FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بانگِ درا

 


   علاّمہ محمّد اقبال


                   حصہ سوم سے 1908— —

بلاد اسلامیہ

سرزمیں دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے

ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے

پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں

خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں

سوتے ہیں اس خاک میں خیر الامم کے تاجدار

نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار

دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد

جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

ہے زیارت گاہ مسلم گو جہان آباد بھی

اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی

یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامان ناز

لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز

خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوش ارم

جس نے دیکھے جانشینان پیمبر کے قدم

جس کے غنچے تھے چمن ساماں ، وہ گلشن ہے یہی

کاپنتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے یہی

ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور

ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور

بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی

اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی

قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے

جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نم ناک ہے

خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار

مہدی امت کی سطوت کا نشان پائدار

صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے

آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے

نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا

تربت ایوب انصاری سے آتی ہے صدا

اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر

سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہ مصطفی

دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا

خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں

اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں

تجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی

جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی

نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے

جانشیں قیصر کے ، وارث مسند جم کے ہوئے

ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام

ہند ہی بنیاد ہے اس کی ، نہ فارس ہے ، نہ شام

آہ یثرب! دیس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو

نقطۂ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو

جب تلک باقی ہے تو دنیا میں ، باقی ہم بھی ہیں

صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں

 

ستارہ

قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو

مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟

متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو

ہے کیا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟

زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو

مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو

غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے!

تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے

چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے

جو اوج ایک کا ہے ، دوسرے کی پستی ہے

اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادت مہر

فنا کی نیند مے زندگی کی مستی ہے

وداع غنچہ میں ہے راز آفرینش گل

عدم ، عدم ہے کہ آئینہ دار ہستی ہے!

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

 

دوستارے

آئے جو قراں میں دو ستارے

کہنے لگا ایک ، دوسرے سے

یہ وصل مدام ہو تو کیا خوب

انجام خرام ہو تو کیا خوب

تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو

ہم دونوں کی ایک ہی چمک ہو

لیکن یہ وصال کی تمنا

پیغام فراق تھی سراپا

گردش تاروں کا ہے مقدر

ہر ایک کی راہ ہے مقرر

ہے خواب ثبات آشنائی

آئین جہاں کا ہے جدائی

 

گورستان شاہی

آسماں ، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے

کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے

چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں

صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں

کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی

بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی

باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے

اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے

آہ! جولاں گاہ عالم گیر یعنی وہ حصار

دوش پر اپنے اٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار

زندگی سے تھا کبھی معمور ، اب سنسان ہے

یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے

اپنے سکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے

کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے

ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں

ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں

خاک بازی وسعت دنیا کا ہے منظر اسے

داستاں ناکامی انساں کی ہے ازبر اسے

ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا

آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا

گو سکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے

فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے

رنگ و آب زندگی سے گل بدامن ہے زمیں

سینکڑوں خوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں

خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزل حسرت فزا

دیدۂ عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا

ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے

آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے

مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر

جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر

کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں

جو اتر سکتی نہیں آئینۂ تحریر میں

سوتے ہیں خاموش ، آبادی کے ہنگاموں سے دور

مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور

قبر کی ظلمت میں ہے ان آفتابوں کی چمک

جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک

کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مآل

جن کی تدبیر جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال

رعب فغفوری ہو دنیا میں کہ شان قیصری

ٹل نہیں سکتی غنیم موت کی یورش کبھی

بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور

جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور

شورش بزم طرب کیا ، عود کی تقریر کیا

درد مندان جہاں کا نالۂ شب گیر کیا

عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا

خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا

اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں

سینۂ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں

روح ، مشت خاک میں زحمت کش بیداد ہے

کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فریاد ہے

زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا ، کوئی دم چہچہایا ، اڑ گیا

آہ! کیا آئے ریاض دہر میں ہم ، کیا گئے!

زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے ، مرجھا گئے

موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے

اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے

سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار

اور اس دریائے بے پایاں کے موجیں ہیں مزار

اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار

یہ شرارے کا تبسم ، یہ خس آتش سوار

چاند ، جو صورت گر ہستی کا اک اعجاز ہے

پہنے سیمابی قبا محو خرام ناز ہے

چرخ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر

بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقت سحر

اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا

آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا

زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار

رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار

اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار

رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار

اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں

دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں

ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار

ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار

ہے نگین دہر کی زینت ہمیشہ نام نو

مادر گیتی رہی آبستن اقوام نو

ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر

چشم کوہ نور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور

مصر و بابل مٹ گئے باقی نشاں تک بھی نہیں

دفتر ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں

آ دبایا مہر ایراں کو اجل کی شام نے

عظمت یونان و روما لوٹ لی ایام نے

آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا

آسماں سے ابر آزادی اٹھا ، برسا ، گیا

ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی

کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی

سینۂ دریا شعاعوں کے لیے گہوارہ ہے

کس قدر پیارا لب جو مہر کا نظارہ ہے

محو زینت ہے صنوبر ، جوئبار آئینہ ہے

غنچۂ گل کے لیے باد بہار آئینہ ہے

نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں

چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے میں

اور بلبل ، مطرب رنگیں نوائے گلستاں

جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گلستاں

عشق کے ہنگاموں کی اڑتی ہوئی تصویر ہے

خامۂ قدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے

باغ میں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہیں

وادی کہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں

زندگی سے یہ پرانا خاک داں معمور ہے

موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے

پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح

دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح

اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے

ایک غم ، یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے

دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں

اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں

اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در

گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر

دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم

آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم

ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں

برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں

وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ

خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ

ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور

ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور

 

نمود صبح

ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار

صبح یعنی دختر دوشیزۂ لیل و نہار

پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر

کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار

آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر

محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار

شعلۂ خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے

بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار

ہے رواں نجم سحر ، جیسے عبادت خانے سے

سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار

کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی

کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار

مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح

جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار

ہے تہ دامان باد اختلاط انگیز صبح

شورش ناقوس ، آواز اذاں سے ہمکنار

جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج

ہے ترنم ریز قانون سحر کا تار تار

 

تضمین بر شعر انیسی شاملو

ہمیشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں

محبت میں ہے منزل سے بھی خوشتر جادہ پیمائی

دل بے تاب جا پہنچا دیار پیر سنجر میں

میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی

ابھی نا آشنائے لب تھا حرف آرزو میرا

زباں ہونے کو تھی منت پذیر تاب گویائی

یہ مرقد سے صدا آئی ، حرم کے رہنے والوں کو

شکایت تجھ سے ہے اے تارک آئین آبائی!

ترا اے قیس کیونکر ہو گیا سوز دروں ٹھنڈا

کہ لیلی میں تو ہیں اب تک وہی انداز لیلائی

نہ تخم ‘لا الہ’ تیری زمین شور سے پھوٹا

زمانے بھر میں رسوا ہے تری فطرت کی نازائی

تجھے معلوم ہے غافل کہ تیری زندگی کیا ہے

کنشتی ساز، معمور نوا ہائے کلیسائی

ہوئی ہے تربیت آغوش بیت اللہ میں تیری

دل شوریدہ ہے لیکن صنم خانے کا سودائی

”وفا آموختی از ما، بکار دیگراں کر دی

ربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کر دی”

 

پھول کا تحفہ عطا ہونے پر

وہ مست ناز جو گلشن میں جا نکلتی ہے

کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

”الہی! پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے

کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے”

تجھے وہ شاخ سے توڑیں! زہے نصیب ترے

تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے

اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا

تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا

مرا کنول کہ تصدق ہیں جس پہ اہل نظر

مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر

کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا

کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا

شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے

فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے

 

ترانۂ ملی

چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری

تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو

تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا

اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو

اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا

اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم

ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا

اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

 

وطنیت

(یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے)

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور

ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے

غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے !

ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی

رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی

دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے

قومیت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے

 

ایک حاجی مدینے کے راستے میں

قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور

اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور

ہم سفر میرے شکار دشنۂ رہزن ہوئے

بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے

اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی !

موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی

خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا

‘ہائے یثرب’ دل میں ، لب پر نعرۂ توحید تھا

خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل

شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل

بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا

عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا

خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز

ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز

گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے

عشق کی لذت مگر خطروں کے جاں کاہی میں ہے

آہ! یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے

اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے

 

قطعہ

کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا

کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں

یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں

غضب ہیں یہ مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے!

بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں

سنے گا اقبال کون ان کو ، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں !

 

شکوہ

کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں

فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو

شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم

قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم

پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم

بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم

ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی

ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر

کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر

مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر

تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟

قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی

اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی

اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی

اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے

بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں

خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی

کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے

اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے

سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!

ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے

پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے

تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے

زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے

شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے

توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے

کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟

کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی

اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی

کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی

کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے

آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز

قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے

مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے

اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!

دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے

نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے

تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!

امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں

عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں

سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے

ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے

اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں

اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں

یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور

نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور

اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور

اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں

بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب

تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب

رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب

طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے

کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!

تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے

شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی

نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی

امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی

پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی

اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟

بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟

رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں

عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی

جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی

اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی

کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !

سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے

اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے

آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے

پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے

آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں

ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟

وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا

قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا

گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی

بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی

بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے

سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے

دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے

تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ‘ھو’ بیٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے

برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے

قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز

لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز

تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے

مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے

مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے

جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے

ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما

می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما

بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن

کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !

عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن

اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن

ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک

اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں

پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں

وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں

ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں

قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی

کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!

لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں

کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں

کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں

کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں

اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں

داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں

چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں

جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں

یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں

پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!

 

چاند

اے چاند! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے

طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے

یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں

عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغ آرزو ہے؟

میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر

تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے

انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تیری؟

میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری؟

تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں

پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں

استادہ سرو میں ہے ، سبزے میں سو رہا ہے

بلبل میں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی میں

آ ! میں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا

نہروں کے آئنے میں شبنم کی آرسی میں

صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے

انساں کے دل میں ، تیرے رخسار میں وہی ہے

 

رات اور شاعر

(1) رات

کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں

خاموش صورت گل ، مانند بو پریشاں

تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو

مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو

یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے

رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے

خاموش ہو گیا ہے تار رباب ہستی

ہے میرے آئنے میں تصویر خواب ہستی

دریا کی تہ میں چشم گرداب سو گئی ہے

ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے

بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے

یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے

شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے

آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے؟

(2) شاعر

میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں

چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں

عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو

تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو

برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے

دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!

صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری

آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری

عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو

اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کا

ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں

 

بزم انجم

سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو

طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور

قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے

محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی

چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے

وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے

کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں ‘تارے’

محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی

عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی

اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!

تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری

چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے

رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری

آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں

شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری

رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے

وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے

”حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں

جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں

آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی گھٹن ہے قوموں کی زندگی میں

یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا

قومیں کچل گئی ہیں جس کی روا روی میں

آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم

داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں

اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے

جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے

پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

 

سیر فلک

تھا تخیل جو ہم سفر میرا

آسماں پر ہوا گزر میرا

اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی

جاننے والا چرخ پر میرا

تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے

راز سر بستہ تھا سفر میرا

حلقۂ صبح و شام سے نکلا

اس پرانے نظام سے نکلا

کیا سناؤں تمھیں ارم کیا ہے

خاتم آرزوئے دیدہ و گوش

شاخ طوبی! پہ نغمہ ریز طیور

بے حجابانہ حور جلوہ فروش

ساقیان جمیل جام بدست

پینے والوں میں شور نوشانوش

دور جنت سے آنکھ نے دیکھا

ایک تاریک خانہ سرد و خموش

طالع قیس و گیسوئے لیلی

اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش

خنک ایسا کہ جس سے شرما کر

کرۂ زمہریر ہو روپوش

میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی

حیرت انگیز تھا جواب سروش

یہ مقام خنک جہنم ہے

نار سے ، نور سے تہی آغوش

شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے

جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش

اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں

اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں

 

نصیحت

میں نے اقبال سے از راہ نصیحت یہ کہا

عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز

تو بھی ہے شیوۂ ارباب ریا میں کامل

دل میں لندن کی ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز

جھوٹ بھی مصلحت آمیز ترا ہوتا ہے

تیرا انداز تملق بھی سراپا اعجاز

ختم تقریر تری مدحت سرکار پہ ہے

فکر روشن ہے ترا موجد آئین نیاز

در حکام بھی ہے تجھ کو مقام محمود

پالسی بھی تری پیچیدہ تر از زلف ایاز

اور لوگوں کی طرح تو بھی چھپا سکتا ہے

پردۂ خدمت دیں میں ہوس جاہ کا راز

نظر آ جاتا ہے مسجد میں بھی تو عید کے دن

اثر وعظ سے ہوتی ہے طبیعت بھی گداز

دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھی ہیں

چھیڑنا فرض ہے جن پر تری تشہیر کا ساز

اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھی کہہ سکتا ہے

تیری مینائے سخن میں ہے شراب شیراز

جتنے اوصاف ہیں لیڈر کے ، وہ ہیں تجھ میں سبھی

تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شریک تگ و تاز

غم صیاد نہیں ، اور پر و بال بھی ہیں

پھر سبب کیا ہے ، نہیں تجھ کو دماغ پرواز

”عاقبت منزل ما وادی خاموشان است

حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز”

 

رام

لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند

سب فلسفی ہیں خطۂ مغرب کے رام ہند

یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر

رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند

اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت

مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی

روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند

تلوار کا دھنی تھا ، شجاعت میں فرد تھا

پاکیزگی میں ، جوش محبت میں فرد تھا

 

موٹر

کیسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی

موٹر ہے ذوالفقار علی خان کا کیا خموش

ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز

مانند برق تیز ، مثال ہوا خموش

میں نے کہا ، نہیں ہے یہ موٹر پہ منحصر

ہے جادۂ حیات میں ہر تیز پا خموش

ہے پا شکستہ شیوۂ فریاد سے جرس

نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش

مینا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل

لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش

شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی

سرمایہ دار گرمی آواز خامشی!

 

انسان

منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا

محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے

رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو

فطرت ہی صنوبر کی محروم تمنا ہے

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں

انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے

اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم

یہ ذرہ نہیں ، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے

چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی

یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے ، توانا ہے

 

خطاب بہ جوانان اسلام

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا

تمدن آفریں خلاق آئین جہاں داری

وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

سماں ‘الفقر فخری’ کا رہا شان امارت میں

”بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را”

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے

کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے

جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

”غنی! روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن

کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را”

 

غرۂ شوال

یا

ہلال عید

غرۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار

آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے

شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمہید ہے

سرگزشت ملت بیضا کا تو آئینہ ہے

اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت دیرینہ ہے

جس علم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم

دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم

تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے

حسن روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے

آشنا پرور ہے قوم اپنی ، وفا آئیں ترا

ہے محبت خیز یہ پیراہن سیمیں ترا

اوج گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے

اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے !

قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ

رہر و درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ

دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر

اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ

فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر

اپنی آزادی بھی دیکھ ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ

دیکھ مسجد میں شکست رشتۂ تسبیح شیخ

بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر

اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ

بارش سنگ حوادث کا تماشائی بھی ہو

امت مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ

ہاں ، تملق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تو

اور جو بے آبرو تھے ، ان کی خود داری بھی دیکھ

جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا

اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ

ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن

اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

شورش امروز میں محو سرود دوش رہ

 

شمع اور شاعر

(فروری 1912ء)

شاعر

دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش

گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے

در جہاں مثل چراغ لالۂ صحراستم

نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے

مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم

در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے

می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودمن

بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے

از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی

کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی

شمع

مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل

لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا

میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز

تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا

گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک

شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا

گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح

ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا

یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں

شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا

سوچ تو دل میں ، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟

انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!

اور ہے تیرا شعار ، آئین ملت اور ہے

زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا

کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے

کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا

قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں

تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا

اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!

لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا

اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا

بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا

تھا جنھیں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے

لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا

انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے

ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

آہ ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی

پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا

آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ

صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا

اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا

پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو

کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو

شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا

تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے

رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو

پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے

شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا

تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے

وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں

فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے

خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے

اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے

رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے

کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں

رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی

شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں

سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی

وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں

دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے

موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں

خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی

وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں

اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں

دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں

وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز

بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں

دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں

اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں

شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی

ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی

مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!

بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش

نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی

پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش

ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند

پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش

پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز

دل کے ہنگامے مۓ مغرب نے کر ڈالے خموش

نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں

ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش

در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز

گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش

کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری

ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش

آنکھ کو بیدار کر دے وعدۂ دیدار سے

زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا

بحر تھا صحرا میں تو ، گلشن میں مثل جو ہوا

اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی

چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا

زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات

یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا

پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ہے یہ

زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا

فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

پردۂ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ

آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی

جب یہ جمعیّت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا

یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر

خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم

شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر

شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم

صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر

تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو

عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر

کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں

ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر

تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر

ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں

اہل گلشن کو شہید نغمۂ مستانہ کر

اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل

یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر

کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو

لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو

آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا

ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو

دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو

وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا

مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو

بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو

قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے

کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو

دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے

سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا

جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت

اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں

کسوت مینا میں مے مستور بھی ، عریاں بھی ہے

پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے

اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ

جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار

نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز

اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل

موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی

نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

 

مسلم

(جون1912ء)

ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے

سینۂ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے

نغمۂ امید تیری بربط دل میں نہیں

ہم سمجھتے ہیں یہ لیلی تیرے محمل میں نہیں

گوش آواز سرود رفتہ کا جویا ترا

اور دل ہنگامۂ حاضر سے بے پروا ترا

قصۂ گل ہم نوایان چمن سنتے نہیں

اہل محفل تیرا پیغام کہن سنتے نہیں

اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ

ہے بہت یاس آفریں تیری صدا خاموش رہ

زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں

شمع سے روشن شب دو شینہ ہوسکتی نہیں

ہم نشیں! مسلم ہوں میں، توحید کا حامل ہوں میں

اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں

نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے

اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے

حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا

اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا

دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا

حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا

میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے

میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے

قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے

جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے

آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات

کہہ نہیں سکتے مجھے نومید پیکار حیات

کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے

ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے

یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار

فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کارزار

ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں

اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے

سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں

دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

 

حضور رسالت مآب میں

گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا

جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

قیود شام وسحر میں بسر تو کی لیکن

نظام کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا

فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو

حضور آیۂ رحمت میں لے گئے مجھ کو

کہا حضور نے ، اے عندلیب باغ حجاز!

کلی کلی ہے تری گرمئ نوا سے گداز

ہمیشہ سرخوش جام ولا ہے دل تیرا

فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز

اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں

سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز

نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا

ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟

”حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو’ وہ کلی نہیں ملتی

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے’ جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں”

 

شفا خانۂ حجاز

اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا

کھلنے کو جدہ میں ہے شفا خانۂ حجاز

ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار

سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز

دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف

مشہور تو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز

دارالشفا حوالی لبطحا میں چاہیے

نبض مریض پنجۂ عیسی میں چاہیے

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات

پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں

تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مل گیا

پایا نہ خضر نے مے عمر دراز میں

اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی

میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں

آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا

رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا!

جواب شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا

آسماں چیر گیا نالۂ  فریاد مرا

پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !

بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !

چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !

کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !

کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا

مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !

تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟

آ گئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !

شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے

تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟

عالمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے

ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

 

ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا

اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

آسماں گیر ہوا نعرۂ  مستانہ ترا

کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے

ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے

حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ  رعنائی تھا !

نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ  صحرائی تھا !

جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !

کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو

ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !

ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے

تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو

بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

صفحۂ  دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟

میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !

عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور

مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

 

جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب

زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امراء نشۂ  دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں،  روح ہلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ  تو مسلمان بھی ہو!

دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک

عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

حیدری فقر ہے نے  دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم

تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

تختِ  فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی

یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خود دار

تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بد ظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کش تنہائیِ صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

عہد نو برق ہے، آتش زن ہر خرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

 

نخل اسلام نمونہ ہے برد مندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ  بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثل بوٗ  قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے

بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے

اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

 

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری

میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں

سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے برد مندی کا

پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

 

ساقی

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!

کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری

سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی!

 

تعلیم اور اس کے نتائج

( تضمین بر شعر ملا عرشی )

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ

”تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو

کانچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو

 

قرب سلطان

تمیز حاکم و محکوم مٹ نہیں سکتی

مجال کیا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش

جہاں میں خواجہ پرستی ہے بندگی کا کمال

رضاۓ خواجہ طلب کن قباۓ رنگیں پوش

مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو

خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش

پرانے طرز عمل میں ہزار مشکل ہے

نئے اصول سے خالی ہے فکر کی آغوش

مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیے

”ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش”

یہی اصول ہے سرمایۂ سکون حیات

”گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش”

مگر خروش پہ مائل ہے تو ، تو بسم اللہ

”بگیر بادۂ صافی، ببانگ چنگ بنوش”

شریک بزم امیر و وزیر و سلطاں ہو

لڑا کے توڑ دے سنگ ہوس سے شیشۂ ہوش

پیام مرشد شیراز بھی مگر سن لے

کہ ہے یہ سر نہاں خانۂ ضمیر سروش

”محل نور تجلی ست راۓ انور شاہ

چو قرب او طلبی در صفاۓ نیت کوش”

 

شاعر

جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے

پی کے شراب لالہ گوں مے کدۂ بہار سے

مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو

زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے

پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرام ابر

کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے

جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے

پست و بلند کر کے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے

شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری

ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری

شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں

کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری

اہل زمیں کو نسخۂ زندگی دوام ہے

خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری

گلشن دہر میں اگر جوئے مے سخن نہ ہو

پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو

 

نو ید صبح

1912ء

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر

منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر

محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت

دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت

چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات

باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات

مسلم خوابیدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھی ہو

وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب

دامن گردوں سے نا  پیدا ہوں یہ داغ سحاب

کھینچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستیز

پھر سکھا تاریکی باطل کو آداب گریز

تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے

اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے

ہاں ، نمایاں ہو کے برق دیدۂ خفاش ہو

اے دل کون و مکاں کے راز مضمر! فاش ہو

 

دعا

یا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے

پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے

دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل

اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر

اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے

اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو

وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر

خود داری ساحل دے، آزادی دریا دے

بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو

سینوں میں اجالا کر، دل صورت مینا دے

احساس عنایت کر آثار مصیبت کا

امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے

میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے!

 

عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں

یہ شالامار میں اک برگ زرد کہتا تھا

گیا وہ موسم گل جس کا راز دار ہوں میں

نہ پائمال کریں مجھ کو زائران چمن

انھی کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں

ذرا سے پتے نے بیتاب کر دیا دل کو

چمن میں آ کے سراپا غم بہار ہوں میں

خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار

خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے میخانے

گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں

پیام عیش ، مسرت ہمیں سناتا ہے

ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

 

فاطمہ بنت عبداللہ

عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی

1912ء

فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت ، حور صحرائی! تری قسمت میں تھی

غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی

یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر

ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی

ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!

اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں

بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!

فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے

نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے

ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں

پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں

بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے میں

آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے میں

تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور

دیدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور

جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانۂ ایام سے

جن کی ضو ناآشنا ہے قید صبح و شام سے

جن کی تابانی میں انداز کہن بھی، نو بھی ہے

اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے

 

شبنم اور ستارے

اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے

ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے

کیا جانیے ، تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے

جو بن کے مٹے، ان کے نشاں دیکھ چکی ہے

زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے

انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے

کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ

گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی

گلشن نہیں ، اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی

آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر

بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر

کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے

ننھا سا کوئی شعلۂ بے سوز کلی ہے

گل نالۂ بلبل کی صدا سن نہیں سکتا

دامن سے مرے موتیوں کو چن نہیں سکتا

ہیں مرغ نوا ریز گرفتار، غضب ہے

اگتے ہیں تہ سایۂ گل خار، غضب ہے

رہتی ہے سدا نرگس بیمار کی تر آنکھ

دل طالب نظارہ ہے ، محروم نظر آنکھ

دل سوختۂ گرمی فریاد ہے شمشاد

زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد

تارے شرر آہ ہیں انساں کی زباں میں

میں گریۂ گردوں ہوں گلستاں کی زباں میں

نادانی ہے یہ گرد زمیں طوف قمر کا

سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا

بنیاد ہے کاشانۂ عالم کی ہوا پر

فریاد کی تصویر ہے قرطاس فضا پر

 

محاصرۂ درنہ

یورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی

حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گیا

گرد صلیب گرد قمر حلقہ زن ہوئی

شکری حصار درنہ میں محصور ہو گیا

مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام

روئے امید آنکھ سے مستور ہو گیا

آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے

‘آئین جنگ’ شہر کا دستور ہو گیا

ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل

شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہو گیا

لیکن فقیہ شہر نے جس دم سنی یہ بات

گرما کے مثل صاعقۂ طور ہو گیا

ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام

فتوی تمام شہر میں مشہور ہو گیا

چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج

مسلم ، خدا کے حکم سے مجبور ہو گیا

 

غلام قادر رہیلہ

رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا

نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے

دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے

یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے

بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی!

شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے

بنایا آہ! سامان طرب بیدرد نے ان کو

نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے

لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے

رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدۂ تر سے

یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی

کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے

کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی

سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے

رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا

تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے

بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے

نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے

پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے

شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا

کہ غفلت دور سے شان صف آرایان لشکر سے

یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی

مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے

 

ایک مکالمہ

اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے

پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار!

گر تو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہوا گیر

آزاد اگر تو ہے ، نہیں میں بھی گرفتار

پرواز ، خصوصیت ہر صاحب پر ہے

کیوں رہتے ہیں مرغان ہوا مائل پندار؟

مجروح حمیت جو ہوئی مرغ ہوا کی

یوں کہنے لگا سن کے یہ گفتار دل آزار

کچھ شک نہیں پرواز میں آزاد ہے تو بھی

حد ہے تری پرواز کی لیکن سر دیوار

واقف نہیں تو ہمت مرغان ہوا سے

تو خاک نشیمن ، انھیں گردوں سے سروکار

تو مرغ سرائی ، خورش از خاک بجوئی

ما در صدد دانہ بہ انجم زدہ منقار

 

میں اورتو

مذاق دید سے ناآشنا نظر ہے مری

تری نگاہ ہے فطرت کی راز داں، پھر کیا

رہین شکوۂ ایام ہے زبان مری

تری مراد پہ ہے دور آسماں، پھر کیا

رکھا مجھے چمن آوارہ مثل موج نسیم

عطا فلک نے کیا تجھ کو آشیاں، پھر کیا

فزوں ہے سود سے سرمایۂ حیات ترا

مرے نصیب میں ہے کاوش زیاں، پھر کیا

ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے

مرا جہاز ہے محروم بادباں، پھر کیا

قوی شدیم چہ شد، ناتواں شدیم چہ شد

چنیں شدیم چہ شد یا چناں شدیم چہ شد

بہیچ گونہ دریں گلستاں قرارے نیست

توگر بہار شدی، ما خزاں شدیم، چہ شد

 

تضمین بر شعر ابوطالب کلیم

خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس

کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں

جس سے تیرے حلقۂ خاتم میں گردوں تھا اسیر

اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں

وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح

ہو گئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں

دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا

وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں

تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے

ہے وہی باطل ترے کاشانۂ دل میں مکیں

غافل! اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر

نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں

”سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن،

شعلہ ساں از ہر کجا برخاستی ، آنجا نشیں‘‘

 

شبلی و حالی

مسلم سے ایک روز یہ اقبال نے کہا

دیوان جزو و کل میں ہے تیرا وجود فرد

تیرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو

تہذیب تیرے قافلہ ہائے کہن کی گرد

پتھر ہے اس کے واسطے موج نسیم بھی

نازک بہت ہے آئنۂ آبروئے مرد

مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات

کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد

پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار

کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

مسلم مرے کلام سے بے تاب ہو گیا

غماز ہو گئی غم پنہاں کی آہ سرد

کہنے لگا کہ دیکھ تو کیفیت خزاں

اوراق ہو گئے شجر زندگی کے زرد

خاموش ہو گئے چمنستاں کے راز دار

سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد

شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں

حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس رہ نورد

”اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں

بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد”

 

ارتقا

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی

حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز

سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی

سکوت شام سے تا نغمۂ سحر گاہی

ہزار مرحلہ ہائے فغانِ نیم شبی

کشا کش زم و گرما، تپ و تراش و خراش

ز خاک تیرہ دروں تا بہ شیشۂ حلبی

مقام بست و شکت و فشار و سوز و کشید

میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی

اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام

یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی

”مغاں کہ دانۂ انگور آب می سازند

ستارہ می شکنند، آفتاب می سازند”

 

صدیق

اک دن رسول پاک نے اصحاب سے کہا

دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار

ارشاد سن کے فرط طرب سے عمر اٹھے

اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار

دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق سے ضرور

بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار

لائے غرضکہ مال رسول امیں کے پاس

ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار

پوچھا حضور سرور عالم نے ، اے عمر!

اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار

رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟

مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار

کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق

باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا

جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت

ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار

ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس

اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار

بولے حضور، چاہیے فکر عیال بھی

کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار

اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر!

اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!

پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

 

تہذیب حاضر

تضمین بر شعر فیضی

حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں

بھڑک اٹھّا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی

کیا ذرے کو جگنو دے کے تاب مستعار اس نے

کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی

نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے

یہ رعنائی ، یہ بیداری ، یہ آزادی ، یہ بے باکی

تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں

ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی

کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن

مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا

رقابت ، خود فروشی ، ناشکیبائی ، ہوسناکی

فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی

مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی

”تو اے پروانہ ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری

چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری”

 

والدہ مرحومہ کی یاد میں

ذرہ ذرہ دہر کا زندانی تقدیر ہے

پردۂ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں

انجم سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار میں

سبزہ و گل بھی ہیں مجبور نمو گلزار میں

نغمۂ بلبل ہو یا آواز خاموش ضمیر

ہے اسی زنجیر عالم گیر میں ہر شے اسیر

آنکھ پر ہوتا ہے جب یہ سر مجبوری عیاں

خشک ہو جاتا ہے دل میں اشک کا سیل رواں

قلب انسانی میں رقص عیش و غم رہتا نہیں

نغمہ رہ جاتا ہے ، لطف زیر و بم رہتا نہیں

علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے

یعنی اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے

گرچہ میرے باغ میں شبنم کی شادابی نہیں

آنکھ میری مایہ دار اشک عنابی نہیں

جانتا ہوں آہ ، میں آلام انسانی کا راز

ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

میرے لب پر قصۂ نیرنگی دوراں نہیں

دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں

پر تری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے

آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے

گریۂ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے

درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے

موج دود آہ سے آئینہ ہے روشن مرا

گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا

رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا

رفتہ و حاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا

عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں

بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم

صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو یاد میں آؤں گا!

تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا

گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا

دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات

تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

وہ جواں، قامت میں ہے جو صورت سرو بلند

تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا

وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ

صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی

شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی

آہ! یہ دنیا ، یہ ماتم خانۂ برنا و پیر

آدمی ہے کس طلسم دوش و فردا میں اسیر!

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت

گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں

کیسی کیسی دختران مادر ایام ہیں!

کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت

دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے

زندگانی کیا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!

قافلے میں غیر فریاد درا کچھ بھی نہیں

اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

ختم ہو جائے گا لیکن امتحاں کا دور بھی

ہیں پس نہ پردۂ گردوں ابھی اور بھی

سینہ چاک اس گلستاں میں لالہ و گل ہیں تو کیا

نالہ و فریاد پر مجبور بلبل ہیں تو کیا

جھاڑیاں، جن کے قفس میں قید ہے آہ خزاں

سبز کر دے گی انھیں باد بہار جاوداں

خفتہ خاک پے سپر میں ہے شرار اپنا تو کیا

عارضی محمل ہے یہ مشت غبار اپنا تو کیا

زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں

ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں

زندگی محبوب ایسی دیدۂ قدرت میں ہے

ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے

موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات

عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات

ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں

جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں

آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے

نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے

جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب

موج مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب

موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ

کتنی بیدردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ

پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا

توڑنے میں اس کے یوں ہوتی نہ بے پروا ہوا

اس روش کا کیا اثر ہے ہیئت تعمیر پر

یہ تو حجت ہے ہوا کی قوت تعمیر پر

فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو

خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو

آہ سیماب پریشاں ، انجم گردوں فروز

شوخ یہ چنگاریاں ، ممنون شب ہے جن کا سوز

عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کی ہے

سرگزشت نوع انساں ایک ساعت ان کی ہے

پھر یہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کی نظر

قدسیوں سے بھی مقاصد میں ہے جو پاکیزہ تر

جو مثال شمع روشن محفل قدرت میں ہے

آسماں اک نقطہ جس کی وسعت فطرت میں ہے

جس کی نادانی صداقت کے لیے بیتاب ہے

جس کا ناخن ساز ہستی کے لیے مضراب ہے

شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا

کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے خواب ہے

کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے

زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے

خود نمائی ، خود فزائی کے لیے مجبور ہے

سردی مرقد سے بھی افسردہ ہو سکتا نہیں

خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں

پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ

موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ

ہے لحد اس قوت آشفتہ کی شیرازہ بند

ڈالتی ہے گردن گردوں میں جو اپنی کمند

موت، تجدید مذاق زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں

موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں

کہتے ہیں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا

زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

دل مگر ، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے

حلقۂ زنجیر صبح و شام سے آزاد ہے

وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں

وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں

سر پہ آجاتی ہے جب کوئی مصیبت ناگہاں

اشک پیہم دیدۂ انساں سے ہوتے ہیں رواں

ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فریاد سے

خون دل بہتا ہے آنکھوں کی سرشک آباد سے

آدمی تاب شکیبائی سے گو محروم ہے

اس کی فطرت میں یہ اک احساس نامعلوم ہے

ق

جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہیں

رخت ہستی خاک، غم کی شعلہ افشانی سے ہے

سرد یہ آگ اس لطیف احساس کے پانی سے ہے

آہ، یہ ضبط فغاں غفلت کی خاموشی نہیں

آگہی ہے یہ دل آسائی، فراموشی نہیں

پردۂ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح

داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح

لالۂ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ

بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ

سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے

سینکڑوں نغموں سے باد صبح دم آباد ہے

خفتگان لالہ زار و کوہسار و رود باد

ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار

یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح

مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح

دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر

کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر

یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے

جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات

جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہاں بے ثبات

مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے

آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے

ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے

ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے

نور فطرت ظلمت پیکر کا زندانی نہیں

تنگ ایسا حلقۂ افکار انسانی نہیں

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا

نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

 

شعاع آفتاب

صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی

آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی

میں نے پوچھا اس کرن سے ”اے سراپا اضطراب!

تیری جان نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب

تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں

کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں

یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ

رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ”؟

”خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں

پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں

مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے

جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے

برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں

مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں

سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جاؤں گی میں

رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلاؤں گی میں

تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے

سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟

 

عرفی

محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے

تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا و فارابی

فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی

میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی

مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی

نہیں ہنگامۂ عالم میں اب سامان بیتابی

مزاج اہل عالم میں تغیر آگیا ایسا

کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی

فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے

نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی

کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر

گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی

صدا تربت سے آئی ”شکوۂ اہل جہاں کم گو

نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی

حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی”

 

ایک خط کے جواب میں

ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز

حصول جاہ ہے وابستۂ مذاق تلاش

ہزار شکر، طبیعت ہے ریزہ کار مری

ہزار شکر، نہیں ہے دماغ فتنہ تراش

مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز

جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش

یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں

کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش

ہوائے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی

کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش

”گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشیں باشی

نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش”

 

نانک

قوم نے پیغام گو تم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

آہ! بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر

غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا

ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا

شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی

بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی

آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے

درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے

برہمن سرشار ہے اب تک مۂ پندار میں

شمع گو تم جل رہی ہے محفل اغیار میں

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

 

کفر واسلام

تضمین بر شعر میر رضی دانش

ایک دن اقبال نے پوچھا کلیم طور سے

اے کہ تیرے نقش پا سے وادی سینا چمن

آتش نمرود ہے اب تک جہاں میں شعلہ ریز

ہو گیا آنکھوں سے پنہاں کیوں ترا سوز کہن

تھا جواب صاحب سینا کہ مسلم ہے اگر

چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شیدائی نہ بن

ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل

ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

ہے اگر دیوانۂ غائب تو کچھ پروا نہ کر

منتظر رہ وادی فاراں میں ہو کر خیمہ زن

عارضی ہے شان حاضر ، سطوت غائب مدام

اس صداقت کو محبت سے ہے ربط جان و تن

شعلۂ نمرود ہے روشن زمانے میں تو کیا

”شمع خود رامی گدازد درمیان انجمن

نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است”

 

بلال

لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے

اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا

جولاں گہ سکندر رومی تھا ایشیا

گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا

تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے

دعوی کیا جو پورس و دارا نے، خام تھا

دنیا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو

حیرت سے دیکھتا فلک نیل فام تھا

آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں

تاریخ دان بھی اسے پہچانتا نہیں

لیکن بلال، وہ حبشی زادۂ حقیر

فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستنیر

جس کا امیں ازل سے ہوا سینۂ بلال

محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر

ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط

کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر

ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز

صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر

اقبال! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے

 

مسلمان اور تعلیم جدید

تضمین بر شعر ملک قمی

مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر

لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامان سفر

بدلی زمانے کی ہوا ، ایسا تغیر آگیا

تھے جو گراں قیمت کبھی، اب ہیں متاع کس مخر

وہ شعلۂ روشن ترا ظلمت گریزاں جس سے تھی

گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھی کم نور تر

شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو

غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر

ممکن نہیں اس باغ میں کوشش ہو بار آور تری

فرسودہ ہے پھندا ترا، زیرک ہے مرغ تیز پر

اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا

ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر

رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے

واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمان خضر

لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری

”رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر

یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد”

 

پھولوں کی شہزادی

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں

رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی

نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں

سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی

کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل

چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل

کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی

درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی

نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک

کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر

نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرم کو

بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو

 

تضمین بر شعر صائب

کہاں اقبال تو نے آ بنایا آشیاں اپنا

نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی

شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن

نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمیں سے تخم سینائی

کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی

جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی

قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستاں کی

نہ ہے بیدار دل پیری، نہ ہمت خواہ برنائی

دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں

نو اگر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی

نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستاں سے

کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی

”ہماں بہتر کہ لیلی در بیاباں جلوہ گر باشد

ندارد تنگناۓ شہر تاب حسن صحرائی”

 

فردوس میں ایک مکالمہ

ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز

حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدی شیراز

اے آنکہ ز نور گہر نظم فلک تاب

دامن بہ چراغ مہ اختر زدہ ای باز!

کچھ کیفیت مسلم ہندی تو بیاں کر

واماندۂ منزل ہے کہ مصروف تگ و تاز

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟

تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمی آواز

باتوں سے ہوا شیخ کی حالی متاثر

رو رو کے لگا کہنے کہ ”اے صاحب اعجاز

جب پیر فلک نے ورق ایام کا الٹا

آئی یہ صدا ، پاؤگے تعلیم سے اعزاز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل

دنیا تو ملی، طائر دیں کر گیا پرواز

دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی

فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی

دیں زخمہ ہے ، جمعیت ملت ہے اگر ساز

بنیاد لرز جائے جو دیوار چمن کی

ظاہر ہے کہ انجام گلستاں کا ہے آغاز

پانی نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو

پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز

یہ ذکر حضور شہ یثرب میں نہ کرنا

سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز

خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم

دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم”

(سعدی)

 

مذہب

تضمین بر شعر میرزا بیدل

تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ

ناداں ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش

پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا

ہے شیخ بھی مثال برہمن صنم تراش

محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی

اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش

مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام

ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش

کہتا مگر ہے فلسفۂ زندگی کچھ اور

مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش

”با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است

ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش”

 

جنگ یر موک کا ایک واقعہ

 صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ بند

تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام

اک نوجوان صورت سیماب مضطرب

آ کر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام

اے بو عبیدہ رخصت پیکار دے مجھے

لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کو جام

بے تاب ہو رہا ہوں فراق رسول میں

اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام

جاتا ہوں میں حضور رسالت پناہ میں

لے جاؤں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام

یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ

جس کی نگاہ تھی صفت تیغ بے نیام

بولا امیر فوج کہ ”وہ نوجواں ہے تو

پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام

پوری کرے خدائے محمد تری مراد

کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!

پہنچے جو بارگاہ رسول امیں میں تو

کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام

ہم پہ کرم کیا ہے خدائے غیور نے

پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے’

 

مذہب

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں

اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

 

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ

ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے

کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے

جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور

رخصت ہوئے ترے شجر سایہ دار سے

شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو

ناآشنا ہے قاعدۂ روزگار سے

ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

 

شب معراج

اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز

سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات

رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں

کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

 

پھول

تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد چاک بلبل کی

تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

تمنا آبرو کی ہو اگر گلزار ہستی میں

تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے

انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

تنک بخشی کو استغنا سے پیغام خجالت دے

نہ رہ منت کش شبنم نگوں جام وسبو کر لے

نہیں یہ شان خود داری ، چمن سے توڑ کر تجھ کو

کوئی دستار میں رکھ لے ، کوئی زیب گلو کر لے

چمن میں غنچۂ گل سے یہ کہہ کر اڑ گئی شبنم

مذاق جور گلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے

اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا

جہان رنگ و بو سے، پہلے قطع آرزو کر لے

اسی میں دیکھ ، مضمر ہے کمال زندگی تیرا

جو تجھ کو زینت دامن کوئی آئینہ رو کر لے

 

شیکسپیر

شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ

نغمۂ شام کو خاموشی شام آئینہ

برگ گل آئنۂ عارض زبیائے بہار

شاہد مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ

حسن آئنۂ حق اور دل آئنۂ حسن

دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ

ہے ترے فکر فلک رس سے کمال ہستی

کیا تری فطرت روشن تھی مآل ہستی

تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھونڈا

تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا

چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری

اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا

حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا

راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا

 

میں اورتو

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا

میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری

میں نوائے سوختہ در گلو ، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو

میں حکایت غم آرزو ، تو حدیث ماتم دلبری

مرا عیش غم ،مرا شہد سم ، مری بود ہم نفس عدم

ترا دل حرم، گرو عجم ترا دیں خریدہ کافری

دم زندگی رم زندگی، غم زندگی سم زندگی

غم رم نہ کر، سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری

تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر

کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری

کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا!

کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری

گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے

کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ‘ہری ہری’

نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے

وہی فطرت اسد اللہی وہی مرحبی، وہی عنتری

کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم

وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری

 

اسیری

ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند

قطرۂ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند

مشک اذفر چیز کیا ہے ، اک لہو کی بوند ہے

مشک بن جاتی ہے ہو کر نافۂ آہو میں بند

ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت، مگر

کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام وقفس سے بہرہ مند

”شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست

ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند”

 

دریوزۂ خلافت

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے

تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا

خلافت کی کرنے لگا تو گدائی

خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے

مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی

”مرا از شکستن چناں عار ناید

کہ از دیگراں خواستن مومیائی”

 

ہمایوں

 

(مسٹر جسٹسں شاہ دین مرحوم )

اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی

تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی

گرچہ تھا تیرا تن خاکی نزار و دردمند

تھی ستارے کی طرح روشن تری طبع بلند

کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا

شعلۂ گردوں نورد اک مشت خاکستر میں تھا

موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں

شب کی خاموشی میں جز ہنگامۂ فردا نہیں

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی

 

خضرِ راہ

شاعر

ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر

گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب

شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر

تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار

موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر

انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر

جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب

کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرار ازل!

چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب

دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا

میں شہید جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا

اے تری چشم جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار

جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش

‘کشتی مسکین، و ‘جان پاک’ و ‘دیوار یتیم،

علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد

زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا دوش

زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے

اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش

ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک

نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش

گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی

فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش

بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی

خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!

جواب خضر

صحرا نوردی

کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے

یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل

اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں

گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل

ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام

وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل

وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح

یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل

وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب

جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل

اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں

اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل

تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش

اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل

پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی

ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی

زندگی

برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ

جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ

جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب

اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی

آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے

گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی

قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب

اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو

پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار

اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار

تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے

خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب

تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے

سوئے گردوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر

رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

سلطنت

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ ‘ان الملوک’

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز

دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری

خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں

توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری

از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن

تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری

گرمی گفتار اعضائے مجالس، الاماں!

یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو

آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

سرمایہ و محنت

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش

اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ

خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے

سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول

غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک

نغمۂ بیداری جمہور ہے سامان عیش

قصۂ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا

آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام

دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک

باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار

زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک

کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو

اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو

دنیائے اسلام

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں

مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل

خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ

جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز

لے رہا ہے مے فروشان فرنگستاں سے پارس

وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز

حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز

ہوگیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو

مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز

گفت رومی ”ہر بناۓ کہنہ کآباداں کنند”

می ندانی ”اول آں بنیاد را ویراں کنند”

”ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں”

حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر

مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست

مور بے پر! حاجتے پیش سلیمانے مبر

ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات

ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر

پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو

ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں ، مٹ جائے گا

ترک خر گاہی ہو یا اعرابی والا گہر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش

اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش

عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی

اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ

تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج

موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ

عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے

اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ

اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود

مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر، دیکھ

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس

سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ

مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار

ہر زماں پیش نظر، ‘لایخلف المیعاد’ دار

 

طلوع اسلام

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

افق سے آفتاب ابھرا ،گیا دور گراں خوابی

عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا

سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے

تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے

شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی

اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!

”نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی”

تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں ، شاخساروں میں

جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی

وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے

نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا

خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را

صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے

کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا

خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا

تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی

جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر

نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا

کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!

ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی

گمان آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا

بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے

وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلمانی

ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے

تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں

کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ولایت ، پادشاہی ، علم اشیا کی جہاں گیری

یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

چہ باید مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے

دل گرمے ، نگاہ پاک بینے ، جان بیتابے

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے

ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے

طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے

غبار رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو

جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسیر گر نکلے

ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا

خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے

جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

زمیں سے نور بان آسماں پرواز کہتے تھے

یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے

یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے

یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے

تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی

تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا

غبار آلودۂ رنگ ونسب ہیں بال و پر تیرے

تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا

خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے

نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر

شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے

گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی

نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی

ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے

قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو  مندان مغرب کو

ہوس کے پنچۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کی وا کر دے

کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے

پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی

زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے

بیا پیدا خریدارست جان ناتوانے را

”پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را”

بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد

بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد

کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا

صداۓ آبشاراں از فراز کوہسار آمد

سرت گردم تو ہم قانون پیشیں سازدہ ساقی

کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد

کنار از زاہداں برگیروبے باکانہ ساغر کش

پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد

بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور

تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد

دگر شاخ خلیل از خون ما نم ناک می گرد

بیا زار محبت نقد ما کامل عیار آمد

سر خاک شہیدے برگہاے لالہ می پاشم

کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد

”بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم

فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم”

 

غزلیات

٭ ٭ ٭ ٭

اے باد صبا! کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی

یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا

ہے دور وصال بحر بھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی!

عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجاب محمل سے

محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی لیلا بھی گئی

کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی

آوارگی فطرت بھی گئی اور کشمکش دریا بھی گئی

نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا

پیغام سکوں پہنچا بھی گئی ، دل محفل کا تڑپا بھی گئی

٭ ٭ ٭ ٭

یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے

باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے

تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مۓ مغرب اثر

خندہ زن ساقی ہے، ساری انجمن بے ہوش ہے

دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں

جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو روپوش ہے

آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے، وہ دل نہیں

پہلوئے انساں میں اک ہنگامۂ خاموش ہے

زندگی کی رہ میں چل، لیکن ذرا بچ بچ کے چل

یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بار دوش ہے

جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے

آہ، اے اقبال وہ بلبل بھی اب خاموش ہے

 

٭ ٭ ٭ ٭

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل

عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گام عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی

شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی

تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی

عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی

ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی

سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات

تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی

ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک

مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

بادہ گردان عجم وہ ، عربی میری شراب

مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی

خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم

نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی

 

٭ ٭ ٭ ٭

پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر

چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک

بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات

تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر

کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم

اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر

ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم

دل کو بیگانۂ انداز کلیسائی کر

اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا

ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر

پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے

پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر

مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلی اقبال!

کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر

 

٭ ٭ ٭ ٭

پھر باد بہار آئی ، اقبال غزل خواں ہو

غنچہ ہے اگر گل ہو ، گل ہے تو گلستاں ہو

تو خاک کی مٹھی ہے ، اجزا کی حرارت سے

برہم ہو، پریشاں ہو ، وسعت میں بیاباں ہو

تو جنس محبت ہے ، قیمت ہے گراں تیری

کم مایہ ہیں سوداگر ، اس دیس میں ارزاں ہو

کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لے تیری

تو نغمۂ رنگیں ہے ، ہر گوش پہ عریاں ہو

اے رہرو فرزانہ! رستے میں اگر تیرے

گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طوفاں ہو

ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی

مقصد ہے اگر منزل ، غارت گر ساماں ہو

 

٭ ٭ ٭ ٭

کبھی اے حقیقت منتظر نظر لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو

وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن

نہ تری حکایت سوز میں، نہ مری حدیث گداز میں

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں

 

٭ ٭ ٭ ٭

تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا

جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیر لبی رہی

ترا جلوہ کچھ بھی تسلی دل ناصبور نہ کر سکا

وہی گریۂ سحری رہا ، وہی آہ نیم شبی رہی

نہ خدا رہا نہ صنم رہے ، نہ رقیب دیر حرم رہے

نہ رہی کہیں اسد اللہی، نہ کہیں ابولہبی رہی

مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا

وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی

 

٭ ٭ ٭ ٭

گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے

قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں

عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

اے مسلماں! ہر گھڑی پیش نظر

آیۂ ‘لا یخلف المیعاد’ رکھ

یہ ‘لسان العصر’ کا پیغام ہے

”ان وعد اللہ حق” یاد رکھ

 

ظر یفانہ

٭ ٭ ٭ ٭

مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں

مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں

رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے

واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں

٭ ٭ ٭ ٭

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

 

٭ ٭ ٭ ٭

شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں

مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے

وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف

”پروہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے”

یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!

یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند!

غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی

آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض

کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی

 

٭ ٭ ٭ ٭

تعلیم مغربی ہے بہت جرأت آفریں

پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈینگ

بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط

آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہینگ

میرا یہ حال، لوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں میں

ان کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رینگ

کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدا سا جانور

اچھی ہے گائے، رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ

٭ ٭ ٭ ٭

کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست

تہذیب نو کے سامنے سر اپنا خم کریں

رد جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا

تردید حج میں کوئی رسالہ رقم کریں

 

٭ ٭ ٭ ٭

تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!

دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض

دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق

کہتا ہے ماسٹر سے کہ ”بل پیش کیجیے!”

٭ ٭ ٭ ٭

انتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک

چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی

آئیں گے غسال کابل سے ،کفن جاپان سے

 

٭ ٭ ٭ ٭

ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے

واں کنڑ سب بلوری ہیں یاں ایک پرانا مٹکا ہے

اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں! باقی وہ رہ جائے گا

جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے

اے شیخ و برہمن، سنتے ہو! کیا اہل بصیرت کہتے ہیں

گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

یا باہم پیار کے جلسے تھے ، دستور محبت قائم تھا

یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے

٭ ٭ ٭ ٭

”اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے”

غالب کا قول سچ ہے تو پھر ذکر غیر کیا

کیوں اے جناب شیخ! سنا آپ نے بھی کچھ

کہتے تھے کعبے والوں سے کل اہل دیر کیا

ہم پوچھتے ہیں مسلم عاشق مزاج سے

الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا!

 

٭ ٭ ٭ ٭

ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا

رخصت ہوا دلوں سے خیال معاد بھی

قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی

پوچھو تو، وقف کے لیے ہے جائداد بھی!

٭ ٭ ٭ ٭

وہ مس بولی ارادہ خودکشی کا جب کیا میں نے

مہذب ہے تو اے عاشق! قدم باہر نہ دھر حد سے

نہ جرأت ہے ، نہ خنجر ہے تو قصد خودکشی کیسا

یہ مانا درد ناکامی گیا تیرا گزر حد سے

کہا میں نے کہ اے جاں جہاں کچھ نقد دلوا دو

کرائے پر منگا لوں گا کوئی افغان سرحد سے

 

٭ ٭ ٭ ٭

ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر

حاصل ہوا یہی، نہ بچے مار پیٹ سے

مغرب میں ہے جہاز بیاباں شتر کا نام

ترکوں نے کام کچھ نہ لیا اس فلیٹ سے

٭ ٭ ٭ ٭

ہندوستاں میں جزو حکومت ہیں کونسلیں

آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا

ہم تو فقیر تھے ہی، ہمارا تو کام تھا

سیکھیں سلیقہ اب امرا بھی ‘سوال’ کا

 

٭ ٭ ٭ ٭

ممبری امپیریل کونسل کی کچھ مشکل نہیں

ووٹ تو مل جائیں گے ، پیسے بھی دلوائیں گے کیا؟

میرزا غالب خدا بخشے ، بجا فرما گئے

”ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟”

٭ ٭ ٭ ٭

دلیل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی

نہ ہو حضور سے الفت تو یہ ستم نہ سہیں

مصر ہے حلقہ ،کمیٹی میں کچھ کہیں ہم بھی

مگر رضائے کلکٹر کو بھانپ لیں تو کہیں

سند تو لیجیے ، لڑکوں کے کام آئے گی

وہ مہربان ہیں اب، پھر رہیں، رہیں نہ رہیں

زمین پر تو نہیں ہندیوں کو جا ملتی

مگر جہاں میں ہیں خالی سمندروں کی تہیں

مثال کشتی بے حس مطیع فرماں ہیں

کہو تو بستۂ ساحل رہیں ، کہو تو بہیں

 

٭ ٭ ٭ ٭

فرما رہے تھے شیخ طریق عمل پہ وعظ

کفار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش

مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مشرک سے لین دین

لیکن ہماری قوم ہے محروم عقل و ہوش

ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی

سن لے، اگر ہے گوش مسلماں کا حق نیوش

اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک

جس کے لیے نصیحت واعظ تھی بار گوش

کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی

پابند ہو تجارت سامان خورد و نوش

میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی

ہندوستاں میں ہیں کلمہ گو بھی مے فروش

 

٭ ٭ ٭ ٭

دیکھے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک

شیشۂ دیں کے عوض جام و سبو لیتا ہے

ہے مداوائے جنون نشتر تعلیم جدید

میرا سرجن رگ ملت سے لہو لیتا ہے

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن

گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرم سخن

نہیں اک حال پہ دنیا میں کسی شے کو قرار

میں تو بد نام ہوئی توڑ کے رسی اپنی

سنتی ہوں آپ نے بھی توڑ  کے رکھ دی ہے مہار

ہند میں آپ تو از روئے سیاست ہیں اہم

ریل چلنے سے مگر دشت عرب میں بیکار

کل تلک آپ کو تھا گائے کی محفل سے حذر

تھی لٹکتے ہوئے ہونٹوں پہ صدائے زنہار

آج یہ کیا ہے کہ ہم پر ہے عنایت اتنی

نہ رہا آئنۂ دل میں وہ دیرینہ غبار

جب یہ تقریر سنی اونٹ نے، شرما کے کہا

ہے ترے چاہنے والوں میں ہمارا بھی شمار

رشک صد غمزۂ اشتر ہے تری ایک کلیل

ہم تو ہیں ایسی کلیلوں کے پرانے بیمار

ترے ہنگاموں کی تاثیر یہ پھیلی بن میں

بے زبانوں میں بھی پیدا ہے مذاق گفتار

ایک ہی بن میں ہے مدت سے بسیرا اپنا

گرچہ کچھ پاس نہیں، چارا بھی کھاتے ہیں ادھار

گوسفند و شتر و گاو و پلنگ و خر لنگ

ایک ہی رنگ میں رنگیں ہوں تو ہے اپنا وقار

باغباں ہو سبق آموز جو یکرنگی کا

ہمزباں ہو کے رہیں کیوں نہ طیور گلزار

دے وہی جام ہمیں بھی کہ مناسب ہے یہی

تو بھی سرشار ہو، تیرے رفقا بھی سرشار

”دلق حافظ بچہ ارزد بہ میش رنگیں کن

وانگہش مست و خراب از رہ بازار بیار”

 

٭ ٭ ٭ ٭

رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے

ماجرا اپنی نا تمامی کا

مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو

صلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا

اور یہ بسوہ دار، بے زحمت

پی گیا سب لہو اسامی کا

٭ ٭ ٭ ٭

یہ آیۂ نو ، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر

گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا

کیا خوب ہوئی آشتی شیخ و برہمن

اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا نہ وہ جیتا

مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے ‘بدری’

مسجد سے نکلتا نہیں، ضدی ہے مسیتا’

 

٭ ٭ ٭ ٭

جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست

ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت

چٹّے بٹّے ایک ہی تھیلی کے ہیں

ساہو کاری، بسوہ داری، سلطنت

٭ ٭ ٭ ٭

محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے

دیکھے ہوتا ہے کس کس کی تمناؤں کا خون

حکمت و تدبیر سے یہ فتنۂ آشوب خیز

ٹل نہیں سکتا ، وقد کنتم بہ تستعجلون،

‘کھل گئے، یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام

چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ‘ینسلون’

 

٭ ٭ ٭ ٭

شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یزل

رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق

یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام

رنگ اک پل میں بدل جاتا ہے یہ نیلی رواق

حضرت کرزن کو اب فکر مداوا ہے ضرور

حکم برداری کے معدے میں ہے درد لایطاق

وفد ہندستاں سے کرتے ہیں سرآغا خاں طلب

کیا یہ چورن ہے پۓ ہضم فلسطین و عراق؟

 

٭ ٭ ٭ ٭

تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز

دونوں یہ کہہ رہے تھے، مرا مال ہے زمیں

کہتا تھا وہ، کرے جو زراعت اسی کا کھیت

کہتا تھا یہ کہ عقل ٹھکانے تری نہیں

پوچھا زمیں سے میں نے کہ ہے کس کا مال تو

بولی مجھے تو ہے فقط اس بات کا یقیں

مالک ہے یا مزارع شوریدہ حال ہے

جو زیر آسماں ہے ، وہ دھرتی کا مال ہے

 

٭ ٭ ٭ ٭

نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

الکشن، ممبری، کونسل، صدارت

بنائے خوب آزادی نے پھندے

میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

٭ ٭ ٭ ٭

کارخانے کا ہے مالک مردک ناکردہ کار

عیش کا پتلا ہے، محنت ہے اسے ناسازگار

حکم حق ہے لیس للا نسان الا ماسعی

کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

 

٭ ٭ ٭ ٭

سنا ہے میں نے، کل یہ گفتگو تھی کارخانے میں

پرانے جھونپڑوں میں ہے ٹھکانا دست کاروں کا

مگر سرکار نے کیا خوب کونسل ہال بنوایا

کوئی اس شہر میں تکیہ نہ تھا سرمایہ داروں کا

٭ ٭ ٭ ٭

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا

تر آنکھیں تو ہو جاتی ہیں، پر کیا لذت اس رونے میں

جب خون جگر کی آمیزش سے اشک پیازی بن نہ سکا

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا ،کردار کا غازی بن نہ سکا

٭٭٭

تشکّر: علاّمہ اقبال ڈاٹ کام

مزید ٹائپنگ: مہوش علی، سیّدہ شگفتہ

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید