FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

علوم القرآن (Quranic Sciences)

 

قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی ؒ اپنی کتاب ’قانونُ التأویل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد 77,450 ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذریعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:

علمُ التوحید (theology)

علمُ القراۃ والتجوید (pronunciation)

علمُ النحو (grammar / syntax)

علمُ الصرف (morphology)

علمُ التفسیر (exegesis)

علمُ اللغہ (linguistics)

علمُ الاصول (science of fundamentals)

علمُ الفروع (science of branches)

علمُ الکلام (theology)

علمُ الفقہ والقانون (law / jurisprudence)

علمُ الفرائض والمیراث(law of inheritance)

علمُ الجریمہ (criminology)

علمُ الحرب (science of war)

علمُ التاریخ (history)

علمُ التزکیہ والتصوف (theosophy)

علمُ التعبیر (oneiromancy)

علمُ الادب (literature)

علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع (rhetoric)

علمُ الجبر و المقابلہ (algebra)

علمُ المناظرہ (polemics)

علمُ الفلسفہ (philosophy)

علمُ النفسیات (psychology)

علمُ الاَخلاق (ethics)

علمُ السیاسہ (political science)

علمُ المعاشرہ (sociology)

علمُ الثقافہ (culture)

علمُ الخطاطی (calligraphy)

علمُ المعیشت والاقتصاد(economics)

علمُ الکیمیا (chemistry)

علمُ الطبیعیات (physics)

علمُ الحیاتیات (biology)

علمُ النباتات (botany)

علمُ الزراعہ (agronomy)

علمُ الحیوانات (zoology)

علمُ الطب (medical science)

علمُ الادویہ (pharmacology)

علمُ الجنین (embryology)

علم تخلیقیات (cosmology)

علم کونیات (cosmogony)

علمُ الہیئت (astronomy)

علمِ جغرافیہ (geography)

علمُ الارضیات (geology)

علمُ الآثار (archaeology)

علمُ المیقات (timekeeping) وغیرہ

اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میںاُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔

اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔

 

علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)

 

علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔

عظیم مغربی مؤرخ  Prof Hitti لکھتا ہے:

Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe.”

(History of the Arabs, pp.568-573)

ترجمہ: "یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں”۔

اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔918ء) اور البیرونی (973ء۔1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل انجام پذیر ہوئے۔

(History of the Arabs, pp.373-378)

پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقویم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقویم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعد اَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقویمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِ فلکیات ہوتا تھا۔

مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات(observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی ؒ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar / solar eclipses) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیر مسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:

"Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon — later extended to the other planets — as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began.”

)The Legacy of Islam, pp. 474-482(

ترجمہ: "مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا”۔

 

 

حساب،الجبرا،جیومیٹری (Mathematics, Algebra, Geometry)

 

حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب "الجبر و المقابلہ” کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میںالجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ’مساوات‘ (equation) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تأسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں, جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا

 

 

طبیعیات،میکانیات اور حرکیات(Physics, Mechanics, Dynamics)

 

قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات (cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت (motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density، atmosphere، measurements، weight، space، time، velocities، gravitation، capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات (physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔

ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ (optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات انجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے Galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذریعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بغداد کے دیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور gadgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔

 

علم بصریات (Optics)

 

بصریات (optics) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب "On Optics” آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذریعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں (rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ (brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities، light، lenses، astronomical observations، meteorology اور camera وغیرہ پر تأسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔

 

علمُ النباتات (Botany)

 

اِس موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔

ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے:

"Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect.”

)Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)

ترجمہ "الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے”۔

پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔

ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔

پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے:

"In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants.

(Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)

ترجمہ: "قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں”۔

اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba)میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے "حدیقہ نباتاتِ طبیہ” کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کر لیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ” میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان "خَلَقَ اﷲُ کُلَّ شَیئٍ زَوجًا” (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔

عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِ نباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پر خالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتات میں سے ہیں۔

 

علمُ الطب (Medical Science)

 

اِس میدان میں بھی اِسلامی تاریخ عدیمُ  المثال مقام کی حامل ہے۔ اِس باب میں الرازی، ابو القاسم الزہراوی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد اور الکندی کے نام سرِ فہرست آتے ہیں۔

"مسلم سائنسدانوں نے اِسلام کے دورِ اَوائل میں ہی بڑے بڑے ہسپتال اور طبی اِدارے (medical colleges) قائم کرلئے تھے، جہاں علم الادویہ (pharmacy) اور علمُ الجراحت (surgery) کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں”۔

(Islamic Science, S.H. Nasr, pp.156)

ایک میلینئم سے زیادہ وقت گزرا جب عالمِ اِسلام کے نامور طبیب ’الرازی‘(930ء)نے علمُ الطب (medical science) پر 200 سے زائد کتب تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کا لا طینی، انگریزی اور دُوسری جدید زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اُنہیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریباً 40 مرتبہ چھاپا گیا۔ smallpox اور measles پر سب سے پہلے صحیح تشخیص بھی ’الرازی‘ نے ہی پیش کی۔

اِسی طرح ابو علی الحسین بن سینا (Avicenna)(1037ئ) نے ’القانون‘ (Canon of Medicine) لکھ کر دُنیائے طب میں ایک عظیم دَور کا اِضافہ کیا۔ اِس کا ترجمہ بھی عربی سے لاطینی اور دیگر زبانوں میں کیا گیا اور یہ کتاب 1650ء تک یورپ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی۔

ابو ریحان البیرونی (1048ء) نے pharmacology کو مرتب کیا۔ اِسی طرح علی بن عیسیٰ بغدادی اور عمار الموصلی کی اَمراضِ چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک فرانس اور یورپ کے medical colleges میں بطور textbooks شاملِ نصاب تھیں۔ ایک غیرمسلم مغربی مفکر E. G. Browne لکھتا ہے :

"جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنے علاج کے لئے بتوں کے سامنے جھکتے تھے اُس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے”۔ اِس سے آگے اُس کے اَلفاظ ملاحظہ ہوں:

The practice of medicine was regulated in the Muslim world from the tenth century onwards. At one time, Sinan ibn Thabit was Chairman of the Board of Examiners in Baghdad. Pharmacists were also regulated and the Arabs produced the first pharamcopia drug stores. Barber shops were also subject to inspection. Travelling hospitals were known in the eleventh century۔ ۔ ۔ The great hospital of al-Mansur, founded at Damascus around 1284 AD, was open to all sick persons, rich or poor, male or female, and had separate wards for men and women. One ward was set apart for fevers, another for ophthalmic cases, one for surgical cases and one for dysentery and kindred intestinal ailments. There were in addition, kitchens, lecture-rooms, a dispensary and so on.

(E. G. Browne, Arabian Medicine, pp.101)

ترجمہ "اِسلامی دُنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی علمِ طب اور ادویہ سازی کو منظم اور مرتب کر دیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب سنان بن ثابت بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے صدر تھے۔ ادویہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتیٰ کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دُکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذِکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دمشق میں قائم شدہ عظیمُ الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد و زن، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اُس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentery) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اُس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور اَدویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اِسی طرح طب کی تقریباً ہر شاخ کے لئے یہاں اِہتمام کیا گیا تھا”۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دُنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دُنیا میں اِنقلاب بپا کیا۔ ملاحظہ ہو:

"Their medical studies, later translated into Latin and the European languages, revealed their advanced knowledge of blood circulation in the human body. The work of Abul-Qasim al-Zahrawi, Kitab al-Tasrif,on surgery, was translated into Latin by Gerard of Cremona and into Hebrew about a century later by Shem-tob ben Isaac. Another important work in this field was the Kitab al-Maliki of al-Majusi (died 982 AD), which shows according to Browne that the Muslim physicians had an elementary conception of the capillary system (optic) and in the works of Max Meyerhof, Ibn al-Nafis (died 1288 AD) was the first in time and rank of the precursors of William Harvery. In fact, he propounded the theory of pulmonary circulation three centuries before Michael Servetus. The blood, after having been refined must rise in the arterious veins to the lung in order to expand its volume, and to be mixed with air so that its finest part may be clarified and may reach the venous artery in which it is transmitted to the left cavity of the heart.

(Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23:166, June, 1935)

ترجمہ: "اُن کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اُن کی اِنسانی جسم میں خون کی گردِش کے متعلق وُ سعتِ علم کا اِنکشاف کرتی ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتابُ التصریف لِمَن عجز عنِ التألیف‘ جس کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے عبرانی زبان میں کیا۔ اِسی میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات982ء) کی تصنیف ’کتابُ الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق یہ کتاب اِس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان اَطباء کو شریانوں کے نظام کے بارے میں بنیادی تصوّرات اور معلومات حاصل تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے اَلفاظ میں ’ابنُ النفیس‘ (وفات1288ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رَو تھا۔ حقیقت میں اُس نے ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں پہلے سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردِش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقیناً پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اُس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اُس کا بہترین حصہ صاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دِل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے”۔

 

علم ادویہ سازی (Pharmacology)

 

Seirton اور Gulick جیسے مغربی محققین نے لکھا ہے کہ ابن البیطار نے سادہ ادویات کے مجموعے (collection of simple drugs) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ علمِ نباتات (botany) پر عربی زبان میں اُس زمانے کی سب سے بڑی تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ اُس نے بحیرۂ رُوم میں اندلس (Spain) سے لے کر شام (Syria)تک کے علاقے سے مختلف پودے، جڑی بوٹیاں اور دوائیاں اِکٹھی کیں اور1,400 سے بھی زیادہ طبی ادویات کا اپنی کتاب میں ذِکر کیا اور اُن کا موازنہ اپنے سے قبل 150 دیگر مصنفین کی تصنیفات سے بھی کیا:

Ibn al-Baytr wrote the Collection of Simple Drugs, which is regarded as the greatest Arabic book on botany of the age. He collected plants, herbs and drugs around the Mediterranean from Spain to Syria and described more than 1400 medicinal drugs, comparing them with the records of over 150 writers before him.

اُس دَور کے عظیم مسلمان ادویہ سازوں (pharmacologists) میں ابوبکر محمد بن زکریا رازی، علی بن عباس، ابوالقاسم خلاف ابن عباس الزہراوی (جسے لاطینی زبان میں Albucasis کا نام دیا گیا)، ابو مروان ابن ظہر (جسے لاطینی زبان میں Aben Bethar کا نام دیا گیا) کے نام بڑے معروف ہیں۔

اِسی طرح medicine پر ابنِ رُشد (Ibn Rushd) کی ’کتابُ الکلیات‘ ایک معرکہ آراء تصنیف ہے، جسے لاطینی میں ترجمہ کر کے پورے عالمِ مغرب میں نصابی کتاب (textbook) کا درجہ دیا گیا مگر اَفسوس کہ ترجمہ کے ذریعے اُس کا نام بدل کر colliget بن گیا، جسے آج کوئی معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ حقیقت میں کون سی کتاب تھی۔ (Islamic Science, p.181)

علمُ الجراحت (Surgery)

اندلس کے عظیم طبیب اور سرجن ابوالقاسم بن عباس الزہراوی کی نسبت پروفیسر Hitti لکھتا ہے:

Albucasis (1013 AD) was not only a physician but a surgeon of the first rank. He performed the most difficult surgical operations in his own and the obstetrical departments. The ample description he has left of the surgical instruments employed his time gives an idea of the development of surgery among the Arabs in lithotomy, he was equal to the foremost surgeons of modern times. His work al-Tasrif li-Man Ajaz an al-Ta’alif (an aid to him who is not equal to the large treatises) introduces or emphasises new ideas. It was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497 AD, at Basle in 1541 AD and at Oxford in 1778 AD. It held its own for centuries as the manual of surgery in Salerono, Montpellier and other early schools of medicine.”

(Hitti, History of Arabs, pp.576-577)

ترجمہ "آپ نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ اوّل درجے کے عظیم سرجن بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنے شعبے میں اِنتہائی مشکل اور پیچیدہ سرجری (آپریشن) کئے اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے زچگی کے شعبے میں بھی آپریشن کئے اور اُنہوں نے اپنے زیر استعمال  آلاتِ سرجری کی بڑی واضح اور روشن وضاحت کی ہے، جس سے عربوں میں سرجری کے فن کی ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ Lithotomy میں وہ موجودہ دَور کے عظیم ترین سرجنوں کا ہم پلہ تھے۔ اُن کا کام ’التصریف لِمن عجز عنِ التألیف‘ نئے تصوّرات کو متعارف کرواتا ہے۔ اُس کا ترجمہ کریمونا (Cremona) کے Gerard نے کیا اور اُس کے مختلف ایڈیشن 1497ء میں وینس سے اور 1541ء میں باسلے اور 1778ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا مقام و مرتبہ صدیوں تک سرجری کے علم میں برقرار رکھا اور طب کے اِبتدائی اَیام میں بھی طبی سکولوں میں اچھے کام کے ساتھ متعارف رہے”۔

سید حسین نصر نے ابنِ زہر کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھا ہے:

Al-Zahrawi’s rank in the art of surgery was paralleled by that of Ibn Zuhr (Aven-Zoar) in the science of medicine (1091-1162 AD). Of the six medical works written by them three are extent. The most valuable is al-Taysir fil-Mudawat al-Tadbir (the Facilitation of Therapy and Diet). Ibn Zuhr is hailed as the greatest physician since Galen. At least he was the greatest clinician in Islam after al-Razi. Ibn Zuhr wrote another book, Kitab al-Aghdhiyah (the Book of Diets) which is among the best of its kind dealing with the subject.

(Islamic Science, p.181)

ترجمہ: "ابنِ زہر کا مرتبہ ادویہ (medicine) میں وُہی ہے جو الزہراوی کا سرجری (surgery) کے فن میں تھا۔ جو چھ قسم کا کام اُنہوں نے ’ادویہ سازی‘ پر کیا اُن میں سے تین ابھی تک جاری و ساری ہیں۔ سب سے گراں قدر کام ’خوراک اور غذائیت کی نشو و نما‘ ہے۔ گیلن کے بعد ابنِ زہر کو سب سے بڑا طبیب تسلیم کیا جاتا ہے۔ کم از کم ’الرازی‘ کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کے مالک تھے۔ ابنِ زہر نے ایک اور تصنیف ’کتاب الاغذیہ‘ بھی ہے، جو اپنے موضوع کے اِعتبار سے اہم ترین کتب میں شمار ہوتی ہے”۔

 

علمِ اَمراضِ چشم (Ophthalmology)

 

مسلم اَطباء نے اَمراضِ چشم کی دواسازی میں بھی بیش بہا علمی اِضافے کئے۔ علی بن عیسیٰ نے اِنتہائی مشہور کتاب Tadhkirat al-Kahhalin لکھی اور مؤخر الذکر نے صدیوں تک ماہرینِ اَمراضِ چشم کی رہنمائی کی۔ علی بن عیسیٰ کی تصنیفات کو دُنیا میں ہر جگہ پڑھایا گیا حتیٰ کہ Tractus de Oculis Jesu ben Hali کے نام سے اُس کا لاطینی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ اَمراضِ چشم سے وابستہ ایسی بہت سی فنی اِصطلاحات لاطینی زبان کے علاوہ دیگر جدید یورپی زبانوں میں بھی اِستعمال ہو رہی ہیں، جن کا منبع عربی زبان ہے۔ اس سے اُن موضوعات پر اِسلامی اَثرات کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔

Muslim physicians also added valuable knowledge to another branch of medicine, Ali ibn Isa wrote the famous work, Tadhkirat al-Kahhalin (Treasury of Ophthalmologists) and Abu Ruh Muhammad al-Jurani entitled Zarrindast (the Golden Hand) wrote Nur al-Ain (the Light of the Eye). The last book has served practitioners of the art for centuries. Ali ibn Isa’s works were taught everywhere and even translated into Latin as Tractus de Oculis Jesu ben Hali. Many of the technical terms pertaining to ophthalmology in Latin as well as in some modern European languages, are of Arabic origin, and attest to the influence of Islamic sources on this subject.

(Islamic Science, pp.166-167)

بیہوش کرنے کا نظام (Anaesthesia)

علی بن عیسیٰ تاریخِ عالم میں پہلا سائنسدان تھا جس نے سرجری سے پہلے مریض کو بے ہوش و بے حس کرنے کے طریقے تجویز کئے۔ اندلس کا نامور سرجن ابوالقاسم الزہراوی بھی آپریشن سے قبل مریض کو بے ہوشی کی دوا دینے سے بخوبی آگاہ تھا۔ اُسی عہد میں تیونس میں ایک اور ماہر اِسحاق بن سلیمان الاسرائیلی منظرِ عام پر آئے، جو اَمراضِ چشم کے ماہر تھے اور اُن کی تصنیفات کا ترجمہ بھی لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیا گیا۔

Ali ibn Isa was also the first person to propose the use of anaesthesia for surgery. Another person appeared at this time in Tunis, Ishaq ibn Sulaiman al-Israili, who practised ophthalmology and his works were also translated into Latin and Hebrew languages.

(Islamic Science, p.178)

 

علمُ الکیمیا (Chemistry)

 

اِسلام کی تاریخ میں علمُ الکیمیا کے باب میں خالد بن یزیدؓ (704ء) اور امام جعفر الصادق ؓ (765ء) کی شخصیات بانی اور مؤسس کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ نامور مسلم سائنسدان ’جابر بن حیان‘ (776ء) اِمام جعفر الصادق ؓ ہی کا شاگرد تھا، جس نے کیمسٹری کی دُنیا میں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ مفروضہ اور تصوّر (hypothesis / speculation)کی بجائے اُنہوں نے تجزیاتی تجربیت (objective experimentation) کو رواج دیا اور اُن مسلم رہنماؤں کی بدولت ہی قدیم الکیمی (Alchemy) باقاعدہ سائنس کا رُوپ دھار گئی۔ evaporation، sublimation اور crystallization کے طریقوں کے موجد ’جابر بن حیان‘ ہی ہیں۔ اُن کی کتابیں بھی عرصۂ دراز تک یورپ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شاملِ نصاب رہی ہیں۔ ’جابر بن حیان‘ اور اُن کے شاگردوں کی سائنسی تصانیف The Jabirean Corpus کہلاتی ہیں۔ اُن میں کتابُ السبعین (The Seventy Books) اور کتابُ المیزان (The Book of Balance) وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کے علاوہ ’ابو مشعر‘، ’سہروردی‘، ’ابنِ عربی‘ اور ’الکاشانی‘ وغیرہ کا کام بھی کیمسٹری کی تاریخ کا عظیم سرمایہ ہے۔ یہ سب علمی اور سائنسی سرمایہ عربی زبان سے لاطینی اور پھر انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ چنانچہ زبانوں کی تبدیلی سے مسلم سائنسدانوں کے نام بھی بدلتے گئے۔ مثلاً الرازی کو Rhazes، ابنِ سینا کو Avicenna، ابوالقاسم کو Abucasis اور ابنُ الھیثم کو Alhazen بنا دیا گیا۔ اِسی طرح عربی اِصطلاحات بھی تراجم کے ذریعے تبدیل ہو گئیں، نتیجتاً آج کا کوئی مسلمان یا مغربی سائنسدان جب تاریخ میں اُن ناموں اور اصطلاحات کو پڑھتا ہے تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ سب اِسلامی تاریخ کا حصہ ہے اور یہ اَسماء عربیُ الاصل (Arabic origin) ہیں۔

اِن حقائق کو جاننے کے لئے مزید ملاحظہ فرمائیں:

  1. Prof. Hitti, History of the Arabs, pp.578-579 (London, 1974)
  2. A and R. Kahane, The Krater and the Grail, Hermetic Sources of the Parzival, Urbana (Illinois, 1965).

3. Corbin, En Islamiranien vol.2, chap.4 (Paris, 1971)

  1. F.A.Yates, Giordana Bruno and the Hermetic Tradition (London, 1964)

5. Syed Husain Nasir, Islamic Science (London, 1976))

  1. George Sorton, An Introduction to the History of Science.
  2. Briffault, The Making of Humanity.
  3. Schaclt. J and Bosworth C.E. The Legacy of Islam (Oxford, 1947)
  4. Watt-W.M. and Cachina P, A History of Islamic Spain (Edinlwrgh)
  5. Robert Gulick L.Junior, Muhammad, The Educator (Lahore, 1969)

 

فنونِ لطیفہ(Fine Arts)

 

جہاں تک فنونِ لطیفہ کا تعلق ہے، قرآنِ مجید ہی کے شغف سے قرونِ وُسطیٰ میں ’فنِ خطاطی‘ (calligraphy)کو فروغ ملا۔ مساجد کی تعمیر سے ’فنِ تعمیر‘ (architecture) اور’ فن تزئین و آرائش‘ (decorative art) میں ترقی ہوئی۔ حرمِ کعبہ، مسجدِ نبوی، بیتُ المقدس، سلیمانیہ اور دیگر مساجدِ اِستنبول ترکی، تاج محل، قصرِ خُلد(بغداد)، جامع قرطبہ، الحمراء اور قصرُ الزہراء (اندلس) وغیرہ اِس فن کی عظیم تاریخی مثالیں ہیں۔

اندلس میں فنونِ لطیفہ کو تمام عالمِ اِسلام سے بڑھ کر ترویج ملی اور وہاں خطّاطی (calligraphy)، موسیقی (music)، تعمیر و تزئین(architecture / decorative art)، مصوّری (painting)، فیشن اور دُوسرے بہت سے صنعتی فنون اپنے دَور کی مناسبت سے ترقی کی اَوجِ ثریا پر فائز تھے۔ اندلس کی ثقافتی ترقی اور فنونِ لطیفہ کے اِرتقاء کا ذِکر متعلقہ باب میں بالتفصیل ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

 

علمِ فقہ و قانون (Law / Jurisprudence)

 

اِس باب میں اِمامِ اعظم ابو حنیفہؒ (متوفی 150ھ) نے دُوسری صدی ہجری کے اَوائل میں ہی تاریخِ قانون میں اُن نادِر ذخائر کا اِضافہ کیا جو صدیاں گزرنے کے باوُجود آج تک مینارۂ نور ہیں۔

1 ۔ آپؒ کے تلامذہ میں سے بالخصوص اِمام محمد بن حسن شیبانیؒ نے ’السیرالکبیر‘ اور ’السیرالصغیر‘ کی صورت میں public international law اور private international law پر اِما مِ  اعظمؒ کی فرمودہ تصانیف مرتب کیں۔ جن پر بعد ازاں اِمام سرخسیؒ نے ’شرحُ السیر‘ کے نام سے چار جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، جو اپنے دَور میں آج کے strakeاور Oppenheim سے بہتر مجموعہ تھا۔ اِمام سرخسیؒ کی ہی 30 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ’المبسوط‘ قانون (law) پر آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ایک نادرُ  المثال مجموعہ ہے۔ یہ تاجدارِ کائنات ﷺ ہی کے عطا کردہ فیض کا کارنامہ تھا کہ عالمِ اِسلام اُس دَور میں قانون پر ایسی کتب مہیا کر رہا تھا، جبکہ باقی پوری دُنیا جہالت کے اَٹاٹوپ اندھیروں میں گم تھی۔ آج مغرب کی علمی تاریخ میں اُس دَور کو dark ages کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اِسلام کے ہاں وہ دَور علوم و فنون کی روشنی سے درخشاں و منوّر تھا۔

2۔ بین الاقوامی قانون پر اِمام زید بن علیؒ (متوفی 120ھ) کی کتاب ’المجموع‘ میں بھی مفصل باب شامل تھا۔ اِمام مالکؒ، اِمام ابویوسفؒ، اِمام محمدؒ، اِمام اَوزاعیؒ، اِمام شافعیؒ اور دیگر ائمہ فقہ و قانون نے بھی اِس موضوع پر بھرپور مواد فراہم کیا، جو علمی و قانونی تاریخ کا بیش بہا سرمایہ ہے۔

3۔ comparative case law، جو دورِ جدید کا ایک نہایت اہم قانونی فن اور علمی موضوع ہے، اُس پر دُوسری صدی ہجری میں ہی باضابطہ کام شروع ہو گیا تھا۔ دبوسی، ابنِ رُشد، شاطبی اور سیموری وغیرہ کی تصانیف اِس فن کے اَعلیٰ پایہ کے نمونے ہیں۔

4۔ علمِ دستور (constitutional law) پر دُنیا کی سب سے پہلی با ضابطہ دستاویز خود حضور سرورِ کائنات ﷺ کا تیار کردہ "میثاقِ مدینہ” (The Pact of Madina) ہے، جو 63 دفعات (articles) پر مشتمل ہے۔ یہ آئینی و دستوری دستاویز ابنِ ہشامؒ، ابنِ اِسحاقؒ، ابو عبیدؒ، ابنِ سعدؒ، ابنِ کثیرؒ اور ابنِ اَبی خثیمہؒ کے ذریعے کامل شکل میں ہم تک پہنچی۔ جدید مغربی دُنیا کا آئینی و دستوری سفر 1215ء میں اُس وقت شروع ہوا جب شاہِ انگلستان King John نے ’محضّرکبیر‘ (Magna Carta) پر دستخط کئے، جبکہ اُس سے 593 سال قبل ہجرت کے پہلے سال 622ء میں ریاستِ مدینہ میں حضور نبیٔ  اکرم ﷺ کی طرف سے اِنسانیت کو معاشی و سماجی عدل اور مساوات پر مُشتمل ایک جامع تحریری دستور دیا جا چکا تھا۔یہ دُنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین (written constitution) ہے، جس سے قبل تاریخِ عالم میں باقاعدہ اور باضابطہ ریاستی دستور کے تحریر کئے جانے کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ تاریخِ علم و قانون اور تاریخِ سیاسیات میں حضور نبیٔ  اکرم ﷺ کا پہلا کارنامہ ہے۔ اُس سے پہلے شہری ریاستوں اور ہندوستان کے دساتیر سمیت منوسمرتی (500 ق م)، آرتھ شاستر (300 ق م) اور ارسطو (322ق م) کی تصانیف میں جو کچھ ملتا ہے وہ سب پند و نصائح پر مشتمل درسی اور تعلیمی نوعیت کا کام ہے۔ ارسطو کا ’شہر ایتھنز کا دستور‘(Athenian Constitution) جو گزشتہ صدی میں مصر سے دریافت ہوا اور 1891ء میں شائع ہوا، وہ بھی اِسی نوعیت کا کام ہے جو مسلمانوں کے ہاں ’نصیحتُ الملوک‘ جیسی کتابوں میں عام پایا جاتا ہے، جن میں کسی ریاست کا نظام چلانے کے سلسلے میں بادشاہوں کے لئے پند و نصائح شامل ہیں۔ کسی سربراہِ ریاست یا حکومت کی طرف سے ارسطو کی یہ دستاویزات باقاعدہ دستور کے طور پر نافذ ہوئیں اور نہ ہی وہ اِس نوعیت کے دستاویز تھیں کہ اُنہیں نافذ کیا جاتا۔ یہ شان سب سے پہلے "میثاقِ مدینہ” کو حاصل ہوئی اور یہ اَمر سیرتِ محمدی ﷺ کا ایک درخشندہ تاریخی باب ہے۔

تاجدارِ کائنات ﷺ کی طرف سے دستوری و آئینی کام کے باضابطہ آغاز کے بعد اِس موضوع پر الماوردیؒ اور ابوعلیؒ کی ’الاحکام السلطانیہ‘ ،غزالی ؒ کی ’نصیحۃُ الملوک‘، طرطوسیؒ کی ’سراجُ الملوک‘ اور الفارابیؒ کی ’المدینہ الفاضلہ‘ جیسی درسی کتب بھی معرضِ وُجود میں آئیں۔ الغرض مسلمانوں کی دستوری و آئینی خدمات میں سے سب سے اہم خدمت یہ ہے کہ اُنہوں نے ریاست کے تین اہم اعضاء مقننہ (legislature)، اِنتظامیہ (executive) اور عدلیہ (judiciary) کو الگ الگ تشخص دیا۔ اُنہیں عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہی ’اہل الحل والعقد‘، ’اُولی الامر‘ اور ’القضا‘ کے مستقل نام دے دیئے گئے تھے اور اُن کے دائرہ ہائے کار بھی متعین کر دیئے گئے تھے، جبکہ مغربی علمِِ دستور میں اُن کا تصوّر بہت بعد میں فروغ پذیر ہوا۔

5۔ Common law پر باقاعدہ فقہی و قانونی مجموعات (juristic / legal codes) بھی اِسلام کی دُوسری صدی کے اَوائل میں مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ جنہیں باقاعدہ حصص اور اَبواب (parts / chapters) میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عبادات (religious laws) ، مناکحات (family laws)، معاملات و معاہدات (civil / contractual laws)، عقوبات (penal laws)، مالیات (fiscal laws) اور قضا و شہادات (procedural / evidence laws) وغیرہ کی باقاعدہ قانونی تقسیم بھی تاریخِ اِسلام کی پہلی صدی میں ہی عمل میں آچکی تھی۔ یہ سب وہ علمی نظم تھا جو مسلمانوں کو اَوائلِ اِسلام سے ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات اور حضور نبیٔ  اکرم ﷺ کی سنتِ مبارکہ کے ذریعے میسر آگیا تھا، جبکہ اُس وقت مغربی دُنیا بنیادی حقوقِ انسانی اور علم و آگہی کے تصوّر سے ہی یکسر محروم تھی۔

اِمام ابو حنیفہؒ کی کتب ’ظاہرالروایہ‘ جنہیں اُن کے شاگرد اِمام محمدؒ نے مرتب کیا، اُن کے علاوہ اِمام مالکؒ کی ’الموطا‘، اِمام شافعیؒ کی ’کتابُ الام‘ اور دیگر ائمہ کی تصانیف کے ذریعے فقہ و قانون کا عظیم سرمایہ معرضِ وُجود میں آگیا تھا۔ بعد اَزاں "فقہ حنفی” میں سرخسیؒ کی ’المبسوط‘، مرغینانیؒ کی ’الھدایہ‘، ابن ہمامؒ کی ’فتح القدیر‘، کاسانیؒ کی ’بدائع الصنائع‘ وغیرہ، "فقہ مالکی” میں ابنِ سحنونؒ کی ’المدوّنۃ الکبریٰ‘، ابنِ جزیؒ کی ’القوانین الفقیہ‘، ابنِ فرحونؒ کی ’تبصرۃُ الحکام‘، الخطابؒ اور خرشیؒ کی شرح ’المختصر‘ وغیرہ، "فقہ شافعی” میں نوویؒ کی ’المجموع‘، غزالی ؒ کی ’الوجیز‘، بصیرؒ کی ’النہایہ‘ وغیرہ، "فقہ حنبلی” میں ابنِ قدامہؒ کی ’کتابُ المغنی‘ اور ابنِ القیمؒ کی ’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘، ابنِ حزمؒ کی ’المحلی‘ اور القرافی ؒ کی ’الفروق‘ وغیرہ، "فقہ جعفریہ” میں الحلیؒ کی ’شرائع الاسلام‘ جواد مغنیہؒ کی ’فقہ الامام جعفر الصادق‘ وغیرہ اور ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ (الجزیری) جیسی کتب مرتب ہوتی رہی ہیں۔ Case law پر فتاویٰ اور شرعی فیصلہ جات (judicial decisions) کے ’فتاویٰ قاضی خان‘، ’فتاویٰ بزازیہ‘، ’فتاویٰ ابنِ تیمیہ‘، ’فتاویٰ اِمام نووی‘، ’فتاویٰ اِمام سبکی‘ اور ’فتاویٰ الہندیہ‘ جیسے مجموعات مرتب ہوئے۔

6۔ fiscal / taxation law اور administrative lawمیں اِمام ابو یوسفؒ اور یحییٰ بن آدمؒ کی ’کتابُ الخراج‘ اور ابو عبید قاسم بن سلامؒ کی ’کتابُ الاموال‘ اوائل دَور کے بہترین علمی شہ پارے ہیں۔

 

علم تاریخ اور عمرانیات (Historiography / Sociology)

 

اِن علوم میں بھی اِسلام کی اِبتدائی صدیوں میں گرانقدر سرمایہ جمع کیا گیا، جس کے ذریعے نہ صرف سیرتِ نبوی ا بلکہ دس ہزار سے زائد صحابہ کرامؓ کے حالات و سوانح بھی پوری تحقیق کے بعد مرتب ہوئے۔ تاریخِ اِسلام میں اِس علم کو ’اَسماءُ  الرِجال‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کے تحت محققین نے 5 لاکھ سے زیادہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر رُواۃِ حدیث کے اَحوالِ حیات مرتب کئے۔ یہ فن اپنی نوعیت میں منفرد ہے جو دُنیا کی کسی قوم اور مذہب میں تھا اور نہ ہے۔ ابنِ اِسحاقؒ، جنہوں نے عہدِ حضرت آدمؑ سے عہدِ رسالت مآب ﷺ تک پوری اِنسانی تاریخ مرتب کی، اِسلام کے عظیم اوّلیں مورخین میں سے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ ہشامؒ، طبریؒ ، مسعودیؒ، مسکویہ حلبیؒ، اندلسیؒ، ابنِ خلدونؒ، دیار بکریؒ، یعقوبیؒ، بلاذریؒ، ابنُ الاثیرؒ، ابنِ کثیرؒ، سہیلیؒ، ابنِ سیدُالناسؒ وغیرہ کے کام بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، جبکہpolitical thought اور sociology میں غزالیؒ، فارابیؒ، ماوردیؒ، ابنِ خلدونؒ، ابنِ رُشدؒ، ابنِ تیمیہؒ، ابنُ القیمؒ اور شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ کی تالیفات نہایت اہم ہیں۔

جغرافیہ اور مواصلات (Geography / Communications)

 

اِسلامی عہد کے عروج کے موقع پر علمِ جغرافیہ میں بھی خوب ترقی ہوئی۔ بلاذریؒ اور ابنِ جوزیؒ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ فاروقی میں ہی خلافتِ اِسلامیہ کی ڈاک ہر وقت ’ترکستان‘ (Central Asia) سے ’مصر‘ (Egypt) تک کے علاقے میں روانہ ہوتی تھی۔ geography اور topography کے ماہرین ڈاک کے ساتھ دورانِ سفر تمام علاقوں کے نقشے تیار کر کے لف کرتے اور تمام متعلقہ مقامات کی جغرافیائی، تاریخی اور اِقتصادی معلومات بھی بترتیبِ ہجائی (alphabetic order) میں فراہم کرنے کا اِہتمام کیا جاتا تھا۔

اوائل دورِ اسلام میں ’ابنِ حوقل‘ نے بھی معلوم کرۂ ارض کے نقشے تیار کئے اور cartography کے فن پر تحقیق کی۔ اپنے بنائے ہوئے نقشوں میں اُس نے زمین کو کروی شکل (circular shape) میں دِکھانے کے ساتھ ساتھ بحیرۂ رُوم (Mediterranean sea) کی حُدود کی صحیح شناخت بھی کروائی۔ اِسی طرح ’الادریسی‘ کا نقشہ جو شاہِ سسلی (1101ء ۔ 1154ء) کے لئے آج سے 9 صدیاں قبل تیار کیا گیا تھا، اُس میں دُنیائے عالم کے طویل ترین دریا ’دریائے نیل‘ (Nile) کے مصادر (sources) تک کی خبر دی گئی ہے، جو اُس کے ڈیلٹا سے 6,076 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

’یاقوت حمویؒ ‘ نے ’معجمُ البلدان‘ کے نام سے جغرافیہ پر اُس وقت کی سب سے بڑی معجم (dictionary) مرتب کی، جس نے اہلِ دُنیا کو دُنیا کا علم فراہم کیا۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے دُنیا کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں کی تفصیلات حروفِ تہجی کی ترتیب (alphabetic order) سے پیش کی ہیں۔

’خوارزمی‘ نے ’صورۃُ الارض‘ (Image of the Earth) کے نام سے ایسا جغرافیائی مطالعہ اہلِ علم کو عطا کیا جو بعد ازاں جدید جغرافیہ کی بنیاد بنا۔

’حمدانی‘ (945ء) نے آج سے گیارہ سو سال قبل چوتھی صدی ہجری میں علمِ جغرافیہ میں اِنتہائی گرانقدر معلومات کا اِضافہ کیا۔

نامور مغربی مؤرِخ  Prof. Hitti نے اِن مسلمان ماہرینِ فن کی علمی خدمات کے اِعتراف میں لکھا ہے کہ:

"The bulk of this scientific material, whether astronomical, astrological or geographical, penetrated the west through Spanish and Sicilian channels.”

(History of the Arabs, pp.383-387)

ترجمہ: "اُس سائنسی مواد کا زیادہ تر حصہ۔ ۔ ۔ خواہ وہ ’علمِ فلکیات‘ (اَجرامِ سماوی کا علم) کے مطالعہ پر مبنی ہو یا ’علم نجوم‘ (پیش بینی) کے مطالعہ پر یا ’علم جغرافیہ‘ پر مبنی ہو۔ ۔ ۔ اندلس (Spain) اور (اٹلی کے جنوبی ساحل پر واقع جزیرے) سسلی (Sicily) کے ذریعے عالمِ مغرب میں داخل ہوا”۔

علمِ جغرافیہ (geography) میں قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان اِس قدر مشّاق تھے کہ اُن کا فن عالمی شہرت اِختیار کر گیا تھا۔ چنانچہ 1331ء میں چین (China) کا سرکاری نقشہ (official map) بھی مسلمان جغرافیہ دانوں نے ہی تیار کیا تھا۔

(Islamic Culture, 8:514, Oct.1934)

وہ ہزارہا اِسلامی سکے جو جزیرہ نمائے سکینڈے نیویا (Scandinavia)، فن لینڈ (Finland)، کازن (Kazan) اور رُوس (Russia) کے دیگر دُور دراز مقامات کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں، مسلمانوں کے اوائلِ اسلام میں کئے جانے والے تجارتی سفروں اور عالمی سرگرمیوں کی خبر دیتے ہیں۔ Vasco de Gama کے پائلٹ ابنِ ماجد نے مسلمانوں میں اُس دَور میں قطب نما (compass) کے اِستعمال کی خبر دی ہے۔ اِس فن کی بہت سی جدید اِصطلاحات میں بھی قرونِ وُسطیٰ کے عرب مسلمان سائنسدانوں کی باقیات ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ arsenal، admiral، cable، monsoon اور tariff وغیرہ جیسے بے شمار عربیُ الاصل اَلفاظ و اِصطلاحات آج کی جدید دُنیا میں بھی متداوَل ہیں، جس سے جدید مغربی کلچر پر مسلم علم و ثقافت کے اَثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحرائے عرب کے اَن پڑھ باسی جن کے ہاں پڑھنا لکھنا بھی عیب تصوّر ہوتا تھا، جن کی بدوی زندگی میں صدیوں تک علمی و فکری ترقی کے ظاہراً کوئی اِمکانات دکھائی نہ دیتے تھے اور ’فتوحُ البلدان‘ میں ’بلاذری‘ کی رِوایت کے مطابق جس قوم کی شرحِ خواندگی کا یہ عالم تھا کہ مکہ شہر کے گرد و نواح میں آباد لاکھوں کی آبادی میں کل 10 سے 15 اَفراد ایسے تھے جو سادہ حد تک لکھ پڑھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ کسی کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ قوم تعلیمی پسماندگی کی اُس حالت سے اُٹھ کر صرف ایک ہی صدی کے بعد علم و فن، تہذیب و ثقافت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے آسمان پر ستاروں کی طرح چمکنے لگی اور پوری دُنیائے تاریک میں تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کی روشنی پھیلانے لگی۔ آخر اس محیرالعقول علمی و فکری اور سائنسی و ثقافتی اِنقلاب کا سبب کیا تھا؟ کیا یہ عدیمُ المثال اِنقلاب صرف اور صرف حضور نبیٔ  اکرم ﷺ کا فیضانِ سیرت اور آپﷺ کی طرف سے دی گئی اِسلام کی آفاقی تعلیمات کا نتیجہ نہیں تھا جس نے اَن پڑھ صحرا نشینوں کو ہزارہا علوم و فنون کا بانی اور جدید تہذیب و ثقافت کا مؤسس بنا دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے مغربی مفکرین اور مؤرِخین کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اُن کے ذِہنوں میں بھی یہی سوال اُٹھا ہے اور بعضوں نے اُس کا صحیح جواب تلاش کر لیا ہے اور بعض ابھی تک متذبذب ہیں۔

 

اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ دُنیائے علم و ثقافت میں عرب مسلمانوں کی یہ حیرت انگیز ترقی اِسلام کی آفاقی تعلیمات ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم قرآن و سنت کی فطری تعلیمات سے متمسّک رہے رُوحانی بلندی کے ساتھ ساتھ مادّی ترقی کی بھی اَوجِ ثریا پر فائز رہے اور جونہی اُنہوں نے لغزش کی اور اِسلامی تعلیمات سے اِعراض کا رستہ اپنایا قعرِ مذلّت میں جا گرے۔

ایک غیر مسلم مؤرّخ نے اِسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

The coming of Islam six hundred years after Christ, was the new, powerful impulse. It started as a local event, uncertain in its outcome; but once Muhammad conquered Makkah in 630 AD, it took the southern world by storm. In a hundred years, Islam conquered Alexandria, established a fabulous city of learning in Baghdad and thrust its frontier to the east beyond Isfahan in Persia. By 730 AD the Muslim Empire reached from Spain and Southern France to the borders of China and India. An empire of spectacular strength and grace while Europe lapsed into the Dark Age ۔ ۔ ۔ Muhammad had been firm that Islam was not to be a religion of miracles, it became in intellectual content a pattern of contemplation and analysis.

(J Bronowski, The Ascent of Man, London 1973, pp.165-166)

ترجمہ: "حضرت عیسیٰؑ کے چھ سو برس بعد اِسلام کا ظہور ایک نئی توانا تحریک کے طور پر ہوا۔ اُس کا آغاز ایک مقامی حیثیت سے ہوا، اور شروع میں نتائج کے اِعتبار سے صورتِ حال غیر یقینی تھی، مگر نبیٔ  اکرم ﷺ 630ء میں جونہی فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے تو دُنیا کے جنوبی حصہ میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک صدی کے اندر ’اسکندریہ‘ فتح ہوا، ’بغداد‘ اِسلامی علم و فضل کا شاندار مرکز بنا اور اِسلامی حدوں کی وُسعت مشرقی ایران کے شہر ’اِصفہان‘ سے آگے نکل گئی۔ 730ء تک اِسلامی سلطنت ’اندلس‘ اور ’جنوبی فرانس‘ کو سمیٹتی ہوئی ’چین‘ اور ’ہندوستان‘ کی سرحدوں تک جا پہنچی۔ طاقت اور وقار کی اِس اِمتیازی شان کے ساتھ جہاں مسلم سلطنت اپنے عروج پر تھی وہاں یورپ اُس وقت پستی اور تنزّل کے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔ حضرت محمدﷺ نے اِسلام کو معجزات کے محدُود دائرہ میں رکھنے کی بجائے اُسے غور و فکر اور تجزیہ کی نمایاں عقلی و فکری چھاپ عطا کی۔

اِسی طرح Robert L. Gulick نے بیان کیا ہے:

It should be borne in mind, however, that these aphorisms (maxims found in ahadith) have been widely accepted as authentic and it cannot be doubted that they have exerted a wide and salutary influence. The words attributed to Muhammad must assuredly have stimulated and encouraged the great thinkers of the Golden Age of Islamic civilisation.

(Muhammad, The Educator)

ترجمہ: "اِس اَمر کو بخوبی ذِہن میں رکھنا چاہئے کہ ان اَحادیث کو اِنتہائی مستند حیثیت حاصل رہی ہے اور نبیٔ  اکرم ﷺ کے اُن اِرشادات کا بہت مفید اور گہرا اَثر مرتب ہوا ہے۔ اُن اَحادیث نے اِسلامی تہذیب کے سنہری دَور کے عظیم مفکرین پر نہایت صحتمند اور رہنما اَثر ڈالا ہے”۔

پروفیسر Robert علم اور حصولِ علم کی اہمیت و فضیلت پر مبنی آیات و اَحادیث کے ذِکر کے بعد مزید لکھتا ہے:

These statements must not be construed as idle and useless words. The results have been very substantial. The strength of Islamic science was its devotion to practical matters rather than to the vague notions of the Byzantine Greeks.

(Muhammad, The Educator)

Robert L. Gulick کہتا ہے کہ (اِسلام کے) اُن اَقوال کو بے فائدہ اور بے مقصد نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ اُن پر عمل کرنے سے ٹھوس نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اِسلامی سائنس کی اصل طاقت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ یہ بازنطینی یونانی واہموں کے برعکس تجرباتی اُمور پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے”۔

اِس موضوع پر مغرب کے نامور مؤرِخ اور محقق Robert Briffault کا تجزیہ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتا ہے:

It is highly probable that but for the Arabs, modern European civilisation never have assumed that ۔ ۔ ۔ character which has enabled it to transcend all previous phases of evolution. For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the paramount distinctive force of the modern world and the supreme source of its victory, natural science and the scientific spirit. What we call science arose in Europe as a result of a new spirit of enquiry, of new methods of investigation, experiment, observation and measurement of the development of mathematics in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs.

(The Making of Humanity, pp.190-191)

رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشو و نما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ ’جستجو‘، ’تحقیق‘، ’تحقیقی ضابطے‘، ’تجربات‘، ’مُشاہدات‘، ’پیمائش‘ اور ’حسابی مُوشگافیاں‘ ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔

یہ بات بڑی حوصلہ اَفزا ہے کہ مغربی مفکرین نے اِس حقیقت کو اِن کھلے اَلفاظ میں تسلیم کیا ہے:

There is no doubt that the Islamic sciences exerted a great influence on the rise of European science; and in this Renaissance of knowledge in the west there was no single influence, but diverse ones; the main influence was of course, from Spain, then from Italy and Palestine through the crusaders, who had mixed with Muslims and seen the effect of sciences in Muslim culture.

(Joseph Schacht / C.E.Bosworth, The Legacy of Islam, pp.426-427)

ترجمہ: "اِس اَمر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کے سائنسی فکر پر اِسلامی سائنسی فکر کا گہرا اَثر مرتب ہوا۔ مغرب کی اِس علمی نشأۃِ ثانیہ پر دیگر کئی اَثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اَثر اندلس (Spain) سے آیا، پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اَثرات مرتب ہوئے کیونکہ صلیبی جنگوں نے مغربی ممالک کے لوگوں کو فلسطینی مسلم ثقافت اور سائنسی اُسلوب سے رُوشناس کرایا”۔

ایک اور یورپی محقق نے اِس اَمر کی تصریح اِن اَلفاظ میں کی ہے:

Islam, impinging culturally upon adjacent Christian countries, was the virtual creator of the Renaissance in Europe.

(Stanwood Cobb, Islam’s Contribution to World Culture)

Stanwood Cobb نے اپنی درج بالا کتاب میں یہاں تک کہا ہے کہ یورپ کی نشأۃِ ثانیہ حتمی طور پر اِسلام کا مرہونِ منت ہے۔

اِس اِعترافِ حقیقت کے ساتھ ساتھ یورپی محققین نے براہِ راست اِس سوال پر بھی توجہ کی ہے کہ وہ اِنقلاب کس چیز کے زیرِاثر آیا اور اُس کا محرّک کیا تھا؟

Robert L. Gulick نے درج ذیل اَلفاظ میں اِس حقیقت کا برملا اِظہار کیا ہے:

That important contributions to world intellectual progress were made by the Arabs is not open to question. But were these development the result of the influence of Muhammad[L: 63]

(Muhammad, The Educator)

ترجمہ: "یہ ایک مصدّقہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی شعوری ترقی میں عربوں نے نہایت اہم کردار اَدا کیا، مگر کیا یہ ساری ترقی حضرت محمدﷺ کے اَثر کا نتیجہ نہ تھی”۔

اُس نے ’بریفالٹ‘ کے اِس نقطۂ نظر کو ردّ کر دیا ہے کہ عرب سائنسدانوں کا مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا اور یہ تمام ترقی عرب علماء اور سائنسدانوں کی اپنی محنت تھی۔ اُس کے نزدیک اِس تمام ترقی کی بنیاد صرف اور صرف دینِ اِسلام اور سیرتِ محمدیﷺ تھی، جس کے ذریعے عرب مسلمان اور سائنسدان علوم و فنون اور تحقیق و جستجو کی شاہراہ پر گامزن ہو گئے تھے۔

Reverend George Bush نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے:

No revolution in history, if we accept that affected by the religion of the Gospel, has introduced greater changes into the state of the civilised world than that which has grown out of the rise, progress and permanence of Muhammadanism.

(The Life of Muhammad)

ترجمہ: "اِلہامی کتابوں کے حوالہ سے کوئی بھی تاریخی اِنقلاب اِتنے ہمہ گیر اَثرات کا حامل نہیں جس قدر پیغمبرِ اِسلام کا لایا ہوا اِنقلاب جسے اُنہوں نے پائیدار بنیادوں سے اُٹھایا اور بتدرِیج اُستوار کیا”۔

 

 

 

باب چہارُم

اِسلامی سپین میں تہذیب و سائنس کا اِرتقاء

 

برِاعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) جو ’کوہستانِ پیرینیز‘ (Pyrenees) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے اور آج کل  سپین (Spain) اور پرتگال (Portugal) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً 800 برس تک حکومت کی ۔ اِسلامی تاریخ میں اس ملک کو’ اندلس‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اندلس جو کبھی اپنی وُسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ سپین اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ (Narbonne)، بربنیان (Perpignan)، قرقشونہ (Carcassonne)اور تولوشہ (Toulouse) وغیرہ تک جا پہنچا تھا، دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض ’غرناطہ‘ (Granada) تک محدُود ہو گئیں۔

تاریخِ اندلس جہاں ہمیں عروج و زوال کی ہوش رُبا داستان سناتی ہے وہاں قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں کے عظیم کارہائے نمایاں سے بھی نقاب اُلٹتی نظر آتی ہے، اور اِس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیادوں میں دراصل قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں ہی کا ہاتھ ہے اور اِسلامی سپین کے سائنسدان بغداد کے مسلمان سائنسدانوں سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔

سپین میں سائنسی علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کے ذکر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اَحوال اُس کی فتح اور اَدوارِ حکومت کے حوالے سے بھی بیان کر دیئے جائیں تاکہ قارئین کو اُس کا پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔

 

اَدوارِ حکومت

 

اِسلامی سپین کی تاریخ درج ذیل بڑے اَدوار میں منقسم ہے :

1 ۔فتوحات و عصرِ وُلاۃ 19جولائی 711ء تا 773ء

2۔ دورِ بنو اُمیہ 773ء تا 1008ء

3۔ دورِ ملوکُ الطوائف 1008ء تا 1091ء

4۔ دورِ مرابطون 1091ء تا 1145ء

5۔ دورِ موحّدون 1147ء تا 1214ء

6۔ طوائفُ الملوکی 1214ء تا 1232ء

7۔ دورِ بنونصر(غرناطہ) 1232ء تا 2جنوری1492ء

 

فتحِ سپین

ولید بن عبدالملک کے دورِ خلافت (705ء تا 715ء) میں موسیٰ بن نصیر کو شمالی افریقہ کی گورنری تفویض ہوئی۔ اُس دور میں سپین کی سیاسی و معاشی حالت اِنتہائی اَبتر تھی۔ عیش کوش ’گاتھ‘ حکمرانوں نے غریب رِعایا کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ عیش و عشرت کے دِلدادہ بدمست اُمراء اور پادریوں نے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ یہودیوں کی حالت سب سے بری تھی۔ اُنہیں کوئی دَم سکھ کا سانس نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ ظلم و بربریت کے اُس نظام سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی سوچی اور وہاں سے فرار ہو کر موسیٰ بن نصیر کے زیرِ اِنتظام شمالی افریقہ میں پناہ لینا شروع کر دی جہاں اِسلامی نظامِ حکومت کے باعث لوگ پُر امن زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب معاملہ حد سے بڑھا اور مہاجرین بڑی تعداد میں سمندر پار کر کے افریقہ آنے لگے تو موسیٰ نے سپین کی مظلوم رِعایا کو بدمست حکمرانوں کے چنگل سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنایا۔

سپین پر باقاعدہ حملے سے قبل دُشمن کی فوجی طاقت کے صحیح اندازے کے لئے موسیٰ نے اپنے ایک قابل غلام ’طریف‘ کی کمان میں جولائی 710ء میں 100 سواروں اور 400پیادوں کا دستہ روانہ کیا، جس نے سپین کے جنوبی ساحل پر پڑاؤ کیا، جسے آج تک اُس کی یاد میں ’طریفہ‘ کہا جاتا ہے ۔

آس پاس کے علاقوں پر کامیاب یلغار کے بعد’طریف‘ نے موسیٰ کو اِطلاع دی کہ فضاء سازگار ہے، اگر حملہ کیا جائے تو جلد ہی عوام کو ظالم حکمرانوں کے پنجۂ تسلط سے نجات دِلائی جا سکتی ہے ۔

موسیٰ بن نصیر نے اگلے ہی سال 711ء بمطابق92ھ معروف بربر جرنیل ’طارق بن زیاد‘ کو ,0007 فوج کے ساتھ سپین پر لشکر کشی کیلئے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے سپین کے ساحل پر جبل الطارق (Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔

’طارق‘ کا سامنا وہاں سپین کے حکمران ’راڈرک‘ کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیئے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے:

أیھا النّاسُ! أین المفرّ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و لیس لکم و اللہ إلا الصّدق و الصبر۔

(دولۃُ الاسلام فی الاندلس، 1:46)

اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن، اور بخدا تمہارے لئے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

شریف اِدریسی نے اپنی کتاب "نُزھۃُ المشتاق” میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی711ء کے تاریخی دِن ’وادیٔ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں سپین کے عوام نے یومِ نجات منایا۔ اس کے بعد اکتوبر711ء میں اِسلامی اندلس کا نامور شہر قرطبہ (Cordoba) ’مغیث رومی‘ کے ہاتھوں فتح ہوا اور دُوسرے شہر بھی یکے بعد دیگرے تیزی سے فتح ہوتے چلے گئے ۔ بعد اَزاں جون712ء میں ’موسیٰ بن نصیر‘ نے خود,00018 فوج لے کر اندلس کی طرف پیش قدمی کی اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) اور ’ماردہ‘ (Merida) کو فتح کیا۔ دونوں اِسلامی لشکر ’طلیطلہ‘ (Tledo) کے مقام پر آن ملے جو پہلے ہی کسی مزاحمت کے بغیر فتح ہو چکا تھا۔

اِسلامی لشکر جن شہروں کو فتح کرتا وہاں کے مفلوک الحال مقامی باشندے خصوصاً یہودی مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دیتے ۔ عوامی پذیرائی کچھ اِس قدر بڑھی کہ مسلمان تھوڑے سے وقت میں پورا سپین فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ طارق بن زیاد کی فتوحات میں سے آخری فتح ’خلیج بسکونیہ‘ (Bay of Biscay)پر واقع شہر ’خیخون‘ (Gijon) کی تھی، جس کے بعد فتوحات کا سلسلہ روک کر ملکی اِنتظام و اِنصرام کی طرف توجہ دی گئی۔ (دولۃُ الاسلام فی الاندلس، 1:51)

اِسی اثناء میں موسیٰ بن نصیر کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ وہ اور طارق بن زیادہ اس مہم کو یہیں چھوڑ کر دمشق چلے آئیں۔ دو سال کی قلیل مدّت میں کم و بیش سارا سپین فتح ہو چکا تھا، موسیٰ نے وہاں سے واپسی سے پہلے اُس کے اِنتظام حکومت کا اِہتمام کیا۔ قرطبہ (Cordoba) کو اندلس کا دارالحکومت قرار دیا، اپنے بیٹے ’عبدالعزیز‘ کو وہاں کا حاکم بنایا اور خلیفہ کے حکم کے مطابق دمشق کی طرف عازمِ سفر ہوا۔

عصرِ وُلاۃ

’موسیٰ بن نصیر‘ اور ’طارق بن زیاد‘ کی واپسی کے بعد 714ء سے 756ء تک 43سالوں میں ملک سیاسی حوالے سے عدم اِستحکام کا شکار رہا۔ اُس دوران میں کل 22گورنر اندلس میں مقرر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی اور تہذیبی اِرتقاء کے ضمن میں اُس دور میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔ اندلس کی تاریخ میں یہ دور کافی حد تک غیر واضح ہے ۔ اُس دَور کو اِسلامی سپین کی تاریخ میں عصرِ وُلاۃ (یعنی گورنروں کا دَور) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

دورِ بنواُمیہ

40ہجری سے 132ہجری تک عالمِ اِسلام پر حکمرانی کے بعد جب اُموی دورِ خلافت کا خاتمہ ہوا اور بنو عباس نے غلبہ پانے کے بعد شاہی خاندان کے اَفراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا تو اُموی خاندان کے چند اَفراد بمشکل جان بچا سکے ۔ اُنہی بچ نکلنے والوں میں سے ’ہشام بن عبدالملک‘ کا 20سالہ نوجوان پوتا ’عبدالرحمن بن معاویہ‘ بھی تھا جس کی ماں ’قیوطہ‘ افریقہ کے بربری قبیلہ ’نفرہ‘ سے تعلق رکھتی تھی۔ عبدالرحمن نے عباسیوں کے مظالم سے بچنے کیلئے افریقہ کا رُخ کیا جہاں اُس کیلئے پناہ کے مواقع ایشیا کی نسبت بہت زیادہ تھے۔ وہ افریقہ سے گزرتا ہوا 5سال بعد اندلس کے ساحل تک جا پہنچا ۔ جہاں اُموی دور کی شاہی اَفواج موجود تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبدالرحمن نے اُن میں اِتنا اثر پیدا کر لیا کہ اُنہوں نے اُسے اپنا کمانڈر بنا لیا۔ یہ فوج شمال کی سمت چلی اور چند ہی سالوں میں تمام اندلس اُس کے زیرِ قبضہ آگیا۔ مقامی اُمراء اور عوام نے اُس کی اِطاعت قبول کر لی اور پورا ملک آزاد اُموی ریاست کی صورت اِختیار کر گیا۔

تاریخ اُسے ’عبدالرحمن الداخل‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اُس نے اندلس پر 756ء سے 788ء تک کل 32سال حکومت کی ۔ اس دوران میں اُس نے مقامی اُمراء کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے علاوہ فرانس کے بادشاہ ’شارلیمان‘ کا حملہ بھی بری طرح پسپا کیا ۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا ’ہشام‘ تختِ سلطنت پر بیٹھا۔ اُس کے عہد میں مسلمانوں نے جنوبی فرانس کے بہت سے شہروں کو فتح کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فقہ مالکی کو ریاست میں قانون کی بنیاد کے طور پر نافذ کیا گیا۔

822ء میں ’عبدالرحمن دُوم‘ تخت نشین ہوا۔ اُس کے 30سالہ دورِ حکومت میں ملک اِنتظامی طور پر مضبوط ہوا۔ علوم و فنون کی ترقی کا آغاز ہوا، سائنسی علوم کی ترویج عام ہونے لگی۔ صنعت و حرفت نے بھی بہت زیادہ ترقی کی اور تجارت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ اندلس کی بحری طاقت بڑھ جانے سے تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ یہ دَور تعمیرات اور دولت کی فراوانی کا دَور تھا۔ (آگے چل کر ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔) دُوسری طرف یہی وہ دَور ہے جس میں یورپ میں اِسلام کے خلاف باقاعدہ طور پر مسیحی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس نے بعد ازاں صدیوں تک سپین کے مسلمانوں کو جنگوں میں اُلجھائے رکھا اور بالآخر جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) سے نکال کر دَم لیا۔

اِسلامی سپین کی تاریخ میں سب سے عظیم حکمران ’عبدالرحمن سوم‘ تھا۔ اُس نے 21برس کی عمر میں912ء میں اپنے دادا ’عبداللہ‘ کی وفات کے بعد سلطنت کا اِنتظام سنبھالا۔ یہ وہ دَور تھا جب اندلس میں مسلمان رُو بہ زوال تھے اور صلیبی تحریک خوب زور پکڑ چکی تھی۔اُس نے ہر طرح کی داخلی بدامنی اور خارجی شورشوں کو کچل کر معاشرے کا امن بحال کیا اور ایک نئے دَور کی بنیاد رکھی۔ یہ اندلس کا پہلا حکمران تھا جس نے ’الناصر لدین اﷲ‘ کے لقب کے ساتھ اپنی خلافت کا اِعلان کیا۔ اپنے 912ء سے 961ء تک 49 سالہ دورِ حکومت میں اُس نے نہ صرف بہت سی عیسائی ریاستوں کو اپنا زیرِ نگیں کر لیا بلکہ ملک کو عظیم اِسلامی تہذیب و تمدّن کا گہوارہ بنا دیا۔ اُس کے دَور میں علوم و فنون کو عروج ملا جس سے اندلس اپنے دَور کی ایک عظیم ویلفیئر سٹیٹ بن کر اُبھرا۔

’عبدالرحمن سوم‘ کے بعد ’حکم ثانی‘، ’ہشام‘ اور ’مظفر‘ تخت آرائے خلافت ہوئے مگر اُن کے بعد 1010ء میں سلطنت کا اِنتظام بکھرنا شروع ہوا اور پورا اندلس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔1010ء سے 1031ء تک 21سالوں میں کل 9خلفاء تخت نشین ہوئے مگر کوئی بھی حالات کے دھارے کو قابو میں نہ لا سکا۔ 1031ء میں اِنتشار اِس حد تک بڑھا کہ اُس کے نتیجے میں اندلس سے اُموی خلافت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا، سلطنت بہت سے حصوں میں بٹ گئی اور ہر علاقے میں مقامی سرداروں اور ملوک نے حکومت شروع کر دی۔ تاریخ اُن سرداروں کو ’ملوکُ الطوائف‘ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔

دَورِ مرابطون

شمالی افریقہ کے بربری خاندان اور تحریکِ مرابطین کے زیرِ اِنتظام قائم حکومت کے تیسرے حکمران ’یوسف بن تاشفین‘ کا دورِ حکومت 1091)ء تا 1106ء( شمالی افریقہ کے بہترین اَدوار میں سے ایک ہے ۔ اُس کے کارہائے گراں مایہ کے اِعتراف میں بغداد کی خلافت کی طرف سے اُسے ’امیر المسلمین‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا۔ جب اندلس میں طوائفُ الملوکی حد سے بڑھی اور عیسائی حکومتوں کی طرف سے مسلمان ریاستوں پر حملوں کا آغاز ہوا اور اِسلامی سپین کی سرحدیں سُکڑنا شروع ہوئیں تو ملوکُ الطوائف کو اپنے انجام سے خطرہ لاحق ہوا۔ ایسے میں اُنہیں ہمسایہ مسلمان ریاست کا فرمانروا ’یوسف بن تاشفین‘ اپنی اُمیدوں کے آخری سہارے کی صورت میں دِکھائی دیا۔ اندلس کے سفیروں نے ’یوسف بن تاشفین’ کو اندلسی مسلمانوں پر ہونے والے عیسائیوں کے مظالم کی لرزہ خیز داستان سنائی اور اُسے صلیبی حملوں کے خلاف اِمداد کے لئے بلایا، جس کے نتیجے میں وہ 1086ء میں 100 جہازوں کے بیڑے کے ساتھ 12ہزار کی فوج لے کر افریقہ کی بندرگاہ ’سبتہ‘ سے اندلس روانہ ہوا۔ ملوکُ الطوائف بالخصوص معتمد اشبیلیہ (Seville) کے,0008 اَفواج بھی اُس کے ساتھ آن ملیں۔ یوں,00020 اَفواج کے ساتھ اُس نے ’سرقسطہ‘ (Zaragoza) کے مقام پر ’لیون‘ (Leon) کے حملہ آور باشادہ ’الفانسوششُم‘ کے 80,000 سپاہیوں کو تہِ تیغ کیا، جن میں سے بمشکل چند سو سپاہی جان بچا کر اپنے وطن واپس لوٹ سکے۔

جنگ زلّاقہ کے نام سے معروف یہ لڑائی اِس اِعتبار سے سپین کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو جو زبردست خطرہ لاحق ہو گیا تھا وہ ایک طویل عرصے کے لئے ٹل گیا۔ اگر یوسف بن تاشفین عیسائیوں کا پیچھا کرتا تو اُن کی طاقت کو مستقل طور پر ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار کر سکتا تھا مگر اُس نے واپسی کا اِرادہ کیا اور اپنی3,000 فوج اشبیلیہ (Seville) کی حفاظت کے لئے چھوڑ کر باقی لشکر کے ساتھ عازمِ افریقہ ہوا۔

’یوسف بن تاشفین‘ تو ’الفانسو‘ کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد واپس افریقہ چلا گیا مگر اندلس کے ملوک اِس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ اُن کا اِتحاد کسی صورت نہ رہ سکا اور ملک میں پھر سے اَمن و امان کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ یوسف نے چند سال بعد اندلسی علماء اور عوامُ الناس کے بھرپور اِصرار پر1091ء میں اندلس کو اپنی افریقی ریاست کے ساتھ مدغم کر لیا، یہیں سے ’مرابطین کے دور کا آغاز‘ ہوا۔

اُس دَور میں اندلس کا امن اور خوشحالی ایک بار پھر عود کر آئی تاہم یہ کوئی زیادہ طویل دَور نہ تھا۔ مرابطون کا دورِ حکومت صرف 54سال تک قائم رہنے کے بعد 1145ء میں ختم ہو گیا۔ صدیوں پر محیط اندلس کی تاریخ میں اِس مختصر دَور کو فلاحِ عامہ کے نکتۂ نظر سے اِنتہائی اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے ۔

دورِ مؤحِّدُون

مغربِ اَقصیٰ (موجودہ مراکش) سے 1120ء میں ایک نئی اِصلاحی تحریک نے جنم لیا، جس کا بانی ’ابو عبداللہ محمد بن تومرت‘ تھا۔ مہدیت کے دعوے پر مشتمل اُس کی تبلیغ مَن گھڑت عقائد و نظریات کے باوُجود بڑی پُر اثر تھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ اُس کے مُرید ہونے لگے بلکہ جلد ہی وہ افریقہ کی ایک عظیم سیاسی قوت کی صورت میں اُبھرا۔ اُس کے مریدین مؤحّدوں کہلاتے تھے۔ ’محمد بن تومرت‘ کے جانشین ’عبدالمومن علی‘ کے دَور میں اُس تحریک نے اپنی سیاسی قوت میں بے پناہ اِضافہ کیا، جس کے نتیجے میں 1145ء میں مرابطون کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

جن دِنوں مؤحّدون نے مرابطون کا خاتمہ کیا سپین کے صلیبی حکمران ’الفانسوہفتم‘ نے ’قرطبہ‘ (Cordoba) اور ’اشبیلیہ‘ (Seville) سمیت اندلس کے بہت سے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ چنانچہ اندلس میں مؤحّدون کے دَور کا آغاز ایک سُکڑی ہوئی ریاست کے طور پر ہوا۔ اس کے باوُجود عبدالمؤمن کے جانشینوں نے نہ صرف صلیبی حملوں کا پُر زور مقابلہ کیا بلکہ ریاست کی تمدّنی ترقی کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ بہت سی مساجد، محلات، فوجی مدرسے، قلعے، پل اور سڑکیں اُسی دَور میں تعمیر ہوئیں۔ اُس دَور میں بندرگاہوں کی توسیع بھی عمل میں آئی اور جہاز رانی کے کارخانے قائم ہوئے۔ صنعت و حرفت کو خوب فروغ ملا اور تجارت نے بھی ترقی کی۔

1214ء میں مؤحّدون کے آخری فرمانروا ’ابوعبداللہ محمدالناصر‘ نے ’الفانسونہم‘ کی زیر قیادت حملہ آور قشتالہ، لیون، نبرہ اور ارغون کی مشترکہ اَفواج سے ’العقاب‘ کی جنگ میں شکست کھائی۔ یہ جنگ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہوئی اور آئندہ کہیں بھی وہ عیسائیوں کے خلاف جم کر نہ لڑ سکے اور اُن کی عظمت و شکوہ کا سکہ پامال ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ جس کے نتیجے میں اندلس ایک بار پھر طوائفُ الملوکی میں گھِر گیا جو 1232ء تک جاری رہی۔

دورِ بنو نصر

مؤحّدون کے بعد ملک میں چھانے والی طوائفُ الملوکی کے دوران اندلس کی حدُود تیزی سے سمٹنے لگیں اور بہت سی مسلم ریاستیں یکے بعد دیگرے عیسائی مقبوضات میں شامل ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ ’خاندانِ بنو نصر‘ کے آغاز سے قبل اِسلامی سپین محض 700 میل کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل رہ گیا، جس میں غرناطہ (Granada)، المریہ (Almeria)، مالقہ (Malaga)، قادِس (Cadiz)، بیضاء (Baza) اور جیان (Jaen) کے مشہور شہر شامل تھے۔

غرناطہ کا خاندانِ بنو نصر جس نے 1232ء سے 1492ء تک 260 سال حکومت کی، تاریخِ اندلس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے ۔ اُس خاندان نے اِتنے طویل عرصے تک اپنے محدُود ریاستی وسائل کے باوُجود یورپ بھر کی اِجتماعی یلغار کو روکے رکھا۔ 1423ء میں صحیح معنوں میں ریاست کے زوال کا آغاز ہوا جو بالآخر 2جنوری1492ء کے تاریخی دِن اپنے انجام کو جا پہنچا۔

عیسائی قابضین نے غرناطہ (Granada) کے مسلمان عوام کے ساتھ کئے گئے جان، مال، عزت و آبرو اور مذہبی آزادی کے وعدے کے برخلاف اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور اُنہیں تبدیلیِ مذہب یا جلاوطنی میں سے ایک پر مجبور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں سپین سے مکمل طور پر مسلمانوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اِسلامی سپین کے چند عظیم سائنسدان

سپین کی سرزمین اِسلام کی علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اُس کا مقام مردم خیزی میں کسی طرح بھی بغداد (Baghdad) اور دمشق (Damascus) کی یونیورسٹیوں سے کم نہیں۔ اندلس کی کوکھ سے جن عظیم سائنسدانوں نے جنم لیا یہ اُنہی کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ (Cordoba) جیسا عظیم شہر قرونِ وُسطیٰ میں رشکِ فلک بنا۔ اندلس کی تمدّنی زندگی کے پیچھے اُس کے جلیل القدر سائنسدانوں ہی کا ہاتھ تھا۔ قرونِ وُسطیٰ کی بہت سی نامور شخصیات اندلس ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ عظیم مفسرِ قرآن اِمام قرطبیؒ، مشہورِ عالم سیاح اِبنِ بطوطہ اور اِبنِ جبیر، موجدِ سرجری و ماہرِ اَمراضِ چشم ابوالقاسم الزہراوی، معروف فلسفی و طبیب اِبنِ باجّہ، خالق فلسفۂ وحدتُ الوُجود اِبنِ عربی، عظیم فلسفی و طبیب اِبنِ رُشد، بطلیموسی نظریۂ کواکب کا دلائل کے ساتھ ردّ کرنے والے عظیم اِسلامی ماہرینِ فلکیات اَبواِسحاق الزّرقالی اور اَبواِسحاق البطرُوجی، تاریخ و عمرانیات کے اِمام اِبنِ خلدون، نامور طبیب یونس الحرانی، معروف جغرافیہ نگار و ماہرِ فلکیات شریف اِدریسی، ہوائی جہاز کا موجد عباس بن فرناس، نامور طبیب اِبنِ الہیثم، ماہرِ فلکیات و الجبراء نصیر الدین طوسی اور دیگر بے شمار علمی و ادبی شخصیات کا تعلق سپین ہی کی عظیم سرزمین سے تھا۔

اِن مسلمان سائنسدانوں نے علم کو صرف اِسلام ہی کی دولت سمجھتے ہوئے محدُود کرنے کی بجائے اپنے دروازے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے کھلے رکھے اور علم کو بنی نوع انسان کا مشترکہ وِرثہ قرار دیا۔ چنانچہ سپین کی یونیورسٹیوں میں عیسائی اور یہودی طلباء بھی بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ حتیٰ کہ مسلمان سائنسدانوں کے یہودی و عیسائی شاگرد بعد میں نامور سائنسدان ہوئے اور اپنی قوم میں سائنسی تعلیم کی ترویج کا باعث بنے۔ یہیں سے سپین کا علمی سرمایہ مغربی اور وسطی یورپ منتقل ہونا شروع ہوا۔

معروف مستشرق ’منٹگمری واٹ‘ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے:

Already when the fortunes of the Muslims were in the ascendant, their learning had attracted scholars of all faiths. Spanish Jews in particular were — including the great Maimonides (1135-1204) — sat at the feet of Arabic-speaking teachers and wrote their books in Arabic.

(W. Montgomery Watt A History of Islamic Spain P.157)

ترجمہ:

"جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی تو اُن کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلباء کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ سپین کے یہودی بطورِ خاص عرب فکر سے متاثر ہوئے، اور (عظیم میمونائیڈز سمیت) اُن میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمّذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں”۔

ذیل میں ہم خوفِ طوالت کے باعث اِختصار کے ساتھ اندلس کے چند اہم سائنسدانوں کے نام اور اُن کے شعبہ ہائے تحقیق پر مشتمل فہرست پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین پر اندلس کی مردم خیزی عیاں ہو سکے:

  نام سائنسدان شعبۂ تحقیق
1 اِبراہیم بن سعید السہلی فلکیات، ماہر اُسطُرلاب سازی
2 اِبن الاصم طب، ماہر نباض
3 اِبن البغونش طب
4 اِبن البیطار، ابو محمد عبداللہ بن احمد المالقی باٹنی، طب
5 اِبن الجزار طب، ادویہ سازی
6 اِبن الحلاء طب
7 اِبن الخطیب اندلسی، ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ لسان الدین طب، ماہرِ اَمراضِ تعدیہ، جغرافیہ، تاریخ، تصوّف، ادب، فلسفہ
8 اِبن الذہبی، ابو محمد عبداللہ بن محمد الازدی کیمیا
9 اِبن الرومیہ، ابوالعباس احمد بن محمد بن مفرح النباتی باٹنی، طب
10 اِبن الصفار، ابوالقاسم احمد بن عبداللہ الغافقی حساب، نجوم، انجینئرنگ، فلکیات، علم الاعداد
11 اِبن العوام باٹنی
12 اِبن النباش طب
13 اِبن الوافد طب
14 اِبن ام البنین طب
15 اِبن بدر، ابو عبداللہ محمد بن عمر بن محمد ریاضی، الجبرا
16 اِبن باجّہ فلسفہ، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، ہیئت، ادب، موسیقی
17 اِبن خاتمہ طب، ماہرِ اَمراضِ تعدیہ
18 اِبن رُشد، ابو محمد عبداللہ بن ابوالولید طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، فلسفہ
19 اِبن زہر اشبیلی طب، سرجن، کیمیا
20 اِبن سعید المغربی جغرافیہ
21 اِبن طفیل طب، فلسفہ
22 اِبن عبدالبر انجینئرنگ، باٹنی
23 اِبن مسعود فلکیات، انجینئرنگ
24 اِبن ملوکہ طب
25 ابو اِسحاق اِبراہیم الدانی طب
26 ابو اِسحاق اِبراہیم بن لب التجیبی فلکیات
27 ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ الزرقالی قرطبی فلکیات، علمُ الاعداد (معیاری اُسطرلاب کا مُوجد، بطلیموسی نظریہ کا ردّ کرنے والا)
28 ابو اِسحاق بن طملوس طب
29 ابو اِسحاق نور الدین البطروجی فلکیات، بطلیموسی نظریہ کا ردّ کرنے والا
30 ابو الاصبغ عیسیٰ بن احمد الواسطی فلکیات
31 ابوالحجاج یوسف بن موراطیر طب
32 ابوالحسن المراکشی فلکیات، ریاضی، جغرافیہ، ساعات شمسیہ، تقویم
33 ابو الحسن بن عبدالرحمن بن الجلاب فلکیات
34 ابوالحسن علی بن ابی الرجال الشبیانی فلکیات
35 ابوالحسن علی بن سلیمان الزہراوی الحاسب ریاضی
36 ابوالحسن علی بن محمد بن علی القرشی القطصادی ریاضی، علم الاعداد، الجبراء
37 ابوالحسن علی بن موسیٰ الانصاری کیمیا
38 ابوالحسن مختار بن عبدالرحمن بن شہر فلکیات
39 ابو الحکم بن غلندو طب
40 ابو الصّلت اُمیہ بن عبدالعزیز طبیعیات، ریاضی، میکانیات، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، فلکیات، فلسفہ، ادب، موسیقی، منطق
41 ابوالعباس احمد بن محمد، ابن البناء المراکشی فلکیات، ریاضی، انجینئرنگ، الجبراء، علم الاعداد، نجوم
42 ابو العباس الکنیاری طب
43 ابو العرب یوسف بن محمد طب
44 ابو العلاء بن ابو جعفر احمد بن حسان طب
45 ابو العلاء زہربن ابو مروان طب، ادویہ سازی، ماہر نباض، ادب، حدیث
46 ابو الفضل محمد بن عبدالمنعم الجلیانی طب، شعر و ادب
47 ابوالقاسم احمد بن عبداللہ بن الصفار فلکیات، ریاضی، کیمیا
48 ابوالقاسم احمد بن محمد العددی ریاضی
49 ابوالقاسم۔ اصبغ بن محمد بن السمح المہری فلکیات، ریاضی، انجینئرنگ
50 ابوالقاسم الزہراوی طب، موجد سرجری، ماہرِ اَمراضِ چشم
51 ابوالقاسم صاعد بن احمد بن عبدالرحمن بن صاعد فلکیات
52 ابوالقاسم مسلمہ المجریطی فلکیات، ریاضی، کیمیا
53 ابو ایوب عبدالغافر بن محمد ریاضی
54 ابوبکر احمد بن جابر طب
55 ابوبکر بن القاضی ابوالحسن الزہری طب
56 ابوبکر بن سمجون طب، ادویہ سازی
57 ابوبکر بن عیسیٰ فلکیات
58 ابوبکر بن بشرون کیمیا
59 ابوبکر محمد بن احمد الرقوطی طب، انجینئرنگ، منطق، موسیقی، ریاضی
60 ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر (الحفید) طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، فقہ، حدیث، ادب
61 ابوبکر محمد بن یحییٰ ابن باجہ فلکیات
62 ابو جعفر احمد بن حسان طب
63 ابو جعفر احمد بن سابق طب
64 ابو جعفر احمد بن محمد الغافقی باٹنی
65 ابو جعفر الذہبی طب
66 ابو جعفر بن الغزال طب
67 ابو جعفر یوسف بن احمد بن حسدائی طب
68 ابو حامد الغرناطی جغرافیہ
69 ابو داؤد سلیمان بن حسان ابن جلجل قرطبی طب، ادویہ سازی، سیاست
70 ابو عبداللہ الملک الثقفی طب
71 ابو عبداللہ الندرومی طب
72 ابو عبداللہ بن یزید طب
73 ابو عبداللہ محمد بن حسین الکتانی طب، ادویہ سازی، سیاست
74 ابوعبداللہ محمد بن علی القربلائی طب، سرجری
75 ابو عبداللہ محمد بن عمرو بن محمد بن برغوث فلکیات
76 ابو عبداللہ محمد بن محمد الادریسی باٹنی
77 ابو عبید عبداللہ بن عبدالعزیز البکری جغرافیہ، باٹنی، ادب، تاریخ، اِلٰہیات
78 ابو عبیدہ مسلم بن احمد بن ابو عبیدہ البلنسی ریاضی
79 ابو عمر النوشریسی جغرافیہ
80 ابو محمد العبدری جغرافیہ
81 ابو محمد الشذونی طب
82 ابو محمد عبداللہ بن الحفید طب
83 ابو محمد عبداللہ بن حجاج ابن الیاسمین ریاضی، الجبراء، شعر و ادب
84 ابو مروان عبدالملک بن ابی العلاء زہر طب، ادویہ سازی
85 ابو مسلم عمر بن احمد بن خلدون فلکیات
86 ابو ولید محمد بن حسین الکتانی طب
87 ابو یحییٰ بن قاسم الاشبیلی طب
88 احمد بن حکم بن حفصون طب
89 احمد بن خالد ریاضی
90 ابو جعفر بن خاتمہ، احمد بن علی بن محمد طب
91 احمد بن محمد الطبری طب، ادویہ سازی
92 احمد بن نصر انجینئرنگ
93 احمد بن یونس الحرانی طب، ماہرِ اَمراضِ چشم، ادویہ سازی
94 اِسحاق الطبیب طب
95 اِسحاق بن سلیمان طب، ادویہ سازی
96 اِسحاق بن عمران طب، ادویہ سازی
97 اِسحاق بن قسطار طب، فلسفہ، منطق
98 اصبغ بن یحییٰ طب
99 الرمیلی طب، حساب، معادلات
100 المصدوم طب
101 ثابت بن محمد الجرجانی نجوم، فلسفہ، منطق
102 جابر بن افلح فلکیات، الجبراء
103 جواد الطبیب طب
104 حسدائی بن شپروط (یہودی) طب، ادویہ سازی، سیاست
105 حسین بن محمد ابن حی التجیبی فلکیات
106 حمدین بن ابان طب
107 خالد بن یزید بن رومان قرطبی طب، باٹنی، ادویہ سازی
108 سعید بن عبد ربہ طب، ادویہ سازی
109 سلیمان ابوبکر بن باج طب، ادویہ سازی، سیاست
110 سلیمان عبداللہ المشتری ریاضی
111 شریف اِدریسی، ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ بن اِدریس فلکیات، جغرافیہ
112 عامر الصفار القرطبی حساب، مساحت، فرائض
113 عباس بن فرناس فلکیات، فلکیاتی لیبارٹری، ہوائی جہاز
114 عبدالرحمن بن اسحاق بن الہیثم طب، ادویہ سازی
115 عبدالعزیز بن مسلمہ الباجی طب
116 عبداللہ بن احمد السرقسطی فلکیات
117 عبداللہ بن محمد السری ریاضی
118 عبدالمنعم الجلیانی طب
119 عبدالمنعم الحمیری جغرافیہ، تاریخ
120 عریب بن سعد الکاتب قرطبی تقویم، تاریخ، طب، ماہرِ اَمراضُ النساء و اَمراضُ الاطفال
121 عمران بن ابی عمرو طب، ادویہ سازی
122 محمد بن جابر جغرافیہ
123 عمر بن حفص بن برتق طب
124 عمر بن یونس الحرانی طب، ماہر امراضِ چشم، ادویہ سازی
125 عمرو بن عبدالرحمن الکرمانی ریاضی
126 قاسم بن اصبغ ریاضی
127 محمد التمیمی طب
128 محمد بن ابراہیم بن نوح بن بونہ المیورقی حساب، علم الاعداد
129 محمد بن ابوبکر الزہری جغرافیہ، فلکیاتی جغرافیہ، ہیئت
130 محمد بن احمد بن اللیث فلکیات
131 محمد بن السراج طب
132 محمد بن رشید الفہری جغرافیہ، ادب، حدیث، نحو
133 محمد بن عبدون الجبلی طب
134 محمد بن علی الشفرہ باٹنی
135 محمد بن فتح طلمون طب
136 محمد بن یوسف الوراق جغرافیہ
137 محمد تملیخ طب
138 محی الدین بن محمد الشکر المغربی فلکیات، انجینئرنگ
139 مروان بن جناح طب، ادویہ سازی، سیاست
140 مسلمہ المجریطی فلکیات، ریاضی، کیمیا
141 مسلمہ بن قاسم فلکیات
142 مُطرِف الاشبیلی فلکیات، ریاضی
143 موسیٰ بن میمون فلسفہ، طب، ادویہ سازی، کیمیا، انجینئرنگ، ہیئت، ادب، موسیقی
144 نصیر الدین طوسی فلکیات، الجبراء
145 ہارون بن موسیٰ الاشبونی طب
146 ہشام بن احمد ابن ہشام حساب، انجینئرنگ، منطق
147 یحیٰ بن اِسحاق طب
148 یحیٰ بن یحیٰ ابن السمینہ طب، حساب، فلکیات، لغت، نجوم، عروض، حدیث، فقہ
149 یوسف المؤتمن المقتدر باﷲ بن ہود (امیرِ سرقسطہ) فلکیات، ریاضی، فلسفہ
150 یوسف بن اِسحاق ابن بکلارش باٹنی، طب
151 یونس الحرانی طب، ادویہ سازی

 

 

 

اِسلامی سپین کا علمی و فنی اِرتقاء

 

اِسلامی سپین کے آٹھ سو سالہ دَور میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم بھی اِرتقاء کے عمل سے گزرے۔ سپین میں سائنسی علوم کی وسیع پیمانے پر ترویج کا باقاعدہ آغاز ’عبدالرحمن الناصر‘ کے دَور (912ء تا961ء) میں ہوا، جو سپین کی اُموی خلافت کا پہلا باضابطہ خلیفہ تھا۔ اِسلامی سپین کے اِبتدائی 200سالہ دَور میں مختلف حکمرانوں نے اپنے اپنے زمانے میں علمی و فکری مجالس کے اِنعقاد اور دُنیا کے تمام علوم و فنون پر کتابیں جمع کرنے کے کام کا آغاز کر دیا تھا مگر اُس کام کی رفتار کوئی خاص نہ تھی۔ اُس دو سو سالہ دَور کی علمی سرگرمیوں کے مشاہدے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اندلس میں علمی و فکری اِرتقاء مشرق کے اِسلامی ممالک کی نسبت تاخیر سے شروع ہوا۔ اس تاخیر کا بڑا سبب سلطنت کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ کا دَور جہاں تمدّنی حوالے سے قابلِ رشک ہے وہاں سیاسی اِستحکام کی بدولت علوم و فنون کی ترویج میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وہ دَور تھا جب اندلس کے مسلمانوں کو صحیح معنوں میں آزادیِ اَفکار نصیب ہوئی اور اُنہوں نے علومِ عقلیہ پر کھل کر تجربی تحقیقات شروع کیں۔ اُسی دور میں اندلسی سائنسدانوں نے سائنسی طریقِ کار کو فروغ دیا اور علمِ ہیئت (astronomy)، علمِ ریاضی (mathematics)، علمِ طب (medical science)، علمِ نجوم (astrology)، علمِ کیمیا (chemistry)، علمِ نباتات (botany)، علمِ جغرافیہ (geography) اور بے شمار صنعتی علوم و فنون اندلس کی روز مرّہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے۔

تعلیم اِس قدر عام ہوئی کہ شرحِ خواندگی سو فیصد تک جا پہنچی۔ یہ اُس دور کی بات ہے کہ جب براعظم یورپ کے تمام صلیبی ممالک جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھے۔ اگر کوئی لکھنا پڑھنا جانتا بھی تھا تو وہ چند پادری لوگ تھے جو فقط اپنے مذہبی علوم سے آشنا ہوتے۔ سائنسی و عقلی علوم کا تصوّر بھی اُس دَور کے یورپ میں مفقود تھا بلکہ کلیسا کی طرف سے عقلی علوم پر کفر کا فتویٰ صادِر کیا گیا تھا۔ دُوسری طرف اِسلامی تعلیمات کے طفیل اندلس کے علمی عروج کا یہ عالم تھا کہ ’عبدالرحمن سوم‘ کے جانشیں ’حکم ثانی‘ کے دورِ خلافت (961ء تا976ء) میں قرطبہ ایک عالمی علمی مارکیٹ کی حیثیت سے دُنیا بھر میں شہرت اِختیار کر گیا تھا ۔ وہاں کتب فروشوں کی دُکانیں 20ہزار تک جا پہنچی تھیں۔ کتب فروش نہ صرف کتابیں فروخت کرتے تھے بلکہ خاص اِہتمام کے ساتھ وسیع پیمانے پر ماہر خطاطوں سے کتابت کے ذریعے اُن کی نقول بھی تیار کرواتے تھے ۔ کتابت میں عورتیں بھی مردوں سے کم نہ تھیں۔ شہر کے صرف ایک مشرقی محلے میں 170کے قریب خواتین قرآنِ مجید کو خط کوفی میں لکھنے میں خاص شہرت رکھتی تھیں۔

قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، مالقہ (Malaga)، سرقسطہ (Zaragoza)، اشبیلیہ (Seville) اور جیان (Jaen) میں اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ صرف قرطبہ شہر میں حکم ثانی نے بالکل مفت تعلیم کیلئے 27سکول قائم کر رکھے تھے۔ پرائیویٹ تعلیمی اِدارے اُن کے علاوہ تھے۔ نہ صرف تمام اَساتذہ بلکہ مستحق طلبہ کو بھی حکومت کی طرف سے وظائف ملتے اور دورانِ تعلیم اُن کی کفالت کی مکمل ذِمہ داری حکومت پر تھی۔ اندلس تعلیمی میدان میں دورِ حاضر کی جدید تہذیب کی کسی بھی فلاحی ریاست کے مقابلے میں کسی طور کم نہ تھا۔ لوگ علم کو برائے علم حاصل کرتے تھے نہ کہ برائے معاش۔

اندلس کے دُوسرے اُموی خلیفہ حکم ثانی (961ء تا 976ء) کی لائبریری اپنے دَور میں دُنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر مذہبی علوم کے علاوہ ہیئت (astronomy)، ریاضی (mathematics)، طب (medical sciences)، نجوم (astrology)، کیمیا (chemistry)، طبیعیات (physics)، فلسفہ (philosophy)، منطق (logic)، تاریخ (history) اور جغرافیہ (geography) سمیت تمام علومِ عقلیہ پر مشتمل 4لاکھ سے زیادہ (ایک رِوایت کے مطابق 6 لاکھ) کتب موجود تھیں۔ اُس لائبریری کی کیٹلاگ 44 بڑی جلدوں پر مشتمل تھی۔ خلیفہ چونکہ خود بہت بڑا عالم تھا اور سائنس سے گہری دِلچسپی رکھتا تھا اِس لئے اُس نے اُن میں سے بیشتر کتب کا نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اُن پر جا بجا حواشی بھی چڑھا رکھے تھے۔ اندلس میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کے بعد جاہل پادریوں نے مسلمانوں کی تمام لائبریریاں جلا دیں، جن میں ’الحکم‘ کی عظیم الشان لائبریری بھی شامل تھی۔

بنواُمیہ کے بعد اندلس پر چھانے والی ’طوائف الملوکی‘ اور بعد ازاں ’مرابطون‘ کے دَور میں علمی اِرتقاء کا کام کسی حد تک زیرِ زمین چلا گیا مگر جونہی مؤحّدون کا دَور شروع ہوا پہلے کی سی تیزی پھر سے لوٹ آئی اور علمی و فکری میدانوں میں اِرتقاء کی رفتار روز اَفزوں ہو گئی۔ ملک بھر میں جا بجا سینکڑوں تعلیمی اِدارے قائم ہوئے۔ عہدِ مؤحّدون میں صرف قرطبہ (Cordoba) میں ثانوی و اعلیٰ تعلیم کے 800 سے زائد تعلیمی اِدارے قائم تھے، جہاں ,00010 سے زیادہ طلبہ مذہبی و سائنسی ہر دو قبیل کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

سقوطِ قرطبہ کے بعد جب ’بنو نصر‘ غرناطہ (Granada) کی ریاست کے حکمران ہوئے تو اُن کے دَور میں بھی علم و فن نے خوب ترقی کی ۔ اُنہوں نے غرناطہ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی قائم کی جس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ تاریخ و اَدب کے علاوہ سائنسی علوم کی تدریس کا بھی خاطر خواہ اِنتظام کیا گیا تھا۔ مرکزی یونیورسٹی کے علاوہ شہر میں سینکڑوں سکول اور کالج بھی تھے جو اِبتدائی اور ثانوی تعلیم کی ترویج میں مصروف تھے۔ شہر میں 70 بڑی لائبریریاں تھیں۔ سیاسی عدم اِستحکام اور صلیبی شورشوں کے باوُجود غرناطہ اُن دِنوں سپین کا سب سے بڑا علمی شہر بن کر اُبھرا تھا۔

 

اِسلامی سپین کے چند اہم علوم

 

جیسا کہ ہم پہلے ذِکر کر چکے ہیں کہ سپین کا علمی اِرتقاء بغداد اور دمشق کی نسبت کافی تاخیر سے شروع ہوا، جس کی وجہ ریاست کا سیاسی عدم اِستحکام تھا۔ ’عبدالرحمن الناصر‘ کی تخت نشینی کے بعد جہاں ملک میں اَعلیٰ تہذیب و ثقافت پروان چڑھی وہاں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ بھی اُس دَور کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ سائنسی علوم کی حقیقی بنیاد اُسی دَور میں پڑی۔ عبدالرحمن سوم کا دَور کاملاً  آزادیِ اَفکار کا دَور تھا، جس کے نتیجے میں فقہائے مالکیہ کی گرفت خاصی کمزور پڑ گئی اور لوگ آزادانہ طور پر سائنس و فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سائنس کی بہت سی شاخوں میں باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’عبدالرحمن سوم‘ اور اُس کے جانشین ’حکم ثانی‘ نے یونانی علوم کی وہ کتابیں جنہیں پہلے سے بغداد میں عربی میں ترجمہ کر لیا گیا تھا وہ اندلس منگوائیں اور اُنہیں سائنسی علوم کی بنیاد قرار دے کر مزید تحقیقات کے دَر وَا کئے۔

یونانی علماء کا اندازِ فکر فلسفیانہ مُوشگافیوں میں بند تھا۔ مسلمانوں نے اپنی تحقیقات میں تجربہ کو کسوٹی قرار دیا اور علم کے باب میں ایک نئے فکر "سائنسی طریقِ کار” کو فروغ دیا۔ سائنسی طریقِ کار کا حقیقی بانی بغداد کا مسلمان سائنسدان ’ابو البرات البغدادی‘ (1065ء تا 1155ء) ہے جس نے اِسلام کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی شواہد کے ساتھ مطابقت پر گہرے غور و خوض کے بعد اِسلام قبول کیا تھا۔ مسلمانوں نے اِس فکر کو فروغ دیا کہ تجربہ ہی وہ کسوٹی ہے جو سائنسی علوم میں حقیقت تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے۔

بغداد سے نشر ہونے والے اِس نئے فکر کو ۔ ۔ ۔ جو اِسلام ہی کی دی گئی تعلیمات پر مشتمل تھا ۔ ۔ ۔ جلد ہی تمام مسلمانانِ عالم نے دِل و جان سے قبول کر لیا۔ چنانچہ سپین میں بھی تجربہ علومِ سائنس کے حصول کے لئے حتمی کسوٹی قرار پایا۔

یوں تو سپین میں بہت سے سائنسی علوم و فنون پر کام ہوا جن میں سے بیشتر کا ذِکر "قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کے فروغ” کے تحت گزر چکا ہے۔ تاہم علمُ الطب (medical sciences) ، علمُ الہیئت (astronomy) اور علمِ نباتات (botany) دیگر علوم کی نسبت زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اَب ہم اِن علوم میں خاص طور پر اندلسی مسلمانوں کی پیش رفت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ قاری پر تاریخِ علوم کے کچھ مزید مخفی گوشے عیاں ہو سکیں۔

علمُ الطب (Medical sciences)

اَوائل دَورِ اِسلام میں دُوسرے بہت سے عقلی علوم کے ساتھ ساتھ علمُ الطب (Medical sciences) کی کتب کو بھی عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اُس دَور میں طبی تحقیقات کا سارا دار و مدار عیسائیوں بالخصوص یونانیوں کی مترجمہ (translated) کتب پر تھا۔ بغداد کی طرح سپین میں بھی پہلے پہل یونانی کتبِ طب متعارف ہوئیں، جن پر مسلمان اَطباء نے اپنی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔

سپین میں اِسلامی طب ایشیا سے ہجرت کر کے آنے والے اَطباء کے ذریعہ متعارَف ہوئی جو اپنے ساتھ طبی کتب کا ذخیرہ بھی لائے تھے۔ علاوہ ازیں بغداد کی تحقیقات سے مستفید ہونے کے لئے سپین کے نوجوان حصولِ علم کے لئے افریقہ کی ہزارہا کلومیٹر طویل مسافت طے کر کے بغداد پہنچتے اور وہاں برس ہا برس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طب میں مشّاق ہونے کے بعد وطن واپس لوٹتے۔ یونس الحرانی، اِسحاق بن عمران، اِسحاق بن سلیمان اور ابنُ الجزّار اُس دَور میں سپین میں طبی علوم کے اِفشاء کا باعث ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشرقی ممالک سے ترکِ سکونت کر کے سپین میں آئے تھے۔

سپین میں اِسلامی طب کی معروف شاخوں تشخیصِ اَمراض، اَمراضِ نسواں، اَمراضِ اَطفال، امراضِ چشم اور سرجری پر خصوصی کام ہوا۔ بہت سے ماہر اَطباء نبض دیکھ کر مریض کی جملہ کیفیت بیان کر دیتے تھے۔ ابوالعلا زہر صرف نبض اور قارُورہ دیکھ کر مرض کی کامل تشخیص کر لیتا تھا، جبکہ ابنُ الاصم تشخیصِ اَمراض میں اِس قدر ماہر تھا کہ محض نبض دیکھ کر معلوم کر لیتا تھا کہ مریض کیا کھا کر آیا ہے۔

سرجری میں اَبوالقاسم الزہراوی کا مقام تمام اندلسی اَطباء میں بڑھ کر تھا، بلکہ اگر اُسے جدید علمِ جراحت (surgery) کا بانی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ ایسا ماہر سرجن تھا کہ ایک بار اُس نے ایک ایسے آدمی کا کامیاب آپریشن کیا جس کا پیٹ چاک ہوئے 24گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ زہراوی نے کمال مہارت سے اُس کے پیٹ سے باہر نکل آنے والی انتڑیوں کو اصل مقام پر رکھا اور اپنے ہی اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کی مدد سے اُس کا پیٹ سی دیا۔ نہ صرف اُس شخص کی زندگی بچ گئی بلکہ چند ہی روز میں وہ بیٹھنے کے قابل بھی ہو گیا۔

ابوالقاسم الزہراوی قرونِ وُسطیٰ کا سب سے بڑا سرجن تھا۔ بغداد میں رازی کے بعد دُنیائے اِسلام میں وہ سب سے بڑے مطب (clinic) کا مالک تھا۔ اُس نے آپریشن کے لئے خاص مہارت کے ساتھ خود ایسے بہترین آلات تیار کر رکھے تھے، جن کی مدد سے وہ ایسے پیچیدہ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا جن میں 100 فیصد کامیابی کی توقع دورِ حاضر کے ماہر سرجن بھی نہیں کر پاتے۔ وہ آنتوں کے آپریشن کے لئے بلی کی آنتوں سے تیار کردہ دھاگہ اِستعمال کرتا۔ زخم کی سلائی یوں کرتا کہ باہر کی سمت اُس کا نشان مکمل طور پر غائب ہو جاتا۔ وہ آپریشن سے قبل بڑی شریانوں کو باندھ دیتا اور نچلے حصۂ بدن کے آپریشن کے دَوران میں پاؤں کو سر سے اُونچا رکھنے کی تاکید کرتا۔ یہ دونوں طریقے بالترتیب فرانس کے ایک سرجن Pare اور جرمنی کے سرجن Frederich کی طرف غلط منسوب کئے جاتے ہیں۔ وہ تکلیف دِہ سرجری کی صورت میں مریض کو بے ہوشی کی دوا (anaesthesia) دینے سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ علاوہ ازیں وہ آنکھوں کے آپریشن کا بھی ماہر تھا۔

لَوزَتین (tonsils) کے آپریشن کا طریقہ اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ پیٹ، جگر، پیشاب کی نالی، ناک، کان، گلے اور آنکھ کے آپریشن میں وہ ماہر تھا۔ مثانہ سے پتھری توڑ کر نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔

الزہراوی نے علمُ الطب پر ایک ضخیم کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف” بھی لکھی۔ اِس کتاب میں اُس نے علمُ العلاج اور علمُ الدّواء کے ساتھ ساتھ جراحت (surgery) پر بھی خاص روشنی ڈالی ہے۔ الزہراوی نے اپنے اِیجاد کردہ آلاتِ سرجری کے اِستعمال کا طریقِ کار اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ قلمبند کیا ہے، جن میں اکثر اُس نے تصویروں کی مدد سے اُن آلات کی وضاحت اور اُن کا طریقِ استعمال بیان کیا ہے۔ اُس کے اِیجاد کردہ بعض آلاتِ جراحی اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ اُن کا اِستعمال آج تک جاری ہے۔

ابوالقاسم الزہراوی کے علاوہ ابنِ زہر بن مروان کا شمار بھی اِسلامی سپین کے ماہر سرجنوں میں ہوتا ہے۔

آنکھوں کے اَمراض میں احمدالحرانی اور عمرالحرانی اندلس کے ماہر اَطباء میں سے تھے۔ یہ دونوں معروف اندلسی طبیب یونس الحرانی کے بیٹے تھے جو حصولِ علم کے لئے بغداد میں 10سال رہ چکے تھے۔ اندلس واپس آ کر اُنہوں نے آنکھوں کے اَمراض کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور اِس فیلڈ میں خاصے مشّاق (expert) ہو گئے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلے میں اُن کی تحقیقات سے اِستفادہ کیا۔ علاوہ ازیں ابنِ رُشد اور ابوبکر محمد بن عبدالملک بن زہر بھی آنکھوں کے اَمراض کے ماہر (ophthalmologist) تھے۔

عورتوں کے اَمراض بالخصوص ایامِ حمل اور جنین کی پرورش کے بارے میں اندلس میں عریب بن سعد الکاتب کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کے اَمراض کا ماہر معالج ہونے کے ناطے اُس نے اِس موضوع پر "خلق الجنین و تدبیر الحبالیٰ والمولود” کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اُس نے جنین کی نشو و نما، حاملہ عورتوں کی بیماریوں، اُن کے بارے میں حفظ ماتقدم اور علاج کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اِس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اسکوریال (سپین) میں محفوظ ہے۔ ابوالقاسم الزہراوی نے بھی ایک ماہر سرجن ہوتے ہوئے اپنی کتاب "التصریف لمن عجز عن التألیف” میں خواتین کے اَمراضِ مخصوصہ اور اُن کے علاج کے ساتھ ساتھ جنین کی مختلف حالتوں، وضعِ حمل اور غیر طبعی وِلادت کی صورت میں آپریشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔

اندلس کے اَطباء کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ اُن کے کارناموں کا احاطہ کرنے کے لئے الگ کتاب درکار ہو گی۔

علمُ الہیئت(Astronomy)

عبدالرحمن سوم کے دَور (912ء تا 961ئ) سے قبل سپین میں علم ہیئت کے مطالعہ و تحقیقات پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اُس سے پہلے فقط اِسی قدر مطالعۂ اَفلاک کو مشروع اور رَوَا رکھا جاتا تھا جس سے اُمورِ شرعیہ میں مدد ملتی ہو۔ نمازوں کے اَوقاتِ اِبتداء و اِختتام اور روزے میں سحری و اِفطاری کے اَوقات پر ہونے والی تحقیقات سے علمُ المیقات (time keeping) کی بنیاد پڑی۔ سمتِ قبلہ کے تعین میں ستاروں کی پوزیشن کا فائدہ اُٹھانے کے لئے علمُ الہیئت کا سہارا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں اِبتدائے رمضان اور عیدین کے ہلال کی رؤیت کے لئے بھی مطالعۂ اَفلاک ناگزیر تھا۔ چنانچہ اِن اُمورِ شرعیہ کی بہتر بجا آوری کے لئے ضروری حد تک علمُ الہیئت (astronomy) حاصل کیا جاتا تھا۔

عبدالرحمن سوم کے عہد تک یہ حالت برقرار رہی اور فقہائے مالکیہ کے اَثر و رُسوخ کے باعث فلسفے کی طرح علمِ ہیئت (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کو بھی ناجائز تصوّر کیا جاتا رہا۔ اُس دور کے اکثر سائنسدان اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کو صیغۂ راز میں رکھتے اور کسی صورت ظاہر نہ ہونے دیتے، کیونکہ اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ و منطق یا ہیئت و نجوم کا ماہر ہے تو اُسے زِندیق مشہور کر دیا جاتا اور لوگ اُس سے ملنا جلنا ترک کر دیتے۔

عبدالرحمن سوم (الناصر لدین اﷲ) نے اپنے دورِ خلافت میں با ضابطہ طور پر علومِ عقلیہ کی سرپرستی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں سرزمینِ اندلس ایک خوشگوار اِنقلاب سے فیضیاب ہوئی۔ متلاشیانِ علم علمُ الطب (medical sciences) کی طرح علمُ الہیئت (astronomy) کے حصول کے لئے بھی بلادِ مشرق بالخصوص بغداد و دمشق کا رُخ کرنے لگے۔

اندلس کا سب سے پہلا ماہرِ فلکیات جو ملک میں سائنسی علوم و فنون کے اِفشاء و اِشاعت کا باعث بنا وہ ’یحییٰ بن یحییٰ ابن السمینہ‘ تھا۔ اُس نے حصولِ علم کے لئے مشرقی اِسلامی ممالک کا سفر کیا اور حساب (mathematics)، نجوم (astrology)، ہیئت (astronomy) اور طب (medical science) کے علوم حاصل کئے۔ اُس کے علاوہ اُس دَور میں علمِ فلکیات و نجوم میں ’مسلمہ بن قاسم‘ اور ’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کے نام بھی قابلِ ذِکر ہیں۔

اِسلامی سپین کے ماہرینِ ہیئت نے مشرقی علوم کو اپنے ملک میں محض متعارف ہی نہ کرایا بلکہ مشرقی تحقیقات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر اُن میں بہت کچھ اِضافہ جات بھی کئے۔ اندلسی سائنسدانوں نے بہت سے آلاتِ رصد اِیجاد کئے جن کی بدولت آج کی جدید ہیئت کو مضبوط بنیادیں فراہم ہو سکیں۔ اندلس کی سب سے بڑی رصدگاہ اشبیلیہ (Seville) میں تھی، جہاں مشہورِ عالم مسلمان سائنسدانوں نے اپنی سماوی تحقیقات کی بنیاد رکھی۔ ’ابو اِسحاق اِبراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی‘ (Arzachel) نے صدیوں سے مسلّمہ ’بطلیموسی نظریۂ اَفلاک‘ ردّ کرتے ہوئے زمین کی بجائے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا اور یہ ثابت کیا کہ تمام سیارے بیضوی مداروں (elliptic orbits) میں سورج کے گرد محوِ گردش ہیں۔ تمام سیاروں کی بیضوی مداروں میں سورج کے گرد گردِش ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جسے کوپرنیکس جیسا عالی دِماغ جس پر پورے عالمِ مغرب کو فخر ہے 1514ء میں نظامِ شمسی سے متعلق دیئے جانے والے اپنے نظریئے میں بھی پیش نہ کر سکا۔ زرقالی ہی وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے اندلس میں سب سے معیاری اُسطُرلاب بنایا اور اُس کا نام "الصحیفہ” رکھا۔ اُس کے بنائے ہوئے اُسطُرلاب کے ذریعے اَجرامِ سماوی کا مُشاہدہ اِس قدر درُست ہوتا تھا کہ بغداد کے رہنے والے اِس فن کے بانی مسلمان سائنسدان بھی اُس کی عمدگی پر حیران تھے۔ ہوائی جہاز کے موجد ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک فلکیاتی کمرہ (planetarium) بنا رکھا تھا جس میں اُس نے سیارگانِ فلکی کی گردِش ، بادلوں کی حرکات اور آسمانی بجلی کی مصنوعی گرج چمک کا اِنتظام بھی کر رکھا تھا۔

’ابوبکر بن عیسیٰ‘ کا نامور شاگرد ’مسلمہ المجریطی‘ بڑا ماہر سائنسدان تھا۔ اُس نے سورج، چاند اور دیگر سیاروں کی حرکات کو عددی اُصول پر منظم کرتے ہوئے ’الخوارزمی‘ سے بھی بہتر ’زیج‘ (astronomical table) ترتیب دی اور اُسے عربی تاریخوں میں ظاہر کیا۔ اُس کے علاوہ بھی اندلس کے بہت سے سائنسدانوں نے اَزیاج (astronomical tables) بنائے، جن کی رُو سے مشاہدۂ اَفلاک میں خاصی مدد ملتی تھی۔

زرقالی کے علاوہ اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے ماہرینِ فلکیات بھی اپنے دَور کا مسلّمہ نظریۂ بطلیموس ردّ کر چکے تھے۔ ابو اسحاق بطروجی نے بطلیموسی نظریۂ کواکب کو دلائل کے ساتھ ردّ کیا اور حرکتِ زمین کا نظریہ پیش کیا۔ اُس سے قبل ابنِ باجہ نے بھی اپنے طور پر اِس نظریہ کا بطلان کر دیا تھا۔ ’بطروجی‘ کا شمار جدید علمِ ہیئت کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔ ’جابر بن اَفلح‘ کا ذِکر بھی اُنہی سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اُس نے بطلیموس کے نظریہ کے ردّ میں "کتابُ الھیئۃ فی إصلاح المجسطی” لکھی۔

علمُ  النباتات (Botany)

اندلس میں علمِ نباتات کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے اَوائل دَور ہی میں شروع کر دیا تھا۔ طبی بنیادوں پر نباتات پر تحقیق علمُ الطب کے فروغ کے لئے ایک جزوِ لاینفکّ تھی۔ چنانچہ ’عبدالرحمن اوّل‘ نے قرطبہ میں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ” کے نام سے ایک ایگریکلچرل ریسرچ فارم بنایا، جہاں اَطباء اور نباتیوں (botanists) کو پودوں کے خواص، اُن کی اَفزائش اور اَثرات پر تحقیق کے گوناگوں مواقع میسر تھے۔ عبدالرحمن اوّل نے علمِ نباتات (botany) کی سرپرستی میں خاص دِلچسپی لی اور اندلس میں میسر نہ آنے والے پودوں اور درختوں کے بیج اور قلمیں دُور دراز ممالک سے درآمد کروائیں۔ چنانچہ اُس نے نہ صرف برِاعظم افریقہ بلکہ بیشتر اَیشیائی ممالک کی طرف بھی سرکاری وفود بھیجے جو نایاب پودوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش اور پیداوار میں مددگار ثابت ہوئے۔

طبی جڑی بوٹیوں کی اَفزائش میں وادیٔ آش (Guadix)، المریہ (Almeria) اور غرناطہ (Granada) کے قریب جبلِ شلیر (Mulhacen) اندلس بھر سے بڑھ کر تھے۔ خوشبودار بوٹیاں بھی بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ زعفران مسلمان ماہرینِ نباتات (botanists) ہی نے اندلس میں متعارف کرایا۔ طلیطلہ (Toledo)، بلنسیہ (Velencia)، بیاسہ (Beyasa) اور وادئ حجارہ (Hijara Valley) زعفران کی پیداوار میں مشہور تھے۔ ماہرینِ نباتات کی شبانہ روز محنت سے اندلس میں زعفران اِس کثرت سے پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ آس پاس کے ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح بنفشہ کی پیداوار بھی خاصی تھی۔ اندلس کے نباتیوں (botanists) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ برس ہا برس کی تحقیقات سے نباتات میں موجود جنسی تفاوُت کا درُست مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔

اندلس کے نباتی نہ صرف طبی نباتات پر تحقیق کرتے بلکہ ہر قسم کے اناج اور نقد آور فصلوں پر بھی تجربات کرتے۔ ملک کا اکثر حصہ دریاؤں اور اُن سے نکالی جانے والی نہروں سے بہتر انداز میں سیراب ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا ملک فصلوں سے لدا رہتا، حتیٰ کہ پہاڑوں کو بھی بنجر نہیں رہنے دیا گیا۔ اکثر پہاڑی علاقوں میں انگور کی کاشت کی جاتی۔ اِس کے علاوہ لیموں، امرود، سیب، انجیر، زیتون، بہی، بادام، کیلا، آڑو، چکوترا، خربوزہ، انار، گنا، گندم، جَو، چنا، جوار، مکئی اور چاول کی کاشت ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اِن میں سے اکثر اَجناس بیرونِ ممالک برآمد کر کے خطیر زرِ مبادلہ بھی کمایا جاتا تھا۔

وادیٔ آش (Guadix) اور اشبیلیہ (Seville) میں اعلیٰ قسم کی ’رُوئی‘ پیدا ہوتی جو مسلمان ماہرینِ نباتات ہی نے سپین میں متعارف کروائی۔ رُوئی کو عربی میں ’قُطن‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہسپانوی میں alagodon اور انگلش میں cotton کہلانے لگا۔ اندلسی مسلمانوں کی تحقیقات سے ’پٹ سن‘ کے ایک نہایت اعلیٰ ریشے نے بھی جنم لیا، جس سے اچھی نسل کے دھاگے اور عمدہ قسم کا کاغذ تیار کیا جاتا تھا۔

ملک کے جنوبی ساحل پر واقع اکثر مقامات پر گنّے کی فصل نہایت شاندار ہوتی، جس سے اعلیٰ قسم کی شکّر (sugar) تیار کی جاتی۔

ابوعبید البکری، ابو جعفر بن محمد الغافقی، ابنِ بصال، ابنِ حجاج، شریف اِدریسی، ابنُ الرّومیہ، ابنِ بکلارش، ابوالخیر اشبیلی، ابنُ العوام اور ابنُ البیطار اندلس کے اِسلامی عہد کے نامور نباتی (botanists) تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی تحقیقات کے ذریعے اندلس کو پودوں، درختوں اور فصلوں سے لاد دیا بلکہ اُن کی حفاظت کا بھی بخوبی اِنتظام کیا، چنانچہ ابنُ العوام نے پھلوں اور اناج کو زیادہ دیر تک محفوظ رکھنے کے بہت سے طریقے ’کتابُ الفلاحہ‘ میں ذِکر کئے ہیں۔ اُس نے کچھ ایسے طریقے بھی تحریر کئے ہیں جن سے گندم بیسیوں سال تک خراب ہونے سے بچی رہتی تھی۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے اُن ماہرین کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق بڑے بڑے گودام تیار کئے جاتے جن میں غلہ اور اناج سالہا سال تک محفوظ رہتا۔

 

 

اِسلامی سپین کا تہذیبی و ثقافتی اِرتقاء

 

اندلسی مسلمانوں نے یورپ کو ایک نئی تہذیب سے متعارف کروایا۔ اِسلام کی آمد سے قبل یورپ میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ختم نہ ہوتے تھے، سیوریج کا گندہ پانی گلیوں اور بازاروں میں ہر سُو بکھرا رہتا تھا، عموماً لوگ مہینہ بھر نہاتے نہ تھے اور کوئی ہفتے میں ایک آدھ بار نہا لے تو اُس کے مسلمان ہونے کا شک کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ تھا۔ پورے یورپ میں ہسپتالوں کا وُجود ہی نہ تھا۔ خطرناک بیماریوں کا علاج جادُو، ٹونے اور عملیات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لوگ توہمات کے اِس قدر رسیا تھے کہ معالج کی بجائے عامل کی طرف رُجوع کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ کھانے اور پہناوے میں نفاست کا فقدان تھا۔ علمی حالت سب سے بڑھ کر قابلِ رحم تھی۔ لاکھوں کی آبادی کے شہروں میں گنتی کے چند پادریوں کے سوا کوئی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اور وہ پادری چمڑے پر لکھی پرانی کتابوں کو کھرچ کر اُنہی کے اُوپر نئی تحریریں لکھنا شروع کر دیتے تھے جس سے اُن کا بچا کھچا علمی سرمایہ بھی ضائع ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تعلیم، علاج اور تہذیب و ثقافت غرض عملی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رحم حالت کو پہنچا ہوا تھا۔

مسلمانوں نے یورپ کو ایک فکرِ تازہ سے رُوشناس کیا۔ زندگی کے نئے اَسالیب عملی طور پر اُن کے سامنے رکھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سپین کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی۔ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اِسلامی سپین یورپ بھر کے لئے رشکِ فلک بنا۔ دُنیا سپین کی ترقی اور تہذیب کی مثالیں دینے لگی۔ سپین نے جہاں علوم و فنون، صنعت و حرفت اور تجارت میں خوب ترقی کی وہاں تہذیب و ثقافت میں بھی قرونِ وُسطیٰ میں ہر طرف اُسی کا طوطی بولتا تھا۔

اِسلامی سپین کا کلچر عرب مسلمانوں ہی کا مرہونِ منّت تھا، جو ترکِ سکُونت کر کے یورپ میں جا آباد ہوئے تھے۔ وہ اِسلامی تہذیب کی خوشنما روایات بھی اپنے ساتھ یورپ لے گئے تھے، جس سے سپین کی سرزمین تہذیبی کمال کے عروج کو پہنچی۔

اِسلامی سپین کے دارُ الحکومت قرطبہ (Cordoba) کی آبادکاری کچھ اِس حسین انداز سے تھی کہ اُس کی سڑکوں، پلوں اور دیگر تعمیرات نے اُسے چار چاند لگا دیئے تھے۔ قرطبہ اپنی علمی و فنی سرگرمیوں اور صنعتی و تجارتی اہمیت کے باعث دُنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ اندلس کے مسلمانوں نے خلفائے عباسیہ کی شان و شوکت اور پُرتکلف مہذّب زندگی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اندلس تہذیب و ثقافت اور فیشن میں دُنیا بھر میں ایک معیار کی حیثیت اِختیار کر چکا تھا اور دُنیا اُس کی مثالیں دیتے نہ تھکتی تھی۔ بڑے بڑے عالیشان محلات اور بنگلوں کے علاوہ بڑے شہروں میں میلوں تک پھلوں اور پھولوں کے باغات اُسے جنتِ ارضی کی صورت دے چکے تھے۔

مسلمانوں نے جہاں سپین کو تعمیرات سے آراستہ کیا وہاں اُسے تہذیبی اِرتقاء سے بھی منوّر کیا۔ سپین جہاں معاشرہ اَمن و امان کی ناقابلِ مثال صورت میں چین سے زندگی بسر کر رہا تھا، وہاں صنعت و حرفت اور تجارت کے فروغ نے شہریوں کو آسودہ حال کر دیا تھا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ سرمایہ نئی صنعتوں میں لگانے لگے تھے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ لباس اور بہترین اَشیائے خورد و نوش پر بے دریغ رقم خرچ کرتے تھے۔ تہذیبی تکلّفات اُن کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ آرائش و زیبائش پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ گھروں کے باہر لان بنانے اور اُن میں دُور دراز ممالک سے نایاب درخت منگوا کر لگانے کا رواج عام تھا۔ اکثر گھروں میں فوّارے اور حوض بھی بنائے جاتے تھے۔

عبدالرحمن الداخل کے دورِ حکومت میں جب سپین میں اِسلامی سلطنت کو اِستحکام نصیب ہوا تو اُس نے ملک کی تعمیر و تزئین کی طرف خاص توجہ دی۔ اُس نے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جا بجا باغات، فوّاروں، پختہ گلیوں، سڑکوں اور دیدہ زیب عمارات کا جال بچھا دیا۔ گلی کوچے پختہ ہوتے اور اُن میں روشنی کا بخوبی اِنتظام حکومت کے خرچ سے ہوتا۔ شہروں میں سیورِیج کا بھی بہت اعلیٰ اِنتظام تھا۔ بلنسیہ (Valencia) کے بڑے گندے نالے پر پکی چھت تھی اور وہ اِتنا چوڑا تھا کہ ایک چھکڑا بآسانی اُس کے اُوپر چل سکتا تھا۔ عبدالرحمن اوّل ہی نے دریائے وادئ کبیر (Guadalimor River) اور دریائے شنیل (Genil River) کے کنارے آباد اکثر شہروں کو متعدّد نہریں کاٹ کر پانی بہم پہنچایا۔ غرناطہ کے باہر ایک عظیمُ الشان محل بنایا اور اُس کے اَطراف میں وسیع و عریض باغ لگایا ، جس کا نام ’رصّافہ‘ رکھا۔

عرب سے درخت منگوا کر اندلس کی سرزمین میں لگانے کا سلسلہ بھی عبدالرحمن اوّل ہی کے دَور سے جاری تھا۔ اُسی محل کے پائیں باغ میں اُس نے اپنے وطن دمشق سے کھجور کا ایک درخت منگوا کر لگایا جو اُسے اُس کے وطن کی یاد دِلاتا تھا۔ ایک روز کھجور کے اُس درخت کو دیکھ کر اُسے اپنا وطن اور اپنی بے سر و سامانی کی حالت یاد آ گئی جس پر اُس نے بڑے ہی پُر سوز اَشعار کہے۔ ’تاریخِ مقرّی‘ میں اُس کے وہ اَشعار محفوظ ہیں۔

حکیمُ  الاُمت علامہ محمد اِقبالؒ نے بالِ جبریل میں اُن اَشعار کا مفہوم اور اپنے اِحساسات ایک نظم کی صورت میں یوں پیش کئے ہیں:

میری آنکھوں کا نور ہے تو

میرے دل کا سرُور ہے تو

اپنی وادی سے دُور ہوں میں

میرے لئے نخلِ طور ہے تو

مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا

صحرائے عرب کی حور ہے تو

پردیس میں ناصبور ہوں میں

پردیس میں ناصبور ہے تو

غربت کی ہوا میں بار وَر ہو

ساقی تیرا نمِ سحر ہو

عالم کا عجیب ہے نظارہ

دامانِ نگہ ہے پارہ پارہ

ہمت کو شناوری مبارک

پیدا نہیں بحر کا کنارہ

ہے سوزِ درُوں سے زندگانی

اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ

صبحِ غربت میں اور چمکا

ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے

مومن کا مقام ہر کہیں ہے

اِسلامی سپین کے دُوسرے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے بھی خطۂ عرب سے بہت سے نئے پھلدار درخت سپین میں متعارف کروائے اور جا بجا اُن کے باغات لگوائے۔ اُن میں سے کچھ باغات کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔

عبدالرحمن دوم کے دورِ حکومت میں ملک تہذیب کے عروجِ کمال کو جا پہنچا تھا۔ مشرقی و مغربی تہذیب کے سنگم سے ایک نئے اِمتزاج نے جنم لیا۔ موسیقی سے عبدالرحمن دوم کو خاص لگاؤ تھا ۔ اُس کے عہد میں اندلس میں موسیقی کے بڑے با کمال اساتذہ پیدا ہوئے جنہوں نے مشرق و مغرب کے دُور دراز ممالک سے بھی صاحبانِ ذوق سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ اِسلامی عہد کی صوفیانہ موسیقی اُس عہد میں اپنے کمال کو جا پہنچی اور بعد اَزاں اُس نے یورپ کی موسیقی پر بھی گہرے اَثرات مرتب کئے۔

سپین کی ثقافتی ترقی کا تذکرہ ہو اور اُس میں ’اُستاد زریاب‘ کا ذِکر نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ خلافتِ بغداد کے نامور موسیقار ’اِسحاق موصلی‘ کا عظیم شاگرد ’زریاب‘ بغداد سے ہجرت کر کے سپین میں جا آباد ہوا۔ اُس نے سپین کی تہذیب و ثقافت میں کئی درخشاں اَبواب کا اِضافہ کیا۔ وہ بلا مبالغہ سپین کا ’تان سین‘ تھا۔ ایک رِوایت کے مطابق اُسے ہزار راگ یاد تھے۔ موسیقی و دیگر فنونِ لطیفہ کا رسیا ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیت میں یہ خوبی تھی کہ وہ ہر فن مولا تھا۔ اُس کا ذوقِ لطیف بڑا عالی تھا اور وہ بے حد ذہین بھی تھا۔

موسیقی کے علاوہ اُس نے اِسلامی سپین کی تہذیب کے اِرتقاء میں دُوسرے بہت سے پہلوؤں پر بھی خاص توجہ دی۔ نئے نئے فیشن نکالنے میں اُسے کمال مہارت حاصل تھی۔ اُس نے ملک میں ’فنِ آرائش‘ (decorative art) کو ترویج دی۔ وہ شاہی مجالس کی تزئین و آرائش کا ماہر تھا۔ اُس نے اندلس کے لباس اور طعام میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کیں۔ نئے نئے فیشن اِیجاد کر کے جہاں اُس نے لوگوں کو بہترین اور دیدہ زیب لباس تیار کرنے کا ڈھنگ سکھایا اور سپین کے طرزِ معاشرت میں اِنقلاب پیداکیا، وہاں وہ ایک ماہر کک (cook) بھی تھا۔ سپین کے بہت سے کھانے اُسی نے اِیجاد کئے، جن کی باقیات آج کے سپین میں بھی موجود ہیں۔ اُس نے عام کھانے پکانے کے بھی نئے نئے طریقے نکالے جن سے کھانے زیادہ لذیذ تیار ہوتے تھے۔ اُس نے کھانے کے لئے شیشے کے برتنوں کو بھی رواج دیا اور چمچ اور چھری کانٹے سے کھانے کا طریقہ بھی نکالا۔

اُس کی بدولت لوگ مختلف موسموں میں مختلف فیشن اور رنگوں کا لباس پہننے لگے۔ سر کے بالوں کی مانگ بائیں طرف سے نکالنے کا طریقہ بھی اُسی کا اِیجاد کردہ ہے۔ اُس سے قبل ساری دُنیا کے لوگ ہمیشہ درمیان سے مانگ نکالتے تھے۔ یورپ بھر میں اُسے فیشن کا باوا آدم سمجھا جاتا تھا۔ الغرض اُس نے یورپ کے کلچر میں ایک حسین اِنقلاب بپا کر دیا جس کے اَثرات آج کے یورپ میں بھی بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شومئ قسمت کہ آج کے سادہ لوح مسلمان اِن میں سے بہت سی اشیاء کو ’مغربی تہذیب‘ کا نام دے کر ناپسند کرتے ہیں، حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ یورپ کی موجودہ تہذیب میں بہت کچھ ہمارے ہی اَجداد کا تہذیبی وِرثہ ہے اور اگر آج ہم اُس میں سے کسی اچھی بات پر عمل کرتے ہیں تو وہ یورپ کی نقّالی ہرگز نہیں بلکہ ہماری اپنی ہی کھوئی ہوئی تہذیب کی بازگشت ہے۔

 

دارُ الحکومت۔ ۔ ۔ قرطبہ

 

"اگر دُنیا کو ایک انگوٹھی فرض کر لیا جائے تو قرطبہ اُس کا نگینہ ہے”۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو آج سے 12 صدیاں قبل ایک جرمن نن نے عبدالرحمن سوُم کے شہر قرطبہ (Cordoba) کے بارے میں کہے تھے۔ اِسلامی سپین کا دارُالحکومت ’قرطبہ‘ خلافتِ عباسیہ کے دارُالخلافہ ’بغداد‘ (Baghdad) سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ بعض وُجوہ کی بناء پر اُسے بغداد پر فوقیت حاصل تھی۔

شہر کی آبادی 10,00,000سے متجاوز تھی، جس میں 2,00,000 سے زائد رہائشی مکانات موجود تھے۔ سکے سے بنی پائپ لائنوں کی مدد سے اِتنے وسیع و عریض شہر کو پینے کے تازہ پانی کی فراہمی اُس دَور کا سب سے عظیم کارنامہ تھا۔ قرطبہ میں کل 80,400 دُکانیں تھیں، جن میں سے تقریباً 20,000 فقط کتب فروشی اور اُس سے متعلقہ کاروبار کے لئے وقف تھیں۔ قرطبہ یورپ کے دورِ جاہلیت (dark ages) کے دوران ایک عظیمُ الشان علمی مرکز کے طور پر اُبھرا۔ شہر میں 3000مساجد، 80 کالج، 50 ہسپتال، 700حمام اور غلّے کو محفوظ رکھنے کے لئے4,300 گودام تھے۔ میلوں طویل سڑکیں پختہ پتھروں سے بنی تھیں۔ رات کے وقت شہر میں روشنی کا بخوبی اِنتظام تھا۔ سرِ شام ہرکارے گلیوں میں نصب ستونوں سے آویزاں لیمپوں میں تیل ڈال جاتے، غروبِ آفتاب پر اُنہیں جلا دیا جاتا اور ساری ساری رات اُن کی روشنی سے سڑکیں اور گلیاں منوّر رہتیں۔ یہ اُس دَور کا ایک اور ناقابلِ یقین عظیم کارنامہ تھا۔

اِسلامی سپین کی تہذیب تو آج سے 12 صدیاں قبل ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھی جبکہ کوہِ پیرینیز(Pyrenees) کی دُوسری طرف یورپ بھر کے تمام عیسائی ملکوں کی علمی و تہذیبی حالت اور معیارِ زندگی اِس قدر ناگفتہ بہ تھا کہ پیرس اور لندن جیسے بڑے شہروں میں بھی راتیں گھپ اندھیرے میں گزرتی تھیں، جس سے اکثر وہاں امن و امان کا مسئلہ درپیش رہتا۔ گلیاں کیچڑ اور سیوریج کے بیماریاں پھیلاتے پانی سے اَٹی رہتیں اور صدیوں بعد تک بھی اُن کی گلیوں میں سٹریٹ لائٹس کا اِنتظام نہ ہو سکا۔

 

اِسلامی سپین میں صنعت و ٹیکنالوجی کا اِرتقاء

 

حرکت میں برکت اور کام میں عظمت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو محنت و مشقت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ ہر نبی اپنی اُمت کیلئے آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے اور تاجدارِ کائنات ﷺ کی شخصیت قیامت تک کی انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ آپ نے اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو محنت میں عظمت کا درس دیا۔

کسی خاص فن میں کی گئی محنت جب ایک خاص مہارت تک پہنچتی ہے تو اُسے ’حرفہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہیں سے صنعت و حرفت کو بنیاد ملتی ہے اور انسانی معاشرے میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی ’محنت میں عظمت‘ کے عظیم تصوّر کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔

تاجدارِ کائنات ﷺ کا فرمان ہے:

إنّ اﷲ یُحب إذا عمل أحدکم عملاً أَن یتقنہ۔

(مجمع الزوائد،4:98)

بیشک اللہ اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی کام کو سرانجام دے تو اُسے مضبوطی سے کرے۔

اِسلام کی تعلیمات سے ملنے والے محنت کے سبق نے جاہل اور گنوار عرب قوم کو چند ہی برسوں میں اس قابل کر دیا کہ اُن کا پھریرا تین براعظموں پر لہرانے لگا۔ مسلمان جہاں کہیں فتوحات کرتے وہاں کی آبادی کے دلوں میں اپنے طرزِ حکومت اور عدل و انصاف کے باعث ایک اچھا مقام بنا لیتے۔ہر ملک میں ’محنت میں عظمت‘ کا تصور لے کر پہنچنے والے مسلمانوں نے ہر خطے کو فلاحی ریاست کے قیام کیلئے دن رات محنت میں مشغول کر دیا۔ صدیوں کی فراغت زدہ قومیں کام کی عظمت سے شناسا ہوتی چلی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے اپنے دور کی مناسبت سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال حاصل کر لیا۔ طلبِ علم اور فنی مہارت کے حصول کی ترغیب اقوام عالم کو اسلام ہی کے آفاقی پیغام سے نصیب ہوئی۔ اسلام سے قبل بھی ’علم‘ یونانی سانچوں میں موجود تھا، جس کا ’عمل‘ سے دُور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام نے علم کو برائے علم نہیں رہنے دیا بلکہ علم برائے زندگی کی تعلیم سے مسلمان قوم کو دنیا کی سب سے متحرک قوم بنا دیا اور جن خطوں پر انہیں سیاسی غلبہ حاصل ہوا وہاں کے عوام نے ان سے متاثر ہو کر محنت شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال پا گئیں۔ آج مسلمان تو اگرچہ اپنی اصل دینی تعلیمات سے رُو گرداں ہو کر پسماندہ ہو چکے ہیں مگر محنت کا وہ تصوّر جو انہوں نے سپین کے راستے یورپ کو دیا تھا وہ پوری دنیا میں اپنے ثمرات مرتب کر رہا ہے۔

سرِ دست ہم سپین کے اِسلامی دور کی ٹیکنالوجی کا ذِکر کریں گے تاکہ قارئین پر اسلامی سپین میں فروغ پانے والی صنعت و ٹیکنالوجی عیاں ہو سکے:

کاغذ سازی (Paper industry)

حصول و افشائے علم میں کاغذ کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ بغداد کی خلافتِ عباسیہ اور سپین کی خلافتِ اُمویہ کے دور میں علم کی وسیع پیمانے پر ترویج اشاعت کتب ہی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ کاغذ کی ایجاد سے قبل جن اشیاء (چمڑے وغیرہ) پر کتابیں لکھی جاتی تھی وہ اس قابل نہ تھیں کہ فقط اُن کے بل بوتے پر لاکھوں کتب پر مشتمل بڑی بڑی لائبریریاں وُجود میں آ سکتیں۔

رُوئی سے بننے والا کاغذ مسلمانوں کی ایجاد ہے، اُس سے پہلے دُنیا میں ریشمی کیڑے کے خول سے کاغذ بنایا جاتا تھا، جو نہ صرف بہت زیادہ مہنگا ہوتا بلکہ صرف انہی ممالک میں دستیاب ہوتا جن کی آب و ہوا اس قدر موزوں ہو کہ ریشم کا کیڑا وافر مقدار میں پرورش پا سکے۔ چنانچہ قرونِ وُسطیٰ میں یورپی ممالک میں چمڑا ہی وہ واحد شے تھی جس پر کتب لکھی جاتیں۔ چمڑا اِس قدر مہنگا اور کم یاب تھا کہ اُس دَور کے پادریوں نے مذہبی رسائل لکھنے کیلئے قدیم یونانی کتب کے حروف چھیل کر اُن کا چمڑا استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے یونانیوں کی بہت سے عقلی اور فلسفیانہ تصنیفات تلف ہو گئیں۔

مسلمانوں نے جب 704ء میں چین کے مغربی علاقے سنکیانگ کو فتح کیا تو اُس وقت چین کے قیدی سپاہیوں کی مدد سے سمر قند میں کاغذ بنانے کے کارخانے قائم کئے۔ یہیں سے انہیں کاغذ کی صنعت کو اپنانے اور فروغ دینے کا خیال آیا۔ کچھ کاغذ نمونے کے طور پر اسلامی سلطنت کے مرکزی شہروں دمشق اور بغداد بھیجے گئے اور فقط دو سال کے انتھک تجربات کے بعد 706ء میں یوسف بن عمر نامی مسلمان سائنسدان نے روئی سے بننے والا کاغذ ایجاد کر لیا۔ جسے "دِمشقی” کاغذ کے نام سے جانا جانے لگا۔ یہ کاغذ سمرقندی کاغذ کو مات کر گیا۔ یوں آٹھویں صدی عیسوی کے اندر اندر تمام مسلمان ممالک میں بقدرِ ضرورت کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی اور سستا اور معیاری کاغذ وافر مقدار میں بننے لگا۔ بغداد میں 794ء میں کاغذ سازی کا پہلا بڑا سرکاری کارخانہ فضل بن یحیٰ برمکی نے قائم کیا جسے ’صناعۃُ الورقہ‘ کا نام دیا گیا۔ روئی کے کاغذ کی آمد سے مصری قرطاس (papyrus) کا استعمال ختم ہونے لگا اور کچھ ہی عرصے میں تہامہ، دمشق اور طرابلس میں کاغذ سازی کی صنعت فروغ پذیر ہوئی۔ طرابلس کے بعد مراکش میں بھی کچھ فیکٹریاں کاغذ بنانے لگیں۔ یہیں سے یہ صنعت سپین میں داخل ہوئی۔

معروف مستشرق منٹگمری واٹ اِس سلسلے میں رقمطراز ہے:

Harun ar-Rashid’s vizier, Yahya the Barmakid, built the first paper-mill in Baghdad about the year 800. The manufacture of paper then spread westwards through Syria and North Africa to Spain, and it came into common use. In the twelfth century pilgrims from France to Compostela took back pieces of paper as a great curiosity, though Roger II of Sicily had used paper for a document in 1090. From Spain and Sicily the use of paper spread into western Europe, but paper-mills were not established in Italy and Germany until the fourteenth century.

(W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, p.25)

یورپ بھر میں سپین پہلا ملک ہے جہاں کاغذ بنانے کا کام شروع ہوا۔ اسلامی سپین میں کاغذ سازی کی صنعت مشرقی اسلامی سلطنت ہی سے پہنچی۔ 1085ء میں شاطبہ(Xatiua)میں کاغذ سازی کا کارخانہ قائم ہوا۔تھوڑے ہی عرصے میں اسلامی سپین کے ماہرین نے کاغذ سازی کو نئے انقلابات سے روشناس کیا۔ سپین کا کاغذ مضبوط اور معیاری ہوتا ۔ بالخصوص شاطبہ(Xatiua)میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا تھا جس کی نظیر دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ اپنے بہترین معیار کی بدولت اُسے آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد کیا جانے لگا۔ شاطبہ(Xatiua)کے علاوہ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، قسطلہ اور بلنسیہ (Valencia) میں بھی کاغذ سازی کے بڑے کارخانے موجود تھے۔

 

 

ٹیکسٹائل انجینئرنگ (Textile engineering)

خوراک کے بعد لباس انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت و اہمیت سے کسی دور کے کسی بھی معاشرے نے انکار نہیں کیا۔ یہ الگ بات کہ دولت کی فراوانی اور اخلاقی بے راہ روی لباس پہنے ہوئے بھی بے لباسی کی کیفیت پیدا کر دے۔ اسلام نے جہاں لباس کیلئے ضروری ستر کی حدود متعین کی ہیں وہاں اُس کی زینت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ جہاں باطنی حسن و زیبائش کیلئے لِبَاسُ التَّقویٰ ذٰلِکَ خَیرٌ (الاعراف،7:26) میں تقویٰ کا لباس اپنانے کا حکم دیا گیا وہاں جمیع بنی آدم کو اللہ کے حضور حاضری اور سجدہ ریزی سے قبل بہترین لباس زیبِ تن کرنے کا بھی حکم دیا۔

فرمانِ خداوندی ہے:

یَا بَنِیٓ آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدٍ۔

(الاعراف،7:31)

اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت ( پہن ) لیا کرو۔

اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزت نے لباس کی اہمیت اور زینت کی طرف دِلائی، یہ اِسی توجہ کا ثمرہ تھا کہ مسلمانوں نے پارچہ بافی کی صنعت میں کمال حاصل کر لیا۔ ابتداء میں نو مفتوحہ علاقوں (newly conquered) میں پہلے سے مروّجہ ٹیکسٹائل کی صنعت مسلمانوں میں متعارف ہوئی۔ جس کے کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں نے اِس فن میں بھی اپنا ایک تشخص قائم کر لیا اور ٹیکسٹائل کے باب میں بھی دنیا بھر کے اِمام (leader) قرار پائے۔

اسلامی سپین میں ٹیکسٹائل کی صنعت اپنے عروج پر تھی یہاں کے تیار شدہ ملبوسات (garments) آس پاس کے بہت سے ممالک کو برآمد بھی کئے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ مرکزی اسلامی سلطنت کے دارالخلافہ بغداد میں بھی سپین کے معیار کا کپڑا تیار نہ ہوتا تھا۔ سپین کا ’دیباج‘ اور ’طِراز‘ دُنیا بھر میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ اور اکثر مؤرخین سپین کے شاہی ملبوسات کو بغداد کے شاہی ملبوسات پر فوقیت دیتے ہیں۔

سپین کے جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ (Almeria) ’دیباج‘ کی تیاری میں سب شہروں سے بڑھ کر تھا، جہاں پارچہ بافی کی4,500 سے زائد مشینیں نصب تھیں۔ اُس دَور کے سیاحوں اور مؤرّخین نے المریہ کے دیباج کی اعلیٰ بُنت کی بہت تعریف کی ہے۔

ٹیکسٹائل کے سلسلے میں بغداد کی مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح مسلم سپین میں بھی روئی کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ کپاس کی وسیع پیمانے پر کاشت کا بخوبی انتظام کیا جاتا اور ماہرین نباتات (botanists) اعلیٰ قسم کی کپاس کی کاشت کیلئے نت نئے تجربات کرتے جن کے نتیجے میں سپین کی ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی اپنے دور کے عروج کو جا پہنچی۔

Cotton was in India and ancient Egypt but it became an important textile only after the advent of Islam. Indeed, one of the results of the Muslim agricultural revolution was that cotton plantations spread throughout all Islamic lands, in the east as well as the west. Fine cotton was manufactured and exported to various countries, including China and the Far East.

(Ahmed Y. Al-Hassan, Islamic Technology, p.181)

سپین میں ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کا سہرا بھی عرب مسلمانوں ہی کے سر ہے۔ مسلمانوں نے دوسری صدی ہجری میں وہاں ٹیکسٹائل کی صنعت کا آغاز کر دیا تھا۔ جبکہ فرانس اور جرمنی میں یہ صنعت بہت عرصہ بعد بالترتیب چھٹی اور آٹھویں صدی ہجری میں پہنچی۔

گھڑیاں (Watches)

علم فلکیات (astronomy) کی طرح علم المیقات (time keeping) بھی مسلمانوں کا پسندیدہ علم رہا ہے۔ ان دونوں علوم میں مسلمانوں نے بیش بہا اضافے کئے اور یونانی دور کی بے شمار خطاؤں کو دُور کر کے بنی نوع انسان کے زائیدہ ان علوم کو حقیقی معنوں مین فطری بنیادوں پر اُستوار کیا۔ علم فلکیات اور علم المیقات دونوں میں وقت کی پیمائش نہایت اہم چیز ہے۔ سالوں، مہینوں اور دنوں کی پیمائش کیلئے تو قدرت کی طرف سے مہیا کردہ سورج اور چاند رہنمائی کرتے ہیں، جن سے بننے والی تقویمات انسان کو وقت شماری کے قابل بناتی ہیں لیکن دن کو گھنٹوں، منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم کرنا خالصتاً انسان کی شعوری کاوِش کا نتیجہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات ایسے آلات کا بنانا ہے جن کی مدد سے دن کے مختلف پہروں اور لمحوں کا شمار ممکن ہو سکے۔

وقت کی پیمائش کیلئے اسلام کی آمد سے قبل بھی کچھ قدیم پیمانے اور آلات مروّج تھے لیکن سادگی کی بناء پر اُن کی کارکردگی خالی از خطا نہ تھی۔

مسلمانوں نے میکینکل گھڑیاں ایجاد کیں اور اُن میں پنڈولم استعمال کر کے ان کی کارکردگی کو بہتر کیا۔ جامع دمشق (شام) مین ایک کافی بڑی اور عجیب و غریب گھڑی آویزاں تھی جو دن کے پہروں اور گھنٹوں کا اعلان مختلف طریقوں سے کرتی تھی اور اُس کی کارکردگی بھی نہایت عمدہ تھی۔ وہ گھڑی اپنے دور کا نہایت حسین عجوبہ تھی۔ بلنسیہ(Velencia)کے نامور سیاح ابن جبیر نے اپنے سفرنامہ میں اس گھڑی کی کارکردگی کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (رحلہ ابن جبیر:207)

اِسلامی سپین میں ہاتھ پر باندھی جانے والی گھڑیاں بھی بنائی جاتی تھیں جنہیں "منتقلہ” کہا جاتا تھا۔ اُن گھڑیوں کی مدد سے منٹوں تک کے وقت کا صحیح تعین کیا جا سکتا تھا۔ عباس بن فرناس نے بھی ایک نہایت عمدہ گھڑی بنائی تھی جس کی کارکردگی بے مثل تھی۔ یوں علم المیقات (timekeeping) کے شعبے میں بھی سپین کے مسلمان ایشیا کی اِسلامی خلافت سے کسی طور پیچھے نہ تھے۔

حرکی توانائی (Kinetic energy)

پانی اور بجلی کے ذریعے حرکی توانائی کا حصول اور اُس کی مدد سے روز مرّہ زندگی کے کئی ایک چھوٹے بڑے کام سر انجام دینا اسلامی سپین میں معروف تھا۔ ماہر انجینئرز کے علاوہ عام لوگ بھی نہ صرف حرکی توانائی کا استعمال سمجھتے تھے بلکہ عملاً اُس سے فائدہ بھی اُٹھاتے تھے۔

اناج کی پسائی وغیرہ کیلئے پانی اور ہوا کے زور سے چلنے والی چکیاں پورے ملک میں عام تھیں۔ پون چکیاں (windmills) عموماً ایسے پہیوں پر بنائی جاتی تھیں کہ بوقت ضرورت اُن کا رُخ ہوا کی سمت گھما لیا جاتا تھا۔ پن چکیوں (water mills) کیلئے دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے مخصوص جگہوں پر لا کر بلندی سے یکدم گرا دیا جاتا جس سے نیچے لگی چرخیاں گھومنے لگ جاتیں۔ پن بجلی کیلئے بنائے جانے والے بڑے بڑے ڈیم آجکل اسی بنیاد پر قائم کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ’دریائے وادی کبیر‘ (Guadalimar River)اور ’دریائے شنیل‘ (Genil River)کے کنارے سینکڑوں پن چکیاں غلہ پیسنے کیلئے نصب تھیں۔ حرکی توانائی کا استعمال اس قدر عام ہو چکا تھا کہ پون چکیاں کشتیوں پر نصب ہونے لگ گئی تھیں۔ ایسی پون چکیاں بالعموم لوگوں کو کرایہ پر دینے کیلئے بنائی جاتی تھیں اور انہیں بآسانی دوسرے مقامات پر منتقل کیا جا سکتا تھا۔

اسلامی سپین میں عربوں نے حرکی توانائی (kinetic energy) کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا گیارھویں صدی عیسوی تک وہ مغربی یورپ کے چند ممالک تک بھی پھیل گیا اور وسطی یورپ میں یہ طریقِ کار چودھویں صدی تک پہنچ سکا۔ چنانچہ آج بھی یورپ کے اکثر ممالک بالخصوص ہالینڈ اور بیلجیئم میں پون چکیاں (windmills) بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

کیمیکل ٹیکنالوجی (Chemical technology)

اِسلامی سپین کے دورِ عروج میں مسلمانوں نے کیمیکل ٹیکنالوجی کی طرف بھی خاص توجہ دی اور روزمرّہ زندگی میں کارآمد بہت سی اشیاء بنائیں۔

خطاطی مسلمانوں کا ہر دِل عزیز فن تھا۔ بہترین خطاطی کیلئے معیاری روشنائی اور رنگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے رنگوں کے معیار کو بہتر کیا اور خاص قسم کی روشنائیاں ایجاد کیں جو سالہا سال اپنا اثر نہ چھوڑتی تھیں۔ مصوری میں استعمال ہونے والے رنگوں کیلئے وہ ایک خاص قسم کی وارنش بھی بناتے جس سے وہ دیرپا ہو جاتے۔

شیشہ سازی کی تاریخ میں بھی مسلمانوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ مسلمانوں کی سپین آمد سے قبل شیشہ کی صنعت وہاں موجود تھی اور قرطبہ (Cordoba) کے قریب شیشے کی ایک بڑی کان موجود تھی۔ اسلامی دور کے اوائل میں شیشے کے برتنوں کا رواج نہ تھا مگر ’زریاب‘ کی اندلس آمد کے بعد اُس کے اِیماء پر محلاتِ شاہی میں سونے چاندی کے برتنوں کی بجائے شیشے کے برتنوں کو رواج پڑا۔ یہیں سے شیشہ سازی کی صنعت نے ترقی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام و خواص بھی شیشے کے برتنوں کا عام استعمال کرنے لگے۔

ہوائی جہاز کے موجد عباس بن فرناس نے شیشہ بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ چکنی مٹی کو بھٹی میں پکاتا اور اس سے شیشہ بناتا ۔ شیشہ سازی کا یہ نیا اُسلوب جلد ہی سپین میں رواج پکڑ گیا۔ اُس نے اس نئے طریقے کی ترویج کیلئے اس پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ جنوبی ساحل پر واقع شہر المریہ (Almeria) میں شیشہ سازی کے بڑے کارخانے قائم تھے۔ جہاں سے شیشے کی مصنوعات کی اندرونِ ملک سپلائی کے علاوہ برآمد بھی کی جاتی تھیں۔ اِس کے علاوہ مُرسیہ (Murcia)، مالقہ (Malaga)، غرناطہ (Granada)، قرطبہ (Cordoba)، لورقہ (Lorca) اور موجودہ پرتگال میں واقع شہر باجہ (Beja) میں بھی شیشہ سازی کی صنعت فروغ پذیر تھی اور مقامی استعمال کیلئے وافر مقدار میں مصنوعات تیار کی جاتی تھیں۔

چمڑے کی مصنوعات کے سلسلے میں بھی سپین کے مسلمان کافی آگے تھے۔ اُنہوں نے چمڑے کی تیاری میں استعمال ہونے والے ایسے کیمیکلز ایجاد کئے جو چمڑے کو دیرپا رکھتے۔ قرطبہ (Cordoba) اور باجہ (Beja) چمڑے کی صنعت میں خاص مقام رکھتے تھے۔ قرطبہ تو لیدر انڈسٹری کی بدولت پورے یورپ میں مشہور تھا ۔ یہی وجہ ہے فرانس میں ایک عرصے تک چمڑے کو cordovan اور چرم سازی کا کاروبار کرنے والوں کو cordonniers کہا جاتا رہا۔

سمور کی پوستین کے سلسلے میں سرقسطہ (Zaragoza) اہم مقام رکھتا تھا۔ خلیج بسکونیہ (Bay of Biscay) سے ’سمور‘ نامی جانور کا شکار کیا جاتا ۔ جس کے بعد اُس کی کھال کو سرقسطہ لے جایا جاتا جہاں چرم سازی کا بخوبی انتظام تھا۔ ’سمور‘ کی کھال سے بننے والی پوستین کو بھی ’سمور ‘ ہی کہا جاتا تھا۔ یہ نہایت قیمتی ہوتی اور اس کی برآمد سے بھی زر مبادلہ کمایا جاتا۔ مرسیہ (Murcia) میں بعض قسم کے اسلحہ کیلئے بھی چمڑے کا استعمال کیا جاتا۔ یہاں کی شیلڈز بڑی مضبوط اور معیاری ہوتی ۔

 

 

اسلحہ سازی (Ordnance)

جہاد اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ ظلم اور جبر و بربریت کی ہر ناروا صورت کو صفحۂ ہستی سے ناپید کر دینا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب بھی کسی مفلوک و مظلوم نے مسلمانوں کو مدد کیلئے پکارا آنِ واحد میں وہ ظلم کا سر کچلنے کو پہنچ گئے۔ چنانچہ ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے صفحات میں بکھرے ہوئے ہیں۔

جہاد کے سلسلے میں سب سے اہم اور ضروری شے اسلحہ سازی میں خود کفالت تھی۔ مرکزی اسلامی سلطنت کی طرح اندلس کی اسلامی حکومت بھی اسلحہ سازی میں مکمل طور پر خود کفیل تھی۔ سپین کے بہت سے اضلاع میں لوہے کی کانیں موجود تھیں جن سے بھاری مقدار میں لوہا نکالا جاتا تھا۔ چنانچہ دیگر بہت سی ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ اُس سے تلواریں، تیر، نیزے، زرہیں اور خود (ہیلمٹ) وغیرہ بھی بنائے جاتے تھے۔طلیطلہ (Toledo) کی تلواریں اپنی مضبوطی اور کاٹ میں دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شمشیر سازی میں اشبیلیہ (Seville) کا بھی اچھا مقام تھا۔ اُن کے علاوہ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، مُرسیہ (Murcia)، المِریہ (Almeria) اور سرقسطہ (Zaragoza) بھی اسلحہ سازی میں مشہور تھے۔ ان شہروں میں عمدہ قسم کے ہتھیار تیار ہوتے اور انہیں حسبِ ضرورت ملک کے دُوسرے شہروں میں بھی بھیجا جاتا تھا۔

اپنے دور کے روایتی ہتھیاروں کے علاوہ اسلامی سپین کے مسلمان بارود اور توپ کا استعمال بھی شروع کر چکے تھے۔ بارود کا استعمال انہوں نے ایشیا کی مرکزی اسلامی خلافت سے سیکھا تھا۔ مسلمانوں نے حجاج بن یوسف کے دور میں692ء میں پہلی بار توپ اور بارود کا استعمال کیا۔ بعد میں اسلامی سپین میں توپ کا استعمال عام ہونے لگا اور اسے متعدد جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ مد مقابل انگریزوں کی طرف سے اسلامی سپین کے خلاف جنگ میں توپ کا سب سے پہلا استعمال1346ء کی جنگ میں کیا گیا۔

 

 

ہوائی جہاز (Aeroplane)

اپنی تخلیق کے اوّل روز سے ہی انسان کے دل میں تجسس کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ تجسس ہی تھا جو سیدنا آدمؑ کو دانۂ گندم تک لے گیا۔ تجسس نے ہمیشہ بنی نوع انسان کو ترقی کے شاہراہ پر گامزن کیا۔ سمندر کے پار اور پہاڑ کی اوٹ میں کیا واقع ہے؟ یہ تجسس اِنسان کو صحرا نوَردی پر مجبور کرتا رہا اور ایک وقت آیا کہ انسان نے پورے کرۂ ارضی کا چپہ چپہ چھان مارا اور انچ انچ کے نقشے بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ سطحِ زمین کا قیدی انسان جب پرندوں کو آزادانہ فضا کی بلندیوں میں اڑتے دیکھتا تو اُس کے دل میں بھی اُڑنے کی خواہش جنم لیتی۔ پرندوں کیلئے اپنی خالی خولی اور ہلکی پھلکی ہڈیوں کی نسبت فضائی اُڑان ممکن تھی جبکہ انسان کے اعصاب اُس کے بدن کے وزن کو اُڑانے کیلئے کافی نہ تھے۔ تاہم مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کے لوگوں نے اپنے بازوؤں کے ساتھ پر باندھ کر اُڑنے کی کوشش کی اور پہاڑی ڈھلانوں سے کود کر مختصر سی اڑان بھی کی مگر اُن میں سے اکثر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دیرینہ خواہش کی تکمیل 17ستمبر1903ء میں اُس وقت ہوئی جب رائٹ برادران نے اپنے خود ساختہ ہوائی جہاز کی پہلی کامیاب پرواز کی جو صرف 12منٹ پر مشتمل تھی۔1903ء میں کامیاب ہونے والا انسان ایک صدی گزرنے سے بھی بہت پہلے ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگا اور اُ س نے آواز سے تیز رفتار سفر کرنے والے جہاز ایجاد کر لئے۔ ایسا کرتے وقت صدیوں کا انسانی شعور اُس کی پشت پناہی کرتا ہے۔

دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز اسلامی سپین کے مسلمان سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے نویں صدی عیسوی میں ایجاد کیا اور اُسے اُڑانے میں کامیاب ٹھہرا۔ اُس نے اپنے جہاز کے دائیں بائیں بڑے بڑے پر بھی لگائے تھے جو جہاز اور اُس کا بوجھ اُٹھائے دور تک چلے گئے، تاہم وہ جہاز کی لینڈنگ ٹھیک طرح سے نہ کر سکنے کی بناء پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دراصل اُس نے اپنے جہاز کی دُم نہیں بنائی تھی اور وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ پرندے اپنی دُم کی مدد سے زمین پر واپس اُترتے ہیں۔

ہوائی اُڑان کی حد تک عباس بن فرناس کی یہ کوشش بنی نوع انسان کے اذہان پر ایک دستک تھی۔ بڑی بڑی ایجادات کے پس منظر میں انسان کی ایسی ہی ابتدائی کوششیں بنیاد بنتی ہیں۔ اسلامی سپین کی تاریخ میں میسر اس ایک مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان سائنسدان سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ میں کس قدر جنونی انداز اختیار کر چکے تھے کہ اپنی جان کو بھی داؤ پر لگا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

 

 

سِول انجینئرنگ (Civil engineering)

مسلمان جس خطۂ ارضی میں بھی حکمران ہوئے وہاں کے تہذیب و تمدن کے ارتقاء اور اُس میں اسلامی روایات کے فروغ کے علاوہ تعمیرات کی صورت میں بھی انہوں نے وہاں اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ اِسلامی سپین کے مسلمان حکمران بھی تعمیرات کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ اندلس میں اُنہوں نے بہت سی باقیات چھوڑیں۔ اُن کی تعمیرات میں عمارات، شاہراہیں اور دریاؤں پر بنائے گئے پل شامل ہیں، جو سپین کے انجینئروں کی ماہرانہ کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سِول انجینئرنگ کے ذیل میں اسلامی سپین بہت آگے تھا۔ یہاں ہم تفصیل میں جائے بغیر چند اہم عمارات کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین پر سپین کے اسلامی دور کا یہ نقشہ بھی واضح ہو سکے:

مسجدِ قرطبہ

قرطبہ کی عظیم جامع مسجد جس کا سنگِ بنیاد عبدالرحمن سوُم نے اپنی وفات سے دو برس پہلے 959ء میں رکھا تھا، بعد کے خلفاء نے اُسے مزید وسعت دی اور وہ تاریخِ اِسلام کی عظیمُ الشان مساجد میں سے ایک ٹھہری۔ وہ ایک مستطیل شکل کی مسجد ہے جس کی دیواریں بڑے قیمتی اور نفیس پتھروں سے بنی ہیں۔ اُس کے مینار 70 فٹ بلند بنائے گئے۔ مسجد میں4,700 فانوس روشن ہوتے جن کے لئے سالانہ 24,000پاؤنڈ زیتون کا تیل اِستعمال ہوتا تھا۔ مسجد کے ستونوں کی کل تعداد1,390 ہے جو اعلیٰ کوالٹی کے دیدہ زیب ماربلز سے تعمیر کئے گئے تھے۔ ستونوں کے اُوپری حصہ میں دُہری محرابیں بنا کر اُن کے حسن کو مزید اُجاگر کیا گیا ہے، جو تمام عالمِ اِسلام میں اپنی نوعیت کا انوکھا کام ہے۔ مسجد کی تعمیر میں اِسلامی شان و شوکت اور اِستقامت دیدنی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں قرطبہ کے اندر ایسی حسین و جمیل اور مضبوط عمارت کا وُجود حیرت انگیز بات ہے، جبکہ اُس دوران میں دُنیا میں عام طور پر انجینئرز میں اِتنی قابلیت بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ مسجد کی تعمیر میں کاشی کاری کا کام اپنی نفاست اور دیدہ زیب رنگوں کے حسین اِمتزاج سے اِنتہائی خوبصورت شکل اِختیار کر گیا ہے، جسے دیکھ کر آج بھی اِنسان کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔

ایک انگریز مؤرخ نے اُس مسجد کے بارے میں یہاں تک لکھا ہے کہ:

Whatever the human eye has witnessed this is the most charming of them all, and its craftsmanship and splendour are not to be found in any of the ancient or modern monuments.

ترجمہ: "یہ اِنسانی آنکھ کے سامنے سے گزرنے والے تمام مناظر میں سے سب سے زیادہ دِلکش منظر ہے اور اس کی مہارت اور عظمت قدیم یا جدید عمارات میں کہیں نہیں ملتی۔”

علامہ اقبالؒ نے مسجدِ قرطبہ پر بالِ جبریل میں ایک طویل نظم لکھی، جو اندلس میں مسلمانوں کے عروج و زوال میں مخفی اَسرار سے پردہ سرکاتی نظر آتی ہے اور دورِ حاضر کے مسلمان کو ایک عظیم اِنقلاب کا درس دیتی ہے۔ اُس طویل نظم میں مسجدِ قرطبہ کی تعریف میں کہے گئے چند اَشعار یوں ہیں:

تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

تیری بناء پائیدار، تیرے ستوں بے شمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

تیرے دَر و بام پر وادئ اَیمن کا نور

تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل

مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں، کہ ہے

اُس کی اَذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل

 

 

قصرُ الزہراء

قرطبہ سے 400 میل مغرب کی طرف ’عبدالرحمن سوم‘ نے ایک محل ’قصرالزہراء‘ تعمیر کروایا، جو اُس کی ایک بیوی ’الزہراء‘ کے نام سے موسوم تھا۔ بعد اَزاں اُس محل کے اِردگرد ’مدینۃُ الزہراء‘ نامی شہر آباد ہو گیا۔ قصر الزہراء ایک ایسی عظیم الشان عمارت تھی جس کا مقابلہ عظیم تاریخی عمارات میں کسی کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔اُس کے در و دیوار منقّش تھے اور اُن میں جگہ کی مناسبت سے تصاویر بھی کندہ کی گئی تھیں جو اندلس میں اِسلامی فنِ مصوّری کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’قصر الزہراء‘ کی تعمیر کے لئے بغداد اور قسطنطنیہ جیسے دُور دراز ممالک سے انجینئروں اور کاریگروں کو بلایا گیا تھا جنہوں نے اپنی کمالِ صناعی سے عمارت کو وہ حسنِ دوام بخشا کہ وہ رشکِ خلائق ہو گئی۔ پانی کی بہم رسانی کے لئے بُعدِ مسافت پر واقع پہاڑوں سے نہر کاٹ کر لائی گئی تھی جس سے نہ صرف محل کے حوض اور فوّاروں کو پانی میسر آتا بلکہ مقامی آبادی کے پینے کے لئے بھی کافی ہوتا۔ ’قصر الزہراء‘ کو ’دارالروضہ‘ کا نام بھی دیا گیا جو اندلس میں اِسلام کی تہذیبی روایات کا امین تھا۔

(تاریخ ابن خلدون، 4:172)

’قصر الزہراء‘ کے دروازے پر عبدالرحمن سوم کی محبوب بیوی ’زہراء‘ کی تصویر نقش کی گئی، جس کے نام پر اُس کا نام ’قصر الزہراء‘ پڑ گیا۔

(دولۃُ الاسلام فی الاندلس، 4:510)

یہ عجوبۂ روزگار اِس قدر عظیم فن کا آئینہ دار تھا کہ ایک ترکی مؤرّخ ’ضیاء پاشا‘ بیان کرتا ہے:

This palace is such a wonder of the world that a concept of the design of this type could not occur to any human being from the dawn of creation to this day and human intellect has through the ages failed to produce a parallel or even approaching it in beauty of design.

(Dr. Mustafa Siba’, Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization)

ترجمہ: "یہ محل دُنیا کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ اُس کی ساخت کا تصوّر روزِ اوّل سے لے کر آج تک کسی اِنسان کے بس میں نہیں۔ اِنسانی شعور کئی اَدوار سے اُس جیسی یا جمالیاتی ساخت میں اُس کے قریب قریب بھی کوئی مثال پیدا کرنے سے قاصر رہا ہے”۔

’دریائے وادیٔ کبیر‘ (Guadalimar River) کے کنارے تعمیر ہونے والے ’قصر الزہراء‘ کو صحیح معنوں میں سپین کا تاج کہا جا سکتا ہے۔ اُس محل میں کل 400 کمرے تعمیر کئے گئے۔ تعمیر میں اِستعمال ہونے والا بہت سا تعمیراتی سامان جس میں سنہری ستون اور دیگر سامانِ آرائش شامل ہے، ’قسطنطنیہ‘ سے منگوایا گیا تھا۔ سنگِ مر مر کا بڑا ذخیرہ ہمسایہ مسلمان افریقی ریاست ’مراکش‘ سے درآمد کیا گیا تھا۔ بعض تاریخی رِوایات کے مطابق اُس محل کی تعمیر10,000 مزدوروں کی محنت سے صرف 4 سال کی مختصر مدّت میں تکمیل پذیر ہوئی۔ ’قصر الزہراء‘ صنعتِ تعمیر کا عظیم شاہکار تھا جس کا گنبد 4,613 سنہری ستونوں پر قائم تھا۔ محل میں صاف شفاف پانی کی چھوٹی چھوٹی نہریں ہر طرف رواں رہتیں جو اُس کے حسن کو اور بھی دوچند کئے دیتیں۔ اُس کی دیواروں پر نقّاشی کے نمونوں میں سنگِ مرمر، سونے اور جواہرات کا عام اِستعمال کیا گیا تھا۔

؂ آبِ روانِ ’کبیر‘ تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اَور زمانے کا خواب

الحمراء

’مسجدِ قرطبہ‘ کے علاوہ دُوسری اہم عمارت جو سپین میں اِسلامی فنِ تعمیر کے منہ بولتے ثبوت کے طور پر زندہ سلامت کھڑی ہے، وہ ’الحمراء‘ ہے، جو2,200 مربع میٹر رقبے پر محیط ہے۔ اگرچہ اُس کی تعمیر ’مسجدِ قرطبہ‘ کی طرح مضبوط بنیادوں پر نہیں ہے مگر اُس کے باوُجود صدیاں گزرنے کے بعد بھی عمارت کا ابھی تک سلامت رہنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ ’الحمراء‘ دُنیا کی یادگار عمارات میں سے ایک ہے جسے صدیوں قبل نہایت نفاست کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ اپنی فصیل اور برجوں کی وجہ سے ایک قلعہ دِکھائی دیتا ہے۔ اُس کی تعمیر غرناطہ کی سرخ مٹی سے ایک پہاڑی کی ڈھلان پر کی گئی تھی اور اُس میں جا بجا حوض اور فوّارے نصب ہیں۔ پانی کے بہاؤ کے لئے قدرتی ڈھلان سے مدد لی گئی ہے جس کی وجہ سے اِضافی توانائی کی بہم رسانی ضروری نہیں رہی۔ محل کا ہر حصہ مرکزی حصے کی سی دِلکشی کا حامل ہے اور دیکھنے والا اُسی حصہ کو اُس کا مرکز سمجھنے لگتا ہے۔ اُس کے ہر حصے میں آیات، اَحادیث اور عربی اَشعار و عبارات کندہ ہیں، جو اِسلامی فنِ خطاطی (calligraphy) کے بہترین شہ پارے ہیں۔ ’الحمراء‘ کے پہلو میں بعد کے اَدوار میں ایک عیسائی بادشاہ نے بھی محل بنوایا تھا جو پختہ پتھروں سے بنا ہے۔ اُس محل کے تضاد کے ساتھ الحمراء کا حسن اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ پورے محل میں پتھر کی تراشی ہوئی جالیاں اور مختلف انداز کی محرابیں اُس کے حسن کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں مصوّری اور سنگ تراشی کے بھی چند بہترین نمونے موجود ہیں، جن میں اُس دَور کے لوگوں کا طرزِ بود و باش منقّش کیا گیا ہے۔

اِسلامی سپین کا طرزِ تعمیر مجموعی طور پر تمام دُنیائے اِسلام میں منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ مساجد کے مینار مربع شکل کے ہیں جو عالمِ اِسلام میں ایک انوکھا طرزِ تعمیر تھا۔ اُس دَور کی عمارتوں پر جا بجا خطاطی کے بے مثل نمونے ثبت ہوتے تھے۔ عمارات عربی عبارتوں اور آیاتِ قرآنیہ کی دیدہ زیب خطاطی سے مزین ہوتیں۔ اندلس کا فنِ خطاطی (calligraphy) اپنے کمال کی بنا پر یورپ کے بہت سے ملکوں میں فروغ پذیر ہوا، چنانچہ اکثر عیسائی سیدنا عیسیٰؑ اور سیدہ مریم علیہ ا السلام کی تصاویر اور مجسموں کی تزئین و آرائش کے لئے اُن پر س کے علاوہ کلمۂ طیبہ کی نقاشی بھی کرواتے، اگرچہ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ یہ کیا الفاظ نقش کئے جا رہے ہیں۔

 

اَغیار کا اِعترافِ عظمت

 

بعثتِ  محمدی ﷺ کے زیر اثر عربوں میں شروع ہونے والی علمی و ثقافتی تحریک نے عالمِ اِسلام میں علم و تحقیق اور تہذیب و ثقافت کو خوب فروغ دیا، جس کے نمایاں اثرات سپین کی اِسلامی حکومت کے دَور میں بھی دیکھے گئے ہیں۔

E. Rosenthal بیان کرتا ہے:

In Muslim days, Cordova was the centre of European civilisation and one of the greatest seats of learning in the world. After the expulsion of the Moors from Spain, however, Cordova sank to the level of a provincial town. Yet her wonderful mosque is a superb legacy of the days when Cordova was the capital of the Arab Empire in Spain. "Traces of Arabic Influence in Spain”

(Islamic Culture 11:336 July, 1937)

ترجمہ "اِسلامی دَورِ حکومت میں قرطبہ یورپی تہذیب کا مرکز اور دُنیا کا سب سے بڑا علم و دانش کا مقام تھا۔ تاہم مسلمانوں کے سپین سے اِخراج کے بعد قرطبہ کی حیثیت صوبائی شہر کی سی رہ گئی۔ وہ عظیم الشان مسجدِ قرطبہ اُن عظیم دِنوں کی یاد دِلاتی ہے جب قرطبہ سپین میں عرب سلطنت کا دارُ الحکومت تھا”۔

اِسی حقیقت کو Sir Thomas W. Arnold نے یوں بیان کیا ہے:

د سویں صدی عیسوی میں ہی قرطبہ یورپ کا مہذب ترین اور متمدّن شہر بن چکا تھا۔ یہ دُنیا کے قابلِ تحسین اور حیران کن عجائبات میں شامل تھا۔ یہ ریاست ہائے بلقان کا "وینس” کہلاتا تھا۔ شمال سے جانے والے سیاحوں کے علم میں جب یہ بات آتی کہ اُس شہر میں 70 لائبریریاں اور 900 حمام ہیں تو وہ خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات کا اِظہار کرتے۔ لیون (Leon)، ناقار (Navarre) اور برشلونہ (Barcelona) کی ریاستوں کے حکمرانوں کو جب کبھی سرجن، ماہرِ تعمیرات (Architect)، ماہرِ ملبوسات (Dressmaker) یا کسی عظیم موسیقار (Singer) کی خدمات کی ضرورت ہوتی تو اُن کی نظریں قرطبہ کی طرف ہی اُٹھتی تھیں اور وہ اُنہیں یہیں سے منگواتے تھے۔

(The legacy of Islam)

اِ س موضوع پر C. H. Haskins کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

The broad fact remains that the Arabs of Spain were the principal source of the new learning for Western Europe.

(Studies in the History of Medical Science)

ترجمہ "یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سپین کے عرب ہی مغربی یورپ کے تمام جدید علوم و فنون کا سرچشمہ اور منبع تھے”۔

اِسی طرح H. E. Barnes نے اِس تاریخی حقیقت کا اِعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے:

In many ways, the most advanced civilisation of the Middle Ages was not a Christian culture at all, but rather the civilisation of the people of the faith of Islam.

(H.E. Barnes, A History of Historical Writings)

ترجمہ: "بہت سی جہتوں سے قرونِ وُسطیٰ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت ہرگز عیسائی ثقافت نہیں تھی بلکہ یہ ثقافت اِسلامی عقیدہ رکھنے والی اَقوام کی تھی”۔

معروف مُستشرق منٹگمری واٹ لکھتا ہے:

"Yet it was the culture of the Arabs which became the matrix of the new Islamic civilisation, and all that was best in the older and higher culture was assimilated into the new culture.”

(W. Montgomery Watt, A History of Islamic Spain, p.166)

G. R. Gibb نے بھی اِس اَمر کی تصریح کی ہے کہ دسویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک سپین کی اِسلامی ثقافت یورپ کی سب سے بلند اور ترقی یافتہ ثقافت تھی۔