ہندوستانی جمالیات
حصہ ۴
شکیل الرحمن
© جملہ حقوق بحق عصمت شکیل محفوظ ہیں۔
(چار)
’نقالیؔ‘ ایک بنیادی جذبہ یا جبلّت ہے اور اس کا احساس بہت ہی قدیم ہے۔ فطرت کے جلال و جمال کی نقّالی سے آسودگی ملتی ہے۔ مسرّت آمیز لہریں اُٹھتی ہیں،حسیّات ہیجان کے بعد متوازن ہو جاتی ہیں۔ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ انسان اور فطرت یا نیچر کے باطنی رشتے کا احساس شدید ہو جاتا ہے۔ مابعد الطبیعاتی اور حِسّی سطح پر رموز و اسرار سے پردے اُٹھتے ہیں اور اس سے رُومانی ذہن زیادہ متحرک ہوتا ہے۔
ابتدا میں ان سچائیوں کا احساس نہیں تھا لیکن لاشعور میں یہ سچائیاں موجود تھیں۔ تصویر ایسی ہو کہ اس میں فطرت کے اس پہلو یا عنصر کی پہچان ہو جائے جسے نگاہوں نے مرکز بنایا ہے۔ دراصل یہی خیال پہلے پیدا ہوا۔ ماضی کو یاد رکھنے اور یادوں میں ایک رشتہ اور تسلسل قائم رکھنے کے لیے اس جمالیاتی تصوّر کو زندہ رکھنے کی کوشش ہوئی۔ ’کلا‘ کی تعریف اور اس کی تشریح و تعبیر کے لیے علمائے جمالیات اور خصوصاً ہندوستانی اور یونانی فلسفی فنکاروں نے اسی خیال کو اہم جانا ہے۔ رفتہ رفتہ لاشعور زیادہ متحرک ہوتا گیا۔ سائیکی (PSYCHE) کے دباؤ سے ’وژن‘ میں اور گہرائی اور تہہ داری پیدا ہوتی گئی اور یہ تصوّر یا خیال، نظریہ یا زاویۂ نگاہ اس طرح واضح ہوا کہ فطرت کے جلال و جمال کی نقّالی ’’کلا‘‘ یا تخلیقی آرٹ میں جمالیاتی اقدار کی تخلیق ہوتی ہے یا ’کلا‘ یا تخلیقی آرٹ کی جمالیاتی قدریں متحرّک ہو جاتی ہیں۔ حقیقت یا سچّائی کو حسن میں تبدیل کرنے کے پُر اسرار عمل اور اس کے نتائج کو کلا، یا آرٹ تصوّر کیا گیا۔
ہندوستانی جمالیات کی اعلیٰ قدروں کی تشکیل میں ’’نقّالی‘‘ کے جمالیاتی تصوّر نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ ہندوستانی رقص اور موسیقی، فنِ تعمیر اور مجسّمہ سازی اور مصوّری میں اس جمالیاتی زاویۂ نگاہ کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ نے مجموعی طور پر اس بنیادی تصوّر کو نہایت واضح طور پر پیش کیا ہے کہ تخلیقی آرٹ ، حسن مطلق اور اُن کی انگنت جہتوں کی حسیاتی صورت ہے۔ شاعری اگرچہ یہ کام نہایت ارفع سطح پر کرتی ہے لیکن ڈراما کی سطح اِس سے بلند ہے۔ زیادہ ارفع، زیادہ افضل، اس لیے کہ ڈراما شاعری کی منتہا ہے۔
ہندوستانی جمالیات نے برہماؔ، وشنوؔ، اور شیو سے پر اسرار رشتہ قائم کر کے بلا شبہ تخلیقی آرٹ کا درجہ انتہائی بلند کر دیا ہے۔ حسنِ مطلق کی ان تین واضح جمالیاتی جہتوں نے تخلیق کی قدر و قیمت کا احساس بھی عطا کیا ہے اور اس کی جمالیاتی اقدار کا شعور بھی دیا ہے۔
وحدت کی یہ تینوں صورتیں خالق کا رول ادا کرتی ہیں۔ برہماؔ اور وشنوؔ ، زبان، اسلوب اور موضوع اور شعوری اور لا شعوری کیفیات اور اُن کے عمل اور ردِّ عمل اور ڈراما کے پہلے خالق ہیں تو شیوؔ یا مہیشورؔ رنگ اور آہنگ کے خالق!
بڑا فنکار اُن کے تخلیقی عمل اور اُن کے تخلیقی عمل کے حیرت انگیز نتائج کی نقل کرتا ہے اور اس طرح وہ خود برہماؔ، وشنوؔ اور شیو بن جاتا ہے!
برہماؔ’ وجود‘ ہیں!
وشنو، شعور! اور
شیوؔ، تجربہ!
تینوں کی وحدت، حسن مطلق کا احساس عطا کرتی ہے۔ تینوں اپنے اپنے طور عظیم تر فن کار ہیں۔
تخلیقی آرٹ یا ’کلا‘ کا سر چشمہ ہیں اور تخلیقی ہیجانات میں تحرک کے ذمّہ دار! شعور کی مکمّل بیداری کے ساتھ فنکار جب ’’وجود ‘‘ کا تجربہ حاصل کرتا ہے، اشیاء و عناصر پر گہری نظر رکھتے ہوئے اُن کا تجزیہ کرتا ہے اور زماں و مکاں اور کائنات کے جلال و جمال کو اپنے جذبے اور احساس کا حصّہ بنا لیتا ہے تو برہماؔ سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ حسّی اور نفسی سطح پر حسن کے ادراک کے ساتھ انسان کے شعور کی علامت بن جاتا ہے۔
جب فن کار کا لاشعوری عمل خوابوں کی کیفیتوں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ اُس کے پُر اسرار، بظاہر بے ربط اور ٹوٹے ہوئے، مختلف اور متضاد تصویروں کو لیے ہوئے، تجربے، وجود کے مرکز کی جانب بڑھتے ہیں تو اُن سے بھی حقیقتوں اور سچّائیوں کا لطیف اظہار ہوتا رہتا ہے۔ فن کار سمندر پر لیٹے ہوئے یا سوئے ہوئے وشنو سے قریب تر ہو جاتا ہے اور وہ سچّائیوں یا حقیقتوں کی نئی تخلیق کرتا ہے۔ نیند اور خواب میں تخلیقی فن کار کا ذہن اپنے ساتھ ایک کائنات لیے جاتا ہے اور اس کیفیت میں ہر شئے کو توڑ کر رکھ دیتا ہے اور اپنے خوابوں میں انہیں اپنے طور پر پھر مرتّب کرتا ہے۔ عناصر و اشیاء کی نئی تخلیق ہوتی ہے اور اس میں صرف اُس کے اپنے وجود کی روشنی ہوتی ہے!
اور
جب فن کار انتہائی گہری نیند میں ہوتا ہے تو وہ شیوؔ کی طرح لاشعور کی اُس لاشعوری کیفیت میں ڈوبا ہوتا ہے جو تجربے کی عظیم تر صورت ہے۔ یہ تجربے کی وہ عظیم تر منزل ہے جہاں مسرّتوں کی دنیا آباد ہے،جہاں ہر تجربہ ایک سعادت اور فکر مبارک اور مسعود ہے۔
بے خوابی کی نیند کی یہ عجیب و غریب پُر اسرار منزل شیوؔ کا گہوارہ ہے جو ایک انتہائی پُراسرار اور حد درجہ معنی خیز نیند کا دیوتا ہے۔ یہ ذہن کی مکمل خاموشی کی منزل ہے۔ جہاں شعور کی اعلیٰ ترین منزلوں اور افضل منزلوں اور افضل ترین جہتوں کا شعور ملتا رہتا ہے۔ وجود کے تقدّس کے احساس کے ساتھ وہ مسرّت ملتی ہے جو جمالیاتی انبساط کی انتہا ہے۔
شیوؔ تحرک کی سب سے بڑی علامت بھی ہیں اور رقص اس تحرک کی واضح جمالیاتی تصویر ہے لیکن یہ تحرک اُس وقت جنم لیتا ہے جب ’شکتی‘ شیوؔ کو متحرّک کرتی ہے۔
’برہما‘ وجود، جاگرتی، بیداری اور انتہائی متحرّک شعور کی علامت ہیں۔
وشنوؔ، لاشعور اور لاشعوری کیفیات کے ساتھ ایک انتہائی پُر اسرار اور انتہائی پُر کشش داخلی خود کلامی میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ تخلیق کے قبل کی پُر اسرار کیفیتوں کو پیش کرتے ہیں۔ تخلیق کائنات کے لمحوں میں خود ایک ڈرامائی کردار بن جاتے ہیں اور اس کے بعد آم کے میٹھے رس سے اپنی جانگھ پر ایک عظیم مصوّر کی طرح کسی دوشیزہ کی تصویر بناتے ہیں،اور وہ دوشیزہ خلق ہوتے ہی اپنی شخصیت کے ساتھ علیٰحدہ پیکر نظر آتی ہے۔
شیوؔ، شکتیؔ کے تحرّک سے بیدار ہوتے ہیں تو اپنے رقص کے پہلے آہنگ سے کائنات کی تخلیق کرتے ہیں۔ دوسرے آہنگ سے کائنات کے حسن و جمال کا شعور عطا کرتے ہیں اور تمام حسن و جمال کا تحفّظ کرتے ہیں۔ تیسرے آہنگ سے کائنات کے عناصر کو بکھیر دیتے ہیں۔ چوتھے آہنگ سے کائنات اور اُس کے تمام عناصر کو اپنے وجود میں سمیٹ لیتے ہیں۔ کائنات اُن کے وجود کا حصّہ نظر آتی ہے اور پانچویں آہنگ سے ہر شے کو آزاد کر دیتے ہیں۔ ہر شے اپنی اعلیٰ ترین منزل پر آ جاتی ہے اور وجود کا سچّا شعور حاصل ہوتا ہے۔
غور فرمائیے، ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ میں تجربوں کی سطح کتنی بلند ہے۔ تخلیقی عمل کو کس منزل پر محسوس کیا گیا ہے۔ تخلیق کو کتنا برتر اور افضل تصوّر کیا گیا ہے۔ جمالیاتی نقّالی اور تصویر کشی کا معیار کیا ہے اور خود فن کار کو کتنا بلند درجہ عطا کیا گیا ہے۔ ڈراما، شاعری اور مصوّری کے پیشِ نظر جن جمالیاتی قدروں کی تشکیل ہوئی ہے اُن کی عظمت کا احساس ان ہی سچّائیوں سے ہو گا۔
جب کائنات کی شناخت حسنِ مطلق سے ہوتی ہے تو کائنات کے حسن و جمال اور اس دنیا کی خوبصورتی کا معاملہ صرف مادّی اور خارجی حسن کا نہیں رہ جاتا۔ کائنات اپنے باطنی حسن کا بھی شعور عطا کرنے لگتی ہے۔ کائنات کے ایک بے پناہ پھیلے ہوئے ’شعور‘ اس کی لاشعوری کیفیتیں، لاشعوری عمل، اس کی رہنمائی کرتی ہوئی برقی قوتیں اور اس کے ارتقاء کے اصول اور قوانین سب کی معنویت پھیلنے لگتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وجود کے ہر پہلو کے اندر ایک داخلی شعور ہے جو فطرت (پراکرتی) کی تمام صورتوں میں تحرّک پیدا کرتا رہتا ہے۔
ہندوستانی اساطیری ذہن نے کائناتی شعور کے مختلف پہلوؤں کو مختلف پیکروں سے پہچاننے کی کوشش کی ہے۔
فنونِ لطیفہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔!
اس کی شناخت اُس کائنات سے ہوتی ہے جو خود حسنِ مطلق کا آئینہ ہے۔ لہٰذا فنون کے حسن و جمال کا معاملہ بھی محض خارجی نہیں ہوتا۔ کائنات کی طرح فنون بھی اپنے باطنی جلوؤں کا احساس عطا کرتے رہتے ہیں۔ کائنات کے بے پناہ پھیلے ہوئے شعور اور لاشعوری عمل اور اس کی برقی قوّتوں اور اس کی ارتقائی کیفیتوں سے ہم آہنگ ہو کر ان کی معنویت بھی پھیلنے لگتی ہے۔ کائنات کے حسن و جمال کی تخلیقی تصویر کشی۔ تخلیقی نقالی کے عمل میں فن کارحسنِ مطلق تک پہنچ جاتا ہے۔ ہندوستانی جمالیاتی میں تخلیقی نقّالی یا تصویر کشی کا معاملہ اسی وجہ سے اعلیٰ سطح پر تخلیق کے انتہائی پُر اسرار عمل کے شعور کا عمل بن جاتا ہے۔ کائنات کے رموز و اسرار کو ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ نے تین سطحوں پر محسوس کیا ہے اور ہر سطح تخلیقِ فن کے پیشِ نظر اہمیت رکھتی ہے:
پہلی سطح، عام ظاہری تجربوں (VAISESIKA) کی ہے جہاں فنکار کا شعور کائنات کے حسن و جمال سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ حُسن و جمال کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔
دوسری سطح انتہائی سنجیدہ کائناتی تجربوں (SANKHYA) کی ہے۔ ’یوگ‘ اس میں شامل ہو جاتا ہے ۔ کائنات کے حسن و جمال سے باطن میں تحرّک پیدا ہوتا ہے اور فن کار کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آنے لگتی ہیں۔ وہ تخلیقی عمل میں اس طرح مصروف ہو جاتا ہے جیسے وہ خود بڑا خالق ہے۔
اور
تیسری سطح پر ما بعد الطبیعاتی تجربوں (VEDANTA) کی ہے جہاں فنکار خود کائنات کے حسن و جمال کا حصّہ بن جاتا ہے۔ کائنات کے تمام جلوے اُس کے وجود کا حصّہ نظر آنے لگتے ہیں۔’شکتی‘ کے اس تحرّک کی تکمیل ہو جاتی ہے جس کی ابتدا دوسری سطح سے ہوتی ہے۔
٭٭
جمالیاتی پیکر تراشی میں مذہبی اور ما بعد الطبیعاتی فکر کے ساتھ فنکاروں کے ذہن نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ تخلیقی فنکاروں نے اپنے اپنے طور پر جمالیاتی پیکروں میں معنوی جہتیں پیدا کی ہیں۔ رنگوں اور لکیروں کے ساتھ مناسب اور متحرّک اور باطنی کیفیات کو اُبھارا ہے۔ رقص، موسیقی، مجسّمہ سازی، مصوّری اور فنِ تعمیر سے یہ سچّائی واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان کے تخلیقی فنکاروں کا ذہن انتہائی شدّت سے کام کرتا رہا ہے اور ان کی ہر جمالیاتی تکمیل نے مذہبی تصوّرات اور مابعد الطبیعاتی خیالات کو آفاقیت عطا کی ہے۔
قدیم ذہن نے اعلیٰ ترین علامتوں کو استعمال کیا ہے۔ خالقِ کائنات اور ابدی آفاقی حسن کی جہتوں پر نظر رکھی ہے کچھ اس طرح کہ حسّی سطحوںپر خالق یا حسن اور انسانی تجربوں میں باطنی رشتہ قائم نظر آتا ہے۔ قدرت کی تخلیقی قوّت کی عبادت کرتے ہوئے ذہن نے جانے کتنے پیکر تراشے ہیں اور انہیں اپنے تجربوں کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ زمین کی زرخیزی کے تصوّر نے ’سانپ‘ اور ’ماں‘ یا عظیم ماں کے پیکروں کی تشکیل کی، دھرتی مادّی زندگی اور تمام ذی روح کا سہارا (دھارا) بنی۔ لہٰذا وہ ماں کے عظیم تر وجود کی علامت بن گئی۔ ’وسعت‘ کے ’’آرچ ٹائپ‘‘ کے دباؤ اور گہرے احساس نے ’دھرتی‘ کو ’’اوّلیں وسعت‘‘ کی صورت میں محسوس کیا اور اکثر اسے ’ادیتی‘ (ADITI) سے قریب تر پایا۔ ’آسمان‘ اور ’زمین‘ کے ملاپ کی تصویر نے دونوں کو ’’دیاو پرتھوی‘‘ (DYAVA PRITTIVI) کا حِسّی پیکر بنا دیا۔ ’دھرتی ماں‘ نے عظیم دیوی کی صورت اختیار کی اور ’دھرتی‘ کی تمام صورتیں ’ماں کے بچّوں کی صورتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ پہاڑوں، درختوں، جانوروں اور ندیوں کو اسی کے تعلّق سے سمجھا گیا اور یہ سب اپنے اپنے طور پر بھی جمالیاتی پیکروں میں نظر آنے لگے۔
’مکاں‘ (SPACE) کا حِسّی تصوّر ’غار‘ (گوہا) کی شکل میں نظر آیا اور ’غار‘ نے ’دل‘ کی صورت اختیار کر لی۔ اس لیے اسے شعور کے تمام تحرّک کا مرکز سمجھا گیا۔ ’دل‘ ’غار‘ کی صورت میں پُر اسرار تجربوں کے علم کا گہوارہ یا مرکز بن گیا۔ ’غار‘ میں ’آکاش‘ بھی ہے اور ’دھرتی‘ بھی۔ لہٰذا پھیلی ہوئی کائنات کی علامت کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔یہ حقیقت بھی سامنے رہی کہ ’مکاں‘ کے بغیر وجود اور اس کے مظاہر کو کوئی تصوّر پیدا نہیں ہوتا۔ ’مکاں‘ ’آکاش‘ یا ’ایتھر‘ کا نتیجہ ہے۔ ’غار‘ یا ’دل‘ ’آکاش‘ کی وجہ سے ہے یا ’آکاش کے ساتھ ہے۔ ’مکاں‘ ’غارؔ‘ یا ’ دلؔ‘ حقیقتوں یا سچّائیوں کا گھر ہے۔ کوئی ’حقیقت‘ ’مکاں‘ ہی میں جنم لے سکتی ہے۔ اس لیے شعور کے تمام تحرّکات کا مرکز بھی یہی ہے۔ حواسِ خمسہ کا جنم اسی میں ہوتا ہے۔ ’غارؔ‘ یا’دلؔ‘ پر اسرار علوم اور تجربوں کا گہوارہ ہے۔ اسی میں رہ کر تمام علوم کے رموز و اسرار سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ’مکاں‘ میں ’’سفید دیوتا‘‘ ’وایو‘ (VAYUS) ہے جس کا جنم ’پُرش‘ (PURSA) یا عظیم تر انسان (جو اشرف المخلوقات ہے جس نے کائنات کو تسخیر کر رکھا ہے جس میں کائنات جذب ہے، اور جس کا تحرک کائنات ہے) کی سانس سے ہوا ہے۔ یہ ’’سفید دیوتا‘‘ حد درجہ طاقتور ہے جو انسان کی صورت ایک ہرن پر سوار رہتا ہے ۔ ’تیر کمان‘ لیے سفید پوشاک میں! سفیدی اس کا وصف ہے۔
’پانی‘ ’وردن‘ (VARUNA) کا گہوارہ بنا،فطرت کی تمام تر ذہانت اس کے قطروں میں نظر آئی۔ آفتاب زندگی کے چکر اور اس کی وحدت کا علامیہ بنا۔ اس کی روشنی (جیوتی) نگاہ و نظر کی روشنی بنی، سوریہ، اگنی، کی کامل فلکی اور ملکوتی صورت ہے۔ روشنی گرمی اور علم کا سر چشمہ ہے۔ کائنات کی آنکھ ہے۔ ’پرانوں‘ کے مطابق تمام ستارے اور سیّارے، عناصر کے تمام کرّے اور افلاک اور زندگی کی تمام الوہیت (RUDRAS) اسی سے رشتہ رکھتی ہیں۔ ’وایو‘ (ہوا) اور ’اگنی‘ (آگ) کے علاوہ دوسرے تمام دیوتا اسی کی جہتوں کے متحرک پیکر ہیں۔ ہر شے کا وجود اسی کی وجہ سے ہے۔
اس کے تصوّر نے جہاں کئی حِسّی پیکروں کی تشکیل کی وہاں بعض خوبصورت رنگوں کی دنیا بھی عطا کی۔ سوریہؔ کو سرخ، بھورے، بادامی، خاکی اور تانبے کے رنگوں میں بڑی شدّت سے محسوس کیا گیا۔ اُس کے خارجی اور باطنی پیکر کی تصویر کشی کی گئی۔ وہ زندگی کی تمام طاقتوں کو سنبھالے ہوئے ایک انتہائی بہادر اور نڈر دیوتا کی صورت میں جلوہ گر ہوا اور ساتھ ہی اس کی صورت بہت مبارک سمجھی گئی۔ کبھی اس کے دو لمبے ہاتھ نظر آئے، اور کبھی چار چھوٹے بازو یا ہاتھ، سونے کے رتھ پر سوار تاریکیوں کو چیرتا ہوا نظر آتا۔ رگ ویدؔ میں سوریہؔ کے رتھ میں ’ہاتھ‘ گھوڑے ہیں کبھی وہ کچھوے کے خول کی مانند گردن لیے ہوئے ملا اور کبھی سونے کے رتھ پر کنول کے اوپر ایک پُر جلال اور پُر جمال پیکر نظر آیا۔ سونے کا رتھ گہرا سُرخ بنا اور اس رتھ میں خوبصورت پرندوں کے پر لگ گئے۔ ’پرانوں‘ میں سوریہؔ کو ’کیشپ (KASYAPA)کا بیٹا کہا گیا ہے، یعنی ’وژن‘ کی تخلیق!
’اگنی‘ سوریہؔ کا مظہر ہے۔ اس کی صفت جلال ہے۔ ’اگنی دیوتا‘ دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان ایک معنی خیز رابطہ بن کر آیا۔ زمین اس کا گہوارہ بنی، انسان کے لیے ’اگنی دیوتا‘ قوّت اور طاقت کا سر چشمہ بن گئے۔ ہر چمک ’اگنی‘ کی چمک نظر آئی۔ اس کی عبادت، قوّت، جلال اور حُسن جمال کی عبادت ہے۔ ظاہر اور باطن دونوں کے روشن مظاہر کی طاقت کا ایک ایسا متحرک پیکر اُبھرا جو عقل ، علم ، حسن اور احساس، سب کی معنویت لیے ہوئے تھا۔ اپنے گہرے سرخ رنگ، زرد آنکھوں اور سیاہ لباس کا احساس دے کر اس نے جمالیاتی حِس کو جانے اور کتنے رنگوں سے آشنا کر دیا۔ اپنے دو سروں، چار بازوؤں اور سات پیکروں کے ساتھ یہ پیکر سونے کا مجسّمہ ہے۔ سرخ گھوڑوں کے رتھ پر سوار، دھواں پھیلاتا ہوا، رتھ کے پہیوں میں سات ہواؤں کی طاقت لیے ہوئے یہ عظیم تر پیکر بن گیا۔ ’اگنی‘ کی جتنی خصوصیتیں نظر آئیں انہیں مناسب نام دیے گئے۔ اس طرح ’اگنی‘ کے کئی نام ہیں اور ہر نام ایک حِسّی جمالیاتی پیکر ہے۔
٭ ’اگنی‘ ہر شئے پر قابض ہے۔ تمام اشیاء و عناصر اُس کے قبضے میں ہیں۔
۔ (JATA VEDAS)
٭ اس کا وجود ہر درجہ پاکیزہ ہے اور وہ جسے چاہتا ہے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔
۔ (PAVAKA)
٭ وہ جلال کا پیکر ہے۔ اس کے وجود میں آگ لگی رہتی ہے اور جسے چاہتا ہے جلا دیتا ہے۔
۔ (JVALANA)
٭ روشنیوں کا مرکز ہے۔ اپنی شعاعیں بکھیرتا رہتا ہے۔
۔ (VIBHAVASU)
٭ ان روشنیوں اور ان کی شعاعوں کے متعدّد رنگ ہیں۔ لہٰذا خود اس کا وجود متعدّد اورمتنوع رنگوں کا حامل ہے۔
۔ (CITRABHANU)
٭ درخشاں اور تابندہ ہے اور اپنی درخشانی اور تابانی عطا کرتا رہتا ہے۔
۔ (BHURITEJAS)
٭ شعلۂ جو ّالہ ہے، جس شے پر لپکتا ہے شعلے کی مانند!
۔ (SIKHIM)
٭ سونا خلق کرتا ہے۔
۔ (HIRANYAKRIT)
اور
٭ رحمِ مادر میں اس کا پُر اسرار ارتقا ہوتا ہے۔
۔ (MATARISAVAN)
تخلیقی ذہن نے زمین (دھرتی) ’آتش‘ (اگنی) ’مکاں‘ (انتار کِسا) ’ہوا‘ (وایو) ’آسمان‘ (ویوس) ’آفتاب‘ (سوریہ ) ’چاند‘ (سوم) وغیرہ کے واضح جمالیاتی پیکر تراشے، زندگی کی گیارہ طاقتوں (RUDRAS) کی متحرّک تصویریں بنائیں۔ ان کے علاوہ ’’اندر‘‘ پر ’جاپتی‘ اور بارہ آزاد اصولوں (ADITYAS) کے حیرت انگیز تصوّرات کے جمالیاتی پیکر بنائے۔ صرف ’دیوس‘ (آسمان) اور اس کی خصوصیات اور جہتوں پر نظر رکھیں تو اندازہ ہو گا کہ ’وژن‘ اور حسّی تخلیقی ذہن کے تجربوں کے تحرک کے لیے کتنا عمدہ جمالیاتی پیکر خلق کیا ہے۔
’آسمان‘ نے تخلیقی ذہن کو متحرک کیا، تخلیقی نقّالی نے اس کی جانے کتنی جہتوں کو پر کشش پیکروں کی صورتوں میں پیش کیا۔ ’دیوس‘ سے مراد وہ مقام ہے کہ جہاں تمام دیوتا رہتے ہیں اور جہاں’ سوریہؔ ‘ اپنی تمام تابناکیوں کے ساتھ روشن ہے۔ دیوس عظیم تر آسمان ہے۔ ’دھرتی‘ اور دیوس کے ملاپ سے عناصرِ کائنات کا وجود ہے۔ تمام دیوتا سورجؔ ، چاندؔ، بجلی صبح کاذب، بارش، ہوا سب اسی کی تخلیق ہیں۔ اس کے کئی نام ہیں جن سے اس کی مختلف صورتوں اور جہتوں کی پہچان ہوتی ہے۔ ہر نام ایک پیکر ہے۔
٭ ’دیوس‘ تین جہاں کا گہوارہ ہے!
۔ (TRIVISTAPA)
٭ ’مکاں‘ اسی کا نام ہے!
۔ (ANTARISKA)
٭ لامتناہی ہے، اس کا کوئی اختتام نہیں ہے!
۔ (ANANTA)
٭ حصّوں میں تقسیم نہیں ہے!
۔ (ANANGA)
٭ وسعت کی انتہا ہے، ’سائبان ہے!
۔ (VYOMAN)
٭ پُر اسرار نقاب ہے!
۔ (MAHAVILA)
٭ ہواؤں کے لیے راہیں بناتا ہے اور خود بھی ہواؤں کا راستہ ہے۔!
۔ (MARUNDVARMAN)
٭ متحرّک ہے۔
۔ (GAGANMA)
٭ اگرچہ حصّوں میں تقسیم نہیں ہے لیکن اشیاء و عناصر اور ستاروں اور سیّاروں اور دیوی اور دیوتاؤں کو مختلف صورتوں اور حصّوں میں تقسیم کرتا رہتا ہے۔
۔ (VIYAT)
٭ پرندوں سے محبت کرتا ہے اور انہیں اڑنے کے لیے راہیں دیتا ہے۔
٭ پانی کے عظیم تر سر چشمے کی حیثیت سے بھی اپنی شخصیت کا احساس عطا کرتا ہے۔
۔ (PUSKARA)
یہ سب انتہائی ارفع جمالیاتی احساس اور بے پناہ رُومانیت کے ساتھ اعلیٰ ترین تخلیقی ذہن کے کرشمے ہیں جن کی پہچان مختلف فنون میں آہستہ آہستہ ہوتی گئی ہے۔ تخلیقی ذہن نے تمام مذہبی اور مابعد الطبیعاتی حِسّی تصوّرات کو فنونِ لطیفہ کی جمالیات سے ہم آہنگ کر دیا ہے اور نظامِ جمال کا دائرہ حد درجہ وسیع کر دیا ہے۔
تخلیقی پیکر تراشی جو حِسّی سطحوں کی تصویروں اور پیکروں کی نقّالی اور تصویر کشی ہے۔ اعلیٰ جمالیاتی نمونوں کو پیش کرتی ہے۔ اعلیٰ ترین تخلیقی ذہن کے بغیر ان کا اس طرح وجود میں آنا ممکن نہ تھا!
٭٭
’ہندوستانی جمالیات میں‘ نقّالی یا تخلیقی نقّالی محض نظریہ یا ’تھیوری‘ نہیں ہے ۔ تخلیقی ذہن نے کائنات کے جلال و جمال کی تخلیقی نقّالی کے لیے اُن کے جلوؤں کو پہلے شدّت سے محسوس کیا ہے۔ ’پیکر‘ یا ’امیجز‘ (IMAGES) اسی شدت احساس کے نتائج ہیں۔ چہروں اور پورے وجود اور ان کے رنگوں کے احساس کے پیچھے احساسِ جمال کی شدّت موجود ہے۔ یہ پیکر’ یا ’امیجز‘ خود تخلیقی نقّالی کے بیش قیمت نمونے ہیں۔ کائنات کے حسن و جمال، ان پیکروں کی بہتر صورتوں اور اساطیری، فنّی اور جمالیاتی رُجحان کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔
قدیم ابتدائی ذہن نے جلال و جمال کو جن پیکروں میں محسوس کیا اور جنہیں علامتوں کی صورتیں عطا کیں، فنکاروں کے بہتر اور اعلیٰ تخلیقی ذہن نے ان میں نئی معنویت پیدا کی اور اُن کی جہتوں سے آشنا کیا، کسی بھی ابتدائی تجربے کی صِرف ایک معنوی جہت نہ رہی اساطیری جمالیاتی (MYTHO-AESTHETIC) رجحان نے انفرادی فنکارانہ تجربوں کی عام علامتوں کو بھی ہمہ گیر جمالیاتی فکر و نظر سے ہم آہنگ کر دیا، پہاڑ، درخت، ندی، جنگل، پھول بادل جیسے عام پیکروں کی بھی شخصیتیں اس رجحان سے اُبھر کر سامنے آئیں۔
ایسے تجربوں کا سب سے بڑا سرچشمہ رگ ویدؔ ہے!
رگ ویدؔ تخلیقی آرٹ کا قدیم نمونہ ہے۔ صدیوں کے تجربوں نے اس میں جمالیات کا ایک اعلیٰ ترین معیار قائم کیا ہے۔ اساطیری جمالیاتی رجحان اور تخلیقی فکر کی پہچان ہر لمحہ ہوتی ہے۔ یہاں تخیل کا آزادانہ عمل متاثر کرتا ہے۔ شعور کی بے باکی متاثر کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تخلیقی ذہن کائنات یا فطرت کے جلال و جمال پر عاشق ہے۔ کسی قسم کی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم یہ محسوس نہیں کرتے کہ کسی بات کو قبول کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا مذہبی اصرار ہے۔’تخیل‘ ایک کائنات پا کر دیوانہ وار گھوم رہا ہے۔ ہر خوبصورت شئے کو چوم رہا ہے۔ کسی بھی شئے کو دیکھ کر اس کی رومانیت بے قرار ہو کر علامتوں کی تخلیق کر رہی ہے۔ روشنی اور رنگ کی نئی تخلیق ہو رہی ہے۔ حِسّی سطح پر تخلیقی نقالی کے انتہائی عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کے اعلیٰ ترین جمالیاتی تجربے نے جہاں تخلیق کا درجہ بلند تر کر دیا ہے۔ وہاں تخلیقی نقّالی کی ایسی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ حسن کو دیکھنا اور محسوس کرنا، پھر اپنی سائیکی کے تحرک سے اس
کی خوبصورت علامتوں کی تشکیل کرنا اور تخلیقی آرٹ میں ان کے جلوؤں کو اپنی تخلیقی فکر کے ساتھ اس طرح پیش کرنا جیسے سچّائیوں کی نئی دریافت ہو رہی ہو۔ نئی تخلیق ہو رہی ہو، بڑی بات ہے۔ یہی اعلیٰ نقّالی کی سب سے عمدہ مثال ہے۔
رگ ویدؔ اور دوسرے ویدوں میں الوّہیت کا ہر ’وژن‘ جمالیاتی اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ بنیادی طور پر یہ شعور حسن کا نتیجہ ہے۔ جلال و جمال دونوں کے گہرے ادراک سے ایسے وژن پیدا ہوئے ہیں۔ ’’وی بھوتی یوگ‘‘ (VIBHUTI-YOGA) یعنی حسن کی عظمت کا مذہبی رجحان فنّی اور ادبی شان و شوکت اور فنّی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے۔
’دیو‘ ۔ ۔ ہمیشہ روشن، ہمیشہ چمکنے والا
’جوتی‘۔ ۔ روشنی
بھارگو۔ ۔ جلال
’شری‘۔ ۔ دلارا، پیارا، دلربا
’واپس‘۔ ۔ جمال
’چتر رم‘۔ ۔ حیرت
’واما‘ ۔ ۔ دلفریب
’چارو‘ ۔ ۔ حسین، خوبصورت
’چتر‘ ۔ ۔ حیرت انگیز
اور
’روپ‘ ۔ حسن، وغیرہ
سب جمالیاتی پیکر ہیں جو ’ہندوستانی جمالیات، کی اقدار اور اصطلاحات بن گئے ہیں۔’ ویدوں میں دیوتاؤں کی الوہیت کے پیش نظر اُنہیں ’شاعر‘ (KAVITAMA) اور افضل ادا کار (VIRATMA) بھی کہا گیا ہے۔ فنونِ لطیفہ کی عظمت کو محسوس کیا جا سکتاہے! یہ شناخت غیر معمولی ہے۔ دیوتاؤں کی اعلیٰ ترین تخلیقی نقالی اور اُن کی نئی تخلیقی صورت پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ ’عظیم ماں‘ (MATRITMA) اور ’عظیم باپ‘ (PITRITAMA) بھی بڑے فنکاروں کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ علامت سازی کی عظمت کو محسوس کیا جا سکتا ہے! یہ شناخت غیر معمولی ہے۔ دیوتاؤں کی اعلیٰ ترین تخلیقی نقالی اور اُن کی نئی تخلیقی صورت پر بھی غور کیا جا سکتاہے۔’عظیم ماں‘ (MATRITAMA) اور ’عظیم باپ‘ (PITRITAMA) بھی بڑے فنکاروں کے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ علامت سازی کی عظمت کی ایک سب سے بڑی پہچان غالباً یہ بھی ہے کہ فنکار موجود حالت سے اپنے وجود کو آزاد کرتے ہوئے اپنے وجود کو ایک نئی آزاد فضا میں خلق کر دے!
ہندوستانی فن کاروں نے صورت، آہنگ، آواز، تصویر، احساس، ہیجان، خیال کردار اور زبان سے حسن کی نئی تخلیق کی ہے اور انہیں تخلیقی آرٹ کے لیے ضروری جانا ہے۔ وجدان کو آرٹ بنانا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ’وجدان آرٹ تو بنا ہی ہے۔ آرٹ بھی ایک نئے وجدان کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے۔ آرٹ تاثرات کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن اظہار کا اظہار نہیں ہوتا۔ ہندوستانی فنون کو مذہبی اظہار نے جتنا بھی متاثر کیا ہو۔ ہندوستانی فنونِ لطیفہ اس اظہار کا اظہار نہیں ہے اور نہ اس کی عام سپاٹ نقّالی ہے۔ بلکہ مذہبی وجدان اور ما بعد الطبیعاتی تاثرات اور ان کے اظہار کو تخلیقی ذہن نے نئی تخلیق کی صورت دے دی ہے اور خود ان تاثرات اور اظہار کو فن بنا دیا ہے۔ کروچے نے کہا تھا کہ وجدان کے بغیر تصوّرات کا جنم ممکن نہیں ہے۔ ’ویدوں‘ نے ’وجدان ہی کے سہارے تصوّرات کی تخلیق اور تشکیل کی ہے اور یہ تصوّرات قدیم فنکاروں کے وجدان کا عمدہ نمونہ ہیں جو آرٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔
تخلیقی نقّالی یا آرٹ میں ’’فارم‘‘ یا صورت کی تخلیق ہی غیر معمولی کارنامہ ہے! اگر فنکار کے ’فارم ‘ میں کسی شے کی کمی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر شے کی کمی ہے اور غالباً یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خود اس کے اپنے وجود اور اس کی ذات اور انفرادیت کی کمی ہے۔ ’فارم‘ مکمل نہیں ہوتا تو غالباً وہ خود نہیں ہوتا۔ ویدوں اور خصوصاً رگ وید میں تجربوں کی صورتیں فنکاری کے عروج کا احساس بخشتی ہیں۔ فارم یا صورت کی تشکیل میں آہنگ اور آوازوں کے زیر و بم، نغمہ اور ’امیجری‘ کی ہم آہنگی اور اظہار کی بے باکی سب کی اہمیت ہے۔ ویدی فنکاروں نے ایک بڑے نظامِ جمال کی تشکیل کی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے کلام نے مستقبل کے نظامِ جمال کو ایک بڑا سر چشمہ عطا کیا ہے۔ ندیوں کے دو پیکر ویدی شاعر سے کہتے ہیں:
نغمہ سنانے والے
یہ فراموش نہ کر
تیرے لفظ کی بازگشت
صدیوں موجود رہے گی
(رگ وید ۳؍۳۳۵)
جمالیاتی تخلیقی ذہن نے جمالیاتی دینیت (THEISM) کو قبول کیا۔ مظاہر جلال و جمال کو تخلیقی ذہن اور جمالیاتی زاویۂ نگاہ نے مختلف صورتیں عطا کی ہیں۔ ہندوستان میں ’الوہیت‘ یا کسی بھی الوہی تصوّر یا خیال تک پہنچنے کے لیے آرٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔ صورت اور رنگ میں انسانی احساسات اور جذبات شامل ہوئے اور ان کی صورتیں جمالیاتی تجربوں کی ہو گئیں۔ یہ بات بھی کم دل چسپ نہیں کہ جمالیاتی صورتوں کی تشکیل کے بعد انہیں فلسفہ اور مذہب سے قریب کیا گیا ہے۔ تمام سچائیاں موجود ہیں غور کیا جا سکتا ہے۔
فنکاروں نے کائنات یا فطرت کے ہر پہلو میں حسن مطلق یا خدا کے جلوؤں کو دیکھا ہے۔ ویدی تخلیقی ذہن نے اسی تحرک سے ایک بڑا نظامِ جمال قائم کیا ہے۔ ویدی فنکاروں کے تخّیل نے آزاد ماحول میں مختلف صورتوں میں حسن کے جلوے دیکھے اور ان میں ایک حیرت انگیز تنظیم کو محسوس کیا۔ ویدوں کا بنیادی رویّہ جمالیاتی ہے۔ کچھ فنّی تاثرات اور پیکر حد درجہ سررئیلی(SURREALISTIC) ہیں مثلاً ایک جگہ ایک درخت کی جڑوں کو اُوپر اور اس کی شاخوں کے نیچے پھیلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ پُر اسرار تحرّک اور دل کو چھو لینے والی حرکتوں کو دیکھ کر خالق کائنات کو ایک بڑا رقاص کہا گیا ہے۔ رقص حرکت یا تحرک کا حُسن ہے ۔ حسن یا ہستی مطلق اپنی جگہ جتنا بھی ساکت ہو تخلیق میں وہ اپنے مناسب اور متوازن آہنگ کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ رگ وید کے برعکس اپنشدوںؔ میں باطن کے حسن پر نظر ہے، باطن کے حسن کے رموز و اسرار کی گرہیں کھولتے ہوئے فنکاری عروج پر ہے، اس طرح خارج اور باطن کے جلووں کی ایک کائنات سامنے آ جاتی ہے۔ اعلیٰ ترین تخلیقی نقالی کے انتہائی عمدہ نمونے دونوں میں موجود ہیں۔
مکالموں کی شدّت ، شعریت ، مظاہر جلال و جمال کی فنّی تصویر کشی اور حسن کا اعلیٰ شعور حاصل کیا گیا ہے۔
سام وید سے
موسیقی اور آہنگ کا شعور حاصل ہوا ہے۔
یجروید سے
اداکاری کا فن ملا ہے
اتھرویدؔ سے
تمام رسوں (RASA) کی پہچان ہوئی ہے اور
ان کا احساس ملا ہے۔
اور
اپنشدوںؔ سے
باطن کے جلوؤں کا شعور حاصل ہوا ہے۔
تخلیقی نقّالی کا معاملہ اسی حد تک ہے جب تک کہ تخلیق کا پر اسرار عمل جاری ہے۔ اس لیے کہ اس کے بعد جو شئے سامنے ہوتی ہے وہ جمالیاتی تجربہ ہے نقل نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا چاہیے کہ ہندوستان جمالیات، میں اعلیٰ جمالیاتی تجربہ نقل نہیں ہے!
’’پنّی ستر‘‘ سے ’’ناٹیہ شاستر‘‘ (۵۰۰ سال ق۔ م؟) اور ابھینو گپت (۹۵۰ء تا ۱۰۲۰ھ) ناٹیہ تک اس موضوع کے تعلّق سے مختلف خیالات اور تصوّرات ملتے ہیں۔ غور کیجیے تو یہ حقیقت غور طلب بن جائے گی کہ رگ ویدؔ سے بدھ ازم کے اختتام تک ہندوستان کے تخلیقی فنکاروں نے فنونِ لطیفہ کے وسیع نظامِ جمال کی تشکیل اور افضل ترین جمالیاتی اقدار کی تخلیق اور اعلیٰ ترین تجربوں نے اظہار میں فنونِ لطیفہ کی عظمت اور تخلیقی عمل کے رموز اور تخلیقات کے اَن گنت جلوؤں کو جس طرح سمجھایا ہے۔ علمائے جمالیات یا نقادوں نے اتنی بلندی پر پہنچ کر اپنے نظریے، کُلّیے،قاعدے، اصول اور اپنے انتقادی رویّوں اور زاویہ ہائے نگاہ کو پیش نہیں کیا ہے۔ میرے نزدیک فنکاروں کی وہ تخلیقات جو رقص ، موسیقی مصوّری، مجسّمہ سازی اور تعمیر سازی کی صورتوں میں موجود ہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
٭٭
ابتدا میں ڈراموں کے پیشِ نظر ہی جمالیاتی اقدار کی تشکیل کی گئی ہے اس لیے کہ ڈراما کو فن کا اعلیٰ ترین نمونہ سمجھا گیا ہے۔ برہماؔ، وشنوؔ اور مہیشور کو رقص اور ڈرامے کا موجد تصوّر کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ احساس رہا کہ رقص ڈرامے ہی کا ایک حصّہ ہے۔ اگرچہ رقص خود ڈراما بن جاتا ہے۔
’ناٹیہ شاسترؔ‘ میں ادا کاروں کو مناسب ہدایات دی گئی ہیں۔ ڈراما نگاری کے لیے شاعرانہ مزاج کو ضروری قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ شاعر کا ’’وژن‘‘ ہی حسن سے متاثر اور لطف اندوز ہوسکتاہے اور دوسروں کو متاثر کرسکتاہے۔ ’دھرمؔ، ارتھؔ، کام، اور موک، ۔ وہ تجربے ہیں جو ڈراما دیکھنے والے اپنے تجربوں کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستان کے قدیم نقّادوں اور علمائے جمالیات نے یہ بتایا ہے کہ ڈرامائی پیشکش کا بنیادی مقصد جمالیاتی تجربوں کو بالیدہ بنانا ہے۔ کرداروں کے جذبات اور ان کے عمل سے جمالیاتی تجربوں میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ موسیقی خود فراموشی کے لمحے عطا کرتی ہے۔ مرکزی کردار یا ہیرو مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈراما دیکھنے والا اس کے عمل میں گم ہو کر اس کی شخصیت سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ اس حد تک کہ وہ ہر شئے اور ہر تجربے کو ہیرو کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔
’ناٹیہ شاستر‘ میں چھتیس ابواب ہیں۔ کشمیری ’’شوازم‘‘ نے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے مصنّف نے دوسرے فنون کی جانب توجّہ نہیں دی ہے۔ اس کی نظر صرف ڈرامے کے فن اور اُس کے مقاصد پر ہے۔ لہٰذا اُس کے انتقادی اصول تمام فنون کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔ غور فرمائیے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ابتدائی ساڑھے تین سو سال میں ہندوستان کی ادبی تنقید میں فنون لطیفہ اور اُس کی ہمہ گیر جمالیات کے پیش نظر کوئی بہت کارنامہ نہیں آتا۔ حالانکہ اعلیٰ ترین تخلیقی آرٹ وجود میں آتے رہے ۔ فنون کی جمالیاتی قدریں دعوت غور و فکر دیتی رہیں۔تخلیقی فنکاروں نے اپنے طور پر جمالیات کا دائرہ وسیع تر کر دیا تھا۔ جمالیات کی عمدہ روایتیں موجود تھیں۔
ابتدائی نقّادوں اور علمائے جمالیات نے ڈرامے کو اپنی تمام توجّہ کا مرکز بنا لیا تھا۔ غالباً اس لیے بھی کہ ادب میں ڈراموں کی تخلیق کا سلسلہ جاری تھا۔ بھٹہ لوللتا (۸۵۰ء) تک نقّادوں کی نظر دوسرے فنون سے ہٹ کر صرف ادب تک محدود ہو گئی تھی۔ قدیم نقّادوں نے ڈراموں کے پیشِ نظر جمالیات کے مسئلے کو تکنیک تک محدود کر دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ڈراما نگاروں
کو مناسب ہدایات دی جائیں۔ اسٹیج اور ادا کاری کے معاملے میں اُنہیں زیادہ بیدار رکھا جائے۔ ڈراموں کے موضوعات اور اُن کی تکنیک کے سلسلے میں اخلاقی اقدار کی تعلیم اور تربیت کو بھی ان نقّادوں نے ضروری جانا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ بہتر ڈراما وہ ہے جو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے آشنا کرسکے۔ عمدہ اخلاقی قدروں کا شعور عطا کرسکے۔ ڈراما دیکھنے والوں کے مزاج اور اُن کی نفسیات پر بھی نظر ملتی ہے۔ اس سلسلے میں بڑی بات یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کے ساتھ براہِ راست مخاطب ہونے پر اصرار نہیں کیا گیا بلکہ یہ کیا گیا کہ اداکار اپنے عمل اور ڈراما نگار ماحول کو اس طرح پیش کرے کہ ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی اخلاقی قدریں ان سے رشتہ قائم کر کے زیادہ سے زیادہ متحرّک ہوں۔ کلاسیکی تنقید نے ’رسوں‘ (RASAS) کو اہمیت دی اور یہ بتایا کہ ادا کاری میں چار پہلوؤں پر نظر رکھنے کی ضرور ت ہے۔ اس لیے کہ چار اقسام کی اداکاری سے ’رس‘ پیش ہوسکتا ہے:
٭ اشارتی یا معنی خیز اداؤں اور حرکتوں کی اداکاری!
۔ (ANIGIKA)
٭ ایسی ادا کاری جو نطقی ہو اور اس میں صوتی آہنگ اور غنائیت ہو۔
۔ (VACIKA)
٭ وہ ادا کاری جو ذہنی عمل کو پیش کرے اور داخلی احساس اور جذبے کو نمایاں کرے، اداکاروں کی جذباتی جہتیں نمایاں اور ظاہر ہوں، چہروں کے تاثّرات سے ذہنی کیفیتوں کی پہچان ہو۔
۔ (SATHVIKA)
اور
٭ ایسی اداکاری جس میں خوبصورت مبالغے بھی ہوں۔ لباس، میک اپ اور زیورات وغیرہ سے مدد لے کر کسی حد تک مصنوعی اور مبالغہ آمیز لیکن فنکارانہ!
۔ (AHARYA)
٭مناظر کی پیش کش میں جمالیاتی نقّالی کی گنجائش پر بھی کلاسیکی ادبی تنقید کی گہری نظر ملتی ہے۔
٭٭
’ہندوستانی جمالیات‘ میں تخلیقی نقّالی ایسے آئینے کی تشکیل نہیں ہے کہ جس میں خارج کے مظاہر نظر آئیں۔ فنون کے مطالعے اور قدیم علمائے جمالیات کے جمالیاتی تصوّرات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تخیّل اور جذبات کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔
’وبھو‘(VIBHAV) کی اصطلاح جذباتی ماحول اور جذباتی کیفیات کو سمجھاتی ہے، جس طرح کوئی رِشی یا صوفی اپنے وجدان اور تخّیل سے کائناتی عناصر اور حسن مطلق سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ اسی طرح تخلیقی فنکار بھی اس ’میڈیم‘ کو اختیار کرتا ہے اور تخیّل اور جذبے اور عناصر میں ہم آہنگی قائم کر کے جو تجربے پیش کرتا ہے اُن میں جذبوں کے خوبصورت رنگ ہوتے ہیں۔ اشیاء و عناصر کی نئی تخلیق ہوتی ہے۔
یہ ذریعہ سب سے اہم تصوّر کیا گیا۔ اس لیے کہ یہی جمالیاتی تجربے کی تخلیق کا باعث ہے۔ ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے فنکار ایک متحرّک ادا کار ہوتا ہے جس کے جذبات بڑی تیزی سے اُبھرتے ہیں اور یہی جذبات قاری یا سامع یا کسی بھی فنّی نمونے کو دیکھنے والوں کے جذبات سے رشتہ قائم کرتے ہیں۔ تخلیق میں ان جذبوں کی روشنی ہوتی ہے اور ان کے رنگ ہوتے ہیں۔ ان کے تحرکات اور ارتعاشات ہوتے ہیں۔ ’وبھو‘ (VIBHAVA) کی اصطلاح اُس عنصر یا تجربے کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے جس سے فنکار متاثر ہوتا ہے اور اُس کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں ۔ اور اُس ماحول کی طرف بھی ذہن کو لے جاتا ہے جو سائیکی (PSYCHE) کو تجربے یا عنصر کی جانب سے بیدار اور متحرّک کرتا ہے۔ اور اُن جذبوں کی طرف بھرپور اشارہ تو کرتا ہی ہے کہ جو تخلیق کے ذمّہ دار ہوتے ہیں۔ حقیقی زندگی کی تصویریں اسی وجہ سے ہو بہو فنون میں جلوہ گر نہیں ہوتیں۔
’تخلیقی نقّالی‘ کا تصوّر صرف وسیع نہیں بلکہ گہرا اور تہہ دار بھی ہے!
ہندوستانی ادبی تنقید میں سری سنکوکاؔ (SANKUKA) نے تصویر کشی اور نقّالی کا ایک تصوّر پیش کیا تھا اور فنکاری کو فوٹو گرافی یا تصویر کشی کے عمل سے قریب تر کر دیا تھا سری سنکو کا نے تاریخی حقائق اور تاریخی واقعات و کردار اور ڈراما کے تعلق پر غور کیا تھا۔ غالباً اسی لئے انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ عمدہ ڈراما یا فن وہی ہے کہ جس میں تمام واقعات و حالات اور کردار اپنی تمام تر سچّائیوں کے ساتھ ہو بہو پیش ہو جائیں ان کے نقالی کے اس تصور کی مخالفت خود ان کے دور میں ہوئی اور بڑی شدت سے ہوئی۔ ان کے دو ہم عصر نقادوں بھٹ توتا اور بھتندو راج نے ان کے اس تصور پر اعتراضات کئے اور ڈرامے کے تعلق سے کئی بنیادی سوالات اُٹھائے جب فلسفوں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی تو تخلیقی عمل کی پُر اسرار کیفیتوں اور خود تخلیق کی جمالیات سے نظر دُور ہو گئی۔ ’سنکھاریہ‘ فلسفے نے صرف ذہنی کیفیت کے اظہار کو جمالیاتی تجربہ سمجھ لیا تھا لیکن رفتہ رفتہ فنون اور ان کی جمالیات کا احساس اس فلسفے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ہونے لگا اور چند اہم خیالات سامنے آئے ۔مثلاً یہ کہ نقل کے عمل سے ’اصل ‘ یا حقیقی عنصر، یا حقیقی فرد کا جمالیاتی تجربہ ہی وابستہ ہوتا ہے۔
آنند وردھن نے ’میڈیم‘ کو اہمیت دی اور یہ کہا کہ نقالی کے تخلیقی عمل کی عظمت ’میڈیم‘ میں پوشیدہ ہوتی ہے‘ زبان یا کوئی بھی ’میڈیم حقیقت کی روح کو پیش کرتی ہے تو بڑی تخلیق ہوتی ہے، حقیقت کی روح کو پیش کرنا ہی تخلیق نقالی کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔
بھٹ نائیک نے ’ویدانت‘ کو ذریعہ بنایا اور یہ کہا کہ تخلیقی نقّالی کا بہترین نمونہ تخیّل کا کرشمہ ہے۔ جن کرداروں کا اسٹیج پر وجود نہیں ہوتا۔ اُن کرداروں کی تخلیق صرف تخیل سے ہوسکتی ہے۔تخیّل کو بے پناہ اہمیت دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ فنکار اور ادا کار کا تخیّل ہی دوسروں سے جمالیاتی رشتہ یا تعلّق قائم کرتا ہے۔ تخیّل کے ایسے کرشموں کو ہم خوابوں اور واہموں سے علیٰحدہ کر کے صرف تخلیق کے نمونوں سے تعبیر کرنا پسند کریں گے۔ اُن کے نزدیک جمالیاتی تجربے کا عرفان برہما کا ادراک و عرفان ہے۔
٭٭
’ہندوستانی جمالیات‘ میں ’التباس ‘ کا جمالیاتی رجحان بھی غور طلب ہے۔ ’التباس‘ حقیقت کی ایک سچّائی ہے یا حقیقت کا احساساتی جلوہ! جمالیاتی التباس فنّی مظاہر کی تخلیق کا محرک بھی ہے اور ان کا جلوہ بھی ہے۔ فنکار اور قاری دونوں حسن کے التباس سے لطف لیتے ہیں اور باطن میں مسرّت آمیز لہروں کو محسوس کرتے ہیں۔
اس رجحان سے یہ احساس پیدا کیا گیا ہے کہ جمالیاتی تجربہ بنیادی طور حقیقت یا سچّائی سے جتنا بھی گہرا تعلّق رکھے، ابلاغ اور اظہار میں اس کی صورت ایک جمالیاتی اور مسرّت آمیز التباس کی ہو جاتی ہے۔ ’تخلیقی نقّالی‘ کے تصوّر میں اس رجحان نے بڑی وسعت پیدا کی ہے۔
فنکار جب حقیقت کے قریب آ جاتا ہے اور اس سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ حقیقت اس کے حسّی تجربے سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو وہ تخلیقی سطح پر حد درجہ بیدار ہو جاتا ہے۔ حقیقت کا فنکارانہ ادراک ایک خوبصورت التباس پیدا کرتا ہے۔ حقیقت کا التباس ہی تخلیق کا متحرک ہے۔ پتھروں میں کسمساتی صورتیں جب فنکار کے احساس و شعور سے رشتہ قائم کرتی ہیں تو اس رشتے کے درمیان ایک التباس جنم لیتا ہے جو فن میں جمالیاتی التباس کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ فنکار اپنے جمالیاتی التباس ہی کو رنگ، آواز اور دوسرے متحرّک پیکروں میں پیش کر کے قاری کو کم و بیش وہی لذّت اور مسرّت عطا کرتا ہے جو اُسے خود حاصل ہوتا ہے۔
’جمالیاتی التباس ‘ میں مشاہدۂ خارج اور مشاہدۂ باطن دونوں کے خوبصورت امتزاج کی اہمیت ہے۔ ’تجریدیت‘ یا امتزاج کے پیکروں کی تخلیقی تشکیل میں جمالیاتی التباس کی پہچان مشکل ہوتی ہے اور یہ کہا جائے تو غالباً غلط نہ ہو گا کہ تجریدی صورتوں اور پیکروں کی تخلیق اور تشکیل اسی رجحان سے ہوتی ہے۔
’ہندوستانی جمالیات میں فطرت اور کائنات اور دیوتاؤں کے جلال و جمال کے موضوعات ہمیشہ اہم رہے ہیں۔ برہماؔ، وشنوؔ، شیوؔ یا وردن وغیرہ کے حسن سے انگنت موضوعات اُبھرے ہیں۔ ہندوستانی فنون کا یہ پہلو ایک مستقبل عنوان ہے۔ ’خالق‘۔ اور اس کی تحلیق کا حسن! ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ رگؔ وید اور اُپنشدوں میں جمالیات کے اس پہلو کی تصویریں ملتی ہیں۔ رقص ، موسیقی، مجسّمہ سازی وغیرہ میں جمالیاتی التباس کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ موسیقی کے فن نے تو اس رجحان کی عظمت کا مکمل احساس عطا کیا ہے۔ التباس اور اس سے حاصل حسّی تجربوں کی پیش کش سچّائی یا حقیقت کی جوہریت (SUBSTANTIALITY) کی پیش کش ہے۔ جلال و جمال کے التباس کا تصوّر تخلیقی نقّالی یا جمالیاتی تخلیقی نقّالی کو عصری سطح سے آشنا کرتا ہے۔
ہندوستانی مصوری سے زیادہ مجسّمہ سازی نے جمالیاتی التباس کے عمدہ ترین نمونے پیش کیے ہیں۔ جمالیاتی پیکروں کی اصابت اور پختگی (INTEGRITY) ہم آہنگی (CONSONANCE) اور صفائی، شستگی اور وضاحت (CLEARITY) میں جمالیاتی التباس کے مظاہر اور جلوے دیکھے جا سکتے ہیں۔
جمالیاتی التباس کی وجہ سے فنکار کے تجربے آہستہ آہستہ گہرائیوں میں اُترتے جاتے ہیں اور وہ ذہن کی مختلف سطحوں پر اجنبی ارتعاشات (VIBRATIONS) سے آشنا ہوتا رہتا ہے۔ تخلیق کے لمحوں میں التباس جانے کتنے خوابوں، واہموں اور علامتوں کو اپنے گرد پاتا ہے۔ اظہار سے قبل جو علامتی خود کلامی ہوتی ہے اس کا محرک وہ التباس ہے جو حقیقت پا سچائی کے ادراک سے پیدا ہوا ہے۔ جمالیاتی التباس کے مظاہر کی پیش کش اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ خارجی اور داخلی علامتوں کی آمیزش نہ ہو جائے۔ جمالیاتی التباس سے علامتوں اور نئی علامتوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا غلط نہ ہو گا کہ ایسے التباس کے اظہار کا ذریعہ علامتیں اور استعارے ہیں۔
ہندوستان کے قدیم علمائے جمالیات نے اس موضوع پر کھل کر اظہار ِ خیال نہیں کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس کی قدر و قیمت کا اندازہ اپنے اپنے طور پر کسی نہ کسی سطح پر کرتے رہے ہیں۔ رگ ویدؔ اور اُپنشد دونوں اعلیٰ سطح پر اس رجحان کو نمایاں کرتے ہیں۔ کالیدؔاس اور دوسرے بڑے ڈراما نگاروں کے فن میں جمالیاتی التباس کے مظاہر اور جلوے موجود ہیں غور کیجیے تو محسوس ہو گا کہ جمالیاتی التباس کا جو شعور ہندوستانی فنکاروں خصوصاً موسیقاروں اور مجسّمہ سازوں کو حاصل تھا وہ ناقدینِ کو حاصل نہ تھا۔ مجسّمہ سازوں کی علامت سازی اس رجحان کو شدّت سے واضح کرتی ہے۔
تخلیقی نقّالی میں جمالیاتی التباس کے رجحان کے استحکام کی بنیاد ’وحدت‘ کا حِسّی اور ما بعد الطبیعاتی تصوّر ہے۔ جمالیاتی عناصر کو ایک دوسرے میں منسلک کرنے اور انہیں ایک وحدت میں محسوس کرنے کا تصوّر جس میں تخیّل اور مادّی حسن کے گہرے باطنی رشتے کے احساس و ادراک کو بہت دخل ہے۔ ’ہندوستانی جمالیات کی بنیاد ہے۔ تمام فنون میں ’وحدت‘ کا احساس ہے۔
’جمالیاتی التباس‘ کی وجہ سے ’علامتی جمالیاتی رجحان‘ کی تشکیل ہوتی ہے۔ ’علامتیت کلا‘ یا تخلیقی آرٹ کی ایک بنیاد جمالیاتی قدر ہے۔ فطرت کے مظاہر اور انسان کے حِسّی اظہار میں علامتیں موجود ہیں۔ لہٰذا آرٹ کے اظہار کا ذریعہ بھی علامتیں ہیں۔ ہندوستان کے بعض نقّادوں نے ’خیال‘ کی علامتی صورتوں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس رجحان سے یہ بات واضح ہوئی کہ علامتی صورت ہی حسن ہے۔ ’ سچّائی‘ یا حقیقت حُسن کی ایسی صورت میں ظاہر ہوتی ہے فنی علامتیں تخیّل کے جلوے ہیں ، شیوؔ کی تیسری آنکھ جلالت کی علامت تھی۔ اس قسم کی علامتوں نے اس رجحان کی آبیاری کی ہے اور جلال و جمال کی انگنت علامتوں نے اس کو پروان چڑھایا ہے۔ اعلیٰ تخلیقی آرٹ کے لیے اعلیٰ روحانی قوّت اور داخلی آزادی کو ضروری سمجھا گیا اور کش مکش اور
خصوصاً فطرت اور تقدیر کے تصادم کے جمالیاتی تجربوں میں علامتوں کے عمل کو اہمیت دی گئی۔ تخلیقی آرٹ کی علامتیت کو سمجھنے کی پہلی عمدہ کوشش کی ہے۔ انہوں نے جمالیاتی علامتوں کی تقسیم اس طرح کی:
٭ موضوع کی علامتیت
٭ الفاظ کی علامتیت
اور
٭ جذبے کی علامتیت
سنسکرتؔ، تملؔ، تلگو، بنگالی اور چند دوسری زبانوں کی قدیم ادبیات کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ شعراء نے ’الفاظ‘ کی علامتیت اور اظہارِ بیان کے جمالیاتی اشاروں کو زیادہ اہم تصوّر کیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ جمالیاتی اظہار سے جمالیاتی تجربے کا پیکر اُبھرتا ہے اگر لفظ اور جذبے میں ہم آہنگی نہ ہو تو جمالیاتی تجربہ شاعر کے ذہن میں کچھ ہو گا اور اظہار میں کچھ اور!
ہندوستان کے جمالیاتی تجربوں میں ’’جمالیاتی تخلیقی نقّالی کی علوی سطح کا مطالعہ وحدت کے اعلیٰ جمالیاتی ادراک اور جمالیاتی التباس اور جمالیاتی علامت پسندی کے رجحانات کے بغیر نا مکمل ہو گا۔
٭٭
(پانچ)
’ہندوستانی جمالیات‘ میں ’’تین گُن‘‘ جو تین مختلف طرز عمل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان گنوں کے پیشِ نظر ہندوستانی فنونِ لطیفہ کا مطالعہ کیا جائے تو جمالیاتی بصیرتوں اور مسرّتوں کا دائرہ اور وسیع محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ تین گُن ہیں:
٭۔ شعور کے اظہار کا عمل!
۔ (SATTVA)
٭۔ شعور کو متحرک کرنے کا عمل!
۔ (RAJAS)
اور
٭شعور پر نقاب ڈالنے کا عمل!
۔ (TAMAS)
یہ تینوں گن ایک ساتھ عمل کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں اور تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس عمل میں غیر متشکّل (FORMLESS) کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ تخلیق کا کائناتی آہنگ سے جو رشتہ قائم ہو جاتا ہے اُسے ہم صرف محسوس نہیں کرتے بلکہ یہ تخلیق جو خود اس آہنگ کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ لازوال مسرّتوں اور حیرت انگیز بصیرتوں کا جلوہ بن کر سامنے آ جاتی ہے۔
اعلیٰ تخلیق کے لیے ’یوگ‘ نے جو روشنی دی ہے اُس کی حیثیت ہندوستانی جمالیات میں غیر معمولی ہے۔ ہندوستانی فنکاروں نے اس کے اصولوں پر عمل کر کے جمالیاتی پیکروں کی تخلیق کی ہے۔ اس عمل میں انہیں جمالیاتی منزلوں یا سطحوں کا درجہ دیا ہے۔ تخلیق کے پُر اسرار عمل کو سمجھنے میں ان سے بڑی مدد ملتی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہندوستانی جمالیات نے تخلیق کے پُر اسرار عمل کے لیے جن راہوں کا تعیّن کر دیا ہے وہ ایسی نہیں جنہیں ’مابعد الطبیعاتی‘ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ اگر ان کے پیشِ نظر تخلیقی عمل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ہر منزل پر ایک سچائی کی پہچان ہو گی۔ ان کی سچّائی اور ابدیت سے انکار کرنا اور ان کے مقابلے میں کسی بھی جدید سائنسی یا نفسیاتی نقطۂ نظر کو پیش کر کے انہیں باطل قرار دینا غلط ہے۔
ان منزلوں کا تعیّن اس طرح کیا گیا ہے۔ [1]
’یام‘ جسم کو پاک صاف رکھنا اور تخلیق سے قبل جسم کی پاکیزگی کے پیش ِ نظر چند اصولوں کی پابندی !
’نیام‘ مشاہدہ کرتے ہوئے شے یا عنصر کو مرکز نگاہ بنانا!
آسَن اندازِ نشست، اِس سلسلے میں مختلف انداز کی تربیت!
’پرانا یام‘ سانسوںکا پھیلانا، ان میں مناسب توازن پیدا کرنا مقررہ اصولوں کے مطابق زیر و بم کو ارتقاء کی منزلوں سے آشنا کرنا۔ سانس کو ایک خاص انداز سے باہر نکالنا اور ایک خاص انداز سے اندر کھینچنا، سانسوں پر مکمّل قابو پا کر شئے یا عنصر کی جانب ذہن کو مرکوز کرنا اور منتہا تک پہنچنے کی کوشش!
’پراتھیار‘ حواسِ خمسہ کو عام باتوں سے علیٰحدہ کرنا!
’دھران‘ موضوعِ تخلیق پر نگاہ کو اس طرح مرکوز کرنا کہ پورا وجود مرتکز ہو جائے، ایک نقطے پر ذہن کو لے آنا!
’دھیان‘ دھران کا نقطۂ عروج! تخلیق کے موضوع میں ڈوب جانا!
استغراق کی منزل!
اور:
’سمادھی‘ خالص شعور کی منزل!
اس کی دو سطحیں ہیں:
(الف) موضوع میں گم ہو جانے کی سطح (سوی کلپ)
اور
(ب) وہ سطح جہاں ذہن کی پہچان موضوع سے ہو۔ موضوع یا پیکر ذہن
کا آئینہ بن جائے۔ (نروی کلپ)
ہندوستان کے تخلیقی آرٹ میں ’سمادھی‘ کے عمل اور اس کی جمالیات نے جو نمایاں حصّہ لیا ہے اس پر ہمیشہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
’جسم‘ فرد کے تخلیقی ہیجان کی شناخت کی بنیاد ہے۔ کہا گیا ہے کہ جس شخص نے جسم کی سچّائی کو پہچان لیا۔ وہی کائنات کی سچّائی کو پہچان سکتا ہے۔ تخلیقی فن کار اپنے ہیجان، اپنی سوچ اور اپنے احساس اور جذبے کے ساتھ باطن میں جن منزلوں سے گزرتا ہے وہ منزلیں فرد اور کائنات کے وجود کا شعور عطا کرتی ہیں۔ نفسی قوّتیں اُسے کائنات کے آہنگ سے آشنا کرتی ہیں اور اس کے بعد آہنگ اور آہنگ کا رِشتہ قائم ہو جاتا ہے اور ’آنند‘ کا حیرت انگیز اور مسرّت آمیز احساس پورے وجود کا احساس بن جاتا ہے۔ جسم کے رموز و اسرار کی شناخت ہی ’اننا مایا‘ اور پران مایا (ANNAMAYA, (PRANMAYA) کی منزلوں کا شعور عطا کرتی ہوئی ’منو مایا‘ (MANOMAYA) اور ’وجنان مایا (VIYNANAMAYA) کی منزلوں تک لے جاتی ہے اور آخر میں ’آنند مایا‘ (ANAND MAYA) کی وہ منزل عطا کرتی ہے کہ جہاں فرد اور کائنات کے آہنگ کی وحدت حد درجہ مسرّت آمیز تجربہ بن جاتی ہے۔ جسم کے تئیں بیداری، فطرت اور کائنات کے تئیں بیداری ہے۔ جسم، فطرت اور کائنات کا صرف ایک حصّہ نہیں۔ بلکہ دونوں کی وحدت کی علامت بھی ہے۔ مادّی اور نفسی رشتوں کی پہچان صرف جسم اور جسم کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔ تخلیقی فنکار اپنے جسم کے ذریعہ اپنے پورے وجود کو نفسی، کائناتی ڈرامے کا اسٹیج بنا لیتا ہے۔ نفسی اظہار کے ساتھ وجود کی روشنی اُبھرتی ہے، پھیلتی ہے، اس کی شعاعوں میں نغمہ ریز ارتعاشات سے معنی خیز رشتہ قائم کر کے آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا احساس عطا کرتے رہتے ہیں تخلیقی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور اس احساس اور ان تخلیقی صورتوں سے لذّت آمیز مسرّتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں اور بصیرتوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا رہتا ہے۔
’وحدتِ جلال و جمال‘ کا بنیادی جذبہ ہندوستانی فنونِ لطیفہ کی رُوح ہے۔ تمام تخلیقات کی ’وحدت‘ کا تصوّر بنیادی تصوّر ہے۔ وحدت کا تصوّر ایسے غیر شعوری رجحان کا نتیجہ ہے کہ جس نے ہندوستانی فنونِ لطیفہ کو ابتدا سے عظمت بخشی ہے۔ ’رقص‘ موسیقی، ’تعمیر سازی‘ اور ’مجسّمہ سازی میں یہ بنیادی جذبہ پُر اسرار وجدانیت کے ساتھ موجود ہے۔
مذہب آزادانہ اظہار کی آزادی بخشتا ہے۔ ایک کھلی ہوئی آزاد فضا میں اظہار کی آزادی سے وحدت جلال و جمال کا جذبہ مختلف رنگوں کے ساتھ مختلف پھولوں کی طرح کھلتا ہے۔ داخلی جوش اور جذبہ اتنا انفرادی ہے کہ کائنات کے رموز و اسرار سے اپنے طور پر رشتہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور انفرادی اور داخلی بصیرت کا ثبوت دیتا ہے۔ بنیاد ایسی کہ محسوس ہو جیسے مٹی کے اندر اس کی جڑیں جانے کہاں اُتری ہوئی ہیں اور اُٹھان ایسی کہ لگے جیسے آسمان سے اس کا گہرا با معنی رشتہ ہو۔
بلا شبہہ جنگل کی تہذیب نے اس بنیادی جذبے کو بیدار اور متحرّک کر دیا ہے۔ سر بلندی اور زمین کی گہرائیوں میں اُترنے کے احساسات درختوں سے ہی بیدار اور متحرّک ہوئے ہوں گے۔ کائنات سے رشتہ قائم کرنے کی تڑپ ایسی ہے کہ ’وحدت‘ کی خواہش دیواروں میناروں اور مختلف مجسّموں اور پیکروں کی صورتوں میں متشکل ہو گئی ہے۔ آسمان کو حیرت سے تکتے رہنے کی کیفیت اور تمام تخلیقات کی وحدت کو پانے کی آرزو نے جانے کتنے مندروں کی تخلیق کو جلال و جمال کا مظہر بنا دیا ہے۔ باطن کا آہنگ دیواروں، میناروں اور مجسّموں اور پیکروں میں سما گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ ہندوستانی رقص، تعمیر اور مجسّمہ سازی،
موسیقی کے آہنگ کی مجسّم صورتیں ہیں لیکن ساتھ ہی موسیقی کی لہریں بھی متحرک ہیں۔ حِسّی اور جذباتی تجربوں کے اظہار میں باطن کا آہنگ ہر جگہ موجود رہتا ہے۔ لہٰذا مترنم زیر و بم نے ہندوستانی فنون کو زبردست پائیداری بخشی ہے۔ اساطیری اور تمثالی پیکروں میں وحدتِ جمال کے احساس کے ساتھ باطن کا آہنگ بھی موجود ہے۔ سچائی تو غالباً یہ ہے کہ باطن کے آہنگ ہی نے وحدتِ جلال و جمال کے بنیادی جذبے کو شدّت سے اُبھارا ہے۔ اس آہنگ کے زیر و بم سے ایسی علامتیں خلق ہوئی ہیں جن کے حسّی تحرک کی قوت کا اندازہ اُن استعاروں سے ہوتا ہے جو تمثالی پیکروں میں اپنی آفاقیت کا گہرا احساس عطا کرتے ہیں۔
جمالیاتی نقطۂ نظر سے ما بعد الطبیعی عقیدے سے زیادہ:
٭ ما بعد الطبیعی مشاہدہ۔
٭ تجریدی بصیرت۔
٭ حسّی تجربے۔
٭ باطنی آہنگ۔
٭ استعاراتی اور تمثالی پیکر۔
٭ صفر سے لا متناہیت کا پُر اسرار باطنی سفر۔
٭ ماحول کی آزادانہ فضا میں وجدانی کیفیتوں کا اظہار۔
٭ اضطرارات اور حواس کو مجتمع کرنے کی جمالیاتی آرزو مندی۔
٭ لاشعوری طور سحر آفریں علامتوں کی تشکیل۔
٭ جمالیاتی تجربوں کی ہم آہنگی۔
٭ مختلف اسالیب کے رنگ۔
٭ تجریدی صورتوں میں لاشعوری شناخت کا عمل۔
٭ ایک علامت سے دوسری علامت کی طرف تیزی سے جانے کا عمل۔
٭ پر اسرار خوف اور جمالیاتی کشش کا خوبصورت امتزاج ۔
٭ تلازمات کو قائم رکھنے کی خواہش اور مبہم تاثرات اور فعال محسوسات کو
٭ اور زیادہ غیر واضح اور تجریدی بنانے کی تخلیقی آرزو۔
٭ تجریدی مشاہدے۔
اور پیکروں کے ارتعاشات۔
اہمیت رکھتے ہیں۔
’ہندوستانی فنونِ لطیفہ‘ میں وحدتِ جلال و جمال کا تصور بنیادی تصوّر ہے۔ اس کی لاشعوری تاریخ جو جنگل کی تہذیب سے شروع ہوتی ہے۔ شوازمؔ کے حسّی تصوّر سے تابندہ اور تاب ناک بنتی ہے۔
صدیوں کی تاریخ میں اس حِسّی تصوّر نے انتہائی پُر اسرار سفر کیا ہے۔ جسم اور روح کے رشتے اور ان کی ہم آہنگی کے تصوّر نے گہرائی، وسعت اور بلندی کے ’آرچ ٹائپس‘ کو شدّت سے بیدار اور متحرک کیا ہے۔ شیوؔ اور شکتیؔ یا شیوؔ شکتی کے نفسیاتی اور حسّی تصوّر نے صدیوں میں سفر کیا ہے۔ پھر اس کی فسلفیانیہ جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔
ایک پھیلے ہوئے اجتماعی لاشعور سے جو تخلیقی قوت اُبھرتی ہے اُسے ہم ’شیو شکتی‘ کے تاثرات میں پاتے ہیں۔ یہی وہ قوّت ہے جس کی مدد سے اندر کا فنکار سر اُٹھاتا ہے اور اوپر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کثرت میں وحدت کو دیکھنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے اور روحانی اور ارضی دونوں سطحوں پر اس کی تکمیل ہوتی ہے کچھ اس طرح بھی کہ دونوں کی وحدت ہی سے کوئی انکشاف ممکن ہے۔ ’بندو‘ ’دائرہ بنتا ہے پھیلتا ہے اور رفتہ رفتہ پوری کائنات کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ دیو مالا یا اسطور کی تخلیق ہوتی ہے۔ رموز و اسرار کو سمجھنے اور سمجھانے کا ایک خوبصورت اسلوب ہاتھ آ جاتا ہے۔ ’سائیکی‘ (PSYCHE) کے تیز عمل نے جبلّتوں کے اظہار کو بڑی معنویت بخشی اور کائناتی سطح پر اسطور سازی کا تخلیقی عمل شروع ہوا اور ایک نئی دنیا کی رومانی تخلیق کی ابتدا ہوئی۔
’’آرچ ٹائپس‘‘ (ARCHTYPES) انسان کی ’سائیکی‘ کے مجموعی پوشیدہ امکانات اور استعارات ذاتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پچھلی نسلوں اور آباء و اجداد کے تجربوں، خوابوں اور واہموں کو جذب کر کے تخلیق کی صورتیں عطا کرنے کے پُر اسرار عمل میں ’’آرچ ٹائیپس‘‘ کی بیداری اور ان کے تحرک کا احساس ملتا ہے۔ ’سائیکی‘ کی قوّتوں نے انہیں آرٹ میں فنّی حقیقتوں کی ایسی صورتیں عطا کی ہیں کہ جن سے زندگی اعتدال کے ساتھ اُوپر اٹھتی ہے۔ نفسی سطح پر درون بینی کا عجیب و غریب عمل ملتا ہے۔ واہموں، خیالوں، خوابوں اور حسّی تجربوں میں خدا، انسان اور کائنات کے رشتوں کے جانے کتنے محسوس اور نا محسوس تجربے موجود ہوتے ہیں۔ تخلیقی عمل میں جب کسی فرد کی ’سائیکی‘ کی بیداری کے عمل میں کچھ دریچے کھلتے ہیں تو دراصل اس کی نفسیاتی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ نئی زندگی سے ان کا رشتہ پیدا ہو۔ حال سے رشتہ مضبوط ہو، فرد تنہا نہ رہے۔ بلکہ ابدی کائناتی عمل سے بندھ جائے۔ آرچ ٹائپس ‘ انسان کے تمام تجربوں کا ذریعہ ہے جس کا سر چشمہ لاشعور اور اجتماعی لاشعور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام تجربوں کی جمالیات سے ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ارسطو سازی کے عمل میں ان کی پہچان زیادہ ہوتی ہے اور پھر اسطور نے اس سلسلے میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔ تخلیقی آرٹ نے اسطور، قدیم کہانیوں مذہبی قصّوں اور روایتوں اور اُن کی پُر اسراریت کو شدّت سے جذب کیا ہے اور جانے کتنی علامتوں اور جانے کتنے پیکروں اور امیجز کی تخلیق کی ہے۔ تمام علامتوں، استعاروں اور پیکروں میں ’سائیکی‘ کے عمل کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سانپ، مچھلی، درخت ، سورج، صفر، دائرہ، پہیہ، کنول، ندی۔ غار، ابوالہول، عظیم ماں، ضعیف دانش مند، جنّت ، پاتال وغیرہ سب اجتماعی، لاشعور کے بنیادی نقش اور تصوّر سے گہرا باطنی رشتہ رکھتے ہیں۔
شو ازمؔ کی جڑیں جنگل کی تہذیب کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ ہڑپّاؔ اور مہنجود اروؔ سے حاصل شدہ اشیاء سے یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ صدیوں پُرانے تصوّر نے اس تہذیب تک ایک معنی خیز سفر کیا ہے۔ ہندوستانی فنونِ لطیفہ اور ہندوستانی جمالیات میں یہ تصوّر سب سے بڑا سر چشمہ ہے اور صدیوں کے سفر میں جانے اس کی کتنی جمالیاتی جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔
شیوؔ علامت بھی ہے، استعارہ بھی اور امیج بھی۔ اپنی تہذیب کی تاریخ میں سفر کرتا ہوا انتہائی قدیم، مستحکم، معنی خیز اور ہر درجہ جہت وار، آرچ ٹائپ‘۔
وہ ماورائے ادراک کی علامت ہے۔
مقدّس ہے، تقدّس کا سر چشمہ ہے۔
بے چہرہ ہے لیکن حاضر و ناظر، ہر جگہ موجود۔
تمام قوّتوں اور طاقتوں کا مرکز ہے۔
حد درجہ مقدّس لیکن ساتھ ہی ذی حِس اور منکر بھی۔
علم کُل کی علامت ہے۔
معرفت کا سرچشمہ ہے۔
علم مطابق اور علم بسیط کا تصوّر اُسی کی جانب کھینچے لیے جاتا ہے۔
فیض رساں بھی ہے اور بد خواہ بھی۔
تمام مظاہر کا خالق ہے۔
اور جو مظاہر خلق نہیں ہوئے ہیں اُنہیں وہی خلق کرے گا۔
خوبصورت بھی ہے اور بد صورت بھی۔
محافظ بھی ہے قہار بھی۔
عظیم یوگی ہے۔ اُس کے رقص کی ہر ادا ’یوگ‘ کا ایک سبق ہے۔
وہ مرد بھی ہے اور عورت بھی۔ اردھ نار ایشور کے روپ میں بھی ہے۔
اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ اور نہ اس کا کوئی اختتام۔
’شکتی‘ اس کی روح ہے۔ باطنی قوّت ہے جو اُسے متحرّک اور بیدار کرتی ہے۔
’شیوؔ اور شکتیؔ کی وحدت ہی کائنات ہے۔
دونوں کی وحدت ہی جلال و جمال کی وحدت کا عرفان عطا کرتی ہے۔
وحدت کا یہی عرفان
’ہندوستانی جمالیات‘ کا بنیادی سرچشمہ ہے!!
٭٭
’’کنڈنی یوگ‘‘ (KUNDALANI YOGA) کی جو نئی دریافت ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے چھ خاص مرکزوں کی اہمیت کیا ہے۔ ’’کنڈنی شکتی‘‘ بنیادی قوّت ہے۔ شیوؔ کے حِسّی تصوّر نے اس طاقت کا احساس عطا کیا ہے۔
جنگلوں کی زندگی سے غاروں کی زندگی تک اس ’شکتی‘ نے انسان کو باطنی طور پر بیدار کیا ہے اور خارجی طور جدو جہد کرنے کے بے پناہ حوصلے عطا کیے ہیں۔ اس ’شکتی‘ کو بیدار کرنے کی خواہش کسی نہ کسی طور ابتدا سے رہی ہے۔ اس کی پہچان کی پہلی منزل یقیناً غیر معمولی احساس کی منزل ہو گی۔ یہ طاقت ایک مسلسل عمل ہے جس سے باطنی طور پر جاگِرتی پیدا ہوتی ہے اور کچھ اس طرح کہ انسان کا تخیّل اور اس کا وجدان اور اس کی باطنی طاقت بیدار اور متحرک ہو کر نیچے سے اوپر کی طرف جاتی ہے اور تمام جسمانی مرکزوں سے گزرتی ہوئی منتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔ سر کی بلندی تک!
یہ شکتی نیچے سے اوپر جاتی ہے اور اس کی منزل ’’ساہس رار‘‘ (SAHASRARA) ہے اور اسی کے بعد روح کی آزادی شیوؔ کی لا محدودیت سے آشنا ہو کر اس میں جذب ہو جاتی ہے۔ ’تانتروں‘ میں سات چکروں کے پیچھے یہ قدیم حِسّی تصوّر موجود ہے جس کی داستان یقیناً صدیوں کے تجربوں میں بہت پہلے پھیلی ہو گی۔ ’وسعت‘ اور ’بلندی‘ کے ’آرچ ٹائیپس‘ نے یقیناً اس میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔ تانتروں نے شعور کے ان مرکزوں کی نشان دہی کی ہے۔ ریڑھ یا ریڑھ کی ہڈّی کے آخری سرے یا آخری کنارے سے جسے ’مل دھارMULDHARA کہا گیا ہے۔ یعنی پشت پناہ ، بنیادی سہارا۔ ساتویں مرکز یعنی ’ساہس رار‘ (SAHASRARA) تک ’شکتی‘ سفر کرتی ہے۔ انسان کے جسم کے سب سے نچلے حصّے میں یہ بنیادی قوّت ہوتی ہے اور اسی سے جسم زندہ ہے۔
اِس طاقت کو ’تانتروں‘ میں ’کنڈلی‘ کہا گیا ہے۔ ’مل دھارا‘ اس کی آماجگاہ ہے، اسے، کنڈلی، اور ’کنڈنی‘ دونوں کہا جاتا ہے۔ یہ ’شکتی‘ سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھی رہتی ہے اور جب متحرک ہوتی ہے تو سانپ کی طرح بل کھا کر اوپر کی طرف چلتی ہے۔ اس کا سب سے قدیم نام ’’بوجنگی‘‘ یا ’’بھوجنگی‘‘ ہے۔ یعنی ’سانپ‘ ! ۔ اور یہ لفظ ہمیں تانتروں کی تخلیق سے بہت پیچھے گہرے اندھیروں میں بعض حِسّی تصوّرات کو ٹٹولنے پر اُکساتا ہے۔ یہ غیر معمولی طاقت ہے جو بیدار اور متحرّک ہوتی ہے تو جانے کتنے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ انہیں شدّت سے متحرّک کیا جاتا ہے تو انسان انتہائی بلندیوں پر ’گیان‘ کی کیفیتوں سے آشنا ہوتا ہے۔’بوجنگی‘ یا ’بھوجنگی‘ (سانپ) کے پورے عمل کو ’’بھوت سدھی‘‘ کہا گیا ہے ۔ یعنی جسم کے تمام عناصر (بھوت) کو پاکیزہ کرنے کا عمل!
وحدتِ جلال و جمال کا یہ قدیم تصوّر انتہائی غیر معمولی ہے۔ لا محدودیت سے آشنا ہو کر اس میں جذب ہو جانے کی آرزو اور اس کی تکمیل دونوں توجّہ طلب ہیں۔
’ہندوستانی جمالیات‘ میں کنڈنیؔ کا قدیم ترین حِسّیاتی تصوّر جذب نظر آتا ہے۔ رقص، موسیقی، مجسّمہ سازی اور تعمیر سازی میں شعور کی کئی سطحوں کو اپنی فنکارانہ کاوشوں سے اعلیٰ ترین سطحوں پر لے جانے یا انہیں ارفع ترین سطحوں میں تبدیل کرنے کی ہمیشہ کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ فنکاروں کے نزدیک تخلیق اعلیٰ ، برتر اور عظیم تر شعور کا مظہر ہے۔ یہ شعور الفاظ سے ماورا، ذاتِ لا محدود ہے۔ اندر بَل کھاتا ہے ، پھیلتا ہے اور شعور کی اعلیٰ ترین سطح پر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ شعور ’شکتی‘ کی صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور عظیم تر شعور (شیوؔ) تک پہنچ کر اسے بھی محرّک کر دیتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیوؔ اور شکتیؔ (دونوں ایک ہی شعور کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہی سچّائی کے دو رُخ ! شیو ؔ ساکت ہے اور شکتی متحرّک۔ لہٰذا شعور کا یہ متحرّک پہلو بیدار ہوتا ہے تو بلندی پر پہنچ کر شیوؔ کو بھی متحرّک کر دیتا ہے۔ ’شکتی‘ میں جذب ہو جانے کے بعد بھی ’شیو شکتی‘ کا کائناتی تصوّر پیدا ہوتا ہے جس کے عظیم تر دائرے میں ہر شے ایک دوسرے میں جذب نظر آتی ہے۔ بنیادی معاملہ ’کل‘ کو گرفت میں لینے اور اس کے عرفان کا ہے۔ جذباتی ہیجان اور جمالیاتی انبساط اور مسرّت بھی عظیم تر شعور تک پہنچنے کی آرزو کل کائنات کے حسن کو ایک وحدت میں دیکھنے اور محسوس کرنے کی آرزو ہے۔ موسیقی، رقص، مجسّمہ سازی اور فنِ تعمیر میں نیچے سے اوپر اُٹھنے، پھیل جانے اور ایک جمالیاتی وحدت کا شعور و احساس عطا کرنے کا جو عمل ملتا ہے وہ اسی جمالیاتی عرفان کا نتیجہ ہے۔
اِ س بنیادی حِسّی تصوّر نے ابتدا سے یہ احساس دیا ہے کہ تمام تجربے ایک ہیں۔ لہٰذا اجتماعی طور پر بھی عموماً تجربے کی صورت ایک جیسی ہوتی ہے اور تخلیقی عمل میں یکساں کرب ہوتا ہے۔ مکاں (SPACE) میں باطن کے نقطے (بِندو) یا ’صفر‘ کو پھیلانے کی خواہش نے فنون لطیفہ کو جنم دیا ہے۔ جب شعور کسی تجربے کو پاتا ہے تو اس تجربے کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے اور اس میں ایسا تحرّک پیدا ہوتا ہے کہ وہ ’مکاں‘ میں پھیلنے لگتا ہے۔ نقطہ یا صفر، دائرہ اور پھر عظیم اور عظیم تر دائرہ بن جاتا ہے۔ اسی تخلیقی کیفیت کو ’ہندوستانی جمالیات میں ’نادا‘ (NADA) کہا گیا ہے۔ ’’یعنی ’’شیو شکتی‘‘! دونوں کا معنی خیز داخلی باہمی رشتہ مسرّتوں اور لذّتوں کا سر چشمہ ہے۔ ’ناد‘ (شعور کی بنیادی دو صورتیں) ’بیج‘ (BIJA) (شکتی کی فطرت) اور ’بِندو‘ (BINDU) (صورت )۔ تینوں ’کام کلا کے زاویے ہیں۔ یعنی جمالیاتی ظہور پذیری کی مقدّس آرزو!!
اسی حِسّی تصوّر میں صدیوں بعد ’تانتروں‘ نے ما بعد الطبیعاتی اور وجدانی جہتیں پیدا کی ہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ ’ناد‘ (NADA)
کے ہیجان اور اس کی تیز سنسناہٹ سے ’مہابندو‘ کا جنم ہوتا ہے جو ’تِری بِندو‘ کی صورت میں ’ کام کلا‘ کا احساس عطا کرتے ہیں۔
یہ خیال توجّہ طلب ہے کہ شعور کے ساکن پہلو ہی سے مادّہ اور ذہن پیدا ہوئے ہیں۔ ’پراکرتی‘(PRAKRITI) ایک عظیم تر تخلیقی قوّت ہے جو ایسے شعور سے پیدا ہوتی ہے،جس کی اپنی کوئی صورت نہیں ہے۔ لا محدود ہے جانے کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی حد مقرّر نہیں ہوسکتی۔ بے پناہ تاریکیوں میں (اجتماعی یا نسلی لا شعور) پھیلی ہوئی ہے۔ یہ اسی کا کرشمہ ہے کہ فنکار پر ’پراکرتی کی مدد سے شعور کو واضح کرتا ہے (ستو) اسے متحرّک کرتا ہے۔ (راجیہ) اور پھر اسے خوش نما‘ حسین اور دِل آویز جھلملاتے ہوئے پردے (تما) میں رکھتا ہے۔ تخلیقی عمل میں یہ تینوں گن ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ متوازن ہوتے ہیں۔ کسی ایک میں کمی آ جائے تو تخلیق کی بہتر صورت پیدا نہیں ہو گی، تخلیقی عمل یا تخلیق کے لمحوں میں ان گنوں میں ہلچل سی آ جاتی ہے جسے ’گنک شوبھا‘ (GUNAKSHOBAH) کہا گیا ہے، اور اس کے بعد ارتعاش (VIBRATION) پیدا ہوتا ہے۔ جسے سپن ون (SPANDAMA) سے تعبیر کیا گیا ہے جو تخلیق کی تکمیل میں کائناتی آہنگ کے حسین تر اور انتہائی دل نشیں زیر و بم (سبد برہم) کی صورتوں میں جنم لیتا ہے۔ ’گنوں‘ کا تحرّک ایک دوسرے کو متاثر کرتا ہے اور تخلیقی عمل شروع ہو جاتا ہے جو ’’نہیں ہوتا‘‘ ’’ہو جاتا‘‘ ہے۔ غیر متشکلی سے شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ ’پراکرتی‘ وکرتی (تبدیلی) میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اور اسی کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ’وکرتیوں‘ سے ذہن حواسِ خمسہ اور مادّہ نے کیا خلق کر دیا ہے!
٭٭
’’ہندوستانی جمالیات‘‘ میں مذہبی تجربوں کی شادابی حد درجہ معنی خیز کیفیتوں کے ساتھ بلند تر مقام پر نظر آتی ہے۔ کائنات کی مکمل صورت ایک ایسے آفاقی، پر جوش، متحرّک اور غیر محدود ’چکر‘ میں جلوہ گر ہوتی ہے کہ جس کی ابتداء ہے اور نہ اختتام۔ مکاں میں کہیں کوئی خلا نہیں ہے۔ اس ’چکر‘ کی وجدانیت پُراسرار باطنی وجدانیت ہے جو ’خارج‘ اور باطن دونوں کا جوہر ہے۔ ’چکر‘ یا دائرہ اسی وجہ سے ایک ہمہ گیر علامت بن جاتا ہے۔
’شکتی‘ اس ’چکر‘ کو قائم رکھتی ہے۔ جنگل نے لا محدودیت کا حِسّی تصوّر دیا ہے جس سے ’چکر پوجا‘ کی صورت اُبھر آئی۔ تانتروں نے صدیوں بعد اسے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ ’’بھجنگی‘‘ (سانپ) کی کنڈلی اور پودوں اور پھولوں کا مرنا اور جینا اس حسی تصوّر کے پیچھے موجود ہے۔ ’چکر‘ کی ظاہری صورت نے ’باطن‘ اور خارج دونوں کی کیفیتوں کو سمجھایا ہے۔ پوری کائنات کو گرفت میں لے لیا اور’ شکتی‘سے شیوؔ تک کے سفر اور شیوؔ شکتی کی مجموعی صورت کو باطن میں سمیٹ لیا ہے۔ ’چکر‘ تمام قوّتوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ تانتروں نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ لہٰذا ’سری چکر ‘ ’بھیروی چکر‘ سدھا چکر‘ کالی چکر‘ کی صورتیں اُبھریں اور یہ سمجھایا گیا کہ روحانیت عبادت کی وجہ سے اوپر سے نیچے نہیں آتی بلکہ اس کی دریافت باطن میں ہوتی ہے۔
ہندوستانی فنون کے پس منظر میں ان تمام تجربوں کی ہمہ گیری اور گہری معنویت اہمیت رکھتی ہے۔!
’’اوم‘‘ (OM) کاچکر کے حِسّی تصوّر سے گہرا رشتہ ہے۔ ’صفر‘ نے دائرے کی صورت اختیار کی اور اس کے بعد ’اوم‘ کا تصوّر پیدا ہوا۔ ’شونیہ‘ (صفر) اور دائرے کا حِسّی اور جذباتی رشتہ ’سورج‘ سے ہے۔ آفتاب زندگی اور روشنی کی علامت ہے۔
’اوم‘ اوّلیں آواز ہے کہ جس سے کائنات خلق ہوئی ہے۔ اسی آواز سے کائنات کا ارتقا ہوا ہے۔ منتروں کی آوازوں کی صورتوں کا سر چشمہ ’اوم‘ ہے۔ اسی آواز سے تمام آوازیں خلق ہوئی ہیں۔ ’اوم‘ کی آواز اور اس کی صورت ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں آواز کے بغیر اس کی صورت اور صورت کے بغیر اس کی آواز کا کوئی تصوّر پیدا نہیں ہوسکتا۔ آواز صورت ہے اور صورت آواز!۔ [2]’اوم‘ کی آواز اور صورت سے کائنات کے رموز و اسرار اور جلال و جمال کا عرفان حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تین آوازوں کا مجموعہ ہے:
’ا‘ ’و‘ ’م‘
یہ تینوں آوازیں، تین گنوں اور تین بنیادی اوّلیں رُجحانات اور محرکات کی علامتیں ہیں:
’تخلیق ‘ ’تحفّظ‘ اور ’’تحلیل یا فنا‘‘!
یہ آوازیں، کائنات کی تمام سطحوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ تمام کائناتی علوم کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
’اوم‘ کو تمام ارتعاشات (VIBRATIONS) کی ’ماں‘ کہا گیا ہے۔ غیر فانی اور ابدی سچّائیوں اور طاقتوں کے عِلم کا سر چشمہ! پوری کائنات کی رُوح، جوہر، خلاصہ ۔[3]
’تانتروں ‘ نے جہاں اس سچائی کو قبول کیا ہے وہاں ایک اور نکتہ پیدا کیا ہے۔ اُن کے مطابق ’’چکر‘‘ یا دائرہ ، یونی کی علامت ہے ’یونی‘ زندگی اور روشنی کا سرچشمہ ہے کہ جس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ احتشام ’ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں کا اسی سے تعلق ہے۔ ’وحدّت‘ کے حِسّی اور نفسی تصوّر کو مادّی بنیاد عطا کرتے ہوئے ’تانتر‘ نے جہاں ’لنگم‘ اور ’یونی‘ کی ہم آہنگی کا گہرا شعور بخشا ہے۔ وہاں حسن و جمال، لذتّیت کے تقدّس اور ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی آسودگی اورمسرّت و انبساط یا ’آنند‘ کے دائرے کو وسیع کر دیا ہے۔ ’تانتر‘ کے مطابق ’اوم‘ ’لنگم‘ اور ’یونی‘ کی ہم آہنگی کی علامت ہے۔
’تانتر‘ میں ’چکر پوجا‘ وحدت کے احساس و عرفان کا ذریعہ ہے۔ ’’بھیر اوی چکر ‘‘ کو اس عبادت میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ’عورت‘ گرو کی صورت جلوہ گر ہوتی ہے اور ایک چکر میں عبادت شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اجتماعی عبادت جہاں مختلف تجربوں کو منسلک کر کے ان کے تئیں بیداری کا احساس عطا کرتی ہے۔ وہاں روحانی اور نفسیاتی اور معالجاتی اقدار کا شعور بھی گہرائیوں میں دیتی رہتی ہے۔ ایسے عمل سے ذات اور ذات، ذات اور کائنات اور انفرادی اور اجتماعی آہنگ اور کائناتی آہنگ کی وحدت کا شعور حاصل ہوتا رہتا ہے۔
’آفتاب‘ تمام اشیاء و عناصر کی وحدت کی علامت ہے۔ اس کا دائرہ کائنات کی وحدت اور آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا شعور عطا کرتا ہے۔ آفتاب کی پرستش یا ’سورج پوجا‘ کے بارہ انداز پر نظر رکھی جائے تو محسوس ہو گا کہ ہر انداز سے آفتاب اور ’فرد‘ کا رشتہ واضح ہو رہا ہے اور بارہ انداز کی تکمیل کے بعد اپنے وجود کے چکر اور اس کی گردش کا عرفان حاصل ہو گیا ہے۔ نیز یہ حقیقت بھی بخوبی نقش ہو گئی ہے کہ فرد اور سورج دونوں ہی ’چکر‘ ہیں۔ ’سوریہ نمسکار‘ جہاں آفتاب کی عظمت کے گہرے ردِّ عمل کا اظہار ہے وہاں جلال و جمال کی وحدت اور فرد اور کائنات کی وحدت کا گہرا شعور بھی ہے۔ ’یوگ‘ نے اسے بڑی اہمیت دی ہے۔ اور ’سوریہ نمسکار‘ کے لیے جسم کے تحرک کے آہنگ کی آہستگی مطابقت ، خوش ترتیبی اور ہم آہنگی اور سانسوں کے مناسب زیر و بم کی مناسب تربیت پر زور دیا ہے۔ ’سوریہ نمسکار‘ کی ابتدا ’پران و‘ (PRANAVA) یعنی ’اوم‘ سے ہوتی ہے۔ ’بیج منتر‘ کی آواز کے ساتھ چھ بنیادی آوازیں ہیں۔ سورج کے بارہ نام لیے جاتے ہیں اور ہر نام کے ساتھ عبادت کا ایک عمل یا انداز وابستہ ہے۔ پہلے عمل میں آفتاب کو منتر، کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسا دوست جو تمام ابدی قوّتوں اور طاقتوں کا سر چشمہ ہو۔ دوسرے عمل میں اُسے ’’روی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی قوّتِ حیات کا چمکتا ہوا پیکر ! تیسرے عمل میں آفتاب کو ’’سوریہ‘‘ کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ یعنی روشنی کا ابدی منبع! چوتھے عمل میں اُسے ’بھانو‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ ابدی پیکر جو آسمان کا شہنشاہ ہو۔ اپنی گرمی اور روشنی کے ساتھ سب سے عظیم نقش بنا ہو۔ پانچویں عمل میں وہ ایک خوبصورت، مشرق سے مغرب کی جانب پرواز کرتا ہوا پرندہ بن جاتا ہے (کھاگا) چھٹے عمل میں وہ ’پش‘ (PUSHANA) یعنی طاقت اور تحرّک عطا کرنے والا پیکر بن جاتا ہے۔ ساتویں عمل میں وہ ’’ہر نیا گربھ‘‘ (HIRANYA) GARBH کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ یعنی سنہرے حاشیوں کے درمیان ابدی قوّتوں کا جلوہ آٹھویں عمل میں وہ صبح کاذب کا خالق، ماربچی، ہے۔ نویں عمل میں ’ادیتی کا بیٹا یعنی اوّلین روشن پیکر کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت!
دسویں عمل میں وہ ’سویتا‘ (SAVITA) ہے یعنی گرم شعاعوں کا گہوارہ کہ جس سے عقل و دانش کی گِرہیں کھلتی ہیں۔ گیارہویں عمل میں وہ ’اراک‘ (ARAK) ہے یعنی تمام اشیاء و عناصر کو زندہ اور تابندہ رکھنے والا، اور بارہویں عمل میں ’سورج‘ ’بھاسکر‘ (BHASKARA) کی صورت جلوہ گر ہوتا ہے جو داخلی اعتماد کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے اور نئے امکانات سے آشنا کرتا ہے۔ اس طرح ’سورج پوجا‘ یا ’’سوریہ نمسکار‘‘ سے ایک چکّر پورا ہوتا ہے جو عبادت کے بعد پوری کائنات کے جلال و جمال کا عرفان عطا کرتا ہے۔ روشنی اور گرمی اور مختلف جلوؤں کے ارتعاشات کا احساس وجود کی گرمی اور باطن کے جلوؤں کے ارتعاشات سے رشتہ قائم کر کے ایک ’’جمالیاتی وحدت‘‘ کا شعور عطا کر دیتا ہے۔ آفتاب کو صبح کی عبادت میں بارہ علامتوں میں اِس شدّت سے محسوس کیا جائے کہ فرداس میں اور وہ فرد میں جذب ہو جائے۔ یہ بارہ عمل بارہ صورتوں یا علامتوں کو محسوس کرتے ہوئے ایک چکر پورا کر لیتے ہیں۔
’اوم‘ کائنات کی عظیم تر اور انتہائی معنی خیر علامت ہے اور ہندوستان کی مقدّس عمارتوں اور دوسری فنّی تخلیقات میں اس کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ بدھ ازمؔ کے گہرے اثرات سے قبل اس کا جادو روح کی بالیدگی کا ضامن رہا ہے اور فنونِ لطیفہ نے اسے ہمیشہ شدّت سے قبول کیا ہے۔ یہ بدھ آرٹ میں بھی اپنی بے پناہ معنویت کے ساتھ جذب ہوا۔ ’چکر ‘ کی علامت بدھ ازم کی سب سے معنی خیز علامت بنی اور ’سچّائی‘ کو دو حصّوں میں منقسم کر کے تخلیق کا عمل جاری رہا۔ یہ بنیادی خیال فنونِ لطیفہ کا بھی مرکزی تصوّر رہا ہے۔ ’’شیو شکتی‘‘ کے بنیادی تصوّر نے اس علامت کو گہری معنویت عطا کی۔ برہماؔ اور مایا اور شیوؔ اور پاروتیؔ نے ’سکس‘ (SEX) کے بے پناہ تقدّس کا احساس دیا۔ ’لنگم‘ اور ’یونی‘ کی علامتوں کی پر ستش نے کائنات کی اس عظیم تر علامت کی معنویت کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔ دونوں کی ہم آہنگی کی عبادت کائنات کی قوّت اور اس کی بے پناہ طاقت کی عبادت ہے۔
’’شکتی‘‘ یا ’’یونی‘‘ شیوؔ کی قوّت ہے جو مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے، پاروتیؔ ، درگاؔ، مینا کشیؔ، کالیؔ، مہا کالیؔ اور بھوانی وغیرہ سب ’شکتی کی مختلف صورتیں ہیں۔ ’اوم‘ مرد اور عورت یا شیوؔ اور شکتیؔ کے ملاپ اور وحدت کی ما بعد الطبیعاتی علامت ہے۔ اسی سے کائنات کے رموز و اسرار کی معنویت اُجاگر ہوتی ہے۔
اوم منی پدم ہم
’منی‘ جوہر یا ’لنگم‘ کا اشارہ ہے۔ پدم مقدس کنول یعنی ’یونی‘ ہے اور ’ہم ‘ وہ عظیم تر آہنگ ہے جو اپنی بے پناہ قوّتوں سے عظیم تر رحمتوں اور بے پناہ مسرّتوں سے رشتہ قائم کرتا ہے ’اوم منی پدم ہم‘ کے آہنگ کی ترتیب قابل غور ہے جو سانسوں اور نروس سسٹم اور پورے وجود کا حصّہ بن جاتی ہے۔ جنسی عمل یا مباشرت سے قبل ایک خاص منتر کے جپ میں اوم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ غور طلب ہے۔ منتر یہ ہے:
اَوم آتما تتوایہ سواہا
عابد کے وجود کی گہرائیوں میں جو ’ذات‘ یا ’خودی‘ ہے۔ وہ اس کا شعور ہی ہے جو اس کے باطن میں پوشیدہ ہے۔
اوم شیو تتویہ سواہا
اوم شکتی تتویہ سواہا
عابد کے تمام وہ عمل جسمانی ہوں یا ذہنی یا نفسی، سب اُس کے شعور سے رشتہ رکھتے ہیں۔ اسے شیو شکتی کی عظیم تر وحدت کا احساس اس کے اپنے شعور سے حاصل ہوتا ہے ۔ وہ خود وحدت کے عرفان کو حاصل کرنے کے لیے تیّار ہو رہا ہے۔ لہٰذا شیو شکتی کو اوم کی علامت میں شدّت سے محسوس کرنا چاہتا ہے۔ شکتی پوجا عورت کے جسم کی عبادت اور یونی پوجا کے منتروں میں اوم کی تکرار ملتی ہے اور یہ لفظ اپنی صورت اور اپنے آہنگ سے ایک فضا خلق کر دیتا ہے۔ عبادت کے ساتھ جو عمل جاری رہتا ہے اس سے وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یوگ کے جنسی آسن میں تحرّک پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اس حد تک کہ عروج کی منزل آ جاتی ہے۔ اور اس منزل پر ’ذات‘ پگھل کر گم ہو جاتا ہے ۔ ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے مرد اور عورت متحرّک ہوتے ہیں تو ذاتوں کی انفرادیت کہاں رہے گی۔ یہ دونوں جدلیاتی اصول نہیں رہتے۔ اگرچہ جدلیاتی اصول کی نمائندگی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ دونوں ایک وحدت بن کر عظیم وحدت میں جذب ہو جاتے ہیں
محسوس ہوتا ہے کہ یہ وحدت ہی کائنات کی وحدت ہے۔ ایک ہی وجود کی آگاہی کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ وحدت کی آگاہی اور وجود کی وحدت کا عرفان ایک چکر یا دائرے میں لے آتا ہے اور اس دائرے میں یہ آواز گونجتی ہے:
سوہم
’’میں وہ ہوں!‘‘ ۔ یعنی مرد
ساہم
’’میں وہ ہوں!‘‘۔ یعنی عورت
اس لیے کہ ’’مجھ میں ‘‘ اور ’’تجھ میں‘‘ کوئی فرق نہیں ہے !۔
سانسوں کے زیر و بم کے ساتھ خیالوں کی وحدت کا احساس ملتا جاتا ہے اور ’’پدم آسن‘‘ ’’سدھ آسن‘‘ ’’سو آسن‘‘ ’’یونی آسن‘‘ پشپک آسن‘‘ ’رتی آسن‘‘ اور ’’بھاگ آسن‘‘ کے ساتھ مدراؤں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ یہ تمام آسن اور ’’واجر مدرا‘‘ ’’ساہا مدرا‘‘ ’’یونی مدرا‘‘ ’’اور ’’مہا مدرا‘‘ عظیم تر چکر کا عرفان عطا کر دیتے ہیں۔
’وحدت‘ کا یہ جنسی، نفسی اور حسّی تجربہ، جمالیاتی تجربوں میں بڑی کشادگی پیدا کرتا ہے۔ زندگی اور کائنات کے حُسن و جمال سے گہری وابستگی ہو جاتی ہے۔ ’’کام کلا‘‘ میں جسم کے تمام حصّوں کو چھوا اور سہلایا جاتا ہے اور ہر حصّے کو چھوتے ہوئے ’اوم‘ کا آہنگ موجود رہتا ہے۔ یہ آہنگ کائنات کے جمال کو ذہن و شعور سے وابستہ کرتا ہے اور جسم کا ہر حصّہ کائناتی جلوے کی علامت بن جاتا ہے۔ ’چکر‘ کی تکمیل کے لیے انگلیاں جب پاؤں کے انگوٹھے سے سر تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر سرسے پاؤں تک منتروں کا جپ کرتے ہوئے نیچے آتی ہیں۔ دائیں پیر کے انگوٹھے سے انگلیاں آہستہ آہستہ اوپر جاتی ہیں تو اوپر سے نیچے آتے ہوئے بائیں پیر کے انگوٹھے تک پہنچتی ہیں اور اس طرح اوم کے آہنگ کے ساتھ دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ ایک چکر اور ایک وحدت کا احساس ملتا ہے!
اوم کا جادو دُور دور تک پھیلا۔ چینؔ ، نیپال، جاپان ،منگولیا اور جنوب مشرق ایشیائی ملکوں میں مابعد الطبیعاتی فکر و نظر نے اس کی تہہ دار معنویت اور اس کی معنی خیز جہتوں پر غور کیا۔ صدیوں کے سفر میں اس کی کئی فلسفیانہ تاویلیں سامنے آئیں۔ لیکن اس بات سے کم و بیش سب متفق رہے کہ ’اوم‘ ابدی قوّت یا طاقت کی علامت ہے۔ ’’بدھ ازم‘‘ اور ’’جین ازم‘‘ نے بھی اس سچائی کو اپنے اپنے طور پر قبول کیا ہے۔ یہ ایمان پختہ رہا ہے کہ یہ کل زندگی کا سر چشمہ ہے۔ اسی سے ہر شے کا جنم ہوا ہے۔ ذرّے سے کائنات تک اسی کا آہنگ ہے۔ اس کا اختتام ابتدا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل تینوں اسی میں ہیں۔ ’تانتروں‘ کے مطابق پیدائش اور موت دونوں سے آزاد ہو کر ’’جیو‘‘ (روح) کو ایک انوکھی پُر اسرار منزل ’’اوم‘‘ کی وجہ سے نصیب ہوتی ہے۔
’’سواستیکا‘‘ اومؔ ہی کی ایک صورت ہے جس نے وحدت کا شعور عطا کیا ہے۔ یہ لفظ بھی اکائی اور بے پناہ مسرّتوں اور عظیم تر رحمتوں کو پانے کا اشارہ ہے۔ خالقِ کائنات کی عبادت کی ایک قدیم ترین علامت ہے جسے ’’سکس‘ (SEX) کے تقدّس کے گہرے احساس نے تخلیقی قوّت اور جنسی طاقت کی صورت دی ہے۔ ’’سواستیکا‘‘ کو ’لنگم‘ کی علامت تصوّر کیا گیا ہے۔ اور اسے سچّائی ، پاکیزگی اور توازن کے اوصاف عطا کیے گئے ہیں۔ ’’یونی‘‘ اور ’’لنگم‘‘ کی ہم آہنگی کو واضح کرنے کے لیے جھکے ہوئے ایک چھوٹے سے زاویے کو شامل کیا گیا۔ اس طرح یہ علامت بھی زندگی کے عظیم تر سر چشمے کی نشان دہی کرنے لگی۔
|
’’اوم‘‘ ’’سالگرام‘‘
یہ سب عرفان ذات کے آئینے اور ذرائع ہیں ۔ فنونِ لطیفہ ہیں ان کے نقش اور ان سے اُبھرے ہوئے تاثرات کی فنکارانہ صورتوں میں اپنی تکمیل کے احساس کی تصویریں ہیں جو عظیم تر اور انتہائی ارفع اور نفسی اور حسّی سطحوں پر بے پناہ موجوں سے ابھرنے والی آرزوؤں کو پیش کرتی ہیں۔ فنِ تعمیر اور فنِ مجسّمہ سازی میں فنکاروں نے یوگیوں کی طرح جنسی قوّت کو مختلف نفسی سطحوں پر اُجاگر کیا ہے اور ان کی گہری روحانی معنویت کا احساس عطا کیا ہے۔ مربعوں ، دائروں اور زاویوں نے فنِ تعمیر اور فن مجسّمہ سازی میں ان کی معنویت کو اُجاگر کرنے میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔
بدھ بھکشوؤں اور بدھ فنکاروں نے بھی اسے اپنے طور پر قبول کیا ہے۔ بدھ کے سینے پر اس کا نشان بنایا گیا۔
چینؔ میں دیویوں اور دیوتاؤں کی جنسی مجامعت یا مباشرت کو واضح کرنے کے لیے اس علامت کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ سنسکرت اور پالی زبانوں کے علماء نے اسے ’’تیسری آنکھ سے تعبیر کیا ہے اور ’تانتروں‘ نے اسے ’’یونی‘‘ کا مقدّس مندر کہا ہے۔
آفتابؔ، ’کنڈلیؔ‘ ’کنڈنی یوگؔ‘ ’شیو شکتیؔ‘ ’اومؔ‘ سواستیکاؔ‘ ’ینترؔ‘ (YANTRA) ’منڈلؔ‘ (MANDALA) ’برہمانڈ‘ (BRAHMANDA) ’شیوؔ لنگ‘ ’اردھؔ نار ایشور ’سالگرام‘ یونی (YONI) ’چکر‘ وغیرہ پر غور کریں تو محسوس ہو گا کہ یہ سب وحدت اور وحدتِ جلال و جمال کی ہمہ گیر، معنی خیز تہہ دار علامتیں اور استعارے ہیں۔
ینتر (YANTRA) وہ اقلیدسی خاکہ یا نقشہ ہے جو دیوی دیوتاؤں کا امیج IMAGE بھی ہے اور مراقبے اور عبادت کا ذریعہ بھی۔ جس طرح ’منتر‘ دیوی دیوتاؤں سے رشتہ قائم کرنے، انہیں اپنے باطن میں کھینچ لینے اور وحدت پیدا کرنے کا صوتی ذریعہ ہیں اِسی طرح، ینتر، وہ خاکہ یا نقشہ ہے جو خطوط اور لکیروں کے ذریعے رشتہ قائم کرتا ہے اور وحدت کا وہ عرفان عطا کرتا ہے کہ جس سے ذہنی اور جذباتی اور جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے تجریدی خطوط ، وہ لکیروں میں ہوں یا دائروں میں زاویوں میں ہوں یا مربعوں میں، اس طرح متوازن کیے جاتے ہیں اور انہیں اس طرح ہم آہنگ کیا جاتا ہے کہ وہ دیوی دیوتاؤں کے ’’امیج‘‘ بن جاتے ہیں جو جامد بھی ہوتے ہیں اور متحرک بھی۔ ان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ایک مرکزی عنصر ہوتا ہے جس کے گرد پوری صورت اُبھاری جاتی ہے۔ مرکزی عنصر پورے نقشے یا خاکے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے اس مرکزی نقطے سے دوسری لکیریں پھوٹی ہیں۔ نقشے کی تمام لکیروں اور خاکے کے تمام دائروں، زاویوں اور مربعوں میں توازن اسی مرکزی عنصر سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ توازن ’ظہور‘ اور تنویر اور درخشانی کا تصوّر پیدا کرتا ہے۔ ’ینتر‘ توانائی کا ایسا نقش ہے کہ جس کی قوّت تجریدیت کی جانب بڑھتی ہے اور خاکے یا نقشے کو تجریدی ارتعاشات کا پیکر بنا دیتی ہے ہم اسے ’’نفسی کائناتی توانائی ‘‘ کا ایسا نقشہ یا خاکہ کہہ سکتے ہیں جو وحدت کی علامتیت‘‘ کو ایک سے زیادہ سطحوں پر سمجھا جاتا ہے۔
’(ینتر)‘
جس طرح ینتر کا مرکزی عنصر نفسی قوّت اور پورے شعور کی علامت ہے اسی طرح منڈل (MANDALA) کا مرکزی عنصر یا مرکزی نقطہ شعور اور نفسی قوّت کی علامت ہے۔ ’ینتر‘ کے لغوی معنی ہیں ’’ذریعہ‘‘ سہارا، اور ’منڈل‘ کے معنی میں ’’دائرہ‘‘ ۔ ینتر کے سہارے دائرے میں داخل ہوتے ہیں اور اس عظیم دائرے کا حصہ بن جاتے ہیں یا اپنے مرکزی عنصر کو عظیم تر دائرے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ’منڈل‘ وہ ’’آرچ ٹائپ‘‘ یا حِسّی پیکر ہے جو اس طرح موجود ہے کہ اس میں ساری کائنات جذب ہے۔ ’منڈل‘ کون و مکاں کا اشارہ اور کائناتی ارتعاشات کی علامت ہے۔ ساتھ ہی نفسی توانائی کا ایسا دائرہ ہے کہ جس کی ابتداء اس کے اختتام میں ہے اور جس کا اختتام اس کی ابتدا میں ہے۔ بصری پیکروں سے سجے سجائے جانے کتنے ’منڈل‘ صدیوں سے سفر کر رہے ہیں۔ مربعوں ، زاویوں اور پیچیدہ اور مشکل اشکال کے نقش، مجموعیت یا کُلیّت کو پیش کرتے ہیں۔
’برہمانڈ‘ (BRAHMANDA) انڈے کی صورت میں مجموعیت اور وحدت کا احساس عطا کرتا ہے۔ انڈا، کائنات کے گرد برہمؔ کے جھکاؤ یا ’چکر‘ کی علامت ہے۔ اسی طرح ’’شیو لنگ‘‘ کون و مکاں کی ایسی علامت ہے جو ایک طرف پوری کائنات میں تخلیق و تحلیل کے عمل کو پیش کرتی ہے اور دوسری طرف وحدت کا احساس بالیدہ کرتی ہے۔ ’لنگ‘ ’یونی‘ میں کھڑا رہتا ہے ’ جو پراکرتی‘ کے رحم یاگہرائی کا معنی خیز اشارہ ہے۔ ’’نسوانی اصول‘‘ کا ’امیج‘ ہے جس کا تصوّر تحرک کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ تحرک کے اس احساس ہی سے تمام تحرّکات اور ارتعاشات کا عرفان ملتا ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ ’یونی‘ بھی ایک
.
’’بندوأ سرویہ آنند مایا چکر‘‘
دائرہ ہے کہ جس کا مرکزی نقطۂ لنگ، کی جڑ ہے۔ عمل اور تحرک سے دائرہ، زاویہ بن جاتا ہے۔ یعنی ’یونی‘ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جو ’ظہور‘ و ’اظہار‘ کا ذریعہ ہے۔ دائرے کے درمیان جو ’’بندو‘‘ ہے وہ کل کے حصول کا معنی خیز اشارہ ہے۔’بندو‘ اپنی کبھی ختم نہ ہونے والی صورت میں تمام اشیاء و عناصر اور پوری کائنات کو جذب کر لیتا ہے۔
ہندوستان کے تخلیقی فنکاروں نے ہمیشہ اس سچّائی کو عزیز تر رکھا ہے۔ یہ کوشش کی ہے کہ بنیادی صورتوں کی مضمر توانائی کو پایا جائے۔ باطن کے تجربوں کے ارتعاشات سے خارجی صورتوں کی شعاعوں کے رشتوں کو سمجھا جائے …… باطنی طور پر خلق کی ہوئی علامتیں وجدان کی گہرائیوں کا پتہ دیتی ہیں۔ علامتوںؔ اور استعاروں سے یہ احساس فوراً مل جاتا ہے کہ گہرے وجدانی تجربے متشکل اور متعیّن ہوئے ہیں۔ ذاتی تجربے وجدان کی گہرائیوں سے کائناتی شعاعیں لے کر باہر آئے ہیں۔ ان علامتوں اور استعاروں کی تخلیق میں کائناتی اصول کار فرما رہے ہیں۔ ان کے جوہر پورے وجود اور پوری کائنات سے رشتہ رکھتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ تخلیقی آرٹ کے نمونے اپنے وجدانی اور نفسیاتی کردار کے ساتھ مختلف قسم کے بصری رد عمل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان کی روحانی اور نفسیاتی جہتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہندوستان کے تخلیقی فنکاروں نے ان کے ساتھ جینے اور انہیں سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تخلیقی فنکاروں نے وحدتِ جلال و جمال کے شعور کو بخشنے اور ’وحدت‘ کے احساس کو عطا کرنے کے لیے جانے کتنی صورتوں کو خلق کیا ہے جانے کتنے لہجوں سے آشنا کیا ہے ۔ جانے کتنے رنگوں اور مضبوط اور مستحکم ذاتی اور کائناتی علامتوں کی تخلیق کی ہے۔ ادراک کی سب سے بلند سطح پر پہنچ کر ان کے ذریعے خود آگاہی کا جمالیاتی درس دیا ہے، جو شے حسین ہے وہ وحدت کا احساس دیتی ہے۔ جمالیاتی پیکر یا صورت ’جمالیاتی کلیّت‘ ہے۔
’شیو لنگ اور کائناتی وحدت کی علامت آسن منڈل ۔ پانچ عناصر
ہندوستان کے معروف عالم ابھینو گپتؔ نے ان ہی باتوں کے پیشِ نظر ’’شانت رس‘‘ کو سب سے زیادہ اہمیت دی تھی۔ ان کا ما بعد الطبعیاتی نظریہ بلا شبہہ ’’یوگ‘‘ کے جوہر کی وجہ سے جان پرور بنا ہے۔ تخلیق فن کی مختلف منزلوں کی نشان دہی کرتے ہوئے انہوں نے ’’شانت‘‘ کو آخری ارفع ترین منزل قرار دیا اور یہ کہا کہ بڑا تخلیقی فنکار وہ ہے جو جلال و جمال کے ہمہ گیر شعور کے ساتھ ایسی منزل پر پہنچ جائے جہاں وہ خود اعلیٰ ترین ’رس‘ حاصل کرے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے دوسروں کو بھی یہ ’رس‘ کسی نہ کسی سطح پر عطا کرتا رہے۔
’’شانت‘‘ ذہن کی وہ اعلیٰ ترین کیفیت ہے جو جلال و جمال کے ہمہ گیر’ چکر‘ کے گہرے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔ شعور کے اظہار کے عمل کی تمام لہریں (ستوا) اس کیفیت کو سہارا دیتی ہیں یا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ شعور کے اظہار کے عمل کی خالص لہروں سے ہی اس کیفیت کا جنم ہوتا ہے۔ ابھینو گپت نے اس کیفیت کو ’’راجیہ‘‘ (تحرک شعور کا عمل اور ’’تما‘‘ (شعور پر نقاب ڈالنے کا عمل ) دونوں سے علیٰحدہ کر کے اسے ایک ایسی منفرد کیفیت کی صورت دی ہے کہ جس میں ’’راجیہ‘‘ اور ’’تما‘‘ دونوں کی اعلیٰ ترین خصوصیات شامل ہیں۔
ابھینو گپتؔ نے تخلیقی عمل کو ’’یوگ‘‘ کی مختلف منزلوں اور سطحوں سے قریب تر کر دیا ہے۔ مثلاً تمام باتوں سے الگ ہو کر موضوع کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا، ذہن کو تمام آلود گیوں سے علیٰحدہ کر کے اپنے حواس کو مجتمع کرنا، موضوع پر ذہن کو مرکوز رکھنا، اپنے وجود اور اپنی انفرادیت کو پہچاننے کی کوشش کائنات کے آہنگ سے اپنے وجود کے آہنگ کو موزوں اور مناسب سطحوں پر ہم آہنگ کرنا اور سمادھی کی ارفع ترین منزل پر پہنچ جانا!
ابھینو گپتؔ نے ’سمادھی‘ کو افضل ترین منزل تصوّر کیا ہے اور جمالیات کی سطح حد درجہ بلند کر دی ہے۔ ’سمادھی‘ چکر اور وحدت کا عرفان دیتی ہے اور بڑا فنکار سمادھی کے بہترین تجربوں کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اس سے قبل تخلیقی عمل کی دشوار گزار راہوں سے گزرتا ہے اور مختلف سطحوں پر کرب سے لذّت حاصل کرتا ہوا اسمادھی کی منزل پر آنند پاتا ہے۔ اور آنند دیتا ہے جو اعلیٰ تخلیق کا مقصد ہے۔ ڈراموں کے پیش نظر ابھینو گپت کے خیالات سے اختلاف کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں کسی دوسرے معلّم جمالیات یا ناقدینِ نے اتنا ہمہ گیر اور معنی خیم تصوّر پیش نہیں کیا تھا۔
غور فرمائیے تو محسوس ہو گا کہ ’وحدت کا بالیدہ شعور اور جلال و جمال کے ہمہ گیر چکر اور کائنات ، ہستی مطلق اور فرد کے حسن کی وحدت سے ’’شانت‘‘ کا یہ تصوّر پیدا ہوا ہے۔ چوں کہ ہندوستان کے تخلیقی آرٹ کا یہ بنیادی تصوّر ہے اس لیے ابھینو گپت کی فکر و نظر ، دوسرے سوچنے والوں کے خیالات و نظریات سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ فنکار کا ’سمادھی‘ کی منزل پر جانا ، حسنِ مطلق کا شعور و عرفان حاصل کرنا ہے۔ یہ فنکار کی بے پناہ آزادی کی منزل ہے۔ تخلیقی عمل میں کرب کی تمام منزلوں سے گزر کر اس منزل پر حقیقی جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ سچّے عرفان اور آنند کو پانے کی منزل ہے!
٭٭
(چھ)
تخلیقی آرٹ کے معاملے میں جب فکر و نظر میں اور گہرائی پیدا ہوئی تو دھیان اور جبلّی اور وجدانی عبادت اور غور و فکر‘ مراقبہ اور استغراق کی اہمیت کا احساس اور شدّت سے اُبھرا۔ حقیقت کے محتاط معاملے کی جانب توجّہ دی گئی۔ اشیاء و عناصر اور فطرت کے باطنی رشتوں پر غور کرتے ہوئے رشتوں کے داخلی آہنگ پر نظر رکھی گئی۔ تخلیقی آرٹ کے تعلّق سے یہ انتہائی قابلِ توجّہ اور قابلِ قدر تصوّر ہے۔
ہندوستانی اچاریوں اور قدیم سوچنے والوں نے وجود کے آہنگ اور فطرت کے آہنگ سے پُراسرار رشتہ قائم کرنے کی باتیں کی ہیں۔ باطن کے آہنگ سے فطرت کے آہنگ کا رشتہ قائم کرنے کا عمل اُن کے نزدیک تخلیقی عمل ہے۔ ’’آہنگ کی وحدت‘‘ کا یہ تصوّر بڑا قیمتی ہے۔ رقصؔ، موسیقیؔ، مجسّمہؔ سازی اور تعمیر سازی کے اعلیٰ ترین نمونوں میں انہیں آہنگ کی وحدت نظر آئی۔ اس طرح جلال و جمال کے شدید تر احساس کے ساتھ حُسن کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔ حسن مطلق سے مادّی اشیاء و عناصر کے باطنی رشتوں اور اُن کے داخلی آہنگ کی وجہ سے حسن (سُندریہ) اور عظمت اور وقار اور عظیم تر آہنگ (لاوانیہ) کا احساس ملا۔
اس ممتاز رجحان نے ہندوستانی آرٹ میں وہ عظیم تر پیکر بھی تراشے جو موسیقی کے بہترین سروں اور اُن کے آہنگ کے پیکر ہیں اور مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کی صورتیں اختیار کر لیتے ہیں۔
تخلیقی فن کار کا ذہن، دنیا کی تمام صورتوں سے بلند ہو کر ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اس منزل پر نئی صورتوں کو خلق کرنے کا فطری جذبہ اس دنیا کے محسوس آہنگ اور اپنے وجود کے آہنگ کی وجہ سے بیدار ہوتا ہے اور تخلیقی عمل کے لمحوں میں آہنگ اور آہنگ کی وحدت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ تخلیق کی تکمیل کے بعد ایک انتہائی خوبصورت اور پُر اسرار وحدت کا شدید تر احساس اعلیٰ سطح پر جمالیاتی آسودگی اور مسرّت عطا کرتا ہے۔ تخلیق کے لمحوں میں شعور کی گہرائیوں میں صورتیں ابھرنے لگتی ہیں اور ذہن کے کینوس پر چھانے لگتی ہے۔ اِس طرح ’’تخلیقی نقّالی‘‘ اور ’’حقیقت کے التباس‘‘ کے تصوّر سے آگے تخلیقی عمل کے تعلّق سے کچھ سوچنے اور جاننے کی کوشش ملتی ہے۔ فنّی تخلیق اور حُسن کے پیشِ نظر اس نوعیّت کے خیالات سامنے آئے۔
حسن، مسرّت اور خوشبوؔ کا ایسا احساس پیدا کرے جو دوسری تمام مسرتوں اور خوشبوؤں سے مختلف ہو۔
حسن، اعلیٰ، برتر اور ارفع کیفیتوں کے ساتھ ماورائے ادراک کی روشنیوں اور خوشبوؤں اور آوازوں کی علامت ہو۔
حسن، آفاقی کائناتی مسرت عطا کرے جس سے انفرادی طور پر آنند ملے۔
ذہن کے تخلیقی تحرک سے تخلیقی ہیجانات بیدار ہو کر جذباتی لہریں یا ہیجانات پیدا کرتے ہیں اور احساسِ حسن آفاقی جذباتی لہروں کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ہندوستانی جمالیاتی افکار و خیالات کے پیشِ نظر مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کے باطن میں جو پر اسرار آہنگ ہیں اُن کا تخلیقی اظہار آہنگ کی اسی وحدت سے فنونِ لطیفہ میں ہوتا ہے۔
روشنی، پرچھائیں ، آواز اور رنگ ۔ اور کھوکھلے پن، انتشار اور خلاسے فنکار کا باطنی رشتہ قائم ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل’ نروان‘ کی اسی منزل کی طرف لے جانے کا نام ہے۔ فنونِ لطیفہ میں اسی وحدت کا اظہار مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ کائنات کے بعض آہنگ سے انسان خوف زدہ بھی ہوا ہے اور اُسے حیرت بھی ہوئی ہے لیکن جب فنکار اپنے وجود کی گہرائیوں سے اپنے آہنگ کے ساتھ اُوپر اٹھا ہے اور اُس نے کائنات کے آہنگ کے ساتھ رشتہ قائم کیا ہے تو کائنات کے آہنگ بھی تخلیقِ فن میں جذب ہو کر لطیف اور مسرت آمیز بن گئے ہیں۔ فنکار کے باطن کا آہنگ ان میں نئی تنظیم پیدا کر دیتا ہے۔ معاملہ حواس اور حِسّیات کی اعلیٰ سطحوں کے شعور کا ہے۔ فنکار کی حِسّی کیفیتیں جتنی بیدار، لپکنے والی اور گرفت میں لینے والی ہوں گی آہنگ کی وحدت اتنی ہی دلفریب اور خوبصورت ہو گی۔ آہنگ اور آہنگ کے رشتوں سے ہی علامتوں کی تخلیق کا خوبصورت سلسلہ قائم ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے جب پرجاپتیؔ نے کائنات اور انسان کی تخلیق کی تو تخلیق کے بعد خود بکھر گئے۔ انہوں نے آہنگ کی پر اسرار لہروں اور انتہائی باریک سر سراہٹوں سے خود کو ایک بار پھر منظم کیا۔ عظیم آرٹ کی تخلیق بھی ذات کی نئی تنظیم ہے اور یہ تنظیم باطن اور خارج کے آہنگ کی پُر اسرار لہروں اور انتہائی باریک سرسراہٹوں سے ہوتی ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کسی تخلیقی فنکار نے کِس سطح پر اپنے حواس سے آہنگ کی لہروں کو پایا ہے اور آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا عرفان حاصل کیا ہے۔
اِسی نوعیت کے تخلیقی عمل میں خوبصورت ترین صورتوں، آوازوں اور رنگوں کا احساس مِلتا ہے۔ آہنگ کی مدد سے فنکار اپنے تجربوں کی انتہائی گہری سطحوں تک جاتا ہے اور اُسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات اپنے وجود سے نِکل کر دو سطحوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ پہلی سطح عمل اور بے قراری کی ہے اور دوسری سطح ’نروان‘ خاموشی اور سکون اور ’آنند‘ کی۔ فنکار بھی جب اپنے وجود سے باہر نکلتا ہے تو اُن ہی دو سطحوں کا احساس عطا کرتا ہے۔ نروان، خاموشی، سکون اور آنند کی سطح اعلیٰ ترین تجربوں کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔
٭٭
ہندوستانی جمالیات نے جمالیاتی مسرّت اور جمالیاتی آسودگی کو فنکار اور قاری دونوں کے ہیجانات، جذبات اور تجربات کی اس تنظیم میں پانے کی کوشش کی ہے جو آہنگ اور آہنگ کی وحدت سے ہوتی ہے۔ ماحول یا حالات کا اثر پورے وجود پر ہوتا ہے، فطری اور نامیاتی انتشار اور سکون کا تعلّق بھی اسی سے ہے۔ باطن کا آہنگ انتشار اور سکون دونوں سے متاثر ہوتا ہے تخلیقِ فن سے آہنگ کی دونوں باطنی سطحوں کا اظہار ہوتا ہے۔ حواس، ہیجان اور جذبہ سب کی شِدّت نمایاں ہوتی ہے۔ فنکار شعوری اور غیر شعوری طور پر ان میں تنظیم یا ترتیب پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خارج یا فطرت کے آہنگ سے تخلیقی رشتہ قائم ہوسکے۔ یہ پورا عمل، تخلیقی ہے۔
انسان کے تجربوں کے ’چکر‘ میں داخلی زندگی کا بھی آہنگ ہے اور اُس کی زندگی کی مختلف منزلوں کے تجربوں کا آہنگ بھی داخلی زندگی کا آہنگ، زندگی اور موت کے تجربوں کے آہنگ سے بھی غیر شعوری اور غیر شعوری رشتہ قائم کرتا رہتا ہے۔ اس طرح بدلتے ہوئے موسموں کے آہنگ سے بھی اس وجود کا آہنگ متاثر ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے پودوں اور درختوں اور اشیاء و عناصر کی بدلتی ہوئی صورتوں کا آہنگ بھی اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ ان تمام تجربوں کے آہنگ کے ساتھ جب ایک تخلیقی فنکار کے شعور میں گہرائی یا وسعت پیدا ہوتی ہے تو اس کے آہنگ کا شعور خود اپنے باطن میں آہنگ کی گہری سطحوں کا شعور عطا کرتا ہے اور وہ آفاقی کائناتی دائرے’ یا چکر‘ کو شدّت سے محسوس کرنے لگتا ہے۔ پیدائش اور موت، عورت اور مرد، کائناتی عناصر کا حسن، تخلیق اور تخریب کے پُر اسرار عمل میں وہ اوپر اٹھتا ہے یا اندر اُترتا ہے تو ان میں اپنے وجود کے آہنگ کے رشتوں کی تلاش کرتا ہے اور مختلف سطحوں پر رشتوں کو پا کر کائناتی دائرے یا ’چکر‘ کے آہنگ سے جذب ہو جاتا ہے۔ یہی اس کی آزادی کی اعلیٰ ترین منزل ہوتی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اور باتوں کے علاوہ آہنگ کو کتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس میں احساس، جذبہ، ادراک و عرفان سب شامل ہیں۔ آہنگ ہی اُسے حُسن کی اعلیٰ ترین سطحوں سے آشنا کرتا ہے اور اُسے ایک خالق کا سکون یا آنند ملتا ہے۔
کئی پھولوں کی پنکھڑیاں دن میں دعوتِ نظارہ دیتی ہیں اور راتوں کو بند ہو جاتی ہیں۔ کئی پودوں کی پتّیاں یہ احساس دیتی ہیں جیسے ان پر غنودگی کی کیفیت ہے اور بس وہ سوجانا چاہتی ہیں۔ چوبیس گھنٹوں حیاتیاتی آہنگ کا ایک عجیب پر اسرار لیکن ساتھ ہی انتہائی دِلنواز سلسلہ قائم رہتا ہے۔ پودوں اور پھولوں کا باطنی تحرک جسے جدید سائنس داں ’’موروثی تحرک‘‘ کہنے لگے ہیں۔ فطرت اور کائنات کے آہنگ کا احساس دیتا ہے۔ شہد کی مکھیاں پھولوں اور پودوں کے آہنگ کو محسوس کرتی ہیں اور ان سے رشتہ قائم کرتے ہوئے ایسے لمحوں میں اُن پر آ بیٹھتی ہیں۔ جب رس یا شہد دینے یا عطا کرنے کا جوش اُبھرتا ہے۔ ’’حیاتیاتی وقت کا کوئی تصوّر یا احساس آہنگ اور آہنگ کی وحدت کے بغیر پیدا نہیں۔ انسان کی جنسی زندی ہو یا کیڑوں، پرندوں اور جانوروں کی جنسی زندگی، آہنگ کا تحرّک بڑ اہمیت رکھتا ہے۔ چاندنی رات میں آہنگ کے تحرّک کی کیفیت[4]، اندھیری رات کے آہنگ کے تحرک سے مختلف ہو جاتی ہے۔ صبح کاذب کا آہنگ، اشیاء و عناصر کے آہنگ سے اپنے طور پر رشتہ قائم کر کے عجیب و غریب وحدت کا احساس کرتا ہے۔ بعض مہینوں کی راتیں اور بعض مہینوں کے دن جنسی بیداری اور جنسی عمل میں شدّت پیدا کر دیتے ہیں۔ کیڑوں کے تحرّک اور پرندوں اور جانوروں کے رقص جیسی حرکتوں کا مشاہدہ لمحوں کے پیشِ نظر کیا جائے تو فطرت کے آہنگ سے ان کے رشتوں اور ان کے آہنگ کی حسر کی کیفیتوں کا پتہ چلے گا جو وحدت کی جانب بے اختیار بڑھتی ہیں۔
’’سورج پوجا ‘‘یا ’’سوریہ نمسکار ‘‘ آہنگ کی وحدت کے عرفان کے لیے ہے۔ اس کے بارہ تیور اور عمل کی ترتیب ’چکر‘ کے آہنگ کے لیے ہے۔ ’’یوگ‘‘ نے آہنگ اور آہنگ کی وحدت کے ادراک و عرفان ہی کے لیے اصول مقرر کیے ہیں۔ ’تانتر‘ نے خاکوں، تصویروں، استعاروں اور علامتوں سے اس سچّائی کو سمجھایا ہے اور عمل میں اسی وحدت پر اصرار کیا ہے۔
جمالیاتی تجربہ اور آہنگ (DHAVANI) سے حسن کا وہ تصوّر پیدا ہے جو برہم ہے اور جس سے کوئی شے علیٰحدہ نہیں ہے۔ تخلیقی فنکار، تخلیقی عمل میں صِرف وحدت کا عرفان حاصل نہیں کرتا بلکہ خود اس کا حصّہ
بن کر جمالیاتی تجربوں اور آہنگ کی خوبصورت لہروں سے آشنا کرتا ہے۔ ’’خالص شعور‘‘ کی یہ منزل خود اپنے وجود کی روشنیوں سے آگاہی کی منزل ہے۔ اعلیٰ ترین تخلیق کو دیکھنے والا ایک ساتھ ’چکر‘ کے حسن کو پاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس حسن کو دیکھ کر ایک مکمل نیند (SUSUPTI) میں ڈوب جاتا ہے۔ تخلیقی فنکار تو وہ ہے جو قاری یا سامع یا فن کو دیکھنے والے کو اس کیفیت میں ڈال دے۔ مکمّل نیند کی یہ کیفیت بھی غیر معمولی ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی عرفان اور نروان، کی ایک منزل ہے، ایسی منزل جہاں آہنگ کی وحدت حسن کا سچّا عرفان عطا کرتی ہے۔ جمالیاتی تجربہ اس طرح لا شخصی (SADHARANI) اور تجریدی اور ماورائی (ALOUKIKA) بن جاتا ہے اور خود اس کے وجود کا آہنگ ہر طرف سنائی دینے لگتا ہے۔
’’مایا‘‘ (کائناتی التباس) ایک انتہائی معنی خیز اصلاح ہے۔ اُپنشدوں میں اسے ’تاریکی ‘‘ یا نہ معلوم سچّائی کی صورت کا تجربہ کہا گیا ہے۔ کسی سچّائی کا علم نہ ہونا تجربے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا ’مایا‘ کا انحصار بھی شعور پر ہے۔ اس طرح ’مایا‘ یا کائناتی التباس، کائنات اور انسانی شعور کے ادراک و عرفان کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کائنات اور انسانی شعور دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ کائنات کے جس پہلو کا شعور حاصل نہیں ہوتا بظاہر اُس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ اسی طرح شعور جس شئے یا حقیقت کو نہیں پاتا اس کی کوئی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ’مایا‘ یا کائناتی التباس علم یا گیان سے بہت دُور مختلف سطحوں پر اپنی کیفیتوں سے آشنا کرتا ہے۔ یہ تمام سطحیں اپنی فطرت میں ماورائی ہوتی ہیں اور اس طرح کائنات اور شعور کا رشتہ قائم ہوتا رہتا ہے۔
غور کیجیے تو محسوس ہو گا کہ بنیادی طور پر یہ آہنگ اور آہنگ کا پُر اسرار باطنی رشتہ ہے جس سے ایک وحدت کے تئیں بیداری یا اندرونی جاگرتی پیدا ہوتی ہے۔ ’مایا‘ کو ایک ایسے خوبصورت پردے سے تعبیر کیا گیا ہے جو کائنات کے اوپر موجود ہے اور جسے حواس کے ذریعہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حِسّی سطحوں پر اس کا شعور اسی وجہ سے ہے۔ ’مایا‘ کائنات کے وجود کی فطرت ہے۔ تخلیقی عمل میں یہ پردہ اُٹھتا ہے اور نئی صورتیں سامنے آنے لگتی ہیں جس سے خالص جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ یہی جمالیاتی عرفان اور جمالیاتی مسرّت فنّی تخلیق کا جوہر ہے۔
٭٭
ہندوستان ایک خوبصورت ملک ہے۔ سر اٹھائے دُور دُور تک پہاڑوں اور ان پہاڑوں سے اُبلتی ہوئی ندیوں نے جہاں قدیم ہندوستان کی تاریخ کو مرتّب کرنے میں نمایاں حصّہ لیا ہے وہاں اس ملک کے فنونِ لطیفہ اور اچاریوں اور فنکاروں کے جمالیاتی شعور کی تشکیل میں بھی مدد کی ہے۔ ہمالہؔ، بندھیاچلؔ، بحرِ بنگال، گنگاؔ، جمنا، سندھؔ، چنابؔ، راویؔ، ستلج اور آسام دکن کی ندیوں، مختلف علاقوں کے خوبصورت پرندوں، جانوروں بدلتے ہوئے موسموں، حسین اور خوبصورت وادیوں، سر سبز میدانوں ، چشموں اور آبشاروں نے طرح طرح کے احساس پیدا کیے ، اپنے آہنگ کا احساس بخشا، زندگی کے حسن و جمال کو سمجھا یا پیکر تراشی اور علامت سازی کا شعور دیا۔ قدیم تر علامتوں اور ’’آرچ ٹائپس‘‘ کو بیدار اور متحرک کیا۔ تخلیقی عمل کے لئے اُکسایا۔ ذہن کی آبیاری کی۔ ماورائے ادراک کے پر اسرار آہنگ کا احساس دیا۔ ان کے ساتھ طوفان آندھی، سیلاب، سوکھی اور ویران دھرتی اور ریگستانوں، جنگلوں کے اندھیروں، زلزلوں اور مشکل گزار راستوں ، طرح طرح کے حادثوں اور سورج گرہن اور چاند گرہن وغیرہ نے بھی احساس اور جذبے کو شدّت سے متاثر کیا۔ نت نئے تجربے دیے المیہ کا احساس شدید تر کیا، پیکر تراشی اور علامت سازی کے عمل میں ان کے تجربے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ خوف اور دہشت، مجبوری کا احساس ذات میں سمٹ جانے کا رویّہ، جلیل پیکروں کی تشکیل، ان سب کا تعلّق ان سے گہرا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ یہاں کے فلسفے اور ادبیات، اس مٹی کی بعد الطبیعات ، معاشی نظریات اور فنون لطیفہ کی جمالیات کی بنیاد اِن دونوں قسم کے تجربوں پر ہے۔ ان دونوں حالات کے صدیوں پُرانے تجربوں کی وحدت پر ہے۔
یہ آہنگ اور آہنگ کا پُر اسرار رشتہ اور اس پُر اسرار رشتے کا حِسّی تجربہ تھا کہ شیوؔ خوبصورت ندیوں اور آبشاروں کا سر چشمہ بنے۔ نٹ راج نے بلند پہاروں پر رقص کیا۔ رقص کا مرکز کائنات کا دل بنا۔ گنگا، سندھ اور دوسری ندیاں ’’ماں‘‘ بنیں۔ گنگا حِسّی تجربوں اور باطنی کیفیتوں میں جذب ہو گئی۔ بڑے اور گھنے پیڑ زندگی کی علامت بن گئے کچھ مویشی اور جانور حد درجہ مقدّس بن کر بعض تہہ دار تجربوں کے پیکر ہو گئے۔ کسی جانور نے ایسے دیوتا کی صورت اختیار کر لی جس سے ’دھرتی ماں‘ کی تخلیق ہوئی۔ وشنوؔ کی ایسی خاموشی اور ساکت صورت خلق ہوئی جو تخلیق کائنات اور اس دھرتی کی تخلیق سے قبل کی پُر اسرار خاموشی کا حد درجہ معنی خیز علامیہ بن گئی۔ شیو ’لنگ‘ تخلیقِ کائنات کا سر چشمہ بن گیا۔ سکون اور حرکت، خاموشی اور انتشار، جلال اور جمال ، زرخیزی اور ویرانی کے جانے کتنے حسّیاتی اور جمالیاتی پیکر آہنگ اور آہنگ کے اس پُر اسرار رشتے اور حسنِ مطلق اور آہنگ کائنات کی وحدت کا شعور بخشتے ہیں۔
’’تری مورتی‘‘ کی تخلیق کا جلوہ آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا جلوہ ہے۔ کائناتی رُوح‘ ’تری مورتی‘ میں جذب ہو گئی ہے۔ سب سے عظیم پیکر کے آہنگ کی تین مختلف سطحوں کو الگ الگ بھی دیکھا گیا ہے اور ان تینوں لہروں کو مجسّم بھی کر دیا گیا ہے۔ ایک آہنگ کا احساس اس چہرے سے دلایا گیا ہے جس کے ہونٹ بند ہیں، پُر اسرار خاموشی ہے۔ عظیم پیکر کی ذات باطن میں ڈوب گئی ہے۔ چہرے پر انتہائی پر کشش سکون ہے۔ استغراق کی عجیب جمالیاتی کیفیت ہے۔
دوسرے آہنگ کا احساس اُس چہرے سے مِلتا ہے جو پیار، محبت ، آرزو مندی اور جذباتی کیفیتوں سے سرشار ہے۔ جنس کی خوشبو تخلیق کی علامت کو واضح کرتی ہے۔
اور تیرے چہرے کا آہنگ، ان دونوں سے مختلف ہے، تیسرا چہرہ کسی قدر اُداس، سوچتا ہوا، غور کرتا ہوا، نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی اس چہرے پر قہر اور جلال کی ایسی گرم روشنی ہے جو باہر کی طرف لپکنے والی ہے۔
عظیم پیکر کے یہ تین آہنگ۔
ایک ہی وحدت کی یہ تین جہتیں ہیں جن سے کائناتی کے پورے عمل کا باطنی رشتہ ہے۔
پھول، پودے، پرندے، آگ، ہوا، پانی، آسمان، بادل، سورج، چاند، ستارے، غار، پتھر سب اپنے پُر اسرار آہنگ کے ساتھ حسّیات سے جذب ہوئے اور آہنگ کی وحدت کے احساس و شعور کے ساتھ پہاڑوں اور اُن کی چوٹیوں، غاروں اور مندروں پر بے شمار جمالیاتی پیکر رقص کرنے لگے۔ وادیِ سندھ کی ’ترِمکھی‘ شیو لنگؔ، ماںؔ، مقدّس درختؔ پشوپتیؔ اور آگ، پودے، پھول، بھینسے، گینڈے اور چیتے وغیرہ کی علامتیں جہاں ہندوستانی جمالیاتی لا شعور کی وسعت اور تہہ داری کے ایسے نقوش اور پیکر بن گئے جن کی فکری جمالیاتی روایات صدیوں کے اندھیروں میں چھپی ہوئی ہیں۔ صدیوں کے اندھیروں کی روایات کے اوّلیں نقوش کی حیثیت سے یہ علامتیں سامنے آتی ہیں اور ہندوستانی افکار و خیالات اور ہندوستانی جمالیات کا سنہرا باب بن گئی ہیں۔
اِسی طرح اجنتاؔ کی تصویریں۔ گوتمؔ بدھ کے مجسّمے، سانچیؔ اور امراوتیؔ کے استوپ، سارناتھ کی لاٹ، الورا کی منقش خانقاہیں۔ باغؔ کے غاروں کی نقّاشی، پٹّہ ڈکّل (دکن) بادامیؔ اور ایہولے کے مندر — ہندوستانی فنونِ لطیفہ اور ہندوستانی جمالیات کے مستقل عنوانات بنتے گئے ہیں۔
مہا بھارت کی تخلیق سے قبل کی ایک تمثیل توجّہ طلب ہے۔ کائنات ٹوٹ کر پگھل چکی تھی۔ مارکنڈ یہ رشی، کائنات کے سمندر میں بہتے ہوئے جا رہے تھے کہ اُن کی نظر ایک بے خبر سوتے ہوئے نوجوان لڑکے پر جا پڑی۔ وہ ایک خوبصورت درخت کے نیچے سویا ہوا تھا۔ مارکنڈیہ رشی اُس نوجوان لڑکے کے منھ کے اندر چلے گئے اور وہاں پہنچے ہی وہ حیرت زدہ ہو گئے۔ اس لیے کہ وہ کائنات جو ٹوٹ کر پگھل گئی تھی اپنے تمام حسن و جمال کے ساتھ اُن کی نگاہوں کے سامنے تھی! — وہ وشنوؔ تھے جن کے باطن میں وہ یہ حیرت انگیز معجزہ دیکھ رہے تھے۔ بھگوت پُر ان میں یہی تمثیل تھوڑی سی تبدیل کے ساتھ کرشن کے تعلّق سے ملتی ہے۔ یسودھا، اپنے بیٹے کے منھ کے اندر جھانک کر پوری کائنات کا نظارہ کرتی ہیں یہ دونوں تمثیلیں وحدت اور آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا احساس بخشتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کرشن کی تمثیل کی ما بعد الطبعیاتی جہتیں کائنات اور تمام اشیاء و عناصر کی وحدت کو ایک سے زیادہ منزلوں پر سمجھاتی ہیں۔
وشنوؔ شخص اصغر (آتم) (MICROCOMICS SOUL) اور’’شخص اکبر‘‘ (برہم) (MICROCOSMIC GODHEAD) دونوں میں ایک ہی وحدت کی علامت ہیں کہ جن سے ہر چھوٹی بڑی شئے وابستہ ہے۔ ہر شئے کا آہنگ اسی سر چشمے کی دین ہے۔ اُن کے تین قدم یا ان کے تین قدموں کے نشانات آسمان، دھرتی اور اشیاء و عناصر ہیں ان سبھوں کو ان ہی تین قدموں کے نشانات سے سہارا ملا ہوا ہے۔ ان کا وجود ان ہی سے قائم ہے۔ وشنو ابدیت کے ناگ ’’اننت‘‘ (سیش) پر سوتے ہیں جو موت، خاموشی، زہر اور ان دیکھی کائنات کی علامت ہے اور بیدار ہو کر گرودہ [5](GARUDA) پر بیٹھ کر پرواز کرتے ہیں جو جنم، زندگی، حرکت، جلال و جمال، تخریب و تعمیر اور نئی تخلیق کی علامت ہے۔ خاموشی اور حرکت کے آہنگ کی وحدت زندگی اور موت کے آہنگ کی وحدت اور جلال و جمال اور تخریب و تعمیر و تشکیل کی وحدت کے آہنگ کے لیے ان سے بہتر علامتیں اور کیا ہوسکتی تھیں۔
انسان کی تخلیق اور تخلیق کائنات کے متعلّق جو معنی خیز تمثیلیں ملتی ہیں وہ بھی وحدت کائنات اور وحدتِ جلال و جمال اور آہنگ اور آہنگ کی وحدت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اپنشد [6]کے مطابق ابتداء میں ’پُر جوش‘ (مرد) کی صورت میں یہ کائنات ’’آتم‘‘ (عظیم تر بنیادی رُوح) تھی۔ ’پُر جوش‘ نے ہر جانب دیکھا۔ اُس کے وجود کے سِوا کہیں کچھ نہ تھا۔ صرف وہی تھا۔ اُس نے کہا ’’مَیں ہوں!‘‘ لفظ ’مَیں‘ کا جنم اُسی لمحے ہوا۔
وہ خوف زَدہ ہوا۔
پھر سوچنے لگا۔ ’’جب میرے علاوہ کوئی نہیں ہے، میرے وجود کے سوا کچھ نہیں ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟‘‘
اس کا خوف جاتا رہا۔
لیکن وہ مسرور بھی نہ تھا۔ مسرّتوں کا طالب تھا۔ کوئی تنہا مسرّتیں حاصل نہیں کرسکتا۔
اُس نے چاہا۔
اُس کے علاوہ کوئی اور بھی ہو۔
اور چاہت کے اس احساس کے ساتھ ہی ایک مرد اور ایک عورت نے جنم لیا ۔
دونوں ایک دوسرے میں جذب تھے۔
وہ دو پیکروں میں تقسیم ہو گئے۔
لیکن محسوس ہوا۔ ایک دوسرے سے الگ رہنا ادھوری مسرّت حاصل کرنا ہے۔
عورت نے اس خلا کو پُر کر دیا۔ اور وہ اس میں جذب ہو گیا۔ اور تخلیق کا سلسلہ جاری ہو گیا۔
عورت نے تمام جانوروں، پرندوں اور کیڑوں کی صورتیں اختیار کیں۔
تو مرد بھی اسی طرح اپنی صورتیں بدلتا رہا۔
اور پرندوں، جانوروں اور کیڑوں کے جوڑے جنم لیتے گئے۔
مرد کے منہ سے ’اگنی‘ نے جنم لیا‘ — اور جو شے نَم ہوئی وہ منی سے ہوئی۔
اور سوم رس اسی منی کی دین ہے یا وہ خود منی ہے۔
’’سوم‘‘ انتہائی لذیذ اور خوشبو دار سیال غذا ہے۔
غذائے ربّانی ہے!
’اگنی‘ اس کی لذّت سے آشنا ہوا
تو برہما کی سب سے عظیم تخلیق بن گیا۔
یہ سیّال غذا مجسم ہو گئی
تو ’سوم دیوتا‘ نے جنم لیا۔
’سوم دیوتا‘ سوم رس کا اوتار ہے
جو تمام لذّتوں اور تمام مسرّتوں میں رشتہ پیدا کرتا رہتا ہے۔
حسن کائنات کو دیکھنے کے لیے پُر اسرار نشّہ طاری کرتا رہتا ہے۔
آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا احساس اسی پُر اسرار رشتے سے ملتا ہے!
رگ وید میں ’’پُرش‘‘ کے ایک ہزار سر، ایک ہزار آنکھیں اور ایک ہزار پاؤں ملتے ہیں۔ اسے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اُس کے شعور سے چاند خلق ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے آفتاب جنم لیتا ہے۔ اُس کے منہ سے ’اگنی‘ اور ’اندرا‘ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی قوّتِ حیات یا سانس سے ہوا (وایو) کی تخلیق ہوتی ہے۔ اُس کی ناف سے فضائیں جنم لیتی ہیں۔ ماتھے سے آسمان کا ظہور ہوتا ہے۔ اُس کے دونوں پاؤں زمین کو خلق کرتے ہیں۔ کان سے آسمان کے خطّے وجود میں آتے ہیں۔ یہ انسان کی پہلی قربانی تھی کہ جس سے کائنات کی تخلیق ہوئی۔ اُسی کے وجود کا آہنگ ہے جو ہر جگہ قائم ہے۔ اپنے آہنگ سے رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو تخلیقی قوّتیں بیدار اور متحرّک ہو جاتی ہیں۔ آہنگ اور آہنگ کے رشتے کے احساس اور ان کی وحدت کے عرفان سے عظیم تر مسرتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بڑا تخلیقی فنکار رشتے کے اسی احساس اور وحدت کے اسی عرفان سے مسرّتوں اور لذّتوں کی ایک کائنات سامنے رکھ دیتا ہے۔
٭٭
ہندوستان کے تخلیقی آرٹ اور جمالیاتی تجربوں میں مختلف علاقوں، مختلف نسلوں اور مختلف مذہبی رجحانوں اور رویّوں اور نسلی تجربوں کی آمیزشیں ہوتی رہی ہیں۔ آمیزش اور آویزش کا سلسلہ ہر زمانے اور ہر دور میں رہا ہے۔ کائناتی آہنگ اور اپنے وجود کے آہنگ کی وحدت اور اس وحدت کی مختلف جہتوں کو ہر دور میں کسی نہ کسی سطح پر پیش کیا گیا ہے۔ بیدار تخلیقی ذہن نے آہنگ اور آہنگ کے رشتے کو مضبوط کیا ہے اور ایک ہمہ گیر وحدت کا شعور بخشا ہے اور اس شعور کے ساتھ اعلیٰ اور اعلیٰ ترین تجربوں کا اظہار کیا ہے۔ کلاسیکی علامتوں کو صرف قبول نہیں کیا گیا بلکہ ان کے معنوی جہتیں بھی پیدا کی گئیں۔ بدھ علامتوں کے پس منظر میں ہندو ما بعد الطبعیات کا گہرا سایہ صاف طور پر نظر آتا ہے۔ ’’درخت‘‘ ’’چکر‘‘ ’’پہیّہ‘‘ ’’کنول‘‘ وغیرہ قدیم علامتیں ہیں جن سے آہنگ کی وحدت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی اور جن سے اس وحدت کا اظہار ہوا تھا۔ ’’بدھ آرٹ‘‘ نے ان علامتوں میں نئی جہتیں پیدا کیں۔ انہیں ’مکاں‘ سے باہر نکالنے اور غیر مکانی (SPACELESS) بنانے کی حیرت انگیز کاوش کی بنیادی طور پر آہنگ کی وحدت ہی کو سمجھانا تھا۔ بدھ کے وجود کے آہنگ سے اِن علامتوں کا رشتہ اس طرح قائم ہوا کہ ان کی نئی جہتیں شدّت سے متاثر کرنے لگیں۔ ایلیفنٹا میں ہندو اور بدھ تجربوں کی آمیزش سے جو وحدت پیدا ہوئی ہے وہ آہنگ کی وحدت کے پیشِ نظر تخلیقی آرٹ کی معراج ہے۔ آریوں اور غیر آریوں اور ہندوؤں اور بدھوں کے تجربوں کی آمیزش کے ایسے جلوے بکھرے ہوئے ہیں جن سے وحدت کے عرفان کی پہچان پہلی نظر میں ہو جاتی ہے۔ بدھ فنکاروں نے اس معاملے میں اپنی اعلیٰ روایات کے تئیں حد درجہ بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ گوتم بدھ کے مجسّموں میں سمادھی کی کیفیتیں ذہن کو ’یوگ‘ کی اعلیٰ ترین منزل اور ’اپنشدوں‘ کے تجربوں تک پہنچا دیتی ہیں۔ اسی طرح امراؤتیؔ، اجنتاؔ، ماملا پورمؔ کی تخلیقات، مختلف فرقوں، نسلوں اور قوّتوں اور مختلف تہذیبی اور ثقافتی لہروں کی خوبصورت آمیزشوں اور وحدتوں کا احساس عطا کرتے ہوئے آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا شعور دیتی ہیں۔ جانے کتنے تجربوں کا رس لے کر ہندوستانی آرٹ ایسی منزلوں تک آیا ہے اور وحدت میں کثرت کے جلوؤں اور کثرت میں وحدت کے آہنگ کو پیش کر کے جمالیاتی آہنگ کی نعمت دی ہے۔
دنیا کے آرٹ کی تاریخ میں ہندوستانی آرٹ کی روایت ایک زندہ قدیم روایت ہے کہ جس کی جمالیات آج بھی ایک تازہ موضوع ہے۔ اس کی اکثر علامتیں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاریخی تسلسل میں مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اعلیٰ جمالیاتی اقدار کے ساتھ ان کا بھی ایک بر تر اور لطیف تر تسلسل قائم ہے۔ مذہبی شعور کی مختلف جہتوں، مذہبی اقدار اور تہذیبی اور تمدّنی تجربوں کی آمیزش سے اعلیٰ اور ارفع تجربے پیش ہوئے ہیں اور ساتھ ہی مختلف خوبصورت پیکر خلق ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے تخلیقی آرٹ اور اس کی جمالیات کی جڑیں اس ملک کی تاریخ اور معاشرے کی گہرائیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی جمالیاتی علامتی جو مذہبی حسّیت کے ساتھ کلچر اور تہذیب کی جڑوں سے پھوٹی ہیں آفاقی بن گئی ہیں ہمہ گیر کائناتی معنویت کے ساتھ ان کا مطالعہ جمالیات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتا جاتا ہے۔
٭ ’ماں‘ (عظیم)
٭ عورت/درخت
٭ اردھ ناری ایشور
٭ درخت
٭ کنول
٭ ترمورتی
٭ نٹ راج
٭ شیو لنگ
٭ گنیش
٭ گنگا
٭ یکشی
٭ بدھ
٭ ’بودھیتو‘
یہ سب تخلیقی آرٹ کے عظیم تر پیکر ہیں!
ان کی معنویت کی تہہ داری اور ان کی پُر جمال اور پُر وقار جہتوں سے ایک طرف ما بعد الطبعیاتی تخلیقی ذہن کی عظمت کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری طرف تخلیقی آرٹ کی روایت کے تسلسل اور اس کے خوبصورت، لطیف، جلیل و جمیل اور پُر اسرار سفر کا حال معلوم ہوتا ہے۔
یہ پیکر اور ان سے وابستہ دوسرے پیکر کسی نہ کسی سطح پر آہنگ کی وحدت کا احساس و عرفان عطا کرتے ہیں۔
٭٭
٭٭٭
تشکر:ڈاکٹر شکیل الرحمن جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
[1] ان منزلوں کے تعیّن کے سلسلے میں مہا رشی پتن جلیؔ کے ’’یوگ ستر‘‘ [2/29] کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ تخلیق کا اعلیٰ نمونہ ’’سادھن‘‘ سے ’سدھی‘ کے باطنی سفر کا آئینہ ہوتا ہے۔ قدیم مندروں کی تعمیر میں ’’سادھن‘‘ کے ’سِدھی‘ اس سفر کی پہچان ہو جاتی ہے۔ فن مصوّری ، موسیقی اور رقص میں نیچے سے اوپر اُٹھنے، گرفت میں لینے یا چھا جانے کے عمل میں ’یوگ‘ کا عمل موجود ہو جاتا ہے۔ ۔ش۔ر
[2] جنوبی ہند کی ایک متھ کے مطابق پاروتی نے ایک دن ’اوم‘ کی صورت دیکھی اُن کی نظر پڑی کہ پیکر مباشرت میں مصروف ایک ہاتھی اور ہتھنی میں تبدیل ہو گیا۔ جس سے گنیشؔ کا جنم ہوا اور پھر اوم کی صورت سامنے آ گئی۔ اس طرح اوم گنیشؔ کی صورت اور آواز کی علامت بن گیا!
[4] ایند روس تھنیز(ANDROSTHENES) سکندرؔ کے ساتھ ہندوستان آیا تھا اور اُس نے پودوں کے آہنگ کا مشاہدہ کیا تھا۔ اندھیری رات میں جو پھُول کھلتے ہیں وہ عموماً سفید کیوں ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ اندھیری رات میں روشنی کے پیکر بن جائیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ شب میں بعض پتّیاں کچّی نیند میں کیوں ہوتی ہیں؟ اُن پر غنودگی کی کیوں طاری ہو جاتی ہے؟ ایندروس تھنیز نے اپنے مشاہدوں کو تحریر کیا تھا — اب تو (CHRONOBIOLOGY) نے ایک علم کی صورت اختیار کر لی ہے اور آہنگ اور دن اور رات کے آہنگ اور زندگی کے آہنگ کے رشتوں پر ایک ہزار سے زیادہ تحقیقی مقالے اور مضامین ہر سال شائع ہو رہے ہیں (BIO-RTHYTHM) جدید سائنس دانوں کا خاص موضوع بن گیا ہے۔ ’وقت‘ اور ’’آہنگ خاص موضوعات ہیں۔ مغربی جرمنی کے (G. CLAUSER) کیمبرج یونیورسٹی کے (JANET HARKER) اور ٹمپل یونیورسٹی (PHILADELPHIA) کے (SUE BINKLEY) وغیرہ نے بڑے قیمتی مقالے لکھے ہیں‘۔ سیکس ہارمونس ، سوڈیم، کیلشیم، انسولن ،فوسفیٹ وغیرہ کے پیشِ نظر انسان کے جسم کی حرارت اور حرکت اور وقت اور لمحوں سے ان کے رشتوں پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ پروفیسر ہلؔ برگ (F. HALBERY) نے (HUMAN CIREADIAN RHYTHMAS) کو اپنا خاص موضوع بنا رکھا ہے۔ ۱۹۶۸ء کے بعد اس علم کے مطالعے میں بڑی شدّت آ گئی ہے۔
[5] کائنات کے سمندر میں سونے کا جو انڈا ملتا ہے وہ تمام اشیاء و عناصر اور نئے زمانوں تخلیق کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
[6] (BRHADARANYKA UPANISAD)