دستنبو
مرزا اسداللہ خان غالبؔ
ترجمہ: رشید حسن خان
تعارف و حواشی: ڈاکٹر سید معین الرحمان
(تصحیحِ : جویریہ مسعود، اعجاز عبید)
تعارف
ڈاکٹر سید معین الرحمان
دستنبو پہلی بار نومبر 1858میں شائع ہوئی۔ یہ فارسیِ قدیم میں تھی اور فارسی بھی وہ فارسیِ قدیم جس کا اس زمانے میں پارس کے بلاد میں بھی نشان نہیں رہا تھا، ہندوستان کا تو کیا مذکور غالب نے بہ طریق لزوم مالایلزم اس کا التزام کیا تھا کہ بہ زبان فارسیِ قدیم، جو دساتیر کی زبان ہے اس میں یہ نسخہ لکھا جاوے اور سوائے اسماء کے کہ وہ نہیں بدلے جاتے، کوئی لغتِ عربی اس میں نہ آوے۔ اس لیے "دستنبو” کا اردو ترجمہ کرنا بڑا کٹھن اور دشوار گزار کام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کی اشاعت اور غالب کے انتقال کے پچاس برس بعد تک کسی کو اس "جرِ ثقیل” کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ اب سے نصف صدی پہلے خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر میرزا محمد یعقوب بیگ نامی ایم اے نے پہلی بار اس مشکل کام کو ہاتھ میں لیا۔ ان کا ترجمہ 1920میں خواجہ حسن نظامی کی تالیف "مرزا غالب کا روزنامچہ” کے ساتھ شائع ہوا۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ:
"دستنبو” کا ترجمہ آسان نہ تھا، کیوں کہ وہ نہایت سخت فارسی میں ہے مگر نامی صاحب نے دو دن کے اندر اتنے مشکل کام کو آسان کر کے دے دیا”۔ (روزنامچہ طبع سوم ص 59) "غالب کی سخت اور مشکل فارسی عبارت جس کو عربی الفاظ سے دانستہ محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، ایسا عام فہم او صحیح ترجمہ کیا گیا ہے کہ تعجب ہوتا ہے”۔
(روزنامچہ طبع سوم ص 72)
میرزا محمد یعقوب بیگ نامی کا ترجمہ، اس میں شبہ نہیں کہ بہت عمدہ ہے لیکن یہ پوری کتاب کا نہیں، اس کے صرف جستہ جستہ حصوں کا اردو ترجمہ ہے، اسی لیے یہ صرف گیارہ صفحات کو محیط ہے۔ (طبع سوم ص۔ 71-60)
1961ء میں دستنبو کے دو الگ کلی تراجم سامنے آئے۔ ایک ترجمہ رسالہ تحریک دہلی، اپریل مئی 1961ء (ص 73-53) میں چھپا تھا۔ یہ ترجمہ مخمور سعیدی کا ہے۔ دوسرا ترجمہ رسالہ اردوئے معلیٰ دہلی جلد دوم شمارہ 3,2 بابت فروری 1961ء (ص 232-177) شائع ہوا۔ یہ ترجمہ رشید حسن خاں صاحب کا کیا ہوا ہے۔ یہی ترجمہ ضروری حواشی کے ساتھ اس کتاب میں پیش کیا جا رہا ہے۔ حواشی میرے لکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر سید معین الرحمن
دستنبو
بہ نامِ خداوند پیروزگر مہہ و مہر ساز و شب و روز گر
میں اس کتاب کا آغاز کرتا ہوں اس خدا کے نام سے جو کام یا بی بخشنے والا ہے جو چاند، سورج اور دن، رات کا خالق ہے۔
عظیم طاقت کا مالک ہے وہ شہنشاہ جس نے نو اسمانوں کو بلند کیا اور سات ستاروں کو روشنی عطا کی۔ بڑا صاحب علم ہے وہ خدا جس نے جسم کو روح سے سرفراز کیا اور انسان کو حکمت و انصاف (کی دولت) بخشی۔ جس نے مادے اور وسائل کی مدد کے بغیر سات (زمینوں) اور نو (آسمانوں) کو پیدا کیا۔ مشکل اور آسان کاموں کا بن جانا (اس سلسلے میں راستے کی) معمولی یا غیر معمولی رکاوٹوں کا دور ہونا (ان سب امور کو) ان کی رفتار و اثرات سے متعلق کیا۔
(خدا نے) ان ضابطوں کو اس طرح مرتب نہیں کیا کہ یہ اجرام جو باہم متضاد ہیں (مختلف صفات رکھتے ہیں) ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور (کبھی) ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں، طاقت کے باوجود فرماں برداری نہ کریں اور قوت کارفرمائی اور صلاحیت تاثیر کے با وصف فرمان (قدرت) کے تابع نہ ہوں۔
"تم آسمانوں اور ستاروں کے راز (جاننے)کا کیا دعویٰ کرتے ہو، تم تو ابھی تک چت اور پٹ کے فرق سے واقف نہیں ہو۔ ستاروں کی پرستش نہ کرو (ان کو دنیا کے کاموں میں مطلق صاحب اختیار نہ مانو) کیونکہ ایک آفتاب (خدا) بھی موجود ہے، جس کی روشنی (کائنات کی تمام) ظاہر و پوشیدہ چیزوں کو حلقے میں لیے ہوئے ہے۔
اگر زہرہ و مشتری میں (سعد ہونے کے لحاظ سے) فائدہ پہنچانے کی کچھ صلاحیت ہے(تو ہو) اور زحل و مریخ میں (نحس ہونے کے اعتبار سے) نقصان رسانی کی خاصیت ہے تو ہوا کرے، جو لوگ واقف حقیقت ہیں، وہ جانتے ہیں کہ نحوست و برکت اور مسرت و غم کا سرچشمہ کہاں ہے۔ ستارے ایک عادل شہنشاہ کے ملازم ہیں۔ (اس) عدالت کے سپاہی کبھی حلقۂ انصاف سے قدم باہر نہیں نکالتے ہیں۔ مل جل کر کام کرنے اور کارسازی (تعمیل حکم) کے علاوہ ان کو کسی چیز سے تعلق نہیں۔ اگر ان میں سے کسی نے سخت گیری کے (وسیلے سے) الجھے ہوئے کاموں کو سلجھانا چاہا، یا کسی نے نرمی کے (ذریعے) سے ہنگامۂ زندگی کی رونق افزائی کی، تو یہ سب (زندگی کو) بنانے سنوار نے اور (مشکلوں کو حل کرنے) کے مختلف انداز ہیں، ظلم یا بے نیازی نہیں۔
مغنی ساز کے تاروں پر مضراب سے ضرب لگاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے اس کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ مسرتیں مصیبتوں کے پردے میں چھپی ہوئی ہیں۔ دھوبی غصے میں آ کر کپڑے کو پتھر پر نہیں مارتا۔
درحقیقت کسی چیز کا فنا ہونا کسی دوسری چیز کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ حقیقتاً آرام و تکلیف اور بلندی و پستی ساری چیزیں (خدا کی طرف سے) انسان کو ملتی ہیں۔ اس لیے وہ سب فائدے اور بہبودی کا وسیلہ بن جاتی ہیں، اور ان سے مسرتیں حاصل ہوتی ہیں۔ دولت مند کسی محتاج کو چند پیسے دے یا ہزاروں روپے، ریشم کے تھان عطا کرے یا کمبل (ہر صورت میں) سخاوت اور درویش پروری ہے۔ قدرت کے عطیات کو اچھائی برائی کے خانوں میں تقسیم کرنا یا کمی بیشی (کا الزام رکھنا) کج خیالی و کم فہمی ہے۔
یہ دنیا کی بے حقیقت چیزیں جو (فنا کے طاقتور تھپڑوں کے) سامنے ہیچ ہیں، کیا ان کے لیے یہ بخشش (خداوندی) کچھ کم ہے کہ وہ موجود ہیں۔ لیکن یہ (رقیق) باتیں کم نظر اور کم معرفت لوگوں کی رسائیِ ذہن سے باہر ہیں اور اظہار بیان کی وہ طاقت بھی ختم ہو گئی، مجبوراً میں چند سیڑھیاں نیچے اترتا ہوں، (آسان انداز بیان اختیار کرتا ہوں اور) انھی کہی ہوئی باتوں کو صاف اور سادہ انداز میں کہتا ہوں۔ آسمان کی گردش چکی کی رفتار کی مانند ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ چکی کو چلانے والا ضرور ہوتا ہے، پھر تم یہ کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ آسمان کو گردش میں رکھنے والا بھی کوئی ہے۔ آسمان کے چرخے میں ستاروں کی صلاحیت نفع رسانی اور اذیت دہی کے تاروں سے بنی ہوئی پُونی لگی ہے، جس سے چند پردے تیار کر کے اہل دنیا کی نگاہوں کے سامنے ڈال دیے گیے ہیں۔ صاحبان معرفت اور واقفان اسرار ان پردوں کے باوجود دیکھ لیتے ہیں کہ ہر کام کا کرنے والا خدا ہی ہے۔
جب یہ مسلم ہے کہ آسمان کی گردش حکم خدا کے تابع ہے تو پھر آسمان جو کچھ دے، ہم اس کو ظلم کیسے کہہ سکتے ہیں؟۔
سبحان اللہ کتنا عظیم ہے وہ خدا جو وجود عطا کرتا ہے اور عدم کو ختم کرتا ہے۔ جو ظلم کو ختم کرنے والا اور انصاف کی روشنی پھیلانے والا ہے۔ وہ انصاف (کی طاقت) سے طاقتوروں کا زور گھٹا دیتا ہے اور اپنے کرم سے کم زوروں کو طاقت بخشتا ہے۔ ابابیل کے کنکروں کی ضرب سے فیل سوار خود سروں کا خاک میں مل جانا یا ایک مچھر کا نمرود کو موت کے بستر پر سلا دینا کیا تھا؟ یقیناً یہ وہ نشانیاں ہیں جن سے اس کی (بے پناہ) قوت و قدرت کا اظہار ہوتا ہے، ورنہ مجھ کو بتاؤ کہ یہ دو مختلف قسم کی تباہیاں جو مختلف زمانوں میں نازل ہوئیں۔ یہ کس ستارے کی نگاہ ستم کا کرشمہ تھیں۔
ضحاک، جمشید سے تخت و تاج چھین لیتا ہے۔ سکندر، دارا کا سینہ چاک کر دیتا ہے۔ عفریت، حضرت سلیمان کے ہاتھ سے انگوٹھی اڑا لے جاتا ہے، جو دیو اور پریوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ تم جزا و سزا کے اسرار سے واقف نہیں ہو۔ بس آسمانوں اور ستاروں کو ہر چیز کا ذمے دار سمجھتے ہو۔
خدا جس طرح کائنات کو عدم سے وجود میں لایا ہے اسی طرح ہر موجود کو فنا بھی کر سکتا ہے۔ وہ خالق جس نے ایک لفظ "کن” سے سارے عالم کو پیدا کیا، اگر وہ اس عالم کو فنا کر دے تو کس کی مجال ہے کہ چوں و چرا کر سکے۔
ooooooooooooo
اس زمانے میں ہر راگ کا آہنگ اور ہر چیز کا قاعدہ ہی بدل گیا۔ سپاہی سردار سے منحرف ہو گئے۔ سخن طرازی سے کیا فائدہ، کہنا چاہیے کہ زمانہ ہی بدل گیا۔ منجمین کا خیال ہے کہ جس زمانے میں ایران کے آخری شہنشاہ یزد جرد کی محفل عیش عربوں کے حملوں سے درہم برہم ہو گئی تھی، اس وقت زحل و مریخ دونوں برج سرطان میں جمع تھے۔ آج کل بھی برج سرطان، زحل و مریخ کا مسکن معلوم ہوتا ہے۔ یہ بغاوت، لڑائی، ظلم، خوں ریزی اور ذلت اسی (قرآن نحس کے) اثرات ہیں۔ (لیکن) جو لوگ شناسائے حقیقت ہیں، وہ اس بات کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟ ایران پر عرب کا حملہ (بالکل دوسری چیز تھی، وہ) تو ایک ملک پر دوسرے ملک کے لوگوں کی فوج کشی تھی، لیکن یہاں تو فوج نے اپنے سرداروں سے بغاوت کی ہے۔ ایران کی قدیم داستانوں سے ان دو لڑائیوں کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔
ایران پر (عرب کا) حملہ مذہبی بنیاد پر تھا۔ ایران جو علم و حکمت کے لحاظ سے ویران ہو چکا تھا، ایک نئے مذہب کی برکتوں سے معمور ہو گیا، اور اس کی بدولت آگ کی(پرستش اور) غلامی سے نجات پائی لیکن (ہندوستان میں) جہاں سوال صرف قانون کا ہے، ہندوستان والے کس نئے آئین کی حفاظت کا سہارا لے کر (اپنے اس فعل پر) خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں؟
اہل ایران نے آتش پرستی سے منہ موڑ کر خدا پرستی کا راستہ دیکھا، لیکن ہندوستان والے منصف حاکموں (انگریزوں) کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر درندہ صفت انسانوں کے دام میں گرفتار ہو گئے۔ تم نہیں دیکھتے ہو کہ دامن و دام اور داد و رد میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے علاوہ کسی دوسری حکومت میں انصاف کی امید رکھنا بالکل نادانی ہے۔ عربوں کے تازیانے سے جو زخم لگے تھے، وہ مبارک مذہب (اسلام) ان زخموں کا مرہم بن گیا تھا۔ اگر ان مصیبتوں کے بعد زمانہ امن و راحت کی دولت بخشتا تو مصیبت زدہ غم و آلام کو بھول سکتے تھے۔ اگر کسی واقف راز و صاحب نظر کے خیال میں اس قیامت کے بعد کوئی راحت ملنے والی ہو تو بتائے اور میرے غمگین اور خوف زدہ دل کو تسکین بخش کر ممنون کرے۔ (امن و انتظام کے ذمے دار) ملازمین، حاکموں سے بغاوت کریں۔ سپاہی افسروں کو قتل کریں اور خوشیاں منائیں اور ان کو ذرا بھی پشیمانی نہ ہو۔
اے واقفان اسرار و عارفانِ سود و زیاں! یہ سارا ہنگامہ خدا کا قہر ہے ایران کی وہ جنگ اس قدر مایوس کن اور تباہ کار نہیں تھی۔
ساز سے پریشان نغمے اس لیے بلند ہو ر ہے ہیں کہ عالم اضطراب میں مضراب سے تاروں کو بے طرح چھیڑ رہا ہوں۔
میں اس قدر نا فہم نہیں ہوں کہ ستاروں کو روشن ہونے کے باوجود دبے نور کہہ دوں، آسمان کو عظیم و بلند ہونے کے با وصف بے سرو ساماں سمجھوں، مخلوق آسمانی کی کار گزاریوں کو جھوٹ سمجھوں یا ان دو منحوس ستاروں (زحل و مریخ) کے ایک برج میں جمع ہونے سے آج بھی انہیں پر آلام حالات کی توقع کروں جو اب سے ایک ہزار سال پہلے (جنگ عرب و ایران کے زمانے میں) واقع ہوئے تھے۔
میں جو زمانے کے ہاتھوں ناقابل علاج مصیبتوں میں گرفتار ہوں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس زمین پر بسنے والے، جنھوں نے برج سرطان کو نہیں دیکھا ہے اور جو زحل و مریخ کے نام ہی سے واقف ہیں، نا شنیدہ اور ان دیکھی باتوں میں نہ الجھیں، بلکہ یہ سمجھ لیں کہ زمانے نے جس کے سینے میں ماضی و مستقبل کے راز محفوظ ہیں اور اچھے لوگوں کے کام کو بگاڑ نا اس کی پرانی عادت ہے، (اس موقعے پر) اس بات کو روا نہ رکھا کہ باغی فوجوں کی دست برد سے دانایان فرنگ کو نقصان پہنچائے، اس لیے اس نے اس گروہ (باغیوں) پر ان کی ہر جانب سے آنے والی افواج کو مسلط کر دیا۔
اس کتاب کے پڑھنے والے یہ سمجھ لیں کہ میں نے جس کے قلم کی جنبش سے کاغذ پر (الفاظ کے) موتی بکھر جاتے ہیں، انگریزی حکومت کے نان و نمک سے پرورش پائی ہے اور بچپن سے ان فاتحین عالم کے دسترخوان کا ریزہ چیں ہوں۔ سات آٹھ [1] سال ہوئے کہ بادشاہِ دہلی نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمائش کی کہ میں تیموری خاندان کے بادشاہوں کی تاریخ لکھوں، جس کے عوض 600روپے سالانہ دیا جائے گا۔ میں نے اس خدمت کو قبول کر لیا اور کام میں مشغول ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد بادشاہ کے استاد کا انتقال[2] ہو گیا اور اصلاح شعر کا کام بھی مجھ سے متعلق کر دیا گیا۔
میں بوڑھا اور کمزور تھا، نیز گوشۂ تنہائی میں بیٹھے رہنے اور آرام کرنے کا عادی ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بہرے پن کی وجہ سے بار خاطر حاضرین ہو جاتا تھا۔ کوئی بات کر رہا ہے اور میں اس کے ہونٹوں کی جنبش پر نظر جمائے ہوئے ہوں۔ مجبوراً ہفتے میں ایک دو بار قلعے میں جاتا تھا۔ [3] اگر بادشاہ محل سے بر آمد ہوتے تھے تو کچھ دیر حاضر خدمت رہتا تھا ورنہ دیوان خاص میں کچھ دیر بیٹھ کر چلا آتا تھا۔
اس مدت میں جتنا کام مکمل ہو جاتا، اس کو اپنے ساتھ لیے جاتا تھا یا کسی کے ہاتھ بھیج دیتا تھا۔ یہ تھا میرا تعلق اور میرا کام۔ لیکن یہ تیز رفتار آسمان اس خیال میں محو تھا کہ ایک نئے انقلاب کا خاکہ مرتب کرے اور میرے اس سکون و آرام کو جس میں آسائش و فراغت کا کوئی حصہ نہیں تھا اور جو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک تھا، تباہ کر دے۔
"یہ آسمان ایسا ظالم ہے کہ دشمن ہو یا دوست ہر ایک اس کی تیغ بے پروائی سے زخمی رہتا ہے۔”
اس سال جس کا مادّۂ تاریخی بہ رعایت تخرجہ”رست خیزِ بے جا” ہے۔ اور اگر صاف صاف پوچھو تو 16 رمضان المبارک 1273ھ کو پیر کے دن دوپہر کے وقت مطابق 11مئی 1857ء اچانک دہلی کے قلعے اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں، جس کا اثر چاروں طرف پھیل گیا۔ میں زلزلے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ اس دن جو بہت منحوس تھا، میرٹھ کی فوج کے کچھ بدنصیب اور شوریدہ سر سپاہی شہر میں آئے۔ نہایت ظالم و مفسد اور نمک حرامی کے سبب سے انگریزوں کے خون کے پیاسے۔ شہر کے مختلف دروازوں کے محافظ جو ان فسادیوں کے ہم پیشہ اور بھائی بند تھے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ پہلے ہی سے ان محافظوں اور فسادیوں میں سازش ہو گئی ہو، شہر کی حفاظت اور ذمے داری اور حق نمک ہر چیز کو بھول گئے۔ ان بن بلائے یا مدعو کردہ مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ان مدہوش سواروں اور اکھڑ پیادوں نے جب دیکھا کہ شہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور محافظ مہمان نواز ہیں، دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دوڑ پڑے۔ جدھر کسی افسر کو پایا اور جہاں ان قابل احترام (انگریزوں) کے مکانات دیکھے، جب تک ان افسروں کو مار نہیں ڈالا اور ان مکانات کو بالکل تباہ نہیں کر دیا، ادھر سے رخ نہیں پھیرا۔
کچھ مسکین، گوشہ نشین جن کو انگریزی حکومت کی مہربانی سے کچھ نان و نمک میسر تھا، شہر کے مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے دور زندگی کے دن گزار رہے تھے (ایسے مسکین و صلح پسند) جو تیر و تبر کے فرق سے ناواقف تھے اور اندھیری راتوں میں چوروں کے شور غل سے ڈر جاتے تھے، جن کے ہاتھ تیر و تلوار سے خالی تھے۔ سچ پوچھو تو ایسے لوگ ہر گلی کوچے اور شہر کے ہر حصے میں ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو لڑائی کے ارادے سے کمر کس کر تیار ہو سکیں۔ اس کے باوجود (کہ ایسے صلح پسند و خیر خواہ شہر کے ہر حصے اور ہر گلی کوچے میں تھے) اس وجہ سے کہ تیز بہنے والے پانی کو خس و خاشاک سے نہیں روکا جا سکتا، اپنے آپ کو مجبور سمجھ کر ہر شخص غمگین و ماتم زدہ اپنے گھر میں بیٹھ رہا۔
انہیں غم زدہ لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ شور و غوغا سنا چاہتا تھا کہ کچھ معلوم کروں کہ اتنے میں شور مچ گیا کہ اندرونِ قلعہ صاحب اجنٹ بہادر اور قلعہ دار قتل کر دیے گئے۔ ہر طرف سے پیادوں اور سواروں کے دوڑنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ زمین ہر طرف گل انداموں (انگریزوں) کے خون سے رنگین ہو گئی۔ باغ کا ہر گوشہ ویرانی اور بربادی کے سبب سے بہاروں کا مدفن بن گیا۔
افسوس وہ پیکر عالم و حکمت، انصاف سکھانے والے خوش اخلاق و نیک نام حاکم! اور صد افسوس وہ پری چہرہ نازک بدن خاتونیں جن کے چہرے چاند کی طرح چمکتے تھے اور جن کے بدن کچّی چاندی کی طرح دمکتے تھے۔ حیف وہ بچے جنھوں نے ابھی دنیا کو (اچھی طرح) دیکھا بھی نہیں تھا، جن کے ہنس مکھ چہرے گلاب و لالہ کے پھولوں کو شرماتے تھے اور جن کی خوش رفتاری کے سامنے ہرن اور کبک کی رفتار بدنما معلوم ہوتی تھی، یہ سب ایک دم قتل و خوں کے بھنور میں پھنس کر (بحر فنا میں) ڈوب گئے۔
(فنا کی) چنگاریاں برسانے والی وہ موت، شعلے جس کا سرمایہ ہیں، جس کے ہاتھوں لوگ غم زدہ رہتے ہیں اور ماتمی لباس پہننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اگر ان مقتولین کے سرہانے آہ و زاری کرے اور اس غم میں سیاہ پوش ہو جائے تو روا ہے۔ اگر آسمان (اس غم میں) غبار کی طرح منتشر ہو جائے اور زمین گرد باد کی طرح اپنی جگہ چھوڑ دئے تو بجا ہے۔
اے موسم بہار بسمل کی طرح خاک و خون میں مل جا
اے زمانے اندھیری رات کی طرح تاریک ہو جا
اے آفتاب (اس غم میں) اپنے رخساروں کو (پیٹ کر) نیلا کر لے
اور اے چاند (غمگین) زمانے کے دل کا داغ بن جا
خدا خدا کر کے وہ منحوس دن ختم ہوا، ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل گیا۔ ان سیاہ باطنوں اور بے رحم قاتلوں نے شہر میں جا بجا پڑاؤ ڈالا۔ اندرون قلعہ شاہی باغ کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا اور نشیمنِ سلطانی کو خواب گاہ۔ رفتہ رفتہ دور دور کے شہروں سے خبریں آئیں کہ مختلف فوجوں کے باغیوں نے ہر چھاونی میں افسروں کو قتل کر دیا ہے (اور نمک حراموں نے کھلم کھلا بغاوت کا شور مچا رکھا ہے) گروہ کے گروہ خواہ سپاہی ہوں یا زمیندار، سب یک دل ہو گئے اور کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر دور و نزدیک ہر جگہ ایک ہی کام کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور پھر کیسی مضبوطی سے کمریں کسی تھیں کہ صرف اس دریائے خوں کی موجیں ہی ان کو کھول سکتی تھیں جو کمروں سے گزر جائے۔ مختلف مقامات کے لوگ کسی قرار داد کے بغیر جس طرح ایک ہی کا یعنی قتل و خوں میں لگ گئے تھے اس سے) ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جس طرح جھاڑو کی بہت سی سینکوں کو ایک ہی بند سے باندھا جاتا ہے، اسی طرح گنتی شمار سے باہر ان لڑنے والوں کی کمریں بھی ایک ہی "کمر بند” سے بندھی ہوئی ہیں۔
بے شک ہندوستان کو آرام و آسایش سے اس حد تک خالی کرنے کے لیے کہ اگر ان چیزوں کو ڈھونڈا جائے تو ایک گھاس کے تنکے کے برابر بھی نشان نہ ملے، ایسی ہی جھاڑوں کی ضرورت تھی۔ بہت سے لشکر سرداروں کے بغیر تیار ہو گئے، بہت سی فوجیں افسروں کے بغیر لڑائ کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں تو پیں، گولہ بارود چھرے، غرض سارا سامان انگریزوں سے حاصل کیا، لڑائی کے سارے طریقے انگریزوں سے سیکھے اور انہیں سکھانے والوں اور مالکوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔
دل،لوہے یا پتھر کا ٹکڑا نہیں ہے، کیسے نہ بھر آئے؟ آنکھیں رخنۂ دیوار نہیں ہیں کہ آنسو نہ بہائیں۔ حکمرانوں کی موت کا غم منانا چاہیے اور ہندوستان کی ویرانی پر رونا چاہیے۔ شہر حاکموں سے خالی اور بندہ ہائے بے خداوند سے بھرا ہوا جیسے باغ باغبان سے خالی اور درختان بے ثمر سے پر ہو۔ لٹیرے ہر قسم کی پابندیوں سے اور سوداگر محصول ادا کرنے کی ذمے داریوں سے آزاد۔ گھر ویرانے معلوم ہوتے ہیں۔ اور مکانات (لوٹ مار کر نے والوں کے لیے) "خوان مفت” کا حکم رکھتے ہیں۔ جو لوگ گم نامی کے گوشوں میں چھپے ہوئے تھے، وہ گروہ در گروہ خنجر بہ کف اپنی آرایش اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں۔ امن پسند اور نیک نہاد لوگ گھر سے بازار تک آتے ہوئے راستے میں بیسیوں جگہ عاجزی اور مغلوبیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ لٹیرے دن میں دلیری کے ساتھ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور رات میں ریشمی بستروں پر محو خواب۔
بڑے بڑے عالی خاندان لوگوں کے گھروں میں چراغ جلانے کے لیے تیل نہیں۔ اندھیری رات میں جب پیاس کی شدت بڑھتی ہے، بجلی چمکنے کے منتظر رہتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ کوزہ کہاں رکھا ہوا ہے اور گلاس کدھر ہے۔
(زمانے کی) اس بے نیازی و بے امتیازی کو کیا کہوں کہ وہ کم رتبہ لوگ، جو سارا دن مٹی بیچنے کے لیے زمین کھود تے تھے، ان کو مٹی میں سونے کے ٹکڑے مل گئے اور جن لوگوں کی محفل میں رات میں آتش گل سے چراغ روشن رہتے تھے، اندھیرے گھروں میں ناکامی و نامرادی کے غم میں مبتلا ہیں۔
کوتوال شہر کی زن و دختر کے علاوہ ساری نازنینانِ شہر کا زیور بزدل اور سیاہ کار رہزنوں کے قبضے میں ہے (زیور و آرایش سے معّریٰ ہونے کے بعد) ان نازنینوں میں جو ہلکا سا اندازِ ناز باقی رہا تھا، اس کو ان نو دولت گدا زادوں نے چھین لیا کہ ان کی خود نمائی کے کام آئے جو محبت کرنے والے نازنینوں کے ناز اٹھاتے تھے، وہ اب ان بد نہاروں کے ناز اٹھانے پر مجبور ہیں۔ ان گھٹیا لوگوں کے دماغوں میں غرور اس حد تک سما گیا ہے کہ اگر ان کی حرکات کو دیکھو تو معلوم ہو گا کہ کچھ بگولے چکر کھاتے پھر رہے ہیں اور چھچھورے ہر وقت اس طرح نازِ خود نمائ میں محو رہتے ہیں، گویا پانی کی سطح پر کچھ تنکے بہتے چلے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے عالموں اور نام وروں کی آبرو مٹی میں ملا دی گئی اور جن لوگوں کے پاس نہ دولت تھی نہ عزت، وہ بے اندازہ زر و جواہر اور عزت و آبرو کے مالک ہیں، جس کا باپ گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا، وہ ہوا کو اپنا خادم سمجھ رہا ہے۔ جس کی ماں پڑوسی کے گھر سے آگ مانگ کرلاتی تھی وہ آگ پر حکم چلانے کا مدعی ہے۔ کمین آگ اور ہوا پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان پریشان حال لوگوں میں سے ہیں، جو صرف سکون و آسایش کے چند لمحوں اور انصاف کے خواہش مند ہیں۔
میرا درد بھرا دل تمہارے نزدیک ایک قصہ ہے اور بس، لیکن اس کو سن کر ستاروں کی آنکھوں سے اشک خون جاری ہو جائیں گے۔
ڈاک کا انتظام درہم برہم ہو گیا، جس کے سبب سے بہت سے کام رک گئے ہرکاروں نے آنا جانا اور ڈاک لے جانا بند کر دیا۔ ڈاک میں پیام بجنسہٖ پہنچانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہاں خطوط کی آمد و رفت کا قاعدہ ہے، مگر اس محکمے کی ایک اور شاخ (ٹیلی گراف) ہے کہ مضراب کی جنبش، بلکہ جنبش کی مضراب سے جو اس سے پیدا ہوتی ہے ہزاروں پیام (خبریں) اندر سے باہر نکلتے ہیں (پہنچتے ہیں)۔
(جو لوگ) مذہب اور قانون کے بے حد پابند ہیں، انصاف کو نظر انداز نہ کریں اور بتائیں کہ اس سارے انتظام کا درہم برہم ہو جانا، خدا کی بخشی ہوئی دولت کا لٹ جانا، ڈاک کا نظام درہم برہم ہو جانا اور دوستوں کے حالات معلوم نہ ہونا، کیا یہ ساری باتیں اس لائق نہیں کہ ان کا ماتم کیا جائے اور آنسو بہائے جائیں۔ بڑے بڑے بہادروں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ اپنے سایے سے ڈریں، سپاہی بادشاہ اور درویش ہر ایک پر حکومت کرنے لگیں، کیا یہ صورت حال لائق افسوس نہیں؟ ان روح فرسا مصائب پر آنکھیں آنسو نہیں بہائیں گی؟ اور کیا اس نوحہ گری پر لعن طعن کرنا، اس ماتم سرائی پر طنز کرنا اور اس گریہ و زاری پر ہنسنا جائز ہے؟ اور کیا ان پر آلام حالات سے اظہارِ بے زاری کو ضعف ایمان اور نا درستیِ مذہب سمجھا جائے گا؟۔
میں شعر و سخن کے جواہر سے کیا دل لگاؤں جب کہ آہِ گرم سے میرے دل پر ہزاروں آبلے پڑ گئے ہیں۔ میرا دل بجھ چکا ہے اور قویٰ اس حد تک جواب دے چکے ہیں کہ اب مجھ کو نہ سزا کا غم ہے نہ جزا کی خوشی۔
ooooooooooooo
اس سرگزشت پر مصیبت کا مارا ہوا یہ اسیر قید بستر (تنہائی) اس رودادِ غم کو پھر شروع کرتا ہے۔ جب پہلی بار وہ گم راہ جنگ جو آئے تو جو خزانہ وہ اپنے ساتھ لائے تھے، خزانے میں جمع کر دیا اور اپنے سر شاہی آستانے پر جھکا دیے۔ جلد ہی زمانے نے کچھ ایسا انتظام کیا کہ ہر طرف سے فوجیں جمع ہونا شروع ہو گئیں اور اس سر زمین (دہلی) کی طرف روانہ ہو گئیں۔ بادشاہ جب فوج کا انتظام نہ کر سکا، فوج نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بادشاہ مجبور ہو کر رہ گیا۔
"فوج نے بادشاہ کو اپنے حلقے میں لے لیا، جیسے چاند کو گہن لگ جائے۔ ماہ نو گہن میں نہیں آتا۔ گہن تو چودھویں رات کے چاند کو لگتا ہے۔ بادشاہ اس چاند کی طرح تھا جس کو گہن لگ گیا ہو، وہ ماہِ کامل نہیں تھا”۔
میں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا، حالاں کہ یہ بات بیان کرنے کے لائق تھی کہ یہ شہرت طلب جنگ جو جس مقام سے چلے، وہاں کے قید خانے کا دروازہ کھول دیا اور قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ وہ پرانے پرانے قیدی جنھوں نے نئی نئی آزادی پائی تھی، شاہی دربار میں آئے، سجدہ کیا اور کسی علاقے کی صوبے داری چاہی۔ آقاؤں سے بھاگے ہوئے غیر وفادار غلاموں نے آستانِ شاہی کو بوسہ دیا اور کسی سرسبز علاقے کی حکومت کے طلب گار ہوئے۔ کوئی نہیں کہتا ہے اور میں بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہر خواہش مند کو حاضر ہونے کی اجازت اور ہر پناہ مانگنے والے کو پناہ کیوں دے دی جاتی ہے؟ بس یہ زمانے کی بوالعجبی ہے۔
اب دہلی کے اندر اور باہر تقریباً پچاس ہزار سواروں اور پیادوں کی فوج پڑی ہوئی ہے۔ صاحبانِ علم و دانش انگریزی حکام کے قبضے میں اس وسیع شہر کا کوئی علاقہ نہیں ہے، صرف شہر کے جانب مغرب ایک پہاڑی پر ان کا قبضہ ہے۔ یہ پہاڑی شہر سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ (انگریزوں نے) نہایت ہنر مندی سے اس جگہ پر مورچہ قائم کر کے ایک مضبوط قلعہ سا بنا لیا ہے اور اس کے چاروں طرف کئی اژدہا صفت، رعد خروش توپیں لگا دی ہیں اور استقلال کی مدد سے اس عالم پریشانی میں اطمینان (کی دولت) حاصل کر لی ہے۔
شہر کی فوج نے جو میگزین اسی شہر سے حاصل کیا تھا، اس میں سے چند توپیں شہر کی فصیل پر جمادی ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو جنگجو سرداروں کا حریف فرض کر لیا ہے۔ توپوں اور بندوقوں کے دھوئیں سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے اور اس سے اولے برس رہے ہیں۔ رات دن دونوں طرف سے گولہ باری ہوتی ہے، جیسے اوپر سے پتھر برس رہے ہوں۔ مئی، جون کی گرمیاں ہیں۔
دھوپ کی تیزی روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آفتاب برج ثور و جوزا میں بے طرح آتش افروزی میں مشغول ہے۔ معلوم ہوتا ہے خود بھی اسی آگ میں بھنا جا رہا ہے۔ جو لوگ سرد و ہوا دار مکانوں میں آرام و آسایش کے ساتھ رہتے تھے، دن بھر دھوپ میں جلتے ہیں اور راتیں انہیں جلتے ہوئے پتھروں پر پیچ و تاب کے عالم میں بسر کرتے ہیں۔ اسفندیار اس میدان جنگ میں ہوتا تو روئیں تنی کے با وصف اس کی ہمت و جواں مردی ہوا ہو جاتی۔ اگر رستم اس داستان کو سن لیتا تو جی چھوڑ دیتا۔ (شہر کی فوج کے) مختلف مقامات سے آئے ہوئے سپاہی دن چڑھے شیر دل انگریزوں سے لڑنے کے لیے جاتے ہیں اور سورج ڈوبنے سے پہلے ہی واپس آ جاتے ہیں۔ بیرون شہر کی داستان شب و روز تو یہ تھی، اندرون شہر (کیا ہو رہا تھا اس سلسلے میں) ایک دن کا قصہ سننے کے لائق ہے۔
میرے ساز کے تاروں میں وہ نغمے پنہاں ہیں جن سے چنگاریاں برستی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ مغنی ان کی زد میں نہ آ جائے۔ میری زبان پر وہ داستان ہے، جس سے میرے دل پر خنجر چلنے لگتے ہیں۔
ایک شخص جس کے دماغ میں بے جا پندار اور تکبر کے خیالات بھرے ہوئے تھے در پردہ اپنے آقا اور مربی کا دشمن بن گیا۔ اس خیال سے کہ اگر یہ واقف کار اور راز داں زندہ رہے گا تو میں نے جو خزانہ (ناجائز طریقوں سے) جمع کیا ہے۔ اس کا راز کھل جائے گا، ہمیشہ نقصان پہنچا نے کی تدبیریں سوچتا تھا اور یہ بات مشہور[4] کر کے کہ حکیم احسن اللہ خان انگریزوں کے خیر خواہ اور طرف دار ہیں، فوج کے افسروں کو ان کی طرف سے بھڑکا تا رہتا تھا۔
ایک دن کچھ لوگ (حکیم احسن اللہ خان کو) قتل کرنے کے لیے ان کے محل پر چڑھ دوڑے۔ حکیم صاحب اس وقت قلعے میں بادشاہ کے پاس تھے۔ چند آشفتہ سر قلعے میں گئے اور حکیم صاحب کو گھیر لیا۔ بادشاہ نے انتہائی محبت و بندہ پروری سے (حکیم صاحب کو بچانے کے لیے) اپنے آپ کو ان پر گرا دیا، اس طرح حکیم صاحب بچے۔[5]
جان تو بچ گئی، لیکن یہ فتنہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا، جب تک کہ ان کا سارا گھر تباہ نہیں ہو گیا (حکیم صاحب کا) گھر جو خوبصورتی و آرایش میں نگار خانۂ چین کی طرح تھا، لوٹ لیا گیا۔ ایوان کی چھت کو آگ لگا دی گئی۔چھت کے شہتیر اور منقش تختے جل کر راکھ ہو گئے، دیواریں سیاہ پڑ گئیں [6]، گویا وہ محل اس غم میں سیاہ پوش ہو گیا تھا۔
آسمان کی مہربانی سے دھوکا نہ کھانا، یہ بے وفا جس شخص کو آغوشِ محبت میں جگہ دیتا ہے، اس کو کشمکش و عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ برے سے برا غلام اپنے آقا سے اس طرح پیش نہیں آ سکتا بشرطیکہ وہ ولد الحیض نہ ہو۔ یہ خبیث، نمک حرام جس کے منہ پر چیچک کے داغ ہیں، بے حیائی کے سبب جس کی آنکھیں پھیل گئی ہیں اور دہانہ فراخ ہو گیا ہے، اپنے آپ کو زہرہ و مشتری کی طرح سمجھتا ہے۔ ہر طرف کولھے مٹکاتا ہوا، انداز دکھاتا ہوا گزرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوش خرامی میں کبک و تدور کو شرماتا ہے۔ میں نے اس کا نام اس لیے نہیں لکھا کہ وہ ایک گدا زادۂ گم نام ہے۔ میں اس پر لعنت بھیج کر جو داستان کہہ رہا تھا اس کو پھر شروع کرتا ہوں۔
فوجیں ہر طرف سے آ آ کر جمع ہو رہی تھیں۔ بادشاہ کا نام لگا ہوا تھا، اس وجہ سے دور دور کے سردار ان فوج اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ فرخ آباد کے نامور (سردار) تفضل حسین خان نے جن کو کبھی بادشاہ سے علاقۂ نیاز مندی نہیں تھا، دور ہی سے آستانِ شاہی کو سجدہ کیا اور خط میں اپنے آپ کو نیاز مندِ قدیم لکھا۔
خان بہادر خان نے جو گمراہ، شہرت طلب تھا اور بریلی میں کچھ لشکر جمع کر کے سردار بن بیٹھا تھا، ایک سو ایک اشرفیاں نقرئی ساز و سامان سے آراستہ ہاتھی اور گھوڑا بارگاہِ شاہی میں بھیجا۔
چشم بد دور خورشید نشان نواب یوسف علی خان بہادر فرمان روائے رام پور نے جو اس علاقے میں باپ دادا کی جانشینی (کا حق ادا کر رہے) ہیں اور انگریزی حکومت کے ساتھ ان کا رشتۂ دوستی اتنا مضبوط ہے کہ زمانہ ہزار برس میں بھی کسی طریقے سے اس کو نہیں توڑ سکتا، مجبوراً صرف زبانی پیام بھیج کر لوگوں کی زبان کو بند کیا۔
لکھنو میں جب فوج نے (انگریزوں) سے رشتہ تعلق توڑ لیا، (بیش تر) انگریز (دشمنی کی) اس آگ سے بچ کر دوسرے مقامات پر اپنے متعلقین کے پاس چلے گئے، لیکن (فوج کے) چند سرداروں نے کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر بیلی گارد میں قیام کیا، جو لکھنو کا ایک مشہور مقام ہے اور بہادری کے ساتھ دروازے بند کر لیے۔
شرف الدولہ نے جو بڑے واقف کار اور معاملات کو سمجھنے والے تھے اور جو نوابانِ اودھ کے زمانے میں وزارت کے عہدے پر سرفراز تھے، اس کم تعداد لیکن با شان و شوکت گروہ (انگریز) کو نظرانداز کر کے واجد علی شاہ کے دس سالہ لڑکے کو تخت حکومت پر بٹھا دیا اور اس کو شہنشاہِ ہندوستان کا وزیر اور اپنے آپ کو پیش کار اور نائب وزیر فرض کر لیا۔ اس نامور شخص (شرف الدولہ) نے گویا ہما کو گرفتارِ دام کر لیا تھا۔ جب یہ سارا کام مکمل کر لیا، ایک منتخب شخص کو مناسب پیشکش کے ساتھ (دہلی) روانہ کر دیا۔ قاصد آیا، دو روز آرام کیا، پھر بارگاہِ شاہی میں حاضر ہوا۔ دو صبا رفتار گھوڑے، دو کوہ صفت ہاتھی، ایک سو اکیس اشرفیاں اور ایک سنہری کلاہ جو رنگ برنگ کے نایاب موتیوں سے مزین تھی، پیش کی اور ایک جوڑ بازو بند جس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے، ملکہ کی خدمت میں محل میں بھیجا۔
یہ ساری شان و شوکت روشنی چراغ کی طرح (جلد ختم ہونے والی) تھی، گویا زمانے کی نظرِ بد اسی رونق کی منتظر تھی۔ حکومت اودھ کی اس پیش کش کے بعد آئینہ و سکندر اور جام و جمشید کی ساری داستان ختم ہو گئی۔ (باغی) فوج کے شور و غل سے نصیب کی آنکھیں کھلی ہی تھیں کہ پھر مند گئیں۔ نہیں نہیں شہنشاہ کی قسمت کا ستارہ اتنی بلندی پر پہنچ گیا کہ دنیا والوں کی نگاہوں سے پنہاں ہو گیا۔
جب قسمت کا ستارہ گردش میں آ جاتا ہے تو تاج کی بھی کوئی قیمت نہیں رہتی، تم نہیں دیکھتے کہ تغیر کے خوف سے سورج آسمان پر کیسا کانپتا رہتا ہے۔[7]
جس دن وہ سبز قدم قاصد آیا اور بادشاہ نے بندہ پروری فرمائی اس کے کل کو پیر کے دن قمری مہینے کو چوبیس اور ستمبر کی چودہ تاریخ کو پہاڑی کے دامن میں بیٹھے ہوئے انگریزوں نے شان و شکوہ کے ساتھ کشمیری دروازے پر ایسا حملہ کیا کہ کالوں کی فوج کو بھاگتے ہی بنی۔
مئی کے مہینے میں اگر انصاف دہلی سے اٹھ گیا تھا تو ستمبر میں ظلم و ستم کا دور ختم ہو گیا اور انصاف کا زمانہ واپس آگیا۔ چار مہینے چار دن کے بعد سورج آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا۔ دہلی دیوانوں سے خالی ہو گئی۔ عقل مند (انگریزوں) نے بہادری کے ساتھ اس پر قبضہ کر لیا۔
اگر چہ 11مئی سے 14 ستمبر تک 4مہینے 4 دن کا وقفہ ہے، لیکن اس بنا پر کہ پیر کے دن شہر (انگریزوں) کے ہاتھ سے نکلا تھا اور پیر کے دن ہی قبضے میں آیا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہر کا ہاتھ سے نکل جانا اور پھر قبضے میں آ جانا یہ دونوں کام ایک ہی دن میں ہوئے۔[8]
مختصر یہ کہ فاتحین نے راستے میں جس شخص کو پایا قتل کر دیا۔ شہر کے عالی خاندان اور صاحب عزت افراد عزت اور آبرو کو بچانے کے لیے گھروں کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہے۔
شہر میں بد باطن (باغیوں) کی جو فوج تھی، اس میں سے کچھ لوگوں نے بھاگ جانے کی ٹھان لی، اور کچھ لوگوں نے غرور میں آ کر لڑنے کی تیاری کی۔ خبیث آور آوارہ لوگوں کا یہ گروہ شیر دل فاتحین سے الجھ پڑا۔ یہ لوگ اپنے خیال میں تو دشمنوں کو قتل کر رہے تھے، لیکن میرے خیال میں وہ شہر کی عزت و آبرو کو برباد کر رہے تھے۔
دو تین دن تک کشمیری دروازے سے لے کر چوک تک تمام راستے میدانِ جنگ بنے رہے۔ دہلی دروازہ، ترکمان دروازہ، اجمیری دروازہ یہ تینوں دروازے اس فوج کے قبضے میں رہ گئے۔ مجھ مردہ دل کا غم کدہ (مکان) وسط شہر میں کشمیری دروازے اور دہلی دروازے کے درمیان ہے اور میرے مکان سے ان دونوں دروازوں کا فاصلہ برابر ہے۔ اگر چہ گلی کا دروازہ بند کر لیا گیا تھا،لیکن ابھی اتنا حوصلہ باقی تھا کہ دروازہ کھول کر باہر چلے جاتے تھے اور کھانے پینے کا سامان لے آتے تھے۔
میں نے ابھی کہا کہ غضب ناک شیروں (انگریزوں) نے شہر میں داخل ہوتے ہی کچھ بے سر و سامان لوگوں کو قتل کرنا اور چند مکانوں کو جلانا جائز سمجھا۔ ہاں جس مقام کو لڑ کر فتح کرتے ہیں، لوگوں پر ایسی ہی سختیاں کی جاتی ہیں۔
اس غصے اور دشمنی کو دیکھ کر لوگوں کے منہ فق ہو گئے۔ بے شمار مرد عورتوں کے گروہ جن میں معمولی لوگ بھی تھے اور صاحبِ حیثیت بھی، ان تینوں دروازوں سے باہر نکل گئے۔ شہر کے باہر جو چھوٹی چھوٹی بستیاں اور مقبرے تھے، ان میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اس خیال سے کہ کسی مناسب وقت پر شہر میں واپس آ جائیں گے یا کسی دوسرے شہر میں چلے جائیں گے۔
میرے دل پر نہ خوف و دہشت کا اثر ہو اور نہ پاے استقلال کو جنبش ہوئی[9]۔ میں نے کہا کہ میں گنہ گار تو ہوں نہیں کہ سزا پاؤں۔ انگریز بے گناہوں کو قتل نہیں کرتے ہیں اور شہر کی آب و ہوا ناساز گار نہیں ہے۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ ان بد خیالوں کو دل میں جگہ دوں اور ادھر ادھر بھاگتا پھروں۔
(اب) مکان کے ایک گوشے میں بے سرو سامانی کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں (اس تنہائی میں) قلم میرا رفیق ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور قلم سے دردناک الفاظ ٹپکتے ہیں۔
میں بالکل مفلس اور بے سرو سامان ہوں خداوند کب تک یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہوں گا کہ یہ جواہر (کلام) میری ہی کان کے ہیں۔
ازل کا لکھا ہوا بدل نہیں سکتا۔ ازل میں قسمتیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہر ایک کو نوشتہ قسمت کے مطابق سر و ساماں عطا کیا گیا ہے۔ مصیبتیں اور راحتیں اسی حکمِ ازل کا نتیجہ ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ بے دلی و بے جگری کو چھوڑ کر جس طرح بچے ہر تماشے کو خوشی کے ساتھ دیکھتے ہیں، ہر لمحہ بدلنے والے زمانے کی حیرت فزا نیرنگیوں کو اس بڑھاپے میں خوشی کے ساتھ دیکھتا رہوں۔
جمعے کے دن محرم کی 26 تاریخ تھی اور ستمبر کے 18دن چڑھے دنیا کو خوشی بخشنے والا آفتاب عالم تاب برج سنبلہ کے ایک درجے میں پہنچ کر کسوف میں آ گیا اور اہل عالم کی چشم جہاں بیں پر تاریکی نے ظلم ڈھایا۔ گمراہ باغی اندرون و بیرون شہر سے خنزیروں کی طرح بھاگنے لگے اور فاتحین نے شہر اور قلعے پر قبضہ کر لیا۔ کشت و خون اور پکڑ دھکڑ (آفت) اس گلی تک آ گئی خوف سے لوگوں کے دل دہل گئے۔
اس گلی میں صرف دس بارہ گھر ہیں اور راستہ ایک ہی طرف سے ہے (گلی اندر سے بند ہے) گلی میں کوئی کنواں نہیں ہے (اس گلی کے) زیادہ تر رہنے والے چلے گئے ہیں۔ اس طرح کہ عورتیں بچوں کو چھاتی سے لگائے ہوئے تھیں اور مردوں کے کاندھوں پر سامان کی گٹھریاں تھیں۔ کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے۔ ہم سب نے مل کر گلی کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور پتھر چن دیے۔ گلی سر بستہ تو تھی ہی، در بستہ بھی ہو گئی ایک راستہ تھا وہ بھی بند ہو گیا۔
میری روح جسم سے زیادہ خستہ و درماندہ ہو تو تعجب کی بات نہیں کیوں کہ میرا دل قید خانے کے گوشے سے بھی زیادہ تنگ ہے۔
اتفاقا اس مصیبت میں کام بننے کی ایک صورت پیدا ہو گئی۔ فلک مرتبہ مریخ حشم راجہ نرندر سنگھ بہادر فرماں روائے پٹیالہ اس جنگ میں انگریز فاتحین کے ساتھ ہیں اور ان کی فوج شروع سے انگریزی لشکر کی مدد گار ہے۔ راجہ کے چند ملازمینِ خاص جو ان کی سرکار میں اونچے عہدوں پر ہیں اور شہر کے نامور اور قابل عزت لوگوں میں سے ہیں میری مراد ہے حکیم محمود خان، حکیم مرتضی خان، حکیم غلام اللہ خان سے جو حکیم شریف خان جنت مکان کی اولاد میں ہیں، اس کوچے میں رہتے ہیں، دور تک ان کی دو رویہ عمارتیں چلی گئی ہیں۔
میں دس سال سے ان میں سے ایک صاحب جاہ و ثروت کا پڑوسی ہوں۔ ان تین حضرات میں سے اول الذکر (حکیم محمود خان) متعلقین اور اہل خانہ کے ساتھ اپنے بزرگوں کی طرح با عزت زندگی بسر کرتے ہیں اور باقی دونوں حضرات پٹیالہ میں راجہ کی مصاحبت میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ رہتے ہیں۔ چونکہ دہلی کی فتح متوقع تھی، راجہ نے از راہِ بندہ پروری طاقتور اور جنگجو (انگریزوں) سے طے کر لیا تھا کہ جب (شہر) فتح ہو گا، اس گلی کے دروازے پر محافظ مقرر کر دیے جائیں گے تاکہ انگریز فوجی جن کو گورا کہتے ہیں، گھروں کو نقصان نہ پہنچائیں۔[10]
اثنائے کلام میں کبھی کبھی مجبوراً چند دوسری باتوں کا تذکرہ بھی آ جاتا ہے۔ ان ضمنی باتوں کے بعد میں پھر اصل موضوع پر آتا ہوں۔ سارے شہر میں 15ستمبر سے ہر گھر کا دروازہ بند ہے۔ دکان دار اور خریدار دونوں غائب ہیں۔ نہ گندم فروش ہے کہ گیہوں خریدیں، نہ دھوبی ہے کہ کپڑے دھلنے کو دیں۔ حجام کو کہاں ڈھونڈیں کہ سر کے بال تراشے اور مہتر کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں کہ صفائی کرے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ان پانچ مہینوں میں گلی کے لوگ باہر نکل کر پانی تو برابر لے آتے تھے، کبھی آٹا وغیرہ بھی مل جاتا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ صورت حال ختم ہو گئی۔ گلی کا دروازہ پتھروں سے بند کر لیا گیا اور دلوں کے آئینے پر غم و الم کا غبار چھا گیا۔
کوششوں کے سارے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے۔ اب مصیبتیں خون کو آگ کی طرح جلا رہی ہیں۔
گھروں میں کھانے کا جس قدر سامان تھا رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔ پانی اگر چہ بے حد احتیاط سے پیا گیا، لیکن آخر کار کوزے یا گھڑے میں ایک قطرہ نہیں رہا۔ عورتوں، مردوں میں سے کسی میں برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ صبر کے ساتھ دن گزار نے اور اپنے آپ کو سامان خورد و نوش حاصل کر لینے کا فریب دینے کا وقت بھی گزر گیا۔ دو شبانہ روز سب بھوکے پیاسے رہے۔
افسوس یہ گریہ و زاری اور ذلت و محتاجی اور صد حیف یہ بے چارگی اور پریشان حالی و بے سرو سامانی۔
تیسرے دن جیسا کہ اس سے قبل ذکر آ چکا ہے، مہاراجہ (پٹیالہ) کی فوج کے سپاہی آ گئے اور پہرہ دینے لگے۔ گلی کے رہنے والوں نے لوٹ مار کرنے والوں کے خوف سے نجات پائی۔ "ہر چہ باد آباد” کہتے ہوئے پہرے داروں سے باہر جانے کی اجازت چاہی۔ یہ پہرہ از راہِ دوستی تھا نہ کہ از راہِ دشمنی، اس لیے یہ کہا گیا کہ چوک کے بازار تک جا سکتے ہیں۔ چوک کے آگے قتل و خون کا بازار گرم ہے اور راستہ پر خطر ہے۔
مجبور و پریشان حال لوگوں نے دروازہ کھول دیا۔ بہشتی اور مشک کا ملنا نا ممکن تھا، اس لیے ہر گھر سے ایک مرد اور میرے ملازمین میں سے دو شخص گئے۔
میٹھا پانی دور تھا اور (اتنی) دور جا نہیں سکتے تھے، مجبوراً نیم شور پانی مٹکوں اور گھڑوں میں بھر لائے۔ اس طرح اس نمکین پانی سے وہ آگ بجھی جس کا دوسرا نام پیاس ہے۔
باہر جانے والے اور پانی لانے والے لوگ کہتے تھے کہ اس گلی میں جس سے آگے جانے کی ہم کو اجازت نہیں ہے، سپاہیوں نے کچھ مکانوں کے دروازے توڑ ڈالے (ان گھروں میں) نہ تو بورے میں آٹا ملا، نہ برتن میں روغن۔ میں نے کہا اچھا بندہ وہ ہے جو برتن، تھیلے آٹے اور تیل کا ذکر نہ کرے، ہماری روزی تو ایسے (روزی رساں) کے ذمے ہے جو ہم کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ خدا کی بخشش کا شکر نہ ادا کرنا شیطنت ہے۔
آج کل ہم لوگ اپنے آپ کو قیدی سمجھ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ بالکل قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ تو کوئی آتا ہے کہ کوئی سننے کو بات ملے، نہ خود باہر جا سکتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے سارے واقعات دیکھیں۔ یقیناً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے کان بہرے ہیں اور آنکھیں بے نور، اس کشمکش کے علاوہ نہ کھانے کو روٹی ہے نہ پینے کو پانی۔
ایک دن اچانک بادل آیا، پانی برسا۔ ہم نے (صحن میں) ایک چادر باندھ لی اور ایک مٹکا اس کے نیچے رکھ دیا اور (اس طرح) پانی حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بادل دریا سے پانی لیتا ہے اور زمین پر برساتا ہے (لیکن) اس بار یہ ہمہ صفت بادل پانی، چشمہ حیواں سے لایا۔ گویا سکندر نے جو چیز اپنی بادشاہت کے دور میں ڈھونڈی تھی، مجھ پریشاں حال نے وہ دولت (آب حیات) اس تباہی و بربادی کے عالم میں پالی۔
اے غالب دوست کی طرف سے کبھی کوتاہی نہیں ہوتی (البتہ) وہ اس طرح کام بنا تا ہے کہ ہم سمجھ نہیں پاتے ہیں۔
اس موقعے پر میں چاہتا ہوں کہ کچھ اپنی زندگی اور اشغال کے متعلق بھی لکھوں، اس طرح کہ یہ سر گزشت سلسلۂ کلام سے غیر متعلق نہ ہونے پائے۔
میں نئے داغوں سے زخم ہائے جگر پر مرہم رکھ رہا ہوں، اور میں نشتر کی مدد سے دل سے پیکان نکال رہا ہوں۔
اس سال میری زندگی کا باسٹھواں سال شروع ہوا (اتنی مدت سے) میں اس دنیا کی خاک چھان رہا ہوں اور پچاس برس سے شعر و شاعری میں مصروفِ جگر گدازی ہوں۔ میری عمر پانچ سال کی تھی کہ میرے والد عبداللہ بیگ خان بہادر کا انتقال ہو گیا۔ خدا ان کی روح پر بے شمار رحمتیں نازل کرے۔ میرے چچا نصر اللہ بیگ خان بہادر نے مجھ کو اپنا بیٹا بنا لیا اور لاڈ پیار سے پرورش کی۔ جب میری عمر نو سال کی ہوئی تو میرے چچا جو میرے سرپرست بھی تھے موت کی گہری نیند سو گئے (گویا) میری قسمت سو گئی۔
میرے یہ لائق تعریف و صاحب جاہ و حشمت بزرگ چار سو سواروں کے سردار اور جنرل لارڈ لیک بہادر کے وفادار متعلقین میں سے تھے اس فاتح اور سخی سردار کی مہربانی سے وہ آگرے کے قریب دو پرگنوں کے حاکم اور مالک تھے۔ ان کے انتقال کے بعد وہ دونوں پر گنے انگریزی حکومت نے واپس لے لیے۔ اس جاگیر کے بجائے میرا اور میرے حقیقی بھائی کا کچھ وظیفہ مقرر کر دیا گیا جو میری آرام و آسایش کا ذریعہ تھا۔ چنانچہ اس سال یعنی 1857ء میں اپریل تک کا وظیفہ کلکٹری دہلی کے خزانے سے میں نے حاصل کیا۔ مئی سے اس خزانے کا دروازہ بند ہی ہو گیا۔ (اب) میں بد نصیبی سے دو چار ہوں اور دل طرح طرح کے خیالاتِ پریشاں کا مسکن ہے۔
اس سے پہلے صرف بیوی تھی، نہ کوئی لڑکا تھا نہ لڑکی۔ تقریباً پانچ سال ہوئے کہ میں نے اپنی بیوی جو میری تباہی کی ذمے دار ہے کے خاندان کے دوبے ماں باپ کے بچوں کو لے کر پال لیا ہے[11] ۔ ان شیریں زبان بچوں سے مجھ کو بے انتہا محبت ہے۔ اس عالمِ بے چارگی میں (دونوں بچے) میرے ساتھ ہیں اور میرے دامن و گریباں کے پھول ہیں۔
بھائی جو دو سال مجھ سے چھوٹا ہے، تیس سال کی عمر میں دیوانہ ہو گیا۔ تیس برس سے وہ اس طرح زندگی گزار رہا ہے کہ نہ کسی کو ستاتا ہے نہ شور و غوغا کرتا ہے۔ اس کا مکان میرے گھر سے تقریباً دو ہزار قدم کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بیوی اور لڑکیوں نے بچوں اور کنیزوں کے ساتھ بھاگ جانے ہی میں عافیت سمجھی۔ گھر کے فاتر العقل مالک اور سارے سامان کو ایک بوڑھے دربان اور ایک بڑھیا کنیز کے ساتھ چھوڑ دیا۔
اگر میں جادو جانتا ہوتا تب بھی (ان حالات میں) میں کسی کو بھیج کر ان تینوں آدمیوں کو نہ بلوا سکتا تھا نہ سامان منگوا سکتا تھا۔ یہ بہت بڑا غم ہے اور میرے دل پر اس کا بہت اثر ہے۔
وہ دونوں ناز پروردہ بچے پھل، دودھ، مٹھائی مانگتے ہیں، لیکن ان کی خواہش پوری کرنا میرے بس میں نہیں۔ افسوس اس ایک بات کو کیا کہوں۔ جب تک زندہ ہوں روٹی اور پانی کی فکر رہے گی اور مرنے کے بعد کفن دفن کی۔ میں دن رات اس فکر میں رہتا ہوں کہ بھائی نے دن میں کیا کھایا (ہو گا) اور رات میں کیسے سویا ہو گا اور حالات سے نا واقفیت کا یہ عالم ہے کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا ہوں کہ بھائی زندہ بھی ہے یا مصیبتیں اٹھاتے اٹھاتے مرگیا ہے۔
میرے ہونٹوں پر صرف آہ و فغاں نہیں ہے، خدا کی قسم اس غم سے میں جاں بہ لب ہوں۔
جو حالات میں نے بیان کیے یہ دل دکھانے والے ہیں، لیکن جو کچھ میں کہہ نہیں سکا ہوں وہ بھی روح فرسا ہے۔ جو لوگ حالات سے واقف ہیں، میں ان سے توقع کرتا ہوں کہ وہ میری پر دردداستان کو غور سے سنیں گے اور سن کر انصاف کریں گے۔
میں اس بڑھاپے میں چراغِ صبح اور آفتابِ لب بام کی مانند ہوں۔ میرا مطلب چراغ کی روشنی اور سورج کی نور افشانی سے نہیں ہے، بلکہ جس طرح صبح کے وقت چراغ کا روغن ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے اور اس کی روشنی ہلکی ہو جاتی ہے اور دن ڈھلے سورج کی چمک دمک ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے، وہی میرا حال ہے۔ دو سال ہوئے کہ میں نے ملکہ انصاف پسند، فلک رفعت، ستارہ حشم ملکہ وکٹوریہ کی مدح میں قصیدہ لکھا اور ڈاک سے جو دہلی سے بہ راہ راست بمبئ اور وہاں سے لندن جاتی ہے، آقائے ہنر پرورد حاکم نامور لارڈ الن برا بہادر کے حضور میں بھیجا، جو گورنری کے زمانے میں از راہِ کرم میرے مربی تھے۔
راہ سخن کشودم اگر خود نہ شد کہ بخت
راہم بہ بزم بانوے گیتی ستاں دہد
یہ شعر اسی قصیدے کا ہے، وہ قصیدہ اسی ردیف قافیے میں ہے۔ کسے خیال تھا کہ ایسا مشکل کام اس آسانی سے بن جائے گا۔ تین مہینے کے بعد اچانک ایک مبارک قدم قاصد اس سر و بوستان سروری (لارڈ الن برا) کا نوازش نامہ لایا۔ یہ خط انگریزی میں تھا۔ نہایت محبت کے ساتھ لکھا تھا کہ قصیدہ ہمارے پاس پہنچ گیا اور ہم نے اس کو ملکہ معظمہ کے سامنے پیش کرنے کے لیے متعلقینِ بارگاہ شاہی کے سپرد کر دیا۔ اس پر مسرت پیغام اور مبارک جواب کو تیس دن نہیں گزرے تھے کہ سردار مہربان مسٹر رزنگٹن بہادر کا گرامی نامہ ڈاک سے آیا، لکھا تھا کہ جو قصیدہ لارڈ الن برا بہادر کے واسطے سے ہمارے پاس پہنچا تھا، اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ سائل ضابطے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی گزارشات فرماں روائے ہندوستان کے وسیلے سے ہماری بارگاہ میں پیش کرے۔
حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک معروضہ شہنشاہِ انگلینڈ کے نام (لکھ کر) سکندر جاہ، فریدوں حشم لارڈ کیننگ نواب گورنر جنرل بہادر کے حضور میں بھیجا۔ اس گزارش نامے میں التماس و آرزو کو اس طرح پیش کیا گیا کہ روم، ایران اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں نے شاعروں اور مداحوں کو طرح طرح سے نوازا ہے۔ موتیوں سے منہ بھر دینا، سونے میں تلوانا، گاؤں عطا کرنا، اور انعام دینا، غرض مختلف انداز رہے ہیں۔ اس مداح کی یہ خواہش ہے کہ ملکہ معظمہ اپنی زبان مبارک سے مہر خواں خطاب ارشاد فرمائیں۔ اپنے حکم سے سراپا خلعت بخشیں اور اپنے خوان سے چند نان ریزہ روٹی کے ٹکڑے عنایت فرمائیں۔ مہر خواں اور سراپا کا ترجمہ عربی میں خطاب اور خلعت ہو سکتا ہے اور نان ریزہ کو انگریزی میں پنشن کہہ سکتے ہیں۔
حاکم بلند مرتبہ نواب گورنر جنرل بہادر نے جواب میں میرے دل غم زدہ کو بشارت مداوا سے شاد فرمایا(موصوف) نے لکھا کہ (وہ) ستایش نامہ انگلستان روانہ کر دیا گیا۔اس خبر مسرت اثر سے میں ایسا مسرور ہوا کہ جامے میں پھولا نہیں سماتا تھا۔
چار ماہ کے بعد میرے خط کے جواب میں فرخ شمائل، عالی نسب مسٹر رسل کلرک بہادر کے خامہ مشک بار کا لکھا ہوا مودّت نامہ (موصول ہوا) اس جواب نے امیدواری اور آرزو مندی کی مد کو اور بڑھا دیا۔
میں جانتا ہوں کہ اگر ہندوستان کا نظم و نسق (غدر میں) تباہ نہ ہوتا اور ناخدا ترس اور ناشکرے سپاہیوں کے ہاتھوں عدالتیں نہ اجڑ جاتیں تو گلستانِ انگلستان سے ایسا فرمان صادر ہوتا جس سے مرادیں پوری ہو جاتیں اور میری آنکھیں اور میرا دل دونوں ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے۔[12]
اب وہ مبارک خطوط جو میری پر جوش آرزوؤں کی فہرست ہیں اور میرے ہوش و خرد کے بازو کا تعویذ میرے پاس ہیں اور جگر کے چند ٹکڑے جو جوشِ گریہ میں آنکھوں سے ٹپکے ہیں، جگر خراشی و خون فشانی کے نام کے طور پر میرے دامن میں ہیں۔
"میں تیر یا تلوار کا زخمی نہیں ہوں۔ نہ پلنگ و شیر نے مجھے مجروح کیا ہے۔ میں (شدت غم سے) اپنے ہونٹ کاٹتا ہوں اور زبان کو خون آلود کر لیتا ہوں، خون جگر کھاتا ہوں اور زندگی سے بیزار ہوں”۔[13]
ستمبر اکیسویں تاریخ کو بدھ کے روز شہر کی فتح اور گلی کا دروازہ بند کرنے کے سترہویں دن لوگ خبر لائے کہ لوٹ مار کرنے والے، بھائی (مرزا یوسف) کے گھر پر چڑھ دوڑے۔ گلی اور گھر میں لوٹ مارکی۔ دیوانے مرزا یوسف خاں اور دونوں بڑھیا بڈھوں کو زندہ چھوڑ دیا۔ اس بھاگڑ میں دو ہندو کہیں سے آ کر (گھر) میں پناہ گزیں ہو گئے۔ بوڑھے دربان اور بڑھیا کنیز (ماما) دونوں نے ان ہندوؤں کی مدد سے کھانے پینے کا انتظام کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
واضح ہو کہ اس پکڑ دھکڑ اور قیامت کے عالم میں جس طرح ہر کوچے اور بازار میں اس مصیبت کی صورت یکساں نہیں ہے، اسی طرح قتل کرنے اور لوٹ مار میں بھی سب سپاہیوں کا انداز ایک نہیں ہے۔ اگر کوئی (سپاہی) رحم کرتا ہے یا دوسرا سختی کرتا ہے تو یہ ذاتی رحم دلی، اور سنگ دلی کا نتیجہ ہے۔
میں جانتا ہوں کہ اس یلغار میں حکم یہ ہے کہ جو شخص اظہارِ اطاعت کرے اس کو قتل نہ کیا جائے، مال چھین لیا جائے اور جو شخص مقابلہ کرے، مال کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی بھی چھین لی جائے۔ مقتولین کے متعلق یہ خیال ہے کہ انہوں نے یقیناً اطاعت نہیں کی۔ اسی وجہ سے ان کو قتل کر دیا گیا۔ مشہور بھی یہی ہے کہ عموماً سامان لوٹ لیتے ہیں قتل نہیں کرتے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے اور وہ بھی صرف دو تین کوچوں میں کہ پہلے قتل کر دیا پھر سامان لوٹ لیا (البتہ) بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا قتل روا نہیں رکھا ہے۔
اس مقام پر پہنچ کر تو سن خامہ رک گیا۔ اب میں ایک پر زور آواز بلند کروں کہ سمند قلم قدم آگے بڑھائے۔ اے انصاف کی تعریف کرنے والے اور ظلم کو برا کہنے والے حق پرستو! اگر ظلم کی مذمت اور انصاف کی تعریف میں تمہاری زبان اور تمہارا دل ایک ہے تو خدا کے واسطے ہندوستانیوں کا طرز عمل یاد کرو۔ اس کے بغیر کہ پہلے سے دشمنی کی کوئی بنیاد اور عداوت کا کوئی سبب ہو (ان ہندوستانیوں نے) اپنے آقاؤں کے مقابلے میں تلوار اٹھائی۔
بے چاری عورتوں اور گہوارے میں کھیلتے ہوئے بچوں کو قتل کیا (حالانکہ) سب جانتے ہیں کہ اپنے آقا سے بے وفائی کرنا گناہ ہے (اس کے مقابلے میں) ان انگریزوں کو دیکھو کہ جب دشمنی (کا بدلہ لینے) کے لیے لڑنے اٹھے اور گناہ گاروں کو سزا دینے کے لیے لشکر آراستہ کیا، چونکہ (وہ) شہر والوں سے بھی برہم تھے تو موقع تو اس کا تھا کہ (شہر پر) قابض ہونے کے بعد کتے بلی (تک کو) زندہ نہ چھوڑ تے۔ (لیکن انہوں نے) ضبط کیا۔ اگر چہ ان کے سینے میں غصے کی آگ بھڑک رہی تھی۔ عورتوں اور بچوں کو ذرا نہیں ستایا۔ یہ جو گھر بار اور جان مال محفوظ رہنے کی ذمے داری نہیں لی گئی ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بے گناہوں اور گناہ گاروں میں امتیاز رہے۔ جن لوگوں کو باز پرس کے لیے بلایا گیا ہے، ان کے سوا اور کسی کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔
شہر کے بیش تر لوگوں کو باہر نکال دیا ہے۔ کچھ لوگ بہ دستور امید و بیم میں گرفتار (شہر کے اندر) موجود ہیں۔ جو لوگ (شہر سے نکل کر) ویرانوں اور گوشوں میں مقیم ہوئے ہیں، ان کے بارے میں ابھی کوئی حکم صادر نہیں ہوا۔ جو لوگ (شہر سے) باہر نکل گئے ہیں یا جو شہر کے اندر مبتلائے پریشانی ہیں۔ ان کے درد کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ کاش (شہر کے) اندر رہنے والے اور (شہر کے) باہر بسنے والے ایک دوسرے کی زندگی و موت سے واقف ہوتے کہ بے تابی و پریشانی نہ ہوتی۔ بس یہ جاننا کافی ہے کہ جو جس جگہ ہے، پریشان ہے۔ شہر کے اندر رہنے والے مجبور لوگ ہوں یا باہر کے پریشان حال، سب کے دل درد سے بھرے ہوئے ہیں اور سب قتل عام کے خوف سے ہراساں ہیں۔
5 اکتوبر کو پیر کا مصیبت آفریں دن (تھا) دوپہر کے وقت اچانک چند گورے اس دیوار پر چڑھ گئے جو بند کردہ دروازے سے ملی ہوئی ہے۔ (وہاں سے) ایک چھت پر (اور چھت سے) کود کر گلی میں آ گئے۔ راجہ نرندر سنگھ کے سپاہیوں کا روکنا (کچھ) مفید نہیں ہوا (نہیں روک سکے) دوسرے چھوٹے چھوٹے مکانات کو نظر انداز کر کے راقم الحروف کے گھر میں (گھس) آئے۔ ان گوروں نے بھل منسی سے سامان کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مجھ کو، ان دونوں بچوں، دو تین ملازمین اور چند نیک کردار پڑوسیوں کے ساتھ گلی سے دو فرلانگ سے کچھ زیادہ فاصلے پر حقیقت پسند، دانش ور کرنل براؤن [14] کے پاس لے گئے جو چوک سے اسی طرف قطب الدین سوداگر کی حویلی میں مقیم ہے (کرنل براؤن نے) مجھ سے بہت نرمی و انسانیت سے بات چیت کی۔ مجھ سے نام اور دوسروں سے پیشہ پوچھا۔ خوش اسلوبی کے ساتھ اسی وقت رخصت کر دیا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا، اس خوش اخلاق(کرنل براؤن) کی تعریف کی اور چلا آیا۔[15]
7 اکتوبر کو شام کے وقت 21 توپوں کی آواز نے (قوت) سامعہ کو نوازا اور آگہی کو غرقِ حیرت کر دیا (میں سوچنے لگا کہ) لیفٹیننٹ گورنر بہادر کے آنے پر سترہ توپوں کی سلامی دی جاتی ہے اور نواب گورنر جنرل بہادر کے آنے پر انیس توپوں کی ہوش افزا سلامی کی کیا وجہ ہے۔ دوسرے دن بھی نہ اس ناواقفیت میں کوئی کمی ہوئی نہ معلومات میں کچھ اضافہ ہوا۔ میرا خیال ہے کہ ملک کے پست و بلند کو ہموار کرنے والے (انگریزوں) کو کسی دوسری جگہ باغیوں پر فتح حاصل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ابھی باغیوں کے بہت سے گروہ بریلی، فرخ آباد اور لکھنؤ میں جگہ جگہ شورش پھیلانے اور بے فائدہ مقابلہ کرنے میں مصرف ہیں اور ان کے دل کہ خدا کرے خون ہو جائیں، اور ان کے ہاتھ کہ خدا کرے بے کار ہو جائیں، اسی کام (لڑائی) کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
ادھر سونہہ اور نوح کے علاقے میں میواتیوں نے بے طرح شورش پھیلا رکھی ہے، جیسے دیوانے زنجیروں سے آزاد ہو گئے ہوں۔ تلا رام نامی ایک شورش پسند کچھ دن تک ریواڑی میں ہنگامہ آرا رہا۔ پھر شیطان کی رہنمائی سے میواتیوں سے مل گیا۔ یہ گروہ میدانوں اور پہاڑوں میں (انگریز) حاکموں سے بر سر جنگ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر ہر طرف تیز آندھیوں اور بھڑکتی ہوئی آگ کے ہنگامے بپا ہیں۔
ان غم انگیز حالات میں، جن کا آغاز یاد نہیں ہے اور جن کا انجام معلوم نہیں ہے، رونے کے علاوہ کچھ دیکھا ہو تو آنکھوں کے روزن خاک سے بھر جائیں۔ روز سیاہ (بدنصیبی) کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں جس کے متعلق کہوں کہ آنکھوں نے اس کو دیکھا۔ اس سے قطع نظر کرتے ہوئے (کہتا ہوں) کہ روز سیاہ (بدنصیبی) تو وہ چیز ہے جس کی تاریکی میں کچھ دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔
جس دن گورے مجھ کو پکڑ کر لے گئے تھے، اس دن کے علاوہ چوکھٹ پر قدم رکھنا گھر سے باہر نکلنا، گلی یا بازار میں چلنا، یا دور سے چوک کو دیکھ لینا نصیب نہیں ہوا ہے۔ گویا گنجہ کے دانش ور (نظامی گنجوی) نے میری ہی زبان سے کہا ہے۔
"میں نہیں جانتا ہوں دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا اچھائی ہو رہی ہے کیا برائی”۔ ان لا علاج غموں اور مرد بیزار زخموں (کے ہوتے ہوئے تو) مجھ کو یہ سوچنا چاہیے کہ میں مر چکا ہوں۔ مجھ کو باز پرس کے لیے اٹھایا گیا اور جزائے اعمالِ بد کے نتیجے میں دوزخ کے کنویں میں لٹکا دیا گیا ہے۔ مجبوراً اس قید میں بے چارگی و پریشانی کے ساتھ ہمیشہ جینا پڑے گا۔
"مجھ پر جو کچھ آج گزر رہی ہے، اگر کل بھی یہی گزری (تو) آہ (کیا ہو گا)”۔
اس کتاب میں شروع سے آخر تک یا ان حالات کا ذکر ہے جو مجھ پر گزر رہے ہیں یا ان واقعات کا ذکر ہو گا جو سننے میں آئے ہیں۔ میں نے جو شنیدہ حالات لکھے ہیں تو کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میں نے جھوٹ باتیں سنی ہوں گی، یا کچھ کم کر کے لکھی ہوں گی۔ میں دار و گیر سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں اور سچائی میں نجات ڈھونڈ تا ہوں۔ آنکھیں بے کار ہیں، دل قید (غم) میں ہے اور لب ساکت ہیں۔ لوگوں کی زبانوں سے میرے کانوں کو معلومات کی بھیک ملتی ہے۔ کیسی بری ہے یہ گدائی اور وہ بھی اس بے سرو پائی کے ساتھ۔
اور یہ جو بادشاہ اور شاہ زادوں کے انجام کے متعلق میں نے کچھ نہیں لکھا (حالانکہ ان واقعات کو) فتح شہر کی داستان کے دیباچے کے طور پر (آغاز ہی میں) لکھنا چاہیے تھا، اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس تحریر کے سلسلے میں میرا سارا سرمایہ، سخن ہائے شنیدہ ہیں اور ابھی بغیر سنی ہوئی باتیں بہت ہیں یقیناً جب میں اس جائے تنگ سے باہر نکلوں گا جو باتیں اب تک نہیں سنی ہیں ادھر ادھر سے جمع کروں گا اور تب واقف کاروں کی طرح یہ راز کی باتیں لکھوں گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس تحریر کے پڑھنے والے (واقعات) داستان کی تقدیم و تاخیر پر از روئے انصاف اعتراض نہیں کریں گے۔
19 اکتوبر کو پیر کے دن نے، جس کا نام ہفتے کے رجسٹر سے کاٹ دینا چاہیے، آتش فشاں اژدہے کی طرح دنیا کو نگل لیا۔ اسی دن صبح کے وقت وہ کم بخت دربان بھائی کے مرنے کی خوش خبری لایا۔ کہتا تھا کہ وہ گرم رفتارِ راہ فنا (یوسف مرزا) پانچ دن تیز بخار میں مبتلا رہا اور آدھی رات کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گیا پانی، رومال غسال، گورکن، اینٹ، چونے، گارے وغیرہ کا ذکر چھوڑ، یہ بتاؤ کہ میں کیسے جاؤں اور میت کہاں لے جاؤں؟ کس قبرستان میں سپرد خاک کروں؟ بازار میں اچھا، برا کسی قسم کا کپڑا نہیں ملتا ہے۔ زمین کھود نے والے مزدور گویا کبھی شہر میں تھے ہی نہیں۔ ہندو اپنے مردوں کو دریا کے کنارے لے جا کر جلا سکتے ہیں (لیکن) مسلمانوں کی کیا مجال ہے کہ دو تین شخص ساتھ ساتھ راستے سے گزریں، چہ جائیکہ میت کو شہر سے باہر لے جائیں۔
پڑوسیوں نے میری تنہائی پر رحم کیا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے تیار ہوئے۔ پٹیالے کے ایک سپاہی کو آگے کیا۔ میرے دو نوکروں کو ساتھ لیا اور چل دیے۔ میت کو غسل دیا۔ دو تین سفید چادریں یہاں گھر سےلے گئے تھے، ان میں لپیٹا اور اس مسجد میں جو مکان کے برابر تھی، زمین کھودی قبر بنائی میت کو اس میں رکھ دیا اور اس گڑھے کو پاٹ کر لوٹ آئے۔
"افسوس کہ ساٹھ سال کی عمر میں (وہ) تیس سال شاد رہا اور تیس سال ناشاد۔ قبر میں اس کو بالینِ خشت بھی نہ ملا۔ خاک کے علاوہ اور کچھ اس کی قسمت میں نہیں تھا۔ اے خدا اس مرنے والے پر رحم کر کہ اس نے زندگی میں آرام کی صورت نہیں دیکھی۔ اس کی دل جوئی کے لیے کسی فرشتے کو بھیج اور اس کی روح کو بہشت میں داخل کر”۔
یہ نیک سرشت لیکن بدقسمت شخص جس نے زندگی کے ساٹھ سال خوش و ناخوش گزارے، تیس سال ہوش مندی کے ساتھ اور تیس سال بے ہوشی (دیوانگی) کے عالم میں۔ زمانۂ ہوش مندی میں غصہ ضبط کرنا اور عالم دیوانگی میں کسی کو تکلیف نہ پہنچانا جس کا شعار تھا، 29صفر 1674ھ کی شب میں مرگیا ہے۔
"ایک شخص نے مجھ سے ستم نصیب میرزا یوسف کی تاریخ وفات پوچھی، جس نے اس دنیا میں اپنے سے بیگانہ ہو کر زندگی گزاری۔ میں نے ایک آہ کھینچی اور کہا "دریغ دیوانہ”۔
واضح ہو کہ ” دریغ دیوانہ” سے 1290 عدد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے "آہ” کے 16عدد نکال دیے جائیں 1674 رہتے ہیں جو مطلب ہیں۔
"اس خدا کے نام کہ جس کے حضور میں معذرت کرنا ہی مناسب ہے۔ تم جہاں سر جھکاؤ گے، اسی کا آستانہ ہو گا۔”
جس ہفتے انگریزی فوج نے شہر کو فتح کیا، اسی ہفتے نامورانِ دانش مند امین الدین احمد خان بہادر، اور محمد ضیاء الدین خان بہادر نے حفظِ وضع کی خاطر اور امیدِ بہتری پر شہر چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیوی بچوں کے علاوہ تین ہاتھی اور چالیس گھوڑے ساتھ تھے۔ پرگنہ لوہارو کا رخ کیا، جو ان کی آبائی جاگیر ہے۔ پہلے مہرولی گئے اور اس گور ستان پر انوار (مقبرہ) میں قیام کیا۔ دو تین روز آرام کیا۔ اس دوران میں لٹیرے سپاہیوں نے قیام گاہ کو گھیر لیا۔ جو کپڑے پہنے ہوئے تھے، ان کے علاوہ سارا سامان چھین لیا اور چلے گئے۔ البتہ تینوں ہاتھی جن کو وفادار اور خیرخواہ ہمراہی اس لوٹ مار کے شروع ہوتے ہی نکال لے گئے تھے، تباہی و نقصان کے نشان کی حیثیت سے باقی رہ گئے جیسے تین جلے ہوئے خرمن ہوں۔
یہ لوگ لوٹ مار کی مصیبت اٹھا کر اس بے سرو سامانی کے ساتھ جس کو تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو ریاست دوجانہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ دوجانہ کے نامور اور نیک کردار (فرماں روا) حسن علی خان بہادر نے از راہِ انسانیت و فیاضی (ان کا) استقبال کیا۔ یہ کہہ کر کہ "میرا گھر بھی آپ ہی کا گھر ہے” ان سب کو دوجانہ لے گئے۔
قصہ مختصر سردار خوش خصال (حسن علی خان) نے اپنے ہمسر (مہمانوں) کے ساتھ وہی سلوک کیا جو شاہِ ایران نے ہمایوں کے ساتھ کیا تھا۔ صاحب کمشنر بہادر نے (ان حالات) سے واقف ہو کر اپنے پاس بلا لیا۔ (یہ لوگ) شہر میں آئے اور حاکم سے ملاقات کی۔ صاحب کمشنر نے کچھ دیر طعن و تشنیع کی لیکن جب نرم جو اب سنا تو پھر کچھ نہیں کہا۔ قلعہ کے اندر ایوانِ خان سامانی کے پہلو میں ٹھہرنے کا حکم دیا۔
تسلسلِ کلام کی رعایت کی وجہ سے میں اس خاندان کی تباہی کی داستان نہیں لکھ سکا۔ یوں سمجھو کہ مہرولی میں ان لوگوں کو لوٹا گیا اور دہلی میں ان کے مکانات جو مالکوں سے خالی تھے، نذرِ غارت گری ہوئے جو سامان یہ لوگ وہاں (مہرولی) اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لوٹ مار کرنے والوں کے حصے میں آیا۔ بس متعلقینِ زندہ دوجانہ پہنچے، اور جو سامان یہاں محلات میں تھا، سب لٹ گیا۔ بس اینٹیں، پتھر باقی رہ گئے۔ نہ سیم و زر محفوظ رہا، نہ لباس و بستر کا ایک تار بچا۔ خدا (ان) بے گناہوں پر رحم کرے اس آغاز ناسازگار کا انجام بہ خیر ہو، اور ان کو اس مصیبت کے بعد آرام نصیب ہو۔
یقیناً اکتوبر کی 17 تاریخ تھی اور سنیچر کا دن کہ یہ دونوں دانش مندان بیگانہ شہر میں آئے اور جیسا کہ میں نے (پہلے) کہا ہے، قلعے میں قیام کیا۔ اس واقعے کے دو، تین دن کے بعد فوج کو حکم دیا گیا۔ فوج گئی اور جھجر کے حاکم عبدالرحمان کو مجرموں کی طرح لائی۔ قلعے کے اندر ایک ایوان کے گوشے میں جس کو دیوان عام کہتے ہیں (ٹھہرنے کے لیے) جگہ دی گئی اور ان کی ساری جاگیر انگریزی حکومت نے ضبط کر لی۔
31 اکتوبر کو جمعے کے دن فرخ نگر کے حاکم احمد علی خان کو اسی طرح (گرفتار کر کے) لائے، جیسے عبدالرحمان خان کو لائے تھے اور قلعۂ دہلی میں ایک الگ جگہ ان کو ٹھہرایا گیا۔ فرخ نگر بھی تیز دست تباہ کاروں کا نشانہ بنا اور شہر والوں کا مال و اسباب لٹ گیا۔
2 نومبر کو پیر کے دن دادری اور بہادر گڑھ کے حاکم بہادر جنگ خان گرفتار ہو کر آ گئے اور قلعے میں جہاں ٹھہرایا گیا، ٹھہرے، 7 نومبر کو سنیچر کے دن راجہ ناہر سنگھ حاکم بلّب گڑھ کے آ جانے سے قلعے میں جو سردار مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے دور مقیم تھے ان میں ایک کا اور اضافہ ہوا۔
واضح ہو کہ دہلی کی اجنٹی کے ماتحت جو جاگیریں ہیں، وہ شمار میں ہفتے کے دنوں سے کم یا زیادہ نہیں ہیں (دہلی کے ماتحت سات جاگیریں ہیں) جھجر، بہادر گڑھ، بلب گڑھ، لوہارو، فرخ نگر، دوجانہ، پاٹودی۔ ان میں سے پانچ جاگیروں کے حاکم جیسا کہ میں نے کہا، قلعے میں موجود ہیں اور بقیہ دو جاگیردار پاٹودی اور دو جانہ میں خوف کے تیر کا نشانہ ہیں۔ دیکھو ان کی جہاں میں آنکھیں دنیا میں کیا دیکھتی ہیں اور کیا انجام ہو تا ہے۔
یہ بات پوشیدہ نہیں رہے گی کہ مظفر الدولہ سیف الدین حیدر خان اور ذوالفقار الدین حیدر خان جن کا لقب حسین مرزا ہے، اس ہنگامے میں دوسرے با عزت لوگوں کی طرح بیوی بچوں کے ساتھ شہر سے باہر چلے گئے۔ قیمتی سامان سے بھرے ہوئے گھر چھوڑ دیے اور صحرا نوردی اختیار کی۔ ان لوگوں کے کئی مکانات محل اور ایوان ہیں با ہم متصل۔ اتنے وسیع کہ اگر (ان محلات و ایوانات کی) زمین کی پیمایش کی جائے تو شہر نہ سہی، ایک گاؤں کے برابر تو (رقبہ) ہو گا۔ اتنے بڑے بڑے محل، اس عالم میں کہ ان میں کوئی آدمی تھا ہی نہیں، لوٹ مار (کرنے والوں کے ہاتھوں) صاف اور ویران ہو گئے۔
کچھ کم قیمت اور بھاری سامان جیسے ایوان کے پردے، شامیانے، سائبان شطرنجیاں اور دوسرا فرش ان قیام گاہوں میں باقی رہ گیا تھا۔ اچانک ایک رات جس کی صبح کو راجہ ناہر سنگھ گرفتار ہوئے، اس سامان میں آگ لگ گئی۔ لپٹیں اٹھنے لگیں، لکڑی، پتھر، دیواریں سب جل گئیں۔ یہ عمارت میرے مکان سے جانب مغرب اتنی قریب ہے کہ میں آدھی رات کو بھڑکتی ہوئی آگ کی روشنی چھت پر سے دیکھ رہا تھا اور دھوئیں کی گرمی میرے چہرے اور آنکھوں تک پہنچ رہی تھی، کیوں کہ اس وقت پچھیاؤ چل رہا تھا، راکھ میرے اوپر آ رہی تھی۔ ہاں پڑوسی کے گھر سے (بلند ہونے والے) نغمے سوغات کی حیثیت رکھتے ہیں، پھر پڑوسی کے گھر کی آگ راکھ کیوں نہ برسائے۔
ooooooooooooo
راقمِ حالات کے قلم کی جنبش (اس واقعے کے اثر سے) جو نیم مردہ چیونٹی کی رفتار کے برابر ہے (سست ہے) صفحہ کاغذ پر اس حالت کی کیا عکاسی کر سکتی ہے کہ نگاہیں اس کو دیکھ سکیں۔ شاہ زادوں کے متعلق اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بعض کو گولی ماردی گئی (اس طرح) موت کے اژدہے نے ان کو نگل لیا۔ کچھ کی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا گیا۔ (اس طرح) رسنِ دار کی کشاکش سے ان کی روح ٹھٹھر کر رہ گئی۔ چند افسردہ دل قید خانے میں ہیں اور بعض (عالم غربت میں) آوارہ و پریشان پھر رہے ہیں۔ کمزور و ضعیف بادشاہ پر مقدمہ چل رہا ہے۔
جھجر، بلب گڑھ اور فرخ نگر کے جاگیرداروں کو علٰیحدہ علیحدہ مختلف دنوں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس طرح (ان لوگوں کو) ہلاک کیا کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ خون بہایا گیا۔
جنوری 1858ء کے آغاز میں ہندوؤں کو فرمانِ آزادی مل گیا، اور (شہر میں) آباد ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ لوگ (ہندو) جہاں جہاں تھے، شہر کی طرف چل پڑے۔ خانماں برباد مسلمانوں کے گھروں میں (خالی پڑے رہنے کے سبب سے) سبزہ اس قدر اُگ گیا ہے کہ در و دیوار سبز ہیں۔ ہر لمحہ سبزۂ سرِ دیوار کی زبان سے یہ صدا آتی ہے کہ مسلمانوں کی جگہ (بہ دستور) خالی ہے۔
شاید بد خصلت مخبروں کے کہنے سے حاکم شہر کو یہ خیال ہوا ہو گا کہ راجہ نرندر سنگھ بہادر کے طبیبوں کا مکان مسلمانوں کی جائے پناہ اور جمع ہونے کی جگہ ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ان بے ہودہ گو ہنگامہ ساز (مخبروں) میں سے ایک دو شخص اس محفل میں ( موجود) بھی ہوں۔ اس خیال سے 2 فروری کو منگل کے دن (حاکمِ شہر) کچھ سپاہیوں کے ساتھ اس جگہ آیا اور مکان کے مالکوں کو ساتھ دوسرے نیک دل پناہ گزینوں کے ساتھ اپنے ہمراہ لے گیا۔ اگر چہ کئی رات دن سب کو حوالات میں رکھا، لیکن با عزت لوگوں کی عزت کا بھی خیال رکھا۔
5 فروری کو جمعے کے دن حکیم محمود خان، حکیم مرتضی خان اور ان کے بھتیجے عبدالحکیم خان عرف حکیم کالے کو واپسی کی اجازت مل گئی۔ 12 فروری کو جمعے کے دن چند دوسرے اشخاص اور 13 فروری کو سنیچر کے دن تین شخص اور واپس آ گئے (لیکن) نصف سے زیادہ حوالات میں رہ گئے۔ یہ مصیبت جو پڑوس میں نازل ہوئی اور یہ ہنگامہ جو گلی میں برپا ہو گیا (اس کی وجہ سے) مجھ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا، ابھی تک (یہ عالم ہے) کہ دن بھر متفکر رہتا ہوں اور رات میں آرام کی نیند نہیں سو پاتا ہوں۔
فروری کے پُر شوکت مہینے میں کہ اس زمانے سے ماہ فروردین تک (جو موسم بہار کا پہلا مہینہ ہے) جس میں آفتاب کی رونق و روشنی بڑھ جاتی ہے، سورج کو ابھی (برج حمل تک پہنچنے کے لیے) ایک مہینے کا سفر طے کرنا ہے۔ حاکم مہربان، خورشید طلعت ستارہ حشم سر جان لارنس صاحب چیف کمشنر بہادر کے آنے کی خبر مشہور ہوئی۔ چونکہ میرا یہ طریقہ رہا ہے کہ جو حاکم، ہندوستان، خصوصاً اس شہر (دہلی) میں آئیں ان کی مدح میں قصیدہ لکھا، جو تہنیتِ فتح اور خیر مقدمِ نو روز پر مشتمل تھا اور 19 فروری کو جمعے کے دن بذریعہ ڈاک بھیجا۔
20 فروری کو شام کے وقت 21 دیو آواز، نہنگ آہنگ توپوں کی آواز آئی اور اتوار کی صبح کو شہرِ لکھنؤ کی فتح کی خوش خبری اس تفصیل کے ساتھ سننے میں آئی، کہ 16 فروری کو آسمان سروری کے اختر تابندہ، سپہ سالار نامور کمانڈر انچیف بہادر نے سیاہ رو، جنگ جو باغیوں پر اس طرح حملہ کیا کہ آسمان کے سپہ سالار (مریخ) نے سلامت دست و بازو کی اتنی دعائیں دیں اور اس قدر تعریف کی کہ اس کے ہونٹوں پر تبخالے پڑ گئے اور زبان تھک گئی۔
دنیا کو آبادی کا مژدہ، اور اہل دنیا کو نوید آزادی کہ آزاد اور نیک ذات لوگوں (انگریزوں) کی آرزو پوری ہو گئی اور برے اور بد ذات لوگوں کا دور دورہ وہاں بھی ختم ہو گیا۔ پھر سننے میں آیا کہ توپوں (کی گرج) اور شہنائیوں کے نغمے (صرف) حصول طاقت کے شادیانے تھے۔ فتح نصیب فوج کے بہادر اس جنگ کے دوران میں شہر پر قابض نہیں ہوئے بلکہ دلیروں کی طرح دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے دوڑ پڑے (دشمنوں کو) زخمی اور قتل کرنے کے بعد اپنے پڑاؤ کی طرف لوٹ آئے۔
24 فروری کو بدھ کے دن ایک پہر دن چڑھے مبارک وقت میں، باغ انصاف کے سرو آزاد آسمان رفعت کے ماہِ تابندہ، فرخ طلعت، فرخندہ سیرت، ستارہ حشم چیف کمشنر بہادر نے اپنے توسن کے سموں کے نشانات سے دہلی کی سر زمین کو آسمان کی طرح ستارہ زار بنا دیا اور تیرہ توپوں کی سلامی کی آواز نے خستہ دلوں کو مرہم مہر و محبت کی بشارت دی۔
"حاکم شاہ نشان کیا آئے کہ شہر کے مردہ جسم میں روح واپس آ گئی۔ شہر میں مسرت کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے جیسے شہنشاہ شاہ جہاں آ گئے ہوں۔”
27 فروری کو جب سنیچر کا دن ختم ہوا اور رات آئی، رات کے تین پہر گزر گئے اس وقت مظلوموں کے دل کا دھواں چاند پر اس طرح چھا گیا کہ دیکھنے والے بے اختیار چلا اٹھے کہ چاند گہن میں آگیا۔ اسی سنیچر کو حکمِ دور باش ختم ہو گیا۔ انصاف چاہنے والے اور پریشان حال لوگوں کو حاضر ہونے کی اجازت اور خواہش مندوں کو پناہ دے دی گئی۔
اس شہر میں قید خانہ شہر سے باہر ہے اور حوالات اندرون شہر، ان دونوں میں بے شمار لوگوں کو بھر دیا گیا ہے (ان محدود مقامات میں کثرت تعداد کو دیکھ کر) قیدیوں کو مختلف دنوں میں پھانسی دے دی گئی ہے، ان کی تعداد فرشتۂ موت ہی جانتا ہے۔ شہر میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان نہیں پاؤ گے، میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ جو لوگ شہر سے نکل کر چلے گئے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ شہر کے اردگرد دو دو، چار چار کوس پر ٹیلوں، گڑھوں، چھپروں اور کچے مکانوں میں اپنے نصیب کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے پڑے ہیں۔ اس ویرانہ نشیں گروہ میں یا تو وہ لوگ ہیں جو شہر میں رہنے کے خواہش مند ہیں یا گرفتار شدہ لوگوں کے رشتے دار ہیں یا خیرات خوار یعنی پنشن دار ہیں۔ لوگوں کی درخواستوں میں رہائی، آبادی اور اجرائے پنشن کے علاوہ اور کوئی مضمون نہیں پاؤ گے۔ داد خواہوں کی دو تین ہزار درخواستیں، عدالت میں پہنچ چکی ہیں۔ انصاف طلب، چشم براہ اور گوش بر آواز ہیں کہ کیا سننے اور دیکھنے میں آتا ہے۔
میں بھی اس نیاز نامے اور ستائش نامے کے جواب کا منتظر ہوں، جس کو میں نے بہ ذریعۂ ڈاک بھیجا تھا۔ مختلف خیالات پریشاں کے سبب سے حاکم شہر کی جائے قیام پر جانے اور ملاقات کرنے کی کوئی صورت نہیں نکلی ہے۔ مختصر یہ کہ ہر اعتبار سے ایسی مصیبتیں ہیں گویا ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ اگر باہر نکلو گے تو راستے میں بچھے ہوئے دیکھو گے۔ اگر گھر ہی میں بیٹھے رہو گے تو معلوم ہو گا کہ کپڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کسی طرح سکون نہیں ہے۔ ابھی تک صبر، بے تابی پر غالب تھا کہ 8 مارچ کو پیر کے دن وہ خط ایک تحریر کے ساتھ میرے پاس واپس آگیا۔ خط کی پیشانی حاکم دانش ور کے اس فرمان سے منور تھی کہ خط، فریسندہ کو واپس کر دیا جائے تاکہ وہ حاکم شہر کے توسط سے ہمارے پاس بھیجے۔ سب نے کہا اور میں نے بھی سوچا کہ یہ پر فائدہ جو اب امید افزا علامت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میری گزارشات منظور ہو جائیں گی۔ وہ خط جس پر فرمان مسطور تھا، مناسب عبارت کے اضافے کے ساتھ سرور عادل رعایا پرور دانش مند، چارلس سانڈرس صاحب چیف کمشنر بہادر کے حضور میں بھیجا اور ایک خط، خاص طور پر نا مور موصوف (چارلس سانڈرس) کے نام منسلک کر دیا، جو خواہشِ دیرینہ یعنی اجرائے پنشن سے متعلق تھا۔
17 مارچ کو بدھ کے دن فرمان روا کے حضور سے پہلی خواہش کے بارے میں یہ حکم صادر ہوا کہ یہ خط جس میں تہنیت کے سوا کچھ نہیں ہے اس کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ ایسے پُر آشوب حالات میں مہر و محبت اور مسرت و انبساط کی کیا گنجایش، میں تو بندۂ شکم ہوں، مجھ کو تو روٹی چاہیے۔ دیکھوں اس دوسری خواہش کے بارے میں کیا حکم ہوتا ہے۔
18 مارچ کو جمعے کے دن شام کے وقت روح کو توانائی بخشنے والی آوازِ توپ آسمان کے نیلے گنبد میں گونج اٹھی۔ (جس سے) لکھنو کا فتح ہونا اور اس شہر میں کینہ خواہ انگریزی فوج کا حسب دل خواہ پھیل جانا معلوم ہوا۔ اس شہر میں قلعہ، فصیل، دروازہ کچھ نہیں ہے۔ یقیناً وہاں کے باغیوں کی فوج کی دیوار اس طرف کے بہادروں انگریزوں کا راستہ روکے ہوئے ہو گی۔ جب وہ کمزور دیوار بہادروں کی کوشش کی آندھی سے گر گئی ہو گی تو بالیقین سواروں اور پیادوں کے چلنے سے ہر راستے سے گردو غبار بلند ہوا ہو گا۔ ہاں خدا اپنے فضل سے جس کو بادشاہت عطا کرتا ہے اس کو فتح کرنے کی طاقت اور شان و شوکت بھی عطا کرتا ہے۔ اسی بنا پر جو شخص فرماں رواؤں کی، نافرمانی کرتا ہے، وہ اس قابل ہے کہ اس کے سر پر جوتے لگیں۔ محکوم کا حاکم سے لڑنا (ستالی) پر ہاتھ مارنا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ دنیا والوں کے لیے مناسب ہے کہ جن لوگوں کو خدا نے خوش بختی عطا کی ہے ان کے سامنے سر جھکا دیں اور فرماں رواؤں کے حکم کی تعمیل کو خدا کے حکم کی تعمیل سمجھیں۔ جب ہم کو یہ معلوم ہو گیا کہ خوش نصیبی حکومت اور طاقت کس کی بخشی ہوئی ہے تو پھر سرکشی اور بیزاری کیوں ہے۔ نغمہ طرازِ شیراز (سعدی) نے اس بات کو کیسے اچھے انداز سے ادا کیا ہے۔
"غلام (آقا کے) حکم کے سامنے سر نہیں جھکائے گا تو کیا کرے گا۔ گیند چوگان کی اطاعت کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے؟”۔
22 مارچ سے مجھ دیوانے کے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ دنیا میں فروری کا مہینہ اور نو روز کا دن بھی آتا ہے اور وہ روزِ جہاں افروز نو روز انہیں دو چار تاریخوں میں ہوتا تھا۔ امسال شاید یہ شہر مردوں کا مسکن ہے کہ بہار کی آمد آمد پر نعرہ ہائے مسرت سننے میں نہیں آتے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ سال ترکوں کے سالِ دو از دہ گانہ میں سے کون سا سال ہے اور رات دن کے برابر ہونے کی ساعت کب آئے گی۔ اگر منجم مر گئے ہیں اور دن کے بادشاہ (آفتاب) کے سفر کا روز نامچہ تحریرِ پیش گوئی آثار سے خالی رہ گیا تو یہ سمجھ کہ چند جھوٹ بولنے والے کم ہو گئے اور یہ فرض کر لو کہ چند جھوٹی باتیں سنی ہی نہیں۔ آفتاب برج حمل میں قیام تحویل کو بھولا نہیں ہے کہ سبزہ اُگے اور پھول نہ کھلیں۔ اصول آفرینش بدلتے نہیں ہیں۔ آسمان مقررہ اصول گردش کے خلاف عمل نہیں کر سکتا۔
میں باغ پر نہیں، اپنے اوپر آنسو بہا رہا ہوں۔مجھے موسم بہار کی کوئی شکایت نہیں ہے اپنی بدقسمتی کا شکوہ کر رہا ہوں۔
"دنیا لالہ کے پھولوں سے رنگین اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے معطر ہے لیکن میں ایک گوشے میں مجبور و بے سر و ساماں بیٹھا ہوا ہوں۔ بہار کا موسم ہے اور میں بالکل بے سر و ساماں ہوں۔ مفلسی کے سبب سے گھر کا دروازہ بندہ ہے۔”
میں روتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ زمانہ بہت بے پرواہ ہے۔ میں زاویہ نشینِ غم و آلام اگر سبزہ و گل کو نہیں دیکھوں گا اور دماغ کو پھولوں کی خوشبو سے معطر نہیں کروں گا تو بہار میں کیا کمی آ جائے گی اور ہوا سے کون تاوان لے گا؟۔
اپریل کے مہینے میں جس میں دو ثلث ماہ فروردین کے اور ایک ثلث ماہ اردی کا ہے، حکیم محمود خان کے ساتھ جو لوگ قید خانے میں باقی تھے، رہا ہو گئے۔ ہر ایک نے اپنا راستہ لیا۔ وہ ناز پروردہ، صاف طینت حکیم محمود خان سارے رشتہ داروں بیوی بچوں اور متعلقین کے ساتھ پٹیالے کی طرف چلا گیا۔ کہتے ہیں ابھی تک وہ کرنال میں مقیم نہیں۔ معلوم نہیں آیندہ کے لیے کیا سوچا ہے۔
ooooooooooooo
مئی کے شروع میں کانوں کو یہ خبر سننے کا فخر حاصل ہوا کہ سپاہِ کینہ خواہ کے بہادروں نے مراد آباد کو فتح کر لیا۔ جو بد اندیش باغیوں کی گزرگاہ تھا اور اس شہر کو انصاف سے آراستہ کرنے کے لیے عالی نسب سرچشمہ علم و دانش نواب یوسف علی خاں بہادر کے حوالے کر دیا۔ آج کل نواب یوسف علی خاں جو دنیا کو فتح کرنے اور دنیا پر حکومت کرنے کے اہل ہیں، اس علاقے پر تعمیل حکم کے طور پر فرماں روائی کر رہے ہیں، اور مجھ کو امید ہے کہ ہمیشہ فرماں روائی کرتے رہیں گے۔
اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ کوہ شگاف اور اژدہا شکار فوج نے جب بریلی اور مراد آباد کے اس علاقے پر یورش کی، تو بریلی کے گناہ گار باغیوں کو اس طرح نکال باہر کیا، جیسے طاقت ور موجیں خس و خاشاک کو کنارے پر پھینک دیتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے توقع ہے کہ جو گراں جان باغی ادھر ادھر باقی رہ گئے ہیں شہروں، گاوؤں میں لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور راستہ چلنے والوں کو ستاتے ہیں، ان کا دور دورہ بھی جلد ختم ہو جائے گا اور سارا ملک حاکمان عادل انگریز کے پرچم کے زیر سایہ آ جائے گا۔
13 جون کو اتوار کے دن شام کے وقت حاکم شہر نے بہادر جنگ خان کو اپنے پاس بلایا، جو قلعے میں نظر بند تھے۔ وہ بڑی امیدوں کے ساتھ گئے۔ جاں بخشی اور ایک ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیے جانے کی خوش خبری سنائی گئی اور حکم ہوا کہ لاہور کی طرف چلے جائیں۔ اس کے بعد آزادی کی زندگی بسر ہو گی اور اسی شہر (لاہور) میں رہنا ہو گا۔ بے شک ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ وہ بہادر جنگ خاں جاہ و دولت کے غم و افسوس سے آزاد ہو جائیں اور اس آزادی پر مسرور و مطمئن ہوں۔
دن کا شہنشاہ آفتاب جس کا سر روزانہ نیز ے پر گھمایا جاتا ہے، ابھی افق مشرق سے بہ قدر یک نیزہ بلند نہیں ہوا تھا کہ ماہِ جون کے گزرے ہوئے دنوں کی تعداد کے برابر رعد کی طرح گرجنے والی توپوں کی آواز بلند ہوئی (21 ضرب توپ مراد ہے) جس نے دوستوں کے دل کو مسرت و شادمانی سے معمور کر دیا اور آگ سے زیادہ جلانے والی غم کی راکھ دشمنوں کے سر اور چہرے پر ڈل دی۔ گوالیار کا شہر فتح ہو جانے اور اس سنگین قلعے کے ہاتھ آ جانے کی خوش خبری جو زمین کا جگر گوشہ اور پہاڑ کا لخت جگر ہے، خدا کے دربار سے سرکشوں کو موت کا پروانہ لائی۔ اس مژدۂ پر مسرت نے حاکموں اور فرماں رواؤں کو آرزوؤں کے چراغ جل اٹھنے اور آرزو میں پوری ہو جانے کی بشارت دی۔
یہ داستان یوں ہے کہ باغیوں نے گوالیار پر قبضہ کر لیا۔ فرماں روائے گوالیار مہاراجہ جیا جی راؤ حکومت اور شہر دونوں کو چھوڑ کر آگرے چلے گئے اور انگریزوں سے مدد چاہی۔ انگریزوں سے امدادی فوج لے کر اپنے وطن کی طرف گئے اور فتح حاصل کی۔
باغیوں نے بھاگم بھاگ ہر طرف سے گوالیار کا رخ کیا تھا۔ یہاں ایسی شکست فاش ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان گم راہوں کا انجام یہ ہو گا، کہ بدحالی و پژمردگی کے ساتھ ادھر ادھر لوٹ مار کرتے پھریں گے، اور آخر کار جگہ جگہ ذلت و خواری کے ساتھ مارے جائیں گے۔ ان کے صحرا نورد گھوڑوں کو بے آب و گیاہ میدانوں میں زمین پر پڑا ہوا مردہ دیکھو گے اور اس گروہ کے ساز و سامان کو گزر گاہوں میں بکھرا ہوا پاؤ گے۔ پھر ہندوستان خس و خارِ ظلم و ستم سے ایسا پاک ہو جائے گا کہ جنگل کا ہر گوشہ باغ کی طرح سر سبز ہو گا اور ہر رہگزر بازار کی طرح پر رونق نظر آئے گا۔
راقم الحروف کی زندگی کے تریسٹھ سال گزر چکے ہیں۔ ان طرح طرح کے روح فرسا غموں کے سبب سے ظاہر ہے کہ اب زمانے سے اور زیادہ فرصتِ عمر کی توقع بے جا ہے۔ مجبوراً، سحر نگارِ شیراز سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار کو دہراتا ہوں اور جس طرح ایک غم نصیب دوسرے غم زدہ شخص سے نصیحت حاصل کرتا ہے، ان اشعار کو پڑھ کر گر دل کو خوش نہیں کر سکتا ہوں تو کم سے کم قیدِ رنج و غم سے آزاد تو کر ہی لوں گا۔
"افسوس ہمارے بغیر اس دنیا میں بارہا بہاریں آئیں گی اور پھول کھلیں گے۔ تیر، دے اور اردی بہشت کے مہینے بار بار آئیں گے جب کہ ہم قبر میں خاک ہو چکے ہوں گے”۔
فی الحقیقت سچی بات کو چھپانا اچھے لوگوں کا طریقہ نہیں ہے۔ میں نیم مسلمان مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوں اور بدنامی و رسوائی کے رنج سے بے نیاز ہمیشہ سے رات میں صرف ولایتی شراب پینے کی عادت تھی۔ ولایتی شراب نہیں ملتی تھی تو نیند نہیں آتی تھی۔ آج کل جب کہ انگریزی شراب شہر میں بہت مہنگی ہے اور میں بالکل مفلس ہوں، اگر خدا دوست، خدا شناس، فیاض، دریا دل، مہیش داس دیسی شراب قند جو رنگ میں ولایتی شراب کے برابر اور بو میں اس سے بڑھ کر ہےبھیج کر آتش دل کو سرد نہ کرتے تو میں زندہ نہیں رہتا، اسی عالم جگر تشنگی میں مر جاتا۔
عرصے سے دل چاہتا تھا کہ کسی طرح میری آرزو پوری ہو جائے آرزو یہ تھی کہ شراب ناب کے ایک دو ساغر مل جائیں۔ دانش مند مہیش داس نے مجھ کو وہ آب حیات بخش دیا جس کو سکندر نے اپنے لیے ڈھونڈا تھا”۔
یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس نیکی پسند شخص (مہیش داس نے شہر میں مسلمانوں کی آباد کاری کے متعلق کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چوں کہ خدا کی مرضی نہیں تھی کوشش کار گر نہیں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ شہر میں ہندوؤں کا آزادی کے ساتھ رہنا مہربان حاکموں کی محبت اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ بہر حال اس نیکی پسند بہی خواہ مہیش داس کا اس انتظام میں دخل رہا ہے۔ قصہ مختصر خوش نصیب شخص ہے۔ لوگوں کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔ زندگی عیش و مسرت کے ساتھ گزار تا ہے۔ اگر چہ مجھ سے بہت پرانی شناسائی نہیں ہے، اتفاقاً کبھی ملاقات اور بات چیت ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی کوئی تحفہ بھیج کر مجھ کو ممنون کرتا ہے۔
میرے دوسرے متعلقین اور شاگردوں میں سے ہیرا سنگھ، جو ایک نیک نام نوجوان اور تعلقات کا بہت خیال رکھنے والا ہے (برابر) آتا رہتا ہے اور میرا غم غلط کرتا ہے۔ اس نصف آباد نصف ویران شہر کے لوگوں میں سے عالی نسب شیو جی رام برہمن جو ایک عقل مند نوجوان ہے اور مجھ کو بیٹے کی طرح عزیز ہے، مجھ درویشِ غم زدہ کو بہت کم تنہا چھوڑتا ہے۔ فرماں برادری اور کارسازی کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا لڑکا بال مکند جو ایک پرہیزگار اور خوش اخلاق نوجوان ہے، اپنے والد کی طرح تعمیل حکم میں مستعد اور غم گساری میں یکتا ہے۔
دور دراز کے دوستوں میں سے ایک دوست آسمانِ محبت کے ماہ کامل شیوا بیان، ہر گوپال تفتہ[16]بھی ہیں جو میرے پرانے مونس و ہمدم ہیں اور اس بنا پر کہ مجھ کو اپنا استاد کہتے ہیں، ان کا کلام ساری خداداد خوبیوں کے ساتھ میرے لیے سرمایۂ ناز ہے۔ مختصر یہ کہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ سرتاپا محبت و اخلاص۔ شاعری سے ان کو فروغِ شہرت حاصل ہے اور ان کے دم سے شاعری کے ہنگامے گرم رہتے ہیں۔ انتہائے محبت سے میں نے ان کو اپنا جز و روح سمجھ لیا ہے اور "میرزا تفتہ” خطاب دیا ہے۔ انہوں نے میرٹھ سے ایک ہنڈی [17] میرے پاس بھیجی، نیز غزل اور خط برابر بھیجتے رہتے ہیں۔
یہ باتیں جن کا لکھنا لازمی نہیں تھا، صرف اس لیے لکھیں کہ ان لوگوں کی فیاضی اور محبت کا شکریہ ادا ہو جائے، نیز اس لیے بھی لکھیں کہ جب یہ داستان دوستوں کے ہاتھوں میں آئے تو وہ سمجھ لیں کہ شہر مسلمانوں سے خالی ہے۔ راتوں کو ان لوگوں کے گھر چراغ سے محروم رہتے ہیں اور دن میں دیواروں کے روزن دھوئیں سے۔ غالب جس کے شہر میں ہزاروں دوست تھے ہر گھر میں شناسا اور واقف کار موجود تھے، اس تنہائی میں قلم کے سوا کوئی اس کا ہم زباں اور اپنے سایے کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں ہے۔
"اب میرے چہرے پر اس وقت تک آب و رنگ نہیں آتا ہے، جب تک کہ ہزار بار اشک خوں سے چہرے کو تر نہ کروں۔ میرے جسم میں غم و افسوس، جان و دل بن گئے ہیں اور میرے بستر کا تانا بانا کانٹوں سے تیار ہوا ہے”۔
اگر شہر میں یہ چاروں شخص نہ ہوتے تو کوئی شخص میری بے کسی کا گواہ بھی نہ ہوتا۔ گردش روزگار پر رشک آتا ہے کہ اس لوٹ مار میں جب کہ شہر کے کسی گھر میں مٹی بھی نہیں بچی، اگر چہ میرا گھر لوٹ مار کرنے والوں کی دراز دستی سے محفوظ رہا لیکن میں قسم کھا سکتا ہوں کہ بستر اور پہننے کے کپڑوں کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں رہا۔ [18] اس عقدۂ دشوار کا حل اور اس دروغ نما سچ کی حقیقت یہ ہے کہ جس وقت کالوں (باغیوں) نے شہر پر قبضہ کیا، بیگم نے مجھ سے کہے بغیر قیمتی چیزیں زیور، وغیرہ جو کچھ تھا خفیہ طور پر کالے صاحب پیر زادے کے یہاں بھیج دیا۔ وہاں تہہ خانے میں محفوظ کر دیا گیا اور دروازہ مٹی سے پاٹ دیا گیا۔
جب فاتح انگریزوں نے شہر کو فتح کیا اور سپاہیوں کو لوٹ مار کا حکم مل گیا تب بیگم نے یہ راز مجھ سے کہا، وقت نکل چکا تھا۔ وہاں تک جانے اور سامان لانے کی کوئی گنجایش نہیں رہی تھی۔ میں خاموش ہو گیا اور دل کو سمجھا لیا کہ یہ چیزیں جانے والی ہی تھیں، اچھا ہوا کہ میرے گھر سے نہیں گئیں۔
اب یہ جو لائی کا پندرھواں مہینہ ہے۔ قدیم پنشن جو سرکار انگریزی سے (ملتی تھی) اس کے ملنے کا کوئی ذریعہ نہ نکلا، بستر اور کپڑے بیچ بیچ کر زندگی گزار رہا ہوں۔ [19] گویا دوسرے لوگ روٹی کھاتے ہیں، میں کپڑے کھاتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ جب کپڑے سب (بیچ کر) کھالوں گا، عالم برہنگی میں بھوک سے مر جاؤں گا۔
اس قیامت میں پرانے نوکروں میں سے دو تین نوکر میرے پاس سے نہیں گئے۔ ان کی پرورش کرنا ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آدمی آدمی کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ نوکر کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا، اس گروہ ملازمین کے علاوہ دوسرے ضرورت مند جو ہمیشہ سے مجھ سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھانے کے عادی ہیں، اس برے وقت میں بھی اپنی روح فرسا آوازِ سوال سے مرغ کی صدائے بے ہنگام سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔
اب جب کہ جسمانی تکلیفوں کے دباؤ اور روحانی اذیتوں کی گداختگی نے جسم و جان کو تباہ کر دیا ہے، یکایک دل میں خیال آیا کہ اس کھلونے کو آراستہ کرنے میں جس کا نام تصنیف ہے کب تک مشغول رہا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس کش مکش کا انجام یا تو موت ہے، یا بھیک مانگنا۔ پہلی صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گا کہ یہ داستان ہمیشہ کے لیے انجام و اختتام سے محروم رہے اور پڑھنے والوں کے دلوں کو افسردہ کرے۔
دوسری صورت میں (یہ بات) ظاہر ہے کہ اس ساری داستان میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا کہ فلاں گلی سے سرِ بازار دھتکار دیا گیا اور فلاں دروازے پر کچھ مل گیا۔ پھر یہ باتیں کب تک بیان کی جا سکتی ہیں اور اپنے آپ کو کہاں تک رسوا کیا جا سکتا ہے۔ باقی پنشن اگر مل گئی، تب بھی آئینۂ دل سے زنگِ غم صاف نہیں ہو سکے گا۔ قرض ادا نہیں ہو گا اگر نہیں ملی، اس صورت میں شیشہ پتھر سے چور چور ہو جائے گا (تباہی یقینی ہے) اور سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں چوں کہ یہاں دہلی کی آب و ہوا مصیبت زدہ لوگوں کو سازگار نہیں آتی ہے، یقیناً شہر سے بھاگنا ہو گا اور کسی دوسرے شہر میں رہنا ہو گا۔
مئی سال گذشتہ سے لے کر جولائی 1858ء تک کی روداد میں نے لکھی ہے، یکم اگست سے قلم ہاتھ سے رکھ دیا ہے۔ کاش میری ان تینوں خواہشوں یعنی خطاب، خلعت اور پنشن کے اجرا کا حکم شہنشاہ فیروز بخت کے حضور سے آ جائے جن کے متعلق میں نے اس تحریر میں بھی کچھ لکھا ہے۔ میری آنکھیں اور میرا دل انہیں کی طرف لگا ہوا ہے۔ وہ شہنشاہ کہ چاند جس کے سرکا تاج ہے، آسمان جس کا تخت ہے، جمشید نشان، فریدوں فر، کاؤس مرتبہ، سنجر شکوہ، سکندر حشم، وہ شہنشاہ کہ شاہ روم اس بات کے لیے اس کا شکر گزار ہے کہ اس کے تخت و تاج کی عزت رہ گی۔ فرماں روائے روس کا دل اس کی لشکر کشی کے خوف سے دو نیم ہے۔ آفتاب اس خیال سے کہ یہ جہاں سوزی اس کی ناراضی کا سبب ہے اگر ڈرتا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں ہر لمحہ کانپتا رہتا ہے اور ماہ کامل اس اندیشے سے کہ دنیا کو منور کرنے میں اس کی برابری کا احتمال ہے اگر اپنی گستاخی کی معافی نہیں چاہتا ہے تو پھر کیوں ہر رات خوف سے گھٹتا رہتا ہے۔
"وہ مالک تیغ و نگیں و علم ہے۔ وہ شہنشاہ سلطنت بخش اور بادشاہ ساز ہے صاحب دانش، فرخ طلعت اور نیک خو ہے۔ اس کا مرتبہ انصاف میں نوشیرواں سے بلند تر ہے۔ جمشید کے پاس جو درخشاں علم تھا وہ اس لیے اس کو حفاظت سے رکھتا تھا کہ اس ملکہ نامور کے سپرد کر دے۔
خسرو کی طرف سے ترنج زر اور اس کے ساتوں خزانے بغیر زحمت اٹھائے ہوئے ملکہ کو بہ طور تحفہ ملے ہیں۔
وہ تخت سلیمان جس کو ہوا اپنے کاندھوں پر لے جاتی تھی فرشتۂ غیب نے ملکہ کے سامنے بطور پیش کش پیش کیا ہے۔
تم نہیں دیکھتے ہو کہ پہاڑوں میں پتھروں کے جگر سے گوہر رنگارنگ برآمد ہوتے ہیں، سورج کو اس کے تاج کا خیال رہتا ہے۔ ورنہ اسے موتیوں سے کیا کام۔
اگر وہ (ملکہ وکٹوریہ) موتی لٹا نے کا ارادہ کریں اور لٹائیں تو (کثرت بخشش سے یہ حالت ہو گی کہ) اگر کوئی شخص ان موتیوں کو شمار کرنا چاہے گا تو شمار کرتے کرتے اس کی انگلیاں گھس جائیں گی۔
اس کی فوج کے خوف سے جو لڑائی کے وقت دریاؤں اور پہاڑوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ پہاڑوں میں اژدہے اور دریاؤں میں نہنگ سر پٹک کر مر جائیں گے۔
اس کی شان و شوکت کا یہ عالم کہ بڑے بڑے بادشاہ (اس کے درکے) گدا ہیں۔
اس کی ضیا بخشی اور کرم بے دریغ کا یہ فیض ہے کہ یہ سورج روشن ہے اور بادل میں برسنے کی صلاحیت ہے۔
وہ کرم و فیاضی سے اہل علم و دانش کو نوازتی ہیں اور ان کی دانش مندی کی برکت سے دوسرے لوگ صاحب خرد ہو جاتے ہیں۔ ان کی سخاوت حیرت آفریں ہے اور ان کی عقل رسا، ان کا نام ملکۂ عالم وکٹوریہ ہے۔ خدائے پاک ان کا نگہبان رہے (خدا کرے) اس محفل ہستی میں ان کا قیام دیر تک رہے”۔
اگر ملکہ عالم کی بخشش سے میں کچھ حاصل کر لوں گا تو اس دنیا سے ناکام نہیں جاؤں گا۔
"جب بات یہاں تک آ پہنچی تو میں خاموش ہو گیا، میں داستان کہنا نہیں چاہتا ہوں”۔
مکمل ہونے کے بعد اس کتاب کا نام "دستنبو” رکھا گیا (یہ کتاب) لوگوں کو دی گئی، اور ادھر ادھر بھیجی گئی تاکہ صاحبان علم و دانش کی روح کو تسکین بخشے، اور انشا پرداز (انداز نگارش پر) فریفتہ ہو جائیں۔ امید ہے کہ یہ مجموعۂ دانش (دستنبو) انصاف پسند لوگوں کے ہاتھوں میں گلدستہ پر رنگ و بو ہو گا اور شیطان فطرت لوگوں کی نگاہوں میں آتشیں گیند، آمین۔
"ہماری طبیعت جو ہمیشہ رواں رہتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم راز ہائے آسمانی کا سرچشمہ ہیں۔ یہ کتاب دساتیر ہی کا ایک حصہ ہے اس کاروانی کے لحاظ سے (گویا) ہم ساسان ششم ہیں”۔
اختتام
***
پروف ریڈنگ: جویریہ مسعود، اعجاز عبید
درستگی متن :۔ سید اویس قرنی (چھوٹا غالب)
[1] قلعہ معلیٰ کی ملازمت 1850ء کا واقعہ ہے. غالب 23 شعبان 1266ھ (مطابق 4جولائی 1850) جمعرات کے دن بہادر شاہ ظفر کے حضور پیش ہوۓ۔ خطاب و خلعت پایا (ص 367) میں اس تقریر پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔
[2] "افسوس، صد افسوس کہ شہنشاہ ملک سخن وری، خسروِ اقلیم معنی گستری ملک الشعرا خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق استاد حضور والا نے 23صفر شب آخر چہار شنبہ 1271ھ مطابق 15نومبر 1854ء عالم فانی سے بہ سوۓ عالم جاودانی رحلت کی”۔
(تتمہ دہلی اردو اخبار، بہ تاریخ 19 نومبر 1854ء مطابق 27صفر المظفر1271ھ)
[3] قلعے سے اپنے تعلق کی نوعیت کو سرسری بتانا محض اپنی مدافعت میں ہے، ورنہ انہیں حضور شاہ قرب ہر روزہ کی عزت حاصل تھی اور ان کی توقیر قلعے کے ممتاز ترین عہدوں پر فائز اصحاب سے کسی طرح کم نہیں تھی۔
"کاش آپ یہاں ہوتے اور میرا حال دیکھتے تو جانتے، ہر روز صبح کو قلعہ جانا، دوپہر کا آنا، بعد کھانا کھانے کے حضور (بہادر شاہ) کے مسودوں کا درست کرنا”۔
(بہ نام قدر بلگرامی، ما قبل 1857ء)
"بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی، ناظر، حکیم، کسی سے توقیر کم نہیں”۔ (بہ نام مجروح، 6 اپریل 1860ء)
"میرزا غالب کے کلیات فارسی کو دیکھا جاۓ تو بہادر شاہ کے متعلق 15قصائد مدحیہ، دو مدحیہ مثنویاں اور ایک ترجیع بند موجود ہے۔ اردو قصیدے یا قطعے ان کے علاوہ ہیں”۔
[4] غالب نے شیو نرائن کے نام 12 جون 1859ء کے ایک خط میں بھی اسی راۓ کا اظہار کیا ہے کہ "بہ نسبت حکیم احسن اللہ کے جو بات مشہور ہے، وہ محض غلط ہے”۔ لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے بعض معاصر شہادتوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ "یہ صحیح نہیں ہے کہ حکیم احسن اللہ خان کے خلاف بدگمانی بے اصل تھی۔
(غالب اور ابوالکلام، ص 165)
[5] حکیم احسن اللہ خان کے بارے میں سر سید احمد خان کا بیان ہے کہ حکیم صاحب کو کمال عزت و توقیر کے ساتھ جو پہلے والیِ فیروز پور جھرکہ، پھر والیِ جھجر اور ازاں بعد محمد اکبر شاہ بادشاہِ دہلی کے معالج خاص رہے، رفتہ رفتہ بہادر شاہ ظفر کی طبیعت پر یہاں تک تصرف ہوا کہ۔
"کوئی امر جزوی و کلی بے مشورہ و صلاح اس صاحب تدبیر صائب کے وقوع میں نہیں آ سکتا، وہ امر اگر چہ متعلق منصب وزارت ہی ہو، لیکن سبحان اللہ اس حوصلہ فطرت عالی پر ناز کرنا چاہیے کہ ہر چند ترقیِ مدارج یہاں تک ہے کہ فقیر و قطمیر قلعہ مبارک صرف اسی والا درجہ کی ذات پر موقوف اور مدارج جمیع امور سرکار بادشاہی کا اسی بلند اقتدار پر منحصر ہے، خلق کو اس مرتبے پر وسیع کیا ہے کہ ہر ادنیٰ کی کار روائی میں وسعت سے زیادہ مصروف ہونا اور ہر صاحب غرض کے التماس کو بدل متوجہ ہو کر سماعت کرنا، اہالیِ شہر سے کم ہو گا کہ ان کو اپنا محسن نہ سمجھتا ہو”۔
(آثار الصنادید، طبع اول: مطبع سید الاخبار 1846-47ء، باب چوتھا)
غالب نے بھی حکیم صاحب کو اپنا "محسن” بتایا ہے (بہ نام تفتہ، 16دسمبر 1858ء) ایک دوسرے خط میں غالب نے حکیم احسن اللہ خان کے بارے میں لکھا ہے کہ:
"پروردگار اس بزرگوار کو سلامت رکھے کہ قدردان کمال، بلکہ حق تو یوں ہے کہ خیر محض ہے”۔
(بہ نام شفق، اکتوبر 1853ء)
[6] یہاں (دہلی) کا حال یہ ہے کہ مسلمان امیروں میں تین آدمی (ان میں سے ایک) حکیم احسن اللہ خان، سو ان کا یہ حال ہے کہ روٹی ہے تو کپڑا نہیں، مع ہذا یہاں کی اقامت میں تذبذب، خدا جانے کہاں جائیں، کہاں رہیں”۔
(بہ نام شیو نرائن 12جون 1859ء)
"حکیم جی (احسن اللہ خان) کو ان کی حویلیاں مل گئ ہیں۔ اب وہ مع قبائل ان مکانوں میں جا رہے ہیں، اتنا حکم ان کو ہے کہ شہر سے باہر نہ جائیں”۔
(بہ نام تفتہ، 5 نومبر 1859ء)
"حکیم احسن اللہ خان کے مکانات شہر ان کو مل گۓ اور یہ حکم ہے کہ شہر سے باہر نہ جاؤ، دروازے سے باہر نہ نکلو، اپنے گھر میں بیٹھے رہو۔”
(بہ نام حسین مرزا، 9 نومبر 1859ء)
"حکیم صاحب پر سے وہ سپاہی جو ان کے اوپر متعین تھا، اٹھ گیا اور ان کو حکم ہو گیا کہ اپنی وضع پر رہو، مگر شہر میں رہو۔ باہر جانے کا اگر قصد کرو، تو پوچھ کر جاؤ اور ہر ہفتے میں ایک بار کچہری میں حاضر ہوا کرو”۔
(بہ نام غلام نجف خان، یک اپریل 1858ء)
[7] یہاں اس مضمون پر مشتمل رباعی غالب کے سہو سے رہ گئ تھی۔ غالب نے تفتہ کے نام 28اگست 1858ء کے ایک خط کے ذریعے اسے یہاں بہ تاکید اضافہ کرایا۔ شیو نرائن کے نام 31اگست 1858ء کے خط میں بھی اس رباعی کو ضرور بالضرور درج کرا دینے کی ہدایت ملتی ہے۔ رباعی یہ ہے۔
جائیکہ ستارہ شوخ چشمی و رزد
افسر افسار وگرزن ارزن ارزد
خرشید زاندیشہ جا در گردش
بر چرخ نہ بینی کہ چساں می لرزد
[8] انتخاب غالب (1865) میں اسی بات کو بہ طور "لطیفہ” غالب نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔
"1857ء میں جو میرٹھ سے باغی ترک سوار اور تلنگے دلی میں آۓ اور انہوں نے شہر اور قلعے پر اپنا قبضہ کر لیا تو وہ مئی کے مہینے کی گیارہ تاریخ تھی اور دو شنبے کا دن تھا۔ قضا را جس دن ستمبر 1857ء میں دلی فتح ہوئی اور سرکش لوگ بھاگ گۓ وہ بھی دو شنبے کا دن تھا۔ دو ایک دوستوں نے کہا کہ دیکھو کیا اتفاق ہے، دو شنبے کو دلی جانا اور پھر دو شنبے کو ہاتھ آنا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک رمز ہے اس کو یوں تصور کرو کہ جس دن شکست کھائی اسی دن فتح پائی۔ یعنی دیر نہ لگی، ایک دن میں تدارک ہو گیا۔”
[9] یہ بے خوفی، اطمینان قلب اور استقامت و جرات کردار کا اظہار محض ملمع اور دکھاوا ہے۔ غالب کے خطوط اس کی تردید کرتے ہیں اور ایک بالکل مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
[10] میں حکیم محمد حسن خان مرحوم کے مکان میں نو دس برس سے کرایے پر رہتا ہوں اور یہاں قریب کیا، دیوار بہ دیوار ہیں گھر حکیموں کے اور وہ نوکر ہیں راجہ نرندر سنگھ بہادر والیِ پٹیالہ کے۔ راجا صاحب نے صاحبان عالی شان (انگریز حکام) سے عہد لیا تھا کہ بر وقتِ غارت دہلی یہ لوگ بچے رہیں۔ چنانچہ بعد فتح راجا صاحب کے سپاہی یہاں آ بیٹھے اور یہ کوچہ محفوظ رہا ورنہ میں کہاں اور شہر کہاں۔”
[11] زین العابدین عارف (باپ) اور بستی بیگم عرف نواب دلہن ماں کے بچوں باقر علی خان اور حسین علی خان سے مراد ہے۔ عارف، غالب کی اہلیہ امراؤ بیگم کی بڑی بہن بنیادی بیگم کے صاحبزادے تھے۔ تفصیل کے لیے رجوع کیجیے۔
ذکر غالب، مالک رام، طبع چہارم ص 76,149
[12] غالب نے "ملکۂ معظمہ ہند و انگلینڈ کی مداحی میں وہ پایۂ بلند و رتبۂ ارجمند پایا کہ ابتداۓ عمل داریِ سرکار سے کسی ہندوستان کے لیے اس کا دسواں حصہ دیکھنے میں نہیں آیا۔۔ آگے ایک قصیدہ ملکۂ معظمہ کی شان میں کہا تھا، نظر انور سے گزرنے کو ولایت میں بھیجا تھا۔ فروری 1857ء میں جناب رسل کلرک صاحب بہادر نے مصنف کو انگریزی چٹھی لکھی ولایت سے کہ تمہارے قصیدے کے انعام کا مقدمہ زیر تجویز ہے۔ بعد صدور حکم، انڈیا گورنمنٹ سے اس کی اطلاع پاؤ گے۔ ناگاہ مئ سنہ مذکور میں سر زمین ہند پر آسمان ٹوٹا۔ فوج حوادث نے کل متاع امید کو لوٹا۔ بہتیرے بے گناہ یوں زیر آسیاۓ گردوں پسے، جس طرح چکی کے پاٹ تلے گیہوں پستا ہے۔ کیا آغاز تھا کیا انجام ہوا کہ ہر مترصد بھی ناکام ہوا۔ نواب صاحب (مرزا اسداللہ خان غالب) کا وہ معاملہ گویا خواب تھا جب آنکھ کھلی تو کچھ نہ دیکھا۔ عجب نہیں کہ پرورش سلطانی پھر توجہ فرماۓ۔ عین حالتِ یاس میں لطفِ خسروانی سے امید بر آۓ۔”
(اودھ اخبار، لکھنو، 12 مارچ 1862ء، ص 185)
[13] انگریز حکام کی ان تحریروں کو غالب اپنے حق میں سرٹیفیکٹ خیال کرتے تھے۔ غالب نے وائی رام پور کے نام، ہفتم نومبر 1858ء کے خط میں اسی حصہ کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
[14] فروری 1859ء کے ایک خط بنام مجروح میں بھی غالب نے کرنل "براؤن” لکھا ہے۔ "انتخاب غالب” (1865)ء میں بھی "براؤن” درج ہے، لیکن جیسا کہ قاضی عبدالودود صاحب نے بتایا ہے، یہ دراصل "برن” ہے Mallesonکی تاریخ بغاوت ہند جلد2 میں ہے۔
"کرنیل Burn جو رخصت ہونے کی وجہ سے فوج کے ساتھ نہ تھے، مگر اب آ گۓ تھے۔ بہ تاریخ 21ستمبر 1857ء دہلی کے فوجی گورنر مقرر ہوۓ۔”
(جہان غالب، معاصر، پٹنہ، حصہ 4 ص 3)
[15] انتخاب غالب میں غالب نے اس واقعے کو بہ طور نقل ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔
"غدر کے دنوں میں نہ شہر سے نکلا نہ پکڑا گیا، نہ میری روبکاری ہوئ۔ جس مکان میں رہتا تھا، وہیں بہ دستور بیٹھا رہا۔ بلی ماروں کے محلے میں میرا گھر تھا۔ ناگاہ ایک دن آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کر اس خاص کوچے میں اتر آۓ، جہاں میں رہتا تھا۔ اس کوچے میں بہ ہمہ جہت 50 یا 60 ادمی کی بستی ہو گی۔ سب کو گھیر لیا اور اپنے ساتھ لے چلے۔ مگر گرفتار نہیں کیا اور کسی کو بے حرمت نہیں کیا، نرمی سے لے چلے۔ راہ میں سرجن بھی آ ملا۔ وہ مجھے کرنل برون کے پاس لے گیا۔ وہ چاندنی چوک حافظ قطب الدین سوداگر کی حویلی میں اترے ہوۓ تھے۔ باہر نکل آۓ اور میرا صرف نام پوچھا، اوروں سے نام بھی نہ پوچھا کرنل صاحب نے فرمایا کہ اسداللہ خاں بڑے تعجب کی بات ہے کہ باؤٹے پر نہ آۓ۔ میں نے کہا کہ تلنگے، دروازے سے باہر آدمی کو نکلنے نہیں دیتے تھے۔ میں کیوں کر آتا؟ پھر میری صورت کو دیکھیے اور میرا حال معلوم کیجے، بوڑھا ہوں، پاؤ ں سے اپاہج، کانوں سے بہرا، نہ لڑائی کے لائق نہ مشورت کے قابل۔ ہاں، دعا کرنا، سو یہاں بھی دعا کرتا رہا۔ کرنل صاحب ہنسے اور فرمایا: "اچھا، تم اپنے گھر جاؤ اور اپنے نوکروں اور اپنے علاقہ داروں کو ساتھ لے جاؤ باقی اہل محلہ سے غرض نہ رکھو۔ میں خدا کا شکر بجا لا یا اور کرنل صاحب کو دعا دیتا ہوا اپنے گھر آیا”۔
غالب کے ہم زلف نواب غلام حسین کی روایت اس بارے میں قدرے مختلف ہے۔ دیکھیے۔
غالب نام آور، کراچی، 1969ء ص 115
[16] التزام اس کا کیا ہے کہ "دساتیر” کی عبارت یعنی پارسیِ قدیم لکھی جاۓ اور کوئی لفظ عربی نہ آۓ جو نظم اس نثر میں درج ہے، وہ بھی بے آمیزش لفظ عربی ہے۔ ہاں اشخاص کے نام نہیں بدلے جاتے، وہ عربی، ہندی، انگریزی جو ہیں وہ لکھ دیتے ہیں مثلاً تمہارا نام "منشی ہر گوپال” منشی لفظ عربی ہے، نہیں لکھا گیا۔ اس کی جگہ "شیوازبان” لکھ دیا ہے”۔ بہ نام تفتہ: ہفدہم اکست 1858ء
[17] یہ ہنڈی سو روپے کی تھی۔ روز شنبہ سی ایم جنوری 1858ء کے ایک خط میں غالب نے تفتہ کو لکھا تھا کہ: "مئی (1857ء) سے پنسن نہیں پایا۔ کہ، یہ دس مہینے کیوں کر گزرے ہوں گے۔ انجام کچھ نظر نہیں آتا کہ کیا ہو گا۔ زندہ ہوں مگر زندگی وبال ہے۔ اس پر تُفتہ نے بڑی عجلت دکھائی اور فی الفور سو روپے کی مالیتی ہنڈی بھجوائی۔ غالب نے اس کی رسید دیتے ہوۓ اس رقم کا قصہ جس طرح تمام ہوا اس کی جو تفصیل لکھی ہے وہ لطف سے خالی نہیں: سو روپے کی ہنڈی بل جو کچھ کہیے ملا۔ ایک آدمی رسیدِ مہری لے کر نیل کے کڑے میں چلا گیا، سو روپے چہرۂ شاہی لے آیا، آنے جانے کی دیر ہوئی اور بس جو بیس روپے داروغہ کی معرفت اٹھے تھے وہ دیے گۓ۔ پچاس روپے محل میں بھیج دیے۔ چھبیس روپے باقی رہے وہ بکس میں رکھ لیے۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے۔ بھائی بری آ بنی ہے، انجام اچھا نظر نہیں آتا، قصہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔
(بہ نام تفتہ: 3فروری 1858ء)
[18] غالب کے خطوں سے اس بیان کی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔ میں مع زن و فرزند ہر وقت اسی شہر میں قلزم خوں کا شناور رہا ہوں۔ دروازے سے باہر قدم نہیں رکھا، نہ پکڑا گیا نہ نکالا گیا، نہ قید ہوا، نہ مارا گیا۔ کیا عرض کروں میرے خدا نے مجھ پر کیسی عنایت کی جان و مال اور آبرو میں کسی طرح کا فرق نہیں اتا۔
(غالب بہ نام محمد امیر در نامہ سرور، ستمبر 1860ء)
[19] کپڑے بچنے کا ذکر ان ہی ایام کے ایک خط میں اس طرح کیا ہے: "کئ دن ہوۓ۔ جو میں نے ایک ولایتی چغہ اور ایک شال رومال ڈھائی گز ایک دلال کو دیا اور وہ اس وقت روپیہ لے کر آیا۔” (تفتہ، 18 جولائی 1858ء)۔
قریب سوا سال بعد تفتہ ہی کو لکھتے ہیں۔
"پکڑا ایام تنعم کا بنا ہوا بھی ہے۔ اس کی فکر کچھ نہیں”۔ (5 نومبر 1859ء)
اس ترجمے کی قرات کے فوری بعد مجھے rekhta.org/ebooks/dastanbouy-mirza-ghalib-ebooks?lang=ur پر پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کا مترجمہ نسخہ ملا، جو ترقی اردو بیورو نئی دہلی سے 2000ء میں شائع ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ دونوں تراجم لفظ بہ لفظ ہی نہیں، حرف بہ حرف ایک ہیں۔
غالب شناسوں سے التماس ہے کہ اصل مترجم کی طرف رہنمائی فرمائیں۔
خالد ندیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
سرگودھا یونیورسٹی پاکستان
اللہ تعالیٰ رشید حسن خاں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، کیا یہ شاندار ترجمہ کیا ہے، بالکل اسلوبِ غالب میں۔ کہیں ایسا شائبہ نہیں ہوتا کہ یہ عبارت اصلاً فارسی میں ہے اور جسے کسی نے اردو میں ڈھالا ہے؛ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عبارت لکھی ہی اردو میں ہے۔