FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہندوستانی جمالیات

 

 

حصہ ۵

 

 

شکیل الرحمن

 

 

 

©  جملہ حقوق بحق عصمت شکیل   محفوظ ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

سات

 

’وبھو‘ اور ’رس‘

 

 

 

 

ہندوستانی تہذیب کی مثبت قدروں کی تشکیل اور اس تہذیب کو مثالی بنانے میں مذاہب نے بہت بڑا حصّہ لیا ہے۔

ہندو افکار و خیالات اور بُدھ تجربات نے خصوصاً اس تہذیب کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔ مذاہب نے اس کے مزاج کی تشکیل کی ہے۔ براہِ راست اثرات کے ساتھ کلچر اور اس ارتقا کی ایسی مثال مشکل سے ملے گی۔

مذاہب نے ذاتی تجربوں کی اہمیت کے احساس کو بالیدہ کیا اور عرفانِ ذات کے لیے روشنی عطا کی۔

زندگی کے لیے ما بعد الطبعیاتی اور متصوفانہ حیثیت کو اُبھارنے اور اس کی آبیاری میں نمایاں حصّہ لیا۔

یہ بتایا کہ وجود کے اظہار کے لیے تجربوں کی اندرونی ، عمیق یا قلبی لہروں کی اہمیت کیا ہے۔

خالص روحانی سطح پر بے اختیار زندگی کی رفتار سے کِس قسم کی بصیرت حاصل ہوسکتی ہے۔

غربت میں بھی وجود کے تئیں بیداری کس طرح پیدا ہوسکتی ہے۔

ابدی تنہائی سے کِس طرح وجود کی خاموشی کے اسرار کو پایا جا سکتا ہے۔

محبت کا جذبہ کتنا عظیم، کتنا نرم کتنا گرم، کس قدر خوبصورت اور دل رُبا ہے کہ کائنات کی ہر شئے اس سے وابستہ ہو جاتی ہے۔

جمالیاتی بیداری اور آگاہی کس طرح ذات، فطرت اور تخلیقات سے رشتہ قائم کر لیتی ہے۔

یہ تمام باتیں تخلیقی عمل اور تخلیقی آرٹ کے بنیادی تصوّرات میں جذب ہیں۔ ہندوستان کا تخلیقی آرٹ ان تمام سچائیوں کو جذب کیے ہوئے ہے۔

سبب یا علّت اور اثر، انجام یا نتیجے پر غور کرتے ہوئے ’’پراکرتی (PRAKRITI) کا حسین تر تصوّر پیدا ہوا۔ اثر، انجام اور نتیجہ  اُس شے میں پہلے سے موجود ہوتا ہے جو وجود میں آتی ہے۔ یعنی تخلیق سے پہلے خلق ہونے والی شے میں اُس کی صورت کسمساتی رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بڑی سے بڑی محنت صورت خلق نہیں کرسکتی۔ ’انجام‘ ’نتیجہ‘ ۔ مادّہ میں موجود ہوتا ہے تب ہی صورت اُبھرتی ہے۔ ہم نیلے کو سُرخ نہیں بنا سکتے۔ اس لیے کہ نیلے میں سُرخ کی کوئی لہر نہیں ہوتی۔ مٹّی میں جوہر موجود ہے۔ تب ہی کمہار اسے چاک پر مختلف صورتوں میں ڈھالتا رہتا ہے۔ ہم دودھ ہی سے دہی بنا سکتے ہیں۔ دودھ میں دہی کا جوہر موجود ہے۔ کمہار دودھ یا کپڑے کو چاک پر چڑھا کر برتن نہیں بنا سکتا۔ ’نتیجہ‘ ’انجام‘ ۔علّت یا سبب میں موجود ہوتا ہے، غیر واضح ہوتا ہے۔ مظہر بن کر سامنے نہیں ہوتا۔ نتیجہ دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی غیر واضح صورت مادّی صورت سے علیٰحدہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔سانکھیہ ، (SANKHYA) ما بعد الطبعیات نے پراکرتی کا جو تصوّر پیش کیا اس کی بنیاد اسی بنیادی نظریے پر ہے۔ پراکرتی کے تصوّر کو ’ست کریاواد‘ (SATKARYA VEDA) بھی کہتے ہیں۔ بدھ مفکّروں نے اس تصوّر کی اپنے طور پر مخالفت کی تھی اور یہ مخالفت فکر و نظر کے عین مطابق تھی۔ خود ’’ست کر یا واد‘‘ کی دو صورتیں پیدا ہو گئیں۔

٭        ’’پرینام واد (PARINAMA VEDA)

اور

٭        ویوارت واد (VIVARTA VEDA)

پہلی صورت یعنی ’’پرینام واد‘‘ کے مطابق جب کوئی ’انجام‘ یا ’نتیجہ‘ جنم لیتا ہے تو دراصل وہ علّت یا سبب کی سچّی تبدیلی (PARINAMA VEDA)  ہے۔ برتن جب ڈھلتا ہے تو یہ مٹی کی سچی صورت کی تبدیلی ہے۔

دوسری صورت یعنی ’ویوارت واد‘ کے مطابق علّت کا کسی انجام کی صورت اختیار کر لینا محض ایک ظاہری بات ہے۔ حقیقی صورت جلوہ گر نہیں ہوتی۔ اگر ہم کسی سانپ کو رسّی میں بندھا ہوا دیکھتے ہیں تو رسّی سانپ کس طرح ہو گئی رسّی سانپ کی مانند نظر آتی ہے سانپ تو نہیں ہوتی۔ اسی طرح کائنات برہما نہیں ہے۔ برہما کائنات میں ڈھل نہیں گیا ہے۔ اگرچہ کائنات برہما سے قریب تر اور اُس سے ملتی جلتی ہے۔

مذہبی تصوّرات اور ما بعد الطبعیات میں اتفاق اور اختلاف کا سلسلہ جاری رہتا ہے، فلسفوں میں یہ سلسلہ اور طویل ہو جاتا ہے۔ ان سے علیٰحدہ ہو کر ’پراکرتی‘ کے بنیادی تصوّر پر غور فرمائیں تو محسوس ہو گا کہ تخلیقی عمل اور تخلیقی آرٹ کے تعلّق سے یہ نظریہ کتنا قیمتی رہا ہے۔ پراکرتی تمام اشیاء و عناصر کی تخلیق کا سبب ہے۔ جسم اور ذہن، حواسِ خمسہ سب کی علّت! کائنات کی تخلیق کا سبب کیا ہے۔ ’پُرش‘ یا ’ذات‘ اس کا سبب نہیں ہے۔ اس لیے کہ ذات سبب ہے اور نہ انجام یا نتیجہ۔ ظاہر ہے کہ کائنات کی تخلیق کاسبب غیر ذات ہے یعنی کوئی اصول جو روح، ذات یا شعور سے علیٰحدہ ہے، ابدی ہے، ارفع ہے، جلیل تر اور جمیل تر ہے اور تخلیقی کائنات میں مصروف ہے۔ ہر شئے کی تخلیق کا سبب ہے اور خود علّت یا سبب نہیں ہے حیرت انگیز ہے، پُراسرار ہے ۔ایسی حیرت انگیز اور پُر اسرار قوّت ہے جو توڑتی بھی ہے اور خلق بھی کرتی رہتی ہے۔

’تانترؔ‘ کے مطابق تمام مظاہر ’پُر جوش‘ (کائناتی شعور) اور ’پراکرتی‘ (کائناتی قوّت) کی ہم آہنگی کے نتائج ہیں ’پُرش‘ یعنی کائناتی شعور اُس وقت تک غیر متحرک رہتا ہے جب تک کہ کائناتی قوّت یعنی ’پراکرتی‘ اُسے متحرّک نہ کرے۔ دونوں کی وحدت کائنات کے جلال و جمال کا سبب ہے۔ ’پُرش‘ یا کائناتی شعور کو مرد کی قوّت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ’پراکرتی یا کائناتی قوّت کو عورت کی قوّت اور تحرک و عمل سے! دھرتی اور آکاش کی وحدت کے تصوّر نے عورت اور مرد کے رشتوں کی کائناتی صورت کو اس طرح پیش کیا ہے۔ تمام تجربوں کا سر چشمہ یہی ہے ۔ یہی وحدت رسوں کا مرکز اور وجد آفریں مسرّت یا ’آنند‘ کا سر چشمہ ہے!

تانتر نے چوں کہ اپنے علم کو عورت کے وجود کے اسرار کی نئی دریافت تصوّر کیا ہے۔ اس لیے ’پراکرتی‘ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اسے شکتی کا روپ دیا ہے۔ شکتی یا ’نسوانی اصول‘ کائناتی قوّت کا نیا جنم ہے۔ ابدی سچّائی کے ’رس‘ یا خوشبو کی علامت ہے ۔ پُرش اس میں جذب ہو جاتا ہے۔ پھر ’شکتی‘ زندگی کے تمام مظاہر کا حسین ترین معنی خیز استعارہ بن جاتی ہے ۔ تخلیق اور تخریب دونوں اس کی بنیادی خصوصیات بن جاتی ہیں۔ ’شکتی‘ ایک معنی خیر، انتہائی تہہ دار، پہلو دار حِسّی اور نازک استعارہ ہے کہ جو حسین بھی ہے اور خوفناک بھی۔ زندگی کا چکر اسی سے قائم ہے۔ وہ ایک ہے اور اسی میں سب ہیں۔

’رس‘ اور ’آنند‘ دونوں کا رشتہ اس بنیادی حِسّی اور جمالیاتی تصوّر سے قائم ہے!

٭٭

 

 

 

 

 

 

ہندوستانی اساطیر اور ما بعد الطبعیات اور ۔ ہندوستان جمالیات میں ’رس‘ (RASA) کی اصطلاح کی معنویت پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا تعلّق ’سوم‘ (SOMA) سے بھی ہے جو انتہائی لذیذ ، خوشبو دار اور سیّال غذائے ’ربانی‘ ہے اسے نوش کر کے دیوتا حیات جاودانی پاتے ہیں۔ ابدی زندگی کا تصوّر کسی نہ کسی طرح اس سے وابستہ ہے ’رس‘ سے دیوتا اور اشیاء و عناصر لافانی اور زندۂ جاوید بن جاتے ہیں۔ ’رس‘ ہی تخلیق کو لافانی بناتا ہے۔ تخلیقی آرٹ کو ابدیت بخشتا ہے۔

برہماؔ، وشنوؔ اور مہشورؔ کے پیکروں سے جذباتی رشتے کی وجہ سے ’رس‘ کی قدر کا احساس بڑھتا گیا ہے۔ رقص رسوں کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ شیوؔ کے ’آرچ ٹائپ‘ اور ’نٹ راج کے حسّی پیکر نے رسوں کا احساس و عرفان عطا کیا ہے۔

شیوؔ کے تحرک کا انحصار ’شکتیؔ کے عمل اور تحرّک پر ہے۔ اس لیے شیوؔ کے ساتھ شکتیؔ (عورت) کے ’’آرچ ٹائپ‘‘ نے حواس خمسہ کو بیدار اور متحرک کرنے اور ’رس‘ کی معنویت کو تہہ دار بنانے میں مدد کی ہے۔

’رس‘ جلال و جمال اور ان کی وحدت کا احساس و شعور ہے۔ جلال و جمال، اُن کے مظاہر اور اُن کی وحدت کا نام! حسن کی وحدت کے دائرے میں حرکتِ کائنات اور مظاہرِ کائنات، وجود کا جلال، رُوح کا آزاد عمل دل کی مرکزیت اور حِسّی اور داخلی احساسات سب شامل ہیں۔

’رس‘ کے لغوی معنی ہیں:

مٹھاس، شیرینی، خوشبو، لذّت

لذّت کو شیریں بھی کہا گیا ہے اور ترش اور نمکین بھی۔

شہد اور شیریں اور ترش پھلوں اور پھولوں کے ’رس‘ کی لذّت کا احساس اس اصطلاح میں جذب ہے۔

’’ناٹیہ شاستر‘‘ میں ڈراما کی اعلیٰ قدروں پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھرت نے رس کی معنویت کو اپنے طور پر سمجھایا۔ اس میں ’رس‘ کوئی فلسفیانہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ جمالیاتی تجربوں کے باطنی حسن کا علامیّہ ہے جس سے خارج اور باطن کی وحدت کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔

رس ، حسن کا جوہر ہے، اس کی روح ہے، کائنات کے حسن و جمال کا رس ہی ہمیں متاثر کرتا ہے۔ اور ذہنی یا جذباتی تخیّلی اور حسّی سطحوں پر جمالیاتی مسرت اور آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ فنکار اپنے بہتر جمالیاتی تجربوں میں ڈوبتا ہے تو دراصل وہ ان تجربوں سے ’رس‘ حاصل کرتا ہے، رس کا احساس ہی تخلیقات میں رس پیدا کرتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ رسوں کے تئیں ایسی بیداری پیدا کر دیتا ہے کہ فن سے لطف اندوز ہونے والے اپنے احساس و جمال کے ساتھ ان ’رسوں‘ کو خود اپنی ذات میں پانے لگتے ہیں اور جمالیاتی انبساط حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح جمالیاتی انبساط کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے اور قاری یا سامع اس جمالیاتی چکر سے وابستہ ہو جاتے ہیں جو ابدی ہے اور تمام ’رسوں کا سر چشمہ ہے۔

اس طرح ’رس‘ ہمہ گیر جمالیاتی قدر ہے جو جمالیاتی شعور میں کشادگی پیدا کرتا ہے جمالیاتی آسودگی اور مسرّت عطا کرتا ہے۔ حاضرین یا ناظرین کے باطن کے رسول کو بیدار کرتا ہے۔ یہ جمالیاتی تجربہ بھی ہے اور تخلیقی آرٹ کی ارفع ترین صورت بھی۔ اعلیٰ تخلیقی آرٹ کی علامت بھی ہے اور اس کا عطر بھی۔

’رس‘ ہندوستانی جمالیات کی ایک معنی خیز اصطلاح ہے جس پر ہندوستان کے ااچریوں اور نقّادوں نے بڑی سنجیدگی سے غور کیا ہے۔ بلا شبہہ اس اصطلاح کی ہمہ گیر معنویت کی وجہ سے رُومانیت ’سکس‘ ٹریجڈی‘ کامیڈی‘ طنز‘ مزاج اور ’ایپک‘ وغیرہ کی تخلیقی سطح کی ارفع اور ارفع ترین صورتوں کا احساس ملا ہے۔

’رسوں‘ کی تعداد کیا ہے؟

کیا’رس‘ کو تعداد سے پہچانیں؟

’رس کی پہچان کس طرح ہو؟

کون سے ’رس‘ زیادہ اہم ہیں اور کیوں؟

بنیادی ’رس‘ کسے سمجھا جائے؟

کیا ’نورس‘ کے علاوہ دوسرے رس بھی اہمیت رکھتے ہیں؟

’رس‘ اور ’آنند‘ کا رشتہ کیا ہے؟

’رس‘ اور جمالیاتی آسُودگی اور جمالیاتی انبساط کا رشتہ کیا ہے؟

یہ سوالات اور اس قسم کے دوسرے سوالات ہندوستانی اچاریوں اور قدیم نقّادوں کے سامنے رہے ہیں۔ بھرتؔ، بھٹ لوللتاؔ، ابھینو گپت، بھبھوتیؔ، بھوجؔ اور ماہم بھٹ وغیرہ نے ان سوالوں پر کسی نہ کسی طرح غور کیا ہے۔ان کے خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ رَس‘ اور ’آنند‘ یا تخلیقی آرٹ سے جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط حاصل کرنے کا معاملہ ملک کے علمائے جمالیات کے لیے اہم مسئلہ رہا ہے۔ ان اچاریوں کے اُبھارے ہوئے بعض نکات آج بھی غور و فکر کی دعوت دے رہے ہیں۔ جدید نفسیات کی روشنی میں ان کے خیالات کا مطالعہ اور دلچسپ اور فکر انگیز بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ جذبۂ احساس، جبلّت، رویّہ اور رُجحان ۔ یہ سب علم نفسیات کی وجہ سے حد درجہ معنی خیز بن گئے ہیں اور ان بزرگوں نے بڑی گہرائیوں میں اُتر کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

’رسوں‘ کا تعلّق ذہن سے ہے۔ قدیم اچاریوں نے جن نو رسوں کے متعلّق خیالات کا اظہار کیا ہے وہ انسان کی نفسیات کی واضح لیکن معنی خیز لہریں ہیں۔

ان بزرگوں کے خیالات کی روشنی میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جب تک انسان اپنے شعور سے اوپر نہیں اُٹھ جاتا۔ تخلیقی آرٹ سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا اور جمالیاتی آسودگی یا جمالیاتی مسرّت حاصل نہیں کرسکتا۔ خوبصورتی اور بد صورتی کا عام احساس اور تصوّر تو صرف شعور کا کرشمہ ہے۔ جغرافیائی حالات، معاشرتی اقدار، تمدّنی ماحول اور مقامی خیالات اور تصوّرات ہی حسن کی ایسی تقسیم کرتے ہیں۔ انسان کا ذہن اور اس کا شعور حالات سے متاثر ہو کر خوبصورت اور بد صورت عناصر کو اپنے طور پر پہچانتا ہے۔ شعور سے بلند ہو کر جب ’رس‘ پاتا ہے تو یہ تقسیم باقی نہیں رہتی اور تاریکی کا حسن ، دُکھ اور اذیت کی لذّت، سیاہ فام چہرے،موٹے ہونٹ، عورتوں کے چھوٹے چھوٹے پاؤں کا نظارہ ، آسمان پر ٹوٹے ہوئے بادلوں کی بے ترتیبی کا انداز۔۔ یہ سب اپنی جانب کھینچنے لگتے ہیں۔ رس پانے اور جمالیاتی آسودگی اور مسرّت حاصل کرنے کا انحصار انسان کے مختلف رویّوں پر ہے۔ جذبۂ احساس اور جبلّت ہی سے کوئی رویّہ پیدا ہوتا ہے۔ نفسیاتی کیفیتوں اور رویّوں کی وجہ سے شعور سے اوپر اُٹھ جانے کا احساس بھی جنم لیتا ہے اچھا قاری یا سامع تو وہ ہے جو اپنے احساسِ جلال و جمال کے ساتھ اپنے ارفع و افضل رویّے کے ساتھ اوپر اُٹھے اور تخلیق کے ’رس‘ سے باطنی رشتہ قائم کر لے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

ہندوستان کے پُرانے نقّادوں اور اچاریوں کے سامنے ڈرامے کا فن تھا اور وہ اسی فن کے پیشِ نظر رسوں کے متعلّق اظہارِ خیال کر رہے تھے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ ڈراموں کا سر چشمہ ’ رقص‘ تھا اور دراصل رقص کے فن نے رسوں کے تئیں زیادہ بیداری پیدا کی تھی۔ بھرت نے مختلف انداز کے رقص اور اُن کے تیوروں اور مدراؤں پر نظر رکھی تھی اور یہ کہا تھا کہ مختلف قسم کے رسوں کو پانے کے یہ عمدہ ذرائع ہیں۔ حقیقی رس کے لیے ضروری ہے کہ آرٹ کم سے کم وقت میں اپنے تجربے پیش کر دے۔ طوالت سے حقیقی رس کو پانا مشکل ہے۔ تخلیقی آرٹ کے پیشِ نظر یہ قدیم خیال بھی توجّہ طلب ہے کہ فطرت کے حسن و جمال میں رس نہیں ہوتا۔ فنکار کا ذہن ہی خارج اور باطن میں رشتہ قائم کر کے’رس‘ عطا کرتا ہے۔ اِس رشتے میں رس ہوتا ہے۔ فطرت کے حسن و جمال کی تکمیل اس رشتے سے ہوتی ہے اور ’رس‘ اِس تکمیل کا ثبوت ہے۔

ہندوستانی جمالیات کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ذہن اور فطرت کے حسن و جمال کے رشتوں کی وحدت کے احساس نے ’رس‘ کا جمالیاتی تصوّر دیا ہے۔ اس رشتے کی شیرینی، خوشبو اور لذّت سے تخلیقی آرٹ میں جمالیاتی احساس کا فنکارانہ اظہار ہوتا ہے اور جذباتی ، تخیّلی اور آفاقی علامتیں ہوتی ہیں۔

بھرت نے آٹھ رسوں کو زیادہ اہم تصوّر کیا تھا۔ کاویہ پرکاش کے مصنّف ممٹ نے صرف ’’سنگھارس‘‘ کو منفرد سمجھا ہے۔ وشنوؔ ناتھ ، ساہتھ درپن‘‘ میں دس رسوں کا ذکر کرتے ہیں۔ بھوج کے متعلّق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ’شرنگار ‘ ہی کو مرکزی رس تصوّر کیا تھا۔ بھبھوتیؔ نے کرون رس کو منفرد مرکزی رس کہا تھا۔ دھنؔ جیا نے صرف چار بنیادی ’رسوں‘ کی اہمیت بتائی تھی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسوں کے متعلّق سوچنے کا انداز کیا ہے۔

ذہن کی بنیادی کیفیتوں کو سیتھی بھو (STHAYI BHAVA) کہا گیا ہے ۔ جمالیاتی تجربوں اور جذبات کی مختلف لہروں اور صورتوں کاسر چشمہ یہی ہے۔ انہیں اس طرح پیش کرنا مناسب ہو گا:

٭        رتی       (RATI)                         ’سکس ‘ ’عشق‘!

٭        ہاسیہ      (HASA)                        مزاح، ہنسی، قہقہہ!

٭        شوک    (SHOKA)                      اذیت کے لمحوں میں درد ناک چیخ

ذات کی تنہائی کا شدید احساس

٭        کرودھ   (KRODH)                     غصّہ ٹکراؤ جھگڑا، تصادم!

٭        اُت ساہ   (UTSAHA)                  دعویٰ، وثوق سے کہنا۔ذات کی تنظیم!

٭        بھئے       (BHAYA)                     خوف، ڈر، خطرے سے فرار!

٭        جوگپس  (JUGUPSA)                 نفرت، نا پسندیدگی!

٭        وس مایا  (VISMAYA)                  تجسُّس!

انہیں عموماً ’رسوں‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

حالانکہ یہ ’رس‘ نہیں ہیں بلکہ ’رس‘ ان کی اعلیٰ ترین تخلیقی صورتیں عطا کرتے ہیں۔ یہ ذہن کی آٹھ واضح جہتیں ہیں جو بنیادی مرکز سے جنم لیتی ہیں۔

ذہن کی بنیادی کیفیتیں، جو تمام جذبوں کا مرکز ہیں اور جنہیں سیتھی بھو‘‘ کہا گیا ہے۔ تین خصوصیتوں کی حامل ہیں:

یہ مستقل ہیں۔

دوسرے ہیجانات سے زیادہ طاقتور ہیں۔

جب ان کا عرفان حاصل ہوتا ہے تو ایک یا ایک سے زیادہ ’رسوں‘ سے جمالیاتی آسودگی ملتی ہے اور جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔

تخلیقی فنکار میں ’’سیتھی بھو‘‘ کا ہر متحرک تیز تر ہوتا ہے اس لیے کہ اس کی حساس طبیعت ماحول سے بہت جلد اور انتہائی شدّت سے متاثر ہوتی ہے۔ ’’سیتھی بھو‘‘ کا رشتہ انسان کی بنیادی جبلّتوں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی آرٹ میں ’’سیتھی بھاؤ‘‘ جبلّی تحرک کو نمایاں کرتا رہتا ہے۔

فنکار کی جبلّتیں وہی ہیں جو سامع یا قاری کی جبلّتیں ہیں۔ لہٰذا جب جبلّتوں کے گہرے باطنی رشتوں کے ساتھ یہ بھاؤ اُبھرتے ہیں اور ان کی صورتیں خلق ہوتی ہیں تو سامع یا قاری بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب فنکار کے بھاؤ اور سامع یا قاری کی جبلّتوں سے خلق شدہ صورتیں رشتہ قائم کر لیتی ہیں تو رس حاصل ہوتا ہے ۔ دراصل اسی شئے میں رس ہے اور یہ رشتہ ہی ’رسوں‘ کا وسیلہ ہے۔

جبلّتوں کی شدّت سے ’’سیتھی بھوؤں‘‘ کو ابھارتے ہوئے اور علامتوں ،استعاروں اور صورتوں کو خلق کرتے ہوئے پورے پُر اسرار تخلیقی عمل میں خود فنکار ’’رسوں‘‘ سے آشنا ہوتا ہے۔ جمالیاتی مسرّت حاصل کرتا ہے۔ احساس، جذبہ اور رویّہ ، یہ تینوں ’’رس‘‘ سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ ان کے تحرک اور عمل ہی سے ’رس‘ پیدا ہوتا ہے اور سامع یا قاری کے احساس، جذبہ اور رویے سے پر اسرار جمالیاتی رشتہ قائم کر کے ان تک پہنچتا ہے۔

’’سیتھی بھو‘‘ کا جبلّتوں سے جتنا بھی گہرا رشتہ ہو۔ انہیں جبلّتوں سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ جبلّتوں کے دباؤ سے جو ’بھو‘ اُبھرتے ہیں وہی جمالیاتی صورتوں اور جمالیاتی فضاؤں کی تخلیق کے محرک ہوتے ہیں۔

’رسوں‘ سے جمالیاتی لذّت پانے اور جمالیاتی انبساط حاصل کرنے میں ’سیتھی بھو‘ ہی کا معیار اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا گہرا رشتہ لاشعور اور اجتماعی یا نسلی لاشعور سے ہے۔ قدیم ترین تجربات اور قدیم استعارات اور علامات اور ’’آرچ ٹائپس‘‘ ان بھوؤں، کی تشکیل میں حصّہ لیتے ہیں۔ اسی طرح جس طرح ماحول اور معاشرے کی قدریں حصّہ لیتی ہیں۔

’سیتھی بھو‘ کے اعلیٰ معیار کو پانے کے لیے فنکار پہلے’ شئے‘ یا ’’حقیقت‘‘ موضوع، یا تجربے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ جب یہ شئے یا حقیقت یا موضوع یا تجربہ اور جذبے سے رشتہ قائم کر لیتا ہے تو تخلیقی عمل شروع ہو جاتا ہے اور یہ بھاؤ اُبھرنے لگتا ہے اور فنکار اپنے ذہن میں ایک طلسمی کائنات خلق کر لیتا ہے اور اپنے خلق شدہ تجربوں سے ’رس‘ پانے لگتا ہے، جب ان تجربوں کی جمالیاتی صورتیں خلق ہو جاتی ہیں تو ان سے فنکار اور سامع اور قاری کو جمالیاتی انبساط ہوتا ہے۔ یہ انبساط اعلیٰ جمالیاتی تجربوں کے ’رس‘ ہی سے ملتا ہے۔

’رس‘ کے پیش نظر دیکھنا یہ چاہیے کہ فنکار نے کس سطح پر حقیقت یا موضوع کو دیکھا ہے۔ اسے ذہن کی کس سطح پر قبول کیا ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ حقیقت یا موضوع کے احساس و ادراک کا معاملہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ موضوع یا حقیقت کا شعور کس طرح حاصل ہوا ہے۔

اس حقیقت پر بھی نظر ضروری ہے کہ بہت سی حقیقتوں یا بہت سے تجربوں میں ’’انتخاب‘‘ کی صورت کیا رہی ہے۔ جس ’بھاؤ‘ کو اس نے شدّت سے اُبھارا ہے وہ کِس حد تک موضوع کے تقاضے کے مطابق ہے۔

اچاریوں نے بیالیس بھو بتائے ہیں جن سے ’رس‘ حاصل ہوسکتا ہے۔ ان تمام بھوؤں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

’سیتھی بھو‘

اور

’سنچاری بھو‘

’سنچاری بھو‘ اُن جذبوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ’’سیتھی بھو‘‘ کو اُبھارنے اور انہیں جمالیاتی سطحوں سے آشنا کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن تخلیق کے پر اسرار عمل میں علیٰحدہ ہو جاتے ہیں۔ ’سیتھی بھو‘ کی طرح صورتوں کی تخلیق میں حصّہ نہیں لیتے۔ کسی سیتھی بھوکا تیز عمل شروع ہو جاتا ہے تو ’سنچاری بھاؤ‘ کمزور ہو جاتے ہیں، اور شعور کے سمندر میں واپس آ جاتے ہیں۔ آنند وردھن نے کہا ہے کہ تخلیقی فنکاروں کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ’سنچاری بھو‘ ’سیتھی بھو‘ کے مقابلے میں کمتر درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اُسے زیادہ سے زیادہ اُبھارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب کوئی شاعر یا اداکار ’سنچاری بھو‘ کو ’سیتھی بھو سے زیادہ اُبھارتا ہے تو فنّی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ فنکار خود’رس‘ نہیں پاتا اور دوسروں کو بھی ’رس‘ عطا نہیں کر پاتا۔ تجربہ بہتر تخلیقی صورتوں میں متاثر نہیں کرتے۔

’سنچاری بھو‘ کے متعلّق یہ عام رائے ہے کہ بنیادی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں اور رویّوں کو اُبھارنے میں اس سے جتنی بھی مدد ملے اس کی حیثیت ’سیتھی کے مقابلے میں ثانوی ہے۔ ’سنچاری بھو‘ کِسی ذہنی یا جذباتی رویّے کے ابتدائی اُبھار میں شامل نہیں رہتا اور آخری منزل تک بھی نہیں جاتا۔ یہ بھو بنیادی جذباتی رویّے کی تشکیل میں اُس وقت مددگار ہوتا ہے جب وہ رویّہ درمیانی سطح پر ہوتا ہے، اس کے برعکس ’سیتھی بھو‘ ابتداء سے آخر تک موجود ہوتا ہے اور ’رس‘ اور ’آنند‘ دونوں اسی کے نتائج ہوتے ہیں۔

اِس سلسلے میں ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ ’سنچاری بھو‘ مستقل نہیں ہوتا۔ بدلتا رہتا ہے۔ ’سیتھی بھو‘ نقطۂ عروج پر آ کر مستقل اور پائدار رویّے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ’سنچاری بھو‘ کی مسلسل تبدیلی مددگار تو ہوتی ہے لیکن ’سیتھی بھو‘ کا ساتھ آخری منزل تک نہیں دے سکتی۔ جمالیاتی صورتوں کی تشکیل سے بہت پہلے بڑا تخلیقی فنکار سنچاری بھوؤں سے الگ ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کے اچاریوں نے کم و بیش تینتیس سنچاری بھوؤں کی نشان دہی کی ہے۔

علامتوں کی تخلیقی صورتیں’رس‘ عطا کرتی ہیں۔ رقص، موسیقی، فن تعمیر، مصوّری اور مجسّمہ سازی کی علامتوں نے ہمیشہ رس عطا کیا ہے۔ فنکار علامتوں کی تخلیق میں بھی ’رس‘ حاصل کرتا ہے اور تخلیق کے بعد ان کی صورتوں سے بھی ’رس‘ پاتا ہے۔ یہ علامتیں جب دوسروں تک پہنچتی ہیں تو جبلّتوں میں تحرّک پیدا ہوتا ہے۔ مختلف قسم کے بھو اُبھرتے ہیں۔ بھو اور بھوکا رشتہ جذباتی آہنگ کا رشتہ بن جاتا ہے اور اسی رشتے سے سامعین، ناظرین، یا قارئین جمالیاتی انبساط پاتے ہیں۔ فنّی اقدار اور جمالیاتی کیفیتوں کا ’رس‘ ہی جمالیاتی مسرّت یا ’آنند‘ دیتا ہے۔

٭٭

 

 

 

تین اور اصطلاحیں استعمال ہوتی رہی ہیں:

٭        بھو (BHAVA)

٭        وِبھو (VIBHAVA)

اور

٭        انوبھو (ANUBHAVA)

بھو (BHAVA) سے مراد تمام ذہنی کیفیات ہیں، ان کی تعداد چالیس سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ اس کے تحرک سے کسی تجربے تک پہنچ ہوتی ہے۔ ابتدائی طلسمی کیفیت اور جمالیاتی التباس تک فنکار کی کوئی نہ کوئی ذہنی کیفیت ہی لے جاتی ہے۔ جو شئے طلسم یا التباس میں ہوتی ہے اُس کے لیے فنکار میں بھاؤنا (BHAVANA) پیدا ہوتا ہے اور یہ بھو (BHAVA) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بھاؤنا کے ساتھ بہت حد تک ایک یا ایک سے زیادہ ذہنی کیفیتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے اثرات کو ’واسن‘ (VASANA) کہتے ہیں۔

’وِبھَو‘ (VIBHAVA) فنکار کے لیے جذباتی فضا بناتا ہے۔ بہت سی کیفیات میں خالق چند کیفیتوں کو منتخب کرتا ہے اور انتخاب درست ہو تو تخلیق کے لیے جذباتی فضا بن جاتی ہے۔ ’وی بھو‘ ہی سے فنکار اساطیری، رومانی یا اعلیٰ سطح پر معاشرتی اور ثقافتی فضا کی تخلیق کرتا ہے۔ جذباتی کیفیتوں اور خارجی تجربوں کی آمیزش میں فنکار کا ’وِبھو ہی مدد کرتا ہے۔ فن میں تحرک اور ڈرامائی خصوصیات کو پیدا کرنے میں جذباتی کیفیتوں کی یہی سطح مدد گار ہوتی ہے۔

اس کے دو واضح پہلو ہیں:

ایک پہلو اس ’حقیقت‘ یا سچائی کو جذبوں کا رنگ دیتا ہے جو ’موضوع‘ بنتی ہے، اسے ’آلم بان‘ (ALAMBANA) کہتے ہیں۔

اور

دوسرا پہلو اُس ماحول یا فضا کو جذبوں کا رنگ دیتا ہے جو اُس حقیقت یا سچّائی کی پیش کش کے لیے ضروری ہے۔ اسے ’اودی پان‘ (UDDIPANA) کہتے ہیں۔

انو بھو (ANUBHAVA) وہ ذہنی کیفیات ہیں جن سے عام حقیقت یا سچّائی کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے۔ خارجی تجربے کی صورت جذباتی رنگوں کی آمیزش سے تبدیل ہو جاتی ہے، بدل جاتی ہے۔

’سیتھی بھو‘ ’سنچاری‘ ’بھو‘ ’وِبھو‘ اور ’انو بھو‘ ۔ سب ذہنی کیفیتوں کی مختلف منزلیں ہیں۔ تخلیقی کے عمل میں فنکار ان منزلوں سے گزرتا ہے۔ اعلیٰ اور بہتر ادبی اور فنّی تنقید ان منزلوں کی نزاکتوں کے گہرے احساس کے ساتھ ہی کسی فنّی تخلیق کے حُسن کو دریافت کرسکتی ہے۔

بعض قدیم اور اکثر جدید نقّاد اس سلسلے میں متضاد رائے پیش کرتے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ’بھو‘ کو ’رس‘ سے تعبیر کیا۔ کچھ ایسے ہیں جو ’سنچاری‘ یا ’سیتھی بھو‘ کو ’رس‘ کہتے ہیں۔ حقیقت برعکس ہے۔ یہ ’رس‘ (RASA) نہیں ہیں، بلکہ ذہنی اور جذباتی کیفیتیں ہیں جو تخلیق کے لیے راغب کرتی ہیں ۔ فنکار کو اُس منزل پر لے جاتی ہیں جہاں فنکار خود، رس، پاتا ہے اور تخلیقِ عمل کے بعد اپنی تخلیق سے دوسروں کو ’رس‘ عطا کرتا ہے۔ بعض نقّادوں نے انہیں فلسفے سے قریب کر دیا ہے اور جانے کتنی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ’رس‘ (RASA) کو ’بھوؤں‘ سے اوپر لے جا کر اسے جمالیاتی اصطلاح کی صورت بہت کم لوگوں نے دیکھا اور اس کا تجزیہ کیا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

’رس‘ (RASA) کو اس طرح سمجھنا بہتر ہے کہ یہ جلال و جمال کے عرفان کا جوہر ہے۔ جمالیاتی تجربوں کی فنّی ترسیل کی خوشبو ہے اور جمالیاتی انبساط یا ’آنند‘ کا جادو ہے۔ اس کی بنیاد ذہنی اور جذباتی کیفیتیں ہیں جو سچّائیوں اور حقیقتوں سے طلسمی پُر اسرار رشتہ قائم کرتی ہیں اور ماحول اور معاشرے کے تئیں بیدار کرتی ہیں۔

’رسوں‘ کو نام دینا مناسب نہیں ہے!!

’رس‘ کی معنویت فن اور اُس کی جہتوں کے ساتھ پھیلتی ہے۔ تہہ دار اور گہری بنتی رہتی ہے۔ اس کی ہمہ گیری اور ایمائیت کا اندازہ کرنا مشکل اور دُشوار ہے جنہیں ہم اب تک ’’نو رس‘‘ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں وِبھو (VIBHAVA) سے تعبیر کرنا چاہیے۔ نو وِبھو جو ’رسوں‘ کی تخلیق کے ذمّہ دار ہیں یہ ہیں:

٭        شرینگار وِبھو

رقص، موسیقی، سریلی آوازیں، چاند، عشق، سکس،

آرائش و زیبائش

اس وبھو کے متعلّق کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد سکس ہے۔ یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت جہاں رومانی اور جنسی موضوعات کی جانب اکساتی ہے وہاں موضوعات کے تعلّق سے اسی نوعیت کی فضا آفرینی میں بھی مدد گار ہوتی ہے۔

ساہتھؔ درپن کے مصنّف وشوناتھؔ کا خیال ہے کہ یہ جذباتی یا ذہنی کیفیت خود سکس یا جنس کی مکمل فضا ہے۔

کاویہؔ پرکاش کے مصنّف ممٹ نے صرف اسی کو منفرد جانا ہے اور اسے ’رس‘ سے تعبیر کیا ہے۔

بھوجؔ نے بہت پہلے اسے بنیادی ’رس‘ کہا تھا۔

عاشق اور محبوب کی گفتگو اور اس گفتگو کے ماحول میں اس کیفیت کی پہچان زیادہ آسانی سے ہوتی ہے۔ عشق و محبت کے جذبات کے دو پہلوؤں کی جانب بھی اس سلسلے میں اشارہ ملتا ہے۔

’شرینگار وِبھو‘ کی پہچان اُس وقت بھی ہوتی ہے جب مرد اور عورت جنسی عمل میں مصروف ہوتے ہیں۔ مباشرت کرتے ہوئے دونوں جانے کہاں گم ہو جاتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں ایک ہی وجود ہیں۔

اسے سم بھوگ (SAMBHOGA) کہتے ہیں۔

اور اس کی پہچان اس وقت بھی ہوتی ہے جب عاشق اور محبوب کسی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی یاد میں تڑپتے ہیں، اپنی خوبصورت یادوں میں کھو جاتے ہیں اور ساتھ ہی موجود سچّائیوں کا احساس ہوتا ہے۔ اسے ’’وی پر المبھ  (VIPRA) کہتے ہیں۔

’’شرینگار وِبھو ‘‘ میں غم و مسرّت دونوں کی کیفیتیں پیش ہوتی ہیں۔ فنکار کے تخلیقی شعور پر اس بات کا انحصار ہے کہ وہ مسرّت یا غم کی کیفیتوں سے خود کس سطح پر ’رس‘ پا رہا ہے۔ اپنی تخلیق میں اس ’رس‘ کے جوہر کو کس طرح شامل کر رہا ہے اور ترسیل میں رس کو کس طرح استعمال کر رہا ہے۔

یہ ’وبھو‘ جب شدّت سے متحرک ہوتا ہے تو پورا معاشرہ اس کے دائرے میں آ جاتا ہے، اس کی گرفت میں آ جاتا ہے۔

 

٭’’ہاسیہ وِبھو‘‘

(HASYA VIBHAVA)       دلچسپ اور مضحکہ خیز حرکتیں ، مضحکہ خیز آوازیں،لباس کی دلچسپ تراش خراش کے پیکر      اور ماحول کی مضحکہ خیز صورتیں، ہنسنے ہنسانے والی باتیں، مزاج وغیرہ۔

یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت ، مضحکہ خیز آوازوں، بولیوں، اداؤں حرکتوں اور لباسوں کی جانب لے جاتی ہے اور موضوع کے مطابق فضا کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ زندگی کے دکھ درد کو کم کرنے کی خواہش نے فنکاروں میں اس کیفیت کو اُبھارا ہے۔ اس ’وِی بھو‘ نے ہنسنے کے لمحے عطا کیے ہیں۔

اچھا فنکار اس ذہنی اور جذباتی کیفیت سے بھی اپنے تجربوں میں مختلف جہتیں پیدا کرتا ہے اور اعلیٰ سطح سے رس عطا کرتا ہے۔

مزاحیہ کرداروں اور مضحکہ خیز پیکروں کی تشکیل کے پیچھے یہ ’وِی بھو‘ موجود ہوتا ہے۔

المیہ کو مزاح کی صورت میں پیش کرنے کا اعلیٰ فن اِسی کے تحرّک کا کرشمہ ہے۔ اعلیٰ درجے کے کارٹون اِس’ وِبھو ‘ کے دباؤ کا نتیجہ ہیں۔

٭        ’کرنا ‘ وبھو                     المیہ، غم کا اظہار، ارتھی اور چِتا کے تجربے

(KARUNA VIBHAVA)                اور مناظر ماتم کدوں کی تصویریں وغیرہ۔

یہ ’وبھو‘ الم ناک تحرک کا محرّک ہے۔ فنکار المیہ کے حسن کو پالیتا ہے تو وہ رس عطا کرتا ہے۔ تخلیقی عمل میں یہ ’وبھو‘ ایک ایک سے زیادہ المناک تجربوں سے آشنا کرتا ہے اور ان کے لیے فضا آفرینی میں معاون و مددگار بنتا ہے۔

موضوع یا حقیقت کی المناکی کا بہتر احساس و شعور ہی شوک (SHOKA)  یا غم کی گہرائیوں کی طرف لے جاتا ہے ان کے تئیں بیدار کرتا ہے اور فنکار المیہ کے حسن کورس کی صورت میں پیش کرتا ہے۔

حسرت، آرزو، تردد، تشویش وغیرہ کی جانے کتنی لہروں سے یہ ’وِبھو‘ آشنا کرتا ہے۔

پیکروں کے ساتھ پورا معاشرہ اس کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ دوسرے کئی وبھو سے اس کا رشتہ فنکار کے تجربوں میں گہرائی پیدا کرنے کا ضامن ہے۔

٭        ردّر، بھو،

(ROUDRA VIBHAVA)                غصّہ ، دشمنوں سے انتقام یا دشمنوں کے حملوں کے مناظر ،

تلواروں اور تیروں سے حملوں کی تصویریں وغیرہ

یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت غصے کی لہروں کو پروان چڑھاتی ہے تاکہ فنکار ان سے پیکروں کی تشکیل کرے اور ان کے مطابق فن میں فضا آفرینی اور منظر کشی کرے۔

غصّے کی جڑیں انسان کی جبلّت کی گہرائیوں میں ہیں۔ تخلیق میں اس جذباتی اور ذہنی کیفیت کی بھی بڑی اہمیت ہے ڈراموں میں خصوصاً اِس ’وِبھو‘ نے حیرت انگیز اور یاد گار کرداروں کی تشکیل اور فضا نگاری میں مدد کی ہے۔ فنکار کی یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت متحرّک ہو جاتی ہے۔

ہونٹ چبانے، ہاتھوں کے بار بار پھیلانے، پاؤں پٹخنے، بھوؤں کو اوپر اٹھانے، تیوری چڑھانے، آنکھیں نکالنے، آنکھوں کو سرخ کرنے، چیخنے چلّانے، کانپنے اور مغرورانہ احساس کو اُجاگر کرنے میں اس نے بڑا نمایاں حصّہ لیا ہے۔

٭(VIRA VIBHAVA)                   ہیرو کا عمل، شجاعت، جوانمردی اور بہادری کے مناظر ،

دھرم ویر، دھن ویر، دیا ویر یودھ ویر وغیرہ کے پیکر۔

یہ ’وِبھو‘ انسان کی شجاعت ، بہادری اور عظمت کے تئیں بیدار کرتا ہے اور ایسے موضوعات کی جانب فنکار کو مائل کرتا رہتا ہے۔ ان کے لیے واقعات اور فضا کی تشکیل میں معاون و مددگار ہوتا ہے۔ خود داری کا احساس، منطقی دلائل، قوّتِ برداشت وغیرہ کا خاص احساس ملتا ہے۔

’دھرم ویر‘ دھن ویر، دیا ویر اور بُدھ ویر وغیرہ کی پیکر تراشی میں اس ’وِبھو‘ سے ہمیشہ مدد ملتی ہے۔

ذات کا احساس مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر عمل کی جذباتی سطح پر فنکار کی نظر اسی کیفیت کی وجہ سے رہتی ہے۔دوسری کیفیتوں کی لہریں بھی شامل رہتی ہیں جن سے کیفیت زیادہ با معنی بن جاتی ہے۔

٭’بھیانک وِبھو

(BHAYANAKA VIBHAVA)                      خوف اور تحیّر کے جذبات اور تاثرات کے نقوش اور حاشیے۔

یہ ’وِبھو‘ خوف اور حیرت کی جبلّت سے گہرا رشتہ رکھتا ہے۔ اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کی وجہ سے فنکار خوف اور حیرت کے جذبات کو شدّت سے ابھارتا ہے۔ ایسے تجربوں کو پسند کرتا ہے جن میں پُر اسرار کیفیتیں ہوتی ہیں ڈراؤنے مناظر اور پر اسرار پیکروں کی تشکیل میں یہ کیفیت مدد کرتی ہے۔ خوف اور اسرار کا تجربہ قارئین یا سامعین سے بہت جلد رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ ممکن ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ ایک یا ایک سے زیادہ مرکزوں پر ذہن جم کر رہ جاتا ہے۔

خوف اور اسرار کے تجربوں سے ’رس‘ (RASA) پانا اور ’رس‘ دینا دونوں بڑا مشکل کام ہے۔ یہ ’وِبھو‘ بڑا غیر معمولی ہے۔

٭ببھتس ’وبھو‘

(BIBHATSA VIBHAVA)             نفرتوں سے بھرپور مناظر، خون اور بدبو کے تاثرات وغیرہ۔

محبت اور نفرت کی کش مکش کے تئیں بیداری میں یہ ’بھو‘ نمایاں حصّہ لیتا ہے۔ یہ ذہنی اور جذباتی کیفیت اُس وقت متحرّک ہوتی ہے جب فنکار نفرت کے تجربوں کا انتخاب کرتا ہے۔ انتخاب کے بعد مناظر کی مناسب ترتیب میں بھی اس ’وِبھو‘ کا عمل دخل رہتا ہے۔ ایسے عناصر جو کسی شخص کو محبتوں سے محروم اور نفرتوں سے قریب کرنے میں فن کار کی توجّہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔

شکست، ناکامی، جذباتی تناؤ، احساس کمتری، الجھن، پریشانی ، اندیشہ اور وسوسہ۔ یہ سب ایسے جذبے کے اُبھار سے قریب رہتے ہیں۔ چہروں کے تاثرات سے بھی یہ ’وِبھو‘ بہت حد تک آشنا کرتا ہے۔

٭’’اَد بھُت و بھو‘‘

(ADBHUTA VIBHAVA)             حیرت انگیز مناظر اور حیرت انگیز تجربے وغیرہ۔

کچھ جاننے کی خواہش اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو اُبھارتی ہے۔ ایسے تجربے جو حیرت انگیز ہوتے ہیں۔فنکار کی نگاہوں میں بہت جلد کھپ جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وبھو، شدّت سے اُبھرتا ہے اور فنکار کے احساس و شعور کے لیے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

انجانے تجربوں کی جانب لے جانے کا محرّک بھی یہی ’وِبھو‘ ہے۔ پُر اسراریت اس کی رُوح بن جاتی ہے۔ حیرت انگیز واقعات و کردار اور مناظر کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو چھلک آتے ہیں۔ جسم میں ہلکی سی کپکپی آ جاتی ہے۔ ساتھ ہی مسرّت آمیز لہروں سے آشنا ہوتی ہے۔

فنکار اِس ذہنی کیفیت سے پیکر تراشی اور منظر کشی میں اعلیٰ سطحوں پر پہنچ جاتا ہے۔

٭’’شانت وِبھو‘‘

(SHANTA VIBHAVA)                 امن ،شانتی، سکون وغیرہ کے تاثرات اور خاکے

یہ بھی ایک خاص ذہنی اور جذباتی کیفیت ہے، ذات تمام تر توجّہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ تنہائی کا احساس بھی اسی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس وبھو نے اعلیٰ ترین مجسّموں کی تخلیق میں بڑی مدد کی ہے۔ فنکار کے رویے کو تمام عناصر سے علیٰحدہ کر کے صرف ’ذات‘ سے وابستہ کر دینے کی یہ کیفیت بڑی غیر معمولی ہے۔

فن مجسّمہ سازی کے علاوہ ڈراما اور شاعری نے بھی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کی اعلیٰ ترین سطح کو قبول کیا ہے۔

اس کے تحرک سے جو قیمتی ’فنی‘ تجربے سامنے آئے ہیں اُن سے منفرد رس حاصل ہوتا رہا ہے۔ شانت ’وِبھو‘ کا رشتہ کائنات کے جلال و جمال سے انتہائی گہرا اور با معنی ہے۔ ذات میں ساری کائنات کو کھینچ لینے کا فنکارانہ عمل اسی  کے تحرّک کا نتیجہ ہے۔

غور فرمائیے تو محسوس ہو گا کہ ’سیتھی بھو‘ کے تیز عمل سے ’وِبھو‘ متاثر ہوتا ہے اور اس کا تحرّک فضا آفرینی میں مدد کرتا ہے۔ خارجی حقائق سے جذباتی رشتہ قائم کرتا ہے۔ اور بہتر ڈرامائی خصوصیات کا شعور دیتا ہے۔

ان باتوں کے پیشِ نظر مندرجہ ذیل خاکہ تخلیق کے طلسم اور پُر اسرار تخلیقی عمل کو سمجھنے میں مدد کرسکتا ہے:

 

 

 

رس (RASA) کے تعلّق سے کئی سوچنے والوں کی نظر صرف سامع یا قاری پر رہی ہے، صرف اس بات پر رہی ہے کہ سامع یا قاری’رس‘ کِس طرح پاتے ہیں۔ اُن کی اپنی جذباتی اور ذہنی سطح کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ’رس‘ پانے قبل اُن کا عام رویّہ کیا ہوتا ہے اور ’رس‘ پانے کے بعد اُن کی جذباتی سطح کس طرح متاثر ہوتی ہے۔

یہ باتیں بھی بہت اہم ہیں، اس سلسلے میں بعض معنیٰ خیز خیالات بھی سامنے آئے ہیں لیکن ’رس‘ کے تعلّق سے صرف سامع یا قاری کی جذباتی یا ذہنی سطح توجّہ طلب نہیں ہے۔ رس کے معاملے میں تجربہ، فنکار، تخلیق اور اس تخلیق سے آنند پانے والوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔

وہ تجربہ، جو کسی تخلیق کا محرّک بنتا ہے اس میں بھی رس ہوتا ہے یا اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ رسوں کو فنکار پیدا کرے۔ اس تجربے کے رس کو محسوس جلوہ بنا دے۔

اسی طرح فنکار بھی پورے تخلیقی عمل میں اس تجربے کو تخلیقی صورت عطا کرتے ہوئے رس پاتا رہتا ہے۔ فضا آفرینی ، علامت سازی اور تمثیل، استعارہ اور ’امیج‘ یا پیکر تراشی میں فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں سے ’رس‘ پھیلتا ہے۔

جب تخلیق ہو جاتی ہے تو وہ تخلیق ایک یا ایک سے زیادہ رسوں کا چشمہ بن جاتی ہے۔

اور سامع یا قاری بھی جو اپنی بہتر اور اعلیٰ ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کے ساتھ تخلیق سے رشتہ قائم کرتے ہیں، رس پاتے ہیں اور اس سے انہیں جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ جمالیاتی انبساط یا آنند پانا اس بات پر دلیل ہے کہ اُن کی جذباتی سطح جو ’رس‘ کا غیر شعوری احساس رکھتی ہے۔ ’رس‘ پا کر خود اپنی تکمیل کا شعور حاصل کر چکی ہے۔

اشاروں، حرکتوں اور لفظوں سے ’رس‘ کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ ہیجانی کیفیات، خاموشی اور سکون مختلف رس عطا کرتے رہتے ہیں۔

تخلیقی فن کے ردِّ عمل سے اس بات کی پہچان ہو جاتی ہے کہ ’رس موجود ہے۔ قاری یا سامع کا بہتر ذوق ہی ’رس پا سکتا ہے۔ ردّ عمل بہتر ذوق ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔

جذبے کی خوشبو اور لذّت کو پانا رس کو پا لینا ہے۔

ایک وبھو کے ساتھ کوئی دوسرا وِبھو بھی شامل ہوتا ہے/ ہوسکتا ہے۔

لہٰذا کبھی کسی تخلیق میں دو مختلف وِبھو ، دو مختلف ’رس‘ بھی عطا کرسکتے ہیں کبھی دونوں ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک ’رس‘ دے سکتے ہیں۔

’رس‘ شخصیت اور تخلیق کا جوہر ہے، اُن کی خوشبو ہے، اُن کی لذّت اور اُن کا ذائقہ ہے۔ اُن کا جمالیاتی تاثر ہے جو مسرّت سرمدی عطا کرتا ہے۔

یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہندوستانی جمالیات میں اعلیٰ ترین اور افضل ترین تخلیقی اور فنّی تجربوں کی سطح ’نروان‘ کی سطح ہے۔ فنکار تخلیقی عمل میں برہماؔ یا شیوؔ بن جاتا ہے اور سامع یا قاری، جو ’رس‘ پاتے ہیں اس میں وہی ’آنند‘ ہوتا ہے جو برہماؔ یا شیوؔ یا نروان کی اعلیٰ سطح پر پہنچے ہوئے فن کار کا آنند ہوتا ہے۔ سامع یا قاری جو ’رس‘ پاتے ہیں اُس کے پیشِ نظر یہ بات غور طلب بن جاتی ہے کہ اس ’رس‘ کے ’آنند‘ کا تعلّق اُس کی ذات سے ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’آنند‘ آفاقی اور کائناتی ہے۔ سامع یا قاری فنکار کی اعلیٰ ترین تخلیق کے کائناتی آہنگ سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ جس ہمہ گیر جمالیاتی دائرے یا چکر کا تجربہ فنکار حاصل کرتا ہے انہیں اس میں صرف شامل نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی اس کا حصّہ بنا دیتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بھٹؔ نائک (BHATTANAYAK) (نویں صدی عیسوی) نے شاعری کے فن کے پیشِ نظر ’رس‘ کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ دوسرے فنون کے پیشِ نظر بھی اُن کے خیالات غور طلب ہیں۔

بھٹ نائک کے نظریے کو ’بھگتی واد‘ (BHAKTIVADA) سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ اُن کا یہ خیال توجّہ طلب ہے کہ ’رس‘ کسی جانے پہچانے عنصر یا حقیقت کا نام نہیں ہے۔ یہ وہ مسرّت آگیں سیّال کیفیت ہے جو پوری تخلیق میں جاری و ساری اور ساتھ ہی اُس آخری منزل کا روشن اور مسرّت آمیز تجربہ ہے جو ’پرام آتما‘ (PRAMATMA) سے رشتہ قائم کر دیتا ہے۔

بھٹ نائک پہلے ہندوستانی ناقد ہیں جنہوں نے جمالیاتی تاثریت (AESTHETIC EXPRESSIONISM)  کو سمجھایا ہے۔ ابھینو گپتؔ کے تصوّر ’’ویان جان واد‘‘ (VYANJANA (تاثریت کا تصوّر ) سے ان کا تصوّر بہت قریب نظر آتا ہے لیکن ’رس‘ کو جمالیاتی تاثریت کی ہمہ گیر کیفیتوں کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیاب کوشش ہے۔ اس تصوّر کے ساتھ فنّی اور ادبی تنقید کا معیار بلند ہو جاتا ہے۔ سانکھیہ ما بعد الطبیعات نے انہیں بے حد متاثر کیا تھا۔ لہٰذا پُرش، اور ’پراکرتی‘ کو ’حواسِ خمسہ کی سب سے بڑی نعمت تصوّر کرتے ہوئے انہوں نے ایک ہمہ گیر ’’جمالیاتی تاثریت ‘‘ کا تصوّر پیش کیا۔ اس تصوّر سے رس کی معنویت بھی پھیلی۔

بھٹ نائک کا خیال ہے کہ تخلیقی فنکار اپنے تجربے کو گہرا اور تہہ دار بناتا ہے۔ لہٰذا جانے کتنے تاثرات اُبھر آتے ہیں۔ فنّی تجربے کے جمالیاتی تاثراتی پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر تاثر ’رس‘ سے سرشار ہوتا ہے۔ ہر تاثراتی پہلو میں رس کی سیّال کیفیت ہوتی ہے۔ فنّی تجربے کے تحرّک سے قاری یا سامع کے تاثرات پھیلتے ہیں اور ایک یا ایک سے زیادہ تاثرات یا تاثراتی پہلوؤں سے ذہنی اور جذباتی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ’رس‘ یا ’رسوں‘ کی سیّال کیفیت قاری یا سامع کے تاثرات میں پھیلنے لگتی ہے۔ تاثرات اور تاثرات کے رشتے ہی سے فنکار کا تجربہ قاری یا سامع کا تجربہ بنتا ہے۔ تاثراتی لہروں کی وجہ سے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ فنکار کا بنیادی تجربہ کیا تھا اور اسے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ جمالیاتی تاثرات ہی اہم ہیں جو تجربوں کا رس عطا کرتے ہیں اور تجربوں کے ایک سے زیادہ آہنگ اور عرفان عطا کر کے ذہن و شعور کو تخلیق میں جذب کر دیتے ہیں۔ بھٹ ناٹک کے ’بھگتی واد‘ میں اس بھوکتو  (BHAVAKATVA)  کی بڑی اہمیت ہے۔

بھٹؔ نائک نے تمام ’بھاؤں‘ (BHAVAS) کو اہمیت دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ’ابھو‘ کے دو مفاہیم کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے:

(۱)جذباتی کیفیت کسی ’خیال‘ یا تجربے کا احساس دیتی ہے۔

اور

(۲) اس خیال یا تجربے کی صورت پذیری کے عمل میں اپنی شدّت اور تیزی کا اظہار کرتی ہے۔

’رس‘ وہ خوشبو ہے جو ’بھو‘ کے پورے عمل میں ہوتی ہے اور تخلیق کے بعد جمالیاتی علامت یا پیکر کی معطر روح بن جاتی ہے۔ ’بھو‘ (BHAVA) کے مفہوم کو سمجھاتے ہوئے بلا شبہہ انہیں ’بھو‘ ’وِبھو‘ ’انوبھو‘ ’سنچاری بھو‘ اور ’سیتھی بھو‘ سب کا بخوبی احساس تھا۔

بھٹ نائک نے ’رسوں‘ کے سلسلے میں دو اور اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔

(۱) ’ابی دھ‘ (ABHIDHA) سے مراد وہ علامتیں، استعارے اور جمالیاتی پیکر ہیں جو تخلیقی صورتوں میں جمالیاتی احساس کے ساتھ رسوں کی سیّال کیفیت لیے ہوئے قاری یا سامع کے قریب آتے ہیں۔

اور

(۲) ’بھو وکتو‘ (BHAVAKATVA) سے مراد وہ تصوّرات ہیں جو قارئین یا سامعین کے ذہن میں ان علامتوں، استعاروں اور جمالیاتی پیکروں سے بنتے ہیں۔

’تاثرات‘ ان دونوں میں ذہنی، جذباتی اور جمالیاتی رشتہ پیدا کرتے ہیں اور علامتوں، استعاروں اور جمالیاتی پیکروں کی جانے کتنی جہتیں تصوّرات کی صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ان تصوّرات کا محرّک ’ابی دھ‘ اور ’بھو وکتو‘ کے تاثرات اور ان تاثرات کے آہنگ ہیں۔ اس جمالیاتی آمیزش کے بعد سامع یا قاری کا ذہن ’’بھوج کتوا کی منزل پر آ جاتا ہے۔ سرور و انبساط حاصل کرنے اور ’رس‘ اور ’آنند‘ (مسرّت سرمدی) پانے کی یہ آخری جمالیاتی منزل ہے۔ وہ تخلیق کیا ہوئی کہ جس سے بصیرت حاصل نہ ہو اور جس سے انبساطِ کُلّی کا ابلاغ نہ ہوا!

٭٭

 

 

 

 

 

بھَٹ لولّٹ (BHATTA LOLLATA) (نویں صدی[1]) نے ’رس‘ کو بنیادی ذہنی اور جذباتی  کیفیتوں کی ’وحدت‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ وحدت جذباتی فضا کی فنکارانہ تنظیم اور تشکیل، حسّی نقّالی کے تخلیقی عمل اور تیزی سے گزرتے ہوئے برق پا تاثرات سے جنم لیتی ہے۔ وہ جذباتی اور ذہنی کیفیت جو ’رس سے سرشار ہو کر ’رس‘ دیتی ہے۔ اپنی نشاط انگیز خیال آفرینی سے پہچانی جاتی ہے اور اپنی فطرت میں ہیجانی ہوتی ہے۔

بھَٹ لولّٹ نے ڈراموں کی جمالیات کے پیشِ نظر ’رس‘ کو پہچاننے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کے بنیادی خیالات کو تمام فنون کے پیشِ نظر دیکھا جائے تو مایوسی نہیں ہوتی۔ اُن کے مندرجہ ذیل خیالات توجّہ طلب ہیں:

’رس‘ اُن حقیقی کرداروں میں ہوتا ہے جنہیں اداکار اسٹیج پر پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا جب وہ پیش ہوتے ہیں تو اُن شخصیتوں کا رس حاصل ہوتا ہے۔

ڈراما دیکھنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اسٹیج پر ادا کاری کرنے والے حقیقی کردار ہیں۔ یہ جذباتی رشتہ ’رس‘ دیتا رہتا ہے۔

ڈراما دیکھنے والوں کا شعور جب شخصیتوں اور اُن کے عمل اور ردِ عمل سے وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ انہیں اپنی ذہنی تصویروں کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں اور جب مطابقت کا احساس ہوتا ہے تو انہیں جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہیں۔ اس طرح رس اپنا کام کر جاتا ہے۔

کرداروں سے جب ذہنی اور جذباتی وابستگی پختہ ہو جاتی ہے تو رس ملتا ہے اور ایسا نہیں تو ڈراما دیکھنے والا صرف ’ سیتھی بھو ‘ (SATHAYI BHAVA)  ہی تک رہتا ہے!

کردار، جو اساطیری، تاریخی، نیم تاریخی یا جانے پہچانے محبوب رومانی کرداروں کو پیش کرتے ہیں ان کی شخصیتوں میں جذب ہو کر انہیں خود رس ملنے لگتا ہے اور وہ خود جمالیاتی انبساط حاصل کرتے ہیں۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

ابھینو گپتؔ  (ABHINAVA GUPTA)  (دسویں صدی عیسوی) ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاعر تھے ، ناقد تھے، ایک گہرا فلسفیانہ ذہن رکھتے تھے۔ ہندوستان کے رِشی مُنیوں کی اعلیٰ روایت سے روشنی حاصل کی تھی۔ کشمیر کے خوبصورت ماحول نے اُن کے ذوقِ فن کی آب یاری میں نمایاں حصّہ لیا تھا۔ بھرت کے ’ناٹیہ شاستر‘ کو اپنی تنقید و تبصرہ کا موضوع بنایا، اور بنیادی خیالات کی تشریحیں کیں ابھی نو بھارتی ،  (ABHINAVA BHARATI) ناٹیہ شاسترؔ کی پہلی عمدہ ترین شرح تصوّر کی جاتی ہے۔ ابھی نو بھارتی کی وجہ سے ابھینو گپتؔ کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔

کشمیری شوازم پر ان کا کارنامہ ’’تانتر لوک‘‘ (TANTRA LOKA)  ایک نا قابلِ فراموش تصنیف ہے۔ اُن کی درویشانہ فکر و نظر کی بہتر پہچان اُن کی نظم ’’پرا مارتھ سار‘‘ سے ہوتی ہے۔ انہوں نے سوم نند (SOMANANDA) کی معروف تصنیف ’’پراتیہ بھیجان‘‘ (PRATYA BHIJAN) کی شرح (ISVARAPRATYABHI) بھی لکھی، اس میں ایک فن کار ناقد کے ذہن کی پہچان ہوتی ہے۔ اسی طرح آنند وردھن (ANAND VANDHANA) کی مشہور تصنیف ’’دھونیا لوک‘‘ (DHAVANYA LOKA) کی تشریح ’’دھونیا لوک لوکانہ‘‘(DHAVANAYA LOKA LOCANA) کے نام سے لکھی۔ ہندوستانی جمالیات کے انگنت پہلو روشن کیے۔ اُن کی ناقدانہ بصیرت اس تشریح کے بعد ایک مثال اور نمونہ بن گئی۔ آنند دردھنؔ نے رسوں کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ابھینو گپتؔ نے اُن کی تشریحیں کیں۔ ساتھ ہی ’دھونی‘ (DHVANI) کے تصوّر کی وضاحت کی۔ ’آنند وردھنؔ‘ کے خیالات سے بے حد متاثر ہوئے۔ ’’رس‘‘ اور ’دھونی‘ کے تصوّرات کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنند وردھنؔ سے بے حد قریب ہیں۔ دھونی کی تشریح و وضاحت اتنی دل کش تھی کہ اُن کی تشریح آنند وردھن کے بنیادی خیالات و تصوّرات سے زیادہ مقبول بن گئی۔ ابھینو گپتؔ، بھگوتؔ گیتا سے بھی متاثر تھے۔ بھگوت پر اظہارِ خیال کیا ہے اور بلا شبہ اپنے بنیادی تصوّرات کے لیے اس سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ معروف ناقد اور اور شاعر اور ’’کاویہ پرکاش‘‘ کے مصنّف ممت اچاریہ (MAMMAT ACHARYA) ان کے محبوب شاگرد تھے جن کی کم و بیش ۴۲ تصانیف ہیں۔

ابھینو گپتؔ نے ’’وینجن واد‘‘ (VYANJANA VAD) کے تصوّر کو پیش کر کے ادبی اور فنّی تنقید کا معیار بہت بلند کر دیا۔ وہ ہندوستانی ادبی تنقید اور جمالیات میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عرض کرچکا ہوں کہ بھرتؔ کے رس کے تصوّر کے اوّلین تبصرہ نگاروں میں اُن کا نام پیش پیش ہے۔ تبصرہ و تشریح کرتے ہوئے انہوں نے بعض نئی جہتوں کی طرف اشارے کیے ہیں۔ بھٹ نائک سے کئی مقامات پر اختلاف کیا ہے۔ ’’ویان جان ورتی‘‘ (VYANJANA VRITTI) بھٹ نائک سے آگے جمالیاتی تجربوں اور کیفیتوں کا احساس عطا کرتی ہے۔

ابھینو گپت نے ویدانت کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اُن کی جمالیاتی فکر و نظر کی بنیاد بھی ویدانتؔ ہے۔ اسی کی وجہ سے اُن کی ادبی اور فنی تنقید میں جمالیات کا ایک بڑا ہمہ گیر نظام ملتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انسان کا دل مسرّت اور غم کے جذبوں سے بھرا ہوتا ہے۔ مسرّتوں اور غموں کا عمل اُس کے احساسات یا ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کو اُبھارتا رہتا ہے مسرّت اور غم کے جذبے مستقل ہیں۔ انہیں انہوں نے ’سیتھی بھو ‘ (STHAYI BHAVAS)  سے تعبیر کیا ہے۔

ابھینو گپتؔ کا خیال ہے کہ یہ جذبات موروثی اور لا شعوری ہیں، فطری ہیں اور اکثر ماحول اور معاشرے کے حالات سے بھی یہ جذبات اپنے عمل میں زیادہ شدّت کے ساتھ مصروف رہتے ہیں اور باطنی اور ذہنی طور پر ان کا ردِ عمل جاری رہتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار لا شعور کی کیفیات کی جانب اپنے خاص انداز سے اشارہ کیا ہے۔ ’وبھو‘  (VIBHAVA)  انو بھو (ANUBHAV) اور سنچاری(SANCHARI) یہ تینوں ذہنی اور جذباتی کیفیتیں فنکار کو متحرّک کرتی ہیں اور وہ اپنے ’سیتھی بھو‘ کو بڑی شدّت سے اُبھارتا ہے۔ شعری تجربے بنیادی جذبوں کو ’سیتھی بھو‘ کے تحرک کے ساتھ لفظوں اور علامتوں کو پیش کرتے ہیں۔ کاویہ (شاعری) اور ’ناٹیہ‘ اور ناٹک میں فنکار جن جملوں سے قارئین یا سامعین کے بنیادی جذبوں کو متحرّک کرتا ہے وہ جملے فنکار کے جذباتی کیفیتوں کے ساتھ رس عطا کرتے ہیں۔ جذبات سے سرشار الفاظ اور جملے ، سامعین و قارئین کو خود اُن کے اپنے جذبات کے تئیں بیدار کر دیتے ہیں۔ ’رس‘ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ذاتی جذبوں کے تئیں بیداری پیدا کر کے انہیں انفرادی یا ذاتی سطح سے بلند کر دیتا ہے اور تجربوں اور جذبوں کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔ ذہن جو انبساط پاتا ہے اُس کی وجہ یہی مخصوص ذہنی کیفیت ہے جو انفرادی سطح سے بلند ہو جاتی ہے۔ ’رس‘ فنکار کے اسی تخلیقی عمل میں ہے۔ دوسروں کے تجربوں کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں تو مسرّت حاصل ہوتی ہے اور یہ مسرت یا جمالیاتی آسودگی ’رس‘ کا نتیجہ ہے۔

’ابھینو گپتؔ نے کہا ہے کہ ’بھو‘ ’وِبھو‘ اور ’انو بھو‘ وغیرہ کا عمل عارضی ہوتا ہے۔ صرف ’سیتھی بھو‘ مستقل ہے۔ یہ ’بھو‘ فنکار کے باطن میں سویا ہوا ہوتا ہے اور تہذیبی ، معاشرتی یا تمدّنی حالات کے دباؤ سے جاگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ابھینو گپتؔ فنکار کے لا شعور کی جانب معنی خیز اشارہ کرتے ہیں۔ برہماؔ کی نیند اور جاگرتی دونوں نے اُن کے اس تحرّک میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔

ابھینو گپتؔ نے جمالیاتی تاثریت کا احساس شدّت سے دلایا ہے۔ بھٹ نائک خ   ؔ کی جمالیاتی تاثریت سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ’’ویان جان ورتی‘‘ یا فنکار کے جمالیاتی تجربوں کی خوبصورت تاثریت سے اپنے بنیادی جذبات کی تئیں ایسی جمالیاتی بیداری پیدا ہو جاتی ہے کہ جذبات ذاتی یا انفرادی سطح سے بلند ہو جاتے ہیں۔ قطرے سمندر میں مل جاتے ہیں اور ’رس‘ کی سیّال کیفیت تاثریت میں شامل ہو کر جمالیاتی مسّرت دیتی ہے تخلیقی آرٹ کا معاملہ فلسفے کا نہیں بلکہ جمالیات کا ہے اور ہمیں جمالیاتی تاثراتی رشتوں کو بنیادی رشتوں سے تعبیر کرنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ ’بھوؤں‘ ’رس‘ اور تاثریت اور جمالیاتی انبساط کے پیشِ نظر بھٹؔ نائک اور ابھینو گپتؔ دونوں کے خیالات توجّہ طلب ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے طور جمالیات کی اہمیت کو سمجھا ہے اور پُراسرار تخلیقی عمل اور ’رس‘ کی سیّال کیفیت پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ تخلیقی آرٹ کے تجربوں کو سمجھنے میں یقیناً دونوں کے خیالات سے یکساں مدد ملتی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہندوستان کے اچاریوں نے اس موضوع پر مختلف انداز سے سوچا ہے۔ مندرجہ ذیل نکات پر بھی نظر گئی ہے:

اسٹیج پر تاریخی، اساطیری، نیم تاریخی یا محبوب رومانی پیکر ’نقل‘ نہیں ہوتے۔ ہو بہو نقّالی سے تخلیق، تخلیق نہیں رہتی۔ لہٰذا سامعین یا قارئین کو ’رس‘ عطا کرنے کے لیے تخلیقی نقّالی پر غور کرنا چاہیے۔

تصویر کشی اور نقّالی کی جانب سے ذہن کو ہٹا کر حِسّی جمالیاتی نقّالی کی جانب لے جانا چاہئے اور یہ عمل ایسا ہو کہ جمالیاتی تاثرات پیدا ہوں، اس لیے کہ ان ہی سے ’رس‘ اور جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔

سامعین جانتے ہیں کہ ادا کار وہ حقیقی کردار نہیں ہیں جنہیں پیش کیا جا رہا ہے۔ اداکار اداکار ہے۔ لہٰذا اس نزاکت کے پیشِ نظر ڈراما نگار اور ادا کار دونوں کے لیے احتیاط ضروری ہے۔ فنکار کا بنیادی مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ حقیقی کرداروں کی شخصیتوں کے جلوؤں سے سامعین کے ذہنوں میں نئی تازگی پیدا ہو۔ اُن کے سوئے ہوئے خوابیدہ جذبے بیدار ہوں، فراموش واقعات لاشعور سے شعور میں آ جائیں۔ یہ عمل تو حسن سے باطنی رشتہ قائم ہونے کا عمل ہے۔

کرداروں کو چاہیے کہ وہ اسٹیج پر حقیقی کرداروں کی جمالیاتی شناخت کے تاثرات عطا کریں۔ اسی عمل میں ’رس‘ ہے جو سامعین تک پہنچتا ہے۔

حقیقی کرداروں سے ادا کاروں کا ذہنی رشتہ گہرے التباس میں قائم ہوتا ہے لہٰذا اُس لتباس کے جلوے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

رویّہ، احساس اور جذبہ، تینوں رس کے معاملے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ رویّہ ہی احساس اور جذبے کو ابھارتا ہے۔ لہٰذا فن کار کو سامعین یا ناظرین یا قارئین کے رویّہ کو بھی سمجھنا چاہیے۔

فنکار خود ایک بڑا خالق ہے۔ برہماؔ کی تخلیق میں مسرّتیں بھی ہیں اور اَلَم ’ناک تجربے بھی۔ ہمدردی کا جذبہ بھی ہے اور نفرت اور غصّے کی لہریں بھی ہیں۔ محبت اور نفرت کی کشمکش اور غریب اور امیر طبقے بھی ہیں۔ فنکار جو دنیا خلق کرتا ہے وہاں یہ سب باتیں تو ہیں، دیکھنا تو یہ ہے کہ وہ کس طرح انہیں جمالیاتی تجربوں کی صورتیں عطا کر دیتا ہے۔ اور پھر ان سے کس سطح پر جمالیاتی مسرّتیں دیتا ہے۔ ’رس‘ عطا کر کے حسن کی ہر صورت کا احساس دیتا ہے۔

ابھنوگپتؔ کے گُرو شری سنککؔ [2] نے ’رس‘ کو محض موہوم احساس سے تعبیر کیا تھا۔ ڈراما دیکھنے والا اپنے طور پر ’رس‘ کو سمجھ لیتا ہے، اسے ’حاصل‘ نہیں کرتا اور نہ اس سے لذّت لیتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ادا کار اپنے الفاظ اور آواز اور اپنے عمل ردِّ عمل سے ناظر کو متاثر کرتا ہے اور ناظر کا احساس کسی نہ کسی اہم جذبے یا خیال سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح ناظر اپنے احساس کے ساتھ ’رس‘ کو سمجھتا ہے۔ کسی نہ کسی حقیقت یا سچّائی کو پہچان لیتا ہے۔اس سے لذّت یا جمالیاتی انبساط حاصل نہیں کرتا۔ تخلیقی آرٹ سے ’’رس‘‘ پیدا نہیں ہوتا۔ فنکار کی حقیقت پسندی کا احساس ، ناظر کی حقیقت پسند ذہنیت سے رشتہ قائم کرے تو ایک سچّائی کا احساس ہوتا ہے۔ ’رس‘ کو سمجھ لینا اور اسے پانا اور لذّت حاصل کرنا، شریؔ سنکک کے نزدیک دو مختلف باتیں ہیں دوسری بات تو محض وہم ہے۔

شریؔسنکک، ’’نیائے درشن‘‘ کے کٹّر پیرو تھے۔ ’نیائے درشن‘ (AKSAPEDA SYSTEM) نے حقیقت کے سچّے علم اور صحیح اور درست فکر و نظر پر زور دیا ہے۔ منطقی فکر پر اصرار کیا ہے۔ ’نیائے وِدیا‘ (NYAYA VIDYA) اور ترک شاستر (TARKA SASTRA) وغیرہ استدلال و منطق کے علوم ہیں۔ تمہیں اس کا علم ہے کہ گو تم رشی کے ’نیائے ستر‘ (NAYAYA SUTRA) اور اس کے پانچ ادھیائے نے بہار اور بنگال میں ایک فکری انقلاب پیدا کر دیا۔ منطقی دلائل کے تعلّق سے جانے کتنے سوالات اُبھرے اور جانے کتنے اختلافات ہوتے رہے۔ قدیم ’نیائے درشن‘ (PRACINANYAY) کی بنیاد گو تم رشی کے خیالات پر قائم تھی کہ ’نیائے درشن‘ کا ایک نیا دبستان قائم ہو گیا۔ ’نیائے درشن‘ کو ہم چار حصّوں میں منقسم کرسکتے ہیں:

٭                    نظریۂ علم و دانش

٭                    نظریۂ مادّی نظامِ زندگی

٭                    نظریۂ ذات اور ذات کی آزادی

اور

٭                    نظریۂ خالقِ کائنات

لفظ آواز (شبد) اور جملوں کے متعلق بھی ’نیائے درشن‘ کا تصور مختلف ہے ظاہر ہے اس فلسفے کے مقلّد تخلیقی آرٹ اور اس کی جمالیات کے رموز کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شری سنککؔ نے ’رس کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ حقیقت پسندانہ نقّالی کا تصوّر ہی زیادہ توجّہ طلب بنتا ہے۔

’وشو ناتھ ؔ (VISHWANATH) نے ’رس‘ کے تعلّق سے کئی سوالات اُبھارنے اور اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال ہے کہ ’رس‘ ’ستوا‘ (SATVA) کی توسیع ہے جس میں دوسرے گُن بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنے طور پر مکمل ہے لہٰذا اسے مختلف جذبوں سے پہچاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ شمع سامنے ہوتی ہے تو ہم اس کی روشنی اور اس کی لو کو دیکھتے ہیں دوسری باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ رس بھی ایک شمع ہے۔ اس کی روشنی اپنی روشنی ہے۔ حیرت انگیز طور پر بیدار اور آزاد، ’سمادھی‘ میں برہم سواد (BRAHMSWAD) کی طرح ۔۔۔۔۔!

جگن ناتھؔ نے کہا ہے کہ ’سیتھی بھاؤ‘ (STHAYI BHAVA)  پر ایک تہہ جمی ہوتی ہے۔ تخلیقی فنکار، ’وِبھو‘ ’انو بھو‘ اور ’سنچاری بھو‘ اور ’سیتھی بھو‘ کے عمل سے اس تہہ کو ہٹاتا ہے اور اس کے بعد وہ جمالیاتی انبساط سے آشنا ہوتا ہے اور یہی جمالیاتی انبساط یا مسرّت سرمدی ’رس‘ ہے!

’آنند وردھن‘ نے ’دھونی (DHAVANI) کی اصطلاح سے ’رس‘ کی وضاحت کی ہے اور اُن کی تمام تر توجّہ ناظر کی جمالیاتی آسُودگی پر ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

آٹھ

 

آنند

 

 

 

 

 

 

 

ہندوستانی فنون لطیفہ میں انتہائی بلند ماورائی سطح پر مسرت اور لذّت حاصل کرنے کی آرزو نے ’’آنند‘‘ کے تصور کو جنم دیا ہے۔

اعلیٰ اور بہتر جمالیاتی تجربہ وہی ہے کہ جو خود ’آنند‘ ہو اور جس سے ’آنند‘ ملے!

ہندوستانی جمالیات میں ’آنند‘ ایک انتہائی اہم بنیادی تصور ہے جس کی جانے کتنی جہتیں ہیں، ان جہتوں کا رشتہ انسان کے بنیادی احساسات اور جذبات سے ہے۔ معاملہ انبساط و سرور پانے، عطا کرنے، تخلیق کو بصیرت کی تنویر بنانے اور مسرتِ سرمدی سے شعوری اور لاشعوری طور پر آشنا کرنے کا ہے۔

’رس‘ ، اور ’آنند‘ سے یونانی ’کتھا رسِس‘ (CATHARSIS) کی یاد تازہ ہو جاتی ہے قدیم ترین یونانی وحشیانہ طریقہ عبادت کا بنیادی مقصد اگرچہ یہ تھا کہ انسان حواس کی تمام سطحوں سے اوپر ہو جائے، ایسے اعلیٰ احساس تک جائے جہاں عام طور پر اس کی پہنچ نہیں ہوتی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ جسمانی تھکن اور تحرک سے مقصد حاصل کرنے کی خواہش بھی ساتھ تھی ، پورے عمل میں نفسیاتی سکون پانے اور لذّت اور مسرت پانے کی آرزو بھی موجود تھی۔

ہندوستانی فنونِ لطیفہ میں آنند‘ ۔ آرزو، خواہش اور مقصد ہے۔ یونانی اصطلاح ’کتھا رسِس‘ نتیجہ ہے۔ اسی طرح جس طرح ’رَس‘ نتیجہ بھی ہے اگر چہ رس ، صرف نتیجہ نہیں ہے۔ (رس اور کتھا رسِس دونوں طبّی اصطلاحیں ہیں) لیکن ’رس‘ اور ’آنند‘ دونوں ’کتھا رسِس ‘ کے برعکس تخلیق اور تخلیق کے پورے عمل میں نغمہ ریز لہروں کی مانند شامل ہیں۔ ’کتھا رسِس ‘ تخلیقی اظہار کا فطری اور نفسیاتی نتیجہ ہے!

ہندوستانی رقص اور موسیقی نے یہ احساس شدّت سے عطا کیا کہ ’بندو‘ (BINDU) یعنی شعور کی روشنی ’آنند ‘ اور ’رس‘ کا سرچشمہ ہے۔

قدیم یونانی رقص کہ جس پر (DIONYSUS) مسلک کا گہرا اثر تھا، پُر اسرار جذبے کے والہانہ اظہار اور اس اظہار کے فطری اور نفسیاتی نتیجے کا آئینہ تھا، ’آنند‘ اور ’رس‘ اپنی فطرت میں پاکیزہ ہیں، والہانہ اظہار میں اس کی پاکیزگی، اس کی روشنی اور خوشبو بے اختیار پھیلتی ہے اور بلند ترین ماورائی سطح پر جانے لگتی ہے۔ ’کتھا رسس‘ پاکیزگی کا وہ احساس ہے جو تخلیق کے عمل سے پورے طور پر گذر جانے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

یہاں ’آنند‘ اور ’کتھا رسس‘ کا موازنہ مقصود نہیں ہے، ہاں ان کے فرق کو سمجھ لینا ضروری ہے اس لیے کہ یہ ہندوستانی اور یونانی جمالیات کی قدیم ترین جمالیاتی علامتیں اور اصطلاحیں ہیں۔ تخلیقی آرٹ کو سمجھنے اور سمجھانے میں ان سے بڑی مدد لی گئی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

لفظ ’کتھا رس‘ کی جڑیں ارسطوؔ کے ماضی میں پیوست ہیں۔ ارسطوؔ نے اسے ایک ادبی اصطلاح کے طور پر پہلی بار استعمال کیا لیکن اس لفظ کی تاریخ بہت پرانی ہے، ارسطوؔ تک سفر کرتے ہوئے اس لفظ نے مختلف منزلیں طے کی ہیں۔

قدیم ترین زمانے میں ’کتھا رس‘ ایک پُر اسرار جذبے کے والہانہ اظہار کا فطری اور نفسیاتی نتیجہ تھا جس کا تعلق یونانی مذہب سے تھا، جب یونانؔ کے مذہبی خیالات پر (DIONYSUS) مسلک کا اثر ہوا تو جذبات کے والہانہ اظہار اور فطری اور نفسیاتی سکون اور اصطلاحِ نفس یا تزکیۂ نفس کا نظریہ پیدا ہوا۔ افلاطونؔ نے بھی مکالمات میں اس نظریے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ’یونانی جمالیات‘ اور یونانیؔ فلسفے میں ’کتھا رسس‘ کی اصطلاح بعد میں استعمال ہوئی ہے صدیوں پہلے (DIONYSUS) مسلک کی وجہ سے یہ لفظ مشہور و مقبول تھا، کسی پُر اسرار جذبے کے والہانہ اظہار اور اس اظہار کے فطری اور نفسیاتی نتیجے سے دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ وجود میں پاکیزگی آ گئی!ایسی باتیں انسان کی فطرت سے علیحدہ ہو گئیں جو اچھی نہ تھیں، اس عمل میں فرد بہت سی الجھنوں سے دور ہو گیا اور اس کا باطن صاف ہو گیا، پاکیزہ بن گیا۔ ’’وجود کی پاکیزگی، باطن کی صحت‘‘ اور شخصیت کی اصلاح، ۔ سب کی معنویت اس سے وابستہ تھی۔ اس عمل سے پوری شخصیت، جو جسم اور روح کا مجموعہ ہے، جو ظاہر اور باطن کی وحدت ہے، پاکیزہ بنتی ہے۔

ہوتا یہ تھا کہ لاشوں کو رکھنے کے لیے گھر ہوتے تھے اور لوگ ان گھروں میں جاتے اور مُردوں سے قربت حاصل کرتے تھے، اس طرح انہیں سکون ملتا تھا۔ جو لوگ لاشوں کے قریب جاتے وہ اکثر اپنے ساتھ پانی سے بھرے کٹورے لے جاتے، جو مردوں کے قریب رکھ دئیے جاتے اور واپسی پر یہ لوگ وہی پانی پیتے، پانی پینے کے بعد انہیں ذہنی اور نفسیاتی سکون ملتا تھا، اس طرح ان کی ’صحت‘ اور اصطلاح ہوتی تھی یعنی اُن کی ’کتھا رسس‘ ہوتی تھی۔ یہ بھی رواج تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کے رشتہ دار جانوروں کے لہو کو کٹوروں میں لے کر پیتے تھے اور ذہنی اور جذباتی سکون حاصل کرتے تھے۔

آنند اور آنند کی وحدت۔ عورت اور درخت، فطرت اور وجود کے رشتے کا عرفان  (بھارہت، دوسری صدی ق۔م) انڈین میوزیم۔ کلکتہ

 

وقت گزرتا گیا، ڈیمٹرؔ (DEMETER) نام کی دیوی کی پرستش نے جب یونانیوں کو متاثر کرنا شروع کیا تو مذہبی عقائد بہت ہی پر اسرار ہو گئے۔ ایتھنز میں مختلف قسم کے پر اسرار رسم و رواج شروع ہو گئے۔ عبادت کرنے کا ایک انتہائی والہانہ لیکن حد درجہ پر اسرار طریقہ رائج ہو گیا، عبادت کے وقت وحشیانہ موسیقی کی لہریں ہر جانب سے اٹھتی تھیں اور لوگ دیوانہ وار رقص کرتے تھے، عبادت عموماً رات کی گہری تاریکی میں کسی بلند مقام پر ہوتی۔ رفتہ رفتہ ’ڈلفی‘ (DELPHI) کی مقدس عبادت گاہ میں یہ عبادت ہونے لگی، ہاتھوں میں سانپ اور خنجر لیے والہانہ رقص بلند چیخوں کے ساتھ جاری رہتا، ایسا لگتا جیسے لوگ خوشی سے دیوانے ہو رہے ہیں۔ ایک دائرے کی صورت رقص شروع ہوتا اور اس شدت سے کہ کوئی ہوش میں نہ رہتا۔ عورتیں پیش پیش رہتیں،ناچتے ناچتے سب تھک جاتے اور گر جاتے تو انہیں سکون ملتا، اس طرح عبادت کے عمل میں ان کی کتھارسس، ہوتی۔

اکثر یہ بھی ہوتا کہ ان کے قریب ہی کچھ جانور رکھ دئیے جاتے اور رقص کے اختتام پر سب ان جانوروں پر گرتے ، انہیں انتہائی بے دردی سے ماتے، ان کے ٹکڑے ہو جاتے اور ان لوگوں کو جذباتی اور نفسیاتی آسودگی حاصل ہوتی، یہی کتھا رسس، تھی۔

اس لفظ ۔ اور اس لفظ کی داخل معنویت کی ابتداء اسی منزل سے ہوتی ہے!

اس وحشیانہ طریقۂ عبادت سے حواس میں ہلچل سی پیدا ہو جاتی، ہوش کھو جانے کی وجہ سے فریب، التباس، وہم، خیال اور فریبِ نظر کی ایک پر اسرار دنیا خلق ہو جاتی، رقص کرنے والے ایک پر اسرار، اجنبی ماحول میں پہنچ جاتے، جذبوں کی بے محابہ اُٹھان سے مذہبی وجدان کو آسودگی ملتی، عابد جسمانی حدود سے آگے نکل جاتے اور دیوی یا دیوتا سے قریب تر ہو جاتے، زمان و مکان کی زنجیریں ٹوٹ جاتیں اور اس عمل کے بعد جو سکون ملتا اس سے باطن کی’کتھارسس‘ ہوتی تھی!

یونانی ڈراموں کی تخلیق کا انحصار بھی کہا جاتا ہے اس رقص پر ہے، جس طرح عابد اپنی تمام قوتوں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو دوسرے وجود یعنی ابدی اور آفاقی وجود میں جذب کر دیتے تھے اُسی طرح ڈراما نگار بھی اپنی تمام صلاحیتوں کو کرداروں میں جذب کرنے کی کوشش کرنے لگے اور ناظرین کی ’کتھا رسس‘ ہوئی۔ اس قسم کی عبادت کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ انسان حواس کی تمام سطحوں سے اوپر جائے۔ ایسے اعلیٰ اور ارفع احساس تک جائے جہاں اس کی پہنچ عام طور پر نہیں ہوتی۔ شعور کی سطح سے بلند ہونے کا معاملہ تھا۔ یونانی ’مسٹی سیزم‘ MYSTICISM  کی بنیاد بھی یہی ہے۔

افلاطونؔ نے (DIONYSUS) کے صِرف اس پہلو کی نکتہ چینی کی کہ جہاں اخلاقی اقدار نہیں ہیں، وہ ایک بڑا معلّمِ اخلاق تھا۔ لہٰذا اس نے کتھا رس کو جذباتی اور نفسیاتی آسودگی اور پاکیزگی کا نتیجہ قبول کرتے ہوئے صرف اُن نکات کو پسند کیا کہ جن میں اخلاقی اقدار موجود تھیں۔ ’مکالمات‘ میں ایسی ’کتھارس‘ کی جانب کچھ اشارے موجود ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یونانی جمالیات میں سب سے پہلے افلاطون نے اس لفظ کی معنویت کو سقراط کے الفاظ میں پیش کیا۔ جہاں ’تحریر‘ ’جذبہ‘ اور ’زبان‘ پر گفتگو ملتی ہے وہاں افلاطون کا نظریہ کسی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ ہومرؔ کی نظمیں پڑھتے ہوئے جب وہ یہ کہتا ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جسم میں تھرتھری سی آ جاتی ہے تو دراصل وہ خود کو ’’کتھا رس‘‘ کی جانب بڑھتا ہوا پاتا ہے۔ اس لیے کہ ایسی ہی کیفیتوں کے بعد ’کتھا رسس‘ ہوتی ہے۔

ارسطوؔ کے لیے یہ لفظ اجنبی نہ تھا۔

اس لفظ کی گہری معنویت بھی اس کے دور میں کسی نہ کسی صورت میں موجود تھی۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اسے ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی اصطلاح کی صورت دے دی جس کی معنویت کی تہہ داری اور پہلو داری پر صدیوں سے اظہارِ خیال کیا جا رہا ہے۔

ارسطو کے سامنے یونانی ڈرامے تھے اور اُس نے ڈرامے کے فن کو موضوع بنایا، لیکن اِس فن پر گفتگو کرتے ہوئے اس بڑے ناقد نے فنونِ لطیفہ کی جمالیات کو سمیٹ لیا۔ یہ وہ عہد تھا جب یونان میں ایک بڑے تخلیقی دور کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ ادبی تنقید کے لیے اہم زمانہ تھا‘ یونانی فکر جس بلندی پر تھی اس کے لیے ارسطوؔ ہی کی ضرورت تھی۔

ارسطوؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے یونانی ادبیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ادبی اقدار اور فنّی آفاقیت سے گہری دلچسپی لی۔ بہت حد تک فلسفۂ منطق اور اخلاق کو فنّی اور ادبی اقدار سے دُور رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’کتھا رسس‘ کی اصطلاح معنی خیز ادبی یا تنقیدی اصطلاح بن گئی۔

بوطیقاؔ (POETICS) کا وہ حصّہ ہمیں نصیب نہیں ہے کہ جس میں اس نے ’’کتھارس‘‘ کی تشریح کی تھی۔ سیاسیات (POLITICS) کے آٹھویں حصّے میں اس اصطلاح کا ذکر ملتا ہے ۔ ہم المیہ کے پلاٹ، المیہ کردار اور المیہ ہیرو اور آرٹ اور المیہ کے رشتوں پر اس کے خیالات کی روشنی میں ’کتھا رس‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’سیاسیات‘ میں اُس نے ’کتھا رس‘ کو تنقیہ یا جلاب (PURGATION) کا مفہوم دیا ہے۔ ٹریجڈی سے ہمدردی اور خوف کے جذبے اُبھرتے ہیں اور اختتام پر جب یہ جذبے دور ہو جاتے ہیں تو ’کتھا رس‘ ہوتی ہے۔ یہ احساس بھی ملتا ہے کہ ’ٹریجڈی‘ کا فن ان جذبوں کو دُور کر دیتا ہے اور ذہنی اور جذباتی سکون بخشتا ہے۔ باطن میں روشنی آ جاتی ہے اور جمالیاتی مسرّت حاصل ہوتی ہے۔ ارسطوؔ نے تخیل اور عقل کے ساتھ جذبوں کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ البتہ وہ اُن کے متوازن اُبھار اور اُن کی صحت اور اصلاح کو ضروری سمجھتا ہے۔ ’کتھارسس‘ کے ساتھ صفائی اور پاکیزگی، باطن کی روشنی اور جمالیاتی آسودگی کی معنویت بھی وابستہ ہو جاتی ہے۔ ایک نئی جہت سامنے آ جاتی ہے کہ جس کا اطلاق پورے فنونِ لطیفہ پر ہوتا ہے یعنی معاملہ صرف جذباتی آسودگی کا نہیں ہے بلکہ جذبوں کی روشنی اور پاکیزگی کا بھی ہے کہ جس سے جمالیاتی مسرّت حاصل ہوتی ہے۔

بیسویں صدی میں سگمنڈ فرائڈ نے  (CATHARIC METHOD) کو اپنے طریقۂ علاج میں شامل کر کے اس کی اہمیت اور بڑھا دی۔ اس کی یہ دریافت حیرت انگیز بن گئی کہ غنودگی یا نیم غنودگی کے عالم میں ۔ یا خواب آور لمحوں میں مریض کی مدد اس طور پر کی جائے کہ وہ اپنے بچپن کے المناک اور اذیت ناک اور دُکھ دینے والے تجربوں کو یاد کرے تو وہ آہستہ آہستہ نیوراتی کیفیتوں سے دُور ہو جائے گا۔ اس طریقِ کار کو اُس نے سے تعبیر کیا جس کا براہِ راست تعلّق یونان کے قدیم تجربوں اور ارسطو کی ’کتھا رسس‘ سے ہے۔

ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’کتھا رس‘ بنیادی طور پر نتیجہ ہے۔ ’آنند ‘ کی طرح تخلیق کے پورے عمل میں مسرّتوں اور لذّتوں اور نغمہ ریز لہروں کی طرح جاری و ساری نہیں ہے۔ ’رس‘ کی طرح ’تجربہ‘ کی روح فنکار کے تخلیق عمل کی خوشبو اور تخلیق کی روشنی اور اس کے جادو اور سامعین، ناظرین یا قارئین کے ذہن اور جذبے کے آہنگ سے رشتوں کا حسن نہیں ہے۔ ’آنند‘ اور ’رس‘ کی طرح مسرّت آمیز بصیرت تک کا سفر نہیں ہے۔ مسرّت سے بصیرت افروز مسرّتوں اور لذّتوں تک جانے اور تمام مسرّتوں اور بصیرت کو ایک وحدت کی صورت میں دیکھنے یا پانے کی آرزو نہیں ہے۔ ’آنند‘ آزاد جمالیاتی احساس یا جذبہ ہے جو ماورائی روشنی (پار پرکاش) سے سرشار ہے۔ ’شیو‘ ’رس‘ اور آنند دونوں کا سرچشمہ ہے۔ عظیم تر شعور ہے۔ فرد اور اس عظیم تر شعور کے ’آنند‘ کا رشتہ حد درجہ لطیف اور مسرّت آگیں ہے۔ فنکار اپنی تخلیق کے ذریعہ ’’آنند‘‘ اور آنند، کے اس رشتے کی بازیافت کرتا رہتا ہے۔ تمام آوازوں میں عظیم تر شعور کی نغمہ ریز لہریں جذب ہیں۔ لہٰذا فنکار ماورائی روشنی کے ساتھ ان لہروں سے رشتہ قائم کر کے خود اپنے وجود کی دریافت اور بازیافت کرتا رہتا ہے اور جب ’آنند‘ اور ’آنند‘ ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں تو ’’آوازوں کی وحدت‘‘ پیدا ہوتی ہے اور عظیم تر مسرّتوں کا حیرت انگیز سرچشمہ پھوٹ پڑتا ہے۔ ’رس‘ اور آنند سے شعور کی روشنی (پرکاش) کا بھی عرفان حاصل ہوتا ہے اور شعور کی آزادی (وِم رس) کا احساس بھی شدید ہوتا جاتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

ہندوستانی جمالیات میں ’وحدت ‘ آنند کا سر چشمہ ہے!

وحدت کا احساس ہی ذہن کو اس سر چشمے کے قریب لے جاتا ہے اور یہی احساس جب ’وحدت‘ سے آشنا ہو جاتا ہے تو جلال و جمال کا عرفان پاتا ہے اور دوسروں کو عطا کرتا ہے۔

کنڑ زبان کے معروف شاعر بساون (BASAVANNA) نے اپنی ایک نظم میں جسم کو ایسے مندر سے تعبیر کیا ہے جس میں شیوؔ ہر لمحہ موجود رہتے ہیں۔ جسم اور شیوؔ کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جسم ہی حقیقیؔ مندر ہے۔ اسی کو دیکھ کر پتھروں اور اینٹوں کے مندر تعمیر کیے گئے ہیں۔ جسم کے مندر اور شیوؔ کی وحدت کا عرفان ہی حقیقی آنند یا مسرّت سرمدی عطا کرسکتا ہے۔ بساونؔ نے کہا ہے:

میرے پاؤں ستون ہیں

میرا جسم، تبرکات کا ظرف

میرا سر سونے کے گنبد

اے دو ملنے والی ندیوں کے مالک

جو شئے غیر متحرک رہتی ہے

گر جاتی ہے

جو شئے متحرک رہتی ہے

ہمیشہ قائم رہے گی۔

(باسوانؔ)

باسوان اور دوسرے قدیم شعراء نے ’گُرو‘ ’لنگ‘ اور جنگم (JANGAMA) کو ایک وحدت کی صورت میں دیکھا ہے۔ یعنی روحانی پیشوا، شیوؔ اور متحرّک اشیاء ، تینوں ایک ہی وحدت کی جہتیں ہیں۔ بعض قدیم ہندوستانی شعراء نے تو غیر متحرّک (STHAVARA) اور متحرّک (JANGAMA)  اشیاء دونوں کو ایک وحدت میں محسوس کیا ہے — ماضی، حال اور مستقل کو وقت سے تعبیر کرتے ہوئے ’لنگ‘ کو ان کی وحدت تصوّر کیا ہے۔ انسان کا ذہن ’کام دیو‘ کی صورت متشکل ہوا ہے اور اس کے ترکش کے پانچ تیر، سورجؔ، کنولؔؔ، اشوکؔ کے پھول ، آمؔ، یاسمنؔ اور نیلے کنولؔ کی صورتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جو بھولے پن اور فریفتگی، تحرّک، برانگیختگی اور اشتعال پذیری، تشنگی اور پژ مُردگی، حرارت، تپش اور حِدّت اور اکڑ کر رہ جانے کی کیفیتیں پیدا کرتے ہیں۔

 

 

ہندوستانی جمالیات میں ابتداء سے وحدت کے احساس و شعور کے ذریعہ ہی آنند یا مسرّتِ سرمدی حاصل کرنے کی باتیں ملتی ہیں۔ سچی مسرّت ، وحدت کی سچّی بصیرت سے حاصل ہوتی ہے۔ ’آنند‘ وحدت کے بطن میں ہے۔

انسان کا جسم معجزوں کا گہوارہ ہے۔ اکثر معجزوں پر یقین نہیں آتا لیکن وہ ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔ خارجی مظاہر کا عمیق مشاہدہ باطنی صلاحیتوں کا احساس دیتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے غدود (GLANDS)  اور اپنی غدودی تپش و حرارت اور تحرّک و طاقت کے تئیں بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ خارج اور باطن کی مشابہت ایک پُر اسرار مسرّت سے آشنا کرتی رہتی ہے۔ انسان کے سات اہم صلاحیتوں سے بھر پور غدود خاص رطوبت عرق یا رس پیدا کرتے ہیں جن سے مختلف قسم کے تحرکات کا جنم ہوتا ہے اور جسم کے اندر متحرک رہتا ہے۔ تمام غدود کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں کہ جن سے شعاعیں نکلتی رہتی ہیں۔ ہر انفرادی تنویر اپنی درخشانی کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے۔ غدود کی تنویر، درخشانی اور حرارت سے پورے وجود میں ارتعاشات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ارتعاشات باطنی طور شادمانی اور مسرتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ تانتر نے انہیں اپنے طور ’چکروں‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی تشریحیں کی ہیں، ان کے مدارج بتائے ہیں اور حقیقی مسرّت اور مسرّت سرمدی کا شعور عطا کیا ہے۔ مغربی ما بعد الطبعیات میں انہیں ’ایتھر‘ کے مقامات یا ’ایتھر‘ کے مراکز (ETHERIC CENTRES)  سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ’چکر‘ جو اپنی جگہ تنویر، درخشانی اور حرارت کے منفرد مرکز ہیں۔ تنویر، حرارت اور منوّر ارتعاشات کے ذرائع بھی ہیں۔ غدود کے پیچھے نظر نہ آنے والی حرارتیں اپنے روشن ارتعاشات کے ذریعہ غدود کے عمل کی رہنما ہیں۔ چھ چکروں سے گزر کر جب انسان ساتویں چکر تک پہنچتا ہے تو اُس کا ذہن سارے جسم یا پورے وجود میں متحرّک ہو جاتا ہے اور یہی وہ منزل ہے جہاں ’وژن‘ جنم لیتا ہے۔ وہ ’وژن‘ جو تمام مسرّتوں کا سر چشمہ بن جاتا ہے۔ خارج اور باطن کی پُر اسرار وحدت کا عرفان سچّی مسرّت عطا کرتا رہتا ہے۔

تھائی اِنڈ گلائڈ (THYROIDGLANDS)  یا سپری غدہ جو ڈھال کی مانند ہوتا ہے۔ تخلیق کے لیے اُکساتا ہے۔ تخلیق ، وحدت کے عرفان کے لیے۔ حقیقی انبساط پانے کے لیے۔ ذہن یا دل غور  و فکر میں ڈوبا ہوا سوچتا ہوا تخلیقی وسیلہ بن جاتا ہے۔

انسان کے مغز کا مطالعہ کیا جائے تو ایک نئی تصویر سامنے ہو گی۔ ایسا دکھائی دے گا جیسے یہ انسان کی ابتدائی صورت (EMBROYO) یا جنین (FOETUS) ہے۔ خادم پیکر، خام صورت ! بڑی مماثلت اور مشابہت ہے دونوں میں۔ انسان کے جسم کا ایک خاکہ سامنے ہو گا۔ ایسا محسوس ہو گا جیسے مصور نے انسان کے جسم یا اس کے وجود کا پہلا نقشہ مغز میں تیّار کیا ہے۔ اس خاکے میں مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے میں جذب نظر آتے ہیں۔ عورت کی دو چھوٹی واضح پستان ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کا ابتدائی پیکر کھوپڑی کے اندر خلق ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کی توسیع ہوتی ہے۔ اعضاء بڑھتے ہیں اور جسم بنتا ہے، جسم مغز کا واضح اظہار نظر آنے لگتا ہے۔

عورت اور مرد کی وحدت کی یہ تصویر غیر معمولی رہی ہے۔ ’’اردھ نار ایشور‘‘ کا غیر معمولی تصوّر ممکن ہے اس سچّائی سے بھی رشتہ رکھتا ہو۔ وجود کے تئیں بیداری اور ما بعد الطبعیاتی سطح پر وحدت کے احساس نے جہاں پرش اور پراکرتیؔ، شیوؔ اور پاروتی، شیوؔ اور کالی وغیرہ کے تصوّرات پیدا کیے اور وحدت کی لازوال مسرتوں سے آشنا کیا وہاں ما بعد الطبعیات میں ’’حقیقی شعور ‘‘ کے تصوّر کی بھی آبیاری کی۔

’آنند‘ کا وسیع تر، تہہ دار اور پہلو دار معنی خیز تصوّر ’’میں‘‘ یا ’’ذات‘‘ سے گہرا رشتہ رکھتا ہے۔ خالق کائنات ،عورت، مرد، اشیاء عناصر سب ’میں‘ یا ذات میں ہے۔ ’’میں وہ ہوں‘‘ ’’وہ میں ہوں‘‘۔ اس احساس و شعور ہی نے حقیقی مسرّت یا آنند کی سیّال نغمہ ریم لہروں سے آشنا کیا ہے۔

محبت، رشتہ، حُسن، عمل، اور تجربہ — یہی ’میں‘ یا ’ذات‘ کا سرمایہ ہیں۔

’’محبت میں ہوں‘‘۔

’’حسن میں ہوں‘‘۔

اور

’عمل‘ اور ’تجربہ‘ میں ہوں۔

یہ شعور ہی تخیل کے تحرک کا ذمّے دار ہے اور تخیّل کا تحرّک ہی باطن کے حسن کو محسوس صورتیں عطا کرتا ہے اور خارج اور باطن کے جلوؤں کے تمام رشتوں کی وحدت کے عرفان سے سچّی مسرّت یا مسرّت سرمدی پاتا ہے۔ وحدت کا شعور اتنا غیر معمولی ہے اور اس شعور کے ذریعہ انبساط حاصل کرنے کی آرزو اتنی بڑی ہے کہ قدیم اچاریوں اور قدیم فنکاروں نے ذہنی اور جسمانی عمل کو ان کے لیے ضروری جانا ہے۔ اچاریوں کی ما بعد الطبعیاتی فکر نے ارتکاز (CONCENTRATION) مراقبہ (MEDITATION) استغراق(CONTEMPLATION) اور عقیدت، تعظیم، احترام اور عبادت  ADORANA وغیرہ کو اہمیت تو دی ہی ہے۔ تخلیقی فنکاروں نے تخلیقی عمل میں ’’آنند‘‘ پانے کے لیے انہیں نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے بغیر تخلیقی عمل ممکن نہیں ہے۔ ان کے بغیر وحدت کے حسن کی پہچان اور مسرّت سرمدی ممکن نہیں ہے۔ ان ہی سے تخلیقی عمل میں وجد (TRANCE) کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وجد کی کیفیت ہی ’وژن‘ عطا کرتی ہے، اور وژن ہی نٹؔراج، شیوؔ لنگ، ترمورتیؔ اور متھرا کا بدھؔ خلق کرتا ہے۔

’آنند‘ کے لیے ارتکاز چاہیے۔ ذہن کو موضوع پر مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ اسی سے حیرت انگیز قوّت کا احساس ملتا ہے۔ ذہن کے ساتھ سانس کی رفتار پر قابو رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ نشست کے انداز کو سمجھایا گیا ہے۔ مجسّموں کی آنکھوں کو بنانے کے لیے خاص انداز سے بیٹھنا اور ایسے منتر کا خاص جاپ کرنا کہ جس کا رشتہ سانس کی خاص رفتار سے ہو ضروری تھا، وجدانی تجربہ اسی لیے اہم ہے۔

’یوگ‘ کا بنیادی مقصد یہی رہا کہ رُوحانی طور پر وجود نوری شعاعوں سے آشنا ہو ’یوگ‘ نے تخلیقی آزادی کا احساس ہمیشہ دیا ہے۔ پتن جلی (۱۵۰ ق۔م) نے ’یوگ کے فلسفیانہ اصولوں پر ایک اچھی گفتگو تو کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ یوگؔ کے ذریعہ کس طرح ذہن اور حواس کو تمام الجھنوں، پریشانیوں اور تکلیفوں سے علیٰحدہ کر کے بلند سطح حاصل کی جا سکتی ہے جہاں آزادی کا سچّا احساس ملتا ہے۔ اُپنشدوںؔ کے اچاریوں کا اعتقاد عظیم تر جلیل و جمیل تجربے پرتھی اس لیے کہ اسی کے ذریعہ ’ذات‘ اپنے نور اور اس نور کی تمام شعاعوں اور کرنوں سے آشنا ہوسکتی ہے۔ فنکار کی ذات ہی بنیاد ہے، جڑ ہے۔ حواس اشیاء و عناصر کی جانب بڑھتے ہیں اور ذہن ان میں رشتے پیدا کرتا ہے۔ تخلیقی ذہن کی پہچان اُس کے حسّی عمل و حرکت اور قوّتِ مدرکہ اور تصوّرات کی تخلیقی صورتوں سے ہوتی ہے۔ ذہن ’التباس‘ اور ’مایا‘ کو خلق کرتا ہے۔ ماضی کی نئی دریافت یا بازیافت کرتا ہے۔ کبھی گہری نیند میں ڈوب جاتا ہے اور خوابوں کی تخلیق کرتا ہے۔ تخلیقی فنکار کا ذہن توازن اور سکون اور خاموشی سے پہچانا جاتا ہے۔ ذہنی توازن اور ذات کی خاموشی کی وجہ سے وہ وجود یا ذات کی پُراسرار خاموشی میں پہنچتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو حاصل کیے ہوئے آنند کا اظہار کرتا ہے۔ اندر سے باہر آنے کا عمل آنند کے احساس کی وجہ سے قابلِ غور ہے اس لیے کہ یہ خاموشی سے آواز کی جانب بڑھنے کا عمل ہے۔ سکون سے تحرک کی جانب آنے کا عمل ہے اور نیند سے بیداری کی طرف آنے کا عمل ہے۔ تخلیقی تجربے میں روشنی اور تاریکی، حرکت اور سکون اور خاموشی اور آواز اور نیند اور بیداری سب کا آنند ملتا ہے۔ مصوّری میں روشنی اور سائے اور رنگوں کی آمیزش، مجسّمہ سازی میں ڈیزائن موسیقی میں آوازوں کی تکرار وغیرہ پر نظر رکھی جائے تو ’ذات‘ کے آنند کا گہرا احساس بھی ملے گا اور ساتھ ہی اپنے اپنے طور پر جمالیاتی انبساط حاصل ہو گا۔

ذہن اور جذباتی ارتعاشات میں اس طرح ہم آہنگی پیدا کرنا کہ نور کی شعاعیں وجود میں آنے لگیں غیر معمولی عمل ہے۔ یہ منّور شعاعیں، تخیّل کو صورتیں دینے لگتی ہیں اور یہ صورتیں ’’تخلیق‘‘ بن جاتی ہیں۔ تیسری آنکھ دو اصولوں(عورت + مرد) کی بے پناہ جذبی کیفیتوں سے پیدا ہوتی ہے جو آگے بڑھ کر کائنات کے جلال و جمال کی وجد آفریں اور مسرّت آگیں وحدت کا احساس و شعور عطا کرتی ہے۔ کبھی یہ تیسری آنکھ شیو کی آنکھ بن گئی ہے۔ کبھی مصر میں سر پر پھن اُٹھائے سانپ کی صورت رونما ہوئی ہے اور کبھی چین میں مور کے خوبصورت پَروں کے چکر کی صورت میں جلوہ گر ہوئی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

’شیوشکتی‘ ابدی لافانی حسن اور جلال و جمال کی وحدت کی بڑی تہہ دار معنی خیز علامت ہے۔

’شیو شکتی‘ لِنگ‘(LINGA) (خالق) اور ’انگ‘ (ANGA) (مخلوق) دونوں کی وحدت ہے۔

مسرّت سرمدی یا آنند کو سمجھنے کے لیے ’لنگ‘ بھاؤ لنگ ، است لنگ، پرشاد لنگ، اور مہا لنگ، کے ساتھ، انگ، پران انگ، اور است انگ، — اور اکار لنگ، گرو لنگ، شیو لنگ اور کارالنگ— اور تھیا انگ، بھوگ انگ، اور یوگ انگ پر نظر رکھی جائے تو ’آنند‘ کے حِسّی اور جمالیاتی تصوّر کی عظمت کی پہچان ہو گی۔

مندرجۂ ذیل خاکے پر غور فرمائیے:

یہی احساس و شعور ہے کہ جس نے پرش اور پراکرتی کے حِسّی تصوّرات عطا کے ہیں اور شیوؔ پاروتیؔ، وشنوؔ، لکچھمی اور کرشن اور رادھا کے خوبصورت پیکر تراشے ہیں اور جلال و جمال کی وحدت اور ابدی لافانی حسن کا عرفان بخشا ہے۔

اسی تصوّر سے نٹ ؔراج کا کائناتی رقص وجود میں آیا ہے۔

 

 

 

وحدت کے اسی احساس کی وجہ سے وشنو، شیش ناگ پر لیٹے سمندر کی سطح پر اُبھرے ہیں۔ شیشؔ ناگ کے ہزاروں سر نظر آئے ہیں۔ وشنوؔ کی ناف کے اوپر خوبصورت کنول پر چار سروں والے برہما بیٹھے ہیں اور وشنوؔ کے پاؤں کے نزدیک انتہائی پر سکون چہرے کے ساتھ لکچھمی بیٹھی ہیں۔ شیش ناگ، تمام اشیاء و عناصر کی علامت بنا ہے، وشنو کے اس پیکر کو وحدت کی انتہائی خوبصورت تصویر کی صورت عطا کی گئی ہے جو آنند اور مسرّت سرمدی سے آشنا کرتی ہے۔

لنگ (خالق) اور انگ (مخلوق) کی وحدت کے تصور نے مندروں کی تعمیر انسان کے جسم کے حسّی تصوّر کے مطابق کی ہے۔ زمین کے اندر بیج سے بھرا برتن رکھا گیا ہے اور یہ تصور کیا گیا کہ اسی بیج کی طاقت سے مندر کی عمارت اُٹھی ہے یا بلند ہوئی ہے۔ مندر کے مختلف حصّوں کے اعضاء سے تعبیر کیا گیا بہست (ہاتھ، پَد (پاؤں ) سِک ہار (سر) کے علاوہ مندر کے اندرونی تاریک حصے کو ’گربھ گرہ‘ (خانۂ رحم) کہا گیا ہے۔ تین دروازوں کا مندر شعور ، تحت الشعور اور لاشعور کے حِسّی تصوّر کا ترجمان بنا اور پانچ دروازوں کا مندر حواسِ خمسہ کی حِسّی تصوّر کا ترجمان بنا اور پانچ دروازوں کا مندر حواسِ خمسہ کی حِسّی تصویر بن گیا۔ کسی بھی دروازے سے وحدت کا عرفان حاصل کر کے آنند کو پایا جا سکتا ہے۔

موسیقی کے سروں کی اُٹھان نے وحدت کا احساس دیا۔ نغمۂ سرمدی‘ مسرتِ سرمدی بنا۔ موسیقی، وجود اور کائنات کا معنی خیز رشتہ بن گئی۔ موسیقاروں نے آہنگ اور لفظوں کے رنگوں، آوازوں اور صورتوں کو اس طرح محسوس بنایا کہ ہر شخص کے وجود سے آہنگ اور لفظوں کا رشتہ قائم ہو گیا۔ حیرت اور مسرّت کے جذبوں کی لہریں وحدت کا عِرفان بخشنے لگیں۔

’ہندوستانی جمالیات‘ میں ’آنند‘ کے اس تصوّر اور احساس کی اہمیت غیر معمولی ہے تمام تخلیقات کا بنیادی مقصد آنند اور آنند کی وحدت کی تلاش اور اس وحدت کا حصول ہے۔ تخلیقی عمل کی ابتداء کے احساس سے ہوتا ہے۔ یہ احساس آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا ہے۔ وجود اور تجربے کے آنند کی اُٹھان زماں و مکاں کو گرفت میں لیتی ہوئی حقیقی انبساط سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ نٹ راجؔ، اجنتاؔ، گیتاؔ گووند، (جے دیو) سب اسی کے کرشمے ہیں۔ بھگتی تحریک کی بنیاد اسی پر ہے۔ کبیرؔ، میرا بائی، سورداسؔ، بلّے شاہ اور للّہ عارفہ کے کلام میں اسی کی تلاش اور اس کے حصول کے تجربے میں دیوارا دسی میّا (DEVARA DASIMAYYA) نے جب یہ کہا تھا:

میں وہ ہوں کہ جس کے پاس جسم ہے

تم وہ ہو جس کے پاس سانس ہے ، روح ہے

تم میرے جسم کے اسرار سے واقف ہو۔

اور میں

تمہاری سانس اور تمہاری روح کے موضوع سے واقف ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ تمہارا جسم

مجھ میں ہے

تم جانتے ہو

اور میں جانتا ہوں، رام ناتھ

تمہاری سانس اور تمہاری روح

جو میرے جسم میں ہے

کیسا معجزہ ہے!!

اور للّہ عارفہ نے یہ کہا تھا:

مَیں اُس میں جذب ہو گئی اور امرت کے چشمے تک پہنچ گئی ۔

دیکھا، امرت کے برتن بھرے پڑے ہیں اور پینے والا کوئی نہیں ہے۔

یا

مَیں للّہ، اپنے دل کے باغ کے دروازے میں داخل ہو گئی۔

میں نے شیوؔ میں شکتی کو جذب دیکھا۔

امرت کی جھیل سے میرا رشتہ قائم ہو گیا۔

تو آنند اور آنند کی وحدت کا احساس ہی عطا کیا تھا۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نو

 

اظہار کا حُسن

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

’ہندوستانی جمالیات‘ میں ’اظہار کے حُسن‘ کا مطالعہ جمالیاتی تجربے سے علیٰحدہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ ’تجربہ‘ اور اظہار کی وحدت ہی فن ہے۔

’صورت‘ یا ’فارم‘ سے موضوع کو علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی فنکاروں نے موضوع سے ذہنی اور جذباتی رشتہ قائم کرتے ہوئے اِسے ہمیشہ اس کے اپنے ’فارم‘ کی صورت میں محسوس کیا ہے۔ تری مورتیؔ ، نٹ راجؔ اور متھرا کا بدھؔ عمدہ مثالیں ہیں۔ ان پیکروں کے ’فارم‘ کو موضوع سے بھلا کس طرح علیٰحدہ کیا جا سکتا ہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تخلیقی فنکاروں نے تخلیقی سطح پر یا اپنے جمالیاتی وجدان میں انہیں ان ہی صورتوں میں محسوس کیا تھا۔ موسیقی کے آہنگ اور مندروں کی تعمیر میں بھی تجربہ اور اظہار کی وحدت ہی متاثر کرتی ہے۔ اظہار کے حسن کا مطالعہ ہو گا تو موضوع کے حسن کے ساتھ ہو گا۔

شاعری کے تعلّق سے ’النکاروں‘ (ALANKARS)  پر جو بحثیں ہوئی ہیں وہ بظاہر ایک دوسرے سے جتنی بھی علیٰحدہ نظر آئیں شاعری کے جمالیاتی تصوّرات اور بنیادی موضوعات کو ساتھ لیے ہوئی ہیں۔ النکاروں پر گفتگو کا جو سلسلہ جاری رہا وہ صرف اس لیے کہ شاعری کی داخلی فطرت اور اس کی عظمت کی بہتر پہچان ہوسکے اور یہ بتایا جا سکے کہ کلام میں الفاظ علامات اور استعارات اور تخیّل اور تجربہ وغیرہ کی سطح کیا ہے۔ یہ کس حد تک تجربوں کا جلوہ بنے ہیں۔ شاعری میں چوں کہ معاملہ ’لفظوں‘ کا ہے۔ اس لیے اسے اس طرح موضوع بنانا ضروری بھی تھا۔ دوسرے فنون کی صورتوں کے مقابلے میں لفظوں کی صورتیں یقیناً کمزور ہوتی ہیں۔ لہٰذا شاعری کے معیار کے پیشِ نظر ان کی بہتر صورتوں پر اظہارِ خیال کرنا ضروری تھا۔ اس کے باوجود یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بحث — یا کوئی نظریہ اظہار کو تجربے سے علیٰحدہ کر کے دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہ بحث اس لیے ہے کہ تجربوں کی قدر و قیمت کا بہتر احساس دِلایا جا سکے اور بہتر شعری تجربوں کو بہتر اظہار میں جلوؤں کی طرح محسوس کیا جا سکے۔

’النکار‘ وہ وسائل ہیں جو کلام کی آرائش و زیبائش کو اعلیٰ ترین مقام تک لے جاتے ہیں۔ کلام کی آرائش و زیبائش موضوع یا تجربے سے علیحدہ نہیں ہوتی۔ تجربے کی روشنی لفظوں اور استعاروں کو منّور کرتی ہے۔ جے دیو پی پوش ورش(تیرہویں صدی نے شعری تجربہ اور النکاروں کے رشتے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ رشتہ آتش و حرارت کا رشتہ ہے۔ ’النکار‘ اُن کے نزدیک ایسا جلوہ یا ایسی حرارت ہے جو تجربے کے بطن سے پھوٹتی ہے۔ یہ حرارت نہ ہو تو آتش اور تجربے کی بھلا پہچان کس طرح ہوسکتی ہے؟

چھٹی اور ساتویں صدی دنڈی (DANDI) اور بھامہ (BHAMA) نے یہ بتایا تھا کہ موضوع یا تجربہ سے علیٰحدہ ’النکاروں‘ پر گفتگو کرنے والے پوری سچّائی پر گفتگو نہیں کرتے۔ ’شبد‘ میں اتنی طاقت اور اتنی توانائی ہے کہ وہ اپنے حسن کے ساتھ موضوع کو مرکزِ نگاہ بنا دیتے ہیں۔ ’شبد‘ سے جذبات کے رنگ ظاہر ہوتے ہیں۔ کلام پڑھنے والوں پر ان رنگوں کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ ’شبد‘ تجربے کے رس سے علیٰحدہ نہیں ہوتا۔ نویں صدی میں و امنؔ (VAMANA) اور اُدبھٹ (UDABHATTA) نے ’شبد‘ کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے موضوع کے حسن اور اظہار کے حسن کی وحدت کا احساس بالیدہ کیا اور یہ بات واضح کر دی کہ ’النکار‘ کا مقصد لفظوں کا کھیل یا لفظوں کا تماشا نہیں ہے۔’شبد‘ ایک انتہائی تہہ دار معنی خیز لفظ ہے۔

’اومؔ ‘ شبد کا سب سے معنی خیز استعارہ ہے۔ شبد تصویر بھی ہے اور آواز بھی۔ حِسّی تجربے کا نقش بھی ہے اور کلام کا مفہوم بھی۔ حِسّی تصوّر جو صورت خلق کرتا ہے۔ اس کی تصویر ’شبد‘ سے اُجاگر ہوتی ہے۔ اس کے آہنگ اور اس کے رنگ سب اسی سے اُبھرتے ہیں۔ دنڈیؔ، بھامہؔ، ادبھٹؔ، وامنؔ، ردوراٹ (RUDRATA) آنند وردھنؔ اور اچاریہ ممٹؔ(MAMMATA)  سب ’شبد‘ کی ہمہ گیر معنویت سے واقف نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی اچاریہ ایسے نہیں جو موضوع اور النکاروں کو علیٰحدہ کر کے دیکھتے ہوں۔ دنڈیؔ نے کلام کے خوبصورت لباس کا نہیں بلکہ کلام کے خوبصورت جسم کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ خوبصورت لفظوں کے بطن میں فنکار کے خوبصورت جذبات ہوتے ہیں۔ الفاظ، احساس اور جذبے کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ النکاروں کا حسن ایسا ہو جو تجربوں کے حسن سے جنم لے اور ان کا ترجمان بن جائے۔ وامن نے کاویہ النکار ستر میں اسلوب، ڈکشن اور اظہار پر مفصل گفتگو کی ہے اور النکاروں کو کلام کی آتما یا روح سے تعبیر کیا ہے لفظوں کی توانائی صفائی، بزرگی اور حسن کو خیالات کے لیے ضروری جانا ہے۔ خیال کے تقاضے کے مطابق ’’شبد‘‘ استعمال کیے جائیں تاکہ ’’خیال‘’ کا حسن دوسروں تک پہنچ سکے۔ آنند وردھن نے تخلیقی فن کی عظمت کو سمجھتے ہوئے استعاروں، علامتوں اور اشاروں کو اہمیت دی اور ’’شبد‘‘ کے مفہوم کے دائرے کو وسیع تر کر دیا۔ دھونی کاویہ(DHAVANI KAVYA) کے نظریے نے ’رس دھوی (RASA DHAVI)  یا پرتی یا مانا (PRATIYAMANA) کی اہمیت کا احساس بڑھا دیا۔ کلام کی رمزی خصوصیتوں پر پہلی بار سنجیدگی سے غور کیا جانے لگا۔ ’شبد‘ رمز بن گیا جو سامنے ہے وہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے بطن میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ اظہار کے حسن میں ایک بڑی اہم جہت پیدا ہوئی جسے ہندوستانی جمالیات کے علماء نے بڑی شدّت سے قبول کیا اور اس جہت کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اظہارِ خیال کیا۔ محسوس کیا کہ بڑے تخلیق فنکاروں کے ’شبد‘ اپنی رمزی خصوصیات کو لیے انتہائی بلندیوں پر روشن رہتے ہیں اور عام دیکھے اور محسوس کیے ہوئے حسن سے کہیں بلند اور عظیم تر حسن اور اس حسن کی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں ۔ کنتک (KUNTAKA) نے واکروکتی(VAKROKTI) کی اصطلاح استعمال کی اور شبدوں کی دل میں اُتر جانے والی کیفیتوں کا احساس دلایا۔ شاعری کی زبان اور اس کی ’ڈکشن‘ کو عام بول چال کی زبان سے مختلف بتایا۔ زبان اور ڈکشن کے حسن کو فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کے پیشِ نظر دیکھنے پر اصرار کیا۔ اس طرح تخلیقی عمل اور فنکار کی شخصیت، موضوع یا تجربہ اور اسلوبِ بیان کے ساتھ توجّہ کا مرکز بن گئی۔ کھیمندر (KSHMENDRA) ممٹؔ(MAMMATA) وشنو ناتھؔ دیو(VISHVANATHDEVA) جگن ناتھؔ (JAGANNATH) سب ’شبد‘ کے حسن پراظہارِ خیال کرتے ہیں لیکن ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اظہار کے حسن کو تجربے کے حسن سے علیٰحدہ کر کے دیکھتا ہو۔

’النکاروں‘ پر جو گفتگو ملتی ہے وہ تخلیقی تجربوں سے رشتہ رکھتی ہے۔ ’رس‘ کے ہمہ گیر تصوّر کو پاتے ہی موضوع اور اظہار کا فرق ختم ہو گیا۔ ’تجربہ‘ ’رس‘ بن گیا اور ’لفظ ‘ کی تخلیق اور اس کے انتخاب کا معاملہ پورے تخلیقی عمل میں شامل ہو گیا۔ ’النکاروں‘ کو لفظی بازیگری سے تعبیر کرنے والے بعض لوگوں کا ذہن وشنو ناتھؔ دیو نے بالکل صاف کر دیا۔ جنوبی ہند کے اس بڑے اچاریہ نے ۱۵۹۸ء میں سنسکرت کی بوطیقا کا دامن وسیع کر دیا۔’’ ساہتھ سدھا سندھو‘‘ اُن کی معروف تصنیف ہے جس کے کئی نسخے محفوظ ہیں۔ غالباً ابھی تک یہ کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ ممٹ کاویہ ’’پرکاش‘‘ اور وشنو ناتھ کے ’’ساہتھ درپن‘‘ کی طرح ساہتھ سندھو‘‘ بھی ایک اہم کارنامہ ہے۔ وشنوؔ ناتھ دیو نے سولہویں صدی کے کم و بیش تمام انتقادی نظریات و تصوّرات کا جائزہ لیا ہے اور بعض قدیم اچاریوں سے اختلاف بھی کیا ہے، اختلاف کرتے ہوئے انہیں غلط فہمی بھی ہوئی ہے۔ مثلاً ’شبد‘ اور ’ارتھ‘ کی شاعری کو دو مختلف قسم کے شعری تجربوں سے تعبیر کرتے ہوئے بھامہؔ، اوبھٹؔ، آنند وردھنؔ اور ممٹؔ سے خواہ مخواہ اختلاف کیا ہے حالاں کہ ان اچاریوں نے ’شبد‘ اور ’ارتھ‘ یا ’شبدھ کاویہ‘ اور ارتھ کاویہ کو الگ الگ نہیں دیکھا ہے۔ وشو ناتھ دیو کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’اکھنڈ‘ (AKHANDA) کی اصطلاح استعمال کر کے لفظ اور تجربہ کی وحدت اور ’وی بھو’ انوبھو‘ ’ویاد بھو‘ پجاری بھو اور سیتھی بھو، کی آمیزش اور تجربہ اور مسرّتِ سرمدی کی وحدت کا احساس انتہائی گہرا کیا ہے۔ تخلیقی عمل کی پُراسرار کیفیت پر نظر رکھی ہے اور شاعری کی عظمت کا احساس عطا کیا ہے۔ جمالیاتی انبساط اور مسرت سرمدی کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ شاعری کا بنیادی مقصد جمالیاتی انبساط عطا کرنا ہے۔ جمالیاتی انبساط کا تصوّر بھی انتہائی ارفع، اور جمیل تر اور جلیل تر ہے۔ مسّرتِ سرمدی کے لیے انہوں نے ’برہماؔ نند سہودر (BRAHMA NANDA SAHODARA) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جو انتہائی غیر معمولی جمالیاتی انبساط یا ’ آنند‘ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ وشو ناتھؔ دیو نے ’شبد‘ کی جگہ ’واکیہ‘ کے استعمال کو پسند کیا ہے اور فکری طور پر دانڈی (DANDI) اور وشو ناتھ سے قریب ہو گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عام معمولی جملے یا ’واکیہ‘ کو شاعری سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ شاعری تو وہ ہے جو ’واکیہ‘ میں فنکار کے احساس اور جذبے کے رنگوں اور روشنیوں کو لیے ہوئے ہو۔ وشو ناتھؔ دیو، لفظوں میں احساس جذبہ، تخیّل اور تجربے کی رمزی کیفیتوں کو شامل کر کے ’اظہار کے حسن ‘ کی عظمت بڑھا دئیے ہیں۔ ’’لفظوں کی آرائش و زیبائش ‘‘ کی کیا اہمیت ہے جب تجربے بے جان ہوں؟

٭٭

 

 

 

 

 

 

ہمیں اس حقیقت کا علم ہے کہ رقص ، موسیقی، مجسّمہ سازی اور تعمیر سازی کے لیے باضابطہ تربیت کا انتظام رہا ہے۔ اچاریہ اور گرو موضوع اور اظہار کے آہنگ کی وحدت کی باضابطہ تعلیم دیتے رہے ہیں۔ ہر فن میں اظہار کے حسن کو موضوع کے تعلّق سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ملتی ہے اور بلا شبہ ان فنون نے اعلی ترین تخلیقی نمونوں کو پیش کر کے موضوع اور اظہار کی وحدت کے حسن کو جلوہ بنایا ہے۔

شاعری میں اظہار کے حسن یا ’النکاروں‘ کا معاملہ یہ بھی ہے کہ تخلیقی آرٹ کے پیشِ نظر شاعری کے تعلّق ہی سے پہلے اظہار کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا گیا۔ جس کی روشنی دوسرے فنون نے بھی اپنے اپنے طور پر حاصل کی۔ کچھ بنیادی سوالات اُبھارے گئے جن میں مندرجہ ذیل دو سوالات بہت اہم ہیں:

(۱)        کیا شاعری یا کسی فن کے لیے ’اظہار‘ ایسا ہو کہ موضوع آئینے کی طرح چمکنے لگے یا اظہار موضوع کا آئینہ بن جائے۔؟

اور

(۲)       کیا شاعری یا کسی فن میں ’اظہار ‘ تجریدی صورت اختیار کر لے؟ کیا موضوع کا یہ تقاضا ہوتا ہے ؟ موضوع جو خود التباس کے پردے کو ہٹا کر سچّائی کا جلوہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح پیش ہو جائے؟ اس کے لیے عمدہ علامتوں اور استعاروں کی ضرورت نہیں ہے۔؟

سپاٹ اور واضح نقّالی اور حسّی جمالیاتی نقالی وغیرہ کے تصوّرات اسی بحث کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ بعض نقادوں کا ہجوم ہے۔ کیا یہ استعارے ہی تجربوں کی معنوی جہتیں پیدا کرتے ہیں؟ ’تجربہ‘ اور ’اظہار‘ کی وحدت کا معیار اتنا بلند ہے تو ظاہر ہے کہ اظہار کا حسن کسی بھی موضوع کی پیش کش کے لیے ضروری ہے۔ دونوں کی جمالیاتی وحدت ہی ’رس‘ دیتی ہے اور علم کے ساتھ جمالیاتی انبساط سے قریب کرتی ہے۔ موضوع کا تناسب (PROPORTION) اور اس کی اعتدال پسندی (MODERATION) آہنگ کے بہتر احساس کو اظہار کی صورت دیتی ہے یا اظہار موضوع کے تناسب اور اس کے اعتدال پسندی کو آہنگ عطا کرتا ہے۔ موضوع اور اظہار میں جب تک مناسب توازن نہ ہو اُس وقت تک آہنگ کا بہتر احساس بھی نہیں مل سکتا — اس قسم کے سوالات اُبھرے ہیں اور انہیں سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کے جوابات دیے گئے ہیں۔ یہ سوالات بہت قیمتی ہیں۔ تما م تکنیکی بحثوں سے الگ ہو کر اگر ہم صرف ان سوالوں پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ اچاریوں نے بعض بنیادی باتوں پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش کی ہے۔

کچھ لوگوں نے رس کو النکاروں پر فوقیت دی ہے اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ’النکاروں‘ کو ’رس پر فوقیت دی ہے۔ چند ایسے بہتر سوچنے والے ہیں جنہوں نے ’بھاؤ‘ ’وی بھاؤ‘ ’سنچاری بھاؤ‘ اور ’النکاروں ‘ کی وحدت کو اہمیت دی ہے۔ بھامہؔ (BHAMAHA) نے کاویہ النکار سوتر (KAVYALANKARA SUTARA) میں النکاروں کو رسوں پر فوقیت دی۔ اوبھٹ (UDBHATTA) جو کشمیر کے راجہ جیہؔ پد (۷۷۹ئ۔ ۸۱۳ء) کے دربار میں بڑے گیانی اچاریہ تھے۔ کاویہ النکار وِت (KAVYALANKARA VITTI) کے مصنف تھے (بد نصیبی ہے کہ اُن کا یہ کارنامہ گم ہو چکا ہے۔ ’’النکار سنگرہ‘‘ (ALANKARA SANGRAHA)  کا بھی ذکر ملتا ہے جس میں او بھٹؔ نے ’’اکتالیس النکاروں‘‘ کی تعریف و توضیح کی تھی، کہا جاتا ہے کہ بھامہ کے النکاروں میں انہوں نے خاصا اضافہ کیا تھا اور ’النکار شاستر‘ پر ان کے خیالات کے گہرے اثرات ہوئے تھے) انہوں نے بھی النکاروں کو شاعری کی آتما تصور کیا تھا۔ رودرات (RUDRATA)  کا تعلق بھی کشمیر سے تھا۔ راجہ شنکر ورمن (۹۰۰ء) کے دور میں کاویہ ’النکار‘ کی تخلیق کی جس میں سولہ ادھیہ میں شعریات پر اظہارِ خیال کیا۔ رودراتؔ نے ’النکار‘ کو ’رس‘ اور ’رِت‘ (RITI)  پر فوقیت دی۔ یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ اگر کسی نے ،النکاروں کو اہمیت دی ہے تو اس نے بلا شبہ ’النکار‘ کا ایک ایسا جمالیاتی تصوّر پیش کیا ہے کہ جس میں موضوع اور ہئیت اور تجربہ اور ’ڈکشن‘ ایک دوسرے میں جذب ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ بیسوی صدی میں النکاروں کے تصوّرات کی تشریح کرنے والوں نے کبھی کبھی لفظی بازی گری اور لفظوں کی آرائش و زیبائش کو اپنے ذہن کو آزاد نہیں کیا ہے۔

ہندوستانی جمالیات میں جس طرح ’وی بھاؤ‘ اور ’رس‘ کے جمالیاتی تصوّرات اپنی مثال آپ ہیں اسی طرح ’النکارؔ‘ رِتؔ، دھوِنؔ اور وکرورکتی (VAKROKTI)  وغیرہ بھی تہہ دار جمالیاتی تصوّرات ہیں اور اپنی مثال نہیں رکھتے۔ ہندوستان کے علمائے جمالیات نے ’شبد‘ کے جن گُنوں کا ذکر کیا ہے صرف انہیں پیشِ نظر رکھا جائے تو اظہار کے حسن پر اُن کی بے پناہ گہری نظر کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ اور تجربہ اور ڈکشن کے باطنی رشتوں کی پہچان ہو جائے گی ’شبد‘ معنی کی کثرت (شلیش) بھی ہے اور وجدانی اور حِسّی تجربوں کی برکت (پرساد) بھی۔ جلال (اوج) بھی ہے اور جمال (مادھریہ) بھی۔ ’شبد‘ کی ایک خوبی نرمی اور نزاکت (سکمارنا) ہے تو دوسری خوبی روشنی اور تابناکی (کانِت) ہے۔ ’شبد‘ استعارہ بھی ہے اور علامت بھی۔ مفاہیم کا اظہار (ارتھ ویکت) بھی ہے اور ارتکاز (سمادھی) بھی۔ مادھریہ (جمال) اور ارج (جلال) کے گن حیات و کائنات کے تمام تجربوں کو کھینچ لیتے ہیں۔ ہندوستان کے علمائے جمالیات نے شبدوں کے تصادم اور تکرار اور جمالیاتی انبساط پر بھی غور کیا ہے۔ ’’انپراس‘‘ ’’چھیکا نپراس‘‘  اور ’’لاٹانپراس‘‘ کی اصطلاحوں کی تشریح کی جائے تو لفظوں اور ان کی آوازوں کی تکرار اور معنوی تہہ داری سے جمالیاتی مسرت عطا کرنے اور جمالیاتی انبساط پانے کے نئے انداز کا علم ہو گا۔

تشبیہوں اور استعاروں کو تمام فنون میں اظہار کے حسن کی بنیادی قدر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کا انحصار داخلی تجزیے پر ہے اور داخلی تجزیہ خارجی حقیقت یا سچائی کے گہرے احساس ہی سے ممکن ہے۔ جب تک فن کار خارجی سچّائی یا اپنے تجزیے کے تئیں بیدار نہ ہو جائے۔ اظہار کے لیے داخلی تجزیہ نہیں کرسکتا اور مناسب تشبیہوں اور استعاروں کو منتخب نہیں کرسکتا۔ پورے تخلیقی عمل میں صِرف موضوع یا تجربہ فنکار کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ اظہار بھی پورے عمل میں صورت پذیر ہوتا رہتا ہے۔ ابتداء میں وجدان کا عمل جتنا بھی معمولی ہو آگے بڑھ کر تخلیقی عمل میں جمالیاتی وجدان ہی زیادہ متحرّک اور معنی خیز ہوتا ہے۔ اظہارِ حسن میں بھی فنکار کا جمالیاتی وجدان عمل کرتا رہتا ہے۔ فنکار کا رویّہ زیادہ اہم ہے۔ جیسا رویّہ ہو گا عمل بھی اسی نوعیت کا ہو گا۔جمالیاتی وجدان کو ہمیشہ کائناتی اور آفاقی تصور کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ تخلیقی فنکاروں نے اپنی اعلیٰ تخلیقات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ موضوع اور اظہار کی وحدت جمالیاتی وجدان کا کرشمہ ہے۔

تشبیہہ ہو یا استعارہ جمالیاتی وجدان سے ہم آہنگ ہو کر جہاں یہ لا محدود معنویت عطا کرتا ہے لامتناہی اور لامحدود آہنگ سے بھی آشنا کرتا ہے۔ اپنے بزرگ اچاریوں کے نزدیک اس طرح اظہار خود حسن بن جاتا ہے جسے موضوع سے علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تخلیقی آرٹ میں’ وحدت پہلے ہوتی ہے اس کے بعد اس کی جہتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ ان دونوں میں ’النکار‘ موضوع سے جذب ہو کر جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی مسرّت عطا کرتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم اچاریوں کی نظر اس بات پر رہی ہے کہ وحدت کے حسن کو کس طرح ظاہر کیا جائے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’النکاروں‘ اور دھون (DHAVANI) پر مسلسل اظہار خیال کیا ہے۔

’النکار‘ دھون یا مجموعی طور پر اظہار کے حسن پر غور کرتے ہوئے لاشعوری کیفیتوں پر بھی نظر گئی ہے۔ قدیم ترین علامات اور استعارات (RUPAKA) لا شعور ہی سے متحرّک ہو کر شعور میں آتے ہیں اور نئے تجربوں کی معنویت پھیلا دیتے ہیں۔ اُن کی موجودہ صورتوں کو تہہ دار اور جہت دار بنا دیتے ہیں۔ بعض موضوعات بظاہر خوبصورت نہیں ہوتے لیکن لا شعور کی علامتوں اور استعاروں سے حسن کا جلوہ بن جاتے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ فنکار تخلیقی عمل میں ایسے موضوعات کے ساتھ ایک پُر اسرار سفر کرتا ہے اور شعوری اور لا شعوری علامتوں اور استعاروں کے ردّ و قبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب ایسے موضوعات کو مناسب ’النکار‘ مل جاتے ہیں تو صرف جمالیاتی تجربے ہی سامنے ہوتے ہیں۔

اظہار کے حسن کے معاملے میں ہندوستانی اچاریوں کی نظر فطرت کے حسن و جمال، اُن کی وحدت اور وحدت کے آہنگ کے ساتھ فطرت کے تضادات پر بھی رہی ہے۔ تخلیقی فنکار جہاں فطرت کے حسن و جمال اور اُن کی وحدت کے آہنگ سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ وہاں ان کے تضادات کو بھی اپنے اظہارِ بیان سے دُور کرتا ہے جہاں حسن کی کمی ہوتی ہے وہاں اُس کی تکمیل کر دیتا ہے۔ فطرت کی خوبصورت علامتوں کو زیادہ پُر کشش، دلفریب اور دل افروز بنا دیتا ہے جب تک وہ اپنے تجربوں کو علامتوں اور استعاروں کے حسن کے ساتھ پیش نہیں کرے گا۔ کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ مثلاً سمران (SAMRANA) یادوں کے سلسلے کو پیش کرنے کا خوبصورت انداز ہے جو اظہار بن جاتا ہے۔ اس انداز اور حسن کے اس اظہار کو سمران النکار (SAMRANA ALANKAR)  کہا گیا ہے۔ صرف یادیں نہیں ہوتیں جو متاثر کرتی ہیں بلکہ باطن کی بہت سی آرزوؤں اور تمنّاؤں کی پرچھائیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو بہتر جمالیاتی اظہار کا تقاضا کرتی ہیں۔ کنول کو دیکھ کر محبوب کو یاد کرنا عام سی بات ہے لیکن اس کنول کو محبوب بنا دینا اور اس طرح یاد اور اظہار کی وحدت کو پیدا کرنا تخلیقی کارنامہ ہے۔ ’سمران النکار‘ کے تئیں بیداری ، فنکار کو لاشعور میں بھی لے جاتی ہے اور ’تلازمۂ خیال کے حسن کا احساس بھی دیتی ہے۔ لاشعوری علامات و استعارات کے تحرک کا انحصار فن کار کے اس رویّے پر ہے۔

لفظ حرکت، رنگ، لکیر، اور ، آہنگ، وغیرہ حسّیات کے حسّی نقوش  (PATTERNS) سے رشتہ رکھتے ہیں، ان کی وجہ سے حسّی کیفیتیں عکس پذیر ہوتی ہیں اور جمالیاتی صورتیں اختیار کرتی ہیں۔ ہندوستانی علماء نے اسے پری نام النکار (PARINAMA ALANKAR) کے تئیں فنکار کی بیداری سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح حسن اور حیرت کے حسن سے جو خواب جنم لیتے ہیں اُن کا رشتہ بھی حسیّات کے حسّی نقوش سے ہے۔ دیکھے ہوئے اور محسوس حسن کے پیکر تخلیقی عمل میں نئی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں۔ اچاریوں کا خیال ہے کہ فنکار جب تک اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ’’وِبھاون النکار‘‘ (VIBHAVANA ALANKAR) کے تئیں بیدار نہیں ہوتا یہ جلوہ نہیں بن سکتے۔ موجود فنّی تخلیقات کے پیشِ نظر اچاریوں نے اظہار کی مختلف صورتوں کو مختلف نام دیے ہیں۔ ان سے بلا شبہ اظہار کے حسن کی جہتوں اور پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

ہندوستانی جمالیات کے پیشِ نظر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اظہار کے حسن کا معاملہ یہ ہے کہ فنکار اس کائنات میں اپنی ایک طلسمی دُنیا خلق کرتا ہے۔ کائنات کی جن سچّائیوں کا اُسے شعور حاصل ہوتا ہے اُن سچّائیوں کی جمالیاتی تصویریں خلق کرتا ہے۔ چوں کہ کائنات کِسی نہ کسی سطح پر دوسروں کا بھی تجربہ ہے اس لیے ان تصویروں سے دوسروں کو بھی جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اپنی دنیا خلق کرنے کی صلاحیتیں یوں تو سب میں ہوتی ہیں اسے طلسمی بنانے اور حسن کی صورت دینے کے لیے جس پُر اسرار تخلیقی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ کام صرف تخلیقی فنکار ہی کرسکتا ہے۔ اس عمل ہی میں طلسم کے پیشِ نظر صورتوں کی تخلیق ہوتی رہتی ہے۔ علیٰحدہ کسی موضوع پر کوئی صورت لگائی نہیں جاتی۔ رنگوں اور آوازوں کی حسیّات کو بیدار اور متحرّک رکھنے کا عمل چوں کہ تخلیقی عمل میں شامل ہوتا ہے اس لیے اظہار کی صورتوں میں رنگوں اور آوازوں کا عمل ابتدا سے آخر تک جاری رہتا ہے۔

اچاریوں نے اظہار کے حسن پر غور کرتے ہوئے ایسے حسن پر بھی گہری نظر رکھی ہے جس سے فنکار ذہن کو زندگی کے تضادات اور ہیجانات سے نکال کر فنّی تصویروں کی صورتوں سے قریب کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’آسن گت النکار‘‘ (ASANGATI ALANKAR) کے تئیں بیداری ضروری ہے۔ فنکار کا ذہن کسی واقعے یا کسی کردار کی تخلیقی تصویر بناتا ہے اور اس تصویر کی لکیریں اور اس کے رنگ رشتہ بن جاتے ہیں۔ لکیر، خاکہ، رنگ سب کی ایک بے وحدت کی صورت اختیار کرنے لگتے ہیں۔ واقعہ یا کردار اصل حقیقت سے الگ تخیّلی بن کر متاثر کرنے لگتے ہیں۔ تصویریت جلوہ بن جاتی ہے اور جمالیاتی انبساط عطا کرنے لگتی ہے۔ ’’آسن گت النکار‘‘ نے یہ شعور بخشا کہ ’حسن‘ اپنے طور پر مکمل ہے اور اسے بڑی آسانی سے اس حقیقت سے علیٰحدہ کر کے محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس سے جمالیاتی مسرّت حاصل کی جا سکتی ہے جس کے گہرے تاثر سے اس نے جنم لیا ہے۔ قدروں کی فطرت کے مطابق حقیقتوں کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں لیکن حسن ان سے بے نیاز ہے، جب بھی کوئی قدر آرٹ میں جلوہ بن جاتی ہے تو اس کا حسن جنم لیتا ہے اور یہ حسن پھیل کر دوسری قدروں کا احساس بھی دینے لگتا ہے۔ صرف اسی قدر میں سمٹ کر نہیں رہ جاتا۔

کوئی جذبہ مناسب لفظوں میں اس طرح مجسّم ہو جائے کہ ’الفاظ‘ کو اُن سے علیٰحدہ نہ کیا جا سکے اور الفاظ جذبے کی صورت اختیار کر لیں تو ایسے النکار کو ’’وشیش النکار‘‘ (VISHESA ALANKAR) کہا جاتا ہے۔ جذبہ غم کا ہو یا مسرّت کا، حیرت کا ہو یا غصّے کا، مناسب الفاظ پیش کیے ہوئے جذبے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اظہار کا حسن جو موضوع اور تجربے کے حسن کا جلوہ ہوتا ہے ’رس‘ عطا کرتا رہتا ہے اور اس طرح جمالیاتی مسرّت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ ’رس‘ اور ’آنند‘ دونوں اظہار کے حسن سے وابستہ ہیں۔ اُن ’النکاروں‘ سے ان کا رشتہ ہے جن کے تئیں فنکار یا شاعر بیدار ہوتا ہے اور بیداری کے بعد جن کا احساس مختلف انداز سے دلاتا رہتا ہے۔ سچّائی اور جمالیاتی حسن کے فرق کی پہچان اظہار کے حسن سے ہوتی ہے۔ اس حسن میں تصویر، لذّت، رنگ اور آہنگ وغیرہ کے احساس و شعور کے لیے پھیلی ہوئی زندگی سے الگ ہونا ہی پڑے گا۔ فن یا فنّی تخلیقات میں اندیشوں یا سندھے (SANDEHA) سے قریب ہو کر ہم شک و شبہے یا اندیشوں کے تجربوں کے اظہار کو جس طرح پاتے ہیں وہ عام زندگی میں نہیں پاتے ۔ ’سندھے‘ (SANDEHA) سے قریب ہو کر ہم شک و شبہے یا اندیشوں کے تجربوں کے اظہار کو جس طرح پاتے ہیں وہ عام زندگی میں نہیں پاتے۔ ’سندھے‘ (SANDEHA) جمالیاتی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اظہار کا حسن، بدصورتی اور المیہ کو بھی حسن میں تبدیل کر دیتا ہے مشاہدے کے بعد درون بینی کا عمل جاری رہتا ہے۔

اچاریوں نے رویّوں اور امتیازی ذہنی کیفیتوں کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اُن کی جہتوں کو مختلف انداز سے پہچاننے کی کوشش کی ہے اور ہر انداز کو ایک نام دیا ہے۔ مثلاً فنون میں عام بیان بھی کبھی کبھی دل کو چھو لیتا ہے۔ اس انداز کو سواہاب وکتی (SWABHAVOKTI) کہا گیا ہے اور لفظوں، علامتوں اور استعاروں کا مطالعہ ’’آتش یوکتی النکار ‘‘ (ATISHAYOKTI) کی خصوصیت کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ اس طرح جہاں ذہنی کش مکش اور یادوں کا سلسلہ ہے وہاں امتیازی ذہنی کیفیت اور فنکار کے بنیادی رویّے سے سامنے آئے ہوئے پیکروں اور استعاروں کو ’سمارن‘ کہا گیا ہے اور ان کے حسن کو بھرنتیمان (BHARANTIMANA) النکار کی خصوصیتوں کے پیشِ نظر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تلازموں کے لیے ،وی نوکی (VINOKI) یا سہوکہتی (SAHKOTI) کے معیار کو سامنے رکھا گیا ہے۔ الفاظ اور عقلی دلائل وغیرہ کے تجربوں کے اظہار کو ’انو مان‘ کی خصوصیتوں کے پیشِ نظر دیکھا گیا ہے۔

یہ سب موضوع کے تعلّق سے جمالیاتی اظہار کی جہتوں کے مختلف نام ہیں جن کی خصوصیات پر ہندوستان علمائے جمالیات نے اظہارِ خیال کیا ہے۔

اظہار کے حسن پر بھی غور کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ موضوع کے ’رس‘ کو دوسروں تک لے جانے کا یہی واحد ذریعہ ہے لیکن اسے کسی لمحہ موضوع سے علیٰحدہ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اس کا فنّی اور تنقید تجزیہ کرنا اُسی وقت ممکن ہے جب موضوع بھی پیش نظر ہو۔ تشبیہات، استعارات، علامات اور تلازمات کو مطالعے کے لیے علیٰحدہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سب موضوع کے آہنگ کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنے طور پر یہ علاحدہ موضوع نہیں ہوسکتے۔ ’رس‘ کے سرور و انبساط کا رشتہ موضوع اور فارم کی وحدت سے ہے۔ موضوع حقیقت یا سچّائی اور اسلوب ، فارم یا ہئیت کی گہرائیوں کا شعور دیتے ہیں۔ وجود کی گہرائیوں کو ’’برہما نند سہودر‘‘ (BRAHMANAND SAHRDARA) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ برہما کی آماجگاہ ہے۔ جہاں آنند کا سرچشمہ ہے۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں فنکار کے جمالیاتی تجربوں اور موضوع اور اظہار کے حسن کا معیار کیا ہے۔ موضوع کے ساتھ اظہار کا حسن بھی ’’برہمانند سہودر‘‘ سے رشتہ رکھتا ہے فنون کی تمام تکنیک کا گہوارہ بھی یہی ہے۔ اچاریوں کے نزدیک فنّی تخلیق کا معیار اتنا بلند ہے کہ اسے ’’پراتیو شکتی‘‘ (PRATIVA SAKTI) کا اظہار کہا گیا ہے اس لیے کہ اس کی کوئی میکانکی صورت نہیں ہوسکتی۔ ’’پراتیو شکتی‘‘ سے تخلیقی ہیجان اور جمالیاتی وجدان (DARSANA) میں زبردست تحرّک پیدا ہوتا ہے اور جب کوئی افضل ترین تخلیق ہو جاتی ہے تو اس کی حیثیت پراتیو شکتی ہی کی ہوتی ہے ۔ فن میں جمالیاتی وجدان یا درسن کی پہچان ’ہرنام‘ (HARNAMA) سے ہوتی ہے جو تخلیق کی جمالیاتی صورت بھی ہے اور مختلف جمالیاتی پہلوؤں کا معنی خیز اشارہ بھی۔ اظہار کا حسن ’بھاؤ‘ اور ’رس‘ کے احساس کو تیز سے تیز تر کرتا رہتا ہے اور فنکار کا بنیادی رویّہ اظہار کے حُسن سے ’رس‘ اور ’دھون‘ (DHAVANI) کا احساس عطا کرتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

اظہار کے حسن‘ کے سلسلے میں ایک معنی خیز اصطلاح دھونی (DHAVANI) استعمال ہوئی ہے۔ ابھینو گپت نے اِس اصطلاح کو بڑی معنویت بخشی ہے۔ اس اصطلاح کا تعلّق جہاں شعری لسانیات سے ہے وہاں ’فارم‘ یا صورت کی جمالیات سے بھی گہرا ہے۔ ہندوستانی اچاریوں کے لیے شعری لسانیات ایک بنیادی موضوع رہا ہے اور اس اصطلاح کا استعمال عموماً اسی کے تعلّق سے ہوا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی معنویت پھیلتی گئی ہے اور لفظوں، تشبیہوں اور استعاروں کے آہنگ کا مطالعہ بھی اس کے ذریعہ ادبی تنقید میں شامل ہو گیا ہے۔

دھون یا دھونی کے معنی ہیں آواز اور آواز کی گونج، کلام کا آہنگ، لفظوں کی گونج اور اُن کے ارتعاشات، کہ جن کے ذریعہ ’رس‘ اور ’آنند‘ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح بھی محض ’فارم‘ یا ’صورت‘ تک محدود نہیں ہے۔ ارتعاشات اپنی غنائیت کے ساتھ موضوع کی رمزی کیفیتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ ’دھون‘ یا ’دھونی’ ایسی غنائی آواز ہے جو موضوع کے اِشارتی مفاہیم کو مختلف آہنگ کے ساتھ پیش کرتی ہے جو ’شبد‘ سامنے ہوتے ہیں وہ اپنا باطنی آہنگ بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا غنائی آواز باطنی آہنگ سے آشنا کرتے ہوئے اشارتی مفاہیم تک لے جاتی ہے۔ آواز، گونج ، آہنگ اور غنائیت جمالیاتی اشاروں کی صورتیں اختیار کر کے ذہن کو مفاہیم کی جمالیاتی جہتوں تک لے جاتی ہیں۔ کلام کی نغمگی قاری اور فن کا رشتہ بن جاتی ہے۔ علمائے جمالیات نے لب و لہجے کی اہمیت واضح کی اور یہ بتایا کہ دھون یا ’دھونی‘ رشتے کا ذریعہ بھی ہے اور موضوع کا آہنگ بھی۔ احساسات کے زیر و بم اور ان کے آہنگ زیادہ توجّہ طلب بن گئے۔ جو الفاظ سامنے ہیں وہی سب کچھ ہیں۔ اُن کے آہنگ یا اُن کی غنائی کیفیتوں سے رشتہ قائم کیا جائے تو رمزی کیفیتوں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ نیز موضوع کے آہنگ سے احساساتی اور جذباتی رشتہ قائم ہو گا۔ دھون سدھانت کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ شعری لسانیات اور تجربے کی جمالیاتی کیفیتوں کی اہمیت زیادہ ہو گئی۔ تخلیق کی طلسمی جمالیاتی فضا توجّہ طلب بن گئی۔ دھون سدھانت نے رس اور آنند پانے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا ایک تازہ تصوّر دیا جو ہندوستانی جمالیات میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتا ہے۔

’دھون‘ سدھانت کو شدّت سے قبول کرنے والوں نے یہاں تک کہا کہ شاعری جذبہ یا اسلوب نہیں بلکہ ’لہجہ‘ ہے۔ مقصد یہی تھا کہ لہجہ یا لہجے کا آہنگ جو لفظوں کی غنائیت کی دین ہے شعر کے حسن تک لے جاتا ہے۔ لفظوں کی غنائیت موضوع کے حسن کی دین ہے لہجہ موضوع کے حسن اور اظہار کے حسن کا نتیجہ اور ان کی وحدت کی علامت ہے۔ آنند وردھنؔ، ممٹؔ، ابھینو گپتؔ وغیرہ نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ تمام غنائی اشارے جذبات اور محسوسات کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی فطرت میں جذباتی اور محسوساتی ہوتے ہیں۔

’دھونی سدھانت‘ کی ابتداء لفظ و معنی کے مطالعے سے ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ ’رمز اور ’رمز بلیغ نے اس مطالعے کو شعریت اور دوسرے فنون تک پہنچادیا۔ رمزیت اور اشاریت کی جمالیات موضوع بن گئی۔ ادبی تنقید نے اسے اِس طرح اپنایا کہ قواعد نویسوں نے اس سدھانت کی جانب پھر گھوم کر نہیں دیکھا۔ نقّادوں نے آواز اور آہنگ کے جوہر کو فنکار کی تخلیقی فکر اور موضوع کے تعلّق سے پانے کی کوشش لفظ اور لفظ کے رشتے کی قوّت اور اس سے اُبھری ہوئی معنویت توجّہ طلب بن گئی۔ مصرعوں اور جملوں کے ذریعہ موضوع، پیکر یا امیج اور جذبے تک پہنچنے کی کوشش کی گئی۔ رمزیت یا اشاریت کو احساس اور جذبے کی صورتوں سے تعبیر کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ اشاریت یا رمزیت کا اظہار دو طریقوںسے ہوسکتا ہے۔ الفاظ استعاروںکی صورتوں میں جلوہ گر ہوں یا عام تجربوں میں ہیئت کی تبدیلی ایسی ہو کہ یہ تجربے جاذبِ نظر بن جائیں۔ جب الفاظ استعاروں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو رمزیت بہت گہری ہو جاتی ہے۔ آنند وردھنؔ (نویں صدی) کے دھونی آلوک (DHVANYA LOKA) نے جہاں ’دھونی‘ کو ایک معنی خیز ادبی اصطلاح کی معنوی جہتوں کو اور نمایاں کر دیا۔ اچاریوں نے دھونی کو اس طرح سمجھانے کی کوشش کی کہ الفاظ کنول کے سیکڑوں خوبصورت پھولوں کی مانند ایک جاذبِ نظر ہار بن جاتے ہیں جو ہار گوندھنے والے کے احساسات اور جذبات کے آہنگ کو لئے استعاروں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں۔ جذبات اور احساسات کا مطالعہ، ان استعاروں کا مطالعہ ہے اور ان استعاروں کا مطالعہ احساسات اور جذبات کا مطالعہ ہے۔ لفظوں کی گونج ذات کے ارتعاشات کو پیش کرتی ہے۔ یہ گونج آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا جمالیاتی احساس عطا کر کے ’رس‘ سے آشنا کرتی ہے اور آنند یا جمالیاتی مسرّت دیتی ہے۔

دھونی سدھانت کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ شاعری کو ’چتر‘ یا تصویر سمجھنے والے اس سچائی پر غور کرنے لگے کہ ’چتر‘ یا تصویر کا تصوّر رمزیت یا اشاریت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ حسن ہی کیا جو رمزیت یا اشاریت سے عاری ہو۔ حسن کی معنوی جہتیں بھی ہوتی ہیں اور اس کے اپنے ارتعاشات بھی ہوتے ہیں ’چتر‘ کے آہنگ کو پا لیا جائے تو اس کی رمزیت کو بھی پایا جا سکتا ہے جس طرح آہنگ ’رمز‘ کو پانے کا ذریعہ ہے اسی طرح ’رمز‘ آہنگ کو پانے کا ذریعہ ہے۔ اس تصوّر نے مختلف جمالیاتی اسالیب کے مطالعے میں بڑی مدد کی۔ جمالیاتی اسالیب کا مطالعہ فنکاروں کے مختلف احساسات اور جذبات پیشِ نظر ہونے لگا اور لفظوں کا آہنگ اور ان کی استعاراتی صورتیں مددگار ثابت ہوئیں۔ اچاریہ ممٹ نے ’دھونی سدھانت‘ کے تصوّر کو نقطہ ٔ  عروج پر پہنچا دیا۔ انہوں نے تخلیقی فنکار کے ذہن اور پورے تخلیقی عمل کو بڑی اہمیت دی۔ یہ بتایا کہ بہتر تخلیقی صلاحیتوں کے بغیر استعاروں کی تخلیق نہیں ہوسکتی۔ نیز اشاریت یا رمزیت اور لفظوں کا آہنگ جنم نہیں لے سکتا۔ تخلیقی فنکار کا ذہن موضوع کو پا کر لذّت آمیز کرب کا شکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں کُشادگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذہن پھیلتا ہے (VISTARA)  موضوع کا جوہر جس کا تعلق عشق سے ہو یا المیہ سے زندگی کی تلخی سے ہو یا اس کی شیرینی سے پگھلنے لگتا ہے۔ اس طرح تخلیقی فنکار یہ محسوس کرتا ہے جیسے خود اس کا ذہن پگھل رہا ہے اس عمل کا آہنگ لفظوں کی تلاش کرتا ہے۔ الفاظ مل جاتے ہیں تو ان کے انتخاب کا سلسلہ قائم ہوتا ہے لفظوں کے آہنگ کو مناسب پا کر الفاظ منتخب ہو جاتے ہیں اور آہنگ کی وحدت سے جمالیاتی تجربے سامنے آنے لگتے ہیں اور تخلیقی ذہن کی توسیع کے احساس کے ساتھ یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ فنکار کا احساس اپنے آہنگ کے ساتھ لفظوں اور استعاروں میں سرایت کر گیا ہے۔

اچاریہ ممٹؔ کی ’’کاویہ ؔپرکاش‘‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی کم و بیش پچاس تشریحیں دریافت ہو چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’کاویہ پرکاش‘‘ کو ادبی تخلیق سمجھ کر پڑھا گیا ہے اور اس کے نسخوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ بھامہ نے النکار کے تصوّر کو اہمیت دی اور ساتویں صدی میں وہ اپنے اعلیٰ تنقید افکار و خیالات کے ساتھ ایک مستقل عنوان بن گئے۔ اوبھٹ (آٹھویں صدی) اور رودرٹ (دسویں صدی) نے بھامہ کے النکار کے تصوّر کو صرف قبول نہیں کیا بلکہ اس میں نئی معنوی جہتیں بھی پیدا کیں اور اپنے نقش چھوڑ گئے۔ وامنؔ (نویں صدی) نے ’ریتی‘ کا جمالیاتی تصوّر پیش کیا اور اسالیب کے مطالعے کے لیے نئی راہوں کا تعیّن کیا آنند وردھن (نویں صدی) نے رمزیت اور اشاریت پر سیر حاصل گفتگو کی اور ’رمز‘ کو شاعری کی روح قرار دیا۔ ابھینو گپت (دسویں گیارہویں صدی) نے رمزیت اور اشاریت کی جمالیاتی خصوصیتوں کو اس طرح اہمیت دی کہ تخلیقی فنکار کے احساس اور جذبے کو اشاروں اور استعاروں کے علیٰحدہ کر کے دیکھنے والے اور استعاروں کو جذبے اور احساس سے الگ کر کے گفتگو کرنے والے حیرت زدہ رہ گئے۔ اچاریہؔ ممٹ (۱۰۵۰ء۔۱۱۰۰) نے ’’کاویہ پرکاش‘‘ میں دھونی کے تصوّر کو صرف تصوّر یا نظریے کی صورت میں پیش نہیں کیا بلکہ ۱۴۳ اشعار کی تشریحیں بھی کیں اور ان کا تنقیدی جائزہ لے کر عملی تنقید کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ ’دھونی سدھانت‘ ایک واضح انتقادی تصور کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔

’’کاویہ پرکاش‘‘ جو دس ابواب میں منقسم ہے۔ جمالیاتی تنقید کی تاریخ میں ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتداء میں منتخب اشعار (کارکائیں) ہیں جو اچاریہ ممٹ کے بہتر انتقادی شعور کو واضح کرتے ہیں۔ ان کے بعد ان اشعار کی تفسیریں ہیں جو ناقد کی جمالیاتی فکر و احساس کی غمّاز ہیں۔ ’شبد‘ اور آہنگ اور رمزیت اور اشاریت کے رموز پر گہری نظر ملتی ہے۔ تجزیاتی انداز متاثر کرتا ہے۔ اچاریہ ممٹ نے آنند وردھن کے تصورِ رمز سے بہت کچھ حاصل کیا ہے لیکن اپنی بے پناہ انفرادی فکر سے زیادہ متاثر کیا۔ اچاریہ ممٹ نے کہا ہے کہ لفظ و معنی کی وحدت کے بغیر شاعری کا کوئی تصوّر پیدا نہیں ہوسکتا۔ الفاظ نگینے بن جائیں محض آرائشی نہ ہوں، لفظ اور احساس کی وحدت کی پہچان ہوتی رہے۔ آرائش و زینت شاعری میں ہوتی ہے لیکن وہ خارجی نہیں باطنی ہوتی ہے۔ لفظوں کا بہتر انتخاب اور ان کی معنوی تہیں اور جہتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ شعر کا بہتر تاثر اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ حسن کا احساس بالیدہ نہ ہو۔ حسن کا بالیدہ احساس ہی اظہار کے حسن کا ضامن ہے۔ تجربے کارس ہی شبدوں کا رس ہے جب تک ’رس‘ اور آنند حاصل نہ ہو اُس وقت تک شعری تجربہ ناقص ہے۔ لفظی مفاہیم اعلیٰ شاعری کو سمجھنے میں مدد نہیں کرتے۔ رمزی معنویت پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ اچاریہ ممٹ نے جہاں شاعری یا فن کی عظمت کی نشان دہی اس طرح کی وہاں انہوں نے قاری کے جمالیاتی شعور کی عظمت کی جانب بھی اشارے کیے۔ یہ خاموش اشارے دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں۔ فن کی رمزیت کو سمجھانے کے لیے ایسے ذہن کی بھی ضرورت ہے جو رمز اور ان سے وابستہ احساس اور جذبے کی جمالیاتی سطح کو سمجھ سکے۔ اچاریہ ممٹ کے تصوّر کا تقاضا یہ تھا کہ لفظوں کے ساحر شعراء اور شاعری کو لفظوں کی ساحری تصوّر کرنے والے اشاروں ، کنایوں اور رمزی کیفیتوں کی جمالیاتی خصوصیتوں سے آگاہ ہو جائیں۔

اظہار کے حسن کے تعلّق سے اچاریہ ممٹ کا جمالیاتی تصوّر اپنی آپ ہے۔ جدید عہد میں اس کی ہمہ گیر معنویت دعوتِ غور و فکر دیتی ہے۔ ’دھونی‘ (DHAVANI) کی اصلاح تمام فنون کے اظہار کے حسن کو اپنے دائرے میں کھینچ لیتی ہے۔ آٹھویں صدی عیسویں کے بعد علمائے جمالیات نے اسے شعری مسئلہ تصوّر کیا اور پھر رفتہ رفتہ اس اصطلاح کی معنویت نے تمام فنون کو اپنے دائرے میں لے لیا۔ اظہار اور اس کے حسن کی جہتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں تہہ داری پیدا کی گئی۔ ابتداء میں لفظ اور اس کی معنوی جہت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پھر دوسرے فنون کے استعاروں اور ’امیجز‘ (IMAGES) اور ان کی جہتوں کے مفاہیم بھی شامل ہو گئے۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے بھٹ نائک نے اشاریت اور رمزیت کی مخالفت کی تھی۔ یہ بات غلط ہے، ان کی تصنیف ’’ہردیہ درپن‘‘ (HRDAYADARPANA) کے گم ہو جانے سے اس قسم کی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ بعض حوالوں سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اظہار کے حسن کے متعلق اُن کا اپنا منفرد تصوّر یا نظریہ تھا۔ لفظوں کے اثرات اور تاثرات پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔ ’بھاوکتو‘ (BHAVAKATVA) کے پیشِ نظر انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ شاعری یا ڈرامے میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جو آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں ، دراصل ان کے پیشِ نظر ڈرامے کا فن تھا اور وہ ڈراما اور عوام کے رشتے کو آسان لفظوں اور جملوں یا مکالموں سے قائم دیکھنا چاہتے تھے۔ ناٹیہ ’شاستر‘ (NATYA SASTRA) ان کے مطالعے کا خاص موضوع رہا ہے۔ اس کی تشریحیں کرتے ہوئے ڈرامے میں اظہار کے حسن کے مسئلے کو اپنے طور پر دیکھا ہے۔ موضوع اور اظہار کی ہم آہنگی کے قائل تھے اور جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط کا ایک واضح تصوّر رکھتے تھے۔ اُن کا خیال یہ تھا کہ ڈراما نگاروں اور فنکاروں میں عام فہم اور آسان جملوں اور مکالموں کی پیش کش کی ایسی صلاحیت ہو کہ الفاظ پگھل کر، پھیل کر ناظرین کے ذہن کو وسیع کر دیں کچھ اس طرح کہ ’بھاوکتو‘ کی خصوصیتوں سے ’بھوج اکنو (BHOJAKATVA)  کی قوّت کا احساس ہو اور ناظرین یا قارئین زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل کرسکیں ظاہر ہے بھٹ نائک اظہار کے حسن کا ایک خاص تصوّر رکھتے ہیں۔

اچاریوں نے جہاں لفظوں کے براہ راست تیز اثر (VICCHITTRI) اور تخیّلی اندازِ بیان (DHANGI-BHANITI)  پر غور کیا ہے، وہاں اظہار کے حسن کی اعلیٰ ترین سطح کا تصوّر کیا ہے جہاں شاعری بن جاتی ہے اور جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے۔ اعلیٰ ترین سطح کے حسن (LOKOTTARA VAICITRAYA)  کو دیکھنے، پانے اور محسوس کرنے کے لیے قاری کی تخلیقی صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

ابھینو گپت نے ’دھون‘ یا ’دھونی‘ کی اصطلاح کے پیشِ نظر اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ شعری اسالیب میں روحانی اقدار کی عظمت کا بھی احساس ملتا ہے۔ اس خیال کی معنویت اسی حد تک نہیں رہی بلکہ مختلف ذہنی تصویروں یاامیجز (IMAGES) کی نفسیاتی کیفیتوں کے مفاہیم بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس تصوّر پر غور کرتے ہوئے اس حقیقت پر نظر رہی کہ ابھینو گپت نے دراصل اس بات کا احساس دلایا ہے کہ شاعری کے پیکر حسّی سطحوں سے رشتہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ سب فنکار کی نفسیاتی یا حِسّی کیفیتوں کے تئیں بیدار کر دیتے ہیں۔

ماہم بھٹ نے ’دھونی‘ کو مفہوم ، خلاصہ، حاصل اور نتیجہ (ANUMANA) کی صورت میں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ الفاظ اور اُن کی رمزیت فوراً فنکار کے احساس کو ظاہر کر دے۔ ’احساس‘ اور ’مفہوم‘ ’نتیجہ‘ ’خلاصہ‘ یا ’حاصل‘ کے درمیان جگہ ہوتی ہے اسی میں مفہوم یا خلاصے کا عمل جاری رہتا ہے۔ قاری اس درمیانی جگہ کو پا لیتا ہے تو مفہوم کی بہتر پہچان ہوتی ہے اور وہ جمالیاتی سطح پر کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ ماہم بھٹ کو شکایت یہ ہے کہ ’دھونی سدھانت‘ کے اچاریوں نے شاعری کا کوئی معنی خیز تصوّر پیش نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کبھی کبھی فنکار کا احساس فریب دے جاتا ہے۔ اور جب احساس میں کوئی نقص ہوتا ہے۔ تو ’فارم‘ یا ’صورت‘ کی شکل بھی بگڑ جاتی ہے۔ الفاظ اور ان کی ’اشاریت‘ اور ’رمزیت‘ کی جانب فنکار کی غفلت کی پہچان ہو جاتی ہے۔

اچاریوں نے جہاں اسالیب کی مختلف صورتوں پر اظہارِ خیال کیا ہے وہاں تجربہ، احساس اور فارم، کے تعلّق سے بھی اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اُن کی نظر جہاں احساس اور جذبے کے تسلسل (CRNKHATA)  پر ہے وہاں احساس اور الفاظ کی نا مطابقت اور غیر مربوط رشتے (VIRODHA) پر بھی ہے۔ جہاں وہ لفظوں کی تشبیہہ، صورت، تصویر علامت اور مثال (SAMSRISTI) کو موضوع بناتے ہیں وہاں مختصر مصرعوں یا جملوں کی قدر و قیمت (VAKYANYAYA) کا بھی اندازہ کرتے ہیں۔ لفظوں میں ڈھلے ہوئے احساس کا تقابلی مطالعہ (AUPAMAYA) بھی کرتے ہیں اور تجربے اور فارم کی وحدت میں منطقی اسباب(NYAYA) کی بھی تلاش کرتے ہیں، عام علامتوں اور کہاوتوں (LOKANYAYA) کی رمزیت کی تلاش و جستجو کرتے ہیں اور خیال  اور صورت کی وحدت میں پوشیدہ، پُر اسرار احساس (GUDHARTHAPRATITI) کو بھی پانے اور محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہندوستانی جمالیات نے ’’صنائع و بدائع‘‘ ’’مقفیٰ اور مسجع مصرعوں اور فقروں لفظی صنعت، ’’مشکل گوئی، صنعت مطابقت‘‘ علامت نفی، صنعت طباق یا تضاد، ’’صنعت مبالغہ‘‘ اور ’’صنعت تکرار‘‘ وغیرہ کی اعلیٰ سطحوں کی نشاندہی کی ہے۔ اظہار کے حسن کے سلسلے میں ’’تشبیہہ (UPAMA) اور استعارہ (RUPAKA) صنعت مبالغہ (ATICAYOKTI) صنعت تفریق(VYATIREKA) تشبیہوں کے دہرانے کے عمل (UPAMEYOPAMA) تعریف (APRASTUTAPRACANSA) اور تقابلی مطالعہ یا مقابلہ (PRATIVASTU PAMA) ( جو صنعت تجرید کی خصوصیت سے قریب ہے) وغیرہ پر خاص نظر ملتی ہے۔ مثال یا نظر پیش کرنے کا عمل (DRSTANTA) شک و شبہہ کا اظہار کہ جس میں صنعت ابہام (SAMDEHA) کی خصوصیت موجود رہتی ہے۔ رومانی ذہن کی تبدیلی کہ جس میں صنعت رجوع (PRINAMA) بھی شامل ہے۔ یادوں کے تجربوں کے اظہار (SAMRANA) اور بعض تجربوں کی تفصیلی صورتیں (APAHUTI)بحث کا موضوع رہی ہیں۔

اظہار کے حسن پر غور کرتے ہوئے ’لفظوں‘ کی موت اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ مختلف طریقوں سے کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بھی پیشِ نظر رہا ہے کہ کیا ’الفاظ‘ صرف ایسے روایتی پیکروں کے تئیں بیداری عطا کرتے ہیں جو قاری کے ذہن میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتے ہیں؟– یا ’الفاظ‘ انوکھے، انفرادی اور نئے پیکروں کا احساس بھی دیتے ہیں؟ چونکہ یہ دونوں باتیں اہمیت رکھتی ہیں لہٰذا دونوں کو کسی نہ کسی طرح قبول کیا گیا ہے۔ شاعری میں ایسے پیکر بھی ہوتے ہیں جو اپنی تاریخ رکھتے ہیں اور جب شعری تجربے میں استعمال ہوتے ہیں تو قاری کے ذہن میں ان پیکروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور اکثر ایک تسلسل میں ان کی معنویت واضح ہوتی جاتی ہے اور ایسے الفاظ بھی ہوتے ہیں جو ضروری نہیں کہ روایتی پیکروں کے تئیں بیداری پیدا کریں۔ ایسے الفاظ ایک شخص کے ذہن میں جن پیکروں کو متحرّک کرتے ہیں وہ دوسرے شخص کے ذہن میں اُجاگر ہوئے پیکروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ شاعری اپنے لفظوں اور پیکروں سے مختلف لوگوں کو مختلف احساس اور جذبے کے تعلّق سے پیکروں کا احساس دیتی ہے۔

اظہار کے حسن اور موضوع اور ہئیت کی وحدت کے جمال کے پیشِ نظر ہندوستانی علماء کی نظر مندرجۂ ذیل باتوں پر بھی رہی ہے۔ ہر نکتہ توجّہ طلب ہے۔

اظہار میں موضوع کا آہنگ شامل رہتا ہے۔ لفظ رنگ، لکیر اور حرکت وغیرہ میں آوازوں کی حرکتیں بھی ہوتی ہیں۔ آہنگ کے ارتعاشات کو فنکار محسوس کرتا ہے، جانے کتنی آوازوں کو سنتا ہے اور مختلف آوازوں کو اپنے تجربوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرتا ہے۔

جب ارتعاشات کا سلسلہ جاری ہوتا ہے تو ان سے فنکار کے تجربوں کی معنویت بھی اُبھرتی ہے۔ آواز اور آہنگ بھی معنی بن جاتے ہیں۔

فنکار کا ذہن تخلیقی عمل میں آفاقی کائناتی، آہنگ سے رشتہ قائم کر لیتا ہے اور اس کی وجہ سے اظہار کے ہر حسن کو ایک آہنگ ملتا ہے اور یہ آہنگ صرف آہنگ نہیں ہوتا مفہوم بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا لفظ، رنگ، لکیر، حرکت اور آواز وغیرہ کا شعور غیر معمولی بھی ہوتا ہے۔

’دھونی‘ (DHAVANI) موضوع کے تعلّق سے آفاقی ’کائناتی‘ آہنگ کے شعور سے پیدا شدہ ارتعاشات کی آخری صورت ہے۔ لہٰذا اس شعور کے مطالعے کے لیے معنی خیز جمالیاتی اصطلاح ہے۔

تخلیق کی اظہاری صورت کے کنائے خود مفاہیم بن جاتے ہیں۔

اعلیٰ اور اچھی تنقید اظہار کے حسن کے مطالعے میں کلاسیکی آہنگ کے ساتھ روایتی پیکروں اور روایتی معنویت، اشارتی انداز، علامتی طرزِ فکر اور موجود جمالیاتی استعاروں اور تشبیہوں کے مفاہیم کی جہتوں کا مطالعہ پیش کرتی ہے۔

اظہار کے حسن میں موضوع (وستو) ذہنی کیفیت (بھو) ڈکشن (النکار) اور ’رس‘ وغیرہ کو ایک وحدت کی صورت میں دیکھنا چاہیے۔

٭٭٭

 

 

 

BIBILIOGRAPHY VOL. I

 

  1. GUPTA, DAS INDIAN IDEALISM.
  2. GUPTA, DASFOUNDATION OF INDIAN ART {1956}
  3. PANDEY, K.G. DR.INDIAN AESTHETICS {VOL. I & II}
  4. MARSHALLMOHANJODARO & THE INDUS

CIVILIZATION {VOL.1}

  1. BENERJEE, R.D.PREHISTORIC, ANCIENT & HINDU INDIA
  2. WHEELER, MORTIMERTHE INDUS CIVILIZATION.
  3. NAGENDRA, DR.RASASIDDHANTA {HINDI}
  4. BHANUDATTA.RASATARAGINI {HINDI}
  5. KANE, N.P.V. DR.AN INTRODUCTION TO SAHITYA                                    DARPAN.
  6. SINGH, SATYABHIATA.MUDRARAKSAHRA {HINDI}
  7. MACDONNEL,A.VEDIC MYTHOLOGY.
  8. BERGHIGEO,A.THE RIGVEDA.
  9. FRAZER, R.W.INDIAN THOUGHT.
  10. GOPI KRISHNA.KUNDALNI-THE SECRET OF YOGA {1978}
  11. GOPI KRISHNATHE AWAKENING OF KUNDALNI.
  12. GOPI KRISHNAKUNDALNI.
  13. RADHA KRISHNAN, DR.HISTORY OF INDIAN PHILOSOPHY.(VOL1&2)
  14. GUPTA, DAS. HISTORY OF INDIAN PHILOSOPHY.
  15. BELVALKER & RENADE.HISTORY OF INDIAN PHILOSOPHY
  16. GUPTA, DAS, S.N.HINDU HYSTICISM.
  17. BARNETT, L.D.HEART OF HINDUISM.
  18. RADHA KRISHNAN, DR.AN IDEALIST VIEW OF LIFE.
  19. MACDONELL, A.D.A HISTORY OF SANSCRIT LITERATURE.
  20. KEITH, A.B.HISTORY OF SANSKRIT LITERATURE.
  21. MARCK, WESTER.ETHICAL RELATIVEITY.
  22. HAUSER, ARNOLD.THE SOCIAL HISTORY OF ART (VOL 1 & 2 )
  23. FREUD, S.TOTEM AND TABOO.
  24. FREUD, S.BEYOND THE PLEASURE PRINCIPLE.
  25. JUNG, C.G.SYMBOLS OF TRANSFORMATION.
  26. ALLCHIN, B. &THE RISE OF CIVILIZATION IN INDIAN PAKISTAN

ALLCHIN, F.R.    {SELECT BOOK SERVICE SYNDICATE-1983}

  1. SHPRIO HENRY,L.MAN, CULTURE AND SOCIETY.
  2. DEVI, RAKMANI.INDIAN DANCE – THE BACKGROUND
  3. COOMARASWAMI, ANANDA THE DANCE OF SHIVA
  4. BANERJEE, PROJESH.DANCE OF INDIA {1956}
  5. SLAUJER, G.THE DRAVIDIAN ELEMENT IN INDIAN

CULTURE. {1924-1976}

  1. OLDHAM, C.F.THE SUN AND THE SERPANT {LONDON1905}
  2. PERRY, W.J.THE CHILDREN OF THE SUN {LONDON 1923}
  3. HOLROYDE, PEGGY.INDIAN MUSIC-A VAST OCEAN OF PROMIC{1972}
  4. GOSVAMI, O.THE STORY OF INDIAN MUSIC.
  5. CLEMAL, E.ELEMENTS OF INDIAN MUSIC.
  6. POPLEY, REV.THE MUSIC OF INDIA.
  7. JONES, SIR WILLIAM.MUSIC & MUSICAL MODES OF THE HINDUS.
  8. GONGOLY, O.C.RAGA AND RAGANI.
  9. RAGHAVAN, V. DR.MUSIC IN ANCIENT LITERATURE.
  10. RANADE, G.H.HINDUSTANI MUSIC-AN OUTLINE OF ITSPHYSICS AND AESTHETICS. {1951}
  11. GANGOLOY, O.C.NON-ARYAN CONTRIBUTION OF ARAYAN MUSIC.
  12. FURGOSSON.TREE AND SERPENT WORSHIP.
  13. BEIDHER, U. VISION OF SELF IN EARLY VEDANTA.
  14. RADHA KRISHNAN, DR.PHILOSOPHY OF UPNISHADS.
  15. MUKERJEE, RADHAKAMAL THE CULTURE & ART OF INDIA.
  16. DAS GUPTA, S.N.HINDU MYSTICISM.
  17. BERRIL, N.J.SEX AND NATURE OF THINGS
  18. NOELLE, WILFRIED. DRAVIDIAN STUDIES {1965}
  19. KRISHNA, T.K.DRAVIDIAN CULTURE AND ITS DIFFUSION {1934}
  20. EMERSON, G.CULTURAL UNITY OF INDIA.
  21. SLATES. G.THE DRAVIDIAN ELEMENT IN INDIANCULTURE {1956}
  22. DASGUPTA, S.N.FUNDAMENTS OF INDIAN ART. {1954}

٭٭٭

 

تشکر:ڈاکٹر شکیل الرحمن  جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

[1] کشمیر کے حکمران راجہ جیہؔ پڈ کا ہم عصر (۷۷۹۔۸۱۳ عیسوی)

[2] کشمیر کے حکمران اجیت پڈکا ہمعصر (۸۱۶ء)