 

آئینہ کرب لفظ و معنی

فرہنگ ملال ہو گئے ہم

 

امکان وجود کے سفر پر

نکلے تو محال ہو گئے ہم

 

پہلے تو رہے حقیقت افروز

پھر خواب و خیال ہو گئے ہم

٭٭٭

 

 

 

    راہرو دشتِ غمِ آبلہ پا ہی تو ہیں

کارِ وفا کی دلیل ، اہل وفا ہی تو ہیں

 

کیوں ہیں گراں اس قدر اہل گلستاں پہ ہم

صحن گلستاں میں ہم مثل صبا ہی تو ہیں

 

اپنی قبا پر سجائے اپنے بدن کا لہو

اہل وفا کشتہ رنگِ خا ہی تو ہیں

 

لاکھ رہے پردہ دار ، لاکھ کرے قصدِ رم

نکہتِ گیسوئے یار ہم بھی ہوا ہی تو ہیں

 

تجھ سے مجھے آج بھی کوئی شکایت نہیں

جان جہاں ، میرے غم تیرے سوا ہی تو ہیں

 

زیست کے ہر باب میں یوں بھی کیے فیصلے

جیسے خدا کے بغیر ہم بھی خدا ہی تو ہیں

 

راہِ وفا میں رُکے کون ہمارے لیے

سنگِ گراں تو نہیں ، صرف صدا ہی تو ہیں

 

کھا کے نئے زخم زیست خندہ بلب ہو گئے

خندہ بلب کیا کہ لب زخم نما ہی تو ہیں

 

یہ بھی کوئی وصف ہے ، یہ بھی ہے خوبی کوئی

اہلِ وفا کے لیے ، اہلِ وفا ہی تو ہیں

 

حرفِ صداقت کا نام آپ نہ بدلیں سحر

لوگ خفا ہیں تو ہوں ، لوگ خفا ہی تو ہیں

٭٭٭

 

 

 

    ترکہ

 

میری آواز کو سُن کر اس سمت

آنے والو مُجھے چھُو کر دیکھو

میں کوئی خواب نہیں ، رُوح نہیں

یہ مرا جسم ، یہ میرے اعضاء

 

میرے الفاظ انوکھے ہیں مگر

ساری باتیں انسان کی سی ہیں

جو بیاباں کو چمن زار بنا سکتا ہے

میں اسی خاک سے ہوں

جس کے ذرات کہیں دشتِ بلا میں

اور کہیں شہر و دیار و مامن

 

میں کوئی خواب ، کوئی رُوح نہیں

میرے پاس آو ، مری بات سُنو

گردشِ شام و سحر کی زد میں

میں نے اک عمر گذاری ہے مگر

میں بھی انسان ہوں مر جاؤں گا

خاک کی طرح بکھر جاؤں گا

اس سے پہلے کہ غرض کے بیٹے

مجھ سے سو طرح کے رشتے جوڑیں

میرے اسباب کو تقسیم کریں

میری پوشاک پہ قرعہ ڈالیں

میری آواز کو سننے والو

تم مرے کرب ، مری فکر کے وارث بن جاؤ

٭٭٭

 

 

 

میں کوئی دُشمنِ دنیا تو نہیں

میں نے دُنیا میں جو دیکھا ، لکھا

 

 

 

درد کی پرچھائیں

 

 

ناوکِ غم کی خبر درد کی پرچھائیں سے پھر

زخم کی طرح ملی ، شمع کے مانند جلی

آئینہ خانہ احساس میں محسوس ہوئی

ایک پرچھائیں سے پرچھائیں کی سرگوشی سی

 

بات صدیوں کی کہی جائے کہ لمحات کی بات

بات دراصل ہے احساس کی ، جذبات کی بات

 

وقت پہلے بھی یہی وقت تھا اور آج بھی ہے

آج بھی گردش و رفتار کا عالم ہے وہی

مہر و مہ مشرق و مغرب کے سفیر آج بھی ہیں

روز و شب اپنے ہی لمحوں میں اسیر آج بھی ہیں

 

ناوکِ غم کی خبر کوئی نئی بات نہیں

ضررِ خونِ جگر کوئی نئی بات نہیں

زندگی زخم نما آنکھ لیے صدیوں سے

سازشِ کشمکش مہر و ستم دیکھتی ہے

اک ہجومِ خلش و کرب و الم دیکھتی ہے

 

اس ہجومِ خلش و کرب و الم میں مجھ سے

آج پھر درد کی پرچھائیں یہی کہتی ہے

ناوکِ غم سے چلا سلسلہ رامش و رنگ

حرف و آہنگ سے تا سنگ و دف و بربط و چنگ

زندگی تازگی موجِ نفس چاہتی ہے

ہر سفر کے لیے افسونِ جرس چاہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

اب ایک مرحلہ ترکِ دوستی یہ ہے

کہ پہلے تجھ سے خفا تھا اور اب خفا بھی نہیں

 

 

 

 

احساس

 

 

 

جو بچھڑ گیا

اور یاد نہیں

اس یار سے کیا

جو سنور کے بھی ہو ژولیدہ

اس کاکلِ عنبر بار سے کیا

جو خود کو منوانے کے لیے

جذبے کے سوا

کچھ اور گواہی چاہتا ہو

اس پیار سے کیا

جو جیت نہ ہو

اس ہار سے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لمحوں کے سراب

 

 

 

آرزوؤں کے حقیقت آشنا !

تیرا چہرہ بھی کنول ہے میرا چہرہ بھی کنول

اور دونوں کے بدن

نیلگوں تالاب کے پانی میں گُم

سطحِ آئینہ پہ ہم ہیں صرف صورت آشنا

 

جاگتے ہیں کب یہاں ملتے ہیں چہروں کے کنول

نیند کے تالاب میں کھلتے ہیں چہروں کے کنول

نیند کی خواہش میں لیکن

 

کب تلک جلتے رہیں ان بند آنکھوں کے چراغ

اک نہ اک اندھی گلی میں جا کے ہو جاتی ہے گُم ہر راہِ خواب

اور رہ جاتے ہیں یہ بے چہرہ و بے جسم لمحوں کے سراب

٭٭٭

 

 

 

رازِ وجود کھُل گیا آ کے سوادِ ذات میں

نقطہ تیرگی ہوں میں اپنی تجلّیات میں

 

ایک وجودِ بے جزا ، میرے لیے بنا سزا

یومِ حساب ہو چکا محشرِ ممکنات میں

 

ربّ نجوم و کہکشاں ، دھول سی اُڑ رہی ہے ، یاں

دیکھ بجز غبارِ جاں کون ہے کائنات میں

 

نالہ قلب خونچکاں ، خود ہی رہا ہے رائگاں

کون خراش پڑ گئی سینہ شش جہات میں

 

میری تمام زندگی خندہ و سر خوشی سہی

غم کے ہزار نام ہیں عرصہ گہہ حیات میں

 

رنگ سے روشنی جدا ، حرف سے کیف ماوراء

ذات الجھ کے رہ گئی سلسلہ صفات میں

 

خود سے بچھڑ گیا ہوں میں ، مجھ سے بچھڑ گئے ہو تم

ہو بھی سکے کچھ اور کیا گردشِ ممکنات میں

 

آج بھی دل کو تھا ملال ، آج بھی خواب تھا ملال

آج بھی خود سے مل لیے شہر تصورّات میں

 

دامن شب نچوڑ کر دیکھ تو چشمِ گریہ ناک !

سب ترے تابناک دن جذب ہیں ایک رات میں

٭٭٭

 

 

 

جب کسی خواب کی خواہش سے ہوں بوجھل آنکھیں

ایسے عالم میں بھلا نیند کہاں آتی ہے

 

 

 

 

 

 

فطرت

 

 

سوچتے کیا ہو

بے رحم اندھی ہوا

پیڑ کے زرد پتوں سے کیوں آ کے ٹکرا گئی

شاخ در شاخ کن آرزوؤں کا نوحہ لکھا ہے

 

پیڑ کے نرم سائے کو دم توڑتے دیکھ کر

دھوپ کے لمس کو اپنی محرومیوں میں نہ شامل کرو

سارے لمحات بے رحم اندھی ہوا کے قدموں سے لپٹے ہوئے ہیں

سوچتے کیا ہو

ٹوٹے ہوئے زرد پتے کہاں جا رہے ہیں

اپنی تنہائی کا کوئی ساتھی نہیں

جسم کے گرد آلود ملبوس ہیں

آنسوؤں کی قطاریں بھی گُم ہو گئیں

 

دھند میں چھُپ کے سورج کے مانند رونے سے کیا

اور جیون کی مالا میں کانٹے پرونے سے کیا

آتی جاتی رتوں سے الجھتی ہوا کے اشاروں پہ چلتے رہو

اپنے قدموں تلے خشک پتّے مسلتے رہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

    ہر نظر پریشاں ہے ، ہر نفس ہراساں ہے

ہر خیال ویراں ہے ، شہر ہے کہ زنداں ہے

 

دل کا امتحاں کیسا ، دل تو ضبط کے ہاتوں

چارہ گر سے نادم ہے درد سے پشیماں ہے

 

ایسی روشنی کی داد کس سے پائیں جُز خورشید

آندھیوں کے حلقے میں شمعِ جاں فروزاں ہے

 

آج کون سمجھے گا اس تضادِ پنہاں کو

زندگی سے نالاں ہوں ، زندگی کا ارماں ہے

 

حرف ہی تو سیکھے ہیں ، لفظ ہی تو لکھے ہیں

انکشافِ معنی کب جُرمِ بے گناہاں ہے

 

ذرّہ و بیاباں کا رمز ڈھونڈنے والو

کارِ ذات مشکل ہے ، کارِ زیست آساں ہے

 

عشق چند لمحوں کا اعتبار ہے شاید

کس کو کس کی خواہش ہے ، کس کو کس کا ارماں ہے

 

روشنی کے دشمن کیا آنکھ کے بھی اندھے ہیں

خون دل کے چھینٹوں سے ہر طرف چراغاں ہے

 

اس سے بڑھ کے کیا ہو گا انقلاب ہستی میں

قطرہ بحرِ عنواں ہے ، ذرّہ دشتِ ساماں ہے

 

کس سے حالِ دل کہیے ، کس سے دادِ غم لیجیے

جسم کا تماشائی سایہ گریزاں ہے

 

ہاں سحر ضروری ہے ہم نوائی غالب

"برقِ خرمن راحت خونِ گرم دہقاں ہے”

٭٭٭

 

 

 

نیا مثالیہ

 

جانِ جاں !

تو عہد گاہِ جسم و جاں میں تھی کبھی

نو بہارِ بستر و نو روزِ آغوشِ وصال

 

اپنی دنیا سے نکل کر اس نئی دنیا کو دیکھ

جس کے آئینے میں تُو لیلٰی نہیں شیریں نہیں

کوہ پیما ہے ، خلائی راہرو ہے ، آگ ہے

آگ سارے دیوتاؤں سے بغاوت کی اساس

 

جانِ جاں !

دیکھ آغوشِ طلسمِ روز و شب میں ان دنوں

کیسی کیسی صورتیں ہیں ، کیسے کیسے جسم ہیں

کار گاہِ وقت کی زنجیر میں جکڑے ہوئے

 

آگ ان کے حق میں وہ دیوار ہے جس کے تلے

کامرانی اِک طرف ہے ، نا رسائی اک طرف

یہ جواں لاشے ، یہ فصلِ زندگانی کے شجر

جبرِ محنت کی صلیبوں پر ہیں آویزان ابھی

(مُشترک ہیں تُجھ پہ اُن پہ جبرِ محنت کے کرم)

 

جانتی ہے زندگی ان کے لہو کے سارے نام

صبح کی دہلیز سے تا آستانِ شمعِ شام

ان کی آنکھوں کا سفر ہے انتظارِ انقلاب

دستِ صر صر میں ہے اُن کے لالہ و گل کا شباب

 

جانِ جاں !

ایسے عالم میں یہ آگاہی ہے نعمت یا عذاب

اَن گنت لمحوں کی معدومی کے اندھے دشت میں

چند لمحے ، میرے تیرے قرب کے پابند ہیں

 

جانِ جاں !

صورتِ مرگِ مسلسل اس میں ہم بھی زندہ ہیں

دیکھ اس دنیا کو دیکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبتوں کے سلیقے مرّوتوں میں کہاں

جو بات تجھ میں تیری شباہتوں میں کہاں

 

یہاں تو چاکِ گریباں کا ہوش بھی ہے عذاب

ملی ہے آ کے تری یاد وحشتوں میں کہاں

 

فشارِ زیست نے سمتیں بھی چھین لیں شاید

یہ گردشیں نظر آتی تھیں ساعتوں میں کہاں

 

فسونِ نیم نگاہی ، ترے جمال کی خیر

جو رمز میں ہے وہ جادو ، وضاحتوں میں کہاں

 

ہیں آج داد طلب کیوں تکلفات ترے

یہ فاصلے نکل آئے ہیں قربتوں میں کہاں

 

شعورِ غم سے الجھتی ہے قرصِ خواب آور

سکوں ملا ہے سکوں کی ضرورتوں میں کہاں

 

ہم اس نگاہ میں کچھ ہیں سحر تو ہیں ورنہ

ملے گی اپنی گواہی عدالتوں میں کہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب تک حرم و دیر سے مانوس نہیں ہوں

انسان ہوں شرمندۂ ناموس نہیں ہوں

 

ہو کس کو مری ذات کے آلام کا عرفان

میں شہر میں معلوم ہوں محسوس نہیں ہوں

 

دنیا کی خبر لے کے کہاں جاؤں فلک پر

میں عرشِ خداوند کا جاسوس نہیں ہوں

 

کسبِ درم و دام میں زندانی حالات

اشعار میں آزاد ہوں ، محبوس نہیں ہوں

 

افکار ہی اجسام میں ڈھل جائیں گے اک روز

میں اپنے خیالات سے مایوس نہیں ہوں

 

الفاظ و تراکیب پہ کیا فخر ہو مجھ کو

گنجینۂ احساس ہوں ، قاموس نہیں ہوں

 

رہتا ہوں سحر یک دل و یک باطن و یک رنگ

میں قامتِ اضداد کا ملبوس نہیں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دکانِ کوزہ گر ہوئی ہی کیوں ، پیوندِ خاک آخر

مجھی کو ریزہ ریزہ کر گیا لمحوں کا چاک آخر

 

زمانہ اس قدر دُشمن کہاں تھا رنگِ اُلفت کا

مگر میرے ہی افسوں نے کیا مجھ کو ہلاک آخر

 

شعورِ غم کی دولت میکدے میں لُٹ گئی ہوتی

رگ و پے میں سما کر رہ گیا زہرابِ تاک آخر

 

حقائق خواب بن کر کیوں مرے ہمراہ چلتے ہیں

مری آنکھیں رہیں گی اور کب تک خوابناک آخر

 

گریبانوں پہ ہوتا تھا گُمانِ شاخِ گُل لیکن

وہ فصل آئی کہ دل ہونے لگے زخموں سے پاک آخر

 

تعجب کیا اگر کچھ آشنا ، نا آشنا نکلے

کہیں گم ہو گیا ہو گا دلوں کا انہماک آخر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

گرگ آشتی

 

 

گھنے درختوں کو اور سرسبز وادیوں کو

خزاں نے تاراج کر دیا ہے

تمام دفتر تمام بازار بند ہیں اور ہر سڑک پر

برف اپنی سفید بے حس تہیں بچھائے

ہوا کے نادیدہ نقشِ پا کی اداس دولت سمیٹتی ہے

ہوا جو یخ بستہ شہر کی نامراد گلیوں میں

سرکشیدہ گزر رہی ہے

 

نہ ساعتِ نانِ گرم ہے اب

نہ اخگرِ منقلِ گل و لالہ کی دمک ہے

زمیں کی ویران وسعتوں میں

ہزار راہوں کی سرد لہروں کا اک جلوس

اپنے کانپتے پرچموں کو لے کر

گزر رہا ہے

 

نہ کانوا جسم کا محافظ

نہ حلقہ نار میں لپکتی ہوئی زبانیں

پاسبانانِ اذنِ گویائی بن رہی ہیں

 

سگانِ آوارہ نان اور استخوان کی کمیاب حسرتوں کو

دلوں میں اپنے چھپائے پھرتے ہیں کوچہ کوچہ

سبھی مکانوں کے در ہیں بستہ

سبھی دریچوں سے برف کی ناشگفتہ کلیوں کے ہار کٹ کٹ کے گر رہے ہیں

 

تمام جھیلوں کے آئینے ہو گئے شکستہ

تمام راہوں میں اک صدا سائیں سائیں کی گشت کر رہی ہے

نہ حرفِ لب میں خلوص و مہر و وفا کی حدت

نہ جسمِ قرطاس سے لپٹتے ہوئے خطوں اور دائروں میں کوئی تپش ہے

کہ جیسے اس شہر کی ہر اک شئے ہے سوز و جذب و اثر سے محروم

 

نقابِ ابرِ سفید کی اوٹ سے

۔ ۔ ۔ سفید بستر پہ اک مریضِ جواں کے چہرے کی طرح

حیران و مضمحل ۔ ۔ ۔

 

بے وجود سورج

اپنی کرنیں سمیٹتا ہے

 

دُور اک دائرے میں گرگانِ گرسنہ

نشہ خوابِ تلخ میں چُور

اپنے اپنے شکم کی بے رحم آگ سے

ہات تاپتے ہیں

ہزار مجبوریوں کے نرغے میں جاگتے ہیں

ہر ایک گرگِ گرسنہ اپنی نگاہ کے دائرے سے پیہم

دوسرے گرگِ گرسنہ کی نڈھال آنکھوں کو تک رہا ہے

ہر ایک دل میں یہ سوچتا ہے

کہ دوسرے کی ذرا سی غفلت

نیند کی اک مختصر سی نویدِ مخفی

تمام گرگانِ گرسنہ کا علاج بن کر

دوستی اور آشتی کی تمام کہنہ روایتوں کو اگر بچا لے

 

تو اس جہاں کی بقا کا سامان کر کے ہم سب یہ کہہ سکیں گے

کہ دوستی زندگی کی ساری عظیم قدروں سے

(اس جہاں میں) عظیم تر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ

کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

 

شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر

اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ

 

نخلِ ہستی نظر آئے گا کبھی نخلِ صلیب

زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ

 

ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز

یہی بے رنگ سی دنیا ، یہی بے مہر سے لوگ

 

مطمئن رہتے ہیں طوفانِ مصائب میں کبھی

ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ

 

اے زمیں آج بھی ذرّے ہیں ترے مہر تراش

اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ

 

صرف محرومی فرہاد کا کیا ذکر سحر

بیستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک آس کا دھندلا سایہ ہے ، اک یاس کا تپتا صحرا ہے

کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں ، ان آنکھوں میں کیا رکھا ہے

 

جب کھونے کو کچھ پاس بھی تھا تب پانے کا کچھ دھیان نہ تھا

اب سوچتے ہو ، کیوں سوچتے ہو ، کیا کھویا ہے کیا پایا ہے

 

میں جھوٹ کو سچ سے کیوں بدلوں اور رات کو دن میں کیوں گھولوں

کیا سننے والا بہرا ہے ، کیا دیکھنے والا اندھا ہے

 

ہر خاک میں ہے گوہر غلطاں ، ہر گوہر میں مٹی رقصاں

جس رُوپ کے سب گُن گاتے ہیں وہ رُوپ بھی کس نے دیکھا ہے

 

کس دل کی بات کہیں ہم تم ، کس دل کا درد سہیں ہم تم

دل پتھر ہے ، دل شیشہ ہے ، دل صحرا ہے ، دل دریا ہے

 

اب سارے تارے کنکر ہیں ، اب سارے ہیرے پتھر ہیں

اس بستی میں کیوں آئے ہو ، اس بستی میں کیا رکھا ہے

 

یہ مرنا جینا بھی شاید مجبوری کی دو لہریں ہیں

کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سوادِ شب

 

 

نیم شب کی ریگ آلودہ ہوا

کن جزیروں سے گزر کر آئی ہے

منزلوں کی ریزہ ریزہ روشنی

کن ستاروں سے اتر کر آئی ہے

اور میرے ذہن کی بوجھل تھکن

کن خرابوں کا سفر کر آئی ہے

 

ہیں ہوا کے دامنِ صد میں چاک

خشک پتے ، پیرہن کی دھجیاں

فصلِ گُل کے پیرہن کی دھجیاں

اعتبارِ کاوشِ آئندگاں

 

حلقہ شب تنگ ہے مانندِ طوق

ساعتوں کی جنبش کے درمیاں

رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے تا گُلو

بے محابا تیرگی کا ارتکاز

 

ڈوبتی جاتی ہیں دل کی دھڑکنیں

آگ بن کر گھل رہی ہیں خون میں

جسم کی نا آشنا آسائشیں

سوچتا ہوں ، صبح کی تحصیل تک

 

رات ہے پرچھائیوں کا اک دیار

جاگتی تنہائیوں کا اک دیار

جس کی راہوں میں سفر ممکن نہیں

جس کی راہوں سے مفر ممکن نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اب اپنے دل کا آئینہ بھی دیکھیں

غبارِ چہرہ دنیا بھی دیکھیں

 

نگہباں ہم تو ہیں ریگِ تپاں کے

ہمیں کیوں جانبِ دریا بھی دیکھیں

 

رہیں شہروں کے ہنگاموں میں شامل

انہی شہروں میں سناٹا بھی دیکھیں

 

ہجومِ زیست کے احساں اٹھائیں

اور اپنے آپ کو تنہا بھی دیکھیں

 

جو میری آرزو پر معترض ہیں

تجھے دیکھیں ، کوئی تجھ سا بھی دیکھیں

 

بہت دیکھے سحر گھر کے در و بام

چلو کچھ وسعتِ صحرا بھی دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہمیں نبض شناس بھی وقت کے تھے کہ بہار و خزاں کے اسیر ہوئے

کبھی صرصرِ دشت کی طرح پھرے ، کبھی نکہتِ گُل کے سفیر ہوئے

 

یہاں نام و نمود پہ فخر ہی کیا ، یہ نشیب و فراز حیات کے ہیں

بنے شاہ جو فرق پہ تاج رکھے ، وہی کاسہ بدستِ فقیر ہوئے

 

یہاں وقت کا کون سا رُوپ نہیں ، یہاں چھاؤں نہیں ہے کہ دھُوپ نہیں

کبھی مہر بھی ذرّوں کے دست نگر ، کبھی ذرّے بھی ماہِ منیر ہوئے

 

رہی سود و زیاں ہی کی بات مگر ترے حرف دو حرف کے بولنے سے

ترا کون سا ایسا خسارہ ہوا ، ہمیں کون سے ایسے امیر ہوئے

 

کبھی مصلحتوں کو سنوارنے پر ، کبھی رسمِ زمانہ نباہنے پر

ملی دادِ ہوا و ہوس تو بہت مگر اپنی نظر میں حقیر ہوئے

 

کبھی دُزد بنے ، کبھی شعر لکھے ، کبھی عشق کیا ، کبھی جوگ لیا

کبھی سارے نقاب اُتار دیئے تو ہم آپ ہی اپنی نظیر ہوئے

 

کفِ شحنہ سے رزق بھی پاتے رہے ، شبِ ہجر میں جی بھی جلاتے رہے

وہی لوگ جو اہلِ خبر تھے سحر ، وہی لوگ جو غالب و میر ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

    آبِ جُو

 

 

 

تجھے میرے قرب سے کیا ملا

کہ میرا وجود تو ایک دشتِ خراب ہے

جسے ایک لمحہ آرزو بھی عذاب ہے

 

تیرا جسم موجۂ آبِ جُو

جسے میرے قُرب کی تپتی ریت نے پی لیا

زہے جُستجُو ، زہے آرزُو

 

تری اس میں کوئی خطا نہیں

کسی تشنہ رُوح کو آبِ تازہ کی پیشکش

تو سدا سے کارِ عظیم ہے

تجھے کیا خبر تھی کہ تازہ موجہ آبِ جُو

کسی تشنہ دشت میں آ کے اپنے وجود کو

نہ بچا سکے گی غمِ وفا کے سراب سے

نہ بچا سکے گی نثارِ جاں کے عذاب سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہو فریبِ زندگی ، لیکن فریب آسا نہ ہو

زندگی اک زخم بن جائے ، اگر ایسا نہ ہو

 

ہم ہی کر لیں گے گوارا تہمتِ ترکِ وفا

تُو ، ہم اہلِ درد کی خاطر بہت رُسوا نہ ہو

 

دشتِ خاموشی میں ہے اک آشنا آوازِ پا

میرا سایہ ہی تعاقب میں کہیں آیا نہ ہو

 

رقص کرتی ہیں مرے چاروں طرف پرچھائیاں

ڈر رہا ہوں یہ بھی عکسِ چہرہ دنیا نہ ہو

 

اس سے کیا پوچھوں ، ترا احوال ، تیرے روز و شب

جس نے تیرا عالمِ افسردگی دیکھا نہ ہو

 

گھر کی تنہائی بھی کرب انگیز ہے لیکن سحر

کوئی ہنستے گنگناتے شہر میں تنہا نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جراثیم

 

 

دوستو ، تخم ِ احساس کو چار سُو

منتشر کر کے قائم رکھو دہر میں

مزرعِ زیست کا اختیارِ نمُو

کچھ نہیں مصلحت کی کمیں گاہ میں

اب بھی نادیدہ دشمن ہیں اس راہ میں

 

چشمِ فطرت کے اشکوں نے دھویا انہیں

تخمِ احساس ہیں مہر و ماہِ نجوم

نور نے آسمانوں میں بویا انہیں

روز و شب موسمِ فصلِ سیارگاں

نخلِ جاں بے نیازِ بہار و خزاں

 

بزمِ ظاہر سے پنہاں نکالے ہوئے

کتنے نادیدہ دشمن ، جراثیمِ نو

غیر مرئی فضاؤں میں پالے ہوئے

ڈھونڈتے ہیں پناہیں اسی آس میں

پھونک دیں زہر پوشیدہ انفاس میں

 

ذہنِ انساں حریفِ جراثیم ہے

خورد بینوں سے اتلاف کے وار تک

اک سپاہِ تمنا کی تنظیم ہے

اپنے اپنے حریفوں سے جنگیں بھی ہیں

قلعہ جاں میں پنہاں سُرنگیں بھی ہیں

 

نوکِ ناوک کو ہے جستجوئے ہدف

جسم ، ملبوسِ زر سے دمکتے ہوئے

اور ملبوس میں تہہ بہ تہہ ، صف بہ صف

آئینوں کی چمکتی جبینیں سہی

پہرہ دارانِ جاں خورد بینیں سہی

 

خورد بینوں کی آنکھوں سے ڈرتے ہوئے

زہر کی تیز سفاک مقراض سے

دیدہ و دل کے رشتے کترتے ہوئے

ریزہ ریزہ جراثیم چھا جائیں گے

سب حریفانِ پنہاں کو کھا جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹیکسلا

 

 

مٹے مٹے ، لُٹے لُٹے نشان

تازہ زندگی کے دائروں میں گھومتے ہوئے

یہ سوچتے ہیں زندگی کے کتنے رُوپ ہیں

 

خموش راستے ، سیہ مہیب بام و در

ہر ایک باغ بے شجر

کہ جیسے کوئی قافلہ

پڑاو کی نشانیاں ، الاو کی اُداس راکھ ، چھوڑ کر چلا گیا

نہ برگدوں کی چھاؤں ہے ، نہ لوگ ہیں ، نہ شہر ہیں

رگوں میں جو لہو کی گرم دھاریاں تھیں کھو گئیں

زمیں کی کیسری وشائین جیسے تھک کے سو گئیں

 

یہاں کبھی ، کسی مکان کے بدن میں کوئی راگ تھا

کسی کی پھول جیسی انکھڑیوں میں رنگ تھا

اور اب یہاں نہ رُوپ ہے نہ انگ ہے

نہ راگ ہے نہ رنگ ہے

شکستہ مورتوں ، نہفتہ صورتوں کا اک ہجوم ہے

 

وہ آتما ، مہاتما

جو اپنی بازگشت کے نقوشِ پا کو ڈھونڈتی

سمے کے سارے بندھنوں کو توڑ کر نکل گئی

وہ آتما جو زندگی کے سارے زہر پی گئی

وہ مسکرا کے موت سے گلے ملی تو جی گئی

پراشچت کے سارے بھید ان گنت گپھاؤں میں سمو گئی

امر ، مہان ہو گئی

 

ہماری آنکھ کی صنم گری

ہمارے ذہن کی مصوری

گپھاؤں کی شکستہ مورتوں ، نہفتہ صورتوں کے

خد و خال یوں نکھارتی ہے

جیسے ان کی اک کڑی بھی گم نہیں ہوئی کہیں

اسی صنم گری ، مصوری کی دین ہے

کہ سارے نام ، سارے لوگ ، ساری بستیاں جو مٹ گئین

ہمارے درمیان خود ہماری طرح زندہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بستیاں خواب ہوئیں دیدہ بے خواب کے بعد

عکس ہی عکس ملے آئینہ آب کے بعد

 

جیسے ان میں کبھی آباد نہ ہوگا کوئی

یوں مکانوں کے نشاں رہ گئے سیلاب کے بعد

 

خواہشِ خواب میں آنکھیں بھی رکھیں بند مگر

نظر آتا ہے وہی خواب کہاں ، کہاں خواب کے بعد

 

کام سب محورِ فرصت کے بدلنے تک تھے

اب کوئی کام نہیں فرصتِ کمیاب کے بعد

 

اُڑتے پھرتے ہیں فضاؤں میں پرندے کیا کیا

زندگی ختم نہیں حلقہ گرداب کے بعد

 

دل میں قصے تو بہت ہیں غمِ بیداری کے

کیا کہے کوئی تری چشمِ گراں خواب کے بعد

 

زندہ رہنے کی ضرورت کا خیال آتا ہے

خاص کر وہ بھی سحر پرسشِ احباب کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

ہم نے آدابِ غم کا پاس کیا

نقدِ جاں کو زیاں قیاس کیا

 

تہمتِ شعلہ زباں لے کر

صورتِ زخم التماس کیا

 

آ گیا جب سلیقہ تعمیر

قصرِ ہستی کو بے اساس کیا

 

خبر و آگہی کے پردے میں

عمر بھر ماتمِ حواس کیا

 

کیسے اِک لفظ میں بیاں کر دوں

دل کو کس بات نے اداس کیا

 

عرض و اظہار بھی ہیں پیراہن

ذات کو کس نے بے لباس کیا

 

کیوں سحر تم نے اپنے صحرا کو

موجِ دریا سے روشناس کیا

٭٭٭

 

شاعر کی اجازت سے

ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید