FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

حضرت بلال بن رباحؓ

 

 

 

 

عظیم احمد

 


حضرت بلال بن رباحؓ

 

 

شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔

بلال بن رباحؓ نے محمد ﷺ کا دین اختیار کر لیا تھا۔ وہ ایک اللہ پر ایمان لے آیا تھا اور محمدﷺ کے ساتھیوں میں شریک ہو گیا تھا۔ اب وہ بتوں کی عبادت سے متنفر تھا۔ بتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بے معنی پتھر کے بت جنہیں لوگ خدا کہتے تھے۔ بلال بن رباحؓ نے انہیں خدا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ خبر امیہ بن خلف پر بجلی بن کر گری۔ وہ تو بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام غلاموں سے زیادہ چاہتا تھا۔ وہ تو آپ پر بڑا اعتماد رکھتا تھا۔ اس نے تو بت خانے کا انچارج بھی آپ کو مقرر کیا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ جب کسی دل کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیتا ہے تو ظلمت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو جسے لوگ اسلام سے پہلے بلال بن رباحؓ کے نام سے جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا بلال حبشیؓ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔

جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت ایمان سے سرفراز فرمایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ صنم کدے میں بھی اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ دوسرے لوگ بتوں کو اور سیدنا بلال حبشیؓ اس وحدہٗ لاشریک کو سجدہ کرتے۔

جب امیہ بن خلف کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے سیدنا بلالؓ کو اس عہدے سے معزول کر دیا۔ وہ تو پہلے ہی اسلام کا سخت دشمن تھا اس کے دل پر کفر کا قفل لگ چکا تھا۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس اپنا غلام اس مذہب کا پیروکار ہو جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہے۔

اب امیہ بن خلف نے انہیں سزا دینے کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ سیدنا بلالؓ کو شدید ترین گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیتا۔ جب اس سے بھی اس لعین کے سینے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی، تو وہ اپنے انتقام کو کندن بنانے کے لیے سیدنا بلالؓ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ نیچے گرم تپتی ہوئی ریت جسم جھلسا دیتی اور سینے پر بھاری پتھر جاں کی اذیت میں مزید اضافہ کر دیتا۔ سورج کی تپش رہی سہی کسر کو پورا کر دیتی۔

امیہ بن خلف نے اپنی طرف سے ہر کوشش کر ڈالی، مگر وہ سیدنا بلالؓ کے دل سے ایمان کی روشنی کم نہ کر سکا۔ وہ لعین آپ کو ہر روز نئی نئی اذیتیں دیتا اور کہتا :’’اگر میری بات نہیں مانو گے تو اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے اگر زندگی عزیز ہے تو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر لو، واپس اپنے باپ دادا کے دین پر آ جاؤ۔‘‘

مگر سیدنا بلالؓ کی زبان پر تو صرف یہی لفظ جاری تھا:

’’احد، احد، احد۔‘‘

’’معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

امیہ بن خلف کے حکم سے رات کے وقت سیدنا بلالؓ کو زنجیروں سے باندھ کر کوڑے مارے جاتے اور پھر اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا۔ شیطان پوری طرح اس لعین امیہ بن خلف کا ساتھ دے رہا تھا۔

امیہ بن خلف کے حکم سے ہر روز تکلیفوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جاتا، تاکہ سیدنا بلالؓ ان تکلیفوں سے گھبرا کر اسلام سے پھر جائیں یا پھر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیں۔

عذاب دینے والے اکتا جاتے، ظلم کرتے کرتے وہ تھک جاتے، ان کے حوصلے کمزور پڑ جاتے مگر سیدنا بلالؓ کی استقامت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ ہر تکلیف پر آپؓ کا حوصلہ بڑھ جاتا۔

کبھی ابوجہل آپؓ کو عذاب دینے میں پیش پیش ہوتا اور کبھی امیہ بن خلف کا نمبر آ جاتا اور کبھی کسی اور شخص کی باری آ جاتی اور ہر شخص اسی کوشش میں رہتا کہ وہ انہیں ایذائیں دینے میں اپنا پورا زور صرف کر دے۔

تذکرہ ملتا ہے کہ حضرت بلال بن رباحؓ اسلام آنے کی خبر سنتے ہی دامن اسلام کی آغوش میں آ گئے اور اس لعین امیہ بن خلف نے اپنے غلاموں کو حکم دیا :

’’دن چڑھے بلال کے بدن پر ببول کے کانٹے چبھو دیا کرو اور جب سورج اپنے پورے شباب پر ہو تو انہیں گرم زمین پر لٹا کر سر سے پاؤں تک پورے جسم پر گرم پتھر رکھ دیا کرو تاکہ وہ ہل نہ سکیں اور ان کے گرد آگ لگا دیا کرو۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ آفتاب نصف النہار پر پہنچ جاتا اور گرمی اپنے عروج پر ہوتی اور زمین تنور کی طرح دہک رہی ہوتی تو بلال بن رباحؓ کو مکہ کی پتھریلی زمین کے کھلے میدان میں لے جایا جاتا تھا اور انہیں برہنہ کر کے اس چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ پاؤں باندھ کر گرم ریت پر لٹا دیا جاتا، اور وہ ریت اور پتھر جن پر گوشت بھن کر کباب ہو جائے ایسے وقت وہ لعین آپ کے سینے پر پتھر اور گرم ریت ڈالتے تاکہ آپ ان تکالیف سے گھبرا کر محمد ﷺ کے دین کو چھوڑ دیں۔

سختیاں جس قدر شدت اختیار کرتی جاتیں آپ پر مستی عشق اور زیادہ غالب آ جاتی۔ بعض اوقات امیہ بن خلف کا رویہ اور زیادہ سخت ہو جاتا۔ وہ آپ کو مکہ کے لڑکوں کے حوالے کر دیتا جو آپ کو مکہ کے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے دیتے اور سیدنا بلال بن رباحؓ کی زبان پر ایک ہی صدا رہتی:

’’اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں ایمان لایا اس خدا پر جو زمین وآسمان کا خالق ہے‘‘

نہ صرف دن کو بلکہ جب شام ہوتی تو آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اندھیرے میں رکھا جاتا اور امیہ بن خلف اپنے غلاموں کو حکم دیتا:

’’اسے باری باری کوڑے مارو یہاں تک کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے یا پھر اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ جائے اگر یہ اپنی بات پر قائم رہے تو صبح تک اسے کوڑے مارے جائیں۔‘‘

دن گزرتے چلے گئے۔ ہر روز حضرت بلال بن رباحؓ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ مشکل گزرتا مگر آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ آپ کی زبان پر صرف ایک ہی ورد جاری رہتا:

’’اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘

حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں :

’’میں ایک دن حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرا تو وہ ازلی بدبخت امیہ بن خلف آپ کو ایذائیں دے رہا تھا اور کہتا جا تا تھا :’’بتوں پر ایمان لے آؤ ورنہ تمہیں جان سے ہارنا پڑے گا۔‘‘

آپ جواب دیتے:’’میں بتوںسے بیزار ہوں۔‘‘

یہ سن کر امیہ بن خلف لعین کا غصہ اور تیز ہو جاتا پھر میں نے دیکھا کہ وہ آپ کے سینے پر چڑھ گیا اور دو زانو بیٹھ کر آپ کا گلا گھونٹنے لگا یہاں تک کہ آپ کی سانس بند ہو گئی اور بے حس و حرکت پڑے محسوس ہونے لگے۔ میں سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے۔ میں جس کام کے لیے جا رہا تھا، اسے پورا کر کے واپس لوٹا تو ابھی تک آپ بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ میرے آتے وقت آپ اچانک ہوش میں آئے تو اس لعین نے پھر پوچھا:

’’اے بلال بتوں پر ایمان لاؤ گے یا نہیں؟‘‘

حضرت بلالؓ نے آسمان کی طرف منہ کر کے کچھ کہا لیکن میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس لیے کہ کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے آپ کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔

حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں :

’’میں نے اس شخص سے سنا جس نے حضرت بلالؓ سے سنا تھا۔‘‘

حضرت بلالؓ نے بتایا :

’’اس امیہ نے ایک روز مجھے موسم گرما میں باندھ کر تمام رات اسی حالت میں رہنے دیا۔ پھر دوپہر کے وقت برہنہ کر کے دھوپ میں سنگریزوں پر ڈال دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیئے جس سے میں بے ہو ش ہو گیا معلوم نہیں کس شخص نے وہ پتھر میرے سینے سے اتارے جب ہوش میں آیا تو شام ہو چکی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا :

’’وہ مصیبت میں کیسی نعمت ہے۔‘‘

بعض روایات میں آیا ہے۔

’’وہ لعین لوہے کی سلاخیں گرم کر کے آپ کی زبان پر رکھ دیتا اور کہتا :

’’اب تو محمد ﷺ کا نام لینا چھوڑ دے۔‘‘

لیکن حضرت بلال بن رباحؓ اور زیادہ محمد ﷺ، محمد ﷺ کہتے یہاں تک کہ بے ہوش ہو جاتے۔‘‘

حضرت بلال بن رباحؓ کا بیان ہے:

’’ایک روز اس خبیث نے مجھ پر ظلم ڈھایا کہ اونٹ کے بالوں کی ایک پچاس گز لمبی رسی میری گردن میں ڈال کر مکہ کے لڑکوں کو پکڑا دی وہ مجھے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کھینچتے یہاں تک کہ میری گردن زخمی ہو گئی۔ اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ نے اس سے نجات دی۔‘‘

ورقہ بن نوفل کا ایک روز گزر ہوا۔ حضرت بلال بن رباح حبشیؓ پر ظلم و تشدد جاری تھا اور ان کی حالت دیکھ کروہ تھر ا اٹھے۔ کچھ دیر کھڑے ہو کر ان کی ’’احد احد‘‘ کی پکار سنی اور کہنے لگے:’’بخدا اے بلال ! ’’احد احد‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

روایت ہے کہ ابوجہل لعین نے حضرت بلالؓ کو دیکھ کر کہا:

’’تم بھی وہی کہتے ہو جو محمد ﷺ کہتے ہیں۔‘‘

پھر انہیں پکڑ کر منہ کے بل گرا کر دھوپ میں لٹا دیا اور ان کے سینے کے اوپر چکی کا پاٹ رکھ دیا اور وہ احد احد پکارتے رہے۔

ایک دن وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا تو امیہ بن خلف کے گھر سے آہ و زاری کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت بلال حبشیؓ کے ساتھ ظلم وستم ہو رہا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ بن خلف کو ملامت کی:

’’تیرا اس کام سے کیا سنورتا ہے؟ تو بلالؓ کو اذیت نہ دے۔‘‘

امیہ بن خلف نے کہا :’’میں نے اسے دام دے کر خریدا ہے۔ تیرا دل چاہتا ہے تو اسے خرید لے۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاں ایک رومی غلام ’’فسطاط‘‘ تھا جو حضرت ابوبکرؓ کی دعوتِ اسلامی قبول نہیں کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا:’’وہی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی لے کر بلالؓ  میرے حوالے کر دو۔‘‘

امیہ بن خلف نے منظور کر لیاسودا طے پا جانے کے بعد امیہ بن خلف ہنسنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سبب پوچھا تو امیہ بن خلف نے کہا :’’تم اتنے زمانہ شناس انسان ہو اور کامیاب تاجر ہو مگر آج تم نے گھاٹے کا سودا کر لیا۔ مجھے بے حد قیمتی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی دے کر ایک بیکار غلام خرید لیا۔ ایسے غلام کو جسے میں ایک درہم کے عوض فروخت کرنے پر تیار تھا۔‘‘

یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:’’بخدا آج تو مجھ سے بلالؓ  کے عوض میں یمن کی بادشاہت بھی مانگتا تو وہ بھی تجھے دینے کو تیار تھا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کے گرد و غبار کو اپنی چادر سے صاف کیا اور امیہ بن خلف کے سامنے انہیں نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائے اور عرض کیا:’’یا رسول اللہﷺ میں نے اسے آزاد کیا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں زندگی بسر کریں۔‘‘

حضرت بلالؓ نے عرض کیا :’’میں حضورﷺ سے جدائی نہیں چاہتا،  آپ یہ شرط چاہے رکھیں یا نہ رکھیں۔‘‘

حضرت بلالؓ کی استقامت و استقلال کو ان کا یہ صلہ ملا کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن بنے اور سفر و حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت ان کے سپرد ہوئی۔

مولانا روم فرماتے ہیں:

’’امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو سستے داموں خریدا۔ وہ آپ سے دن بھر کام لیا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت بلالؓ نے سرکار ﷺ کی زیارت کی تو ان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ جسم کافر کا غلام کا تھا لیکن روح زلف مصطفیٰﷺ کی اسیر تھی۔ وہ تمام دن اپنے مالک کا کام کرتے رہتے لیکن دل یاد مصطفی ﷺ کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ دست بکار دل بہ یار۔‘‘

ایک دن جوش محبت میں حضرت بلالؓ احد احد اور محمدﷺ، محمدﷺ کے نعرے لگانے لگے۔ امیہ نے سنا تو مارنے لگا۔

’’تو محمد ﷺ کو کیوں پکار رہا ہے ؟ اے میرے غلام کیا تو میرے دین کا منکر ہے؟‘‘

مالک سخت دھوپ میں آپ کو کانٹوں کے ساتھ مارنے لگا لیکن حضرت بلالؓ بڑے افتخار کے ساتھ احد احد پکار نے لگے۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی تشریف لائے۔ آپ بلالؓ کا حال دیکھ کر سخت مضطرب ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے یہی منظر دیکھا تو آپ نے حضرت بلالؓ کو علیحدگی میں مشورہ دیا کہ تمہارا مالک کافر ہے۔ اس کے سامنے محمد عربی ﷺ کا نام مبارک نہ لیا کرو۔ اپنے محبوب کو دل ہی دل میں یاد کر لیا کرو۔ حضرت بلالؓ نے جواب دیا:’’نہیں صدیق ! یہ میرے بس کا روگ نہیں،  رہی بات امیہ کے ظلم وستم کی اس کی مجھے قطعاً پرواہ نہیں وہ مجھے شہید بھی کر ڈالے تو میرے بدن کا ہر مو یار کا نام پکارے گا۔‘‘

حضرت بلالؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔آپ کی کنیت ابو عبداللہ یا ابو حازن تھی۔ آپ سراۃ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے اسلامی بھائی کا نام خالد اور بہن کا نام عفراء تھا۔ آپ حبشی النسل تھے۔

حضرت بلالؓ خالص حبشی تو نہ تھے بلکہ ان کی والدہ حبشی تھی لیکن ان کے والد عرب کی سر زمین ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا،  جسم دبلا پتلا اور لمبا،  سینہ آگے کو ابھرا ہوا تھا۔ سر پر گھنے بال تھے، رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔

ان اوصاف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص حبشی نہ تھے۔

بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ان کے ایک بھائی بھی تھے جن کا نام خالد اور کنیت ابو رویحہ تھی لیکن وہ ان کے حقیقی بھائی نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے جب مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کیا تو خالد ان کے بھائی بنے تھے۔

حضرت بلالؓ کی پرورش مکہ میں قریش کے مشہور قبیلے بنو جمح میں ہوئی اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تینوں موذن حضرت بلالؓ، حضرت مخدورہؓ اور عمرو بن کلثومؓ نے مکہ کے اسی قبیلے میں پرورش پائی۔

زمانہ جاہلیت میں اس قبیلے کے لوگ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس قبیلے میں پرورش پانے کی وجہ سے حضرت بلالؓ کو اس قبیلے کی رسموں سے سخت نفرت ہو گئی تھی، اور رات دن دیکھتے رہتے تھے کہ ان کے قبیلے کے لوگ مکار تھے،  دھوکہ باز تھے،  رحمدلی ان سے کوسوں دور تھی۔ یہی نفرت ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔

خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے لیکن پھر انسانی ذہنوں میں کچھ ایسا خلفشار پیدا ہوا کہ یہ عظیم عبادت گاہ لکڑی اور پتھروں سے بنائے ہوئے بتوں کا گودام بن کر رہ گئی۔

ان بتوں کو عرب اپنے خداؤں کا درجہ دیتے تھے لیکن پہلے تو اس قادر مطلق کا تصور گم ہوا۔ پھر اس کی جگہ بتوں نے لے لی، اور پھر ایک نہیں سینکڑوں خداؤں کا تصور ابھرا اور پھر وحدانیت الٰہی کی یہ قدیم علامت تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن بن گئی۔

وہ خدا جو فروخت کیے جاتے تھے۔ خریدے جاتے تھے اور ان خداؤں کی خرید و فروخت پر منافع کمایا جاتا تھا۔ ہر خدا مختلف کام کے لیے مخصوص تھا۔ کوئی دن کا خدا تھا، کوئی رات کا، کوئی معذوروں کا خدا تھا،  کوئی صحت مندوں کا۔

خوش نصیبی کے خدا الگ تھے۔ سفر کے الگ اور کچھ دنیوی منفعت کے لیے۔ ابدی بہبود اور اخروی بہتری کا کوئی عنصر ان کی عبادت میں شامل نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں آنے جانے والے قافلوں کے پاس صرف نفع کمانے کا تصور تھا جو بازاروں اور منڈیوں میں نظر آتا ہے۔

ہر سال ایک خاص مہینے میں عرب کے قبائل میلوں کی مسافت طے کر کے اپنے اپنے خداؤں کے حضور حاضری کے لیے آتے تھے۔ ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ شام کے تاجر،  یمن کے سمندری تجارت کرنے والے تاجر،  فارس کے تاجر اور دور دراز مقامات سے آئے ہوئے غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجر سب ہی یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس میلے میں سونا، چاندی، کپڑے اور خوشبویات بھی فروخت ہوتی تھیں، غلام اور خدا بھی۔

موسم گرما کی ایک صبح تھی۔ امیہ بن خلف حسب معمول اپنے تاجر ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے گھر سے نکلا۔ تاجروں کی یہ محفل خانہ کعبہ کے سائے میں لگتی تھی۔ تاجروں کے ساتھ ان کے غلام بھی ہوتے تھے جو کچھ فاصلے پر بیٹھے اپنے اپنے آقاؤں کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے۔

ان غلاموں میں امیہ بن خلف کے غلام بلالؓ بھی تھے۔

تمام تاجر خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان تاجروں کے غلام بھی سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

اتنے میں ابو جہل کی آواز نے غلاموں کو چونکا دیا۔ ابوجہل کا غلام ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا مگر ابو جہل تو کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔

’’اسے دیکھو وہ کہتا ہے وہ خدا سے باتیں کرتا ہے۔‘‘

ابو جہل کا فقرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔

محمد بن عبداللہﷺ نے خاموشی اختیار رکھی۔

’’پیغمبر صاحب ! آپ ﷺ ہمیں پانی پر چل کر کیوں نہیں دکھاتے؟‘‘

اس بار امیہ بن خلف کی آواز ابھری۔

محمد بن عبداللہﷺ ہمیشہ کی طرح تنہا پہاڑوں کی سمت جا رہے تھے جہاں لوگ کہتے تھے کہ ایک فرشتے نے ان سے بات کی تھی۔ وہ ابوجہل کے طنز سے بے نیاز کعبہ کے گرد چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

ادھر تاجروں کی محفل میں ہر چہرے پر ہنسی تھی۔ ہر شخص اس مذاق میں شریک تھا۔ صرف ابوسفیان تھا جس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہ تھی۔ اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ محفل میں سنجیدگی لوٹ آئی وہ کہنے لگا : ’’ایک خدا کو ماننے والا خدا کا منکر ہے۔‘‘

ہمیشہ کی طرح ابوسفیان نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات کی تھی کہ محمد بن عبداللہ ﷺ ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ کفار نے اپنی ضعیف الاعتقادی میں موقع محل کے لحاظ سے کئی خدا بنا رکھے تھے۔ وحدہٗ لاشریک کا تصور ان کے دائرہ فکر سے باہر تھا۔ ابوسفیان فکرمند تھا:’’اگر ہم نے اس فتنے کو ختم نہ کیا تو خدا ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور اپنی رحمتیں کسی اور شہر پر نچھاور کرنے لگیں گے۔‘‘

ابوجہل جو اب تک خاموش تھا۔ یکایک بول اٹھا:’’ابو لہب! تم اس کے چچا ہو۔ یہ تم قریبی رشتے داروں کی ذمے داری ہے کہ اسے سمجھاؤ اور اسے راہ راست پر لاؤ۔‘‘

ابولہب گھبرا گیا۔ اس نے اب تک دانستہ طور پر خود کو اس ساری گفتگو سے الگ رکھا تھا۔ وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اب ابو جہل نے خواہ مخواہ اسے گھسیٹ لیا تھا۔

’’راہ راست پر لاؤں اس کو ؟ محمد ﷺ کو وہ کوئی بچہ ہے ؟ چالیس سال کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سراسر بدنامی کا باعث ہے۔ میرے لیے، اپنے خاندان کے لیے، اپنے نسب عالی کے لیے۔ کل اس نے ایک غلام کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے۔ جو کوئی اس سے کچھ مانگتا ہے اٹھا کر اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جہاں بھر کے چور اچکوں اور مقروضوں کو کھلاتا ہے۔ جب دیکھو اس کے دروازے پر دس بارہ جمع رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو اس کے گھر سے کوئی بھیڑ بکری یا کچھ اور لے کر نہ جائے، ہم کیا کرسکتے ؟‘‘

گھبراہٹ میں ابولہب نے ابوسفیان کا بازو تھام لیا۔ ’’ابوسفیان ! تم ہی بتاؤ ایک جوان شخص مضبوط و توانا، خوبصورت، سر کا ایک بال سفید نہیں، ایک رئیس عورت کا خاوند، خود عالی نسب، وہ مکہ میں جو چاہے کر سکتا ہے مگر کرتا کیا ہے۔ اپنے گھر کا آرام دہ بستر چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھا سردی سے ٹھٹھرتا رہتا ہے۔ محض اس وہم پر کہ ایک فرشتہ اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ فرشتہ اس کی جان کا روگ بن گیا ہے۔‘‘

ابولہب تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اس کے دوست بھی کچھ پریشان، کچھ شرمندہ لگ رہے تھے۔ ابولہب بیٹھا بیٹھا پھر کہنے لگا:’’ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا۔ سب اس کے دوست تھے۔ اس کی عزت کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو اس پر ہنسنے کی جرأت نہ تھی۔ وہ تمہارے درمیان فیصلے کراتا تھا۔ تمہارے قرضے چکاتا تھا۔ وہ تمہاری امانت کا محافظ تھا۔ لوگ اسے صادق اور امین کہتے ہیں۔ لوگ اس کے پاس جاتے تھے اور اسے عادل و منصف سمجھ کر اپنے معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ صرف ایک سال پہلے۔‘‘

پھر ابو لہب نے پکار کر کہا:’’مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ وہ ہمارے خداؤں کے بارے میں کیا الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ہمارے خدا اس سے خود ہی نمٹ لیں گے لیکن وہ انسانوں کو جو سبق پڑھا رہا ہے وہ بے حد خطرناک ہے مگر اس کا جلد فیصلہ ہو جائے گا۔سب سے پہلے ہم ان غلاموں اور لا وارثوں سے نمٹیں گے جو اس کے گرد جمع رہتے ہیں۔‘‘

حضرت بلال بن رباحؓ یہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ان بتوں سے تو پہلے ہی متنفر تھے۔ اب جو انہوں نے نئے دین کے متعلق سنا تو ان کے دل و دماغ میں کشمکش جاری ہو گئی۔

ایک دن حضرت بلالؓ غلاموں کے مخصوص انداز میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ حضرت عمار بن یاسرؓ کو لے کر آئے اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ حضرت بلالؓ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

’’بتاؤ محمد ﷺ تمہیں کیا سکھاتا ہے؟‘‘ ابوسفیان نے تیز لہجے میں پوچھا۔

حضرت عمار بن یاسرؓنے فرمایا:’’وہ سکھاتے ہیں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، بالکل ایسے جیسے کنگھے کے دندانے۔‘‘

حضرت بلالؓ یہ سن کر سر تا پاؤں لرز گئے اور ان کے جسم میں ایک سرد لہر دو ڑ گئی مگر امیہ بن خلف کا چہرہ تپ کر سرخ ہو گیا تھا۔

ایک بار پھر حضرت عمارؓ کی آواز ابھری : ’’محمد ﷺ ہمیں سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔‘‘

ابوسفیان کو دوسرے آقاؤں کے مقابلے میں نیک سمجھا جاتا تھا۔ غلاموں کے حلقے میں اس کی شہرت اچھی تھی۔ جہاں جنبش ابرو سے کام چل سکتا وہاں وہ کبھی زبان نہ ہلاتا تھا۔

شاید عمار بن یاسرؓ نے اسی دھیمے لہجے میں دھوکہ کھا لیا تھا جوسب کہتے چلے گئے۔ جب ابو سفیان نے اپنے مخصوص لہجے میں سوال کیا تو عمار بن یاسرؓ نے یہ سمجھا کہ وہ ان کے برابر کی حیثیت سے بات کر رہا ہے، اور واقعی ان سے صحیح جواب چاہتا ہے۔’’ایک اللہ، لیکن ہمارے تو تین سو ساٹھ خدا ہیں جو ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہماری مرادیں بر لاتے ہیں۔‘‘

پھر ابو سفیان قدرے توقف کے بعد بولا:’’محمد ﷺ کو احساس نہیں کہ ہم مکہ میں خداؤں کو گھر مہیا کرتے ہیں، یہی ہماری روزی ہے۔ سب قبائل کے اپنے اپنے خدا ہیں جن کی عبادت کے لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ خدا ہمارے معبود بھی ہیں اور ہمارا ذریعہ معاش بھی اور کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی نگہداشت نہیں کرتے۔‘‘

ابوسفیان کہتے کہتے رک گیا۔ پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولا:’’اگر ہم تین سو ساٹھ بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کو ماننے لگیں جو نظر بھی نہیں آتا اور جو ہر جگہ بتایا جاتا ہے۔ اس باغ میں، طائف میں، مدینہ میں، یروشلم میں، چاند پر تو پھر مکہ کہاں جائے گا ؟ جب ہر گھر میں خدا ہو گا تو یہاں کوئی کیا کرنے آئے گا؟‘‘

اب امیہ بن خلف اپنا ریشمی لباس لہراتا ہوا حضرت عمار بن یاسرؓ کے قریب پہنچا اور کہنے لگا:’’یہ سیاہ فام بلالؓ جسے میں نے اپنے پیسے سے خریدا ہے، میرے برابر ہے؟‘‘

یہ کہہ کر وہ رکا اور بزعم خود اپنے سوال کی معقولیت کا لطف اٹھانے لگا۔

’’محمد ﷺ کہتے ہیں اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ کسی نسل، کسی رنگ کے ہوں۔‘‘

محفل پر سناٹا چھا گیا۔ پھر حضرت بلال بن رباحؓ کے آقا امیہ بن خلف کی آواز ابھری:

’’بلال!‘‘

حضرت بلالؓ کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس بار ان کا نام اس لیے پکارا جا رہا کہ انہیں ایک زندگی سے دوسری زندگی ملنے والی تھی۔ بس اللہ ہی ہے کہ جو جانتا ہے کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ حضرت بلالؓ پلک جھپکنے میں حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہو گئے۔

امیہ بن خلف نے کہا :’’بلالؓ اسے بتاؤ کہ تم میں اور ایک رئیس مکہ میں کیا فرق ہے ؟ یہ لو اور مار مار کا اس کا چہرہ لہولہان کر دو، مسخ کر دو تاکہ اسے اس کی سرکشی کی سزا مل جائے اور یہ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔‘‘

یہ کہہ کر امیہ بن خلف نے کوڑا حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کیسا واضح حکم تھا، کتنا مختصر اور جامع۔

حضرت عمار بن یاسرؓ نے زمین پر اوندھے پڑے پڑے سر اٹھا کر اپنا چہرہ حضرت بلالؓ کے سامنے سزا کے لیے پیش کر دیا۔

امیہ بن خلف کی آنکھیں غصے سے باہر کو ابلی آ رہی تھیں۔ ابوسفیان نے نظریں دوسری طرف پھیر لی تھیں۔ ابوسفیان سزا دینے کا تو قائل تھا مگر وہ اس میں براہِ راست شرکت کو اپنے منصب سے گری ہوئی بات سمجھتا تھا۔

حضرت عمار بن یاسرؓ حضرت بلالؓ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ ٹکٹکی باندھے حضرت بلالؓ کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظروں میں پاکیزگی تھی۔ سکون تھا بے خوفی تھی، سر تا پا مجبور مگر پر عزم۔ حضرت بلالؓ نے ان کی آنکھوں میں ایسی قوت دیکھی جو انہیں غلامی کے بندھن سے بھی زیادہ طاقتور محسوس ہوئی۔ ٹھیک اس لمحے امیہ بن خلف کا غلام، جو غلام ابن غلام تھا جو امیہ بن خلف کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جان قربان کر دینے کے لیے تیار رہتا تھا، کسی اور کا غلام ہو گیا۔

حضرت بلالؓ نے کوڑا ہاتھ سے گرا دیا۔

یہ دیکھ کر سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایک اور غلام باغی ہو گیا ہے۔ لوگ حیرت زدہ ہو کر بلالؓ کی طرف دیکھنے لگے۔

حضرت عمار بن یاسرؓ نے گھسٹتے گھسٹتے ہاتھ بڑھا کر کوڑا پکڑنے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے وہ کوڑا دوبارہ حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور انہوں نے سرگوشیانہ انداز میں کہا۔’’بلال ! یہ جو کہتے ہیں کرو، بلال ان کی حکم عدولی نہ کرو ورنہ یہ تمہیں مار ڈالیں گے۔‘‘

مگر حضرت بلالؓ کا ہاتھ بلند نہ ہوا۔ انہوں نے ایک بار پھر کوڑا زمین پر پھینک دیا۔ حضرت بلالؓ کو یوں محسوس ہوا، جیسے وہ نور میں نہا کر رہ گئے ہوں۔

یہ دیکھ کر ابو سفیان نے امیہ بن خلف کو اشارہ کیا۔ امیہ بن خلف کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ وہ خاموش تھا۔ اس کی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا اس کا غلام بھی باغی ہو سکتا ہے۔ پھر یکدم اس نے حضرت بلالؓ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: ’’بلالؓ  اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم انسان ہو اور تم کو بھی خدا رکھنے کا حق ہے تو میری بات کان کھول کر سن لو تمہارے خدا وہی ہوں گے جو تمہارے آقا کے خدا ہیں، کوئی نیا خدا میرے غلام خانہ میں نہیں لایا جا سکتا۔‘‘

پھر امیہ بن خلف نے نظر دوڑائی اور کہا :’’تمہاری اصلاح کرنی پڑے گی لیکن آج نہیں میں سورج کے نصف النہار پر آنے کا انتظار کروں گا آج وہ ذرا ڈھل گیا ہے۔‘‘

پھر اس نے اپنے دوسرے غلاموں کو اشارہ کیا اگلے ہی لمحے حضرت بلالؓ کے بازوؤں اور گردن کو رسیوں سے جکڑ دیا گیا۔

حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے، اور یہ لعین و بدبخت مشرک تھا۔

حضرت بلالؓ کا شمار ان سات اسلام لانے والوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لائے۔

چونکہ یہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو چین سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے دن رات ہر وقت کوشش میں مصروف رہتے لیکن حق تعالیٰ کو اپنا نور پھیلانا تھا۔ وہ منور ہو کر رہا اور کفار کی تمام کوششیں غارت ہو کر رہ گئیں۔

حضرت بلالؓ چاہتے تو اپنا ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفاء کی بدولت کفار کی ایذارسانیوں سے محفوظ رہ سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر آپ کو مجبور کر دیا۔

حضرت بلالؓ کا نعرۂ حق لگانا تھا کہ آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ کفار آپ کو اس قدر زد و کوب کرتے کہ آپؓ لہولہان ہو جاتے۔ پھر زخمی حالت میں آپ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جاتا لیکن اس ظلم و تعدی کے باوجود حضرت بلالؓ سچے عاشق رسول نکلے۔ ان کے پایۂ استقلال میں رائی برابر لغزش نہ آئی آپ ان اذیتوں کو راہ حق میں آسان سمجھتے۔

امیہ بن خلف آپؓ کو دوپہر کے وقت مکہ کے رہ گزاروں میں لے جاتا اور آپ کے گلے میں رسی باندھ کر لٹا دیتا اور بہت بڑا پتھر آپؓ کے سینے پر رکھ دیتا، تاکہ آپؓ اس کے نیچے دبے دبے جان دے دیں یا حضور ﷺ کے منکر ہو جائیں اور لات و عزیٰ کی پرستش دوبارہ شروع کر دیں۔

حضرت بلالؓ کو رسیوں سے باندھ کر مکہ کے گلی کوچوں میں پھرا جاتا لیکن وہ احد احد ہی پکارتے۔

 

 

ظلم وستم کی انتہا

 

حضرت بلالؓ نے محمد ﷺ کو کئی بار دیکھا تھا لیکن آج تک ان سے بات نہ کی تھی۔ عکاظ کے بیس روزہ سالانہ بڑے میلے کے بعد قافلے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے مکہ سے نکلتے ہی اپنے گرد و غبار میں گم ہو جاتے تو مکہ سکڑ سا جاتا۔ گلیوں میں دوبارہ وہی جانے پہچانے لوگ نظر آتے لگتے۔ یہ سب چہرے حضرت بلالؓ کے واقف نہیں تھے لیکن صورت شناس وہ سب ہی کے تھے۔

ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جو حضرت بلالؓ کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کچھ لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن ان کا ایک غلام کے ساتھ راہ و رسم، اس کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا لیکن محمدﷺ مختلف تھے۔ وہ جب بھی حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرتے تو محبت کے انداز میں مسکرا کر دیکھتے۔

یہی و ہ محمدﷺ تھے جو اللہ کی وحدانیت کی باتیں کر رہے تھے۔ پتھر کے ان بے جا ن ٹکڑوں کو جسے اہل مکہ اپنے خدا تصور کرتے تھے محمد ﷺ ان کی تکذیب کرتے تھے اور کہتے تھے :

’’یہ تو محض پتھر ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں، نہ چل سکتے ہیں، یہ تمہارے خدا نہیں ہیں۔ اللہ تو ایک ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا اور وہی انہیں مار کر دوبارہ زندہ کرے گا۔‘‘

حضرت بلالؓ کے نزدیک محمدﷺ کی مسکراہٹ ایک سچے انسان کی مسکراہٹ تھی۔ ان کا دل کہتا تھا:

’’اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو وہ سچ ہی کہتے ہیں۔ یقینا اللہ ایک ہی ہو گا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں تو وہ واقعی اللہ کے آخری رسولﷺ ہوں گے۔ اگر محمدﷺ کہتے ہیں کہ وہ فرشتے سے ہم کلام ہوئے ہیں تو وہ ضرور ہوئے ہوں گے۔‘‘

حضرت بلال بن رباحؓ نے جب امیہ بن خلف کے حکم سے سرتابی کی اور بغاوت پر اتر آئے تو اس کے حکم سے اس کے دوسرے غلاموں نے آپ کو زنجیروں میں جکڑ کر قید کر دیا۔

رات کے وقت امیہ بن خلف ان کے پاس آیا اور براہ راست سوال کیا:’’سچ سچ بتا، تیرا معبود کون ہے؟‘‘

حضرت بلالؓ نے فوراً جواب دیا: ’’محمد ﷺ کا معبود میرا معبود ہے۔‘‘

یہ جواب سنتے ہی امیہ بن خلف کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شاید وہ اس جواب کے لیے تیار تھا۔ اس لیے کہنے لگا:’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارے خداؤں سے انکار کرتا ہے؟‘‘

’’محمدﷺ الامین ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں کہتے، انہیں ایک فرشتے نے بتایا ہے کہ اللہ ایک ہے۔‘‘

یہ سن کر امیہ بن خلف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔

اب اس کا روز کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ وہ حضرت بلالؓ کو غلام خانہ سے باہر نکالتا اور دھوپ میں جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر تپتی ہوئی بھاری بھاری چٹانیں رکھ دی جاتیں کہ وہ ہل بھی نہ سکیں۔ ایسی حالت میں امیہ بن خلف ان پر کوڑے برساتا اور انہیں مجبور کرتا کہ وہ اس کے خداؤں کو تسلیم کر لیں۔ حضرت بلالؓ کی کمر پر چھالے پڑ گئے جو بعد میں زخموں میں تبدیل ہو گئے جن سے خون رسنا شروع ہو گیا مگر امیہ بن خلف کے معمول میں فرق نہ آیا بلکہ ہر روز اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ہر روز بلالؓ کے لیے گزشتہ دن سے زیادہ گرم ریت تلاش کی جاتی۔ پہلے سے زیادہ وزنی چٹانیں ڈھونڈی جاتیں اور پہلے سے زیادہ کوڑوں کی ضربیں لگائی جاتیں۔

حضرت بلالؓ ہر روز مرنے کے قریب ہو جاتے مگر امیہ بن خلف کے سوالات کے جواب میں ’’احد احد‘‘ کے سوا کچھ نہ کہتے۔

ایک دن اس نے تنگ آ کر انہیں بھوکا رکھا اور پھر گرم ریت پر لٹا کر مارنا شروع کر دیا مگر حضرت بلالؓ چٹانوں کے نیچے دبے دبے بھی اس کے ہر سوال کے جواب میں ’’احد احد‘‘ ہی دہراتے رہے۔

بنو جمح کے سارے محلے کو علم تھا کہ بلال کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف ہو گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی اسی محلے میں رہتے تھے۔ وہ حضرت بلالؓ کو روزانہ دیکھتے اور نظریں نیچی کر کے چلے جاتے تھے۔

جب دھوپ اور کوڑوں کی سزا کارگر نہ ہوئی تو امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی باندھ کر بنو جمح کے لڑکوں کے حوالے کر دیا۔بچے سارا دن چیختے چلاتے، قہقہے لگاتے اور مکہ کے اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر کھینچتے پھرتے۔

وہ رسی سے ان کی گردن کو جھٹکا دیتے تو حضرت بلالؓ گر پڑتے اور پھر وہ سب مل کر انہیں گھسیٹتے اگر وہ اٹھنے کی کوشش کرتے تو انہیں ٹھوکریں ماری جاتیں۔ اگر کبھی اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تو پھر رسی کے جھٹکے سے انہیں نیچے گرا دیتے۔

حضرت بلالؓ منہ کے بل گرتے تو پھر انہیں گھسیٹنا شروع کر دیتے۔ کبھی رسی اس زور سے کھینچتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا۔ نوکیلے کنکروں، سنگریزوں اور پتھروں کی رگڑ سے روز ہی ان کے جسم پر نئے زخم بنتے۔ پہلے زخم بھرنے بھی نہ پاتے تھے کہ پھر کھل جاتے۔ ان کا سارا جسم لہو لہان ہو جاتا۔

دوپہر کے وقت جب سارا مکہ تپ اٹھتا تو حضرت بلالؓ کے کپڑے اتروا کر انہیں لوہے کی زرہ پہنا دی جاتی اور پھر انہیں دھوپ میں لٹادیتے۔ ایک دن انہوں نے حضرت بلالؓ کو دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹا کر ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا۔

ایک روز حضرت بلالؓ روزمرہ کی طرح گرم چٹانوں تلے دبے امیہ بن خلف کے کوڑے کھا رہے تھے۔وہ لعین انہیں ہر کوڑے پر لات اور عزیٰ کی عبادت کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ادھر سے ورقہ بن نوفل کا گزر ہوا۔ وہ حضرت بلالؓ کے منہ سے ’’احد احد‘‘ کی آواز سن کر رک گئے اور انہوں نے بآواز بلند کہا :

’’بلالؓ  وہ واقعی ایک ہے۔‘‘

پھر انہوں نے امیہ بن خلف سے مخاطب ہو کر کہا :’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تو نے اسے مار ڈالا تو میں اس کی قبر پر درگاہ تعمیر کروں گا۔‘‘

مگر وہ لعین امیہ بن خلف پھر بھی باز نہ آیا۔ ہر روز دوپہر کو جب بچے حضرت بلالؓ کو مار مار کر نڈھال کر دیتے اور ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر گرم چٹانیں رکھ دیتے تو وہ بھی کوڑا گھماتا وہاں پہنچ جاتا اور ہر کوڑے کی ضرب کے بعد بلالؓ سے پوچھتا۔

’’تم محمد ﷺ کے اللہ کے منحرف ہوئے یا نہیں ؟‘‘

مگر حضرت بلالؓ کا جواب ’’احد احد‘‘ کے سوا کچھ نہ ہوتا۔

حضرت بلالؓ کے والد کو غلام بنا لیا گیا تھا۔

حضرت بلالؓ تو پیدا ہی غلامی کی حالت میں ہوئے تھے۔

حضرت بلالؓ فرماتے ہیں:

’’میں پیدا تو غلامی کی حالت میں ہوا تھا لیکن جب میں ماں کے شکم میں آیا تو میرے ماں باپ آزاد تھے۔‘‘

جب حضرت بلالؓ جوان ہوئے تو انہیں پہلی بار بازار میں فروخت کے لیے لایا گیا۔ اب وہ ابن غلام نہیں بلکہ بذاتِ خود غلام بننے والے تھے۔ پھر اس کے بعد وہ کوئی بار بکے۔ اونٹوں کے ساتھ، بکریوں کے ساتھ، بھیڑوں کے ساتھ اور بالکل انہی کی طرح۔

حضرت بلالؓ رات بھر غلام خانہ کے فرش پر کسمپرسی کی حالت میں پڑے کراہتے رہے۔ رسیوں سے جکڑے ہوئے، رسیاں ان کے زخموں میں دھنسی جاتی تھیں اور ان کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جیسے اندر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔

صبح ہو رہی تھی۔ حضرت بلالؓ گہرے گہرے سانس لے کر نئے دن کی تازہ ہوا کو اپنے اندر جذب کر رہے تھے۔ ان کا ذہن ایک اللہ کے تصور کی طرف چل پڑا تھا۔ ان دنوں وہ بالکل ان پڑھ تھے۔

اس دن اللہ کی توفیق سے بلالؓ نے خود کو ان ظالموں کے سپرد کر دیا۔ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر وہ اپنے پرانے دین پر نہ لوٹے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

اللہ کی قدرت سے سورج طلوع ہوا۔جب وہ ظالم حضرت بلالؓ کو لینے کے لیے آئے تو وہ سراپا تشکر تھے۔ ان بدنصیبوں کو کیا خبر تھی کہ یہاں کیا ہو چکا ہے۔ انہیں تو توقع تھی کہ بلالؓ ان کے سامنے گڑگڑا کر ان کے پاؤں پکڑ لیں گے۔ زمین پر ماتھا رگڑیں گے۔ ان سے رحم کی بھیک مانگیں گے لیکن جب ایسا نہ ہوا تو وہ سمجھے کہ بلالؓ پاگل ہو گئے ہیں۔

ان ظالموں نے عقوبت خانہ پر لے جانے کے لیے انہیں زمین سے اٹھایا مگر انہیں معلوم تھا کہ اللہ انہیں پہلے ہی ان کے ہاتھوں کی پہنچ سے کہیں بلندی پر لے جا چکا ہے۔

ان ظالموں نے حضرت بلالؓ کو اٹھایا اور تیزی سے باہر لے گئے۔ انہیں دیکھ کر گلی میں کچھ کھڑکیاں بند ہوئیں۔ سارا مکہ جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ غلاموں کو راہِ راست پر لانے کے معاملے میں اہل مکہ کا آپس میں مکمل اتفاق تھا۔

حضرت بلالؓ نے بغاوت کی تھی۔ حکم عدولی کی تھی۔ اپنے آقا کو اس کے احباب کے سامنے رسوا کیا تھا ان کے مذہبی عقائد سے ٹکر لی تھی۔ انہوں نے لات و عزیٰ کی معبودیت سے انکار کر دیا تھا اور ایک ان دیکھے خدا پر ایمان لے آئے تھے اور لات و عزیٰ کو جھٹلا دیا تھا۔ اہل مکہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم تھا۔ بھلا یہ جرم کیسے معاف کیا جا سکتا تھا۔ یہ بے راہ روی ان کے لیے برداشت سے باہر تھی۔

وہ ظالم اور لعین حضرت بلالؓ کو ایک میدان میں لے گئے جس کے درمیان لکڑی کا ایک کھمبا گڑا ہوا تھا۔ اس کھمبے سے انہوں نے حضرت بلالؓ کو مضبوطی سے جکڑ دیا۔ اب امیہ بن خلف نے کوڑا سنبھال لیا۔

حضرت بلالؓ کے جسم مبارک پر کوڑے برس رہے تھے اور وہ زور زور سے اللہ کو پکار رہے تھے۔ اللہ کی رحمت جوش میں آ رہی تھی۔

حضرت بلالؓ کے دل کو اطمینان تھا کہ وہ خدائے واحد جو تمام زمین وآسمان کا مالک ہے جو سب مخلوق کا رازق ہے جو قادر مطلق ہے اس نے غلام کی پکار سن لی ہے۔

اب انہیں کوڑے پڑتے تھے تو وہ چیختے نہیں تھے۔ ہر کوڑے پر حضرت بلالؓ کی آواز مدھم ہو جاتی تھی مگر وہ نام اسی اللہ کا لے رہے تھے۔ انہوں نے اللہ سے رحم کی التجا کی، صرف اپنے اللہ سے رحم مانگا۔

امیہ بن خلف کوڑے برسا کر تھک جاتا تو کچھ دیر کے لیے سستانے لگتا۔ پھر دم لے کر دوبارہ ان پر کوڑے برسانے لگتا۔

حضرت بلالؓ پر کوڑے برسنے لگے۔ ایک، دو، تین نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔

اللہ تعالیٰ کو حضرت بلالؓ کا مزید امتحان لینا منظور نہ تھا۔ جب حضرت بلالؓ کھمبے کے ساتھ بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں تشریف لائے۔ انہوں نے جب مظالم کی انتہا دیکھی تو انہوں نے اپنے ایک رومی غلام فسطاط اور چالیس اوقیہ چاندی کے عوض حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف سے خرید لیا۔

اب انہوں نے حضرت بلالؓ کو اپنے ساتھ لیا اور بارگاہ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ حضرت بلالؓ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا:

’’ابوبکرؓ مجھے بھی اس نیک کام میں شریک کر لو۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا :

’’یا رسول اللہﷺ گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو اللہ کی راہ میں آزاد کر دیا۔‘‘

اس پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

حافظہ تازہ رکھنے کے لیے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔

مختلف روایات میں مذکور ہے۔

حضرت حسان بن ثابتؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’زمانہ جاہلیت کے ایام میں حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا تو میں نے دیکھا کہ بلالؓ کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کے ساتھ باندھا ہوا ہے اور انہیں ادھر ادھر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلالؓ مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں۔

’’میں لات و عزیٰ اور سہل، نائلہ، بوانہ اور اساف ان تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں۔‘‘

ایک دن امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ پر ظلم وستم کی انتہا کر دی تھی۔ وہ آپؓ پر بے انتہا ظلم کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا:’’تم لات و عزیٰ پر ایمان لے آؤ۔‘‘

حضرت بلالؓ نے فرمایا:’’میں تو لات و عزیٰ سے بیزار ہو گیا ہوں۔ وہ خدا نہیں ہیں خدا تو صرف وہ ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا، وہی ہمارا رازق ہے۔‘‘

یہ سن کر بدبخت امیہ بن خلف غصے سے بے قابو ہو گیا اور حضرت بلالؓ کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپؓ کا گلا دبانے لگا۔ یہاں تک کہ حضرت بلالؓ بے حس و حرکت ہو گئے۔ صبح سے شام تک آپؓ بے ہوش پڑے رہے جب ہوش آیا تو امیہ بن خلف پھر آ ٹپکا اور بولا :’’کہہ دو کہ میں لات و عزیٰ پر ایمان لایا۔‘‘

حضرت بلالؓ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور ’’احد احد‘‘ کہنے لگے۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ حضرت بلالؓ کو اس حال میں دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ فوراًرسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم وستم کا ذکر کیا۔

رسول اللہ ﷺ کی چشمانِ اطہر بھیگ گئیں۔

دوسرے دن پھر اسی طرح حضرت بلالؓ کو اذیت دی جا رہی تھی اور انہیں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر گرم گرم پتھر رکھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا گزر اس طرف سے ہوا۔ حضرت بلالؓ کو اس حالت میں دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے امیہ بن خلف سے فرمایا:’’اے امیہ ! اس غلام کو اذیت دینے سے تمہیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اللہ سے ڈر اور اس عذاب سے اپنا ہاتھ روک لے۔‘‘

امیہ بن خلف نے کہا :’’یہ میرا غلام ہے۔ مجھے حق ہے کہ اس کے ساتھ جیسا بھی سلوک کروں اسے میں نے اپنا مال دے کر خریدا ہے مجھے اسے سزا دینے کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:’’وہ شخص جو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو اس کو تکلیف اور اذیت دے رہا ہے یہ کس قدر ظلم ہے جو تم نے روا رکھا ہے۔‘‘

امیہ بن خلف نے کہا :’’اے ابو قحافہ کے بیٹے! تم نے ہی اس غلام کو اس نقصان کے راستے پر ڈالا ہے اور اسے بتوں سے نفرت دلائی ہے اور ان بتوں کی عبادت سے روکا ہے اور محمدﷺ کے دین کی طرف راغب کیا ہے۔ اب اس مصیبت سے تم ہی چھڑاؤ۔ اگر تمہارے دل میں اس کے لیے رحم کا جذبہ موجزن ہے تو اسے مجھ سے خرید لو۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور فرمایا:’’میں حضرت بلالؓ کے بدلے تمہیں ایک نصرانی غلام فسطاط اور چالیس اوقیہ چاندی دیتا ہوں۔‘‘

امیہ بن خلف نے منظور کر لیا۔ پھر ہنسنے لگا۔

حضرت ابوبکرؓ نے ہنسنے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا:’’ربِ کعبہ کی قسم! تم نے بڑے نقصان کا سودا کیا ہے اگر تو مجھ سے اسے ایک درہم میں بھی خریدتا تو میں فروخت کر دیتا۔‘‘

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا :’’اس خدائے واحد کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ میں نے بہت ہی اعلیٰ اور نفع بخش سودا کیا ہے۔ اگر تو مجھ سے اس ایک غلام کے بدلے میرا تمام مال طلب کرتا تو میں فوراً دے دیتا اور یہ غلام تم سے لے لیتا۔‘‘

یہ سن کر امیہ بن خلف خاموش ہو گیا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کا ہاتھ پکڑا اور اپنی چادر مبارک سے حضرت بلالؓ کے جسم مبارک پر لگے گرد وغبار کو صاف کیا اور حضورﷺ کی خدمت اقدس میں نیا لباس پہنا کر لے گئے اور فرمایا :

’’یا رسول اللہﷺ ! گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے آزاد کر دیا ہے۔‘‘

اس ضمن میں ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو اس حالت میں خریدا کہ وہ ایک بہت بڑے بھاری پتھر تلے دبے ہوئے تھے اور سخت تکلیف میں مبتلا تھے۔

ہر روز حضرت بلالؓ پر اس طرح کفار مظالم ڈھاتے رہے۔

رسول اللہ ﷺ حضرت بلالؓ کی دین پر ثابت قدمی سے بہت خوش تھے مگر اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے بہت بے چین تھے۔ ایک روز حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا:

’’اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو میں بلالؓ کو خرید لیتا۔‘‘

اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی شدت سے محسوس کیا کہ رسول اللہﷺ کی خواہش کو فوری طور پر پورا ہونا چاہیے۔ چنانچہ وہ حضرت عباسؓ سے ملے اور ان سے کہا :

’’میرے لیے بلالؓ کو خرید لیں۔‘‘

حضرت عباسؓ امیہ بن خلف کی بیوی کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ وہ ان کے لے پالک تھے۔ انہوں نے امیہ بن خلف کی بیوی سے فرمایا:

’’اپنے اس غلام جس کا نام بلالؓ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مار کھا کھا کر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تم اس کی قیمت سے محروم ہو جاؤ اسے فروخت کر دو۔‘‘

امیہ بن خلف کی بیوی نے کہا :’’تم اس کو لے کر کیا کرو گے؟ وہ کسی کام کا نہیں رہا۔‘‘

اس نے حضرت عباسؓ کو ٹال دیا۔

حضرت عباسؓ تشریف لے آئے مگر وہ دوسری مرتبہ پھر اس کے پاس گئے اور اس مرتبہ اپنی بات منوا کر واپس ہوئے۔

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو آزاد کر دیا۔‘‘

ایک روایت جو اس بارے میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے :

’’حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ بن خلف بہت ہی دولت مند شخص تھا۔ اس کے کئی بیٹے اور بارہ غلام تھے، لیکن وہ حضرت بلالؓ کو سب سے زیادہ چاہتا تھا، اور انہیں اپنے بت خانہ کا نگران مقرر کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت بلالؓ کو دولت ایمان سے مالا مال کیا تو آپؓ بت خانے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے جبکہ دوسرے تمام لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ جب امیہ بن خلف کو اس بات کا علم ہوا تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اور پوچھنے لگا : ’’کیا محمد ﷺ کے رب کی پرستش کرتے ہو؟‘‘

حضرت بلالؓ نے جواب دیا:’’میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔‘‘

یہ سن کر امیہ بن خلف کا غصہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا وہ آپؓ پر تشدد کرنے لگا۔ جب سورج نصف النہار پر آ جاتا اور گرمی کی تپش سے زمین لوہے کی مانند گرم ہو جاتی تو حضرت بلالؓ کو مکہ مکرمہ کے کھلے میدان میں لے جایا جاتا اور برہنہ کر کے گرم وزنی پتھر کہ جن پر گوشت بھن دیا جائے، ان کے سینہ مبارک اور پہلو پر رکھ دیے جاتے پھر جسم پر گرم گرم ریت ڈالی جاتی اور سخت تکلیف دی جاتی لیکن تمام تر تکالیف کے باوجود حضرت بلالؓ کی زبان مبارک پر ’’احد احد‘‘ کے الفاظ جاری ہوتے۔

کبھی آپؓ کو کانٹوں پر کھینچا جاتا یہاں تک کہ کانٹے آپؓ کے جسم میں گزرتے اور آپؓ کی ہڈیوں کو لگتے مگر آپؓ اس قدر تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہونے کے باوجود احد احد پکارتے رہتے۔

رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلالؓ پر ہونے والے ظلم وستم کی مکمل خبر تھی اور آپ ﷺ اس بارے سخت بے چین بھی تھے۔ چونکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کا گھر بنو جمع کے محلہ میں ہی تھا، اس لیے وہ ہر روز حضرت بلالؓ پر ہونے والے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور بڑے بے تاب ہوتے۔

حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف کے ظلم سے بچانے کے لیے کافی غور و فکر کیا۔ ایک روز جبکہ امیہ بن خلف نے ظلم وستم کی انتہا کر دی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مزید برداشت نہ ہو سکا اور امیہ بن خلف کے پاس جا پہنچے اور اس سے فرمایا:’’اے امیہ ! اس بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے کہ وہ خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے اگر تو اس پر مہربانی کرے گا تو یہ مہربانی قیامت کے دن تیرے کام آئے گی۔‘‘

امیہ بن خلف نے انتہائی حقارت سے جواب دیا :’’میں تمہارے قیامت کے دن کو نہیں مانتا میرے دل میں جو آئے گا وہ میں کروں گا۔ یہ میرا غلام ہے میں جو مرضی اس کے ساتھ سلوک کروں۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ کو ایک بار پھر نرمی سے سمجھایا:’’تم قوت والے ہو یہ غلام تو بے بس ہے اور اس پراس قدر ظلم وتشدد کرنا تمہاری شان کو زیب نہیں دیتا۔ تم ایسا کر کے عربوں کی قومی روایات کو داغ دار کر رہے ہو۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی آخر اس بحث سے تنگ آ کر امیہ بن خلف نے کہا :’’اے ابوقحافہ کے بیٹے! اگر اس غلام کے تم اتنے ہی خیر خواہ ہو تو تم مجھ سے اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے موقع غنیمت جانا اور فوراً ارشاد فرمایا:’’کیا قیمت لو گے اس کی؟‘‘

امیہ بن خلف بڑا چالاک آدمی تھا۔ اس نے خیال کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس ایک رومی غلام فسطاط بڑے کام کا ہے جس کی قیمت اہل مکہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ رومی غلام فسطاط دینے پر رضامند نہیں ہوں گے اور یوں اس بحث و مباحثہ سے نجات مل جائے گی چنانچہ اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے فوراً بولا :

’’تم مجھے اپنا رومی غلام دے دو اور بلالؓ  کو لے جاؤ۔‘‘

ادھر امیہ بن خلف کے منہ سے یہ بات نکلی ادھر فوراً ہی حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ سودا منظور فرما لیا اور حضرت بلالؓ کے بدلے میں اپنا رومی غلام فسطاط دینے پر تیار ہو گئے۔

امیہ بن خلف نے جب یہ دیکھا کہ بات اتنی جلدی بن گئی ہے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی اب اس نے پینترا بدلا اور کہنے لگا:’’میں رومی غلام بھی لوں گا اور اس کے ساتھ چالیس اوقیہ چاندی بھی لوں گا۔‘‘

امیہ بن خلف کا یہ خیال تھا کہ اس مرتبہ حضرت ابوبکرؓ نہیں مانیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت ابوبکرؓ اس بات پر بھی رضامند ہو گئے اور یوں یہ سودا طے پا گیا۔ امیہ بن خلف اس زعم میں مبتلا تھا کہ اس نے بڑے ہی نفع کا سودا کیا ہے۔ حضرت بلالؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سپرد کر کے چالیس اوقیہ چاندی اور رومی غلام لے لیا۔ وہ اس سودے پر بڑا خوش تھا۔ گھمنڈ میں آ کر ہنسا اور بولا :’’اے ابوقحافہ کے بیٹے! اگر تمہاری جگہ پر میں ہوتا تو اس غلام کو ایک درہم کے چھٹے حصے کے بدلے میں بھی نہ خریدتا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا:’’اے امیہ ! تو اس غلام کی قدر و قیمت نہیں جانتا اس کی قدر مجھ سے پوچھ یمن کی بادشاہی بھی اس کے عوض کم ہے۔‘‘

یہ فرما کر حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت بلالؓ کو لے کر چل پڑے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچے اور اس واقعہ کے بارے میں اللہ کے آخری رسولﷺ کو بتایا حضورﷺ سن کر بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا:’’ابوبکرؓ مجھے بھی اس نیک کام میں شریک کر لو۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا :’’یا رسول اللہ ﷺ گواہ رہیے کہ میں نے بلالؓ کو آزاد کر دیا۔‘‘

اس پر رسولﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

ایک راوی بیان کرتے ہیں:

’’جب سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ گرمی کے شعلے برساتا تو بدبخت امیہ بن خلف حضرت بلالؓ کو لوہے کی زرہ پہنا کر سخت دھوپ میں ڈال دیتا اور کبھی گائے یا اونٹ کی کھال میں لپیٹ کر کہتا :’’جب تک تم مر نہ جاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے:

’’ایک مدت تک امیہ بن خلف حضرت بلالؓ پر اپنے چیلوں کے ساتھ ظلم وستم کرتا۔ظلم وستم کا یہ سلسلہ کسی دن بھی نہ ٹوٹا۔ ہر روز یہ عمل دہرایا جاتا۔ حضرت بلالؓ کو دین حق سے باز رکھنے کے لیے اذیت کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ مشرکین آپؓ کو اذیتیں دے دے کر تھک جاتے تھے، مگر حضرت بلالؓ کی زبانِ اطہر سے سوائے احد احد کے کچھ نہ سن پاتے تھے۔ اس قدر کوشش کے باوجود جب اپنے مقصد میں ناکامی دیکھتے تو غضب ناک ہو کر دوبارہ تشدد کا حربہ استعمال کرتے مگر نتیجہ پھر بھی ان کے حق میں نہ ہوتا۔ ظلم و تشدد کی بھٹی میں پڑ کر حضرت بلالؓ کندن سے بھی زیادہ قیمتی بن چکے تھے۔ آپؓ کے جسم پاک کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو امیہ بن خلف کے تشدد کی وجہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جسم کا انگ انگ زخمی تھا۔ وہ بھوکے پیاسے امیہ بن خلف کی مار سہتے جاتے تھے۔ جن جن بتوں کا وہ بدبخت نام لیتا آپؓ ان کی تکذیب کرتے اور ’’احد احد‘‘ پکارتے۔ یہ سب کچھ حضرت بلالؓ صرف اور صرف اس لیے برداشت کر رہے تھے کہ دین حق پر ایمان لے آئے تھے اور رسول اللہﷺ کی غلامی اختیار کر لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مضبوط ایمان سے نواز دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے عشق و محبت میں اپنی جان کی پرواہ بھی نہ رکھی تھی۔ دل میں ایک امنگ ضرور تھی کہ کبھی تو امیہ بن خلف کے ظلم سے نجات ملے گی اور اپنے آقا ﷺ کے حضور حاضری دوں گا۔ دل میں یہ خیال آتا کہ میری حالت کی خبر میرے آقاﷺ کو ضرور ملتی ہے اور ان کی نظر کرم مجھ پر ضرور ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے جو جذبات میرے بارے میں ہیں میں ان میں کمی نہ آنے دوں گا۔ چاہے یہ ظالم میرے جسم کی بوٹی بوٹی نوچ لیں مگر اپنے آقا ﷺ کی غلامی سے منہ نہ موڑوں گا۔‘‘

ایک اور روایت میں حضرت عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے:

’’میں نے اس حالت میں بلالؓ کو دیکھا کہ امیہ بن خلف نے ان کو اس قدر تپتی ہوئی ریت پر لٹا رکھا تھا کہ جس پر گوشت رکھ دیا جائے تو وہ بھن جائے لیکن بلالؓ ایسی حالت میں کہہ رہے تھے:’’میں لات و عزیٰ کا انکار کرتا ہوں۔‘‘

اس قدر تشدد کے باوجود بھی حضرت بلالؓ نے دین حق سے منہ نہ موڑا تو امیہ بن خلف مزید بھڑک اٹھا اور اس نے اپنے دوسرے غلاموں اور بنی جمح کے آوارہ لڑکوں کو اشارہ کیا:

’’محمد ﷺ کے نام لیوا پر اس قدر تشدد کرو کہ وہ (محمدﷺ ) اور (محمد ﷺ ) کے خدا کا نام لینا چھوڑ دے۔‘‘

امیہ بن خلف کے اشارے پر یہ لوگ آگے بڑھے اور حضرت بلالؓ پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی۔ یہ لوگ امیہ بن خلف کو خوش کرنے کے لیے حضرت بلالؓ کو بری طرح زد و کوب کرتے۔ ان کو برہنہ کر کے سارا دن لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں ڈال دیتے جب شام ہوتی تو ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک کوٹھڑی میں ڈال دیتے۔ رات کو بھی آپؓ پر تشدد جاری رہتا۔ اس وقت اذیت سہنے کے باوجود حضرت بلالؓ کی زبان مبارک سے صرف ’’احد احد‘‘ ہی نکلتا۔‘‘

حضرت بلالؓ کو جو کمالات و مراتب نصیب ہوئے۔ وہ سب کو معلوم ہیں۔ ان کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔

مروی ہے :

حضرت عبدالرحمنؓ کو مال غنیمت میں سے کئی زرہیں ملیں، انہیں لے کر وہ چلے آ رہے تھے۔ راستے میں امیہ بن خلف اور ان کا بیٹا بندھے ہوئے قیدیوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں باپ بیٹے اور حضرت عبدالرحمنؓ کی مکہ میں بڑی دوستی تھی۔

حضرت عبدالرحمنؓ کو دیکھتے ہی وہ دونوں پکار اٹھے:’’اے عبد الرحمنؓ  اگر ان زرہوں سے زیادہ ہم تم کو پیارے ہیں تو ہمیں قتل ہونے سے بچا۔‘‘

حضرت عبدالرحمنؓ کو دوستوں کا خیال آگیا۔ زرہیں ہاتھ سے پھینک دیں اور ان دونوں کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہﷺ کے پاس سفارش کے لیے لے کر چلے۔

مگر رسول اللہﷺ تو پہلے ہی امیہ بن خلف کی نسبت پیشین گوئی فرما چکے تھے:

’’وہ میرے اصحاب کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔‘‘

پھر بھلا وہ کیسے بچتا۔ اب قدرت کا تماشا دیکھیں کہ حضرت بلالؓ کبھی امیہ بن خلف کے غلام تھے اور یہ ان کو بہت ستایا کرتا تھا۔ کہیں راستہ میں مل گئے اور حضرت بلالؓ پکار اٹھے۔:’’مسلمانو! وہ دیکھو خدا اور رسول ﷺ کا دشمن امیہ یہ جاتا ہے۔‘‘لوگ دوڑ پڑے اور دونوں باپ بیٹے کو مار ڈالا۔

حضرت عبدالرحمنؓ ہزار شور و غل مچاتے رہے مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔

حضرت عبدالرحمنؓ بولے :’’اے بلالؓ تم پر خدا کی رحمت ہو تم نے میری زرہیں بھی کھوئیں اور میرے قیدیوں کو بھی قتل کرا دیا۔‘‘

مگر اس سے پہلے ان صعوبتوں کا ذکر ہو جائے تو اسلام کے نام لیواؤں پر گزریں۔ جب کفارِ مکہ مسلمانوں کی سخت جانی سے تنگ آ گئے تو اذیتوں کا ایک نیا دور شروع ہوا جو کوڑوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک تھا۔ ایک اجتماعی سزا تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے سارے خاندان یعنی بنو ہاشم کے سب افراد کو شہری زندگی سے خارج کر دیا گیا۔ یہ محض ایک معاشرتی مقاطعہ نہیں تھا۔ قطع رحمی کی بدترین مثال تھی۔

اللہ کی زمین پر ایذا رسانی کی ایک انتہائی ہولناک صورت، انسان پر انسان کے ظلم کی ایک بدترین مثال تھی۔ بنو ہاشم سے ہر قسم کا لین دین، شادی بیاہ ممنوع قرار دیا گیا تھا کوئی ان کو مہمان نہیں ٹھہرا سکتا تھا۔ کسی صورت میں ان کی مد د نہیں کر سکتا تھا۔ نہ روپے پیسے کی صورت نہ جنس اجناس کی صورت میں۔

جب قریش نے یہ عہد کیا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے کسی چیز کی خرید و فروخت نہیں کریں گے تو تمام قریش نے اس عہد پر دستخط کیے۔ اس عہد سے بنی ہاشم کو بہت نقصان پہنچا اور وہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئے۔

رسول اللہﷺ اور دوسرے مسلمان جب شعب ابی طالب میں پہنچے تو چونکہ مکہ سے ان کی روانگی انتہائی عجلت میں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ مناسب مقدار میں اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ نہ لاسکے۔

حضرت بلالؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شعب ابی طالب میں محصور ہوئے تھے اور آپؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ او ر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ وہاں انتہائی دردناک لمحوں اور بھیانک مصائب کا مقابلہ کیا۔

انہی دنوں جب مسلمان شعب ابی طالب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے تو ایک دن حضرت خدیجہؓ  کا بھتیجا اپنی پھوپھی کے لیے کچھ اشیائے ضرورت لے کر نکلا کیونکہ حضرت خدیجہؓ  بھی رسول اللہﷺ کے ہمراہ اس گھاٹی میں قیام پذیر تھیں۔ قریش کے افراد نے جو اس بات کی نگرانی کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو کسی طور اشیائے خورد و نوش فراہم نہ ہو سکے حضرت خدیجہؓ  کے بھتیجے کو مکہ سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ انہوں نے اس کا تعاقب کیا اور پھرسارا سامان ضبط کرنے کے بعد اتنا زد و کوب کیا کہ وہ بے چارہ تین دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔

رسول اللہﷺ اگر ضعیف العزم انسان ہوتے تو وہ ان مصائب سے گھبرا کر اپنے دین سے چشم پوشی کر لیتے یا کم از کم عارضی طور پر ان مصائب سے گھبرا کر اپنے دین کی تبلیغ ملتوی کر دیتے تاکہ جب قریش کا غصہ فروکش ہو جاتا اور ان کے غضب کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو مناسب موقع ملنے پر اپنے دین کی نئے سرے سے تبلیغ شروع کر دیتے لیکن چونکہ آپ ﷺ مضبوط ارادے اور آہنی عزم کے مالک تھے لہٰذا اپنے دین کو نہ چھوڑا۔

شعب ابی طالب میں مسلسل رنج اور دائمی بھوک کی وجہ سے حضرت خدیجہؓ  عسرت اور تنگ دستی کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اور ۶۱۹ء میں انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔

حضرت خدیجہؓ  کی وفات کے دو دن بعد مسلمانوں کو دوسرا صدمہ پہنچا اور رسول اللہﷺ کے چچا ابوطالب چھیاسی سال کی عمر میں اس دار فانی کو وداع کر گئے۔ وہ بھی بھوک و ناداری اور ضعف کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔

اتفاق سے انہی دنوں مکہ والوں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں لٹکے ہوئے فرمان کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ صرف یہ عبارت باقی رہ گئی تھی:

’’ساتھ تیرے نام کے اے اس گھر کے مالک۔‘‘

اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ بھی پیشین گوئی فرما چکے تھے کہ فرمان کو دیمک نے چاٹ لیا ہے اور وہاں صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے۔

قریش نے جب یہ دیکھا کہ دیمک نے محمد ﷺ اور دوسرے مسلمانوں کے شہر بدر ہونے کے فرمان کو چاٹ لیا ہے اور صرف۔ ’’خدا‘‘ کا نام باقی رہنے دیا ہے تو ان پر انجانا خوف طاری ہو گیا۔اتفاقاً یہ واقعہ ٹھیک اس وقت پیش آیا جب ابو طالب انتقال کر چکے تھے۔

آخر تین سال کے بعد رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو اس قید سے رہائی ملی۔

ایک روایت میں ہے:

رسول اللہﷺ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا:

’’اے چچا ! قریش نے جو عہد نامہ لکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر دیمک کو مسلط کیا اور دیمک اس کو کھا گئی صرف خدا کا نام باقی چھوڑا ہے۔‘‘

ابوطالب نے کہا :کیا تمہارے خدا نے تم کو اس بات کی خبر دی ہے؟‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ہاں‘‘

ابوطالب یہ سن کر قریش کے پاس آئے اور کہا:

’’اے گروہ قریش! میرے بھتیجے نے مجھے ایسا کہا ہے۔ پس تم اپنے عہد نامہ کو دیکھو۔ اگر واقعی اس کی یہی صورت رہی تو اپنے ظلم وستم سے جو تم لوگوں نے ہم پر روا کر رکھا ہے ہاتھ کھینچ لو۔ اگر میرے بھتیجے کا کہنا غلط ہوا تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔‘‘

قریش اس بات پر راضی ہو گئے پھر جب عہد نامہ کو دیکھا تو اس کو رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق دیمک کھا گئی تھی۔ صرف خدا کا نام باقی تھا۔ پھر اس عہد نامہ کو پھاڑ دیا گیا۔

اب حضرت بلالؓ ایک بار پھر آزاد تھے۔

رسول اللہﷺ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں کسی اجتماع میں خطاب کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ مشرکین مکہ کے سرداروں کا فیصلہ تھا۔ اس صورت حال میں اللہ کے آخری رسولﷺ خود بھی مکہ سے ہجرت کر کے کسی اور شہر میں سکونت پذیر ہونے کے لیے سوچ رہے تھے۔ کوئی ایسا شہر جہاں کے لوگوں کے دل سخت نہ ہوں۔ نفرتیں اتنی گہری نہ ہوں، غصے میں اتنی شدت نہ ہو۔

رسول اللہﷺ اکثر سوچا کرتے تھے کہ وہ طائف چلے جائیں۔ طائف مکہ سے جنوب میں ایک سرسبز اور پر فضا شہر تھا جو ایک پہاڑی پر آباد تھا۔ اس شہر میں لات کی پرستش ہوتی تھی۔

آخر ایک دن رسول اللہﷺ نے طائف کا رخت سفر باندھ لیا۔ طائف مکہ سے ستر میل دور تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت زید بن حارثؓ کو ساتھ لے کر پاپیادہ وہاں کے لیے روانہ ہو گئے۔

جب رسول اللہﷺ طائف کے لیے روانہ ہو گئے تو حضرت بلالؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ  نے سوچا کہ رسول اللہﷺ کا اس طرح جانا مناسب نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہونے چاہئیں۔

یہ سوچ کر وہ ان کے پیچھے روانہ ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں انہیں جالیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں دیکھا تو واپس بھیج دیا۔

رسول اللہﷺ بخیر و عافیت طائف پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر وہ سیدھے عمرو بن امیہ کے بیٹوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے۔ عمرو بن امیہ کے تینوں بیٹے طائف کے سب سے با اثر سردار تھے۔رسول اللہﷺ وہاں پہنچے تو دربار سا لگا ہوا تھا۔ تینوں بھائی گدوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے انواع واقسام کی اشیائے خوردنی رکھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کو نہایت حقارت سے دیکھا۔

رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو ایک بھائی بولا :’’اگر اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں کعبہ کا نقاب نوچ کر پھینک دوں گا۔‘‘

دوسرا کہنے لگا:’’اللہ کو تم سے بہتر کوئی انسان نہیں ملا تھا؟‘‘

تیرے بھائی نے حد ہی کر دی، کہنے لگا:’’اگر تم اللہ کے رسول ہو تو ہمارا منصب نہیں ہے کہ ہم تم جیسے فرشتوں سے بات کر سکیں اور اگر تم رسول نہیں ہو تو تم جھوٹے اور فریبی ہو، اس صورت میں بھی ہمیں تم سے بات نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور پتھر اور کنکر جو ہاتھ میں آیا اٹھا اٹھا کر رسول اللہﷺ پر پھینکنے لگے۔ ان کے حواری بھی اس شغل میں ان کے شریک تھے۔ محلے کے بچے بھی شامل ہو گئے۔ چیختے چلاتے، طوفان برپا کرتے بچے جنہیں کچھ ہوش نہ تھا، کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تفریح سمجھ کر ان پر پتھروں کے وار کیے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ پتھروں سے نڈھال، جان بچا کر وہاں سے نکلے اور صحرا کی راہ لی۔

دو ہفتے بعد جب رسول اللہﷺ واپس آئے تو پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ کمزور، نحیف، سارے بدن پر رستے ہوئے زخم بڑی مشکل سے قدم اٹھا رہے تھے۔ آتے ہی ہاتھ کے اشارے سے پانی مانگا۔ پانی پی کر خاموشی سے اندر چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ اپنے آقا ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔ وہ ان کی تکلیف پر پریشان ہو گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ امیہ بن خلف کے سیاہ فام سابق غلام جو اب مسلمانوں کے ایک ذمہ دار قائد تھے۔ جب وہ سوچتے تو ان کا دل خوشی سے جھوم جھوم اٹھتا، اور وہ اپنے رب سے التجا کرتے:’’اے میرے اللہ مجھے تکبر سے محفوظ رکھ۔‘‘

مکہ سے ہجرت کا معاملہ تھا۔ ایذارسانیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ مسلمان کفار کی دست برد سے محفوظ نہ تھے۔ آئے دن ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ انہیں مختلف طریقوں سے ستایا جاتا تھا۔ سیدنا بلال حبشیؓ اب آزاد تھے مگر اب بھی کفار کی ایذارسانیوں سے محفوظ و مامون نہ تھے بلکہ کوئی مسلمان بھی حتیٰ کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ بھی ان کے شر سے محفوظ نہ تھے۔ ہر شخص ان کے خون کا پیاسا تھا۔

مکہ سے مسلمانوں کی ہجرت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ سب کو مدینہ طیبہ جانا تھا۔ حکمت عملی یہ تھی کہ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی وقت صحرا میں نکل جائیں اور الگ الگ راستوں سے ہوتے ہوئے مدینہ طیبہ پہنچ جائیں۔

ہر ٹولی کی ہجرت کی رات رسول اللہﷺ خود متعین فرماتے تھے۔ یہ سب کام انتہائی احتیاط اور راز داری سے کیا جا رہا تھا۔ رسول اللہﷺ مہاجرین کی ہمت بندھاتے تھے اور ان کے زاد سفر کا انتظام کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ دشمن کہیں صحرا میں مسلمانوں کو گھیر کر ان کا قتل عام نہ کر دیں۔ہر کام احتیاط سے ہو رہا تھا۔

رسول اللہﷺ نے حکم دے رکھا تھا۔’’ٹولیاں فاصلے فاصلے سے چلیں۔‘‘

ایک ٹولی کا قائد رسول اللہﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو مقرر کیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ کی پہلی ملاقات اللہ کے آخری رسول ﷺ سے ہوئی تو وہ تنکوں کی ایک سادہ سی چٹائی پر اپنے عم زاد حضرت علیؓ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ حضرت علیؓ نے جو ابھی بچے تھے ان کا ہاتھ تھام کر کہا:

’’یارسول اللہﷺ آپ ﷺ انہیں دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’علیؓ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر رسول اللہﷺ نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بلالؓ جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے پہلے شخص تم تھے۔‘‘

مدینہ منورہ کی آب و ہوا مہاجرین کو موافق نہ آئی اور وہاں جا کر موسمی بخار میں مبتلا ہو گئے۔ سیدنا بلالؓ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ تینوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ تینوں کو ایک ہی وقت میں بخار ہو گیا۔

بخار کی شدت میں سیدنا بلال حبشیؓ یہی کہا کرتے تھے:’’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی وقت ایسا بھی آئے گا جب میں مکہ کی وادی میں رات گزاروں گا اور میرے اردگرد اذخر اور جلیل گھاس ہو گی، اور کاش کوئی دن ایسا بھی میسر ہو گا جب میں مجنہ کے چشمہ سے پانی پیوں گا اور شام اور طفیل کی پہاڑیاں میرے سامنے ہوں گی۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ  کی یہ حالت دیکھی تو یہ دعا فرمائی:’’یا اللہ جس طرح تو نے ہمیں مکہ مکرمہ کی محبت عطا فرمائی ہے اس طرح مدینہ کی محبت بھی عطا فرما۔ اس سے زیادہ عطا فرما اور ہمارے صاع اور مد میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے اس کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور اس کے بخار کو حجفہ کی جانب منتقل فرما دے۔‘‘

رسول اللہﷺ کی اس دعا کی برکت سے بیماروں کو تندرستی اور صحت کی دولت عطا ہوئی۔

روایات میں آتا ہے :

ابھی مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے معمولات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپؓ ایک نیزہ اٹھا کر اللہ کے آخری رسولﷺ کے ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے۔ اس لیے کہ جہاں کہیں نماز کا وقت ہو جاتا۔ رسول اللہﷺ اس جگہ پر امامت کے لیے کھڑے ہوتے اور سیدنا بلال حبشیؓ اللہ کے آخری رسول ﷺ کے آگے نیزہ گاڑ دیتے۔ اس طرح با جماعت نماز کی ادائیگی ہوتی تھی۔

روایت میں ہے کہ شاہ حبشہ اصحمہ جو کہ نجاشی کے لقب سے مشہور تھا۔ اس نے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں چند نیزے تحفتاً بھیجے تھے اور یہ نیزہ بھی ان نیزوں میں سے ایک تھا۔ نجاشی کے بھیجے ہوئے نیزوں میں سے ایک نیزہ رسول اللہﷺ نے خود رکھ لیا تھا جبکہ دو نیزے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو عطا فرما دیے تھے۔ جو نیزہ سیدنا بلال حبشیؓ کو ملا تھا اس کے متعلق سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا گیا تھا۔’’اس نیزے کو ساتھ لے کر چلیں۔‘‘

یہی وجہ تھی کہ سیدنا بلالؓ اس نیزہ کو اٹھا کر ہمیشہ عیدین اور نماز استسقاء کے مواقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ ساتھ چلا کرتے۔ پھر نماز کھڑی ہونے سے قبل اس نیزہ کو رسول اللہﷺ کے آگے کچھ فاصلے پر زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔‘‘

رسول اللہﷺ بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو وہاں پہنچنے کے دوسرے دن ہی رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کی مدد سے اس جگہ پر جہاں آپ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی، مسجد کی تعمیر شروع کر دی، اور بلا امتیاز سارے مرد جن میں خود رسول اللہﷺ بھی شامل تھے۔ اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈھوتے، گارا بناتے، اور مسجد کی تعمیر میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ اس مسجد کی تعمیر میں سیدنا بلال حبشیؓ نے بھرپور حصہ لیا۔ اس مسجد کی تعمیر میں سات ماہ لگے تھے، اور مسلمانوں نے اس مسجد کو خاصا پائیدار اور مضبوط بنایا کیونکہ شہر مدینہ ایسا تھا جہاں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں، اور اگر مسجد کو مضبوط نہ بنایا جاتا تو وہاں کی شدید بارشیں اسے نقصان پہنچا سکتی تھیں۔

ایک روایت میں ہے :

’’مدینہ طیبہ ٹھہرنے کے فوراً بعد رسول اللہﷺ نے اس زمین کی بابت جہاں رسول اللہﷺ کی اونٹنی قصویٰ بیٹھی تھی۔ دریافت فرمایا:

’’یہ زمین کس کی ملکیت ہے تاکہ اسے خرید کر یہاں مسجد بنائی جائے؟‘‘

حضرت معاذ بن عفراؓ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ ﷺ سہل اور سہیل کی ہے۔ یہ دونوں بچے یتیم ہیں۔ میں ان دونوں کو معاوضہ دے کر راضی کر لوں گا۔ آپ ﷺ یہاں مسجد تعمیر کرائیں۔‘‘

رسول اللہﷺ نے معاوضہ دے کر یہ زمین خرید لی اور یہاں مسجد تعمیر ہونے لگی خود رسول اللہﷺ بھی اس کی تعمیر میں شریک ہوئے۔

مسلمان یہ رجز پڑھتے جاتے اور تعمیر کرتے جاتے تھے۔

’’زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔

اے اللہ انصار اور مہاجرین پر رحم فرما‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ کے ہمراہ ہجرت کرنے والے حضرت عمار بن یاسرؓ بھی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔

سیدنا بلال حبشیؓ کا مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حصہ لینے کا جذبہ بھی نہایت قابل دید تھا۔ آپؓ تندہی سے مسجد کی تعمیر کے کاموں میں حصہ لے رہے تھے۔ رسول اللہﷺ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور مٹی آپ ﷺ کے شکم مبارک پر لگ جاتی تھی۔

رسول اللہﷺ کو کام کرتے دیکھ کر بچے بھی شو ق و ذوق کے ساتھ رسول اللہﷺ کے کام میں ہاتھ بٹانے کی غرض سے اپنے اپنے طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ بچوں کے کام کرنے کا طریقہ بھی اپنا ہی ہوتا ہے لیکن رسول اللہﷺ انہیں سختی سے منع نہ فرماتے تھے تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔سیدنا بلال حبشیؓ کام کرتے ہوئے بچو ں کی اس طرح کی دخل اندازی دیکھ کر آگے بڑھے اور بچوں کو منع کرنے کی کوشش کی۔رسول اللہﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے بچوں سے فرمایا: ’’بچو دیکھو بلالؓ  اکیلا کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی نہیں تم سب اس کی مدد کرو۔‘‘

بچوں نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان سنا تو وہ سب کے سب سیدنا بلال حبشیؓ کے گرد ہو گئے۔ اس صورت حال میں سیدنا بلال حبشیؓ کو بچوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ بچوں کو سیدنا بلال حبشیؓ کے گرد ہوتا دیکھ کر رسول اللہ ﷺ تبسم فرماتے جاتے تھے۔

اللہ کے آخری رسول ﷺ کی قیادت میں سیدنا بلال حبشیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ  کی کوششوں سے جب مسجد نبوی کی عمارت چھت تک پہنچی تو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کے مطابق کھجوروں کی شاخیں چھت پر ڈال دی گئیں اور کھجوروں کے تنوں کے ستون بنائے گئے، ان میں سے بعض محراب میں بھی استعمال کیے گئے۔

مسجد نبوی ﷺ کی ابتدائی تعمیر میں سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی حصہ لیا۔

رسول اللہ ﷺ کو جتنے بھی سفر درپیش ہوئے، سیدنا بلال حبشیؓ آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو اسلام کا سب سے بڑا مؤذن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا بلال حبشیؓ یہ خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کا یہ دستور تھا کہ اذان دینے کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کی غرض سے حضور اکرم ﷺ کے حجرے کے دروازے پر جاتے اور اونچی آواز میں کہتے:

حی علی الصلٰوۃ

حی علی الفلاح

الصلٰوۃ یارسول اللہ

جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لے آتے تو اقامت کہتے اور نماز شروع ہو جاتی۔ اذان سے پہلے سیدنا بلال حبشیؓ اکثر ایک شعر کہا کرتے تھے:

ما البلال ثکلتہ امہ

وابتل من نفسح دمہ جبینہ

’’بلال کون ہے اسے ماں روئے اس کا ماتھا خون کے بہنے سے تر ہوا۔‘‘

 

حضرت بلالؓ اور اذان

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کا سلسلہ جاری فرمایا تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کا بھائی حضرت خالد ابورویحہؓ کو بنایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زندگی بھر سیدنا بلال حبشیؓ اور ابو رویحہؓ کے درمیان گہری دوستی رہی۔

احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کی تعلیم و تربیت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ مختلف نصیحتیں فرمایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اے بلالؓ  مومن کا سب سے اچھا عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فقر کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:

’’اے بلالؓ  ہمیشہ غربت کی زندگی بسر کرو اور غربت ہی کی حالت میں اپنی جان اللہ کے سپرد کر دو۔‘‘

بعض اوقات رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کو سبق دینے کے لیے کہتے:’’بلالؓ  میرے پاس کچھ مال جمع ہو گیا ہے، میں اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تم اسے لے جاؤ اور حاجت مند لوگوں میں تقسیم کر دو، تاکہ میرے دل سے ایک بوجھ اتر جائے۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کو یہ سکھانا چاہتے تھے کہ انسان کو ہمیشہ قناعت کی زندگی بسر کرنی چاہیے اور مال جمع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی ہمیشہ اپنے آقا ﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور مرتے دم تک ایک کوڑی نہ جمع کی۔

ایک مرتبہ اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺ کو جنت کا نظارہ دکھایا اور آپ ﷺ نے اپنے آگے سیدنا بلال حبشیؓ کے قدموں کی آواز سنی، نماز کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا:بلالؓ  تمہیں اپنے کس عمل کے نتیجہ میں سب سے زیادہ ثواب ملنے کی امید ہے، کیونکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی آواز اپنے آگے سنی ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیدنا بلالؓ کو رسول اللہ ﷺ پر نعوذ باللہ کسی قسم کی بڑائی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کے قدموں کی آہٹ جنت میں رسول اللہ ﷺ کے قدموں سے آگے تھی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا بلال حبشیؓ کو رسول اللہ ﷺ کے سچے خادم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

سیدنا بلال حبشیؓ اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: ’’میں نے اسلام کے دوران کوئی ایسا بڑا عمل نہیں کیا جس کی بنا پر خدا کے خاص انعام کا مستحق ٹھہرایا جاؤں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر وضو کے بعد دو رکعت نفل پڑھ لیا کرتا ہوں۔‘‘

انکساری کا یہ کیسا اعلیٰ نمونہ ہے جو سیدنا بلال حبشیؓ نے دکھایا۔

مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کا ایک خاص خدمت کے لیے انتخاب کیا۔

مدینہ منورہ میں حالات مکہ سے کہیں بدلے ہوئے تھے، یہاں مکہ کی سی بے بسی اور مجبوری نہ تھی۔ نماز کے لیے منادی کا ذریعہ اذان قرار دیا۔ اذان دینے پر مامور ہونا کوئی معمولی شرف نہ تھا اور اللہ کے آخری رسول ﷺ نے یہ شرف سیدنا بلال حبشیؓ ہی کو عطا فرمایا۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز نہایت جاذب اور دلکش ہونے کے علاوہ بہت بلند تھی۔

سیدنا بلال حبشیؓ اذان دیتے اور جہاں جہاں تک آواز پہنچتی لوگ بے اختیار اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر اذان سننے لگ جاتے۔

اس سلسلے میں ایک روایت ہے:

’’مرد،  عورتیں اور بچے گویا کشاں کشاں ان کے پاس پہنچتے اور ان کے گرد جمع ہونے لگتے۔ اس کے بعد آپؓ آستانہ نبوت پر جا کر بصد ادب و احترام۔ ’’حی الصلوٰۃ حی الفلاح‘‘ کہتے، رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے اور تکبیر کے بعد نماز ہو جاتی۔‘‘ (طبقات ابن سعد ج ۱)

اذان کی مشروعیت سے پہلے الصلوٰۃ جامعۃ پکارا جاتا اور یہ الفاظ سیدنا بلال حبشیؓ ہی پکارتے تھے۔

اذان کا آغاز رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ۱ھ یا پھر ۲ھ میں کیا۔

روایت ہے کہ تعین نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا:’’اس کی کون سی صورت اختیار کی جائے؟‘‘

کسی نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا، جیسا کہ نصاریٰ نماز کے لیے بجاتے ہیں۔ کسی نے یہود کی طرح سینگ پھونکنے کا مشورہ دیا۔ کسی نے کہا: ’’کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دینی چاہیے۔‘‘

اس پر حضرت عبداللہ بن زیدؓ جنہیں ’’صاحب الاذان‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک مرد آسمان سے نیچے اترا، اس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے اس سے کہا:’’اے بندۂ  خدا اسے بیچتے ہو؟‘‘

اس شخص نے پوچھا:’’تم اس کا کیا کرو گے؟‘‘

حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے فرمایا:’’میں اس سے نماز کے لیے لوگوں کو بلاؤں گا۔‘‘

اس پر اس شخص نے کہا:’’میں تمہیں اس سے بہتر چیز سکھاتا ہوں۔‘‘

تو اس نے اللہ اکبر اللہ اکبر تک مخصوص کیفیت کے ساتھ سکھایا۔ اسی طرح اقامت بھی سکھائی جب انہوں نے صبح کی تو اپنا خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الرویا حق انشاء اللہ تعالیٰ۔ جاؤ سیدنا بلالؓ کو بلا لاؤ اور یہ کلمات بتاؤ۔ اس لیے کہ اس کی آواز بلند تر، نرم تر اور شیریں تر ہے۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان دی تو سیدنا فاروق اعظمؓ دوڑتے ہوئے اور اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے آئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ ! میں نے بھی وہی کچھ دیکھا ہے جو عبداللہ بن زیدؓ نے بیان فرمایا ہے۔‘‘

’’ فللّٰہ الحمد! اگر ایسے ہی تو ہے ان دونوں خوابوں میں موافقت اللہ تعالیٰ ہی کو حمد ہے کہ اس نے اپنی طرف سے الہام فرمایا اور صدق و ثواب کا راستہ بتایا۔‘‘

بعض روایت کرتے ہیں:’’حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی یہی خواب دیکھا۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہ روایت کرتے ہیں:’’جب رسول اللہ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور سراپردۂ  عزت میں حاضری ہوئی جو کہ کبریاحق کا محل خاص تھا وہاں ایک فرشتہ نمودار ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ سے دریافت فرمایا:’’یہ فرشتہ کون ہے؟‘‘

حضرت جبرائیل امینؑ نے عرض کیا:’’قسم ہے اس خدائے ذوالجلال کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ بارگاہ رب العزت میں، میں سب سے مقرب بندہ ہوں مگر میں نے فرشتہ کو اس ساعت سے پہلے جب سے مجھے پیدا کیا ہے نہیں دیکھا۔‘‘

پھر اس فرشتہ نے کہا:’’اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘

پردۂ  جلال کے پیچھے سے آواز آئی۔ ’’میرے بندے تو نے سچ کہا، میں اکبر ہوں۔‘‘

اس کے بعد اذان کے بقیہ کلمات کو بیان کیا۔

تحقیق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج اذان کے کلمات سنے لیکن حکم نہ ہوا کہ ان کلمات اذان کو نماز کے لیے کہا جائے۔‘‘

ایک روایت میں مذکور ہے:

’’جب حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اذان کے کلمات بتائے تو رسول اکرم ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو بلا کر انہیں اذان کے کلمات یاد کرائے اور پھر انہیں اذان دینے کا حکم فرمایا۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے حجرہ اقدس کے بالکل سامنے کھڑے ہو کر اسلام کی سب سے پہلی اذان دی۔

روایات میں آتا ہے:

’’کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک کے اندر ہوتے اور اذان کا وقت ہو جاتا تو سیدنا بلال حبشیؓ اذان دینے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک کے قریب جا کر فرماتے:

الصلٰوۃ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے یہ الفاظ سنتے ہی رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آتے۔

رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ جب سیدنا بلال حبشیؓ فجر کی نماز کے لیے اذان دیتے تو اذان کے شروع ہی میں حضور اکرم ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آتے۔ ایک دن سیدنا بلالؓ نے اذان دی مگر رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے۔ کچھ تاخیر ہوئی تو سیدنا بلال حبشیؓ بے چین ہو گئے اور اس بے چینی کی حالت میں سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:

الصلوٰۃ خیر من النوم۔

’’نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ کے یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے گوشِ مبارک تک پہنچے ہی تھے کہ رسول اللہ ﷺ حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آئے۔ رسول اللہ ﷺ کو سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ جملہ اس قدر پسند آیا کہ اس دن کے بعد اس کلمے کو فجر کی اذان میں پڑھنے کا حکم صادر فرما دیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ جب اذان دیتے تو سننے والوں پر ایک عجیب طرح کا سرور طاری ہو جاتا۔ سب کو سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز بہت اچھی لگتی تھی، بچے بھی بڑے شوق سے آپؓ کو سنا کرتے اور بڑی توجہ دیتے تھے۔

جب رسول اللہ ﷺ کا وصال مبارک ہو گیا تو سیدنا بلال حبشیؓ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اپنے آقا ﷺ کی جدائی میں دل ہی کیا دنیا ہی ویران ہو گئی اور انہوں نے عہد کر لیا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا۔

سیدنا بلال حبشیؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ  میں سے اذان دینے کے لیے مقرر فرمایا اور سیدنا بلال حبشیؓ نے اس خدمت کو بحسن و خوبی نبھایا۔

حیاتِ بلالؓ کے چند گوشے

اس باب میں ہم چند ایک واقعات پر طائرانہ نگاہ ڈالیں گے تاکہ ہمارے حافظے میں یہ باتیں محفوظ رہیں اور واقعات کا تسلسل برقرار رہے اور آئندہ واقعات کے ساتھ یہ مربوط رہیں۔

جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ اہل مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ ادھر اہل مدینہ نے آپ ﷺ کو اپنے ہاں بار بار دائمی قیام کی دعوت پیش کی تو آپ ﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ  سے فرمایا:’’بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سب کو بھائی بنایا اور ایک دار میں ٹھہرایا۔ تم سب امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرو گے۔ اس لیے اس کی طرف ہجرت کر جاؤ۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے یہ حکم سن کر اپنے دوستوں حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے فرمایا:’’آنے والی رات کو تو میں ہجرت کر جاؤں گا۔‘‘

حضرت عمار بن یاسرؓ نے پوچھا:’’اس قدر جلدی کیوں ہے؟‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے فرمایا:’’ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کا حکم فرمایا ہے۔ اس میں تاخیر کیسی؟‘‘

حضرت عمار بن یاسرؓ نے فرمایا:’’میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘

تینوں دوست متفق ہو کر رات کے کسی حصہ میں مکہ مکرمہ سے چل پڑے اور چند دنوں کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ اپنے رفقاء سمیت بخیر و عافیت مدینہ پہنچ تو گئے لیکن وہاں رسول اللہ ﷺ کے بغیر ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ ہر وقت آپ ﷺ کی یاد میں تڑپتے رہتے۔

جب حضرت فاروق اعظمؓ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے اور سیدنا بلال حبشیؓ کو اس کی خبر ہوئی تو آپؓ نے جلدی سے حضرت عمرؓ کے ہاں پہنچ کر پوچھا:’’اے عمرؓ! آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ اور آپؓ کب تشریف لائے ہیں؟‘‘

حضرت عمر فاروقؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ کی بے قراری دیکھ کر فرمایا:’’سیدنا بلالؓ ! تسلی رکھیں رسول اللہ ﷺ عنقریب تشریف لانے والے ہیں۔‘‘

حضرت عمر فاروقؓ سے یہ سن کر سیدنا بلالؓ کو قدرے تسلی ہوئی لیکن آتش جدائی کی سوزش میں کمی نہ آئی۔ پھر ایک دن یہ خبر مشہور ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے روانہ ہو چکے ہیں۔

یہ خبر سیدنا بلال حبشیؓ نے بھی سن لی۔ اب وہ روزانہ چند ساتھیوں کو لے کر مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا انتظار فرماتے، یہاں تک کہ دھوپ کی شدت سے دوسرے لوگ تو اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے لیکن سیدنا بلال حبشیؓ تنہا آپ ﷺ کے منتظر رہتے۔

ایک دن سخت گرمی کے باوجود دوپہر کے بعد تک بھی سیدنا بلال حبشیؓ مکہ کی راہ تک رہے تھے، مایوس ہو کر گھر لوٹ گئے، ابھی گھر پہنچے ہی تھے کہ کانوں میں آواز گونجی:

’’اللہ کے نبی آ گئے، اللہ کے نبی آ گئے۔‘‘

یہ سنتے ہی خوشی خوشی گھر سے نکلے لیکن پھر سوچنے لگے:’’کیا واقعی رسول اللہ ﷺ آ گئے ہیں؟ یا میں ایک خیالی آواز سے اٹھ کھڑا ہوا ہوں؟‘‘ اسی سوچ میں تھے کہ وہی آواز گونجی:’’اللہ کے نبی ﷺ آ گئے، اللہ کے نبی ﷺ آ گئے۔‘‘

اب تو یقین مستحکم ہو گیا۔ اس لیے بے تحاشا دوڑے، ان کے ساتھ دوسرے عشاق بھی سخت دھوپ میں دوڑے جا رہے تھے۔ دور سے سیدنا بلال حبشیؓ کی نگاہ نے رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا استقبال کیا تو بے ساختہ منہ سے نکلا:

’’بخدا وہ ہیں رسول اللہ ﷺ۔ ‘‘

شدت فرحت میں جان لبوں پر ہے اور دوڑنے میں سب سے آگے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ سواری سے اترے اور تمام مسلمانوں کے سلام کا جواب دیا اور قبا میں ڈیرہ جما لیا۔

مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا کہ حضرت بلالؓ بھی دیگر مہاجرین کی طرح وبائی بخار کا شکار ہو گئے ہیں اور کافی پریشان بھی رہے تو آقا ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کی عیادت کو تشریف لے گئے اور دعا فرمائی۔ جس کی وجہ سے سیدنا بلال حبشیؓ صحت یاب ہو گئے اور پھر دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو گئے۔

یہ واقعہ ایک بار پھر دہرایا جاتا ہے تاکہ حافظہ میں تازہ رہے اور واقعات کا تسلسل بھی ذہن میں برقرار رہے۔

رسول اللہ ﷺ کی مخصوص خدمات سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد تھیں چنانچہ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر سے پہلے عصا مبارک اٹھا کر بمنزلہ سترہ رسول اللہ ﷺ کے آگے کھڑا کرتے۔

بعض روایات میں عصا کی بجائے نیزے کا تذکرہ ملتا ہے۔

زندگی بھر عصا برداری سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد رہی، یہاں تک کہ عیدین اور نماز استسقاء کی نماز پر بھی عصا رسول اللہ ﷺ کے آگے گاڑ دیتے۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے آزادی کے بعد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کی یہاں تک کہ سفر و حضر، مکی زندگی اور مدنی زندگی کے تمام لمحات در مصطفی ﷺ پر بسر کیے۔ ہر جنگ میں، ہر سفر میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے سرشار رہے۔

مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے بعد آغاز اذان تک مستقل مؤذن منتخب ہوئے۔ کوئی نماز ایسی نہ گزری جس میں سیدنا بلالؓ نے اذان نہ دی ہو اور اذان دے کر نماز با جماعت کی اطلاع کے لیے تا دم زیست اپنے آقا ﷺ کے در پر جا کر عرض کرتے:

حی الصلٰوۃ حی الفلاح، الصلوٰۃ یارسول اللہ۔ (داعی السمأ ص ۹۷)

رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لاتے تو سب سے پہلے زیارت کا شرف سیدنا بلال حبشیؓ کو نصیب ہوتا۔ ایسے ہی ہر اقامت کے لیے پشت مبارک کے جلوات سے سرشاری سیدنا بلال حبشیؓ کو نصیب تھی، وہ نماز جو معراج اور قرۃ العین النبی کا مرتبہ رکھتی ہے ہر پانچوں کی جماعت اور تہجد کی اذان اور اسے اپنے آقا ﷺ کے ساتھ مل کر ادا کرنا کس کے حصے میں آتی؟ وہ ہمارے ممدوح سیدنا بلال حبشیؓ ہی تو ہیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ صرف اذان کے لیے نہیں نکلتے تھے بلکہ وہ ترنم سے ایسی بلند آواز میں اشعار پڑھتے جو اذان کی آواز سے بہت اونچی آواز میں ہوتے جو ان کے حال کے مطابق ہوتے کبھی توبہ پر مشتمل ہوتے، کبھی اللہ سے رحمت طلبی ہوتی ان سے یہ شعر بھی سنا گیا:

ما البلال ثکلتہ امہ

وابتل من نفسح ملے جیبہ

’’بلال کون ہے اسے ماں روئے

اس کا ماتھا خون کے بہنے سے تر ہوا‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ اور بعض مہاجرین مدینہ کی آب و ہوا میں بیمار پڑ گئے۔ اس زمانہ تک مدینہ کی زمین وبا اور بخار والی تھی لیکن رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد وہ زمین طیب و صحت و سلامت ہو گئی۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعا سے اس شہر پاک کی وبا اور بخار کو حجفہ میں جو شرک و طغیان کا گھر تھا، منتقل کر دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا بلال حبشیؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ بھی اس وبا میں مبتلا ہو گئے تھے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ  اپنے والد محترم سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی عیادت کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ شدید بخار کی حالت میں کہنے لگے:

’’ہر شخص اپنے اہل و عیال میں صبح کرنے والا ہے حالانکہ موت اس کی جوتی کے بندھن سے زیادہ قریب ہے۔‘‘

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ  نے جب یہ سنا تو کہنے لگیں: ’’خدا کی قسم میرے والد ہوش میں نہیں ہیں، انہیں خبر نہیں کہ وہ اپنی زبان سے کیا کہہ رہے ہیں۔‘‘

سیدہ عائشہ صدیقہؓ  نے سیدنا بلال حبشیؓ اور حضرت عامر بن فہیرہؓ کو دوسرے گوشے میں مبتلا دیکھا۔ وہ کفارِ مکہ پر لعنت بھیج رہے تھے کہ انہوں نے مکہ سے نکالا۔ وہ مکہ کے چشموں، باغوں اور مرغزاروں کی یاد میں اشعار پڑھ رہے تھے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ  نے ان کے احوال کی شکایت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر کی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ منورہ کو ایسا محبوب بنا دے جیسا کہ ہم مکہ مکرمہ سے محبت رکھتے ہیں یا اس سے زیادہ اور مدینہ کی ہوا کو ہمارے جسموں کے لیے صحت و درست بنا دے اور ہمارے صاع اور مد میں برکت فرما اور اس جگہ سے بخار کو حجفہ کی طرف منتقل فرما دے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل سیدنا عمر فاروقؓ کو سیدنا بلال حبشیؓ کا دینی بھائی بنا دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ بھی سیدنا بلالؓ سے قربت اور محبت کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور اس کو اپنے اور سیدنا بلال حبشیؓ کے لیے رسول اللہ ﷺ کا فضل و انعام تصور فرماتے تھے۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ سیدنا بلالؓ کی دل جوئی کا خاص خیال فرماتے تھے۔

سیدنا بلال حبشیؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے اور حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ حضرت ابو رویحہؓ سے مواخات قائم ہوئی۔ ان دونوں میں اس قدر شدید محبت ہو گئی تھی کہ عہد فاروقی میں سیدنا بلال حبشیؓ نے شام کی مہم میں شرکت کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمر فاروقؓ نے پوچھا:’’بلالؓ  تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے جواب دیا: ’’ابو رویحہؓ  میرا وظیفہ وصول کریں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کر دیا ہے، وہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کے حضور میں رہنا سہنا بلکہ ایک نگاہ کرم بھی نصیب ہو تو قسمت کی یاوری کا کیا کہنا۔ پھر وہ خوش بخت کتنا ہی مقدر کا سکندر ہے جسے آقائے دوجہاں ﷺ اس کی صلاحیت کے پیش نظر ذمہ داری سپرد فرما دیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے مقدر کا اندازہ لگائیں کہ ہر وقت حاضری رسول ﷺ کے علاوہ گھریلو ذمہ داریاں خود شاہ کونین محمد مصطفی ﷺ سپرد فرما رہے ہیں۔

ہجرت مدینہ کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ مدینہ طیبہ میں حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ اتفاق سے ان دنوں مدینہ طیبہ میں بخار وبائی صورت میں پھیلا ہوا تھا۔ دیگر مہاجرین کی طرح سیدنا بلال حبشیؓ کو بھی شدید بخار ہو گیا۔ تیز بخار کی وجہ سے اکثر بے ہوش ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے مہاجرین نے وبا سے نجات پائی۔ بخار اگر گیا لیکن سیدنا بلال حبشیؓ بہت دنوں تک نقاہت سے پڑے رہے حتیٰ کہ نماز بھی بیٹھ کر ادا فرماتے۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ  سے روایت ہے:

’’اس بیماری کے دوران سیدنا بلال حبشیؓ کو مکہ کی یاد ستاتی اور وہ حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مکان کے صحن میں جذبات سے بھرپور ترنم کے ساتھ یہ شعر پڑھا کرتے:

الالیست شعری ھل ابتین لیلۃ

بوادو حولی ذخر و جلیل

وھل اردن یوماً میاہ مجنۃ

وھل یبدون لی شامۃ وطفیل

’’کاش معلوم ہو جائے کہ اب میں کوئی رات مکہ کی وادی میں بسر کروں گا۔

اور میرے پاس اذخر اور جلیل کا مرغزار ہو گا۔

اور مجنہ کے چشمہ پر بھی میرا گزر ہو گا۔

اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیاں اب بھی کبھی نظر نہ آئیں گی‘‘

ان اشعار میں سیدنا بلال حبشیؓ کی ارض بطحا سے طبعی محبت کے چراغ روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ سیدنا بلال حبشیؓ کی زندگی کا ایک مشکل ترین حصہ مکہ مکرمہ میں بسر ہوا لیکن پھر بھی انہیں مکہ مکرمہ کی یاد ستاتی تھی۔ شاید اس لیے کہ انہیں عشق رسول کریم ﷺ جیسی لازوال دولت کے خزانے اسی شہر میں ملے تھے اور وہ ابتدائے عشق کی وارداتوں کو شوق اور والہانہ شیفتگی کے عالم میں اپنے تصور کے پردوں پر ابھرتا دیکھتے۔ مکہ کا پس منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا اور وہ اشتیاق کے ساتھ درد و فراق کے اشعار پڑھنے لگتے۔

چند روز بعد رسول اللہ ﷺ بھی مدینہ طیبہ تشریف لے آئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کی علالت اور مکہ مکرمہ کے اشتیاق کا حال سنا تو عیادت کے لیے تشریف لائے پھر یہ دعا فرمائی:

’’اے اللہ بلالؓ  کی بیماری کو ٹال دے اور مکہ سے زیادہ مدینہ کو ہمارے لیے محبوب بنا دے۔‘‘

مدینہ طیبہ میں آواز کا عجیب عالم ہوا کرتا تھا، صدائے اللہ اکبر کے ساتھ ہی مسلمان اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر اذان کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس آواز میں کمال کی دلآویزی تھی، ہر شخص صامت و ساکت رہ جاتا۔ اس نغمہ خداداد میں کیا اثر تھا جو صحابہ کرامؓ  کو اپنی گرفت میں لے لیا کرتا تھا۔

سیدنا بلال حبشیؓ اذان سے قبل اذان کے انتظار میں بیٹھے رہتے اور مقررہ وقت پر اذان شروع فرماتے۔ اذان سے پہلے لحن کے ساتھ یہ فرمایا کرتے تھے:

اللھم انی احمدک واستعیک علی قریش ان یقیموا دینک۔

’’اے اللہ ل میں تیری حمد و ثناء بیان کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ قریش تیرے دین پر قائم ہو جائیں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ کبھی کبھی اذان سے پہلے کوئی ایسا شعر بھی ترنم سے پڑھ دیتے جس میں ان کے اسلام کے ابتدا کا ذکر ہوتا۔

سیدنا بلال حبشیؓ سحر کی اذان تہجد کے آخر وقت میں دیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اب تک مدینہ طیبہ میں فجر سے قبل دو اذانیں ہوتی ہیں۔

۱۔ نماز فجر کے لیے۔ ۲۔ تہجد کے لیے

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت جب آپ ﷺ کو آغوش لحد میں آسودہ کیا گیا تو مٹی ہموار کر کے سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنے ہاتھوں سے اس پر پانی چھڑکا اور پھر غمگین دل کے ساتھ اپنے اس درد کی آخری اذان پڑھی۔ جونہی ’’اشہد ان محمد رسول اللہ‘‘ کی تکرار کی، صحابہ کرامؓ  لرز اٹھے۔

سیدنا بلال حبشیؓ اس وقت شدتِ کیفیت میں ایسے ڈوبے کہ نڈھال ہو کر گر پڑے۔ (ابن سعد ص ۱۶۸ ج ۱)

رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بار بار اصرار فرمایا تو سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان پڑھنے کی معافی چاہی اور رو رو کر کہا:

’’مجھے اس کے لیے مجبور نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرما لینے کے بعد میں یہ خدمت انجام نہیں دے سکوں گا کیونکہ وہ حسنِ مطلق میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے جس کے لیے اذان پڑھا کرتا تھا۔‘‘

حضرت سعد قرظیؓ جو عہد رسالت مآب ﷺ میں مسجد قبا کے مؤذن تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ کے اذان پڑھنے سے معذرت کرنے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ کی اجازت سے مسجد نبوی ﷺ کے مؤذن مقرر کیے گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے علاوہ مسجد نبوی ﷺ میں نابینا صحابی حضرت ابن مکتومؓ بھی اذان دیا کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں اذان کا فریضہ حضرت ابو مخدورہؓ کے سپرد تھا۔

ابن اسحاق بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی تھیں:

’’میرے گھر کا صحن مسجد نبوی ﷺ سے ملا ہوا تھا۔ میں دیکھتی تھی کہ سیدنا بلال حبشیؓ ہر روز طلوع فجر سے پہلے دیوار پر بیٹھ جاتے اور طلوع فجر کا انتظار کرتے، یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوتی تو سیدنا حبشیؓ یہ دعا کرتے:

’’اے اللہ! میں تیری حمد اور تعریف کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں۔ اے اللہ! قریش کو ہدایت کر وہ تیرے دین کو قبول کریں اور اس پر قائم ہوں۔‘‘

پھر اذان شروع فرماتے۔وہ عورت فرماتی تھیں:

’’میں نہیں جانتی کہ سیدنا بلال حبشیؓ نے ایک روز بھی اسی دعا کو ترک کیا ہو۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ سردی کے دنوں میں میں نے اذان کہی اور بیٹھ رہا۔ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں نماز کے لیے تشریف لائے تو مسجد خالی تھی اور ان کے سوا کوئی نہ تھا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اے اللہ عزوجل! ان لوگوں سے سردی دور کر دے۔‘‘

آپ ﷺ کا فرمانا تھا کہ لوگ جوق در جوق نماز کے لیے مسجد میں آنا شروع ہو گئے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو خازن کا عہدہ تفویض فرمایا۔ یہ کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ سلطنت خداوندی کے مالک مختار محبوب ﷺ کا خازن مقرر ہونا تو سیدنا بلالؓ کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ سیدنا بلال حبشیؓ تا دم زیست خازن رہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی سیدنا بلال حبشیؓ پر اعتماد فرمایا اور جب رسول اللہ ﷺ نے آپؓ پر اعتماد کیا تو آسمان والوں نے بھی آپؓ پر اعتماد کیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے لیے یہ بہت بڑی فضیلت تھی جو صرف اللہ کے محبوب بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔

حضرت عبداللہ ہوازنؓ فرماتے ہیں:

’’میں سیدنا بلال حبشیؓ سے ملا اور ان سے میں نے دریافت کیا:

’’مجھے رسول اللہ ﷺ کے مصارف کی کیفیت بتاؤ۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے فرمایا:’’رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی مال نہ تھا۔ بعثت سے وصال تک میں ہی حضور اکرم ﷺ کا خازن تھا۔ جب بھی کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس اس حال میں آتا کہ اس کے پاس کپڑے نہ ہوں تو آپ ﷺ مجھے حکم فرماتے میں جا کر کسی سے قرض لیتا، اسے کھانا کھلاتا اور چادر خرید کر اسے کپڑے پہنا دیتا۔‘‘

وہ کون سا خزانہ تھا جس کے خازن سیدنا بلال حبشیؓ تھے وہ جو ظاہری زندگی میں فقر فخری کا اثاثہ۔

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس تشریف لائے۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا رکھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:

’’اے بلالؓ  یہ کیا ہے؟‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے عرض کیا:’’میں نے آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ کے مہمانوں کے لیے رکھا ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’کیا تمہیں اس کا خوف نہیں کہ کھجوروں کا یہ ٹوکرا میرے لیے دوزخ کا ایندھن ہو۔ اے بلالؓ خرچ کیے جاؤ اور عرش کے مالک کی جانب سے کمی کا خوف نہ کرو۔‘‘

(مؤذن رسول ص ۵۷)

حضرت انسؓ سے مروی ہے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’مجھے اللہ کے بارے میں خوفزدہ کیا گیا، اس قدر کہ کسی دوسرے شخص کو اتنا خوفزدہ نہیں کیا گیا، مجھے اللہ کے راستے میں تکالیف دی گئیں، اتنی کہ کسی شخص کو اتنی تکالیف سے سابقہ نہ پڑا اور مجھ پر تیس دن ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلالؓ  کے کھانے کے لیے سوائے اس مقدار کے کچھ نہ ہوتا تھا جسے بلالؓ  اپنی بغل میں چھپا لیتے تھے۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے ان حالات میں آغوشِ نبوت میں پرورش پائی اور یوں اخلاق نبوی ﷺ سے فیض یاب ہوئے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایسے امور کا مطالبہ کیا جن کا دوسرے صحابہ کرامؓ  سے مطالبہ نہیں کیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ عالی شان ہے:

’’بہترین مال وہ ہے جو نیک آدمی کے پاس ہو۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ سے فرمایا:

’’اے بلالؓ  فقیر ہو کر مرنا، غنی ہو کر نہ مرنا۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ دن رات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے اور رسول اللہ ﷺ کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ وہ حضور اکرم ﷺ کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہر وقت خدمت بجا لانے کے لیے تیار رہتے تھے۔

سفر میں جب دوپہر کا وقت آ جاتا اور دھوپ تیز ہو جاتی تو سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے سر پر چادر تان دیتے۔ جنگ کے موقع پر وہ میدان جنگ سے کچھ فاصلے پر ایک سائبان کھڑا کر دیتے جہاں سے رسول اللہ ﷺ لڑائی کا نظارہ کرتے اور مجاہدین کو ضروری ہدایات دیتے جبکہ سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے خیمے کے گرد چکر لگاتے رہتے اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات فوج تک پہنچاتے۔

آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا:

’’بلالؓ ! خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان دی۔ جب ان کی آواز مکہ میں گونجی:

اشہد ان لا الہ الا اللہ۔

یہ الفاظ سن کر مشرکین کو بڑا رنج ہوا اور ان میں سے بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا:

’’شکر ہے میرا باپ تو پہلے ہی مر گیا تھا، ورنہ یہ الفاظ سننے کی تاب نہ لاتا۔‘‘

اذان کے بعد رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ صرف تین آدمی تھے۔

۱۔            عثمان بن طلحہ جو کہ اس وقت خانہ کعبہ کے کلید بردار تھے یعنی خانہ کعبہ کی کنجی ان کے پاس تھی۔

۲۔           حضرت اسامہ بن زیدؓ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثؓ کے محبوب بیٹے۔

۳۔           سیدنا بلال حبشیؓ۔

رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں سیدنا بلال حبشیؓ برابر مؤذن رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کچھ دن تک تو انہوں نے اذان دی لیکن پھر معذوری کا اظہار کر دیا اور صحابہ کرامؓ  کے پُرزور اصرار پر بھی اذان دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ عاشق رسول سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان سے جب اشہد ان محمد الرسول اللہ نکلتا تو ان پر رقت طاری ہو جاتی کیونکہ ان کی آنکھیں رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھ پاتی تھیں۔ وہ رونے لگتے تھے تو دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ اشکبار ہو جاتے۔

اب سیدنا بلال حبشیؓ نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر زندگی گزارنے کے بجائے جہاد کرنا پسند فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو چکی تھی۔

انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے شام جانے کی اجازت چاہی اور اصرار کیا کہ انہیں وہاں جانے دیا جائے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مجبوراً اجازت دینا پڑی لیکن بعض تاریخ دان کہتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کی درخواست پر سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور ان کی خلافت کے زمانہ میں آپؓ مدینہ میں ہی رہے۔‘‘

حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے دوبارہ باہر جانے کی اجازت چاہی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بھی انہیں روکنا چاہا لیکن اس بار ان کا اصرار اتنا شدید تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اجازت دے دی۔

سیدنا بلال حبشیؓ شام چلے گئے اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل کر جہاد کرنے لگے اور پھر جہاد کے بعد دمشق کے قریب ایک چھوٹی سی جاگیر میں رہنے لگے اور کھیتی باڑی کر کے اپنی گزر اوقات کرنے لگے۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ ایمان لانے کے بعد تقریباً ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ غار حرا میں تھے۔ وہاں سے سیدنا بلالؓ کا گزر ہوا جو کہ اس زمانہ میں عبداللہ بن جدعان کی بکریاں چراتے تھے۔ یہ مکہ کے عجمی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اتفاق سے آپ ایک روز غارِ حرا کے پاس بکریاں چرا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اے چرواہے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟‘‘

سیدنا بلالؓ نے جواب دیا:’’ان بکریوں میں سے سوائے ایک کے اور کسی میں دودھ نہیں ہے، اگر ارشاد ہو تو میں دودھ لا دیتا ہوں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:’’لے آؤ۔‘‘

چنانچہ سیدنا بلالؓ نے بکری کو پکڑ کر اپنے برتن ہی میں دودھ دوہا اور آپ ﷺ کو پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دودھ نوش فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ سیر ہو گئے۔ وہ بکری کافی دودھ دینے والی تھی، اس لیے پھر اس کا دودھ دوہا اور حضرت بلالؓ کو پلایا وہ بھی سیر ہو گئے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا۔ ’’میں اللہ کا رسول ہوں، تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘

حضرت بلالؓ نے عرض کیا:’’میں آپ ﷺ کے دین کو اچھا پاتا ہوں۔‘‘

پھر حضرت بلالؓ بکریاں لے کر مکہ آ گئے۔ رات بھر میں اس بکری کا دودھ اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت بلالؓ کے مالک نے کہا۔ ’’کیا تو نے اس کو بہت تروتازہ جگہ پر چرایا ہے؟‘‘

حضرت بلالؓ نے اس کو تو کوئی جواب نہ دیا لیکن وہ آپ کی ملاقات اور آپ ﷺ کے دین سے بہت زیادہ متاثر ہو چکے تھے بلکہ آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم کر چکے تھے انہوں نے دل میں خیال کیا کہ دو چار روز وہیں چل کر بکریوں کو چرانا چاہئے تاکہ ایک تو ان کو روز دودھ پلایا جائے دوسرے اسلام کی تعلیمات حاصل کی جائیں۔ چنانچہ وہ مسلسل تین روز وہاں بکریاں لا کر آپ ﷺ کو دودھ پلاتے اور آپ ﷺ سے دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہتے۔

حضرت شداد بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہؓ نے حضرت عمرو بن عبسہؓ سے پوچھا۔ ’’آپ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام لانے میں آپ کا چوتھا نمبر ہے؟‘‘

انہوں نے فرمایا۔ ’’میں زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو سراسر گمراہی پر سمجھتا تھا اور بت میرے خیال میں کوئی چیز ہی نہ تھے۔ پھر میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں (غیب کی) خبریں بتلاتا ہے اور نئی نئی باتیں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ میں اونٹنی پر سوار ہو کر فوراً مکہ پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ چھپ کر رہتے ہیں اور آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کے درپہ آزار اور بہت بے باک ہے اور میں بڑی حیلہ جوئی کے بعد آپ تک پہنچا اور میں نے عرض کیا:’’آپ ﷺ کون ہیں؟‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ کا نبی ہوں۔‘‘

میں نے عرض کیا۔ ’’اللہ کا نبی کسے کہتے ہیں؟‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ کی طرف سے پیغام لانے والے کو۔‘‘

پھر میں نے عرض کیا۔ ’’کیا واقعی اللہ نے آپ ﷺ کو پیغام دے کر بھیجا ہے؟‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ہاں!‘‘

میں نے عرض کیا۔ ’’اللہ نے کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کیا جائے اور بتوں کو توڑ دیا جائے اور صلہ رحمی کی جائے یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا جائے۔‘‘

میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ ’’اس دین کے معاملے میں آپ ﷺ کے ساتھ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام۔‘‘

میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابی قحافہؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام حضرت بلالؓ تھے۔ میں نے عرض کیا۔ ’’میں آپ ﷺ کا اتباع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ یعنی اسلام کو ظاہر کر کے یہاں مکہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا فی الحال تمہارا میرے ساتھ رہنا تمہاری طاقت سے باہر ہے، اس لیے اب تم اپنے گھر چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ مجھے غلبہ ہو گیا ہے تو میرے پاس چلے آنا۔

حضرت عمرو بن عبسہؓ فرماتے ہیں کہ مسلمان ہو کر میں اپنے واپس آ گیا اور حضور اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ میں آپ ﷺ کی خبریں اور آپ ﷺ کے حالات معلوم کرتا رہتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا۔ ’’وہ مکی آدمی جو مکہ سے تمہارے ہاں آیا ہے اس کا کیا حال ہے؟‘‘

ان لوگوں نے کہا۔ ’’ان کی قوم نے ان کو قتل کرنا چاہا لیکن وہ قتل نہ کر سکے اور نصرت الٰہی ان کے اور قوم کے درمیان رکاوٹ بن گئی اور ہم لوگوں کو اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ سب آپ ﷺ کی طرف لپک رہے ہیں۔‘‘ حضرت عمرو بن عبسہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ پہنچا اور حاضر ہو کر عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سکھایا ہے اور میں نہیں جانتا ہوں، اس میں سے کچھ آپ ﷺ مجھے سکھا دیں۔‘‘

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام کو ظاہر کرنے والے سات آدمی ہیں۔ حضور اکرم ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمارؓ اور ان کی والدہ حضرت سمیہؓ  اور حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ اور حضرت مقدادؓ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کی حفاظت ان کے چچا کے ذریعہ سے کی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حفاظت ان کی قوم کے ذریعہ سے کی۔ باقی تمام آدمیوں کو مشرکین نے پکڑ کر لوہے کی زرہیں پہنائیں اور انہیں سخت دھوپ میں ڈال دیا جس سے وہ زرہیں بہت گرم ہو گئیں اور حضرت بلالؓ کے علاوہ باقی سب نے مجبور ہو کر ان مشرکوں کی بات مان لی لیکن حضرت بلالؓ کو اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں اپنی جان کی کوئی پروا نہ تھی اور ان کی قوم کے ہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ چنانچہ مشرکوں نے حضرت بلالؓ کو پکڑ کر لڑکوں کے حوالے کر دیا جو انہیں مکہ کی گلیوں میں چکر دیتے تھے اور وہ احد احد کہتے رہتے (یعنی معبود ایک ہی ہے)

حضرت مجاہد ؒ کی حدیث میں اس طرح ہے کہ باقی حضراتؓ  کو مشرکین نے لوہے کی زرہیں پہنا کر سخت دھوپ میں ڈال دیا جس سے وہ زرہیں سخت گرم ہو گئیں اور لوہے کی گرمی اور دھوپ کی گرمی کی وجہ سے ان حضراتؓ  کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی شام کو ابوجہل لعین نیزہ لیے ہوئے ان حضرات کے پاس آیا اور انہیں گالیاں دینے لگا اور انہیں دھمکیاں دینے لگا۔

حضرت مجاہد ؒ کی ایک حدیث میں یوں ہے کہ مشرکین حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی ڈال کر مکہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان لیے پھرتے۔

ابن اسحاق ؒ سے روایت ہے کہ جب دوپہر کو تیز گرمی ہو جاتی تو امیہ حضرت بلالؓ کو لے کر باہر نکلتا اور مکہ کی پتھریلی زمین پر ان کو کمر کے بل لٹا دیتا۔ پھر وہ کہتا کہ ایک بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جائے چنانچہ ایک بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا جاتا۔ پھر حضرت بلالؓ سے کہتا کہ تم ایسے ہی (ان تکلیفوں میں مبتلا) رہو گے۔ یہاں تک کہ یا تو تم مر جاؤ یا محمد ﷺ کا انکار کر کے لات اور عزیٰ کی عبادت شروع کر دو لیکن حضرت بلالؓ ان تمام تکلیفوں کے باوجود احد احد کہتے رہتے کہ معبود تو ایک ہی ہے۔

حضرت عمار بن یاسرؓ نے چند یہ اشعار کہے ہیں جن میں انہوں نے حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھیوں کے تکلیفیں اٹھانے کا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حضرت بلالؓ کو آزاد کرنے کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا لقب عتیق تھا یعنی ’’دوزخ سے آزاد۔‘‘

جزی اللہ خیرا عن بلال وصحبہٖ

عتیقا واخری فاکھا و اباجھل

’’اللہ تعالیٰ حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے عتیق (حضرت ابوبکر صدیقؓ) کو جزائے خیر عطا فرمائے اور فاکہ اور ابوجہل کو رسوا کرے۔‘‘

عشیۃ ھما فی بلال بسؤئۃ

ولم یحذ راما یحذربہ المرء ذوالعقل

’’میں اس شام کو نہیں بھولوں گا جس شام کو یہ دونوں حضرت بلالؓ کو سخت تکلیف دینا چاہتے تھے اور عقلمند آدمی جس تکلیف دینے سے بچتا ہے یہ دونوں اس سے بچنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘

بتوحیدہٖ رب الانام و قولہٖ

شہدت بان اللّٰہ ربی علی مہل

’’وہ دونوں حضرت بلالؓ کو اس وجہ سے تکلیفیں دینا چاہتے تھے کیونکہ حضرت بلالؓ لوگوں کا ایک خدا مانتے تھے اور کہتے تھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ میرا رب ہے اور اس پر میرا دل مطمئن ہے۔‘‘

فان یقتلوانی یقتلوانی فلم اکن

لاشرک بالرحمن من خیفۃ القتل

’’اگر یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں تو ضرور مار دیں۔ میں قتل کے ڈر سے رحمن کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر سکتا ہوں۔‘‘

فیارب ابراھیم والعبد یونس

وموسٰی و عیسٰی نجنی ثم لاتبل

لمن ظل یہدی الغی من ال غالب

علٰی غیر بر کان منہ ولا عدل

’’اے ابراہیم اور یونس اور موسیٰ اور عیسیٰ ؑ کے رب! مجھے نجات عطا فرما اور پھر مجھے آل غالب کے ان لوگوں کے ذریعہ آزمائش میں نہ ڈال جو گمراہ ہونا چاہتے ہیں اور نہ وہ نیک ہیں اور نہ انصاف کرنے والے۔‘‘

ایک مرتبہ ورقہ بن نوفل سیدنا بلال حبشیؓ کے پاس سے گزرے دیکھا کہ وادی بطحاء کے گرم پتھروں پر آپ کی پیٹھ پر بھاری پتھر رکھ کر سخت عذاب دیا جا رہا ہے لیکن وہ عاشق رسول ﷺ اور شیدائی اسلام اس عذاب کو اپنے لیے ایک امتحان سمجھ کر نہایت اطمینان اور خوشدلی سے برداشت کر رہا ہے اور زبان سے احد احد پکار رہا ہے۔

قریش سیدنا بلالؓ کو جو تکالیف اور عذاب دے رہے تھے ورقہ بن نوفل اس کو دیکھنے کی تاب نہ لا سکے۔ آپ نے گھبرا کر حضرت بلالؓ کو فرمایا:

’’بلال! ان کی سزا اور تکالیف سے خلاصی اور نجات حاصل کرنے لیے جو یہ کہتے ہیں اس کو قبول کر لو۔‘‘

لیکن سیدنا بلالؓ کا جواب تھا:

’’میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مجھے قتل بھی کر دیں تو اللہ تعالیٰ بہترین انتقام لینے والا ہے۔ وہ میری مغفرت فرمائے گا لیکن میں کسی صورت ان کی بات ماننے والا نہیں ہوں۔‘‘

قریش کہتے کہ تیرا مذہب لات و عزیٰ کو ماننا او ر ان کی پوجا کرنا ہے لیکن ان کے جواب میں سیدنا بلالؓ فرماتے تھے کہ میرا رب الصمد اور احد ہے۔

سیدنا بلالؓ ظاہری شکل و صورت سے اگرچہ سیاہ فام تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی نگاہ آئینہ تاب سے دل آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہو گیا تھا اور نور ایمان نے ان کے دل کو اس قدر منور کر دیا تھا کہ قریش کی ایذاء رسانیاں انہیں گمراہی کی تاریکیوں میں نہ دھکیل سکیں۔ اس وقت گوری چمڑی اور سفید فام مخلوق ابولہب اور ابوجہل کی طرح غرور حسن اور زعم شرافت و نجابت میں ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھی۔ تاریخی روایات کے مطابق اس وقت صرف سات نفوس تھے جن کو قبول ایمان کی توفیق حاصل ہوئی ان میں ایک یہ حبشی غلام تھے۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کمزور ہمیشہ ظلم وستم کی آماجگاہ رہتا ہے لیکن قریش مکہ نے تو رسول اللہﷺ کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جن کا تعلق اشراف مکہ سے تھا۔ سیدنا بلالؓ تو ایک غلام تھے ان پر تو اور بھی ظلم و ستم کیے گئے۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے تو یہ دستور ہی بنا لیا تھا کہ گھر کی ساری نجاست اکٹھی کر کے رسول اللہﷺ کے راستہ میں پھیلا دیتی لیکن آپ ﷺ زبان سے کچھ کہے بغیر راستہ سے وہ غلاظت ایک طرف ہٹا کر گزر جاتے۔

جب یہ لوگ خود رسول اللہﷺ کو ظلم و ستم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے تھے تو سیدنابلالؓ کس شمار و قطار میں تھے۔ وہ تو کئی نسلوں سے غلام تھے۔ ان کے ساتھ قریش کا سلوک کیسے روا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ غلام اور کمزور ہونے کی بنا پر وہ ظلم وستم کی آماجگاہ تھے۔ غلام ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی ناموس جفا کے شکار ہوئے۔ گوناگوں مصائب اور زہرہ گداز مظالم سے ان کے استقلال و استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔ تپتی ہوئی ریت جلتے ہوئے سنگ ریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے۔ مشرکین کے لڑکوں نے گلے میں رسیاں ڈال کر تماشا بنایا لیکن ان تمام روح فرسااور جان گسل آزمائشوں کے باوجود توحید خداوندی کی مضبوط رسی ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹی۔ ابوجہل تپتے ہوئے سنگ ریزوں پر لٹا کر اوپر بھاری پتھر رکھ دیتا اور جب آفتاب کی تمازت بے قرار کر دیتی اور آپ اس کی گرمی سے تڑپنے لگتے تو وہ کہتا:۔ ’’بلال اب بھی محمدﷺ کے خدا سے باز آ جاؤ لیکن اس وقت بھی اس بندہ خدا کے لبوں سے یہی آواز سنی جاتی۔ ’’احد احد‘‘

حضرت بلالؓ پر امیہ بن خلف ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے میں سب سے زیادہ پیش پیش تھا، اور اس کی جدت طرازیوں نے ظلم و جفا کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے تھے وہ بے ایمان آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیتا۔

ایک مرتبہ امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو گائے کی کھال پہنا دی پھر لوہے کی زرہ میں کس دیا اور دھوپ میں بٹھا کر کہا:

’’بلال سن تیرا خدا لات و عزیٰ ہے۔‘‘

ان ساری آزمائشوں کے باوجود توحید کے اس وارفتہ کی زبان سے احد احد کے سوا اور کلمہ نہ نکلا۔

مشرکین اگر کہتے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں تم بھی وہی کہو تو فرماتے کہ میری زبان تمہارے کہے ہوئے الفاظ کا اعادہ نہیں کر سکتی۔

سیدنا بلالؓ پر امیہ بن خلف اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے کہ آنکھیں اس جو رو ستم کو دیکھ کر اشکبار ہو جاتی تھی۔ ایک روز سیدنا ابوبکرؓ کا ادھر سے گزر ہوا۔ کفار کی ستم گری دیکھ کر انتہائی صدمہ ہوا۔ دریافت فرمایا:

’’تم لوگ اس سیاہ حبشی زادے کے ساتھ یہ سلوک کیوں کر رہے ہو؟‘‘

انہوں نے جواب دیا:’’یہ لات و عزیٰ کو چھوڑ کر محمدﷺ کے ایک خدا کو ماننے لگا ہے۔ اس لیے اس کو یہ سزا دے رہے ہیں۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم! تم لوگ اس کے جذبات کو نہیں دبا سکتے۔‘‘

امیہ بن خلف نے ابوبکرؓ کی یہ بات سن کر ساتھیوں سے کہا کہ میں تم کو وہ کھیل دکھاؤں گا جو تم لوگوں نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ ابوبکرؓ ہنس پڑے اور امیہ بن خلف نے سیدنا ابوبکرؓ سے کہا۔ ’’ابوبکرؓ  یہ غلام آپ کے دین پر ہے آپ اسے ہم سے خرید کیوں نہیں لیتے؟‘‘

سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا۔ ’’اگر تم فروخت کرنا چاہتے ہو تو میں اس کو خریدنے کے لیے تیار ہوں میرے غلام فسطاط (جو بہت موٹی کھال والا ہے جو آپ کو نصف دینار خراج کرتا تھا اور اسلام قبول نہیں کرتا تھا) سے بدل لیں۔‘‘

امیہ ہنس پڑا اور کہا۔ ’’ابوبکر ! شرط یہ ہے کہ آپ اپنے غلام مع اس کی بیوی کے دیں تو پھر میں سوچ سکتا ہوں۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا۔ ’’اگر آپ تیار ہیں تو میں ایسا کر سکتا ہوں۔‘‘

امیہ نے کہا۔ ’’آپ کو اختیار ہے کہ آپ اس کے بیوی بچے بھی عطا کر دیں لیکن ایک سو دینار بھی ساتھ دیں۔‘‘یہ کہہ کر امیہ ہنس پڑا۔

سیدنا ابوبکرؓ نے کہا۔ ’’کیا آپ ایسے آدمی ہیں کہ جھوٹ سے حیا نہیں کرتے؟‘‘

امیہ نے جواب دیا۔’’لات وعزیٰ کی قسم ! یقین کیجئے اگر آپ کریں گے تو میں بھی کروں گا۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے ایک گراں قدر رقم دے کر سیدنا بلالؓ کو خرید لیا اور اسی وقت آزاد کر دیا۔

بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا بلالؓ کو خرید کر سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کی۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ میں نے بلالؓ کو خرید لیا۔‘‘

یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اس میں مجھ کو بھی شریک کر لیا جائے۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی۔ ’’حضور ﷺ ! مشرکین نے جب اسے اپنے دین سے نکالنا چاہا تو میں نے فوراً حاصل کر کے اسے آزاد کر دیا۔‘‘

حافظ ابن قیم ؒ نے سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں لکھا ہے:

’’سیدنا ابوبکرؓ جب کسی غلام کے پاس سے گزرتے جس کو کفار اپنی ستم گری کا ہدف بناتے تو اسے خرید لیتے اور پھر اس کو آزاد کر دیتے، ان میں بلالؓ، عامر بن فہیرہ، ام عبیس، زنیرہ، نہدیہ اور ان کی صاحبزادی اور بنی عدی کی ایک لونڈی جس کو سیدنا عمرؓ اسلام لانے سے قبل اس کے اسلام لانے کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بناتے تھے۔‘‘

بعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو پانچ اوقیہ سونے کے بدلہ میں خریدا۔ قریش نے کہا اگر تم ایک اوقیہ کے عوض بھی بلالؓ کو لینا چاہتے تو ہم دے دیتے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر تم سو اوقیہ کے عوض بلالؓ کو فروخت کرنا چاہتے تو اس کو خرید لیتا۔

رسول اللہﷺ کو جب پتہ چلا کہ ابوبکرؓ نے بلالؓ کو قریش سے خرید لیا ہے تو آپ ﷺ نے بھی ان کی خریداری میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا لیکن سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی کہ میں نے بلالؓ کو آزاد کر دیا ہے۔

یقیناً حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کے جذبہ ایمانی اور عالی ہمتی کا مشاہدہ فرما لیا تھا اسی لیے حضرت ابوبکرؓ کے ثواب میں شریک ہونے کی خواہش فرمائی۔

ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ ہمارے سردار بلالؓ، ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔‘‘

سیدنا بلالؓ کو ایک مرتبہ پتہ چلا کہ بعض لوگ انہیں سیدنا ابوبکرؓ پر فضلیت دیتے ہیں تو آپ نے فرمایا۔ ’’تم لوگ مجھ کو ابوبکرؓ پر کیسے فضلیت دیتے ہو۔ میں تو ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔‘‘

حضرت بلالؓ کے اس قول کا منشاء یہ تھا کہ میں حضرت ابوبکرؓ سے افضل کیسے ہو سکتا ہوں حالانکہ میں تو خود ان کی ایک نیکی ہوں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت زینبؓ  فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اے عورتو ! تم صدقہ کیا کرو۔‘‘

میں رسول اللہﷺ کی یہ بات سن کر عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئی اور کہا کہ تم بہت تنگ دست شخص ہو اور رسول اللہﷺ نے ہم کو صدقہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لہٰذا آپ ان کے پاس جائیں اور پوچھیں کہ اگر آپ ﷺ مجھ کو اجازت دیں تو میں آپ کے سوا کسی اور کو نہ دوں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا۔ ’’تم خود ہی جاؤ۔‘‘

چنانچہ میں خود ہی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت انصار کی ایک عورت مجھ سے پہلے ہی آپﷺ کے دروازہ پر کھڑی تھیں۔ ان کی ضرورت بھی وہی تھی جو میری تھی۔ رسول اللہﷺ اس وقت پردہ میں تھے۔ سیدنا بلالؓ باہر تشریف لائے ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ کو خبر کر دیں کہ دو عورتیں دروازہ پر کھڑی ہیں اور وہ اپنے شوہروں پر صدقہ کرنے کے لیے اجازت طلب کرتی ہیں اور ان یتیموں کے لیے بھی جو ان کی زیر نگرانی ہیں لیکن آپﷺ کو بتانا نہیں کہ ہم کون ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ سیدنا بلالؓ رسول اللہﷺ کے پاس اندر گئے اور آپ ﷺ سے اجازت کے بارے میں دریافت کیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:۔ ’’وہ دو عورتیں کون ہیں؟‘‘

انہوں نے عرض کیا:’’ایک تو انصار کی ایک عورت ہے اور دوسری زینبؓ ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے پوچھا:’’کون زینب؟‘‘

انہوں نے عرض کیا:’’عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا:’’ان کے لئے دو اجر ہیں۔ ایک تو قرابت کا اجر اور دوسرا صدقہ کا اجر۔‘‘

حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کے وقت حضور ﷺ نے حضرت بلالؓ کو بلا کر فرمایا:

’’اے بلال ! تم کس عمل کی وجہ سے مجھ سے پہلے جنت میں چلے گئے؟ آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے آگے تمہارے چلنے کی آہٹ سنی۔‘‘

انہوں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! جب بھی مجھ سے گناہ ہو جاتا ہے تو میں فوراً دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر کے دو رکعت نفل (تحیۃ الوضو) پڑھتا ہوں‘‘

حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سردی کی ایک رات میں صبح کی اذان دی لیکن کوئی آدمی نہ آیا۔ میں نے پھر اذان دی لیکن پھر بھی کوئی نہ آیا اس پر حضورﷺ نے فرمایا:

’’اے بلال ! لوگوں کو کیا ہوا؟‘‘

میں نے عرض کیا۔ ’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں سردی بہت زیادہ ہے اس وجہ سے لوگ ہمت نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

اس پر حضورﷺ نے یہ دعا فرمائی:’’اے اللہ! لوگوں سے سردی دور کر دے۔‘‘

حضرت بلالؓ کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ لوگ صبح کی نماز میں اور اشراق کی نماز میں بڑے آرام سے آ رہے ہیں۔ انہیں سردی محسوس نہیں ہو رہی بلکہ کچھ لوگ تو پنکھا کرتے ہوئے آ رہے تھے۔

جب حضرت بلالؓ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت سعد بن خثیمہؓ کے مہمان ہوئے۔ وہاں حضورﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایا تو حضرت بلالؓ کو حضرت ابورویحہ(عبداللہ بن عبدالرحمن) کا بھائی بنا دیا۔ اس مواخات کی وجہ سے دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے عظیم جذبات پیدا ہو گئے۔

عہد فاروقی میں حضرت بلالؓ نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ ’’بلال !تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟‘‘

حضرت بلالؓ نے عرض کیا:’’میرا وظیفہ ابورویحہؓ نے وصول کریں گے کیونکہ حضورﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کیا ہے وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا‘‘

حضرت سالمؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شاعر نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے حضرت بلال بن عبداللہ کی تعریف میں یہ شعر کہا:

’’عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے بلال بہترین بلال ہیں۔‘‘

جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یہ شعر سنا تو فرمایا:

’’تو جھوٹ بولتا ہے، بلکہ رسول اللہﷺ کے بلال بہترین بلال ہیں‘‘

حضرت اسلمؓ کہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ نے پوچھا:

’’اے اسلم! تم لوگوں نے حضرت عمرؓ کو کیسا پایا؟‘‘

میں نے کہا:’’بہت اچھا پایا لیکن انہیں جب غصہ آ جاتا ہے تو پھر مسئلہ بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

حضرت بلالؓ نے فرمایا۔ ’’آئندہ اگر تمہاری موجودگی میں حضرت عمرؓ کو غصہ آ جائے تو تم ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگ جانا انشاء اللہ ان کا غصہ چلا جائے گا۔‘‘

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے خیبر اور مدینہ کے درمیان حضرت صفیہؓ  کے ساتھ تین راتیں گزاریں اور میں نے آپ ﷺ کے ولیمہ کے لیے لوگوں کو بلایااس ولیمہ میں نہ روٹی تھی نہ گوشت۔ بلکہ آپ ﷺ کا ولیمہ یوں ہوا کہ حضورﷺ کے ارشاد پر حضرت بلالؓ نے چمڑے کے دسترخوان بچھائے اور ان پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ حضرت صفیہؓ  ام المومنین ہیں یا باندی؟

اس پر لوگوں نے کہا اگر حضورﷺ نے انہیں پردہ کرایا تو پھر یہ ام المومنین ہیں اور اگر پردہ نہ کرایا تو پھر یہ حضورﷺ کی باندی ہیں۔ جب آپ وہاں سے چلنے لگے تو آپ ﷺ نے حضرت صفیہؓ  کے لیے اپنے پیچھے کچھ بچھا کر نرم جگہ بنائی اور پردہ لٹکایا۔

ایک مرتبہ آقائے دو عالم حضرت محمدﷺ نے حضرت بلالؓ کو کھانے کی دعوت دی۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا:’’میں روزہ سے ہوں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں محفوظ ہو گیا۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے بلال ! کیا تمہیں علم ہے کہ جب تک روزہ دار کے پاس کھایا جاتا رہے اس کی ہڈیاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔‘‘

سیدنا بلالؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم پر رات کا قیام واجب ہے، کیونکہ صالحین کی سرکاردو عالم ﷺ سے پہلے یہ عادت تھی اور رات کا قیام اللہ کے دربار میں قربت کا باعث ہے، گناہوں سے روکتا ہے، برائیوں کو ختم کرنے والا ہے اور بدن کو بیماری سے پاک کرنے والا ہے۔ یہ دراصل سب نماز تہجد کی فضلیت ہے۔

سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سفینہؓ کو جو رسول اللہﷺ کے غلام تھے۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ حاکم یمن کے پاس ایک خط دے کر بھیجا۔ جب وہ جا رہے تھے راہ کے درمیان ایک شیر بیٹھا ہوا تھا۔ شیر کو اس طرح راہ کے درمیان بیٹھا ہوا دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گئے کہ شیر حملہ آور ہو گا۔ بعض روایات میں ہے کہ شیر بھوکا تھا۔ سیدنا سفینہؓ نے اس کی طرف کھڑے ہو کر کہا کہ میں رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں اور آپ ﷺ کی طرف سے ایک خط لے کر سیدنا معاذ بن جبلؓ کی طرف یمن جا رہا ہوں۔ شیر رسول اللہﷺ کا نام سن کر کھڑا ہو گیا۔ غراتا ہوا دبے پاؤں چلا پھر دھاڑا پھر دھاڑا اور راستہ سے ایک طرف ہو گیا۔ سیدنا سفینہؓ سیدنا معاذ بن جبلؓ کی طرف خط لے کر چلے گئے۔

جب وہ جواب لے کر واپس لوٹے تو دیکھا کہ وہ شیر اسی طرح راستہ میں بیٹھا ہوا تھا وہ پھر خوف زدہ ہو گئے کہ مبادا حملہ آور ہو۔ انہوں نے پھر شیر کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’میں رسول اللہﷺ کا صحابی ہوں اور میں رسول اللہﷺ کے خط کا جواب سیدنا معاذ بن جبلؓ سے لے کرواپس مدینہ جا رہا ہوں۔‘‘

پھر آپ نے اس خط کا جواب شیر کو دکھایا اور کہا یہ اس خط کا جواب ہے۔ شیر پھر کھڑا ہو گیا اور ایک دھاڑ ماری اور پھر راستہ سے ایک طرف ہو گیا۔ جب وہ صحابی سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپﷺ کو یہ سب ماجرا سنایا۔ سرکاردوعالمﷺ نے فرمایا:

’’جانتے ہو کہ اس شیر نے پہلی مرتبہ کیا کہا، وہ شیر کہتا تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علیؓ کیسے ہیں؟ اور تمہاری واپسی پر یہ کہتا تھا کہ میری طرف سے ابوبکر، عثمان، علی، سلمان، صہیب اور بلالؓ کو سلام عرض کرنا۔‘‘

ایک مرتبہ شاہ حبشہ نجاشی نے رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں تین نیزے تحفہ کے طور پر بھیجے۔ آپﷺ نے ان میں ایک نیزہ سیدنا علیؓ کو مرحمت فرمایا اور ایک سیدنا عمرؓ کو عطا فرمایا اور ایک اپنے پاس رکھا۔ سیدنا بلالؓ عیدین کی نماز کے لیے عیدگاہ جاتے ہوئے آپﷺ کا یہ نیزہ ہاتھ میں لے کر آپﷺ کے آگے چلتے اور عیدگاہ میں پہنچ کر وہ نیزہ آپﷺ کی جائے نماز کے آگے گاڑ دیتے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کو سترہ بنا کر نماز عید پڑھاتے۔ سیدنا ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں بھی سیدنا بلالؓ کا یہی معمول رہا۔ خلافت صدیقی کے بعد سیدنا بلالؓ شام تشریف لے گئے لہٰذا ان کے بعد سیدنا سعد القرطؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے آگے نیزہ لے کر چلتے تھے۔

مہاجرین گرم خشک علاقے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ کی مرطوب آب و ہوا میں آئے تو انہیں مختلف قسم کے بخاروں نے آ گھیرا یہاں کا بخار۔ ’’حمی یثرب‘‘ پہلے ہی پورے عرب میں مشہور تھا چنانچہ مدینہ پہنچ کر کئی صحابہ کرامؓ  بخار میں مبتلا ہو گئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو نہایت تیز بخار ہو گیا۔ سیدنا بلالؓ اگرچہ حبش کے گرم علاقہ کے رہنے والے تھے لیکن ان کی عمر کا ایک اچھا خاصا حصہ بلکہ ایک روایت کے مطابق پوری زندگی مکہ کی وادیوں اور گلیوں میں گزری تھی چنانچہ وہ بھی سخت بخار میں مبتلا ہو گئے۔

سیدہ عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ابوبکرؓ اور بلالؓ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ میں ان کے پاس رسول اللہﷺ کی اجازت سے گئی۔ وہ ایک گھر میں مقیم تھے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والد ابوبکرؓ اور بلالؓ سے مخاطب ہو کر:

’’اے والد ماجد اور بلال! یہ حال کیسے ہو گیا۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ بخار میں سخت مبتلا تھے۔ اسی حالت میں فرمایا:

کل امریء مصبح فی اھلہ

الموت ادنی من شراک نعلہ

’’ہر شخص اپنے گھر میں صبح منا رہا ہوتا ہے اور موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی قریب ہوتی ہے۔‘‘

سیدنا بلالؓ بھی بخار میں مبتلا تھے۔ بخار میں کچھ کمی ہوتی تو مکان کے صحن میں لیٹ جاتے اور مکہ مکرمہ کے شوق میں یہ پڑھتے:

الالیست شعری ھل ابیتن لیلتہ

بواد حولی اذخرو جلیل

’’اے کاش! کیا میں کبھی اس وادی میں رات گزاروں گا جہاں میرے اردگرد اذخر اور جلیل (مکہ مکرمہ کی گھاس کی بعض قسمیں ہیں) ہوں۔‘‘

وھل اردن یوما میاہ مجنتہ

وھل یبدن لی شامتہ وطفیل

’’کیا میں کسی روز مجنہ کے چشموں پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل (مقامات) مجھے دکھائی دیں گے۔‘‘

سیدنا بلالؓ یہ بھی فرماتے۔ ’’اے اللہ! شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت فرما جنہوں نے اپنے وطن سے نکال دیا ہے‘‘

گویا کہ آپ کو مکہ مکرمہ بار بار یاد آتا اور اس کی یاد میں روتے اور شعر پڑھتے تھے کیونکہ آتے ہی انہیں مختلف تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ بیماری کے دوران انہیں مکہ مکرمہ کی چیزیں اور اس کے عمدہ عمدہ مقامات چشم تصو ر میں نظر آتے ہیں اور آپ انہیں یاد کر کے روتے اور ان کی یاد میں شعر پڑھتے کیونکہ آپ نے وہاں اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصہ گزارا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فہیرہؓ بھی بخار میں مبتلا ہو کر مختلف اشعار پڑھ پڑھ کر اس کی وادیوں کو یاد کرتے تھے۔

سیدہ عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ میں ابوبکرؓ اور سیدنا بلالؓ وغیرہ کے بخار کو دیکھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور ان لوگوں کی بیماری کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اول تو ان کی عیادت فرمائی اور پھر دعا فرمائی:

’’اے اللہ! ہمیں مدینہ بھی ایسا محبوب بنا دے کہ جیسا مکہ محبوب تھا یا مکہ سے بھی زیادہ ہمیں مدینہ کی محبت عطا فرما، اے اللہ ! مدینہ کے صاع اور مد میں ہمارے لیے برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے اس کی آب و ہوا کو خوش گوار اور صحت بخش بنا دے اور اس بخار کو یہاں سے منتقل کر کے حجفہ پہنچا دے۔‘‘

نبوت کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ حق تعالیٰ شانہ نے خالی واپس نہیں لوٹائے۔ آپﷺ کی دعا قبول ہوئی اور مدینہ منورہ کی آب و ہوا نہایت خوشگوار اور صحت مند ہو گئی اور آج تک ویسی ہی ہے۔

سیدنا بلالؓ اگر کسی روز مدینہ منورہ میں موجود نہ ہوتے تو سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ ان کی نیابت کے طور پر مسجد نبوی میں اذان کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ صبح کی اذان عموماً کچھ دیر سے دیتے یعنی صبح صادق سے قبل دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صبح کے وقت اکثر و بیشتر دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان سیدنا بلالؓ دیتے تھے، اور دوسری اذان سیدنا عبداللہ بن ام مکتومؓ دیتے تھے۔ چونکہ وہ نابینا تھے اس لیے ان کو وقت سے آشنائی نہ ہوئی تھی۔ جب لوگ ان سے کہتے کہ صبح ہو چکی ہے تو اٹھ کر صدائے توحید بلند فرماتے۔

اسی وجہ سے رمضان المبارک میں بھی سیدنا بلالؓ کی اذان کے بعد کھانا پینا جائز تھا کیونکہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ بلالؓ کی اذان صرف اس لیے ہے کہ جو لوگ رات بھر عبادت الٰہی میں مصروف رہے ہیں۔ وہ اب کچھ دیر آرام اور استراحت کر لیں اور جو تمام رات خواب راحت میں سرشار رہے ہیں، وہ بیدار ہو کر سحری کھالیں اور نماز صبح کی تیاری کریں لیکن وہ صبح کا وقت نہ ہوتا تھا بلکہ کچھ رات باقی رہتی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

(ان بلالا یوذن بلیل فکلو واشربوا حتی یوذن ابن ام مکتوم)

بلالؓ اس وقت اذان دیتے ہیں جبکہ ابھی کچھ رات باقی ہوتی ہے۔ پس تم اس وقت تک کھا پی لیا کرو جب تک کہ ابن مکتوم اذان نہ دیا کریں۔

سیدنا بلالؓ نہ صرف حضر میں رسول اللہﷺ کے موذن تھے بلکہ حالت سفر میں بھی یہ رسول اللہﷺ کے محافظ اور موذن ہوتے تھے۔

ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہﷺ کو مقام ’’ابطح‘‘ میں دیکھا، حضرت بلالؓ آپﷺ کی خدمت پر مامور تھے۔ اتنے میں حضرت بلالؓ آئے اور نیزہ لے کر آپﷺ کے سامنے چلنے لگے حتیٰ کہ ایک جگہ پر اس نیزے کو رسول اللہﷺ کے سامنے گاڑ دیا اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔

غزوہ خیبر کی فتح کے بعد رسول اللہﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ ﷺ نے اخیر شب میں آرام و استراحت کی خاطر ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ پڑاؤ آپ نے صحابہ کرامؓ  کی خواہش پر ڈالا۔ صحابہ کرامؓ  کی عرضداشت کو شرف قبولیت عطا فرماتے وقت آپ ﷺ نے فرمایا تھا:

’’مجھے اندیشہ ہے کہ نیند تم کو نماز سے غافل کر دے گی۔‘‘

سیدنا بلالؓ کو اپنی شب بیداری پر اعتماد تھا۔ لہٰذا انہوں نے ذمہ لیا کہ وہ سب کو بیدار کر دیں گے۔ سیدنا بلالؓ کے اس اعتماد پر سب لوگ مشغول استراحت ہو گئے۔ سیدنا بلالؓ نے مزید احتیاط کے خیال سے شب زندہ داری کا ارادہ کر لیا اور رات بھر اپنے کجاوے پر ٹیک لگائے بیٹھے رہے لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اس حالت میں نیند نے ان پر غلبہ پا لیا اور ان کی آنکھ لگ گئی، اور ایسی غفلت طاری ہوئی کہ طلوع آفتاب تک کوئی بھی بیدار نہ ہوا۔

رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے بیدار ہو کر سب سے ان کو آواز دی اور فرمایا:

’’بلال تمہاری ذمہ داری کیا ہوئی؟‘‘

عرض کی :’’یا رسول اللہ ﷺ ! آج کچھ ایسی غفلت طاری ہوئی کہ اس سے قبل مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا۔‘‘

اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا :

’’بیشک اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو قبض کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کو تم پر واپس کر دیتا ہے۔‘‘

’’اچھا بلال اٹھو اور اذان دو اور لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرو‘‘

بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ سب سے پہلے گھبرا کر اٹھے۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کو بیدار کیا اور اس وادی سے کوچ کر نے کا حکم فرمایا کہ یہاں شیطان ہے۔ اس وادی سے نکل کر آپ ﷺ نے آگے نزول فرمایا اور سیدنا بلالؓ کو اذان کا حکم دیا۔ وضو کر کے پہلے دو رکعت سنتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلالؓ کو اقامت کے لیے فرمایا اور جماعت کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔

 

 

حیاتِ بلالؓ واقعات کے آئینے میں

 

حضرت براہ بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سب سے پہلے ہجرت کر کے ہمارے پاس مدینہ میں حضرت مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن ام مکتوم تشریف لائے۔وہ دونوں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ پھر بلال بن ابی رباح، حضرت سعد اور حضرت عمار بن یاسرؓ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ پھر حضرت عمر فاروقؓ بیس صحابہ کرامؓ کے ساتھ مدینہ تشریف لائے۔ پھر آقائے نامدار حضرت محمدﷺ تشریف لائے۔ اس دن اہل مدینہ کی خوشی اس قدر عیاں اور بے خود تھی کہ مدینہ والوں کو کسی دن اس سے زیادہ خوش نہیں دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ بچیوں کی زبان پر بھی یہ تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت بلالؓ ان صحابہ کرامؓ  میں سے ہیں جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے میں پیش قدمی سے کام لیا تھا۔

بنو نجار کی ایک عورت کہتی ہیں کہ مسجد کے اردگرد کے گھروں میں میرا گھر سب سے اونچا تھا۔ حضرت بلالؓ روزانہ صبح کو فجر کی اذان میرے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر دیا کرتے تھے۔ سحری کے وقت آ کر چھت پر بیٹھ کر صبح صادق کا انتظار کرتے۔ جب صبح صادق نظر آتی تو انگڑائی لیتے پھر یہ دعا پڑھتے:

’’اللھم احمدک و استعینک علی قریش ان یقیمو دینک‘‘

’’اے اللہ!میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش کے لیے تجھ سے مدد مانگتا ہوں تاکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔‘‘

پھر وہ اذان دیتے مجھے بالکل یاد نہیں کہ کسی رات حضرت بلالؓ نے یہ دعائیہ کلمات (اذان سے پہلے) چھوڑے ہوں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں اگرچہ کسی منارہ کا باقاعدہ انتظام نہ تھا لیکن سیدنا بلالؓ دوسروں کے مکان پر چڑھ کر اذان دیتے رہے۔

رسول اللہﷺ کے پاس جب بھی کوئی مہمان آتا آپ اس کو سیدنا بلالؓ کے پاس کھانا کھانے یا کپڑا وغیرہ لینے کے لیے بھیج دیتے۔ بیت المال اکثر  و بیشتر خالی ہوتا، لیکن پھر بھی آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی ضرورت مند اور حاجت مند کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ سیدنا بلالؓ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حاجت مند کو بازار لے جاتے۔ ادھار پر اس کو ضرورت کی اشیاء دلاتے اور بعد میں رسول اللہﷺ کے پاس اضافی رقم آنے پر ادھار لوٹا دیتے۔ سرکاردوعالمﷺ کی عادت تھی کہ مال کی صورت میں آپﷺ کے پاس جو کچھ بھی آتا آپ ﷺ اسے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ حضرت بلالؓ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ان کے پاس کھجور کے چند ڈھیر ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا۔ ’’اے بلال یہ کیا ہے؟‘‘

انہوں نے عرض کیا: ’’آپ ﷺ کے مہمانوں کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔‘‘

حضرت بلالؓ کا منشا یہ تھا کہ جب بھی وہ آئیں تو ان کے کھلانے کا سامان پہلے سے موجود ہو۔

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا تمہیں اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ دوزخ کا آگ کا دھواں تم تک پہنچ جائے؟‘‘ (یعنی اگر تم ان کے خرچ کرنے سے پہلے ہی مر گئے تو پھر ان کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا) اے بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے کمی کا ڈر نہ رکھو۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عیدالفطر کی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی پڑھی اور سیدناابوبکرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے ساتھ بھی ادا کی۔ یہ سب حضرات پہلے نماز پڑھایا کرتے تھے اور بعد میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ میں گویا اس وقت بھی چشم تصور میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ سرکار دو عالم ﷺ منبر سے اتر رہے ہیں اور اپنے دست مبارک کے اشارے سے لوگوں کو اٹھا رہے ہیں۔ پھر آپ ﷺ صفوں کو چیرتے ہوئے عورتوں کے گروہ تک پہنچ گئے ہیں۔ آپ ﷺ اس وقت سیدنا بلالؓ کی معیت میں ہیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں کے پاس جا کر سورۃ الممتحنہ کی مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں جن کا ترجمہ یہ ہے :

’’اے نبی ! جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں حاضر ہوں تو وہ آپﷺ سے اس پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے کوئی بہتان گھڑیں گی اور نہ دستور کے مطابق کسی کام میں آپﷺ کی نافرمانی کریں گی تو آپ ان کی بیعت کر لیا کریں اور آپ ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس کے بعد آپﷺ نے عورتوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:’’کیا تم اس عہد پر قائم ہو؟‘‘

اس کے جواب میں صرف ایک عورت نے جس کو آپﷺ نے اس وقت شناخت نہیں فرمایا تھا یہ کہا۔ ’’ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اس پر قائم ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:۔ ’’اگر ایسا ہے تو پھر صدقہ دو۔‘‘ سیدنا بلالؓ نے کپڑا بچھا دیا اور کہنا شروع کیا :’’میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں، لاؤ۔‘‘

عورتوں نے سیدنا بلالؓ کے کپڑے میں بغیر نگینہ کے بڑی انگوٹھیاں اور معمولی انگوٹھیاں ڈالنی شروع کیں۔

حضرت عبداللہ ہوزنی ؒ کہتے ہیں حضورﷺ کے موذن حضرت بلالؓ حلب میں میری ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا۔ ’’اے بلال ! آپ ذرا مجھے یہ بتائیں کہ حضورﷺ کے اخراجات کی کیا صورت تھی؟‘‘

انہوں نے فرمایا حضور ﷺ کے پاس کچھ ہوتا تو تھا نہیں۔ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت سے لے کر آپ ﷺ کی وفات تک یہ خدمت میرے سپرد رہی جس کی صورت یہ تھی کہ جب کوئی مسلمان آپ ﷺ کے پاس آتا اور آپ ﷺ اسے ضرورت مند سمجھتے تو آپ ﷺ اس کی مدد کا حکم فرما دیتے، میں جا کر کہیں لے کر چادر اور کھانے کی کوئی چیز خرید لاتا اور چادر اسے پہنا دیتا اور کھانا کھلا دیتا۔

ایک مرتبہ ایک مشرک مجھے سامنے سے آتا ہوا ملا۔ اس نے کہا۔ ’’اے بلال ! مجھے خوب وسعت حاصل ہے۔ تم کسی سے قرض نہ لیا کرو۔ جب ضرورت ہو تو مجھ سے ہی لیا کرو۔‘‘

اس کے بعد میں نے اسی سے قرض لینا شروع کر دیا۔ ایک دن میں وضو کر کے اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا ہی تھا کہ وہ مشرک تاجروں کی ایک جماعت کے ساتھ آیا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔ ’’او حبشی۔‘‘ میں نے کہا میں حاضر ہوں (کیا کہتے ہو؟)وہ بڑی ترش روئی کے ساتھ پیش آیا اور بہت برا بھلا کہنے لگا اور کہنے لگا۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’عنقریب ختم ہونے والا ہے۔‘‘

اس نے کہا۔ ’’چار دن باقی ہیں۔ اگر تو نے اس مدت میں قرضہ ادا نہ کیا تو میں تجھے اس کے عوض غلام بنا لوں گا۔ میں نے تم کو یہ قرضہ جو دیا ہے وہ تمہاری یا تمہارے ساتھی کی بزرگی کی وجہ سے نہیں دیا ہے بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم میرے غلام بن جاؤ پھر تم پہلے جس طرح بکریاں چرایا کرتے تھے اسی طرح تمہیں بکریاں چرانے میں لگا دوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا اور ایسی باتیں سن کر لوگوں کے دلوں میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ سب میرے دل میں بھی پیدا ہوئے۔ پھر میں نے جا کر اذان دی۔ جب میں عشاء کی نماز پڑھ چکا اور حضورﷺ بھی اپنے گھر تشریف لے گئے تو میں نے اندر حاضر ہونے کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ میں نے اندر جا کر عرض، کیا۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں جس مشرک کا میں نے آپ ﷺ سے تذکرہ کیا تھا کہ میں اس سے قرضہ لیتا رہتا ہوں آج اس نے آ کر مجھے بہت برا بھلا کہا ہے اور نہ آپ ﷺ کے پاس اس قرضے کی ادائیگی کا فوری انتظام ہے اور نہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھے ضرور رسوا کرے گا اس لیے آپ ﷺ مجھے اجازت دے دیں میں ان مسلمان قبیلوں میں سے کسی قبیلہ میں چلا جاتا ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ کو اتنا دے دیں گے جس سے میرا یہ قرضہ ادا ہو سکے تو پھر میں آ جاؤں گا۔‘‘

یہ عرض کر کے میں اپنے گھر آیا اور اپنی تلوار، تھیلا، نیزہ اور جوتی اپنے سرہانے رکھ کر مشرق کی طرف منہ کر کے صبح کے انتظار میں لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر نیند آتی پھر فکر کی وجہ سے میری آنکھ کھل جاتی لیکن جب میں دیکھتا کہ ابھی رات باقی ہے تو میں دوبارہ سو جاتا۔ جب صبح کاذب ہو گئی تو میں نے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اتنے میں ایک صاحب نے آ کر آواز دی۔ ’’اے بلال! حضورﷺ کی خدمت میں جلدی چلو۔‘‘

میں فوراً چل پڑا وہاں پہنچ کر دیکھا کہ چار اونٹنیاں سامان سے لدی ہوئی بیٹھی ہوئی ہیں۔ میں نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضری کی اجازت مانگی تو حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ ’’خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہارے قرضہ کی ادائیگی کا انتظام کر دیا ہے۔‘‘

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

’’کیا تمہارا گزر بیٹھی ہوئی چار اونٹنیوں پر نہیں ہوا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’جی ہوا ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’وہ سامان سمیت تمہارے حوالے ہیں تم یہ لے لو اور اپنا قرضہ ادا کر لو۔‘‘

میں نے دیکھا تو ان پر کپڑے اور غلہ لدا ہوا تھا جو فدک کے رئیس نے حضورﷺ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا چنانچہ میں نے وہ اونٹنیاں لیں اور ان کا سارا سامان اتارا اور ان کے سامنے چارہ ڈالا۔ پھر میں نے فجر کی اذان دی۔ جب حضورﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میں بقیع چلا گیا اور وہاں جا کر دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر بلند آواز سے یہ اعلان کیا کہ جس کا بھی اللہ کے رسولﷺ کے ذمہ قرضہ ہے وہ آ جائے۔ چنانچہ وہ کپڑے اور غلہ خریداروں کے سامنے پیش کرتا اور اسے بیچ کر قرضہ ادا کرتا رہا۔ یہاں تک کہ حضورﷺ پر روئے زمین پر کچھ بھی قرضہ باقی نہ رہا بلکہ دو یا ڈیڑھ اوقیہ چاندی بچ گئی۔ یعنی اسی یا ساٹھ درہم۔

اسی میں دن کا اکثر حصہ گزر چکا تھا پھر میں مسجد میں گیا تو آپ وہاں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا:

’’جو کام تمہارے ذمہ تھا۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘

میں نے عرض کیا:’’اللہ کے رسولﷺ کے ذمہ جتنا قرض تھا وہ سب اللہ نے اتروا دیا اب کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اس میں سے کچھ بچا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’جی ہاں دو دینار بچے ہیں۔‘‘

قرض ادا کرنے کے بعد دو یا ڈیڑھ اوقیہ چاندی بچی تھی لیکن وہاں سے مسجد آتے آتے حضرت بلالؓ لوگوں کو دیتے چلے آئے ہوں گے اس لیے جب مسجد میں پہنچے تو صرف دو دینار باقی رہ گئے۔

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’انہیں بھی تقسیم کر دو تاکہ مجھے راحت حاصل ہو جب تک تم انہیں خرچ کر کے مجھے راحت نہیں پہنچا دیتے میں اس وقت تک اپنے کسی گھر میں نہیں جاؤں گا۔‘‘

چنانچہ اس دن ہمارے پاس کوئی نہیں آیا (اور وہ خرچ نہ ہوسکے) تو حضورﷺ نے وہ رات مسجد میں گزاری اور اگلا دن بھی سارا مسجد میں ہی گزرا شام کو دو حاجت مند سوار آئے۔ میں ان دونوں کو لے گیا اور ان دونوں کو کپڑے پہنائے اور غلہ بھی دیا۔ جب آپ ﷺ عشاء سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’جو تمہارے پاس بچا تھا اس کا کیا بنا؟‘‘

میں نے عرض کیا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے خرچ کرنے کی صورت بنا کر آپ ﷺ کی راحت کی صورت پیدا کر دی ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا اللہ اکبر اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ آپ ﷺ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ کا وصال ہو جائے، اور یہ بچا ہوا سامان آپ ﷺ کے پاس ہی ہو۔ پھر وہاں سے آپ ﷺ چلے اور میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا۔ آپ ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات g میں سے ایک ایک اہلیہ محترمہ کے پاس گئے اور ہر ایک کو الگ الگ سلام کیا اور پھر جس گھر میں رات گزارنی تھی وہاں تشریف لے گئے یہ تھی حضورﷺ کے خرچ اخراجات کی صورت جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔

ایک مرتبہ حضرت ابوسفیان حضرت سلیمان حضرت صہیب اور حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرے۔ یہ حضرات صحابہؓ  کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان حضرات نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا۔ ’’اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن میں اپنی جگہ ابھی تک نہیں بنائی۔‘‘(یعنی ابھی تک حضرت ابوسفیان کو قتل کیوں نہیں کیا گیا؟)حضرت ابوبکرؓ نے ان کی یہ بات سنی تو ان حضرات سے کہا۔ ’’تم لوگ یہ بات قریش کے بزرگ اور ان کے سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو؟‘‘

اور پھر حضورﷺ کی خدمت میں آ کر حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات بتائی۔

حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید تم نے یہ بات کہہ کر ان کو غصہ دلایا ہے اگر تم نے ان کو غصہ دلایا تو پھر تم نے اپنے رب کو غصہ دلایا ہے۔‘‘

حضرت ابوبکرؓ ان حضرات کے پاس آئے اور ان سے پوچھا۔ ’’اے بھائیو! کیا میں نے تم کو غصہ دلایا ہے؟‘‘

ان حضرات نے فرمایا۔ ’’نہیں اے بھائی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔‘‘

علامہ نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد امن کے زمانے کا واقعہ ہے اس وقت تک حضرت ابوسفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔

حضرت عبداللہ مسعودؓ فرماتے ہیں کہ قریش کے چند سردار حضورﷺ کے پاس سے گزرے۔ اس وقت حضورﷺ کے پاس حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت خباب اور حضرت عمارؓ اور ان جیسے کچھ اور کمزور و شکستہ حال مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سرداروں نے کہا:

’’یارسول اللہ ﷺ (از راہ مذاق حضورﷺ کو ’’یا رسول اللہ‘‘ کہہ کر پکارا) کیا آپﷺ کو اپنی قوم میں سے یہی لوگ پسند آئے۔ کیا ہمیں ان لوگوں کے تابع بن کر چلنا پڑے گا۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے احسان فرمایا ہے؟ آپ ﷺ ان لوگوں کو دور کر دیں تو پھر شاید ہم آپ ﷺ کا اتباع کر لیں۔‘‘

ان کی اس فضول گوئی پر فقیر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور کفار کو تنبیہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

ترجمہ:۔ ’’اور اس قرآن کے ذریعہ سے ان لوگوں کو ڈرایئے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی شفیع ہو گا اس امید پر کہ وہ ڈر جاویں اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں جس سے خاص اس کی رضا ہی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں ورنہ آپ نامناسب کام کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

حضرت خباب بن ارتؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ اقرع بن حابس تمیمی اور عینیہ بن حصن فرازی نبی پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حضورﷺ کو حضرت عمار، حضرت بلال، حضرت خباب بن ارتؓ اور دوسرے کمزور و نادار مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پایا۔ ان دونوں کو یہ لوگ حقیر نظر آئے اس لیے دونوں نے حضورﷺ کو الگ لے کر تنہائی میں یہ کہا کہ آپ ﷺ کے پاس عرب کے وفود آتے ہیں لیکن ہمیں اس بات سے شرم آ رہی ہے کہ (ہم لوگ بڑے آدمی ہیں) ہمیں جب عرب کے لوگ ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھیں گے تو کیا کہیں گے اس لیے جب ہم آپ ﷺ کے پاس آیا کریں تو آپ ﷺ انہیں اٹھا کر بھیج دیا کریں۔ آپ ﷺ نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔‘‘

پھر ان دونوں نے کہا آپ ہمیں یہ بات لکھ کر دے دیں۔ آپ نے ایک کاغذ منگوایا اور لکھنے کے لیے حضرت علیؓ کو بلایا ہم لوگ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں جبرائیلؑ یہ آیتیں لے کر آ گئے:

ترجمہ:۔ ’’اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں جس سے خاص اس کی رضا ہی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں ورنہ آپ نامناسب کام کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے، اور اسی طور پر ہم نے ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم میں سے ان پر اللہ نے فضل کیا ہے کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ حق شناسوں کو خوب جانتا ہے اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو یوں کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے۔‘‘

اس پر آپ ﷺ نے وہ کاغذ پھینک دیا اور ہمیں بلا لیا۔ ہم آپ ﷺ کے پاس گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: السلام علیکم۔ پھر ہم حضورﷺ کے اتنے قریب ہوئے کہ ہمارے گھٹنے حضورﷺ کے گھٹنوں سے جا ملے اور پھر حضورﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے اور اٹھنا چاہتے تو ہمیں یونہی بیٹھا ہوا چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

ترجمہ:۔ ’’اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھا کیجئے جو صبح و شام اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہیں اور دنیوی زندگانی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں(یعنی توجہات) ان سے نہ ہٹنے پائیں۔‘‘

اس کے بعد ہم لوگ حضورﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے اور جب حضورﷺ کے اٹھ کر جانے کا وقت آ جاتا تو ہم حضورﷺ کو بیٹھا ہوا چھوڑ کر کھڑے ہو جاتے اور جب تک ہم کھڑے نہ ہوتے آپ ﷺ بیٹھے ہی رہتے۔

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن ؒ کہتے ہیں کہ قیس بن مطاطیہ ایک حلقہ کے پاس آیا اس حلقہ میں حضرت سلمان فارسی، حضرت صہیب رومی اور حضرت بلال حبشیؓ  تشریف فرما تھے۔ قیس نے کہا۔ ’’یہ اوس و خزرج عرب ہیں اور بڑے لوگ ہیں) یہ اس آدمی کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے ہیں (یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے) لیکن (عجمی غریب و فقیر) بے حیثیت لوگوں کو کیا ہوا ؟ (کیا یہ بھی مدد کے لیے کھڑے ہو گئے ان کی مدد سے فائدہ کیا؟)

حضرت معاذؓ نے کھڑے ہو کر قیس کا گریبان پکڑا اور اسے حضورﷺ کی خدمت میں لے گئے اور جا کر حضورﷺ کو اس کی بات بتائی۔ اس پر حضورﷺ غصہ میں (جلدی کی وجہ سے) چادر گھسیٹتے ہوئے کھڑے ہوئے اور مسجد میں تشریف لے گئے اور حضورﷺ نے اعلان کے لیے آدمی بھیجا جس نے الصلاۃ جامعۃ کہہ کر لوگوں میں اعلان کیا (لوگ جمع ہو گئے پھر حضورﷺ نے بیان فرمایا) اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

’’اے لوگو ! بے شک رب ایک ہے (یعنی اللہ تعالیٰ) اور باپ بھی ایک ہے (یعنی حضرت آدمؑ) اور دین بھی ایک (یعنی اسلام) غور سے سنو۔ یہ عربیت نہ تمہاری ماں ہے اور نہ تمہارا باپ۔ یہ تو ایک زبان لہٰذا جو بھی عربی زبان میں بات کرنے لگ جائے وہ خود عربی شمار ہو گا۔‘‘

قیس کا گریبان پکڑے ہوئے حضرت معاذؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ اس منافق کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’اسے چھوڑ دو۔ یہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘

چنانچہ حضورﷺ کے انتقال کے بعد قیس مرتد ہو گیا اور اسی حال میں مارا گیا۔

حضرت سعد قرطؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت بھی حضورﷺ قباء تشریف لاتے تو حضرت بلالؓ اذان دیتے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ حضورﷺ تشریف لے آئے ہیں اور لوگ حضورﷺ کے پاس جمع ہو جائیں۔

ایک دن حضورﷺ تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپﷺ کے ساتھ نہیں تھے تو حبشی لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ میں نے ایک درخت پر چڑھ کر اذان دی۔ حضورﷺ نے مجھ سے پوچھا۔ ’’اے سعد! تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

میں نے عرض کیا۔ ’’میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں میں نے دیکھا کہ یہ حبشی لوگ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اس لیے مجھے ان کی طرف سے آپ ﷺ پر حملہ کا خطرہ ہوا اس لیے میں نے اذان دی۔‘‘

حضور ﷺ نے فرمایا۔ ’’تم نے ٹھیک کیا جب تم میرے ساتھ بلالؓ کو نہ دیکھا کرو تو اذان دے دیا کرو۔‘‘

چنانچہ حضرت سعدؓ نے حضورﷺ کی زندگی میں تین مرتبہ اذان دی۔

حضرت بلالؓ صبح کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے حضورﷺ کے پاس آئے۔ حضرت عائشہؓ  ان سے کچھ بات پوچھنے لگ گئیں جس میں دیر ہو گئی اور صبح کی روشنی زیادہ ہو گئی۔ حضرت بلالؓ نے کھڑے ہو کر حضورﷺ کو خبر کی اور مسلسل خبر کرتے رہے لیکن حضورﷺ فوری طور پر باہر تشریف نہ لائے بلکہ تھوڑی دیر کے بعد باہر آئے اور لوگوں کو نماز پڑھائی پھر حضرت بلالؓ نے حضورﷺ کو بتایا کہ حضرت عائشہؓ  مجھ سے کچھ پوچھنے لگ گئی تھیں جس کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی تھی پھر میں نے آپﷺ کو بار بار اطلاع کی لیکن آپ ﷺ فوراً باہر تشریف نہ لائے بلکہ کچھ دیر میں آئے اس کی کیا وجہ ہے؟

حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’میں نے فجر کی دو رکعت سنت پڑھنی تھیں اس وجہ سے مجھے باہر آنے میں دیر ہو گئی۔‘‘

حضرت بلالؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ (آپ ﷺ سنت نہ پڑھتے کیونکہ ) صبح تو بہت زیادہ روشن ہو گئی تھی۔‘‘

حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’اگر صبح اس سے بھی زیادہ روشن ہو جاتی تو بھی میں یہ دو رکعت نماز ضرور پڑھتا اور بہت اچھے اور عمدہ طریقہ سے پڑھتا۔‘‘

۳۰ھ میں نجد کے ایک نہایت طاقتور قبیلے بنو غطفان نے قریش کی کھلم کھلا حمایت کر دی لہٰذا رسول اللہﷺ نے ان کی سرکوبی کا فیصلہ فرمایا۔ اس غزوہ سے واپسی پر راستے میں آپﷺ کی نظر ایک نوجوان انصاری مجاہد سیدنا جابر بن عبداللہؓ پر پڑی جو اپنے کمزور اور نحیف اونٹ کی وجہ سے بار بار قافلے سے پیچھے رہ جاتے۔

رسول اللہﷺ نے جب سیدنا جابرؓ کے اونٹ کی یہ سست رفتاری دیکھی تو آپﷺ نے جابرؓ سے اونٹ خریدنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے عرض کی:۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ ! میں یہ اونٹ فروخت نہیں کروں گا بلکہ آپ ﷺ کو تحفہ میں دیتا ہوں۔‘‘لیکن آپ ﷺ نے اس اونٹ کے خریدنے پر اصرار فرمایا۔

آخرکار آپﷺ نے سیدنا جابرؓ کو ایک اوقیہ سونے کے عوض اونٹ فروخت کرنے پر رضامند کر لیا۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنا اونٹ لے کر کاشانہ نبوت پر حاضر ہوا۔ اونٹ کو آپ ﷺ کے دروازہ کے قریب بٹھا دیا اور خود مسجد نبوی میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب مجھے وہاں بیٹھے کافی دیر ہو گئی تو رسول اللہﷺ کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے اور اپنے دروازہ پر ایک اونٹ کو بیٹھے ہوئے پایا آپﷺ نے لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپﷺ کو بتایا گیا کہ یہ اونٹ جابر بن عبداللہؓ لائے ہیں۔

آپﷺ نے پوچھا جابرؓ خود کہاں ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مسجد میں بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے انہیں مسجد سے بلایا۔ جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا :’’اپنا اونٹ لے جاؤ یہ اب تمہارا ہے۔‘‘

پھر آپﷺ نے سیدنا بلالؓ کو بلوایا اور انہیں مجھے ایک اوقیہ سونا دینے کے لیے فرمایا سیدنا بلالؓ نے ایک اوقیہ سونا سے کچھ زیادہ ہی دیا۔

سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں یہ تحفہ پا کر بہت خوش ہوا۔ رسول اللہﷺ کے اس دیے ہوئے اونٹ کی برکت سے میرے گھریلو معاملات روز بروز بہتر ہو تے چلے گئے۔‘‘

ایک روز سیدنا بلالؓ نے اذان کہی اور کسی کام کے لیے باہر تشریف لے گئے واپسی پر نماز فجر کا وقت ہو چلا تھا کہ آپ ﷺ سیدنا علیؓ کے مکان کے قریب پہنچے تو سیدنا حسینؓ کے رونے کی آواز کانوں میں پڑی۔ اس وقت سیدہ فاطمہؓ  کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ سید نا حسینؓ کو بہلائیں۔ اس طرح آپ کو کچھ دیر کے لیے وہاں رکنا پڑا۔ جب مسجد میں پہنچے تو نماز کی اقامت ہو چکی تھی۔ نماز کے بعد حضورﷺ نے وجہ تاخیر پوچھی اور آپ نے بتائی تو سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا تم نے فاطمہ پر رحم کیا اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔

سیدہ فاطمہؓ  کو سیدنا بلالؓ نے گودوں کھلایا تھا اور مدینہ طیبہ میں بھی ان کے گھر کا کام کاج کر دیا کرتے تھے۔ جب سیدہؓ  کا انتقال ہوا تو سیدنا بلالؓ بہت روئے اور فرمایا کہ آپ کو اپنے بابا جان کے پاس پہنچنے کی کس قدر جلدی تھی۔

مختصر یہ کہ سیدنا بلالؓ کو رسول اللہ ﷺ سے ایک خصوصی قرب حاصل تھا اور وہ یہ کہ کاشانہ نبوت کے منتظم اور آپﷺ کے خادم خاص تھے۔

مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد اگرچہ سیدنا بلالؓ کے معاشی حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ علاوہ ازیں وہ شکل و صورت کے لحاظ سے کوئی اتنے حسین و جمیل نہ تھے پھر مہاجر اور غریب الدیار تھے۔ لہٰذا ابھی تک وہ اپنا گھر نہ بسا سکے کیونکہ ایک مفلس حبشی اور غریب الدیار کو شرفائے عرب میں سے کوئی اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کو تیار نہ تھا۔ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا بلالؓ نے متعدد شادیاں کیں۔ سیدنا بکیرؓ کی صاحبزادی سے خود رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرایا تھا۔ بنو زہرہ اور سیدنا ابو الرداءؓ کے خاندان میں بھی رشتہ قائم ہوا تھا لیکن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔

ایک روایت یہ ہے کہ سیدنا فاروق اعظمؓ جب بیت المقدس کی فتح کے سلسلے میں بیت المقدس گئے تو ان سے سیدنا بلالؓ نے درخواست کی کہ انہیں شام میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ آپ نے ان کی یہ درخواست منظور فرما لی۔ سیدنا بلالؓ نے کہا آپ میرے انصاری بھائی ابووریحہؓ کو بھی اجازت مرحمت فرما دیں۔ سیدنا عمرؓ نے ان کی درخواست بھی منظور فرما لی چنانچہ یہ دونوں حضرات خولان کے ایک محلہ میں فروکش ہوئے۔ سیدنا بلالؓ سیدنا ابوالدرداؓ کے پاس نکاح کی درخواست لے کر گئے اور ان سے جا کر کہا :

’’ہم فقیر تھے اللہ نے ہمیں مال دار کر دیا۔ہم غلام تھے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا، اور اگر تم اپنی لڑکیوں کا نکاح ہمارے ساتھ کر دو تو الحمدللہ اور اگر ہماری درخواست نامنظور کر دو تو لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔‘‘

ابن سعد نے طبقات میں سے ایک روایت حضرت قتادہؓ سے نقل کی ہے کہ سیدنا بلالؓ نے بنو زہرہ کی ایک خاتون سے شادی کی تھی۔

آپ کی ایک بیوی کا تعلق عدی بن کعب کے خاندان سے تھا اور حافظ ابن اقیم ؒ نے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ سیدنا بلالؓ کا نکاح نبی اکرم ﷺ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کی بہن سے خود پڑھایا تھا۔

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ بنی ابی بکیر کے کچھ لوگوں نے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ فلاں شخص سے ہماری بہن کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:’’بلال کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

وہ خاموش رہے اور واپس چلے گئے کچھ دنوں کے بعد دوسری دفعہ پھر آئے اور عرض کی۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! ہماری بہن کا فلاں شخص سے نکاح کر دیں۔‘‘

آپ ﷺ نے پھر فرمایا:’’بلالؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

وہ خاموشی سے واپس چلے گئے پھر تیسری مرتبہ آئے اور عرض کیا:

’’یارسول اللہ ﷺ ! ہماری بہن کا فلاح شخص سے نکاح کر دیں۔‘‘

آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ بلالؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ایک جنتی شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’بلالؓ سے اس کا نکاح کر دو۔‘‘

چنانچہ زید بن اسلمؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بنو ابی بکیر کی بیٹی کا سیدنا بلالؓ سے نکاح کر دیا۔

یمن کے قیام کے دوران ان کے دل میں نکاح کا خیال پیدا ہوا چنانچہ وہ ایک دوشیزہ ہند کے والدین کے پاس گئے اور ان کی بیٹی سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ لڑکی والوں نے پوچھا۔ ’’تم کون ہو اور کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘

انہوں نے کہا۔ ’’میں بلال بن رباحؓ ہوں اور رسول اکرم ﷺ کا ایک صحابی ہوں۔ میں ایک غلام تھا میرے اللہ نے مجھے آزاد کر دیا، میں سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا تھا میرے رب نے مجھے ہدایت دی۔ میں اس وقت آپ سے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگ رہا ہوں۔ اگر آپ ہاں کر دیں تو الحمدللہ اور اگر انکار کریں گے تو اللہ اکبر۔‘‘

ہند کے والدین نے اپنے خاندان کے چند لوگوں کو مدینہ طیبہ بھیجا جنہوں نے رسول اللہﷺ سے اس رشتہ کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا۔ ’’تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سے کم خیال کرو؟‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اس بات سے ان لوگوں کو تسلی ہو گئی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد سیدنا بلالؓ اور ہند کی شادی ہو گئی اور وہ نہایت خوشگوار زندگی گزارنے لگے۔

ایک مرتبہ حضرت بلالؓ اور آپ کی اہلیہ حضرت ہندؓ  کے درمیان کسی بات پر کچھ تکرار ہو گئی اور گھروں میں ایسی بات ہو ہی جاتی ہے۔ سیدنا بلالؓ نے اپنے نکتۂ نظر کو واضح کرنے کے لیے سرکار دو عالم ﷺ کا حوالہ دیا۔ ہند کے منہ سے یہ نکل گیا کہ آپ ﷺ نے کبھی ایسی بات نہ کہی ہو گی۔ سیدنا بلالؓ یہ الفاظ برداشت نہ کر سکے۔ اس بات سے انہیں سخت رنج ہوا۔ جب وہ مسجد گئے تو اس رنجیدگی کے اثرات ان کے چہرے پر محسوس ہو رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ بلالؓ نے واقعہ کی تمام تفصیلات بیان کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اس وقت حضرت بلالؓ گھر پر نہ تھے۔ ہند نے آپ ﷺ کا نہایت خوش اخلاقی سے استقبال کیا۔ آپ ﷺ نے ہند سے فرمایا:

’’بلال تمہیں میرے حوالے سے جو بھی کہتا ہے وہ صحیح اور درست ہوتا ہے، بلال کبھی کذب بیانی سے کام نہیں لیتا، اس کے ساتھ ہمیشہ محبت سے پیش آؤ، اس کو کبھی ناراض نہ کرو،اگر تم بلال کو ناراض کرو گی تو اللہ تم سے راضی نہ ہو گا۔‘‘

ہند نے رسول اللہ ﷺ کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیا۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ کے گھر لوٹنے پر انہوں نے حضرت بلالؓ سے معذرت کر لی اور ایک دفعہ پھر ان کے گھر کا ماحول خوشگوار اور پرسکون ہو گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرامؓ  کے اوصاف بیان فرما رہے تھے، اس دوران آپ ﷺ نے فرمایا:

’’حکومت کی بھاگ ڈور قریش کے ہاتھ میں ہو گی، قضاء کا شعبہ انصار میں پھلے پھولے گا، اذان تو حبشہ والے لے گئے اور امانت ازد یعنی یمن والوں کی خاص صفت ہے۔‘‘

غزوۂ  بدر میں ۱۶ رمضان المبارک سنہ ۲ھ کی شام سرکار دو عالم ﷺ نے سیدنا بلالؓ کو بلایا اور انہیں جنگ کے بارے میں ضروری ہدایات دیں اور پھر آپ ﷺ اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔

سیدنا بلالؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کو اس سے قبل میں نے کبھی اتنا خاموش اور اس قدر گم سم نہیں دیکھا تھا۔ اسی رات سرکار دو عالم ﷺ مسلم فوج کی فتح و نصرت کے لیے سربسجود رہے۔ ۱۷ رمضان المبارک کو سیدنا بلالؓ نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر مسلمان فوج کو سرکار دو عالم ﷺ کی ہدایات سے مطلع کیا پھر ایک ایسی جنگ ہوئی کہ تلواریں آپس میں ٹکرائیں اور لاشے زمین پر گرتے دیکھے گئے۔ سارا دن معرکہ جاری رہا اور بالآخر اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے نوازا۔

اس جنگ کا آغاز ہی مشرکین کے لیے نہایت برا ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں ان کے تین سورما موت کے گھاٹ اتر گئے اور عتبہ بن ربیعہ جیسا رئیس مکہ اور بہادر شخص اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ساتھ خاک و خون میں تڑپ رہا تھا۔ یہ قریش کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس سے سارے لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ویسے بھی عتبہ تمام لشکر کا سپہ سالار تھا اور سپہ سالار کا قتل ہو جانا پورے لشکر کی شکست ہوتی ہے، لیکن ان تینوں کی موت کے بعد ابوجہل موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے میدان میں کود پڑا اور اپنے لشکر کو جھوٹی طفل تسلیاں دیتا رہا۔ وہ اپنی ان طفل تسلیوں سے لشکر کو بھاگنے سے بچانا چاہتا تھا۔ اس کی یہ تدبیر کامیاب رہی اور قریش کے پاؤں جم گئے۔ ان کے حوصلے پست نہ ہوئے ایک طرف اپنی کثرتِ تعداد اور اسلحہ پر بھروسہ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد چنانچہ مسلمانوں نے جب ابو جہل کی اس جوش دلانے والی تقریر سے کفر کو بپھرتا ہوا دیکھا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں گڑگڑا کر دعائیں کرنے لگے۔ جس کو قرآن حکیم نے یوں بیان کیا ہے:

’’(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور تمہارے رب نے تمہاری فریاد کو سن لیا۔‘‘

صحابہؓ  بارگاہِ  الوہیت میں گڑگڑا رہے تھے اور زمین و آسمان کا مالک ان کی دعاؤں کو سن رہا تھا۔

سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ امیہ کے پرانے دوست تھے۔ جب وہ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت ان کا امیہ بن خلف سے ایک کاروباری معاہدہ ہوا تھا۔ وہ یہ کہ مدینہ طیبہ میں وہ امیہ کے مال کی حفاظت کریں گے جب کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کا جو مال مکہ میں رہ گیا ہے اس کی حفاظت کا ذمہ دار امیہ بن خلف ہو گا۔

سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ نے جب امیہ کو میدان بدر میں دیکھا تو ان کی خواہش یہ تھی کہ امیہ قتل نہ ہو بلکہ گرفتار ہو جائے۔ شاید اس بہانہ سے اسے ہدایت کا راستہ مل جائے چنانچہ جب مسلمان جنگ میں مصروف تھے اور کافر مسلمانوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے اور قریش کے بڑے بڑے سردار جو اساطین قریش کہلاتے تھے، قتل کیے جا چکے تھے، تو سیدنا عبدالرحمن نظر بچا کر امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو ایک پہاڑی پر لے گئے۔ اتفاق سے سیدنا بلالؓ نے ان کو دیکھ لیا۔ انہوں نے فوری طور پر انصار کو بتایا وہ اس کے پیچھے دوڑے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ نے امیہ کے بیٹے کو ان انصار مجاہدین کے آگے کر دیا۔ انصار نے اسے قتل کر دیا لیکن انصاری مجاہدین اور سیدنا بلالؓ کا اصل ہدف تو امیہ بن خلف تھا،لہٰذا اس کو چھوڑ دینا ان کو گوارا نہ تھا۔ امیہ بھاری بھر کم آدمی تھا۔ دوڑنا اس کے لیے بہت مشکل تھا وہ بیٹھ گیا اور سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ اس کو بچانے کے لیے اس کے اوپر لیٹ گئے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ خود بتاتے ہیں کہ میں نے امیہ سے کہا کہ تم بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا اور میں اس کے اوپر اوندھا پڑ گیا تاکہ اس کی جان بچ جائے لیکن انصار نے اس حالت میں پاؤں کے نیچے تلواریں چلا کر اس کو قتل کر دیا۔ اس کو بچانے میں سیدنا عبدالرحمنؓ کے پاؤں پر بھی ایک زخم آیا جس کا نشان مدتوں باقی رہا۔

یہ واقعہ بیان کر کے سیدنا عبدالرحمنؓ فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ بلالؓ پر رحم فرمائے، میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی بھی گئے کیونکہ امیہ کو بچانے سے پہلے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کے ہاتھ میں کچھ زرہیں تھیں جو انہوں نے کافروں سے چھینی تھیں۔ ان کو وہ زمین پر رکھ کر امیہ کو بچانے میں مصروف ہو گئے۔

بعض روایات میں ہے کہ جنگ بدر کے روز امیہ بن خلف اپنے لڑکے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کو دیکھ کر کہا :’’عبدالرحمن! کیا تمہیں میری ضرورت ہے؟ میں تمہاری ان زرہوں سے بہت بہتر ہوں، آج جیسا ہیبت ناک منظر تو میں نے پوری زندگی نہیں دیکھا۔ کیا تمہیں دودھ کی حاجت نہیں؟‘‘

مطلب یہ تھا کہ جو مجھے قید کرے گا میں اس کو فدیہ میں خوب دودھ دینے والی اونٹنیاں دوں گا۔

یہ سن کر سیدنا عبدالرحمنؓ نے زرہیں پھینک دیں اور دونوں باپ بیٹے کو گرفتار کر کے آگے بڑھے۔

امیہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ سے پوچھا:’’تم لوگوں میں وہ کون ہے جس نے سینے پر شتر مرغ کا پر سجا رکھا ہے؟‘‘ سیدنا عبدالرحمنؓ نے کہا:’’وہ حمزہ بن عبدالمطلب ہیں۔‘‘ امیہ نے کہا:’’یہی شخص ہے جس نے ہمارے اندر تباہی مچا رکھی ہے۔‘‘

سیدنا عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ میں امیہ اور اس کے بیٹے کو پکڑ کر لے جا رہا تھا کہ اچانک بلالؓ نے امیہ کو میرے ساتھ دیکھ لیا۔ بلالؓ کو امیہ کے وہ سارے ظلم و ستم یاد آ گئے جو وہ مکہ میں ان پر ڈھایا کرتا تھا۔ چنانچہ امیہ کو دیکھ کر انہوں نے کہا:’’یہ کافروں کا سرغنہ ہے، اب یا تو یہ زندہ رہے گا یا میں۔‘‘

میں نے کہا:۔ ’’بلال! یہ دونوں میرے قیدی ہیں۔‘‘ لیکن بلالؓ نے انصار کو آواز دی اور انہوں نے ہمیں کنگن کی طرح گھیرے میں لے لیا۔ میں ان دونوں کا بچاؤ کر رہا تھا کہ ایک شخص نے امیہ کے بیٹے کو تلوار کی ایک ضرب لگائی جس سے وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اتنے میں امیہ نے اس زور سے چیخ ماری کہ میں نے ویسی چیخ کبھی نہ سنی تھی۔ میں نے کہا:’’بھاگ جاؤ، لیکن آج بھاگنے کی گنجائش نہیں، بخدا! میں آج تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا۔‘‘ اس کے بعد انصار نے اپنی تلواروں سے ان دونوں کا کام تمام کر دیا۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کے آخری حصہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ آپ ﷺ نے مجھے آگے اپنے برابر کھڑا کر دیا۔ جب آپ ﷺ نماز میں مشغول ہوئے تو میں پھر پیچھے ہٹ گیا، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا۔ ’’جب میں تمہیں اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں تو تم پیچھے کیوں ہٹ جاتے ہو؟‘‘

میں نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! کیا کوئی آدمی اتنی قابلیت رکھتا ہے کہ آپ ﷺ کے برابر کھڑا ہو حالانکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

آپ ﷺ میری اس بات سے بہت خوش ہوئے اور میرے لیے علم و فہم میں اضافہ کی دعا فرمائی، پھر رسول اللہ ﷺ سو گئے۔ پھر حضرت بلالؓ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! نماز۔‘‘

آپ ﷺ اٹھے اور آپ نے نماز پڑھائی۔

آپ ﷺ نے دوبارہ وضو نہیں کیا۔

سونے کے باوجود آپ ﷺ نے وضو اس لیے نہیں فرمایا کیونکہ جب آپ ﷺ آرام فرماتے تھے تو صرف آپ ﷺ کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل بیدار رہتا تھا۔ دل کی بیداری کی بنا پر وضو ٹوٹنے کا اندیشہ نہ تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے۔ اگر کوئی امتی سو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

سنہ ۲ھ میں سیدنا فاطمہؓ  کا نکاح سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے ہوا۔ یہ شادی رسول اللہﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ سیدہ فاطمہؓ  کی خواستگاری کے لیے شرفائے قریش نے رسول اللہ ﷺ سے بات کی لیکن آپ ﷺ نے ان کی استدعا پر خاموشی اختیار فرمائی۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ رسول اللہ ﷺ سے سیدہ فاطمہؓ  کی خواستگاری کے بارے میں درخواست کرنا چاہتے تھے لیکن اپنی تنگ دستی کی وجہ سے کوئی بات نہ کر سکے۔

ایک روز سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا سعدؓ سے فرمایا کہ اٹھو سیدنا علی کرم اللہ وجہ کے پاس چلیں اور ان کو سیدہ فاطمہؓ  کی خواستگاری کے لیے تیار کریں۔ اگر سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی تنگ دستی مانع ہو تو ان کی مالی امداد کریں۔

سیدنا سعد بن معاذؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اس تجویز کو سراہا چنانچہ یہ سب حضرات اٹھ کر سیدنا علیؓ کے گھر گئے۔ سیدنا علیؓ گھر پر موجود نہ تھے بلکہ اپنا اونٹ لے کر ایک انصاری کے باغ میں آب کشی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ یہ تینوں حضرات اس باغ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ کے پاس پہنچ گئے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے پوچھا کیسے آنا ہوا؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا:

’’آپ نیک خصائل ہیں، دوسرے لوگوں سے سبقت لیے ہوئے ہیں اور سرکار دو عالم ﷺ سے نسبی رشتہ میں بھی آپ دوسروں سے قریب تر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں بھی ہمیشہ سے ہیں، لہٰذا آپ کو سیدہ فاطمہؓ  کی خواست گاری میں کون سا امر مانع ہے؟ میرا خیال ہے کہ خدا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ رشتہ آپ کے لیے رکھا ہوا ہے۔‘‘

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی یہ بات سن کر سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ فرمانے لگے:’’اے ابوبکر! آپ نے میرے غم کو تازہ کر دیا اور میرے دل کی پوشیدہ آرزو کو برانگیختہ کر دیا۔‘‘ سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا:’’کون شخص ہے جو سیدہ فاطمہؓ  سے عقد کا خواہاں نہ ہو؟ لیکن میں تنگ دستی اور فقر و فاقہ کی وجہ سے اس خواست گاری کے اظہار میں شرم محسوس کرتا ہوں۔‘‘

چنانچہ ان تینوں حضرات نے سیدنا علی کرم اللہ وجہ کو اس بات پر راضی کر لیا اور آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں جانے کے لیے رضا مند کر لیا۔ اس غرض کے لیے سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے اپنا اونٹ کھولا، باغ سے واپس گھر تشریف لائے اور اونٹ باندھ کر اور جوتا پہن کر سرکار دو عالم ﷺ کے گھر چلے گئے۔

پھر یہی نہیں کہ ان صحابہ کرامؓ  نے سیدنا علی کرم اللہ وجہ کو سیدہ فاطمہؓ  کی خواستگاری پر ہی آمادہ کیا بلکہ سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا عثمان بن عفانؓ نے اس شادی کا سامان اور سیدہ فاطمہؓ  کے لیے جہیز خریدنے کے لیے روپیہ پیسہ سے بھی سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی اعانت کی جس پر رسول اللہ ﷺ نے عثمانؓ کے لیے بہت سی دعائیں کیں۔

حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ایک زرہ دی جسے انہوں نے بیچا۔ اس زرہ کے بدلہ میں جو رقم ملی وہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کر دی۔ آپ ﷺ نے اس رقم میں سے ایک مٹی بھر کر سیدنا بلالؓ کو دی اور فرمایا کہ سیدنا فاطمہؓ  کے لیے خوشبو خرید کر لائیں اور اس رقم میں سے دو مٹھیاں بھر کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو دیں تاکہ حضرت فاطمہؓ  کے لیے مناسب کپڑے اور جہیز کا دوسرا سامان خرید کر لائیں۔ سیدنا عمار بن یاسرؓ (اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت بلالؓ کو بھی) اور دوسرے کئی صحابہ کرامؓ  کو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ بھیجا۔

یہ حضرات جو چیز بھی سیدہ فاطمہؓ  کے لیے خریدتے، پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو دکھاتے۔ اگر وہ پسند کرتے تو وہ چیز خریدی جاتی وگرنہ واپس کر دی جاتی۔

سیدہ فاطمہؓ  کے لیے ان حضرات نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی مرضی سے کیا کچھ خریدا تاریخ میں اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

’’ایک قمیض، ایک اوڑھنی، ایک خیبری سیاہ چادر، ایک بنی ہوئی چارپائی، بستر کے دو گدے (ایک گدا کھجور کی چھال سے بھرا ہوا اور دوسرا بھیڑ کی اون سے) اور اذخر (گھاس) سے بھرا ہوا ایک تکیہ، ایک اونی کپڑا، ایک چمڑے کا مشکیزہ، دودھ کے لیے ایک لکڑی کا پیالہ، ایک گھڑا اور چند مٹی کے برتن۔‘‘

بازار سے جب یہ سامان خریدا گیا تو سیدہؓ  کے اس جہیز کی کچھ اشیاء کو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے، کچھ کو سیدنا بلالؓ کچھ کو سیدنا عمار بن یاسرؓ نے اور کچھ اشیاء کو دوسرے صحابہ کرامؓ  نے اٹھایا جو سیدنا ابوبکرؓ کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ جب یہ سامان سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے رکھا گیا تو آپ ﷺ نے ایک ایک چیز کو اٹھا کر ملاحظہ فرمایا اور ساتھ ہی یہ دعا بھی فرمائی:

’’اے اللہ! میرے اہل بیت پر ان چیزوں میں برکت عطا فرما۔‘‘

حضرت ابو امامہؓ رسول پاک ﷺ کے ایک صحابی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ یوم الترویہ یعنی آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے، آپ کے ایک جانب حضرت بلالؓ تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس کے اوپر ایک کپڑا لگا ہوا تھا، جس کے ذریعہ وہ حضور اکرم ﷺ پر سایہ کیے ہوئے تھے۔

غزوہ احد کے مشکل حالات میں رسول اللہ ﷺ کے گرد محاصرہ کرنے والوں میں سیدنا بلالؓ بھی تھے جو آخر وقت تک امام الانبیاء ﷺ کی مدافعت کرتے رہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ  احد میں میرے آقا و مولا محمد ﷺ ایک پتھر سے زخمی ہو کر زمین پر گرے۔ مکہ کا مشہور شمشیر زن عبداللہ بن قیمیہ آپ ﷺ تک پہنچ گیا۔ اپنی تلوار ضرورت سے زیادہ بلند کر کے آپ ﷺ پر حملہ زن ہوا۔ صحیح نشانہ لگانے کی تمام کاوش کے باوجود وہ ناکام رہا۔ میں نے خود کو پوری قوت کے ساتھ ابن قیمیہ پر پھینکا۔ میری تلوار اور میرا جسم زمین پر رگڑے گئے۔ پھر ہم سب سرکار دو عالم ﷺ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ ہم کل بارہ آدمی تھے اور ہماری تلواریں خار پشت کے کانٹوں کی طرح اٹھی ہوئی تھیں۔

مسلمانوں کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ سرکار دو عالم ﷺ حیات ہیں تو ان کی ہمتیں جوان اور ارادے مصمم ہو گئے۔ مسلمانوں کے لشکر نے ایک مرتبہ پھر منظم ہونا شروع کیا۔ گویا خالد بن ولید (جو کہ کافروں کی طرف سے لڑ رہے تھے) کی عسکری عبقریت رسول اللہ ﷺ کی عسکری عبقریت کے سامنے ناکام ہو گئی۔ اب مسلمانوں نے اپنی منتشر قوتوں کو سمیٹ کر اس جوش و خروش کے ساتھ قریش کے لشکر پر حملہ کیا کہ وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ قریش کو جب بھاگتے دیکھا تو سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ ’’ان کا تعاقب کون کرے گا؟‘‘

ستر صحابہ کرامؓ  نے اپنے نام پیش کیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا زبیر بن عوامؓ کے ناموں کی تصریح کی ہے۔

غزوہ بنو قریظہ ذی قعدہ ۵ ھ کو پیش آیا۔ رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق سے صبح کی نماز کے بعد واپس ہوئے۔ آپ ﷺ نے اور تمام مسلمانوں نے ہتھیار کھول دیے۔ جب ظہر کا وقت قریب آیا تو حضرت جبرائیل امینؑ ایک خچر پر سوار عمامہ باندھے ہوئے تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہو کر کہا:’’کیا آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دیے؟‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ہاں ہم نے ہتھیار اتار دیے ہیں۔‘‘

حضرت جبرائیل امینؑ نے عرض کیا:۔ ’’فرشتوں نے تو نہ ابھی تک ہتھیار کھولے ہیں اور نہ ہی وہ واپس ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بنی قریظہ کی طرف جانے کا حکم دیا ہے اور میں خود بنی قریظہ کی طرف جا رہا ہوں۔‘‘

حضرت جبرائیل علیہ السلام رخصت ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی شخص سوائے بنو قریظہ کے کہیں نماز عصر نہ پڑھے۔

بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے اسلام کا جھنڈا حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دے کر روانہ فرمایا، جب حضرت علی کرم اللہ وجہ وہاں پہنچے تو یہود نے آنحضرت ﷺ کو کھلم کھلا گالیاں دیں جو ایک مستقل اور ناقابل معافی جرم ہے۔

اس کے بعد آنحضرت ﷺ خود بہ نفس نفیس روانہ ہوئے اور پہنچ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کیا، پچیس روز تک ان کو محاصرہ میں رکھا، اس اثناء میں ان کے سردار کعب بن اشرف نے ان کو جمع کر کے کہا: ’’میں تین باتیں تم پر پیش کرتا ہوں ان میں سے جس کو چاہو اختیار کر لو تاکہ تم اس مصیبت سے نجات پا لو۔ اول یہ کہ ہم اس شخص یعنی محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں اور اس کے مستقل پیرو بن جائیں کیونکہ خدا کی قسم! تم پر یہ بات بالکل واضح اور روشن ہو چکی ہے کہ وہ بلاشبہ اللہ عزوجل کے نبی اور رسول ہیں اور یہ وہی نبی ہیں جن کو تم تورات میں لکھا پاتے ہو اگر ایمان لے آؤ گے تو تمہاری جان اور مال بچے اور عورتیں سب محفوظ ہو جائیں گے۔‘‘

بنو قریظہ نے کہا۔ ’’ہم کو یہ منظور نہیں کہ ہم اپنا دین چھوڑ دیں۔‘‘

کعب نے کہا۔ ’’اچھا اگر یہ منظور نہیں تو دوسری بات یہ ہے کہ بچوں اور عورتوں کو قتل کر کے بے فکر ہو جاؤ اور شمشیر بکف ہو کر پوری ہمت اور تن دہی کے ساتھ محمد ﷺ کا مقابلہ کرو اگر ناکام رہے تو بچوں اور عورتوں کا کوئی غم نہ ہو گا اور اگر کامیاب ہو گئے تو عورتیں بہت ہیں اور ان سے بچے بھی پیدا ہو جائیں گے۔‘‘

بنو قریظہ نے کہا۔ ’’بلاوجہ عورتوں اور بچوں کو قتل کر کے زندگی کا کیا لطف باقی رہے گا؟‘‘

کعب نے کہا۔ ’’اگر یہ بھی منظور نہیں تو میری رائے یہ ہے کہ آج ہفتہ کی شب ہے عجب نہیں کہ محمد ﷺ اور ان کے اصحاب غافل اور بے خبر ہوں اور ہماری جانب سے مطمئن ہوں کہ یہ دن یہود کے نزدیک محترم ہے اس میں وہ حملہ نہیں کر سکتے، مسلمانوں کی اس بے خبری اور غفلت سے یہ نفع اٹھاؤ کہ یکایک ان پر شب خون مارو۔‘‘

بنو قریظہ نے کہا۔ ’’اے کعب! تجھ کو معلوم ہے کہ ہمارے اسلاف اسی دن کی بے حرمتی کی وجہ سے بندر اور سور بنا دیے گئے پھر بھی تو ہم کو اسی کا حکم دیتا ہے؟‘‘

الغرض بنو قریظہ نے کعب کی ایک بات کو نہ مانا۔ بالآخر مجبور ہو کر وہ اس پر آمادہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ جو حکم دیں وہ ہمیں منظور ہے۔

جس طرح خزرج اور بنو نضیر میں حلیفانہ تعلقات تھے اسی طرح اوس اور بنو قریظہ میں بھی حلیفانہ تعلق تھا۔ اس لیے اوس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ خزرج کی التماس پر حضور اکرم ﷺ نے بنو نضیر کے ساتھ جو معاملہ فرمایا اسی طرح کا معاملہ ہماری استدعا پر بنو قریظہ کے ساتھ فرمائیں۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا فیصلہ تم ہی میں سے ایک شخص کر دے۔‘‘

انہوں نے کہا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! سعد بن معاذ جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔‘‘

سعد بن معاذؓ نے بنو قریظہ کے لیے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ان کے لڑنے والے مرد قتل کر دیے جائیں، عورتیں اور بچے قید کر کے باندی اور غلام بنا لیے جائیں اور ان کا تمام مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔

حضرت سعدؓ کا یہ فیصلہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’بے شک تو نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔‘‘

اس کے بعد تمام بنو قریظہ گرفتار کر کے مدینہ لائے گئے اور ایک انصاری عورت کے مکان میں انہیں محبوس رکھا گیا، بازار میں ان کے لیے خندقیں کھدوائی گئیں، بعد ازاں دو دو چار چار کو اس مکان سے نکلوایا جاتا اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماری جاتیں۔ حیی بن اخطب اور سردار بنو قریظہ کعب بن اسد کی گردن بھی ماری گئی۔ عورتوں میں سوائے ایک عورت کے کوئی قتل نہیں ہوا، جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے کوٹھے سے چکی کا پاٹ گرایا تھا جس سے خالد بن سویدؓ شہید ہوئے۔

اس غزوہ میں حضرت بلالؓ اور آپ کے بھائی حضرت خالدؓ پوری دلیری سے شریک ہوئے اور آپ ہاتھوں میں نیزے اٹھائے ہوئے تھے۔

سیدہ صفیہؓ  غزوہ خیبر میں قید کی گئی تھیں، آپ کو سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے صفیہ اور ان کی ایک کم سن بہن کو سیدنا بلالؓ کی نگرانی میں خیمہ کی طرف بھیج دیا۔ جب سیدنا بلالؓ ان دونوں کو لے کر خیبر کے مقتولین کے پاس سے گزرے تو سیدہ صفیہؓ  کی چھوٹی بہن اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بہت روئیں۔ سرکار دو عالم ﷺ کو سیدنا بلالؓ کے اس فعل پر بہت دکھ ہوا۔ اس لیے جس وقت سیدنا بلالؓ سیدہ صفیہؓ  کو خیمہ میں پہنچا کر واپس تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلالؓ سے فرمایا:

’’بلال! کیا تم نے رحم کو اپنے دل سے نکال دیا ہے؟ کیا تمہیں اس کم سن بچی پر رحم نہ آیا؟ تم اسے مقتولین کے راستہ کی طرف سے کیوں لے کر گئے؟‘‘

سرکار دو عالم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر سیدنا بلالؓ نے عرض کی:

’’یارسول اللہ ﷺ ! میں چاہتا تھا کہ حضرت صفیہؓ  کو وہ حالت دکھا دوں جو انہیں شاق ہو۔ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں معذرت خواہ ہوں، آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘

حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق سال گزر جانے کے بعد قریش نے آپ ﷺ کو عمرہ کی اجازت تو دے دی تھی لیکن وہ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو وہ سب کچھ کرتا دیکھ رہے تھے جن کے نہ کرنے کے لیے انہوں نے مسلمانوں سے اتنی لڑائیاں لڑیں اور اپنے بڑے بڑے رؤساء اور بہادروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کروایا۔ وہ شدت غیظ و غضب اور حسد و کینہ کی وجہ سے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ  کو دیکھ نہ سکے کیونکہ انہی لوگوں نے بدر و احد اور احزاب میں ان کے بڑوں کو خاک و خون میں نہلایا تھا، اس لیے سردارانِ قریش اور ان کے اشراف مکہ مکرمہ کو خالی کر کے پہاڑوں پر چلے گئے۔

معاہدہ حدیبیہ کے مطابق تین روز تک آپ ﷺ نے مکہ میں قیام فرمایا۔ اس عرصہ میں تین روز تک برابر پانچ وقت کی اذان سیدنا بلالؓ مکہ میں دیتے جس کی آواز مکہ کے گلی کوچہ میں گونجتی۔ یہ اسی بلالؓ کی اذان تھی جو امیہ بن خلف کا غلام تھا اور امیہ اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے باعث ان کو اس قدر اذیتیں دیتا تھا کہ قلم کو لکھنے کی تاب نہیں۔ آج وہی بلالؓ اسی سرزمین مکہ میں پانچ مرتبہ بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کی کبریائی، وحدانیت اور عظمت کا اعلان کرتا ہے اور ساتھ ہی سرکار دو عالم ﷺ کی نبوت کا اعلان بھی کرتا ہے اور قریش مکہ پہاڑی کی چوٹی سے ان سب باتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے کانوں سے سنتے۔ تین روز کے لیے مکہ مسلمانوں کے لیے خالی کر دیا گیا اور کفار مکہ اس عرصہ میں پہاڑوں میں روپوش ہو کر دبکے ہوئے تھے۔ مسلمان شہر کے ہر گلی کوچے میں چلتے پھرتے اور کوئی شخص ان پر اعتراض نہ کرتا۔ مہاجرین اپنے چھوڑے ہوئے گھروں کو دیکھنے کے لیے انصار کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے جو ان کے ساتھ مکہ میں ایسے ہی گھومتے جیسے وہ بھی یہیں کے رہنے والے ہوں۔ مسلمانوں میں سے ہر ایک کا چلن اسلامی سیرت کا نمونہ تھا۔ بیت اللہ میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ اذانِ بلالی کو پانچ وقت دن میں سن رہے ہیں، کوئی تنومند، کمزور اور ضعیف بھائی کو سہارا دے کر اٹھا رہا ہے، مال دار محتاج کی مدد کر رہا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح ان کے درمیان آ جا رہے ہیں، کسی سے تبسم فرما رہے ہیں، کسی کے ساتھ مسکرا کر بات ہو رہی ہے، کسی کے ساتھ مزاح فرمایا جا رہا ہے۔ قریش یہ سب باتیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے۔ ان لوگوں نے شاید زندگی میں پہلی بار یہ حیرت ناک منظر دیکھا تھا کہ مسلمان نہ تو شراب پی رہے ہیں اور نہ کسی برائی کا ارتکاب کر رہے ہیں، نہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ جن مناظر میں مخالفین کے لیے جذب و کشش کا یہ سامان ہو ایسے مناظر تکمیل انسانیت کا حسین مرقع ہونے کی وجہ سے دیکھنے والوں کے قلوب پر ضرور اثر کرتے ہیں۔

حویطب بن عبدالعزیٰ جو فتح مکہ کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو قریش آپ ﷺ کے استقبال کے لیے نکلے۔ میں اور سہیل بن عمرو دونوں مکہ میں ٹھہرے تاکہ وقت مقرر ختم ہوتے ہی آپ کو واپس کر دیا جائے۔ چنانچہ میں اور سہیل بن عمرو آگے بڑھے۔ ہم نے کہا:۔ ’’آپ ﷺ کی شرط پوری ہو چکی ہے لہٰذا اب یہاں سے نکلو۔‘‘ آپ ﷺ نے اس پر کوئی بات نہ کی بلکہ آپ ﷺ نے فوراً سیدنا بلالؓ کو حکم فرمایا کہ ایک مرتبہ کعبہ پر کھڑے ہو کر اذان کہہ دیں، کیونکہ شرط میں تھا کہ تین روز تک قیام کر کے چلے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ نے آپ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کی اور صحابہ کرامؓ  عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ سے پرامن طریقہ سے واپس ہوئے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں رسول پاک ﷺ جنت کے پاس سے گزرے، وہاں آپ ﷺ کو کسی کی آواز سنائی دی، آپ ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا۔ ’’یہ کس کی آواز ہے؟‘‘

حضرت جبرائیلؑ نے بتایا: ’’یہ آپ ﷺ کے مؤذن بلالؓ کی آواز ہے۔‘‘

جب اللہ کے نبی ﷺ لوگوں میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بلال کامیاب ہوئے، میں ان کے لیے یہ یہ انعامات دیکھ آیا ہوں۔‘‘

حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ اپنے کچھ احباب کا ذکر فرما رہے تھے، اس میں آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو سات خصوصی ساتھی عطا فرمائے لیکن مجھے چودہ خصوصی ساتھیوں سے نواز ا ہے، میرے خصوصی اور انتہائی قابل اعتماد ساتھی یہ ہیں، میں (یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہ جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں)، میرے دونوں بیٹے (یعنی حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ)، جعفر بن ابی طالب، ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی،مصعب بن عمیر، بلال بن ابی رباح، سلمان فارسی، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداللہ بن مسعودؓ ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بنو عامر کا وفد حاضر ہوا۔ عامر طفیل اس وفد کا قائد تھا۔ اس نے کہا کہ میرے سامنے سوائے اسلام کے قبول کرنے کے ایک شرط کے سوا اور کچھ نہیں اور سرکار دو عالم ﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ آپ ﷺ کے لیے اور مسلمانوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپ ﷺ اپنے بعد مجھے امیر بنا دیں اور مجھے وبر (شہر) پر حکمران بنا دیں اور مدر (بادیہ) آپ کے قبضہ میں رہے۔ وہ بہت تکرار کے بعد اٹھ کر اپنی میزبان ایک عورت بنی سلول کے ہاں آ گیا۔ اس کو اس کی قوم نے بہت سمجھایا کہ تم مسلمان ہو جاؤ جبکہ بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا مانگی:

’’اے اللہ! تو اس کے لیے کافی ہو جا، اے اللہ بنی عامر کو ہدایت نصیب فرما اور ان کے ذریعہ اسلام کو عزت بخش (اور آپ ﷺ کی مراد قبیلہ طفیل سے تھی۔)‘‘

عامر ابھی اس میزبان عورت کے گھر ہی تھا کہ اس کو گردن میں ایک بیماری (طاعون) لاحق ہوئی اور وہ کہتا تھا کہ یہ طاعون اونٹ کی طاعون کی طرح ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی گھر میں ختم کر دیا اس کے ساتھی بہت روئے اور کہا:

’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ آقا ہیں اور صاحب ثروت ہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ آقا ہے آپ کو شیطان کمزور نہ کرے۔‘‘

ابن سعد نے ہشام بن محمد کی سند سے روایت نقل کی ہے کہ بنی عامر کا وفد آیا تو سرکار دو عالم ﷺ سرخ رنگ کے خیمہ میں تھے۔ ہم نے آپ ﷺ پر سلام کہا آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ آپ کون ہیں، ہم نے عرض کیا:’’بنو عامر بن صعصعہ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:۔ ’’آپ کو مبارک ہو، آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے۔‘‘

پھر نماز کا وقت قریب ہوا تو سیدنا بلالؓ نے نماز کے لیے کھڑے ہو کر اذان دی اور وہ اذان میں دائیں بائیں رخ کرتے تھے پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک برتن لے کر آئے جس میں وضو کے لیے پانی تھا۔ سرکار دو عالم ﷺ نے وضو کیا۔ سیدنا بلالؓ نے آپ ﷺ کے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا اور پھر اس سے جو بچ رہا اس سے ہم نے وضو کیا۔ پھر کہ سیدنا بلالؓ نے اقامت کہی اور سرکار دو عالم ﷺ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر اسی طرح سیدنا بلالؓ نے اذان دی اور وہ اذان میں گھومتے تھے اور ہم نے دو رکعت نماز رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ غرض کہ آپ ﷺ کے وضو کا بچا کھچا پانی صحابہ کرامؓ  کے لیے آب حیات تھا جس پر وہ جان دیتے تھے۔ ایک بار سیدنا بلالؓ نے آپ ﷺ کا وضو کا بچا ہوا پانی نکالا تو تمام صحابہ کرامؓ  نے اس کو جھپٹ لیا۔

غزوہ حنین کے بعد آپ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کیا لیکن بعض حالات کے پیش نظر آپ ﷺ کو وہ محاصرہ ترک کرنا پڑا لیکن غزوۂ  تبوک سے واپسی پر سب سے پہلے اہل طائف نے اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ ہوا یہ کہ اہل طائف کے سردار عروہ بن مسعود ثقفی جو طائف کے محاصرہ کے زمانہ میں یمن گئے ہوئے تھے۔ وہ جب یمن سے واپس آئے تو غزوہ تبوک سے متاثر ہو کر وہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے اور خود اسلام قبول کر کے اپنی قوم کو مسلمان کرنے کے لیے جلد واپس جانے پر مصر ہوئے۔

آپ ﷺ کو بنو ثقیف کے بت لات کے بارے میں ان کی عصبیت سے بہت خطرہ تھا اسی وجہ سے آپ ﷺ نے عروہ بن مسعودؓ کو ان میں تبلیغ سے منع کرتے ہوئے فرمایا:’’اگر تم نے بنو ثقیف میں تبلیغ کی تو کہیں وہ تمہیں قتل نہ کر دیں؟‘‘ لیکن سیدنا عروہؓ کو اپنے بارے میں یہ خطرہ نہ تھا کیونکہ بنو ثقیف ان کا بہت احترام کرتے تھے، لہٰذا عرض کیا:’’یارسول اللہ ﷺ ! مجھے تو بنو ثقیف اپنی آنکھ کا تارا سمجھتے ہیں، وہ میری بات ضرور مانیں گے۔‘‘ چنانچہ وہ طائف پہنچے اور اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی۔ رات کو یاران شہر نے چھپ کر مشورہ کیا کہ عروہؓ کو قتل کر دیا جائے۔ سیدنا عروہؓ کو ان کے اس مشورہ کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلا۔ جب صبح کے وقت سیدنا عروہ بن مسعودؓ نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر ثقیف کو نماز کے لیے جمع ہونے کے لیے کہا تو انہوں نے اپنے طے شدہ پروگرام کے تحت ان کا محاصرہ کر کے ان پر چاروں طرف سے تیر برسانا شروع کر دیے چنانچہ ایک تیر انہیں ایسا لگا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ سیدنا عروہؓ کے آخری الفاظ یہ تھے:

’’یہ اسلام خدا کی بخشش ہے جو مجھے عطا ہوئی اور یہ موت شہادت ہے جو میرے مقدر میں تھی، میں بھی انہی شہدا کی طرح ہوں جو قبل ازیں سرکار دو عالم ﷺ کی معیت میں کفار سے برسرپیکار ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔‘‘

اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ دفن کیا جائے جو طائف کے محاصرہ میں شہید ہوئے تھے۔

بنو ثقیف نے انہیں شہید تو کر دیا لیکن اب تو سخت پریشان بھی تھے اور پشیمان بھی کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا کیا حشر ہو گا، کیونکہ انہوں نے اسلام کے ایک اہم سپوت کو قتل کیا ہے، لہٰذا اب مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں چنانچہ انہوں نے عبد یا لیل اور اس کے ساتھ ثقیف کے پانچ اور نفوس کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ یہ دراصل اس دعا کا اثر تھا جو رسول اللہ ﷺ نے طائف کے محاصرہ کے اختتام پر ان کے لیے فرمائی تھی۔

’’اے اللہ! بنو ثقیف کو ہدایت فرما اور مسلمان کر کے ان کو میرے پاس بھیج۔‘‘

ان لوگوں کو مسجد میں خیمے لگا کر اتارا گیا اور انہوں نے یہ شرطیں پیش کیں:

۱۔            زنا ہمارے لیے جائز ہونا چاہیے کہ ہم میں اکثر غیر شادی شدہ ہیں۔

۲۔           ہماری قوم کو سود کی اجازت ہو۔

۳۔           ہمیں شراب نوشی سے نہ روکا جائے کیونکہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے ہوتا ہے۔

لیکن یہ تینوں شرطیں بارگاہِ رسالت میں نامنظور ہوئیں۔ وفد کے ارکان میں سے ایک روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں ماہ رمضان میں حاضر ہوئے اور مسلمان بہت مسرور اور خوش ہوئے تھے کیونکہ ہم پر بارہا تبلیغ اسلام کی کوششیں ہو چکی تھیں۔ جب ہم مشرف باسلام ہو چکے تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ  کو مقرر کیا کہ ہم کو اسلام کی تعلیمات سکھا دیں اور ہم نے اتنے روزے رکھے جتنے باقی رہ گئے تھے۔ ہم افطار کرتے تھے اور سحری کھاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہاں سے سیدنا بلالؓ ہمارے پاس سحری کے وقت تشریف لاتے اور ہم کہتے کہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ فجر طلوع ہو گئی ہے پھر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ سحری میں دیر کر دیتے ہیں۔ پھر افطار کے وقت بھی تشریف لاتے ہم کہتے کہ ہم نے دیکھ لیا کہ سورج بالکل غروب ہو چکا ہے۔ بعد میں کہتے تھے کہ میں تمہارے پاس فوراً آیا ہوں۔ جب سرکار دو عالم ﷺ نے روزہ افطار کر لیا ہے۔ پھر اپنا ہاتھ پیالہ میں ڈال دیتے اور اس سے نکال کر کھاتے۔ جب وہ وفد پورے طور پر اسلام سے واقف ہو گیا تو واپس طائف چلا گیا۔

ان کی واپسی پر سرکار دو عالم ﷺ نے سیدنا ابوسفیانؓ اور سیدنا مغیرہؓ کو بھیجا کہ ان کے صنم اعظم لات کو توڑ آئیں۔ دونوں حضرات ثقیف کی قرابت اور مؤدت میں دوسروں سے زیادہ قریب تھے۔ ابوسفیانؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ دونوں ہاتھوں میں کدالیں لیے لات کے صنم کدہ کی طرف جا رہے تھے تو ثقیف کی عورتیں برہنہ سر چھتوں پر بصد حسرت و یاس ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ جونہی انہوں نے لات پر ضرب لگائی تو عورتوں نے نالہ و شیون سے زمین و آسمان ایک کر دیے لیکن وفد کے معاہدہ کی وجہ سے کسی نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی جرأت نہ کی۔ لات کے چڑھاوے میں جو مال و زر اور زیورات جمع تھے وہ سب لے لیے اور اسے تقسیم کر دیا۔ لات کے انہدام اور اہل طائف کے قبول اسلام کی ہیبت سے حجاز کے باقی قبائل اور خاندان بھی مسلمان ہو گئے اور آپ ﷺ کی سطوت و عظمت کا شہرہ شام میں روم کی دیواروں تک جا پہنچا اور جنوب میں یہ غلغلہ یمن اور حضر موت تک چلا گیا۔

ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے رات کے کھانے میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی دعوت کی۔ حضرت مغیرہؓ کو ایک بھنا ہوا بکری کا بچہ پیش کیا گیا۔ نبی پاک ﷺ چھری کے ذریعے کاٹ کر بھنا ہوا گوشت انہیں کھلا رہے تھے کہ اتنے میں حضرت بلالؓ حاضر ہوئے اور نبی کریم ﷺ کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دی، آپ ﷺ نے چھری رکھ دی اور حضرت بلالؓ سے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ تمہارا بھلا کرے۔‘‘

نبی پاک ﷺ نے حضرت بلالؓ سے یہ بات ان کی اصلاح کی غرض سے فرمائی تھی، منشا یہ تھا کہ مہمان کھانا کھا رہے ہیں اب نماز کا وقت ہونے کی وجہ سے وہ کھانا چھوڑ دیں گے اور یہ بات مہمان کے اکرام کے خلاف ہے۔

جب سرکار دو عالم ﷺ جعرانہ سے آٹھ ہجری میں واپس تشریف لائے تو قیس بن سعد کو یمن کی طرف بھیجا اور حکم فرمایا کہ صداء قوم میں جاؤ۔ تو پس چار سو مسلمانوں نے لشکر کشی کی۔ صداء قوم میں سے ایک شخص آیا اور اس لشکر کشی کے بارے میں سوال کیا اور جب ان کو مسلمانوں کے ارادوں کا علم ہوا تو اس نے جلدی سے نکل کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر بیان کیا:’’حضور اکرم ﷺ ! میں ان لوگوں کی طرف سے ایک وفد کی حیثیت سے آیا ہوں جو میرے پیچھے ہیں۔ آج فوج کو واپس بلا لیں۔‘‘

چنانچہ آپ ﷺ نے فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس پندرہ آدمی آئے اور مسلمان ہوئے اور ان لوگوں کی طرف سے بیعت کی جو قوم میں سے پیچھے رہ گئے تھے پھر وہ اپنے شہر کی طرف واپس چلے گئے اور ان میں اسلام پھیل گیا اور اس قوم کے ایک سو نفوس رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں آ کر ملے۔

طبقات ابن سعد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص جو قوم صداء کی طرف سے آیا تھا وہ زیاد بن حارث صدائی تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے اذان کا حکم دیا اور میں نے اذان دی۔ پھر سیدنا بلالؓ تشریف لائے تاکہ اقامت کہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن صداء نے اذان دی ہے وہی اقامت کہیں گے جس سے استدلال ہوتا ہے کہ جو شخص اذان دے وہی اقامت کہے حتیٰ کہ مؤذن خود اجازت دے دے۔

رویفع بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ میری قوم ربیع الاول سنہ ۹ھ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے اس وفد کو اپنے مکان میں بطور مہمان اتارا۔ وہ پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب آپ ﷺ صبح کے وقت اپنے گھر میں صحابہ کرامؓ  کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ شیخ الوفد ابو الضباب تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے اور ہم کلام ہوئے۔ سارے وفد نے اسلام قبول کر لیا پھر انہوں نے اسلام کے بارے میں بہت سے سوال کیے جن کا ان کو خاطر خواہ جواب دیا گیا۔ جب وہ واپس اپنی قیام گاہ پر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کی وساطت سے ایک بوجھ کھجوروں کا بھیجا جس میں سے انہوں نے کھایا۔ پھر تین روز قیام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کو بلا کر رخصت کیا اور وہ اپنی قوم کی طرف چلے گئے۔

٭٭٭

 

 

حضرت بلالؓ کی باتیں

 

حضرت نعمانؓ بیان کرتے ہیں کہ میری قوم کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں نماز جنازہ پڑھا رہے تھے چنانچہ ان لوگوں نے آپ ﷺ کی فراغت کا انتظار کیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم مسلمان ہو یا مسلمان ہونے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’پھر تم نے اپنے مسلمان بھائی کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ کہنے لگے کہ جب تک ہم آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت نہ کر لیں ہمارے لیے یہ جائز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’سنو! جو کوئی مسلمان ہو چکا ہے وہ مسلمان ہے۔‘‘ پھر انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم کو قرآن کی تعلیم دیجئے تاکہ ہم اسلام کی تعلیم سے آشنا ہوں۔‘‘

جب ہم نے واپسی کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کی معرفت ہم سب کو چند دانگ چاندی تقسیم کرنے کا حکم فرمایا حتیٰ کہ ہم مدینہ سے واپس لوٹ آئے۔

فتح مکہ کے بعد نماز ظہر کا وقت ہوا تو آپ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کو حکم فرمایا کہ بامِ کعبہ پر چڑھ کر اذان دیں۔ قریش مکہ کے لیے یہ ایک بالکل نئی چیز تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسالت محمدیہ کا پکار پکار کر اعلان ہو رہا تھا اور وہ بھی کعبہ کی چھت سے جو مکہ میں سب سے اونچی چھت تھی(اس زمانہ میں کسی مکان کی چھت کعبہ کی چھت سے اونچی نہ تھی) یہ اس توحید و رسالت کا اعلان تھا جس کی اہل مکہ گذشتہ بیس سال سے دن رات مخالفت کر رہے تھے اور اسی کی مخالفت میں ان کے بڑے لوگوں نے میدانِ جنگ میں اپنی جانیں دے دی تھیں۔

آج اس کا اعلان انہی کے شہر میں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے ایک غلام کی زبان سے ہو رہا تھا چنانچہ کچھ لوگوں کی رگِ حمیت پھڑکی۔ اس وقت ابوسفیان بن حرب، عتاب بن اسید، خالد بن اسید اور حارث بن ہشام اور دیگر سرداران قریش صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتاب اور خالد نے کہا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے باپ اسید کی عزت رکھ لی کہ اس آواز کے سننے سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے چلا گیا۔ اگر وہ اس دنیا سے نہ اٹھا لیا گیا ہوتا تو اسے یہ ناگوار آواز سننی پڑتی۔‘‘

اس پر حارث بن ہشام بولا:’’سنو خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ حق پر ہیں تو میں ضرور آپ کی اتباع کرتا۔‘‘

ابوسفیان نے کہا۔ ’’دیکھو خدا کی قسم! میں کچھ نہیں کہتا کیونکہ اگر میں نے کوئی لفظ اپنی زبان سے نکالا تو یہ کنکریاں بھی میرے متعلق خبر دے دیں گی۔‘‘

تھوڑی دیر بعد سرکار دو عالم ﷺ ادھر سے گزرے اور ان تینوں کو اکٹھا بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ ابھی تم لوگوں نے جو باتیں کی ہیں وہ مجھے معلوم ہو چکی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے ان کی تمام گفتگو دہرا دی۔ یہ سن کر حارث بن ہشام اور عتاب بن اسید بول اٹھے کہ ’’ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ خدا کی قسم! کوئی اور شخص ہمارے ساتھ نہ تھا جو اس گفتگو سے باخبر ہوتا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو یہ خبر دی ہو گی۔‘‘

فتح مکہ کے بعد سیدنا بلالؓ جب بام کعبہ پر اذان دے رہے تھے تو قریش کے کچھ نوجوان جن میں سولہ سالہ ابومخدورہؓ بھی تھے اذان کی نقلیں اتارنے لگے۔ ابو مخدورہ بلند آواز اور خوش الحان تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو نقل اتارتے دیکھ کر فرمایا کہ پکڑو ان کو، چنانچہ کچھ تو بھاگ گئے اور کچھ بچے پکڑے گئے۔ ان میں ایک ابو مخدورہ بھی تھے۔ آپ ﷺ نے ابو مخدورہ کی خوش الحانی کے پیش نظر ان کو روک لیا اور باقی بچوں کو چھوڑ دیا۔

ابو مخدورہ سمجھنے لگے کہ شاید میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ آپ ﷺ نے ابو مخدورہ سے فرمایا:۔ ’’اذان دو۔‘‘ انہوں نے بادل نخواستہ اذان دی۔ اذان کے بعد آپ ﷺ نے انہیں ایک تھیلی عطا فرمائی جس میں کچھ درہم تھے اور سر اور پیشانی پر دست مبارک پھیرا اور پھر سینہ اور شکم پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی:

بارک اللہ فیک وبارک اللہ علیک۔

آپ ﷺ کا ان کے سر، منہ اور سینہ پر ہاتھ پھیرنا تھا کہ اسلام کے بارے میں ان کی ساری نفرت محبت میں تبدیل ہو گئی۔ قلب آپ ﷺ کی محبت سے لبریز ہو گیا۔ پھر خود ہی عرض کی:’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھ کو مکہ کا مؤذن مقرر فرما دیجئے۔‘‘

آپﷺ نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے انہیں مکہ مکرمہ کا مؤذن مقرر فرما دیا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ حنین کی واپسی کا ہے اور اس وقت آپ ﷺ نے انہیں مکہ کا مؤذن مقرر فرمایا تھا۔ اب گورنر مکہ ۲۱ سالہ اور مؤذن مکہ ۱۶ سالہ۔ سیدنا عتاب بن اسیدؓ اپنی وفات تک مکہ کے گورنر رہے اور جس روز سیدنا صدیق اکبرؓ کا انتقال ہوا اسی روز ان کا بھی انتقال ہوا۔

سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا جبکہ سرکار دو عالم ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر قیام پذیر تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سیدنا بلالؓ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’حضور ﷺ ! جو آپ ﷺ نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا اس کو پورا فرمائیے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’خوش خبری ہو۔‘‘

اعرابی نے کہا۔ ’’ابشر (خوشخبری) سے بھی کچھ زیادہ ہے۔‘‘

پھر رسول اللہ ﷺ ابو موسیٰ اشعریؓ اور بلالؓ کی طرف سے متوجہ ہوئے، چہرۂ  اقدس پر غصے کے آثار تھے اور فرمایا۔ ’’اس شخص نے بشارت کو رد کر دیا ہے۔‘‘دونوں نے آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کی:’’یارسول اللہ ﷺ ! ہم نے قبول کیا۔‘‘

پھر سرکار دو عالم ﷺ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس میں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ مبارک دھوئے اور اس میں کلی کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے کہا کہ ’’اس میں سے پی لو اور اپنے سینوں پر پانی ڈالو، تمہارے لیے خوشخبری اور بشارت ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اس پیالہ کو لیا اور ایسا ہی کیا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا۔ سیدہ ام سلمہ ام المومنینؓ  نے پردے کے پیچھے سے آواز دی۔ ’’اپنی ماں (اپنی طرف اشارہ فرمایا) کے لیے بچاؤ جو کچھ تمہارے برتنوں میں ہے۔‘‘

پھر انہوں نے پانی کا کچھ حضرت سیدہ ام سلمہؓ  کے لیے بچا لیا۔

فتح مکہ کے روز رسول اللہ ﷺ،  سیدنا اسامہ بن زیدؓ، سیدنا بلالؓ اور سیدنا عثمانؓ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور سیدنا ابن عباسؓ کو دروازہ پر کھڑا کیا۔ سیدنا بلالؓ نے اندر سے کعبہ کے دروازہ کو بند کر دیا مبادا ہجوم نہ ہو جائے۔ یہ وہ شرف تھا کہ سیدنا بلالؓ ہزاروں کے مجمع میں سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ بیت اللہ کے اندر گئے۔ سیدنا بلالؓ فرماتے ہیں کہ دوسری اور آخری دفعہ میں اور سیدنا اسامہؓ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں بیت اللہ کے اندر گئے۔

ایک مرتبہ چار اونٹوں پر فدک سے غلہ آیا۔ پہلے تو قرض ادا کیا۔ پھر کچھ لوگوں میں تقسیم کیا۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے سیدنا بلالؓ سے پوچھا۔ ’’کچھ بچ تو نہیں گیا؟‘‘

حضرت بلالؓ نے عرض کیا۔ ’’کچھ بچ گیا ہے کیونکہ کوئی لینے والا نہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’جب تک دنیا کا یہ مال باقی ہے، میں گھر نہیں جا سکتا۔‘‘

چنانچہ رات آپ ﷺ نے مسجد ہی میں بسر کی۔ صبح کو سیدنا بلالؓ نے آ کر خوشخبری سنائی کہ یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس مال کے بار دوش سے سبکدوش کر دیا ہے یعنی جو کچھ مال و متاع بچا ہوا تھا وہ تقسیم ہو گیا ہے۔ اب کچھ نہیں رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

ایک مرتبہ حضرت بلالؓ برنی کھجوریں جو کہ نہایت عمدہ اور خوش ذائقہ ہوتی ہیں، سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں لائے۔ آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا۔ ’’بلال! یہ کہاں سے لائے؟‘‘

حضرت بلالؓ نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! میرے پاس کچھ معمولی کھجوریں تھیں، چونکہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں اچھی کھجوریں پیش کروں، اس لیے میں نے دو صاع ردی کھجوریں دے کر اس کے عوض میں ایک صاع اچھی کھجوریں حاصل کر لیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اف! اف! ایسا نہ کیا کرو، یہ تو عین سود ہے۔ یہ تو عین سود ہے۔ اگر تمہیں خریدنا تھا تو پہلے اپنی کھجوروں کو فروخت کرتے۔ پھر اس کی قیمت سے اچھی کھجوریں خریدتے۔‘‘

ابن بریدہؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور اوقات نماز کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ہمارے ساتھ نماز ادا کرو انشاء اللہ معلوم ہو جائے گا۔‘‘

پھر سرکار دو عالم ﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا۔ انہوں نے اقامت کہی جبکہ فجر طلوع ہو چکی تھی۔ ظہر کی نماز کے لیے سیدنا بلالؓ نے اقامت اس وقت کہی جب سورج زوال میں آ چکا تھا۔ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز ادا کی اور ابھی سورج سفیدی پر ہی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز مغرب کا حکم دیا جبکہ سورج غروب ہو گیا۔ پھر جب شفق غائب ہو گئی تو سرکار دو عالم ﷺ نے عشاء کا حکم دیا۔ اسی طرح دوبارہ ظہر کا حکم دیا جبکہ ٹھنڈک ہو چکی تھی۔ عصر کا حکم دیا، پھر مغرب کے لیے آخر وقت تک شفق کے غائب ہونے سے تھوڑی دیر پہلے تک تاخیر کی، اس کے بعد عشاء کی نماز کا حکم دیا جبکہ ایک تہائی رات جا چکی تھی۔

اس کے بعد فرمایا۔ ’’وہ سائل کہاں ہے؟‘‘ وہ شخص آپ ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اوقات نماز ان کے درمیان درمیان ہے۔

سیدنا ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ حضرت بلالؓ نے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ٹھنڈا ہونے دو۔‘‘

انہوں نے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا:’’ٹھنڈا ہونے دو۔‘‘

انہوں نے تیسری بار اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ٹھنڈا وقت ہونے دو۔‘‘

حتیٰ کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا تو آپ ﷺ نے انہیں اذان دینے کی اجازت دے دی اور فرمایا:’’گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے سے ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں ہوتے تو سیدنا بلالؓ آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے اور جب وہ اذان کا ارادہ کرتے تو حضور اکرم ﷺ فرماتے کہ ظہر میں ٹھنڈک کرو حتیٰ کہ سایہ زمین پر آ پڑتا۔

ایک مرتبہ ایک اعرابی آیا اور بیان کیا کہ میں نے ہلال (روزوں کا چاند) دیکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟‘‘

اس نے کہا۔ ’’ہاں، یارسول اللہ ﷺ۔ ‘‘

جب اس نے اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر کیا تو آپ ﷺ نے اس کی گواہی کو قبول فرمایا اور سیدنا بلالؓ کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کر دو تاکہ وہ روزہ رکھیں۔

معلوم ہوا کہ گواہ کا عاقل اور بالغ ہونے کے علاوہ مسلمان ہونا بھی ضروری ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی پاک ﷺ نے اپنے خصوصی اصحاب کا تذکرہ کیا اور فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیقؓ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کیا، میرے ساتھ ہجرت کی اور اپنے مال سے بلالؓ کو آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمرؓ پر رحم فرمائے، وہ ہمیشہ سچی بات کہتے ہیں خواہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو، سچ کہنے کی عادت نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ ان کا کوئی دوست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عثمان غنیؓ پر رحم فرمائے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیؓ پر رحم فرمائے وہ جہاں بھی جاتے ہیں حق ان کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

اس فرمان میں نبی پاک ﷺ نے اس بات کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے کہ انہوں نے حضرت بلالؓ کو انتہائی بھاری رقم ادا کر کے آزاد کرایا تھا۔

فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بے شمار لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کو عثمان بن طلحہؓ کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ اس کو جا کر پیغام دو کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ کلید کعبہ لے کر حاضر ہوں۔ یہ کنجیاں صدیوں سے اسی خاندان کی تحویل میں چلی آ رہی تھیں۔ سیدنا بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کو عثمان بن طلحہ تک پہنچا دیا۔ عثمان نے کہا: بہت اچھا، اس نے اپنی والدہ سلافہ بنت سعد بن شہید الانصاریہ کے پاس جا کر عرض کی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے بیت اللہ کی چابیاں طلب کی ہیں۔ ادھر سیدنا بلالؓ نے آ کر عرض کیا کہ چابیاں لے کر عثمان ابھی حاضر ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ بھی لوگوں میں بیٹھ گئے۔ عثمان نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں خود چابیاں لے کر آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں۔ اس کی والدہ نے کہا:’’میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو اپنے ہاتھوں سے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں اپنی قوم کی عظیم الشان امانت لے جائے، تو ہی مجھے زیادہ عزیز ہے لہٰذا تو ہی لے جا۔‘‘

عثمان بن طلحہ خود چابیاں لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے یہ امانت پیش کر دی پھر آپ ﷺ نے بیت اللہ کا دروازہ کھولا تو اسامہ بن زیدؓ، عثمان بن طلحہؓ اور بلالؓ اندر داخل ہوئے۔ بعد میں دروازہ بند کر دیا گیا۔

ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے کسی وجہ سے دیر ہو گئی۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے خالد بن ولیدؓ کو دروازہ پر کھڑا کر دیا تاکہ لوگوں کو اندر آنے سے روکا جائے۔ جب آپ ﷺ کے داخل ہوتے ہی لوگوں کا ہجوم ہو گیا تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ آگے بڑھے اور لوگوں کی گردنوں پر سوار ہو گئے تاکہ اندر جا کر ہادی دوجہاں ﷺ کی اقتدا کی جائے لیکن رسول اللہ ﷺ دیر تک اندر ٹھہرے۔ پھر جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فوراً سیدنا بلالؓ سے جو دروازے کے پیچھے کھڑے تھے سوال کیا کہ ’’آپ ﷺ نے کعبہ میں داخل ہو کر کیا کِیا؟‘‘

سیدنا بلالؓ نے جواب دیا۔ ’’کعبہ میں چھ ستون دو قطاروں میں ہیں۔ قطاروں کے دو ستونوں کے درمیان آپ ﷺ نے دو رکعت نماز ادا کی اور کعبہ کا دروازہ آپ ﷺ کے پیچھے تھا۔ جب آپ ﷺ اندر گئے تو دیوار آپ ﷺ کے مقابل تھی اور آپ ﷺ کے اور دیوار قبیلہ کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا جہاں آپ ﷺ نے نماز پڑھی، وہاں سرخ سنگ مر مر لگا ہوا تھا۔‘‘

جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو دروازہ بند کر دیا گیا اور خانہ کعبہ کی چابیاں آپ ﷺ کے دست مبارک میں تھیں جو آپ ﷺ نے عثمان بن طلحہؓ کے حوالے کیں۔

عبدالرحمن فہبریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ سخت گرمی کے روز چلے، ایک درخت کے سایہ کے نیچے اترے۔ جب سورج زوال میں آ گیا میں نے اپنی زرہ سنبھالی اور گھوڑے پر سوار ہو کر سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے خیمہ میں تھے۔ میں نے کہا:’’السلام علیک یارسول اللہ ﷺ و رحمۃ اللہ۔‘‘

مغرب کا وقت قریب تھا۔ آپ ﷺ نے سلام کا جواب دیا، آپ ﷺ نے پھر بلالؓ کو آواز دی۔ بلالؓ ایک کیکر کے درخت کے نیچے تھے۔ آواز سن کر وہ ہوشیار ہوئے گویا اس درخت کا سایہ پرندے کے سائے کی طرح تھا۔ بلالؓ نے آواز دی: ’’لبیک، یارسول اللہﷺ !

آپ ﷺ نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کسو۔‘‘

انہوں نے فوری طور پر آپ ﷺ کے گھوڑے پر زین کس دی۔ جس کی دونوں طرف کھجور کی چھال کی تھیں۔ اس میں کوئی بڑی شان و شوکت نہ تھی۔

راوی کہتے ہیں کہ جب زین ڈال دی گئی تو رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی اپنی سواریوں پر سوار ہوئے۔ ہم رات کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں صف بستہ ہو گئے۔

سیدنا انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا کہ آپ کے پاس ان چیزوں سے عمدہ کوئی چیز نہ تھی جس کو آپ نے مجھے دے دیا۔ میرا مؤذن بلالؓ اور میری ناقہ جس پر میں نے اور آپ کی صاحبزادی عائشہ صدیقہؓ  نے ہجرت کی، گویا آپ کو میں جنت کے دروازہ پر دیکھتا ہوں کہ آپ میری امت کی شفاعت فرما رہے ہیں۔‘‘

حضرت عرباضؓ فرماتے ہیں میں سفر میں، حضر میں ہمیشہ حضور اکرم ﷺ کے دروازے پر پڑا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم تبوک میں تھے۔ ہم رات کو کسی کام سے کہیں گئے۔ جب ہم حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں واپس آئے تو آپ ﷺ بھی اور آپ ﷺ کے پاس جتنے صحابہ کرامؓ  تھے وہ سب بھی رات کا کھانا کھا چکے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے مجھ سے پوچھا آج رات تم کہاں تھے؟ میں نے آپ ﷺ کو بتایا اتنے میں حضرت جعال بن سراقہ اور حضرت عبداللہ بن معقل مزنیؓ  بھی آ گئے اور یوں ہم تین ہو گئے اور تینوں کو بھوک لگی ہوئی تھی۔

حضور اکرم ﷺ حضرت ام سلمہؓ  کے خیمے میں تشریف لے گئے اور ان سے ہمارے کھانے کے لیے کوئی چیز طلب فرمائی لیکن آپ ﷺ کو کچھ نہ ملا پھر پکار کر آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا۔ ’’کچھ ہے؟‘‘

حضرت بلالؓ چمڑے کا تھیلا پکڑ کر جھاڑنے لگے تو ان میں سے سات کھجوریں نکل آئیں۔ حضور اکرم ﷺ نے وہ کھجوریں ایک بڑے پیالے میں ڈالیں اور پھر ان پر ہاتھ مبارک رکھا اور اللہ کا نام لیا اور فرمایا اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ ہم نے وہ کھجوریں کھائیں۔ میں کھجوریں گنتا جا رہا تھا اور ان کی گٹھلیاں دوسرے ہاتھ میں پکڑتا جا رہا تھا۔ میں نے گنا تو میں نے ۵۴ کھجوریں کھائی تھیں۔ میرے دونوں ساتھی بھی میری طرح ہی کر رہے تھے اور کھجوریں گن رہے تھے۔ انہوں نے پچاس پچاس کھجوریں کھائی تھیں۔ جب ہم نے کھانے سے ہاتھ ہٹائے تو ساری کھجوریں ویسی کی ویسی تھیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’اے بلال! ان کو اپنے تھیلے رکھ لو۔‘‘

جب دوسرا دن ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے وہ کھجوریں پیالہ میں ڈالیں اور فرمایا اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ ہم دس آدمی تھے ہم نے پیٹ بھر کر وہ کھجوریں کھائیں پھر جب ہم نے کھانے سے ہاتھ ہٹائے تو وہ کھجوریں اسی طرح سات تھیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے اپنے رب سے حیا نہ آتی تو ہم سب مدینہ پہنچنے تک یہی کھجوریں کھاتے رہتے۔ حضور اکرم ﷺ جب مدینہ پہنچ گئے تو مدینہ کا ایک چھوٹا سا لڑکا آپ ﷺ کے سامنے آیا۔ آپ ﷺ نے یہ کھجوریں اسے دے دیں اور وہ کھجوریں کھاتا ہوا چلا گیا۔

حضرت ابو حجیفہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم وادی بطحاء میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ اپنے سرخ رنگ کے خیمے میں تھے اور آپ ﷺ کے پاس تھوڑے سے لوگ تھے، آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے سرخ رنگ کا دھاری دار جوڑا زیب تن فرما رکھا تھا اور آپ ﷺ کی مبارک پنڈلیوں کی سفیدی مجھے اب بھی یاد ہے گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے وضو فرمایا، اتنے میں حضرت بلالؓ آئے اور انہوں نے اذان دی۔ اذان کے دوران جب انہوں نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو اپنے چہرے کو دائیں طرف پھیرا اور جب حی علی الفلا ح کہا تو اپنے چہرے کو بائیں طرف پھیرا۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول پاک ﷺ کے ساتھ تھے، حضرت بلالؓ اذان کے لیے اٹھے اور اذان دی، جب وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من قال مثل ہذا یقینا دخل الجنۃ۔

’’جو شخص دل کے یقین کے ساتھ یہ کلمات کہے وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

حجۃ الوداع کے موقع پر ۸ تاریخ کو آپ ﷺ نے منیٰ کی طرف روانگی فرمائی۔ تمام قبائل عرب آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ سیدنا بلالؓ آپ ﷺ کو سورج کی گرمی اور روشنی سے بچانے کے لیے ایک کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ وہاں جا کر آپ ﷺ نے سیدنا بلالؓ کی اذان سے ظہر، عصر، مغرب اور عشا اور فجر کی نمازیں ادا کیں پھر مقام عرفات کی طرف کوچ فرمایا۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ وہاں آ کر آپ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ اس وقت آپ ﷺ کے گرد و پیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اور ایک دوسری روایت کے مطابق ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ آپ ﷺ عرفات کے وسط میں تشریف لائے اور اپنی ناقہ پر سوار ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے پہلا چارٹر ہے اور دنیا اتنی ترقی کرنے کے باوجود اس سے بہتر انسانی حقوق کا چارٹر نہیں دے سکی۔

آپ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا:

’’اے لوگو! میری بات غور سے سنو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اس سال کے بعد اس مقام پر تم سے کبھی مل سکوں۔

اے لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہیں جس طر ح تمہارے آج کے دن کی اور اس مہینے ذی الحجہ اور شہر مکہ کی حرمت ہے۔

اے لوگو! جس کسی کے پاس دوسرے کی امانت ہو وہ اس کے مالک کو لوٹا دی جائے۔

جاہلیت کے تمام امور میرے قدموں کے نیچے پامال ہیں اور جاہلیت کے تمام خون معاف اور ختم ہیں اور سب سے پہلے میں ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے کا خون جو ہذیل کے ذمہ ہے معاف کرتا ہوں (یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ بنو ہذیل نے اسے قتل کر دیا)

جاہلیت کے تمام سود ختم کر دیے گئے تمہارے لیے اب صرف راس المال ہے، نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو اور نہ قیامت کے روز تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا ہے۔ سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سارا سود ساقط اور باطل کرتا ہوں۔

اے لوگو! اب عرب میں شیطان کی پوجا کبھی نہیں کی جائے گی لیکن اس کی پرستش کے بجائے اگر شیطان کی صرف اطاعت کی گئی تب بھی وہ خوش ہو گا اس لیے دینی امور میں شیطانی وسوسوں کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دو۔

ہاں، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے۔ یہ بھی جان لو کہ تمہارا بھی تمہاری بیویوں پر حق ہے اور ان کا بھی تمہارے اوپر حق ہے اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر مرد یا کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور اگر وہ کسی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو تم کو اللہ نے اجازت دی ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے ان کو اپنی خواب گاہوں سے الگ کر سکتے ہو اور ایسی بڑی سزا دے سکتے ہو جو نشان ڈالنے والی نہ ہو، پھر اگر وہ باز آ جائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو قاعدے اور دستور کے مطابق ان کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے یقیناً خواتین تمہارے زیر نگین ہیں جو اپنے لیے خود کچھ نہیں کر سکتیں۔

اے لوگو! سب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، کسی کے لیے اس کے بھائی کا مال لینا اس کی رضامندی اور خوش دلی کے بغیر جائز نہیں میرے بعد کہیں اس اخوت کو ترک کر کے پھر کافرانہ رنگ ڈھنگ اختیار کر کے ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنے لگنا۔

میں تمہارے درمیان ایک ایسی شے چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم اس پر کاربند رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت۔

اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اور نہ تمہارے بعد کوئی اور امت برپا کی جانے والی ہے، لہٰذا اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو، پانچ وقت نماز پڑھتے رہو، رمضان کے روزے رکھتے رہو، خوش دلی اور رغبت سے اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اپنے رب کے گھر کا حج کرتے رہو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرتے رہو تاکہ اپنے رب کی جنت میں داخل ہو سکو۔

اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لیے ایک حصہ مقرر کر دیا ہے اور ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت کرنا جائز نہیں۔

بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لیے پتھر ہے۔

جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا، یا جس غلام نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہر کیا تو ایسے شخص پر اللہ، اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے، اس سے قیامت کے روز کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہو گا۔

تم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ تم لوگ کیا کہو گے؟‘‘

تمام لوگوں نے بآواز بلند کہا :’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا، امت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا، حقیقت کے سارے پردے اٹھا دیے اور اللہ کی امانت کو ہم تک کماحقہ پہنچا دیا۔‘‘

لوگوں کے منہ سے یہ گواہی کے الفاظ سن کر آپ ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا:

اللھم اشہد۔  ’’اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘

’’سنو لوگو! جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دیں۔‘‘

جب آپ ﷺ اس خطبہ سے فارغ ہوئے تو آپ اپنی اونٹنی قصویٰ سے اتر کر زمین پر فروکش ہوئے۔ سیدنا بلالؓ نے ظہر کی اذان دی۔ ظہر اور عصر دونوں نمازیں آپ ﷺ نے ایک ہی وقت میں ادا فرمائیں۔ بعد ازاں حمد و ثنا اور دعا و استغفار میں مشغول ہو گئے۔ اسی اثنا میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:

{الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا}

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا۔‘‘

آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ آپ ﷺ کے ردیف تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ انہوں نے کہا:۔ ’’یارسول اللہ ﷺ ! نماز مغرب کا وقت ہو چکا ہے۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’نماز کا موقع آگے آتا ہے۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ پہنچ کر قیام کیا۔ سیدنا بلالؓ نے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق اذان کہی اور پہلی اقامت سے مغرب اور دوسری اقامت سے نماز عشاء ادا کیں۔ پھر آپ ﷺ نے آرام فرمایا حتیٰ کہ فجر طلوع ہو گئی۔ سیدنا بلالؓ نے اذان کہی اور اقامت سے آپ ﷺ نے نماز فجر پڑھائی پھر آپ ﷺ اپنی ناقہ پر سوار ہو گئے۔ وہاں اس وقت سیدنا فضل بن عباسؓ آپ ﷺ کے ردیف تھے۔ آپ تہلیل و تکبیر کہتے ہوئے منیٰ میں جمرہ کبریٰ کے پاس آئے۔ سیدنا فضل بن عباسؓ آپ ﷺ کو سات کنکریاں چن کر دیں اور آپ ﷺ نے تکبیر کہہ کر پھینکیں۔

یہاں سے فارغ ہو کر اپنے خیمہ میں جو آپ ﷺ کے آنے سے قبل نصب کر دیا گیا تھا، تشریف لائے۔ اس کے بعد آپ ﷺ قربان گاہ تشریف لے گئے اور اپنی عمر کے بقدر تریسٹھ اونٹ خود اپنے دست مبارک سے قربان کیے اور ۳۷ اونٹ آپ ﷺ کی طرف سے سیدنا علیؓ نے قربان کیے۔ بعد ازاں آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ طواف کے بعد نماز ظہر مکہ ہی میں ادا فرمائی۔ اس کے بعد ایام تشریق ۱۱-۱۲-۱۳ ذی الحجہ منیٰ ہی میں قیام فرمایا۔ جمرات کو کنکریاں بھی ماریں۔

آپ ﷺ کے دائیں بائیں دور دور تک لوگوں کا مجمع تھا اور آپ ﷺ لوگوں کو حج کے مسائل بتا رہے تھے۔ سیدنا بلالؓ کے ہاتھ میں ناقہ کی مہار تھی اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ آپ ﷺ پر سایہ کیے ہوئے تھے۔

وصال سے قبل نبی کریم ﷺ کی علالت نے ابتدا ہی میں شدت اختیار کر لی جیسے جسم کا رواں رواں حرارت کا سوتا بن گیا ہو، لیکن جونہی حرارت میں کمی واقع ہوئی آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور نماز پڑھائی اور اسی طرح ایک سے زیادہ دنوں تک نمازیں پڑھاتے رہے۔ ایک روز نماز عشاء کے وقت سیدنا بلالؓ نے اذان دی۔ آپ ﷺ نے وضو کے لیے پانی مانگا۔ آفتابہ میں جو مٹی یا تانبے کا تھا، پانی لایا گیا۔ جب آپ ﷺ نے مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ پر غشی طاری ہو گئی۔ افاقہ ہوا تو فرمایا کہ میں نماز پڑھاؤں گا۔ عرض کی گئی کہ لوگ بھی حضور اکرم ﷺ کے منتظر ہیں۔

آپ ﷺ نے وضو کے لیے پھر پانی طلب فرمایا۔ وضو سے فارغ ہو کر چلنے لگے تو پھر غشی طاری ہو گئی۔ پھر افاقہ ہوا تو سیدنا بلالؓ نے عرض کی کہ ’’لوگ بہت بے تاب ہیں اور آپ ﷺ کے منتظر ہیں۔‘‘

مختصر یہ کہ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا اور آپ ﷺ پر غشی طاری ہوئی۔ آخرکار حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بلا بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا بلالؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضور اکرم ﷺ کا پیغام دیا۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ سے فرمایا:’’آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘

سیدنا عمر فاروقؓ نے جواب دیا کہ ’’آپ مجھ سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں۔‘‘

پھر سیدنا بلالؓ نے واپس آ کر حجرۂ  رسول ﷺ پر کھڑے ہو کر حسب عادت۔ ’’الصلوٰۃ، الصلوٰۃ، یارسول اللہ ﷺ !۔‘‘ کہا تو جواب موصول ہوا کہ نماز کی طاقت نہیں رکھتے کہ باہر نکل سکیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ کے پاس جاؤ تاکہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا بلالؓ لوٹے تو آبدیدہ ہو رہے تھے۔

لوگوں نے متحیر ہو کر دریافت کیا کہ۔ ’’بلال ! کیا معاملہ ہے؟‘‘

عرض کیا۔ ’’رسول اللہ ﷺ باہر نکل کر لوگوں کو نماز پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘

لوگ بہت روئے۔ پھر انہوں نے سیدنا عمر فاروقؓ سے نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے جواب دیا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی موجودگی میں نماز پڑھانے کی کبھی جرأت نہیں کر سکتا۔ پھر سیدنا بلالؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ابوبکر صدیقؓ دروازہ پر کھڑے ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا:’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ پھر فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہہ دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر سیدنا بلالؓ نے باہر نکل کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہؓ  روایت فرماتی ہیں کہ میں نے بارگاہِ  رسالت میں عرض کیا:

’’ابوبکر صدیقؓ بہت ہی رقیق القلب ہیں، جب وہ آپ ﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو وہ اپنی رقت قلبی کی وجہ سے لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے اور بکا اور گریہ کی وجہ سے قرأت نہیں کر سکیں گے، لہٰذا آپ ﷺ عمرؓ کو نماز پڑھانے کے لیے فرما دیں۔‘‘

لیکن آپ ﷺ نے ہر بار انکار فرمایا آپ ﷺ نے تین چار بار یہی فرمایا کہ ابوبکرؓ کو میری طرف سے کہیں کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، اور بالآخر فرمایا:’’ تم سب یوسف کی سہیلیوں کی طرح ہو، ابوبکر صدیقؓ کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘

جناب سلیم گیلانی صاحب نے افسانوی انداز میں حضرت بلالؓ کی سوانح عمری ترتیب دی ہے اس میں وہ حضرت بلالؓ کی زبانی وصال رسول ﷺ سے کچھ دیر قبل کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

’’میں نے حسب معمول انہیں بیدار کیا، وہ باہر تشریف لائے مگر ان کی حرکات و سکنات میں روزمرہ جیسی چستی نہیں تھی۔ سر درد کی شکایت کر رہے تھے، مجھے کہا میں ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیکھوں کہیں بخار تو نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ پیشانی گرم ہے۔ حضور ﷺ آرام فرمائیں لیکن انہوں نے میرے ساتھ مسجد جانے پر اصرار کیا۔ چلنے لگے تو نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ میرا بازو تھام لیا میں انہیں اپنے ساتھ لے کر چلنے لگا۔ چلتے چلتے وہ اچانک رک گئے اور کہنے لگے:

’’بلال تمہیں یاد ہے جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی، اس دن بھی ہم ایسے ہی چل رہے تھے لیکن اس دن میں نے تمہیں سہارا دیا ہوا تھا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ ہنس پڑے میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا:

’’بائیس سال پہلے کی بات ہے۔‘‘

انہوں نے فرمایا:’’ نہیں بلال نہیں، کل کی، کل کی بات ہے۔‘‘

مذکورہ کتاب سے ماخوذ ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیے جس میں حضرت بلالؓ کی زبانی اس واقعہ کو بیان کیا گیا جس میں رسول پاک ﷺ کے مرض الوفات کی شدت کا ذکر ملتا ہے۔

’’سارا دن بخار تیز ہوتا گیا۔ دوسرے دن صبح اور بھی زیادہ تھا مگر پھر بھی وہ بستر سے اٹھے اور اپنی آواز کی نقاہت اور ہاتھوں کی لرزش کے باوجود امامت فرمائی۔ تیسرے اور چوتھے دن بھی صورت حال ایسی رہی۔ پانچویں دن جب میں نے صبح دروازے پر دستک دی تو دروازہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کھولا۔ چہرے پر بہت پریشانی تھی، ان کے عقب میں رسول اکرم ﷺ کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی۔ انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے مجھے ایک بالٹی دی اور ٹھنڈا پانی لانے کے لیے کہا۔

میں بالٹی لیتے ہی دوڑ پڑا۔ ایک کنواں، دوسرا کنواں، تیسرا، چوتھا چھوڑتا ہوا میں اس کنویں پر پہنچ گیا جس کا پانی مدینہ میں سب سے ٹھنڈا تھا۔ بالٹی رسی سے باندھ کر جلدی سے کنویں میں ڈالی تو کنویں کی تہہ میں ایک چھپاکا ہوا، مجھے وہ آواز آج بھی یاد ہے۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس پانی کی ٹھنڈک فوراً ہی حضور اکرم ﷺ کے جسم کی حدت کو ختم کر دے گی۔ پانی لے کر جلدی سے واپس گیا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حوالے کیا۔ میرے پاس اتنا ہی وقت تھا کیونکہ دن چڑھنے سے پہلے مجھے اپنے فرض سے سبکدوش ہونا تھا۔ میں جانتا تھا اگر حضور اکرم ﷺ کے کانوں میں اذان کی آواز نہ پڑی تو وہ اپنی بیماری کی تکلیف سے بھی زیادہ تکلیف محسوس کریں گے۔

اذان دے کر میں نے پھر حضرت عائشہ صدیقہؓ  کے حجرے پر دستک دی۔ چہرے کی پریشانی کچھ کم تھی۔ میرے دل کو بھی ذرا اطمینان ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ  نے کہا۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے تمہارے لیے پیغام دیا ہے کہ آج سے بہتر اذان تم نے کبھی نہیں دی۔‘‘

سلیم گیلانی کی کتاب کا ایک اور خوبصورت اقتباس ملاحظہ فرمائیے، حضرت بلالؓ فرماتے ہیں:

’’اس رات جب تاریکی گہری ہو گئی تو حضور اکرم ﷺ نے جنت البقیع جانے کا ارادہ کیا۔ میں اور علیؓ ساتھ ہو لیے، اس خیال سے کہ ضعف کی وجہ سے گر نہ پڑیں، مگر ہم نے دیکھا کہ ان کے قدم نہایت مضبوطی سے پڑ رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ قبروں تک پہنچ گئے اور بلند آواز میں فرمانے لگے:

’’اے قبر کے رہنے والو تمہیں سلام

خوشی مناؤ تم زندہ لوگوں سے بہتر ہو

وہ صبح جو تمہیں جگاتی ہے

اس صبح سے بہتر ہے

جو زندہ لوگوں کو جگاتی ہے۔‘‘

گہری تاریکی میں ان کا روئے مبارک مجھے نظر نہیں آ رہا تھا مگر ان کے کلمات کا ایک ایک حرف میرے دل پر نقش ہو گیا۔

حضرت بلالؓ فرماتے ہیں:

’’بقیع سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے عائشہ صدیقہؓ  سے پوچھا کہ گھر میں کتنی رقم ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ  کو اس سوال کا جواب دینے میں زیادہ وقت نہیں لگا فوراً بولیں:’’سات درہم۔‘‘

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’انہیں بھی خیرات کر دو۔ میں اس رقم کے ساتھ اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘

اس کے بعد وہ صرف ایک بار اور مسجد میں تشریف لائے۔ میرے لیے یہ ان کا آخری دیدار تھا۔ صرف چند گھنٹوں کی زندگی باقی تھی۔ انسؓ جو میرے قریب کھڑے تھے، آپ ﷺ کو دیکھ کر کہا کہ میں نے کبھی ان کا چہرہ اتنا حسین نہیں دیکھا۔ ان کا چہرہ دمک رہا تھا۔ بہت آہستہ آہستہ کلام فرما رہے تھے:

’’اگر میری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ پہنچا ہو تو وہ مجھے معاف کر دے۔قرآن ہدایت کا سرچشمہ ہے اسے سینے سے لگا کر رکھنا۔‘‘

جب انہیں سہارا دے کر اٹھایا گیا تو انہوں نے کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی اور فرمایا:

’’میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن یاد رکھنا تمہیں میرے پیچھے آنا ہے۔‘‘

حضور اکرم ﷺ کے وصال کا یہ روح فرسا اور جاں گداز واقعہ ۱۲ ربیع الاول سنہ ۱۱ھ بروز پیر چاشت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ سال چار دن تھی۔

اہل بیت نبوت اور صحابہ کرامؓ  آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے۔ ابھی رسول اللہ ﷺ کے انتقال پُر ملال کی خبر پھیلی نہیں تھی کہ سیدنا بلالؓ نے جذبۂ الفت اور بے ساختگی کے عالم میں مسجد نبوی میں اذان شروع کر دی، بلکہ سیدنا ابوبکرؓ نے بھی انہیں اذان دینے کے لیے کہا۔ جس وقت حضرت بلالؓ نے زبان سے ’’اللہ اکبر‘‘ کہا تو اہل مدینہ کے دلوں سے نالہ و فغاں کا ایسا شور بلند ہوا کہ آسمان سے پار نکل گیا اور جب آپ ﷺ کی طرف کھڑے ہو کر ’’اشہد ان محمداً رسول اللہ‘‘ کہا تو افق مدینہ پر غم و اندوہ کے بادل چھا گئے اور مسجد نبوی میں آہ ہ بکا کا ایک کہرام مچ گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جتنا غم و الم نبی اکرم ﷺ کے غلاموں کو اس دن ہوا، اتنا کبھی نہیں ہوا۔

حضرت ام سلمہؓ  فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کا جنازہ ہمارے گھروں میں رکھا ہوا تھا۔ ہم سب ازواج مطہرات g جمع تھیں اور رو رہی تھیں اور اس رات ہم بالکل نہ سوئی تھیں۔ ہم آپ ﷺ کو چارپائی پر دیکھ کر خود کو تسلی دے رہی تھیں کہ اتنے میں آخر شب میں حضور اکرم ﷺ کو دفن کر دیا گیا اور قبر پر مٹی ڈالنے کے لیے ہم نے پھاؤڑوں کے چلنے کی آواز سنی تو ہماری بھی چیخ نکل گئی اور مسجد والوں کی بھی اور سارا مدینہ اس چیخ سے گونج اٹھا۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان دی تو جب انہوں نے اذان میں حضور اکرم ﷺ کا نام لیا یعنی اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو زور زور سے رو پڑے اور اس سے ہمارا غم اور بڑھ گیا۔تمام لوگ آپ ﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے اندر جانے کی کوشش کرنے لگے اس لیے دروازہ اندر سے بند کرنا پڑا۔ ہائے وہ کتنی بڑی مصیبت تھی اس کے بعد جو بھی مصیبت ہمارے اوپر آئی تو حضور اکرم ﷺ (کے جانے) کی مصیبت کو یاد کرنے سے وہ مصیبت ہلکی ہو گئی۔

سرکار دو عالم ﷺ کے انتقال کے بعد سیدنا بلالؓ، سیدنا عائشہ صدیقہؓ  کے حجرہ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے روتے رہتے۔ حضور اکرم ﷺ کی مفارقت کا صدمہ انہوں نے اتنا محسوس کیا کہ پاؤں پر کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی، گویا کہ سراپا تصویر غم ہو کر رہ گئے۔ ابھی آپ ﷺ کی تدفین نہ ہوئی تھی کہ اذان کا وقت ہو گیا۔ لوگوں نے سیدنا بلالؓ کی طرف دیکھا کہ حسب معمول اذان دیں گے لیکن حضرت بلالؓ کو وہ ذات اقدس سامنے نظر نہ آتی تھی، کیسے اذان دیتے، اس لیے انہوں نے اذان دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں حضور اکرم ﷺ کے بعد کبھی اذان نہ دوں گا، کیونکہ اب دل فگار میں وہ سکت اور ہمت نہیں رہی کہ سرکار دو عالم ﷺ کا نام گرامی اتنی اونچی آواز سے لے سکوں۔ پہلے جب ان کا نام لیتا تھا تو وہ سامنے نظر آتے تھے، لیکن اب انہیں رخ زیبا لے کر کہاں ڈھونڈوں۔ یہ کہنا تھا کہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور زار و قطار رونے لگے۔ صحابہ کرامؓ  نے جب سیدنا بلالؓ کو اس طرح روتے دیکھا تو وہ بھی زار و قطار رسول اللہ ﷺ کی یاد میں رونے لگے۔ سیدنا بلالؓ کے انکار پر اب صحابہ کرامؓ  نے سیدنا ابو مخدورہؓ سے استدعا کی کہ وہ اذان دیں۔ چنانچہ انہوں نے اذان دی اور اس کے بعد وہی اذان دیتے رہے اور سیدنا بلالؓ نے پھر کبھی اذان نہ دی، کیونکہ وہ اندر سے ٹوٹ چکے تھے۔ ان کی ساری صلاحیتیں منجمد ہو گئی تھیں اور جب دل ٹوٹ جائے تو پھر اس کا جڑنا مشکل ہوتا ہے۔

ایک روز سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوذرؓ نے نہایت اصرار کے ساتھ سیدنا بلالؓ کو مسجد نبوی کی چھت پر چڑھایا، لیکن انہوں نے دیکھا کہ ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ دونوں نے سہارا دیا، لیکن سیدنا بلالؓ نے ابھی ’’اللہ اکبر‘‘ ہی کہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور الفاظ کا دروبست بھول گئے اور اذان نہ کہہ سکے۔ چار مرتبہ اذان شروع کی اور چاروں مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ سیدنا بلالؓ اکثر و بیشتر لفظ ’’محمد‘‘ آپ ﷺ کو دیکھ کر ادا کیا کرتے تھے۔ آپﷺ سامنے ہوتے تھے یا پاس ہوتے تھے تو آپ اشارہ سے ان کی رسالت و نبوت کی شہادت دیتے تھے، لیکن اب وہ ذات سامنے نہ تھی اس وجہ سے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا اور ذہن و قلب زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ صحابہ کرامؓ  نے ترس کھا کر ان کو مسجد نبوی ﷺ کی چھت سے نیچے اتار لیا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا بلالؓ رسول اللہ ﷺ کی مفارقت میں اکثر افسردہ اور غمگین رہتے تھے۔ آپ مدینہ طیبہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے تھے۔ ’’لوگو! تم نے کہیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے تو مجھے ان کا پتا بتا دو۔‘‘ یہاں تک کہ آپ مدینہ طیبہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔

حارث بن حسانؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم ﷺ کی ملاقات کے ارادے سے نکلے۔ جب ہم مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ جبکہ ایک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کا تصور کیے ہوئے تھا جبکہ سیدنا بلالؓ ہاتھ میں تلوار لیے کھڑے تھے۔

میں نے کہا: ’’آج کیا معاملہ ہے؟‘‘

جواب دیا۔ ’’سرکار دو عالم ﷺ سیدنا عمرو بن العاصؓ کو جہاد کے لیے روانہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔‘‘

معلوم ہوا کہ سیدنا بلالؓ آپ ﷺ کے ہمراہ ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کا اس دنیا سے انتقال فرمانا تھا کہ سیدنا بلالؓ کی دنیا تاریک ہو گئی۔ چنانچہ ’’لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں‘‘ والی کیفیت ان پر طاری ہو گئی۔ اگرچہ ظاہری طور پر مدینہ کے در و دیوار اور اس کے باسی اسی طرح تھے، لیکن اس عاشق زار کے لیے اب وہاں کوئی کشش نہ رہی۔ سب کچھ نظر آتا تھا لیکن وہ محبوب رب العالمین ﷺ جس کے دم قدم سے مدینہ یثرب سے مدینۃ النبی بنا تھا وہ ظاہری طور پر وہاں موجود نہیں تھا۔

اس صورت حال کے پیش نظر سب سے پہلے آپ فریضۂ اذان کے بار دوش سے سبکدوش ہوئے اور اب تہیہ کر لیا کہ مدینہ سے باہر شام میں جہاد کروں گا۔

ایک روز خطبۂ جمعہ میں اٹھ کر خلیفہ رسول ﷺ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کہا۔ ’’مجھے آپؓ نے خرید کر اللہ کے لیے آزاد کیا تھا یا اپنے آپ کے لیے؟‘‘

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’بلال! میں نے تجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا۔‘‘

عرض کیا: ’’میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے سنا ہے کہ مومن کا اصل عمل اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے:

’’لوگوں میں افضل وہ مومن ہے جو اپنے مال اور نفس سے جہاد کرے۔‘‘

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے دریافت کیا:’’بلال ! تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

عرض کیا۔ ’’میں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں تک کہ شہید ہو جاؤں۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے کہا۔ ’’تم جانتے ہو کہ میں بہت کمزور ہو گیا ہوں اور میری رحلت کا وقت اب قریب ہے لہٰذا تم میری خاطر مدینہ ہی میں رہو۔ میں اللہ سے تمہارے لیے دعا مانگتا ہوں۔‘‘

ابوبکرؓ مزاج شناس تھے، وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ سیدنا بلالؓ مدینہ کیوں چھوڑ رہے ہیں لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے اس خادمِ خاص کو اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے سیدنا بلالؓ کو مدینہ چھوڑنے کی اجازت نہ دی۔

جب سیدنا عمرؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو سیدنا بلالؓ ان سے اپنا وہی مطالبہ دہرایا جو مطالبہ انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کیا تھا۔ چنانچہ ابن سعد اور حافظ ذہبی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے انتقال فرمایا تو سیدنا بلالؓ سیدنا عمر بن خطابؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی وہی بات دہرائی جو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کہی تھی۔ سیدنا عمرؓ سیدنا بلالؓ کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کو اپنا آقا اور سردار کہتے تھے۔ چنانچہ سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے:

’’ابوبکرؓ ہمارے سردار تھے اور انہوں نے ہمارے سردار بلالؓ کو (خرید کر) آزاد کیا۔‘‘

اسی احترام کی وجہ سے سیدنا عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپ مدینہ نہ چھوڑیں، لیکن اب سیدنا بلالؓ نے انکار کر دیا۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ نے انہیں شام جانے کی اجازت دے دی اور وہ شام چلے گئے اور پھر وہیں ان کا انتقال ہوا۔

جب حضرت بلالؓ شام تشریف لے جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’اے بلال! اذان کے لیے کسے مقرر کروں؟ حضرت بلالؓ نے کہا۔ ’’حضرت سعد (قرظ ) کو۔ کیونکہ وہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں قباء میں اذان دیتے رہے ہیں۔‘‘

چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو اذان کے لیے مقرر فرمایا اور یہ فیصلہ کر دیا کہ اس کے بعد ان کی اولاد اذان دے گی۔

سیدنا بلالؓ جو پہلے ہی سے ملک شام میں شوق جہاد کی وجہ سے مقیم تھے۔ جب آپ کو بیت المقدس کی فتح اور سیدنا عمرؓ کی آمد کا علم ہوا تو فرط مسرت سے وہاں حاضر ہو گئے، خصوصیت سے سیدنا عمرؓ نے درخواست کی گئی کہ سیدنا بلالؓ کو اذان کے لیے کہا جائے کیونکہ ان کی اذان کی آواز سنے مدت ہو گئی ہے اور ویسے بھی رسول اللہ ﷺ نے ان کو ’’سید الموذنین‘‘ نے فرمایا ہے۔

مسلمانوں کی اس خواہش پر سیدنا عمرؓ نے آپ کو بلا کر فرمایا۔ ’’بلال! اصحاب رسولﷺ آپ سے اذان کہنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ عہد نبوت کا نقشہ ایک دفعہ پھر دیکھیں۔‘‘

سیدنا بلالؓ نے کہا :’’امیر المومنین! میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دوں گا لیکن آج صرف آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اذان دوں گا۔‘‘ جب اذان دینی شروع کی تو واقعی صحابہ کرامؓ  کی آنکھوں کے سامنے پھر عہد رسالت آ گیا اور ہر دل میں رقت طاری ہو گئی۔ ابھی آپ نے ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ ہی کہا تھا کہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور جب اشہد ان محمدا ًرسول اللہ کہا تو لوگوں میں رونے کی وجہ سے کہرام مچ گیا۔ قریب تھا کہ اللہ کے ذکر سے ان کے قلوب پھٹ جاتے، سیدنا بلالؓ کی اپنی ریش مبارک اشکوں سے تر ہو گئی۔ سیدنا ابو عبیدہؓ اور سیدنا معاذ بن جبلؓ روتے روتے بے تاب ہو گئے اور ان سب سے زیادہ امیر المومنین سیدنا عمرؓ روتے تھے یہاں تک کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور دیر تک یہی نقشہ جما رہا۔ سیدنا بلالؓ یہ دیکھ کر چاہتے تھے کہ اذان کو ادھورا ہی ختم کر دیا جائے لیکن انہوں نے اذان کو مکمل کیا جس کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے فوراً نماز پڑھائی۔

فتح فیساریہ کے موقع پر جب رومی بادشاہ نے مسلمانوں کے لشکر پر نظر دوڑائی تو اسے اسلامی لشکر بہت زیادہ معلوم ہوا۔ یہ صحابہ کرامؓ  کی کرامت تھی۔ بادشاہ نے کہا:

’’قسم ہے انجیل اور صلیب کی! پہلے تو مسلمان فوج کی تعداد پانچ ہزار تھی لیکن اب تو کئی ہزار معلوم ہوتی ہے۔ میرا والد ان کے حالات کو جانتا تھا۔ میرے لشکر میں زیادہ تر لوگ ارمنی ہیں۔ جب وہ مسلمانوں سے یرموک میں ملا تو دس لاکھ کی تعداد تھی۔ البتہ مجھے ان کے ما قبلہ میں نکلنے پر ندامت ہوئی ہے۔ اب میں کوئی نہ کوئی مکر اور حیلہ تلاش کروں گا۔‘‘

پھر اس نے قیساریہ کے ایک عالم کو اپنے پاس بلایا اور کہا تو اس عرب قوم کے پاس جا کر ان سے کہو کہ بادشاہ کے پاس ایک اپنا فصیح و بلیغ اور بہادر شخص صلح کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے بھیجیں۔ وہ اسی وقت سیاہ لباس اور بالوں کی ٹوپی پہن کر سبز اُشتر پر سوار ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک صلیب جواہرات سے مرصع تھی۔ وہ مسلمانوں کے لشکر میں آیا۔ اس نے آ کر مسلمانوں سے درخواست کی:

’’اے گروہ عرب! مجھے بادشاہ قسطنطین نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اپنا ایک نمائندہ صلح کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے اس کے پاس بھیجیں کیونکہ بادشاہ لڑائی نہیں چاہتا اور وہ اپنے دین کی تعلیم کی وجہ سے خون ریزی، ظلم اور غارت گری کو روا اور جائز نہیں سمجھتا۔ اس لیے آپ حضرات کو چاہئے کہ آپ بھی ہم پر ظلم اور زیادتی نہ کریں اور بادشاہ آپ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ اس کے پاس ایک فصیح و بلیغ اور بہادر و جرأت مند آدمی کو مذاکرات کیلئے بھیجیں۔‘‘

سیدنا عمرو بن العاصؓ نے اس سفیر کی سب باتوں کو نہایت خاموشی سے سنا۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے اس غیر مختون کے کلام کو سن لیا ہے۔ اب کون تم میں سے بطیب خاطر بادشاہ رومی سے جا کر گفت و شنید کرے گا۔ سیدنا بلال بن رباحؓ مؤذن رسول اللہ ﷺ جو جوان روسیاہ، دراز قامت، چہرہ چمک دار، آنکھیں سرخ مثل خون بستہ نے بلند آواز سے کہا۔ ’’اے عمر بن العاص! میں اس رومی بادشاہ کے پاس جاؤں گا۔‘‘

سیدنا عمروؓ نے فرمایا۔ ’’بلال! تم کو مفارقت رسول اللہ ﷺ نے واقعی شکستہ حال کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں تم حبشی النسل ہو، عرب نہیں ہو۔ عرب کا کلام فصیح، مسجع اور مقفیٰ ہوتا ہے۔‘‘

سیدنا بلالؓ نے کہا:’’مجھے رسول اللہ ﷺ کی خاطر اس کی طرف جانے دیں۔‘‘

سیدنا عمرو بن العاصؓ نے فرمایا:’’بلال! آپ نے مجھے بہت بڑا حلف دیا ہے۔‘‘

چنانچہ آپ نے سیدنا بلالؓ کو عیسائی بادشاہ کے پاس سفیر کی حیثیت سے جانے کی اجازت دے دی اور فرمایا۔ ’’اللہ سے مدد مانگو تاکہ تم اس سے گفتگو میں خائف نہ ہو اور فصاحت سے کلام کرو اور اسلام کی عظمت کو بیان کرو۔‘‘

حضرت بلالؓ نے جواب دیا:’’انشاء اللہ آپ مجھے ایسا ہی پائیں گے جیسا کہ آپ مجھے سمجھتے ہیں۔‘‘

سیدنا بلالؓ نکلے۔ وہ سرو قد ڈیل ڈول اور فراخ سینہ گویا اہل سطوت میں سے تھے۔ ان کی ڈیل ڈول کی بڑائی کو دیکھنے والے خوف کھاتے تھے۔ شامی کرتہ پہنے ہوئے اور سر پر عمامہ تھا، تلوار لٹک رہی تھی، توشہ دان شانہ پر تھا اور عصا آپ کے دست مبارک۔ اللہ اکبر! کیا شان ہو گی اس حبشی مؤذن رسول ﷺ بلکہ سید الموذنین کی، جب وہ اس تزک و احتشام سے نکلے ہوں گے۔ ان کا مسلمانوں کے لشکر سے نکلنا ہی تھا کہ اہل قیساریہ نے فوراً اپنی ہتک اور حقارت مسلمانوں کی طرف سے سمجھ لی کیونکہ ان کے کہنے کے باوجود بھی مسلمانوں نے ایک حبشی غلام کو سفیر بنا کر شاہِ روم کے پاس بھیجا۔ رومی یہ سمجھنے لگے کہ مسلمان ہمیں حقیر سمجھتے ہیں اور ہم ان کی آنکھوں میں حقیر ہو گئے ہیں۔

ان لوگوں نے سیدنا بلالؓ سے کہا کہ آپ واپس تشریف لے جائیں کیونکہ ہمارا بادشاہ کسی سردار سے گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ آپ سردار نہیں ہیں لہٰذا آپ کسی سردار کو بھیجیں جو بادشاہ سے گفتگو کرے۔ اس پر سیدنا بلالؓ نے فرمایا:’’میں بلال بن حمامہؓ مؤذن رسول اللہ ﷺ ہوں۔ (سیدنا بلالؓ کے باپ کا نام رباح تھا لیکن وہ کبھی کبھی اپنے کو بلال بن حمامہ بھی کہتے تھے کیونکہ حمامہ آپ کی والدہ کا نام تھا) تمہارے بادشاہ کو میں نہایت خوش اسلوبی سے اس کے سوالوں کا جواب دے سکتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر انہوں نے سیدنا بلالؓ سے کہا:۔ ’’آپ ذرا ٹھہرئیے ہم بادشاہ کو اطلاع دیتے ہیں۔‘‘

بادشاہ کو سیدنا بلالؓ کی تشریف آوری کی اطلاع دی گئی کہ ’’عرب فوج نے ایک غلام کو آپ سے گفت و شنید کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے اس وجہ سے ایسا کیا ہے کہ ہم ان کو ضعیف اور کمزور معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

وہ غلام دراز قامت، بھاری ڈیل ڈول کا حامل ہے اور اپنا نام بلال بن حمامہ بتاتا ہے۔ قسطنطین کو سنتے ہی ایک خاص قسم کا خوف لاحق ہو گیا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ واپس جائیے اور ان سے کہیے کہ بادشاہ نے سردار کو طلب کیا ہے نہ کہ غلام کو۔‘‘

چنانچہ آپ کو مترجم نے آ کر بادشاہ کا پیغام سنا دیا۔ سیدنا بلالؓ شکستہ دل ہو کر واپس آ گئے اور سیدنا عمرو بن عاصؓ کو پورا واقعہ سنا دیا۔

اس موقع پر آپ کا بے نیل و مرام آنا بظاہر تنقیص معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو بقول واقدی یہ قسطنطین کی تنقیص ہے اور آپ کی عزت کو چار چاند لگ گئے کہ رومیوں کے بادشاہ پر ایک حبشی النسل صحابیِ رسول اللہ ﷺ زیادہ عزت رکھتا ہے اور ان کو بھی یہی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دلوں سے ہماری عزت و توقیر اٹھ گئی ہے، مگر اسلام میں تو غلام اور بادشاہ، محمود اور ایاز دونوں برابر ہیں۔ ان میں اور کوئی تمیز نہیں جس کا نصاریٰ پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے آپ کو واپس کر دیا۔

اب سیدنا عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ میں خود جاؤں گا۔ یہ سن کر فوج کے دوسرے افسران اور سپاہیوں نے کہا کہ آپ فوج کو کس پر چھوڑیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے خوب تیاری کی اور وہاں پہنچے۔ بادشاہ نے بہت کوشش کی کہ آپ مسند پر بیٹھیں لیکن آپ یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے کہ زمین اللہ کی ہے۔ آپ چار زانوں ہو کر زمین پر بیٹھ گئے۔ نیزے کو آگے اور تلوار کو زانو پر رکھ لیا۔ پھر دونوں میں سوال و جواب شروع ہوئے۔ آپ نے قسطنطین کے سوال پر اپنا نام و نسب بتایا۔

اس پر قسطنطین نے کہا۔ ’’اگر آپ عرب سے ہیں تو ہم روم سے ہیں، گویا ہم میں قربت ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو جن کو باہمی قربت حاصل ہے آپس میں خون ریزی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

اس پر سیدنا عمرو بن عاصؓ نے جواب دیا۔ ’’اسلام ان سے قرابت روا رکھتا ہے جو مسلمان ہیں، خواہ باپ ہی کیوں نہ ہو اگر وہ مسلمان نہیں تو نسب منقطع ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ جنگ و قتال جائز ہے، اس لیے ہمارا اور آپ کا نسب ایک نہیں ہو سکتا۔‘‘

بادشاہ نے بہت سے دلائل پیش کیے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔

سیدنا عمرو بن عاصؓ نے ان کو نصیحت کرنی شروع کی اور کہا۔ ’’تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے اور اس نے تمہارے مطلوب کو نزدیک کر دیا ہے۔ اگر تم کو اپنے شہروں کی خیر منظور ہے تو تم کو چاہیے کہ مسلمان ہو جاؤ اور ہمارے قول کے مطابق ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کرو اور کہو:

لا الہ الا اللہ وحدہ، لاشریک لہ، واشہد ان محمداً عبدہ، ورسولہ،

قسطنطین نے کہا:’’ہم نصرانیت کو نہ چھوڑیں گے اور اپنے آباؤ اجداد کے دین پر رہیں گے۔‘‘

سیدنا عمرو بن العاصؓ نے جواب دیا: ’’اگر تم اسلام کو ناقابل تقلید اور نیچا جانتے ہو تو پھر ہم کو جزیہ ادا کرو۔‘‘

اس نے اس سے بھی انکار کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ رومی لوگ اس بارے میں میری اطاعت نہیں کریں گے کیونکہ میرے والد نے پہلے بھی ان سے جزیہ کے لیے کہا تھا تو وہ اس کو مارنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ پھر آپ نے بادشاہ کو کہا کہ اگر یہ دونوں چیزیں تمہیں منظور نہیں تو پھر ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی یعنی جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اللہ ہی غالب ہے اور حسب و نسب کی قرابت کے بارے میں بہت سی گفتگو ہوئی، مگر سیدنا عمروؓ نے ایک نہ مانی اور فوراً سوار ہو کر اپنے لشکر میں واپس آ گئے اور لڑائی کا میدان گرم ہو گیا۔ دونوں طرف سے گھمسان کا رن پڑا اور رومی تنگ آ گئے اور مغلوب ہونے لگے تو بھاگنے کی کوشش کرنے لگے چنانچہ رات بھر طلوع آفتاب سے قبل رومیوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ بہت سے واقعات کے ظہور کے بعد جو اس لڑائی میں پیش آئے رومی دل برداشتہ ہو کر مع اپنے بادشاہ قسطنطین کے فرار ہو گئے۔

جب اہل قیساریہ نے مسلمان فوجوں کو بڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے مسلمانوں سے صلح کر لی اور مسلمان فوجیں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ قیساریہ میں داخل ہو گئیں۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ نے حسب ہدایت امیر المومنین ہر شخص پر چار دینار جزیہ لگا دیا اور وہاں باسیل بن عون بن سلمہ کو حاکم بنا دیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک ہو چکے تھے۔

قیساریہ کی یہ فتح بروز بدھ ماہ رجب سنہ ۱۹ھ کو ہوئی اور فتح قیساریہ کے بعد تمام شام مکمل طور پر مسلمانوں کے زیر نگیں ہو گیا۔

سیدنا بلالؓ نے ایک عرصہ تک ملک شام میں مقیم رہنے کے بعد ایک روز سرکار دو عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپ ﷺ فرما رہے تھے:

’’بلال! یہ خشک زندگی کب تک؟ کیا تمہارے لیے وقت نہیں آیا کہ ہماری زیارت کرو۔‘‘

اس خواب نے سیدنا بلالؓ کو تڑپا کے رکھ دیا۔ اس خواب سے گذشتہ زندگی کے پُر لطف افسانے کوزۂ  ذہن میں اٹھکیلیاں کرنے لگے۔ عشق و محبت کے مرجھائے ہوئے زخم پھر ہرے ہو گئے۔ اسی وقت مدینہ طیبہ کی راہ لی اور روضۂ اقدس پر حاضر ہو کر مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ آنکھوں سے سیل اشک رواں تھا اور مضطربانہ جوش و محبت کے ساتھ مدینہ کے لوگوں اور خصوصی طور پر جگر گوشگان رسول ﷺ یعنی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو اپنے سینے سے چمٹا چمٹا کر پیار کر رہے تھے۔

مدینہ کے لوگوں نے بہت خواہش کی کہ بلال! آپ اتفاقاً تشریف لائے ہوئے ہیں، آج ایک اذان دے دیں تاکہ زمانۂ رسالت کی کچھ بہار نظر آ جائے، لیکن سیدنا بلالؓ نے اذان کہنے سے یک قلم انکار کر دیا۔ آخر نواسۂ رسول یعنی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ نے عرض کی:’’چچا! آج صبح کی اذان آپ دیں۔‘‘

اگرچہ وہ ارادہ فرما چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال پُرملال کے بعد اذان نہیں دیں گے، لیکن ان دونوں شہزادوں کی فرمائش نہ ٹال سکے۔ صبح کے وقت مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر جونہی نعرۂ  تکبیر بلند کیا تو تمام مدینہ گونج اٹھا۔ اس کے بعد نعرۂ  توحید نے اس کو اور بھی پُر عظمت اور پُر جلال بنا دیا، لیکن جب ’’اشہد ان محمداً رسول اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو عورتیں تک بے قرار ہو کر پردوں سے نکل پڑیں۔ تمام عاشقان رسول ﷺ کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے۔

بتایا جاتا ہے کہ مدینہ میں ایسا پُر اثر منظر کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے سرکار دو عالم ﷺ کا زمانہ پھر گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ شاید رسول اللہ ﷺ پھر مبعوث ہو گئے ہیں اور جس قدر اہل مدینہ اس روز روئے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اس سے زیادہ کبھی نہیں روئے۔

قرآن حکیم میں اگرچہ ظاہری طور پر آپ کا نام لے کر تو آپ کے فضائل نہیں آئے لیکن بعض آیات کے شانِ نزول کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ وہ سیدنا بلالؓ وغیرہ کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

’’اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے بدلہ میں اپنی جان کو فروخت کر دیتا ہے۔‘‘

سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا بلالؓ اور سیدنا صہیبؓ وغیرہ کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے واقعی اسلام قبول کرنے سے قبل عذاب جھیلے۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم ﷺ کے ساتھ چھ آدمی تھے۔ مشرکین کہتے تھے کہ ہم آپ ﷺ سے کسی طرح الگ ہو جائیں مگر الگ کرنے کی جرأت نہ رکھتے تھے، ان چھ آدمیوں میں میرا نام بھی تھا اور میرے ساتھ عبداللہ بن مسعودؓ،  بلالؓ، ایک شخص بنی ہذیل میں سے اور دو اشخاص کے نام میں بھول گیا ہوں، ہمارے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:

{ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداۃ والعشی یریدون وجھہ،}

’’اور نہ دور کر ان کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضا۔‘‘

ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطابؓ کے پاس سیدنا خباب بن الارتؓ ملنے آئے۔ آپ نے ان کو اپنی مسند پر بٹھا لیا اور فرمایا۔ ’’کرۂ  ارضی پر اس مسند کا سوائے ایک شخص کے اور کوئی زیادہ اہل نہیں۔‘’‘

سیدنا خبابؓ نے دریافت کیا کہ وہ شخص جو اس مسند کا سب سے زیادہ اہل ہے، کون ہے؟‘‘

آپ نے فرمایا:’’وہ شخص بلالؓ ہے۔‘‘

پھر سیدنا خبابؓ نے کہا:’’امیر المومنین! وہ مجھ سے زیادہ حق نہیں رکھتے کیونکہ مشرکین میں بلال رضی اللہ عنہ کے لیے تو وہ ذات بھی کم نہ تھی کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتا تھا جب کہ میرے لیے کوئی بھی نہ تھا جو میری حفاظت کرتا۔ بے شک میں نے ایک روز دیکھا کہ لوگوں نے مجھے پکڑا، میرے لیے آگ جلائی اور مجھے اس میں پھینک دیا۔ پھر ایک شخص نے میرے سینے پر اپنا پاؤں رکھا اور میں زمین کی ٹھنڈک تک کو بھی نہیں پا سکا کہ جس سے میں اپنی پیٹھ کو سہارا دیتا۔‘‘

پھر سیدنا خباب بن الارتؓ نے اپنی پشت کو کھول کر دکھایا تو واقعی وہ جلنے کی وجہ سے برص کی طرح تھی۔

حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دروازے پر کچھ لوگ آئے جن میں حضرت سہیل بن عمرو، حضرت ابو سفیان بن حربؓ اور قریش کے بہت سے بڑے سردار تھے۔ حضرت عمرؓ کا دربان باہر آیا اور حضرت صہیب، حضرت بلال اور حضرت عمارؓ  جیسے بدری صحابہ کو اجازت دینے لگا۔ اللہ کی قسم! حضرت عمرؓ خود بدری تھے اور بدریوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کا خاص خیال رکھنے کی اپنے ساتھیوں کو تاکید کر رکھی تھی۔

یہ دیکھ کر حضرت ابوسفیانؓ نے کہا۔ ’’آج جیسا دن تو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ یہ دربان ان غلاموں کو اجازت دے رہا ہے اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں دیکھتا ہی نہیں ہے۔‘‘

یہ صورت حال دیکھ کر حضرت سہیل بن عمروؓ جو کہ بڑے اچھے اور سمجھدار آدمی تھے، فرمانے لگے:

’’اے لوگو! میں تمہارے چہروں پر ناگواری کے اثرات دیکھ رہا ہوں۔ اگر تم نے ناراض ہونا ہی ہے تو اپنے اوپر ناراض ہو۔ ان لوگوں کو بھی دعوت دی گئی تھی اور تمہیں بھی دعوت دی گئی تھی انہوں نے دعوت جلدی مان لی تم نے دیر سے مانی۔ غور سے سنو! اللہ کی قسم تم (امیر المومنین) کے اس دروازے میں ایک دوسرے سے زیادہ حرص کر رہے ہو اور یہ دروازہ تمہارے لیے آج کھلا بھی نہیں تو اس دروازے کے ہاتھ میں نہ آنے سے زیادہ سخت تو (دعوت اسلام کو قبول کر لینے اور دینی محنت میں لگنے کی)فضیلت سے محروم ہونا ہے جس فضیلت کی وجہ سے وہ تم سے آگے نکل گئے ہیں اور یہ لوگ جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو تم سے آگے نکل گئے ہیں اور اللہ کی قسم! تم سے آگے بڑھ کر انہوں نے جو درجہ پا لیا ہے اب تم وہ کسی طرح حاصل نہیں کر سکتے ہو لہٰذا اب تم جہاد کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس میں مسلسل لگے رہو۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں جہاد اور شہادت کا مرتبہ نصیب فرما دے۔‘‘

پھر حضرت سہیل بن عمروؓ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور (جہاد کے لیے) ملک شام چلے گئے۔

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں۔ ’’حضرت سہیلؓ نے سچ فرمایا، اللہ کی قسم! جو بندہ اللہ کی طرف (چلنے میں) جلدی کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ دیر کرنے والے کی طرح نہیں بناتے۔‘‘

حضرت جریرؓ فرماتے ہیں ہم لوگ دن کے شروع حصہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور ننگے پاؤں اور دھاری دار اونی چادریں اور حبہ پہنے ہوئے تھے اور تلواریں گردنوں میں لٹکا رکھی تھیں۔ ان میں سے اکثر لوگ قبیلہ مضر کے تھے بلکہ سارے ہی لوگ مضر کے تھے۔ ان کے فاقہ کی حالت دیکھ کر آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ پھر آپ ﷺ گھر تشریف لے گئے (کہ شاید وہاں ان کے لیے کچھ مل جائے لیکن وہاں بھی کچھ نہ ملا،یا آپ ﷺ نماز کی تیاری کرنے گئے ہوں گے) پھر باہر تشریف لا کر حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا۔ انہوں نے پہلے اذان دی (ظہر یا جمعہ کی نماز تھی) پھر اقامت کہی۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ پھر بیان فرمایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’اے ایمان والو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتہ داروں کی حق تلفی سے ڈرو یقین رکھو کہ اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔‘‘

اور سورۂ  حشر میں ہے:

’’اور اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے۔‘‘

آدمی کو چاہئے کہ اپنے دینار، درہم، کپڑے، ایک صاع گندم اور ایک صاع کھجور میں سے کچھ ضرور صدقہ کرے، حتیٰ کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو تو اسے ہی صدقہ کر دے (یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کے پاس زیادہ ہو صرف وہی صدقہ کرے بلکہ جس کے پاس تھوڑا ہے وہ بھی اس میں سے خرچ کرے)۔

حضور اکرم ﷺ کی اس ترغیب کو سن کر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے (وہ اتنی وزنی تھی کہ) ان کا ہاتھ اسے اٹھانے سے عاجز ہونے لگا بلکہ عاجز ہو ہی گیا تھا۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا (اور لوگ بہت سامان لائے) حتیٰ کہ میں نے غلہ اور کپڑے (اور درہم و دینار) کے دو بڑے ڈھیر دیکھے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ کا چہرۂ  انور (خوشی سے) ایسے چمک رہا ہے کہ گویا کہ آپ ﷺ کے چہرے پر سونے کا پانی پھیرا ہوا ہے(اس کام کی فضیلت سناتے ہوئے) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرتا ہے تو اسے اپنا اجر ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان سب کے برابر اسے اجر ملے گا اور ان کے اجر میں سے کچھ کم نہیں ہو گا اور جو اسلام میں برا طریقہ جاری کرتا ہے تو اسے اپنا گناہ ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے ان سب کے برابر گناہ اسے ملے گا اور ان کے گناہ میں سے کچھ کم نہیں ہو گا۔‘‘

حضرت قیس بن ابی حازم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب حضرت عمر فاروقؓ ملک شام تشریف لے گئے تو ان کے پاس حضرت بلالؓ نے کہا۔ ’’اے عمر! اے عمر!۔‘‘

حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا۔ ’’یہ عمر حاضر ہے۔‘‘(کہو کیا کہتے ہو؟)

حضرت بلالؓ نے کہا۔ ’’آپ ان لوگوں کے اور اللہ کے درمیان واسطہ ہیں لیکن آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی نہیں ہے۔ آپ کے سامنے اور دائیں بائیں جتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں آپ ان کو اچھی طرح دیکھیں کیونکہ اللہ کی قسم! یہ سب جتنے آپ کے پاس آئے ہوئے ہیں یہ صرف پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں۔‘‘

حضرت عمرؓ نے کہا۔ ’’تم نے ٹھیک کہا ہے اور جب تک یہ لوگ مجھے اس بات کی ضمانت نہیں دیں گے کہ وہ (اپنے لشکر کے) ہر مسلمان کو دو مد (پونے دو سیر) گندم اور اس کے مناسب مقدار میں سرکہ اور تیل دیا کریں گے اس وقت تک میں اس جگہ سے نہیں اٹھوں گا۔‘‘

سب نے کہا۔ ’’اے امیر المومنین! ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں۔ یہ ہمارے ذمہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال میں بڑی کثرت اور وسعت عطا فرما رکھی ہے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا اچھا پھر ٹھیک ہے (اب میں مجلس سے اٹھتا ہوں اور آپ لوگ جا سکتے ہیں۔)

حضرت عمرو بن مرداسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام آیا تو وہاں میں نے موٹے ہونٹ اور چپٹی ناک والے ایک آدمی کو دیکھا جس کے سامنے ہتھیار پڑے تھے۔ وہ لوگوں میں یہ بیان کر رہے تھے:

’’اے لوگو! یہ ہتھیار اٹھا لو، انہیں درست کرو اور اللہ رب العزت کے راستہ میں جہاد کرو۔‘‘

حضرت عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ بلالؓ ہیں۔

ایک مرتبہ ابو الخیر مرثد بن عبداللہ نے عبدالرحمن بن عسیلہ سے پوچھا کہ آپ نے کب ہجرت کی، انہوں نے بتایا کہ ہم یمن سے ہجرت کر کے نکلے تھے، جب ہم مقام حجفہ میں پہنچے تو ایک سوار سے ملاقات ہوئی، میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کوئی خبر ہے؟‘‘ اس نے بتایا کہ ہم نے پانچ دن قبل نبی کریم ﷺ کے جسد مبارک کو مٹی میں اتارا ہے۔

ابو الخیر نے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے شب قدر کے بارے میں کچھ سنا ہے؟‘‘

انہوں نے بتایا۔ ’’مجھے رسول اللہ ﷺ کے موذن حضرت بلالؓ نے بتایا ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی ساتویں رات کو ہوتی ہے۔‘‘

سیدنا بلالؓ کی زندگی کے مختلف ادوار تھے اور اپنی زندگی میں انہوں نے مختلف کام کیے۔ کبھی قریش کی بکریوں کے راعی بنے، کبھی کاشانۂ نبوت کے منتظم اعلیٰ، کبھی نبوت کے رفیق سفر و حضر، کبھی شاہ قسطنطین کے دربار میں نیابت اسلام کا فریضہ ادا کیا۔ یہ سب اسلام کی امتیازی اور خصوصی برکتوں کا نتیجہ تھا۔ اسی کے بارے میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

چمک اٹھا جو ستارہ تیرے مقدر کا

حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئی ہے اس سے تیرے غم کدے کی آبادی

تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

سرکار دو عالم ﷺ کا اس دنیا سے روپوش ہونا صحابہ کرامؓ  کے لیے قیامت کبریٰ تھی۔ سیدنا بلالؓ نے جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے مدینہ سے دمشق رحلت فرمائی۔ وہاں کچھ عرصہ جہاد کیا اور پھر دمشق کو اپنی مستقل قیام گاہ بنایا اور بالآخر سنہ ۲۰ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کی زبان پر آقا ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں سے ملاقات کی خوشی کی بنا پر یہ کلمات جاری تھے:

’’کل ہم اپنے دوستوں سے ملاقات کریں گے، محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں اور گروہ سے۔‘‘

جب آپ کا انتقال ہو رہا تھا تو آپ کی اہلیہ محترمہ ’’واویلاہ!‘‘ کہہ رہی تھیں جس کا معنی ہے ہائے میرے غم کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور آپ خوشی سے کہہ رہے تھے ’’وافرحاہ‘‘ یعنی میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

بعض روایات میں آپ کا سن وفات ۲۱ھ بتایا گیا ہے لیکن زیادہ صحیح ۲۰ھ ہے جس میں اسلام کے سب سے پہلے مؤذن سیدنا بلالؓ کی وفات ہوئی جس نے اپنے نغمۂ توحید سے حجاز کی چوٹیوں سے کل عالم میں روح اسلام پھونک دی۔

وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی۔ بعض روایات میں ۶۷ یا ۷۰ سال بتائی گئی لیکن زیادہ اتفاق ۶۳ سال پر ہے۔ اس میں ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور رسول اللہ ﷺ کا انتقال بھی ۶۳ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ اس کی تائید حافظ ابن عبدالبر نے بھی استیعاب میں کی ہے۔ اسد الغابہ میں بھی یہی ہے۔

٭٭٭

 

 

عائلی زندگی

 

سیدنا بلال حبشیؓ کے بارے میں روایت ہے:

’’ایک صحابی حضرت ابو بکیرؓ کی صاحبزادی جوان ہو گئیں تو ان کے دونوں صاحبزادے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئے، اور آپ ﷺ سے اپنی بہن کی شادی کے بارے میں مشورہ چاہا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلالؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

اس پر وہ دونوں بھائی خاموش ہو گئے اور واپس چلے گئے۔ دوسری بار اس غرض سے پھر حاضر خدمت ہوئے، اور اس بار بھی رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ ہی کا نام لیا۔ وہ پھر خاموش ہو کر واپس چلے گئے جب تیسری بار بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے پھر سیدنا بلال حبشیؓ کا نام تجویز فرمایا۔ اس بار بھی انہوں نے خاموشی اختیار کی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں خاموش دیکھ کر فرمایا:

’’تم بلالؓ کو کیوں فراموش کر رہے ہو؟ وہ اہل جنت میں سے ایک ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے آگے انہوں نے بخوشی سر تسلیم خم کر دیا اور بے حد خوش ہوئے۔اس طرح حضرت ابو بکیرؓ کی صاحبزادی کی شادی سیدنا بلالؓ سے ہو گئی۔ یوں سیدنا بلال حبشیؓ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا، لیکن اپنے آقا ﷺ کی خدمت اور دینی معمولات میں ہرگز اسے حائل نہ ہونے دیا۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ کی زوجہ محترمہ بھی انتہائی نیک اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ آپؓ کی یہ پاکباز بیوی ہمیشہ شوہر کی اطاعت اور وفا کا عملی نمونہ پیش کرتی رہیں۔

عام طور پر اہم امور میں سیدنا بلال حبشیؓ کی دلجوئی اور خوشنودی کو اپنا مقصد حیات تصور فرماتی تھیں۔ اس خوشگوار زندگی میں بہت کم تلخی کے مواقع آئے، اور سیدنا بلال حبشیؓ بھی بہت اچھے شوہر ثابت ہوئے۔

روایات کے مطابق سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنی زندگی میں متعدد نکاح کیے، لیکن انہوں نے کوئی جانشین یا وارث نہ چھوڑا۔

ایک روایت کے مطابق سیدنا بلال حبشیؓ نے ایک اعرابی عورت ہند الخولانی سے بھی نکاح فرمایا اور وہ یمنی تھیں، اور سیدنا بلال حبشیؓ کی شام کی طرف ہجرت کرنے سے قبل ان کے نکاح میں آ چکی تھیں۔

کچھ روایات کے مطابق سیدنا بلال حبشیؓ اپنے اسلامی بھائی حضرت ابو رویحہؓ کے ہمراہ ملک شام میں ایک قبیلہ خولان میں پہنچے اور ان لوگوں سے کہا:’’ہم دونوں نکاح کا پیام لے کر آئے ہیں۔ ہم کافر تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی دولت سے نوازا۔ ہم غلام تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی عنایت فرمائی۔ ہم تنگدست تھے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دولت عطا فرمائی۔ اگر تم لوگ ہم سے نکاح کر دو گے تو ہم سب کے لیے بہتر ہو گا۔‘‘

اسی ضمن میں ایک اور روایت بیان کی جاتی ہے:

’’سیدنا بلال حبشیؓ نے شام کے شہر دمشق کے ایک قبیلے خولان میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ یہیں انہیں کچھ زرعی زمین بھی مل گئی، اور پھر حضرت ابو رویحہؓ بھی سیدنا بلال حبشیؓ کے ساتھ جا کر رہنے لگے۔کچھ عرصہ بعد حضرت ابو الدرداءؓ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں آ کر آباد ہو گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے ان کے ہاں اپنے اور اپنے اسلامی بھائی حضرت ابو رویحہؓ کی شادی کا پیغام بھیجا اور انہوں نے اپنی دونوں بیٹیاں دونوں بھائیوں کے نکاح میں دے دیں، اور یوں خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرنے لگے۔‘‘

ہند الخولانی سے نکاح کے بعد بہتر ماحول رہا لیکن ایک دن کچھ ناگوار بات ہندالخولانی سے صادر ہو گئی۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان فرمائی تو ہند الخولانی نے تصدیق کی بجائے تکذیب کر ڈالی۔ سیدنا بلالؓ سن کر آگ بگولا ہو گئے اور غضب ناک ہو کر گھر سے باہر نکل پڑے۔

راستے میں رسول اللہ ﷺ کی سیدنا بلال حبشیؓ سے ملاقات ہو گئی۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے طور بدلے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بلالؓ  خیر تو ہے؟‘‘

سیدنا بلالؓ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ ﷺ ! میری زوجہ نے ایسے ایسے کہا ہے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ سیدھے ہند الخولانی کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا:’’بلالؓ  گھر پر ہے۔‘‘

ہندالخولانی نے عرض کیا:’’نہیں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم نے میرے بلالؓ  کو ناراض کیا ہو گا؟‘‘

ہندالخولانیؓ  نے عرض کیا:’’نہیں، یا رسول اللہ ﷺ ! وہ تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ ﷺ فرمائیں، کیا انہوں نے میری کوئی شکایت کی ہے؟‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہاں، شکایت کی ہے لیکن وہ حق پر ہے اور تو غلطی پر ہے۔ آئندہ سے خیال کرنا، میرے بلالؓ  کو کسی وقت بھی ناراض نہ کرنا۔‘‘

اس کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ گھر واپس آئے تو ہند الخولانیؓ  نے معذرت کر لی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ پھر کبھی بھی کوئی آپس میں اختلاف نہ ہوا۔(داعی السمائ، ص ۵۴، ج ۳)

اسلام نے نسلی امتیاز کا بت یوں توڑا کہ سیدنا بلال حبشیؓ نے مدینہ طیبہ میں نکاح کا ارادہ ظاہر فرمایا تو قریش کے منتخب امراء نے انہیں دامادی میں قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ داعی السماء میں یوں درج ہے:

’’سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر مدینہ طیبہ کے کسی محتاج کی تلاش میں تھے کہ کچھ مال عطا کریں۔ اسی دوران آپؓ کو آپ کا بھائی آتا دکھائی دیا جو یمن سے آپ کو ملنے کے لیے آ رہا تھا جب آپؓ کے قریب پہنچا تو کہا:’’تم کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘

سیدنا بلالؓ کے بھائی نے جواب دیا:’’میں یمن سے آ رہا ہوں۔ رشتہ کی تلاش میں ہوں، کہیں میرا نکاح ہو جائے۔‘‘

’’کیا کوئی بات بنی؟‘‘ سیدنا بلال حبشیؓ نے پوچھا:

’’لوگ کہتے ہیں، تو عربی ہے اور چاہتا ہے کہ یمن میں رشتہ ہو جائے لیکن جب مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے اور تمہارا حسب نسب کیا ہے تو میں نے صحیح صورت حال بتا دی کہ میں حبشی ہوں اور مکہ میں پیدا ہوا اور بلال بن رباحؓ کا بھائی ہوں۔ یمنیوں نے جب آپؓ کا نام سنا تو کہا: ’’بلال کو بلا لاؤ، اگر وہ تمہارے لیے فرما دیں تو ہم تمہیں رشتہ دینے کو تیار ہیں۔‘‘ اس لیے میں اتنا طویل سفر طے کر کے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے بھائی کے ساتھ یمن روانہ ہو گئے۔ دونوں بھائی سفر کر کے رات کے وقت یمن میں پہنچے۔

صبح ہوتے ہی آپؓ اپنے بھائی کو لے اس گھر تشریف لے گئے جہاں رشتہ مطلوب تھا۔ انہوں نے آپؓ سے بھائی کے متعلق پوچھا تو سیدنا بلال حبشیؓ نے فرمایا:

’’یہ میرا بھائی ہے، نہ عادات کا اچھا ہے، نہ دین میں صحیح ہے، چاہو تو اسے رشتہ دے دو چاہے تو انکار کر دو۔‘‘

یہ کہہ کر آپؓ نے مسجد کا رخ کیا۔ ابھی اذان نہیں ہوئی تھی کہ اتنے میں ہاتف نے غیبی ندا دی:’’تم خود نکاح کیوں نہیں کرتے، تمہیں کس چیز نے روک رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا و دولت سے بھی نوازا ہے اور اب تم آزاد بھی ہو جبکہ اس سے قبل تم غلام تھے۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ ہاتف غیبی پر سوچ میں پڑ گئے۔ آخر فیصلہ کیا کہ ضرور نکاح کرنا چاہیے۔ نماز سے فراغت کے بعد احباب سے مشورہ کیا کہ کس سے رشتہ لیا جائے۔ طے پایا کہ آپ کا رشتہ ہند الخولانی سے موزوں ہے۔ آپؓ ہند الخولانی کے رشتے داروں کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:

’’میں بلال ہوں رسول اللہ ﷺ کا صحابی۔ میں حبشی غلام تھا اور گمراہی میں مبتلا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت بخشی اور غلام تھا اس نے آزادی بخشی، رشتہ دو تو الحمدللہ ورنہ اللہ کافی۔‘‘

آل ہند نے عرض کیا:’’آپؓ ہمیں مہلت دیں تاکہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔ کچھ عرصے کے بعد یمنی بھی مدینہ طیبہ آ گئے، اور مسجد نبوی ﷺ میں آ کر بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کیا:

’’ہم یمنی ہیں، آپ ﷺ سے سیدنا بلال حبشیؓ کے رشتے کے متعلق پوچھنے آئے ہیں، کیونکہ سیدنا بلال حبشیؓ کا خیال ہے کہ وہ ہماری بہن ہند سے نکاح کریں۔ ہم نے ان سے مہلت مانگی ہے تاکہ آپ ﷺ سے مشورہ لے لیں۔ آپ ﷺ کی کیا رائے ہے؟‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم کہاں بلالؓ  کہاں، تم کیا سمجھ رہے ہو۔ میرا بلال(ؓ) بہشتی ہے۔‘‘

اب ہند الخولانی کے رشتے داروں کی آنکھ کھلی کہ سیدنا بلال حبشیؓ تو بڑی شخصیت ہیں، ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا کتنا پیار ہے۔ اس لیے نکاح کی ٹھان لی اور فوراً ہند کا رشتہ سیدنا بلالؓ کے ساتھ کر دیا۔ (داعی السماء ص ۷۳: ۷۴)

ہجرت مدینہ کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ اہل صفہ میں شامل ہو گئے تھے۔

اہل صفہ میں سے اگر کسی کا نکاح ہو جاتا ہے تو وہ مسجد نبوی ﷺ کے چبوترے سے اپنے گھر منتقل ہو جاتا تھا۔

اسی طرح جب سیدنا بلال حبشیؓ کا نکاح ہوا تو آپؓ بھی الگ رہنے لگے، مگر آقا ﷺ کی خدمت اور معمولات میں شادی کو ہرگز نہ حائل ہونے دیا۔

غزوات اور حضرت بلالؓ

سیدنا بلال حبشیؓ تمام غزوات میں شریک رہے۔ ان کی مختصر تفصیل یہ ہے:

رسول اللہ ﷺ اپنے ۳۱۳ جاں نثار ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور بدر کے مقام پر قیام فرمایا۔

دوسری طرف ابوجہل لعین بھی اپنے لشکر کے ہمراہ یہاں موجود تھا۔ اسے اس کی موت یہاں کھینچ لائی تھی۔دونوں طرف صفیں آراستہ ہوئیں۔

ابوجہل یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ ابوالبختری نے ابوجہل سے پوچھا:

’’اس (محمد ﷺ ) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

ابوجہل نے جواب دیا:’’بخدا یہ شخص (محمد ﷺ ) جو کہتا ہے، سچ کہتا ہے۔‘‘

ابوالبختری نے کہا:’’تو پھر تم ان سے لڑتے کیوں ہو؟‘‘

ابوجہل نے نخوت سے جواب دیا:’’خدا کی قسم! عمر بن ہشام (ابوجہل) کا گھٹنا بلالؓ  کے گھٹنے سے چھو نہیں سکتا۔ میں مرتے دم تک لڑوں گا۔‘‘

معرکہ کارزار گرم ہوا۔ خاندان، قبائل، نسل و برادری کے تعلقات پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب آ گئی۔ حق کے پرستاروں نے بت چکنا چور کر دیے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ سیدنا بلال حبشیؓ کا سابقہ آقا امیہ بن خلف بھی اس جنگ میں شامل تھا۔

واقعہ یوں ہے کہ امیہ بن خلف کو اپنے قتل کا خوف پریشان کر رہا تھا۔ وہ اپنی جان بچانے کی غرض سے ایک پہاڑی کی طرف بھاگا۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے دیکھ لیا اور پکار کر فرمایا:

’’انصار وہ دیکھو دشمن خدا بھاگا جا رہا ہے۔‘‘

انصار اس کی طرف دوڑے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور پھر وہ سیدنا بلال حبشیؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔ امیہ بن خلف قتل ہوا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو مبارک باد دی اور کہا:

’’مبارک ہو اے بلال(ؓ)! اللہ تعالیٰ تمہیں خیر و برکت سے نوازے تم نے دشمن خدا سے اپنا انتقام لے لیا۔‘‘(اسد الغابہ، الاستیعاب)

غزوہ بدر میں سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے۔

۳ھ میں غزوہ ذی الام ہوا۔

غزوہ سویق سے واپس آ کر رسول اللہ ﷺ نے ذی الحجہ ۲ھ اور محرم ۳ھ کے مہینے مدینہ منورہ ہی میں گزارے، پھر اطلاع ملی کہ ذی ام میں جو دیار غطفان میں ہے، مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے قبائل کا اجتماع ہو رہا ہے۔ چنانچہ صفر ۳ھ بمطابق اگست ۶۲۴ء رسول اللہ ﷺ نے اس طرف کا قصد فرمایا۔

اس غزوہ میں سیدنا بلال حبشیؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں دشمنوں میں سے ایک شخص ملا جس کا نام جبار تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے اسے مسلمان کر کے سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد کر دیا تاکہ اس سے مفسدین کا سراغ لگانے میں مدد لے سکیں، چنانچہ وہ سیدنا بلال حبشیؓ کو لے کر ایک پہاڑی پر آیا، جہاں مفسد چھپے ہوئے تھے، لیکن وہ مفسد اسلامی لشکر کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے۔ (مدارج النبوۃ)

غزوہ احد میں حضرت بلالؓ رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ مجاہدین اسلام کے ہمراہ احد پہنچے تو صبح کا وقت تھا۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان اور اقامت کہی۔ چونکہ سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے عاشق اور غلام تھے، اس لیے ہر وقت سفر و حضر میں آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں رہنا آپؓ کی آرزو تھی۔

سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ سے آگے آگے ایک نیزہ لے کر چلا کرتے تھے، جہاں کہیں نماز کا وقت ہوتا، اذان اور تکبیر کہنے کی سعادت انہی کے حصے میں آتی۔

غزوہ احد میں رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ سے باہر تشریف لائے، اور مقام دشیخین پر قیام فرمایا تو اس موقعہ پر سیدنا بلال حبشیؓ نے وہاں مغرب اور عشاء کی اذان کہی۔

غزوہ احد کے دوران سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے قریب ہی رہے۔ جب کفار نے اللہ کے آخری رسول ﷺ پر حملہ کیا تو آپؓ ان جان نثاروں میں موجود تھے، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے گرد حلقہ بنا لیا اور کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ اس واقعہ کے متعلق بیان فرماتے ہیں:

’’غزوہ احد میں میرے آقا ﷺ ایک پتھر کی وجہ سے زخمی ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔ ابن قمیہ جو مکہ کا ماہر شمشیر زن تھا، رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا۔ یہ ایک آسان بلا کوشش ضرب کا معاملہ تھا، لیکن یکایک خون کے جوش مارنے سے ابن قمیہ جو خوف اور جذبات سے عاری آدمی تھا، نفرت میں پھنس کر رہ گیا۔ اس نے اپنی تلوار ضرورت سے زیادہ بلند کر لی، اور جلد ہی خود نیچے آ گیا۔ صحیح نشانہ لگانے کی تمام شہرت کے باوجود ناکام رہا۔ میں نے خود کو پوری قوت کے ساتھ ابن قمیہ پر پھینکا، میری تلوار اور میرا جسم زمین سے رگڑ کھا گئے۔ پھر ہم سب آقا ﷺ کے گرد جمع ہو گئے۔ ہم کل بارہ آدمی تھے اور ہماری تلواریں خار پشت کے کانٹوں کی طرح اٹھی ہوئی تھیں۔‘‘

غزوہ حمرۃ الاسد میں بھی سیدنا بلال حبشیؓ نے شرکت فرمائی۔

یہ غزوہ شوال ۳ھ میں پیش آیا۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ مشرکین غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ میں لوٹ گئے تو ان کفار کو اپنے واپس چلے آنے پر سخت پشیمانی ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ مدینہ منورہ جائیں اور مسلمانوں پر بھرپور حملہ کریں۔

رسول اللہ ﷺ کو خبر ہوئی تو دشمنوں پر رعب ڈالنے کے ارادہ سے آپ ﷺ نے چاہا کہ ان کو خوف زدہ کریں تاکہ کفار کو معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں میں ان کے ساتھ مقابلہ اور جنگ کرنے کی طاقت ہے۔رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا:

’’بلالؓ! آپ منادی کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کفار کے ساتھ جہاد کے لیے جلدی نکلو، اور سوائے ان مسلمانوں کے کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جہاد کرنے نہ نکلے جو کہ غزوۂ  احد میں حاضر تھے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق سیدنا بلال حبشیؓ نے منادی کی۔ آپ ﷺ تھکے ماندے ۸ شوال کو مجاہدین کے ہمراہ کفار کے مقابلہ کے لیے چل پڑے، سیدنا بلال حبشیؓ ہمراہ تھے۔ کفار مسلمانوں سے دہشت کھا چکے تھے، ان میں مسلمانوں کے سامنے آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس مہم میں جنگ کی نوبت پیش نہ آئی۔

سیدنا بلال حبشیؓ غزوہ احزاب میں بھی شریک تھے، یہ غزوہ شوال ۵ھ میں پیش آیا۔ غزوہ احزاب میں ابوسفیان ایک ہزار کفار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ پر چڑھ آیا اور ایک ماہ تک اس نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کیے رکھا، آخر ناکام واپس لوٹا۔

اس جنگ میں کفار کو روکنے کے لیے چار نمازیں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء قضا ہوئیں جب رسول اللہ ﷺ نے فرصت پائی تو سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا کہ اذان دیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان دی۔ حضور اکرم ﷺ نے نماز ظہر ادا کی اور اسی وقت نماز عصر، مغرب اور قضا کی ہوئی نماز عشاء بھی ادا کی۔

جب غزوہ احزاب سے کفار ذلیل و خوار ہو کر لوٹے تو رسول اللہ ﷺ گھر تشریف لائے، غسل کے بعد نماز ظہر ادا کرنے کے بعد خوشبو طلب فرمائی۔ اتنے میں ایک چمکدار سفید عمامہ والا اونٹ سوار آیا اور اس نے کہا:

’’یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو فتح دے۔ آپ ﷺ نے ہتھیار اتار دیے حالانکہ ملائکہ نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے، جلدی اٹھیں اور اپنے ہتھیار پہنیں اور بنی قریظہ کی طرف توجہ فرمائیں، خدا کی قسم میں جا کر ان کے قلعے کو اس طرح کوٹتا اور توڑتا ہوں جیسے کہ انڈے کو پتھر مارتے ہیں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت سیدنا بلالؓ کو طلب فرمایا اور انہیں ندا کرنے کا حکم دیا۔سیدنا بلال حبشیؓ نے مدینہ طیبہ میں اعلان فرما دیا۔

’’اے اللہ کے شہسوارو، سوار ہو جاؤ، ہر سننے والے فرمانبردار کو دوسری نماز بنی قریظہ میں ادا کرنی ہے۔‘‘

غزوہ ذی قروہ ربیع الاول ۶ھ میں پیش آیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے اس غزوہ میں بھی بھرپور حصہ لیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی جان نثاری اور خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

رسول اللہ ﷺ اپنے چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں آپ ﷺ نے مقام حدیبیہ پر قیام فرمایا۔

کفار نے خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ ہم سے جنگ کرنے کے ارادہ سے آئے ہیں، تو انہوں نے آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مکہ مکرمہ آنے سے روک دیا اور اپنے کچھ سفیر آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجے۔

ان سفرا اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان جو بات چیت ہوئی، سیدنا بلال حبشیؓ وہ ساری گفتگو بڑی توجہ سے سنتے رہے، اور مسلسل رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں موجود رہے۔

اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر ہی لوٹ گئے۔

جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے قلعہ قموص کو فتح فرمایا تو آپ ﷺ کے سامنے قلعہ کے حاکم کی بیٹی صفیہ اور اس کی ایک کمسن رشتے دار کو حاضر کیا گیا۔ آپ ﷺ نے ان دونوں کو سیدنا بلال حبشیؓ کی نگرانی میں خیمہ گاہ کی طرف بھیج دیا۔

جب سیدنا بلال حبشیؓ ان دونوں کو لے کر خیبر کے مقتولین کے پاس سے گزرے تو چھوٹی لڑکی اس منظر کو دیکھ کر بے تحاشہ روئی۔

رسول اللہ ﷺ کو سیدنا بلال حبشیؓ کے اس عمل پر سخت رنج ہوا اور جس وقت سیدنا بلال حبشیؓ صفیہ ؓؓ کو خیمہ میں پہنچا کر واپس تشریف لائے تو رحمۃ اللعالمین ﷺ نے آپؓ کو مخاطب کر کے فرمایا:’’اے بلالؓ  کیا تم نے اپنے دل سے رحم کو نکال ڈالا ہے، کیا تمہیں اس کمسن بچی پر ترس نہ آیا، تم اس کو مقتولین کی طرف سے کیوں لے کر گئے؟‘‘

اس پر سیدنا بلال حبشیؓ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ ﷺ ! میں چاہتا تھا کہ صفیہ ؓ کو وہ حالت دکھا دوں جو ان کو شاق تھی۔ یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے اس بار معاف فرما دیں۔ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔‘‘

غزوہ تبوک میں بھی سیدنا بلال حبشیؓ نے شرکت فرمائی۔

بنی سعد بن ہذیم کے ایک شخص کا کہنا ہے کہ:’’میں غزوہ تبوک میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ اپنے صحابہؓ  کے درمیان تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ ان میں ساتویں تھے میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں سلام کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔‘‘

میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ ﷺ سنیے۔ اشہد ان لا الہ الا اللہ وشہد انک رسک اللہ۔

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’اے سیدنا بلال حبشیؓ اس کے لیے کھانا لاؤ، سیدنا بلال حبشیؓ نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا اور قدرے خرما، روغن ملا لائے اور اس دسترخوان پر رکھ دیا۔ حضور پُر نور ﷺ نے فرمایا، کھاؤ ہم نے اس قدر کھایا کہ سیر ہو گئے میں نے عرض کیا:

یارسول اللہ ﷺ اگر میں تنہا اس طعام کو کھاتا تو میرا پیٹ نہ بھرتا۔ کیا بات ہے کہ اب ہم تمام کا پیٹ بھر گیا ہے۔ فرمایا۔ ’’الکافر یاکل فی سبعۃ معاء والمومنین یاکل فی معا۔‘‘ اگلے روز بوقت چاشت میں پھر گیا تاکہ میں کوئی ایسی چیز دیکھوں جو میرے یقین کی زیادتی کا سبب بنے میں نے دیکھا کہ دس اشخاص سرکار ﷺ کے پاس بیٹھے ہیں۔ فرمایا:

’’اے سیدنا بلالؓ ہمیں کھانا دو۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے ایک مٹھی کھجوریں تھیلے میں سے باہر نکالیں۔ سرکار ﷺ نے فرمایا۔ ’’اخرج ولا تغف من ذی العرش افتادا۔‘‘ سیدنا بلال حبشیؓ نے تھیلا لا کر تمام کھجوریں دستر خوان پر ڈال دیں، سرکار ﷺ نے ان کھجوروں پر دست مبارک رکھ کر فرمایا:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ صحابہؓ  نے کھائیں، مجھے کھجوروں کی بڑی رغبت تھی میں نے اس قدر کھائیں کہ کوئی گنجائش باقی نہ رہی، اور جب میں نے دستر خوان کی طرف دیکھا تو اس پر اسی مقدار میں کھجوریں تھیں گویا کہ ان میں سے ایک کھجور بھی نہیں کھائی گئی۔ تین روز تک اسی طرح میں سرکار ﷺ کی محفل کا مشاہدہ کرتا رہا۔ (مدارج النبوۃ)

جب ۸ھ میں کفار نے مکہ معاہدہ حدیبیہ توڑ دیا تو سرکار ﷺ دس ہزار مسلمانوں کا ایک عظیم الشان لشکر لے کر مدینہ شریف سے روانہ ہوئے اور گیارہ رمضان المبارک کی رات کوہ صفا کی اوٹ میں قیام فرمایا۔ اگلی صبح یعنی گیارہ رمضان المبارک ۸ھ کو مسلمان مجاہدین کا لشکر قیام پڑاؤ سے روانہ ہوا اور چاروں طرف سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوا۔

اس اچانک یلغار سے مشرکین حیران و پریشان رہ گئے لیکن پھر بھی ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے ایک مسلح جماعت کے ساتھ مسلمانوں کو روکنا چاہا، مگر مسلمانوں کا سامنا کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ دیوانہ وار حملہ آوروں کی صفوں پر پل پڑے۔ قریش کو منہ کی کھانا پڑی، اور وہ اپنی تیرہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے جب کہ تین مسلمان بھی اس جھڑپ میں شہید ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ حکم تھا کہ جو شخص مقابلے پر تلوار نہ اٹھائے اسے مت چھیڑا جائے۔ جو گھر میں بیٹھ رہے اس کے ساتھ جنگ نہ کی جائے جو بھاگ نکلے اس کے تعاقب کی ضرورت نہیں۔ جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہو جائے اس کو بھی پناہ ہے، اور جو ابوسفیان کے مکان میں داخل ہو جائے اسے بھی امن ہے اس لیے مسلمان مجاہدین نے بڑے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معرکہ عظیم کو سر کیا۔

اس موقعہ پر حضور عالم نور مجسم ﷺ ناقہ پر سوار، سیاہ عمامہ شریف باندھے، سورہ فتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔

حرم کعبہ کے قریب پہنچ کر حضور اکرم ﷺ نے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے چابیاں لے لیں اور سیدنا بلال حبشیؓ کو عنایت فرماتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم فرمایا۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے فوراً حکم کی تعمیل فرماتے ہوئے دروازہ کھولا تو حضور اکرم ﷺ حضرت علی کرم اللہ وجہ، حضرت اسامہ بن زیدؓ اور سیدنا بلال حبشیؓ کے ہمراہ کعبہ میں داخل ہوئے اور وہاں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بتوں کو باری باری گرانا شروع فرمایا۔ سرکار ﷺ چھڑی کی نوک سے ٹہوکا دیتے اور فرماتے جآء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ حق آیا اور باطل گیا بے شک باطل کو آخر مٹنا ہی تھا۔

کعبہ مکرمہ کو بتوں سے پاک فرمانے کے بعد آپ ﷺ باہر تشریف لائے۔

فتح مکہ کے بعد حضور اکرم ﷺ قیام گاہ کی طرف متوجہ ہوئے راہ میں شعب ابی طالب اور حنیف بنی کنانہ نظر سے گزرا ہوا، وہ محنت اور مشقت کی یاد آئی جو مشرکوں کے ہاتھ سے اس جگہ پہنچی تھی جس وقت کہ مشرکوں نے کفر و انکار اور بنی ہاشم کے ساتھ ترک مناکحت اور ان کے ہاتھ خرید و فروخت نہ کرنے پر حلف و قسم اٹھائی تھی کہ جب تک وہ حضور اکرم ﷺ کو ان کے حوالے نہ کر دیں گے یہ معاہدہ جاری رہے گا۔

یہ تمام مناظر یاد آئے اب فتح مکہ کی نعمت اور دشمنان دین پر غلبہ پانے پر شکر خدا بجا لائے۔ جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا کہ بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دیں۔ یہ بھی کیسا شریف وقت اور عظیم نعمت تھی کہ جو حضور کو دامان اجلاس کے دست ادراک میں آئی۔ اس وقت کی حقیقت تو عرشیوں سے پوچھنی چاہئے کہ یہ آواز وہاں تک پہنچی ہو گی بلکہ وہاں سے گزر کر اور اوپر گئی ہو گی۔

مشرکوں نے جب سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز سنی تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگوں نے جیسے خالد بن اسید برادر عتاب بن اسید، حارث بن ہشام برادر ابوجہل، اور حکم بن العاص نے یاوہ گوئی سے کام لیا۔ اس پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور جو کچھ ان لوگوں نے بکواس کی تھی سب کی خبر دی۔

حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو طلب فرمایا اور جس نے جو کچھ کہا تھا سب کی خبر دی اور انہیں ان کی باتوں سے خبردار کیا۔ یہ بات ایک جماعت کے اسلام لانے کا سبب بنی۔ جیسے حارث بن ہشام، عتاب بن اسید وغیرہ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوسفیان بن حرب بھی ان لوگوں کے ساتھ یاوہ گوئی میں شامل تھا اس نے کہا تھا کہ میں کچھ نہیں کہتا جو کچھ میں کہو ں گا میرا خیال ہے کہ یہ سنگریزے محمد ﷺ کو اس کی خبر دے دیں گے جب حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے سامنے ان کی کہی ہوئی باتوں کو دہرایا تو ابوسفیان نے کہا کہ میں نے اتنی بات سے زیادہ کچھ نہیں کہا ہے حضور اکرم ﷺ نے تبسم فرمایا اور تصدیق کی اگر یہ روایت صحیح ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا تھا اور اس کا اسلام حسن پذیر ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

حضرت بلالؓ ماہ و سال کے آئینہ میں

 

سیدنا بلال حبشیؓ کی پرورش قریش کے مشہور قبیلے بنو جمح میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام رباح تھا اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔

سیدنا بلال حبشیؓ امیہ بن خلف کے سب سے چہیتے غلام تھے۔ ایک دن امیہ بن خلف کے ساتھ آپؓ صبح اٹھ کر کہیں جا رہے تھے۔ امیہ بن خلف آگے آگے تھا اور سیدنا بلال حبشیؓ ان کے پیچھے پیچھے۔ اچانک امیہ بن خلف نے کہا:

’’بلالؓ  اس سال تجارت کا قافلہ تیار ہے۔ تم بھی تیاری کا پروگرام بنا لو لیکن گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی دوسروں سے بازی جیت لینا یعنی خوب نفع کمانا۔‘‘

’’آقا آپ اطمینان رکھیں، ایسا ہی ہو گا۔ اس سال ہمیں پہلے سے بھی زیادہ نفع ہو گا۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے جواب دیا:

’’سنا ہے دوسروں کے قافلے کل جائیں گے، تم آج ہی اپنا سامان مکمل کر لو۔ کہیں تم ان سے پیچھے نہ رہ جاؤ۔‘‘ امیہ بن خلف نے تشویش ظاہر کی۔

’’آقا آپ گھبرائیں نہیں، میری ہمت سے آپ خوب واقف ہیں، دیکھنا ہم سب سے پہلے نکلیں گے۔‘‘ سیدنا بلالؓ نے اپنے آقا کو تسلی دیتے ہوئے کہا:

’’بلالؓ  تم میرے بیٹے کا انتظار نہ کرنا، وہ بڑا سست ہے۔ اگر تم قافلے سے رہ گئے تو میں صرف تم سے ہی باز پرس کروں گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ دونوں کعبہ کی جانب چل پڑے۔ امیہ بن خلف سرداروں کے حلقے میں جا کر بیٹھ گیا۔ یہ قریش کی مجلس شوریٰ تھی جس میں کل جانے والے قافلے کے بارے میں سوچ بچار ہونا تھی۔

سیدنا بلال حبشیؓ باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ امیہ بن خلف نے جانے سے پہلے سیدنا بلالؓ سے کہا: ’’بلالؓ ! تم میرا یہیں انتظار کرو اور ہاں تم اتنی دیر میں ہبل (بت) کی بارگاہ میں جا کر کل کے سفر کے بارے میں فال نکال لو۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ ہبل بت کی کچہری میں چلے گئے۔ وہاں بڑا ہجوم تھا۔ ہجوم چھٹا تو سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنے آقا امیہ بن خلف کے حکم کے مطابق بت کے خادم کو کچھ نذرانہ دے کر کہا: ’’کل ہم سفر پر جا رہے ہیں، ذرا فال تو نکالنا۔‘‘

کاہن نے سوال سن کر حسب عادت تیر گھمائے اور اس سفر پر جانے سے منع کیا۔ سیدنا بلال حبشیؓ یہ سن کر پریشان ہو گئے۔ کاہن آپ کو پریشان دیکھ کر کہنے لگا:

’’اور نذرانہ دو ممکن ہے، بت مہربان ہو جائے۔‘‘

آپؓ نے دوبارہ نذرانہ پیش کیا۔ کاہن نے تیر گھمایا تو ایک تیر پر لکھا ہوا نظر آیا:

’’مسافر، سفر کرو۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ خوش ہو گئے لیکن اپنے مالک کے اطمینان کے لیے اور نذرانہ دے کر تیسری بار پھر فال نکلوائی تو بھی سفر کی اجازت کا قرعہ نکلا۔

سیدنا بلال حبشیؓ مطمئن ہو کر امیہ بن خلف کے پاس آئے اور اسے سارا حال سنایا۔ امیہ بن خلف نے کہا: ’’اب تیاری میں لگ جاؤ۔‘‘

صبح ہوتے ہی قافلہ روانہ ہو گیا۔ بنی جمح کے قافلہ کی سرداری سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد تھی اور قافلوں کی قطاریں تا حد نگاہ رواں دواں تھیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنی سریلی آواز میں گیت پڑھنے شروع کر دیئے۔ آپ کے گیتوں نے قافلے کو سفر کی تھکان تک محسوس نہ ہونے دی۔ یہاں تک کہ ملک شام میں اس وقت پہنچے جب سورج غروب ہونے والا تھا۔

قافلے کو ایک جگہ ٹھہرا کر تاجر سردار ایک جگہ پر آئندہ لائحہ عمل کے لیے مشورہ کرنے کے لیے بیٹھے تھے۔ ان میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی تھے۔ اتنے میں وہاں سے سیدنا بلال حبشیؓ کا گزر ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:

’’کتنی بلند آواز ہے تیری اے بلالؓ  اور کیسی میٹھی۔ آپ نے ہمارے راستے کی ساری تھکان بھلا دی بلکہ مسافت کی درازی تک محسوس نہ ہونے دی۔‘‘

اس کے بعد جتنا عرصہ قافلوں نے ملک شام میں قیام کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا بلال حبشیؓ کی آپس میں بکثرت ملاقاتیں ہوتی رہیں، بلکہ دونوں میں اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔

صبح قافلوں نے واپس مکہ مکرمہ جانا تھا۔ اسی صبح کی رات کے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سیدنا بلال حبشیؓ نے جاتے دیکھا تو ان کے پیچھے ہو لیے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مڑ کر دیکھا، بلالؓ آ رہے تھے۔ سیدنا بلالؓ نے پوچھا: ’’آپؓ  کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے، اس کی تعبیر پوچھنے جا رہا ہوں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے کہا: ’’مجھے اجازت دیجئے، میں واپس چلتا ہوں۔‘‘

مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اصرار کر کے انہیں بھی ساتھ چلنے پر آمادہ کر لیا۔

راہب کے پاس پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا خواب بیان کیا تو راہب نے پوچھا: ’’آپ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟ اور کہاں رہتے ہیں؟‘‘

حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’میرا تعلق قبیلہ قریش سے ہے اور ہم مکہ کے لوگ ہیں۔‘‘

راہب نے کہا: ’’اگر تمہارا خواب سچا ہے تو تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث ہو گا اور تم اس کی زندگی میں اس کے وزیر ہو گے اور ان کے وصال کے بعد ان ﷺ کے خلیفہ۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور راہب کی گفتگو غور سے سنتے رہے پھر انہوں نے راہب سے پوچھا: ’’نبی کون ہوتا ہے؟‘‘

راہب نے جواب دیا: ’’اللہ کی طرف سے پیغام لانے والا محبوب بندہ۔‘‘

یہ سن کر سیدنا بلالؓ نے کہا: ’’یہ لات و عزیٰ اور منات ان کا کیا بنے گا؟ یہ کچھ نہ کر سکیں گے؟‘‘

راہب نے جواب دیا: ’’وہ نبی ﷺ ان سب کو پاش پاش کر دے گا، بس ایک خدا باقی ہو گا۔‘‘

قافلے شام سے مکہ مکرمہ واپس پہنچ چکے تھے۔

قافلوں کی عادت تھی کہ واپسی پر پہلے کعبہ کا طواف کرتے پھر گھروں کو جاتے۔

سیدنا بلال حبشیؓ انہی قافلہ والوں میں شامل تھے لیکن دل ان کے ساتھ نہیں۔ طواف تو کر رہے تھے مگر ان کے دل میں بتوں سے سخت نفرت پیدا ہو چکی تھی۔

طوافِ مکہ کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ اپنے آقا امیہ بن خلف کے ہاں گئے۔ اسے تجارتی سامان پیش کیا۔ اس سال خوب منافع کمایا تھا۔ اتنا زیادہ منافع کمانے پر بھی امیہ بن خلف نے انہیں شاباش نہ دی۔ سیدنا بلال حبشیؓ کے دل پرسخت چوٹ لگی اور وہ سوچنے لگے:

’’کاش غلامی کا پھندہ نہ ہوتا اور نہ ہی یہ ذلت دیکھنا پڑتی، مالک نے میری بالکل قدر نہیں کی۔‘‘

رات کے وقت ہاتف غیبی نے یہ نوید سنائی: ’’اے خدا کے بندے! مبارک ہو، عنقریب تیرے گلے سے غلامی کا پھندہ اترنے والا ہے جس پر خلق خدا رشک کرے گی۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ کے دن رات پریشانی اور حزن و ملال میں گزر رہے تھے، بے چینی سے نیند آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔ ایک رات کمرے میں آرام فرما رہے تھے کہ ایک پُر کشش آواز کانوں میں گونجی: ’’یا بلالؓ ! یا بلالؓ !۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے باہر نکل کر دیکھا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ مصافحہ و معانقہ کے بعد انہیں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی خبر سنائی اور کہا۔ ویسا ہی ہوا جو تعبیر راہب نے بتائی۔‘‘اور اے بلالؓ  تم بھی میرے خواب اور تعبیر کو سنتے رہے ہو، تو اب دل و جان سے ان ﷺ کا شیدا ہو چکا ہوں، تمہیں بھی دعوت دینے آیا ہوں۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں بتایا۔

’’ہاں مجھے یاد ہے، اس وقت سے تو میں بھی انتظار میں ہوں، سنیے اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسولہ،

سیدنا بلال حبشیؓ نے کلمہ شہادت پڑھا۔

’’لیکن اس راز کو پوشیدہ رکھنا، کہیں تمہارے مالک کو علم ہو گیا تو پھر…‘‘

یہ کہہ کر حضرت ابوبکر صدیقؓ چلے گئے۔

سیدنا بلال حبشیؓ سے رہا نہ گیا۔ صبح اٹھتے ہی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر بیعت کی اور پھر لگاتار روزانہ حاضری دینے لگے اور امیہ بن خلف کو اس کی خبر نہ ہونے دی۔

سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ رات دن آپ ﷺ کے گیت گاتے۔ ایک رات اپنے عشق کی وارفتگی میں بتوں کی مذمت کرتے رہے اور توحید رسالت کی باتیں اپنے طور پر بیان کرتے رہے، کوئی بدبخت سن رہا تھا۔ اس نے صبح کو فوراً امیہ بن خلف کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بس پھر کیا تھا وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا اور آپؓ کو اذیتیں دینے لگا مگر آپؓ کو بتوں کی پرستش کی طرف واپس نہ لا سکا۔

آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ بن خلف کو چالیس اوقیہ چاندی اور اپنا ایک رومی فسطاط غلام دے کر آپؓ کو اس کی غلامی سے آزاد کر دیا، اور پھر آپؓ نے امیہ بن خلف کی غلامی سے رہائی پاتے ہی رسول اللہ ﷺ کی غلامی قبول کر لی۔

امیہ بن خلف کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مہمان نوازی میں زندگی بسر کرنے لگے۔

ایک روز حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’سنو سیدنا بلالؓ! تم اب آزاد ہو اور تمہیں لکھنا سیکھنا ہے۔‘‘

پھر سیدنا بلال حبشیؓ نے پڑھنا سیکھنا شروع کر دیا۔

شعب ابی طالب میں تین سال بھوک اور دوسری تکالیف میں بسر ہوئے تو سیدنا بلال حبشیؓ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔بالآخر رسول اللہ ﷺ کی غیبی خبر دینے پر معاہدہ ختم ہوا۔

شعب ابی طالب میں مسلمان محصور ہو گئے۔ سیدنا بلال حبشیؓ بھی ان میں شامل تھے۔ تمام محصورین بھوک سے دوچار ہوئے سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہے۔ اسی دوران سیدنا بلال حبشیؓ بھوک سے سخت نڈھال ہو گئے۔ یہاں تک کہ آپؓ کا شکم اطہر پیٹھ سے جا لگا اور آنکھیں اندر کو دھنس گئیں اور ہڈیاں گوشت سے خالی ہو کر صاف نظر آنے لگیں۔ اس کے باوجود سیدنا بلال حبشیؓ بہت خوش بلکہ نازاں تھے کہ اپنے محبوب ﷺ سے تنہائی کی راتیں اور تنہائی کے دن یکجا رہنے میں نصیب ہو رہے ہیں۔

شعب ابی طالب سے رہائی کے بعد مسلمانوں کے لیے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دعوت اسلام کی اس عظیم الشان تحریک کے سربراہ کے سرپرست چچا ابوطالب کا انتقال ہو چکا تھا اور پھر اس کے بعد ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ  بھی دنیا سے پردہ فرما چکی تھیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ نے یہ دردناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر شروع ہوئی۔ سیدنا بلال حبشیؓ نے اس مسجد کی تعمیر میں بھرپور حصہ لیا۔

جب نماز کی ادائیگی کے لیے اذان کا آغاز ہوا تو یہ سعادت سیدنا بلال حبشیؓ کے سپرد ہوئی۔ کتنے خوش نصیب ہیں سیدنا بلال حبشیؓ کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسحور کن نغمے کے لیے ان کی ذات کا انتخاب فرمایا۔ آپؓ کی ایسی نغمگی سے اہل ذوق، اہل سوز اور اہل دل کی زندگی وابستہ تھی۔

حبشی نژاد ہونے کی وجہ سے سیدنا بلال حبشیؓ کی زبان مبارک سے جب اشہد ان محمد رسول اللہ بلند ہوتا تو سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی۔ نماز کا وقت قریب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ آپؓ سے فرماتے:

’’بلالؓ  اٹھو اور اذان پڑھ کر نماز شروع کرو اور اس سے میرے دل کو راحت پہنچاؤ۔‘‘

اذان پڑھنے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک کے قریب ہو کر عرض کرتے:

’’السلام علیک یارسول اللہ۔ الصلوًۃ یارسول اللہ ﷺ۔ ‘‘

رسول اللہ ﷺ یہ سنتے ہی حجرہ مبارک سے باہر تشریف لے آتے۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک واقعہ سیدنا عمر فاروقؓ کے قبول اسلام کا ہے۔

جب سیدنا عمر فاروقؓ نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر قبول اسلام کا اظہار کیا تو اس وقت وہاں موجود تمام صحابہ کرامؓ  نے مل کر نعرہ لگایا۔

پھر عمر فاروقؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ سے فرمایا:

’’آپ کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر اعلان فرما دیں۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے اپنی مخصوص بلند آواز میں حضرت عمر فاروقؓ کے ایمان کی خبر دہرائی۔ کفر کے ایوان میں اس صدائے رعد آسائے حق کو سن کر زلزلہ برپا ہو گیا اور مشرکین نے کہا: ’’آج ہمارے دو ٹکڑے ہو گئے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کو سیدنا بلال حبشیؓ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے جملہ امور کا خزانچی مقرر فرمایا: اموال المسلمین ہوں یا اپنی گھریلو ضروریات طعام، حضر میں بھی سفر میں بھی، یہاں تک کہ غزوات اور حج مبارک میں بھی آپؓ ہی جملہ امور سرانجام دیتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کو سیدنا بلال حبشیؓ کی خدمت ایسی پسند آئی کہ لمحہ بھر بھی اپنے سے جدائی گوارہ نہ فرماتے۔

روایت ہے:

’’شدت مرض کے وقت رسول اللہ ﷺ نے سر انور پر عصابہ باندھا ہوا تھا۔ حضرت فضل بن عباسؓ نے دست مبارک کو تھام رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ اسی حالت میں حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ پھر سیدنا بلال حبشیؓ کو حکم دیا:

’’اے بلالؓ  لوگوں کو جمع کریں، مجھے انہیں نصیحت کرنا ہے۔ اے بلالؓ  مدینہ کے بازاروں میں گھوم کر ندا کرو۔‘‘

لوگوں نے جب سیدنا بلال حبشیؓ کی آواز سنی تو فوراً گھروں اور دکانوں کے دروازوں کو کھلا چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے بھاگے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنا آخری خطبہ ارشاد فرمایا۔

رسول اللہ ﷺ کا اپنے رب سے ملنے کا وقت آ چکا تھا۔

سیدنا بلال حبشیؓ چوکھٹ پر سر جھکائے کھڑے تھے۔ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، عاشق زار کے دل کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آ گئے۔ ملک الموت علیہ السلام درود و سلام کی سوغات لیے خدمت نبوی ﷺ میں پہنچ چکے تھے۔

اب کوچ کی تیاری تھی۔

رسول اکرم ﷺ اپنے رب سے ملنے جا رہے تھے، اور پھر رحمۃ اللعالمین ﷺ نے دنیا سے پردہ فرما لیا۔

آسمانوں پر صل علی ﷺ کا شور مچا، زمین پر کہرام برپا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔

مؤذن رسول ﷺ،  خازن و خادم خاص بس حجرہ عائشہ صدیقہؓ  کی طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ شدت غم سے کلیجہ منہ کو آ رہا تھا، بے قرار ہو کر کبھی حجرہ عائشہ صدیقہؓ  میں داخل ہوتے، اپنے محبوب و مطلوب آقا ﷺ کے چہرۂ  انور کی بلائیں لیتے اور اپنے دل کو یہ کہتے ہوئے تسلی دیتے:

’’میرے آقا ﷺ بستر پر محو خواب ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں بیدار ہوں گے اور غلام کو یاد فرمائیں گے۔ ہاں، ہاں! ابھی پکاریں گے۔ یابلالؓ !‘‘

رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی اور آپؓ جلد از جلد اپنے آقا ﷺ سے ملنے کے لیے تڑپتے۔

جب سیدنا بلال حبشیؓ کے وصال کا وقت نزدیک آیا تو کہنے لگے:

’’کتنی خوشی کی بات ہے۔ میں کل آقا دو جہاں ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے شرفِ ملاقات حاصل کروں گا۔‘‘

٭٭٭

 

 

حیات بلالؓ کا آخری سال

 

سیدنا بلالؓ ۲۰ھ میں تریسٹھ سال کی عمر میں دمشق میں فوت ہوئے اور باب الصغیر کے قبرستان میں دفن ہوئے۔

یہ حضرت عمر فاروقؓ کا دور تھا۔

جب سیدنا بلال حبشیؓ کے وصال کا وقت نزدیک آیا تو ان کی زوجہ محترمہ ان کے قریب موجود تھیں۔

سیدنا بلال حبشیؓ کے لیے وہم تک نہ تھا کہ آپؓ مدینہ طیبہ چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں گے، لیکن خمیر کا تقاضا یونہی تھا کہ آپؓ کا قیام دمشق میں ہو۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وصال شریف کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ بہت افسردہ اور غمگین رہنے لگے۔

ایک دن خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ خاموش رہے۔

ایک روایت کے مطابق:

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ جمعۃ المبارک کے روز منبر پر جلوہ افروز تھے کہ سیدنا بلال حبشیؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

’’یاابوبکر صدیقؓ! کیا آپؓ نے مجھے امیہ کی غلامی سے اس لیے رہائی دلائی تھی کہ جہاد سے روک رکھیں۔ جہاد افضل ترین عمل ہے، مجھے شرکت کی اجازت دے دی جائے۔‘‘

اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:

’’اے بلالؓ! یہ بات نہیں بلکہ میری زندگی کی شام ہو چکی۔ بڑھاپے کے آثار نمودار ہو چکے اور میری اجل کے دن قریب آ گئے۔ تجھے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کا واسطہ مجھے چھوڑ کر کہیں نہ جا۔ مجھ سے تیری جدائی برداشت نہ ہو گی۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس محبت بھرے فرمان کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ نے مزید اصرار نہ کیا۔

۱۳ھ میں حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں سیدنا بلال حبشیؓ اسلام لشکر کے ساتھ شامی کی سمت روانہ ہو گئے۔ چار سال جہاد کے بعد ۱۶ھ میں شام فتح ہو چکا تو سیدنا بلال حبشیؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے نام پیغام بھیجا: ’’مجھے یہیں مستقل سکونت کی اجازت دے دی جائے اور میرے اسلامی بھائی حضرت ابو رویحہؓ کو بھی مدینہ منورہ سے میرے پاس بھیج دیا جائے۔‘‘

حضرت عمر فاروقؓ نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حضرت ابو رویحہؓ کو بھی دمشق جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔

سیدنا بلال حبشیؓ اسلام لشکر سے رخصت ہوئے اور دمشق کے قصبہ خولان میں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہیں انہیں کچھ زرعی زمین بھی مل گئی اور دونوں بھائی کھیتی باڑی میں دلچسپی لینے لگے۔ پانچ ہزار درہم سالانہ وظیفہ بھی انہیں مسلسل ملتا رہا۔

بیت المقدس کی فتح کے موقعہ پر سیدنا بلال حبشیؓ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے اور جابیہ کے مقام پر ملاقات ہوئی۔ پھر آپؓ بیت المقدس تک ان کے ساتھ رہے۔

اس قافلے میں سیدنا بلالؓ کی موجودگی سے سب کے دلوں میں خواہش پیدا ہوئی مگر وہ جانتے تھے کہ سیدنا بلال حبشیؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد اذان نہیں دی۔ اگر اس عاشق زار کو اذان کے لیے کہا گیا تو مزید تڑپیں گے۔

آخرکار حضرت عمر فاروقؓ نے سیدنا بلال حبشیؓ سے اذان سنانے کی فرمائش کر دی۔ سیدنا بلال حبشیؓ بوجھل دل کے ساتھ اٹھے اور اذان کہنا شروع کی۔

یہ مغرب کا وقت تھا، ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں نظر آ رہی تھیں کہ سیدنا بلال حبشیؓ کی صدائے توحید فضاء میں بلند ہوئی۔

جوں جوں اذان آگے بڑھتی گئی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگر مسلمان جو وہاں اس وقت موجود تھے، نورانی کیف کی آغوش میں جذب ہوتے چلے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام سامعین زار و قطار رونے لگے۔

سب کو اذانِ بلال حبشیؓ نے عہد رسالت ﷺ یاد دلا دیا۔

سیدنا بلال حبشیؓ اپنے عظیم ساتھیوں سے ملاقات کے بعد دمشق تشریف لے گئے اور یاد مصطفیٰ ﷺ میں دن گزارنے لگے۔

ایک عرصے کے بعد سیدنا بلال حبشیؓ نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اے بلالؓ  تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

سیدنا بلالؓ یہ خواب دیکھ کر ’’لبیک یاسیدی‘‘ کہتے ہوئے اٹھے اور اس وقت رات ہی کو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ طیبہ کو چل پڑے۔

مدینہ طیبہ میں داخل ہو کر سیدھے مسجد نبوی ﷺ پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کو نہ دیکھا تو حجروں میں تلاش کیا۔ جب وہاں بھی نہ ملے تو مزار پُرانوار پر حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کیا:

’’یارسول اللہ ﷺ ! حلب سے غلام کو یہ فرما کر بلایا کہ ہم سے مل جاؤ اور جب بلالؓ  زیارت کے لیے حاضر ہوا تو آپ ﷺ پردہ میں چھپ گئے۔‘‘

یہ کہہ کر آپؓ بے خود ہو کر قبر انور کے پاس گر گئے۔ کافی دیر بعد جب طبیعت کچھ سنبھلی تو لوگ آپؓ کو باہر اٹھا لائے۔ اس دوران سیدنا بلال حبشیؓ کی مدینہ طیبہ میں آمد کی خبر پھیل گئی۔ بے شمار لوگ اکٹھے ہو گئے اور مؤذن رسول ﷺ سے اذان سنانے کی درخواست کرنے لگے۔

سیدنا بلال حبشیؓ کہنے لگے:

’’دوستو! یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ظاہری زندگی میں اذان دیتا تھا تو جس وقت اشہد ان محمداً رسول اللہ کہتا تھا تو رسول اللہ ﷺ کو سامنے آنکھوں سے دیکھ لیتا تھا۔ اب بتاؤ کہ کیسے دیکھوں گا، مجھے اس خدمت سے معاف رکھو۔‘‘

اب صحابہ کرامؓ  نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو بلوایا۔ دونوں شہزادگان نے سیدنا بلال حبشیؓ کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا:

’’آج ہمیں بھی وہی اذان سنا دو جو نبی پاک ﷺ کو سنایا کرتے تھے۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے حضرت امام حسینؓ کو گود میں اٹھا کر فرمایا:

’’تم میرے محبوب ﷺ کے نواسے ہو، لے چلو، جہاں کہو گے اذان کہہ دوں گا۔‘‘

سیدنا بلال حبشیؓ نے اذان کہنا شروع کی۔ مدینہ طیبہ میں یہ وقت بڑا غم اور صدمہ کا وقت تھا۔ جب اشہد ان محمداً رسول اللہ منہ سے نکالا اور رسول اللہ ﷺ کو آنکھوں سے نہ دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کے غم ہجر میں بے ہوش ہو کر گر گئے۔ بہت دیر کے بعد ہوش میں آ کر اٹھے اور روتے ہوئے شام واپس چلے گئے۔ (مدارج النبوۃ)

جب آپؓ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپؓ کی زوجہ محترمہ قریب بیٹھی تھیں اور زار و قطار رو رہی تھیں اور جب انہوں نے کہا:

’’ہائے کیسا غم ہے۔‘‘

آپؓ نے جواب میں فرمایا:

’’کتنی خوشی کی بات ہے۔ کل میں اپنے محبوب ﷺ اور اصحاب النبی سے ملوں گا۔‘‘

اور دوسرے ہی روز آپؓ کا وصال ہو گیا اور دمشق کے مشہور قبرستان باب الصغیر میں آسودۂ  خاک ہوئے۔

حضرت عمر فاروقؓ نے سنا تو فرمایا:

’’آج ہمارا سردار فوت ہو گیا۔‘‘

٭٭٭

تشکر: القلم لائبریری اور شاکر القادری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید