FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کارنیوال

جمیل الرحمن

ISBN:978-969-596-016-5

نینا رحمٰن کے نام

نئی شاعری کے نئے آسمان پر

ایک درخشندہ سِتارے کی طرح

طُلُوع ہوتی اپنی منجھلی بیٹی

 نینا رحمن

کے نام

جسے قدرت نے نہایت فیّاضی سے

شاعری، موسیقی اور مُصوّری کے خزانوں سے

انمول جواہر عطا کیے ہیں

 

جمیل الرحمن کی تخلیقی وابستگی کا نمونہ: کارنیوال

جمیل الرحمن کی ہر نظم اُن کی غزلوں کے اشعار کی طرح کِسی داستان کا انگ ہے، کِسی کہانی کا رنگ ہے، اور خلّاق شاعر کے کلام کی اُمنگ ہے۔ اُن کی شاعری کی ہیئتِ ترکیبی ’’کتابِ محبت کا ایک ورق ‘‘ اور ’’مَیں شاعر ہُوں ‘‘ سے جھلکتی ہے۔ جمیل الرحمن دیگر حوالوں کے علاوہ اِس اِعتبار سے بھی اہم شاعر ہیں کہ اُنھوں نے داستانی اور چیستانی غنائیت کے متوازی تاریخی اور معروضی ایمائیت کو بھی تخلیقی ترجیح دی ہے۔ جہاں تک اِس مجموعے کی عُنوانی نظم کا تعلُّق ہے، Rosenmontag کہلانے والا اِمتیازی دِن جرمن تمدُّن میں وومینز کارنیوال یا سٹریٹ کارنیوال ’’راکھ کے دِن‘‘ سے قبل کا طویل جشن 11نومبر کی صبح 11بج کر 11 منٹ پر آغاز ہوتا ہے۔ جوش و خروش سے بھرپور یہ بڑے جُلُوس سبھی کے لیے خوشی کا باعث نہِیں ہوتے، جمیل الرحمن بھی اِس کے رنگ برنگے چڑیلوں جیسے مضحکہ خیز ملبوسات پر یقین نہیں رکھتے۔ ہر فرد اپنی اِنفرادی شناخت تج کر، کوئی دِلچسپ رُوپ دھار کر اِس میلے کے طُول طویل دھارے میں شامل ہوتا ہے، طنزیہ فلوٹس بنانے والے پیشہ وروں کی صلاحیتوں کا جادُو جاگتا ہے۔ تاہم بعض لوگ نظریاتی اِعتبار سے اِتنے حسّاس ہوتے ہیں کہ اُنھیں مزاح برداشت کرنے کی سکت یا عادت نہیں ہوتی۔ چاکلیٹ، ٹافیوں اور پھُولوں کی مُوسلا دھار برسات میں جب ہر نوع کے اِنسانی جذبات کی طرح مذہبی جذبات بھی مزاح و مضحک کا نشانہ بنیں تو بسا اوقات نقصان کے اسباب کا شاخسانہ ٹھہرتے ہیں۔  کیتھولک روایات سے قبل رومن غُلاموں کو اُن کے آقا مسیحی صیام سے قبل منگل کو یہ جشن منانے کی اِجازت دیتے ہوئے اُنھیں ’’ایک دِن کا آقا‘‘ بنا دیتے تھے۔ غالباً یہی وَجہ، ہے کہ مسیحی ’’ میٹ فیئر ویل‘‘ منانے کے بجائے، کہ اگلے چالیس روز کے دوران میں اُنھیں گوشت خوری کی ممانعت ہے، وہ اپنے نسل در نسل آقاؤں کا تمسخر اُڑانے کی بھونڈی کاوش انجام دیتے ہیں۔  دراصل اِنفرادیت، عالمگیریت اور آفاقیت کی ابعادِ ثُلاثہ ہی جمیل الرحمن کی رُمُوزِ تخلیقیت ہیں۔  تکنیک، فارم اور شُعُوری تخیل کی ریاضت پر مبنی اقدار مُعاصر عالمی ادب کا حقیقی اثاثہ ہیں۔  الیکٹرانک میڈیا، اِنٹرنیٹ اور ہم آہنگی سے متعلق مُکالمے کے ذریعے سے اب ہر مُلک، مذہب اور نظریے پر مبنی تہذیب و ثقافت ہُو بہ ہُو، مِلتی جُلتی اور ایک دُوسرے سے برق رفتار، تیر بہ ہدف اثر قُبُول کرنے والی ہیں۔  جمیل الرحمن کے تخلیق آفریں تخیل کے مُطابِق مسرّت آمیز کریہہ، چیخوں سے گُونجتے لاشوں کے کارنیوال کے راستے میں اب فاختائیں پر نہیں  بچھاتیں اور کبُوتردانہ نہیں چگتے۔ اِس صُورتِ حالات میں شاعر کو مضحکہ خیز رنگ برنگے کپڑوں اور پُر اسرار نقابوں میں مسخ شُدہ ڈھانچوں کا جشن منانا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اُسے بہ خوبی عِلم ہے کہ  گیتوں کے لفظوں کی سیاہی کِسی صبح کو جنم نہیں دیتی، یعنی مُردہ لب  گیتوں کے سنہری لفظوں کی روشنی چُوس کر ٹھہری ہوئی رات کو دوام بخشتے ہیں۔  اِس لینڈسکیپ میں غیر مرئی دھُند میں اَٹے راستے ہیں اور   گیتوں میں ٹُوٹے ہوئے سِتارے گُونج رہے ہیں۔  شاعر اپنے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھا، کپڑوں میں تِلملاتے  کیڑوں سے  چھٹکارا پانے اور کارنیوال کے گذرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ نظم شاعر کی نراجیت یا مغایرت کا مظہر نہیں ، بل کہ غیر مہذّب  ہجُوم میں اِنجذاب سے گُریز اور اِنفرادی تشخص کی آرزُو سے مملُو ہے۔جمیل الرحمن کا شاعرانہ طرزِ احساس ایسی روشن فکری اور شخصی آزادی کا آئینہ دار ہے، جو فرد کی روحانی اور مادّی سچّائی، رواداری، برداشت اور صُلحِ کُل سے ترکیب و ترتیب یافتہ ہے۔ جمیل الرحمن نے اپنی مثالی اقدار کا اِظہار اپنی نظم ’’مَیلے کپڑوں کی گٹھڑی‘‘ میں کِیا ہے۔ مِٹی ہوئی تہذیب کے غبار سے آلُودہ جلاوطن شہزادہ ’’علی بابا‘‘ اُن خزانوں کا در کھولنے کا اِسم بھُول گیا ہے، جو نہایت سفّاکی سے قتل کیے گئے بے نوا لوگوں کی امانت تھا۔ یعنی شرافت، حیا، برداشت و رواداری اور ہم جنسوں کے احترام کا خزانہ، جو نہ صِرف اُن کی ریاضتِ فن کی جمع پُونجی ہے بل کہ اُن کے مُعاصرین اور نسلِ فردا کے لیے ورثہ بھی۔ اِسی طرح نظم ’’دُوسرا آدمی‘‘  میں طالع آزما مقتدر اَمن و مصلحت کی آڑ میں عِزّت و آزادی سمیت اپنا سب کچھ رہن رکھ سکتا ہے، جب کہ چیونٹیوں جیسے لوگ اپنے پکّے ہوئے پھل باغات سے اُتارنے اور سودا کرنے سے پہلے ہی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔  اِسی اخلاقیات کے خمیر سے تخلیق پانے والی نظم ’’دیکھ! مَیں سیب نہیں کھا سکتا‘‘ میں شاعر آگاہ ہے کہ ہر جان اپنے اعمال کا بوجھ خود اُٹھائے گی۔ اُسے  جدھر بھُوک کھینچ لائی ہے، اُدھر پانی کا گُناہ سیبوں کی خوشبو میں گھُل رہا ہے۔ اِس اثنا شاعر ممنُوع رستے میں آئینوں کے درمیان خواب اور خواہش کو ضمیر کی میزان میں تُلتے دیکھتا ہے، اور اب وہاں کوئی نہیں ہے سِوائے سیب کے پیڑوں کے، مگر وہ یہ سیب نہیں کھا سکتا۔ اِس نظم میں بے راہ روی سے مُنہ، موڑنے اور تزکیۂ  نفس کی ایسی تمثیل مُہیّا ہوتی ہے جو قاری کو عظیم تخلیقی عمل کے  جلیل القدر احساس سے متمتع کرتی ہے۔

’’نئی کہانی‘‘ کی وساطت سے جمیل الرحمن نے گلوبل ویلیج کی ترقّی یافتہ سماج کی تاریک ترین صُورتِ حالات کا منظر بیان کِیا ہے، کہ دشتِ طِلِسمات سے لَوٹنے والے سپاہی دیوانِ خاص میں باریابی کے منتظر ہیں۔  شہزادی اپنی خواب گاہ میں ایک اور قوی ہیکل غُلام کو قتل کر کے حمّام میں ہاتھ دھو رہی ہے۔ سفید ہرنوں کی قطار اپنے جسموں میں ٹُوٹے ہوئے   تیر لیے راج محل کے دروازے پر اِستادہ ہے، جن کے سبھی شکاریوں کی صُورت ایک ہی تھی، ہُو بہ ہُو شہزادی جیسی۔ اِس جدید غُلام ساز نظام میں انسانی شکار اور استحصال کو منصّۂ  شہود پر لاتے ہوئے شاعر نے یہ محاکمہ کِیا ہے کہ جب تک شہزادی کے ہاتھ سے تازہ خُون کے دھبّے نہیں چھُوٹتے، سِتارۂ  صبح اور سُورج کی مُلاقات کا کوئی اِمکان نہیں ہے۔یعنی اِنسانی زِندگی کا کوئی خواب سچّا نہیں ، نہ ہی کِسی تعبیر کے واضح ہونے کا کوئی یقینی اِمکان ہے۔ جمیل الرحمن نے جہاں مُزاحمتی پیش  بینی کو لطافت میں سمو دیا ہے، وہاں ما قبل تاریخ سی مُعاصر سفّاکانہ ہلاکت خیزیوں کو مابعد جدیدیت کے رنگ میں پیش کِیا ہے۔’’سمن آرڈر‘ ‘برِّصغیر کی مردانہ اور غیر منصفانہ مُعاشرت کے تیزاب سے جھُلسے ہوئے چہرے کو فن کارانہ چابُک دستی سے بے نقاب کرنے والی عمدہ نظم ہے۔جو حُصُولِ عدل کی خاطر کیے جانے والے مُقدّمات کو مُسلسل معرضِ اِلتوا میں رکھنے کی مذموم حکمتِ عملی کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ ’’شادی‘‘، ’’فالسے چُنتے ہوئے ایک سانحہ‘‘، ’’فلُو‘‘، ’’آدھے آدمی کا پورا گلاس‘‘ اور ’’بلیک ہول کے نکلنے سے پہلے‘‘ سمیت اُن کی متعدد نظمیں ہماری ترقّی یافتہ دُنیا کے پس ماندہ ضمیر کو جھنجوڑنے، جگانے کے لیے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔  مجھ ایسے ناقدین کی رائے جمیل الرحمن جیسے شاعر کو مزید بڑا نہیں بنا سکتی، کہ وہ پیدایشی اور فطری طور ہی اہم شاعر ہیں۔  غزل، پابند اور آزاد نظم کے مانند جمیل الرحمن کی غیر عروضی نظموں میں جو محاکات، تلمیحات، علامات،استعارے اور تلازماتی نظام متشکّل ہُوا ہے، اُسے ہمارے برپا ادبی تناظُر میں  پیش پا اُفتادہ تصوُّر تک نہیں کِیا جا سکتا، بِلا شُبہ، ’’کارنیوال‘‘ میں شامل 56نظموں کی شاعری میں غیر معمولی تخلیقی تجرِبات ہویدا ہوئے ہیں ، جو قارئین کی ذِہنی اُپج کو بہتر بنانے پر قادر ہونے کے علاوہ اردو شاعری کو جدید ادبِ عالم کی صف میں کھڑا ہونے کا حق دار منواتے ہیں۔  تاریخِ شاعری کے اوراقِ مصوّر پر فقط جمیل الرحمن جیسے معدودے چند خلّاقِ مشّاق ہی سنہری حُرُوف سے تذکرے کے لیے بچ رہتے ہیں جو اپنے آپ کو تجارتی اور تشہیری ہنگاموں کی بھاڑ میں جھونکنے سے مامون پاتے ہیں اور  چپکے  چپکے مقصدی مستعدی سے اِنفرادی، اِجتماعی، عالمی اور آفاقی اقدار کی اُستواری کے لیے تخلیقی عمل سے وابستہ رہے ہیں ، کہ واقعتاً تخلیقی وابستگی ہی شہرتِ عام اور حیاتِ دوام ہے۔

اظہر غوری

سیکرٹری جنرل

رائٹرز ایسوسی ایشن لاہور

٭٭٭

 

ایک نیلگوں خواب کی دھُند میں

سُرخ شراب سے نم میرے بستر سے

تمھاری مہک اُٹھ رہی ہے

میرے آدھے بدن میں کوئی اِکتارا بجا رہا ہے

اور وادیِ الکبیر کے پانی پر رقص کرتے گیت

کسی لمحے کی دراڑ سے گذر کر

راوی، چناب اور جمنا کے کناروں پر گھومتے

میرے بستر کی پائینتی پر آ بیٹھے ہیں

وہ میرے آدھے وُجُود میں بجتا اِکتارا

مجھ سے چھین لینا چاہتے ہیں !

مَیں شمالی سمُندر سے

 آنے والی ہَوَا کو آواز دے کر پوچھنا چاہتا تھا

تم کہاں ہو؟

اور جاگنے پر میرا بدن آدھا کیوں ہے؟

مَیں یکسر بھول چُکا تھا

کہ خیمے سے باہر کھُلتے وقت کے دروازے سے

تُم تنہائی کی البم میرے تکیے تلے رکھ کر کبھی کی جا چُکی ہو

 اور میرے اندر کا بنجارا اپنا خیمہ لپیٹ چُکا ہے!

سُرخ شراب سے نم اِس بستر کی پائینتی پر بیٹھے

اجنبی گیت مجھے گھور رہے ہیں

وہ مجھ میں بجتا اِکتارا مجھ سے چھین لینا چاہتے ہیں

مَیں اُنھیں کِس طرح بتاؤں

کِس طلسم نے کِس لمحے کی سر مستی میں

میرے وُجُود کو آدھا کر دیا ہے!

مَیں چیخ کر کِسی کو

مدد کے لیے بلانا چاہتا ہُوں

مگر اکتارے کی آواز

میری آواز پر حاوی ہے

اور میرے آدھے بدن کی تھرتھراہٹ میں

ساری کائنات ڈول رہی ہے!

٭٭٭

 

دیکھو ! مَیں سیب نہیں کھا سکتا

مَیں ایک عالمِ کشف میں ہُوں

کشتیوں کے تلے بہتا ہُوا پانی سو گیا ہے

اور کشتیاں اُس پر

اُس کے گناہوں کا نشان بن کر جھُول رہی ہیں !

صدیوں کی بھوک اور پیاس کو سنبھالے

ایک ممنوع رستے میں

سیب کے دو رویہ پیڑوں کی چھاؤں میں

ایک سانپ کو اپنی ایڑی پر ڈستے دیکھتا ہُوں

اور اپنے اِرد گِرد کشف کی نیم غنودگی پھیلائے

مَیں خود پر ہنس رہا ہُوں !

نرم ہَوَا میری نیم وا آنکھوں سے

آنسُو نچوڑ رہی ہے

اور وہ اُن پرندوں کے

پروں میں جذب ہوتے جا رہے ہیں

جن کی اُڑانوں کی تکان

درختوں کے بدن میں اُتر آئی تھی

انھی پیڑوں کے سایے میں

مقدس صحائف کے کھُلے اوراق پر

بس ایک ہی آیت جگمگا رہی ہے

ہر جان اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھائے گی!

تو کیا کہتے ہو؟

مَیں اِس کشف کا ہر منظر

اپنی آنکھوں کے رومال میں لپیٹ لُوں ؟

جب کہ

رفتگاں کے قافلوں کے اُونٹوں کی گردنوں میں بندھی

گھنٹیاں ابھی تک بج رہی ہیں

اور اُن کے حُدی خوانوں کی حُدی سننے والا

اِس ممنوع رستے میں

اب اور کوئی نہیں

 سیب کے پیڑوں کے علاوہ !

میری بھُوک مجھے جہاں کھینچ لائی ہے

آئینوں کے درمیان

خواب اور خواہشیں

ضمیر کی میزان میں تُل رہی ہیں !

مَیں حالتِ کشف میں ہُوں

اور پانی کا گناہ

سیبوں کی خوشبو میں گھل رہا ہے

دیکھو!مَیں یہ سیب نہیں کھا سکتا!

٭٭٭

 

IRJA

سگرٹ سے اُٹھتے دھُوئیں کے مرغولے

کسی مسکراتے لمحے کی طرح

مجھے اُس کے گلابی عارض میں پڑتے

ڈمپل کی یاد دِلاتے ہیں !

اُس کے ترشے ہوئے مر مریں بدن سے

جب ایک وحشی مہک اٹھتی

اور اُس کی کرنجی آنکھیں پانی سے بھر جاتیں

میرے بوسے

اُن پر پرندوں کی طرح اُڑنے لگتے

وہ میری آغوش میں

اپنی رُوح کی بازیافت کی اُلجھن لیے

کسی چرچ کی راہداری میں گُم ہو جاتی

اور مَیں اپنا آپ ایک بھرے بازار میں کھو دیتا!

گرم پانیوں میں پگھلتے ہوئے

بر ف کے تودوں کی آواز جب ہمیں ڈھُونڈ لیتی

وہ کچھ ایسے کھلکھلاتی کہ چاند کچھ اور روشن ہو جاتا

چاندنی کے جزیرے پر کلیاں چٹکنے لگتیں

اور اک سرمستی میں

ہم اپنے اپنے بدن کے دُکھ سمیٹ لیتے

اُ س کے ہونٹوں سے ربّ قدیم کی حمد اُبھرتی

اور میرے سگرٹ کے دھُوئیں میں گونجنے لگتی!

 اِریا……

مَیں تمھارے لبوں کا لمس

اور بارش سے دھُلی تمھاری آواز

کب کا بھول چُکا تھا

 اِریا

مَیں تمھیں کب کا بھول چُکا تھا!

لیکن آج

جب چاند دھُند میں لپٹا ہے

اور میری سلگتی سگرٹ کا دھُواں

ہمیشہ سے زیادہ گاڑھا اور دُودھیا ہے

ربّ قدیم کی حمد کی گونج

اِس سے بچھڑ چُکی ہے!

ایسے میں نجانے کیوں

تم اپنے لہُو لُہان تلووں پر چلتی

میری ہر سمت سمیٹتی

اپنے گیلے رومال میں

مجھے لپیٹتی چلی جا رہی ہو

بہُت۔ یاد آ رہی ہو!

٭٭٭

 

کتابِ محبت کا ایک ورق

وقت صِرف روابط کی شکل بدل سکتا ہے

وہ رشتے نہیں

جن کے راز و نیاز ہر فاصلے پر محیط ہوں۔

                             !

کوئی نادیدہ موسم

اگر شاہی محل کی خواب گاہ

اور کسی کٹیا کے گوشے کو

چاند اور سُورج کی کِرنوں سے جوڑ سکتا ہے

تو کبُوتروں کی ٹانگوں پر چڑھے چھلّوں سے

رنگین دھاگوں کے

 لٹکتے ہوئے ٹکڑے بھی

لہرا کر فضا میں

 قوسِ قزح کے رنگ بھر سکتے ہیں۔

                           !

نیلگوں روشن آسمان تلے

جب ہَوَا کے ہاتھ میں بربط ہو

گھروں کی منڈیریں سلامت ہوں

اور دِلوں کی چھتوں پر

کبُوتروں کی چھتری کھُلی ہو

تو رنگین تاگوں کے ٹکڑے

قرطاسِ زندگی پر

ہمیشہ غزلیں بنتے ہیں !

٭٭٭

 

یہ بھی سچ ہے

تم اگر کبھی کسی سچ کو

کسی ہموار رستے سے

یوں آتا دیکھو

کہ اُس کے  جلو میں

اُن گواہیوں کا جُلُوس ہو

جس کے بِکھرتے ہی

اُس کے اپنے تارو پود بھی بِکھر جائیں

 جان لو

کہ وہ سچ ،سچ نہیں ہے!

سچائی

کبھی ہموار راستے پر نہیں چلتی

ہر بلندی اور ہر پستی سے

وہ تنہا دِکھائی دیتی ہے

اور اُس کی سالمیّت

کِسی شہادت کی محتاج نہیں ہوتی!!!!

٭٭٭

 

نشانے باز

ہم دونوں بچپن میں

دیوار پہ رکھے

خربوزوں ،مالٹوں اور انگور کے دانوں پر

غلیل سے

نشانہ بازی کی مشق کرتے تھے۔

اُسے پرندوں کے شکار کا شوق تھا

اور اُس کا نشانہ کبھی نہیں چُوکتا تھا

مَیں جنم جنم کا اناڑی

جیسے ہی غلیل کی تانتیں کھینچتا

دستی کی لکڑی،تانت کا ربڑ اور چمڑے کا چلّہ

مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیتے

میرا نشانہ خطا ہو جاتا۔

مَیں بھی کیا کرتا

غلیل کی لکڑی جس شیشم سے بنی ہوتی

وہ غلیل سے نکل کر

میرے سامنے آ کھڑا ہوتا

اور اُن لوگوں کا تذکرہ چھیڑ دیتا

جو جھلستی دوپہروں میں

اُس کی چھاؤں سے فیض یاب ہوئے

مگر اُنھی میں سے کِسی نے

ایک دِن اُسے کاٹ ڈالا!

غلیل کی تانت کا ربڑ

میری انگلی تھام کر مجھے اُن جنگلوں میں لے جاتا

جہاں فطرت

اپنے تمام تر حُسن اور ہیبت کے ساتھ جلوہ گر رہتی ہے

مگر ربڑ کے درختوں کا رس جمع کرنے والے

مزدُور کے تن کی واحد لنگوٹی

چیخ چیخ کر

موسموں کی سماعت میں

خراشیں ڈالتی رہتی ہے۔

غلیل کے چلّے کو

چھُوتے ہی میرے ہاتھ

 خوف سے لرزنے لگتے

چمڑے کا وہ ٹکڑا

کسی ایسے جانور کی کھال کے بجائے

جس کا گوشت کھایا جاتا

اور جس کے چمڑے سے

فوجی بوٹ اور کوڑے بنائے جاتے ہیں

مجھے اپنی کھال کا کوئی حصّہ لگتا!

جوان ہو کر میرا دوست

بَلا کا نشانچی نکلا

غلیل کے چھُوٹتے ہی رائفل اور پستول

اُس کے ہاتھوں میں اپنا جادو جگانے لگے

وہ جدھر نکلتا

انسان اور پرندے سہم کر

اُس کی راہ چھوڑ دیتے۔

مَیں اپنے خواب زدہ دُکھوں کا امین تھا

زندگی کے کھیل میں بھی اناڑی کا اناڑی ہی رہا

اپنے خوابوں کی ممکنہ ہزیمت کے امکان نے

مجھے فطرت کی راہ دِکھائی۔

دِن بھر چرندوں اور پرندوں کی سنگت میں

جل پریوں کے دریائی گیتوں سے گونجتی لہروں

خنک چشموں میں رقصاں

رنگین مچھلیوں کی قوسِ قزح اور روشن پانی کے لمس سے نِکھرے

اپنے وُجُود کو لیے سرِ شام جب

کوہستانی جنگل میں روپوش اپنی کٹیا میں لوٹتا

تو اُس فردا کے خواب بُنتا

جس کے زعفرانی سُورج کی نرم دھُوپ میں

زندگی کے تمام رنگ سبھی کے لیے کھِلے ہوں گے۔

کل برسوں کے بعد

جنگل میں در آنے والے سپاہیوں نے

میری  کٹیا کو غیر قانونی قرار دے کر ڈھا دیا

اور کٹیا  کے دروازے پر میرا انتظار کرتے

میرے ہم نفس ہرنوں کو مار ڈالا!

مَیں نے ڈُوبتے لہجے میں پوچھا

ایسا کیوں ؟

دِکھانے والے نے مجھے سرکاری فرمان دِکھایا

جس پر نئے حاکمِ اعلیٰ کے نام کی  مہر ثبت تھی

ریاست کا نیا حاکم

میرے بچپن کا وہی دوست تھا!

٭٭٭

 

نیلام گھر میں ڈُوبتا دِن

کرسٹیز۱؎ کے آرام دہ سوفے میں دھنسا

مَیں انمول اشیا کی نیلامی کا تماشا دیکھ رہا ہُوں۔

میرے برابر والے سوفے پر ابھی

ایک ماں نے اپنے شیر خوار بچے کے

گالوں پر بوسہ دیا ہے

اور میری داہنی طرف بیٹھا ایک نوجوان جوڑا

گاہے گاہے

ایک دُوسرے کے لبوں کو چُوم لیتا ہے!

میرے سامنے اشیا کے نمبر لکھے ہیں

اور نیلامی جاری ہے!

اِس نیلام گھر میں

جہاں سب کی رسائی ممکن نہیں

فان گوگ کے اُس کان کی قیمت کیا ہوگی؟

جسے اُس نے ایک جھٹکے سے کا ٹ کر

اپنی محبوبہ کو بطور تحفہ دیا!

حاتم کے سُرین کا وہ گوشت

جسے خلقِ اللہ کی ہمدردی میں

خود اُتار کر

اُس نے بھیڑیئے کی بھوک مٹائی

یا پھِر مہینوال کی ران کا وہ ٹکڑا

جسے اُس نے اپنے عشق پر گواہ کِیا

کتنے پاؤنڈز اور ڈالروں میں فروخت ہو سکتا ہے؟

 ڈھلتی ہوئی نرم دھُوپ

اور عمارت کے باہر پھیلے

یہ چھدرے سایے

جو اپنی ہر جنبش سے

دیواروں پر تصویریں بناتے

اور راستوں پر عجب نام لکھتے ہیں

کیا ایک دِن

یہ بھی نیلام ہوں گے؟

اور کیا اِن کی کوئی قیمت لگ سکے گی؟

سامنے ڈائس پر نیلامی جاری ہے

تین بار ڈائس پر ہتھوڑی مار کر

آخری بولی کی تصدیق کی جا چُکی ہے

مَیں وقت کے آخری زینے پر رکھے

پھُول سمیٹ رہا ہُوں

اور نیلام گھر سے باہر کھُلتے دروازے پر

بچے کی معصوم کِلکاریاں گونج رہی ہیں !

٭٭٭

_________________________________________________________________

1:۔CHRISTIES یورپ کا ایک مشہور نیلام گھر ہے۔

میلے کپڑوں کی گٹھڑ ی

مَیں عہدِ قدیم کا وہ عالی دماغ ،درویش شہزادہ ہُوں

جس کے بدبُو دار جسم پر ریشمی چیتھڑے جھُول رہے ہیں۔

میری سلطنت دُشمنوں کے قبضے میں ہے

اور مَیں اپنے میلے کپڑوں کی گٹھڑی کا تکیہ لگائے

یہاں بیٹھا ہُوں !

یہ گٹھڑی بہت بھاری ہے

اگر اپنے بوڑھے اور کمزور شانوں پر اُٹھا کر

مَیں اِسے لے بھی چلوں

ایسی کوئی لانڈری کہِیں موجود نہیں

جس میں یہ کپڑے دھُل سکیں۔

اِس گٹھڑی کا سامان

 ایک مِٹی ہوئی تہذیب کے غُبار سے آلودہ ہے

تم سچ کہتے ہو

میلے کپڑوں کی گٹھڑی سے تکیہ لگائے

نئی سماج سے کٹا ہُوا کوئی ایسا آدمی

جس کے بدن پر چیتھڑے جھُول رہے ہوں

خواہ وہ ریشمی ہی کیوں نہ ہوں

کسی بھی تہذیب کا حصّہ کیسے بن سکتا ہے؟

دیکھو!

شہزادے اپنے کپڑے خود نہیں دھویا کرتے

پھِر بھی مَیں نئی دنیا کا حصّہ بن سکتا ہُوں

مگر پہلے مجھے وہ لانڈری دِکھاؤ

جہاں مَیں کِسی طرح اِنھیں دھو سکوں !

٭٭٭

 

علی بابا بُہت خوش ہے

شہر میں دبیز دھُند پھیلی ہوئی تھی

اور گلیوں میں تیز ہَوَا چل رہی تھی۔

ہمیشہ کی طرح کل پھر

میری جیب خالی تھی

مَیں نے سوچا

مجھے علی بابا سے مِلنا چاہیے!

مَیں سُنسان سڑکوں سے گذر کر

اُس کے گھر پہنچا

وہ خلافِ معمول بہُت خوش تھا

علی بابا !

تم سدا آباد و خوشحال رہو

میری جیب خالی ہے!

تم ایک خزانے کے مالک ہو

میری کچھ مدد کرو۔

شش!علی بابا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا

کون سا خزانہ؟

مَیں کِسی خزانے کا مالک نہیں

جہاں گھروں کے چُولھے ٹھنڈے رہتے ہوں

اور کنواریوں کا کنوار پن اُن کے لیے ایک طعنہ ہو

انسانوں کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک  نچڑ رہا ہو

اور محراب و منبر سے خطبوں میں

موت کی خیرات بٹتی ہو

وہاں خزانے نہیں موت ہوتی ہے!

تم دیکھتے نہیں ؟

چالیس چوروں کی اولادوں کے کتّے بھی

زرنگار مسہریوں پر سوتے ہیں

عیّاشیوں کے اصطبل میں

گھٹیا نسل کے خچر ہنہنا رہے ہیں

اُن کے عیّار سواروں کے جڑاؤ خنجر

دُشمنوں کے بجائے

اپنوں کے سینوں میں اُترتے ہیں !

تخت نشینوں کا رزق سمندر پار بنے

دولت کے اُن گوداموں سے آتا ہے

جنھیں یہ سیاسی بھکاری

اپنی مٹّی اور اپنی رعایا کو بیچ کر بھرتے ہیں

اور اِن کے مرنے کے بعد وہ دولت

اغیار کی معیشت کی رگوں میں

زندگی بن کر دوڑنے لگتی ہے۔

لُٹیروں کے اِس شہر میں

میرے پاس جو خزانہ تھا

اُس میں سونے کی اشرفیاں ہی نہیں

شرافت و حیا کے لعل و گوہر

برداشت اور رواداری کے یاقوت و الماس

اور اپنے ہم جنسوں کے احترام کی لَو دیتے

سچّے موتی بھی تھے!

وہ خزانہ جن بے نوا لوگوں کی امانت تھا

اُنھیں نہایت سفّاکی سے قتل کر دیا گیا!

ایسے میں جب کہ ہر طرف

گِدھ منڈلا رہے ہیں

مَیں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہُوں ؟

اپنی جان کی خیر مناؤ

اور مجھے مبارک دو

کہ مَیں اُس خزانے کے در کھولنے کا

اسم بھول گیا ہُوں !

٭٭٭

 

دُوسرا آدمی

 (۱)

بچپن میں سُنی ہوئی داستانیں

اگر انسان کے لا  شُعُور میں رچ بس جائیں

خواب اور حقیقت کے مابین

ساری عُمر ایک پُل بناتی رہتی ہیں !

ایسا پُل

جس پر قدم رکھتے ہی زمانے بدل جاتے ہیں

مگر پھسلنے والوں پر بیتنے والی قیامت کی

کسی کو خبر تک نہیں ہوتی!

وقت کے پاتال میں اُترتی سیڑھیوں کے

آخری تیموری زینے پر کھڑا وہ بھی

ایک چیونٹی کو دانہ اٹھائے

دیوار پر چڑھتے دیکھ رہا تھا!

وہ بار بار پھسل کر گِر رہی تھی

اور وہ ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی

ایک کھوئی ہوئی سلطنت کے غم میں مبتلا

چیونٹی پر نظریں جمائے سوچ رہا تھا

کیا وہ کبھی اُس بلندی کو سر کر سکے گی؟

اُس وقت بھی

اُس کی متجسس اور حیرت زدہ آنکھیں

چیونٹی ہی پر جمی ہوئی تھیں

جب پاتال چیونٹی کے فاتحانہ قہقہوں سے گونج اُٹھا تھا!

 (۲)

میرے ساتھیوں نے اپنی عزّت و آزادی کو رہن رکھنے

یا اُس کا سودا کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دی

وہ سب کے سب اُن ثمر بار مہکتے ہوئے باغوں میں

جن کے پھل شاخوں سے اُترنے کے لیے تیّار تھے

اِنتہائی بے جگری سے لڑتے ہوئے مارے گئے

سِوائے ایک آدمی کے

جو دُوسرا آدمی تھا!

اور اَمن و مصلحت کی آڑ میں عزّت و آزادی سمیت

اپنا سب کچھ رہن رکھ سکتا تھا!

 (۳)

میرا بدن زخموں سے  چور  چور تھا

اور مجھ پر دشمنوں کی تلواریں بارش کی طرح برس رہی تھیں

جب میرے عقب میں بہتے دریا کے کنارے سے

میرے گھوڑے نے ایک جست بھری

اور مجھے اپنے دانتوں سے پکڑ کر ہَوَا ہو گیا

کتنے ہی تیر اُس کے بدن میں پیوست ہو چکے تھے

لیکن اپنی سانسیں ٹُوٹنے سے پیشتر

اُس نے مجھے ایک جھٹکے سے اِس طرف اُچھال دیا

جہاں روح میں ٹیس اور جسم کی چیخ

انسان کی تیمار داری کرتی ہے!

 (۴)

وقت کے پاتال کے کِسی زینے پر کھڑا

وہ دُوسرا آدمی کون ہے؟

آج کوئی چیونٹی کِسی دیوار پر چڑھنے کی کوشش نہیں کر رہی

مگر پاتال… اُس آدمی کے ہذیانی قہقہوں سے گونج رہا ہے!

٭٭٭

 

نئی کہانی

جہاں ستارۂ  صبح اور سُورج کی ملاقات طے تھی

آج شاہی محل کا رنگ مسلسل بدل رہا ہے

اور دشتِ طلسمات سے لَوٹنے والے سپاہی

دیوانِ خاص میں باریابی کے منتظر ہیں !

شہزادی اپنی خواب گاہ میں

ایک اور قوی ہیکل غلام کو قتل کر کے

ابھی حمّام میں اپنے ہاتھ دھو رہی ہے!

باہر راج محل کے دروازے پر سفید ہرنوں کی قطار

اپنے جسموں میں ٹُوٹے ہوئے تیر لیے

زندہ مجسّموں کے مانند اِستادہ ہے

اور شہزادی اپنے سارے منتر بھُول چُکی ہے

 اُس کے ہاتھوں سے تازہ خون کے دھبّے نہیں چھُوٹ رہے!

محل کے صدر دروازے پر رکھی ہوئی نوبت

کِس نے بجائی تھی کہ اُس کی آواز

سہمی ہوئی سیلن زدہ غلام گردشوں میں

جہاں خنجر چمکتے اور مشعلیں دفعتاً  بجھ جاتی ہیں

جذب ہونے کے لیے کِسی کونے کی تلاش میں ہے!

جس گھاٹ پر شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے ہوں

دشتِ طلسمات سے بچ کر لَوٹنے والے کچھ سپاہی

ایک ناقابلِ یقین اور دہشت انگیز خبر لائے ہیں

سفید ہرنوں کے سبھی شکاریوں کی صورت ایک ہی تھی

ہو بہو شہزادی جیسی

ہرنوں کی فریاد پر اُنھیں بھیجنے والی!

راج محل کے دروازے پر

سفید ہرنوں کی داد خواہ قطار

اور دیوانِ  خاص میں حواس باختہ سپاہی

کب سے شہزادی کے

شاہی حمّام سے نکلنے کے منتظر ہیں

مگر شہزادی کے خون سے لتھڑے ہوئے

مرتعش ہاتھوں کی چمک بتا رہی ہے

کہ اب

ستارۂ  صبح اور سُورج کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں !

٭٭٭

 

زندہ رنگوں کی مابعد الطبیعیات

مَیں نے آج

ایک پر شکستہ تتلی کو دیکھا

جو اپنے پھُولوں سے بچھڑ گئی تھی!

اُس کے بدن پر

موسم کی تیز دھاروں کے نشان

گدلی فضا میں رواں

نقرئی لہروں کی طرح

چمک رہے تھے!

وہ شاید مر چُکی تھی

مگر اُس کے مقتول خوابوں کے رنگ

ابھی تک

اُسی طرح

کھُلے میدان کی ہتھیلی پر

آسمان کے کسی آنسُو کے مانند پھیلے

دمک رہے تھے!

٭٭٭

 

دوپہر کے راستے میں

مَیں صبح سکول جانے سے پہلے

اپنے بچپن کی جس دوپہر کو

گھر کی الماری میں بند کرنا بھُول گیا

وہ تنگ گلی میں کھُلتی کھِڑکی سے

موقع پاتے ہی

جست بھر کر فرار ہو گئی!

امرودوں کے باغ میں

بوسیدہ کھاٹ پر

اونگھتے پہریدار کی نظریں بچا کر

اُس نے کچے پکے امرود چُرا کر

اپنی جھولی میں بھر لیے

اور ابھی تک کسی شیشم کے پیڑ تلے

ٹھنڈے پانی کے کنویں کی مُنڈِیر پر بیٹھی

وہ اپنے پاؤں جھُلا رہی ہے

سکول کے مانوس راستے

میرے لیے نہیں تھے

مَیں راستہ بھٹک گیا

بے اماں اور حواس باختہ لمحوں کے گھیر ے میں

بھُوک، پیاس اور تھکن کے نرغے میں

ایک سہمی ہوئی حیرت میں گُم

میری پٹ پٹاتی ہوئی آنکھیں

دھُندلا چُکی ہیں !

شام کی بجتی ہوئی گھنٹی

مَیں نے بھی سُن لی ہے

مَیں بھی گھر لَوٹنا چاہتا ہُوں

مگر میرے اور میرے گھر کے درمیان

دوپہر کا خلا ہے

جسے عبور کرنے کا

کوئی محفوظ راستہ نہیں !

٭٭٭

 

سمن آرڈر

دیس میں کماد کے کھیت

اُس کی عیّاشی کی آماجگاہ تھے

اور پردیس میں

وہ معمر لوگوں سے بد فعلی کر کے

اپنا رزق کماتا تھا!

اُس کے خلاف استغاثہ بہت مضبوط ہے

کہ اپنی چھوٹی بہن کو

کماد کے کھیت میں چھِپ کر

بدکاری کرنے کے الزام میں

اُس نے قتل کر دیا!

عدالت

کوئی فیصلہ دینے سے پہلے

کماد کے  جھنڈ کو

گواہی کے لیے طلب کرنا چاہتی ہے!

٭٭٭

 

فالسے چُنتے ہوئے ایک سانحہ

فالسے کے پودے میرے قد کے برابر تھے

اور اُن کی جڑوں میں سانپ کا بسیرا تھا!

کوئی گیارہ برس کی عُمر تھی میری

جب

فالسے چُنتے ہوئے

میری نظر

شام کی شفق میں نہاتے

ایک گوہرِ شب تاب پر پڑی

اور میرا بچپن

اپنی ساری معصومیت کے ساتھ لرز اُٹھا!

شاید وہ لمحہ

کسی دُم دار ستارے کے

طلوع کا لمحہ تھا

جس کے دمکتے ہی

سانپ نے مجھے ڈس لیا!

٭٭٭

 

ہانکا

ہانپتی ہوئی عُمر کا تعاقب اگر شکاری کتّے کرنے لگیں

اور خوف زدہ سانسوں پر اوہام کے پہرے بٹھا دیے جائیں

تو جنگل میں بھیڑیوں کی تعداد

شیروں سے بڑھ جاتی ہے!

کافوری مہک میں لپٹی خواہشوں کے جنگل میں

بدلتے موسموں کی چیخیں گونج رہی ہیں

درخت  بین کر رہے ہیں

اور اُن کی برہنہ شاخوں تلے

موت گھات لگائے

اُن مسافروں کی منتظر ہے

جن کی سانسیں اُکھڑ چُکی ہیں !

وہ شکاری کُتّوں کے ہانکے پر

بھیڑیوں کے کھینچے ہوئے

دائرے کی طرف

مسلسل بھاگ رہے ہیں

ڈھول اور ٹن پیٹنے والوں کی دیوانگی

ہوش و فہم کی جڑیں کھود چُکی ہے

اور ہانکے کے شور میں

بھیڑیوں کا گھیرا

ہر لمحہ تنگ سے تنگ تر

ہوتا جا رہا ہے!

٭٭٭

 

بے بس سفّاک

میرے پاس وقت بہت کم ہے

اور راستے کے سینے پر

سبز و زرد پتّے بچھے ہوئے ہیں

افسوس!

بِلا تخصیص

اُنھیں روند کر

مجھے اپنی منزل تک پہنچنا ہے!

٭٭٭

 

تاوان

کچھوے کا خول اُس کی ڈھال ہوتا ہے

اِسی لیے کچھوے کی عُمر طویل ہوتی ہے!

وہ خواب نہیں دیکھتا

 اُسے وقت کا پہیّا گھمانے کی بھی

کوئی خواہش نہیں ہوتی

سُست گام وقت اُس پر مہربان ہوتا ہے

اور اُس کی آنکھیں

زندگی کی چمک سے کبھی خالی نہیں رہتیں !

ہماری آنکھوں میں سرسوں پھولتی ہے

اور ہمارے لہُو کی گردش

وقت کی گردش کو مات دینے کی ضد میں

ہمیں بے دریغ خرچ کرتی ہے!

وقت کے پہیّے کو روکنے کی گنجایش

کتنی ہو سکتی ہے؟

اگر ہمارے پاس ہمارے خوابوں کے سِوا

کوئی ڈھال نہ ہو!

ہم وقت کی گردش کو

اپنے نحیف خوابوں سے روکنے کی کوشش میں

اُس کے پہیّے سے لٹکے رہتے ہیں

اور وہ ہمیں اپنی بے پناہ قوّت سے

کہِیں دُور اُچھال دیتا ہے!

وقت کے پہیّے کی

روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار گردش

ہمارے خوابوں کی ہر لہر کا تاوان

ہماری عُمر سے وُصُول کرتی ہے!

ہم نڈھال لوگ

جن  کے خواب ہی اُن کی ڈھال

اور اُن کی موت ہوتے ہیں

ہمارا نصف ہسپتال کا

اور باقی نصف اُس شاہراہ کا رزق بنتا ہے

جس پر چلنے کی ہم میں استطاعت نہیں ہوتی!

ہم اپنے خوابوں میں ملبوس

تاریک راستوں کے سفر میں

ستاروں کے فرش پر چلنا جانتے ہیں

مگر ہمارے لیے

کسی صبح کا کوئی زعفرانی سورج نہیں

تُند ہَوَا کا ایک معمولی جھونکا

ایک جھٹکے سے

ہمارے پیرہن تار تار کر سکتا ہے

خواب………

کچھوے کا خول نہیں ہوتے!

٭٭٭

 

بچھڑی ہوئی صبح کی تلاش میں

مَیں اپنے سُورج کی کھوج میں ایک دِن

پتھروں سے پھوٹتی خوشبو کی لکیر پر چلتا

اُس غار میں آ پہنچا

جس کی دیواروں پر خلائی کیپسول نقش تھے

فرش پر ریل کی ٹوٹی ہوئی پٹڑیاں بچھی تھیں

غرق شُدہ بحری جہازوں کے بادبانوں کے چیتھڑے

شکستہ خوابوں کی طرح بِکھرے ہوئے تھے

اور کِرم خوردہ ڈھانچوں کی ایک قطار

اپنی کھوپڑیوں پر ملّاحوں کی ٹوپیاں سجائے

گمشدہ سمُندروں کے گیت گا رہی تھی!

یکا یک میری آنکھیں اپنے حلقے چھوڑ کر اُس طرف لپکیں

جہاں غار میں موجود سبز پانی کے چشمے کے کناروں پر

اُس سُورج کی دھُوپ جمی تھی

جس کے نکلنے کا مَیں واحد گواہ تھا!

شدّتِ کرب میں میری تشنج زدہ اُنگلیوں نے

یونہی وہ دھُوپ کھُرچنے کی کوشش کی

تو روشنی کے ایک جھماکے سے ٹکرا کر

میرے سارے وُجُود نے مجھے چھوڑ دیا

اور وہ سُورج

مَیں جس کے نکلنے کا واحد گواہ تھا

نجانے کہاں سے اُبھر کے مجھ پر قہقہہ، برسانے لگا!

پتھروں سے پھوٹتی خوشبو کی لکیر

مجھے یہ کیسے غار میں لے آئی تھی

جہاں کچھ جاننے کی کوشش

اُس دھُوپ کے سامنے بے بس تھی

جس کی خیرگی میں تاریخ کی سبھی کہانیاں گنگ تھیں

اور سبز پانی کے چشمے کے کنارے پر پڑی ہوئی میری آنکھیں

دھڑا دھڑ جل رہی تھیں !

٭٭٭

 

دعوتِ گناہ

پکّے ہوئے پھلوں کی رنگت

شہوت کے شانوں پر پڑی ہوئی

پیلی چادر کی طرح ہوتی ہے

اور یہ پھل برہنہ بدن کے حمّام میں

غسل میں وقفے کے دوران

خوشبودار قہوے کی  چسکیاں لیتے ہوئے

کھائے جاتے ہیں !

میرے غسل کے لمحے اُس اشتہا سے نا آشنا ہیں

جب جذبات کے قحبہ خانے میں

لہو میں جاگتی وحشت کے روبرو

دنیا کی نظروں سے چھِپ کر

کسی دُکّان کے عقبی فرش پر

کسی ٹرک کے بند فریم میں

کِسی کمسن لڑکے سے بدکاری کی جائے

کِسی معصوم بچی کے کچّے بدن میں

بربریّت کی جلتی سلاخ اُترے

اور شام کی کوکھ سے وہ گناہ جنم لے

جو زندگی کرنے کا ہر راستہ نگل جائے!

تُم جو طشتری میں

 خوشبودار رسیلے پھل لیے

محبت کے حمّام کے دروازے پر

آنکھیں چُرائے کھڑی ہو

اِس کے کھُلے دروازے سے

بِلا کھٹکے اندر آؤ

ابھی قہوے کی دونوں پیالیاں بھری ہوئی ہیں

شاید تمھیں علم نہیں

 اِس حمّام میں کوئی غسل کبھی مکمل نہیں ہوتا

لیکن زندگی کرنے کے

سبھی رستے یہیں سے نکلتے ہیں !

٭٭٭

 

خود کلام ساعتوں کی پہیلی

ہَوَا کو چلنا ہے

کوئی اُسے دیکھے نہ دیکھے

وہ خود کو محسوس کروا لیتی ہے

موسم نظر نہیں آتے

رنگ اور خوشبو

 اُن کی آمد کی خبر دیتے ہیں !

جب بادل برستے ہیں

بند گھروں کے آنگن میں

گِرتی ہوئی بارش کی رِم جھم

جلترنگ بجاتی ہے

اور ملار کے سُر

ساری دیواریں توڑ دیتے ہیں !

دریا کی طغیانی

اُس کے بے خبر کناروں کو بہا کر لے جاتی ہے

اور روشنی تیرگی کے باندھے ہوئے بند

اپنی ایک ٹھوکر سے بکھیر سکتی ہے

آنکھیں بند کر لینے سے

خوابو ں کے راستے نہیں رُکتے!

اگر تم میری نظم پڑھنا نہیں چاہتے

تو ورق اُلٹ دو

لیکن اگر یہ نظم کسی دِن تمھارے وُجُود سے پھُوٹی

تب تم کیا کرو گے؟

٭٭٭

 

عروجِ آدم

پھر سمندر کی لہروں پر آگ بچھا دی گئی

اور زمین کو صحائف کی طرح بھُلا دیا گیا

کُہریلی فضا سے

 خلا نوردوں کے قافلے گذرنے لگے

اور کیپسولوں کی ہتھیلیوں پر

چاند کا پوسٹ مارٹم ہُوا!

یہ کیسی تجرِبہ گاہیں تھیں

جن میں محبت کا کوئی پھُول

اُمید کا کوئی جگنو

زندگی کا کوئی گیت

اور باہر درختوں پر بیٹھا کوئی نیل کنٹھ نہیں تھا

سُنسان اجسام کے خلا میں

صِرف

خود کار مشینوں کی گڑگڑاہٹ تھی!

٭٭٭

 

درختوں سے گِرتے ایک منظر کو سنبھالتے ہوئے

کوئی بھی منظر آنکھوں میں

خارش کرنے کا باعث ہو سکتا ہے

فضا میں اُڑتے

اور زمین پر گرتے زرد پتّوں کی طرح!

موت کے روبرو کوئی منطق کام نہیں آتی

زرد پتّوں کو شاخ سے اُترنے کے لیے

صِرف ایک بہانے کی ضرورت ہوتی ہے

وہ موسم یا ہَوَا کے جھونکے کا انتظار نہیں کرتے!

ہر شاخچے پر اُگے پتّے

ایک خاندان کا حصّہ ہوتے ہیں

ایک دُوسرے کے دُکھ سکھ کے ساتھی

اِس کے باوجود کوئی شاخ کسی پتّے کو

زرد ہونے سے نہیں روک سکتی

سبز زرد کے سامنے کوئی دیوار

کھڑی نہیں کر سکتا

زردی

جو پتّے کے اپنے اندر کہِیں ہوتی ہے!

ہم جو سفّاک لمحوں کے سُرمئی سبز میں رہنے کے عادی ہیں

ہم اپنے اندر کے زرد سے غافل ہیں

اور وہ جب پھُولنے لگے

آدمی کسی عُمر میں بھی خود کُشی کر سکتا ہے!

٭٭٭

 

خوابوں کی ورک شاپ میں

سورج ملگجی سفید چادر اوڑھ کر

بینائی کو میسّر اُفق پر

 سر نیہوڑائے اکڑوں بیٹھا ہے

سمُندر پر دبیز دھُند کی حکمرانی ہے!

سُورج کی تحویل میں کوئی سمت کوئی راستہ نہیں

اُس کی کرنیں ہر طرف بکھرتی ہیں

مگر سمت نہیں بتا سکتیں !

 قطبی ستارے اور سمُندر کا درد کون سمجھ سکتا ہے؟

جب کشتیاں سمُندر میں اُتر جائیں

وہ کچھ اور پھیل جاتا ہے

 اُس کی وسعت کی خاموشی کشتیوں پر بوجھ بن جاتی ہے

شام کے جھٹپٹے اور رات کے بہاؤ میں

قطبی ستارے کے آسمان پر ہونے کے باوُجُود

کِسی بے سمت منزل کے طلسمی در نہیں کھُلتے

سورج اُنھیں راہ نہیں دِکھا سکتا

ہَوَا ہر سمت سے اُن کی بے بسی پر قہقہے لگاتی ہے!

سُورج اپنی آنکھیں پٹ پٹاتے ہوئے

ایک طنزیہ ہنسی ہنس کر ہَوَا سے کہتا ہے

تم بھی کشتیوں کے بادبانوں کو

قوّتِ رفتار فراہم کرنے کے سِوا اور کیا کر سکتی ہو؟

کشتیاں تو سمت نُما کی سوئی پر چل کر اپنی راہ تلاش کرتی ہیں

مَیں ،تم اور قطبی ستارہ تو بس اُن کے ساتھی ہیں !

سُورج اور ہَوَا کے اِس مکالمے میں

میرا کہِیں ذِکر نہیں

اور مَیں اُن کے مکالمے میں گُم

دِن کے عرشے پر کھڑا سوچ رہا ہُوں

جس طرح مچھلیاں گہرے پانی میں دفن گپھاؤں میں

پرندے انجان فضاؤ ں میں

اپنی منزل کی سمت تلاش کر لیتے ہیں

چیونٹی اور شہد کی مکھّی

اپنے بِل اور چھتّے کی راہ نہیں بھُولتیں

جنگلوں کے ہرن اپنے محفوظ مقام کی خبر رکھتے ہیں

اپنے سمت نُما کی سوئیوں پر چلتی

سمُندر میں تیرتی کشتیاں

اپنی منزل تک پہنچ ہی جاتی ہیں !

ہم سب میں بھی

 ہر ایک کے اندر ایک سمت نُما ہوتا ہے

جس کی سوئی ہر موسم میں لرزتی رہتی ہے

مگر ایسا کیوں ہے کہ جب

کسی تُند لمحے کی زد میں

 سمت نُما کی سُوئی ہر سمت کے در وا کر سکتی ہے

ہم اُسے سمت نُما سے نکال کر

اپنے خوابوں کی ورک شاپ میں

اُسی کو اکثر

 اپنے راستے کی دیوار بنا لیتے ہیں !

٭٭٭

 

برسوں سے ملتوی ایک سوال

خلا باز!

 جب تم نے

 اپنی جان داو پر لگائی

اور خلا کی وسعت میں ہچکولے لیتے

چاند کے جزیرے سے

زمین پر بہتے دریائے نیل کو

کینوس پر کھینچے گئے ایک محکم خط کی طرح دیکھا

تمھاری مسحور آنکھوں میں روشنی کا رنگ کیا تھا؟

تمھارے وُجُود سے باہر جو دیوار تھی

تم نے اُس پر کہاں کھڑے ہو کر

زمیں کے محض ایک سچ پر

اپنی بینائی کی   مہرِ تصدیق ثبت کی؟

خلا باز!

چاندپر اُترنے سے پہلے

اگر مجھے تم کہِیں ملتے

مَیں تمھیں ایک اُدھڑے ہوئے

 بوسیدہ نقشے کا منظر دِکھاتا

جس میں اُبھرے ہوئے جزیروں کے گِرد گہرے پانی کی کھائیوں

اور ڈُوبے ہوئے اُن خزانہ بردار جہازوں کے مقامات پر نشان ہوتے

جن کے کپتان اور ملّاح

اپنے اندر کے سچ کا شکار ہو گئے!

اُس نقشے میں جنگل کا رنگ کافوری ہے اور شہر کا سُرمئی

اُس میں ہرنوں کی لاشوں پر بیٹھ کر

سبز  جھیلوں کے متلاشی پرندے

تمھیں ایسے گیت گاتے دکھائی دیتے

جن کے بول بھُوک اور موت کی وادی میں لکھے جاتے ہیں !

نجانے تم اُس وقت کیا کہتے؟

جب سُرمئی شہروں کے بیچوں بیچ سیاہ زمین میں گڑی

کسی کُرسی میں دھنسا ایک بے چہرہ شخص

تمھاری اُنگلیوں کا لمس محسوس کر تے ہی تم سے پو چھتا

تم کون ہو اور مَیں کِس نقشے میں دفن ہُوں ؟

میرے اندر کے سچ نے میرا چہرہ نگل لیا ہے

اور میرے وُجُود کے دونوں طرف

 اَن کہی سچا ئیوں کے ڈھیر لگے ہیں

مَیں اُنھیں چھُونے کی کوشش میں توازن کھو چکا ہُوں

کیا تم اُنھیں چھُو سکتے ہو؟

خلا باز!

اگر تم وہ نقشہ دیکھ کر چاند سے

زمین پر بہتے ہوئے نیل کو دیکھتے

تو صِرف اُسے ہی کیوں دیکھتے؟

اِسی لیے تو پوچھ رہا ہُوں کہ اُس دم

تمھاری مسحور آنکھوں میں

روشنی کا رنگ کیا تھا؟

٭٭٭

 

گمشدہ سماعتوں کے   میلے دستانوں کی لانڈری میں

موت کی کنسرٹ میں بھُوکی خواہشوں کی نشست کہاں ہے؟

پرندے اُڑان بھر چکے ہیں

اور انگوروں کے خوشے

بیضوی دائروں میں اپنے دسترخوان  بچھائے اُن کے منتظر ہیں !

آٹھویں سمت کے مسافر، تم اُس طرف مت جانا

تمھاری بھُوک تمھاری اشتہا سے بڑھ کر ہے

اور انگوروں کے خوشوں میں

موت۔ زندگی کا وائلن بجا رہی ہے!

اُس کے بدن کی لَو سے انگوروں کے خوشے دمک رہے ہیں

اور غبارے کی طرح پھُولتی دیواریں

انگور کی بیلوں میں وحشی کشش کے طِلِسم میں لپٹی

پرندوں کو صدا دے رہی ہیں !

زندگی کے وائلن کے نغمے

وقت کی برف کے ہاتھ پر جمے موم میں منجمد ہو کر نہیں پگھلے

ان کی سانسیں بیضوی دائروں میں اُلجھی ہوئی ہیں

اور پرندے جن دیواروں پر اُتریں گے

وہ غُباروں کی طرح پھُولی ہوئی ہیں

اُن پر سُرخ سُورج اور سبز چاند کی ہتھیلیوں کے نشان

آنے والوں کی تقدیر لکھ چکے ہیں !

آٹھویں سمت کے مُسافر! یہ بیضوی دائروں کا طِلِسم ہے

جس کی طرف پرندے اپنی اُڑان میں ہیں

تمھاری بھُوک تمھاری اِشتہا سے بڑھ کر ہے

اور وہاں انگوروں کے خوشوں میں موت چھِپ کر زندگی کا وائلن بجا رہی ہے!

٭٭٭

 

لاشوں کے کارنیوال میں زندہ آنکھوں کا عذاب

لاشوں کے کارنیوال کے راستے میں

فاختائیں پر نہیں  بچھاتیں

اور کبُو تر دانے نہیں چگتے

صِرف مسرّت آمیز کریہہ، چیخیں گونجتی ہیں !

مسخ شُدہ ڈھانچے پُر اسرار نقابوں میں

مضحکہ خیز رنگ برنگے کپڑوں میں

خبر نہیں کیسا جشن مناتے ہیں ؟

کِسی نئے قبرستان میں جگہ ملنے کا

یا کِسی پُرانے قبرستان کی آرایش کا

جہاں قبروں کی مٹّی برابر کر کے

مر مریں کتبوں کے حروف

دُرُست کر دیے جاتے ہیں !

اُن کے گیتوں کے لفظوں کی سیاہی

کسی صبح کو جنم نہیں لینے دیتی

اور وہ گیت

جن کے لفظ  سنہرے تھے

مُردہ لبوں نے اُن کی ساری روشنی  چوس کر

ٹھہری ہوئی رات کو دوام بخش دِیا ہے

اُن   گیتوں میں ٹُوٹے ہوئے سِتاروں کی گونج ہے

اور سبھی راستے ایک غیر مرئی دھُند سے اٹے ہوئے ہیں !

 میرے فلیٹ کی بالکونی

سڑک پر اُچھلتی شراب سے نہا رہی ہے

اُس شراب سے اُٹھتی

 مُردہ کیڑوں کی سڑاند کی بھبک

کارنیوال کی سر مستی میں اضافہ کر رہی ہے

 میرے کپڑوں میں بھی  کیڑے تِلملانے لگے ہیں

 اور میری آنکھیں

اپنی پُتلیوں سے لپٹتے ہوئے کینچوؤں سے اُلجھی

مجھ سے پوچھ رہی ہیں

اِس کارنیوال کے گذرنے میں ابھی کتنی دیر ہے؟

٭٭٭

 

نئی شاعری کی زُبان

اُس نے کہا

اسرار کی تمام دھُند چھٹ چُکی ہے

ننگے حقائق کے تازیانوں سے آنکھیں لہُولُہان ہیں

اور زندگی سے کائنات کا رابطہ منقطع ہو رہا ہے

جمنا سے راوی تک

پنگھٹ ویران پڑے ہیں

اور دشت کی جگہ شہر نے ہتھیا لی ہے!

مَیں نے آج عذرا کے ناخنوں پر نیل پالش لگتی دیکھی

اُس کے گیسو بیوٹی پارلر میں اپنا رنگ بدل رہے تھے

اور قیس باہر سڑک پر

اپنی بندروں جیسی خواہشوں میں گھِرا ڈگڈگی بجا رہا تھا!

وقت کی ٹرام لمحوں کے ہر سٹاپ پر رُکتی

پُرانے دشت کے اُس موڑ سے گذر رہی ہے

جہاں باطن کے مظہر مختلف تھے

اور مَیں ٹرام میں بیٹھا اُس کے شیشوں سے

قیس کو بندر نچاتے دیکھ رہا ہُوں !

بے معنی آوازوں کے شور میں ہر لفظ مہمل ہو چُکا ہے

زُبانیں اکڑ کر تالو سے جا لگی ہیں

لیکن آنکھوں کی گویائی ابھی باقی ہے!

مَیں کبھی اپنی ناک پر مکھّی نہیں بیٹھنے دیتا

اور اپنے احساس و جذبے کے پر کتر کر اُنھیں مہذّب کر چُکا ہُوں

مَیں اب کانوں کے بجائے ناک سے سنتا ہُوں

اور بولنے کے لیے اپنے لبوں کو مکلّف نہیں سمجھتا

کیوں کہ اب صِرف فضا کا شور بولتا ہے!

میرے ادھُورے اور نئے حقائق سے کٹے پھٹے وُجُود کو

اپنی خواب زدہ دھُند سے باہر نکل کر تکمیل کی سَنَد دو

آخِر تم کب سمجھو گے

کہ چشمِ غزال اور رمِ آہو کب کے فسانۂ  دیروز ہوئے

شاعری کی زبان بدل چُکی ہے

عذرا کے بال سیاہ سے سُرخ ہو چکے ہیں

اور قیس بازار میں کھڑا ڈگڈگی بجا رہا ہے!

٭٭٭

 

بلیک ہول کے نگلنے سے پہلے

راستے اپنی راہ بھٹک چکے تھے

اور اُن کے طول میں گُم

سبز منزلوں نے اپنے اِردگِرد

سیاہ دیواریں اُٹھا لی تھیں

وقت کی بے سمت گردش

اور راہروؤں کے قدموں کی دھمک

زلزلہ آثار ہونے کے باوُجُود

مٹّی کے دِل تک پہنچنے میں

ا پنی ناکامی کا اعلان کر رہی تھیں !

مَیں نے اُسے

خواب کے گہرے پاتال سے آواز دی

وہ خوشبو کی طرح پھیلتی میری نیند میں اُتر گئی

پوچھو!تم کیا پوچھنے کے خواہشمند ہو؟

گُل بکاؤلی کی کھوج میں نکلنے والے

کِسی شہزادے کا نشان نہیں ملتا

اور دُودھ کی نہر کے کنارے

فرہاد کی لاش پڑی ہے

بیستوں سے کوہِ ندا تک کوئی آواز نہیں

صِرف ویرانی ہے

مَیں جن وادیوں کی خبر لائی ہُوں

 اُن میں اپنے پہیّوں سے محروم رتھ،شکستہ  پنجر

ٹُوٹے ہوئے تیر

مُردہ گھوڑوں کی ایالیں ،اُونٹوں کی کھالیں

موت کی خاموشی کی طرح بکھری ہوئی ہیں !

تمھاری آواز بھی تو سر گوشی سے بڑھ کر نہیں

تم یہ سب جان کر کیا کر پاؤ گے؟

کیا تم دیکھتے نہیں !

راستے اپنی راہ بھٹک چکے ہیں

اور اُن کے رہنما ستارے

کِسی بلیک ہول کے منتظر ہیں !

٭٭٭

 

بینائی کا جبر

مَیں باغوں کی کہانی سناتے ہوئے

جس باغ کو بھُول گیا

اُس میں شہد کی مکھیوں کا بسیرا تھا

جن کی اُڑانیں دِن بھر تصویریں بنانے

اور راتیں اُن میں

رنگ بھرنے میں گذرتی تھیں !

ایک دِن باغ دھُوئیں سے بھر گیا

کچھ لوگوں نے شہد کے چھتّے نچوڑ کر

سارا شہد بڑے پیندوں والے

منقّش گھڑوں اور رنگین بوتلوں میں بھر لیا

خالی چھتّوں کے لیے

بوریوں کے مُنہ، کھُل گئے

اور باغ کی دیوار پر

 درختوں کی ادھ کٹی جھُولتی شاخوں نے

لہُو کی دھاریاں ڈال دیں !

شہد کی مکھّیاں

تتلی کے پروں سے چاند تراشنے کی خواہش میں گُم

بچوں کی ہنسی ڈھُونڈنے کسی اور طرف نکل گئیں

یہ سوچے بغیر

کہ بھنوروں کے ہاتھوں میں موم کی قینچیاں

کیا گُل کھِلا سکتی ہیں ؟

 وہ باغ اب موسموں کی بے بسی

اور اپنی بینائی کا جبر سہتا ہے

اور بھنورے

پھولوں کے بدن کترتے

اور ہَوَا کے نقش اُبھارتے رہتے ہیں !!!

٭٭٭

 

کِسی دُور  بین طِلِسم کے رُو بُرو

ایک دن

جب درختوں کے گھونسلوں میں

ستارے جھانک رہے تھے

شہرِ ممنوع میں اُترنے کی خواہش نے

اُن پرندوں کے پر کتر دیے

جو سفید جزیروں سے اُڑ کر

دیوارِ گِریہ کی طرح گونجتی ہوئی فصیلوں پر

درختوں کے دھوکے میں اُتر گئے تھے!

اُن فصیلوں سے پیوست

باہم گلے ملتے  بلند قامت شجر

وقت کے ہاتھوں سے بنے گھونسلوں میں

اپنے اپنے خواب رکھے پرندوں کے منتظر تھے

اُن کی آنکھیں سفید ہو چُکی تھیں

اور فصیلوں پر

کترے ہوئے پروں کے ڈھیر لگ رہے تھے!

سفید جزیروں سے آنے والے پرندوں کو

شہرِ ممنوع کی فصیلوں پر اُترتے ہی

کِسی کی پہلی جھلک نے پتھر کر دیا تھا

سِوائے اُن کے دھڑکتے ہوئے دِلوں کے

جو پتھرا کر بھی پتھر نہ ہو سکے!

سفید جزیروں سے چلنے والی ہَوَا

پرندوں سے ہمکلام ہونا چاہتی ہے

مگر درختوں سے اُدھر

کترے ہوئے پروں میں گھِرے

اُن مجسّموں تک نہیں پہنچتی

جن میں دِل دھڑکنے کے باوُجُود

 کسی لمس کی گویائی سے محروم ہیں

اور شجر دیوارِ گِریہ سی فصیلوں کے سینوں سے لگے

اُس ہَوَا میں بین کرتے ہیں !

سفید جزیروں سے آنے والوں کے رستے

اب ہر اُڑان کے عکس سے خالی ہیں

اور شہرِ ممنوع کے آئینوں میں ایک طِلِسم

آئندگاں کے لیے

فصیل و شجر کی قامتوں کو برابر رکھ کر

ہر رنگ کو بے رنگ کیے جا رہا ہے!

٭٭٭

 

خزاں کی دھُوپ میں

درختوں اور گُلہریوں سے گھِرے

وقت کے سبزہ زار پر بیٹھے ہوئے

مَیں جب بھی اُس کے ہاتھوں میں

چوڑیاں تھمانے کی کوشش کرتا ہُوں

وہ میرے لرزتے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں !

اُس کی کلائیاں

بھری ہونے کے باوُجُود سُونی ہیں

مانگ میں افشاں کے بجائے آنسُو دمکتے ہیں

اور اُس کی آواز میں

وہ گہری اُداسی ہے

جو دو کِناروں پر پُل نہیں باندھنے دیتی!

وہ مجھ سے بہُت باتیں کرتی ہے

مگر کبھی خود سے ہم کلام نہیں ہوتی

کیوں کہ میری انگشتری کے نگیں پر کائی جمی ہے!

اُس کے کنگن

اُس سے جھوٹ بولتے ہیں

اور اُس کی ضدّی آنکھیں

اپنے ہونے کا خراج طلب کرتی ہیں

مگر میرے لبوں کا خراج قبول نہیں کرتیں !

خزاں کے زرد پتّے کِسی نشتر کی طرح

میری آنکھوں میں اپنی نوکیں چبھو رہے ہیں

اُس کی نظروں کے حلقے میں محصور

یہاں سبزہ زار کے پہلو میں بہتے

ایک دریا کے سُرخ ساحل پر کھڑا

مَیں مچلتی ہوئی موجوں کے تموّج سے

جو سوال پوچھتا ہُوں

چیختی ہوئی لہروں سے

ایک ہی جواب اُچھل کر

میرے وُجُود کو   بھگونے لگتا ہے

اُسے چوڑیاں دو

اُسے نئی چوڑیاں دو

اور چوڑیاں ہر بار

میرے لرزتے ہاتھوں سے گِر جاتی ہیں !

٭٭٭

 

 سفر

ہمارے عہد کے راستے میں

ہر قدم پر ایک کھائی ہے

ہم کِسی طرح بھی چلیں

یہ سفر کھائیوں کا سفر ہی کہلائے گا!

ہم پرندے نہیں کہ اُڑ کر

اُن پر سے گذر جائیں

ہم اسپ و اسد نہیں

کہ ایک چھلانگ میں اُنھیں عبور کر جائیں

اور ہمارے پاس الٰہ دِین کا وہ چراغ بھی نہیں

جس کا جن ہمیں اپنی ہتھیلی پر بٹھا کر

یہاں سے وہاں منتقل کر دے!

ہَوَائی جہاز اور غبارے کی بات مت کرو

اُنھیں بنانے کے لیے وسائل

اور اُن میں سفر کرنے کے لیے دولت درکار ہے

ہماری گِرہ میں تو کچھ بھی نہیں

خواب دیکھنے کی عادت کے سِوا!

یہ عادت ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی

ہمارے خوابوں کی کوئی قیمت نہیں

کیوں کہ نادیدہ روحوں کی طرح

جو کِسی بدن میں چھِپ کر رہتی ہیں

وہ کوئی اور ہیں

جن کے خواب کوئی معنی رکھتے ہیں

جن کی طاقت ور طلب کی حریص اُنگلیاں

جب ہمارے پپوٹوں کوچھُوتی ہیں

ہم اپنی مجبور آنکھیں

 اُن کے خواب شرمندۂ  تعبیر کرنے کے لیے

اُن کے حوالے کر دیتے ہیں !

تم جانتے ہو

تم جان سکتے ہو

صِرف خوابوں کے سہارے

کھائیاں نہیں پھلانگی جا سکتیں

اور ہمارے عہد کے راستے میں بھی

کہِیں وہ غار نہیں

جس میں الٰہ دِین کا چراغ ہو

ہر قدم پر ایک کھائی ہے

کوئی کتنا بھی اُن سے بچ کر چلے

کہِیں نہ کہِیں ،کِسی نہ کِسی

کھائی میں گِر سکتا ہے!شادی

مرا بچپن

ایک ہزاروی دوشیزہ کے

دلربا چہرے اور گھنی زلفوں میں اُلجھا رہا

لڑکپن

ایک بنگالی لڑکی کی گہری آنکھوں میں ڈُوب گیا

بنگلہ دیش کی آزادی

مجھے   سحرِ بنگال سے محروم کر گئی

میری روح کے گیت

برہم پترا کی موجوں کے ساتھ بہ، گئے

اور میرا دِل

مچھیروں کے جال میں

کہِیں اٹکا رہ گیا

ہے …شش… اِدھر آؤ

مَیں نے سرگوشی میں اپنی چھوٹی بہن سے کہا

مجھے ماروی بہُت اچھی لگتی ہے

مَیں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہُوں

اُونہ، …وہ تو سندھی ہے

نہیں بھیّا

 ایک پنجابی کی سندھی سے شادی کیسے ہو سکتی ہے؟

مَیں نے اپنے والد کو بتایا

مجھے پشمینہ سے پیار ہو گیا ہے

مَیں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہُوں

پشمینہ کون ہے؟

میرے والد نے پوچھا

ابّا!پشمینہ ایک بلوچی لڑکی ہے

نہیں بیٹے۔

تمھاری شادی کِسی بلوچی سے نہیں

ایک پاکستانی لڑکی سے ہو گی!

امّی جی!کیا بات ہے بیٹا ؟

زینب سے میری شادی کرا دیں

وہ مجھے بے حد پسند ہے

بیٹے!وہ تو پٹھان ہے

پختونوں اور پنجابیوں کی ثقافت میں

بہت فرق ہے

اور پھِر گھر میں کِسی کو پشتو بھی نہیں آتی!

ارے…بڑے بھیا!

ہونہہ،!ہوگا پھر وہی شادی کا قصہ

جی بھیا!مجھے فرح سے شادی کرنی ہے

فرح سے ؟

ارے ہم اہلِ زبان ہیں اردو سپیکنگ

اور وہ پنجابی…

ہمارے ساتھ اُس کا گزارا نہیں ہو گا!

مَیں نے اپنے والد سے کہا

ابّاجی !آپ کو میری شادی کرنی ہے یا نہیں ؟

کرنی ہے بیٹے لیکن کوئی پاکستانی لڑکی بھی ملے!

میرے والدین میرے لیے

ابھی تک ایک پاکستانی لڑکی تلاش کر رہے ہیں !

اور مَیں نے دیارِ غیر میں

جس سے شادی کر لی ہے

وہ صِرف ایک لڑکی ہے!

٭٭٭

 

شطرنج

بحری جہاز کے کیبن کے شیشوں سے

دھُند میں جھاگ اُڑاتے

سیاہی مائل سبز سمندر کی لہروں پر

مَیں سفید پرندوں کو اُترتے دیکھ رہا ہُوں

وہ اپنے پروں میں اُڑانوں کے گیت سمیٹے

دُرِّ نایاب کی طرح دمک رہے ہیں۔

میرے سوفے کے سامنے پڑی میز پر

باصر سلطان۱؎ کے کھیل کی بساط بچھی ہوئی ہے

جس کے خانوں میں الفاظ کے  مہرے

اپنی چالیں چل رہے ہیں۔

کوئی آدمی ایسی کتاب کیسے لکھ سکتا ہے

جس کی پہلی قرأت

روح میں ہیجان برپا کر دے

اور دُوسری بار پڑھنے والے کو حیران!

ساری زندگی اور اُس کے متضاد سچ

اِتنی مختصر سی کتاب میں

کیسے سموئے جا سکتے ہیں ؟

مَیں اِسے تیسری مرتبہ پڑھ کر اُداس ہو گیا ہُوں

مَیں جانتا ہُوں

کہ اِس کی چوتھی قرأت

مجھے عُمر بھر کے لیے تنہا بھی کر سکتی ہے۔

میرے باطن میں برپا اِضطراب

مجھے عرشے پر کھینچ لایا ہے

جہاں تُند اور نم آلود ہَوَا میں بھی

میرے اندر مچتا ہُوا بھا  نبڑ

مجھے راکھ کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا ہے!

مگر پرندے اُڑان میں ہیں

اور اُن کے تھرکتے پنجے پانی پر۔

باصر سلطان ،تم نے یہ بساط بچھا کر

مجھے بھی

اُس کھیل میں شریک کر لیا ہے

جس کے ہر کِردار کو اپنا ہر سچ

اُس کے داخلی تضادات کے ساتھ

قبول کرنا پڑتا ہے۔

تمھیں یہ کتاب لکھنی ہی نہیں چاہیے تھی

کیا تم نہیں جانتے؟

ایسا کوئی ایک سچ بھی

تسلیم کرنے کے لیے

ایک زندگی کافی نہیں

اور کبھی کوئی بازی برابر نہیں ہوتی!

شہ، مات دینے کے لیے ہی

بساط بچھائی جاتی ہے

چو  مہری ہونا تو محض ایک اتّفاق ہے۔

شاہ

پیادوں کے نرغے میں گھِر جائے

تو اپنی بازی بچانے کی فِکر میں

کوئی چال سوچتے ہوئے

دماغ کی شریان پھٹنے سے

وہ مر بھی سکتا ہے

اور مَیں ابھی مرنا نہیں چاہتا!

باصر سلطان

آج اگر تم

میرے ساتھ اِس جہاز کے عرشے پر ہوتے

تو مَیں تمھیں یہ پرندے دِکھاتا

جو کبھی تنہا نہیں ہوتے

اور جن میں کوئی

سارب ،راکف، شہاب یا شذرہ نہیں

اِن میں تو کوئی فراست بھی نہیں

کیوں کہ اِن کی عملداری میں

کوئی ایسا کھیل نہیں کھیلا جاتا

جسے زندگی کی بساط

چونسٹھ خانوں میں بانٹ سکتی ہو!

٭٭

_________________________________________________________________

1:۔باصر سلطان کاظمی کا کھیل ’’بساط‘‘ پڑھنے کے بعد۔

٭٭٭

 

مخاطبِ  نا معلُوم

جن الفاظ کے اپنے پیرہن کھو جائیں

کیلے کے پتّے

اُن کا بدن کہاں ڈھانپ سکتے ہیں ؟

پھِر بھی تمھیں

 اپنی تخلیق کی داد چاہیے

داد حاضر ہے۔

 مگر تمھارے لفظ

برہنہ سوچوں کے لیے مختص ساحل پر

بندروں کی طرح

ننگے کیوں ناچ رہے ہیں ؟

 بے جوڑ معانی

کیلے کے پتّوں کی طرح

لفظ کا ستر تو بن سکتے ہیں

اُس کی حیثیت نہیں

اِسی لیے وحشیوں کی طرح

اُس کے گِرد رقص کرتے ہیں

ایسی دھُند میں

جس میں کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔

 اِن الفاظ کے اصل پیرہن کہاں ہیں ؟

اور کیوں اِن کے دُشمن معانی

جنگلی کیلے کے پتّوں کی طرح

اُن کا تماشا دیکھ رہے ہیں ؟

مَیں نے تو سنا تھا

شاعر تہذیب  لفظ کے محافظ ہوتے ہیں

اُس کے دلّال نہیں !!

٭٭٭

 

بین اور بانسری

سپیرے کی  بین اور عاشق کی بانسری

دونوں ہی سُننے والوں کو

مدہوش کر سکتی ہیں۔

عاشق کی بانسری کے گیتوں سے

اُس کے باطن کی ہُوک

اور دِل کا درد چھلکتا ہے

جب کہ سپیرے کی  بین سے مبارِز طلبی۔

تم نے کبھی وہ دشت و صحرا دیکھے ہیں ؟

جن میں رہنے والے سانپ

مُسافروں کو راستوں

اور اُن کے خیموں میں ڈس لیتے ہیں

جب وہ تھکن سے نڈھال ہو کر

کہِیں گِر چکے ہوں

یا رات کی خاموشی میں

شمعیں بجھا کر سو رہے ہوں۔

تم نے اُس شہزادے کی کہانی بھی سُنی ہوگی

جو اپنے تیر کی کھوج

اور ایک زخمی ہرن کے تعاقُب میں

کسی دشت میں اُترا

تو پھِر پلٹ کر نہیں آیا

شاید کِسی کمزور لمحے میں

سانپوں نے اُسے گھیر لیا ہو

اور ممکن ہے اُس کے تھیلے میں

بجانے کے لیے

صِرف بانسری ہو۔

مَیں نے ایک سپیرے سے پوچھا

کوبرا جس کے گلے کا ہار

اور کوڑیالا جس کی پٹاری میں بند تھا

تم نے اُن پر کیا منتر پڑھا

کہ جن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا

وہ موذی تمھارے غلام ہوئے؟

اُس نے کہا

سانپ کا زہر اُس کے دانت میں ہوتا ہے

اور سانپ کی کچلی نکالنے کے لیے

ایک  بین کی ضرورت ہوتی ہے

جب کوئی سانپ میرا راستہ روک لے

یا مَیں خود اُس کی تلاش میں نکلوں

تو سانپ کی بُو پاتے ہی

مَیں اُسے  بین کی دھُن میں

جکڑ لیتا ہُوں

پھر سانپ کا زہر نکالنے میں دیر نہیں لگتی۔

اگر تم اہلِ عشّاق میں شامل ہو

یاد رکھو

جب کوئی سانپ تمھارا راستہ روکے

تو بانسری کے بجائے  بین بجانا

ورنہ بے موت مارے جاؤ گے۔

اُس کی بات سن کر

مَیں سوچ رہا ہُوں

کاش باغِ عدن میں بھی

کوئی سپیرا ہوتا

جو  بین بجا کر

اُس سانپ کو قابو میں لاتا

جس نے آدم و حوا کو بہکا کر

اُن کی رگوں میں

زمین کا زہر بھر دیا!

٭٭٭

 

راج ہنس سے ایک مکالمہ

راج ہنس

تم نے جس تالاب کی محبت میں

عُمر کاٹی

اُس کی بطیں کیا ہوئیں ؟

کیا اُس میں کبھی

گُلِ بکاؤلی بھی کھِلا تھا؟

تالاب کے کتبے پر لکھا ہے

کہ شام کا پہلا تارہ اُبھرتے ہی

ایک شہزادی یہاں آیا کرتی تھی

جس کے  جوڑے میں

  جوہی کی کلیاں مہکتی تھیں

اُسے دیکھ کر

پرندے اپنے گیت

اور ساحر اپنے طِلِسم

بھُول جاتے تھے

راج ہنس

وہ کون تھا؟

جس کی بانسری کی تانوں میں

گھُلے درد سے

ساری فضا بھر جاتی تھی

اور اشجار کی جھکی شاخوں سے

آنسُو ٹپکتے تھے

تمھیں یاد تو ہوگا

تالاب کے کنارے پر

جو شہزادہ تمھیں

موتی کھلاتا تھا

اُس نے تم سے

اُس تالاب کو چھوڑ کر

کبھی نہ جانے کا عہد لیا تھا

مَیں نے

پلٹتی کُونجوں اور پیاسے ہرنوں سے

سُنا ہے

کہ پانی مُردہ ہو چُکا ہے

ماحول کی تغیر پذیر اقدار کی طرح

اب تالاب سے سڑاند اُٹھتی ہے۔

شہزادے کا سر

شہر کے پُرانے قلعے کے برج سے

لٹکا ہُوا ہے

اور شہزادی کی   حنوط شُدہ لاش

داستانوں کے اہرام میں

پڑی ہے

تالاب کے کنارے پر کوئی پیڑ نہیں

اور اُس کی مُنڈِیروں پر بِکھری

سُوکھے پھُولوں کی پتّیاں

تمھارے بوڑھے قدموں سے

لپٹ کر چیختی ہیں۔

راج ہنس

کیا یہ سچ ہے

کہ اب تم بھی

اُسے چھوڑ کر

جانے والے ہو؟

٭٭٭

 

نقطہ

زندگی تو وقت کے لگائے ہوئے حاشیوں میں

جڑے رویّوں سے عبارت ہے

جو اپنے حروف پر

ہر پَل

کہِیں نہ کہِیں

کوئی نقطہ ڈالنے کی طلبگار رہتی ہے۔

غیر منقوط حروف

دیگر حروف کی طرح باتیں نہیں کرتے

وہ تو کسی دھُند میں گُم

خاموشی کے اُس پُل پر جا کر

بیٹھ جاتے ہیں

جس کے نیچے

گدلے پانی کی لہریں شور مچاتی ہیں

غیر منقوط حروف بفر زون کی طرح

اپنے رویّوں میں

دُکھ سکھ،محبت و نفرت اور رنج و راحت کے

ہر جذبے سے خالی ہوتے ہیں

اِسی لیے کِسی کی

زندگی کا حصّہ نہیں بن پاتے

کبھی یاد بھی نہیں آتے

کیوں کہ اُن میں

واپسی کی تاب ہی نہیں ہوتی۔

تم بھی تو شاید میری زندگی کے

کسی حرف پر لگا ہُوا

وہ نقطہ تھیں

جو اپنے حرف سے ٹوٹ کر گِرتے ہی

بہتے پانی میں کہِیں تحلیل ہو گیا۔

آج دیگر حروف کی طرح

 گدلے دریا کے پُل پر بیٹھے

خاموشی کی دھُند میں گھِرا

مَیں سوچ رہا ہُوں

ایک نقطے کی عدم موجودگی

آخر کِس طرح

ساری عبارت کا مفہوم بدل سکتی ہے؟

٭٭٭

 

کلیدِ حرف کہاں تھی؟

اُسے طِلِسمِ خیال کے در پر لگے

قُفلِ ابجد کو کھولنے کے لیے

کلیدِ حرف درکار تھی

لیکن یا د کرنے پر بھی

اُسے یاد نہیں آتا تھا کہ وہ کلید

اُس نے کہاں اور کیسے کھو دی

اُس نے اپنی جیبوں کو بار بار ٹٹولا

مگر وہاں کچھ ہوتا تو اُسے مِلتا!

اُس نے غزل الغزلات اُٹھائی

اور اُس کے شبدوں میں جھانکا

 وہاں صِرف حمد تھی

کلیدِ حرف نہیں

وہ باربد اور تان سین کے پاس گیا

 اُن کے بربط اور ستار کے تاروں میں

اُن کی رُوحوں سے پھُوٹتے گِیت تھے

کلیدِ حرف نہیں

اُس نے مُکالماتِ افلاطون سے رُجُوع کِیا

مگر اُن میں بھی صِرف زہر کی مہک تھی

فیثا غورث محض جیومیٹری کے مسائل حل کر سکتا تھا

 اور عبدالسّلام کائنات کی مرکزی قوتوں کو جوڑنے کی فکر میں تھا

وہ سب محرمِ راز تھے مگر کلیدِ حرف سے اجنبی!

وہ اِس تلاش میں اور کہاں جاتا؟

 وہ دیکھ چکا تھا

کہ دیو جانس کی دھُوپ سکندر کے ہاتھوں سے پھسل چکی

ہاروت و ماروت ابھی تک چاہِ بابل میں لٹک رہے ہیں

 اجنتا و ایلورا کے مجسمہ ساز نقش گر کا تیشہ ٹوٹ چُکا ہے

اور زِندگی سے موجود کی تکرار

کِسی طرح ختم ہونے ہی میں نہیں آتی!

اُس نے ایک بار پھِر اپنی جیبوں کو ٹٹولا

مگر وہ خالی کی خالی نکلیں !

آخِرِ کار اُس نے

اپنے اُن خوابوں کو آواز دی

جو کبھی اُس کی آنکھوں کے مکین تھے

لیکن اپنے تھکے ہوئے بدن سے نکل کر

وہ کِسی ندّی کے صاف اور خنک پانی پر

 اپنی رُوح بچھا کر سو گئے

اور ندّی کا پانی اُنھیں اپنے ساتھ بہا کر کہِیں دُور لے گیا!

ایک حیرت انگیز بد حواسی میں اُس نے دیکھا

 یکایک وہ سب خواب ،

سالم و دریدہ خواب

نجانے کیسے اور کہاں سے اُبھر کر

اُس کے سامنے کھڑے مُسکرا رہے ہیں

اپنی کھُلی ہتھیلیوں پر کلیدِ حرف لیے!

٭٭٭

 

مَیں تمھیں بھُولنا چاہتا ہُوں

مَیں تمھیں بھُولنا چاہتا ہُوں

ٹریفک کے اعصاب شکن شور میں

جسے اپنا راستہ صاف کر کے

منزل تک پہنچنے کی خود غرض عجلت

جنم دیتی ہے۔

مَیں تمھیں بھولنا چاہتا ہُوں

ایوانِ تجارت کے اجلاس میں

جہاں ایک دُوسرے کی معیشت کا

گلا کاٹنے کے حربے اختراع ہوتے ہیں۔

مَیں تمھیں یاد نہیں کرنا چاہتا

کِسی ایسی عدالت میں

جہاں ضمیر کا فیصلہ لکھنے سے پہلے

قلم کی روشنائی ختم ہو جاتی ہے۔

مَیں تمھیں بھُول جانا چاہتا ہُوں

اقوام عالم کے اُس سرکس میں

جہاں رِنگ ماسٹر کے کوڑے پر

کرتب دِکھائے جاتے ہیں۔

ہاں ہاں

مَیں تمھارا خیال تک

اپنے پاس پھٹکنے نہیں دینا چاہتا

اپنی عورت کو دھُتکارتے ہوئے

راہ چلتی پرائی لڑکی کے

اپنی بھُوکی نظروں سے کپڑے اُتارتے ہوئے

اُن دوشیزاؤں کے بارے میں سوچتے ہوئے

جنھیں نظریاتی اخوت اور دوستی کے نام پر

پیٹرو ڈالر سے تجوریاں بھرنے والے

شکاری ہاتھوں نے

شیوخ کی حرم سراؤں کی زینت بنا دیا۔

کِسی خُود کُش حملہ آور کے حملے کے بعد

سڑک پر بِکھری ،ٹکڑوں میں بٹی

لاشوں کو گنتے ہوئے

تعصب کے تعفن کو سُونگھتے ہوئے

ٹی وی ٹاک شوز میں

منافق دانش وروں کی بے مغز تکرار دیکھتے ہوئے

سیاست دانوں کو اپنی بے لوث حب الوطنی

اور دیانت کا یقین دِلاتے ہوئے

بندر کی طرح اُچھلتے کسی غلیظ واعظ کی

شعلہ بار تقریر سُنتے ہوئے

قرض سے خریدی گئی سُرخ شراب کا گلاس پیتے ہوئے

مَیں تمھیں کیسے یاد کر سکتا ہُوں ؟

تم کہاں سمجھو گے

کھانے کی میز پر

جب اَن چاہے فاقوں کی بجتی دھُن پر

شکم میں آنتیں رقصاں ہوں

تو تمھاری یاد کیا معنی رکھتی ہے؟

 تمھیں بھُولنا ایسا آسان بھی نہیں

تنہائی کے اُن لمحات میں

جب میرے اندر کا انسان

میرے ہونے پر قہقہے لگاتا ہے

کِسی پارک کے کِسی پُر سکون گوشے میں

جب کوئی ضعیف العمر جوڑا

ایک دُوسرے کی آنکھوں میں

خالص محبت سے پھُوٹتی روشنی میں

جھانک رہا ہوتا ہے

اورک ِسی بچّہ گاڑی سے

 معصوم کِلکاریوں کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں۔

سنو،مَیں واقعی تمھیں بھولنا چاہتا ہُوں

مگر کتنی عجیب بات ہے

کہ تمھیں بھولنے کے باوُجُود

مَیں تمھیں نہیں بھولتا

اور اِس سے بھی عجیب تر یہ ہے

کہ مجھے عِلم ہے

جب تک زمین میرے قدموں تلے

اور آسمان میرے سر پر موجود ہے

مَیں تمھیں نہیں بھُول سکتا

پھر بھی

مَیں تمھیں بھولنا چاہتا ہُوں !

٭٭٭

 

آٹھویں دروازے کی دہلیز پر

جمہوری غلغلے کے اِس دور میں

کسی شہزادے سے مِلنا

کتنا تکلیف دِہ ہو سکتا ہے

یہ صِرف ایک عامی ہی جانتا ہے۔

وہ فیروز شامی نہیں تھا

جس کے سامنے

حُسن بانو کے رکھے گئے

سات سوالوں کے جواب

حاتم طائی کو ڈھُونڈنے پڑے

یہ کیسا انصاف ہے

کہ سوال کِسی سے ہو

مگر جواب کوئی دُوسرا تلاش کرے؟

خیر یہ تو ایک  جملہ ء   معترضہ تھا

اصل بات یہ ہے

کہ مَیں اُسے ملنا ہی نہیں چاہتا تھا

وہ جس ریاست کا ولی عہد تھا

وہاں غلام زادوں نے شاہ کے ساتھ

شاہی خاندان کے سب افراد

چُن چُن کر قتل کر دیے تھے

یہ نجانے کیسے بچ نکلا تھا؟

وقت نے اُسے میلی گدڑی پہنا دی تھی

اور اُس کی شناخت کے سبھی حوالے

حالات کی اُڑائی گرد سے اٹے ہوئے تھے

وہ شہزادی

جس نے اپنے حُصُول کے لیے

اُس کے رُوبرُو

کوئی سوال نہیں رکھا تھا

نجانے کب کی

کسی غلام زادے کی لونڈی بن چکی تھی

وہ برہنہ جسم

جسے کنیزیں چُومتی تھیں

اور اپنے ریشمی بالوں سے

اُسے سُکھاتی تھیں

رات کو کِسی رہگذر پر بے خبر پڑا ہوتا

تو آوارہ کتّے

اپنی لپلپاتی زبانوں سے اُسے چاٹتے۔

مگر وہ جس خواب کے خمار میں مبتلا تھا

اُس میں ریت کی لہریں بھی

بالکل اُسی طرح

پانی کا تموّج دِکھائی دیتی تھیں

جیسے کچھ احمق

دُوسروں کے علم کے بَل پر

خود کو عالم سمجھنے لگتے ہیں۔

تختِ فرش پر براجمان رہ کر

حکمرانی کرنے کے سبھی گُر اُسے ازبر تھے

سِتاروں بھری آسمانی چادر

اُس کے لیے شاہی لبادے سے کم نہیں تھی

صبح کا کِرنیں بکھیرتا سُورج اُس کے سر کا تاج تھا

زمین سے آسمان تک کھنچی روشنی کی لکیر

اُسے اپنا ہی جڑاؤ عصا لگتی تھی

اور ہَوَا کے جھکولوں میں

ڈولتے پتّوں سے تالیاں بجاتے

دو رویہ شجر کوئی شاہی جُلُوس۔

مَیں جانتا تھا

کہ وہ ایک جعلی زندگی گزار رہا ہے

اُسے صِرف اُس کی انا نے زندہ رکھا ہُوا ہے

ورنہ جینے کے لیے اُس کی زند گی میں کچھ بھی نہیں۔

اُسے نہ ملنے کی بظاہر کوئی وَجہ، نہیں تھی

بس مَیں اُسے کبھی ملنا نہیں چاہتا تھا

مگر آج

ایک آئینہ خانے کی گلی کا موڑ مُڑتے ہوئے

آئینہ خانے کے آٹھویں دروازے کی دہلیز پر

وہ مجھ سے ٹکرا گیا

اُس نے میرا رستہ روک کر مجھے پوچھا

تم مجھ سے کیوں ملنا نہیں چاہتے تھے؟

مَیں یکایک گڑبڑا گیا

تم مجھ سے کیوں ملنا نہیں چاہتے تھے؟

اُس نے اپنے لبوں پر

 ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیلاتے ہوئے دُہرایا۔

مَیں گنگ اور حیرت زدہ

نجانے کیوں ابھی تک

اُس کے سامنے کھڑا ہُوں۔

سنو!

کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟

کیوں کہ اِس کہانی میں

کوئی حاتم طائی نہیں

اور اُسے اپنے سوال کا جواب درکار ہے!!!!!

٭٭٭

 

اُون کے گولے پر لپٹا ہُوا ایک خیال

ہماری زندگی بھی شاید اُون کا وہ گولا ہے

ایک غیر مرئی ہاتھ جس کی تہیں کھولتا رہتا ہے۔

اُونی تہیں کھولنے کی اِس کوشش میں

کبھی کبھی یہ اُونی دھاگے

کِسی کِسی جگہ سے ٹُوٹ بھی جاتے ہیں

جنھیں لے کر مائیں اپنے بچّوں کی جُرابیں

بیویاں اپنے شوہروں کے دستانے

اور کنواریاں

اپنے گیلے ہونٹ پونچھنے کے لیے

خوابوں کے وہ رومال بُنتی ہیں

جو اُن کی خلوتوں میں مہکتے ہیں۔

کبھی کبھی اُسی اُونی گولے کے تاگے

ایسے سینوں کے گِردا گِرد بھی لپٹ جاتے ہیں

جن میں دھڑکتے دِل بھی اُنھیں گرم نہیں کر پاتے۔

اکثر اُس دھاگے کے ٹکڑوں سے

کچھ بھی    بننے والی سلائیاں

لمحوں کے انبار میں کہِیں کھو جاتی ہیں

اِس کے باوُجُود کچھ اُلجھے اور کچھ  سلجھے

کتنے ہی رنگوں کے اسیر یہ اُونی دھاگے

زندگی کا ہر حسین و بدصورت رُوپ بھر سکتے ہیں۔

ہر نئی پیدائش از سرِ نو

ایک صبحِ ازل کا آغاز کرتی ہے

اور ہر بار کوئی غیر مرئی ہاتھ

اُون کے اُس گولے کو

اِس طرح اُدھیڑنا شروع کر دیتا ہے

جیسے اُسی لپٹے ہوئے دھاگے کے

 دُوسرے سرے پر

شامِ ابد کے سِتارے  جھلملا رہے ہوں !

٭٭٭

 

تِتلیوں کی آخری اُڑان دیکھتی زندگی

موسموں کے سبھی حوالے

اِس مٹّی کے بکھرنے تک ہیں

جب بدن سکڑنے کا موسم آتا ہے

ہڈیّوں کے باہمی فاصلوں کے درمیان

نادیدہ وادیاں اُتر آتی ہیں

جن میں سرد خواہشوں کی

 برف کے گولے چکراتے ہیں

یا حدّت سے خالی دھُوپ میں گھُل کر

تشنہ ء تعبیر خوابوں کے

اُس دریا میں ڈھل جاتے ہیں

جس کا معکوسی بہاؤ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

یہ تِتلیوں کے بے گھر ہونے کا موسم ہوتا ہے

پھُول شاخوں سے جھڑ کر

پتھروں کی طرح

وادی میں لُڑھک جاتے ہیں

ہَوَا کی تُندی کی زد پر

فضا موت کی مہک سے

ہمکنے لگتی ہے

اور تِتلیوں کی آخری اُڑان دیکھتی زندگی

اِس منظر کو محفوظ کرنے کے لیے

کِسی البم کا تعیُّن نہیں کر سکتی!

٭٭٭

 

نقشۂ زماں میں اُلجھی آنکھیں

یزید بہت بُرا تھا

مگر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار

شِمر اُس سے بھی زیادہ  بُرا تھا۔

کیا شِمر نے کبھی

یہ نہیں سُنا ہوگا کہ حسینؓ

کِسی جہنمی کے ہاتھوں شہید ہوں گے

شِمر نے حسینؓ کو پھر بھی شہید کِیا۔

یزید کے دِل میں بد نیّتی اور ہَوَس کا

جو اکھوا پھُوٹا تھا

ابنِ زیاد کی زبان سے

شمر کے ذہن تک پہنچتے ہوئے

وہ ایک تناور شجر کیسے بنا؟

یزید و شمر کے ملعون اور حسینؓ کے تقدس مآب ہونے میں

کِسی کو کوئی شک نہیں

مگر واقعہ یہ ہے

کربلا میں تاریخ کا جو خونی باب لکھا گیا

اُس میں مضمر اسباق دیکھنے والی آنکھیں

اُن دجلہ و فرات میں بہا دی گئیں

وقت۔جن کے نام بدلتا رہتا ہے

شاید آج وہ آنکھیں

چناب و راوی یا گنگا و جمنا میں

بہہ، رہی ہوں۔

یزید و شمر نے مِل کر جو باب لکھا

مَیں اُسے پڑھ کر کِسی کو نہیں سُنا سکتا

ورنہ میری آنکھیں بھی

کِسی دریا میں بہائی جا سکتی ہیں !

٭٭٭

 

گمنام پرندے کی چشم دِید گواہی

آخرِ کار

اماوس کی ایک رات

اُسے جنگل میں بھیڑئیے نے

دبوچ کر بھنبوڑ ڈالا۔

جنگل کی نہر کا پانی

اپنے کناروں سے لپٹ کر سو رہا تھا

نہر کے پہلو میں اُگا سبزہ

اور خس و خاشاک

شکار کے لہُو سے لال تھے۔

اُس کے نچے کھچے بدن سے

چبائے جانے کی لذّت

انتہائی وحشی لذّت

بھیڑیے کی مسکراہٹ میں گھُل کر

لہُو کے ساتھ بہ،  رہی تھی۔

موت کے طویل بوسے میں

آخری ہچکی کا گِیت کون سنتا؟

جنگل کے درخت تو کاہنوں کی طرح

اُس پر جھکے

مقدس آیتوں کا وِرد کر رہے تھے!

٭٭٭

 

پہلے آدمی کی خارج از شُمار آدمی سے ایک گفتگو

مَیں نے تمھیں وراثت میں

اَمن اور آزادی کے خواب منتقل کیے

تم نے اُنھیں

جنگ اور غلامی کی تعبیروں میں بدل دیا

تم نے اپنے کھلیانوں کی ویرانی کو نہیں دیکھا

مگر تابوتوں کے خالی سینے بھر نے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی!

وقت کی سفید چادر پر کھنچی سُرخ لکیروں کی گواہی

تمھاری کوئی عدالت کیوں قبول نہیں کرتی؟

ارتقائی مراحل سے گذرنا

تمھاری فطرت تھی

اور آسایش کی انتہا کو چھونا تمھاری ضرورت

تم نے فطرت اور ضرورت کو باہم آمیز کرتے ہوئے

خوش رہنے کا نسخہ  کہِیں کھو دیا!

تمھاری طاقتوں نے

آسمان کا مقروض ہونے کے باوُجُود اُسے حقیر سمجھا

اور تمھاری نسل کا ہر فرد

ایک دُوسرے کا مقروض ہو کر بھی

بے حیائی کی دہلیز پر کھڑا

غضِّ بصر کی حقیقت سے ناآشنا ہے!

مَیں جانتا ہُوں

یہ سب تمھیں کہنے کا کوئی فائدہ نہیں

کیوں کہ تم خود ساختہ معرفت کے اُس مینار پر کھڑے ہو

جہاں سے تم نفرت کے بیج زمین پر پھینک سکتے ہو

جس کے سایے میں

چِڑیا کے انڈے سے بھی چھوٹے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے

 تم انسانی لاشوں کے ڈھیر لگا سکتے ہو

خود کو فریب دے کر

خلا کو تسخیر کر سکتے ہو

اپنے زخم چاٹنے کے لیے

شاعری کر سکتے ہو

کاغذ پر خوشنما تتلیاں اور سفید گلاب بنا سکتے ہو

لیکن یہ سب کرنے کے باوُجُود

مجھے یہ نہیں بتا سکتے

کہ تتلیوں کے رنگ یا سفید گلاب کی مہک

تمھاری روح و وُجُود سے بیزار کیوں ہے؟

٭٭٭

 

تین لفظوں کی دھار

مَیں تو دیکھ کر دنگ رہ گیا

وہ گونگی نہیں ہے

مگر بات کرتے ہوئے

 اُس کے ہونٹ پھڑپھڑاتے رہتے ہیں !

وہ مجھ سے کئی بار

آئی لو یو…سُن چکی ہے

مگر ایک بار بھی یہ کہنے کے لیے

اُس کے بالائی ہونٹ پر نمی نہیں جاگتی!

مَیں نے جھنجلا کر کہا

کیا بات ہے،کہتیں کیوں نہیں

کیا تمھیں مجھ سے محبت نہیں ؟

اُس غنچہ دہن نے اُنگلی کے اشارے سے

مُنہ، کھول کر اپنی زبان کی طرف اِشارہ کِیا

جانے کب اور کہاں

اِن تین لفظوں کی دھار

 پہلے ہی اُس کی زبان کاٹ چُکی تھی!

٭٭٭

 

فلو۱؎

ہم سب چھینک رہے ہیں

اور تیز بخار سے ہمارے بدن تپ رہے ہیں !

تین اِنچ،تین فٹ،تین گز یا ہزاروں میل

کتنی لمبی انگلیاں ہیں وہ؟

جو تمھاری ناک پر ٹھونگے لگاتی ہیں ؟

تم  کہِیں بھی ہو

تمھارے بدن میں  چٹکیاں بھرتی ہیں

تمھارا سر سہلاتی ہیں

لیکن تم اُنھیں کچھ بھی کرنے سے روک نہیں سکتے!

کِس کی اُنگلیاں ہیں وہ؟

جو صحراؤں ،دریاؤں ،سمُندروں اور پہاڑوں کو  چیر کر

تم تک آ پہنچتی ہیں

اپنے ناخنوں سے

تمھارے دِل و دماغ پر خراشیں ڈالنے کے لیے

پیمایش کرنے کے سبھی پیمانے جن کی طوالت کو ماپ نہیں سکتے

صفر خاموش رہتا ہے

لا محدود کی طرح

اور ریاضی کے سبھی کُلیے اُن کے سامنے دم توڑ دیتے ہیں !

جنوری سے دسمبر تک

 کیلنڈر لمحوں کی پیمائش کر سکتا ہے

پنجروں میں محبوس پرندوں ،ہسپتالوں کی میزوں پر پڑی لاشوں

تجرِبہ گاہوں کے مرتبانوں میں بند دماغوں

چھپکلیوں اور سانپوں کی تعداد بتا سکتا ہے

لیکن اُن اُنگلیوں کا طول بتانے سے قاصر ہے!

مَیں بھی تمھیں اُس وقت تک کچھ نہیں بتا سکتا

جب تک مکاتب میں

دُوسروں کا چبایا ہُوا عِلم

کِرم خوردہ کتابوں سے اُڑتی گرد کی طرح

ہماری ناک میں گھُس کر

ہمیں چھینکنے پر مجبور کرتا رہے گا!

اُن اُنگلیوں کی پیمایش ممکن ہی نہیں

کِسی نئے طِلِسم کی کھوج میں

نکلنے کی اہلیت سے عاری ہونے

اور کِرم خوردہ کتابوں میں ناک گھسیڑ کر

بیٹھے رہنے کے باعث

ہم سب چھینک رہے ہیں

مگر نہیں جانتے

کہ ہمیں فلو ہو گیا ہے !

٭٭٭

____________________________________________________________________________________1:۔FLU

٭٭٭

 

ایک معمولی سی بات

فلسفے کی طرح ہر خواب تعبیر کا

سفر مراحل کا اور ہر عُمدہ قول

وضاحت کا   محتاج ہوتا ہے !

تم جو اپنی  کشتی

اپنے کاندھوں پر لادے

ٹُوٹے پتواروں کی بیساکھیاں ٹیکتے

مجھ سے سمُندر کا راستہ پوچھ رہے ہو

کھُلے آسمان پر دمکتے

اُس ستارے کی طرف کیوں نہیں دیکھتے

جسے تمھاری حد سے بڑھی خود اعتمادی نے

تمھاری بستی کے پہلُو میں بہتے دریا سے

بے دخل کر دیا ہے!

وہ تم پر اپنی مُسکراہٹوں کی کِرنیں بکھیرتا رہا

مگر تم جو سفر اور ستارے کے رِشتے سے بے خبر تھے

تم نے کبھی بھُول کر بھی

اُس سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی!

سمُندر کا خواب دیکھنے سے پہلے

اگر تم نے دریا کی سیر کی ہوتی

اور ساحل سے آسمان  پر قطبی ستارے کو

اک نگاہ بھر کر دیکھا ہوتا

تو آج تم مجھ سے

سمُندر کا راستہ نہ پوچھتے!

٭٭٭

 

آدھے آدمی کا پورا گلاس

باہر کچھ دیر میں صبح ہونے والی ہے

اور مَیں ایک قدیم پُر اسرار قلعے کی دیوار سے لگے

مَے خانے میں اپنے نصف حصّے کا بوجھ اُٹھائے

ایک نئی تھکن سے چُور

اپنے سامنے شراب کا وہی چھلکتا ہُوا گلاس رکھے

جو سرِ شام ویٹر میری میز پر رکھ گیا تھا

کاؤنٹر پر بارمین کے ہاتھوں اور جسم کی  جنبش پر نظریں جمائے

ایک انجانے خوف سے لرز رہا ہُوں !

مَے کدہ کبھی کا خالی ہو چکا

موسیقی کی دھُنیں  بسترِ اِستراحت پر دراز ہو چکیں

خالی کرسیاں میزوں پر اوندھی کی جا چکیں

شفّاف گلا س اپنی اپنی جگہ پر جمائے جا چکے

لیکن مَیں کہاں جاؤں

اگر میرے آدھے بدن کو کِسی نے کُرسی میں

 میخوں سے گاڑ دیا ہو!

مَیں اپنے نصف حصّے کی جستجو میں کئی بار

گھر سے بے گھر ہو چکا ہُوں

ہر بار وہ مجھے مِل کر کھو جا تا ہے

مگر ایسا کبھی نہیں ہُوا جو آج ہو رہا ہے!

مَیں کل شام بھی اِسی تلاش سے تھک کر

اِس مَے خانے میں آ بیٹھا تھا

چند جُرعوں میں گلاس خالی کرنے کے لیے

اور یہاں میرا  ہر گھونٹ

لیے جانے کے باوُجُود

جانے کیسے پھر

 اُسی گلاس میں شامل ہو جاتا ہے!

٭٭٭

 

سال گرہ

میری سالگرہ کا یہ جشن

اگر میرے ہونے کا جشن ہے

تو یہ زندگی اور اِس کائنات کا جشن ہے

جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی

میرا ہونا تو پانی پر بنی اُس تصویر کی طرح ہے

جس کا چہرہ لمحہ ء موجود کے سامنے ہو

اور جس کے بازو ازل اور ابد کی طرف پھیلے ہوں۔

میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے

کیوں کہ میرا وُجُود اُس سمفنی کی طرح ہے

جو موسیقار کے سازوں سے پھُوٹتی ہے

میرے ہونے کی معنویت صِرف یہ ہے

کہ مَیں کل نہیں تھا اور کل نہیں ہوں گا

مگر اِس کے باوُجُود

 یہ کائنات اور زندگی جب تک ہے

مَیں ہُوں !

اگر میرے ہونے کی کوئی اور معنویت ہوتی

تو مَیں اُن پرندوں کے گِیت سُن سکتا

جو اُس حُسن کے شاہد تھے جو فنا ہو گیا

مَیں اُن ہرنوں کی کلیلیں دیکھ سکتا

جنھوں نے عشق کو سُرخرو ہوتے دیکھا

مَیں اُن کمیں گاہوں سے ہو کر لوٹ سکتا

جن میں خوابوں نے پناہ لی تو اُنھیں تاراج کر دیا گیا

مَیں اُن غاروں کی ٹھنڈک اوراُن کی ڈھلانوں پر جاگتی حدت میں شامل ہوتا

 جن پر چمکتے ستاروں کی چھاؤں میں صحائف اُترے اور انسان کو اَمن کی بشارت دی گئی!

مَیں تب بھی نہیں تھا لیکن تھا

مَیں آج بھی نہیں ہُوں لیکن ہُوں

مَیں کل بھی نہیں ہُوں گا

لیکن کہِیں نہ کہِیں رہوں گا!

میرے ہونے نہ ہونے کے اِس تماشے میں

آج اگر کچھ موجود ہے

تو وہ صِرف اُس ہونے کا آج ہے

جو زندگی اور کائنات ہے

اور مَیں اُس کا وہ بھرم ہُوں

جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔

میری سالگرہ

میری نہیں

اِس زندگی اور کائنات کے ہونے کا جشن ہے

جو شامِ ابد تک برپا رہے گا!مَیں شاعر ہُوں

گیت   بننے،نظم لکھنے اور غزل کہنے کے موسم

جب تک میری رُوح سے گذرتے رہیں گے

میرے بدن کی سرائے میں مقیم قصّہ گو

اُن کے لفظوں کے پھُول بانٹتا رہے گا!

مَیں موسموں کی رفتار

اور قصّہ گو کی گفتار کے بہاؤ کو

چاہنے کے باوُجُود نہیں روک سکتا

کیوں کہ میرے ساتھ وہ سب لمحے ہیں

جن کی اُنگلیاں زندگی کے مضراب کے تاروں کو

چھیڑتی رہتی ہیں !

مجھ سے کہتی ہیں

تم شاعر ہو

شاعر ہونے اور شاعر بننے میں

وہ مہین فرق ہے

جسے اُس کے اپنے منحنی خط کی ابعاد ہی

میگنیفائی کر سکتی ہیں

کیا تم نہیں جانتے کہ تم خود نہیں لکھتے

بل کہ تم سے لکھوایا جاتا ہے؟

تم اپنی سی کر دیکھو

لیکن جب صبح لبوں پر

شبِ رفتہ کا کوئی بوسہ مہک اٹھے گا

چمن سے اُڑتی ہوئی کوئی تتلی اپنا رستہ بھُول کر

تمھارے کمرے میں چکّر لگائے گی

اُداس ساعتوں کی پھوار سے

تمھاری آنکھیں نم ہوں گی

دوپہر کا سنّاٹا تمھارے سینے کو بھر دے گا

 اور شام کا پہلا سِتارہ

انجان سمُندروں کا پیامبر بن کر اُبھرے گا

بہتے ہوئے پانی کی سرسراہٹ

 اور اندر سے گذرتے ہوئے کِسی موسم کی آہٹ

 اُس بے کراں لمحے کے بہاؤ میں

تمھیں اپنے ساتھ بہا لے جائے گی!

شاعری کے سکّے کِسی ٹکسال میں نہیں ڈھلتے

وہ تو بادل کی طرح شاعر پر برستے

 اور موسموں کے بازار میں چلتے ہیں

جہاں قصّہ گو اُنھیں سمیٹنے کے لیے

 اُن کے منتظر ہوتے ہیں !

دریچہ ء خواب سے

کامران کی بارہ دری میں

اپنے آپ سے چھِپ کر

وہ میری آغوش میں ساکت پڑی تھی!

ہمارے چاروں طرف

گرم سانسوں کا غبار

ستاروں کی سرگوشیوں میں لپٹی چاندنی

اور پانی کی سرسراہٹ کے سِوا اور کچھ نہیں تھا!

ایسے میں اُس کی لانبی گردن

اور مخمور آنکھوں کو بار بار چُومتے ہوئے

مَیں۔  نجانے کیوں رو رہا تھا؟

٭٭٭

 

مَیں امرا ُ القیس سے اپنا وعدہ ایفا نہیں کر سکا

سلیمان و سبا کی شادی میں

ہُدہُد کا قصیدہ سننے کے بعد

امراءُ  القیس نے

صحرائے نجد میں اپنی محبوباؤں کے قصیدے لکھے

اور ڈیلفی کے مندر کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گیا!

اُسے میرا اور سیفو کا انتظار تھا

سیفو نہیں آئی

غرناطہ اور اشبیلیہ سے

ابو عبداللہ اور معتمد باللہ اُسے ملنے آئے!

ڈیلفی میں میوز نے ایک جشن کا پروگرام بنا رکھا تھا

جس میں میرؔ و غالبؔ اور رومیؔ و حافظؔ مدعو تھے

سنا گیا کہ شیکسپیئرؔ ،بودلیئرؔ ،ییٹسؔ ،شلرؔ ،ہائینے ؔ اور لورکاؔ سمیت

ساری دنیا کے شاعر وہاں جمع ہوں گے

ورجلؔ ،ملٹن ؔ اور ہومرؔ تو خیر مقامی ہی گنے گئے تھے

لیکن امراءُ القیس کو سیفو کا انتظار تھا

اور سیفو نہیں آئی!

سلیمان و سبا کی شادی میں

مَیں نے امراءُ القیس سے وعدہ کِیا تھا

کہ مَیں ڈیلفی کے جشن میں اُسے ملنے ضرور آؤں گا!

مَیں سارہ شگفتہ اور سلویا پلاتھ کی ہمراہی میں

 بابل و نینوا کے راستے میں تھا

جب مَیں نے ہَوَا سے کہا

 آیا صوفیہ کے گنبد پر بیٹھے کبُوتروں سے پوچھو

کہ جشن کب شروع ہو گا اور

کیا سیفو امراءُ القیس سے مِل چُکی؟

لیکن وہ مسجدِ سلطان احمد کے کبُوتروں کی طرح باخبر نہیں تھے

اُنھیں صِرف ٹرائے کی ہیلن اور مصر کی قلوپطرہ کی خبر تھی

وہ کچھ کچھ انگرڈ برگمین اور مدھوبالا کے بارے میں بھی جانتے تھے

 وہ کیا بتاتے کہ سیفو کیوں نہیں آئی

اور ابھی جشن برپا ہونے میں کتنی دیر ہے!

ڈیلفی کے مندر کا شور میری سماعت تک پہنچ رہا تھا

لیکن مَیں وہاں مدعو ہونے کے باوُجُود

لاہور لوٹنا چاہتا تھا

جہاں راوی کی لہروں میں

قیامت خیز ہیجان برپا تھا!

مجھے اپنا وعدہ یا د تھا

لیکن مَیں اُسے ایفا نہیں کر سکتا تھا

کیوں کہ مجھے لاہور سے ہو کر ڈیلفی کے مندر پہنچنا تھا

مَیں ابھی راستے میں تھا

اور سارہ و سلویا میری ضد سے تنگ آ کر

مجھے راہ میں تنہا چھوڑ گئی تھیں !

ڈیلفی کا جشن ختم ہو گیا

سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے

مَیں لاہور نہیں پہنچ سکا

امراءُ القیس  سیفو سے

اور مَیں اُسے نہیں مِل سکا!

راوی کے سیلاب میں سب کچھ بہ، گیا

اور مَیں وقت کے دائرے میں

گھومتے ہوئے راستے کے

کِسی موڑ پر کھڑا یہی سوچ رہا ہُوں

مَیں ہر جگہ پہنچ سکتا تھا

مگر میرے راستے میں شاید

ابھی تک وہ طِلِسم حائل ہے

جس نے کِسی غافل لمحے میں

مجھے شہر بدر کر دیا تھا!

ورنہ لاہور پہنچنا کیا مشکل تھا؟ مشکی گھوڑے کا سوار

فضا تُرش انگوروں اور کھٹّے اناروں کی خوشبو سے سُلگ اُٹھی ہے

ہَوَاؤں کا لہجہ گلو گیر ہے!

اے سائیس سُن!

میرے مُشکی گھوڑے پر زین ڈال

اور میرا سیاہ چابُک مجھے دے

اُس گرانڈیل غلام سے کہ،

کہ وہ میری خرجین کھجوروں سے بھر دے

اپنے ترکش کے تیروں کا جائزہ لے

اور شمشیر بکف ہو کر سفر کے لیے تیّار ہو جائے!

مجھے سبز دریا کے کنارے چلتے ہوئے

زرد گھنے جنگل کو پار کر کے

قِسمت کے دھُندلے پہاڑ کے عقب میں

اُن باغات میں اُترنا ہے

جہاں سات کنواریاں میرا انتظار کر رہی ہیں !

ہمارا سفر زعفرانی سُورج کی پہلی کِرن کے اُبھرتے ہی

میرے مُشکی گھوڑے کے سُموں سے نکلتی چنگاریوں کے ساتھ شروع ہوگا

اور میرے بازو پر اُن سِتاروں کی پہچان کا تعویذ بندھا ہوگا

جو کِسی شب خون کے بعد راستے کی سمت مُعیّن کرتے ہیں

میرے گھوڑے کو تیرگی میں بھٹکنے کا خوف نہیں

کیوں کہ میرا سیاہ چابُک بجلی کی طرح کوند کر اِس کی راہ روشن کر سکتا ہے!

میرے وہ باغات

جنھیں ہجرت کی لکیر پر چلتے ہوئے

مَیں بطور امانت اپنے بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا

خزانے کے اُن کنوؤں کی طرح ہیں

جن پر سانپ پہرہ دیتے ہیں

یا جن کی رکھوالی وہ کنواریاں کرتی ہیں

جن کی پلکیں دراز اور رُخساروں پر تِل دمکتے ہیں

اور جن کی لانبی گردنوں پر بہار اپنے بوسے ثبت کرتی ہے!

میرے شراب کے پیالے میں

اُن باغات کی پرچھائیاں رہ رہ کر اُبھر رہی ہیں

جن کے گِرد ہجرت کرنے سے پہلے

مَیں نے سفید دائرہ کھینچ دیا تھا

مگر اب وہ کِسی غنیم کے محاصرے میں

مجھے بُلاتے ہیں

اور وہ کنواریاں دلگیر ہیں

کہ اُن شیریں ثمر باغوں کے انار کھٹّے اور انگور تُرش ہو چکے ہیں !

اگر اُس سفید دائرے پر مجھے غنیم کے قدموں کے نشان مِل گئے

تو میرے ترکش کے سبھی تیر

 ہشت اطراف میں مجھے ڈھُونڈتے میرے ساتھیوں کو

میرے وہاں ہونے کی خبر دیں گے

مَیں اُن سات کنواریوں کی عافیت کے عوض

 اپنے سات غلام آزاد کر دوں گا

کیوں کہ اُن کی آزادی میری کامیابی سے اُسی طرح مشروط ہے

جس طرح رعایا کی خوشحالی نیک نیّت حکمرانوں سے!

میرے نکلنے میں زیادہ دیر نہیں

ممکن ہے مَیں راستے کے کِسی طِلِسم کا شکار ہو جاؤں

یا غنیم سے تنہا لڑتا ہُوا مارا جاؤں

لیکن میرا ترکش خالی ہونے سے پہلے

 میرے ساتھی وہاں پہنچ چکے ہوں گے!

 میرا یہ مُشکی گھوڑا جس کے سُموں سے

اُمِّید کی  چنگاریاں پھُوٹتی ہیں

اپنے سوار کا دریدہ بدن اُٹھائے ہوئے بھی

ہر حال میں اُس سفید دائرے میں گھِرے

باغوں تک ضرور پہنچے گا

جہاں سات کنواریوں کی عفّت خطرے میں ہے!

اے سائیس!

میرے مُشکی گھوڑے پر زین ڈال

کیوں کہ میری کامرانی یا موت

دونوں ہی

تم جیسے غلاموں کی رِہائی کی ضمانت ہیں !

٭٭٭

 

صحرا کا مُسافر

ایک صحرا سے دُوسرے صحرا تک پھیلی مسافت کا

سدا بہار مُسافر ہُوں مَیں

جس کے دوش پر اُس کی نسل کی ساری بدنصیبی بار ہے

اور یہی بدنصیبی میری طاقت ہے!

اے راہزن!

مَیں سُورج نکلنے سے پہلے

یہاں سے رخصت ہو جاؤں گا

 اپنے خیمے کی طنابیں اکھاڑے بغیر

باہر جلتے الاؤ کی آگ  بجھائے بغیر

مَیں صبح تک اِس آگ کو   بجھنے نہیں دُوں گا

مگر یہاں بھی نہیں رہوں گا!

تم اپنی بے بسی کی داستان سنانے کے لیے

اِسی خیمے میں جکڑے رہو گے

مگر اپنی ہڈّیوں کے بغیر

جنھیں مَیں الاؤ روشن رکھنے کے لیے

اُسی میں جھونک دُوں گا!

مَیں جانتا ہُوں روشنی پھیلتے ہی

تمھاری تلاش میں نکلنے والے

 تمھارے بھائی بند تمھیں آزاد کروا لیں گے

شرفا کے پاس اِتنی فرصت کہاں ؟

 میرا اگلا پڑاؤ وہ چشمہ ہے

جہاں ماضی کے حُدی خوانوں کی آوازیں

اپنی پیاس  بجھانے آتی ہیں

اور مُنافقت سے پاک روحیں

 جس کے کنارے پر بیٹھ کر

اُن زمانوں کا انتظار کرتی ہیں

جب سبھی کے لیے روشنی اور محبت میں گندھے

 اُن پھُولوں سے

 پائدار اَمن سرائیں تعمیر کر دی جائیں گی

جن پر اُڑنے والی کسی تتلی کے پر

کسی البم میں دستیاب نہیں ہو ں گے!

 اپنے ساتھیوں سے کہ، دینا

وہ اپنے صبا رفتار اور شریف النفس گھوڑوں کو

 توبڑے چڑھا دیں

مَیں بے شک اکیلا تھا

مگر میرے پیچھے

مجھ سے زیادہ ناراض نسلوں کے کارواں

آ رہے ہیں !

٭٭٭

 

نئی ہیرا منڈی میں جُلُوس

کچھ حرامزادے

اُلُّو کے پٹھّوں کے ساتھ

خبیثوں کے گن گاتے ہوئے

کُتّے کے  پلّوں کی زنجیر تھامے

بہُت شان سے

نئی ہیرا منڈی کی ٹھنڈی سڑک پر

اپنی تھوتھنیاں اُٹھا کر مٹر گشت کر رہے ہیں !

اُن کی فرطِ مسرّت سے

ہا نپتی سا  نسیں

اور بجتے ہوئے

خوشامدی طبلوں کی آواز

کب کی مساوی ہو چکیں

اُنھوں نے جس بازار میں جنم لیا تھا

وہاں تخلیقی عمل پر کوئی پہرا نہیں تھا

صِرف بے سُر اور بے تال گھنگھرو تھے

جن کی چھنک اپنی مجبوریوں کی محتاج تھی!

نئی ہیرا منڈی کی ٹھنڈی سڑک پر

بالا خانوں کی کھڑکیوں سے

 اُن پر پھُولوں کی پتّیاں برس رہی ہیں

اور منکوحہ عورتوں کے بچّے

اُن کے کُتّوں کی

خوراک بننے کے لیے

 جنم لے رہے ہیں !

٭٭٭

 

سرکس

مَیں ایک انجان اذیّت میں مبتلا

کِسی پاگل کی طرح

 مُسلسل ہنس رہا ہُوں !

آج صبح مَیں نے

 رنگین پھولدار لباس پہنے

اپنے چہرے پر غازہ تھوپے

ایک مسخرے کی پسلیوں میں

اپنی اُنگلی چبھو کر پوچھا

کیا تم انسان ہو؟

اُس نے پلٹ کر مجھے تھپڑ رسید کر دیا!

اُس تھپڑ کی گونج سے

پھُوٹنے والے میرے قہقہے

 میرا پیچھا کر رہے ہیں

اور وہ مسخرا میرے گلے میں

اپنی بانہیں ڈال کر

 ابھی تک جھُول رہا ہے!

٭٭٭

 

خوش گمان

وہ عورتیں

جو حاملہ نہیں ہو سکتیں

اور جن کے وُجُود کی ساری گھٹن

اُن کے اپنے اندر

قے کرنے میں مصروف رہتی ہے

اُن کا دُکھ وہ مرد کیسے سمجھ سکتے ہیں

جن کی شہوت کی زرد ٹہنی پر

کبھی وہ سُرخ پھُول نہیں کھلتے

جن کی مہک دو رُوحوں میں

ایک اٹُوٹ گِرہ لگا تی ہے!

وہ اپنے بستر سے اُٹھائے ہوئے

ایک کاغذی ستر سے

اپنا اصل چہرہ چھِپائے

صِرف صاحبِ اولاد ہونے کو

 محبت اور مردانگی سمجھتے ہیں

مگر یہ نہیں جانتے

کہ بعض اوقات اولاد

باپ کی پگڑی کے ساتھ

 اُس کا سر بھی اُتار لیتی ہے!

٭٭٭

 

نئے تہذیبی علائم کشید کرنے والا شاعر

جمیل الرحمن مُعاصر غزل اور نظم کا ایک  معتبر حوالہ ہے۔اور عرُوضی اصناف پر اُس کی دسترس شک و شبہ، سے بالا ہے۔یہ سُوال اُٹھایا جانا چاہیے کہ ایک ایسا شاعر جو روایتی اصناف میں کامیاب اظہار پر قُدرت رکھتا ہو، اُس پر آخِر ایسی کیا اُفتاد آن پڑتی ہے کہ وہ غیر عرُوضی نظم لکھنے پر خود کو مجبور   پاتا ہے!

اِس سُوال کا ایک تسلّی بخش جواب تو یہ نظمیں بھی فراہم کرتی ہیں کہ اپنے آہنگ ،نفسِ مضمون اور تخلیقی واردات کے حوالے سے شاعر کے اپنے گذشتہ کام سے بالکل مختلف ہیں اور الگ کھڑی دِکھائی دیتی ہیں۔

موضوعات کے حوالے سے یہ شاعری زِندگی ہی کی طرح پہلو دار ہے۔شاعر جہاں اپنی موجودگی سے منسلک کیفیات اور احساسات کو بیان کرتا ہے تو وَہِیں وہ اُس حصار سے باہر نکل کر پوری انسانی سرشت اور رُوداد سے مُعاملہ کرتا بھی دِکھائی دیتا ہے، اور یوں یہ نظمیں ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہیں جس میں ہم اپنے زمانے اور وقت کا چہرہ وضاحت سے دیکھ سکتے ہیں۔

در اصل نثری نظم ایک مستقبل گیر صنفِ سخن ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صِرف ہمارے شعری نظام کا لازمی جزو بن چکی ہے بل کہ اِس نے اردو شاعری کو شاعری کی عظیم بین الاقوامی روایت سے بھی جوڑ دیا ہے اور اِس پیش قدمی میں جمیل کے اِس مجموعے نے بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

مُعاصر نثری نظم میں جمیل الرحمن کا امتیاز اُس کی نظموں کا منفرد لب و لہجہ ہے جو داستان اور اساطیر سے تہذیبی علائم کشید کرتے ہوئے اپنے عہد کو بیان کرتا چلا جاتا ہے،وہ عہد جو انتشار کا عہد ہے اور مانوس مناسبتوں سے رِہائی حاصل کیے بغیر اپنے کامیاب تخلیقی اظہار سے انکار کرتا ہے۔

 ابرار احمد

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے فائل فراہم کی اور اجازت دی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید