FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اکابر دیوبند کیا تھے؟

مولانا محمد تقی عثمانی

 

دو باتیں

اکابر دیوبند کیا تھے؟ اس کا جواب مختصر لفظوں میں یوں بھی دیا جا سکتا ہے کہ وہ خیر القرون کی یادگار تھے، سلف صالحین کا نمونہ تھے، اسلامی مزاج و مذاق کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لیکن ان مختصر جملوں کی تشریح و تفصیل کرنے بیٹھیں تواس کے لیے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خصوصیات کو لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ان کی خصوصیات کا تعلق درحقیقت اس مزاج و مذاق سے ہے جو صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم) کی سیرتوں اور اُن کے طرزِ زندگی سے مستنیر تھا اور مزاج و مذاق وہ چیز ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن الفاظ کے ذریعے ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح گلاب کی خوشبو کو سونگھا تو جا سکتا ہے لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں ۔ اسی طرح اُن حضرات کے مزاج و مذاق کو ان کی صحبتوں اور ان کے واقعات سے سمجھا جا سکتا ہے مگر اس کی منطقی تعبیر ناممکن ہے۔

لہٰذا اس مضمون میں اکابر دیوبند کی خصوصیات و امتیازات کو نظری طور سے بیان کرنے کے بجائے اُن کے چند متفرق واقعات سنانے مقصود ہیں جن سے ان کی خصوصیات زیادہ واضح اور آسان طریقے سے سمجھ میں آسکیں گی … وباللّٰہ التوفیق!

علم و فضل اور اُس کے ساتھ تواضع و للہیت

اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہو تو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم و فضل کے سمندر سینے میں جذب کر لینے کے باوجود اُن کی تواضع، فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے‘‘ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:

۱- بانیِ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم بحر نا پیدا کنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ’’میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔‘‘

اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

’’اب بھی مولانا (نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور و خوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے‘‘۔(۱)

ایسے وسیع و عمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم و فضل کا زبردست پندار پیدا ہو جایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں :

’’جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔‘‘(۲)

چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمۃ اللہ علیہ:

’’حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس طالب علم کے اندر تکبر دیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھا لیا کرتے تھے‘‘۔(۳)

۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ابوحنیفۂ عصر‘‘ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ واقعہ سناتے ہیں کہ:

’’حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آ گئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ سب طلباء کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اُٹھا کر لے چلیں ۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے‘‘(۴)

۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم و فضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ راوی ہیں کہ ’’ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہو گئے اور حدیث ’’فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد‘‘ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:

’’ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘

مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ: ’’یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائز نہیں ۔‘‘

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کا اندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:

’’مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہو گئی، یعنی آپ کی شہادت۔‘‘

چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرما دیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ’’غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں ‘‘ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کا ترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔‘‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ فرمایا کہ ’’حدیث وحی میں ہے یاتینی مثل صلصلۃ الجرس وہو أشدّ علیّ‘‘ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں ؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔(۵)

۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر ہو گی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آ گیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیں آ ئے تھے۔ جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام کا اندازہ ہو گا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کر کے فوراً ختم کر دیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:

’’حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟‘‘

شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ’’ہاں ! دراصل یہی خیال مجھے بھی آ گیا تھا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ تعالی کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کر دی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گرا کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہو کر اُس نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہو گئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھا تھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس عمل سے حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ کی یہ سنت تازہ فرما دی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہو رہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔(۶)

۵- مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمد معین الدین صاحب معقولات کے مسلّم عالم تھے۔ انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر پہنچ گئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ’’مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملنا ہے‘‘ وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہاکہ ’’ابھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘ مولانا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو پلایا۔ اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ ’’حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے‘‘ اُن صاحب نے فرمایا ’’آپ بے فکر رہیں اور آرام سے تشریف رکھیں ‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ’’میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں، آپ اُنھیں اطلاع کر دیجیے‘‘۔ ان صاحب نے فرمایا ’’اُنھیں اطلاع ہو گئی ہے آپ کھانا تناول فرمائیں ابھی ملاقات ہو جاتی ہے‘‘ مولانا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کھانا کھا لیا تو اُن صاحب نے اُنھیں پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ جب دیر گزر گئی تو مولانا اجمیری رحمۃ اللہ علیہ برہم ہو گئے اور فرمایا کہ آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیا تھا اور اتنی دیر ہو چکی ہے، ابھی تک آپ نے اُن سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ:

’’دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں ۔ البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے۔‘‘

مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کیا چیز ہیں ؟‘‘(۷)

۶- امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ ’’اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی رحمۃ اللہ علیہ جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔‘‘ یہ واقعہ بیان کر کے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘(۸)

انہی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ حضرت مولانا محمد انوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ بھاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قادیانیوں کے کفر پر بے نظیر تقریر فرمائی اوراس میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اُس کا منکر کافر ہے‘‘ تو قادیانیوں کے گواہ نے اس پر اعتراض کیا:

’’آپ کو چاہیے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ پر کفر کا فتویٰ دیں کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں علامہ بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے متواتر معنوی انکار کیا ہے۔‘‘

اس وقت بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، سب کو پریشانی ہوئی کہ فواتح الرحموت اس وقت پاس نہیں ہے، اس اعتراض کا جواب کس طرح دیا جائے؟ مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ جو اس واقعے کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں :

’’ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہ تھی۔ مولانا عبد اللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارنپور اور مولانا مرتضی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیران تھے کہ کیا جواب دیں گے؟‘‘

لیکن اسی حیرانی کے عالم میں حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آواز گونجی: ’’جج صاحب! لکھیے، میں نے بتیس سال ہوئے، یہ کتاب دیکھی تھی، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث لاتجتمع امتی علی الضلالۃ تواتر معنوی کے رُتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انھوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایا ہے، نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان کو کہو کہ عبارت پڑھیں ۔ ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں ۔‘‘

چنانچہ قادیانی شاہد نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا اور حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’جج صاحب! یہ صاحب ہمیں مُفحم (لاجواب) کرنا چاہتے ہیں ۔ میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دوچار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ مُفحم نہیں ہونے کا۔‘‘(۹)

ایک طرف علم و فضل اور قوت حافظہ کا یہ محیرالعقول کارنامہ دیکھیے کہ بتیس سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کتنی جزرسی کے ساتھ یاد رہا، دوسری طرف اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کتنے بلند بانگ دعوے کرتا، لیکن خط کشیدہ جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کر رہا ہے؟ اور یہ محض لفظ ہی نہیں ہیں، وہ واقعتاً اپنے تمام کمالات کے با وصف اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اوراس دعائے نبوی کے مظہر تھے کہ اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی أعین النّاس کبیرا.

 حضرت مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ ہی راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کشمیر تشریف لے جا رہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ اڈّے پر تشریف فرما تھے، ایک پادری آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم دین ہیں ۔ فرمایا ’’نہیں ! میں طالب علم ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’آ پ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟‘‘ فرمایا ’’کچھ کچھ‘‘ پھر اُن کی صلیب کے متعلق فرمایا کہ ’’تم غلط سمجھے ہو۔ اس کی یہ شکل نہیں ہے۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر چالیس دلائل دیے۔ دس قرآن سے دس تورات سے، دس انجیل سے اور دس عقلی۔ وہ پادری آپ کی تقریر سن کر کہنے لگا کہ اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتا تو میں مسلمان ہو جاتا، نیز یہ کہ مجھے خود اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئیں ۔(۱۰)

۷- احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم نے بار بار یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب میں دارالعلوم دیوبند میں ملاّحسن پڑھاتا تھا تو ایک روز اس کی عبارت پر کچھ شبہ ہوا جو حل نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے سوچاکہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں استفسار کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں کتاب لے کران کی تلاش میں نکلا، وہ اپنی جگہ پر نہیں تھے اور جب وہ اپنی جگہ پرنہ ہوں تو ان کا کتب خانہ میں ہونا متعین تھا۔میں کتب خانہ میں پہنچا تو وہ کتب خانے کی بالائی گیلری میں بیٹھے مطالعہ میں مشغول تھے۔ میں ابھی نیچے ہی تھا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا اور اوپر ہی سے میرے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ ’’ملاحسن کے ایک مقام پر کچھ اشکال ہے وہ سمجھنا تھا۔‘‘ وہیں بیٹھے بیٹھے فرمایا ’’عبارت پڑھیے‘‘ میں نے عبارت پڑھنی شروع کی تو بیچ ہی میں روک کر فرمایا: ’’اچھا ! یہاں آپ کو یہ شبہ ہوا ہو گا‘‘ اور پھر بعینہ وہی اشکال دُہرا دیا جو میرے دل میں تھا۔ میں نے تصدیق کی کہ واقعی یہی شبہ ہے، اس پر انھوں نے اس کے جواب میں وہیں سے ایسی تقریر فرمائی کہ تمام اشکال کافور ہو گئے۔

اب ظاہر ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ عرصہ دراز سے حدیث کی تدریس میں مصروف تھے اور منطق کی کتابوں سے واسطہ تقریباً ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ حافظہ اور یہ استحضار کرشمۂ قدرت نہیں تو اور کیا ہے؟

۸- احقر نے اپنے والد ماجد سے بھی سنا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مدظلہم سے بھی کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۲۱ھ میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کی مشہور شرح ہدایہ ’’فتح القدیر‘‘ اور اس کے تکملہ کا مطالعہ بیس سے کچھ زائد ایام میں کیا تھا اور کتاب الحج تک اس کی تلخیص لکھی تھی اور انھوں نے صاحب ہدایہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا جواب بھی لکھا تھا۔ اس کے بعد مدت العمر ’’فتح القدیر‘‘ کی مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور کسی تازہ مطالعہ کے بغیر اس کی نہ صرف باتوں بلکہ طویل عبارتوں تک کا حوالہ سبق میں دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ انھوں نے ۱۳۴۷ھ میں ہم سے یہ واقعہ بیان کیا اور فرمایا:

’’چھبیس سال ہوئے پھر مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور جو مضمون اس کا بیان کروں گا، اگر مراجعت کرو گے تفاوت کم پاؤ گے۔‘‘(۱۱)

۹- حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب مدظلم حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ درس سے فراغت کے بعد میں جب بھی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو پہلے سے لکھے ہوئے متعدد سوالات کے جواب اُن سے معلوم کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کی حاضری میں ترمذی شریف کی ایک عبارت کا حوالہ میں نے دیا اور عرض کیا کہ اس عبارت میں یہ اشکال ہے، بہت غور کیا لیکن حل نہیں ہوسکا۔ فرمایا ’’مولوی صاحب! آپ کو یاد نہیں رہا، مجھے خوب یاد ہے کہ جس سال آپ دورہ میں تھے اس موقع پر میں نے بتایا تھا کہ یہاں ترمذی کے اکثر نسخوں میں ایک غلطی واقع ہو گئی ہے لیکن لوگ سرسری طور پر گزر جاتے ہیں اور انھیں پتہ نہیں چلتا، ورنہ یہ اشکال سب کو پیش آنا چاہیے‘‘ پھر فرمایا کہ ’’صحیح عبارت اس طرح ہے‘‘ مولانا نعمانی مدظلہم لکھتے ہیں :

’’اللہ اکبر! یہ بات بھی یاد رہتی تھی کہ فلاں سال اس موقع پر سبق میں یہ بات فرمائی تھی‘‘۔(۱۲)

۱۰- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک تصنیف کے سلسلہ میں ابوالحسن کذاب کے حالات کی ضرورت تھی۔ مجھے ان کی تاریخ نہ ملی۔ چنانچہ میں حسب معمول حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درِ دولت پر پہنچ گیا۔ اس وقت مرضِ وفات اپنی آخری حد پر پہنچ چکا تھا اور دو تین ہفتے بعد وصال ہونے والا تھا۔ کمزور بے حد ہو چکے تھے۔ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے آنے کی غرض بتائی تو انھوں نے فرمایا کہ ادب اور تاریخ کی کتابوں میں فلاں فلاں مواقع کا مطالعہ کر لیجیے اور تقریباً آٹھ دس کتابوں کے نام لے دیے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے تو کتابوں کے اتنے اسماء یاد بھی نہ رہیں گے۔ نیز انتظامی مہمات کے بکھیڑوں میں اتنی فرصت بھی نہیں کہ چند جزوی مثالوں کے لیے اتنا طویل و عریض مطالعہ کروں ۔ بس آپ ہی اس شخص کی دروغ گوئی کے متعلقہ واقعات کی دوچار مثالیں بیان فرما دیں، میں اُنہی کو آپ کے حوالہ سے جزوِ کتاب بنا دوں گا۔ اس پر مسکرا کر ابوالحسن کذاب کی تاریخ، اُس کے سن ولادت سے سن وار بیان فرمانی شروع کر دی جس میں اس کے جھوٹ کے عجیب و غریب واقعات بیان فرماتے رہے۔ آخر میں سن وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص مرتے مرتے بھی جھوٹ بول گیا پھر اُس جھوٹ کی تفصیل بیان فرمائی۔

حیرانی یہ تھی کہ یہ بیان اس طرز سے ہو رہا تھا کہ گویا حضرت ممدوح نے آج کی شب میں مستقلاً اسی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو اس بسط سے سن وار واقعات بیان فرما رہے ہیں چنانچہ میں نے تعجب آمیز لہجے میں عرض کیا کہ ’’حضرت! شاید کسی قریبی زمانے ہی میں اس کی تاریخ دیکھنے کی نوبت آئی ہو گی؟‘‘ سادگی سے فرمایا ’’جی نہیں ! آج سے تقریباً چالیس سال کا عرصہ ہوتا ہے جب میں مصر گیا ہوا تھا۔ خدیوی کتب خانہ میں مطالعہ کے لیے پہنچا تو اتفاقاً اسی ابوالحسن کذاب کا ترجمہ سامنے آ گیا اور اس کا مطالعہ دیر تک جاری رہا، بس اسی وقت جو باتیں کتاب میں دیکھیں حافظہ میں محفوظ ہو گئیں اور آج آپ کے سوال پر مستحضر ہو گئیں جن کا میں نے اس وقت تذکرہ کیا‘‘۔(۱۳)

۱۱- یہی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے دور میں جب امارتِ شرعیہ (عوام کی طرف سے قاضی مقرر کرنے) کامسئلہ چھڑا تو مولوی سبحان اللہ خاں صاحب گورکھپوری نے اپنے بعض نقاطِ نظر کی تائید میں بعض سلف کی عبارت پیش کی جو ان کے نقطۂ نظر کی تو مؤید تھی مگر مسلک جمہور کے خلاف تھی۔ یہ عبارت وہ لے کر خود دیوبند تشریف لائے اور مجمع علماء میں اُسے پیش کیا۔ تمام اکابر دارالعلوم حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے میں جمع تھے۔ حیرانی یہ تھی کہ نہ اس عبارت کو ردّ ہی کرسکتے تھے کہ وہ سلف میں سے ایک بڑی شخصیت کی عبارت تھی اور نہ اُسے قبول ہی کرسکتے تھے کہ مسلک جمہور کے صراحتاً خلاف تھی۔ یہ عبارت اتنی واضح اور صاف تھی کہ اُسے کسی تاویل و توجیہ سے بھی مسلک جمہور کے مطابق نہیں کیا جا سکتا تھا۔

حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ استنجا کے لیے تشریف لے گئے تھے وضو کر کے واپس ہوئے تو اکابر نے عبارت اور مسلک کے تعارض کا تذکرہ کیا اور یہ کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق بن نہیں پڑتی۔ حضرت ممدوح رحمۃ اللہ علیہ حسب عادت ’’حسبنا اللہ‘‘ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور عبارت کو ذرا غور سے دیکھ کر فرمایا کہ اس عبارت میں جعل اور تصرف کیا گیا ہے۔اُسی وقت کتب خانہ سے کتاب منگائی گئی۔ دیکھا تو واقعی اصل عبارت میں سے پوری ایک سطر درمیان سے حذف ہوئی تھی۔ جونہی اس سطر کو عبارت میں شامل کیا گیا عبارت کا مطلب مسلک جمہور کے موافق ہو گیا اور سب کا تحیر رفع ہو گیا۔(۱۴)

۱۲- حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہو گیا۔ فریقین نے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حکم بنایا۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں کے دلائل غور سے سنے۔ اُن میں سے ایک فریق اپنے موقف پر فتاویٰ عمّادیہ کی ایک عبارت سے استدلال کر رہا تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخہ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کر رہے ہیں ۔‘‘(۱۵)

ایسے علم و فضل اور ایسے حافظہ کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے، لیکن حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس قافلۂ رُشد و ہدایت کے فرد تھے جس نے مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا۔ چنانچہ اسی واقعہ میں جب انھوں نے حضرت مولانا بنوری مدظلہم کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام کے ساتھ ’’الحبر البحر‘‘ (عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجہ میں مولانا بنوری سے فرمایا:

’’آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے‘‘۔(۱۶)

پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو، اُس کا یہ جملہ ادب و تعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:

’’میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہو کر مطالعہ کرتا ہوں ۔‘‘

چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں :

’’سفر و حضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدّب انداز میں بیٹھتے، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہوں ۔‘‘

اور یہ بھی فرمایا کہ:

’’میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کیا۔‘‘(۱۷)

۱۳- دارالعلوم کی تاریخ میں یہ جملہ بہت معروف ہے کہ دارالعلوم کی ابتداء دو ایسے بزرگوں سے ہوئی جن دونوں کا نام محمود تھا اور دونوں قصبۂ دیوبند کے باشندے تھے۔ ان میں شاگرد تو وہ محمود تھے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے معروف ہوئے اور استاد حضرت ملا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ملا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سنن ابن ماجہ پر جو حاشیہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کا بڑا حصہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے لکھوایا ہے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ طلباء نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ علم کے دعوے اور نام و نمود کی خواہشات سے اللہ تعالیٰ نے اس فرشتۂ خصلت بزرگ کو ایساپاک رکھا تھا کہ عام آدمی کو یہ پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم ہیں ۔

اپنا گھریلو سوداسلف اور گوشت ترکاری خود بازار سے خرید کر لاتے اور گھر میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے مگر علوم کے استحضار اور حفظ کا عالم یہ تھا کہ راقم کے جدِّ امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی کتاب (جو غالباً منطق یا اصولِ فقہ کی کتاب تھی) اتفاقاً درس سے رہ گئی تھی، انھیں یہ فکر تھی کہ دورۂ حدیث شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب پوری ہو جائے چنانچہ انھوں نے مُلاّ محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی۔ ملا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اوقاتِ مدرسہ کے علاوہ بھی میرے تمام اوقات اسباق سے بھرے ہوئے ہیں، صرف ایک وقت ہے کہ جب میں گھر کا گوشت ترکاری لینے کے لیے بازار جاتا ہوں، یہ وقت خالی گزرتا ہے، تم ساتھ ہو جاؤ تو اس وقفے میں سبق پڑھا دوں گا۔ احقر کے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کتاب بڑی اور مشکل تھی جس کو دوسرے علماء غور و مطالعہ کے بعد بھی مشکل سے پڑھا سکتے تھے۔ مگر مُلاّ محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ راستہ میں کچھ قصاب کی دوکان پر یہ تمام کتاب ہمیں اس طرح پڑھا دی کہ کوئی مشکل ہی نظر نہ آئی۔(۱۸)

۱۴- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنی قوتِ استعداد، ذہانت و فطانت اور علم و عمل میں مصروف تھے لیکن جب ۱۳۰۰ھ میں آپ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے، اور دستاربندی کے لیے دیوبند میں بہت بڑا اور شاندار جلسہ منعقد کرنے کی تجویز ہوئی تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہم سبقوں کو لے کر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ’’حضرت! ہم نے سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستاربندی کی جائے گی اور سند فراغ دی جائے گی۔ حالانکہ ہم اس قابل ہرگز نہیں لہٰذا اس تجویز کو منسوخ فرما دیا جائے ورنہ اگر ایسا کیا گیا تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہو گی کہ ایسے نالائقوں کو سند دی گئی۔‘‘ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ سن کر جوش آ گیا اور فرمایا کہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے، یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نہیں آتی اور ایساہی ہونا چاہیے، باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہو گی، جہاں جاؤ گے بس تم ہی تم ہو گے۔(۱۹)

 

سادگی اور مخلوقِ خدا کا خیال

۱۵- حضرت مولانا مظفرحسین کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھی اکابرِ دیوبند میں ہے۔ ان کے علم و فضل کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت شاہ محمد اسحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بلاواسطہ شاگرد اور حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم سبق ہیں ۔ وہ ایک مرتبہ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملا جو بوجھ لیے جا رہا تھا، بوجھ زیادہ تھا اور وہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حال دیکھا تو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا وہاں پہنچا دیا۔ اس بوڑھے نے اُن سے پوچھا! ’’اجی! تم کہاں رہتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’بھائی! میں کاندھلہ میں رہتا ہوں ‘‘۔ اس نے کہا: ’’وہاں مولوی مظفرحسین بڑے ولی ہیں ‘‘ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفیں کیں، مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے، ہاں نماز تو پڑھ لے ہے‘‘۔ اس نے کہا ’’واہ میاں ! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟‘‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں ٹھیک کہتا ہوں ‘‘ وہ بوڑھا اُن کے سرہو گیا، اتنے میں ایک اور شخص آ گیا جو مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو جانتا تھا، اس نے بوڑھے سے کہا ’’بھلے مانس! مولوی مظفرحسین یہی ہیں ‘‘ اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔(۲۰)

۱۶- انہی مولانا مظفرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عادت یہ تھی کہ اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا کرتے تھے اور اپنے تمام رشتہ داروں کے گھر تشریف لے جاتے جس کسی کو بازار سے کچھ منگانا ہوتا اس سے پوچھ کر لا دیتے اور طُرّہ یہ کہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس پیسے کم ہوتے تھے، عموماً چیزیں غلّے کے عوض خریدی جاتی تھیں چنانچہ آپ گھروں سے غلّہ باندھ کر لے جاتے اوراس سے اشیاء ضرورت خرید کر لاتے تھے۔(۲۱)

۱۷- یہی حال دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ علم و فضل کا تو یہ عالم کہ آج ان کی ’’عزیز الفتاویٰ‘‘ عہد حاضر کے تمام مفتیوں کے لیے مآخذ بنی ہوئی ہے اور فتویٰ کے ساتھ شغف کا یہ حال کہ وفات کے وقت بھی ایک استفتاء ہاتھ میں تھا جسے موت ہی نے ہاتھ سے چھڑا کر سینے پر ڈال دیا تھا۔(۲۲) لیکن سادگی، تواضع اور خدمت خلق کا یہ مقام کا والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں :

’’کوئی کیسے سمجھے کہ یہ کوئی بڑے عالم یا صاحب کرامات صوفی اور صاحب نسبت شیخ ہیں جب کہ غایت تواضع کا یہ عالم ہو کہ بازار کا سودا سلف نہ صرف اپنے گھر کا بلکہ محلے کی بیواؤں اور ضرورت مندوں کا بھی خود لاتے، بوجھ زیادہ ہو جاتا تو بغل میں گٹھڑی دبا لیتے اور پھر ہر ایک کے گھرکا سودا مع حساب کے اس کو پہنچاتے۔‘‘ (۲۳)

راقم الحروف نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم ہی سے زبانی سنا کہ اسی سودا سلف لانے میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جب حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کسی عورت کو سودا دینے کے لیے جاتے تو وہ دیکھ کر کہتی: ’’مولوی صاحب! یہ تو آپ غلط لے آئے ہیں، میں نے یہ چیز اتنی نہیں اتنی منگائی تھی۔‘‘ چنانچہ یہ فرشتہ صفت انسان دوبارہ بازار جاتا اور اس عورت کی شکایت دور کرتا۔

۱۸- حضرت مولانا سیداصغرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو دیوبند میں حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لقب سے معروف تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے درجہ علیاء کے استاد تھے، ان سے ابوداؤد پڑھنے والے اب بھی برصغیر میں ہزاروں ہوں گے، علومِ قرآن وسنت کے بہت بڑے ماہر اور جملہ علوم و فنون کے کامل محقق، مگر بہت کم گو، حدیث کے درس میں نہایت مختصر مگر جامع تقریر ایسی ہوتی تھی کہ حدیث کا مفہوم دل میں اُتر جائے اور شبہات خود بخود کافور ہو جائیں ۔

انہی کا واقعہ ہے کہ آپ کا زنانہ مکان اور نشست گاہ کچی مٹی کی بنی ہوئی تھیں، ہر سال برسات کے مواقع پر اس کی لپائی پتائی ناگزیر تھی جس میں کافی پیسہ اور وقت خرچ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ راقم الحروف کے والد ماجد (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم) نے حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: ’’حضرت! جتنا خرچ سالانہ اس کی لپائی پر کرتے ہیں، اگر ایک مرتبہ پختہ اینٹوں سے بنانے میں خرچ کر لیں تو دو تین سال میں یہ خرچ برابر ہو جائے اور ہمیشہ کے لیے اس محنت سے نجات ہو۔‘‘

یہ سن کر پہلے تو فرمایا: ’’ماشاء اللہ بات تو بہت عقل کی کہی، ہم بوڑھے ہو گئے ادھر دھیان ہی نہ آیا۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد جو حقیقت حال تھی وہ بتائی اور تب پتہ چلا کہ یہ حضرات کس مقام سے سوچتے تھے؟ فرمایا کہ:

’’میرے پڑوس میں سب غریبوں کے کچے مکان ہیں، اگر میں اپنا مکان پکا بنوا لوں تو غریب پڑوسیوں کو حسرت ہو گی اور اتنی وسعت نہیں کہ سب کے مکان پکے بناؤں ‘‘۔

حضرت والد صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں :

’’اس وقت معلوم ہوا کہ یہ حضرات جو کچھ سوچتے ہیں وہاں تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہوسکتی، چنانچہ انھوں نے اس وقت تک اپنے مکان کو پختہ نہیں کیا جب تک پڑوسیوں کے مکان پکے نہیں بن گئے۔‘‘(۲۴)

۱۹- انہی حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب مدظلہم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے آموں سے تواضع کی جب آم چوس کر فارغ ہو گئے تو والد صاحب مدظلہم گٹھلیوں اور چھلکوں سے بھری ہوئی ٹوکری اُٹھا کر باہر پھینکنے کے لیے چلے، حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو پوچھا: ’’یہ ٹوکری کہاں لے کر چلے‘‘؟ عرض کیا: ’’چھلکے باہر پھینکنے جا رہا ہوں ‘‘ ارشاد ہوا ’’پھینکنے آتے ہیں یا نہیں ‘‘؟ والد صاحب نے کہا کہ ’’حضرت! یہ چھلکے پھینکنا کون سا خصوصی فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہو؟‘‘ فرمایا: ہاں ! تم اس فن سے واقف نہیں، لاؤ، مجھے دو‘‘، خود ٹوکری اُٹھا کر پہلے چھلکے گٹھلیوں سے الگ کیے، اس کے بعد باہر تشریف لائے اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے معین جگہوں پر چھلے رکھ دیے اور ایک خاص جگہ گٹھلیاں ڈال دیں، والد صاحب کے استفسار پر ارشاد ہوا کہ: ’’ہمارے مکان کے قرب و جوار میں تمام غرباء ومساکین رہتے ہیں، زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کو نانِ جویں بھی بمشکل ہی میسر آتی ہے، اگر وہ پھلوں کے چھلکے یکجا دیکھیں گے تو ان کو اپنی غریبی کا شدت سے احساس ہو گا اور بے مایگی کی وجہ سے حسرت ہو گی اور اس ایذا دہی کا باعث میں بنوں گا اس لیے متفرق کر کے ڈالتا ہوں اور وہ بھی ایسے مقامات پر جہاں جانوروں کے گلے گزرتے ہیں، یہ چھلکے ان کے کام آ جاتے ہیں اور گٹھلیاں ایسی جگہ رکھی ہیں جہاں بچے کھیلتے کودتے ہیں، وہ ان گٹھلیوں کو بھون کر کھا لیتے ہیں، یہ چھلکے اور گٹھلیاں بھی بہرحال ایک نعمت ہیں، اُن کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں ۔‘‘ راقم الحروف کے برادرِ مرحوم مولانا محمد زکی کیفی صاحب جو اس واقعے کے وقت موجود تھے تحریر فرماتے ہیں :

’’یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنے کی ہے کہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود تو شاید ہی کبھی کوئی آم چکھ لیتے ہوں، عموماً مہمانوں ہی کے لیے ہوتے تھے اور محلے کے غریب بچوں کو بلا بلا کر کھلانے میں استعمال ہوتے تھے، اس کے باوجود چھلکے گٹھلیوں کا یکجا ڈھیر کر دینے سے گریز فرماتے تھے کہ غریبوں کی حسرت کا سبب نہ بن جائیں ۔‘‘(۲۵)

۲۰- انہی حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ جو کھانا گھر سے آتا تھا، خود تو بہت کم خوراک کھاتے تھے باقی کھانا محلے کے بچوں کو کھلا دیتے تھے جو بوٹی بچ جائے اس کو بلی کے لیے دیوار پر رکھ دیتے اور جو ٹکڑے بچ جاتے ان کو چھوٹا چھوٹا کر کے چڑیوں کے لیے اور دسترخوان کے ریزوں کو بھی ایسی جگہ جھاڑتے تھے جہاں چیونٹیوں کا بل ہو۔(۲۶)

۲۱- شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کے ان اساتذہ میں سے ہیں جن کے عشّاق اب بھی شاید لاکھوں سے کم نہ ہوں، ان کے رُعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ طلباء ان کے نام سے تھراتے تھے حالانکہ مارنے پیٹنے کا کوئی معمول نہ تھا۔ والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم بھی ان کے شاگرد ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے ساتھ ہم چند آدمی سفر پر روانہ ہوئے، سفر کے آغاز میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’کسی کو اپنا امیر بنا لو‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’امیر تو متعین ہے‘‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’مجھے امیر بنانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن امیر کی اطاعت کرنی ہو گی‘‘۔ ہم نے عرض کیا ’’انشاء اللہ ضرور‘‘! اب جو روانگی ہوئی تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا اور ساتھیوں کا سامان خود اُٹھا لیا۔ ہم نے دوڑ کر سامان لینا چاہا تو فرمایا ’’نہیں ! امیر کی اطاعت ضروری ہے‘‘ پھر سفر کے ہر مرحلے میں مشقت کا ہر کام خود کرنے کے لیے آگے بڑھتے اور کوئی کچھ بولتا تو اطاعت امیر کا حکم سناتے۔

۲۲- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خسر محترم جناب مولانا محمود صاحب رامپوری رحمۃ اللہ علیہ رامپور کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے دینی شغف اور دنیوی وجاہت وریاست دونوں کے اعتبار سے ممتاز تھا، اور تمام اکابر دیوبند سے اس کے تعلقات تھے، جب یہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند آئے تو ان کا قیام دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد کے حجرے میں ہوا جو ’’چھوٹی مسجد‘‘ ہی کے نام سے معروف تھی۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم سے آتے جاتے ادھر ہی سے گزرا کرتے تھے ایک روز وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ وہاں مولانا محمود صاحب رامپوری کھڑے تھے، حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے دیوبند آنے کا حال معلوم نہ تھا، اس لیے ان سے پوچھا کہ کب آئے؟ کیسے آئے؟ انھوں نے تفصیل بیان کی اور بتایا کہ اسی مسجد کے ایک حجرے میں مقیم ہوں ۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور ان کے رہنے کی جگہ دیکھی۔ وہاں ان کے سونے کے لیے ایک بستر فرش ہی پر بچھا ہوا تھا، اس وقت تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ یہ دیکھ کر تشریف لے آئے لیکن یہ خیال رہا کہ مولانا محمود صاحب رام پور کے رئیس زادے ہیں، انھیں زمین پر سونے کی عادت نہیں ہو گی اور یہاں تکلیف اُٹھاتے ہوں گے، چنانچہ گھر جا کر ایک چارپائی خود اُٹھائی اوراُسے لے کر چھوٹی مسجد کی طرف چلے، وہاں سے فاصلہ کافی تھا، لیکن حضرت رحمۃ اللہ علیہ اسی حالت میں گلیوں اور بازار سے گزرتے ہوئے چھوٹی مسجد پہنچ گئے۔ اس وقت مولانا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ مسجد سے نکل رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو خیال آیا کہ یہ مجھے چارپائی اُٹھائے ہوئے دیکھیں گے تو انھیں ندامت ہو گی کہ میری خاطر شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اتنی تکلیف اٹھائی، چنانچہ انھیں دیکھتے ہی چارپائی نیچے رکھ دی اور فرمایا:

’’لو میاں ! یہ اپنی چارپائی خود اندر لے جاؤ، میں بھی شیخ زادہ ہوں کسی کا نوکر نہیں ‘‘(۲۷)

 

اِنابت و تقویٰ

۲۳- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو انابت و تقویٰ کے ایسے سانچوں میں ڈھالا تھا کہ یہ ’’سیماہم فی وجوہہم‘‘ کی مثال بن گئے تھے، اور لوگ ان کے چہرے دیکھ کر اسلام قبول کرتے تھے۔مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مظفرگڑھ کے سفر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا، ملتان چھاؤنی کے اسٹیشن پر فجر کی نماز سے قبل حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ گاڑی کے انتظار میں تشریف فرما تھے، اردگرد خدام کا مجمع تھا، ریلوے کے ایک ہندو بابو صاحب لیمپ ہاتھ میں لیے آرہے تھے، حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا منور چہرہ دیکھ کر سامنے کھڑے ہو گئے اور زار و قطار رونے لگے اور پھر یہ زیارت ہی اُن کے ایمان کا ذریعہ بن گئی، وہ کہتے تھے کہ ’’ان بزرگوں کا روشن چہرہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام سچا دین ہے۔‘‘(۲۸)

۲۴- تمام اکابر دیوبند کا مشترک رنگ یہ تھا کہ وہ حروف و نقوش کے کتابی علم کو اس وقت تک اہمیت نہیں دیتے تھے جب تک اس کے ساتھ انابت الی اللہ اور صلاح و تقویٰ نہ ہو، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جب خانقاہ تھانہ بھون میں مدرسہ امدادیہ قائم فرمایا تو حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ کو اس کی اطلاع دی، حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں تحریر فرمایا:

’’اچھا ہے بھائی، مگر خوشی تو جب ہو گی جب یہاں اللہ اللہ کرنے والے جمع ہو جاویں گے‘‘(۲۹)

۲۵- چنانچہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ہی انابت الی اللہ پر تھی، راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ:

’’ہم نے دارالعلوم کا وہ وقت دیکھا ہے جس میں صدر مدرس سے لے کر ادنیٰ مدرس تک اور مہتمم سے لے کر دربان اور چپراسی تک سب کے سب صاحب نسبت بزرگ اور اولیاء اللہ تھے۔ دارالعلوم اس زمانہ میں دن کو دارالعلوم اور رات کو خانقاہ معلوم ہوتا تھا کہ اکثر حجروں سے آخر شب میں تلاوت اور ذکر کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور درحقیقت یہی اس دارالعلوم کا طغرائے امتیاز تھا۔‘‘(۳۰)

۲۶- دارالعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب قدس سرہ اگرچہ ضابطے کے عالم نہ تھے لیکن حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور اس درجے کے بزرگ تھے کہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں کہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ عالم ہیں اور وہ عالم نہیں، ورنہ نسبت باطنی کے لحاظ سے دونوں ایک درجہ کے ہیں ۔‘‘(۳۱)

ان کا واقعہ ہے کہ انھوں نے ایک گائے پال رکھی تھی جس کی دیکھ بھال ایک خادم کے سپرد تھی۔ ایک روز اتفاقاً وہ خادم کسی وجہ سے گائے کو مدرسہ کے صحن میں باندھ کر کسی کام سے چلا گیا۔ دیوبند کے باشندے کوئی صاحب ادھر آ نکلے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی گائے کو مدرسہ کے صحن میں دیکھا تو مولانا سے شکایت کی کہ ’’کیامدرسہ کا صحن آپ کی گائے پالنے کے لیے ہے‘‘؟ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کوئی عذر بیان کرنے کے بجائے یہ گائے دارالعلوم ہی کو دے دی اور قصہ ختم کر دیا، حالانکہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا عذر بالکل واضح اور ظاہر تھا، مگر یہ حضرات اپنے نفس کی طرف سے مدافعت کا پہلو اختیار ہی نہ کرتے تھے۔(۳۲)

۲۷- حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے اس دور کے مہتمم تھے۔ جب دارالعلوم کا کام بہت زیادہ پھیل گیا تھا، طلباء کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی۔ بہت سے نئے شعبے قائم ہو چکے تھے اور ان کا انتظام شبانہ روز مصروفیت کے بغیر ممکن نہ تھا لیکن احقر نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے کہ اس دور میں بھی نماز اور تلاوت کے دیگر معمولات کے علاوہ روزانہ سوالاکھ اسم ذات کا معمول کبھی قضا نہیں ہوتا تھا اور اللہ پر توکل کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ دارالعلوم کی انتظامیہ کے خلاف ایک شدید طوفان اُٹھا اور بعض لوگ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جان کے بھی دشمن ہو گئے، ایسے حالات میں وہ رات کو دارالعلوم کی کھلی چھت پر تن تنہا سوتے تھے، بعض بہی خواہوں نے عرض کیا کہ ایسے حالات میں آپ کو اس طرح نہ سونا چاہیے بلکہ احتیاط کے مد نظر کمرے کے اندر سونا چاہیے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ: میں تو اس باپ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) کا بیٹا ہوں جس کے جنازے کو چار اُٹھانے والے بھی میسر نہ آئے اور جسے رات کے اندھیرے میں بقیع کی نذر کیا گیا لہٰذا مجھے موت کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔‘‘(۳۳)

یہ دیوبند کے وہ بزرگ ہیں جو خالص انتظامی کاموں میں مصروف تھے اور جیساکہ انتظامی امور کا خاصہ ہے وہ بعض مرتبہ موردِ اعتراض بھی بنے اور عموماً اولیاء اللہ کی فہرست میں ان کا شمار نہیں ہوتا        ع

قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

۲۸- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ سارا دن تعلیم وتدریس کی محنت اُٹھانے کے باوجود رات کو دوب جے بیدار ہو جاتے اور فجر تک نوافل و ذکر میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک میں تو تمام رات جاگنے کا معمول تھا، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں تراویح سحری سے ذرا پہلے تک جاری رہتی تھی اور مختلف حفاظ کئی کئی پارے سناتے تھے، یہاں تک کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پاؤں پر ورم آ جاتا اور حتّٰی تورمت قدماہ کی سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوتی تھی۔

ایک مرتبہ خوراک اور نیند کی کمی اور طویل قیام کے اثر سے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ضعف بہت زیادہ ہو گیا، اس کے باوجود رات بھر کی تراویح کا یہ معمول ترک نہیں فرمایا۔ آخر مجبور ہو کر گھر کی خواتین نے تراویح کے امام مولوی کفایت اللہ صاحب سے کہلایا کہ آج کسی بہانے سے تھوڑا سا پڑھ کر اپنی طبیعت کے کسل اور گرانی کا عذر کر دیجیے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو دوسروں کی راحت کا بہت خیال رہتا تھا اس لیے خوشی سے منظور کر لیا۔ تراویح ختم ہو گئی اور اندر حافظ صاحب لیٹ گئے اور باہر حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ لیکن تھوڑی دیر بعد حافظ صاحب نے محسوس کیا کہ کوئی شخص آہستہ آہستہ پاؤں دبا رہا ہے، انھوں نے ہوشیار ہو کر دیکھا تو خود حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ ان کی حیرت و ندامت کا کچھ ٹھکانہ نہ رہا، وہ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے لیکن مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ: ’’نہیں بھائی، کیا حرج ہے؟ تمہاری طبیعت اچھی نہیں، ذرا راحت آ جائے گی۔‘‘(۳۴)

۲۹- حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے واقعات پہلے بھی آچکے ہیں، اُن کا علم و فضل اور حیرت انگیز حافظہ اس قدر مشہور ہوا کہ ان کی دوسری خوبیاں اس میں گم ہو گئیں ورنہ انابت و تقویٰ اور سلوک و تصوف میں بھی انھیں ممتاز مقام حاصل تھا۔ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہم سے انھوں نے خود بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ میں کشمیر سے آ رہا تھا۔ راستہ میں ایک صاحب مل گئے جو پنجاب کے ایک مشہور پیر کے مرید تھے، ان کی خواہش اور ترغیب یہ تھی کہ میں بھی اُن پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ اتفاق سے وہ مقام میرے راستہ میں پڑتا تھا۔ اس لیے میں نے بھی ارادہ کر لیا۔ ہم پیر صاحب کے پاس پہنچے تو وہ بڑے اکرام سے پیش آئے، کچھ باتیں ہوئیں، پھر وہ مریدین کی طرف متوجہ ہو گئے اور اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی جس سے وہ بے ہوش ہو ہو کر لوٹنے اور تڑپنے لگے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ اگر مجھ پر بھی یہ حالت طاری ہوسکے تو مجھ پر آپ توجہ فرمائیں ‘‘۔ انھوں نے توجہ دینی شروع کی اور میں اللہ تعالیٰ کے ایک اسم پاک کا مراقبہ کر کے بیٹھ گیا۔ بے چاروں نے بہت زور لگایا لیکن مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا، کچھ دیر کے بعد انھوں نے خود فرمایا کہ آپ پر اثر نہیں پرسکتا۔

حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ سنا کر غیر معمولی جوش کے ساتھ فرمایا:

’’کچھ نہیں ہے، لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا خدا رسیدگی سے کوئی تعلق نہیں، اگر کوئی چاہے اور استعداد ہو تو انشاء اللہ تین دن میں یہ بات پیداہوسکتی ہے کہ قلب سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے۔ لیکن یہ بھی کچھ نہیں ۔ اصل چیز تو بس احسانی کیفیت اور شریعت وسنت پر استقامت ہے۔‘‘(۳۵)

 

تبلیغ و دعوت کا انداز

۳۰- اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو جہاں تبلیغ و دعوتِ دین کا جذبہ عطا فرمایا تھا وہاں اسے ’’حکمت‘‘ اور ’’موعظہ حسنہ‘‘ کے اصول پر انجام دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی تھی۔ حضرت مولانا مظفرحسین صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ پہلے بھی آ چکا ہے۔ ایک مرتبہ سفر کے دوران آپ کا گزر جلال آباد یا شاملی سے ہوا، وہاں ایک مسجد ویران پڑی تھی، آپ نے پانی کھینچ کر وضو کیا، مسجد میں جھاڑو دی اور بعد میں ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کوئی نمازی نہیں ؟ اُس نے کہا کہ سامنے خان صاحب کا مکان ہے جو شرابی ہیں اور رنڈی باز ہیں، اگر وہ نماز پڑھنے لگیں تو یہاں اور بھی دوچار نمازی ہو جائیں ۔

مولانا رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر خان صاحب کے پاس تشریف لے گئے، وہ نشہ میں مست تھے اور رنڈی پاس بیٹھی ہوئی تھی۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا: ’’بھائی خان صاحب! اگر تم نماز پڑھ لیا کرو تو دوچار آدمی اور جمع ہو جایا کریں اور یہ مسجد آباد ہو جائے۔‘‘ خان صاحب نے کہا کہ مجھ سے وضو نہیں ہوتی اور نہ یہ دو بُری عادتیں چھوٹتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ بے وضو ہی پڑھ لیا کرو اور شراب نہیں چھوٹتی تو وہ بھی پی لیا کرو۔اس نے عہد کیا کہ میں بغیر وضو ہی پڑھ لیا کروں گا۔ آپ وہاں سے تشریف لے گئے، کچھ فاصلہ پر نماز پڑھی اور سجدے میں خوب روئے۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ حضرت! آپ سے دو باتیں ایسی سرزد ہوئیں جو کبھی نہ ہوئی تھیں، ایک یہ کہ آپ نے شراب اور زنا کی اجازت دے دی۔ دوسرے یہ کہ آپ سجدے میں بہت روئے۔ فرمایا کہ: ’’سجدے میں میں نے جناب باری سے التجا کی تھی کہ اے ربّ العزت! کھڑا تو میں نے کر دیا، اب دل تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘ چنانچہ ان خان صاحب کا یہ حال ہوا کہ جب رنڈیاں پاس سے چلی گئیں تو ظہر کا وقت تھا، اپنا عہد یاد آیا، پھر خیال آیا کہ آج پہلا دن ہے، لاؤ غسل کر لیں، کل سے بغیر وضو پڑھ لیا کریں گے۔ چنانچہ غسل کیا، پاک کپڑے پہنے اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد باغ کو چلے گئے۔عصر اور مغرب باغ میں اسی وضو سے پڑھی، مغرب کے بعد گھر پہنچے تو ایک طوائف موجود تھی۔ پہلے کھانا کھانے گھر میں گئے۔ وہاں جو بیوی پر نظر پڑی تو فریفتہ ہو گئے۔ باہر آ کر رنڈی سے کہا کہ آئندہ میرے مکان پر نہ آنا۔(۳۶)

۳۱- امیر شاہ خان صاحب مرحوم راوی ہیں کہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا، اس زمانے میں ان کے مطبع میں مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بھی ملازم تھے اور ایک حافظ جی بھی نوکر تھے۔ یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے، رندانہ وضع تھی، چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے، ڈاڑھی چڑھاتے تھے، نماز کبھی نہ پڑھتے تھے، مگر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کی نہایت گہری دوستی تھی۔ وہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ ان کے کنگھا کرتے تھے اور وہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے کنگھا کرتے تھے۔ اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتی تو اُن کا حصہ ضرور رکھتے تھے، غرض بہت گہرے تعلقات تھے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے مقدس دوست ایسے آزاد شخص کے ساتھ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی دوستی سے ناخوش تھے، مگر وہ اس کی کچھ پرواہ نہ کرتے تھے۔

ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا، حسب معمول مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے حافظ جی کو نہلایا، اور حافظ جی نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو۔ جب نہا چکے تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حافظ جی! مجھ میں اور تم میں دوستی ہے اور یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ تمہارا رنگ اور ہو اور میرا رنگ اور، اس لیے میں بھی تمہاری ہی وضع اختیار کر لیتا ہوں، تم اپنے کپڑے لاؤ، میں بھی وہی کپڑے پہنوں گا اور میری یہ ڈاڑھی موجود ہے تم اس کو بھی چڑھا دو اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ نہ کپڑے اُتاروں گا نہ ڈاڑھی، وہ یہ سن کر آنکھوں میں آنسو بھر لائے، اور کہا کہ’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ مجھے اپنے کپڑے دیجیے، میں آ پ کے کپڑے پہنوں گا اور یہ ڈاڑھی موجود ہے اس کو آپ اُتار دیں ۔ چنانچہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو کپڑے پہنائے اور ڈاڑھی اُتار دی اور وہ اس روز سے پکے نمازی اور نیک وضع بن گئے۔(۳۷)

۳۲- دارالعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے محسوس کیا کہ بعض حضرات مدرسین دارالعلوم کے مقررّہ وقت سے کچھ دیر میں آتے ہیں تو آپ نے حاکمانہ محاسبہ کے بجائے یہ معمول بنا لیا کہ روزانہ صبح کو دارالعلوم کا وقت شروع ہونے پر دارالعلوم کے دروازے کے قریب ایک چارپائی ڈال کر اس پر بیٹھ جاتے اور جب کوئی استاد آتے تو سلام و مصافحہ اور دریافت خیریت پر اکتفا فرماتے، زبان سے کچھ نہ کہتے کہ آپ دیر سے کیوں آئے ہیں ؟ اس حکیمانہ سرزنش نے تمام مدرسین کو وقت کا پابند بنا دیا۔

البتہ صرف ایک مدرس اس کے بعد بھی کچھ دیر سے آتے تھے، ایک روز جب وہ وقت مقررہ کے کافی بعد مدرسہ میں داخل ہوئے تو سلام اور دریافت خیریت کے بعد اُنھیں پاس بٹھا کر فرمایا:

’’مولانا! میں جانتا ہوں کہ آپ کے مشاغل بہت ہیں، ان کی وجہ سے دارالعلوم پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے، ماشاء اللہ آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے اور میں ایک بے کار آدمی ہوں خالی پڑا رہتا ہوں، آپ ایسا کریں کہ اپنے گھریلو کام مجھے بتلا دیا کریں، میں خود جا کر ان کو انجام دے دیا کروں گا تاکہ آپ کا وقت تعلیم کے لیے فارغ ہو جائے۔‘‘

اس حکیمانہ طرزِ خطاب کا جو اثر ہونا تھا وہ ہوا اور وہ مدرّس بھی آئندہ ہمیشہ کے لیے وقت کے پابند ہو گئے۔(۳۸)

۳۳- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس صدی میں اصلاحِ خلق کی توفیق خالص اور اس کا انتہائی حکیمانہ اسلوب مرحمت فرمایا تھا۔ اردو کے مشہور شاعر جناب جگر مرادآبادی مرحوم کا واقعہ ہے کہ ایک مجلس میں حضرت خواجہ عزیزالحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا کہ: ’’جگر مرادآبادی سے ایک مرتبہ میری ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ تھانہ بھون جانے اور زیارت کرنے کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں اس مصیبت میں مبتلا ہوں کہ شراب نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے مجبور ہوں کہ کیا منہ لے کر وہاں جاؤں ‘‘؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: ’’پھر آپ نے کیا جواب دیا‘‘؟ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ میں نے کہہ دیا ’’ہاں ! یہ تو صحیح ہے، ایسی حالت میں بزرگوں کے پاس جانا کیسے مناسب ہوسکتا ہے‘‘؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’واہ خواجہ صاحب! ہم تو سمجھتے تھے کہ اب آپ طریق کو سمجھ گئے ہیں، مگر معلوم ہوا کہ ہمارا خیال غلط تھا‘‘۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تعجب پر حکیم الامت قدس سرہ نے فرمایا کہ ’’آپ کہہ دیتے کہ جس حال میں ہو اسی میں چلے جاؤ، ممکن ہے کہ یہ ملاقات ہی اس بلا سے نجات کا ذریعہ بن جائے۔‘‘

چنانچہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہاں سے واپس گئے تو پھر اتفاقاً جگر صاحب سے ملاقات ہو گئی اور یہ سارا واقعہ جگر صاحب کو سنادیا۔ انھوں نے حضرت کے یہ کلمات سن کر زارزار رونا شروع کر دیا اور بالآخر یہ عہد کر لیا کہ اب مر بھی جاؤں تو اس خبیث چیز کے پاس نہ جاؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شراب چھوڑنے سے بیمار پڑ گئے، حالت نازک ہو گئی، اس وقت لوگوں نے کہا کہ آپ کو اس حالت میں بقدرِ ضرورت پینے کی تو شریعت بھی اجازت دے گی لیکن یہ جگر صاحب کا جگر تھا کہ اس کے باوجود انھوں نے اس اُمّ الخبائث کو ہاتھ نہ لگایا۔ اللہ تعالیٰ اہل عزم و ہمت کی مدد فرماتے ہیں، اس وقت بھی حق تعالیٰ کی مدد سے چند روز ہی میں شفاءِ کامل حاصل ہوئی۔ اس کے بعد وہ تھانہ بھون تشریف لائے اور حضرت نے ان کا بڑا اکرام فرمایا۔(۳۹)

۳۴- غالباً شملہ کے کسی کالج میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہوا، وہاں آپ نے فرمایا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو جو شبہات پیدا ہوتے ہیں وہ صرف نصابِ تعلیم ہی کا قصور نہیں بلکہ اس کا بڑا سبب وہ لادینی ماحول ہے جس میں ہماری نئی نسل پلتی اور ڈھلتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بزرگ علماء و صلحاء کی مجلسیں بحمد للہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ قائم ہیں، کچھ دن اس ماحول میں رہنے کی عادت ڈالیں ۔

غالباً اسی مجلس میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کو انگریزی پڑھنے والوں سے نفرت ہے؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ہرگز نہیں ۔ ان لوگوں سے کوئی نفرت نہیں، البتہ ان کے بعض اعمال و افعال سے نفرت ہے جو شریعت کے خلاف ہیں ‘‘ یہ صاحب بولے ’’وہ اعمال و افعال کیا ہیں ‘‘؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’مختلف لوگوں کے مختلف اعمال ہیں، سب یکساں نہیں ‘‘۔ یہ صاحب بھی خوب آزاد آدمی تھے، کہنے لگے کہ ’’مثلاً مجھ میں کیا ہیں ‘‘؟ آج کے عام وضع طلباء کی طرح ان کی بھی ڈاڑھی صاف تھی، حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’بعض چیزیں تو ظاہر ہیں، مگر مجمع میں اس کا اظہار کرنے سے حیا مانع ہے اور آپ کے باقی حالات و معاملات مجھے معلوم نہیں جس پر کوئی رائے ظاہر کرسکوں ‘‘۔

یہ جلسہ ختم ہوا، حضرت رحمۃ اللہ علیہ تھانہ بھون واپس آ گئے پھر اتفاقاً کالج کی تعطیل ہوئی تو ایک طالب علم کا خط آیا، خط میں لکھا تھا کہ ہماری اس وقت تعطیل ہے، میں آپ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کچھ دن آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں مگر میری ظاہری صورت بھی شریعت کے مطابق نہیں اور اعمال و افعال میں بھی بہت گڑبڑ ہے، ان حالات میں حاضری کی اجازت ہو تو میں حاضر ہو جاؤں، حضرت نے تحریر فرمایا ’’جس حالت میں ہیں، چلے آئیں، کوئی فکر نہ کریں ‘‘۔ یہ صاحب آ گئے اور عرض کیا کہ مجھے بہت سے شبہات و اشکالات ہیں، ان کو حل کرنا چاہتا ہوں، حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مناسب ہے مگر اس کی صورت یہ کرنی ہو گی کہ آپ کے جتنے شبہات ہیں ان سب کو لکھ لیں اور آپ مجلس میں بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں، کوئی سوال نہ کریں ۔ جب آپ کی مدتِ قیام کے تین دن رہ جائیں اس وقت یاد دلائیں تو میں آپ کو سوالات کا مستقل وقت دوں گا اور یہ بھی فرمایا کہ جو سوالات آپ لکھ کر رکھیں گے، اس عرصہ میں کسی سوال کا جواب سمجھ میں آ جائے تو اس کو کاٹ دیں ۔

ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور جب رخصت سے تین روز پہلے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے سوالات کا وقت دیاتو انھوں نے بتلایا کہ میرے سوالات کی بہت طویل فہرست تھی مگر دورانِ قیام اکثر سوالات کے جواب خود سمجھ میں آ گئے، ان کو کاٹتا رہا۔ اب صرف چند سوال باقی ہیں چنانچہ یہ سوالات انھوں نے پیش کیے اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے جوابات پا کر ہمیشہ کے لیے مطمئن ہو گئے۔(۴۰)

 

مخالفین سے سلوک

۳۵- اکابر دیوبند کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ اپنے مخالف مسلک والوں سے بھی بد اخلاقی کا برتاؤ نہیں کرتے تھے نہ ان کی تردید میں دلآزار اسلوب کو پسند کرتے تھے اور نہ طعن آمیز القاب سے یاد کرنا پسند کرتے تھے بلکہ جہاں تک ہوسکتا بد اخلاقی کا جواب خوش خلقی سے دیتے اور مخالفین کی دینی ہمدردی و خیر خواہی کو پیش نظر رکھتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے خادمِ خاص حضرت امیر شاہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ خورجہ تشریف لائے اور وہاں ایک مجلس میں مولوی فضل رسول بدایونی کا تذکرہ چل گیا (چونکہ وہ مخالف مسلک کے تھے اس لیے) میری زبان سے (طنز کے طور پر) بجائے فضل رسول کے فصل رسول نکل گیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے ناخوش ہو کر فرمایا کہ ’’لوگ ان کو کیا کہتے ہیں ‘‘؟ میں نے کہا ’’فضل رسول‘‘ آپ نے فرمایا ’’تم فصل رسول کیوں کہتے ہو‘‘؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

’’یہ حضرات تھے جو لا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب کے پورے عامل تھے حتیٰ کہ مخالفین کے معاملہ میں بھی۔‘‘(۴۱)

۳۶- بریلی کے مولوی احمد رضا خاں صاحب نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پر سبّ و شتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ خصلت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ اُن کی تصنیفیں ہمیں سنادو۔ حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ ’’حضرت! ان میں تو گالیاں ہیں ۔‘‘ اس پر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’اجی دُور کی گالیوں کا کیا ہے؟ پڑی (یعنی بلاسے) گالیاں ہوں، تم سناؤ۔ آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کر لیں ۔‘‘(۴۲)

اللہ اکبر! یہ ہے حق پرستوں کا شیوہ، کہ مخالفین بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی، اُن کی دُشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔

۳۷- مولانا محمود صاحب رام پوری رحمۃ اللہ علیہ (جن کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے) فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اور ایک ہندو تحصیل دیوبند میں کسی کام کو گئے میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مہمان ہوا اور وہ ہندو بھی اپنے بھائیوں کے گھر کھانا کھا کر میرے پاس آ گیا کہ میں بھی یہاں ہی رہوں گا، اس کو ایک چارپائی دے دی گئی۔ جب سب سوگئے تو رات کو میں نے دیکھا کہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ زنانہ میں تشریف لائے، میں لیٹا رہا اور یہ سمجھتا تھا کہ اگر کوئی مشقت کا کام کریں گے تو میں امداد کروں گا ورنہ خواہ مخواہ اپنے جاگنے کا اظہار کر کے کیوں پریشان کروں میں نے دیکھا مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس ہندو کی طرف بڑھے اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر اس کے پاؤں دبانے شروع کیے۔ وہ خرّاٹے لے کر خوب سوتا رہا۔ مولانا محمود صاحب کہتے ہیں کہ میں اُٹھا اور عرض کیا کہ حضرت! آپ تکلیف نہ کریں، میں دبا دُوں گا مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم جا کر سوؤ، یہ میرا مہمان ہے، میں ہی اس خدمت کو انجام دوں گا۔ مجبوراً میں چپ رہ گیا اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس ہندو کے پاؤں دباتے رہے۔(۴۳)

۳۸- مولانا احمد حسن صاحب پنجابی مدرّس کانپور نے ’’ابطالِ امکانِ کذب‘‘ میں ایک مبسوط رسالہ تحریر کر کے شائع کیا جس میں حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم عقیدہ حضرات کو فرقۂ ضالہ مزداریہ میں (جو معتزلہ میں سے ایک گروہ ہے) داخل کر دیا اوراس پر تقریظ لکھنے والوں نے تو اکابر دین کی نسبت زبان درازی کی انتہا کر دی۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ رسالہ دیکھ کر طیش تو بہت آیا لیکن علم و تقویٰ کا مقام بلند ملاحظہ فرمائیے کہ غیظ و غضب کے جذبات کو پی کر ارشاد فرمایا:

’’ان گستاخ لوگوں کو بُرا کہنے سے تو اکابر کا انتقام پورا نہیں لیا جا سکتا، اور ان کے اکابر کی نسبت کچھ کہہ کر اگر دِل ٹھنڈا کیا جائے تو وہ لوگ معذور و بے قصور ہیں ۔‘‘(۴۴)

۳۹- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے مواعظ سے امت کو جو بے مثال نفع پہنچا وہ محتاجِ بیان نہیں ۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کا فیض آج تک جاری ہے اور جن حضرات نے ان کا مطالعہ کیا ہو وہ جانتے ہیں کہ یہ مواعظ دین کی بیشتر ضروریات پر حاوی ہیں اور اصلاح و تربیت کے لیے بے نظیر تاثیر رکھتے ہیں ۔

ایک مرتبہ جونپور میں آپ کا ایک وعظ ہونا تھا۔ وہاں بریلوی حضرات کا خاصا مجمع تھا، آپ کے پاس ایک بے ہودہ خط پہنچا جس میں چار باتیں کہی گئی تھیں ایک تو یہ کہ تم جُلاہے ہو دوسرے یہ کہ جاہل ہو، تیسرے یہ کہ کافر ہو۔ اور چوتھے یہ کہ سنبھل کر بیان کرنا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ شروع کرنے سے پہلے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قسم کا ایک خط میرے پاس آیا ہے پھر وہ خط سب کے سامنے پڑھ کر سنایا اور فرمایا کہ ’’یہ جو لکھا ہے کہ تم جلاہے ہو، تو اگر میں جلاہا ہوں بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ میں یہاں کوئی رشتے ناتے کرنے تو آیا نہیں، احکامِ الٰہی سنانے کے لیے حاضر ہوا ہوں، سو اس کو قومیت سے کیا علاقہ؟ دوسرے یہ چیز اختیاری بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے جس کو جس قوم میں چاہا پیدا فرما دیا، سب قومیں اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہیں اور سب اچھی ہیں اگر اعمال و اخلاق اچھے ہوں ۔ یہ تو مسئلہ کی تحقیق تھی۔ رہی واقعہ کی تحقیق سو مسئلہ کی تحقیق کے بعد واقعہ کی تحقیق کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی لیکن پھر بھی اگر کسی کو تحقیق واقعہ کا شوق ہی ہو تو میں آپ کو اپنے وطن کے عمائد کے نام اور پتے لکھوائے دیتا ہوں، ان سے تحقیق کر لیجئے، معلوم ہو جائے گا کہ میں جلاہا ہوں یا کس قوم کا؟ اور اگر مجھ پر اطمینان ہو تو میں مطلع کرتا ہوں کہ میں جلاہا نہیں ہوں – رہا جاہل ہونا، اس کا البتہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں جاہل بلکہ اجہل ہوں لیکن جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا ہے اور کتابوں میں دیکھا ہے اس کو نقل کر دیتا ہوں ۔اگر کسی کو کسی بات کے غلط ہونے کا شبہ ہو اُس پر عمل نہ کرے- اور کافر ہونے کو جو لکھا تواس میں زیادہ قیل و قال کی حاجت نہیں، میں آپ صاحبوں کے سامنے پڑھتا ہوں :

اشہد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشہد أن محمّد رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

اگر میں نعوذ باللہ کافر تھا بھی تو لیجیے اب نہیں رہا – آخر میں سنبھل کر بیان کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ وعظ گوئی کوئی میرا پیشہ نہیں ہے، جب کوئی بہت اصرار کرتا ہے تو جیسا کچھ مجھے بیان کرنا آتا ہے بیان کر دیتا ہوں، اگر آپ صاحبان نہ چاہیں گے تو میں ہرگز بیان نہ کروں گا۔ رہا سنبھل کر بیان کرنا تو اس کے متعلق صاف صاف عرض کیے دیتا ہوں کہ میری عادت خود ہی چھیڑ چھاڑ کی نہیں ہے، قصداً کبھی کوئی ایسی بات نہیں بیان کرتا جس میں کسی گروہ کی دل آزاری ہو یا فساد پیدا ہو، لیکن اگر اصول شرعیہ کی تحقیق کے ضمن میں کسی ایسے مسئلہ کے ذکر کی ضرورت ہی پیش آ جاتی ہے جس کا رسوم بدعیہ سے تعلق ہے تو پھر میں رُکتا بھی نہیں، اس لیے کہ یہ صریح دین میں خیانت ہے- سب باتیں سننے کے بعد اب بیان کے متعلق جو آپ صاحبوں کی رائے ہو اس سے مطلع کر دیا جائے۔ اگر اس وقت کوئی بات کسی کے خلافِ طبع بیان کرنے لگوں تو فوراً مجھ کو روک دیا جائے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی ادنیٰ شخص بھی مجھے روک دے گا تو میں اپنے بیان کو فوراً منقطع کر دوں گا اور بیٹھ جاؤں گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہی صاحب روک دیں جنھوں نے یہ خط بھیجا ہے یا اگر خود کہتے ہوئے انھیں شرم آئے یا ہمت نہ ہو تو چپکے سے کسی اور ہی کو سکھلاپڑھا دیں، ان کی طرف سے وہ مجھے روک دیں ۔

یہ سن کر ایک معقولی مولوی صاحب جو بدعتی خیال کے تھے اور جن کا وہاں بہت اثر تھا، کڑک کر بولے: ’’یہ خط لکھنے والا کوئی حرام زادہ ہے، آپ وعظ کہیے آپ کیسے فاروقی ہیں ‘‘؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں ایسی جگہ کا فاروقی ہوں جہاں کے فاروقیوں کو یہاں کے لوگ جلاہے سمجھتے ہیں ۔‘‘

جب سارا مجمع خط لکھنے والے کو برا بھلا کہنے لگا، خاص طور سے وہ مولوی صاحب فحش فحش گالیاں دینے لگے تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے روکا کہ ’’گالیاں نہ دیجیے، مسجد کا تو احترام کیجیے‘‘ – پھر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا وعظ ہوا اور بڑے زور شور کا وعظ ہوا۔اتفاق سے دورانِ وعظ میں بلا قصد کسی علمی تحقیق کے ضمن میں کچھ رسوم و بدعات کا بھی ذکر چھڑ گیا پھر تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے بلا خوفِ لومۃ لائم خوب ہی ردّ کیا، لوگوں کو یہ اختیار دے چکے تھے کہ وہ چاہیں تو وعظ کو روک دیں، لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی۔

وہ معقولی مولوی صاحب شروع شروع میں تو بہت تحسین کرتے رہے اور بار بار سبحان اللہ سبحان اللہ کے نعرے بلند کرتے رہے، کیونکہ اس وقت تصوف کے رنگ پر بیان ہو رہا تھا لیکن جب ردّ بدعات ہونے لگا تو پھر چپ ہو گئے مگر بیٹھے سنتے رہے، یہ بھی خدا کا بڑا فضل تھا کیونکہ بعد کو معلوم ہوا کہ وہ ایسے کٹر اور سخت ہیں کہ جہاں کسی واعظ نے کوئی بات خلافِ طبع کہی، انھوں نے وہیں ہاتھ پکڑ کر منبر سے اتار دیا، لیکن اس وقت انھوں نے دم نہیں مارا، چپکے بیٹھے سنتے رہے۔ لیکن جب وعظ ختم ہوا اور مجمع رخصت ہونے کے لیے کھڑا ہو گیا تو اُس وقت اُن مولوی صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ ’’ان مسائل کے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘؟ اس پر ایک دوسرے ذی اثر مولوی صاحب (جو خود بدعتی خیال کے تھے) بڑھے اور جواب دینا چاہا لیکن حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں روک دیا کہ خطاب مجھ سے ہے، آپ جواب نہ دیں، مجھے عرض کرنے دیں پھر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے اُن معقولی مولوی صاحب سے فرمایا کہ ’’آپ نے یہ بات پہلے مجھ سے نہ فرمائی، ورنہ میں احتیاط کرتا، میں نے تو جو کچھ بیان کیا ضروری ہی سمجھ کر کیا، مگر اب کیا ہوسکتا ہے؟ اب تو بیان ہو چکا۔ ہاں ! ایک صورت اب بھی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ابھی تو مجمع موجود ہے، آپ پکار کر کہہ دیجیے کہ صاحبو! اس بیان کی کوئی ضرورت نہ تھی، پھر میں آپ کی تکذیب نہ کروں گا اور آپ ہی کی بات اخیر رہے گی۔‘‘ اس پر سب لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب وہاں سے رخصت ہو گئے۔

اُن کے چلے جانے کے بعد سب لوگ اُن کو برا بھلا کہنے لگے، جب بہت شور غل ہوا تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ ’’صاحبو! ایک پردیسی کی وجہ سے آپ مقامی علماء کو ہرگز نہ چھوڑیں، میں آج مچھلی شہر جا رہا ہوں ۔ اب آپ صاحبان یہ کریں اور میں ان صاحب کو بالخصوص خطاب کرتا ہوں جنھوں نے خط بھیجا ہے کہ وہ میرے بیان کا رد کرا دیں پھر دونوں راہیں سب کے سامنے ہوں گی جو جس کو چاہے اختیار کرے، فساد کی ہرگز ضرورت نہیں ‘‘۔ پھر ان دوسرے مولوی صاحب نے (جو بدعتی خیال کے ہونے کے باوجود حمایت کے لیے آگے بڑھے تھے) کھڑے ہو کر فرمایا کہ:

’’صاحبو! آپ جانتے ہیں کہ میں مولودیہ بھی ہوں، قیامیہ بھی ہوں مگر انصاف اور حق یہ ہے کہ جو تحقیق آج مولوی صاحب نے بیان فرمائی ہے صحیح وہی ہے۔‘‘(۴۵)

۴۰- احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے متعلقین میں سے کسی صاحب نے اہل بدعت کی تردید میں ایک رسالہ لکھا تھا۔ اہل بدعت نے اس کا جو ردّ لکھا، اس میں انھیں کافر قرار دیا۔اس عمل کے جواب میں ان صاحب نے دو شعر کہے:

مرا کافر اگر گفتی غمے نیست            چراغِ کذب را نبود فروغے

مسلمانت بخوانم در جوابش                دروغے را جزا باشد دروغے(۴۶)

انھوں نے حضرت شیخ الہند کو یہ شعر سنائے تو آپ نے شعری لطافت کی تو تعریف فرمائی لیکن ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ ’’تم نے اُن کو لطافت کے ساتھ ہی سہی، کافر تو کہہ دیا حالانکہ فتویٰ کی رُو سے وہ کافر نہیں ہیں اس لیے ان اشعار میں اس طرح ترمیم کر لو۔

مرا کافر اگر گفتی غمے نیست

چراغِ کذب را نبود فروغے

مسلمانت بخوانم در جوابش

وہم شکر بجائے تلخ دوغے

اگر تو مؤمنی فبہا، و اِلاّ

دروغے را جزا باشد دروغے(۴۷)

یہ چند واقعات ہیں جو کسی خاص اہتمام اور تحقیق و جستجو کے بغیر زیر قلم آ گئے۔ اس مختصر مضمون میں اس قسم کے واقعات کا احاطہ مقصود نہیں ۔ اگر کوئی بندۂ خدا مزید تحقیق وجستجو اور مطالعہ کے بعد ان حضرات کے ایسے واقعات کو یکجا کر دے تو علم و دین کی بڑی خدمت ہو لیکن مذکورہ چند واقعات اکابر دیوبند کے حسن و جمال کی ایک جھلک دکھانے کے لیے، اُمید ہے کافی ہوں گے۔ وللہ الحمد اولاً وآخرا۔

٭٭٭

حواشی

(۱) اشرف السوانح، ص:۱۳۶، ۱۳۷، ج۱۔

(۲) ارواحِ ثلاثہ، ص:۱۷۶، نمبر۲۳۰۔

 (۳) ایضاً، ص:۲۰۶، نمبر۲۸۸۔

(۴) ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۸۶، نمبر۴۳۶۔

(۵) یہ واقعہ مذکورہ تفصیل کے ساتھ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہ سے اور اسی کا خلاصہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حیاتِ شیخ الہند، ص:۱۶۷ میں بھی کیا ہے۔

 (۶) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے اپنے ایک ہم سبق عالم مولانا مغیث الدین صاحب سے سنا تھا جو دیوبند سے فارغ ہو کر معقولات پڑھنے کے لیے اجمیر چلے گئے تھے اور آخر میں مدینہ طیبہ ہجرت کر گئے لیکن چونکہ واقعہ سنے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ اس لیے چند سال پہلے حضرت والد صاحب مدظلہم نے ان سے حرمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی تصدیق فرمائی۔

(۷) حیاتِ انور، ص:۱۱۹ بروایت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ۔

(۸) انوارِ انوری، مؤلفہ مولانا محمد انوری رحمۃ اللہ علیہ، ص:۳۲۔

 (۹) ایضاً، ص:۳۶۔

 (۱۰) نفحۃ العنبر، ص:۲۷ طبع مجلس علمی کراچی۔

 (۱۱) حیاتِ انور، ص:۱۳۹۔

(۱۲) حیاتِ انور، ص:۲۲۵ تا ۲۲۸۔

(۱۳) حیاتِ انور، ص:۲۲۹، ۲۳۰۔

 (۱۴) نفحۃ العنبر، ص:۲۷۔

(۱۵) حیاتِ انور، ص:۲۳۳۔

 (۱۶) حیاتِ انور، ص:۲۳۳۔

(۱۷) ’’میرے والد ماجد‘‘ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم: ص۵۴، ۵۵۔

(۱۸)ارواحِ ثلاثہ، ص:۱۴۸، نمبر۱۸۸۔

(۱۹) ارواح ثلاثہ، ص:۱۵۳، نمبر ۱۹۷۔

(۲۰) نقوش و تاثرات، مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم، ص:۳۴۔

 (۲۱) مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج:۱، ص:۴۳۔

(۲۲) نقوش و تاثرات، ص:۴۰۔

(۲۳) ماہنامہ البلاغ کراچی ۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ، ص:۳۸، ۳۹، ج:۱، مضمون ’’حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘۔

(۲۴) ماہنامہ البلاغ کراچی۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ، ص:۳۹، ج:۱۔

 (۲۵) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور ان کو خود حضرت مولانا محمود صاحب رامپوری رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا تھا۔

 (۲۶) انوارِ انوری، ص:۴۰۔

(۲۷) ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۲۴، نمبر ۳۲۷۔

(۲۸) ’’میرے والد ماجد‘‘: از حضرت مفتی محمد شفیع مدظلہم، ص:۵۲۔

(۲۹) اشرف السوانح، ج۱، ص:۱۳۹۔

 (۳۰) ’’میرے والد ماجد، ص:۶۰)

(۳۱) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے (م ت ع)۔ (۳۲) حیات شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ از مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ ص۱۸۹۔

 (۳۳) حیات انور، ص:۱۵۵ تا ۱۵۷۔

(۳۴) ارواحِ ثلاثہ، ص:۱۵۰، ۱۵۱، نمبر۱۹۱۔

 (۳۵) ارواح ثلاثہ، ص:۱۷۴، نمبر ۲۲۶۔

 (۳۶) ’’میرے والد ماجد‘‘ از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۵۹۔

(۳۷)      مجالس حکیم الامت، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۵۸۔

 (۳۸)     مجالس حکیم الامت: حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۶۰-۶۲۔

(۳۹)      ارواح ثلاثہ، ص:۱۷۵، نمبر ۲۲۸۔

(۴۰)      ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۱۱، نمبر ۳۰۸۔

(۴۱)      ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۸۵، نمبر ۴۳۲۔

(۴۲)      حیات شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ از حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ، ص:۱۸۳۔

(۴۳)      اشرف السوانح، ج:۱، ص:۶۸-۷۲۔

(۴۴)      تم نے مجھے کافر کہا مجھے اس کا غم نہیں کیونکہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا۔میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا، کیونکہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہوسکتی ہے۔‘‘

(۴۵)      ’’تم نے مجھے کافر کہا، مجھے اس کا غم نہیں کیونکہ جھوٹ کا چراغ جلا نہیں کرتا، میں اس کے جواب میں تمہیں مسلمان کہوں گا اور تلخی کا جواب شیرینی سے دوں گا، اگر تم واقعی مومن ہو تو خیر ورنہ جھوٹ کی سزا جھوٹ ہی ہوسکتی ہے۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید