فہرست مضامین
- مخدوم
- مخدوم کی یاد میں
- ایک انقلابی، ایک شاعر، ایک انسان
- آزاد نظم اور مخدوم کی شاعری
- مخدوم محی الدین سے انٹرویو
- وہ مر نہیں سکتا
- انقلاب کا مغنی۔۔۔۔۔۔ مخدوم محی الدین
- شعور کی شخصیت مخدوم
- مخدوم محی الدین
- محنت اور محبت کا شاعر
- مخدوم محی الدین کی معنویت اور عصرِ حاضر
- عکاسِ حسن و شاعر حیات
- مخدوم محی الدین : نعرے سے نغمے تک
- عصری حسیت اور شعری صناعی کا شاعر
- مخدوم کی نظموں کا آہنگ
مخدوم
ترتیب : پروفیسر رحمت یوسف زئی
مخدوم صدی سیمنار کا ساونیر
سید سجاد ظہیر
مخدوم کی یاد میں
کیسے یقین آئے کہ مخدوم اب ہم میں نہیں ! دوست احباب رفیق سب مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ کہوں، کچھ کہوں اور میں سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں، کیا کہوں، کیا کیا کہوں۔ ان کے بارے میں کہوں یا اپنے بارے میں کہوں، اس ہولناک خلا کے بارے میں جو اپنی روح اور نفس میں بلکہ ساری زندگی میں مخدوم کے چلے جانے کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن میں نے غلط کہا:۔خلا میں تو کچھ نہیں ہوتا اور یہاں تو حیرت ناک طور پر دلکش اور دل گیر انجمن سجی ہے کانوں میں ہی نہیں، رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کے قطرے میں مخدوم کی آواز، ان کا ترنم گونج رہا ہے اور دل کے پردے پر بار بار ان کی مسکراہٹ اور ہنسی کے نقش چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، کبھی ان کو تیس برس پہلے سیاہ شیروانی میں، مخصوص حیدرآبادی طرز کی، اونچا کالر، سب بٹن بند، لمبی سرخ ٹوپی پہنے حیدرآبادی مزدوروں کے جلسے میں پُر جوش تقریر کرتے سن رہا ہوں۔ جلسہ جس کی میں صدارت کر رہا ہوں۔ یہ شاید پچیس تیس برس کی بات ہے، کبھی ان کو ممبئی میں ’’قومی جنگ‘‘ کے دفتر میں دیکھتا ہوں، جہاں بالکل تنگ جگہ میں سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی اور میں اپنی اپنی میزوں سے لگے بیٹھے ہیں اور مخدوم۔’’ صف اعدا کے مقابل ہے ہمارا رہبر‘‘ سنا رہے ہیں اور پھر اس کے بعد ہم ان سے دوسری نظموں کی فرمائش کرتے ہیں، اس زمانے میں مجھے ان کی نظموں میں سب سے زیادہ ’’اندھیرا‘‘ اچھی لگتی تھی،
رات کے ہاتھ میں ایک کاسۂ دریوزہ گری
ہر لحاظ سے یہ ایک بڑی ’’انقلابی‘‘ نظم تھی، اس کے استعارے وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ، وہ تہذیب کے زخم۔۔۔ اور چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا۔۔۔ آزردہ ستاروں کا ہجوم اور پھر آخری مصرعہ: رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ یہ نظم نہیں ایک ترشا ہوا فنی نگینہ تھی، نئی کیف آور، چونکا دینے والی، ایک مکمل تعمیر: جتنی خوب صورت اتنی ہی پر معنی، جتنی جدید اتنی ہی ہماری بہترین روایات میں پیوست، انقلابی شعور و حرکت عالمی افق کے سرخ سویرے کا رنگ لیے ہوئے اس کے ساتھ ہم آہنگ!
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے مخدوم سے پوچھا تھا ’’مخدوم بتاؤ یہ نظم تم نے کب اور کیسے اور کن حالات میں لکھی‘‘ اور مخدوم نے جواب دیا جو مجھے اچھی طرح یاد ہے اس لیے شاید کہ نظم کی طرح ان کا جواب بھی چونکا دینے والا تھا۔ انھوں نے کہا ’’بنے بھائی آپ کو شاید یقین نہ آئے، میں کلاس میں سبق دے رہا تھا۔ لڑکوں کو پڑھا رہا تھا کہ اسی دوران یہ ذہن میں آنے لگی اور پھر میں نے اپنا سبق روک دیا اور وہیں کلاس میں بیٹھ کر یہ پوری نظم تھوڑی دیر میں لکھ ڈالی۔ مشکل سے آدھ گھنٹہ لگا ہو گا بلکہ اور بھی کم۔ بعد کو ادھر ادھر سے کچھ تراش خراش ضرور کی، لیکن دراصل پورا ڈھانچہ اسی وقت مکمل ہو گیا تھا‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’پھر تو یہ وحی کی طرح نازل ہوئی تم پر مخدوم! ’’مخدوم نے اس وقت بھی اور پھر بعد کو یہ بات مجھ سے اکثر کہی کہ شعر کہنے کے لیے انھیں سکون، تنہائی، دوسرے کاموں سے فرصت درکار نہیں۔ نظم تو بالکل غیر متوقع طور پر چلتے پھرتے، سفر کے دوران، بات یا تقریر کے دوران، ٹریڈ یونین کا کام کرتے وقت، دوستوں کی نجی صحبتوں میں ہنسی مذاق کے دوران، ان کے ذہن میں لال پری کی طرح ناچتی ہوئی جلوہ گر ہو جاتی تھی اور پھر مخدوم کا کام صرف اسے گرفتار کر لینا ہوتا تھا، لیکن کوئی نوآموز شاعر اور ادیب اس بات پہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری محض الہامی چیز ہوتی ہے۔ ہوتی تو ہے وہ الہامی کبھی کبھی اپنی بلند ترین کیفیتوں میں، لیکن فن کار کی ذہنی اور روحانی کد و کاوش اور تعمیر و حسن کاری کی صلاحیت روح عصر کو سمجھنے اور جذب کرنے کی قوت اور اس کی ہمت اور حوصلہ اور نظر ان سب کے بغیر الہام ہوتا بھی تو نہیں۔
مخدوم کی اچانک وفات یقینی ہماری انقلابی اشتراکی تحریک اور اردو شعر و ادب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے اور ہم جو ان کے دیرینہ ساتھی ہیں گو کہ اپنی تحریک کی کامیابی اور ظفر مندی پر یقین کامل رکھتے ہیں اور اردو والے ہونے کی حیثیت سے یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ادب کے دماغ میں کبھی خزاں نہیں آئے گی اور خود دکن میں جہاں قلی قطب شاہ، وجہی، سراج اور ولی جیسے لوگ اٹھے اور جہاں کے ادبی آسمان پر مخدوم جیسا ستارہ اتنی آب و تاب سے چمکا، فن و ادب کا آسمان اپنی رفعت اور درخشندگی برقرار رکھے گا، ایک ایسے انمول موتی کو کھو دیا جو اپنی مثال خود تھا۔
اس کی شخصیت کے بارے میں جتنا بھی سوچتا ہوں یہی محسوس کرتا ہوں اور یہی ایک بات بار بار دل و دماغ میں جاگزیں ہوتی ہے کہ اس شخص نے اپنے تیس چالیس سال کی انقلابی زندگی میں اپنے کو اپنے آرام و آسائش اور اپنی ذات کی تمام خواہشوں اور امنگوں کو کس قدر مٹایا اور دبایا تاکہ اس کی قوم کے مظلوم اور محنت کش عوام جن سے اسے بے پناہ محبت تھی دکھ اور رنج اور تکلیف اور جبر اور سختی کے چکر سے نکل کر، نئی مسرت مہذب اور متمدن زندگی کے روشن میدانوں میں سر بلند و سرخرو داخل ہو سکیں۔ اس کی کھولتی ہوئی نفرت اور اس کا آتشیں غصہ ان طاقتوں، ان طبقوں، ان گروہوں اور ان افراد کے لیے تھا اور ان حالات کے لیے جن میں وہ محنت کش عوام کے انقلابی راستے میں مخل اور حائل دیکھتا تھا اور جن رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے وہ ساری عمر اپنے رفیقوں اور اپنی پارٹی کے ساتھ جدوجہد کرتا رہا اور کوئی نہیں جانتا کہ اگر مخدوم کی اچانک اور قبل از وقت وفات ہوئی تو اس کا سبب یہی ہے کہ مخدوم نے اپنے جسم اور اپنی ذات کو ان کا وہ تھوڑا سا حق بھی دینے سے انکار کیا، جو صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس، اب انھیں کیسے سمجھائیں اور اگر کوئی مخدوم کو سمجھا سکتا تب پھر شاید وہ یہ سوال اٹھا دیتے کہ زندگی کو اس کی کمیت سے نہیں بلکہ کیفیت سے ناپنا چاہیے۔ کیا ہوا اگر موت نے انھیں ایک دن گھیر لیا۔وہ تو ہماری اجتماعی زندگی کو اپنے کارہائے نمایاں سے اتنا مالا مال کر چکے تھے کہ جب بھی جی چاہتا ہمیں خدا حافظ کہہ کر چلے جاتے۔ ہمارے پاس اپنی محبت، اپنے لاجواب فن اور سب سے بڑھ کر اپنی بے بہا انقلابی زندگی کی مثال کے اتنے بھرے خزانے چھوڑ جاتے کہ ہم اس لازوال دولت کے ہوتے ہوئے ان سے شکایت کی کوئی معقول وجہ نہ رکھتے اور یہ خزانے ایسے ہیں جو کبھی خالی نہیں ہوں گے۔
میں کبھی کبھی مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں، ایک صدی یا دو صدی بعد کے بارے میں اس سے بھی زیادہ دور مستقبل کے متعلق۔ آج جن لوگوں کے بڑے طمطراق ہیں جن کے دروازوں پر حاجت مندوں اور خوشامدیوں کی بھیڑیں لگتی رہتی ہیں، یا جو اپنے دولت کے نشے میں مگن ہیں کہ خدا کی باقی مخلوق انھیں چیونٹیوں کی طرح حقیر نظر آتی ہے، سو سال بعد یا پچاس سال بعد کو ئی ان خوش نصیبوں کو یاد رکھے گا۔ دہلی میں عہد مغلیہ کی آخری بڑی عمارت صفدر جنگ کا مقبرہ ہے لیکن یہ صفدر جنگ تھے کون، مجھے بھی تاریخ ہند دیکھنا پڑی۔ ان کا اتا پتہ درست کرنے کے لیے اور دہلی کے معمولی رہنے والے تو موصوف سے قطعی ناواقف ہیں، لیکن غالب کے بارے میں کسی سے بھی پوچھ لیجیے، کچھ نہ کچھ آپ کو معلوم ہی ہو جائے گا اور شاید دو چار شعر بھی آپ غالب کے سن لیں گے، ممکن ہے کہ ناموزوں سنائے جائیں۔ لیکن آخر لوگوں کے دل میں جگہ تو غالب کے لیے ہی ہے۔زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ غالب کی یاد دھندلی نہیں ہوتی، اس کی شہرت بڑھتی جاتی ہے۔ یہ دنیا کا دستور ہے۔ کھوٹے اور کھرے کی پرکھ کے معاملے میں انسان خود اپنے زمانے اور اپنی زندگی کے دور میں تو دھوکہ کھا سکتے ہیں اور دھوکہ کھاتے بھی ہیں، اس لیے کہ طرح طرح کی خود غرضیاں اور تعصبات لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال دیتے ہیں، لیکن امتداد زمانہ اور ایام سیمیائی پردوں کو چاک کر کے حقیقت کو واضح کر دیتے ہیں۔ مخدوم خوش قسمت ہیں کہ ان کی شاعری کو ان کی زندگی میں ہی غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی، گو کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنی نہیں ہوئی جس کے وہ اہل تھے۔ اس کا ایک سبب ان حلقوں کا بغض جو مخدوم کی جانب تھا اور ہے۔ اس کی ایک ادنی مثال، مخدوم کی وفات کے بعد بھی، یہ ہے کہ چند ہفتے پہلے جب دہلی سے اردو مجلس کے پروگرام میں شاذ تمکنت نے مخدوم پر اپنی الم ناک اور بے حد خوب صورت اور پُر اثر نظم نشر کی تب اناؤنسر نے نہ ان کے شروع اور نہ بعد میں ہی یہ کہنے کی زحمت گوارا فرمائی کہ وہ نظم مخدوم کے متعلق ہے۔ گو کہ نظم کے ایک ایک مصرعے سے یہ بات واضح تھی۔ آخر مخدوم کا نام لیتے ہوئے آل انڈیا ریڈیو کو تکلیف کیوں ہوتی ہے۔ جب کہ ہر قسم کے ٹکے دو ٹکے کے شاعروں اور ادیبوں کا تعارف کرواتے وقت ’’اے، آئی،آر‘‘ کو کوئی تکلف نہیں ہوتا؟ حد تو یہ ہے کہ ’’بی بی سی لندن‘‘ تک کو اس معاملہ میں ذرا بھی تامل یا تکلف نہیں ہوتا اور انھوں نے لندن میں مجھ سے مخدوم پر چند منٹ کے لیے گفتگو کرنے کو کہا تھا۔
ایک دوسری بات کا بھی ذکر یہاں پر ضروری ہے۔ مخدوم کی وفات کے بعد، قدرتی طور پر بڑے وسیع پیمانے پر ان کا سوگ منایا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایک شاعر کی حیثیت سے مخدوم ان حلقوں میں بھی مقبول ہیں جو ان کی ادبی حیثیت اور وقار کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کی سیاست سے یا تو اختلاف رکھتے ہیں یا اسے اہمیت نہیں دیتے۔ یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے اور اس کی ہمیں کسی سے کوئی شکایت نہ ہونا چاہیے۔ لیکن بعض ایسے بد دیانت افراد اور حلقے ہیں جو مخدوم کی وفات کے بعد یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں، اشارتاً یا بہ راہِ راست کہ مخدوم کی شاعرانہ خوبی اور برتری کا کوئی تعلق ان کی ترقی پسندی یا انقلابی زندگی سے نہیں تھا، حالاں کہ یہ لوگ بہ خوبی جانتے ہیں یا ان کو جاننا چاہیے کہ مخدوم کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ ایک وحدت تھی اور ان کی شاعری کو ان کی پوری شعوری زندگی کے اس اشتراکی نصب العین سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا جس کے لیے وہ زندہ رہے اور جس کے لیے انھوں نے اپنے تمام ذہنی، روحانی اور جسمانی صلاحیتیں وقف کر دیں تھیں۔ مخدوم کی شاعری ان کے نفس اور ان کی روح کا لطیف ترین جوہر ہے اور یہ نفس اور یہ روح ایک بے مثال اشتراکی مجاہد کے ہیں۔ ترقی پسندی اور اشتراکی انقلاب کے دشمنوں اور برا چاہنے والوں کو مخدوم کی عظمت کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے ہم کیسے روک سکتے ہیں، آخر وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں، ہم جو مخدوم کے بعد زندہ ہیں اور وہ بھی جو آنے والے زمانے میں مخدوم کے بتائے ہوئے راستے پر ثابت قدمی اور جرات کے ساتھ چلیں گے، تا وقت یہ کہ ہم اس منزل پہ پہنچ نہ جائیں جو مخدوم کی بھی منزل تھی، لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں ابھی اور بھی سخت اور دشوار مرحلوں سے گزرنا ہو گا، مخدوم کے اس پیغام کو یاد رکھنا ہو گا۔
٭٭٭
خواجہ احمد عباس
ایک انقلابی، ایک شاعر، ایک انسان
یہ مخدوم محی الدین تھا!
کچھ اندھوں نے ہاتھی کو ٹٹول کر ’’دیکھا‘‘۔ ایک اندھے نے ہاتھی کی موٹی ٹانگ کو ہاتھ لگا کر کہا یہ تو کوئی ستون جیسی چیز ہے۔ دوسرے اندھے نے ہاتھی کے پھڑپھڑاتے ہوئے کان کو ہاتھ لگایا ’’یہ تو ہاتھ کے پنکھے کی طرح ہے ‘‘۔ تیسرے اندھے نے ہاتھی کی دم کو ہاتھ میں لے کر کہا ’’یہ تو ایک رستی ہے ‘‘۔ چوتھے نے ہاتھی کے پیٹ کو ٹٹولتے ہوئے کہا ’’یہ بڑا ڈھول ہے ‘‘۔ پانچویں نے ہاتھی کی سونڈ کو چھو کر کہا ’’ارے یہ تو کوئی اژدہا ہے ‘‘۔ چھٹے نے کہا وہ کون تھا؟ کیا تھا؟ جب مخدوم محی الدین کی اچانک موت کی خبر آئی تو مختلف لوگوں نے کہا۔
افسوس ایک انقلابی شاعر مر گیا جس کی سیاسی نظموں اور جوشیلے ترانوں نے ملک کے نوجوان دلوں میں آگ لگا دی تھی مثال کے طور پر:
یہ جنگ ہے جنگ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
افسوس ایک رومانی شاعر مر گیا، جس کی خوب صورت غزلیں اور گیت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر:
’’اک چنبیلی کے منڈو سے تلے
دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے ‘‘
تلنگانہ کے غریب کسانوں کی ایسی انقلابی تنظیم کی تھی کہ برسوں تک وہ پولیس اور فوج سے ٹکر لیتے رہے۔ افسوس ایک ممتاز اور ہر دل عزیز حیدرآبادی مرگیا جس کے اشارے پر شہر کے ہزاروں آدمی اکٹھے ہو جاتے تھے۔ افسوس آندھرا لجسلیٹیو کونسل اپوزیشن لیڈر مر گیا جس کی تقریریں مخالفوں کے دلوں پر بھی اثر کر تی تھیں۔ افسوس مزدور تحریک کا ایک رہنما مرگیا جس نے اپنی زندگی میں سو سے زیادہ ٹریڈ یونینیں قائم کی تھی۔ افسوس ہمارا ایک مخلص دوست مرگیا جس کے آنے سے ہر محفل میں رونق ہو جاتی تھی۔ افسوس ہمارا استاد مرگیا جس نے ادب سے لے کر انقلاب تک بہت کچھ سکھایا تھا۔ افسوس ایک اداکار مرگیا جوا پنی نوجوانی کے دنوں میں خود اپنے لکھے ہوئے ڈراموں میں کام کیا کرتا تھا جس کی اداکاری کی تعریف گرودیو ٹیگور تک نے کی تھی اور جو گیتوں اور نظموں میں بھی ڈرامائی کیفیت پیدا کر دیتا تھا۔
ہر رنگ ہر خوش بو!
دراصل بات یہ ہے کہ افسوس اس لیے ہے کہ ایک انسان مرگیا ایک مکمل انسان جس کی شخصیت میں زندگی کا ہر ایک رنگ تھا، ہر ایک کیف تھا، ہر ایک خوش بو تھی، انسانیت کا ہر ایک جذبہ تھا، سنگیت کا ہر سر تھا، ہر لئے تھا، آہنگ تھا جو شعلہ بھی تھا، شبنم تھا انقلاب کی للکار بھی تھا، پائل کی جھنکار بھی۔علم بھی تھا، عمل بھی تھا، عقل بھی تھا،انقلابی چھاپہ مار کی رائفل بھی تھا، سنگیت کار کا ستار بھی،بارود کی بو بھی تھا،چنبیلی کی خوش بو بھی تھا۔
ان سب سے مل کر انسان بنتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک انسان میں ہونی چاہئیں مگر کتنے انسانوں میں ہوتی ہیں ؟ تب ہی تو مخدوم محی الدین کی موت سے محفل سونی ہو گئی ہے۔
٭٭٭
پروفیسر قمر رئیس
آزاد نظم اور مخدوم کی شاعری
عصر حاضر کی نظمیہ اردو شاعری میں آزاد نظم کا فارم سب سے زیادہ پسندیدہ اور مقبول شعری ہیئت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں روایتی اصناف اور مقفیٰ یا پابند شاعری کا رواج تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ یہ صورتِ حال کچھ حیرت ناک ضرور ہے کہ عرصے تک اردو شاعری میں رواج پانے والی فارسی کی اصناف شعری کو پیچھے چھوڑ کر، یورپ کی ایک شعری ہیئت کیوں کر ایسی ہمہ گیر مقبولیت حاصل کر سکی؟ اکّا دُکّا بعض ہیئتی تجربات یا جاپان اور ہندی کی بعض شعری ہیئتوں مثلاً ہائیکو اور دوہا میں طبع آزمائی معمول کے تخلیقی رویّوں کا ایک حصّہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں آزاد نظم کا چلن اردو میں ایک مستحکم ہیئتی رجحان بنتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی سچائی ہے کہ ابتدا میں مغرب کی دوسری شعری اصناف کے مقابلے میں آزاد نظم (Free Verse)کی مخالفت زیادہ شدومد سے ہوتی رہی ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب شرر نے ایک منظوم ڈرامے میں نظم غیر مقفیٰ کا استعمال کیا اور اس کی وکالت کی تو نظم طباطبائی جیسے ایک دو معاصرین کے علاوہ کسی نے اس تجربے کی حمایت نہیں کی۔ حالاں کہ یہ آزاد نظم نہیں، قافیہ سے عاری (Blank Verse)نظم معّرا تھی۔ طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب 1939ء میں حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک شروع ہوئی تو اس سے وابستہ بعض شعرا مثلاً میرا جی اور ن۔م۔راشد نے اجتہادی طور پر آزاد نظم میں طبع آزمائی شروع کی۔ تصدق حسین خالد نے 1925ء میں آزاد نظم لکھنے اور متعارف کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ الغرض حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا کے ہاتھوں آزاد نظم خاصی مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔
یہی وہ زمانہ ہے جب اردو میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا ایک نئی احتسابی فکر اور رومانوی حسّیت کو نظموں میں ادا کر رہے تھے۔ ان کا حلقۂ اثر وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ اسرار الحق مجاز، معین احسن جذبی، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسے سرکش ادیب اپنی تخلیقی ذہانت کے ساتھ سامنے آ رہے تھے۔ وہ ایسے غایتی اور حقیقت پسندانہ ادب کے داعی تھے جو عوامی زندگی میں تبدیلیاں لائے،ذہن کو بدلے اور طبقاتی کشمکش کی ترجمانی کرے اور اس کے لیے وہ اردو شاعری کے مواد اور اسالیب میں نئے تجربات کرنے کی طرح ڈال رہے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ چوتھی دہائی میں نوجوان قلم کاروں کے ہاتھوں جو ادب تخلیق ہو رہا تھا اس میں کسی تحریک یا حلقے کے حوالے سے کوئی فرق و امتیاز نہیں تھا۔ اس کے باوجود ترقی پسند ادیب یہ دیکھ رہے تھے کہ حلقہ ارباب ذوق کے شعرا کی سعی و کاوش سے آزاد نظم زیادہ مقبول ہو رہی تھی۔ 1932ء میں میرا جی کی شاعری کا مجموعہ ’’میرا جی کی نظمیں ‘‘ اور 1945ء میں ن۔م۔راشد کی نظموں کا مجموعہ ’’ماورا‘‘ شائع ہو کر مقبول ہوئے تھے۔ لیکن ترقی پسند شعرا اپنی باغیانہ روش کے باوجود آزاد نظم کے فارم کو اپنانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی نظموں میں نئی امیجری اور روایتی شاعری کے مقابلے میں نئے استعاراتی تلازمات جیسے سحر، رات، اندھیرا، سورج، محل، حویلی استعمال ہو رہے تھے۔ غیر مقفیٰ یا معرا نظم کو بھی وہ کامیابی سے برت رہے تھے لیکن آزاد نظم سے منحرف یا دور تھے۔ مثال کے طور پر اسی زمانے یعنی 1944ء میں مخدوم محی الدین کا مجموعہ ’’سرخ سویرا‘‘ شائع ہوا۔ اسرار الحق مجاز کا مجموعہ ’’آہنگ‘‘ 1938ء میں، فیض احمد فیض کا’’ نقش فریادی‘‘ 1941ء اور سردار جعفری کا پہلا مجموعہ ’’پرواز‘‘ 1943ء میں شائع ہوئے۔ ’سرخ سویرا‘ کی نظموں میں صرف ایک نظم ’’اندھیرا‘‘ آزاد نظم کے فارم میں ملتی ہے۔ ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی نے اپنی تصنیف ’’جدید اردو نظم نظریہ اور عمل‘‘ میں لکھا ہے کہ فیض کی نظمیں ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘اور ’’ایک منظر‘‘ آزاد نظم کے فارم میں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’نقش فریادی‘‘ کی کوئی بھی نظم آزاد نظم کی ہیئت میں نہیں ہے۔ یہ دونوں مذکورہ نظمیں بھی معریٰ فارم میں ہیں۔ اسی طرح مجاز اور سردار جعفری کے مجموعوں میں بھی کوئی نظم آزاد نظم کی ہیئت میں نہیں ہے۔ فیض کے دوسرے اہم مجموعے ’’دستِ صبا‘‘ میں بھی صرف ایک نظم ’’ایرانی طلبا کے نام‘‘ آزاد نظم کے فارم میں ہے۔ باقی تمام نظمیں پابند یا معرا ہیئت میں ہی شائع ہوئی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کے نظریہ ساز نقاد علی سردار جعفری نے ایک مضمون میں آزاد نظم کے فارم کو برتنے کی مخالفت کی تھی۔ جب بعض قدامت پسند ادیبوں نے آزاد اور معرا نظم کو گمراہی کہہ کر اسے ترقی پسندوں سے منسوب کیا تو ڈاکٹر عبد العلیم جیسے متوازن ذہن کے نقاد نے بھی ان نئے اسالیب شعری کو استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی۔ لکھتے ہیں۔
’’ترقی پسند ادیبوں کے نزدیک اسلوب اور طرزِ ادا کے سوال کی لازمی طور پر ثانوی حیثیت ہونی چاہیے۔ ان کے نزدیک مقدم سوال موضوع کاہے۔ اگر وہ اپنے خیالات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا نا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ ادب کے مسلّمہ اصولوں کو اُس وقت تک ترک نہ کریں جب تک وہ بالکل ناموزوں ثابت نہ ہو جائیں۔ نت نئے اسلوبوں کی تلاش درحقیقت ایک طرح کی خود پرستی اور انفرادیت پسندی ہے جس سے ترقی پسند ادب کو احتراز لازم ہے۔ اس لیے کہ اُس کے لیے ادب مقصود بالذات نہیں بلکہ سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک آلہ ہے۔
(ص 72، جدید اردو نظم نظریہ و عمل،عقیل احمد صدیقی)
شاعری میں نئے اسالیب اظہار سے گریز کرنے کی ڈاکٹر عبد العلیم کی یہ ہدایت بھی آزاد نظم کے حوالے سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ آزاد نظم کے بارے میں ممتاز ترقی پسند ادیبوں کی یہ عصبیت آمیز رائے ان کے آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ تھی یا اس کے پیچھے مارکسی ادبی نظریات کی کارفرمائی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں سوویٹ یونین کی طرح ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں بھی مارکسی نظریات کے اطلاق میں شدت اور کٹرپن کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ اس عہد میں ہندوستان کے ترقی پسند حلقوں میں کرسٹوفر کاڈویل اور رالف فاکس دو مارکسی نقاد بے حد مقبول تھے۔ روسی ناقدین کی طرح وہ آزاد نظم یا شاعری میں اس نوع کے دوسری ہیئتیں پسندیدہ اس لیے سمجھتے تھے کہ ان کے خیال میں ملارمے اور بادلیر جیسے فرانسیسی شاعر آزاد نظم کے فارم میں داخلی دنیا کے تجربات کی عکاسی کر رہے تھے۔ وہ فرائڈ کے نفسیاتی نظریات اور تحت الشعور کی تہہ داریوں کو سمو کر یوروپ کی سرمایہ دارانہ تہذیب کے ترجمان تھے۔ ترقی پسندوں کا خیال تھا کہ ان کی نظموں کی استعاراتی زبان، خود کلامی اور داخلی تہہ داری بورژوا سماج کے بڑھتے آشوب کو سامنے لاتی تھی۔ سوویٹ یونین میں بھی مختلف زبانوں کے ادب سے وابستہ نقادوں پر بھی آرٹ اور ادب کے حوالے سے پارٹی کی پالیسی کا پورا تسلط تھا۔ شعرا کو اس کی آزادی نہیں تھی کہ وہ اپنی تخلیقی ضرورت کے مطابق فارم یا ہیئت کے تجربات کریں۔ اس لیے بیش تر زبانوں میں شاعری کے روایتی فارم ہی رائج رہے۔
کرسٹوفر کاڈویل نے اپنی کتاب Illusion and Reality میں آزاد نظم کے حوالے سے لکھا ہے :
’’آزاد نظم کی تحریک نراج کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سرمایہ دار طبقے کی ذہنی الجھن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس طبقے کی جو تمام اقدار کی بے سوچے سمجھے نفی کرتے ہوئے سبھی سماجی روابط کو توڑنے کے درپے ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں کے خیال میں انسان اپنے سماجی تعلقات پر قابو رکھنے کی صلاحیت سے کلیتہً محروم ہو چکا ہے۔‘‘
( بحوالہ ص 157، مخدوم محی الدین)
مخدوم محی الدین کے ایک روسی نقاد الکسی سخا چیف کا ڈویل کے اس نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کرسٹوفر کا ڈویل آزاد نظم کے بنیادی طرف دار، انگریز اور امریکی Imagistشاعروں کی تخلیقات کی زوال پذیر ماہیت کی بالکل صحیح نشاندہی کرتے ہیں لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کے جمہوری شاعری میں استعمال کے امکان کو بھی مسترد کر دیتے ہیں۔‘‘(ص157)
سخا چیف کے بیان کا آخری حصّہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وہ بھی دوسرے مارکسی نقادوں کی طرح داخلی تجربات کے اظہار کے لیے آزاد نظم کے فارم کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتے۔ لیکن اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوری شاعری یعنی عوامی زندگی کی ترجمانی کرنے والی شاعری میں آزاد نظم کا استعمال کیا جانا معیوب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا انھوں نے سردار جعفری اور مخدوم کی کامیاب آزاد نظموں کے مطالعے کے بعد ہی سوچا اور لکھا ہے۔ اس لیے کہ اس بیان کے بعد ہی وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
’’اردو شاعری میں آزاد نظم کے روشن امکانات سے فائدہ اٹھانے والے ترقی پسند شاعروں میں اولیت علی سردار جعفری اور مخدوم محی الدین کو حاصل ہے۔‘‘
علی سردار جعفری، جو ابتدائی دور میں آزاد نظم کو اپنانے کے حامی نہیں تھے بعد کے زمانے میں انھوں نے اس فارم کو نہ صرف اپنایا بلکہ اپنی جمہور دوستی اور انقلابی فکر کے تحت بعض موضوعات کو آزاد نظم میں کامیابی سے برتا۔ مثال کے طور پر طویل تمثیلی نظم نئی دنیا کو سلام، خواب، فریب، سیلاب چیں،امن کا ستارہ، ایشیا جاگ اٹھا، بھوکی ماں، بھوکا بچہ، اودھ کی خاک حسیں اور دوسری کئی نظمیں۔ جعفری کی بیش تر آزاد نظموں میں محرک اور موضوع سیاسی ہے۔ ان کے بیانیہ اسلوب میں بلند آہنگی ضرور ہے لیکن نظموں میں جس امیجری سے شاعر نے کام لیا ہے اس میں تازگی اور دلکشی ہے۔ اس کے علاوہ نظم کی فطری روانی اور آہنگ میں بھی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
مخدوم کی آزاد نظموں میں بھی جہاں سیاسی حوالے روشن ہیں، بلند آہنگی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نظموں میں رواں دواں شعری تمثالوں سے جس طرح کی شیرینی اور خوش آہنگی پیدا ہوتی ہے وہ قاری کو شاعر کے تجربے کا ہم سفر بنا لیتی ہے۔ مثلاً ان کی پہلی آزاد نظم ’’قید‘‘ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔
قید ہے، قید کی میعاد نہیں
جو رہے، جور کی فریاد نہیں، داد نہیں
رات ہے، رات کی خاموشی ہے، تنہائی ہے
دور محبس کی فصیلوں سے بہت دور کہیں
سینۂ شہر کی گہرائی سے گھنٹوں کی صدا آتی ہے
جھلملا جاتی ہے انفاس کی لو
جاگ اٹھتی ہے مری شمعِ شبستانِ خیال
اس کے بعد شمعِ شبستانِ خیال کے سہارے شاعر کو جبرِ سیاست سے نڈھال اور مجبور ساتھیوں کی یاد آتی ہے۔ یہاں نظم کا آہنگ Rhythmاُس کے خیال اور جذبے کی دھیمی آنچ اور بہاؤ کے ساتھ قدم بڑھاتا ہے جو نظم کے آخر میں ایک دیر پا تاثر قاری کو دیتا ہے۔
آزاد نظم کی ہیئت کسی خاص وضع Structureکی پابند نہیں ہوتی۔ وہ عروض و قوافی کے روایتی اصولوں سے بھی آزاد ہوتی ہے۔ نظم طویل ہو تو شاعر ایک نہیں کئی اوزان سے کام لے سکتا ہے۔وہ مصرعوں میں ارکان کی تعداد کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ اس فارم کو برتنے میں بنیادی چیز داخلی مواد اور داخلی لحن ہے۔ یعنی شاعر صرف اپنے تخلیقی تجربے کا پابند ہوتا ہے۔ یہ تجربہ ہی آزاد نظم کے فارم کو طے کرتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مخدوم کی آزاد نظموں کو مواد اور موضوع کے لحاظ سے تین متصل دائروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایک ان کی سیاسی اور انقلابی فکر کا دائرہ ہے۔ جس کے تحت ان کا معنوی وجود د بے کچلے انسانوں یا محکوم قوموں کی جدوجہد سے گہرائی کے ساتھ جڑا نظر آتا ہے۔ ان نظموں میں انقلابی جذبہ و احساس تہہ نشیں ضرور ہے لیکن وہ جوشیلا آہنگ نہیں ہے جو کیفی اعظمی، نیاز حیدر یا سردار جعفری کی سیاسی نظموں میں ملتا ہے۔ دوسری اہم بات ہے کہ یہاں بھی ان کے شعری اسلوب میں استعاراتی اظہار نمایاں رہتا ہے۔ مثلاً اندھیرا، وادیِ فردا، چپ نہ رہو، چاند تاروں کا بن اور درّۂ موت۔ دوسرے دائرہ کی نظموں میں عشق اور رومان کی فضا غالب ہے۔ فیض احمد فیض کی طرح مخدوم کی داخلی واردات اور جذبہ و احساس کی بساط بھی دولخت سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف کسی سیم بر حسینہ کے لیے ان کا دل دھڑکتا ہے لیکن اسی شدت سے یہ دل دنیا کے کچلے ہوئے اور زمین کی چھاتی پر بوجھ بنے دکھی انسانوں کے پیار میں بھی تڑپتا ہے۔ مخدوم کی عشقیہ نظموں میں چارہ گر، سناٹا، وصال اور جز تری آنکھوں کے۔۔۔۔۔ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ ان واضح دائروں کے علاوہ مخدوم کی تخلیقی فکر ایک زیادہ تہہ دار اور نازک دائرے میں متحرک دکھائی دیتی ہے۔ یہاں صرف رومان اور انقلاب ہی نہیں بلکہ زندگی کے گوناگوں تجربات سے افسردہ ایک حکیمانہ شعور بھی گلے ملتا ہے۔ یہاں شاعر کے انفرادی غور و فکر کی شعاعیں نظم کی تخئیلی فضا میں ایک پر اسرار روشنی کی خبر دیتی ہیں۔ جو نظم کو تہہ دار Complexبنا کر اس کی تمثالوں اور علامتوں میں ہلکا سا ابہام پیدا کر دیتی ہیں۔ فنی اور معنوی اعتبار سے یہ وسیع کینوس اور کثیر جہات کی تخلیقات ہیں۔ ایسی نظموں میں بلور، وقت بے درد مسیحا، آج کی رات نہ جا، خواہشیں، ملاقات اور رُت جیسی شاہکار نظمیں شامل ہیں۔ ان میں بیش تر نظمیں ایسی ہیں جو مخدوم کی زندگی کے آخری دور کی یادگار ہیں۔ یہ نظمیں شاعر کی پابند نظموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ گہرا اور دیر پا تاثر قاری کو دیتی ہیں۔
آئیے اب اِن تین دائروں کی آزاد نظموں کو ذرا قریب سے دیکھیں۔ پہلے دائرے کی ایک نظم ہے ’چپ نہ رہو‘
’چپ نہ رہو‘ سامراجی طاقتوں کی سازش سے، ہر دل عزیز افریقی رہنما لوممبا کے وحشیانہ قتل پر لکھی ہوئی ایک ماتمی نظم ہے۔ بظاہر ایک ہنگامی سا موضوع ہے۔ لیکن شاعر نے اس سانحے پر اپنے اور انسانیت کے بے کراں دُکھ کو اپنے شعور و فکر کے گلقند میں اس طرح تیار کر کے پیش کیا ہے کہ نظم کی استعاراتی ساخت میں بہا لے جانے والا آہنگ اور وفور پیدا ہو گیا ہے۔
یہ ابتدائی بند دیکھیے :
شب کی تاریکی میں، اک اور ستارہ ٹوٹا
طوق توڑے گئے ٹوٹی زنجیر
جگمگانے لگا ترشے ہوئے ہیرے کی طرح
آدمیت کا ضمیر
پھر اندھیرے میں کسی ہاتھ میں خنجر چمکا
شب کے سناٹے میں پھر خون کے دریا چمکے
صبح دم جب مرے دروازے سے گزری ہے صبا
اپنے چہرے پہ ملے خونِ سحر گزری ہے
وہی مانوس علامتیں ہیں۔ رات، سحر، طوق و زنجیر، صبا، خونِ سحر جو دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھی برتی ہیں۔ لیکن مخدوم کے تجربے میں جو نادیدہ شدت اور وسعت تھی اس نے ان مانوس علامتوں اور تمثالوں میں ایک حیران کن اور تازہ کار حسن پیدا کر دیا۔ لوممبا کے قتل پر آدمیت کے ضمیر کا ایک ترشے ہوئے ہیرے کی طرح جگمگا اٹھنا، رات کے سناٹے میں خنجر کا چمکنا اور پھر خون کے بہتے ہوئے دریا کی چمک۔۔۔۔۔۔ اور پھر بادِ صبا بھی صبح دم جب شاعر کے دروازے سے گزرتی ہے تو اس کا چہرہ بھی خون سے لت پت دکھائی دیتا ہے۔ یہ سارے لہو لہو امیج اُس آفاق گیر المیے کی شدت کو سامنے لاتے ہیں جو اس عہد کی کچلی ہوئی انسانیت کے ہیرو لو ممبا کے قتل کی صورت میں سامنے آیا تھا اور جس نے سچ مچ عالمی سطح پر انسانی ضمیر کو بیدار کر دیا تھا۔
اسی طرح’ وادیِ فردا‘ اور ’درّۂ موت‘ جیسی نظموں میں بھی شاعر کا سیاسی شعور اس کے آفاق گیر انسانی ویژن کے ہمدوش ہوکر نظم کو فن پارہ میں ڈھال دیتا ہے۔
دوسرے دائرے کی نظمیں اجتماعی فکر سے انحراف اور شاعر کی عشقیہ واردات کے لمحات کی روداد ہیں۔ اس لیے ان تخلیقات میں آزاد نظم کی بندش زیادہ غنائی اور رومان پرور ہو گئی ہے۔ لہجہ نرم اور نظم کا ارتقا زیادہ حسیاتی کیفیت اور روانی سے معمور نظر آتا ہے۔ مخدوم اس حقیقت سے آشنا تھے کہ نظم کا آہنگ یا Rhythmایک چیز ہے اور اس کی غنائیت یا موسیقی دوسری چیز۔ پھر یہ کہ غنائیت ایک طرف نظم کے موضوع اور مواد کے خمیر کا حصہ ہوتی ہے دوسری جانب یہ نظم کی ٹیکنک، امیجری اور تعمیر کے عمل میں بھی کار فرما رہتی ہے۔ اور اکثر جب نظم کی داخلی موسیقی اور ہیئتی اظہار میں گہرا تال میل پیدا ہو جاتا ہے تو نظم کے تاثر میں ایک دیرپا جادوئی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
چارہ گر، سناٹا، وصال اور جز تری آنکھوں کے مخدوم کی ایسی ہی سدا بہار تخلیقات ہیں۔ ان کی غنائیت نے ان کے آہنگ میں کسی نرم رو شفاف دریا کے بہاؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ آزاد نظم کے نمائندہ فرانسیسی شاعر آرتھر ریمبو کے برطانوی نقاد Heuripyreنے اس کی نظموں کی ابہام زدہ امیجری کے علاوہ دو خصوصیات پر خاص زور دیا ہے۔ وہ ہیں ان کا Concreteاور Sonorousہونا۔ یعنی پوری نظم کا اسٹرکچر ایک وحدت میں ڈھلا ہو اور صوتی آہنگ رکھتا ہو یا جیسے ہم اپنے محاورے میں کہیں گے کہ مترنم ہو۔ مخدوم کی وہ نظمیں جو عشقِ بلا خیز کا ترانہ بن گئی ہیں۔ جیسے چارہ گر، وصال اور احساس کی رات ایسے ہی اوصاف سے متصف ہیں۔ ان کے اوزان مختلف ہیں، اشاراتی زبان کی فضا بھی منفرد ہے۔ لیکن ان کا ترنم قاری کو بہا لے جاتا ہے۔ وہ علامتوں کے دامن میں چھپی ان سماجی قوتوں کو بھی سمجھتا ہے جو روزِ ازل سے عشق کی دیوانہ گر لذتوں کی حریف رہی ہیں۔ آزاد فارم کے باوجود چارہ گر جیسی نظم تو بڑی دلکش دھن میں گائی گئی ہے۔
دونوں نظموں کو ذرا قریب سے دیکھیے۔
دونوں نظموں کی علامات منفرد ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہیں جو قاری کے ذوقِ شعری کو آزمائیں اور بھٹکائیں۔ چنبیلی کا منڈوا، میکدے سے کچھ دور دو جلتے بدن یہ سارے الفاظ بلیغ علامتوں کی صورت نظم کی تعمیر اور فضا آفرینی میں مدد کرتے ہیں اور پھر مذہب و اخلاق جو اس بے کنار انسانی جذبے کے حریف رہے ہیں وہ دور سے دیکھتے رہ جاتے ہیں اس لیے کہ پیار انسانی رشتوں کا جوہر ہے وہ امر ہے۔
آخری دائرے کی نظمیں حقیقت میں مخدوم کی شاعری کی نئی کروٹوں کے نقوش دکھاتی ہیں۔ علامتی اظہار تو ان کی دوسری نظموں میں بھی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے لیکن تیسرے امتزاجی اسلوب کی نظمیں زیادہ پہلو دار، دلچسپ اور کثیر المعنی نظر آتی ہیں۔ نظم میں محبوب کے مرمریں جسم کی دلکشی اور مرمریں صبح کے ہاتھوں، رات کے ٹوٹنے اور اجالوں کے پیام کی بشارت ایک دوسرے میں ضم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ شاعر کے مسلک میں زندگی لطف و نشاط بھی ہے اور زنجیر کی جھنکار بھی اور یہ دونوں زندگی کے معنی تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
چند شفاف نظموں کے مقابلے میں مخدوم نے آخری دور میں ایسی آزاد نظمیں بھی لکھی ہیں جن کا علامتی کر دار زیادہ تہہ داریوں کا حامل ہے۔ مثلاً ’بلور‘، ’ملاقات‘، ’بے درد مسیحا‘ اور ’خواہشیں ‘ جیسی دلکش تراشی ہوئی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں مخدوم کی فکر کے دائرے، طبقاتی جنگ اور استحصال کے مانوس تصورات سے آگے زیادہ بڑے کینوس پر پھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نظموں میں بھی جن کا علامتی نظام اجنبی اور امیجز گریز پا ہیں ان میں محبوب کے دل نواز حسن کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں جیسے ’ملاقات‘، لیکن دوسری نظموں مثلاً ’خواہشیں ‘ میں علامتی اظہار شاعر کی باطنی دنیا کے نہاں خانوں کا سراغ دیتا ہے۔
یہاں شاعر کی آرزو مندیاں اور محرومیاں اندر سبھا کی پریوں کے زرکار حریری لباس میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ’خواہشیں ‘ کا یہ بند دیکھیے :
خواہشیں، لال پیلی ہری چادریں اوڑھ کر
تھرتھراتی تھرکتی ہوئی جاگ اٹھیں
جاگ اُٹھی دل کی اندر سبھا
دل کی نیلم پری جاگ اُٹھی
دل کی پکھراج لیتی ہے انگڑائیاں جام میں
جام میں تیرے ماتھے کا سایہ گرا
گھل گیا۔
نظم کی امیجری میں اندر سبھا کے رقص و نغمہ کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ مخدوم کی آخری دور کی ایک نظم ہے ’’وقت بے درد مسیحا‘‘۔ نظم میں نور سحر، رات درد کی کہکشاں صلیبوں کی برات، بے درد مسیحا اور دوسرے امیجز کو شاعر نے نئے فکری اور تخئیلی سیاق و سباق میں استعمال کیا ہے۔ لیکن پوری نظم کے آہنگ میں غنائیت کی شیرینی کا احساس قائم رہتا ہے۔ نظم کی کلیدی علامات وقت اور رات ہیں۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے۔
درد کی رات ہے
چپ چاپ گزر جانے دو
درد کو مرہم نہ بناؤ
دل کو آواز نہ دو
نورِ سحر کو نہ جگاؤ
زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو
اس کے بعد ہی یہ بند آتا ہے
وقت بے درد مسیحا ہے
بہ اک حکم جگا دیتا ہے جلا دیتا ہے
قبر سے اٹھ کے نکل آئی ملاقات کی شام
ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال
بھینی بھینی سی وہ خوشبو کسی پیراہن کی
آخر زمانے کی دوسری نظموں کی طرح مخدوم کی اس نظم میں بھی داخلی کرب، اضمحلال اور بیزاری کی ایک لہر رینگتی دکھائی دیتی ہے۔ نظم میں آگے بھی شاعر رات کو درد کی کاہکشاں اور مصیبتوں کی برات کہتا ہے اور گوشۂ دل کے سناٹے میں لیٹی ہوئی حسرتوں اور تشنہ کام خواہشوں کو گنتا ہے۔ لیکن نظم کے آخر میں وہ وقت سے التماس کرتا ہے کہ رات کی نبض میں نشتر رکھ دے تا کہ رات کا سارا خون اس کی شریانوں سے بہہ جائے۔ اس طرح نظم میں رات ایک بار پھر گہرے زخموں، اذیتوں اور ظلم کی علامت بن جاتی ہے اور رومانوی تمثالوں کے باوجود شاعر کی انقلابی فکر کے سلسلوں سے مل جاتی ہے۔
فیض کی آخری دور کی شاعری میں بھی آزاد نظمیں زیادہ ملتی ہیں۔ جیسے ’یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے۔‘ ’تم ہی کہو کیا کرنا ہے ‘ یا ’تم اپنی کرنی کر گزرو۔‘ فیض کی اختراعی فکر بھی نئی علامتیں تراشتی ہے۔ اسلوب و اظہار میں رومانوی آہنگ ان کی نظموں میں بھی حاوی رہتا ہے۔ اس کے برعکس ن۔م۔راشد کا استعاراتی اظہار کنایاتی ہوتا ہے اور بڑی حد تک رومانوی تخیل کی رنگینی سے خالی، استعارے کم ہوتے ہیں لیکن نظم کے آہنگ میں پختگی کا احساس ہوتا ہے۔
مخدوم کی آزاد نظموں کا رنگ و آہنگ فیض کی نظموں سے قریب تر ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رومانوی فکر کی رنگینی ان کی نظموں میں زیادہ نمایاں رہتی ہے اور اسی وصف میں ان کی انفرادیت کا حسن پنہاں ہے۔
٭٭٭
پروفیسر امیر عارفی
مخدوم محی الدین سے انٹرویو
میری بہت دنوں سے خواہش تھی کہ مخدوم صاحب سے بھی شعر و ادب کے مسائل پر بات کروں اور اس گفتگو کو انٹرویو کی صورت میں پیش کروں۔ اس سے پہلے میں نے فراق گورکھپوری، کرشن چندر، پروفیسر احتشام حسین کے انٹرویو کیے جو ’’صبا‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔ اردو ادب کی جو اہم اور قد آور شخصیتیں ہیں ان میں مخدوم کا نام بہت اہم ہے۔ میرے خیال میں ۱۹۳۶ء کی نسل میں فیض اور مخدوم دو ایسے شاعر ہیں جنھوں نے متواتر Contribute کیا ہے ورنہ کسی نے فلم میں پناہ لے لی ہے اور کوئی اس سوچ میں گم ہے کہ اب کیا کہیں ؟ کوئی اپنی شہرت کی گرتی ہوئی دیواروں کو سنبھالنے میں مصروف ہے تو کئی ایسے ہیں جنھوں نے چپ سادھ لی ہے۔
اس انٹرویو کا خیال مخدوم کی ان نظموں اور غزلوں کو پڑھ کر ہوا جو زندگی پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مخدوم کی دو شخصیتیں ہیں۔ ایک سیاسی دوسری ادبی، مخدوم صرف شاعر ہی نہیں بلکہ وہ ہندستان کے سیکڑوں محنت کرنے والے جفا کش عوام کے محبوب لیڈر اور آندھراپردیش قانون ساز کونسل کے اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔
مخدوم کی زندگی جس نشیب و فراز سے گزر رہی ہے۔ ہند و پاک کا اگر کوئی دوسرا شاعر اس طرح کی زندگی بسر کرتا تو وہ یا تو سیاسی زندگی ترک کر دیتا یا پھر شاعری لیکن مخدوم ایک ایسا البیلا شاعر ہے جس نے دونوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ یہ انٹرویو میں نے پچیس سال پہلے لیا تھا جو ’’صبا‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس انٹرویو سے قبل دس بارہ سال سے لیڈر مخدوم سے بہ خوبی واقف تھا۔ لیکن انٹرویو کے بعد مجھے شاعر مخدوم کو سمجھنے میں مدد ملی کہ کس طرح لیڈر مخدوم نے شاعر مخدوم کو سنبھال کر رکھا ہے۔
مخدوم کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس وقت ہمارے سامنے آیا جب فلم والوں نے مخدوم سے بمبئی میں رہ کر گانے لکھنے کی خواہش کی اور مخدوم نے ان کی اس پیش کش کو رد کر دیا۔ ورنہ ایسے کتنے شاعر ہیں جو فلم میں گانے لکھنے کے لیے سب کچھ داؤں پر لگا دیتے ہیں۔
میں چھٹیوں میں علی گڑھ سے ۲۳/ دسمبر ۱۹۶۳ء کو حیدرآباد پہنچا اور یہ میرے لیے اچھا موقع تھا کہ میں اپنے محبوب شاعر مخدوم سے انٹرویو کی دیرینہ خواہش کو پورا کروں۔ چناں چہ ۴/ جنوری ۱۹۶۴ء کو میں اور مخدوم ایک پُر سکون کیفے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چائے پینے کے دوران ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور میرے سوالات کے لیے ماحول سازگار ہوتا گیا اور میں نے سوالات کا آغاز کیا۔
امیر عارفی : مخدوم صاحب آپ نے کب اور کس ماحول میں شاعری کا آغاز کیا؟
مخدوم محی الدین : میری شاعری کا آغاز ۱۹۳۳ء سے ہوا جب کہ میں کالج کا طالبِ علم تھا۔ میری ابتدائی تعلیم عربی، فارسی اور تلگو میں ہوئی۔ پندرہ سال کی عمر میں میں نے سکندر نامہ، دیوانِ حافظ، دیوانِ صائب، اخلاق محسنی، مثنوی مولانا روم کا کچھ حصہ اور سعدی کی گلستان، بوستان ختم کر لی تھی۔ یہ بہت بڑا Impact تھا۔ ادب سے دلچسپی ۱۹۲۸ء میں پیدا ہو چکی تھی۔ اس دور کے مشہور رسالے ’’نگار‘‘ اور ’’ایوان‘‘ میں دلچسپی سے پڑھتا تھا۔ کالج کے ابتدائی دور ہی میں مجھے کلاسیکل ادب پڑھنے کا موقع ملا، لیکن کبھی شعر کہنے کی خواہش نہیں ہوئی حالاں کہ میرے دو چچا زاد بھائی ایک صبا اور دوسرے ادیب شاعر ہو چکے تھے اور خود میرے دادا شاعر تھے جو فطرت تخلص کرتے تھے، وہ عشق میں پاگل ہو کر مر گئے، میرا گھریلو ماحول مذہبی تھا اور ہمارا خاندان درس و تدریس کے لیے مشہور تھا۔ ہمارے خاندان میں پیراکی، قرات اور خطاطی کے ماہرین گزرے ہیں۔ تجوید میں نے نہیں پڑھی، لیکن گھر میں لوگ قرآن شریف تجوید سے پڑھتے تھے، البتہ ہم سے خطاطی ضرور کرائی گئی۔ میری ابتدائی تعلیم گھر پر عربی فارسی میں ہوئی اور تلگو گاؤں کے مکتب میں پڑھی۔ مجھے وہ مندر اور پیپل کا درخت اب تک یاد ہے جس کے نیچے بیٹھ کر ہم ’’سرسوتی‘‘ لکھا کرتے تھے۔
میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ میرا گھریلو ماحول بڑا مذہبی تھا۔ میں نے مولسری کے بیجوں پر ختم خواجگان، مولود شریف پڑھنے سے لے کر مسجد کی جاروب کشی اور اذان تک دی ہے۔ مسجد میں نمازیوں کے لیے کنویں سے پانی نکالنا، ہر جمعہ کو سر منڈوانا، سخت گرم پانی سے نہانا اور روزانہ کے معمول میں فرض سنت اور نوافل کے علاوہ اشراق اور چاشت کی نمازیں پڑھنا اس قسم کے مذہبی ڈسپلن سے میری طبیعت اکتا جاتی تھی۔ لیکن گاؤں میں میں نے گھر والوں کی چوری سے شرر کے ناولوں کا پورا سٹ پڑھ لیا تھا۔ کالج کے ابتدائی سالوں میں جب کہ میں شعر نہیں کہتا تھا میری آواز بہت اچھی تھی اور اچھا خاصا گا لیتا تھا۔کھیل کود اور شکار کا زیادہ شوق تھا، میں سو گز کی دوڑ، ہائی جمپ، لانگ جمپ اور فٹ بال میں کئی انعامات لے چکا ہوں۔ فٹ بال میرا پسندیدہ کھیل رہا ہے۔
۱۹۳۳ء میں میں نے اتفاقیہ طور پر جو نظم کہی وہ ’’پیلا دوشالہ‘‘ تھی جو مزاحیہ ہے۔’’انھیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی‘‘ ’’تلنگن‘‘ اور ’’ساگر کے کنارے ‘‘ بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔
امیر عارفی : مخدوم صاحب ابھی تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کا آپ کی زندگی میں کوئی دخل نہیں تھا تو پھر آپ سیاست میں کیسے آئے ؟
مخدوم محی الدین : میرا گھریلو ماحول مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ قوم پرستانہ بھی تھا اور میں گھر پر گاندھی جی، مولانا محمد علی اور ’’بی اماں ‘‘ کے قصے سنتا تھا، گھر میں چرخا کاتا جاتا تھا، چچا کھادی کی بڑی تعریف فرماتے خود بھی کھادی پہنتے اور مجھے بھی پہناتے لیکن مجھے وہ کلف سے اکڑی ہوئی کھادی مطلق پسند نہ تھی۔
خلافت تحریک کے زمانے میں میری عمر گیارہ، بارہ سال کی تھی۔ میرے چچا خلافت تحریک کے سرگرم موئد تھے۔ وہ مجھے سمجھایا کرتے تھے کہ دنیا میں ایک ملک روس ہے جہاں بادشاہ کو ہٹا کر غریبوں نے حکومت قائم کر لی ہے۔ اب وہاں امیر غریب سب ایک دسترخوان پر ساتھ ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور پھر نیاز کی تحریروں نے مجھے متاثر کیا۔ مارکسسٹ ادب سے میں ۱۹۳۴ء میں واقف ہوا اور کمیونسٹ پارٹی کا ۱۹۴۰ء میں ممبر ہوا۔ گو میرا تعلق ۱۹۳۴ء سے کمیونسٹ پارٹی سے رہا ہے، لیکن ۱۹۴۰ء سے ممبر اس لیے ہوا کہ حیدرآباد میں پارٹی ۱۹۴۰ء میں قائم ہوئی۔ اس وقت پارٹی غیر قانونی تھی۔ جواہر لال نہرو کی قیادت میں ۱۹۳۴ء میں فاشزم کے خلاف ہندستانی قومی تحریک زوروں پر تھی۔ ہم لوگ جنگ اسپین سے بہت متاثر تھے۔ میری پہلی سیاسی نظم ’’جنگ‘‘ ہے۔
حیدرآباد میں سبط حسن، اختر رائے پوری، ڈاکٹر جے۔سوریا نائیڈو، ایم نرسنگ راؤ (سابق مدیر رعیت) اور چند لوگوں نے مل کر جن میں میں بھی تھا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی۔ ہمارے جلسے سروجنی نائیڈو کے مکان پر ہوا کرتے تھے۔ اسی دور میں ہماری مقبولیت اور مخالفت شروع ہو گئی تھی، مقبولیت کی بنیاد یہ تھی کہ ہماری شاعری زندگی اور عوام کے قریب تھی اور غزل کے روایتی انداز سے ہٹی ہوئی تھی اور ہماری مخالفت محض سیاسی مفادات اور رجعت پسندی کی بنا پر ہوتی تھی۔
امیر عارفی : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے حیدرآباد کے ادبی ماحول کو متاثر کیا ہے ؟
مخدوم محی الدین : میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ ہم نے روایت کی دیواریں توڑ دی تھیں اور ادب کو زندگی کا رفیق بنا چکے تھے۔ ادب میں ہمارا نقطۂ نظر ہی بدلا ہوا تھا۔ اس طرح نئی نسل کا اس ادب سے متاثر ہونا ضروری تھا۔ چناں چہ نظر حیدرآبادی، سلیمان اریب، میکش، دہقانی، ظہیر بابر، لطیف ساجد، تحسین سروری، عزیز قیسی وغیرہ بھی اس سے متاثر ہوئے۔
امیر عارفی : ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر تو آپ نے انقلابی شاعری کی، آج کل کس ’’انسپریشن‘‘ کی بنا پر شعر کہہ رہے ہیں۔
مخدوم محی الدین : شروع سے میں ترقی پسندی کے ’’انسپریشن‘‘ کے تحت شعر کہہ رہا ہوں۔ اس دور میں جب کہ سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد، طبقاتی جدوجہد، ہماری نجی زندگی، عشق، عشق کی محرومیاں سب کچھ شامل ہیں۔ ترقی پسندی کے مفہوم میں آفاقیت آ گئی تھی۔ جنگ اور امن کو موضوع بنایا، اردو شعر کو تنگنائے غزل سے نکال کر دھرتی پر کھڑا کر دیا۔ غزل سے بندھے ٹکے الفاظ نکال کر اس کو نئی تلمیحیں، تشبیہیں اور استعارے دیے، نیا جمال و جلال دیا۔
موجودہ شاعری میں ہماری زندگی ہی انسپریشن ہے۔ آج کی دنیا وہ نہیں ہے جو ۱۹۴۵ء سے پہلے تھی۔ آج امن عالم کے تحت قومی آزادی کی تحریک اور سوشلسٹ نظام کا دنیا میں فیصلہ کن مقام حاصل کرنا، سامراج کا کمزور ہونا، امن اور جمہوریت پسند طاقتوں کا وسیع ہونا، غلام ملکوں کا آزاد ہونا، فکر، احساس اور عمل کا بلندیوں پر پہنچنا، یہ ماحول دوسری جنگ سے پہلے نہ تھا۔ پہلے تاریخ سوشلزم بناتی تھی۔ اب سوشلزم تاریخ بنا رہا ہے۔ ’’اس زمینِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا‘‘ قسم کی شاعری اب ہم دوسرے ڈھنگ سے کرتے ہیں کیوں کہ آج ایک نئی دنیا اور نیا آدم پیدا ہو چکا ہے۔ آج ہم ایک غلام ملک کی نہیں بلکہ صدیوں کی دبی ہوئی امنگوں، لذتوں اور لطافتوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
امیر عارفی : مخدوم صاحب آپ کے پہلے مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ میں سیکس کا دور دور تک پتہ نہیں لیکن آج کل آپ کے پاس اس کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اس کی کوئی وجہ آپ بتا سکتے ہیں ؟
مخدوم محی الدین : دراصل آج ہم اپنے احساسات کا بقایا چکا رہے ہیں، پہلے ترقی پسند کا مضمون محدود تھا، لیکن آج دنیا بدلی ہوئی ہے۔ آج ہمیں داخلی مسائل بھی متاثر کرتے ہیں۔ سیکس انسانی فطرت کا ایک اہم جز ہے دنیا کے شعر و ادب کا (۹۰) فی صد حصہ سیکس پر مبنی ہے، لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ آپ کس زاویہ سے اس کو محسوس کرتے اور پیش کرتے ہیں، کیوں کہ شعر کا کام انسانی جبلتوں کو تہذیب عطا کرنا ہے۔ نظموں میں سیکس صاف اس لیے نظر آ جاتا ہے کہ نظم کی زبان غزل کی زبان نہیں ہے۔ غزل میں تو سیکس عریانی کی حد تک پہنچ گیا ہے، لیکن غزل موردِ الزام اس لیے نہیں ٹھہرتی کہ اس میں سیکس ڈھکے چھپے انداز میں آتا ہے۔
امیر عارفی : سرخ سویرا کے بعد آپ کی طویل خاموشی ’’قید‘‘، ’’چارہ گر‘‘ اور ’’چاند تاروں کا بن‘‘ جیسی خوب صورت نظموں کے ذریعہ ٹوٹی۔ پھر آپ آج کل غزل کیوں کہہ رہے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ تو نہیں ہے۔
مخدوم محی الدین :غزل کہنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ داخلی محرکات جمع ہوتے ہوے ایک دن غزل کی صورت میں بہہ نکلے :کھٹ کھٹا جاتا ہے زنجیر درِ مے خانہ کوئی،دیوانہ کوئی،آبلہ پا آخر شب
اس غزل کی تمام علامتیں سیاسی ہیں۔ اس کی ساری فضا کیرالا الیکشن کی ہے۔ دراصل انقلابی شاعری میں بھی میرے پاس جمالیاتی عنصر زیادہ ہے مثلاً ’’گزر بھی جا کہ تیرا انتظار کب سے ہے ‘‘ والی نظم میں گو انقلاب کو دعوت دی جا رہی ہے، لیکن اس میں رومانیت اور جمالیاتی عنصر پیدا ہو گیا ہے جس کو آپ Lyrical بھی کہہ سکتے ہیں۔
’’سرخ سویرا‘‘ کی اور نظموں مثلاً موت کا گیت، انتظار، طور او ر آتش کدہ میں بھی آپ کو جلال اور جمال یعنی انقلاب اور حسن دونوں کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ اس دور میں میں نے ایک نظم ’’حویلی‘‘ لکھی لیکن اس سے کچھ تسکین نہیں ہوئی تو دوسری نظم:
وہ خمِ گردن وہ دستِ ناز وہ ان کا سلام
ابروؤں کا وہ تکلم وہ نگاہوں کا پیام
لکھی اور اب حالیہ نظموں میں ’’چارہ گر‘‘، ’’رقص‘‘ وغیرہ کو دیکھیے کہ کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں۔ آج عشق اور انقلاب ایک دوسرے میں سموئے ہوئے ہیں۔
امیر عارفی : آپ نے طویل خاموشی کیوں اختیار کی، کیا بڑی شاعری کے لیے وقفہ ضروری ہے ؟
مخدوم محی الدین : میں نہیں جانتا کہ میری شاعری بڑی ہے یا نہیں، لیکن اس وقت تحریک کے سامنے جو مسائل درپیش تھے۔ اس کی وجہ سے میرے نزدیک شاعری اہم نہیں تھی۔ ایک آرٹسٹ کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ تحریک کے تقاضے اور آئندہ آنے والے زمانے کے مسائل کیا ہیں، جو شخص کسی تحریک میں عملی طور پر شامل نہیں ہے۔ اس پر بھی ایسا دور آتا ہے۔ اقبال بھی فکری کشمکش میں برسوں مبتلا رہے۔
امیر عارفی : مخدوم صاحب کیا کسی ادیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کا ممبر ہو۔ کیا بغیر ممبر بنے وہ اچھا ادب پیش نہیں کر سکتا؟
مخدوم محی الدین : کسی ادیب کی تخلیقات میں آفاقیت، ہمہ گیری، انسانی دل کی تہہ در تہہ جانکاری اور زندگی کا جتنا وسیع تجربہ اور مطالعہ ہو گا وہ اتنا ہی اچھا ادب پیش کر سکتا ہے، اس کے لیے کسی سیاسی پارٹی کا ممبر ہونا ضروری نہیں۔ یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی ممبری قبول کر لے۔
امیر عارفی : آپ کی نظم’’ وصال‘‘ کیا ان مصرعوں کے بغیر:
’’دولت خاں کی ڈیوڑھی کے کھنڈروں میں
بڈھا ناگ کھڑا روتا ہے ‘‘
مکمل نہیں ہو سکتی؟
مخدوم محی الدین : ہاں ٹھیک ہے میری نظم وصال دو مصرعوں کے بغیر بھی مکمل ہے لیکن سوچیے کہ ان دو مصرعوں کی وجہ سے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ایک مرد اور عورت کے وصال میں آج بھی کتنی سماجی رکاوٹیں ہیں۔ آخر کیوں ؟ یہ سوال بہت اہم ہے اور یہ رکاوٹیں، روپیہ جائیداد، طبقہ ذات پات، مذہب، رنگ و نسل کی ہیں۔ ایک نیگرو کسی گوری عورت سے شادی نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرتے ہوں۔ یہاں اگر ادیب با شعور ہو گا تو بات ڈھنگ کی کرے گا ورنہ گوری چمڑی والوں کے خلاف نسلی منافرت کا اظہار کر کے حساب برابر کر دے گا۔ نظم وصال میں ’’دولت خاں کی ڈیوڑھی‘‘ وہ مردہ روایتیں ہیں جو جوان روحوں کے آپس میں ملنے پر آج ڈس نہیں سکتیں، بلکہ صرف آنسو بہا سکتی ہیں کیوں کہ زمانے نے ان کی قوتِ جبر کو روند دیا ہے۔
امیر عارفی : شاعری میں نئے تجربوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ میرے نزدیک شاعری اور نظم دو علاحدہ چیزیں ہیں اور ضروری نہیں کہ ہم میٹر ہی میں شاعری کریں۔
مخدوم محی الدین : میں نئے تجربوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ بہ شرط یہ کہ اس میں شعریت اور شعور کی کارفرمائی موجود ہو۔ جی ہاں نظم میں میٹر ضروری نہیں، صرف وزن ہوتا ہے۔ چناں چہ آزاد نظم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ لیکن آج یہی نظمیں مقبول ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ان نظموں کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں۔ مثلاً ’’چارہ گر‘‘ اور ’’چاند تاروں کا بن‘‘ آزاد نظمیں ہوتے ہوئے بھی گائی جاتی ہیں۔ دراصل اس کی وجہ جو میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ آزاد نظم کو زیادہ سے زیادہ مترنم ہونا چاہیے۔ آج کی نظم اپنا مرکزی خیال، اپنے الفاظ، اپنی موسیقی، اپنا پیکر، اپنا پیرہن اور اپنی لٹک لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا حلقۂ اثر بڑھتا جا رہا ہے۔
امیر عارفی : پچھلے دنوں غالباً ’’سویرا‘‘ اور ’’سوغات‘‘ میں بغیر وزن کی کچھ نظمیں شائع ہوئی تھیں اور ادھر بنے بھائی بغیر وزن کی یعنی Speech Rhythm میں نظمیں لکھ رہے ہیں۔ اس نئے تجربے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟
مخدوم محی الدین : میں نے ’’سویرا‘‘ او ر ’’سوغات‘‘ میں شائع ہونے والی وہ نظمیں تو نہیں پڑھیں، لیکن انگریزی میں ایسی شاعری کا رواج ہے۔ تلگو کا مہا کوی سری سری بھی بلا میٹر اور بلا وزن کی نظمیں لکھتا ہے۔ لیکن میں بلا وزن کی نظمیں نہیں کہہ سکتا کیوں کہ میرے شعروں کی تخلیق موسیقی سے ہوتی ہے اور دل کی دھڑکن ہی میرے میٹر کا وزن بن جاتی ہے۔میں نے بنے بھائی کی نظمیں سنی اور پڑھی ہیں۔ میں ان سے لطف لیتا ہوں، لیکن ہمیں نیا تجربہ کرتے وقت اس بات کی احتیاط برتنی چاہیے کہ ماضی کے گھسے پٹے پیمانوں کو ترک کرتے ہوئے ان کی جگہ کون سے نئے پیمانے پیش کریں تاکہ ہمارے سننے اور پڑھنے والے عوام ’’نئی چیز‘‘ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
امیر عارفی : دکنی زبان کی عوامی شاعری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
مخدوم محی الدین : عوامی دکنی شاعری کی زندہ مثال سرور ڈنڈا کی شاعری ہے۔ ڈنڈا کی شاعری کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی زبان اور فارم، دوسرے اس کی نظموں کا خیال۔ جہاں تک اس کی زبان اور فارم کا سوال ہے، وہ قدیم دکنی کے ساتھ آج کی مروجہ زبان اور لوک گیتوں کی بحروں کے ساتھ دکنی اور تلگو گیتوں کی بحریں بھی آزادی کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور جہاں تک اس کی نظموں کے خیال کا یعنی اس کے سیاسی اور سماجی شعور کا تعلق ہے وہ معاشرہ میں بنیادی تبدیلی ضرور چاہتا ہے، لیکن اس تبدیلی کو نظر انداز کر دیتا ہے جو آج تیزی سے رونما ہو رہی ہے۔ ڈنڈا کے پاس ظلم و جبر کے خلاف ایک شدید جذبہ ملتا ہے۔ وہ سامراج اور مطلق العنانیت کا دشمن ہے۔ وہ عوام کی سیاسی لڑائیوں میں بھی شریک ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’’انقلاب‘‘ کا اس کا اپنا ایک تصور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جمہوریت کا قائل بھی ہے اور اس سے ناخوش بھی اور یہیں وہ تنگ نظری کا شکار ہو جاتا ہے۔ دراصل ڈنڈا جہاں سیاسی حیثیت سے با شعور ہے وہاں سماجی حیثیت سے کچھ قدامت پرست بھی ہے۔ چناں چہ لڑکیوں کی وضع قطع میں ذرا سی تبدیلیوں کو بھی وہ برا سمجھتا ہے اور یہاں تک کہ عورتوں کی آزادی کا مخالف بن جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ڈنڈا سوشلزم میں یقین رکھتا ہے اور اس کی زبان اور شاعری کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شاعری کے ساتھ البتہ یہ ظلم ضرور ہے کہ یہ صرف سننے تک محدود ہے۔ جب یہ لکھی جائے تو پڑھنے میں تکلف ہوتا ہے۔
امیر عارفی : مخدوم صاحب ہمارے ادب میں Frustration کیوں بار پا رہا ہے جب کہ ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے۔ اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے ؟
مخدوم محی الدین : دراصل بات یہ ہے کہ جب شاعر کا نقطۂ نظر زندگی کے متعلق سائینٹفک نہ ہو گا تو وہ Frustration کا شکار ہو جائے گا۔
ہمارے شاعروں کا ایک گروہ ایسا ہے جس نے داخلی طور پر انقلاب کا ایک تصور قائم کر لیا تھا اور چوں کہ ان کے لیے وہ لمحہ نہیں آیا جس کا انھیں انتظار ہے اور وہ صبح نہیں آئی جس کی انھوں نے تمنا کی تھی اس لیے وہ جس فضا میں سانس لے رہے ہیں اور جس صبح سے گزر رہے ہیں اس سے مایوس ہیں۔ اس قسم کے شاعر یا تو ۱۹۴۵ء کے زمانے کی شاعری کر رہے ہیں یا پھر کسی خیالی وادی میں گم ہو گئے ہیں۔
شاعروں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو عالمی تغیرات کے اثرات اور زندگی کا کوئی شعور نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ سے ان کی نجی زندگی میں سخت گھٹن آ گئی ہے اور ان کے اعصاب میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس کی ذہنی گھٹن کے خول کو توڑ کر باہر آ سکیں لہذا ایسے شاعروں کی فکر میں قنوطیت اور تشکیک راہ پا جاتی ہے یا پھر وہ Sex کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
ٍ ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو چاہیے کہ وہ عوام کے قریب رہیں۔ ان کے دل کی دھڑکنیں سنیں۔ ان کے دکھ درد اور ان کی خوشیوں کا پاس کریں۔ بہ الفاظ دیگر وہ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ زندگی کیا ہے تو پھر ان کا غم اور خوشی شبنم بن جاتی ہے :
زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی
زندگی رنگِ گل کا بیاں دوستو
گاہ ہنستی ہوئی گاہ روتی ہوئی
میری آنکھیں ہیں افسانہ خواں دوستو
٭٭٭
فکر تونسوی
وہ مر نہیں سکتا
اچانک میرے ریڈیو سیٹ سے اناؤنسر کی آواز سنائی دی ’’ہندستان کے مشہور انقلابی شاعر اور محبوب عوامی رہنما مخدوم محی الدین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘
اس سے چند منٹ پہلے ریڈیو سے ایک مسرت انگیز خبر سنائی گئی تھی کہ ہندستان کے مشہور عوام دشمن سنڈیکیٹ اور غیر محبوب رہنماؤں نے اندرا گاندھی کی سوشلسٹ پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
ایک خبر اتنی اندوہناک دوسری خبر اتنی خوش کن؟ اور دونوں خبروں کے درمیان صرف منٹ کا فاصلہ؟ اور میں سوچنے لگا۔ کیا موت اور زندگی اتنے قریب قریب رہتے ہیں۔ ایک لمحے سوشلزم کا متوالا دنیا سے چل بسا۔ دوسرے لمحے سوشلزم فاتح و کامران ہو کر نکلا۔ یہ کیسی دنیا ہے ؟ جس میں خوب و ناخوب دونوں حقائق بہ یک وقت ٹکراتے رہتے ہیں۔ سچ مانئے مجھے اس بات پر اعتبار تو آ گیا کہ سنڈیکیٹ سوشلزم کے طوفان کی ریلے کی تاب نہ لا کر ضرور پیچھے ہٹ گیا ہو گا لیکن اس خبر پر مجھے پہروں یقین نہ آیا کہ مخدوم محی الدین چل بسا۔ وہ جو عمر بھر سوشلزم کی خاطر لڑتا رہا۔ جوں ہی سوشلزم کے درخت پر بور آنے لگا وہ درخت سے ہی پیٹھ موڑ کر چلا گیا۔
اور کیا پرائمری کے قاعدے کے اس بوڑھے کا یہ کہنا واقع صحیح ہے۔ جسے پیڑ لگا تے دیکھ کر کسی نے پوچھا تھا ’’بابا تم یہ پیڑ کاہے کو لگا رہے ہو، جب تک اس پر پھل لگیں گے اس وقت تک تم اس دنیا سے کوچ کر چکے ہو گے ؟ اور بوڑھے بابا نے جواب دیا تھا ’’بیٹا‘‘ میں یہ پیڑ اپنے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے لگا رہا ہوں ‘‘ ہاں مخدوم میں شاید اسی بوڑھے بابا کی روح تھی۔ اس نے زندگی بھر سوشلزم کے بوٹے کو سینچا! اسے پانی دیا! اسے حرارت پہنچائی اسے رجعت پسندوں کی زہریلی ہواؤں سے محفوظ رکھا۔ اکسٹھ سال تک وہ اس پیڑ پر پھل لانے کے لیے کڑے سے کڑے مصائب سہتا رہا۔ اس کے لیے قید و بند کے دکھ جھیلے، اس نے غریب محنت کش عوام کے لیے سوشلزم لانے کے لیے اپنی جوانی، اپنی تمناؤں، اپنے علم اور اپنے خلوص کا لہو دیا۔
اور پھر جب پیڑ کی کونپلیں پھوٹنے لگیں دیش بھر میں سوشلسٹ طاقتوں کے پھریرے لہرانے لگے اور قریب تھا کہ عوام کا صبر اور جدوجہد پھل لاتی۔ نہ جانے مخدوم کے جی میں کیا آئی کہ اس پھل کو سرمایہ داروں کی بجائے عوام کی جھولیوں میں گرتے ہوئے نہ دیکھ سکا اور اس وقت سے پہلے چلا گیا جب اسے جانا نہیں چاہیے تھا، یہ شاید صحیح ہو کہ بہ قول غالب موت کا ایک دن معین ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ ایسے لوگوں کے لیے موت کا دن کیوں معین کر دیا جاتا ہے۔ جو روشنی کی مشعل لے کر آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ میں شاید یہ کہہ کر زیادتی نہیں کر رہا ہوں کہ میرے قارئین نے مخدوم محی الدین کا نام کم سنا ہو گا۔ لیکن یہ کہنا بھی مبالغہ ہرگز نہیں ہے کہ آندھراپردیش میں مخدوم کی پوجا کی جاتی تھی۔ گزشتہ سال جب میں حیدرآباد گیا تھا تو حیدرآباد کے رکشا پلر سے لے کر یونی ورسٹی کے اسٹوڈنٹس سے ہوتے ہوئے بڑے بڑے وزیر تک جب مخدوم کا نام لیتے تھے تو احترام و عقیدت سے ان کے سر جھک جاتے تھے۔ کیوں کہ وہ بہ یک وقت مزدور لیڈر بھی تھا، شاعر بھی تھا اور سیاسی لیڈر بھی تھا۔ ہلکے سیاہ رنگ کا، فکر تونسوی کی طرح دبلا پتلا، محبت اور خلوص کا مجسمہ، جس سے بھی بات کرتا تھا اس کا دل بھی موہ لیتا تھا طبیعت میں، لباس میں، بول چال میں نہایت پُر کشش سادگی، حیدرآباد کی کوئی محفل مخدوم کے بغیر نمائندہ محفل نہیں سمجھی جاتی تھی۔
میں نے بڑے بڑے امیر زادوں کو مخدوم کے سامنے سر عقیدت جھکاتے دیکھا ہے حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں ہلانے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود مخدوم کی شخصیت میں ایک طلسم تھا کہ محنت کش طبقہ اس کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا۔ مگر سرمایہ دار طبقہ اس کی سچی اسپرٹ اور عزم صمیم کا احترام کرتا تھا۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظام سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، کیوں کہ اس کے مزاج میں اس کی روح میں وہ تڑپ تھی، جو تیز تر ہو جائے تو سوشلسٹ انقلاب کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔
اور آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں میرے دماغ میں متواتر کشمکش ہو رہی ہے کہ مخدوم کے انتقال کی خبر جھوٹی ہے یا سچی وہ مر ہی نہیں سکتا تھا، اسے مرنا چاہیے بھی نہیں تھا۔ کیا مرنے کے لیے صرف مخدوم ایسے خادم عشق باقی رہ گئے ہیں ؟ کیا موت نے اسے اٹھانے سے پہلے یہ نہیں سوچا کہ مخدوم ایسے لوگ مرنے کے لیے پیدا نہیں ہوتے، کیا موت کا انتخاب انتہائی غلط نہیں تھا؟
میں مخدوم سے کئی بار ملا ہوں اور وہ ہمیشہ مجھے پیارا لگا ہے میں اسے گزشتہ پچیس سال سے جانتا ہوں سب سے پہلے اس سے میرا تعارف ایک شاعر کے طور پر ہوتا تھا۔ جب ہم سب شاعر اور ادیب لوگ انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے مخدوم کا شاعرانہ قلم ہم سب سے پیش پیش تھا۔ اس کی شاعری کا ایک ایک بول عوام کی رگوں میں ہمت اور طاقت کا لہو دوڑا دیتا تھا۔ وہ غلامی کے اندھیرے میں شاعری کی روشن مشعل لے کر آگے بڑھا تھا اور اس وقت کا مجھے اس کی نظم کا ایک مصرعہ جو زبانِ زدِ عام ہو چکا تھا، کبھی نہیں بھولتا کہ:
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو
٭٭٭
رفعت سروش
انقلاب کا مغنی۔۔۔۔۔۔ مخدوم محی الدین
کچھ قوسِ قزح سے رنگت لی، کچھ نور چرایا تاروں سے
بجلی سے تڑپ کو مانگ لیا، کچھ کیف اڑایا بہاروں سے
پھولوں سے مہک، شاخوں سے لچک اور منڈوؤں سے ٹھنڈا سایہ
جنگل کی کنواری کلیوں نے دے ڈالا اپنا سرمایہ
بدمست جوانی سے چھینی کچھ بے فکری، کچھ الہڑ پن
پھر حسنِ جنوں پرور نے دی آشفتہ سری، دل کی دھڑکن
بکھری ہوئی رنگیں کرنوں کو آنکھوں سے چن کر لاتا ہوں
فطرت کے پریشاں نغموں سے اک اپنا گیت بناتا ہوں
فردوسِ خیالی میں بیٹھا اک بت کو تراشا کرتا ہوں
پھر اپنے دل کی دھڑکن کو پتھر کے دل میں بھرتا ہوں
یہ ہے اس بانکے شخص اور غنائیت سے بھر پورا س کی شاعری کا تعارف جو خود شاعر نے اپنے سحر آگیں الفاظ میں کرایا ہے۔ بہت سی لازوال نظموں کے اس بت تراش کا نام ہے۔۔۔ مخدوم محی الدین۔۔۔ جس کی ایک تصویر خاکہ نگار زینت ساجدہ نے ان الفاظ میں سے بنائی کہ :
’مخدوم کو اپنے بلیو بلیک حسن پر ناز ہے۔ اب جو بنے بھائی نے اسے اجنتا کی مورتی قرار دیا ہے تو خدا جانے اور کیا مزاج دکھائے۔ پہلے ہی وہ اپنے آپ کو دکن کی سنگلاخ چٹانوں سے تراشا ہوا صنم سمجھتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۱۹۰)
مخدوم محی الدین کی تاریخ پیدائش ۳ فروری ۱۹۰۸ء ہے اور پہلی جنگِ عظیم کے انتشار کے دوران جن ادیبوں اور شاعروں کے لڑکپن نے انگڑائی لی اور جن کے شعور کی مسیں بھیگنی شروع ہوئیں، ان میں ایک اہم نام مخدوم محی الدین کاہے۔ یہ وہ دور ہے جب ہندستان ہی نہیں دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کا دور تھا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ماسکو سے ’سرخ سویرا‘ طلوع ہو رہا تھا اور سرخ غبار فضاؤں میں چھانے لگا تھا۔ ہندستان کے کاندھے پر غلامی کے جوئے کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا اور ہماری جنگِ آزادی میں شدت آتی جا رہی تھی۔ خلافت تحریک نے دانش مند مسلمانوں کو جھنجھوڑ دیا تھا اور مولانا محمد علی جوہر اس تحریک کے سب سے بڑے ہیرو بن کر ابھرے تھے۔ گاندھی جی کی ’’سودیشی تحریک‘‘ مقبول ہوتی جا رہی تھی اور گھر گھر میں ان تبدیلیوں کو محسوس کیا جا رہا تھا۔
مخدوم محی الدین کے والد کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور ان کی تربیت ان کے چچا بشیر الدین صاحب نے کی۔ اگرچہ وہ ایک قصبے میں رہتے تھے، مگر سیاسی بیداری اور روشن خیالی اس قصبے تک پہنچ چکی تھی۔ بشیر الدین صاحب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے مداحوں میں تھے اور گاندھی جی کی ’’سودیشی تحریک‘‘ کے زیر اثر کھدر پہنتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ کھانے کے بعد ان کا ’دسترخوان معلومات‘ بھی کھلتا تھا اور وہ اپنے اہلِ خانہ کو ملک کے حالات سے واقف کراتے تھے۔۔۔ مخدوم بڑی توجہ سے چچا کی باتیں سنتے تھے۔ گویا جد و جہدِ آزادی اور حب الوطنی کے جوہر بچپن میں ہی ان کے ذہن میں پیوست ہو گئے تھے۔ ادبی رسائل پڑھنے کا شوق تھا اور تلنگانہ تحریک سے بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔۔۔ ادب میں یہ دور ٹیگور اور اقبال کا دور تھا، مخدوم ٹیگور سے اس قدر متاثر تھے کہ ان کی پہلی کتاب ہی ٹیگور کی شاعری کے بارے میں آئی ہے اور ٹیگور کے پُر وقار اور متوازن لہجے کی مخدوم پر چھاپ ہے۔۔۔ ایک اور دلچسپ بات۔۔۔ کسی نواب صاحب کو ایک اینگلو انڈین لڑکی سے عشق ہو گیا اور اس نے اپنی محبوبہ کو انگریزی میں عشقیہ خطوط لکھنے کے لیے مخدوم کا انتخاب کیا۔ اس طرح انھیں بیکاری میں اچھا رنگین شغل مل گیا۔ گویا ’حدیثِ دیگراں ‘ بیان کرنے میں مخدوم نے اپنا رومانی قلم صیقل کیا۔۔۔ ظاہر ہے انگریزی میں عشقیہ خطوط لکھنے کے لیے مخدوم نے انگریزی شاعری کا ہی سہارا لیا ہو گا اور وہ عالمی ادب کی اعلیٰ قدروں سے بھی اسی بہانے روشناس ہو گئے۔
اب رہی مخدوم کی شاعری کی بات، تو ان کی پہلی نظم کے شانِ نزول کے بارے میں ان کے جگری دوست ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کے بیان سے روشنی پڑتی ہے :
’’وہ ضلع میدک کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے اور یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے انھوں نے پہلے پہل دل دھڑکنے کی صدا سنی۔ گاؤں کی ناآشنائے سیم و زر ’دختر پاکیزگی‘ سے آنکھیں چار ہوئیں ‘‘۔ (بساطِ رقص: ص: ب)
چناں چہ ’بساطِ رقص‘ کی پہلی نظم ’طور‘ ہے جس کا ٹیپ کا مصرعہ ہے :
’’یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے، یاد ہے اب بھی‘‘
ان کی یہی نظم ’ایوان‘ میں چھپی تھی جسے علی گڑھ میں پڑھ کر سبط حسن اور مجاز غائبانہ طور پر مخدوم سے واقف ہوئے تھے
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جراتِ اظہارِ حرفِ مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوے ناز و انداز و حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے، یاد ہے اب بھی
چھ بندوں پر مشتمل یہ نظم مخدوم کی شاعری کا نقشِ اول ہے اور اس کے بعد ان کا رومانی لہجہ تجربات و احساسات کی آنچ میں دہکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تلنگن اور کئی اور نظموں کے بعد انھوں نے اپنی وہ مشہور رومانی نظم کہی ’انتظار‘ جو ہماری عشقیہ شاعری کی ناقابلِ فراموش نظم ہے۔
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پر بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی
پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ بھی گئے
سجدے مسرور کہ مسجود کو ہم پا بھی گئے
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیچ سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
اور صبا تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی
میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا تا ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
اس نظم میں احساسات کی گہرائی، جذبات کی جولانی، غنائیت روانی اور بھرپور تغزل ہے۔ ایک ایک مصرعہ خیال کی ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا قاری کو والہانہ وارفتگی تک لے جاتا ہے۔ یہ نظم شدتِ تاثر کے اعتبار سے عدیم المثال ہے۔ میں نے یہ نظم حیدرآباد کی کئی حسیناؤں سے مخدوم کے ترنم میں سنی ہیں۔ گویا یہ نظم جوان نسلوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
کامریڈ ڈانگے نے غلط نہیں کہا:
’’مخدوم شاعر انقلاب ہے، مگر وہ رومانی شاعری سے بھی دامن نہیں بچاتا بلکہ اس نے زندگی کی ان دونوں حقیقتوں کو اس طرح یک جا کر دیا ہے کہ انسانیت کے لیے بے پایاں محبت کو انقلاب کے مورچوں پر ڈٹ جانے کا حوصلہ ملتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۷)
خود راج بہادر گوڑ نے لکھا ہے :
’’مخدوم کا ہنر ہی یہ ہے کہ وہ قلم کو تلوار میں اور تلوار کو قلم میں تبدیل کر سکتے ہیں ‘‘۔(بساطِ رقص، ص: ب)
مخدوم محی الدین کی پہلی سیاسی نظم کے شان نزول کا سراغ سبط حسن کے اس مراسلے نما مضمون سے ملتا ہے جو انھوں نے ۲۵ دسمبر ۱۹۴۳ء کو انھیں بمبئی سے لکھا تھا:
’’جب فاشزم کی امن شکن اور تہذیب سوز آندھیوں چلنے لگیں تو تم نے بہتوں سے بہت پہلے اس آنے والے خطرے کو محسوس کر لیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب حبشہ پر مسولینی کے حملے کے بعد تم بڑے جوش میں آئے تھے اور اپنی نظم ’جنگ‘ مجھے سنائی تھی:
نکلے دہانِ توپ سے بربادیوں کے راگ
باغِ جہاں میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ
غالباً یہ تمھاری پہلی سیاسی نظم تھی اور فاشزم کے خلاف اردو شاعری کی پہلی صدائے احتجاج‘‘۔ (بساطِ رقص، ص:۱۱)
مخدوم نے اپنی اس نظم میں جنگ کی ہولناکی کو غلغلہ اور گھن گرج کے ساتھ نہیں، بلکہ بے حد غنائیہ انداز میں لیکن دل سوزی کے ساتھ بیان کیا ہے :
خود اپنی زندگی یہ پشیماں ہے زندگی
قربان گاہِ موت پہ رقصاں ہے زندگی
اور اس کے بعد اپنی دوسری نظم ’مشرق‘ میں مشرقی اقوام کی بدحالی اور بے بسی کا ذکر بھی اسی انداز میں کیا ہے :
جھڑ چکے ہیں دست و بازو جس کے اس مشرق کو دیکھ
کھیلتی ہے سانس سینے میں، مریضِ دق کو دیکھ
اور اس نظم کا اختتام ایک نہایت بلیغ شعر پر ہوتا ہے :
اس زمینِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا
اک نئی دنیا، نیا آدم بنایا جائے گا
ان نظموں کا بیان اثر انگیز سہی، مگر سیدھا اور سپاٹ ہے اور وہ ایک حسن جو ابہام میں ہوتا ہے، اس سے یہ نظمیں عاری ہیں۔ Symbolic شاعری میں جو تہہ در تہہ معنویت ہوتی ہے اس کی خوب صورت مثال ہے مخدوم کی نظم ’اندھیرا‘۔ یہ نظم اس تمام ماحول کا احاطہ کرتی ہے جو دوسری جنگِ عظیم نے پوری دنیا پر طاری کر دیا تھا اور یہ نظم اس ماحول پر بھی صادق آتی ہے جب جنگ اور دہشت انگیزی انسانی معاشرے کا مزاج بن جائے۔ اس میں وقت اور زمانے کی قید نہیں۔ جہاں موت رقصِ بہیمانہ کر رہی ہو، انسانی جسم کٹی پھٹی لاشوں میں تبدیل ہو رہے ہوں، جہاں مظلوموں کی آہ و بکا اور نالہ و فریاد کی گرم بازاری ہو، وہاں یہ نظم ایک دردمند انسان کے دل کی چیخ کی طرح گونجتی ہے :
رات کے ہات میں اک کاسۂ دریوزہ گری
یہ چمکتے ہوئے تارے، یہ دمکتا ہوا چاند
بھیک کے نور میں مانگے کے اجالے میں مگن
یہی ملبوس عروسی ہے، یہی ان کا کفن
اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ
کرۂ ارض پر یہ رات صدیوں سے طاری ہے اور انسان اس رات سے نبرد آزما اس روزِ روشن کے انتظار میں ہے جو تاخیر سے ہی، طلوع ضرور ہو گا۔اس یقین نے مخدوم سے یہ شعر کہلایا:
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
مگر انسان کے پاس کل طلوع ہونے والے سورج کا تصور تو ہے۔مخدوم کی یہ نظم ان کی ہی نہیں اپنے دور کی اہم نظموں میں سے ایک ہے۔ مخدوم کے یہاں رجائیت ہے، غنائیت ہے اور اس غنائیت نے اسے انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں بننے دیا، ان کے مصرعے ان کی نظموں میں کل کل کرتے دریاؤں اور جھرنوں کی طرح بہتے ہیں، چاہے نظم پابند ہو یا آزاد اور اس اچھوتے پن نے انھیں اپنے دور کے شاعروں میں منفرد کر دیا ہے۔ جو دور مخدوم کو ملا اس میں بیش تر انقلابی شعر یا تو اقبال کے فلسفیانہ لہجے کی بھونڈی نقل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا جوش کی طرح اپنی نظموں میں گھن گرج پیدا کرنے اور دھواں دھار الفاظ مجتمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مخدوم کی انقلابی نظموں میں ایک لے ہے اور ان کا غنائیہ اہتمام ان کے سوز دروں اور ان کی عملی جدوجہد سے ہم آہنگ ہو کر سحر انگیز ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظم ’’جنگِ آزادی‘‘ کو لیجیے :
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
ہم ہند کے رہنے والوں کی
محکوموں کی مجبوروں کی
آزادی کے متوالوں کی
دہقانوں کی مزدوروں کی
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
اور یہ نظم اپنے کلائمکس تک آتے آتے نغمے کا سیل رواں بن جاتی ہے :
لو سرخ سویرا آتا ہے
آزادی کا آزادی کا
گلنار ترانہ گاتا ہے
آزادی کا آزادی کا
دیکھو پرچم لہراتا ہے
آزادی کا آزادی کا
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی
آزادی کے پرچم کے تلے
محسوس ہوتا ہے کہ در و دیوار گا رہے ہیں، ہوائیں گا رہی ہیں، فضائیں گا رہی ہیں۔
انقلاب مخدوم کا نصب العین تھا۔ انقلاب ان کا محبوب تھا اس لیے انھوں نے انقلاب کی آمد کو محبوب کے قدموں کی آہٹ کی طرح محسوس کیا اور اسے بڑے پیار سے پکارا ہے :
اے جانِ نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجومِ شوق سر رہ گزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
حیات بخش ترانے اسیر ہیں کب سے
گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے
قفس میں بند ترے ہم صفیر ہیں کب سے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
مخدوم کے الفاظ میں ہی نہیں آواز میں بھی جادو تھا اور جب وہ یہ نظم لحن داؤدی میں پڑھتے تھے تو سامعین انقلاب کی آمد کی دھمک محسوس کر سکتے تھے۔ ان کی غنائیت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی آزاد نظمیں بھی بے پناہ ترنم کے ساتھ ہزاروں کے مجمعے میں پڑھتے تھے۔ ’’اسٹالن‘‘ جیسی نظم، آزاد نظم، طویل نظم جب وہ پڑھتے تھے تو اسٹالن کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور اس کے آہنی عزائم کا تصور مخدوم کی آواز میں مجسم ہو جاتا تھا:
برق پا وہ مر ارہوار کہاں ہے لانا
تشنۂ خوں مری تلوار کہاں ہے لانا
بہ قول زینت ساجدہ:
’’اصل میں اس کی آواز میں جادو ہے، گہری طرح داری، خراد پر چڑھی ہوئی آواز، جب غزل چھیڑتا ہے تو آپ ساز بن جاتے ہیں اور اماوس کی رات میں گویا دیپک سا جل اٹھتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۱۶)
مخدوم کی انقلابی نظمیں ’آزادی وطن‘ ہو یا ’جہانِ نو‘، ’سپاہی‘ ہو یا ’تلنگانہ‘ سب اس کے غنائی لہجے میں ڈھل کر معانی کی نئی رفعتوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ ’’سیاست‘‘ کے ایڈیٹر عابد علی خاں نے بجا طور پر لکھا ہے :
’’بساطِ رقص مخدوم کا کلام بھی ہے اور حیدرآباد کے اس سیاسی شعور کا آئینہ بھی ہے جو جاگیر دارانہ دور سے لے کر آزادی کے بعد سوشلسٹ سماج کی جدوجہد کے مقصد و تاریخی روپ کو پیش کرتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۱۱۰)
ترقی پسند تحریک کے حوالے سے حیدرآباد اور مخدوم ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ مخدوم سے میری پہلی ملاقات ۱۹۴۵ء میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں حیدرآباد میں ہوئی۔ وہ اس کانفرنس کے محرکوں میں شامل تھے۔ ایک سانولا شخص، بیضاوی چہرہ، چھریرا بدن، خوش اخلاق و خوش مزاج۔۔۔ ان دنوں ترقی پسند شاعروں کے لمبے لمبے بال ہوتے تھے، مگر مخدوم اپنی وضع قطع سے نام نہاد و انقلابی نظر نہیں آتے تھے۔ ہاں جب انھوں نے اپنی نظم پڑھی تو محسوس ہوتا تھا کہ پورا ماحول انقلابی رنگ میں رنگ گیا ہے۔۔۔ حیدرآباد میں ان کی مقبولیت کا کچھ اندازہ زینت ساجدہ کے اس بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے بڑے چٹپٹے انداز میں لکھا ہے :
’’مغل پورہ کے نوابوں سے لے کر چکڑ پلی کے مزدوروں تک جس کو دیکھیے فیشن سا بنا لیا ہے کہ مخدوم کی محبت میں مرے جا رہے ہیں۔ سال بھر میں وہ ایک ہی غزل کیوں نہ کہے، سارا شہر اسے منھ زبانی پکا پانی یاد کر لیتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۱۴۰)
مخدوم کی شہرت اس وقت عروج پر تھی جب تلنگانہ کی تحریک نے شدت اختیار کر لی تھی۔ مخدوم جد و جہدِ آزادی اور اولوالعزمی کا استعارہ تھا۔ خود میں نے ۲۵ اپریل ۱۹۵۰ء کو ایک نظم کہی تھی، جو ’چراغ‘ حیدرآباد میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا ایک اقتباس ہے :
حیدرآباد کی سرکش ندیو!
توڑ کر اپنے کنارے۔۔۔۔۔۔۔
اور سیراب کرو کوہ بیابانِ دکن
بڑھ کے آواز تلنگانہ کی مدراس کے ساحل کو سناؤ
قصر سرمایہ پر مزدور کی یلغار ہے آج
امن کے ہاتھ میں کاسہ نہیں تلوار ہے آج
آج ہر مورچۂ امن پہ مخدوم نظر آئے گا
دائمی امن مسلط کرنے
محشرِ جنگ تو کیا، موت کے سینے پہ بھی در آئے گا (شہر در شہر منادی کرا دو)۔
مخدوم جب پولیس کے ہتھے چڑھ گئے تو پورے حیدرآباد میں جیسے کہرام مچ گیا۔ سنٹرل جیل حیدرآباد میں اس نے جو نظم ’قید‘ کہی اس میں اس کا کرب سمٹ آیا ہے :
سالہا سال کی افسردہ مجبور جوانی کی امنگ
طوق و زنجیر سے لپٹی ہوئی سو جاتی ہے
کروٹیں لینے میں زنجیر کی جھنکار کا شور
خواب میں زیست کی شورش کا پتہ دیتا ہے
مجھے غم ہے کہ مرا گنجِ گراں مایۂ عمر
نذرِ زندان ہوا
نذرِ آزادی زندانِ وطن کیوں نہ ہوا
(بساطِ رقص، ص: ۱۲۹)
مخدوم کے یہاں انفرادیت نہیں، اجتماعیت ہے اور ان کا یہ شعر نہ جانے زندگی کے کتنے کارواں گائیں گے :
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
اور مخدوم کا یہ پیغام:
ہمدمو! ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دلدار کی
کوئے دلدار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو
(چاند تاروں کا بن)
اب میں ایک دلچسپ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ مخدوم کے پہلے مجموعۂ کلام ’’سرخ سویرا‘‘ میں ایک بھی غزل نہیں جب کہ ’’سرخ سویرا‘‘ کی بعد کی شاعری جو ’’گل تر‘‘ کے نام سے چھپی ہے، اس میں اکیس غزلیں ہیں اور ان غزلوں کے علاوہ ’’چارہ گر‘‘ (اک چنبیلی کے منڈوے تلے )، ’آج رات نہ جا‘، ’رقص‘، ’جان غزل‘، ’پیار کی چاندنی‘، ’احساس کی رات‘، ’خواہشیں ‘، ’وصال‘، ’بلور‘ اور ’جز تری آنکھوں کے ‘ جیسی رومانی نظمیں۔گویا مخدوم محی الدین کی شاعری نے نئی کروٹ بدلی اور ان کا رنگ سخن بدلتا چلا گیا۔ اب اس سلسلے میں چند اہم جملے جو مخدوم محی الدین کے قلم سے نکلے ہیں :
’’شاعر بہ حیثیت فرد معاشرہ حقیقتوں سے متصادم اور متاثر ہوتا رہتا ہے۔ پھر وہ دل کی جذباتی دنیا کی خلوتوں میں چلا جاتا ہے اور روحانی کرب و اضطراب کی بھٹی میں تپتا ہے ‘‘۔ (بساطِ رقص، ص: ۱۹)
اب ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب عصری تنقید کو دینا ہے کہ کیا یہ تبدیلی ترقی پسند تحریک کے زوال کی اور بتدریج شاعر کے جدیدیت کی طرف رجحان کی علامت تو نہیں !!
بہر حال جدھر اشارہ کیا ہے اسی روحانی کرب و اضطراب کا اظہار مخدوم کی غزلوں میں ہے جن کے مطالعے کے بغیر مخدوم کی تفہیم مشکل ہے۔ چناں چہ ان کی غزلوں کے چند اشعار بغیر کسی تبصرے کے نقل کرتا ہوں :
اسی چمن میں چلیں، جشنِ یادِ یار کریں
دلوں کو چاک، گریباں کو تار تار کریں
پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے
تم بھی آ جاؤ کہ باتیں کریں پیمانوں سے
سیماب وشی، تشنہ لبی، بے خبری ہے
اس دشت میں گر رختِ سفر ہے تو یہی ہے
اس شعلۂ جوالہ نے کل (۶۱ ) برس کی عمر پائی دہلی میں ایک مشاعرے میں مدعو کیے گئے تھے۔ رات بھر محفلِ رقص و نغمہ رہی۔ صبح دم مخدوم کے قلب پر حملہ ہوا اور ۲۵ اگست ۱۹۶۹ء آٹھ بج کر پانچ منٹ پر ان کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی۔یہ الہامی اشعار انھوں نے پہلے ہی کہہ دیے تھے۔
یہ تمنا ہے کہ اڑتی ہوئی منزل کا غبار
صبح کے پردے میں یا آ گئی شام آہستہ
خود مخدوم کے ہی الفاظ ہیں :
ازل کے ہاتھ سے چھوٹا ہوا حیات کا تیر
وہ شش جہت کا اسیر نکل گیا ہے بہت دور جستجو بن کر
٭٭٭
اقبال متین
شعور کی شخصیت مخدوم
جیتا شاہ ولی کا عرس ہے۔ درگاہ کے گنبد روشن روشن سے ہیں۔ جھل مل کرتے دیے گنبد کے اطراف منڈیروں پر سجے ہوئے اپنی نورانی پلکیں جھپکا رہے ہیں۔ درگاہ کے وسیع احاطے میں کئی چوبی شہتیر ادھر ادھر گڑے ہیں۔ جن پر پٹرومکس ٹنگے ہیں۔ سارا ماحول بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ چیتاپور کی اندھیری راتوں نے اس سے پہلے ایسی روشنیاں کبھی نہیں دیکھیں۔
درگاہ کے کلس تک اس طرح چمک رہے ہیں جیسے ان پر آسمان سے دھوپ نچھاور کرنے والا سورج اب زمین سے دھوپ اچھال رہا ہو۔
مشاعرہ شروع ہونے میں ابھی دیر ہے۔ میرے چچا تمکین سرمست شعرا کو مدعو کرنے کے لیے حیدرآباد گئے ہوئے ہیں۔ تار کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ مخدوم آ رہے ہیں۔ ٹرین کا وقت قریب آ رہا ہے۔ دو روز پہلے ہی سے درگاہ کے احاطے میں خیمے تان دیے گئے ہیں۔ ابا کو بس ایک ہی فکر ہے۔ شاعروں کے آرام کے خیال میں وہ بے آرام ہوئے جا رہے ہیں۔ ایسے بڑے بڑے شاعر چیتاپور کی تاریخ میں پہلی بار مشاعرے میں شرکت کر رہے ہیں۔ مشاعروں کے لیے جو خیمے مختص کیے گئے ہیں ان کا معائنہ ابا نے دن کو ہی کر لیا۔
پرال کی گھاس پر شطرنجیاں، شطرنجیوں پر توشکیں اور گدیلے، ان پر بھک سفید چاندنیاں۔۔۔۔۔یہ ہوا خیموں کا اندرونی کروفر۔۔۔۔۔ برآمدوں میں کرسیاں بکھری ہوئیں۔۔۔۔۔ اندر باہر پٹرومکس جل رہے ہیں۔ ابا کچھ مطمئن سے ہیں۔۔۔۔۔ لیجیے سارے ماحول میں بے چینی سی پھیل گئی ہے۔ ابا پذیرائی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔میں، لطیف، ساجد، حسینی شاہد، کچھ فاصلے پر پیچھے پیچھے ہیں۔۔۔۔۔ بڑے لوگوں کو دیکھنے کا اشتیاق اب اضطراب بن گیا ہے۔
حضرت تمکین سرمست ابا سے تعارف کروا رہے ہیں۔۔۔۔۔
علی صائب میاں، نذیر دہقانی، صمد رضوی ساز، صاحبزادہ میکش، مخدوم محی الدین، شعیب حزیں۔۔۔۔۔ابا رکھ رکھاؤ کے آدمی ہیں۔ ابا سب سے گرم جوشی اور خلوص سے مصافحہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن مخدوم سے ملے ہیں تو اپنی وضع داری بھول گئے ہیں۔ مصافحے کی جگہ معانقے نے لے لی ہے کہہ رہے ہیں۔
تمکین کے خط سے مجھے آپ سب کے آنے کی اطلاع مل گئی تھی۔ لیکن صرف آپ کی مصروفیتوں نے مجھے مایوس کر دیا تھا۔ آج تار ملا کہ آپ بھی آ رہے ہیں۔۔۔۔۔ دو نوجوان سہمے سہمے مخدوم کے پیچھے سے کچھ اس طرح برآمد ہوئے جیسے کہ ان کی پناہ میں تھے۔۔۔۔۔ ایک کے ہونٹوں پر مسکراہٹ جیسی کوئی شے تھی دوسرے کے ہونٹوں پر کچھ بھی نہ تھا البتہ آنکھوں میں کچھ حیرانی سی تھی۔ مجھ سے زیادہ شاہد اور ساجد کے جانے پہچانے تھے۔ ساجد سے تو وہ زیادہ ہی قریب لگتے تھے۔ چچا صاحب نے تعارف کرایا۔ ابا نے مصافحہ کر کے پیٹھ پر شفقت سے ہاتھ رکھا نظر حیدرآبادی، سلیمان اریب۔
میں امی کے پاس بھاگا کہ ساری خواتین سے مخدوم کا تعارف کروانے کا سہرا اپنے سر باندھ لوں۔۔۔۔۔ مخدوم کون سے ہیں۔ کہاں ہیں مخدوم؟ مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے۔ امی، چچی ماں، پھوپی جان اور جانے کون کون خواتین جمع ہیں۔ سبھی سے، میں ذرا اپنی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہتا ہوں۔
ارے بابا میں آیا ہی اس لیے ہوں کہ آپ لوگوں کو بتلا دوں۔ مخدوم کون ہیں۔
چلمنیں، مہین پردے اب کچھ اس طرح ہلنے لگے ہیں، جیسے ہوا کے جھکڑ چل رہے ہوں۔۔۔۔۔۔ شاہی سے مخدوم کی پنجہ آزمائی نے اپنی اولین کشاکش میں انھیں ہیرو بنا دیا ہے۔ چچا صاحب نے یہ راز کی باتیں اپنے حسن بیان کی داستان زیبی کے سہارے خواتین کے کانوں میں کچھ اس طرح پھونکی ہیں کہ انھوں نے اپنی کانوں سنی آنکھوں کو سونپ دی ہے۔ شعرا اپنے خیمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ رہے مخدوم۔۔۔۔۔وہ وہ رہے۔۔۔۔۔ابھی جنھوں نے اپنے بال برابر کیے ہیں۔ ہاں ہاں وہی۔۔۔۔۔ لمبے لمبے بالوں والے نہیں جی بال اتنے لمبے بھی کہاں۔۔۔۔۔ کیا پہن رکھا ہے ؟۔۔۔۔۔پہن رکھا ہے پہن رکھا ہے۔ کسی نے دیکھا کسی نے نہیں دیکھا۔ میں اپنی اہمیت جتلا چکا تھا۔۔۔۔۔ اب مجھے کیا کسی نے نہ بھی دیکھا ہو۔ پھر میں شعرا کے کیمپ میں چلا آیا۔
کتنی اہمیت تھی میری خواتین کے کیمپ میں۔۔۔۔۔ اس خیمے میں آ کر مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں کچھ ہوں ہی نہیں۔۔۔۔۔ ہر ایک کا منھ تکتا ہوں پھر ذہن میں ان کے ناموں کا ورد کرتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن ہر پھر کر نظر مخدوم محی الدین پر ہی ٹک جاتی ہے۔ چہرے مہرے میں ایسی کوئی خاص بات نہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آنکھیں ان کو دیکھنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں۔ سارے شاعر ہنس بول رہے ہیں۔ لیکن مخدوم کچھ مطمئن نظر نہیں آتے جانے کس چیز کی کمی ہے۔ وہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ احباب کے لیے کچھ ہنس بھی لیتے ہیں۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اندر سے کچھ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ہاتھ میں کامریڈ رندیوے کی کوئی کتاب ہے دونوں پاؤں فرش میں دھنس رہے ہیں۔
تمکین سے سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں۔
اتنا آرام کہ جی گھبرانے لگے۔
تمکین صاحب مخدوم کے مداحوں میں ہیں۔۔۔۔۔ ان کو مشاعرے میں مدعو کرنے سے پہلے ہی انھوں نے گھر بھر میں مخدوم کی بہت سی باتیں کی ہیں۔ انھوں نے بہت رفیقانہ پوچھا۔
’’کیوں ؟۔۔۔۔۔کچھ مطمئن نہیں ہو۔‘‘
کہا۔۔۔۔۔ہاں زیادہ آرام کی بے آرامی سے غیر مطمئن ہوں۔
تمکین صاحب بات کی تہہ تک پہنچ نہ سکے۔۔۔۔۔کہا
’’کچھ دیر آرام کرنا چاہو تو پلنگ لگوا دوں۔‘‘
مخدوم مسکرائے۔۔۔۔۔کہنے لگے۔۔۔۔۔ میں مزید کچھ منگوانے کی بات نہیں کر رہا ہوں، جو ہے اس کو اٹھوانے کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ آپ لوگوں نے تو یہ احساس ہی چھین لیا کہ ہمارے پیر زمین پر ہیں۔۔۔۔۔ شاعروں کو ہمیشہ اپنے پیر زمین پر رکھنے چاہئیں۔‘‘
مجھے مخدوم، سب سے مختلف، کچھ نرالے سے لگے۔۔۔۔۔ میں کونے میں کھڑا انھیں تکتا اور سوچتا رہا کہ یہ عجیب فقیر منش آدمی ہے۔۔۔۔۔ ایسی بھی کیا قلندری کہ آدمی اپنی راہ سے پھول ہٹا کر کانٹے بچھانے کا مطالبہ کرے۔۔۔۔۔
مشاعرہ شروع ہونے والا ہے۔ سامعین اور مقامی شعرا حیدرآباد کے بڑے شاعروں کے منتظر ہیں۔۔۔۔۔ مگر وہ ابھی مشاعرہ گاہ کی طرف چلنے کے لیے مائل نہیں ہیں۔۔۔۔۔ شغل جام و مینا شباب پر ہے۔۔۔۔۔ مشاعرہ شروع کروا دیجیے، تمکین صاحب، بس ہم آتے ہی ہیں۔۔۔۔۔ کسی نے کہا۔
مخدوم اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔کہنے لگے۔۔۔۔۔
نہیں نہیں یہ بری بات ہے۔۔۔ وہاں بھی بہت سے شاعر ہیں جو ہمارے منتظر ہیں۔۔۔۔۔ ہم سے سننا اور ہم کو سنانا چاہتے ہیں ‘‘۔۔۔۔۔ مخدوم کا اٹھنا تھا کہ محفل کی حیات و کائنات ساتھ ہوئی۔
لطیف ساجد نے مجھے ٹھوکا دیا۔۔۔۔۔حسینی شاہد یوں مسکرایا جیسے کامریڈ زندہ باد کا نعرہ لگا رہا ہو۔۔۔۔۔ کوئی احترام، کوئی بے نام سی عظمت سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہی تھی۔
مشاعرہ شروع ہوا۔ مقامی شعرا کے بعد مہمان شعرا نے نظمیں اور غزلیں سنائیں۔ خوب خوب داد حاصل کی۔۔۔۔۔نظر حیدرآبادی، صاحب زادہ میکش اور شعیب حزیں نے سماں باندھ دیا۔۔۔۔۔ اس مشاعرے کے سب سے نو عمر شاعر لطیف ساجد تھے۔ چناں چہ مہمان شعرا میں ان کا نام سب سے پہلے پکارا گیا۔
٭٭٭
مجتبیٰ حسین
مخدوم محی الدین
بیس پچیس برس پرانی بات ہے جب قاضی سلیم رکن پارلیمنٹ تھے تو انھوں نے اورنگ آباد میں سراج اورنگ آبادی کی تین سو سالہ تقاریب کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک شاندار اور یادگار تقریب تھی۔ اس موقع پر ایک تفریحی پروگرام بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں حیدرآباد کی فائن آرٹس اکیڈمی کے فن کاروں حمایت اللہ، محمد سلیمان اور مصطفی علی بیگ کو مدعو کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اتفاق سے ان دنوں محمد سلیمان کی طبیعت کچھ ناساز تھی لہذا بیگم سلیمان اس بات کے لیے آمادہ نہیں تھیں کہ محمد سلیمان اس تقریب میں شرکت کریں۔ اس خصوص میں حمایت اللہ محمد سلیمان کے گھر گئے تو محمد سلیمان نے اپنی بیگم سے کہا ’’میرا اورنگ آباد جانا نہایت ضروری ہے کیوں کہ وہاں سراج اورنگ آبادی کی تین سو سالہ تقاریب منعقد ہو رہی ہیں۔‘‘ اس پر بیگم سلیمان نے انھیں ٹالنے کی غرض سے رواداری میں کہہ دیا اب اگر میں نے تمھیں اجازت دے دی تو تین سو برس بعد پھر تم ایسی ہی کسی تقریب میں جانے کی مجھ سے اجازت طلب کرو گے۔‘‘ (افسوس کہ پچھلے برس محمد سلیمان کسی اجازت کے بغیر اس دنیا ہی سے چلے گئے۔)
ہمیں یہ بھولی بسری بات اس لیے یاد آ گئی کہ پچھلے ایک مہینہ سے ہم مخدوم محی الدین کی صد سالہ تقاریب میں شرکت کی غرض سے یہاں وہاں آنے جانے میں بہت مصروف ہیں حالاں کہ مخدوم محی الدین ہمارے لیے ایسی ہستی نہیں ہیں کہ جنھیں سو سال میں ایک مرتبہ ذرا دل جمعی کے ساتھ یاد کر کے اپنے فرائض غیر منصبی سے سبک دوش ہو جائیں۔ خود مخدوم محی الدین کو اس دنیا سے گزرے ہوئے لگ بھگ چالیس برسوں سے ہر روز ہی مخدوم کی صد سالہ تقاریب مناتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنی محبوب اور دل نواز ہستیوں اور یارانِ غم گسار کو یاد کرنے کے لیے ہم کسی صد سالہ تقریب، سمینار، سمپوزیم، مباحثے یا مذاکرے وغیرہ کے محتاج نہیں ہیں۔ جب جی چاہا انھیں یاد کر لیا:
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
تاہم جب لوگ گھڑی اور کیلنڈر کو سامنے رکھ کر اور نیت باندھ کر اپنے اسلاف کو یاد کرنے کی خاطر تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں تو ہم ان میں اس خیال سے ضرور جاتے ہیں کہ ذرا دیکھیں تو سہی کہ یہ کس طرح اپنے اسلاف کو یاد کرتے ہیں۔ فروری کے پہلے ہفتہ میں جب مخدوم کا پہلا صد سالہ یومِ پیدائش آیا تو مخدوم کا پہلا صد سالہ یوم پیدائش آیا تو جس پہلے سمینار میں ہم نے شرکت کی وہ عالم خوندمیری فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام حیدرآباد کے مخدوم بھون میں منعقد ہوا تھا۔ پروفیسر جاوید عالم اور ان کی شریکِ حیات جینتی عالم اس کے کرتا دھرتا تھے۔ اس سمینار کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ ’’انگلش میڈیم‘‘ میں تھا یعنی اس میں جتنے مقالے پڑھے گئے اور جو تقریریں کی گئیں وہ سب کی سب انگریزی میں تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے زندگی میں پہلی بار اردو کے ممتاز محقق، ناقد، شاعر اور استاد مکرم پروفیسر مغنی تبسم کو انگریزی میں مقالہ پڑھتے ہوئے نہ صرف دیکھا بلکہ سنا بھی۔ بہ خدا ان کی انگریزی بھی کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی نظر آئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انگریزی زبان کے ادیب اپنی زبان کو کہاں دھلواتے ہیں۔ دھلواتے بھی ہیں یا ڈرائی کلیننگ سے کام چلاتے ہیں۔ تاہم ہمیں کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ہی اچھی لگتی ہے۔ بہ ہر حال پروفیسر مغنی تبسم کو انگریزی زبان پر جو گہرا عبور اور دست رس حاصل ہے اس سے ان کے تبحر لسانی کا ہمیں اس دن پہلی بار اندازہ ہوا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انگریزی میں مقالہ پڑھتے ہوئے انھوں نے تلفظ کی ایک بھی غلطی نہیں کی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے انگریزی کا کوئی جید اہل زبان مخدوم کی شان میں رطب اللسان ہے۔ انگریزی تلفظ کے تحفظ کی اتنی پاس داری کی کہ مقالے میں جہاں جہاں مخدوم کا نام آتا تھا وہاں وہاں وہ اسے ادا کرتے تھے تو لگتا تھا مخدوم ’’میک ڈوم‘‘ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پروفیسر جاوید عالم اور جینتی عالم قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس سمینار کا انعقاد انگریزی میں کیا تاکہ مخدوم کے نظریات اور ان کی شاعری کو غیر اردو حضرات میں عام کیا جائے۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ مخدوم کی شاعری کے بعض نکتہ ہائے دقیق جو ہمیں اردو میں اب تک سمجھ میں نہیں آئے تھے وہ اس انگریزی سمینار میں شرکت کے بعد ہی ہمارے پلے پڑے۔ اس سمینار کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہمارے کرم فرما ڈاکٹر عابد حسین، سابق سفیر ہند برائے امریکہ نے اس سمینار کا افتتاح فرمایا اور مخدوم سے اپنی شخصی وابستگی کو دلچسپ انداز میں بیان کیا۔ پروفیسر سی ایچ، ہمنت راؤ، بی نرسنگ راؤ، پروفیسر انور معظم، پروفیسر زاہدہ زیدی (علی گڑھ)، عزیز پاشا رکن پارلیمنٹ، علی ظہیر، مظہر مہدی وغیرہ نے بھی انگریزی میں ہی مخاطب کیا۔ مخدوم کے پرستاروں کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ عالم خوندمیری فاونڈیشن کی جانب سے مخدوم کے بارے میں جلد ہی ایک ضخیم کتاب انگریزی زبان میں شائع ہو رہی ہے جس کی مرتب جینتی عالم ہیں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ اس میں مخدوم کے بارے میں ہمارا خاکہ بھی شامل رہے گا جسے پروفیسر خالد قادری نے انگریزی قالب میں ڈھالا ہے۔ اگرچہ ہم سے بھی خواہش کی گئی تھی کہ ہم اس انگریزی خاکہ کو سمینار میں پڑھیں لیکن مخدوم سے ہمیں جو گہری عقیدت رہی ہے اس کی بنا پر ہم میں مخدوم کو ’’میک ڈوم‘‘ بنانے کا حوصلہ نہیں تھا۔
سمینار کے دوسرے دن ہی ہمیں علی الصبح مخدوم ہی کے سمینار میں شرکت کے لیے دہلی جانا پڑا جس کا اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے کیا تھا۔ دہلی کے انڈیا اسلامک سنٹر کے خوب صورت آڈیٹوریم میں منعقدہ یہ سمینار ہر اعتبار سے شایان شان، معتبر اور کامیاب سمینار تھا جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین نے اپنے اپنے انداز سے مخدوم کی شخصیت اور شاعری کا بھرپور جائزہ لیا۔ حیدرآباد سے جناب پی شیو شنکر، جناب وینکٹ سوامی، بی نرسنگ راؤ، پروفیسر بیگ احساس، علی ظہیر، اودھیش رانی، یوسف غوری اور مخدوم محی الدین کے دونوں فرزندوں نصرت محی الدین اور ظفر محی الدین نے شرکت کی۔ اس تین روزہ سمینار میں جن ممتاز دانش وروں اور اہلِ قلم نے اظہارِ خیال کیا ان میں حبیب تنویر، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر قمر رئیس، شاہد مہدی، رفعت سروش، زبیر رضوی، کمال احمد صدیقی، رضا امام، پروفیسر لطف الرحمن (بھاگلپور)، پروفیسر علی احمد فاطمی (الہ آباد)، پروفیسر انیس اشفاق (لکھنو)، پروفیسر شارب ردولوی (لکھنو)، پروفیسر شہاب ملک (سری نگر)، پروفیسر اسلم آزاد (پٹنہ)، کشمیری لال ذاکر (چندی گڑھ)، سکندر احمد (پٹنہ)، ڈاکٹر ارجمند آرا، ڈاکٹر انور پاشا، فرحت رضوی، کے علاوہ ہندی کے ممتاز اہلِ قلم سدیب بنرجی، ڈاکٹر کملا پرساد اور ڈاکٹر کھگیندر ٹھاکر وغیرہ نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر علی جاوید ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کارروائی چلائی۔ تین دنوں تک اس سمینار میں شرکا نے جس گرم جوشی اور خلوص دل کے ساتھ حصہ لیا اس سے مخدوم کے تئیں ان کی گہری عقیدت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا تھا۔ سمینار کا افتتاح مرکزی وزیر انسانی وسائل جناب ارجن سنگھ کو کرنا تھا مگر وہ اپنی خرابی صحت کی بنا پر نہ آ سکے۔ ہندستانی ڈرامہ کی مایہ ناز شخصیت حبیب تنویر افتتاحی اجلاس کے صدر تھے۔ اگرچہ اب وہ اسی برس کے پیٹے میں ہیں لیکن ان کی آواز میں جو گھن گرج اور رعب و دبدبہ ہے وہ قابل رشک ہے۔ مخدوم محی الدین سے وابستہ اپنی یادوں کو انھوں نے کچھ ایسے متاثر کن انداز میں پیش کیا کہ سامعین دم بہ خود رہ گئے۔ آخر میں انھوں نے مخدوم کا کلام خود بہ خود کے ترنم میں سنا کر سماں باندھ دیا۔ افتتاحی اجلاس میں ممتاز رہنما اور قانون داں جناب پی شیو شنکر نے نہایت فصیح و بلیغ اردو میں حیدرآباد کے پس منظر میں مخدوم کی شخصیت اور شاعری کا بھرپور انداز میں جائزہ لیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ کانگریس کے سنیر لیڈر اور لوک سبھا کے ڈپٹی لیڈر جی وینکٹ سوامی نے حیدرآباد میں ٹریڈ یونین تحریک کے فروغ کے لیے مخدوم کی خدمات کو بھرپور خراج تحسین ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ سابق ریاست حیدرآباد میں کوئی ٹریڈ یونین ایکٹ موجود نہیں تھا۔ لہذا مخدوم نے پہلی ٹریڈ یونین سکندر آباد میں رجسٹر کرائی جہاں انگریزوں کی عمل داری تھی۔ اس طرح مخدوم حیدرآباد میں ٹریڈ یونین تحریک کے پہلے بانی قرار پاتے ہیں۔ انھوں نے مخدوم سے اپنی گہری وابستگی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انھیں اپنا گرو اور رہنما قرار دیا۔ شستہ اور سلیس اردو میں ان کی تقریر کا ہر جملہ دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ہندستانی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری اے بی بردھن نے مخدوم کو مزدوروں کا مسیحا قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مخدوم کی شاعری اور ان کی نظریاتی فکر کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔ یہاں ہم خصوصیت کے ساتھ جناب بی نرسنگ راؤ کے اس انگریزی مضمون کا ذکر کرنا چاہیں گے جسے انھوں نے سمینار کے اختتامی اجلاس میں پڑھا تھا۔ بی نرسنگ راؤ تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کے دوران اسٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے مخدوم سے بہت قریب تھے۔ ان کے مقالے میں آزادی سے پہلے حیدرآباد کے سیاسی منظر نامہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس پس منظر میں انھوں نے جس طرح مخدوم کی شخصیت اور شاعری کا جائزہ لیا اسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔
شمالی ہند کے ایک نقاد نے جو ہمارے بہت پرانے اور عزیز دوست بھی ہیں، غالباً یہ سوچ کر کہ مخدوم کی شخصیت اور شاعری پر بہت اظہار خیال ہو چکا، کیوں نہ ذرا ان کی رنگین مزاجی، عاشقانہ روش پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ لہذا انھوں نے بعض حوالوں سے کہیں اشارتاً اور کہیں کھلم کھلا کہہ دیا کہ مخدوم محبوب کی مہندی بھی جایا کرتے تھے، مخصوص طوائفوں کا گانا سنتے تھے اور جام و مینا کی محفلوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی ان کا مقالہ ختم ہوا ہم نے مجلس صدارت سے اجازت حاصل کیے بغیر سامعین میں سے اٹھ کر اپنے دوست سے کہا ’’جناب اس محفل میں مخدوم کے دونوں فرزند نصرت محی الدین اور ظفر محی الدین بھی موجود ہیں، جن کی عمریں اگرچہ اب ساٹھ پینسٹھ برس کی ہو چکی ہیں، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں اپنے والد بزرگوار کی رنگین مزاجی کا حال جان کر ان کے عادات و اطوار بھی خراب نہ ہو جائیں۔ مخدوم سے عقیدت اور قربت کے باوجود ہم مخدوم کے اس پہلو سے ذرا کم ہی واقف ہیں۔ تاہم ان کے ایک معاشقے کا ذکر ضرور سنا ہے لیکن ہم اسے بھی ’’ضرورت شعری‘‘ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں کیوں کہ یہیں سے مخدوم کی شاعری میں ایک نیا مور آیا تھا۔‘‘ ہمارے اعتراض کو سن کر صدر مجلس پروفیسر انیس اشفاق (لکھنو) نے ہماری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا زندوں کو تو چھوڑ دیجیے ان دنوں گزرے ہوئے بزرگوں کی بھی کر دار کشی کی جانے لگی ہے۔ مجلس صدارت کے دوسرے رکن زبیر رضوی نے بھی اس مریضانہ اور مجرمانہ رجحان کی مذمت کی۔ ہم نے کہا کہ بعض اہلِ قلم، بزرگوں کے جیتے جی تو کچھ بھی نہیں لکھتے البتہ جب وہ گزر جاتے ہیں تو ان کے بارے میں ایسی من گھڑت، فرضی، بے بنیاد اور بے سروپا باتیں لکھ جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ بزرگ نہیں بلکہ ان کے لنگوٹیا یار تھے۔
سمینار کے دوسرے دن ہمارے پرانے دوست اور مشہور مورخ پروفیسر ارجن دیو، سابق جوائنٹ ڈائریکٹر این سی ای آر ,ی نے ہمیں اور بی نرسنگ راؤ کو انڈیا انٹرنیشنل میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ انڈیا انٹرنیشنل سنٹر ہماری محبوب جگہ ہے اور یہاں گزری ہوئی بے شمار شاموں کی یاد ہمارے ذہن میں تازہ ہے۔ یہاں ہم گئے تو کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ ڈائننگ ہال میں پہنچے تو مشہور فلم ساز شیام بنیگل بھی موجود تھے۔ بڑی محبت سے ملے۔ وہ بی نرسنگ راؤ کے پرانے مداح ہونے کے علاوہ انھیں اپنا گرو بھی مانتے ہیں۔ شیام بنیگل نے بتایا کہ تین دن بعد وہ بھی حیدرآباد آ رہے ہیں جہاں انھیں روی نارائن ریڈی میموریل کمیٹی کی جانب سے ایوارڈ دیا جائے گا اور وہ اس موقع پر تلنگانہ مسلح جدوجہد کے تین اہم کمیونسٹ رہنماؤں روی نارائن ریڈی، مخدوم محی الدین اور بدم بال ریڈی کے بارے میں توسیعی لکچر دیں گے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ان تینوں رہنماؤں کی صد سالہ تقاریب اسی سال منائی جا رہی ہیں۔ چناں چہ دہلی سے واپس ہوتے ہی ہم پھر مخدوم کو یاد کرنے اور شیام بنیگل کا لیکچر سننے چلے گئے۔ شیام بنیگل نظام کالج کے پرانے طالبِ علم رہے ہیں اور انھوں نے باتوں باتوں میں اپنے پرانے ہم جماعت مصطفی علی خان (مصطفی شہاب) کو یاد کیا۔ پتہ چلا کہ کڑکی کے زمانے میں چائے کی ایک ہی پیالی میں تین تین دوست چائے پی لیتے تھے۔ مصطفی شہاب ان دنوں لندن میں رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ تھا کہ وہ ان ہی تاریخوں میں حیدرآباد آنے والے ہیں، جس دن ہم حیدرآباد واپس آئے اس دن مصطفی شہاب ہمیں مل گئے۔ ان دونوں دوستوں کی جذباتی ملاقات کا سہرا بھی مخدوم کی یاد کے سر جاتا ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر راج بہادر گوڑ
محنت اور محبت کا شاعر
مخدوم اچھے اور بڑے شاعر تھے۔ اس بات پر تو سب ہی متفق ہیں۔ لیکن کیوں اچھے اور بڑے شاعر تھے۔ اس پر ہر شخص اپنی بساط کے مطابق رائے دیتا ہے۔ شاعر کو کسی ایک پہلو سے دیکھنا، دیکھنے والے کا قصور نہ ہو، لیکن شاعر کے ساتھ انصاف نہیں۔ غور و فکر داخلی فعل ضرور ہے لیکن موضوعی حقیقتوں سے آنکھ بند کر کے جو فکری عمل ہو گا وہ بہ ہر حال بانجھ ہی ہو گا، تخلیقی نہیں ہو سکتا۔ مخدوم کو خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ مخدوم کی کلی حیثیت کو نظر انداز کر کے ان کے کسی ایک جز سے ان تک پہنچنے کی کوشش کرنا اگر حماقت نہیں تو تضیع اوقات ضرور ہے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ فلاں مقام پر سیاست داں مخدوم ختم ہو جاتا ہے اور فلاں منزل سے شاعر مخدوم شروع ہوتا ہے۔ مخدوم کی کمیونسٹ حیثیت کس جگہ ختم ہوتی ہے اور ادبی شخصیت کہاں سے ابھرنے لگتی ہے ؟
اصل میں یہ فتنہ پرور اندازِ فکر چیف منسٹر برہمانند ریڈی کے توسن ذہن کی جولانیوں کا نتیجہ ہے۔ جشن مخدوم میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے ہی تو کہا تھا کہ مخدوم بہ حیثیت دوست اور شاعر کے بہت اچھا ہے اور اس لحاظ سے کمیونسٹ صفوں میں فٹ نہیں ہوتا۔ وہیں پر مخدوم نے مسکت جواب بھی دے دیا تھا کہ انسان کی تقسیم ممکن نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ برہمانند ریڈی صاحب بھی اچھے آدمی ہیں لیکن کانگریس میں کیوں ہیں تو کوئی معقول بات نہیں بنتی۔
آج مخدوم کی موت کے بعد کچھ کرم فرماؤں کی مستقل کوشش ہے کہ مخدوم کو تقسیم کر دیں۔ شاعر مخدوم کو تو تسلیم کریں (اور اس سے مفر بھی تو ممکن نہیں ) اور کمیونسٹ اور انقلابی مخدوم کو مسترد کر دیں۔ مخدوم کے ساتھ تو یہ انصافی ہے ہی لیکن ادب کے ساتھ بھی یہ سخت گستاخی اور بے ادبی ہے۔
اچھے شعر کو پہچاننے کے لیے تحقیق و جاں فشانی کی ضرورت نہیں۔ اچھا شعر وہی ہے جو سیدھے دل میں اتر جاتا ہے اور وہی شعر دل میں اترتا ہے جو متاثر کرتا ہے، وہی شعر متاثر کرتا ہے جس میں روحِ عصر اتر آتی ہے، جس کے اندر شاعر کی شخصیت ڈھلتی ہے۔ شخصیت کی ترکیب و تعمیر ایک سخت پیچیدہ عمل ہے۔ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ سبھی شاعر کے حساس ذہن پر ارتسامات چھوڑتے ہیں۔ شاعر سخت کرب و کشمکش سے گزرتا ہے، تب کہیں چل کر شعر نازل ہوتے ہیں۔ مخدوم نے خود ہی گلِ تر کے دیباچے میں اس عمل کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ شاعر ایک زندگی میں کئی زندگیاں گزارتا ہے۔ عوام سے حاصل کرنا اور پھر عوام ہی کو لوٹا دیا۔ باہمہ اور بے ہمہ کا یہ تسلسل جاری رہتا ہے۔
مخدوم کی شخصیت کی تعمیر میں کئی عوامل و عناصر کا حصہ ہے۔ ان کا تعلق خود ایک غریب خاندان سے تھا۔ وہ دیہات میں پیدا ہوئے اور دیہی زندگی کی سادگی اور سختی دونوں ہی سے وہ خوب آشنا تھے۔ بچپن کی معصومیت سے جوانی کی آگہی کی منزلوں میں داخل ہوئے تو سامراجی اور جاگیر شاہی شکنجوں کی داب کا کرب محسوس ہونے لگا اور ساتھ ہی ہمالیہ کے اس پار سے نئے سوشلسٹ سماج نے ایک خوش آئند مستقبل کی بشارت بھی دی۔ ایک طرف موجود سے سخت نا آسودگی تھی اور دوسری طرف ممکن الحصول کی شدید خواہش۔ یہی وہ عصری آویزش تھی جس نے مخدوم کو سیاست اور شاعری دونوں ہی میدانوں میں انقلاب کی سمت گامزن کر دیا۔ یہی وہ کشمکش تھی جس نے مخدوم کے اندر خفتہ انسان کو جگایا اور اسے اپنے ہم عصر باغیوں کی صفوں میں کھڑا کر دیا۔
مجنوں گورکھپوری نے موجود سے نا آسودگی اور ممکن الحصول کی خواہش کے درمیان آویزش کو فن کا خالق بتایا تھا، لیکن یہی وہ آویزش ہے جو انسان کو سرگرم عمل اور سماج کو مائل بہ ارتقا رکھتی ہے۔ گویا انسانی جدوجہد، سماجی ارتقا، فنی تخلیق سبھی کا مشترکہ سرچشمہ یہی موجود سے نا آسودگی اور ممکن الحصول کی خواہش کے درمیان آویزش ہے۔
اگر محض موجود سے نا آسودگی ہی دل و دماغ پر محیط و مسلط رہے تو انسان غم و قنوطیت کا شکار رہے اور زندہ رہنے کی آرزو ہی ختم ہو جائے۔ ممکن الحصول کی خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے اور زندگی سے پیار کرنا سکھاتی ہے۔ جہاں امید نہیں وہاں مستقبل کے خواب بھی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں زندگی سے فرار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
فرانس کے شہرۂ آفاق مصور پکاسو کی تصویر ’’گورنیکا‘‘ دیکھیے اور پھر مخدوم کی نظم ’’اندھیرا‘‘ پڑھیے۔ تصویر میں آپ دیکھیں گے تباہی، بربادی، افراتفری، کہیں گھوڑے کی ٹانگ ہے، کہیں انسان کا ہاتھ ہے، کہیں کتاب اوندھی پڑی ہے، لیکن اس تباہی کے بھیانک کینوس میں آپ کو امید کی ایک ’’شمع‘‘ بھی نظر آتی ہے اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ تباہی ہی سب کچھ نہیں۔ مستقبل تاریک نہیں ہے، پھر مخدوم کی نظم ’’اندھیرا‘‘ پڑھیے :
خندقیں
باڑھ کے تار
باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
وہ تڑختے ہوئے سر
میتیں ہاتھ کٹی پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اِس پار سے اُس پار تلک
سرد ہوا
نوحہ و نالہ و فریاد کناں
؎اور پھر نظم ختم ہوتی ہے :
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشیدِ د رخشاں کے نکلنے تک ہے
یوں لگتا ہے کہ پکاسو کی تصویر کو مخدوم نے نظم کیا ہے یا پکاسو نے مخدوم کی نظم کو رنگوں اور خطوط میں منتقل کر دیا ہے۔ اصل میں دونوں کا موضوع ایک ہی ہے، فاشزم۔ دونوں ہی نے فاشزم کی تباہ کاریوں کو پوری شدت سے محسوس کیا ہے، پیش بھی کیا ہے۔ دونوں ہی کو امید ہے کہ یہ ’’غم کی شام‘‘ شام ہے کتنی ہی لمبی اور کرب ناک کیوں نہ ہو ’’شام‘‘ ہی تو ہے۔
یہی امید ہے جو فن کے ان دونوں شاہ کاروں کو زندگی بھی بخشتی ہے اور دوام بھی۔ کیوں کہ دوام اگر حاصل ہے تو ممکن الحصول کی خواہش ہی کو۔ثبات اگر میسر ہے تو تغیر ہی کو۔
فانی کے ہاں یہ امید نہیں، وہ سراپا غم ہیں۔ قنوطیت ان کا سارا اثاثہ ہے۔ اسی لیے مایوسیوں نے ہلہ بول دیا ہو تو آپ کو ایسے موڈ میں فانی یاد بھی آ جائیں گے اور ایک آدھ ان کا شعر بھی :
فصل گل آئی، یا اجل آئی، کیوں در زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا، یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
آپ کے دماغ کے نہاں خانوں میں رینگنے لگے گا۔ فانی ایک موڈ کی ترجمانی کر سکتے ہیں وہ زندگی کی بشارت نہیں دیتے :
زندگی دید بھی ہے، حسرت دیدار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے، زندگی دلدار بھی ہے
(مخدوم)
بڑا فن کار وہی تو ہے جو اپنے فن میں روحِ عصر کی عکاسی ہی نہیں ترجمانی بھی کرتا ہے۔ ڈاکٹر راج کشور پانڈے نے مخدوم سے کہا تھا کہ کالی داس کا میگھ دوت وہ کیوں پڑھتے ہیں۔ وہ آخرکار سامنتی دور کا ادب ہے۔ مخدوم نے ان سے کہا تھا کہ میگھ دوت میں یہی تو نہیں ہے۔فطرت کی عکاسی، منظر کشی اور ساتھ ہی بارش، کھیتی اور بھرپور زندگی کی جھلک بھی تو ہے۔ اس کے علاوہ میگھ دوت میں اور بھی ہے۔
کالی داس کے ڈراموں میں روحِ عصر کی تلاش میں کملا رتنم نے دیکھا کہ اس عظیم فن کار نے اپنے ڈراموں میں اپنے دور کی عورت اور اس کی انا کو بڑے سلیقے اور فن کارانہ چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ دشنیت نے صحرا نوردی کے دوران شکنتلا کو پایا اور اپنی ہوس کی آگ بجھائی۔ حاملہ شکنتلا جب دشینت کے دربار میں پہنچتی ہے تو مغرور راجہ اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ شکنتلا کی انا مجروح ہوتی ہے۔ اس کے اندر باغی عورت جاگ اٹھتی ہے۔ وہ جنگل کو لوٹ آتی ہے، لڑکے کو جنم دیتی ہے، پال پوس کر بڑا ہی نہیں کرتی بلکہ اسے ہر طرح کی تعلیم بھی دیتی ہے۔ چناں چہ جب دشینت کو اپنے ہی لڑکے کے ہاتھوں شکست ہوتی ہے تو اس کا غرور بھی چکناچور ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی بیوی اور بچے کو پہچانتا ہے۔
اسی طرح ’’وکرم اروسی‘‘ میں جب راج کماری اس بات پر اتراتی ہے کہ راج کمار ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی بہت عزت کرتے ہیں تو ان کی جہاں دیدہ ملازمہ بول اٹھتی ہے۔
’’راج کماری جی! اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو بہت ہی عزت کرنے لگے تو سمجھیے کہ ضرور کہیں اور دل لگایا جا رہا ہے۔‘‘
کالی داس کا مرد کم زور ہے۔ چھپ چھپ کر گناہ کرتا ہے۔ سچائی سے گھبراتا ہے۔ لیکن عورت مضبوط ہے۔ اس کی انا بیدار ہے، وہ پیار بھی کرتی ہے اور پیار کی توہین ہو تو انتقام لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
یہ کالی داس کے مشاہدے کی گہرائی اور اس کے فن کی گہرائی ہے کہ وہ اپنے ادب میں اپنے زمانے کی عکاسی ہی نہیں ترجمانی بھی کر سکا۔ اسی لیے کالی داس عظیم فن کار تھا اور ہر زمانے میں عظیم رہے گا۔
مخدوم کے دور میں محنت سرمایے سے اور محبت نفرت سے برسر پیکار ہے۔ یہی پیکار اور یہی آویزش مخدوم کو کمیونزم کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں کو آواز دیتے ہیں کہ آئیں اور اس کرۂ ناپاک کو بھسم کر ڈالیں لیکن مقصد یہ ہے کہ ’’کاسۂ دہر کو معمور کرم کر ڈالیں ‘‘ اور پھر مخدوم کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں :
الہٰی یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو
صدائے تیشہ کامراں ہو، کوہکن کی جیت ہو
مخدوم نے محنت اور محبت دونوں ہی کو محروم اور مجبور دیکھا ہے۔ دونوں ہی کو مصروفِ جہاد دیکھا ہے۔ اس لیے وہ دونوں ہی کی جیت اور کامرانی کی دعا کرتے ہیں۔ یہی مخدوم کی شاعری کا مرکزی خیال ہے۔ مخدوم کے ہاں پرچمِ عشق اور علمِ بغاوت ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ وہ قلم کو تلوار اور تلوار کو قلم میں تبدیل کر دینے کے ہنر سے واقف ہیں۔ اسی لیے ان کے ہاں انقلابی مزدور تحریک کی مصروفیتیں اور شعری تخلیق کی خلوتیں ایک دوسرے سے ستیزہ کار نہیں بلکہ ایک دوسرے کی شریک کار ہیں۔
مخدوم بہت بڑا فن کار ہے۔ وہ بہت بڑا حسن کار ہے۔ جو کمیونزم میدانِ سیاست میں یا مزدور تحریک کے میدانِ عمل میں مخدوم کو ایک جنگجو اور ایک مجاہد کے روپ میں ڈھالتا تھا، وہی کمیونزم بزم شعر و سخن میں مخدوم سے زندگی اور انسان دوستی کے گیت گواتا تھا۔ مخدوم کی تقریر میں سیاست کی گرم بازاری تھی تو مخدوم کے شعر میں زندگی کی حسن کاری تھی، لیکن سرچشمہ دونوں کا ایک ہی ہے، محنت و محبت کی کامرانی کی شدید خواہش اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے سخت جدوجہد۔
سیاست پھر سیاست ہے اور ادب کو بہ ہر حال ادب ہی ہونا چاہیے۔ ادب کے فنی حسن اور تفریحی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر وہ ادب کہاں رہ جائے گا۔ شعر پھر شعر ہے وہ کوئی سیاسی دستاویز نہیں ہے، نہ کسی اخبار کا اداریہ ہے، نہ واعظ کی نصیحت ہے اور نہ کسی عدالت کا فیصلہ ہے۔ مخدوم کو ادب اور سیاست کے اس ’’تفاوت‘‘ کا شدید احساس بھی تھا۔ چناں چہ ایک واقعہ سنیے۔
۱۹۴۹ء کی برسات کا زمانہ تھا۔ ہم لوگ روپوش تھے۔ کسی مسئلہ پر تبادلۂ خیال کے لیے مخدوم، جواد رضوی اور میں ایک جگہ اکٹھے ہوئے تھے۔ سیاسی اور تنظیمی مسائل پر بات چیت ختم ہو چکی تھی اور شعر و سخن کی بات چل رہی تھی۔ جواد رضوی نے مخدوم کو چھیڑا۔
جواد :مخدوم صاحب، یہ آپ نے کیا کہا؟
اور کیا ہو گی کسی کی کائناتِ سال و سن
عشق کی دو چار راتیں، حسن کے دو چار دن
کیا ان دو چار دن رات کے لیے ہی ساری عمر بتانی ہے ؟ یہ انقلاب کی ساری تیاریاں، سوشلزم پر دل و جان سے نچھاور ہو جانے کے یہ سارے ارمان، کیا محض چار دن کے پیار کے لیے ہیں ؟
مخدوم کچھ سوچ رہے تھے اور میں جواد سے الجھ پڑا۔
میں : جواد صاحب آپ نے شعر کو صرف پڑھا ہے، محسوس نہیں کیا۔ آپ اس کے الفاظ میں الجھ گئے ہیں۔ معنوی حسن کو نہیں دیکھا۔ شدتِ تاثیر کا اندازہ کیجیے۔ آخر مبالغہ شعر کا حسن ہے اور بیان کو وہ انداز ہے جس سے تاثیر میں شدت پیدا ہوتی ہے۔ ظفر کا شعر یاد ہے
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
’’عمر دراز‘‘ پر غور کیجیے، کیسا کس کر طنز کیا ہے۔ چار دن کی سوچیے، محرومی کی شدت محسوس ہوتی ہے۔ ظفر کو طوائف اور ڈومنیاں تو بہت مل گئی تھیں لیکن شاہانہ اقتدار سے محروم تھے اور اس محرومی کا کس شدت سے اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح مخدوم مبالغہ سے کام لے کر احساس کی شدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مخدوم کا سکوت ٹوٹا اور وہ بول پڑے۔ راج یہ شبلی نعمانی کی تعلیمات رہنے دو۔ شعر کے حسن کی بات چھوڑو۔ پھر جواد سے مخاطب ہو کر بولنے لگے۔ جناب دو چار راتوں کی بات الگ رکھیے۔ ایک رات ہی عشق کی اور ایک دن ہی حسن کا دلوا دیجیے۔ اگر یہ بھی میسر ہو جائے تو سوشلزم غنیمت ہے اور اس کے لیے جان دے دوں، بھائی صاحب یہ حسن و عشق کی بات ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی کوئی دستاویز نہیں ہے۔ اس ایک مکالمہ سے شاعر و حسن کار مخدوم کی فن کارانہ عظمت کا پتا چل جاتا ہے۔
وہ کمیونزم کا حیات افروز زاویۂ نگاہ ہی تھا جس نے مخدوم کو میدانِ سیاست میں مردِ آہن بنایا تو بزمِ سخن میں موم بنا دیا۔ اس نے نکبت و افلاس سے نفرت بھی کی ہے اور اس کے خلاف جہاد بھی کیا ہے۔ اسی لیے وہ بھی جو مخدوم کے سیاسی مسلک سے اتفاق نہیں کرتے مخدوم کے سیاسی خلوص، انقلابی دیانت داری اور عوام دوستی کے قائل ہیں اور اسی بنا پر مخدوم سے شدید پیار بھی کرتے ہیں۔
پھر شاعر مخدوم کو کمیونسٹ مخدوم سے الگ کر کے دیکھنے کی اتنی کوشش بھی کیوں ؟ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ اقبال کو اقبال بنانے میں اسلامی تعلیمات کی خمیر میں شوپنہار اور نطشے کے تصورات کی آمیزش کو بڑا دخل ہے۔ کیا اقبال کا ’’مرد مومن‘‘ نطشے کے ’’فوق البشر‘‘ سے مشابہت نہیں رکھتا؟ اقبال کے فلسفۂ خودی میں کیا شوپنہار کے خیالات کی پرچھائیاں نہیں ملتیں جو اپنی جگہ اپنشدوں سے فیض حاصل کرتا معلوم ہوتا ہے ؟ اقبال کو روحِ اقبال سے علاحدہ کر دینے سے کیا رہ جائے گا؟ اسی طرح مخدوم سے روحِ مخدوم کو نچوڑ کر الگ کر دو تو کیا بچے گا؟
مخدوم کو تنہائی یویناً عزیز تھی اور اچھی بھی لگتی تھی لیکن کب؟ اور کس غرض کے لیے ؟ مخدوم سینکڑوں، کروڑوں عوام کے مصروف قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چلتے تھے، زندگی اور جدوجہد کے چشمے سے جی بھر کر پیتے تھے، پھر وہ لوٹ کر فن کار کی دنیا میں آ جاتے تھے۔ یہاں تنہائی میں آرزوؤں اور ارمانوں کے بت تراشا کرتے تھے۔ یہ ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ یہاں کسی کو دخل نہیں ہوتا تھا۔ لیکن یہ تنہائی فن کار کی تنہائی ہے، جو فنی تخلیق کے لیے ضروری ہے۔ یہ سائنس داں کی تنہائی ہے جو وہ تجربہ خانہ میں تحقیق و تخلیق کے لیے گزارتا ہے۔ یہ زندگی سے گھبرا کر اپنی ہی انا کے خول میں گھس جانا نہیں ہے۔ یہ تنہائی فرار کی تنہائی نہیں جو جہد و عمل کی طرف نہیں، خود کشی کی سمت لے جاتی ہے۔ یہ مجتہد کی تنہائی ہے جو اجتہاد کے نقشے بناتا ہے۔ بزدل و غدار کی نہیں جو خود اپنے ہی ضمیر کی پھٹکار سے بچنے کے لیے تنہائی میں ڈوب جانا چاہتا ہے۔
مخدوم کے ہاں شراب اور عورت زندگی کی علامتیں ہیں، عیش کوشی اور ہوس کی نہیں۔ مخدوم کو شراب اس لیے عزیز نہیں کہ وہ ہجوم آلام سے گھبرا گئے ہیں ’’اک گونہ بے خودی‘‘ چاہتے ہیں۔ وہ شراب سے سرور اور تازگی حاصل کرتے ہیں۔ شراب زندگی کا سرمایہ بھی ہے اور زندگی کی علامت بھی۔
مخدوم کے ہاں عورت کا وہ تصور نہیں جو داغ کے ہاں ملتا ہے۔
مٹی کی بھی ملے تو روا ہے شباب میں
مخدوم کے ہاں عورت مرد کی شریکِ بزم حیات ہی نہیں شریک رزم حیات بھی ہے۔ عشق ان کے ہاں اپنے سارے حیات افروز پہلوؤں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور زندگی کی عین علامت ہے۔ ان کے ہاں رقیب کا شکوہ اور ہجر کی شکایت نہیں ملتی۔ کبھی کبھی محبوب کی دوری کا احساس ہوتا بھی ہے تو وہ اپنی محفل یادوں سے سنوار لیتے ہیں۔ یادوں کے چاند ان کے دل میں اترنے لگتے ہیں اور اندھیرا اجالے سے بدل جاتا ہے۔
بہ ہر حال مخدوم محنت، محبت اور زندگی کے شاعر ہیں۔ زندگی بھر انھوں نے انہی کی کامرانی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ طبقاتی کشمکش اور کمیونزم اگر ان کی سیاست کی بنیاد ہے تو انقلابی انسانیت پسندی (Revolutionary Humanism) ان کے شعر کی جان ہے۔
٭٭٭
پروفیسر مغنی تبسم
مخدوم محی الدین کی معنویت اور عصرِ حاضر
مخدوم محی الدین ہمارے عہد کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری عصرِ حاضر کی عکاس اور نقاد تھی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی وفات کے بعد ملکی اور بین الاقوامی حالات میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ تبدیلیاں تو خود ان کی زندگی کے دوران میں وقوع پذیر ہوتی رہیں۔ جب انھوں نے شعر کہنا شروع کیا ہندستان غلام تھا۔ عوام افلاس، جہالت اور توہمات کے اسیر تھے۔ تہذیبی اقدار پامال ہو چکی تھیں۔ اپنی نظم ’’حویلی‘‘ میں مخدوم نے اس دور کے ہندستان کی تصویر کھینچ دی:
ا
ہےق
)ا
بافگن بیدت پہِ ک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج
ایک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے سب بام و در
جس طرف دیکھو اندھیرا، جس طرف دیکھو کھنڈر
رہزنوں کا قصرِ شوریٰ، قاتلوں کی خواب گاہ
کھلکھلاتے ہیں جرائم، جگمگاتے ہیں گناہ
جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا، ایمان کا
روز و شب نیلام ہوتا ہے جہاں انسان کا
مخدوم محی الدین کی نظم ’’ایشیا‘‘ ہندستان، پاکستان اور ایشیا کے دوسرے ملکوں پر آج بھی صادق آتی ہے۔ جہاں غربت اور افلاس کا دور دورہ ہے، کسان فاقہ کشی کا شکار ہیں، اکثریت تعلیم سے محروم ہے، توہم پرستی عام ہے۔ اپنی اس نظم میں مخدوم نے مشرق کو ایک بے گور و کفن ٹھٹھری ہوئی ننگی نعش سے تشبیہہ دی تھی جو مغربی جیلوں کا لقمہ بنی ہوئی ہے۔ ایشیا کے نوآبادیاتی ملکوں کی آزادی کے بعد بھی حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ ہندستان میں انگریز سامراج کی جگہ سرمایہ داروں نے لے لی ہے اور سرمایہ داروں نے اپنی حکومتیں قائم کر لی ہیں لیکن اب وہ امریکی سامراج کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے استیصال کے نام پر امریکہ نے افغانستان اور عراق میں اپنے قدم جما لیے ہیں اور اب وہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی ملکوں پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کے قتل پر مخدوم کی نظم کے یہ مصرعے امریکی سامراج کی سفاکی کو طشت از
سمحقق، ناقد، شاعر اور استاد محبیدبام کرتے ہیں :
وہ ہاتھ آج بھی موجود و کارفرما ہے
وہ ہاتھ جس نے پلایا کسی کو زہر کا جام
وہ ہاتھ جس نے چڑھایا کسی کو سولی پر
وہ ہاتھ وادی سینا میں ویت نام میں ہے
اور ویت نام کے پس منظر میں لکھی گئی نظم ’’درۂ موت‘‘ بوسنیا، افغانستان اور عراق کی بھی یاد دلاتی ہے :
اس تباہی کی گزرگاہ سے چل
یہ کوئی رستہ ہے جس رستے میں
نہ کوئی پھول نہ پتا
نہ کوئی پیڑ نہ پھل
اک ہیولائے سیہ
حدِ نظر
جس طرف دیکھو کھنڈر
دشتِ خاموشی سے جب گزرو گے
کئی امیدوں کی لاشوں سے گزرنا ہو گا
مخدوم کی نظمیں ’’جنگ‘‘، ’’زلف چلیپا‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ آج بھی اپنی معنویت رکھتی ہیں اور دلوں پر اثر کرتی ہیں۔ یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے :
نکلے دہانِ توپ سے بربادیوں کے راگ
باغِ جہاں میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ
اب دلہنوں سے چھین لیا جائے گا سہاگ
اب اپنے آنسوؤں سے بجھائیں وہ دل کی آگ
خود اپنی زندگی پہ پشیماں ہے زندگی
قربانِ گاہ موت پہ رقصاں ہے زندگی
(جنگ)
آفریں ہے تجھ پہ اے سرمایہ داری کے نظام
اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا اتنا اہتمام
کتنی ماؤں کی سہانی گودیاں ویراں ہیں آج
فرقِ گیتی پر نظر آتا ہے پھر کانٹوں کا تاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زر گری کا رقص ہے سود و زیاں کا رقص ہے
ہر گلی کوچے میں مرگِ ناگہاں کا رقص ہے
اب کسی سینے میں روحِ شادماں گاتی نہیں
زندگی کی اب کہیں ہلچل نظر آتی نہیں
(زلف چلیپا)
مخدوم نے جس انقلاب کا خواب دیکھا تھا اور جس کا زندگی بھر انتظار کیا تھا وہ کہیں ٹھہر گیا ہے اور آج بھی انسانیت اس کی منتظر ہے۔ مخدوم کے الفاظ میں :
حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک
سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک
توہمات کا آدم غلام ہے اب تک
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
مخدوم کی چند نظموں کا موضوع جنگ ہے۔ اس سلسلے کی پہلی نظم کا عنوان ہی ’’جنگ‘‘ ہے۔ اس نظم میں جنگ کی تباہ کاریوں کی پُر اثر تصویر کھینچی گئی ہے۔ اسے پڑھ کر جنگ سے نفرت ہو جاتی ہے :
نکلے دہانِ توپ سے بربادیوں کے راگ
باغِ جہاں میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ
امن و اماں کی نبض چھٹی جا رہی ہے کیوں
بالینِ زیست آج اجل گا رہی ہے کیوں
اب دلہنوں سے چھین لیا جائے گا سہاگ
اب اپنے آنسوؤں سے بجھائیں وہ دل کی آگ
انفرادی انسانی سطح پر جنگ کا الم ناک اور اندوہ گیں رخ مخدوم نے اپنی نظم ’’سپاہی‘‘ میں پیش کیا ہے :
کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے
لاش جلنے کی بو آ رہی ہے زندگی ہے کہ چلا رہی ہے
جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جا رہا ہے
آگے چل کر دوسری جنگِ عظیم کو مخدوم نے سیاسی سطح پر جنگِ آزادی سے تعبیر کیا ہے۔ ایک طرف دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کے خلاف جمہوری اور سوشلسٹ قوتیں صف آرا تھیں اور ادھر ہندستان میں آزادی کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔ برطانوی سامراج فاشزم کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اس لیے جنگ میں اس کا ساتھ دینا ایک سیاسی مصلحت تھی اور اس کا مقصد سوشلزم کی حمایت کرنا تھا۔ اس پس منظر میں مخدوم کی نظم جنگِ آزادی اپنا جواز رکھتی ہے :
یہ جنگ ہے جنگِ آزادی آزادی کے پرچم کے تلے
ہم ہند کے رہنے والوں کی محکوموں کی مجبوروں کی
آزادی کے متوالوں کی دہقانوں کی مزدوروں کی
آج عالمی صورتِ حال بہت کچھ بدل چکی ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد طاقت کا توازن برقرار نہیں رہا۔ اب امریکی اور برطانوی سامراج میں گٹھ جوڑ ہو گئی ہے۔ امریکہ ساری دنیا پر حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کسی نہ کسی بہانے کمزور ملکوں پر اقتدار جمانے کی فکر میں ہے۔ افغانستان اور عراق پر عملاً قابض ہو چکا ہے۔ اس کی نظریں خاص طور پر ان ملکوں پر ہے جہاں تیل کے ذخائر ہیں۔ اس کے علاوہ عالمیانے کے نام پر صارفیت کو بڑھا وا دے رہا ہے اور تیسری دنیا کے نو آزاد اور سابق نوآبادیاتی ملکوں کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رہا ہے۔ اب جنگیں یک طرفہ ہو گئی ہیں۔ جنگ سے مراد امریکہ کی جارحانہ کارروائی ہے۔ اس سب کے باوجود جنگ بہ ہر حال جنگ ہے اور جنگ کی تباہ کاریوں کی دلوں کو ہلا دینے والی جو تصویر مخدوم نے کھینچی ہے وہ آج بھی بدلی نہیں ہے۔
ہندستان کی آزادی سے قبل آزادی کی جدوجہد کے دوران مستقبل کے جو خواب دیکھے گئے تھے۔ اس کی جھلک مخدوم کی نظم ’’مستقبل‘‘ میں نظر آتی ہے :
نہ سلطانی تیرگی ہے نہ زاری
نہ تخت سلیماں نہ سرمایہ داری
غریبوں کی چیخیں نہ شاہی سواری
چلا آ رہا ہے چلا آ رہا ہے
سفینہ مساوات کا کھے رہا ہے
جوانوں سے قربانیاں لے رہا ہے
غلاموں کو آزادیاں دے رہا ہے
چلا آ رہا ہے، چلا آ رہا ہے
مستقبل کا یہ خواب آج تک بے تعبیر ہے۔ آزادی کے بعد ہندستان میں سرمایہ داروں اور پاکستان میں جاگیرداروں کے مفادات کی نگہبان سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار آ گئیں۔ فیض احمد فیض نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
مخدوم نے اپنی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ میں آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے حالات کا تقابل کیا ہے۔ آزادی سے پہلے :
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے ہم
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے
منتظر مرد و زن
لیکن آزادی کے بعد:
رات کے جگمگاتے بدن
صبح دم ایک دیوارِ غم بن گئے
خارزارِ الم بن گئے
اس صورتِ حال سے وہ مایوس نہیں ہیں کیوں کہ:
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا، اجالا بھی ہے
اور وہ عوام کو یہ پیغام دیتے ہیں :
ہم دمو ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
لیکن ہندستان میں جمہوریت اور سوشلزم کی طاقتیں کمزور پڑتی گئیں جس کی وجہ سے مخدوم اداس اور محزوں ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت کا اظہار ان کی نظموں ’’سناٹا‘‘ اور ’’وادیِ فردا‘‘ میں ہوا ہے :
ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے
کوئی پگھلا ہوا موتی
کوئی آنسو
کوئی دل
کچھ بھی نہیں
کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر (سناٹا)
رات ہی رات ہے سناٹا ہی سناٹا ہے
کوئی ساحل بھی نہیں
کوئی کنارہ بھی نہیں
کوئی جگنو بھی نہیں
کوئی ستارہ بھی نہیں
میری اس وادیِ فردا کے او خوش پر طائر
یہ اندھیرا ہی تری راہ گزر
اس فضا میں کوئی دروازہ نہ دہلیز نہ در
تری پرواز ہی بن جاتی ہے سامانِ سفر
(وادیِ فردا)
تقسیمِ ہند کے بعد ہندستان اور پاکستان میں جو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے مخدوم کی شاعری ان کے ذکر سے خالی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ ایک عارضی Phase تھا۔ ہندستان کی سکیولر سرمایہ دارانہ حکومت نے اس پر قابو پا لیا تھا۔ لیکن بعد میں اندرا گاندھی نے فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دی جس کی وجہ سے کانگریس کا سکیولر کر دار مسخ ہو گیا۔ بی جے پی برسرِ اقتدار آئی تو ہندوتوا نے زور پکڑا۔ ہندستان کا سکیولر کر دار اور بھی مسخ ہو گیا۔ گجرات کے شرم ناک فسادات اور اقلیتوں پر بہیمانہ مظالم نے ساری دنیا میں ہندستان کا سر جھکا دیا۔ مخدوم آج حیات ہوتے تو ان کا رد عمل یویناً شدید ہوتا۔
مخدوم محی الدین ایک روایت شکن انقلابی فن کار تھے۔ انھوں نے عصری اسالیب کو اپنا کر ان میں نئی اختراعیں کیں۔ اظہار کے نئے پیرایوں سے اردو شاعری کو روشناس کیا۔
مخدوم نے شعر گوئی کا آغاز پابند نظم نگاری سے کیا اور نظم کے لیے قصیدہ، مثنوی، مخمس، ترکیب بند اور ترجیع بند کے قدیم سانچے استعمال کیے اور گیت کے سانچے سے بھی استفادہ کیا بلکہ نئے انداز کے اور گیت لکھے۔
حلقۂ اربابِ ذوق کے شعرا ن۔م۔راشد اور میرا جی نے اردو میں نظمِ آزاد کو رواج دیا تھا۔ ترقی پسند شعرا نے ابتداً اس فارم کی طرف توجہ نہیں دی۔ مخدوم نے اس ہیئت میں اپنی معرکۃ الآرا نظم ’’اندھیرا‘‘ تخلیق کی جس میں علامت نگاری اور بہ راہِ راست اظہارِ حقیقت کو بڑی خوبی کے ساتھ ہم آمیز کیا گیا ہے۔ سرخ سویرا میں شامل دوسری آزاد نظم ’’استالین‘‘ ہے۔ یہ نظم تاتاری شاعر جمبول جابر کی نظم کا آزاد ترجمہ ہے۔ جمبول جابر نے جب یہ نظم لکھی استالین روسی عوام کا نہیں بلکہ عالمی کمیونسٹ سماج کا ہیرو اور رہنما تھا۔ مخدوم نے بڑے خلوص اور جذبۂ عقیدت کے ساتھ اس نظم کا ترجمہ کیا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے پس منظر میں یہ نظم ایک پُر اثر رجز کا انداز رکھتی ہے۔ اس نظم کی کئی سطریں نہایت اثر انگیز ہیں :
کیا میں اس رزم کا خاموش تماشائی بنوں
کیا میں جنت کو جہنم کے حوالے کر دوں
۔۔۔۔۔۔۔
برق پا وہ مرا رہوار کہاں ہے لانا
تشنۂ خوں مری تلوار کہاں ہے لانا
میرے نغمے تو وہاں گونجیں گے
ہے مرا قافلہ سالار جہاں استالین
مخدوم محی الدین نے اپنی آزاد نظموں میں اظہار کے جو تجربے کیے ہیں ان کی وجہ سے ہر نظم اپنی جداگانہ شان رکھتی ہے۔ قید، چارہ گر، چاند تاروں کا بن، فاصلے، احساس کی رات، چپ نہ رہو، ہم دونوں، وادیِ فردا، وقت بے درد مسیحا، درۂ موت، رات کے بارہ بجے اور ’’رت‘‘ ان میں سے ہر نظم کا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔
مخدوم محی الدین نے اردو کی غزلیہ شاعری کو بھی نیا رخ دیا۔ مخدوم کی غزل روایتی غزل کی رسمیات سے مبرا ہے اور جدید غزلیہ شاعری سے بھی اس کے تیور مختلف ہیں۔ اکثر غزلیں مسلسل ہیں۔ ان میں جذبہ اور خیال یک جا ہو گئے ہیں۔ غمِ جاناں اور غم دوراں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خالص عشقیہ اشعار کے ساتھ ان غزلوں میں ایسے فکر انگیز اور تہہ دار اشعار بھی ملتے ہیں جیسے
سیماب وشی، تشنہ لبی، باخبری ہے
اس دشت میں گر رختِ سفر ہے تو یہی ہے
سناتی پھرتی ہیں آنکھیں کہانیاں کیا کیا
اب اور کیا کہیں کس کس کو سوگوار کریں
دلوں کی تشنگی جتنی، دلوں کا غم جتنا
اسی قدر ہے زمانے میں حسنِ یار کی بات
دیپ ملتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے
اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے
سب وسوسے ہیں گردِ رہِ کارواں کے ساتھ
آگے ہے مشعلوں کا دھواں دیکھتے چلیں
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقشِ کفِ پا آخر شب
مخدوم محی الدین کی نظموں اور غزلوں کے اس جائزے سے اندازہ ہو گا کہ ان کی شاعری نہ صرف عصرِ حاضر کی ترجمان ہے بلکہ مستقبل کی نقیب بھی ہے اور اس کی گونج آنے والے زمانوں میں بھی سنائی دیتی رہے گی۔
٭٭٭
اندرادھن راجگیرجی
ترجمہ: احسن علی مرزا
عکاسِ حسن و شاعر حیات
مخدوم کی شاعری خالصتاً جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتی ہے۔ انھوں نے اعلیٰ اور شریفانہ اقدار کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا تھا۔ لطیف احساسات کو ان کے اصلی روپ رنگ میں دیکھنے اور انھیں شعور و ادراک کی گرفت میں لانے کی صلاحیت نے مخدوم کے اندازِ فکر کو منفرد بنا دیا تھا۔ ان کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فوراً سامع کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے اور اس کے دل میں ان کی نظم کے موضوع کے تعلق سے بڑا ہی نرم گوشہ پیدا کر دیتی ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو شاعر کے احساس و ادراک اور زندگی کے متعلق اس کے نقطہ نظر سے قریب تر محسوس کرنے لگتا ہے۔
ان کی شاعری انفرادی لیکن تعمیری تصورات کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کی بنیاد پر انھوں نے صداقت کا نظر نواز محل تعمیر کیا۔ مخدوم زندگی کو بار آور بنانے والے ایک پُر سکون جذبہ کا سرچشمہ تھے جسے ان کی نظموں میں موجزن لہر گاہے بگاہے متلاطم کر دیتی تھی، لیکن ایسے مرحلوں پر بھی ان کا شعور لطافت و نزاکت کی دلآویزی سے محروم نہ ہونے پاتا۔ شعر کے قالب میں اپنے ما فی الضمیر کے محتاط اور حسین انداز میں اظہار کا یہ پیرایہ مخدوم کو کسی حد تک مطالعہ باطن کی راہ پر ڈال دیا کرتا تھا۔
’’بساطِ رقص‘‘ کی تکمیل کے بعد اپنی زندگی کے آخری دور میں ان کے تخیلات نے زیادہ واضح اور زیادہ متحرک شکل اختیار کی اور وہ جذباتی علائم کو زیادہ آزادی سے استعمال کرنے لگے۔ انھوں نے اپنے وجود کی شبنم دے کر شاعری کو زیادہ لطیف اور حسین بنایا تاکہ وہ ان کی روح کی پاکیزگی کا ساتھ دے سکے۔ اپنے بطن کی آنکھ سے وہ سچائی کو جس رنگ میں دیکھتے ایک داخلی عمل کے تحت وہی رنگ ان کے فی البدیہہ شعر کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا اور اسے وہ خارجی دنیا کو عطا کرتے۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے بھری پری اس دنیا کا مرکز محبت بن جانا مخدوم کی سب سے بڑی تمنا تھی۔۔۔!!
اسی تمنا نے انھیں کمیونزم کے علاوہ مختلف ذریعوں سے عوام تک پہنچنے کے راستے دکھائے۔ وہ اپنے ہم عصر شعرا کا بڑا احترام کرتے اور ان کی تخلیقات کر پڑھ کر انھیں ویسی ہی مسرت ہوتی جیسے ایک بچے کو اپنے من پسند کھلونے سے ہوتی ہے۔ فیض احمد فیض کا نام سن کر ان کی آنکھوں میں بڑی دل نواز چمک پیدا ہو جاتی، ناظم، بورکا اور خلیل جبران سے انھیں بے اندازہ محبت تھی اور حافظ شیرازی تو ان کی خلوت و جلوت دونوں ہی کے ساتھی تھے۔ تنہائی میں حافظ ان سے ہم کلام ہوتے انھیں متنبہ کرتے، بہت سی باتیں سناتے اور اکثر ان کے اشعار سن کر داد بھی دیا کرتے۔ حافظ سے ان کی یہ عجیب و غریب وابستگی بہت پرانی تھی۔ ان ہی کے الفاظ میں ’’حافظ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں وہ پیام تم تک پہنچا دوں کہ ’’جو تازہ گلاب تم نے مجھے دیا‘‘ خدا اسے اپنے ہی باغ خیال کی نظر بد سے محفوظ رکھے ‘‘۔ حافظ نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ وصل یار کے لیے دل کی سعی ضروری ہوتی ہے اور مخدوم نے بھی اپنے ایک شعر میں بھی یہی بات کہی ہے :
دلوں کی تشنگی جتنی، دلوں کا غم جتنا
اسی قدر ہے زمانے میں حسنِ یار کی بات!
ان کی نظموں کے قاری کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کا شعور کس طرح اندھیرے کا دل چیر دیتا ہے اور وہ کس طرح ایسے مرحلوں پر بھی جب کہ کسی بات کو کہنے کے لیے سو فی صد منطق و استدلال کی ضرورت ہوتی ہے، کاغذ میں دل کی دھڑکنوں کو جذب کر کے الفاظ کو سرگوشی کی طاقت عطا کر دیتے ہیں۔ سیاسی نظریات کو بھی وہ کچھ ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ پھر وہ ہمارے لطیف جذبات کی صدائے بازگشت محسوس ہونے لگیں :
شفق کی پیٹھ کے پیچھے سے آ رہا ہے قمر
زمیں پہ نور کی چادر بچھا رہا ہے قمر
حیاتِ نو مجھے آواز دے رہی ہے سنو
دبی زبان میں کچھ گنگنا رہا ہے قمر
فلک پہ ابر کے اڑتے ہوئے جزیروں میں
زمیں کے درد کو اوپر بلا رہا ہے قمر
اداس رات ہے افلاس ہے غلامی ہے
کفن سے منھ کو نکالے ڈرا رہا ہے قمر
یہ اشعار بھی ان کے ذہنِ رسا کی ترجمانی کرتے ہیں :
رات آئی ہے بہت راتوں کے بعد آئی ہے
دیر سے دور سے آئی ہے مگر آئی ہے
مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہو جام آئے گا
رات ٹوٹے گی اجالوں کا پیام آئے گا
آج کی رات نہ جا۔۔۔
اپنے ایک دوست کے نام ۱۸/ دسمبر ۱۹۵۹ء کو اپنے تحریر کردہ ایک مکتوب میں مخدوم لکھتے ہیں ’’غم جانان اور غم دوراں دونوں ہی نے مل کر میرے دل پر یورش کر دی ہے اور میں ایک مسلسل کرب و اضطراب کے دور سے گزر رہا ہوں۔‘‘
۳۱/ دسمبر ۱۹۵۹ء کو انھوں نے اپنے ایک دوست کو لکھا:
’’سب سے بڑی کاوش یہ ہے کہ میں نے اس جانِ غزل کو ڈھونڈ نکالا ہے جو انسانی دل کو اعلیٰ ترین قدروں سے منور اور ہمارے کر دار و شعر کو حسن کی دولت سے مالا مال کرتی ہے۔ ‘‘ اس امر کا اظہار بے محل نہ ہو گا کہ مخدوم کا تصورِ حیات بہت وسیع تھا، لیکن ایک خاص لمحہ اور ایک خاص مسئلہ کو وہ اپنی شاعری کے بہت بڑے کینوس پر کچھ اس طرح اجاگر کرتے تھے کہ وہ کل کا ایک جزو ہوتے ہوئے بھی سننے والے کی خصوصی توجہ کا مرکز بن جاتا تھا۔ ان کی تمام نظمیں ایک دردِ بے کراں کی حامل ہیں اگرچہ کہ وہ اسے تسلیم نہیں کرتے تھے۔ درد و غم پر مخدوم کو اظہارِ خیال کے لیے آمادہ کرنا ذرا مشکل تھا۔ اگر آپ عمداً درد و غم کی بات چھیڑ بھی دیں تو وہ موضوعِ سخن بدل دیتے اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ شعوری طور پر اظہار خیال سے بچنا چاہتے ہیں۔۔۔ مخدوم کہتے :
’’آپ مسرت کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں، غم تو ہر جگہ ہے پھر اس کا ذکر کیوں کیجیے ؟‘‘
مخدوم اپنے ملک کے تعلق سے رجائیت اور قنوطیت کے ملے جلے جذبات کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ اپنے اکثر دوستوں کے اس خیال کی وہ بالواسطہ تائید کر دیتے کہ حال بڑا تکلیف دہ اور مایوس کن ہے لیکن فوراً ہی کہہ اٹھتے :
’’۔۔۔ لیکن مستقبل۔۔۔ وہ تو ستارہ کی طرح تابناک اور درخشاں ہے۔‘‘
اسی چمن میں چلیں جشنِ یادِ یار کریں
مخدوم شاعری میں تقلید کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ وہ جو بھی لکھتے اس میں ان کی انفرادیت نمایاں ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے اندر کا شاعر دوسروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کا تھا۔ ان کی آواز واضح طور پر ان کی اپنی ہوتی۔ مے خانہ شعر کے پرانے مے خواروں کی تلچھٹ سے مخدوم نے اپنے منھ کا مزہ ضرور بدلا تھا لیکن کسی مے خوار کے جام کو چرا لینے کا گناہ ان سے کبھی سرزد نہیں ہوا۔ وہ بڑی خوشی سے اپنے کسی دوست کو اپنی پسند کا کوئی شعر سنا دیتے۔ مخدوم کو اگر کسی کا حوالہ دینا ہوتا تو وہ کسی ایک لفظ کے تلازم سے پوری بات کرنے کی کوشش کرتے اور پھر کہتے :
’’ہاں سنیے۔۔۔ کچھ یاد آیا۔۔۔‘‘ دوسروں کی اچھی بات سناتے ہوئے وہ خود اس کی دل بھر کر داد دیتے تاکہ پاس بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی اس کے حسن سے لطف اندوز ہوں اور اس کی تعریف کریں۔ مخدوم دوسروں کی صلاحیتوں کے اعتراف میں بڑے فراخ دل واقع ہوئے تھے۔ با صلاحیت دوستوں کی حوصلہ افزائی ان کا شعار تھی۔ انھوں نے ۲۸/ ستمبر ۱۹۶۸ء کے ایک مکتوب میں جو ماسکو سے بھیجا گیا تھا مجھے لکھا:
’’تمھارے نام تمھارے ذکر سے آج کی شام شروع ہوئی۔ ملک راج آنند اور سجاد ظہیر میرے کمرے میں بیٹھے تھے تمھاری نظموں کے ٹکڑے ادھر ادھر سے پڑھے اور تعریف کی۔ ان کا بھی خیال تھا کہ اپنی زبان میں لکھا جائے۔ سجاد ظہیر نے کہا ایک ہندستانی لڑکی انگریزی میں لکھتی ہے تو کیوں نہ لکھے پھر مایا کے فلسفہ پر بات چلی جو تمھاری ان نظموں میں جھلکتا ہے۔ میں نے تمھاری دو اور لمبی نظموں کا ذکر کیا جو چھپ رہی ہیں اور ’’گلال‘‘ کا بھی۔۔۔ جو ہندی میں ہے۔ کھانے کے بعد میں اور آنند ماسکو ندی کے کنارے ٹہلنے کے لیے نکلے تو واپس آنے تک تمھارا ہی ذکر رہا۔ آنند کا کہنا ہے کہ ایک رائٹر کو آپ بیتی لکھنا چاہیے۔ ایمان داری کے ساتھ۔۔۔ میں نے کہا کہ اندرا بھی اسی بات پر زور دیتی رہتی ہیں۔ کمرہ میں آ کر میں نے ’’دی اپسٹل‘‘ پڑھا۔
’’میں تمھیں اپنی کشش ثقل کے حلقہ سے باہر نکلنے دوں گی۔‘‘
’’تاکہ دوامی طور پر ہم دونوں پرواز کرتے رہیں۔‘‘
’’اس وقت میں تمھارے لیے سورج بن جاؤں گی۔‘‘
’’اور پھر محبت کی قوت و طاقت کی حامل بن کر تم مجھے نغمۂ الفت سنا سکو گے۔‘‘
اور میں تمھیں سندیسے بھجواؤں گی۔ سندیسے اور ان کے جواب۔
’’تم نے کہا ہے میں سورج بن جاؤں گی۔۔۔‘‘
اور اپنے خط کے آخر میں لکھتے ہیں ’’مگر کیا بات کہی ہے۔‘‘ بساط رقص، کی مخدوم کی اکثر نظموں میں ’’رات‘‘ کا ذکر ملتا ہے جو سو رنگوں میں چپکے سے رینگتی ہوئی ان کے نغموں اور غزلوں میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے بعد مخدوم نے رات کے بجائے ’’سورج‘‘ کا تذکرہ شروع کر دیا اور وہ اس نئی علامت سے حد متاثر ہونے لگے۔ رات کا سمبل مخدوم بے صبح سے پہلے کے دھندلکے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس علامت کا انتخاب ان کی داخلی بے بسی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی شب وصال میں بھی رات کے سناٹے کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ وقت سے گلہ کرتے ہیں کہ اس نے تکمیل محبت کی مہلت نہیں دی۔ تکمیل محبت کے اس لمحہ کے حصول کے لیے انھیں رات کے سناٹے میں چپکے سے مر جانا بھی گوارا ہے۔ مخدوم کے لیے تکمیل محبت۔۔۔ آبِ حیات بن گئی تھی جسے وہ قطرہ قطرہ پیتے رہے اپنی شاعری کو بھی انھوں نے قطرہ ہائے آبِ حیات کی لذت سے واقف کرایا ہے۔۔۔
رات کی تلچھٹیں ہیں، اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا اجالا بھی ہے
منزلیں پیار کی الگ لائیں منزلیں دار کی
مخدوم کا یہ بند اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ کتنے حساس واقع ہوئے تھے اور اپنے ارد گرد کے حالات کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کی شاعری کا کینوس ساری دنیا کی وسعتوں کا حامل تھا۔ اس پر وہ ایک با کمال پینٹر کی طرح الفاظ کے ذریعہ اپنے ما فی الضمیر کی تصویر بنایا کرتے تھے ’’لوممبا‘‘ مارٹن لوتھر کنگ، نہرو اور اسٹالن پر ان کی نظموں سے ان کے شعور و ادراک کی سرحدوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ عالمی شہری تھے۔ انھوں نے ایک دن بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا تھا۔۔۔
’’کیا تم نے ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکی طلبا کے ایجی ٹیشن کے بارے میں کچھ پڑھا ہے ؟ سنگ مرمر کی صاف و شفاف سیڑھیوں پر خون کے چھینٹوں کی داستان۔۔۔‘‘ مخدوم کے پاکیزہ اور معصوم دل پر ان واقعات کا گہرا اثر پڑا۔ وہ تو اس دنیا کو اپنی خوب صورت نظم کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ حسن اور خوب صورتی ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اگر زندگی حسن سے محروم ہو جائے تو کتنے ہی لوگ خود کشی کر لیں۔ مخدوم کے لیے تو خودکشی کی اصطلاحوں میں سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ وہ زندگی پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ ان کا ایقان یہ تھا کہ زندہ رہنا اور دوسروں کو زندگی کا حوصلہ عطا کرنا ہی سب سے بڑا اور اہم مشن ہے۔ کام ان کے لیے ایک ذریعہ تھا اور زندگی کا ایک عطیہ! جوش و خروش سے ابلتی ہوئی حیات ہی ان کی وہ بہشت تھی جسے دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں بے چین رہتیں۔ ان کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ زندہ رہو، زندگی سے پوری طرح لطف اٹھاؤ اور دوسروں کو بھی اسی طرح زندہ رہنے دو۔ مخدوم جن باتوں کو پسند کرتے بڑی شدت سے پسند کرتے اور جن باتوں کو ناپسند کرتے انھیں بڑی شدت سے ناپسند کرتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید شدید نوعیت کی ہوتی۔ ان کو ناقابلِ قبول استدلال سے سخت نفرت تھی اور کسی نامانوس حلقہ میں بیٹھ جانا انھیں بے حد ناپسند تھا۔ وہ کسی بھی ناگوار شے سے دور رہنے کی شعوری کوشش کرتے تاکہ ان کی روح کی بلندی کی راہ میں ناگواری حائل نہ ہو اور اپنی تازہ نظم کے لیے نئے تصورات کی یک جائی میں انھیں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
جب ان کا ذہن سپاٹ ہوتا وہ بڑے غم گین بن جاتے اور اس بات پر جھنجھلاتے کہ وہ شعری حسن سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض مرتبہ وہ کہتے کہ حالات لکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ خوب صورت تصورات کو جنم دینے کے لیے تو پارٹی کے کام میں سستی پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ہمہ وقتی شاعر بننے کے لیے سیاسی تحریکوں کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کرنا ہوتا ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں انھوں نے خود اپنے متعلق تحریر کیا ہے :
’’میں اب بھی تعطل و جمود کے دور سے گزر رہا ہوں، کچھ لکھنے کی رغبت بھی نہیں ہوتی، میں اکثر سوچتا ہوں کہ دنیا اور بالخصوص ہمارا ملک کدھر جارہا ہے ؟‘‘
جب بھی وہ دن بھر کی ستیہ گرہ اور سیاسی سرگرمیوں سے تھکے ہارے نظر آتے ان کے دوست احباب اور بہی خواہ، پارٹی کے کام میں سستی پیدا کرنے کی یاد دلاتے۔ کچھ عرصہ پہلے شہر میں وزیر اعظم کی آمد کے موقعہ پر کالی جھنڈیوں کے مظاہرہ کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور وزیر اعظم کی خیر و خوبی سے روانگی تک انھیں زیر حراست رکھا گیا اور پھر شام کے ساڑھے چار بجے انھیں رہا کیا گیا اور سات بجے شام وہ آنند نارائن ملا کے اعزاز میں ترتیب دیے ہوئے ڈنر میں شرکت کی غرض سے ہمارے مکان پہنچ گئے پھر سبھوں نے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بشمول ملا صاحب نے شعرا کا کلام سنا۔ اس موقعہ پر مخدوم نے میری ایک انگریزی نظم کا اردو ترجمہ ’’فاصلے ‘‘ بہ اصرار سنایا۔ ایک دفعہ وہ کل ہند مشاعرہ یا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کسی کنوینشن میں شرکت کی غرض سے بمبئی آئے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ ان کے اس دورہ کی غرض و غایت کیا تھی۔ اکثر کوئی تصویر بناتے ہوئے ایک اور تصویر بھی ہمارے افقِ ذہن پر تھرکنے لگتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے کسی خاص واقعہ کو یاد کرتے ہوئے مجھے اس کی جزوی باتوں کو یاد کرتے ہوئے اسی قسم کے امتزاج تلازمات سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور اسی بنا پر مجھے یاد نہیں آ رہا ہے کہ مخدوم صاحب کل ہند مشاعرہ میں شرکت کی غرض سے آئے تھے یا کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کسی کنوینشن میں شرکت کی غرض سے مختصر یہ کہ ہم نے اپنے بمبئی کے گھر میں ایک خصوصی مشاعرہ کا اہتمام کیا تھا اس میں مخدوم کے علاوہ ساحر، سردار، وجد، کیفی اور ہمارے متعدد دوستوں نے شرکت کی۔ جب مخدوم کی باری آئی تو انھوں نے ’’گل تر‘‘ کھول کر نظم ’’فاصلے ‘‘ شروع کر دی اور اس کے بعد نظم ’’ہم دونوں ‘‘ سنانے لگے۔ جب دوسرے شاعر اور سخن شناس داد دینے لگے تو مخدوم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’داد انھیں دیجیے کیوں کہ یہ دونوں نظمیں ان کی ہی ہیں۔ ان دونوں موقعوں پر تو مخدوم نے میری نظموں کا ترجمہ میرے منھ پر سنایا۔ اب ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے اور اندازہ کیجیے کہ مخدوم کی ’’سیماب و شی‘‘ کا کیا عالم تھا۔ یہ واقعہ مکرم الدولہ کی ڈیوڑھی میں منعقدہ یوتھ کانفرنس میں پیش آیا جس کی صدارت کے لیے مخدوم کے لڑکے نصرت نے مجھے کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر مخدوم کی صدارت میں ایک مشاعرہ بھی ہونے والا تھا۔ کانفرنس کے اختتام سے کچھ پہلے ہی مخدوم غائب ہو گئے اور کم و بیش ایک گھنٹہ تک ہم سبھوں کو اپنا منتظر رکھ کر غائب رہے اور پھر ایک نئے صاحب کے ساتھ نمودار ہوئے۔ شہ نشین پر مسند صدارت سنبھالتے ہی ان کا لب و لہجہ بدل گیا۔ ان کی بات چیت ویسی نہیں تھی جیسی کہ وہ عام جلسوں میں کیا کرتے تھے۔ جب ان کی باری آئی تو شرارتاً کسی نے ’’فاصلے ‘‘ کی فرمائش کی اور بہت سی آوازیں اس کی تائید میں بلند ہوئیں۔
انھوں نے حاضرین محفل پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور کہا ’’مجھے یاد نہیں ہے، لیکن فرمائش کرنے والوں نے اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ زور و شور کے ساتھ ’’فاصلے ‘‘ کی فرمائش کی تو مخدوم بولے ’’میں نے ابھی آپ سے کہا ہے کہ فاصلے مجھے یاد نہیں اور کتاب میرے ساتھ نہیں ہے۔‘‘ حاضرین نے بھی جیسے وہی نظم سننے کی ٹھان رکھی تھی۔ چناں چہ کسی منچلے نے ’’گل تر‘‘ پیش کر دی، اب تو مخدوم قدرے مشتعل ہو گئے اور بول پڑے ’’اگر آپ میری پسند کی غزل یا نظم سننا پسند کریں تو میں سناؤ ں گا ورنہ مشاعرہ کی برخاستگی کا اعلان کر دوں گا۔‘‘ بعد میں میں نے ان سے اس کا سبب پوچھا اور یہ بھی کہا کہ ’’میرا بھی جی چاہ رہا تھا کہ میں بھی آپ کے رویہ کے خلاف شور مچاؤں۔‘‘ مخدوم نے کہا ’’پھر تم نے ایسا کیوں نہیں کیا، تم مائیک پر آتیں تو میں تم ہی سے کہتا کہ فاصلے سنا دو کیوں کہ یہ نظم تو تمھاری ہے میں اسے اپنی نظم نہیں کہہ سکتا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ شاعر میں کچھ ایسی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ بچے کی طرح ہر شے کو ایک شعبدہ اور کرتب کی شکل میں دیکھ سکے۔ مخدوم میں یہ وصف موجود تھا۔ وہ اپنے ذہن کو دنیا والوں کے سامنے بے نقاب کرنے سے پہلے تجربہ کے دور سے گزرتے اور تجربہ انھیں ایک نیا نقطۂ نظر عطا کرتا۔ مخدوم ایک شعبدہ باز ہی تو تھے۔ ان کے شاعرانہ تخیل کی ہر جست ایک نئی دنیا رنگ و بو کے دروازے کھول دیتی۔ وہ ایک منفرد اور بے مثال شاعر تھے اور ان کی یہ انفرادیت کسی بھی صورت میں گھٹتی نظر نہیں آتی تھی کسی آدمی کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ ہمیشہ عوام سے بلند ہو کر کسی چوٹی پر کھڑا رہے۔ ادیب اور شاعر بھی ہمیشہ عوام کی سطح سے اونچے نہیں رہ سکتے۔ کشش ثقل انھیں نیچے کھینچ لاتی ہے اور وہ بھی ؟؟؟؟؟
٭٭٭
شمیم حنفی
مخدوم محی الدین : نعرے سے نغمے تک
اچھی شاعری کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دائرے کی قیدی نہیں ہوتی اور عام تعصبات کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی۔ مخدوم کے انتقال پر لکھے جانے والے ایک مضمون کا خاتمہ میں نے مایا کافسکی کے ایک بیان پر کیا تھا کہ نظم لکھتے وقت، شاعر کسی بیرونی ہدایت نامے کا پابند نہیں ہوتا۔ اس واقعے پر اب تین دہائیوں سے زیادہ مدت کی گرد جم چکی ہے لیکن مایا کافسکی کی کہی ہوئی بات آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی کہ مایا کافسکی کی زندگی میں تھی۔ فیض کے معاصر نظم گویوں میں فیض کے بعد مخدوم انقلاب کے سب سے بڑے مغنی تھے۔ ان کے انسانی سروکار اور دردمندی کا سیاق اور پس منظر بہت وسیع تھا اور ان کی تخلیقی زندگی، ان کی عام اور روزمرہ زندگی سے ایک گہرا باطنی ربط رکھتی تھی۔ مخدوم چھوٹے چھوٹے خانوں میں بٹے ہوئے انسان نہیں تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ، یہ واقعہ بھی اہم ہے کہ انھوں نے زندگی اور شاعری کی حدیں کچھ اس طرح ملائی تھیں کہ دونوں میں ایک سچا، کھرا اور کثیر الجہات رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ کامرانی کی اس منزل تک ان کے ہم عصروں میں گنتی کے چند لوگوں ہی پہنچ سکے تھے۔ یہاں میں سجاد ظہیر کے ایک اقتباس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ:
’’شاعر کا پہلا کام شاعری ہے وعظ دینا نہیں۔ اشتراکیت و انقلاب کے اصول سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھنے کے لیے کتابیں موجود ہیں، اس کے لیے ہم کو نظمیں نہیں چاہئیں ‘‘۔
(بہ حوالہ خلیل الرحمن اعظمی، اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، ص: ۳۶۳)
فیض اور مخدوم نے تخلیقیت کا یہ رمز اپنے حلقے کے دوسرے نظم گویوں سے پہلے اور شاید بہتر طریقے سے سمجھ لیا تھا۔ غنائیت کا عنصر اسی لیے دونوں کے یہاں ایک بنیادی شعری قدر کی حیثیت رکھتا ہے۔ استعارے، تمثیل، شبیہ سازی، پیکر تراشی اور خوش آہنگی کے عناصر پر توجہ ان دونوں کے یہاں اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہے۔ خلیق ابراہیم خلیق نے جو اپنی ترقی پسندی اور عام انسانوں کی زندگی کے مسائل سے گہری وابستگی کے علاوہ آرٹ اور ادب کا بھی بہت رچا ہوا شعور رکھتے تھے، اپنی تاریخی کتاب ’’منزلیں گرد کے مانند‘‘ میں سردار جعفری کے ایک خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے :
’’بھیمڑی کانفرنس نے ثقافتی رویوں کے سلسلے میں جو بنیادی غلطی کی، اس کی طرف علی سردار جعفری نے توجہ دلائی ہے۔ اکتوبر ۱۹۸۴ء میں انھوں نے ترقی پسند تحریک کی نصف صدی کے موضوع پر دہلی یونی ورسٹی میں توسیعی خطبہ دیتے ہوئے، فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کی مارچ ۱۹۶۶ء کی ایک تجویز کا حوالہ دیا جس میں اینگلز کے ایک ’’انتباہ‘‘ کا ذکر ہے۔ اینگلز ہمیں یہ حق نہیں دیتا کہ ثقافت کے میدان میں ہر چیز کو قاعدے قانون میں لانے کے ٹھیکے دار بن جائیں۔ وہ ایک ایسی دنیا میں جو کبھی مکمل و اکمل (Perfect) نہیں ہو سکتی، ثقافت اور تعلیم کے کسی ایسے تصور کے خلاف بھی متنبہ کرتا ہے جس نے عقیدے کی شکل اختیار کر لی ہو۔ جعفری نے کہا کہ بھیمڑی کانفرنس میں یہی غلطی کی گئی‘‘(ص: ۷۰۱)
یہاں اس واقعے کی طرف اشارہ میں نے بس ایک گزرے ہوئے واقعے کے طور پر کیا ہے اور اس کے مضمرات پر گفتگو یہاں میرے لیے دور از کار ہو گی۔ عرض صرف یہ کرنا تھا کہ اس صورتِ حال نے ہمارے ادبی معاشرے کے لیے ایک عجیب و غریب مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے اچھی اور بری شاعری کا فرق تو مٹا ہی، ہمارے ترقی پسند شاعروں میں بھی خاصے سطحی قسم کے اختلافات رونما ہونے لگے۔ مقصدیت، افادیت، وابستگی، بیان اور اظہار کی وضاحت اور کسی طرح کی تجربہ پسندی سے گریز پر اتنا زور صرف کیا گیا کہ نعرے بازی شاعری کا بدل قرار پائی۔ وامق جونپوری نے وعدہ کیا کہ چوں کہ انھوں نے عوامی طرزِ احساس کے ساتھ ساتھ عوامی زبان اور اسلوب کو برتنے میں سب سے زیادہ سرگرمی دکھائی ہے اس لیے ترقی پسند شاعری کے سب سے بڑے ترجمان بھی وہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس دلیل کی جمالیاتی منطق کمزور اور اس وعدے کی دلیلیں ناقص تھیں اس لیے انھیں قبولیت بھی نہیں مل سکی۔ یہیں سے ہمارے بزرگ شاعروں میں اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس جاگا۔ دھیرے دھیرے موضوعات کی پرستش کا زور کم ہوا اور سماجی حقیقت نگاری کے تصویر نیز ترقی پسند شعریات کو نسبتاً زیادہ لوچ دار اور وسیع تر سطح پر پیش کرنے کی روش عام ہوئی۔ مخدوم، جذبی، جاں نثار اختر، مجاز، مجروح، ساحر، کیفی، نیاز حیدر اور سردار جعفری کے سلسلے میں اب پہلے سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور ہم دردانہ زاویۂ نظر اختیار کیا گیا۔ فراق، جو ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور میں ترقی پسند سمجھے جاتے تھے، اس حلقے کے فکری انتشار کے باعث زیادہ دور تک ساتھ نہ جا سکے اور رفتہ رفتہ تحریک سے تقریباً لاتعلق ہوتے گئے۔ لیکن اس واقعے میں شک کی گنجائش نہیں کہ جیسے جیسے ترجیحات اور تصورات کی گرد چھٹتی گئی، ترقی پسند شاعری کا مطلع بھی صاف ہوتا گیا۔ اب اس مطلع پر سب سے روشن چہرے وہی تھے جنھیں تخلیقی اپج، فنکارانہ استعداد اور بصیرت کی تائید حاصل تھی۔ فیض تو خیر اب غیر متنازعہ حیثیت حاصل کر چکے تھے اور خود ان کے ایسے رفیقوں نے جن کا انداز فیض کی طرف اب تک حریفانہ تھا، اب انھیں تسلیم کرنے لگے تھے۔ مخدوم، مجاز، جذبی، مجروح اور جاں نثار اختر کے شعری طریق کار اور ادبی شعور پر چھائی ہوئی دھند بھی اب چھٹنے لگی تھی۔ اس پورے سلسلے پر نظر ڈالی جائے تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ترقی پسند شاعری کے معماروں میں اب بھی وہی نام سب سے پہلے سامنے آتے ہیں جو پچاس پچپن برس پہلے ہمارے شعری افق پر جگمگائے تھے۔ ظاہر ہے کہ تحریکیں صرف منشور پر زندہ نہیں رہتیں۔ انھیں حرارت اور زندگی ملتی ہے ان توانائیوں سے جن کا مخزن اور منبع کسی روایت کا تسلسل ہوتا ہے۔ اس تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ وقت اور ماحول کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی کی تعبیر کے نئے راستے تلاش کیے جاتے اور تخلیقی اعتبار سے اپنی روایت کو فعال اور سرگرم رکھا جاتا۔ کوئی بھی روایت صرف ماضی کی کامرانیوں کے سہارے باقی نہیں رہ سکتی۔
مخدوم نے اپنے شعری اظہار کے لیے نہ صرف یہ کہ ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا، انھوں نے اپنے تخلیقی سفرکو کامیابی کی ایک منزل سے ہم کنار بھی کیا، اس طرح کہ ان کی جذباتی اور ذہنی وابستگی پر بھی حرف نہ آیا اور انھوں نے شاعری کے معارف بھی ادا کر دیے۔ اس سلسلے میں انھیں سب سے زیادہ مدد اپنے لہجے کی غنائیت، اپنے مخصوص آہنگ اور اپنے لسانی شعور سے ملی۔ تقسیم اور آزادی کے سائے میں رونما ہونے والے قتل و غارت گری کے ماحول میں بھی مخدوم نے اپنے شاعرانہ احساسات کا نظم و ضبط برقرار رکھا۔ یہ ایک مستحکم اور توانا تخلیقی شخصیت کا کرشمہ تھا اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مخدوم نے علمی سیاست سے بھی ایک دیانت دارانہ سروکار باقی رکھا اور اس سروکار کی قیمت بھی ادا کرتے رہے تو ان کی شاعری کا تخلیقی تناظر ہمیں ان کی قسم کے دوسرے اردو شاعروں سے زیادہ وسیع اور پرکشش دکھائی دیتا ہے۔ نعرے کو نغمہ بنانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ مخدوم نے ’’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی‘‘ سے لے کر ’’چاند تاروں کا بن‘‘ تک ایک دشوار گزار راستہ طے کیا ہے اور اپنے نصب العین تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہر دور کی اچھی شاعری کی طرح ترقی پسند ’’شاعری‘‘ پر تقاضہ بھی اپنے پیروکاروں سے یہی تھا۔ ’’نئی نظم کا سفر‘‘ کے مقدمے میں خلیل الرحمن اعظمی نے اس واقعے کی نشاندہی حسبِ ذیل طریقے سے کی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’۱۹۵۵ء سے مخدوم کی نظم نگاری ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے۔ یہ نظمیں داخلیت اور خارجیت، وضاحت اور ابہام کے انوکھے امتزاج سے پیدا ہوئی ہیں، اس لیے ان میں سے اکثر نظمیں فنی تکمیل کا بھی احساس دلاتی ہیں اور ان میں مخدوم کا انفرادی اسلوب نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مخدوم اور جعفری کے علاوہ دوسرے شعرا اپنی انفرادی طرز کو کبھی نہ پا سکے اور ان کی بیش تر نظمیں نئی نظم کے دائرے سے خارج ہو جاتی ہیں ‘‘۔
فیض کی طرح ہندستان کے ترقی پسند شاعروں میں سردار جعفری اور مخدوم کا یہ امتیاز ہمیشہ تسلیم کیا جائے گا کہ انھوں نے اجتماعی تجربے اور انفرادی تخلیق کے مابین ایک صبر آزما جدلیاتی توازن اور ایک نازک رشتے کے قیام کی جستجو سے اپنی کامیاب نظموں میں کبھی غفلت نہ برتی۔ اس کے لیے انھوں نے ان تمام مطلوبہ وسیلوں پر توجہ قائم رکھی جو ذہنی واردات کو تخلیقی واردات کی سطح تک لے جاتے ہیں۔ وہ جو ایک بات پابلونرودا کے بارے میں محسوس کی جاتی ہے کہ وہ اپنے جادوئی تخلیقی لمس سے پتھر کو بھی سونا بنا دیتا تھا، مخدوم پر بھی صادق آتی ہے۔ مایاکافسکی نے اپنی گہری سماجی وابستگی کے باوجود تخلیقی آزادی کو ہر حال میں بچائے رکھنے پر جو زور دیا تھا تو اسی لیے کہ اسے شعری عمل اور سماجی عمل کے فرق و امتیاز کا ہمیشہ لحاظ رہا اور اس نے اپنی مختصر عمر کے آخری دنوں میں لینن پر جو طویل اور تابناک نظم کہی تھی اس میں شخصیت پرستی کا شائبہ تک نہیں۔ اسٹالن پر مخدوم کی یادگار نظم بھی ہمیں اسی تاثر تک لے جاتی ہے اور اسٹالن ازم کی شکست کے بعد بھی اس نظم کی قدر و قیمت میں کمی نہیں آئی ہے۔ یہ خوبی اپنے فکری مقاصد اور اپنی فن کارانہ سرگرمی، دونوں کے ساتھ یکساں خلوص کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اس سچائی کا اندازہ اپنی ادبی تاریخ کے سیاق میں سب سے زیادہ واضح طور پر ایک پامال موضوعاتی پس منظر میں فیض اور مخدوم کی دو سب سے مختلف اور معروف نظموں کے واسطے سے ہوتا ہے۔ فیض کی صبح آزادی ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ کے بعد اس موضوع پر دوسری سب سے اچھی نظم مخدوم کی ’’چاند تاروں کا بن‘‘ ہے۔ فیض کی نظم کے اختتامیے کے ساتھ مخدوم کی نظم کے ان مصرعوں پر نظر ڈالی جائے تو دونوں کے داخلی ربط کا صاف پتہ چلتا ہے۔ فیض نے کہا تھا:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اور مخدوم کہتے ہیں :
موم کی طرح جلتے رہے، ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
اور پھر یہ کہ:
کچھ امامانِ صد مکر و فن
ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوکِ زباں
خونِ نور سحر پی گئے
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا اجالا بھی ہے
اس نظم کا بنیادی خیال ایک محرک کا رول ادا کرتا ہے اور پھر شاعر اپنے مطلوبہ سفر پر نکل جاتا ہے، آزاد، تنہا اور خود مختار اور ہر چند کہ اس خوب صورت نظم کا خاتمہ ہم دموں سے خطاب پر ہوتا ہے، لیکن مخدوم کے لہجے کی اپنائیت اور مجموعی تجربے کا آہنگ اس خطاب کہ ’خطابت‘ کا عیب اور عامیانہ پن سے بہ ہر حال محفوظ رکھتا ہے۔ یہ مصرعے دیکھیے :
ہمدمو!
ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
کوئے دلدار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو
یہ ایک محبت بھری دعوت، ایک سرگوشی کا آہنگ ہے۔ یہاں مجھے مخدوم کی ایک اور نظم کا خیال آتا ہے ’’اندھیرا‘‘۔۔۔۔۔۔ جس کی لفظی کائنات، لہجہ، اسلوب اور ترکیبی عناصر میں کچھ فرق ہے، پھر بھی حسیت کی سطح پر مخدوم کے امتیازی اوصاف کی نشان دہی اس نظم سے بھی ہوتی ہے۔ اس نظم کے جمالیاتی نظام کو ایک دہشت خیز حسن یا A Terrible Beauty کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ایک تیرہ و تار شدت پسندی، کھردرے، کراہت آمیز اور ہولناک لفظوں اور لسانی سانچوں نے اس نظم کو ’’چاند تاروں کا بن‘‘ کے مقابلے میں ایک الگ اور مختلف تخلیقی ذائقے کا حامل بنا دیا ہے لیکن نظم کے مجموعی آہنگ میں ذرا بھی ابتری یا انتشار کا نشان نہیں ملتا۔ اس نظم میں مخدوم نے محرک تجربے کے ارتقائی مدارج اس خوب صورتی کے ساتھ طے کیے ہیں کہ ایک مصرعہ بھی زائد یا غیر ضروری نہیں معلوم ہوتا۔ نظم اس طرح ہے :
رات کے ہاتھ میں اک کاسۂ دریوزہ گری
یہ چمکتے ہوئے تارے، یہ دمکتا ہوا چاند
بھیک کے نور میں، مانگے کے اجالے میں مگن
یہی ملبوس عروسی ہے، یہی ان کا کفن
اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ
وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ
وہ تہذیب کے زخم
خندقیں،
باڑھ کے تار
باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم
اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ
وہ تڑختے ہوئے سر
میتیں ہاتھ کٹی، پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے پار تلک
سرد ہوا
نوحہ و نالہ و فریاد کناں
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا
کبھی بچوں کی، کبھی ماؤں کی
چاند کے، تاروں کے ماتم کی صدا
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشیدِ درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
یہاں پوری نظم نقل کرنی پڑی۔ اس کی ہیئت اتنی مربوط و منظم اور بنت ایسی گتھی ہوئی ہے کہ تجربے کو اظہار سے، لفظ کو لفظ سے اور کسی مصرعے کو نظم سے الگ کرتا گویا کہ گوشت کو ناخن سے جدا کرنے کے مترادف ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ مخدوم کی حسیت پر یہ نظم ایک ساتھ تمام و کمال وارد ہوئی تھی۔ یہ نظم تعمیر کی ہوئی یا رچنا نہیں ہے بلکہ ایک تخلیق ہے جو مخدوم کی حسیت کی تہہ سے نمودار ہوئی ہے۔ ہر بڑا تخلیقی تجربے پہلے شاعر کے باطن میں جنم لیتا ہے، پھر اچھی طرح پک پکا کر اپنے آپ کو ایک کشف کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔
مخدوم مہیب انسانی مسائل اور گہرے تجربوں کے شاعر تھے۔ ترقی پسند تحریک کا ظہور انسانی روح کے عظیم مطالبات اور سوالوں کی زمین سے ہوا تھا اور یہ پر جلال سچائی اپنے ترجمانوں سے اس امر کی طالب تھی، کہ ان سوالوں کو اسی عمیق اور شائستہ متانت کے ساتھ تخلیقی تجربے کا حصہ بنایا جائے جو شاعر کے سروکاروں سے مناسبت رکھتی ہو۔ مخدوم نے ایک بے لوث اور سچی اور ثروت مند ذہنی زندگی گزاری۔ ان کے تجربے اور تصورات مستعار یا مروجہ فیشن کی دین نہیں تھے۔ اسی لیے ان کی آواز میں، ان کی روح کے نغمہ و رقص کی جھنکار بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ جو والہانہ پن مخدوم کے پر نور لہجے میں تھا، وہ دراصل ان کی متین اور مقصد آگاہ زندگی اور ایک کھرے انسانی وجود کی گواہی دیتا ہے۔ بالعموم بے معنی زندگی سے بامعنی تجربے نہیں پیدا ہوتے۔
٭٭٭
پروفیسر سیدہ جعفر
عصری حسیت اور شعری صناعی کا شاعر
بیسویں صدی کے نصف آخر میں حیدرآباد کے جن تخلیق کاروں نے اردو شاعری کی سمت و رفتار متعین کی ان میں سکندر علی وجد، شاہد صدیقی، سلیمان اریب اور مخدوم محی الدین کے نام نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ مخدوم نے محنت اور محبت کے شاعر کی حیثیت سے اپنے فن کو نئی آب و تاب، نئی معنویت اور نئی جہت عطا کی۔ تخلیقی انفرادیت اور لب و لہجے کا شخصی آہنگ شاعری میں مخدوم کی شناخت بن چکا ہے۔
کروچے نے جمالیات کے سلسلے میں نظریۂ اظہاریت سے بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حسن یا فن دراصل فرد کا اظہار ہے فن کار اپنی شخصیت کے اظہارات کے تجسیم خواہ عنوان کے وسیلے سے کرے یا اصوات کی صورت میں اس کا مقصد اپنے وجدان کو دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے اور خارجی تمثیلات میں فن کار کی ذات کی جلوہ گری اور اس کی شخصیت کی مہک موجود ہوتی ہے۔ تجسیم و تشکیل کا یہ عمل محض اتفاقی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بہت سے محرکات کام کرتے رہتے ہیں۔ تخلیق کے پیچیدہ عمل میں مختلف تاثرات فن کار کی انا کو مہمیز کرتے رہتے ہیں اور چوں کہ ہر شخصیت ایک علاحدہ نفسیاتی اکائی ہوتی ہے اس لیے اظہار کے پیکروں میں تنوع اور بوقلمونی پیدا ہو جاتی ہے اور اس سے فن کار کی انفرادیت کا تعین ہو سکتا ہے۔ مخدوم کی شاعری اپنے انفرادی رنگ و آہنگ کی وجہ سے اردو نظم نگاری میں ایک مخصوص آہنگ کی حامل ہے۔
۱۹۳۵ء کی ترقی پسند تحریک کے ساتھ جن شاعروں نے اپنے فن کو وابستہ کیا تھا ان میں سے بعض شاعروں نے اس لیے ہمارے ذہن پر ان مٹ نقش نہیں چھوڑا کہ وہ ادب اور نعرے بازی میں حد فاصل قائم کرنے میں ناکام رہے تھے۔ حقیقی فن کار کی نظر ہر وقت وقتی سوال میں ایک ابدی جواب کی جھلک دیکھتی اور دکھا سکتی ہے۔ مخدوم عصری مسائل کی روح کو سدا بہار ابدیت کے آئینے میں جلوہ گر دیکھتے ہیں، اس لیے ان کی شاعری اپنی ساری مقصدیت، اجتماعیت اور سماجی حقیقت پسندی کے باوجود اپنے اندر ایک ایسی کسک رکھتی ہے جو ہر دور میں محسوس کی جائے گی۔ مخدوم کی رومانی شاعری کے پیچھے جو سماجی احساس کارفرما ہے وہ بڑا ہی متحرک اور فعال ہے اور اسی فعالیت نے مخدوم کی رومانی شاعری کو بے جان تخیل پرستی اور خواب ناکی نہیں، ایک بے داری بخشی ہے اس لیے ان کے کلام میں زندگی کے حسن اور اس کی بد ہیئتی اور حیات کے جلال و جمال دونوں کا احساس موجود ہے :
زندگی، لطف بھی ہے زندگی آزاد بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرت دیدار بھی ہے
زہر بھی آبِ حیات لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے
مخدوم کی شاعری میں بعض ارتقائی منزلیں نظر آتی ہیں اور ارتقا کا یہ عمل شعور کی پختگی اور ادراک کی تیزی کا آئینہ دار ہے۔ اس زمانے میں بھی جب وہ ’’تلنگن‘‘، ’’طور‘‘ اور ’’ساگر کے کنارے ‘‘ جیسی ہلکی پھلکی رومانی نظموں کی تخلیق کر رہے تھے ان کی انفرادیت مروجہ، فنی اقدار سے سمجھوتہ کر لینے کے باوجود نئی راہوں کا پتہ دے رہی تھی۔ ٹیگور نے اپنے کلام میں کائنات اور انسان کے باہمی ربط اور فطرت کے سربستہ رازوں کو وجدان کی رہنمائی میں سمجھنے کی کوشش کی تھی اور اس سے ہندستان کی مختلف زبانوں کے فن کار متاثر ہوئے تھے۔ مخدوم کا بھی اس سے اثرپذیر ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں تھی۔ ٹیگور سے اثر پذیری نے ان کی محاکات نگاری، علائم اور ان کی امیجری کو ایک خاص زاویے سے متاثر کیا تھا۔ مخدوم نے مظاہر قدرت اور مناظر فطرت سے پس منظر کا کام لے کرا پنی رومانی نظموں کو ایک خاص معنویت اور ایمائیت عطا کی ہے۔ یہ سبک، رسیلی اور ترنم ریز نظمیں ایک ایسی رومانیت سے سرشار ہیں جن میں مادی پس منظر اور ارضی زندگی کے جیتے جاگتے حقائق کا احساس موجود ہے۔ ارضیت کا یہ عنصر مخدوم کی اس ابتدائی شاعری کو جو بہ ظاہر محض حسن کے نغموں کی شاعری ہے، واقعیت عطا کرتا ہے۔ ان نظموں میں بار بار اس کا احساس ہوتا ہے کہ شاعر نئی بات کہنے کے ’’درپے ‘‘ نہیں بلکہ اس کی انفرادیت ایک نئے لب و لہجے کی تشکیل پر اکسا رہی ہے۔ مخدوم کی عصری حسیت نے ان کی رومانیت کو گہرائی اور وسعت عطا کی ہے۔ ’’اوس میں بھیگتے ‘‘ اور ’’چاندنی میں نہاتے ہوئے ‘‘، ’’دو بدن‘‘ اس لیے ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں کہ ’’پیار حرف وفا‘‘ ہے۔ مخدوم محبت کی زندگی کی ایک بلیغ علامت کے روپ میں تہذیبی رشتوں اور سماجی بنیادوں کے چوکھٹے میں دیکھتے ہیں اس لیے ان کی رومانی نظموں کی تان اس تصور پر ٹوٹتی ہے :
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے
کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے
شعرائے حیدرآباد تک آزادی اور انقلاب کی وہ روشنی پہنچ رہی تھی جس کا سلسلہ ۱۸۵۷ء کی جدوجہد سے ہوتا ہوا تلنگانہ تحریک تک پہنچتا تھا۔ یہاں تک کہ آصف جاہی سلسلے میں درویش شاہ نظام الدین کی عطا کی ہوئی ساتویں روٹی بھی معدوم ہونے لگی۔ حیدرآباد کے حساس اور با شعور فن کار اس فضا میں گھٹن محسوس کر رہے تھے۔ انھیں نئے انقلابی تصورات کے متلاطم سمندر میں شخصی حکومت کا سفینہ غرق ہوتا نظر آ رہا تھا مخدوم نے کہا تھا:
لرز لرز کے گرے سقف و بام زر داری
ہے پاش پاش نظام ہلاکو و زاری
پڑی ہے فرق مبارک پہ ضربت کاری
حضور آصفِ سابع پہ ہے غشی طاری
مخدوم کا سماجی عقیدہ یہ تھا کہ ’’وہ جنگ ہی کیا وہ امن ہی کیا دشمن جس میں تاراج نہ ہو اس لیے اپنی ایک نظم ’’موت کا گیت‘‘ میں وہ کہتے ہیں
پھونک دو قصر کو گر کن کا تماشا ہے یہی
زندگی چھین لو دنیا سے جو دنیا ہے یہی
بجلیو آؤ گرج دار گھٹاؤ آؤ
آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ
آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کر ڈالیں
کاسۂ دہر کو معمورِ کرم کر ڈالیں
سامراجیت کے خلاف عمل جدوجہد اور اشتراکی مقصد کے حصول کے لیے تخریبی رویے کی پذیرائی کی جھلک اس دور کے ادب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ محنت و محبت کے شاعر مخدوم کی نظم ’’کہو ہندوستاں کی جئے ‘‘ پرستاران وطن کا نعرہ بن گئی تھی۔ یہ پوری نظم برطانوی سامراج سے ٹکر لینے اور ’’کنجشک فرومایہ‘‘ کو ’’شاہین‘‘ سے لڑا دینے کے آہنی عزم و اعتماد کی غماز ہے۔ ۱۹۴۶ء کے بعد کا زمانہ ریاستِ حیدرآباد میں مزدور تحریک کے عروج کا دور ہے۔ تلنگانہ میں کسان تحریک کا آغاز، قول داروں کی بے دخلی اور زمینات پر قبضوں کے رد عمل کے طور پر ہوا تھا۔ حکومتِ حیدرآباد نے اکتوبر ۱۹۴۶ء میں اس تحریک کے دور رس نتائج کے پیش نظر اشتراکی طرزِ فکر اور حریت دوستی کے اظہار پر پابندی عائد کر دی تھی۔ چناں چہ مخدوم روپوش ہو گئے۔ نظام کے ممالک محروسہ کا ایک چھوٹا سا گاؤں پرٹیلا تھا یہاں روپوش حریت پسندوں نے قبضہ کر لیا اور بہ قول راج بہادر گوڑ مخدوم محی الدین کے ہاتھوں ’’جمہوریہ پرٹیلا‘‘ کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس سیاسی تناظر کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ اسی فضا میں تحریکِ آزادی کی شمعیں فروزاں رہیں۔ کرشن چندر نے اپنی کتاب ’’جب کھیت جاگے ‘‘ میں اس تلنگانہ تحریک کے پس منظر کو اجاگر کیا ہے۔ مخدوم اپنی نظم ’’بھاگ متی‘‘ میں دکن کو انقلاب کی سرزمین سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
دشت کی رات میں بارات یہیں سے نکلی
رات کی، رنگ کی برسات یہیں سے نکلی
انقلابات کی ہر بات یہیں سے نکلی
گنگناتی ہوئی ہر رات یہیں سے نکلی
اس وقت تلنگانہ انقلابی سرگرمیوں کا ایک زبردست محاذ بن گیا تھا اور پورے ہندستان کے حریت پسندوں کے لیے مینارِ نور بنا ہوا تھا۔ جنوب سے طلوع ہونے والے اس سورج کی کرنیں ہندستان کے مختلف حصوں تک پہنچ رہی تھیں اس لیے مخدوم نے تلنگانہ کو ’’امام تشنہ لباں ‘‘ اندھیری رات کے سینے میں ’’مشعلوں کی برات‘‘، ’’مہر بغاوت‘‘ اور ’’ماہِ نجات‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
’’سرخ سویرا‘‘ کے بعد شاعری کے لہجے، مزاج اور آہنگ کا تفاوت مخدوم کے الفاظ میں ایک نیا پن ہے جو عمر، تجربہ اور خود عہد حاضر کی نوعیت کے اپنے ما سبق سے مختلف ہونے کا نتیجہ ہے۔ عملی سیاست سے مخدوم کی سرگرم وابستگی سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ زندگی کا مطالعہ محض سیاسی نقطۂ نظر سے کر سکتے ہیں، درست نہیں۔ مخدوم کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان کی شاعری میں خاصا توازن اور سنبھلی ہوئی کیفیت ملتی ہے۔ مخدوم کی شاعری میں ایک منزل اس وقت آتی ہے جب بہ قول اسٹیفن اسپنڈر انقلابی غور و فکر کے نتیجے کے طور پر سماج کی نئی طاقتیں اپنے آبا و اجداد کے پرانے مکانوں کو ڈھا کر باہر نکلنے کی ترغیب دے رہی تھیں۔ اس وقت ہندستان ہی نہیں ساری دنیا کی فضا میں ہر طرف بارود کی بو آ رہی تھی اور جنگ کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس وقت کے عالمی ادب میں ذہنی کرب، انتشار، اداسی اور خوف و ہراس کا احساس ملتا ہے۔ آڈن کی ’’ایج آف انگزائٹی‘‘ (Age of Anxiety)، ’’میل ڈی لیوس‘‘ کی پُر اثر نظموں، ہیمنگ وے اور اردون شا کی تخلیقات میں خلفشار اور بے چینی کا بیکراں احساس ملتا ہے۔ مخدوم نے نا آسودگی، تشکیک اور عالمی کساد بازاری کے اس پُر آزمائش دور میں انسانیت کے لیے خطرہ ضرور محسوس کیا لیکن بہتر ہیئت اجتماعی کی تمنا نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ’’حویلی‘‘، ’’جہانِ نو‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’ستارے ‘‘ اور ’’سپاہی‘‘ میں ایک ایسی رجائیت ہے جو مستقبل کے یقین اور کامیاب مقصد حیات سے وابستگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آئے گا
رات ٹوٹے گی ستاروں کا پیام آئے گا
اس زمینِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا
اک نئی دنیا نیا آدم بنایا جائے گا
مخدوم کی شاعری میں ایک مخصوص نقطۂ نظر سے والہانہ وابستگی کا جذبہ، محبوب کے پیکر میں ڈھل گیا ہے اور ان کی انسان دوستی کو غم دوراں نے غم جاناں بنا دیا ہے۔ خارجی زندگی کا یہ مظہر داخلی دنیا کا جز بن کر ان کی پوری شاعری پر چھا گیا ہے :
آج تو تلخی دوراں بھی بہت ہلکی ہے
گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں
اے جانِ نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجوم شوق سرِ رہ گزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے
دار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے
کسی خیال کی خوش بو کسی بدن کی مہلک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے
’’یارِ مسیحا نفس‘‘، ’’ساقی گل رو‘‘، ’’ہم سفر بہار‘‘، ’’زلف چلیپا‘‘، ’’مرا ثبات مری کائنات میری حیات‘‘ اور ’’یار غم گسار‘‘ اظہار کے ایسے بھرپور پیکر ہیں کہ ’’انداز قد‘‘ کی پہچان مشکل معلوم ہوتی ہے۔ مخدوم نے ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۱ء تک سوائے ’’تلنگانہ‘‘ کے کوئی اور نظم تخلیق نہیں کی۔ اس زمانے میں وہ ’’دیارِ ہند کی محبوب ارض چین‘‘ میں ’’تلنگانہ جدوجہد‘‘ سے عملی طور پر وابستہ تھے۔ تاریخ اور سیاست کے اس اہم موڑ پر ’’مخدوم‘‘، ’’خاموش تماشائی‘‘ نہیں بن سکتے تھے وہ مشاہدے کو مجاہدے کی منزل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ بعد کے دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخدوم سماجی اور سیاسی زندگی کے تجربے کو شعری تجربے سے ہم آہنگ بنانے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے ہیں چناں چہ ان کی نظم ’’تلنگانہ‘‘ میں خلوص اور جذبے کی شدت کا اظہار ایک پُر اثر شعری تجربہ بن کر ہمارے سامنے آتا ہے :
امامِ تشنہ لباں ، خضرِ راہِ آبِ حیات
اندھیری رات کے سینے میں مشعلوں کی برات
مرا شباب مری کائنات میری حیات
سلام مہر بغاوت سلام ماہِ نجات
مارچ ۱۹۵۱ء میں مخدوم گرفتار ہوئے اور انھیں سنٹرل جیل، حیدرآباد بھیج دیا گیا۔ جیل کی تنہائی میں جدوجہد کی بے اثری کے غم، عوام سے دوری کے احساس اور ’’زندگانی کی اک ایک بات کی یاد‘‘ ان سب عوامل نے مل کر شعری تخلیق کو اکسایا اور شعری تاثرات کی باز تعمیر کی جس کے نتیجے میں اردو شاعری کو ’’قید‘‘ جیسی خوب صورت نظم ملی۔ قید کئی اعتبارات سے مخدوم کی شاہ کار نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس نظم میں خیال کی رفتار جذبات کی نرم روی سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ رابن اسکالٹن اپنی کتاب ’’دی پوئٹک پیٹرن‘‘ (The Poetic Pattern) میں کہتا ہے کہ اچھی نظم میں ڈرامائی کیفیت کے ساتھ ساتھ معنوی ارتقا اور آواز کا زیر و بم بھی ضروری ہے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے مخدوم کی یہ نظم ایک مکمل شعری اکائی کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ اشاراتی نظم مخدوم کی فن کارانہ صلاحیتوں کا ایک کامیاب اظہار ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے بھی ’’قید‘‘ مخدوم کی آزاد نظموں میں ایک منفرد آواز محسوس ہوتی ہے۔ خیال کے آغاز، پھیلاؤ اور نقطۂ اختتام کو شاعر نے جمالیاتی تاثر کے سہارے پروان چڑھایا ہے۔ مخدوم کی آواز میں ایک گمبھیر کیفیت کا احساس ہوتا ہے اور وہ معروضی ربط باہم جسے ٹی۔ایس۔الیٹ نے ’’Objective Correlation‘‘ سے تعبیر کیا ہے پوری طرح شاعر کی گرفت میں محسوس ہوتا ہے نظم ’’قید‘ کا یہ حصہ جو مخدوم کی شعری صناعی کا ایک اچھا نمونہ ہے ملاحظہ ہو:
رات ہے رات کی تاریکی ہے تنہائی ہے
دور محبس کی فصیلوں سے بہت دور کہیں
سینۂ شہر کی گہرائی سے گھنٹوں کی صدا آتی ہے
چونک جاتا ہے دماغ
جھلملا جاتی ہے انفاس کی رو
جاگ اٹھتی ہے مری شمعِ شبستانِ حیات
زندگانی کی اک اک بات کی یاد آتی ہے
مخدوم کی شاعری میں حسیاتی محاکات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کے یہاں پیکر تراشی یا امیجری زیادہ تر سماعی ہے لیکن مخدوم کے شاہ کار امیجز وہ ہیں جو سماعی اور بصری ادراک کا حسین امتزاج نظر آتے ہیں ان امیجز کی خوبی یہ ہے کہ جذبے اور الفاظ کے ترنم میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور یہ ہم آہنگی شعر کی معنویت میں اضافہ کرتی ہے۔ مخدوم کی ایک کامیاب نظم ’’چاند ستاروں کا بن‘‘ جو اردو نظم نگاری کی تاریخ میں ایک خوب صورت اضافہ ہے ہماری نسل کی پچھلی بیس پچیس سال کی ذہنی اور جذباتی کشمکش، سیاسی جدوجہد، ہمارے سنہرے خوابوں اور ان کی بھیانک تعبیروں اور ہماری اجتماعی تمناؤں کی ایک مکمل اور جذباتی تصویر ہے جس میں حقیقت کا احساس بھی ہے اور جمالیاتی رچاؤ بھی۔ آزادی کے بعد اس موضوع پر لکھی ہوئی اور بہت سی نظمیں مل جاتی ہیں لیکن مخدوم کے ایمائی انداز ان کی ’’انقلابی رمزیت‘‘ اور فن کارانہ بصیرت نے اس نظم کو ایک حسین اور وقیع تخلیق بنا دیا ہے۔ ہر نظم اپنے طور پر ایک مکمل شعری وحدت ہوتی ہے جس میں فنی تقاضوں کے احساس کے علاوہ لفظوں کے مزاج کی پرکھ اور اظہار کے آہنگ کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں ۱۹۳۶ء کے بعد سے علامات و اشارات کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ اس عہد کی نظم نگاری میں اٹلی کے فیوچرازم کے رجحان، بلجیم کے مصوروں کی پوسٹ امپریشنسٹ تحریک (Post Impressionist Movement) اور فرانسیسی تمثیل نگاروں کی سمبالزم (Symbolism) کی تحریک کے اثرات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان تحریکوں میں انداز نظر کے تفاوت کے باوجود ایک مشترکہ عنصر ’’اشاراتی انداز‘‘ کاہے۔ اس اشاراتی انداز کو مخدوم نے ’’چاند تاروں کا بن‘‘ میں سلیقے اور دیدہ وری کے ساتھ برتا ہے۔ طویل نظموں کی ایک دشواری یہ بھی ہے کہ ایک خاص موڑ اور لب و لہجے کو بہت دیر اور بہت دور تک بنانا پڑتا ہے اور جذباتی کشاکش اور تناؤ کو ایک خاص سطح اور درجے پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مخدوم کی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ اس لیے بھی صناعی کا ایک اچھا نمونہ بن گئی ہے کہ اس میں فن کا احترام ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس نظم میں ہماری قومی زندگی کے تین لمحات ماضی، حال اور مستقبل کو ایک صداقت کے تین پہلوؤں کی طرح برتا گیا ہے۔ نظم کا پہلا حصہ نہ صرف ہندستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہر اس قوم کی داستان معلوم ہوتا ہے جو جدوجہد اور کشمکش کے ذریعے سے اپنے نصب العین تک پہنچی ہے۔ شاعری میں آپ بیتی اور جگ بیتی اور خصوص و عموم کے درمیان نقطۂ اتصال کے تلاش کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں :
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
مخدوم نے اپنی نظموں میں قومیت کے تصور کو بین الاقوامی وسعت سے آشنا کیا ہے۔ یہاں تاریخی رفتار اور آفاقیت کا اظہار ایک وحدت کی شکل میں ہوا ہے۔ مخدوم کی انسان دوستی ابتدا ہی سے قومیت کی تحدیدوں کو توڑ دینا چاہتی تھی کیوں کہ جغرافیائی حد بندیوں سے قطع نظر ساری دنیا میں انسان کے بنیادی مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ ’’چاند تاروں کا بن‘‘ میں آفاقیت کے عناصر جاری و ساری ہیں۔ اس نظم میں آگے چل کر شاعر خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ یہ بھی تاریخ کا ایک جبر تھا کہ ’’پیار کی منزلیں ‘‘، ’’دار کی منزلیں ‘‘ بن گئیں اور وہ سویرا جس کا انتظار تھا ’’شب گزیدہ‘‘ ثابت ہوا:
کچھ امامان صد مکر و فن
ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی
ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں
اک کمیں گاہ سے
پھینک کر اپنی نوک زباں
خونِ نور سحر پی گئے
نظم نگاری اظہارِ خیال کا ایک مخصوص فن ہے جس کی تشکیل اور ترتیب میں کئی ابعاد کا یک جا ہونا ضروری ہے۔ ان کے ناقص تناسب یا غلط ترتیب سے تخلیق اپنے ادبی حسن سے محروم ہو جاتی ہے۔ مخدوم کی شاعری جدید و قدیم ادب کی صالح اور صحت مند روایات کی پذیرائی کا بہترین نمونہ ہے۔ انھوں نے شاعری کے روایتی اظہارات کو بڑے سلیقے کے ساتھ نئے اندازِ فکر اور جدید طرز ترسیل کے لیے استعمال کیا ہے۔ مخدوم کی ترقی پسند شاعری کا خمیر اردو شاعری کی بہترین روایات سے اٹھا ہے اس لیے طرز ادا کی تعمیر و تشکیل اور صورت گری میں یہ دونوں عناصر کارفرما نظر آتے ہیں ’’گلوئے زہرہ‘‘، ’’خضر راہ آبِ حیات‘‘، ’’امامان تشنہ لباں ‘‘ اور ’’ادائے زلیخائی‘‘ جیسے ابلاغ کے پیکر محض شعر کی سجاوٹ کے لیے نہیں لائے گئے ہیں۔ وہ قدیم ادب پاروں کے بلیغ اشارات سے ایک خاص فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مخدوم کی شاعری اپنے ادبی خلوص، اظہار پر قدرت اور موضوع و طرزِ ادا کی صوتی ہم آہنگی کی وجہ سے بھی ایک منفرد آواز معلوم ہوتی ہے۔
٭٭٭
شارب ردولوی
مخدوم کی نظموں کا آہنگ
مخدوم نے صرف ۲۱ یا ۲۲ غزلیں کہی ہیں لیکن ان کی پوری بساطِ شاعری پر غزل کا لب و لہجہ اور غزل کی جمالیات کا اثر نمایاں ہے۔ میری رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میری نگاہ میں ان کی شاعری میں تغزل کی فراوانی سے ان کے ادبی و شعری مرتبے میں کوئی کمی نہیں آتی، بلکہ سیاسی اثرات اور انقلاب کی بلند آہنگی کے اس عہد میں یہ مخدوم کی خصوصیت انفرادیت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں میں، سرخ پرچم، مزدور، تلنگانہ، بنگال، نئی صبح، آزادی یا انقلاب کی آواز بلند نہ کی ہو۔ ان کے یہاں بھی واضح الفاظ میں بعض نظموں میں اس کا ذکر ہے اور زیریں لہر کی شکل میں تو بیش تر نظموں بلکہ پوری شاعری میں انہی خیالات کی کارفرمائی ملے گی۔ ان کے سیاسی کمٹ منٹ، ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ پارٹی سے ان کے تعلق اور تحریکِ آزادی کے ایک فعال رکن ہونے کی وجہ سے ان کے کلام میں بلند آہنگی کا پایا جانا ایک فطری بات ہے لیکن توجہ کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ان کی بیش تر نظموں میں کی شناخت ان کا جمالیاتی کیف اور احساسِ جمال ہے۔
مخدوم کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی رومانی اور انقلابی شاعری۔ یہ تقسیم اس عہد کے بیش تر شعرا کے کلام میں نظر آئے گی۔ وہ عہد ہی دو طرح کے افکار کا سنگم تھا۔ ایک طرف عاشقانہ شاعری تھی جس کی ایک بڑی اور توانا روایت تھی، اس میں سطحی عاشقانہ جذبات کا اظہار بھی تھا اور فکری گہرائی بھی تھی، جس کا ایک سرا تصوف اور فلسفے سے جاملتا ہے۔ دوسری طرف سیاسی و تاریخی اثرات اپنی جگہ بنا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ بدلتے ہوئے حالات، سرمایہ داری کی لائی ہوئی لعنتیں، غلامی، غربت، افلاس، قحط، جنگِ عظیم کے رد عمل سے ایک احساس اور بیدار ذہن کیوں کر بے نیاز رہ سکتا تھا۔ اس لیے شاعری میں انحراف اور بغاوت کی آواز پیدا ہو رہی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے اثرات اور مقبولیت نے اس کی رفتار کو کچھ اور تیز کر دیا تھا۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی تحریکِ آزادی میں عملی شمولیت اور سماجی برابری کے خوش آئند تصور نے ایسے بے شمار نئے موضوعات شعرا کو فراہم کر دیے تھے جن سے اس سے پہلے کان ناآشنا تھے۔ وہ شعرا جن کی شاعری کی ابتدا جمال یار کے قصیدوں سے ہوئی تھی۔ وہ بھی گیسوئے زمانہ کے اسیر نظر آنے لگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے ہر انقلابی شاعر کے یہاں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں محبوب کے حسن اور اس کے زلف و عارض کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کیا گیا ہے اور ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں انقلاب اور بغاوت کی بات بھی اسی شدت جذبات کے ساتھ کی گئی ہے۔ حالاں کہ ایک تبدیلی ان عاشقانہ نظمیوں میں بھی نظر آئے گی۔ ایک زمانے تک محبوب کا تصور ماورائی تھا۔ لیکن ادنیٰ یا کمتر چیزوں میں بھی حسن کی کارفرمائی ہو سکتی ہے، عام طور پر نگاہیں اس حسن کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتی تھیں۔ اس تحریک نے محبوب کا تصور بدل دیا۔ اب محنت کش عوام، سڑک پر پتھر توڑنے والی مزدور عورت یا تلنگن بھی نظموں کا موضوع بن گئی اس لیے ایک ایسے عہد میں ان دونوں رویوں میں کسی کو ارفع قرار دینا یا رومانیت کی اصطلاح کو الزام کی شکل میں استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ شاید ذہنوں میں یہ بات نہیں رہتی کہ رومانیت خود بغاوت کا نام ہے اور یہ اصطلاح اپنی ابتدا میں انحراف اور بغاوت کے لیے ہی استعمال کی گئی تھی جو صرف عاشقانہ شاعری تک محدود ہو گئی۔
مخدوم کا پہلا مجموعۂ کلام ’’سرخ سویرا‘‘ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا۔ جب آزادی ملک کی تحریک اپنے خواب کی تعبیر کے قریب ہونے کے باوجود غیر واضح خدشات کا شکار تھی۔ کمیونسٹ پارٹی اسے دوسرے زاویۂ نظر سے دیکھ رہی تھی۔ کانگریس کا زاویۂ نظر کچھ اور تھا، مسلم لیگ کچھ اور چاہتی تھی۔ اس سیاسی شوریدگی کے عالم میں کوئی بھی شخص حالات سے الگ کیوں کر رہ سکتا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی سرخ پرچم کے تلے ایک نئی صبح کے انتظار میں تھی۔ مخدوم اور ان جیسے بیش تر ادیب و شاعر اور ان سے وابستہ نوجوانوں کو یقین تھا کہ سرخ انقلاب بس ایک رات کے فاصلے پر ہے، آنے والی صبح دکھوں کا مداوا لے کر نمودار ہونے والی ہے۔ کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ سیاہ رات اردو شاعری کے عاشق کی شب ہجر ہے جس کی صبح کبھی نہیں ہوتی۔ مخدوم کی ’’سرخ سویرا‘‘ کی شاعری ایک ایسے نوجوان دل کی پکار ہے جس کے دل میں صرف تلنگن ہی کی محبت نہیں، تلنگانہ کی محبت بھی ہے اور ملک کی محبت بھی۔ بنگال میں بھوک بلکتے مردوں، عورتوں کی بھی محبت ہے جو اس غربت، افلاس اور بھوک کا علاج ملک کی آزادی اور سوشلسٹ نظام میں دیکھتا ہے۔ اس لیے یہ تمام نظمیں انہی جذبات سے لبریز ہیں۔ ’’سرخ سویرا‘‘ کی نظموں میں ایک کمزوری بھی ہے۔ اس میں شامل ۵۱ نظموں میں کئی ایسی نظمیں ہیں جن میں فکری و فنی پختگی کی کمی ہے۔ ان نظموں میں ان کے کہے جانے کے زمانے کی نشاندہی ہوتی تو ان کی بالکل ابتدائی نظموں کا تجزیہ آسان ہو جاتا۔ مجموعے کی ترتیب میں سنہ تخلیق درج نہ ہونے کی وجہ سے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن جس بات کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ ان کی شعری جمالیات ہے یعنی ان کی چند نظموں کو چھوڑ کر ان کی بیشتر نظمیں خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ان کا لہجہ اور لفظیات نرم سبک اور شاعرانہ ہے۔ ’’سرخ سویرا‘‘ کی چوتھی نظم ایک سیاسی نظم ہے جس کا عنوان ’’باغی‘‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مجموعے کی تمام نظمیں آزادی سے پہلے کی ہیں۔ جس وقت تحریک آزادی اپنے عروج پر تھی اور ہر محب وطن کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا اور وہ بغاوت تھا۔ سرمایہ داری، غلامی اور افلاس کے خلاف بغاوت۔ اس لیے مخدوم کے یہاں بھی یہ آواز زیادہ بلند سنائی دیتی ہے جس کا سبب جوش کی باغیانہ گھن گرج بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت ان کی آواز میں آواز ملانے کی ہر شخص کوشش کر رہا تھا۔ دوسرا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب جنگ سر پر ہو، دہانِ توپ بربادیوں کے راگ الاپ رہی ہو اور باغ جہاں میں دوزخ کی آگ پھیل گئی ہو، خاموش رہنا یا احتجاج کی آواز بلند کرنا بھی ایک جرم ہے۔
میر سے منسوب ایک مصرع ہے معلوم نہیں کس شاعر کاہے :
شاعر ہو مت چپکے رہو چپ میں جانیں جاتی ہیں
پھر مخدوم انسان کے خون کی ارزانی دیکھ کر کس طرح خاموش رہ سکتے تھے :
بربط نوازِ بزم الوہی ادھر تو آ
دعوت دہِ پیامِ عبودی ادھر تو آ
انسانیت کے خون کی ارزانیاں تو دیکھ
اس آسمان والے کی بیدادیاں تو دیکھ
خود اپنی زندگی پہ پشیماں ہے زندگی
قربان گاہ موت پہ رقصاں ہے زندگی
انسان رہ سکے کوئی ایسا جہاں بھی ہے
اس فتنہ زا زمیں کا کوئی پاسباں بھی ہے
(جنگ)
ابتدا میں انقلاب کا تصور بہت واضح نہیں تھا۔ شاعر سیاست میں آنے کے باوجود سیاسی کم اور شاعر زیادہ تھا اس لیے کہ اس کا ذریعۂ اظہار شاعری تھا۔ وہ اسی کے ذریعے اپنے غصے، غم اور نفرت کا اظہار کرتا تھا۔ اس جوش میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض نظموں میں انقلاب کے ڈانڈے دہشت پسندی سے جا ملتے ہیں اور شاعر غلامی اور سرمایہ داری کی ایک لعنت سے آزاد ہونے کے لیے ہر چیز کو پھونک دینے اور تباہ کر دینے کے در پے نظر آنے لگا، جب کہ انقلاب کا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ ہر چیز تباہ ہو جائے ورنہ انقلاب کا خواب راکھ کے ڈھیر پر بیٹھنے کی تمنا تو نہیں تھی۔ یہ کمزوری کسی نہ کسی حد تک بیشتر شاعروں کے اس عہد کے کلام میں نظر آتی ہے۔ اس سے مخدوم بھی مبرا نہیں ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں :
آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی آگ ہوں
آگ ہوں آگ بس اب آگ لگانے دے مجھے
(باغی)
پھونک دو قصر کو گر کُن کا تماشا ہے یہی
زلزلو آؤ دہکتے ہوئے لاؤ آؤ
بجلیو آؤ گرج دار گھٹاؤ آؤ
آؤ یہ کرہ ناپاک بھسم کر ڈالیں
آندھیو آؤ جہنم کی ہواؤ آؤ
کاسۂ دہر کو معمور کرم کر ڈالیں
(موت کا گیت)
لیکن مخدوم کے یہاں ایسی صرف چند مثالیں ہیں جن میں انھوں نے آگ لگانے یا کرۂ ناپاک کوبھسم کر دینے کی بات کی ہو۔ ’سرخ پرچم‘ کا ذکر دو تین نظموں میں ضرور آیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ان کی شروع کی نظمیں ہیں۔ جن میں ان کا تصورِ انقلاب بھی خام ہے اور نظمیں بھی جمالیاتی اعتبار سے اہم نہیں ہیں۔ مخدوم کے یہاں جلدی ہی تبدیلی آئی۔ ان نظموں کے بعد ان کی جو بھی نظمیں ملتی ہیں ان میں انقلاب کا تصور بھی تبدیل ہوا ہے اور فکری و فنی طور پر بھی وہ نظمیں بہتر ہیں۔
مخدوم ان شاعروں میں ہیں جنھوں نے بہت جلد اس بات کو محسوس کر لیا کہ شاعری صرف نعرۂ انقلاب نہیں ہے اسی لیے ان کی بعد کی نظموں میں تبدیلی کی خواہش آزادی اور دکھ درد کے مداوے کی بات تو ملتی ہے لیکن اس میں ان کا انداز سنبھالا ہوا، رجائی اور شاعرانہ ہے۔ اسی لیے مخدوم کی سیاسی شاعری میں بھی شعری حسن، نغمگی اور اثر انگیزی ہے۔
مخدوم کی شاعری میں اظہار و بیان میں دل کشی، خوب صورت تراکیب اور دل کش آہنگ پر بہت زور ملتا ہے، دوسری بات ان کے یہاں تصنع نہیں ہے۔ وہ اپنے جذبے، اپنی فکر اور اپنی آرزوؤں کو بڑی ایمان داری سے بیان کر دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مخدوم کی شاعری رومان کی پروردہ ہے۔ میرے خیال میں فیض، مجاز، مخدوم یہاں تک کہ کیفی اور نیاز حیدر کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ جہاں تک ان کے ذخیرۂ الفاظ کا تعلق ہے اور جو جوش اور شوریدگی ان کے یہاں نظر آتی ہے وہ رومانی تعبیر کے احاطے میں ضرور آ جاتی ہے لیکن اسے رومان کی پروردہ قرار دینا درست نہیں۔ رمز و کنایے یا استعارے یا خوب صورت تراکیب کا استعمال شاعری کا حسن ہے اور اچھی شاعری کی ضرورت۔
مخدوم کے یہاں راست بیانیہ کے مقابلے میں رمز و استعارہ کی زبان زیادہ ہے اور یہی ان کی شاعری کی خوبی اور ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ سردار جعفری کے خیال میں مخدوم کے یہاں انقلابی شاعری کی شان نہیں ہے۔ انھیں فیض پر بھی اعتراض تھا۔ ان کے خیال میں برائی پر حملہ بہ راہِ راست اور اس کا اظہار بے جھجک ہونا چاہیے، اس میں رمز و اشارے کی گنجائش نہیں۔ استعارہ بھی اپنی تہہ داری کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتا اس لیے نئے ادب کے معمار میں انھوں نے مخدوم کی شاعری پر یہ اعتراض کیا کہ:
’’مخدوم یہ تو تمھاری خواہش ہے کہ سویرا ہو جائے ورنہ ابھی تو کہیں سویرے کے آثار نہیں ہیں۔ تمھاری نظموں میں درد ہے، دکھ ہے لیکن وہ اعتماد اور حوصلہ نہیں، وہ آن بان اور جوش و خروش نہیں جو انقلابی شاعری کی شان ہے ‘‘۔
(سردار جعفری، نئے ادب کے معمار، مخدوم محی الدین، ص: ۲۳)
سردار جعفری کی یہ رائے ۱۹۴۸ء کے آس پاس کی ہے یعنی ’’سرخ سویرا‘‘ کی اشاعت کے بعد بلکہ ’’سرخ سویرا‘‘ عوام و خواص دونوں میں مقبول تھا اور اس کی بعض نظمیں بلند آہنگ اور انقلاب کے جوش سے بھری ہوئی تھیں جن میں ٹکرا جانے اور دنیا کو بھسم کر دینے کے ارادوں کا اظہار تھا۔
مخدوم جتنے حساس شاعر ہیں اتنے ہی جذباتی بھی ہیں۔ ہر بات انھیں شدت سے متاثر کرتی ہے۔ وہ خواہ حسن ہو یا غربت، افلاس، بھوک اور غلامی وہ ان تمام چیزوں سے انسانیت کو نجات دلانا چاہتے ہیں جن سے انسان پریشان اور انسانیت شرمندہ ہے۔ وہ نئی نسل کو انقلاب لانے اور ایک ایسا جہانِ نو تعمیر کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں جہاں اخوت ہو محبت ہو:
ایسا جہان جس کا اچھوتا نظام ہو
ایسا جہان جس کا اخوت پیام ہو
ایسا جہان جس کی نئی صبح و شام ہو
ایسے جہانِ نو کا تو پروردگار بن
(جہانِ نو)
اپنی نظم ’’حویلی‘‘ جو غلامی، تنگ دستی اور ظلم و جور کی علامت ہے، جسے انھوں نے فرسودہ نظام کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جو نظام نزع کے عالم میں ہے، جس کے بام و در کرب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور جس میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ اس نظم میں ’’حویلی‘‘ ہی استعارہ نہیں ہے بلکہ مار و کژوم بھی استعارے ہیں جو اس سماج اور انسانیت کو ڈسنے والے وہ لوگ یا وہ طبقے ہیں جو ملک دشمن اور انسانیت دشمن ہیں اور جنھوں نے اسے تباہ کر رکھا ہے اور اب جہاں نہ انصاف ہے اور نہ ایمان:
جس جگہ کٹتا ہے سر انصاف کا ایمان کا
روز و شب نیلا ہوتا ہے جہاں انسان کا
ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال
خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال
اور پھر نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں :
اے جواں سالِ جہاں، جانِ جہانِ زندگی
ساربان زندگی روح روان زندگی
بجلیاں جس کی کنیزیں زلزلے جس کے سفیر
جس کا دل خیبر شکن جس کی نظر ارجن کا تیر
آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں
(حویلی)
نظم ’’مشرق‘‘ مخدوم کے درد و کرب کا اظہار ہے۔ وہ مشرق جو کبھی علم و آگہی کا مرکز تھا، جس سے دنیا نے جینے کا سلیقہ اور جہاں بانی کا ہنر سیکھا، جس نے انسانی برابری اور رواداری کا سبق دیا، جو مذہبی رہنماؤں کی سرزمین رہی ہے، وہی آج جہل، فاقہ، بھیک، بیماری، نجاست کا مکاں ہے اور جہاں وہ اک نئی دنیا اور نئے آدم کو بنانے کی بات کرتے ہیں۔ مخدوم کی ایک خصوصیت ان کی رجائیت ہے۔ وہ خراب سے خراب حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتے۔ ان کے پاس امید کی ایسی طاقت ہے جو کسی حالت میں انھیں کمزور نہیں پڑنے دیتی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے مظالم سے گزرنا پڑا۔ وہ تو موجودہ نسل نے نہیں دیکھے لیکن آج بھی بار بار انسانیت اس کرب سے گزرتی ہے۔ کہیں عراق و فلسطین کی صورت تو کہیں انسانی بموں، بنیاد پرستی اور سیاسی خود غرضی کی لائی تباہی کی صورت۔ مخدوم ان حالات میں بھی پُر امید تھے۔ یہ امید، یہ رجائیت، ایسے خراب حالات میں بھی مایوس نہ ہونا زندگی کے لیے بہت بڑی طاقت ہے۔ ان کی نظم ’’اندھیرا‘‘ کے یہ مصرعے دیکھیے :
وہ تڑختے ہوئے سر
میتیں، ہاتھ کٹی، پاؤں کٹی
لاش کے ڈھانچے کے اِس پار سے اُس پار تلک
سرد ہوا
نوحہ و نالہ و فریاد کناں
شب کے سناٹے میں رونے کی صدا
کبھی بچوں کی، کبھی ماؤں کی
چاند کے تاروں کی ماتم کی صدا
رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم
صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
یہاں پر مخدوم کی دو نظموں کا ذکر کرنا چاہوں گا، یہ نظمیں بھی ’’سرخ سویرا‘‘ سے ہی ہیں جن کا لب و لہجہ مشرق سے مختلف ہے۔ مشرق زیادہ بہ راہِ راست اور زیادہ دکھ درد کی نظم ہے لیکن یہ دونوں نظمیں ان سیاسی نظموں میں اس جانب پہلا قدم ہیں جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ مخدوم تلخ بات بھی بڑے خوب صورت الفاظ یا زبان میں کرتے ہیں۔ ان کی نظم ’’انقلاب‘‘ کے یہ بند ملاحظہ کیجیے جس میں انقلاب کو ’’جان نغمہ‘‘ کہہ کر محبوب سے استعارہ کیا ہے اور اسے آنے والے نئے نظام عالم کے پیش رس کی تمنا قرار دیا ہے :
اے جان نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجومِ شوق سرِ رہ گزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
رخ حیات پہ کاکل کی برہمی ہی نہیں
نگارِ دہر میں انداز مریمی ہی نہیں
مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے
(انقلاب)
اس نظم کی رمزیت ایک طرف اس کے سیاسی پہلو کی نشاندہی کرتی ہے تو دوسری طرف اس کا شعری آہنگ اسے ایک اثر انگیز اور خوب صورت نظم بنا دیتا ہے۔
دوسری نظم ’’ستارے ‘‘ ہے جس میں ان کے خیال، اسلوب اور اظہار و بیان کا تنوع بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ’’ستارے ‘‘ بہ ظاہر ایک سادہ سی نظم ہے جس میں شاعر ستاروں سے باتیں کرتا ہے لیکن اس کی گہری معنویت اس عہد کے کرب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ یک طرفہ مکالمہ ہونے کے باوجود خوب صورت اور پُر اثر ہے :
جاؤ جاؤ چھپ جاؤ ستارو
جاؤ جاؤ تم چھپ جاؤ
رات رات بھر جاگ جاگ کر
کس کو گیت سناتے ہو
چپ چپ رہ کر جھلمل جھلمل
کس بھاشا میں گاتے ہو
ہم جس نگری میں رہتے ہیں
وہ نگری کیا دیکھو گے
غم جس بستی میں بستے ہیں
وہ بستی کیا دیکھو گے
جاؤ جاؤ چھپ جاؤ ستارو
جاؤ جاؤ تم چھپ جاؤ
’’سرخ سویرا‘‘ اور مخدوم کے دوسرے مجموعے ’’گل تر‘‘ کی شاعری میں فکر، اظہار اور اسلوب تینوں سطحوں پر نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ’’سرخ سویرا‘‘ کے بعد کچھ عرصے تک مخدوم نے شعر نہیں کہے، اس خاموشی نے شاید انھیں خود اپنا تجزیہ کرنے کا موقعہ دیا۔ اس لیے کہ ’’گل تر‘‘ کا لہجہ زیادہ شعری، ٹھہرا ہوا اور پُر اثر ہے۔ یوں ’’سرخ سویرا‘‘ کی بھی ’’انتظار‘‘، جیسی نظموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس میں انتظار کی کیفیتوں کی بڑی پُر اثر تصویر کشی کی گئی ہے :
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے
سجدے مسرور کہ مسجود کو ہم پا ہی گئے
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی
(انتظار)
’’گل تر‘‘ میں ایسی نظمیں جس میں نمایاں طور پر کسی سیاسی یا نظریاتی پہلو کو پیش کیا گیا ہو صرف چار ہیں : نیا چین، ماسکو، چپ نہ رہو، (لوممبا کے قتل پر) درہ موت (ویتنام پر) ورنہ ان کی عام نظمیں جذبے، احساسات اور خیال آفرینی کے خوب صورت نمونے ہیں۔ یہ بات غلط نہیں ہو گی کہ مخدوم کی نظموں اور غزلوں دونوں میں پیکر تراشی اور رمز و کنایہ کا عمل بہت گہرا اور پُر تاثیر ہے۔ یہ عمل ’’سرخ سویرا‘‘ کی بھی بعض نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ’’گل تر‘‘ کی نظمیں اور غزلیں دونوں میں مخدوم کی فن کاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جذبے کو پُر تاثیر کنایے اور پیکر میں تبدیل کرنے کا فن جانتے ہیں۔ مخدوم کی بہت مشہور نظم ’’چارہ گر‘‘ ہے جس کا حوالہ ان پر لکھے جانے والے ہر مضمون میں ملے گا اور اس کی تکرار بے جا بھی نہیں ہے، اس لیے کہ ایسی پُر اثر اور ایسی دل آویز تصویریں بہت کم نظموں میں نظر آتی ہیں۔ یہ نظم کئی تصویروں کا البم ہے۔ اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ اس میں صوتی حسن، نغمگی، دلکشی اور خوب صورتی بھی ہے اور بہت گہرا Pathos بھی۔ اس میں الفاظ کے ذریعے ایسا آہنگ پیدا کیا گیا ہے جس نے ہر تصویر کو متحرک بنا دیا ہے :
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے
دو بدن
اوس میں بھیگتے، چاندنی میں نہاتے ہوئے
جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر
ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا
صرفِ ماتم ہوئی
کالی کالی لٹوں سے لپٹ، گرم رخسار پر
ایک پل کے لیے رک گئی
ہم نے دیکھا انھیں
دن میں اور رات میں
نور و ظلمات میں
مسجدوں کے مناروں نے دیکھا انھیں
مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں
مے کدے کی دراڑوں نے دیکھا انھیں
اور آخر میں چارہ گر ازل سے اس کا سوال:
از ازل تا ابد
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے
کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے
’’چارہ گر‘‘ کے علاوہ ان کی نظم ’’آج کی رات نہ جا‘‘ ایسی ہی شدید کیفیت کی حامل ہے۔ یہ دونوں نظمیں ’’چارہ گر‘‘ اور ’’آج کی رات نہ جا‘‘ اپنے موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے منفرد نظمیں ہیں۔ فکر و خیال کی تازگی اور مخدوم کی جمالیاتی حس ان میں اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے :
رات آئی ہے بہت راتوں کے بعد آئی ہے
دیر سے دور سے آئی ہے مگر آئی ہے
مرمریں صبح کے ہاتھوں میں چھلکتا ہوا جام آئے گا
رات ٹوٹے گی اجالوں کا پیام آئے گا
آج کی رات نہ جا
اس کے دوسرے بند میں زندگی کے تضادات کو بڑی خوب صورتی سے ظاہر کیا گیا ہے :
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزاد بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر کی جھنکار بھی ہے
زندگی دید بھی ہے حسرتِ دیدار بھی ہے
زہر بھی، آبِ حیاتِ لب و رخسار بھی ہے
زندگی دار بھی ہے زندگی دلدار بھی ہے
آج کی رات نہ جا
مخدوم کی نظموں میں ’’چاند تاروں کا بن‘‘ اپنی امیجری اور محاکات کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ یہ نظم شاعر کے تخیل، خوابوں اور آرزوؤں پر مبنی نظم ہے۔ ایک عملاً سیاسی انسان لیکن بنیادی طور پر شاعر کا، آزادی اور اس کے بعد کی صورتِ حال کے بارے میں رد عمل ہے۔ یہ نظم بہ ظاہر سیاسی نظم نہیں ہے۔ اس کے الفاظ اور ان میں پوشیدہ رمز نے اسے ایک دلکش تخلیق بنا دیا ہے لیکن اس کی زیریں لہر میں ایک شدید سیاسی کرب پوشیدہ ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مخدوم ملک کی اشتراکی جدوجہد کا حصہ تھے اور اس آزادی کو ہندستانی کمیونسٹ پارٹی نے مکمل آزادی نہیں تسلیم کیا تھا۔ اس پس منظر کو نظر میں رکھ کر ان خوب صورت مصرعوں کی اشاریت کو دیکھنے کی ضرورت ہے :
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن
رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن
تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سرشار تھے
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اجالا، اجالا بھی ہے
ہم دمو
ہاتھ میں ہاتھ دو
سوئے منزل چلو
منزلیں پیار کی
منزلیں دار کی
کوئے دلدار کی منزلیں
دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو
مخدوم کی آخری نظموں میں ایک اداسی، دکھ اور گہرے زخم کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس عام انسان کو بھی اس کے خواب کے ٹوٹنے سے ہو سکتا ہے لیکن سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے والے، جیلوں کی سختیاں برداشت کرنے والے، ملک کے لیے اپنے خوابوں پر زندگی اور اس کی خوشی کو لٹا دینے والے کے لیے یہ احساس نفسیاتی طور پر شکست کا نہیں تو ٹوٹ جانے کا احساس ضرور تھا۔ مخدوم، غالب پر جب نظم لکھتے ہیں تو اس میں بھی اس دکھ اور کرب کی جھلک دکھائی دے جاتی ہے :
تم تھے اپنی شکست کی آواز
آج سب چپ ہیں منصفی کی طرح
یہ کرب اپنے اندر سے ٹوٹنے کا کرب تھا جس میں نہ چیخ سنائی دیتی ہے اور نہ آنسو دکھائی دیتے ہیں اس لیے کہ شکایت ہو تو کس سے ہو۔ مخدوم خواب کے ٹوٹنے کو کس طرح بیان کرتے ہیں، یہ چند مصرعے دیکھیے :
وہ جو میرا خواب کہلاتا تھا
میرا ہی نہ تھا
وہ تو سب کا خواب تھا
سایۂ گیسو میں بس جانے کے ارماں دل میں تھے
میرے دل میں ہی نہ تھے
وہ تو سب کا خواب تھا
لاکھ دل ہوتے تھے لیکن
جب دھڑکتے تھے تو اک دل کی طرح
آپ میں اک گرمی احساس ہوتی تھی
نہیں معلوم وہ کیا ہو گئی
چاندنی سی میرے دل کے پار ہوتی تھی
نہیں معلوم وہ کیا ہو گئی
(سب کا خواب)
ایک ہی چھوٹی سی لیکن بہت پُر اثر نظم میں اس زخم کی گہرائی دیکھیے :
کوئی کسی کو بتاتا نہیں کہ کیا کھویا
کسی کو یاد نہیں ہے کہ دل پہ کیا گزری
دلوں میں بند ہیں تلخابۂ حیات کے خم
کوئی زبان سے کہتا نہیں کہ غم کیا ہے
زندگی اور حالات کے تضادات دیکھیے :
ہر ایک زخم کے اندر ہے زخم، درد میں درد
کسی کی آنکھ میں کانٹے کسی کی آنکھ میں پھول
کہیں گلاب کہیں کیوڑے کی بستی ہے
یہ سر زمین اک اک بوند کو ترستی ہے
یہ تمام نظمیں ان کی اشاراتی اور علامتی نظمیں ہیں اور ان میں ایک سے زائد پہلو تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن ان اشاروں، کنایوں اور علامتوں میں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اس درد کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس سے وہ خود اور ان کے ساتھی گزرے ہیں اور ان آرزوؤں اور امنگوں بھرے خوابوں کو ٹوٹتے دیکھا ہے جو انھوں نے سب کے لیے دیکھے تھے۔
ایک اور آخری نظم جو ان کے مجموعے کی بھی آخری ہے اس کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، اس کا آہنگ اور رمزیت توجہ کی مستحق ہے۔ میں اس خوب صورت نظم کے اسلوب اور رمزیت کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ میرے لیے یہ نظم، مخدوم کے فن کا ایک نمونہ بھی ہے اور دل کش اور دلآویز نظم بھی اور کسی چھپے ہوئے کرب سے آنکھوں میں ڈبڈبانے والا آنسو بھی:
دل کا سامان اٹھاؤ
جان کو نیلام کرو
اور چلو
درد کا چاند سر شام نکل آئے گا
کیا مداوا ہے
چلو درد پیو
چاند کو پیمانہ بناؤ
رت کی آنکھوں سے ٹپکنے لگے کالے آنسو
رت سے کہہ دو
کہ وہ پھر آئے
چلو
اس گل اندام کی چاہت میں بھی کیا کیا نہ ہوا
درد پیدا ہوا، درماں کوئی پیدا نہ ہوا
(رت)
مخدوم کی نظموں کا آہنگ غزل کا آہنگ ہے جسے بیش تر ترقی پسندوں نے روایتی شاعری قرار دے کر نظر انداز کر دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مخدوم، مجاز اور فیض کا یہ Contribution ہے کہ غزل کی زبان کو انقلاب کی زبان بنا دیا۔