FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دکنی مثنویوں  میں  مناجات کی روایت

               ڈاکٹر مجید بیدار

شعبہ اردو ، جامعہ عثمانیہ،حیدرآباد(آندھر پردیش)

 

مثنوی کی صنف میں شامل خارجی عوامل اور ان کے  بے  شمار مسائل زیر بحث آ چکے  ہیں  اور ان پر تحقیق کا کام جاری ہے۔ اردو کے  بے  شمار نقاد اور محققین آج تک بھی ان ہی خارجی معاملات کو اہمیت کے  حامل سمجھتے  ہیں  یعنی اردو کے  اکثر دانشوروں  نے  سطح سمندر اور اس کی خاموش لہروں  کا مطالعہ ضرور کیا ہے  جبکہ سمندر کے  اندر موجود کائنات اور انقلابات پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی۔ مثنویوں  کے  داخلی عوامل جہاں  اپنے  اندر بے  شمار وسائل رکھتے  ہیں  وہیں  فن مثنوی کے  ذریعے  دور قدیم کی شاعر ی میں  تمام اصناف کی نمائندگی کے  ابواب بھی کھولتے  ہیں۔ مرثیہ، قصیدہ، غزل، شہر نامہ کے  علاوہ نیچرل شاعر ی کی عمدہ مثالیں مثنویوں  میں موجود ہیں۔ جس کے  ساتھ ہی آداب معاشرت، رہن سہن اور روزمرہ زندگی کی نمائندگی بھی مثنویوں  کے  ذریعے  ممکن ہو چکی ہے۔ اخلاقی، سوانحی، داستانوی، متصوفیانہ اساطیری اور عشقیہ مثنویاں  لکھ کر اردو کے  شعرا نے  اس صنف کی ہمہ گیری کی جانب اشارہ کیا۔ دکنی میں لکھے  ہوئے  نور نامے، معراج نامے، مولود نامے  اور ولادت نامے  مثنوی کے  توسط سے  قصیدہ کی صنف کو فروغ دینے  کے  علمبردار بن جاتے  ہیں۔ وفات نامے  اور شہادت نامے  کے  ذریعے  مرثیہ کی صنف کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ رزم نامہ کی حیثیت سے  نصرتی کا ’’علی نامہ‘‘ ہمارے  درمیان موجود ہے۔ نصرتی نے  اپنی مثنوی میں  ’’بیجا پور‘‘ اور سراج اور نگ آبادی نے  ’’چوک‘‘ کی تعریف کے  ذریعے  شہر نامہ کی روایت کو آگے  بڑھایا ہے۔ ان تمام مثنویوں  کا تعلق دکن سے  ہے  اور دکنی شعرا نے  اپنی مثنویوں  کے  ذریعے  جدتوں  اور ندرتوں  کو فن کے  نمونے  کے  طور پر پیش کیا۔ یہ تمام موضوعات دکنی مثنویوں  کے  داخلی عوامل ہیں۔ جن پر طویل بحث اور مقالہ نویسی کی گنجائش موجود ہے۔ ادب دوستوں  کی دلچسپی اور دکنی مثنویوں  کے  داخلی اوصاف کی نمائندگی کی غرض سے  یہاں  دکنی مثنویوں  میں  شامل ہونے  والی مناجاتی کیفیت کو پیش  کیا جا رہا ہے  تاکہ دکن کی مطبوعہ مثنویوں  میں  ’’مناجات‘‘ کو اس صنف کے  لازمہ کی حیثیت سے  قبول کرنے  کے  وصف کی نمائندگی ہو سکے۔ ’’احسن القواعد‘‘ کے  مؤلف محمد   نجف علی خاں  نے  مثنوی کے  اقسام، اشعار اور اوزان سے  بحث کرتے  ہوئے  لکھا ہے :

 ’’داستان مثنوی کے  لیے  تمہید شرط ہے  اور ربط کلام کا سلسلہ واجب اور مثنوی کے  دیباچہ میں کئی چیزیں  لازم ہیں  توحید، مناجات، نعت، مدح سلطان زماں، تعریف کے  دیباچہ میں  ان سب باتوں  کے  موجد حضرت نظامی گنجوی ہیں۔ ان سے  پہلے  مثنوی کو فقط قصے  سے  شروع کیا کرتے  تھے۔ ‘‘

 ’’احسن القواعد‘‘ کے  مؤلف نے  مناجات کو آغازِ مثنوی کا لازمہ قرار دیا ہے  اور اس اعتبار سے  مناجات کو مثنوی کے  بنیادی اجزا میں  جگہ دی ہے  جسے  پورے  اہتمام کے  ساتھ دکنی کے  بیشتر مثنوی نگار شعرا نے  استعمال کیا۔ دکن میں مثنوی مافوق الفطرت عناصر کے  ذکر اور محیر العقول کارناموں  کے  بیان کے  لیے  استعمال کی گئی لیکن اس صنف میں  تقدس اور احترام کے  ذکر کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حمد، نعت، مناجات اور منقبت ان ہی جذبات کے  اظہار کی نمائندگی کرتے  ہیں۔ تعریف خدواندی اور دعائیہ کلمات کے  ساتھ اگر شاعر ایک ذی روح کی حیثیت سے  اپنی لاچاری اور مجبوری ظاہر کرے  تو ایسا شعر ی رویہ ’’مناجات‘‘ کہلاتا ہے۔ دکن میں  عرصہ دراز تک مثنویوں  میں  اس شعر ی رویے  کو رواج دیا جاتا رہا۔ ’’مناجات‘‘ ایک ایسی طرز شاعر ی ہے  جس میں  تعریف خداوندی، انسانی بیکسی، انکساری و عاجزی، خدا سے  نجات طلبی، حمدیہ استدلال کے  علاوہ دعائیہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے  جس کی وجہ سے  مناجات میں حمد و دعا کا ایک حسین مرقع بن جاتی ہے۔ شاعر کے  زور بیان اور التجا کی خصوصیت کی وجہ سے  مناجات میں ہمہ گیری پیدا ہوتی ہے  اردو کی بیشتر مناجاتوں  میں  یہ تاثیر دکھائی دیتی ہے۔

فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات، نور اللغات اور دوسری لغت کی کتابوں  میں  ’’مناجات‘‘ کے  لغوی اور فنی معنی بیان کیے  گئے  ہیں  چنانچہ مناجات کے  معنی کسی سے  اپنا بھید کہنا یا پھر طلب نجات کے  لئے  خدا کی بارگاہ میں دعا کرنا کے  لئے  واضح کئے  گئے  ہیں۔ منت اور سماجت کے  ساتھ خدا کے  حضور میں  گڑگڑانے  کا عمل ’’مناجات‘‘ کی دلیل ہے۔ جس طرح ایک آدمی اپنے  دل کا حال بیان کر کے  تمام حالات حسب منشا ہونے  کے  لئے  خدا سے  درخواست کرتا ہے  اسی طرح کسی شاعر ی یا نظم میں  خدا کی تعریف اور اپنی عاجزی کا اظہار کر کے  دعا اور التجا کو روا رکھا جائے  تو اسے  جامع اللغات کے  مؤلف ’’مناجات‘‘ قرار دیتے  ہیں۔ اردو کتب میں ’’مناجات‘‘ کے  معنی اور توضیحات تو ضرور دیئے  گئے  ہیں  لیکن اس طرز شاعر ی کے  اجزائے  ترکیبی پر غور نہیں  کیا گیا اور نہ ہی اس کے  اصول مدون کیے  گئے۔ فنی اعتبار سے  مناجات کے  اجزائے  ترکیبی حسب ذیل ہیں :

(۱) تعریف خداوندی

(۲) انسانی بے  کسی و عاجزی

(۳) نجات طلبی

(۴) حمدیہ استدلال

(۵) دعائیہ

دکن کے  مثنوی نگار شعرا کی مناجاتوں  میں ان عوامل کی موجودگی نمایاں  ہے  ایک محتاط اندازے  کے  مطابق اب تک ۳۳ دکنی مثنویاں  وقیع مقدموں  کے  ساتھ شائع ہو چکی ہیں جن میں  بیشتر مثنویاں  ’’مناجات‘‘ کے  وصف سے  مالامال ہیں۔ جن کا مختصر تعارف پیش ہے۔

(۱)مناجات غواصی:دبستان دکن کے  تین بڑے  شعرا میں  شمار کیے  جانے  والا عبد اللہ قطب شاہ کے  عہد کا ملک الشعرا تھا۔ اس کی تین مثنویاں ’’مینا وست ونتی‘‘ (۱۶۱۲)، ’’سیف الملک بدیع الجمال‘‘ (۱۶۲۵) اور ’’طوطی نامہ‘‘ (۱۶۳۹) کی تصانیف ہیں۔ غواصی نے  ’’سیف الملک بدیع الجمال‘‘ میں  جو مناجاتی رویہ اختیار کیا ہے  وہ ملاحظہ ہو:

رحیما سچا توں  غنی ہو رے

غنی تج بغیر نیں  کوئی رے

تو مقبول ہے  مقبلاں  کا سچیں

نہیں  نور روشن دلاں  کا سچیں

جو کئی زندہ دل ہے  توں  ان کا حیات

جو کئی ہو رہے  تج سات توں  ان کے  سات

جو ہوں  میں  الٰہی ترا داس میں

کیا ہوں  بہت ایک تری آس میں

توں  مجھ داس پر کھول در فیض کا

میرے  من میں  بھر، اثر فیض کا

طراوت دے  مج آس کے  باغ کوں

دوا بخش منج درد کے  داغ کوں

وفا میں  بڑا کر جواں  مرد منج

ترے  باٹ کا کر کے  رکھ گر دمنج

عطا کر منجے  کچ ترے  نانوں  سوں

دے  پرواز مجکوں  بلند دہانوں  سوں

ترے  نور کی راہ دکھانا منجے

دلا عاقیت کا بچھانا منجے

جلا دے  مرے  جیو کی آگ کوں

دے  رنگ باس منج دمکی پھل پھانگ کوں

سدا کسب میرا سو اخلاص کر

ترے  خاص بندوں  میں  منج خاص کر

جگا جوت تج دھیان کیرا رتن

مرے  من کے  صندوق میں اک جتن

ہماں  کر منجے  باٹ کے  اوج کا

شہنشاہ کر گیان کی فوج کا

غواصیؔ نے  اس مناجات میں فن کے  تمام تقاضوں  کی تکمیل کی ہے  مناجات کے  لیے  درکار معروضہ، مدح اور التجا جیسے  لوازمات کی بہترین پذیرائی غواصی کی اس مناجات میں  موجود ہے۔ اگر غواصی کی دوسری مثنوی ’’مینا وست ونتی‘‘ کا مطالعہ کیا جاتا ہے  تو اس کی ابتدا میں  حمد کے  دوران بھی غواصی مناجاتی رویہ کی بنیاد رکھتا ہے۔ قدیم اردو ’’جلد اول ۱۹۶۵ء مرتبہ ڈاکٹر مسعود حسین خان کا پہلا مقالہ ڈاکٹر غلام عمر خاں  نے  ’’میناستونتی‘‘ کے  تعارف اور اس کی ادبی عظمت پر تحریر کیا ہے  جس میں  تحقیقی جواز کے  ساتھ ’’مینا ستونتی‘‘ کا قلمی نسخہ مرتب کیا گیا ہے  ذیل میں  ’’مینا ستونتی‘‘ کے  حمدیہ اشعار سے  منتخب مناجات پیش کی جا رہی ہے :

الٰہی شرم دھرم تج پاس ہے

ہمن کو ترے  کرم کی آس ہے

تو ستار ہے  عیب داراں  ہمیں

تو کرتار ہے  خوار زاراں  ہمیں

گنہ میں  نپٹ چور، ہیں  اے  قوی

دلاں  پر دکھا تازگی نت نوی

غواصی کی مناجاتوں  کے  مطالعہ سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ اس نے  اپنے  عہد کے  تقاضے  کے  مطابق مثنوی میں  حمد و نعت اور منقبت کے  علاوہ مناجات کو جگہ دے  کر  خدا پرستی اور بندگی کا ثبوت دیا ہے  جس سے  اس کی مذہب دوستی اور بارگاہ خداوندی میں مودبانہ معروضہ پیش کرنے  کی خصلت کا علم ہوتا ہے۔ مناجات کے  دوران خدا کی برتری اور اپنی بے  بسی کو پیش نظر رکھنا ’’فن‘‘ کی سب سے  بڑی ضرورت ہے  اور اس مرحلہ میں  بھی غواصی ثابت قدم نظر آتا ہے  اسی لیے  غواصی کو دکن کا ایک کامیاب ’’مناجات نویس‘‘ کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا۔

(۲)مناجات مقیمی:مرزا محمد   مقیم بیجا پوری کی عادل شاہی سلطنت ۱۴۹۰ء تا ۱۶۸۵ء سے  وابستہ ایک مشہور مثنوی نگار شاعر ہے  اس کی مثنوی ’’چندر بدن ومہیار‘‘ کی سنہ تالیف ۱۰۳۵ھ تا ۱۰۵۰ھ سمجھی جاتی ہے۔ اسی مثنوی میں مقیمی نے  مناجات کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

مقیمی کی زندگی کے  حالات بیان کرتے  ہوئے  ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ’’ تذکرے  اردو مخطوطات‘‘ جلد اول،ص:۳۷ پر لکھتے  ہیں :

 ’’مقیمی کا نام مرزا محمد   مقیم تھا۔ جو استرآباد ایران کے  ایک سید خاندان کا فرد تھا۔ باپ کے  ساتھ مقامات مقدسہ کی زیارت کے  لیے  وطن سے  نکلا۔ واپسی پر شیراز میں مقیم ہو گیا اور سرپرستی کی خاطر بیجا پور  چلا آیا تھا۔ یہاں  اس کا ہم وطن فروتنی استرآباد موجود تھا اور تاریخ نگاری کا کام انجام دے  رہا تھا چنانچہ اس تاریخ (فتوحات عادل شاہی) میں اس کے  حالات کے  بیان ہم وطن شاعر کی حیثیت سے  ذکر کیا ہے  اور اس کے  بعد میر ابراہیم بن میر حسن نے  بھی ’’احوال بادشاہان بیجا پور‘‘ میں  اس کے  فارسی دیوان اور اردو کلام کا تذکرہ کیا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر زور نے  اردو ’’شہ پارے ‘‘ اور نسخہ برٹش میوزیم کے  حوالے  سے  اپنی تحقیق کی تصدیق کی ہے  جبکہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے  ’’تاریخ ادب اردو جلد اول‘‘ کے  صفحہ ۲۳۵ اور ۲۳۷ پر مرزا محمد   مقیم اور مقیمی دو الگ اشخاص کے  نام ہونے  کا ثبوت پیش کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے  ہیں :

 ’’مرزا محمد   مقیم جو دکن ہی میں  ۱۰۱۰ھ۔ ۱۰۱۵ھ ۱۶۰۱/ء۔ ۱۶۰۶ء کے  درمیان پیدا ہوا اور جس نے  ۱۰۷۵ھ۱۰۸۵/ھ م۱۶۶۴ء۔ ۱۶۶۹ء کے  درمیان وفات پائی۔ ‘‘

ڈاکٹر جمیل جالبی نے  مقدمہ ’’چندربدن ومہیار‘‘ مرتبہ کبیرالدین صدیقی کے  علاوہ ’’دکن میں  اردو ‘‘ اور ’’اردو شہ پارے  ‘‘ کے  حوالے  سے  یہ بات ثابت کی ہے  کہ اس مثنوی کے  علاوہ مقیمی نے  مزید ایک مثنوی ’’فتح نامہ بکھیری‘‘ لکھی جو انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کے  کتب خانہ میں مخطوطہ کی شکل میں  محفوظ ہے۔ مقیمی بدن و مہیار میں  مناجات کے  وصف کو نمایاں  کیا ہے  جس کا نمونہ پیش ہے :

مجے  فیض کچ بخش تج دھیان کا

الٰہی تو حافظ ہے  ایمان کا

مرا دین ایمان سارا سوں  توں

مرے  جیو میں  کیتا ہے  ٹھارا سوتوں

مجے  جگ میں  یارب پر امید کر

اتن کے  بچن کوں  توں  جاوید کر

خدایا تو داناں  ہے  مجہ حال پر

کہ چوکیاں  ہوں  یا چوک افعال پر

نہیں  مجہ عقل نیک افعال سوں

ڈھلیاں  نفس غفلت میں  بدحال سوں

نہ طاقت کدھیں  کچ عبادت کیا

نہ تیرے  امر کی اطاعت کیا

کیا نفس سرکش سو اس دھات کے

سکیانیں  پکڑنے  اپر ہات کے

کہ غالب ہو مچ پرا ہے  نفس یوں

ترنگ کوں  چلا دے  چڑنہاں  جوں

کہ پکڑیا ہوں  یاں  آس ہو شرم سار

کہ اپنے  کرم سوں  بخش منج غفار

 ’’مثنوی چندر بدن ومہیار‘‘ کو ۱۹۵۶ء میں محمد   اکبر الدین صدیقی نے  مرتب کیا، جس کے  مقدمہ میں  مثنوی اور مقیمی کی تفصیلات تحقیقی طور پر پیش کئے  گئے  ہیں  مقیمی اگرچہ ایک مثنوی نگار شاعر ہے  اور بقول ڈاکٹر جمیل جالبی اس کی مثنوی میں  تسلسل اور ترتیب کے  دوران جھول پایا جاتا ہے  تاہم اس کی مناجات نگاری نہ صرف دل پذیر اور حد درجہ  متاثر کن ہے  بلکہ لوازمات مناجات کی پوری طرح نمائندگی بھی اس کے  فن کی زینت ہے۔ خدا کے  اوصاف کا ذکر اور اپنی بے  چارگی کو جس خوبی اور تسلسل کے  ساتھ مقیمی نے  نظم کیا ہے  وہ اس فن کا وصف ہے۔ بیجا پور کے  ایک نمائندہ مناجات نگار شاعر کی حیثیت سے  مقیمی کا ادبی مرتبہ نہ صرف بلند ہے  بلکہ اس کی زبان و بیان کی خوبی کو بھی سراہا جائے  گا۔

(۳)مناجات عاجزؔ:دکن میں  مثنوی نگاری کے  دوران ’’مناجات‘‘ کی روایت کو فروغ دینے  والے  شاعروں  میں محمد  بن احمد عاجز کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے  اس کی مثنوی ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ میں  کہانی کے  علاوہ مناجات کا انداز بھی نمایاں  ہے۔ عاجز کے  حالات بیان کرتے  ہوئے  ڈاکٹر جمیل جالبی نے  ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ جلد اول، ص:۲۴۷ پر اسے  شیخ احمد گجراتی کا بیٹا اور دو مثنویوں  ’’یوسف زلیخا‘‘ (۱۰۴۴ھ۱۶۳۴/ء)، ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ (۱۰۴۶ھ۱۶۳۶/ء) کا مصنف بتایا ہے۔ ڈاکٹر غلام عمر خاں  نے  مثنوی ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ سلسلۂ مطبوعات قدیم اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے  توسط سے  وقیع مقدمہ کے  ذریعے  ۱۹۶۷ء میں  شائع کی جس میں  عاجز کے  خاندان اور شاعر ی کی تفصیلات درج ہیں۔ ذیل میں  اس کی مثنوی ’’لیلیٰ مجنوں ‘‘ سے  مناجات کے  اشعار پیش کئے  جاتے  ہیں :

فکر میں  بہوت ایک نس میں  ڈوبیا

مناجات کر حق کنے  یوں  منگیا

توں  ہے  قبلہ حاجات مشکل کشا

دے  توفیق منج کوں  کہوں  سب صفا

ہوا دل میں  الہام اوہام کوں

رواں  ہو چلیا شعرا رقام کوں

مدد کر دے  پیر پیران مراد

یادیں  جن کے  برکت مریداں  مداد

محمد   ا ہے  سیم معشوق اول

دو جا میم جو ہے  سو حیراں  نسل

کرم رحم منج پر ہوں  بندا تمھیں

مریدی میں  عاجز ہے  ثابت یقیں

عاجز کی مثنوی میں  ’’مناجاتی عمل‘‘ حد درجہ نمایاں  ہے  اور مناجات کے  دوران وہ خدا کے  بجائے  پیران پیر اور حضرت محمد  صلعم سے  مدد کا طلب گار ہے  اور یہ عمل مناجات میں خدا سے  طلب کے  باہر ہے۔ تاہم یہ احساس ضرور ہوتا ہے  کہ عاجز کی دکنی زبان پر جدید رنگ کی چھاپ ہے  اور قدیم انداز رفتہ رفتہ میٹھی زبان سے  ہم آہنگ ہوتا جا رہا ہے  یہ عمل دکنی پر فارسی کے  غلبہ کی صورت میں  نمایاں  ہوتا ہے۔

(۴)مناجات ابن نشاطی:مثنوی نگاروں  کی فہرست میں شیخ محمد  مظہر الدین بن شیخ فخرالدین ابن نشاطی اپنی مثنوی ’’پھول بن‘‘ کی وجہ سے  دکن کے  منفرد شاعروں  میں شمار کیا جاتا ہے  یہ مثنوی شیخ چاند مرحوم کے  طویل تحقیقی مقدمہ ۱۹۵۵ء کے  ساتھ انجمن ترقی اردو ، پاکستان سے  شائع کی گئی۔ ’’پھول بن‘‘ عبداللہ قطب شاہ کے  عہد میں لکھی گئی اس کا سنہ تصنیف ۱۰۶۶ھ م۱۶۵۵ء ہے  ابن نشاطی  دربار سے  وابستہ نہیں  تھا اور اس نے  اپنی مثنوی میں  عوامی ماحول کی ترجمانی کی ہے۔ ابن نشاطی کے  انشا پرداز ہونے  اور صنائع و بدائع  کو مثنوی میں  سمونے  کا ذکر ڈاکٹر جمیل جالبی نے  بطور خاص اپنے  تحقیقی مقالوں  میں کیا ہے ’’پھول بن‘‘ میں  موجود ’’مناجاتی اشعار ‘‘ پیش ہیں :

الٰہی غیب کے  پردے  ستی توں

میرے  مطلب کے  شاہد کا دکھا موں

توں  کر دل کو میرے  آئینہ کردار

محبت کا جو دیکھوں  تس میں  دیدار

مجھے  توں  عشق میں  ثابت قدم رکھ

سدا عزت کی صف میں  محترم رکھ

محبت سوں  تری دے  آشنائی

کہے  میں  ’’آشنائی۔ روشنائی‘‘

تری باتوں  کوں  سننے  گوش دے  گوش

سمجھنے  راز تیرا ہوش دے  ہوش

مٹھائی دے  شکر کی منج زباں  کوں

تو چشمہ شہد کا کر مجھ دہاں  کوں

اگر دنیاں  زیادہ نیں  تو نیں  غم

ولے  توں  دین کوں  میرے  نہ کر کم

شکر کر توں  سدا گفتار میرا

ہنر کا گرم کر بازار میرا

دے  بخشش مجھ ولایت شاعر ی کا

تو کشور کر عطا مجھ ظاہری کا

میرے  خالے  کوں  دے  گوہر فشانی

کبھی نادے  نامیکوں  خوبی کی نشانی

مطول کرتوں  میری زندگانی

توں  برخوردار کر میری جوانی

میرے  دے  ہاتھ میں  موسیٰ کے  اعجاز

میری دے  بات میں  عیسیٰ کے  اعجاز

مجھ آئینے  کوں  دل کے، دے  جلا توں

صدا صحت کی راحت سوں  چلا توں

دنیا کی ہیبتاں  سوں  رکھ توں  ایمن

نگہ رکھ توں  ہر یک آفت سوں  لغس دن

زبونی سوں  نگہ رکھ تن کوں  میرے

امانت رکھ خزاں  سوں  بن کوں  میرے

نہ رہے  تیوں  دور کر مجھ دل کی سستی

ہمیشہ مجھ کوں  دے  تو تندرستی

وہ کیا رحمت ہے  تیرا اللہ اللہ

کیا لا تقنطو من رحمت اللہ

دریا رحمت کی جس دن آئیں  گی جوش

نہ کر ابن نشاطی کوں  فراموش

گنہ کوں  گرچہ میرے  نیں  ہے  غایت

ولے  رحمت ہے  تیرا بے  نہایت

گواہی دیویں  گے  جس وقت روں  روں

ہو مجھ ابن نشاطی کے  سکوں  توں

کدورت سو صفا کہ راہ میرا

نبی کوں  کر، شفاعت خواہ میرا

صفا کا راہ دکھلا مجھ صفا کا

صفا کا راہ جو ہے  مصطفی کا

دیا توں  آرسی کوں  دلکی چھلگار

رکھیا ہے  ناتواں  غفلت کا توں  زنگار

میرے  سب تن میں  بھر اسرار تیرا

نین دیکھن کوں  دے  دیدار تیرا

ابن نشاطی نے  مثنوی ’’پھول بن‘‘ کے  ذریعہ جس مناجاتی پیرائے  کو استعمال کیا ہے  اس میں  ترتیب اور تسلسل کی فراوانی کی وجہ بیانیہ پوری طرح اجاگر ہوتا ہے  تاہم تمام تر مناجات شاعر کی ذات اور اس کے  ارتقا کے  اطراف گھومتی ہے  جس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ابن نشاطی نے  شخصی اور ذاتی درجے  بلند کرنے  کی آرزو میں یہ مناجات تحریر کی ہے  اور ابن نشاطی کی مناجات میں  انکساری اور مدعا کا انداز اس قدر غالب ہے  کہ توصیف خداوندی پر شاعر کی توجہ مرکوز ہونے  کے  باوجود بھی شخصیت کے  ظاہر و باطن کو منور کرنے  کی تمنا آئینہ دار ہو جاتی ہے۔ غرض ابن نشاطی کی مناجات میں  شاعر اپنے  ظاہر و باطن کو سنوارنے  کی التجا کرتے  ہوئے  خدا سے  مدد کا طلب گا رہے۔ اس طرح ابن نشاطی کی مناجات دیگر دکنی شعرا کی مناجات سے  مختلف انداز کی نمائندہ ہے۔

(۵)مناجات ملا نصرتی:محمد  نصرت نصرتی ’’عادل شاہی دور‘‘ کا سب سے  بڑا شاعر گزرا ہے۔ وہ علی عادل شاہی کے  عہد کا ملک الشعرا بھی تھا۔ اس کی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ ۱۶۵۷ء اور مثنوی ’’علی نامہ‘‘ ۱۶۶۵ء کی تصنیف ہے۔ وہ شاہی کے  بچپن کا ساتھی ہونے  کے  علاوہ بادشاہ کے  رزم اور بزم کا بھی شریک کار تھا۔ ’’تاریخ سکندری‘‘ اسی تعلق کی یادگار ہے۔ مولوی عبدالحق نے  ’’نصرتی‘‘ نامی کتاب میں  اس کے  فن کا محاکمہ کرتے  ہوئے  اسے  اردو کا ایک بہترین ’’رزمیہ شاعر ‘‘ قرار دیا ہے۔ ملا نصرتی کی مثنوی ’’علی نامہ‘‘ اور رزمیہ کی بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ ’’علی نامہ‘‘ میں  نصرتی نے  ایک طویل ’’مناجات‘‘ لکھی ہے  جس میں  اس کے  فن کی جولانی دکھائی دیتی ہے۔ جو قارئین کی دلچسپی کے  لیے  پیش خدمت ہے :

الٰہی ترا مہر، عالم نواز

کر نہار دریاں  کو نت سرفراز

تو دانا و بینا قدیم و حکیم

تو عارف ہے  کامل سمجھ تجھ عظیم

تو بولیا سو حق ہے  ہمن شان میں

ظلموماً جہولا جو قرآن میں

ہمن کل جو پنچے  سو دن پانچ کے

ممیز تو نیں  جھوٹ ہور ساتھ کے

ہمیں  کیا ہیں  ہور کیا ہمارا سمج

زکام آنہارے  سے  نویک بے  وجہے

نکل جہل تے  نا ہو عالم ہمے

ہمن نفس پر نت ظام ہمے

رکھے  روشنی سٹ اندھا رے  میں  موں

کریا کیا نفا چاند شب کور کوں

ہوئے  خوب دسنے  سے  معذور آہ

بسر راج ما رگ پڑے  دور آہ

توں  او باٹ دکھلا مجے  کر کرم

کہ منزل کوں  اپڑوں  شب آخر قدم

غنی توں  خزینے  میں  تجھ کم ہے  کیا

ہمن بندگی بن توں  پر کم ہے  کیا

بدھا نے  کوں  واں  دشمناں  میں  رواج

عبادت ہمن یاں  توں  آریا ہے  آج

مرکب ہے  پن جہل ہمناں  میں  او

نہ کچھ خوب کام آئے  یک پل بی ہو

لے  آویں  گے  آخر جو پاکانِ حق

عبادت کے  تحفیاں  کوں  بھر بھر طبق

کیا ہوں  گنہ سو عبادت کے  ٹھانوں

دریغا کے  میں  اس گھڑی کیا لیجاؤں

گنہ پر میرے  عجزیاں  کوں  ڈھانک

نہوے  بست کچھ دیکھنے  میں  تو جھانک

نہ کاڑاس قے  سرپوش دانائے  غیب

کہ ہے  دشمناں  میں  تو ستار عیب

پنجہ میں  تو عاجز ہوں  یک مشتِ خاک

توں  حاکم ہے  تیرا رکھیا روحِ پاک

اچھے  ہات عاجز کے  تدبیر کیا

توں  مختارِ کل، مجھ پہ تقصیر کیا

مجے  خوب کاماں  کی توفیق دے

اچھے  حق سو کر مجھ پہ تحقیق دے

طمع کوں  نکو ہونے  دے  بدکی کال

میری دین دنیا میں  عزت سنبھال

قناعت کا دنیا میں  دے  گنج مجھ

صبوری میں  دل کا کر گہر سنج مجھ

تگ و دو کی دنیا تے  سب جھاڑدھول

میرے  دل کے  دامن کوں  کر پاک پھول

مجھے  حرص کے  سوس لاؤں  نکوں

میرا آبرو مجھ پلاؤں  نکوں

نہ خواری سوکر کر پھرا حسن مجے

توں  حاجت روا ہوا چھے  بس مجے

الٰہی تیرا مجھ کو یہ دین بھائے

دو عالم میں  تیرا دیا کام آئے

دہے  باجہ یچ پر تم جہاں

سکھے  تجھ کرم تے  زمیں  آسماں

مرے  دل کوں  سب گل تے  کر بے  نیاز

عنایت سوں  تیریچ رکھ سرفراز

مجھے  عشق دنیائے  مردار کا

نجاست میں  پاڑیا ہے  یکبار کا

نکو کر ہو آخرت اسی میں  ہلاک

کہ جیو پاک ہے، رکھ نجاست سے  پاک

مرے  نین کوں  دے  تو اس دھات نور

کہ تا تجھ تجلی کا دیکھوں  ظہور

کر ایسے  سنن ہار مجھ دل کے  گوش

جو اوبالے  بال آکہ انپڑائیں  ہوش

ترے  دھیان کا جم ا ہے  شہد مل

محبت میں  تجھ، کر مرا موم دل

مری طبع کے  گل میں  ہو رنگ رس

گپت اور پرگٹ سدا تونچھ بس

نپا چک میں  مجھ مغفرت کا انجن

کہ ہر شہ میں  دس آئے  توں  ہے  سودھن

پلا مجھ محبت کا ایسا شراب

کہ ہو مست بسروں  و جگ کا حساب

مرے  مکھ سے  کاڑاس اثر کا کلام

کہ ہر بول ہوئے، مئے  پرستاں  کو جام

دھر تہا اثر حال کا قال دے

دلاں  کو جم، اس قال تے  حال دے

بھریا اک مرے  دم میں  افسوں  سدا

کہ جگ میں  ہو مسخریوں  سن کر خدا

مرے  شعر سوں  زندہ کر ہر شعور

سمجھ مجھ بچن تے  توں  کر جگ میں  پور

مری بات انگے  بحث کر سب کی رد

سخن کر مرا عارفاں  میں  سند

سیاہی کوں  کر میری ظمات دھات

قلم میں  مرے  خضر کی دے  صفات

کہ ظلمات میں  اس، جو یو خضر جائے

برسنے  کو امرت، یہاں  ہوکے  آئے

گلستاں  میں  ہر انجمن کی دھرا

مرے  خوش سفینے  کا بستاں  سرا

جو اٹکے  نظر آ کے  باریک بیں

تو ہر بیت کے  خوش محل میں  یقیں

دکھاوے  میرے  پر، وہ فکرِ سکوں

ہر ایک تازہ مضموں  کے  بکر موں

مرے  فن کے  پن کو عطا کر وہ آب

کہ ہر پھول ہوئے  چشمۂ پُر گلاب

ہر اک پھول کو دے  تو اس دھات رنگ

کہ ہوئے  صبا دیکھ خورشید دنگ

حروفاں  میں  بھر یوں  معانی کا رس

کہ ہوئے  منے  کو امرت اوپنے  کی ہوس

اپن شعر مجھ جگ پہ نت نقش ہو

سورج کے  نگینے  پہ سکہ کرو

مرے  مس کوں  کر تجھ کرم سے  طلا

ہریک نگ کو خورشید تے  دے  جلا

خیالاں  کو مجھ باو کے  اوج دے

طبیعت کو دریا کے  نت موج دے

میرے  جیب کو سلف کر آبدار

عنایت کی اک دم سونت تیز دھار

 کہ ٹک جس طرف آبہے  او زباں

گزر آئے  گر موشگافی وہاں

ترے  فن کو قوت سوں  مجھ مست کر

ہنر سب میں  میرا، زبردست کر

کھڑا جاں  ہو رن، کانپ دے  مجھ قلم

مرا نام نصرت سوں  کرواں  علم

کرامت میرے  فن میں  رکھ یوں  نہاں

کہ سنتے  بچن ہوئے  تماشا عیاں

مرا شعر کر دے  زمانے  کو برد

یوں  ہر بیت اچھو شیر مرداں  کو ورد

معانی تے  تس قرب مرداں  کو دے

شکست جنگ جوئی کا گرداں  کو دے

کہ کرتیں  غزا غازیاں  نت نوی

سدا ہوئے  دینِ محمد   قوی

کہوں، نعت شہ کا اس نامور

نواز یا گیا جس کھرگ کے  ظفر

مثنوی ’’علی نامہ‘‘ پروفیسر عبد المجید صدیقی کے  زیر اہتمام ۱۹۵۹ء میں  معہ مقدمہ شائع ہوئی۔ ’’علی نامہ‘‘ کے  ذریعہ محمد  نصرت نصرتی نے  جس مناجاتی عمل کو روا رکھا ہے  اس کی سب سے  بڑی خصوصیت یہی ہے  کہ نصرتی نے  تعریف خداوندی اور اپنی انکساری کے  ساتھ جو دعائیہ کلمات ادا کئے  ہیں  اس میں  اپنے  کلام اور شاعر ی میں  تاثیر پیدا کرنے  کی گزارش کے  ساتھ خدا سے  یہ التجا کی گئی ہے  کہ وہ شاعر کے  شعر میں  ایسے  اوصاف پیدا کر دے  کہ جس کی وجہ سے  اس کا فن نمایاں  ہو جائے  اور اس کے  لفظ و معنی میں  دل کو گرفت میں لینے  اور ظفر مندی حاصل کرنے  کی خصوصیت پیدا ہو جائے۔ نصرتی کا یہ دعائیہ استدلال حد درجہ انفرادی ہونے  کے  علاوہ اپنے  سابق اور معاصر شعرا کے  مقابلہ میں  انتہائی جدید ہے۔ اس کے  علاوہ نصرتی نے  قلم سے  تلوار کا کام انجام دینے  کا ذکر کرتے  ہوئے  مثنوی ’’علی نامہ‘‘ میں  پہلی مرتبہ شعر کے  ذریعہ زبان، حروف، معانی، خیالات، فکر اور فن کے  علاوہ ادب کی پرورش کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے  اپنی ’’مناجات‘‘ میں  خدا سے  بے  مثل تمنائیں  وابستہ کی ہیں۔ اس اعتبار سے  نصرتی کی مناجات میں  جہاں  انفرادیت ہے  وہیں  انسان کی بے  بسی و بے  چارگی کے  علاوہ ایسی خواہشات کا اظہار بھی ملتا ہے  جو خودی کا خصوصی وصف ہے۔ چنانچہ نصرتی اپنی عاجزی کو نمایاں  کرتے  ہوئے  یہ لکھتا ہے  کہ خدا اسے  لالچ سے  دور رکھے  اور قناعت کا خزانہ عطا کرے  اور ایسی شراب پلائے  کہ وہ دنیاداری سے  بے  نیاز ہو جائے۔ نصرتی نے  اپنی ’’مناجات‘‘ میں  دین و دنیا کے  استوار ہونے  اور نیک انسان بنانے  کے  علاوہ دین محمد   کو قوت عطا کرنے  کی دعا بھی کی ہے۔ اس طویل مناجات میں  تمام مناجاتی اوصاف موجود ہیں۔ اس لیے  اردو مناجات کی تاریخ میں  نصرتی کی مناجات کو خاص مقام حاصل ہے۔ ’’علی نامہ‘‘ میں  موجود مناجات کو اردو کی چند اہم مناجاتوں  میں  شمار کیا جا سکتا ہے۔

(۶)مناجات وجدی:شیخ وجیہ الدین وجدی کی مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ درحقیقت شیخ فرید الدین عطار کی تصنیف ’’منطق الطیر‘‘ کا دکنی ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر زور قادری یہ لکھتے  ہیں  کہ وجدی نے  ۱۱۴۶ء میں  مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ قلمبند کی۔ وجدی زوال سلاطین دکن کے  بعد کے  ایک مشہور صوفی شاعر تھے  جنھوں  نے  قدیم ذوق سخن کو جاری رکھا۔ یہ ٹھیٹ دکنی طرز کے  آخری شعرا میں  سے  ہیں۔ منطق الطیر کے  ترجمہ کے  علاوہ وجدی نے  فارسی مثنوی ’’گل و ہرمز‘‘ کا ’’تحفۂ عاشقاں ‘‘ کے  نام سے  ۱۱۱۵ھ میں  ترجمہ کیا۔ دیگر کتابوں  میں  ’’باغ جاں  فزا‘‘ ۱۱۴۵ھ اور ایک دکنی عدم دستیاب دیوان بھی شامل ہے۔ ’’پنچھی باچھا‘‘ کے  دو نسخے ’’پنچھی نامہ‘‘ کے  نام سے  مطبع محمد  ی بمبئی سے  سید غلام حسین شاہ نے  ۱۲۴۵ھ،م۱۸۲۹ء اور قاضی ابراہیم بن قاضی نور محمد   نے  ۱۲۷۴ھ، م۱۸۵۷ء میں  شائع کروایا۔ پروفیسر سید محمد   نے  اس مثنوی کو تحقیقی مقدمہ کے  ساتھ ۱۹۵۹ء میں سالارجنگ پبلشنگ کمیٹی، حیدرآباد سے  شائع کروایا۔ وجدی کی مثنوی ’’پنچھی باچھا‘‘ میں  موجود ’’مناجات‘‘ کے  مطالعہ سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ اس نے  ’’مناجاتی عوامل‘‘ کا لحاظ رکھتے  ہوئے  خدا کے  روبرو خاکساری اور فروتنی خلقی دکھائی ہے۔ وجدی کی مناجات کے  اشعار پیش ہیں :

بول اپنے  ہاتھ اوٹھا اے  کر دگار

معصیت سے  مجھ کو مت رکھ شرمسار

تجھ سوا ہم اے  خدا کس پاس جائیں

تو نہیں  چاہا تو ہم کس کے  کہائیں

اس خودی میں  ہے  تجھے  مستی حلال

جس میں  ہیں  عکس صفاتِ ذوالجلال

بندگی میں  حق کی باندھ اپنی کمر

تاکہ ہو فربہ ولے  با کروفر

نفس ہے  فرعون اسے  کر سیر مت

تانہ ہو مغرور وہ کافر صفت

گرچہ روئے  یا پکارے  زار زار

وہ نہ ہو آخر مسلماں  ہوشیار

تن کو تو فربہ نہ کر بکرے  مثال

تاکہ نہ ہو جاوے  خوں  تیرا حلال

خوابِ غفلت ہے  یہ دنیا سر بسر

اس میں  تو غافل نہ ہو اے  بے  خبر

گر رہا یک شہر میں  ساری عمر

جو رہے  ہر آس کو جاتا بھول کر

خواب میں  جب شہر دوسرا دیکھتا

بوچھتا شہر قدیمی ہے  میرا

شہر کا اپنے  نہیں  کرتا خیال

خواب میں  ایسا ہے  ہر ہر کا خیال

روح ایسا ہے  مقام اپنے  کو بھول

کیا عجب اس خواب میں  گر ہو ملول

وجدی نے  اسے  ’’مناجات در تبنیہ نفس خویش‘‘ کا عنوان دیا ہے  جبکہ اس کی مناجات میں  ’’مناجاتی عناصر‘‘ کی کمی اور اس فن کے  لیے  درکار لوازمات کی پا بجائی بھی خال خال نظر آتی ہے۔ اگر چہ وجدی نے  التجا کے  عنصر کو روا رکھا ہے  لیکن مناجاتی طرز یعنی انسان کے  بے  بساطی اور اس کی بے  چارگی کا ذکر اس مناجات میں اپنا اثر نہیں  دکھاتا جس کی وجہ سے  وجدی کی مناجات اس طرز کا وصف رکھنے  کے  باوجود بھی فنی اور مناجاتی انداز سے  بے  نیاز ہوتی ہے  اس کے  باوجود بھی وجدی کی مناجات کا ذکر اس لیے  لازمی ہے  کہ وہ دکن کے  مناجات نگار شعرا کی صف میں  شامل ہے۔

(۷)مناجات سراج:دکن میں  اردو غزل کی نشو و نما  کا سہرا ولی ؔ اور سراج ؔ کے  سر جاتا ہے۔ سراج کا تعلق اورنگ آباد سے  تھا۔ وہ ایک ایسے  دور کے  پروردہ ہیں  جبکہ دکن پر مغل شہنشاہ اور نگ زیب کا قبضہ ہو چکا تھا اور دکنی پر دہلوی یا پھر شاہ جہاں  آبادی کے  اثرات گہرے  ہونے  لگے  تھے  اور رفتہ رفتہ دکنی زبان دہلوی محاورہ سے  قریب اور دکنی محاورے  سے  دور ہوتی جا رہی تھی۔

 ’’سراج اور نگ آبادی۔ شخصیت اور عہد‘‘ کے  مصنف سید شفقت رضوی کے  مطابق ۱۳ صفر ۱۲۲۴ھ م مارچ ۱۷۱۲ء بہ روز دو شنبہ اور نگ آباد کے  ایک سادات گھرانے  میں  پیدا ہونے  والے  لڑکے  کا تاریخی نام ’’ظہور احد‘‘ رکھا گیا جو سید سراج الدین سراج اور نگ آبادی کے  نام سے  مشہور ہوا۔ یعنی اور نگ زیب کی رحلت کے  آٹھ سال کے  بعد شاہ عالم کے  عہد میں  سراج پیدا ہوئے  جبکہ نظام الملک آصف جاہ اول میر قمر الدین علی خان دکن میں  اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکے  تھے۔ سراج اور نگ آبادی نے  ۴ شوال ۱۱۷۷ھ م۶۴۔ ۱۷۶۳ء بروز جمعہ بوقت نماز پیشین اس دار فانی سے  کوچ کیا۔ اردو غزل میں سراج اور نگ آبادی کا اپنا منفرد انداز ہے۔ تاہم سراج اور نگ آبادی کی شہرہ آفاق مثنوی ’’بوستان خیال‘‘ ۱۱۶۰ھ م۱۷۴۷ء میں  ان کے  مناجاتی رویہ کی نشاندہی ملتی ہے۔ سراج اور نگ آبادی نے  اپنی مناجات میں  عام انداز سے  بالکل جداگانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ وہ خدا کی برتری کا ذکر اور اس سے  التجا کرتے  ہوئے  گنا ہوں  اور برائیوں  سے  نجات کے  بجائے  حسینوں  کی اداؤں  اور ان کی دلربائیوں  سے  نجات کا ذکر کرتے  اور نور قدیمی کی جھلک دکھانے  کی التجا کرتے  ہیں۔ ’’بوستان خیال‘‘ کے  آخری بند سے  ’’مناجاتی اشعار ‘‘ پیش کئے  جاتے  ہیں :

دعا کو یہی ہات اٹھا حق کے  پاس

کہ جاوے  ترے  پاس سے  غم کی باس

کسی سے  نہ اب غیر حق بات کر

نپٹ التجا سے  مناجات کر

الٰہی بتوں  سے  مرا دل پھرا

کہ ہرگز نہیں  ان میں  نام وفا

مجھے  ان کی زلفوں  کے  خم سے  نکال

کہ آئے  گا ایماں  پہ آخر و بال

چھڑا دام گیسوئے  خوباں  سے  دل

بچا خنجر نوک مژگاں  سے  دل

مجھے  دور رکھ ان کے  ابر وستی

بچا رکھ مجھے  چشم جادوستی

مت ان جامہ زیبوں  سے  اٹکا مجھے

نہ دے  ان کے  دامن کا جھٹکا مجھے

تبسم انھوں  کا مجھے  مت دکھا

تکلم انھوں  کا مجھے  مت سنا

پھر احسن حادث سے  دل یک بیک

کہ نورِ قدیمی کی دیکھوں  جھلک

سراج اور نگ آبادی کی بیشتر مثنویوں  میں  ’’مناجات‘‘ کا وصف شامل ہے  بلکہ یہ کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا کہ سراج اور نگ آبادی اردو کے  واحد شاعر ہیں  جنھوں  نے  اپنی شاعر ی میں سب سے  زیادہ ’’مناجات‘‘ کو رواج دیا ہے۔ ان کے  کلام میں تمام مناجاتی خصوصیات کار فرما ہیں۔ دوسری مثنوی کا عنوان ہی سراج اور نگ آبادی نے  ’’مناجات‘‘ تحریر کیا ہے۔ جس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ سراج اور نگ آبادی اردو کے  پہلے  با شعور شاعر ہیں جنھوں  نے  ’’مناجات‘‘ کو اپنی شاعر ی میں  بطور خاص اور بالارادہ جگہ دی اور پوری جذباتی ہم آہنگی کے  ساتھ ’’مناجات‘‘ کا حق ادا کرنے  کی کوشش کی۔ مثنوی کے  ساتھ ساتھ غزل کے  دوران بھی ان کی ’’مناجاتی فکر‘‘ نہ صرف ابھرتی بلکہ قاری کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ذیل میں  ان کی دو مثنویوں  سے  منتخب مناجات پیش ہیں۔

مثنوی ’’بوستانِ خیال‘‘ میں سراج اور نگ آبادی نے  ’’مناجاتی‘‘ خصوصیات کو روا رکھا ہے۔ مثنوی کا اختتامیہ خود ’’مناجات بہ حضرت ذوالجلال و ختم بوستان خیال‘‘ کے  عنوان سے  ظاہر کیا گیا ہے  جس کا آغاز ۱۱۱۲ ویں  شعر سے  ہوتا ہے  اور ۱۱۲۵  اشعار تک ’’مناجاتی لہجہ‘‘ کو روا رکھا گیا ہے  جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے  جس کے  بعد شاعر مختلف وسیلوں  سے  ’’مناجات‘‘ کے  رویہ کو ایک نئے  انداز سے  وابستہ کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

بحقِ جناب رسول کریم

کہ برحق ہے  محبوب تیرا قدیم

بحق علی شاہ دلدل سوار

وصی نبی صاحب ذوالفقار

بحق حسن سر و سر سبز دیں

کہ ہے  نونہال بہشت بریں

بحق حسین شہ کربلا

شہید سر خنجر اشقیا

بحق دل پاک زین العباد

کہ نیں  ماسوا جس کو اللہ کے  یاد

بحق سر سرور خاص و عام

کہ حق پاس سے  جس کو باقر ہے  نام

بحق بہار گل جعفری

کہ ہے  گلبن گلشن سروری

بحق شہ کاظم با صفا

جماعت میں  ایماں  کی ہے  مقتدا

بحق رضا شاہ محشر پناہ

خراسان قدرت کا ہے  کج کلاہ

بحق تقی، اختر برج دیں

کہ ہے  آفتاب سپہر یقیں

بحق نقی، کان برج کمال

نمایاں  نبی کا ہے  جس میں  جمال

بحق امام حسن عسکری

چراغ شبستان نیک اختری

بحق شہ مہدی نیک نام

کہ قائم ہے  آل محمد   سدام

سراج اور نگ آبادی نے  بارہ اماموں  کے  واسطوں  سے  ’’مناجات‘‘ میں شجرہ عالیہ کی خصوصیات شامل کی ہے۔ مستقبل کا نقاد یہ فیصلہ کرے  گا کہ مناجات میں  ان عوامل کی پذیرائی کس حد تک ممکن ہے۔ غرض سراج نے  آل محمد   کے  وسیلہ کے  ذکر کے  توسط سے  مناجات کے  اوصاف کو جاری رکھا ہے  چنانچہ مثنوی ’’بوستان خیال‘‘ کا تسلسل آگے  اس طرح رواں  ہوتا ہے :

کہ منج کو تری دولت خاص دے

اسی چاردہ تن سے  اخلاص دے

یہی ورد میرا رہے  صبح و شام

غلامی میں  اون کی رہوں  میں  مدام

پھرا دل مرا، صحبت غیر سے

کہ کعبے  طرف جاؤں  اب دَیر سے

میں  لایا ہوں  تیری طرف التجا

طریقِ ہدایت مجھے  اب بتا

تغافل نہ کر ورنہ ابتر ہے  کام

توجہ سے  مقصود برلاتمام

کہ میں  سب طرف سے  ہوا ہوں  نراس

لے  آیا ہوں  روئے  سیہ تیرے  پاس

کہ تو اس مری رو سیاہی کو دھو

زلال عنایت سے  دے  شست و شو

گزر گئی مری بت پرستی میں  عمر

کٹی غفلت و جہل و مستی میں  عمر

میں  اب چاہتا ہوں  کہ ہوشیار ہوں

اب اس خواب غفلت سے  بیدار ہوں

ولیکن ترا فضل درکار ہے

وگرنہ مرے  پر تو دشوار ہے

میں  ہر چند رحمت کے  قابل نہیں

عنایت کے  نزدیک مشکل نہیں

کہ مجہ سا گنہگار پاوے  نجات

نہ زنگار ہوئے  قابل عکس ذات

مرا عکس وہمی ہے  دشمن مرا

کیا ہے  سیہ دل کا درپن مرا

اگر ہوے  نوازش کی صیقل گری

تو اس آئینے  کی ہے  نیک اختری

گرا دے  مجھے  چشم پندار سے

کہ تا صاف ہو جاوے  یہ زنگ ابھی نور سب

سراج اب طلب مدعا کی نہ کر

کہ خاصوں  میں یہ بات نیں  معتبر

اسی بیت کو ورد کر صبح و شام

جناب الٰہی میں  کہہ توں  مدام

سپر دم بتو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را

کیا میں  جب اس مثنوی کا خیال

تھے  ہجری ہزار و صد شست سال

شمار اس کی ابیات کا جب کیا

تو ہجری کے  سن سے  موافق ہوا

زبس اس میں  ہے  سیر گلشن مدام

رکھا بوستان خیال اوسکا نام

عدو جب کہ اس نام کے  آئے  بات

مطابق ہوئے  سال و ابیات سات

یہ دو دن کی تصنیف ہے  حسب حال

زباں  پر نکل آیا دل کا اُبال

نظر میں  نہ لاؤ تم اس کا قصور

کہ ہے  درد مندی سے  یہ بات دور

سراج اور نگ آبادی کی مثنویات میں  ’’بوستان خیال‘‘ کا اختتام جہاں  ’’مناجات‘‘ پر ہوتا ہے۔ وہیں  ان کے  کلیات میں مزید دو مثنویوں  کی حیثیت ’’مناجات‘‘ کی ہے۔ ’’کلیات سراج‘‘ مرتبہ پروفیسر عبدالقادر سروری کے  صفحہ ۲۵۳ پر ’’مناجات‘‘ کے  زیر عنوان جو نظم پیش کی گئی ہے، وہ پیش ہے :

الٰہی مجہ کوں  دردِ لا دوا دے

مجھے  توفیق عشق بے  ریا دے

الٰہی شوق کی آتش عطا کر

جلا کر خاک کر لا کر فنا کر

الٰہی عشق کی مے  کا پلا جام

مجھے  بے  ہوش رکھ ہر صبح و ہر شام

الٰہی دے  جگر پر عشق کا گل

مجھے  کر شوق کے  گلشن کا بلبل

الٰہی آہ کوں  آتش فشاں  کر

مرے  آنسو کی پانی کوں  رواں  کر

الٰہی مجلس کثرت میں  رکھ دور

مئے  وحدت پلا مانند منصور

الٰہی کر مجھے  تو خسرو غم

رواں  کر جوئے  شیر آنکھوں  میں  ہر دم

الٰہی شربت شیرین غم دے

طپش دے، داغ دے، درد و الم دے

الٰہی کر مجھے  فرہاد جاں  کاہ

لگا میرے  جگر پر تیشئر آہ

الٰہی توں  مجھے  مانند مجنوں

کر اپنے  حسن کی لیلیٰ کا مفتوں

الٰہی جلوۂ دیدار دکھلا

جمال مطلع الا انوار دکھلا

الٰہی دل کوں  ہے  میرے  تمنا

جمال یوسفی پر کر زلیخا

الٰہی دے  لبالب جام الفت

مجھے  کر وحشیِ دشت وحشت

الٰہی عشق میں  رکھ مجھ کوں  بے  تاب

مجھے  کر عشق کی آتش میں سیماب

الٰہی کر مرے  آنسو کو جاری

مجھے  دے  بے  قراری آہ و زاری

الٰہی لخت دل کا دے  مجھے  قوت

ہر اک آنسو مرا کر لعل و یاقوت

الٰہی کر دعا میری کوں  مقبول

کہ میں  سائل ہوں  تیرا اور تو مسؤل

الٰہی دے  مرا مقصود دل خواہ

کہ ہے  لا تقنطو من رحمت اللہ

الٰہی مدعا میرے  کوں  برلا

دکھا مجھ کوں  حقیقت کا تماشا

الٰہی چشم دل پر کھول یک بار

جلی، روحی، خفی، سری کے  گلزار

الٰہی کر لبالب جام خالی

دکھا مجھ کوں  جمال لا یزالی

الٰہی بحر غم میں  آشنا کر

مرے  آنسو کوں  در بے  بہا کر

الٰہی چاہتا ہوں  چہرۂ زرد

بہار غم، دل گرم و دم سرد

الٰہی لذت درد ویلا دے

مرے  پر عشق کو نوبت بجا دے

الٰہی سوز عشق بے  کراں  دے

بہار گلشن آہ و فغاں  دے

الٰہی بے  خود بزم جنوں  کر

مرا دل گوہر دریائے  خوں  کر

الٰہی دے  مجھے  رنگیں  خیالی

سخن کے  باغ کا کرمجہ کوں  مالی

الٰہی شعر میرا درفشاں  کر

لو سے  صافی میں جیوں  آب رواں  کر

الٰہی تجھ ثنا میں  ہوں  غزل خواں

ہر اک مصرع کوں  کر لعل بدخشاں

الٰہی کر عطا روشن بیانی

مرے  اشعار کوں  توں  سے  روانی

الٰہی دے  سخن کی پادشاہی

خیال آباد کی دے  کج کلاہی

الٰہی مجہ کوں  توں  فکر رسا دے

میرے  آئینہ دل کوں  جلادے

الٰہی بخش مجہ کوں  نکتہ دانی

توں  کر غواص دریائے  معانی

الٰہی مجہ سخن میں  دے  لطافت

گل معنی میں دے  رنگ نزاکت

الٰہی حمد تیری کا ہے  مذکور

مری ہر بیت کر عالم میں  مشہور

الٰہی شعر میرا دل نشیں  ہوئے

نہال بوستان آفریں  ہوئے

الٰہی ہر غزل مقبول جاں  ہوئے

وظیفہ دل کا اور ورد زباں  ہوئے

الٰہی کر مرے  دیوان کو مشہور

ہر اک صاحب نظر کا ہوئے  منظور

الٰہی سوز دل کا تشنہ لب ہوں

جناب کبریا میں  بے  ادب ہوں

الٰہی من عرف، کے  باب سب کھول

مرے  پر عشق کے  آداب سب کھول

الٰہی پردۂ کثرت اوٹھا  دے

شراب ساغر وحدت پلا دے

الٰہی لطف کر مت در بدر کر

کتا ہوں  پر مرے  مت در بدر کر

الٰہی بھیج توں  بار ان رحمت

گنہ گاروں  پر اپنی کر شفقت

الٰہی مجہ کوں  ہے  امید واری

کہ بخشے  گا مجھے  غفار باری

الٰہی عجز پر میرے  کرم کر

نگاہ لطف مجھ پر دم بہ دم کر

الٰہی طالب حسن ازل ہوں

طلب گار جمال بے  بدل ہوں

الٰہی غرق دریائے  بقا کر

صفائے  سینۂ روشن عطا کر

الٰہی مجہ کوں  دکھلا جلوۂ نور

مرا دل کر بہار شعلۂ طور

الٰہی غم میں  جلتا ہے  سراج آج

زلال وصل کا ہے  تیرے  محتاج

سراج اور نگ آبادی کو ’’مناجاتی طرز‘‘ سے  بے  انتہا لگاؤ دکھائی دیتا ہے  وہ بذات خود صوفیانہ مشرب کے  دلدادہ تھے۔ یاد الٰہی کے  علاوہ خدا سے  مدد طلب کرنے  کا ان کا اپنا جداگانہ انداز ہے  ’’بوستان خیال‘‘ کے  اختتامیہ میں  مناجاتی عوامل کے  علاوہ سراج مزید ایک مناجات تحریر کرتے  ہیں  جس میں  خدا سے  اپنے  کلام میں سوز و گداز اور تاثیر پیدا کرنے  کے  دعائیہ کے  بعد مزید ایک مناجات تحریر کرتے  ہیں۔ ’’کلیات سراج‘‘ کے  صفحہ ۲۷۴ پر درج مناجات کے  اشعار پیش ہیں :

الٰہی مجھے  دردِ بے  داغ دے

میرے  چشم میں  کحل مازاغ دے

صف عاشقاں  میں  نہ کر منفعل

رواں  کر مرے  چشم سیں  خون دل

عطا کر مجھے  اشک گرم آہ سرد

غم عشق میں  مجہ کوں  دے  رنگ زرد

توہی ہے  مرے  درد کا آشنا

اپس مرہم لطف سیں  کر دوا

مرے  دل کو امید برلا شتاب

کہ ذرے  کا ہے  مدعا آفتاب

شراب محبت سیں  سر شار کر

آپس درد کا مجہ کوں  بیمار کر

مجھے  شمع مانند غم میں  گلا

پرت آگ میں  جیوں  سمندر جلا

چکھا مجہ کوں  لذت آپس درد کی

دے  نعمت مجھے  چہرۂ زرد کی

محبت میں اپنی مرے  دل کوں  کھینچ

اپس عشق کے  جام میں  مجہ کوں  انیچ

ہمیشہ مری چشم خوں  بار رکھ

لگن میں  اپس کی سدا زار رکھ

اپس دوستی میں  جلا خاک کر

یہ آلودگی سیں  مجھے  پاک کر

اگرچہ گناہ گار ہوں  رحم کر

گنا ہوں  پہ میرے  نکر توں  نظر

کہ بولا ہے  توں  آپ لا تقنطو

بجز وصل تیرے  نہیں  آرزو

میرے  دل پو ہے  زنگ غفلت کا کال

اسے  صاف کر آرسی کا مثال

الٰہی مجھے  محرم راز کر

خزانے  حقیقت کے  سب باز کر

عطا کر مجھے  قفل دل کی کلید

جتے  گنج مخفی ہیں  سب کر پدید

شریعت کے  مذہب کی منزل دیکھا

طریقت کے  مشرب کی محفل دیکھا

حقیقت کے  دریا میں  غواص کر

آپس معرفت میں  مجھے  خاص کر

تماشا دکھا باغ عرفان کا

کروں  سیر وحدت کے  میدان کا

اپس راہ وحدت سیں  آگاہ کر

مجھے  کشور عشق کا شاہ کر

طلب مثل موسیٰ ہے  تجہ نور کی

تجلی دکھا شعلۂ طور کی

سراجؔ آرزو میں  تیری ہے  سدا

دکھا خلوت معنے  بے  فنا

جمال حقیقی دکھا یک بیک

کہ یکبارگی دل سیں  اٹھ جائے  شک

قیامت کا وعدہ مجھے  دور ہے

مرا دل ترے  غم سیں  رنجور ہے

مجھے  یہانچ دکھاوے  تو خوب

یہ بے  تاب دیدار پاوے  تو خوب

دیکھا مجہ کو دیدار بے  ہوش کر

یہ بے  ہودہ گوئی سیں  خاموش کر

تمنا میں  اپنی مجھے  رکھ مدام

بحق محمد   علیہ السلام

سراج اور نگ آبادی نے  اپنی شاعر ی میں  ’’مناجاتوں ‘‘ کے  سلسلہ کو جاری رکھا ہے  لیکن جہاں  تک سراج کی مناجاتی شاعر ی کا معاملہ ہے ’’بوستان خیال‘‘ کے  اختتامیہ پر موجود مناجات ہی انھیں  ایک کامیاب مناجات نگار ثابت کرتی ہے  جبکہ ان کی دیگر مناجاتیں  زبان و بیان اور قوت اظہار کی تمام تاثیر رکھنے  کے  باوجود مخصوص انداز، صوفیانہ طرز اور ترک دنیا کی نمائندگی کرنے  کی وجہ سے  اپنی ہمہ گیریت اور جامعیت کھو دیتی ہیں  چنانچہ ان کی دیگر مناجاتیں  عوامی انداز کے  بجائے  ان کے  ذاتی کرب کی نمائندہ ہو کر رہ جاتی ہیں  اور مناجات میں  آفاقی تصور کے  بجائے  ذاتی تصور کارفرما ہو جانا اس صنف کی معنویت کو محدود کر دینے  کا سبب بنتا ہے۔ غرض اپنے  عہد کے  ایک اہم مناجاتی شاعر کی حیثیت سے  شاہ سراج کے  کلام کوکسی لحاظ سے  بھی نظرانداز نہیں  کیا جا سکتا۔ وہ اپنی مناجاتوں  میں  صوفیانہ مدارج طے  کرنے  کی خواہش رکھتے  ہیں۔

دکن کی مطبوعہ مثنویوں  جیسے  ’’مینا وستونتی، سیف الملوک و بدیع  الجمال، چندر بدن ومہیار، پھول بن، لیلیٰ مجنوں، علی نامہ، پنچھی باچھا اور بوستان خیال میں  بھرپور انداز سے  ’’مناجات‘‘ کی روایت تمام ادبی وسائل کے  ساتھ کار فرما نظر آتی ہے۔ اس کے  علاوہ بے  شمار غیر مطبوعہ مثنویوں  میں  بھی ’’مناجات‘‘ اس روکی نمائندہ طرز کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ جس کا انداز مثنوی جیسا ہے  محمد  قلی قطب شاہ، ولی اور نگ آبادی اور دیگر لاتعداد دکنی شعرا کے  کلام میں مناجات  ’’غزل‘‘ کی ہیئت میں  موجود ہے  اس طرح دکن میں  ’’مناجات‘‘ کے  اظہار کے  لئے  سب کے  پسندیدہ صنف مثنوی رہی اور ہر شاعر نے  اپنی مثنوی کے  دوران ’’مناجات‘‘ کو شامل کر کے  خیال اور فن کی باریک بینی کو پیش کیا۔ دکنی مثنویوں  میں ’’مناجات‘‘ کی لفظیات اگرچہ انتہائی قدیم ہے  لیکن اکثر مثنویوں  کے  بیشتر مصرعوں  کو آج کی شاعر ی جیسے  رنگ اور تاثیر سے  ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ غرض دکنی مثنویوں  میں موجود ’’مناجات‘‘ اپنے  فکر و خیال اور اظہار کے  اعتبار سے  جدت کی آئینہ دار ہے  اور یہ ثبوت ملتا ہے  کہ دکنی مثنوی نگار شعرا نے  اپنی مناجاتوں  میں جس گہرائی اور گیرائی کو شامل کیا ہے۔ اس کی مثال اردو کے  آج کے  ذخیرے  میں  دستیاب ہونا مشکل ہے۔

 ٭٭٭

ماخذ: ’قرطاس‘ ناگپور، حمد و مناجات نمبر

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید