FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا آن لائن جریدہ

سَمت

شمارہ ۶۳

جولائی تا ستمبر ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

شمارہ ۶۳

جولائی تا ستمبر ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔

تازہ شمارہ حاضر ہے۔ جو اس بار کچھ زیادہ ہی ضخیم ہو گیا ہے اگرچہ اس بار کچھ نیا قسط وار سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ تھا، لیکن رسالے کی ضخامت کے باعث اسے مؤخر کر رہا ہوں۔

اس بار بہت دنوں بعد کوئی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے۔ احمد رشید علی گڑھ کے احباب میں (بلکہ کچھ حد تک شاگرد کہا جا سکتا ہے، کہ انہوں نے اپنے ابتدائی افسانے اصلاح کے لئے مجھے دئے تھے!) شامل ہیں، اور ان کے ضمن میں مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اب تک ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہو سکی ہے۔ اس احساس کے تحت ان پر گوشہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ ادھر کئی احباب کی دائمی جدائی کی خبریں ملیں۔ احباب انہیں محض رسمی طور پر ہی نہیں کہا جا رہا ہے، بلکہ واقعی ان میں سے کئی احباب سے واقعی میرا ربط رہا ہے، ای میل اور فون کے ذریعے۔

طارق غازی ایک عجوبۂ روزگار شخصیت تھے، بلکہ انہیں گذشتہ تہذیب کی آخری علامتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دینی سرگرمیوں سے قطع نظر ادبی اور لسانی طور پر بھی وہ ان دنوں کافی سرگرم ہو گئے تھے جب میرے مرحوم بزرگ دوست ابن فرید کی بہو رضیہ مشکور نے ’علی گڑھ اردو کلب‘ نامی یاہو گروپ کی تشکیل کی تھی، اور ایک آن لائن جریدہ ’دیدہ ور‘ کا اجراء کیا تھا۔ ان دنوں  سَمت اور دیدہ ور، دونوں جریدوں میں ان کی تخلیقات شامل ہوتی تھیں، اور انہوں نے کئی علمی سلسلے بھی اس یاہو گروپ  کے تحت شروع کئے تھے۔ ’لفظ نما‘، ’مطالعات‘ اور ’نکتہ گو ‘کے نمونے اس بار ان کی یاد میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ انہی سلسلوں کو ترتیب دے کر برقی کتب کی اشاعت بھی عمل میں لائی گئی تھی۔

فریاد آزر بھی ان دوستوں میں شامل تھے جن پر پہلے بھی ایک گوشہ نکالا جا چکا ہے، شمارہ ۲۷ ۔۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۵ء میں۔ اب ان کی یاد میں مزید ایک گوشہ شامل ہے۔

سلام بن رزاق ان افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ ادھوری ہے۔ ان کی رہنمائی میں ایک واٹس ایپ گروپ ’بزم افسانہ‘ بھی بہت فعال رہا ہے۔ ان پر گوشہ بھی ضروری تھا۔ اور ابھی ابھی ان سطروں کے لکھنے وقت خلیل مامون کے انتقال کی خبر بھی ملی ہے۔ اللہ ان تمام مرحومین کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔

سلام بن رزاق کے گوشے کو خاطر خواہ مواد میسر نہ ہونے کے باعث مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ اگلے شمارے میں شامل ہو گا۔

احمد فرہاد، جو پاکستان میں مزاحمت کی ایک اہم آواز ہیں (تھے؟)، مفقود الخبر ہیں۔ ان کے تعارف کے طور پر ایک خصوصی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے جس میں ان کی تین نمائندہ غزلیں اور ایک نظم شامل ہے۔

باقی تخلیقات بھی امید ہے کہ آپ کو پسند آئیں گی۔

ا ۔ع

٭٭٭

عقیدت

نعت ۔۔۔ محمد بلال اعظم

تسبیحِ محمدﷺ میں یوں مصروف قلم ہو

’’الہام کی رم جھم‘‘ ہو، تصور میں حرم ہو

رنگوں میں دھلے حرف ہوں، خوشبو میں بسے لفظ

اندازِ ثنا ہم سرِ معیارِ ارم ہو

ہر شے میں تراﷺ عکس ابھارا ہے خدا نے

تخلیقِ بہاراں ہو کہ ترتیبِ ارم ہو

تخلیقِ دو عالم ہو کہ ہو نغمۂ توحید

زمزم ہو کہ کوثر ہو، وہ ہستی کہ عدم ہو

تشکیلِ جہاں سے بھی یہ پہلے ہوا فیصل

گردوں سے بھی اونچا تریﷺ عظمت کا علم ہو

جو فعل ہو اُنﷺ کا، وہی دستورِ شریعت

کہہ دیں جو محمدﷺ، وہی تقدیرِ امم ہو

ہو راہِ حرم میں یہ فلک ناز کفِ خاک

خوش بختیِ عالم بھی یوں ہمراہِ قدم ہو

اک خوابِ مسلسل ہے کہ طیبہ میں رہوں میں

ہر لفظ مرا مدحِ محمدﷺ میں رقم ہو

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں

علامہ اقبال کی یاد میں ۔۔۔ امین احسن اصلاحی

یہ دَور ہمارے عروج و اقبال کا دَور نہیں، بد بختی و ادبار کا دَور ہے۔ ہم پاتے کم ہیں، کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جانشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سَروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالاں کہ زندگی سَروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔

؎ مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جن لوگوں کے سامنے معاملہ کی یہ حقیقت، اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کون بتا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کا کیا حال کیا! دنیا تقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے تو سر پیٹتی ہے، اور دشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے تو انتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کا نوحہ خواں کیا کرے وہ تو صرف خدا ہی سے شکوہ کر سکتا ہے۔

انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ!

غالباً 1916ء یا 1917ء کا واقعہ ہے۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔

میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اور اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ آج بیس بائیس برس کے بعد اس مجلس کی لذیذ یاد پر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی!! ہنسی بچپنے کی اس سادہ لوحی پر کہ شاعر ہونا تو درکنار اقبال کے شعروں کو سمجھنے کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اور رونا اس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی آج اٹھ گئی ہے جو حوصلوں اور ولولوں کو دعوتِ رفعت و سبقت دینے کے لیے ایک نشان پرواز اور دماغوں کی رہنمائی و قیادت کے لیے ’پہاڑی کا چراغ‘ تھی۔

شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے ’زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے‘۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہو۔ لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔

اقبال اس بزم میں یا تو بہت بعد میں آئے تھے، یا بہت پہلے۔ اتنے بعد کہ اہلِ مجلس کے دماغوں اور دلوں میں ان خیالات و افکار کے لیے ایک چھوٹے سے نقطہ کے برابر بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ یا اتنے پہلے کہ جس صبح صادق کے وہ مبشر تھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کا کوئی نشان بھی نمودار نہ ہوا تھا۔ بلکہ دنیا پر ابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اقبال کو اللہ تعالیٰ نے تسخیرِ قلوب و ارواح کے لیے اس نفوذ میں سے ایک حصہ عطا فرمایا تھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کو مسلح فرماتا ہے جو وقت کی فاتحیت کا تاج پہن کر آتے ہیں۔ چناں چہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے دیکھا کہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کے لیے اتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھا۔ اب اتنی مانوس و محبوب ہو گئی ہیں کہ ہر بزم و انجمن کا افسانہ ہیں اور کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔

اقبال نے جس جرات کے ساتھ ہمارے علم و عمل کے ایک ایک گوشہ پر تنقید کی اور جس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پر چل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمود ہے۔ جہاں تک جرح و تنقید کا تعلق ہے، مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چُن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھہرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔

؎ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہو چکا تھا۔ ان کو جو دیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہو چکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دستِ غیب خود چونا اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسمِ گل کی آمد آمد ان کو شہ بھی دے رہی تھی۔

مگر اقبال، اللہ اکبر! اس کی سطوت و جلالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے وہ زمانہ سے جنگ کرنے کے لیے آیا تھا۔

؎ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

ان کو جو پیغام دینا تھا، نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پر ڈھل چکی تھی اور اس کائنات کی تمام قوتیں ہم کو ایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کے لیے نہ صرف پوری طرح طاقتور ہو چکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کر چکے تھے۔ مگر اقبال تسخیر قلوب و ارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہو کر آیا اور اس نے ہم کو ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا اور یقیناً یہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جو ہر شکل و ہئیت کو قبول کر لینے کے لیے موم کی طرح نرم ہو چکے تھے، گو چٹان کی طرح سخت نہ ہو چکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرور آ چکی ہے کہ ہر انگلی ہم پر تصرف نہیں کر سکتی۔ یہ خودی کا وہی احساس ہے جس کو اقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔

اقبال کے فلسفہ پر غور کرنے والے، اس کا سراغ نٹشے اور برگسان میں لگانا چاہتے ہیں یہ اس لیے کہ ہماری منفعل اور مرعوب ذہنیت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ بادۂ تند مشرق کے کسی میکدہ کی ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ اقبال کے خیالات کا اصلی مصدر قرآن ہے۔ یوں تو اقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایا اس کو لیا لیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیز تھی۔ ورنہ جو خود کوہِ نور کی دولت کا مالک ہو وہ فقیروں کی کوڑیوں پر کیا نگاہ ڈالتا!

اقبال نے تو یہ ننگ تک گوارا نہ کیا کہ قرآنی صداقتوں اور عربی حکمتوں کو زمانہ کا آب و رنگ دے کر خوشنما بنائے۔ وہی پرانا کیسہ اور وہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگر جب اقبال نے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان کو پیش کیا تو نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اقبال کی دنیا ہی الگ تھی۔ جب سب شفا خانۂ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلے تو وہ ریگستانِ حجاز میں موت ڈھونڈتا تھا۔ جب مرمریں سلوں اور برقی قمقموں نے حرم کو جگمگا دیا تو اس نے چڑ کر کہا

؎ میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

اور بے لوث صداقت کا اعجاز دیکھو کہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی، ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اقبال کی یہ سادگی ہم کو بھی دیوانہ بنا لیتی ہے اور باوجود یہ کہ بغیر عقل و منطق کو ساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگر جب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جو ان سے دلیل مانگے، شاید یہ بات سچ ہے کہ

سچائی اگر سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کے لیے منطق کی محتاج نہیں۔

اقبال اور ان کی شاعری سے قوم کی جو خدمتیں انجام پائی ہیں ان پر غور کرنا مؤرخ کا کام ہے۔ ہم صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو صرف اقبال ہی نے کیا اور وہی کر سکتے تھے۔

اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقیناً ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہو گئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان تہہ بر تہہ پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روح شعر اس کائنات کے اندر کارفرما ہے اس وقت تک انشاء اللہ ان میں درد کی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔

جب مایوسیاں گھیر لیتی تھیں، ہم اقبال کے شعروں میں ایک نشانِ امید دیکھتے تھے جب تاریکیاں چھا لیتی تھیں اقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کر چمکتے تھے۔ وہ روحوں کو گرما دیتے تھے، دلوں تڑپا دیتے تھے۔ ان کی زبان سے ہم مشرق کے ضمیر کی صدائیں سنتے تھے، ان کی ہندی نغموں میں حجاز کی لے مضطرب تھی۔ وہ زمین کے تھے مگر ان کی پرواز آسمان تک تھی۔ وہ شاعر تھے مگر ان کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرما تھی۔

وہ دنیا داروں کے بھیس میں قلندر اور دیوانوں کے رنگ میں دانائے راز تھے۔ خداوند! ہمارا یہ شاعر کہاں گیا! اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!!

(رسالہ الاصلاح، اعظم گڑھ، مئی 1938)

٭٭٭

ادبی نقاد اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک گفتگو: سونل شاہ (ترجمہ: شفتین نصیر)

انڈیا کے ادبی حلقوں میں حال ہی میں منظر عام پر آنے والے انگریزی ناول The Mirror of Beauty نے ہلچل مچا دی ہے جو دراصل نو سو چوراسی صفحات میں اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کی حیات اور ان کے زمانے پر مبنی ایک افسانوی داستان پر مشتمل ہے۔ نیز زیادہ تر انیسویں صدی سے تعلق رکھنے والے دلی شہر اور اس کے مضافاتی ماحول پر مبنی ہے۔ وزیر خانم ایک خوبصورت اور پُر جوش عورت ہے جو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مغل دربار سے وابستہ نواب زادوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز افسران، معاصر شعراء اور دیگر بہت سے ناقابل فراموش کرداروں سے میل جول رکھتی ہے۔ مذکورہ ناول دراصل، 2006ء میں شائع ہونے والے شمس الرحمن فاروقی کے اردو ناول بعنوان ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ (جولائی 2013ء میں دیے جانے والے اس انٹرویو کے موقع پر) اٹھہتر برس کے فاروقی صاحب جو بھارتی پوسٹل سروس سے ایک اعلیٰ بیوروکریٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، اردو کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت سرکردہ شخصیت ہیں۔ انھوں نے دہلی میں انڈیا انک (India Ink) کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی کہ اس ناول کے واسطے انیسویں صدی کے دلی پر مبنی ایک دنیا کیسے تخلیق ہوئی نیز انھیں نوجوان قارئین سے کیا توقع ہے کہ وہ اس کتاب سے کیا کچھ حاصل کر پائیں گے۔

سوال: آپ الٰہ آباد میں رہائش پذیر ہیں، جو کہ نسبتاً ایک چھوٹا شہر ہے، اور آپ کی تحاریر کے قارئین زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اردو بولنے والوں میں سے ہیں یا علمی دنیا سے۔ حال ہی میں اورحان پاموک (Orhan Pamuk) جیسے نامور مصنف نے بھی آپ کی کتاب کو ’’ایک معتبر اور حیرت انگیز تاریخی ناول‘‘ کہا ہے۔ آپ کے لیے عالمی سطح پر ادبی توجہ حاصل کرنے کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

شمس الرحمن فاروقی : میں اس تمام معاملے سے متعلق بے یقینی محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس تمام تر توجہ اور بڑائی کا مستحق نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنے مدیر سے کہا کہ اس امر کو جاننے کے باوجود کہ آپ لوگ مجھے ایک دیو قامت شخص کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ان چیزوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے عرصہ دراز بیت چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں، اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ہونے والی بے پناہ تنقید کا سامنا کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ستائش، محبت اور شاباشی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا، خواہ عالمی ماحول ہو یا الٰہ آباد جیسی دور افتاد جگہ ہو۔ اگر اورحان پاموک میری تعریف میں لکھتے ہیں تو مجھے خوشی ہے؛ اگر وہ نہ لکھیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

سوال: انگریزی زبان میں لکھاری حضرات عالمی سطح پہ قارئین کو بالعموم فرض کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ڈیڑھ سو برس پہلے، اردو زبان کم از کم ہندوستان کی حد تک ایک مشترکہ زبان (یا باہمی رابطے کی زبان یعنی لینگوا فرینکا) تھی، معاصر ادب میں اردو قارئین کی تعداد ایک مخصوص حلقے تک ہی محدود ہے۔ قارئین کے حوالے سے آنے والی یہ تبدیلی، آپ کے ترجمے پر کیسے اثر انداز ہوئی؟

شمس الرحمن فاروقی : اردو مسودے کی بہ نسبت، انگریزی زبان میں مترجمہ ناول کی طوالت قدرے زیادہ ہے، کیونکہ مجھے چند خاص چیزوں کی وضاحت کرنا تھی۔ اور یہ بات قدرے یقینی ہے کہ اردو زبان کے دو مصرعوں کے انگریزی ترجمہ کی خاطر چار پانچ سطریں درکار ہوں۔ ایک نظریۂ ترجمہ کے مطابق، ترجمہ اس وقت تک بے کار ہے تاوقتیکہ ترجمے کی مانند دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ جب آپ ایک خاص قسم کے ثقافتی ضابطے اور علامتیت کو ایک یکسر اجنبی زبان میں منتقل کرتے ہیں، تو قاری کو ہر لحظہ اس بات کا احساس دلانا زیادتی ہے کہ ’’ہاں، میں ایک اعلیٰ درجہ کی اردو تحریر کو انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہوں‘‘۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی انگریز خاتون نے ہندوستانی کپڑے زیب تن کیے ہوں۔

سوال: آپ کو انیسویں صدی کے دلی کی دنیا یعنی قالین بافی کی تفصیل سے لے کر درباری آداب تک، تحقیق کرنے اور ا س کی تشکیل ِ نو پر کس چیز نے آمادہ کیا؟

شمس الرحمان فاروقی : میں نے کسی طرح کی منظم اور باقاعدہ تحقیق نہیں کی۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میں نے چند کتابوں سے مدد لی جب مجھے کچھ خاص تفصیلات، اور وہ بھی زیادہ تر تاریخوں کی تصدیق کرنے کی ضرورت پڑی۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ ناول بے ہنگم اور بے شناخت وجود کی حیثیت سے میرے ذہن میں ہمیشہ ہی موجود تھا۔ حقائق، یا د داشتوں، تاثرات اور یقینی طور پر ناول کو کسی قسم کی شکل دینے سے قبل میرا مطالعہ، یہ سب کچھ ایک بکھری ہوئی صورت میں موجود تھا خصوصاً اس لیے کیونکہ میرے پاس وزیر خانم جیسے اہم کردار کو لکھنے کے واسطے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ، ماقبل جدید عہد کی فارسی اور اردو شاعری سے اپنی محبت کی دولت کے سبب، میں بے حد و حساب چیزوں سے مالا مال تھا۔ بعد ازاں، میرے گمان سے بھی زیادہ، میرے لاشعور میں اترنے والی شے داستان امیر حمزہ کا مطالعہ تھا۔ جو کہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیا ن ہونے والا زبانی عشق کا ایک تسلسل ہے جس کی 46 جلدوں، بیالیس ہزار سے زائد صفحات، اور دو کروڑ (بیس ملین) الفاظ کو میں نے پڑھا اور بعض صورتوں میں با رہا پڑھا، تقریباً 1980ء تک۔ میں ہمیشہ کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس فرانسز پریچٹ (Frances Pritchett) کا احسان مند رہوں گا جنہوں نے داستان کو میری توجہ کا مرکز بنایا۔

سوال: اردو اور انگریزی زبان میں موجود دونوں ناولوں کے لیے آپ نے خود کو انیسویں صدی کی لغت تک پابند رکھا۔ ’’دی مرر اوف بیوٹی‘‘ بہت آسان کتاب ہے، لیکن کیا اردو زبان میں لکھا جانے والا اصل ناول، دیسی اردو بولنے والوں کو چیلنج دیتا ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : لوگ اس کی وسعت اور پھیلاؤ کی بدولت سراہ رہے ہیں، لیکن سبھی اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ : آپ نے حاشیہ نہیں دیا، آپ کو ترجمے میں فارسی متن کو شامل کرنا چاہیے تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی لوگوں نے شکایت کی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مقبول عام کتاب نہیں تھی، چار سالوں میں وہ دو مرتبہ شائع ہوئی، جو کہ ایک اردو ناول کے لیے قدرے غیر معمولی بات ہے۔ میں نے شعوری طور پر اس ناول کو ایسے انداز میں تیار کیا، ایک ایسی لفظیات میں لکھتے ہوئے جو آج کل استعمال نہیں ہوتی یعنی قدیم اردو زبان جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں۔ میں نے بالکل پرواہ نہیں کی۔ میں اپنا کام کر رہا تھا۔ مجھے اپنے تصور سے وفاداری نبھانی تھی۔

سوال: ہندوستان اور پاکستان کے انگریزی میں لکھنے والے مصنفین کے مابین ایک مضبوط رابطہ موجود ہے۔ وہ ایک دوسرے کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کو جاتے ہیں، انعامات کی ایک جیسی فہرست تیار کرتے ہیں۔ اردو زبان میں لکھنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مصنفین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

شمس الرحمان فاروقی: ذاتی سطح پر بہت دوستی ہے۔ بہت حد تک آنا جانا، لکھنا اور تبصرہ نگاری بھی ہے، لیکن بھرپور حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ میں بھرپور انداز میں پاکستانی کتاب یا مصنف کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہوں لیکن پاکستان کے ادباء ہندوستانی مصنفین کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے سے کتراتے ہیں۔ تقریباً ہر ایک اہم لکھاری جس کی وفات پاکستان میں ہوئی یا جسے اب پاکستانی کہا جاتا ہے مثلاً فیض احمد فیض، ن م راشد، سعادت حسن منٹو، ہندوستان میں ان کے بارے میں سبھی نے لکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ بجز اس کے، وہ محبت سے بھرپور ہیں؛ وہ آپ کو کھلائیں پلائیں گے، آپ کی خاطر تواضع کریں گے۔

سوال: آپ نے دیگر چیزوں کے علاوہ انتونیا سوزن بائٹ (Antonia Susan Byatt) اور پیٹر آکرائڈ (Peter Auckroyd) کے تاریخی افسانوں میں اپنی دلچسپی کا ذکر کیا ہے۔ کیا ہندوستان سے متعلق ایسی افسانہ نگاری موجود ہے بالخصوص اس کی مغل تاریخ سے متعلق، جس پر آپ نے نگاہ ڈالی ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : انگریزی میں امیتاو گوش (Amitav Gosh) کے ناول ہیں جنھیں میں نے پڑھا اور سراہا: مثلاً بحر گل ہائے لالہ (Sea of Poppies) کے بعد دھوئیں کا دریا (River of Smoke)۔ ان کے اندر بے شمار تاریخ موجود ہے اگرچہ ایک بے حد محدود علاقہ کی تاریخ ہے، جس کا تعلق انیسویں صدی کے اوائل یا اٹھارویں صدی کے آخری دہائیوں کے بنگال سے ہے، بالخصوص افیم کی تجارت کے ساتھ۔ امیتاو گوش کو بلا شبہ اپنے ناول کے مواد پر پوری گرفت حاصل ہے۔

سوال: آپ نے کہا ہے کہ آپ نے ’’The Mirror of Beauty‘‘ کو صرف زمانی اعتبار سے ماضی کا سفر کرنے کے حوالے سے نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اس بات کی مزید وضاحت کریں گے؟

شمس الرحمان فاروقی: میں اس بات کی توقع کر رہا تھا کہ نوجوان لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی بدولت خود اپنی ذات سے واقفیت حاصل کریں گے یعنی وہ کہاں سے آئے، ان کی تشکیل کیسے ہوئی، 1857ء سے پہلے کی دنیا سے جدائی اور کٹ جانے کا درد کے بارے میں۔ اگرچہ یہ پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو رہی تھی، ان کے پاس وہ دنیا تھی جو خود شعوری کی حامل تھی، جسے اپنی قدرو قیمت پر یقین تھا، جس کا موازنہ کسی دوسری ثقافت یا کسی بھی معاشرے سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کے استعماری آقا کی جانب سے فراہم کردہ ناموافق معلومات اور پروپیگنڈے کی بدولت ہمیں تھما دی گئی۔ بہرصورت، ہر قسم کے ماضی کی بازیافت سزاوار ہے خواہ ممکنہ طور پر بھدا ترین ماضی ہو۔ لیکن (اس ناول میں پیش کردہ) ہمارا ماضی بھدا نہیں ہے۔ یہ قابل ِ تعریف ماضی ہے۔ اور ہمارا ماضی معاصر عہد کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پڑھا لکھا، تہذیب یافتہ اور نفیس ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ناول کو پڑھنے کی تکلیف اٹھانے والے لوگ، اس کتاب کو اس طور سے آسان محسوس کریں گے کہ کہانی ساتھ چلتی ہے اور قاری کی توجہ کو جذب کرتی ہے اور بالآخر وہ یہ جان لیں گے کہ وہ کہاں سے آئے اور کیا تھے۔

٭٭٭

یاد رفتگاں

نکتہ گو ۔۔۔ محمد طارق غازی

دیباچہ

گزشتہ دنوں یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کبھی کبھی آپ لوگوں سے نُکتَگوٗ رہا کرے۔

در اصل یہ مخفف بنایا ہے نکتہ اور گفتگو سے، یعنی کسی علمی، دینی، ادبی، سماجی، اخباری نکتہ پر مختصر گفتگو، تھوڑے سے الفاظ میں اظہار خیال، رائے زنی، یا کسی پرانی یاد کا تذکرہ۔ میں نے بس اسی کو نکتگو قرار دیا ہے۔

اقبال اکیڈیمی حیدرآباد کے ششماہی مجلہ اقبال ریویو کا تازہ شمارہ آیا تو اس میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مضامین میں ایسے کئی نکات سامنے آئے جن پر گفتگو نہ سہی خود کلامی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایسا زندگی میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لڑکپن سے بعض تحریروں پر تحسین اور تعریف، تنقید اور تعریض، تصدیق اور تردید کرنے کی عادت ہے۔ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعے کر کے یا کرتے ہوئے اس پر فوراً کچھ لکھ ڈالا، کبھی کسی کاپی میں، کبھی بے شیرازہ اوراق پریشاں پر، کبھی کسی پرزے پر۔ کبھی ان پر اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ ہوتا تھا، کبھی نہیں ؛ کبھی ارتجالاً محض اپنی رائے کا اظہار خود اپنے لئے۔ چنانچہ ایسی تحریروں پر کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک عرصہ کے بعد ایسا کوئی پرزہ یا کاپی دوبارہ سامنے آئی تو اکثر یہ طے کرنا بھی دشوار ہوا کہ وہ تحریر اور رائے میری ہے یا کسی اور کی بات بلا حوالہ یادداشت کے طور پر لکھ چھوڑی تھی۔ ایسی اکثر تحریریں آج نہ جانے کہاں کہاں لاپتہ ہیں۔ بہت سی زندگی بھر کی خانہ بدوشی اور لا مرکزی حیات کر دن کے سبب سے ضائع ہو گئیں۔

تجزیہ نگاری میری زندگی کا عرف رہی ہے۔ علی گڑھ سے باہر آئے تو پہلا قدم کوچۂ صحافت میں پڑا۔ پھر وہی کوچہ میرے لئے میدانِ تیہ بن گیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ حقائق کی دنیا میں رہنے والے خود کو بڑا خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوا جن کے دل و جگر کو حقائق کے کانٹوں نے چھلنی کر رکھا ہے، اور دل و جگر ہی کیا خارزار صحافت میں سیاست کے کانٹوں کی نوکیں اکثر روح تک میں اتر گئی ہیں۔ کتنے حقائق ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہی کے لئے کنایہ اور ایہام کی نثر اور رمز و استعارہ کی شاعری ایجاد ہوئی۔ کچھ ہمارے ملکوں کی غیر اخلاقی اخلاقیات کا بھی بھرم رکھنا ہوتا تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ تھا یہ شعر

لکھتے ہوئے قلم پہ مسلط ہے ایسا خوف

مفہوم اپنی با ت کا زیر سطر گیا

عرض صرف یہ کرنا ہے کہ نکتگو کے تحت خوش مقالی بھی ہو گی اور خود کلامی بھی۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے چہرے تو دکھائی دیں گے ہی، بقول اقبال عشق کی تقویم کے کچھ ان زمانوں کے احوال بھی زیر سطر ہی سہی آ سکتے ہیں جن کا نہیں کوئی نام۔

اقبال ریویو میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مقالوں کے علاوہ دسمبر کے آغاز میں کچھ اور کتابیں بھی جستہ جستہ مطالعے میں رہیں اور ان کے بعض مندرجات کے بارے میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی۔ مگر کچھ لکھا یوں نہیں کہ دیار مغرب میں دسمبر کا مہینہ اہل تجارت کے لئے اضافی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ پھر علی گڑھ اردو کلب کی عمّالہ عزیزہ رضیہ مشکور سلمہا نے سفر ہند پر روانگی سے نصف گھنٹہ پہلے فون کیا اور نہایت سعادت مندی کے ساتھ علی گڑھ اردو کلب کی کچھ انتظامی ذمہ داری میرے سر ڈال کر بابل کے دیس کی راہ لی۔ ادھر خود علی گڑھ اردو کلب میں بعض ایسی دلچسپ باتیں اٹھیں کہ دن بھر چکی کی مشقت کے بعد رات کا بیشتر حصہ ان موضوعات پر (مفروضہ – یعنی کمپیوٹر پر) خامہ فرسائی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ ساری باتیں جو کسی مطالعہ کا حاصل تھیں چولھے سے ہٹا کر اُولے پر دھر دیں کہ وقت ملے گا اور بات یاد رہی تو کبھی لکھ دیں گے۔ بس اسی کبھی کے گوشۂ امکان سے نکتگو کا خیال برآمد ہوا۔

٭٭٭

شاعری کی زبان

نکتہ

میں ڈاکٹر سموئل جانسن کے اس قول میں یقین رکھتا ہوں کہ ادب کے تمام اسالیب اور اصناف میں شاعری ہی در اصل زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔۔۔۔ شاعری کے مفاہیم صرف اپنی تعمیر میں صرف ہونے والے لفظوں کے یا زبان کے پابند نہیں ہوتے۔ بحر و وزن، آہنگ و اصوات، متعلقہ زبان اور متعلقہ شاعر کے مخصوص ذخیرۂ الفاظ، اس کے علامتی اور استعاراتی نظام میں بھی معنیٰ کے بہت مضمرات چھپے ہوتے ہیں۔

– پروفیسر شمیم حنفی

جاوید نامہ، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ؛ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل ۲۰۰۸ / ص ۴۳

گفتہ

بہت اہم ہے یہ دعویٰ کہ شاعری زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ درد و کرب کا اظہار، رنج و خوشی کا بیان، عصری حسّیات کی نگارش، حالات حاضرہ پر تبصرہ یقیناً شاعری کو ایک طاقتور صورت ابلاغ بناتے ہیں مگر میری دانست میں شاعری ہر زبان کے لئے مقننہ کا کام کرتی ہے اور یہی اس کا اصل منصب اور مقصد ہے۔ انسانی کیفیات کا اظہار و بیان و تذکرہ و تبصرہ سب اسی مقصد کے لئے ایک زبان کے ہتھیار اور اوزار ہوتے ہیں۔ میر کو یونہی تو لوگوں نے خدائے سخن نہیں مان لیا تھا۔ انہوں نے جب کہا تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، تو وہ جانتے تھے کہ وہ اردو زبان کے فقیہ و مفتی ہیں۔ آج کا شاعر و ادیب جب مطالبہ کرتا ہے کہ بطور سند قدیم اساتذہ میں سے کسی کا شعر پیش کرو تو وہ وجدانی طور پر شاعری ہی کو زبان کے در و بست، نظم و ترتیب، الفاظ کی نشست و ترکیب کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ کسی لفظ، محاور ے یا روزمرہ کی سند تو محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار سے بھی لائی جا سکتی ہے مگر قول فیصل تو شیخ ابراہیم ذوق اور غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہی ہوتا ہے۔

ایک بات اور، کوئی تو وجہ ہے کہ زبان کے سلسلے میں ترقی پسند اور جدید شاعر سند نہ مانے گئے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے وہ زبان اختیار کر لی تھی جس کے بارے میں لکھنو کے سفر کے دوران میر نے پہلوان کی بک بک کے جواب میں کہا تھا کہ کیا ضرور تم سے گفتگو کر کے میں اپنی زبان خراب کروں۔ یہ وہی میر تھا جو یہ بھی کہتا تھا گفتگو مجھ کو پر عوام سے ہے۔ یعنی عوام کی باتیں بھی تھیں اور ان کی لسانی تربیت بھی ساتھ ہی مقصود تھی، اپنی زبان بگاڑے بغیر۔ اسی لئے ان کی زبان خواص و عوام میں آج تک سند ہے۔

انسانیت کے بچپن پر نظر کریں تو رنج، خوشی، محبت، کلفت کے بہتر اظہار کے لئے ابتدائی دور کا انسان مکالمے نہیں بولتا تھا، بلکہ گانے لگتا تھا۔ وہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ شادی کا سہرا اور رخصتی، مرثیہ اور نوحہ، تہنیت اور ہجو، واسوخت اور شہر آشوب سب منظوم ہوتے ہیں، ان پر مقالے نہیں لکھے جاتے۔ مقالے فلسفہ ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ شعری پیرائے میں کہی ہوئی بات نسل در نسل یاد رہ جاتی ہے۔ حالی کے مرثیۂ دلی کے بہت سے اشعار آج بھی لوگوں کو نوک زبان ہوں گے ؛ اسی موضوع پر خطوط غالب کے کتنے جملے اور فقرے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی حفظ ہیں؟ بس یہی رمز ہے شاعری کی لسانی اور پھر اس ذیل میں قانونی اور عمرانی اہمیت کا۔

کچھ لوگ باور کرتے ہیں کہ شعر میں اپنا ذاتی یا عصری کوئی کرب بیان کر دیا تو حق شاعری ادا ہو گیا۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ جس مثبت یا منفی جذبے کا اظہار شاعری میں ہوتا ہے اس کا اصل مقصد زبان کو نازک باتیں سلیقے سے بیان کر نے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ شاعر اس اعتبار سے مستقبل کی تہذیب کا معمار ہوتا ہے، محض نوحہ گر اور سہرا نویس نہیں۔ وہ زبان ساز ا نسان ہوتا ہے اور الفاظ کے درست استعمال، محاور ے اور روزمرہ کے چست اور بر محل ہونے کی نگرانی کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں زبان کو نئے الفاظ مہیا کے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پھر ان لفظوں سے ادا ہونے والے معانی اور ان معانی کی نیرنگی کا تعین کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ شاعری میں اصل شے لفظ ہے۔ میں اضافہ کروں گا کہ نثر میں اصل شے جملہ ہے : جس کے الفاظ و معنیٰ شاعر متعین اور مہیا کرتا ہے۔

چنانچہ جب لفظ کا خزانہ زبان کی امارت، شکوہ و قوت، شوکت و وسعت کا ثبوت بن جاتا ہے تو نثر کے بال و پر آتے ہیں۔ نثر راست شاعری سے متاثر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر شعر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر زبان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ نثر لکھتے ہوئے کسی نکتے کی زیادہ خوبصورت وضاحت کے لئے درمیان میں ایک شعر یا مصرعہ لکھ دو تو تحریر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی شاعر نے اپنی نظم کے درمیان حسن بیان کی خاطر کوئی نثری فقرہ درج کیا ہو۔ یہ بجائے خود ثبوت ہے اس بات کہ نہ صرف شاعری کے ذریعہ بولی کو زبان کا مرتبہ ملتا ہے، بلکہ زبان اپنے ارتقا کے ہر دور میں شاعری کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ جب شاعری کی زبان کمزور پڑنے لگے تو اس میں لسانی زوال کا سبب دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر پست و بے روح الفاظ استعمال کرنے لگے، ان کے شجروں سے ناواقف، معنیٰ کی تہوں سے بے خبر ہو اور غیر ثقہ مفاہیم نظم کرنے لگے تو زبان نیم جاں ہو جاتی ہے اور کسی علمی کام کا بوجھ اٹھا نے کے قابل نہیں رہتی۔

میں نے پہلی نکتگو میں شعر و علم کا موازنہ پیش کیا تھا۔ اسے آج کی نکتگو کا پیش لفظ سمجھ لیجئے۔ وہ یوں کہ مغربی زبانوں میں جب علوم (انگریزی میں سائنسوں) کا عروج ہوا تو شاعری فطری طور پر کمزور ہوئی۔ انگریزی میں رومانوی تحریک کے بعد اُس بلندی کا شعری ادب تخلیق نہیں ہوا جس معیار کی نثر، بالخصوص علمی نثر، لکھی گئی۔ اس نثر کو بھی لسانی رہنمائی تو بہر حال درکار تھی۔ خاص طور سائنسداں قلم کار زبان کے در و بست پر وہ نظر نہیں رکھتے جو تخلیقی زبان لکھنے والے کا امتیاز ہوتی ہے۔ چونکہ شاعری کی صنف صنعتی انقلاب کے ساتھ کمزور پڑنے لگی تھی تو مغرب، خصوصاً انگلستان، میں صحافت کو عروج ہوا اور صحافی نے وہ کر دار ادا کرنا شروع کیا جو رومانوی تحریک تک شاعر ادا کرتا رہا تھا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر انگریزی شاعری رومانوی دور سے نہ گزری ہوتی تو صنعتی انقلاب کی سائنسی تحریروں کو زبان میسر نہ آتی اور خود صنعتی انقلاب ہی نہ آتا۔ فلسفۂ انقلاب کے بغیر انقلاب کب آتا ہے؟ اور فلسفہ تو صرف تونگر زبان میں لکھا جاتا ہے۔

اردو میں ہم اس دور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ نکالے گئے۔ میر و غالب، سودا و ذوق، نصرتی و ولی، نصیر و مومن، درد و داغ، حاتم و حالی، آتش و انشا شاعری کی راہ سے اردو کو اس مقام تک لے آئے تھے کہ ایک طرف عود ہندی کی نثر لکھی جا سکی اور دوسری طرف قول فیصل اور غبار خاطر کی۔ ابو الکلام آزاد، محمد علی جوہر، حامد الانصاری غازی، ظفر علی خان، عبد المجید سالک، شائق عثمانی، نصر اﷲ خان عزیز، چراغ حسن حسرت، حیات اﷲ انصاری، عبد الرزاق ملیح آبادی، شورش کاشمیری، وغیرہ کو غالباً یہ احساس تھا کہ اردو اعلیٰ علمی وقار کی زبان بننے کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں شاعری کی روایت کمزور پڑے گی۔ چنانچہ صف اول کے ان تمام صحافیوں نے اپنے اخبارات – الہلال، البلاغ، ہمدرد، مدینہ، جمہوریت، زمیندار، انقلاب، عصر جدید، ایشیا،، قومی آواز، آزاد ہند، چٹان – کے توسط سے اردو زبان کی صحت و معیار کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد میں دار الترجمہ کو علوم دنیا کے تراجم اور اصطلاح سازی کے لئے بلند پایہ زبان داں افراد اور ایک توانا زبان کا رفیع الشان ذخیرۂ الفاظ مل گیا۔

پھر اس ذخیرۂ الفاظ ہی پر ضرب پڑی۔ اس سے پہلے خود زبان پر ضرب پڑ چکی تھی۔ پاکستان میں بنگالی کے ساتھ نزاع پیدا ہوا اور ہندستان میں ہندی کے ساتھ۔ اب حال یہ ہے کہ اردو صحافت خود بہت کمزور ہے، اور شاعری کے ذریعہ زبان کی اصلاح اور توانائی بخش مہم بھی سرد پڑ ے دیر ہو چکی ہے۔ اردو کا المیہ یہ ہے کہ آج اس کے تحفظ کی ضامن اس کی شاعری رہی اور نہ صحافت۔ آج یہ بے مایہ زبان خود کو امیر خسرو (۱۳۲۵-۱۲۵۳) اور ولی دکنی (۱۷۰۷-۱۶۶۷) کے درمیانی عبوری زمانہ میں پاتی ہے۔ یعنی بات پھر وہیں سے شروع کیجئے جہاں سے ولی، سراج اور نگ آبادی اور میر و سودا نے اٹھائی تھی۔ اور یہ بھی مشروط ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ سے بھی صنعتی انقلاب قسم کی کوئی زبردست فکری، علمی، عملی اور عمرانی، تبدیلی اس دنیا میں آ سکتی ہے۔

اور یہ سب کچھ ممکن نہ ہو یا کسی کو اس قسم کی لغویات سے دلچسپی نہ ہو تو بھائی نہ تو اردو ہمارے پیر پڑ رہی ہے نہ ہمارے پیروں کی بیڑی ہے۔ جس زبان، جس قوم، جس انسانی گروہ میں صلاحیت ہو گی وہ وہ سب کچھ کر گزرے گا جو دو سو سال پہلے انگریز نے کیا تھا، اور اس سے نو سو سال پہلے جسے مسلمان نامی ایک قوم نے عربی کے راستے سے کیا تھا۔

۔۔۔۔

پس تحریر: اور بھئی یہ ڈاکٹر جانسن کون ہیں؟ یہ وہی تو نہیں جو جانسن اینڈ جانسن کے نام سے بے بی پاؤڈر بنا کر بیچتے ہیں؟ اردو تو کیا جانتے ہوں گے۔ اچھا اچھا یہ وہی ہیں، انگریزی کے محمد حسین آزاد! تو بات کرنے کے لئے آزاد ہی کیا برے ہیں؟ اردو زبان یعنی لسانیات پر ہمارے لوگوں نے بھی تو کبھی کچھ کہا ہو گا۔ آب حیات میں نہ سہی نکات سخن میں سہی، نکات الشعرا میں نہیں تو شعر الہند میں، مقدمہ شعر و شاعری میں نہیں تو شعر شور انگیز میں، کہیں ہمارے کسی آدمی نے بھی تو زبان و ادب و شعر پر کوئی ایسی عقل کی بات کسی جگہ لکھی ہو گی جس پر ہم شرمندہ ہوئے بغیر اپنے یقین کا اظہار کر سکیں۔ اور ایسا نہیں ہے تو بھائی اردو داخل ایمان تو ہے نہیں کہ یقین کے لئے ضروری ٹھہرے، نہ اس سے مفاد دنیا وابستہ کہ ولایتی صاحب کا نام بیچ میں آئے بغیر یہ زبان ہی مستند نہ ہو۔ ہاں بے بی پاؤڈر کی بات الگ ہے۔

٭٭٭

جدیدیت

نکتہ

وہ نسل جو جدیدیت کا تجربہ کر رہی تھی وہ ترقی پسند اصولیت سے مایوس ہو چکی تھی، وہ فرقہ پرست جارحیت سے خائف تھی۔ اس نے زندگی کے امکانات کے دروازے اپنے منہ پر بند ہوتے دیکھے تھے۔ جنونی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سب کچھ لٹتے، نذر آتش ہوتے، بے گناہ عزیزوں کو خاک و خوں میں تڑپتے، آگ میں جلتے، درندوں کی رانوں کے نیچے بے عصمت ہوتے دیکھا تھا۔ عدم تحفظ، بے امانی، اور بے روزگاری ان کی بہت بڑی آزمائشیں تھیں۔ وہ داد فریا د کس سے کرتے، وہاں تو ان کی زبان بھی قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی تھی۔ بے زبان ہو کر وہ داد طلب کرتے بھی تو کس سے؟ یہ نفسیاتِ خوف یا بے امانی جدیدیت کی علم بردار نسل کا بہت بڑا المیہ تھی۔ اس المیہ کا غماز ان کا گنگ افسانوی سرمایہ ہے۔ ان سے شکوہ نہ کیجئے۔ ان پر بہت الزامات عا ئد نہ کیجیے۔ ان پر جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری اور فیوڈل طبقہ وغیرہ کے لیبل نہ لگایئے۔ یہ بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے، بہت سے ناوکوں کے نخچیر، ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔۔

– ابن فرید

نئی نسلیں – ایک لمحۂ فکریہ۔ دیدہ ور، سہ ماہی انٹرنیٹ میگزین، شمارہ ۴، جنوری تا مارچ ۲۰۰۹۔ مقالہ گوشۂ ابن فرید / ص ۵۱

گفتہ

یہ قصہ صرف ہندستان کے مسلمان اردو جدیدیت پسندوں کاہے۔ باقی دنیا اور باقی ہندستان ادب میں جدیدیت کی اس تعریف سے خارج ہے۔ ہندی میں بھی جدید ادب لکھا گیا، مگر اس زبان کے قلم کاروں میں سے شاذ و نادر ہی کسی کا یہ المیہ تھا یا ہے۔ جدید ادب پاکستان میں بھی لکھا گیا اور پنجابیوں نے بھی لکھا جن پر الزام ہے کہ قومی وسائل کے بڑے حصہ پر تو وہی متصرف ہیں۔ وہاں ان مذکورہ مسائل میں سے بہت کا وجود کل تھانہ آج ہے۔ جدید ادب عربی میں بھی لکھا گیا۔ وہاں جدیدیت پسندوں کو حَدّاثِین کہا جاتا ہے۔ ان عرب اہل ادب کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو رہا تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ جدید ادب فارسی میں بھی لکھا جا رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور تاجکستان میں جنونی فرقہ پرست نہیں ہوتے اور نہ وہاں زبان قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی ہے۔ مگر جدیدیت کی ان سب عمل بردار نسلوں کا مایۂ مشترک تھا ان کا ’’گنگ افسانوی سرمایہ، ان کی جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری‘‘۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ دنیا بھر کے یہ سب اہل ادب ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں – تہذیبی، عمرانی انتشار کے۔ مگر ہر ایک کی زنبیلِ انتشار بھی الگ ہے اور اس میں رکھا نسخۂ انتشار بھی۔

اس موضوع پر خاصی تفصیل سے گفتگو میں اپنے طویل مقالے، سرد جنگ کی سیاست کا ادب (ماہنامہ شاعر، ممبئی، اگست ۲۰۰۸) میں کر چکا ہوں۔ جنہوں نے اسے نہیں پڑھا وہ افتخار امام سلمہٗ کو خط لکھ کر اس شمارے کی ایک کاپی منگوا لیں۔ یہاں بات اس موضوع کے دیگر دو پہلوؤں پر کرنی ہے۔

اردو میں ایلیٹی جدید ادب کا گل بوٹا ادب اسلامی کے گملے میں اُگا تھا بعد میں اسے گملہ سے نکال کر زمین میں بویا گیا تھا۔ شمس الرحمٰن فاروقی شروع میں ’’تعمیر پسند‘‘ ادب سے قریب تھے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات حفیظ میرٹھی کے ماہنامہ معیار، میرٹھ، میں شائع ہوئی تھیں۔ حفیظ میرٹھی ہندستان میں ادب اسلامی کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ادب اسلامی اس زمانے میں ترقی پسندی کے جواب میں تعمیر پسندی کے نام سے سکہ بنا تھا۔ اس سے اس تعلق خاطر کا سبب میرا ذہنی سفر میں فاروقی اشارتاً خود یہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھ پر ترقی پسندی یا کمیونزم کا جادو نہ چل سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی تہذیب اور روایت کا بہت گہرا احساس شروع سے تھا، اور مجھے یہ بات معلوم تھی کہ ترقی پسند نظام ادب اور اشتراکی نظام حکومت میں اسلامی (یا مسلم) تہذیب اور روایات کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔‘‘

بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی دو وجہوں سے ادب اسلامی سے دور اور مغرب نژاد جدید ادب کے میر کارواں ہوئے۔ اسلام پسند یا تعمیر پسند ادبی تحریک اپنی انتظامی ہیئت میں ترقی پسند تحریک کا چربہ تھی۔ دونوں کے پیچھے ایک طاقتور سیاسی جماعت اور اس کا فلسفہ تھا۔ دونوں معاشرہ میں ایک خاص سیاسی اور اقتصادی نظام قائم کرنے کے مدعی تھے۔ دونوں نظریوں کی بنیادی تحریکات کا سیاست اور اقتصاد کے فلسفوں پر اتنا تکیہ یا اصرار تھا کہ زندگی کے کسی دوسرے گوشے پر توجہ تھی نہ اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی، یہاں تک کہ دونوں تحریکات نے اپنے اپنے فلسفہ کی بنیاد پر سیاسی مفکر اور معاشیاتی ماہرین کی بڑی تعداد پیدا کی۔ دونوں تحریکات یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ میں اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنے کے لئے کوشاں اور کامیاب رہیں۔ اس مقصد کے لئے دونوں تحریکوں نے ادب کو استعمال کیا۔ دونوں نے ابتدا ہی سے اپنے فکری نہج کے مجلے شائع کرنے پر زور دیا اور اپنے جداگانہ ادبی ناقدین پیدا کئے۔ دونوں کو زبان سادہ اور سہل رکھنے پر شدید اصرار تھا۔ دونوں کے ہاں یہ گنجائش تھی کہ پارٹی کے رکن نہ بھی ہوں تو اس کی ادبی شاخ سے وابستگی ممکن ہی نہیں پسندیدہ تھی۔ دونوں طرف جماعت حرف آخر تھی اور اہل ادب کو پارٹی کی ہدایات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

ہندوستان کی حد تک ادب اسلامی کو جدید ادب کا نقطۂ آغاز بنانا منطقی تھا۔ اردو ادب میں مار کس کا جواب اصغر گونڈوی نہیں تھے۔ لادینیت کے مقابل قلم کی دینیت پر اصرار ضروری تھا۔ مگر ادب اسلامی میں اسلام کو چھوڑ کر باقی سب کچھ تو نقل ہی تھی ترقی پسندی کی۔ نقالی وقتی تفریح کا باعث ہو سکتی ہے، دیرپا نہیں ہو تی۔ اس کے عَلاوہ جوابی اسلامی ادب کا وجود اغلباً دنیا میں کہیں اور نہیں تھا۔ شائد مصر وغیرہ میں اخوانیوں نے اس سمت میں کچھ کام کیا تھا، مگر رفتہ رفتہ خود عالم عرب کو بھی جدیدیت کی جانب ہی جھکنا پڑا۔ عرب تو ویسے بھی یورپ امریکہ سے آنے والی ہر شے کو حلال، بلکہ مطابق بہ شریعت قرار دینے میں بے مثال تفقہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف مغرب کی تقلید کو جائز سمجھتے ہیں۔ باقی ہر قسم کی تقلید سے انہیں بوئے کفر آتی ہے۔

لہٰذا پہلی بدیہی وجہ یہ تھی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی عبقری شخصیت زیادہ دنوں یہ ذہنی پابندیاں برداشت نہیں کر سکتی تھی، ورنہ ممکن ہے وہ کمیونزم کا تو نہیں ترقی پسندی کا جادو اپنے اوپر چلنے دیتے۔ وہاں برگ و بار لانے کے امکانات پھر بھی زیادہ تھے کہ وہ باغ بہر حال یک جہانی بھی تھا اور پرانا بھی تھا؛ ادب اسلامی کو دنیا میں تعارف ہی حاصل نہ تھا۔ وہاں حفیظ میرٹھی جیسا شاعر ضائع ہو گیا۔

دوسری امکانی وجہ یہ کہ جدید ادب کو بہرحال عروج حاصل ہونا تھا اور معاملہ وہاں بھی یک جہانی، یعنی عالمی تھا، اس لئے جدیدیت میں تخلیقی تجربات کے امکانات زیادہ وسیع تھے۔ ان تجربات کے ذریعہ کچھ نسلوں کی ذہنی تربیت اور فکری رہنمائی کا میدان بھی ترقی پسندی کے مقابلہ میں زیادہ کھلا ہوا تھا اور اس نوعیت کی کارروائی وہاں زیادہ موثر ہو سکتی تھی۔ یوں بھی ترقی پسندی کو جو کرنا تھا وہ کر چکی تھی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ وہ بحر اسود سے کالے جوہڑ میں تبدیل ہو رہی تھی، اس میں اب کاغذ کی ناؤ نہیں چل سکتی تھی۔ نئے دریا میں پہاڑی جھرنے کی جولانی اور روانی بھی تھی اور اسے پرانے پہاڑ سے برفشاروں (glaciers) کا مقطر پانی بھی حاصل تھا۔ ترقی پسندی سیاسی تسلط کے سبب جمود کا شکار ہو چکی تھی، جبکہ جدید ادب کو ایسے جمود کا شکار ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔

جس طرح اردو میں جدیدیت کا پودا مذہب کے گملے میں اگا تھا اسی طرح امریکی جدیدیت کا بیج بھی کلیسا کے گملے ہی میں بویا گیا تھا، نیز بڑے دیس کی بڑی سیاست کی زمین میں اسے بونے کے بعد اس میں دین کے دودھ کے کچھ قطرے بھی ٹپکائے گئے تھے۔ یہ مجبوری بھی تھی۔ مگر یہ دودھ کئی دُدَھاری مویشیوں کا تھا۔ عمیق حنفی نے وحی کی گھنٹیوں کی بازگشت سنائی تو ستیہ پال آنند نے بن دھرتی پر رام کے پگ آکار کا بھجن سنایا۔ ہندستان میں تو اللہ ایشور تیرو نام کا نغمہ چل گیا، باقی دنیا سب کی بانی اپنی بانی تھی۔

ہندوستان کے اہل جدیدیت کے سامنے جو مسائل تھے یا وہاں کے مسلمان اہل ادب کے سامنے آج بھی ہیں اور وہ باقی ساری دنیا کے مسائل سے بہت، بہت مختلف ہیں۔ اسی زاویئے سے ہندستانی اردو جدید ادب کا کوئی جائزہ اسے ہماری روایت سے مربوط کر سکتا ہے، باوجودیکہ جدید ادب اساسی طور پر قنوطیت اور شکوہ کا ادب تھا؛ اور اس کے باوجود کہ ہر قنوطی میر اور ہر شکوہ نویس اقبال نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتہ یہ ابھرتا ہے کہ جدید ادب کا سیاسی فکری پس منظر چونکہ غیر واضح تھا اس لئے یکجہانیت میں قدرے تنوع کا امکان موجود تھا۔ جن مسائل سے ہندستان کا جدید اہل قلم نبرد آزما تھا – اور ہے – وہ مسائل صرف ہندستانی ادیب و شاعر کے ہیں۔ سعودی مملکت کا حدّاث شاعر اور ادیب قطعی مختلف دنیا میں رہتا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہے، کھل کر بول اور لکھ نہیں سکتا۔ اکثر اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی اہم مسئلہ پر انفرادی رائے ہی قائم کر لے، اظہار تو بہت بڑی بات ہے۔ وہاں ایسے اہل قلم موجود ہیں جن پر ایک نظم لکھنے پاداش میں سال چھ ماہ تک کسی بھی سعودی جریدہ یا مجلہ میں اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی، یا اعلیٰ سرکاری ملازمت یا یونیورسٹی کی تدریسی خدمات سے برطرف کر دیا گیا تھا، یا وکالت کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا۔ ایک امریکی، کنیڈائی جدید ادیب اس کیفیت کا تجربہ تو درکنار تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر پھر امریکہ میں یہ ممکن ہے کہ ناشر اس کی کتاب یا تخلیق کو چھاپنے سے انکار کر دے۔ ایسا ہندستان میں بھی ممکن ہے۔ مگر ہندستان میں امتیازی سلوک کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہو سکتا ہے اور کوئی زکی انور اس میں قتل ہو سکتا ہے، کسی احسان جعفری کو زندہ جلایا جا سکتا ہے اور کسی ہارون رشید کا گھر نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ جارج بش کے امریکہ میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اگرچہ زیریں نسلی سطح پر وہاں مضطرب رہنے کی اجازت تھی۔ فرانس میں فساد و آتش زنی ممکن ہے مگر ایسے کسی واقعہ کے نتیجہ میں انتہا پسند نسلیت زدہ لوگ الیکشن جیت سکتے ہیں اور پھر زندگی کو اجیرن کر سکتے ہیں۔ مگر وہاں کی اُس اجیرن زندگی اور ہندستان کی اجیرن زندگی میں فرق ہے۔

یہ سارا بیان سطحی اور اخباری سا ہے۔ تاہم ایک ملک یا منطقہ کے حالات کے اسباب و علل، اثرات و نتائج، معاشرتی پیش منظر اور نفسیاتی پس منظر کا مکمل ادراک و احسا س کسی دوسری جگہ بسنے والوں کو ہر گز ممکن نہیں۔ مگر چلئے، ممکن ہے ہم رنگ سیاسی نظریات رکھنے والے دو افراد دنیا کے دو کونوں پر رہنے کے باوجود کسی ایک معاملہ میں ایک ہی طرح کا رد عمل تحریر میں ظاہر کر دیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر یمن اور ارجنٹینا میں بسنے والے عربوں کے تاثرات یکساں ہوں گے اور اسی مسئلہ پر دوسرے رخ سے رباط اور نیو یارک میں رہنے والے یہودیوں کی سوچ ایک جیسی ہو گی۔ تو ڈھونڈنے والے یمن اور ارجنٹینا کے عرب جدید ادب میں اور رباط اور نیو یارک کے یہودی جدید ادب میں یکساں فکری اور تجزیاتی لہریں گن لیں گے۔ مگر یہ کیفیت افقی ہے۔ عمودی نہیں ہو سکتی۔ اسی کو ایک نقطہ پر سمیٹ دیا جائے تو بات دو عربوں اور دو یہودیوں کے مابین بھی بدل جائے گی۔

یہ بات انفرادی اعتبار سے زیادہ قابل فہم ہو گی۔ سنا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے گھر میں کئی طرح کے پرندے پلے ہوئے ہیں اور وہ خود ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پرندوں کے بارے میں ان کی معلومات بھی بہت ہوں گی۔ ان سے کسی پرندے پر نظم لکھنے کی درخواست کی جائے تو جو کچھ وہ لکھیں گے وہ اس سے بہت مختلف ہو گا جو ولی عالم شاہین یا شہر یار کسی ایسی ہی درخواست پر اسی پرندہ پر لکھیں گے اور یہ بھی طے ہے کہ خود شاہین اور شہریار کی تخلیقات میں بھی پرندہ کے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نہیں ہو گی۔ یعنی ایک موضوع پر بھی انفرادی تجربہ، معلومات اور دلچسپی کا معیار اتنا مختلف بلکہ متضاد ہو سکتا ہے کہ معلومات کی فراوانی یا کمی کی بنیاد پر تو بہتر کمتر کا فیصلہ کیا جا سکے گا مگر جذبات نگاری اور بیان کی تفاصیل کو رد و قبول کا معیار نہیں بنایا جا سکے گا، پلہ تو اسی کا بھاری رہے گا جو پرندوں کے جذبات کی موثر ترجمانی کرے گا، یا ان کا عمدہ تعارف کروائے کا۔

ویسے میرے نزدیک اس قسم کی مقابلہ آرائی اور امتحان ہی غلط ہے۔ میر و سودا، غالب و ذوق، مصحفی اور انشاء، سائل و بے خود میں باہمی چشمک یا طرح آرائی اور شے تھی، ایک پورے قبیلے کو کسی ایک فکری رنگ میں میں رنگنا دوسری بات ہے۔

مگر پھر کہا جا سکتا ہے کہ یکجہانی کے باوجود انفرادی سطح پر ابلاغ کا تنوع کافی ہے۔ پھر شکوہ کیا۔ اس سے ہر شخص کی انفرادیت کو تقویت تو ملتی ہے، یہ ترقی پسندوں کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹری نہیں ہے۔ مگر ہے۔ پٹری ہی تو ہے۔ ابن فرید نے اور کس بات کے اشارے دئے ہیں۔ بجا کہ جن معاشرتی عوارض کا ذکر کیا گیا ہے ان پر خامہ فرسائی ویسی ہی یکساں اور اتنی ہی مختلف ہے جیسا میر درد اور اقبال کا تصوف تھا۔ درست۔ مگر وہ اختیاری تھا، اِجباری نہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت پسندی میں جبر کا عنصر موثر تھا۔ کم سے کم یہ کہ ترقی پسند کے لئے پیالہ کو آدھا بھرا ہوا کہنا لازم تھا اور جدیدیت پسند کو آدھا خالی سمجھنا عین صواب۔ قنوط و رجا کی کیا بس یہی پہچان رہ گئی ہے؟ اس سے مجھے تو ویسی ہی بے چینی ہوتی جیسے کوئی میری بند آنکھ کے پپوٹے پر مسور کا دانہ رکھ دے۔

ادیب کی سوچ آزاد نہ ہوتی تو بھلا انقلاب فرانس کیوں آتا۔ اور ۱۹۳۶ سے اب تک دنیا میں کون سا انقلاب آ گیا؟

٭٭٭

مطالعات ۔۔۔ محمد طارق غازی

اس ذات کریم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی 23 سالہ جد و جہد کے طویل دور میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگو تم متحد ہو جاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ کہ اے میری قوم کے لوگو تم ٹولیوں، ٹکڑیوں اور قبیلوں میں بٹے رہنے کے بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا کی متمدن و ترقی یافتہ قوموں (ایران و روم) کی صف میں شامل ہو جاؤ۔ … بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا … کہ تم سب آدم کی اولاد ہو۔

مولانا محمد فیاض قاسمی

ہندستانی مسلمانوں کے مابین اتحاد کیسے ممکن ہے

ماہنامہ دار العلوم، دیوبند، جولائی 2010، ص 33

محمد طارق غازی

لفظ کو نعرہ بنا دو تو اکثر وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اتحاد، ترقی، جذباتی ہم آہنگی، قومیت، سب بہت با معنی الفاظ تھے اور اپنی اصل میں اب بھی عزت مند الفاظ ہیں۔ مگر گزشتہ چند عشروں، بلکہ لگ بھگ ایک صدی سے یہ لفظ نہیں رہے، بے مغز لوگوں کی زبانوں پر مہمل نعرے بن گئے جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور نہ ان سے کوئی مطلب مراد ہوتا ہے۔ بس عام لوگوں کو باندھے رکھنے کے لئے ان کھونٹوں کا سہارا لیا جاتا رہتا ہے۔

سادہ لوح لوگ ڈھول کے پول پر ناچنے لگیں تو حیرت کی جا نہیں۔ مگر جب بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ان آوازوں پر تھرکنے لگیں تو قیامت کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

دنیوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی ایک قوم تھی اور وہ ان کی اپنی ہی قوم تھی۔ ان کے سامنے بھی ترقی، سیاسی قوت، عالمی سیادت، معاشی سرداری کی مثالیں موجود تھیں اور ان کے تماشے وہ اپنی کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔ انؐ جیسے منفرد ذہین شخص کے لئے اس صورت حال کا ویسا تجزیہ کرنا چنداں مشکل نہ تھا جیسا عام دانشور، مفکر، مصلح کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ کے فرستادہ نبیؑ اور دنیوی عقل و تجربہ تک محدود دانشور، مفکر اور مصلح میں یہی فرق ہے . اور یہ فرق ان کے الفاظ اور اعلانات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نبیؑ کے پیش نظر ہنگامی مفادات نہیں، انسانیت کی دائمی فلاح کا منصوبہ ہوتا ہے۔ وہ نعروں کے بجائے زندگی کے حقائق پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

قومی اتحاد، جذباتی ہم آہنگی، قومیت کے شعور کی بیداری وغیرہ سطحی مطالبات ہیں جن کے پیچھے نہ تو روحانی عقل ہوتی ہے اور نہ تاریخی شعور۔ یہ نعرے ہنگامی نوعیت کے عمرانی شعور کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جو کسی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالنے کے لئے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح قسم کے لوگ لگاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس قسم کے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح نہیں تھے البتہ ان کی پشت پر ایک خاص نوع کی معاشرتی تاریخ تھی اور اس تاریخ کا کامل شعور تھا۔ یہ تاریخی شعور قرآن حکیم نے پیدا کیا تھا اور اس کی اہمیت پر ’ملت ابراہیم‘ کے عنوان سے بار بار توجہ دلائی جا رہی تھی۔ اس تاریخی شعور کی تفسیر خود رسولؐ اللہ کی زبان مبارک سے بھی بار بار بیان ہو رہی تھی۔

ملت ابراہیم اصل میں توحید اساس معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کا نام تھا۔ دوسرے الفاظ میں انسانی اتحاد کا رمز قبائلی، قومی، جغرافیائی، نسلی جذباتی قومیت یا ہم آہنگی اور معاشرتی شعور نہیں تھا بلکہ ایک اللہ کی حکم برداری کے راستے سے انسانوں کو ایک مقصد عطا کرنا اور اس مقصد کے لئے ایک عالم انسانیت کے قیام تصور تھا۔ اس بات کو بہت، بہت ہی سادہ زبان میں عرض کیا جائے تو حاصل کلام یہ کہ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، ہنگامی اور وقتی ہو یا دائمی اور دور رس ہو، اس کی پہلی شرط نعرہ نہیں مقصد ہوتی ہے۔ میں نے اس بات کو اکثر اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ دہلی سے آٹوا کا سفر کرنے والے ہیں اور آپ کا ایک دوست دہلی سے ٹوکیو جانے والا ہے، تو آپ دونوں کے درمیان اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں کا مقصدِ سفر اور منزل مقصود مختلف ہے۔ البتہ جو لوگ ایک ہی طیارہ سے ٹوکیو جا رہے ہیں اور جو لوگ ایک ہی کے جہاز سے آٹوا آ رہے ہیں ان کے درمیان، اگر مشترکہ خواہش اور ہم آہنگ مقصد ہو، تو اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔

قرآنی شعور کی اساس پر رسولؐ اللہ نے اس معاملہ میں ملت ابراہیم سے ایک مرحلہ اور آگے آ کر ساری دنیا کے انسانوں کو ایک بھولا ہوا نکتہ یاد دلایا: تم سب تو آدم کی اولاد ہو!

یعنی اتحاد کے معاملہ کو اور بھی سہل کر دیا، کہ ملت ابراہیم بجائے خود بنی آدم کا اتحاد کا ایک قابل عمل نمونہ تھی۔

معاشرتی سطح پر خالی خولی اتحاد سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، بے شمار نئی ذمہ داریوں کا بوجھ افراد کے کاندھوں پر رکھ دیتا ہے۔ اتحاد معاشرہ بناتا ہے اور معاشرہ فرائض اور حقوق کے تعین کا نام ہے۔ جب تک مشترکہ مقصد حیات کے ماتحت ان فرائض اور حقوق کی ادائیگی اور حفاظت ہوتی رہے گی، اتحاد برقرار رہے گا اور معاشرہ کی تہذیب و ترقی کی ضمانت ہو گا۔ مگر جب فرائض کے مقابلہ میں حقوق پر اصرار ہونے لگے گا تو معاشرہ میں فساد رونما ہو گا اور فرائض و حقوق دونوں کو نظر انداز کرنے والے گروہ ابھر کر آئیں گے اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر کے تباہی پھیلا دیں گے جس کی مثال درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی شاخ کو آری سے کاٹنے والے فرد کے عمل سے دی جاتی ہے۔ یہ انحطاط، زوال اور بربادی کی سمت پہلا قدم ہوتا ہے۔ اگرچہ ساری قوم کا اتحاد لوٹ کھسوٹ پر ہو جاتا ہے۔

یہ نکتہ ذہن میں تازہ ہو جائے تو دانشوروں کے مسائل اور مدبروں کی مشکلیں بھی حل ہو جاتی ہیں۔ عام آدمی کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتحاد کے نعروں کے باوجود انسانی گروہوں میں اتحاد کا فقدان کیوں نظر آتا ہے؟ امن کی چیخ پکار کے ساتھ جنگوں کی وحشت اور دہشت روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ معاشی خوشحالی کے وعدوں اور دعووں کے ساتھ دنیا میں غربت، نکبت اور افلاس میں روز افزوں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

ایک زمانہ میں برصغیر جنوبی ایشیا کے عوام و خواص کا مقصد حیات قومی آزادی تھا تو سارا برصغیر اس پر متحد ہو گیا۔ آزادی کی ہیئت کے معاملہ میں اختلاف رائے ایک فطری اور صحت مند عمل تھا لیکن مقصد ایک ہی تھا تو مسلمان شیخ الہند محمود الحسن، ہندو راجہ مہندر پرتاپ، پارسی داد بھائی نورو جی، اہنسا وادی گاندھی، نفرتوں کا نقیب ساورکر، کرچھا بردوش عنایت اللہ مشرقی، مسلم شناخت کے لئے فکر مند لیاقت علی خاں اور ہندتوا کا وکیل بال گنگا دھر تلک سب اس معاملہ میں ایک رائے تھے ان میں سے کسی کا عزم مکمل آزادی کے لئے تھا، کسی کے لئے داخلی خودمختاری اور سوراج سب کچھ تھا، کسی کے لئے انگریز کی سرپرستی ضروری تھی، کسی اور کے لئے انگریز کی منصفی ناقابل اعتماد تھی۔ مگر سب چاہتے تھے کہ ملک پر اس ملک کے باشندوں کا فکر حکومت کرے۔ معاشرتی اصطلاح میں اسی کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ پھر دیکھا کہ جونہی آزادی حاصل ہوئی، یہ ساری مختلف قوتیں تتر بتر ہو گئیں اور اس خطۂ ارض میں فکر و عمل کا اتحاد مفقود ہو گیا۔ پھر بھی کچھ اہل فکر و عمل اس کشتی کو شیطانی سیاست کی طوفانی موجوں میں سنبھال کر لئے جا رہے ہیں، اگرچہ یہ اتحاد بہت مختصر اور منحنی ہے۔

ایک جملہ میں بات کریں تو اتحاد مقصد سے پیدا ہوتا ہے۔ مقصد جس قدر بڑا اور سچا اور دیر پاہو گا، اتحاد بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا، مقصد جتنا بودا یا اس کی عمر جتنی کم ہو گی اتحاد بھی اتنی ہی جلد ختم ہو جائے گا۔

باقی رہے جذباتی ہم آہنگی اور قومیت کا شعور وغیرہ تو یہ اس متذکرہ اتحاد کے نتائج ہوتے ہیں، خود مقصد نہیں ہو سکتے۔ عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ زیادہ سے زیادہ شاعری ہوتے ہیں کہ بات کو خوبصورت بنانے کے لئے ان فقروں کا سہارا لے لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے کھوکھلے نعرے دینے کے بجائے انسانیت کو ایک عظیم، ابدی اور دائمی مقصد دیا۔ جن معاشرتی گروہوں نے اسے اپنا مقصد حیات بنایا انہوں نے اس دنیا کو شعور و فکر اور علم و عمل کی جنت بنا دیا تھا، جنہوں نے اس سے صرفِ نظر کیا ان کے معاشروں کا حال سب کی نظروں کے سامنے ہے۔

٭٭٭

لفظ نما ۔۔۔ طارق غازی

طناز

طَن ۰ نَا ۰ ز (ن مشدد ۰ ز ساکن)

عربی

۱۔ صفت ذاتی ۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر ثلاثی مجرد ط ۰ن ۰ز سے مشتق اسم مبالغہ۔ عربی سے ماخوذ اسی ساخت اور کئی مرادی معنیٰ کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔

اردو میں پہلی بار ۱۶۲۵ میں قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال میں استعمال ہوا۔ (اردو لغت)

تعریف : امام ابن منظور نے لسان العرب (ج ۸، ص ۲۰۷) میں عربی کے ماہر لسانیات الجوہری کا قول دیا ہے کہ یہ لفظ باہر سے عربی میں داخل ہوا ہے یا بنایا گیا ہے۔ عام عربی افعال کے برعکس اس کی گردان طویل نہیں ہے۔ عربی میں مصدر طنز تمسخر، استہزا اور مضحکہ خیزی کے معنیٰ میں آتا ہے۔ اردو میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں جبکہ طناز کے لئے اصل عربی سے مختلف کئی مرادی معنی بھی رائج ہیں۔

۱۔ صفت ذاتی – مذکر و مؤنث – واحد

۱۔ بہت طنز کرنے والا ۰ تمسخر کرنے والا ۰ مذاق اڑانے والا ۰ رمز و کنایہ میں بات کرنے والا ۰ ہجو گو

پڑ گئے سوراخ دل میں گفتگوئے یار سے

بے کنایہ کے نہیں اک قول اس طناز کا

خواجہ حیدر علی آتش / کلیات / ۱۸۴۶، اردو لغت

۲۔ چلنے میں نازو انداز دکھانے والی ۰ اٹھلا کر چلنے والی ۰ اترا کر چلنے والی۰ اٹکھیلیاں کرنے والی

۳۔ عشوہ گر ۰ شوخ ۰ بے باک

بس شرم کر اے ملکۂ طناز باز آ

مثنوی قہر عشق / ۱۸۸۴ / اردو لغت

۴۔ (کنایتاً) معشوق

۵۔ طنز نگار (جدید اردو ۰ شاذ)

اکبر الہ آبادی ایک شاعر طناز اور مزاح نگار کی حیثیت میں ابھرے۔

اردو ادب کی تحریکیں / ۱۹۸۳

۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

۶۔ ناز و انداز

نپٹ دلربائی، کے طناز سوں

لٹکتی اپس میں اپیں ناز سوں۔

سیف الملوک و بدیع الجمال / ص ۱۱۵ / ۱۶۲۵ / اردو لغت

مترادفات : پر فن۰چالاک۰ چلبلا/چلبلی ۰چنچل۰ شاطر۰ شریر ۰ شوخ ۰ شوخو شنگ ۰ شوخ نویس ۰ طرار۰ طعن باز۰ عیار۰ غماز۰ فتنہ انگیز۰ فتنہ گر ۰ کٹنی ۰گستاخ

متضادات : باتمیز ۰ برد بار ۰ تمیز دار۰ حلیم۰ حلیم الطبع۰سنجیدہ ۰ شائستہ۰ متأمل۰ متوازن ۰ متین ۰معتدل ۰ مہذب

قوافی : آز۰آغاز۰آواز۰ اعجاز ۰ انداز ۰ ایجاز ۰ باز ۰ تگو تاز ۰ جاں باز ۰ جواز ۰ چالباز ۰ حجاز ۰ دراز ۰ راز ۰ ساز ۰ سنگ ساز ۰ شیراز ۰ شہباز ۰ طراز ۰ غماز ۰ فراز ۰ فواز ۰ قاز ۰ ارتکاز ۰ گاز ۰ مجاز ۰ ناز ۰ نماز ۰ نواز ۰ نیاز

انگریزی مترادفات :

Derider. Facetious. Jocose. Ludicrous. Mocker. One who ridicules. Scoffer.

درنگ

دَ ۰ رَ ۰ ں ۰ گ (ن غنہ، ساکن، گ ساکن)

فارسی

اسم کیفیت ۰ مؤنث ۰ واحد

۱۔ دیر ۰ تاخیر ۰ توقف ۰ تعویق ۰ التوا ء

۲۔ تأمل ۰ تساہل ۰ سستی ۰ آلکسی

۳۔ وقفہ ۰ رکاوٹ ۰ تعطل ۰ ڈھیل ۰ حصر

مترادفات : بے پروائی ۰ جمود ۰ سہل انگاری ۰ غفلت

متضادات : پھرتی ۰ تیزی ۰ شتابی ۰ طراری ۰ عجلت

قوافی : ارژنگ ۰ امنگ ۰ انگ ۰ اورنگ ۰ بے رنگ ۰ پاسنگ ۰ پتنگ ۰ تنگ ۰ ترنگ ۰ جنگ ۰ چنگ ۰ خدنگ ۰ دبنگ ۰ دنگ ۰ رنگ ۰ زنگ ۰ سرنگ ۰ سنگ ۰ شنگ ۰ فرسنگ ۰ لنگ ۰ ملنگ ۰ ننگ

انگریزی مترادفات :

Delay. Procrastination. Tardiness.

کیکر

کِی ۰ کَر

ہندی

اسم معرفہ ۰ مذکر

۱۔ ببول ۰ مغیلاں

۲۔ ریگزار یا سنگستان یا بیابان میں پیدا ہونے والا ایک کانٹے دار درخت۔ عام طور سے تقریباً ۴۰ ہاتھ تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے تنے کا قطر چار پانچ قدم ہوتا ہے۔ پتے باریک، کانٹے سخت اور لمبے، پھول زرد خوشبودار ہوتے ہیں۔ تنے کی چھال پتلی، صاف، سبزی مائل ہوتی ہے۔ اس کی چھال سے چمڑے کی دباغت کی جاتی ہے۔ اس سے پان میں کھایا جانے والا کتھا بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کا گوند طب مشرق میں بطور دوا مستعمل ہے۔

۳۔ بھوتوں کے رہنے کا ٹھکانہ (قدیم ضعیف الاعتقادی)

قوافی : اجگر ۰ احمر۰ اژدر ۰ افسر ۰ بازیگر ۰ بھیتر ۰ تیتر ۰ دیگر ۰ کھدر ۰ گوہر ۰ محور ۰ مگدر ۰ مہتر ۰ نشتر ۰

انگریزی مترادفات :

Mimosa Arabica.

ڈھنڈار

ڈھ ۰ ں ۰ ڈَا ۰ ر (ن غنہ)

سنسکرت / ہندی

صفت ذاتی

متغیرات : ڈھنڈھار (ن غنہ)

۱۔ بڑا اور ویران مکان ۰ ویران حویلی ۰ بڑی اور کشادہ مگر بے رونق عمارت

۲۔ متروکہ عمارت ۰ کھنڈر

۳۔ سنسان مقام ۰ سونی عمارت ۰ غیر آباد عمارت ۰ اجاڑ مکان

۴۔ خوفناک عمارت ۰ ڈراؤنا کھنڈر ۰ ویران مکان

متضادات : آباد ۰ آبادی ۰ بھرا پرا ۰ پر رونق ۰ رجا بجا ۰ رونق دار

قوافی : آر پار ۰ اچار ۰ اُتار ۰ ادبار ۰ ادھار ۰ اصرار ۰ افطار ۰ اقرار ۰ انار ۰ انبار ۰ انکار ۰ بار ۰ بجار ۰ بچار ۰ بخار ۰ بہار ۰ بگھار ۰ بیزار ۰ بیمار ۰ بھار ۰ پار ۰ پندار ۰ پیار ۰ پیزار ۰ تار ۰ جوار ۰ چار ۰ چہار ۰ حمار ۰ خار ۰ خمار ۰ دار ۰ دھار ۰ دیار ۰ ڈار ۰ زار ۰ ستار ۰ سنوار ۰ شمار ۰ طومار ۰ عار ۰ عیار ۰ غار ۰ غبار ۰ کار ۰ کہار ۰ کھار ۰ گنوار ۰ مار ۰ نار ۰ نکھار ۰ وار ۰ ہزار ۰ یار

انگریزی مترادفات :

Abandoned. Creepy. Deserted. Desolate. Eerie. Empty. Forsaken. Frightening. Ghostly. Haunted. Isolated. Scary. Unoccupied.

چمن

چَ ۰ مَن

فارسی

اسم نکرہ ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر چمیدن کے صیغہ امر ’چم‘ کے ساتھ ’ن‘ بطور لاحقۂ ظرف لگا کر اسم بنایا گیا۔

اردو میں پہلی بار دکن میں ۱۵۱۸ میں استعمال ہوا (اردو لغت بحوالہ دکھنی ادب کی تاریخ)

جمع غیر ندائی: چمنوں (و مجہول،ن غنہ)

۱۔ پھلواری ۰ سبزہ زار ۰ گلزار ۰ باغیچہ ۰ بگیا ۰ بگیِن ۰ تختۂ گل

۲۔ پائیں باغ ۰ مکان کے سامنے کے رخ کا باغیچہ

۳۔ درختوں سے گھرا ہوا قطعۂ سبزہو گل ۰ باغ کا ایک قطعہ ۰ گوشۂ باغ ۰ گوشۂ گلشن

۴۔ بستان ۰ بوستان ۰ گلستان ۰ گیاہستان

۵۔ سدا بہار پودوں کا باغیچہ

۶۔ روش ۰ خیاباں

۷۔ بازاروں اور کوچوں کے ناکوں پر اگائے ہوئے پودے اور پھول

۸۔ معرفت ۰ محبت (تصوف)

۹۔ آباد جگہ (مجازاً)

۱۰۔ چھوٹا کھیت

۱۱۔ کسی کپڑے، چادر، تکئے کے غلاف، دوپٹے، میز پوش، خوان پوش پر کاڑھے ہوئے بیل بوٹے

۱۲۔ ریشم کا کنکوا ۰ پتنگ جس کے کناروں پر بادلے اور موتیوں کی جھالر ہو

۱۳۔ خوبصورتی ۰ حسن ۰ شادابی ۰ تروتازگی (کنایتاً)

متراد فات : باغ ۰ بہارستان ۰ چمنستان ۰ حدیقہ ۰ روضہ ۰ کنج ۰ گلشن

استعارات: سیر گاہ ۰ گلگشت کی جگہ ۰ عیش گاہ ۰ نشاط گاہ

ترکیبات: چمن آرا ۰ چمن آرائی ۰ چمن بندی ۰ چمن پیرا ۰ چمن پیرائی ۰ چمن چمن ۰ چمن در چمن ۰ چمنِ دہر ۰ چمنِ حسن ۰ رشک چمن ۰ زمینِ چمن۰ سیرِ چمن ۰ صحنِ چمن

قوافی: ان بن ۰ بدن ۰ بھولپن ۰ پھبن ۰ تھکن ۰ جلن ۰ (گنگ و) جمن ۰ چبھن ۰ چلن ۰ ختن ۰ دامن ۰ دمن ۰ رن ۰ زن ۰ زمن ۰ سخن ۰ سمن ۰ ظن ۰ عدن ۰ فن ۰ کوہکن ۰ محن ۰ نعرہ زن ۰ وطن ۰ یاسمن ۰ یمن

انگریزی مترادفات:

Dale. Flower-bed. Garden. Greenward. Grove. Lawn. Lea. Meadow. Park.

اساطیر

اَ۰سَا ۰ طِی ۰ ر

عربی ۰ اسم نکرہ ۰

مذکر۰واحد

ثلاثی مجرد س۰ط۰ر سے ماخوذ ہے

واحد: اُسطورہ

متبادل: اُسطور

۱۔ دیو کتھا ۰ دیومالا ۰ قدیم مذہبوں میں دیوی دیوتاؤں اور خداؤں کے قصے کہانیاں

۲۔ افسانے ۰ من گھڑنت، پرانی خیالی داستانیں

۳۔ فرضی، بے اصل باتیں

۴۔ قرآن کریم کی دس سورتوں میں اساطیر الاولین (اگلے لوگوں کی دیوکتھاؤں) کا ذکر آتا ہے۔ دیکھئے سورتیں: الانعام (آیت۲۵)، الانفال (۳۱)، النحل (۲۴)، المؤمنون (۸۳)، الفرقان (۵)، النمل (۶۸)، الاحقاف (۱۷)، القلم (۱۵)۔ المطففین (۱۳)

قوافی: اجیر، اسیر، امیر، پیر، تصویر، تعمیر، توقیر، تیر، حقیر۔ دبیر، سفیر۔ شیر، ضمیر، عبیر، عناں گیر، میر، نذیر، نظیر، وزیر، ہیر، یسیر

مہ وش ۰۰ مہوش ۰۰ ماہ وش

مَ۰ہ۰وَش / مَا۰ہ۰وَش

فارسی – صفت ذاتی

یہ ترکیب اردو میں سب سے پہلے ۱۸۷۴ میں مراثی انیس میں تحریراً استعمال ہوئی۔

مہ/ماہ=چاند

وَش=جیسا / سا – جیسی/ سی

چاند جیسا۔ مجازاً خوب صورت۔ حسین۔ محبوب۔ معشوق

انتباہ: پاکستانیوں میں اس ترکیب کا غلط تلفظ رائج ہے۔ لفظ وَش (شَش کے وزن پر) واؤ پر زبر کے بجائے زیر کے ساتھ وِش (مالش کے طریقہ پر) بولا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ایسا ہو تو نکارت کے ساتھ ایک درجہ میں قابل فہم تھا کہ وہاں ترقی پسندوں کے بعد جدید ادبا اور شعرا خود فارسی سے لاعلم اور عموماً عربی فارسی کے الفاظ کے ترک کے حامی ہیں۔ تاہم آدھے پاکستان میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کے باوجود وہاں اور غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں میں یہ ترکیب غلط تلفظ کے ساتھ گوارا کر لی گئی ہے۔

بداوت

بَ ۰د ا۰وَت

عربی

بادیہ سے متعلق۔

بادیہ کی زندگی۔ قبل تمدن کی حالت۔ صحرائیت۔ دشت کی زندگی۔

دیہاتیت۔ بے تمدنی۔ خانہ بدوشی کی حالت۔

سادہ مزاجی۔ سادہ انسانی زندگی۔

تمدنی آلائشوں سے پاک سماجی کیفیت

تکلفات سے خالی زندگی۔ بے تکلف زندگی کی کیفیت

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ محمد طارق غازی

تنہائی تھی ہوا تھی ساکت تھی پورن ماسی

بس دل سے آ رہی تھی موہوم اک صدا سی

وصل و فراق دونوں اک کیفیت کے پہلو

اک عارضی خوشی سی اک دائمی اداسی

ٹیسو کے پھول سا تھا چہرہ سواد شب میں

گل آفتاب نکلا تو رنگ تھا کپاسی

اس کو پتا نہیں ہے کیا شے ہے سرد مہری

چھائی ہوئی ہے دل پر گھنگھور اک گھٹا سی

اک ہم نشیں کا چہرہ بدلا ہوا سا دیکھا

چہرہ پہ شرم سی تھی آنکھوں میں تھی دغا سی

وہ جسم کے علاوہ کچھ اور بھی تو ہوتی

بنگلہ کی پریم داسی مندر کی دیو داسی

فلموں نے چشم دل کو ویران کر دیا ہے

آنکھوں میں کاش اترتی طارقؔ ذرا حیا سی

٭٭٭

کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر

ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں

کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر

میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ

تو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر

یہ دنیا ہو کہ عقبیٰ امتحاں ہے

کوئی گوشہ پکڑ خود کو پڑھا کر

نہ حاصل کا نہ غم لا حاصلی کا

اٹھا ہاتھ اپنے اور خالی دعا کر

میں اشرف بھی یہاں برباد بھی ہوں

وہ بے شک خوش ہے یہ دنیا بسا کر

شکستہ دل کا جس دم ناز ٹوٹا

تپش سی رہ گئی شمعیں بجھا کر

میں پھینک آیا ہوں دل دشت نہی میں

اب اک قصہ ہے چاہے تو سنا کر

گلہ کیا کیجئے اس زندگی سے

ملی حسرت تمنائیں سجا کر

کبھی ہوتا تھا آقا بحر و بر کا

مگر اب وہ ہے صنعت گر کا چاکر

پکارا تھا اسے آباد کر دے

وہ جاتا ہے ہمارے دل کو ڈھا کر

ہے انصاری تو پھر یہ مانگنا کیا

اکیلے میں کہیں تنہا صدا کر

٭٭٭

قلم کو مستعد حب جاہ لکھ لیجے

مرے گناہوں میں اور اک گناہ لکھ لیجے

مرا خیال تھا ہم کوہ روح سر کرتے

بدل کے ہجے اسے آپ کاہ لکھ لیجے

بلند عمارتوں میں بس گئی ہے ویرانی

دلوں میں چاہیں تو شہر تباہ لکھ لیجے

اس آنکھ میں کوئی منظر رہا نہ خواب رہا

اب اس کے بعد بھی اس کو نگاہ لکھ لیجے

کتاب حق میں زمیں ملکیت ہے اللہ کی

عرب میں ملکیت بادشاہ لکھ لیجے

دبائے بیٹھے ہیں ہونٹوں میں جس کو منبر پر

قلم کے لب پہ اسے سرد آہ لکھ لیجے

بڑا عذاب تو ہر قوم پر ضروری نہیں

اک آہ کو نفس انتباہ لکھ لیجے

یہ خشک پتیاں آنچل ہیں کہکشاں کا میاں

ہری زمیں پہ ہے اس کو گیاہ لکھ لیجے

کسی بھی صنف میں ذہن آپ کا چلے نہ چلے

قلم ہے ہاتھ میں بس خوا مخواہ لکھ لیجے

انہیں تو گفتگو کرنے میں بھی تکلف ہے

مگر مصر ہیں اسے رسم و راہ لکھ لیجے

دکھوں کی گنتی سے کالی ہے زندگی کی کتاب

تو جنتری میں انہیں سال و ماہ لکھ لیجے

٭٭٭

اک باغ تو لگاؤ ذرا شہر ذہن میں

کچھ پھول پھل اگاؤ ذرا شہر ذہن میں

افکار پھر غروب ہوئے سمت جہل میں

روشن کرو الاؤ ذرا شہر ذہن میں

بھٹکو گے کب تلک بھلا صحرائے نجد میں

اک روز ادھر تو آؤ ذرا شہر ذہن میں

ہم بھی امیدوار ہیں اے شہریار دل

ہم کو بھی تو بلاؤ ذرا شہر ذہن میں

لگتا ہے جیسے باب کرامت ہی بند ہے

پھر چشم ناز اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

اے اہل خانقاہ جگاؤ دماغ کو

صوت اذاں اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

آؤ تمہیں تماشا دکھائیں شعور کا

آ جاؤ رہنماؤ ذرا شہر ذہن میں

کب تک بتوں کے پیروں میں خود کو گراؤ‌ گے

اب تو انہیں گراؤ ذرا شہر ذہن میں

زنار بند دیر نشیں سجدہ ریز ہوں

یوں اپنی چھب دکھاؤ ذرا شہر ذہن میں

٭٭٭

سوچ کے نیم وا دریچے سے ۔۔۔ طارق غازی

بند گلیاں دکھائی دیتی ہیں

زرد کلیاں دکھائی دیتی ہیں

رنگ رلیاں دکھائی دیتی ہیں

ہاں وہ شب جس میں خواب ٹوٹے تھے

عشق روٹھا تھا، ساتھ چھوٹے تھے

جتنے سچے تھے سارے جھوٹے تھے

کروٹیں نیم جاں ارادوں کی

آہٹیں کچھ ہیولیٰ سازوں کی

پیچکیں سب الجھتے دھاگوں کی

تقویٰ روئے وہاں ریا روئے

تیرگی روئے یا دیا روئے

تم نے جو چاہا وہ کیا، روئے

ستم نابکار کا غم کیوں

دشت میں شاخسار کا غم کیوں

دل ویراں بہار کا غم کیوں

غلطی کیسی، کیا پشیمانی

شہر غفلت میں کیسی حیرانی

جوئے خوں میں وہی ہے طغیانی

بے سند لفظِ مختصر بھی وہی

خوف اب بھی وہی، خطر بھی وہی

درد اِدھر بھی ہے، درد اُدھر بھی وہی

پوچھتی ہیں الم زدہ نسلیں

اب کہو قافلے کہاں بس لیں؟

پھر بھٹک جائیں؟ پھر کمر کس لیں؟

رنج خوردہ زمیں سے کیا شکوہ

سجدۂ بے جبیں سے کیا شکوہ

مار کا آستیں سے کیا شکوہ

کشتگان فریب، لے آؤ

لاؤ، دامان و جیب لے آؤ

پھر اک اورنگ زیب لے آؤ

سوچ کے نیم وا دریچے سے

٭٭٭

ڈاکٹر فریاد آزر ایک مزاحیہ تعارف ۔۔۔ اسد رضا

ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر فریاد آزر کی پیدائش ۱۰؍ جولائی ۱۹۵۶کو بنارس ضلع میں ہوئی۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ۱۰؍ جولائی کو ہی ان کی پیدائش ہوئی ہو مگر اتنا تو طے ہے کہ ان کی پیدائش ضرور ہوئی ورنہ آج مسلسل ادبی رسالوں میں ان کی اتنی غزلیں شائع نہیں ہوتیں۔ انٹر میڈئٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ۱۹۷۲ میں دہلی تشریف لائے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کی تینوں سنٹرل یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت دنوں تک اس خوش فہمی میں شادی نہیں کی کہ لکچرر شپ ملنے کے بعد ہی شادی کریں گے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ فریاد صاحب قول کے پکے نہیں تھے ورنہ آج تک کنوارے ہی بیٹھے ہوتے۔ کیونکہ لکچرر شپ انہیں آج تک نہیں ملی اور اب تو وہ امید کا دامن بھی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید نے ان کا دامن بہت پہلے سے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ہاں، جامعہ میں اگر ذرا عقلمندی سے کام لیتے تو آج فریاد صاحب لکچرر ہی نہیں بلکہ پروفیسر ہو گئے ہوتے مگر موصوف عقل سے کم اور خود داری سے زیادہ کام لینے کے عادی ہیں لہٰذا آج بھی ہر میدان میں اپنے احباب سے پیچھے ہیں ورنہ ایک زمانہ میں موصوف کا ایک مزاحیہ شعر جامعہ میں بہت مقبول ہوا تھا ؎

جو یونیورسٹی والوں کا رشتہ دار ہو جاتا

کم از کم لکچرر شپ کا تو میں حقدار ہو جاتا

مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولانا حالی کا یہ شعر ایک عرصہ تک شادی کے سلسلہ میں ان کی رہنمائی کرتا رہا ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں !

یعنی وہ ایک عرصہ تک گھروں میں گھس کر خوب سے خوب تر حسن کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر نتیجہ انہی کے شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎

تلاش خوب تر میں خوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

ہم اپنے بے وفا محبوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے یعنی موصوف دولہا بنے مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے اور دوبارہ بال اگ آنے کے باوجود آج تک اولے پڑنا جاری ہیں اور اب انہیں سر منڈانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی کیوں کہ اب ان کے سر پر بچا ہی کیا ہے !

اس طویل اور مسلسل اولہ باری میں فریاد آزر کو اب تک جم جانا چاہیے تھا۔ مگر جان ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے۔ لہٰذا مکمل طور پر جمنے سے پہلے تھوڑا بہت ہاتھ پاؤں ہلا کر خود کو گرم کر لیتے ہیں۔ گرم کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی اور مشغلہ میں سرگرم ہو جاتے ہیں، کبھی کسی ادبی رسالے کی ادارت شروع کر دیتے ہیں کبھی انٹرنیٹ پر اردو کا ویب سائٹ شروع کر دیتے ہیں، کبھی کسی اخبار میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کا انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں کبھی شناخت نامی تنظیم کے ذریعہ نئی نسل کے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کبھی فرصت کے لمحات میسر ہونے پر کچھ اشعار بھی کہہ لیتے ہیں۔

اب تک موصوف کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں مگر نقاد حضرات کی نگاہ ان تک نہیں پہنچی ورنہ اب تک سچ مچ اردو کے اہم شعرا کی فہرست میں ان کے نام کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس سلسلہ میں فریاد صاحب خود فرماتے ہیں ؎

ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی

وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی

فریاد صاحب ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ غریبوں اور لاچاروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آج سے تقریباً بیس پچیس سال قبل جب کہ موبائل فون صرف رئیسوں کے پاس ہوا کرتا تھا، ایک بھکاری پر جب انہیں رحم آ گیا تو کیا ہوا آپ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ؎

میں رحم کھا کے جو سائل سے بات کرنے لگا

وہ دور ہٹ کے موبائل سے بات کرنے لگا

آج اس عمر میں اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص نوجوانی میں کس قدر شوخ تھا، یقین نہیں آتا۔ موصوف نے جامعہ میں طالب علمی کے دوران ایک شوخ رسالہ نکالا تھا اور اس سے پہلے کہ خود انہیں ہی جامعہ سے نکال دیا جاتا انہوں نے دوسرا شمارہ نکالا ہی نہیں۔ رسالہ کا نام تھا دل پھینک اور موصوف اس کے مدیر ادنی تھے۔ لیکن اس کے دوسرے شمارہ کی اشاعت نہ ہو پانے کی وجہ موصوف خود فرماتے ہیں ؎

خود اپنا پرچہ نکالا مدیر ہو بیٹھے

مہینہ بھر میں مکمل فقیر ہو بیٹھے

تخلص شاعر کی پہچان ہے۔ فریاد صاحب تخلص کے معاملے میں بڑے دریا دل رہے ہیں۔ شروع شروع میں شہزادہ فریاد کے نام سے لکھتے رہے، پھر اچانک نئے تخلص کی طرف راغب ہوئے اور یکے بعد دیگرے درجنوں تخلصوں کو اپناتے رہے۔ کبھی فریاد رومی تو کبھی فریاد راوی۔ کبھی صنم بنارسی تو کبھی کچھ۔ اس دور میں اکثر احباب ان سے ان کی نئی غزل کم سنتے، نیا تخلص زیادہ۔ آخر کار فریاد صاحب آزر پر آ کر رک گئے لیکن کچھ بھروسہ نہیں کہ کب کوئی اور تخلص اختیار کر لیں۔

فریاد صاحب کو بچپن سے ہی شعر و شاعری اور ریڈیو پر بچوں کی پروگراموں میں حصہ لینے اور اخبارات و رسائل میں چھپنے چھپانے کا شوق تھا۔ آپ کی پہلی نظم اس وقت بنارس کے مشہور ہندی روزنامہ آج کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی جب آپ نے چھٹی جماعت میں داخل ہوئے ہی تھے۔ پھر تقریباً ہر سنڈے ایڈیشن میں آپ کی نظمیں اور ٹوٹی پھوٹی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات میں سیاسی مضامین لکھنے لگے۔ انٹر میڈئٹ کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آئے تو دہلی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد اچانک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اردو میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر عنوان چشتی مرحوم، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر حنیف کیفی اور دیگر اساتذہ نے فریاد آزر کے داخلے کی مخالفت کی کیوں کہ فریاد آزر کے پاس پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کسی کلاس میں اردو بحیثیت مضمون بھی نہیں تھی۔ ایسے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے فریاد آزر کو یہ کہہ کر شعبہ میں داخلہ دے دیا کہ ایک نوجوان ہندی سے اردو کی طرف مائل ہو رہا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن سیمیناروں میں فریاد آزر پڑھے گئے مقالات پر جس انداز سے بحث کرتے تھے اس سے مرحوم عنوان چشتی اور شمیم حنفی اور دیگر اساتذہ فریاد آزر کے داخلے سے نہ صرف مطمئن ہو گئے بلکہ عنوان چشتی مرحوم نے فریاد آزر کو اپنی شاعرانہ شاگردی میں بھی لے لیا اور ایم اے کے بعد شمیم حنفی صاحب فریاد آزر کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عنوان صاحب کی شاگردی میں فریاد آزر غزل کی طرف مائل ہو گئے اور صحیح معنوں میں ان کی شاعری کا آغاز بھی جامعہ ملیہ سے ہی ۱۹۷۸ء سے ہوا۔

اب فریاد صاحب پی ایچ ڈی کے مقالہ میں کم اور شعر و شاعری میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ پانچ سال تک مسلسل جامعہ اسٹور کے ارشاد ٹی اسٹال پر صبح صبح بیٹھ کر سامعین کا انتظار کرتے اور انہیں چائے پلوا کر غزلیں سناتے۔ سامعین ایک چائے اور غزل کے بعد چلے جاتے مگر فریاد صاحب دوسرے سامعین کے منتظر رہتے۔ اسی طرح سامعین بدلتے رہتے چائے چلتی رہتی اور شام ہو جاتی اور فریاد صاحب اگلے دن پھر آنے کے لیے گھر چلے جاتے۔ طالب علمی کے دور میں اتنا پیسا خرچ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے کہ فریاد آزر کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک ترکیب نکال رکھی تھی کہ سبھی کو آدھی یعنی ایک بٹے دو چائے پلوایا کرتے تھے۔ مگر اس کے لیے انہوں نے ارشاد بھائی اور ان کے ملازمین کو ایک کوڈ ورڈ بتا رکھا تھا۔ یعنی اگر چار لوگ موجود ہوں اور آدھی آدھی چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’ہو جائے ‘ لیکن اگر سب کو پوری پوری چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’چار چائے ‘۔ اس سے کسی کو پتہ نہیں چل پاتا تھا کیوں کہ چائے تو اتنی ہی ہوتی تھی بس کوالٹی میں تھوڑا فرق ہوتا تھا۔

لیکن یہ راز اس وقت کھل گیا جب ایک دن باذل عباسی مرحوم بحیثیت سامع اس چائے خانہ میں تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی چائے خانہ کا ملازم فریاد صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ ’’دو چائے یا ہو جائے ؟‘‘پھر بھی کب تک ادھار چلتی! ایک دن ارشاد بھائی نے رقم کا تقاضا کر ہی دیا۔ فریاد صاحب ان کی مذہب پسندی سے واقف تھے۔ انہوں نے ارشاد بھائی سے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ کو روز حساب پر یقین ہے ؟ ارشاد بھائی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ الحمد للہ! فریاد صاحب فوراً بولے کہ پھر میرا اور آپ کا حساب وہیں ہو گا۔

پانچ سال گزر گئے اور پی ایچ ڈی کا کام برائے نام ہو پایا تھا۔ فریاد آزر اور شاہ رخ خان کو ایک ساتھ جامعہ سے نکال دیا گیا۔ شاہ رخ ٹی وی سیریل میں کام کرنے لگا اور آج ہندوستانی فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ ہے۔ فریاد صاحب اپنے دل سے جامعہ کی محبت نہیں نکال پائے لہٰذا انہیں ایک سال کی مزید مہلت دے دی گئی اور اسی سال موصوف نے واقعی دن رات محنت کر کے پی ایچ ڈی کا مقالہ پورا کر ہی لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لکچرر بننے کی دل سے قطعی کوشش نہیں کی کیونکہ لکچرر شپ کے تمام اوصاف ہونے کے باوجود ایک وصف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے۔ وہ یہ کہ پروفیسروں کے گھروں کے چکر اس دور میں بھی نہیں لگا سکے جب کہ ایسا کرنا نہایت ضروری تھا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شعر و شاعری کے جنون کے دوران ہی ایک دوست کے مشورے پر جامعہ سے ہی بی ایڈ کر لیا تھا لہٰذا دال روٹی چل رہی ہے ورنہ شاید دوسروں کی طرح پروفیسروں کے گھروں کے چکر لگا لگا کر لکچرر شپ حاصل کر ہی لیتے اور دال روٹی کے بجائے مرغ مسلم کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دال اور مرغ کی قیمت میں آج کوئی فرق نہیں رہا۔

بی ایڈ کے دوران ہی فریاد آزر نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا جسے آج بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں بہت سے شعرا اپنے اپنے نام سے مشاعروں میں سنا دیتے ہیں اور پکڑے جانے پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ وہ شعر یہ تھا ؎

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

آپ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ اسکول میں پڑھاتے ہوئے بچوں کو املا کے طور پر فی البدیہہ نظمیں لکھواتے تھے جسے اردو اکادمی نے ۱۹۹۸ء میں بچوں کا مشاعرہ کے نام سے خود شائع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں تیسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا اور چوتھا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا جسے اردو اکادمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کی شاعری کے معیار کو دیکھتے ہوئے ان کے پہلے اور دوسرے مجموعوں کو بھی ایوارڈ سے یقیناً نوازا جاتا لیکن جس ادارے کے مالی تعاون سے دونوں کتابیں شائع ہوئی تھیں، وہی ادارہ قانوناً ان کتابوں پر ایوارڈ نہیں دے سکتا تھا۔ خیر یہ تو اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ ایوارڈ جیسی چیز خود ہی دوڑ بھاگ کر کے حاصل کر لیتے ہیں مگر آزر صاحب اس انتظار میں ہیں کہ شاید ایمانداری سے ان کو ان کی شاعری پر ایوارڈ آج نہیں تو کل مل ہی جائے گا۔ یہ میں کیا آپ سبھی اسے خوش فہمی محض مانتے ہوں گے۔ خود فریاد صاحب فرماتے ہیں ؎

ورنہ مرا مزاج مجھے مار ڈالتا

شامل مرے وجود میں خوش فہمیاں بھی تھیں

ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کا کوئی علاج نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خوش فہمی کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ خوش فہمی اور امید کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے یہ بات تو ڈاکٹر صاحب بھی جانتے ہیں مگر وہ اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہیں۔ ہمیشہ ’امید‘ سے رہیں۔ انہیں زندگی اور حالات کا زبر دست تجربہ ہے ورنہ یہ شعر نہ کہتے ؎

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا کرب کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سنجیدگی فریاد آزر کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن کوٹنے اور چھاننے کے دوران طنز و مزاح کے عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے اور کبھی کبھی یہ طنز و مزاح اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا بہترین سرمایہ بن جاتا ہے۔

ان کی ایک مزاحیہ غزل (جو کہ احمد فراز کی مشہور غزل کی پیروڈی ہے) کے چند اشعار حاضر ملاحظہ فرمائیں ؎

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘

سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا

سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی

سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے

لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے

تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی

وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے

سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے

رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے

کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے

اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے

ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو

یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے

سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی

تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے

رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن

ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘

سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح احمد فراز کی ایک اور غزل کی زمین میں فریاد آزر کا کمال دیکھیں:

یہ ہے عشق دورِ جدید کا، یہ معاشقہ کوئی اور ہے

میں زکام ہوں کسی اور کا، مجھے چھینکتا کوئی اور ہے

مری زندگی بھی عجیب ہے، مرا کتنا گھٹیا نصیب ہے

میں سہاگ ہوں کسی اور کا، مجھے پیٹتا کوئی اور ہے

کوئی شاعروں کو بلائے کیوں، کوئی اچھا شعر سنائے کیوں؟

ہے یہاں گویّوں کا جمگھٹا، یہ مشاعرہ کوئی اور ہے

کوئی سوکھتا ہے چھوارے سا، کوئی پھولتا ہے غبارے سا

میں کما کے لاتا ہوں دم بہ دم پہ ڈکارتا کوئی اور ہے

جو زمین ہم نے خرید لی، کہیں جا کے تب یہ خبر ہوئی

وہ زمین تھی کسی اور کی، اسے بیچتا کوئی اور ہے

مجھے کس نے الّو بنا دیا، مرے سر پہ سہرا سجا دیا

میں نے ان کا گھونگٹ اٹھا دیا تو پتہ چلا کوئی اور ہے

یہ سیاستوں کے معاملے، انھیں ہم کبھی نہ سمجھ سکے

یہاں بھونکتا کوئی اور ہے، ہمیں کاٹتا کوئی اور ہے

جو میں اک مشاعرے میں گیا، مجھے سن کے سب نے یہی کہا

جہاں بلبلیں ہوں غزل سرا وہیں رینکتا کوئی اور ہے

جو ہوا کہیں کوئی حادثہ، مجھے سیدھا آ کے دھرا گیا

کئی سال بعد پتہ چلا پسِ حادثہ کوئی اور ہے

٭٭٭

منفرد لہجہ کا شاعر: فریاد آزرؔ ۔۔۔ احسن امام احسن

دورِ جدید میں چند مختلف اور منفرد شعرا ہیں جو اپنے کلام کے مخصوص انداز کی وجہ سے منفرد کہلاتے ہیں۔ ان ہی منفرد شعرا میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹر فریاد آزرؔ کا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انھیں پڑھتا آ رہا ہوں۔ وہ واقعی متاثر کرنے والی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر جو میرے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں :

وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف

مٹا رہے ہیں خود اپنی زبان قسطوں میں

یہ دو شعر میرے ذہن و دل پر چسپاں ہو گئے۔ اس کے بعد فریاد ا ٓزر کا بغور مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے مضمون باندھنے کا انداز عمدہ ہے۔ کس طرح کی باتوں کو کس انداز میں پیش کیا جائے، یہ ان کے تخیل کی پرواز سے اندازہ ہوتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آج کے دور کے شعرا سے بالکل الگ ہٹ کر کہنے کا انداز موصوف کا نرالا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا اسلامی فکر نظر اتی ہے۔ ادبی محاذ کے مدیر جناب سعید رحمانی فرماتے ہیں :

’’اس حقیقت سے انکار نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ جس میں جدید معاشرہ کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

فریاد آزر منفرد طریقہ سے اپنے جذبات، محسوسات، اور مشاہدات کو شعری پیکر میں عطا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس آئینے میں آپ بھی زندگی کی تصویر دیکھیں :

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا

جو مکا اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

بدلے میں اس کی موت مرا میں میں تمام عمر

وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی

آج کے عہد میں یہ کھیل چل رہا ہے کہ بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے، کیا کہتے ہیں آزر صاحب، دیکھئے :

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

دوسری طرف والدین لڑکیوں کی شادی کے لئے پریشان رہتے ہیں، شاید اسی پریشانی کی وجہ سے اسے رحم میں مار دیتے ہیں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہے شاید اسی کا اثر ہو کیوں کہ جدید دور میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ والدین کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ آج ہمارا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ ہم خوب صورت لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آج نیک سیرت لڑکیاں گھر میں بیٹھی ہیں۔ اس جدید دور میں لوگ سیرت لے کر کیا کیا کریں گے، صورت ہی سب کچھ ہے۔ ایک پیارا سا شعر جو یہ سارے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے :

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

فریاد آزر کا شعور بالغ ہے، ان کے منفرد ہونے پر مشہور و معروف شاعر، و ادیب رفیق شاہین صاحب لکھتے ہیں :

’’نئے لب و لہجہ میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں، لیکن فریاد آزر کی بات ہی نرالی ہے، ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پر تو ہے وہ کسی بھی شاعر میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا‘‘

رفیق شاہین کی بات میں پختگی لگتی ہے کیوں کہ جس انداز سے فریاد آزر شعر کہتے ہیں وہ دیگر لوگوں سے جدا اور نئے طرز کا ہوتا ہے۔ چند شعر پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں :

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی

اے مری جاں کاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

کن کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا مجھے

اس زندگی میں بارہا مرنا پڑا مجھے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے سزا پوری نہیں ہوتی

ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھ جس کا رکھ رکھاؤ

زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا

فریاد آزر نے کس کس نظر سے زندگی کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز کا Analysis خوب صورت انداز میں کیا ہے، زندگی کو استعارہ بنا کر بات کہنے کا انداز بھی ان کا مختلف ہے۔ عمران عظیم کہتے ہیں :

’’شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں درد مندی کا احساس بھی ہے۔ فریاد آزر جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں، ان میں در پیش مسائل کو اپنی شاعری میں بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں۔‘‘

واقعی فریاد آزر کی شاعری عمدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بلند خیال رکھنے والے معیاری شاعر ہیں، فریاد آزر پر اسرار کیفیات کو رمز و کنایہ کے ذریعہ پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موصوف عام روش سے ہٹ کر بھی معنوی و صوری اعتبار سے منفرد ثابت ہوتے ہیں، موضوعات اور مضامین کے خیال کا خاص آداب رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فریاد آزر ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر

پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

دوبارہ چکھ لیا نہ ہو ممنوعہ پھل کہیں

وہ بے لباسیوں میں گھری جا رہی ہے پھر

ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں

اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر

اس نے تو جڑ سے کاٹ دیا تھا روایتاً

یہ سبز گھاس ہے کہ اُگی آ رہی ہے پھر

***

بے کراں شہرِ طلسمات سے آزادی دے

مجھ کو خوابوں کی حوالات سے آزادی دے

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطحِ ’اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے

تھک گیا ہوں تری شطرنج کی بازی سے بہت

زندگی مجھ کو شہ و مات سے آزادی دے

یہ بدل دیں نہ جہنم میں زمیں کی جنت

اس پرستان کو جنّات سے آزادی دے

ایک مدت ہوئی محبوب وطن سے نکلے

اب سکندر کو فتوحات سے آزادی دے

میں بھی کچھ زینتِ آفاق بڑھاؤں شاید

تو اگر مجھ کو غمِ ذات سے آزادی دے

اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی سیاہی کو ہٹا

دن دکھا مجھ کو بھی اب رات سے آزادی دے

***

تخیلات میں پھر تاج و تخت اُگنے لگے

زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اُگنے لگے

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اُسی زمین سے ہم لخت لخت اُگنے لگے

پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید

پھر اُس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اُگنے لگے

کچھ اِس طرح انھیں بے رحمیوں سے کاٹا گیا

نحیف پودوں کے پتے بھی سخت اُگنے لگے

خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت

کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اُگنے لگے

تو کیا ہمیں بھی سفر کا پیا م آنے کو ہے

خیال و خواب میں کیوں سبز رخت اُگنے لگے

***

یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا

آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا

پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر

اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا

نوحؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور

خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے

سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا

جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس

روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا

٭٭٭

کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں

مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں

زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے

ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں

پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں

عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں

قدم ادھر ہی اٹھے جا رہے ہیں جس جانب

سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں

کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی

مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں

نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!

میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں

٭٭٭

حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا

میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا

سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں

جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا

بچپن کے ساتھ ہو گیے بوڑھے تمام ذہن

ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا

چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر

خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا

لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی

ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا

سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر

تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا

ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ

باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا

ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر

جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا

٭٭٭

پکار ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

(۱۷ اگست ۲۰۲۳ء کو فیس بک میں علالت کی تصویر کے ساتھ پوسٹ کی گئی آخری بلا عنوان نظم، اس کا عنوان مدیر کا دیا ہوا ہے)

یہ میں ہی ہوں

یہ میں ہی ہوں جسے سب لوگ بیماروں کی دنیا میں

اچانک چھوڑ آئے تھے

میرے اعضا کو اکثر منتشر لمحوں نے جانچا تھا

لہو میرے بدن کا کچھ مشینوں کو پلا کر مجھ کو پرکھا تھا

پھر اس کے بعد مردہ خانے کی تاریک گلیوں میں مجھے بھی چھوڑ آئے تھے

فرشتوں نے کہا آزر تمھاری زندگی باقی ہے صدیوں کی

ابھی تم کو اسی دنیا میں رہنا ہے

تمھارا وقت آئے گا تو ہم تم کو پکاریں گے!!!

٭٭٭

OOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

شمارہ ۶۳

جولائی تا ستمبر ۲۰۲۴ء

مدیر: اعجاز عبید

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔

تازہ شمارہ حاضر ہے۔ جو اس بار کچھ زیادہ ہی ضخیم ہو گیا ہے اگرچہ اس بار کچھ نیا قسط وار سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ تھا، لیکن رسالے کی ضخامت کے باعث اسے مؤخر کر رہا ہوں۔

اس بار بہت دنوں بعد کوئی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے۔ احمد رشید علی گڑھ کے احباب میں (بلکہ کچھ حد تک شاگرد کہا جا سکتا ہے، کہ انہوں نے اپنے ابتدائی افسانے اصلاح کے لئے مجھے دئے تھے!) شامل ہیں، اور ان کے ضمن میں مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اب تک ان کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہو سکی ہے۔ اس احساس کے تحت ان پر گوشہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ ادھر کئی احباب کی دائمی جدائی کی خبریں ملیں۔ احباب انہیں محض رسمی طور پر ہی نہیں کہا جا رہا ہے، بلکہ واقعی ان میں سے کئی احباب سے واقعی میرا ربط رہا ہے، ای میل اور فون کے ذریعے۔

طارق غازی ایک عجوبۂ روزگار شخصیت تھے، بلکہ انہیں گذشتہ تہذیب کی آخری علامتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ دینی سرگرمیوں سے قطع نظر ادبی اور لسانی طور پر بھی وہ ان دنوں کافی سرگرم ہو گئے تھے جب میرے مرحوم بزرگ دوست ابن فرید کی بہو رضیہ مشکور نے ’علی گڑھ اردو کلب‘ نامی یاہو گروپ کی تشکیل کی تھی، اور ایک آن لائن جریدہ ’دیدہ ور‘ کا اجراء کیا تھا۔ ان دنوں  سَمت اور دیدہ ور، دونوں جریدوں میں ان کی تخلیقات شامل ہوتی تھیں، اور انہوں نے کئی علمی سلسلے بھی اس یاہو گروپ  کے تحت شروع کئے تھے۔ ’لفظ نما‘، ’مطالعات‘ اور ’نکتہ گو ‘کے نمونے اس بار ان کی یاد میں شامل کئے جا رہے ہیں۔ انہی سلسلوں کو ترتیب دے کر برقی کتب کی اشاعت بھی عمل میں لائی گئی تھی۔

فریاد آزر بھی ان دوستوں میں شامل تھے جن پر پہلے بھی ایک گوشہ نکالا جا چکا ہے، شمارہ ۲۷ ۔۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۵ء میں۔ اب ان کی یاد میں مزید ایک گوشہ شامل ہے۔

سلام بن رزاق ان افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ ادھوری ہے۔ ان کی رہنمائی میں ایک واٹس ایپ گروپ ’بزم افسانہ‘ بھی بہت فعال رہا ہے۔ ان پر گوشہ بھی ضروری تھا۔ اور ابھی ابھی ان سطروں کے لکھنے وقت خلیل مامون کے انتقال کی خبر بھی ملی ہے۔ اللہ ان تمام مرحومین کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے۔

سلام بن رزاق کے گوشے کو خاطر خواہ مواد میسر نہ ہونے کے باعث مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ اگلے شمارے میں شامل ہو گا۔

احمد فرہاد، جو پاکستان میں مزاحمت کی ایک اہم آواز ہیں (تھے؟)، مفقود الخبر ہیں۔ ان کے تعارف کے طور پر ایک خصوصی گوشہ شامل کیا جا رہا ہے جس میں ان کی تین نمائندہ غزلیں اور ایک نظم شامل ہے۔

باقی تخلیقات بھی امید ہے کہ آپ کو پسند آئیں گی۔

ا ۔ع

٭٭٭

عقیدت

نعت ۔۔۔ محمد بلال اعظم

تسبیحِ محمدﷺ میں یوں مصروف قلم ہو

’’الہام کی رم جھم‘‘ ہو، تصور میں حرم ہو

رنگوں میں دھلے حرف ہوں، خوشبو میں بسے لفظ

اندازِ ثنا ہم سرِ معیارِ ارم ہو

ہر شے میں تراﷺ عکس ابھارا ہے خدا نے

تخلیقِ بہاراں ہو کہ ترتیبِ ارم ہو

تخلیقِ دو عالم ہو کہ ہو نغمۂ توحید

زمزم ہو کہ کوثر ہو، وہ ہستی کہ عدم ہو

تشکیلِ جہاں سے بھی یہ پہلے ہوا فیصل

گردوں سے بھی اونچا تریﷺ عظمت کا علم ہو

جو فعل ہو اُنﷺ کا، وہی دستورِ شریعت

کہہ دیں جو محمدﷺ، وہی تقدیرِ امم ہو

ہو راہِ حرم میں یہ فلک ناز کفِ خاک

خوش بختیِ عالم بھی یوں ہمراہِ قدم ہو

اک خوابِ مسلسل ہے کہ طیبہ میں رہوں میں

ہر لفظ مرا مدحِ محمدﷺ میں رقم ہو

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں

علامہ اقبال کی یاد میں ۔۔۔ امین احسن اصلاحی

یہ دَور ہمارے عروج و اقبال کا دَور نہیں، بد بختی و ادبار کا دَور ہے۔ ہم پاتے کم ہیں، کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جانشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سَروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالاں کہ زندگی سَروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔

؎ مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جن لوگوں کے سامنے معاملہ کی یہ حقیقت، اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کون بتا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کا کیا حال کیا! دنیا تقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے تو سر پیٹتی ہے، اور دشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے تو انتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کا نوحہ خواں کیا کرے وہ تو صرف خدا ہی سے شکوہ کر سکتا ہے۔

انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ!

غالباً 1916ء یا 1917ء کا واقعہ ہے۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔

میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اور اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ آج بیس بائیس برس کے بعد اس مجلس کی لذیذ یاد پر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی!! ہنسی بچپنے کی اس سادہ لوحی پر کہ شاعر ہونا تو درکنار اقبال کے شعروں کو سمجھنے کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اور رونا اس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی آج اٹھ گئی ہے جو حوصلوں اور ولولوں کو دعوتِ رفعت و سبقت دینے کے لیے ایک نشان پرواز اور دماغوں کی رہنمائی و قیادت کے لیے ’پہاڑی کا چراغ‘ تھی۔

شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے ’زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے‘۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہو۔ لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔

اقبال اس بزم میں یا تو بہت بعد میں آئے تھے، یا بہت پہلے۔ اتنے بعد کہ اہلِ مجلس کے دماغوں اور دلوں میں ان خیالات و افکار کے لیے ایک چھوٹے سے نقطہ کے برابر بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ یا اتنے پہلے کہ جس صبح صادق کے وہ مبشر تھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کا کوئی نشان بھی نمودار نہ ہوا تھا۔ بلکہ دنیا پر ابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اقبال کو اللہ تعالیٰ نے تسخیرِ قلوب و ارواح کے لیے اس نفوذ میں سے ایک حصہ عطا فرمایا تھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کو مسلح فرماتا ہے جو وقت کی فاتحیت کا تاج پہن کر آتے ہیں۔ چناں چہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے دیکھا کہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کے لیے اتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھا۔ اب اتنی مانوس و محبوب ہو گئی ہیں کہ ہر بزم و انجمن کا افسانہ ہیں اور کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔

اقبال نے جس جرات کے ساتھ ہمارے علم و عمل کے ایک ایک گوشہ پر تنقید کی اور جس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پر چل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمود ہے۔ جہاں تک جرح و تنقید کا تعلق ہے، مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چُن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھہرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔

؎ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہو چکا تھا۔ ان کو جو دیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہو چکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دستِ غیب خود چونا اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسمِ گل کی آمد آمد ان کو شہ بھی دے رہی تھی۔

مگر اقبال، اللہ اکبر! اس کی سطوت و جلالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے وہ زمانہ سے جنگ کرنے کے لیے آیا تھا۔

؎ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

ان کو جو پیغام دینا تھا، نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پر ڈھل چکی تھی اور اس کائنات کی تمام قوتیں ہم کو ایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کے لیے نہ صرف پوری طرح طاقتور ہو چکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کر چکے تھے۔ مگر اقبال تسخیر قلوب و ارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہو کر آیا اور اس نے ہم کو ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا اور یقیناً یہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جو ہر شکل و ہئیت کو قبول کر لینے کے لیے موم کی طرح نرم ہو چکے تھے، گو چٹان کی طرح سخت نہ ہو چکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرور آ چکی ہے کہ ہر انگلی ہم پر تصرف نہیں کر سکتی۔ یہ خودی کا وہی احساس ہے جس کو اقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔

اقبال کے فلسفہ پر غور کرنے والے، اس کا سراغ نٹشے اور برگسان میں لگانا چاہتے ہیں یہ اس لیے کہ ہماری منفعل اور مرعوب ذہنیت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ بادۂ تند مشرق کے کسی میکدہ کی ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ اقبال کے خیالات کا اصلی مصدر قرآن ہے۔ یوں تو اقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایا اس کو لیا لیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیز تھی۔ ورنہ جو خود کوہِ نور کی دولت کا مالک ہو وہ فقیروں کی کوڑیوں پر کیا نگاہ ڈالتا!

اقبال نے تو یہ ننگ تک گوارا نہ کیا کہ قرآنی صداقتوں اور عربی حکمتوں کو زمانہ کا آب و رنگ دے کر خوشنما بنائے۔ وہی پرانا کیسہ اور وہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگر جب اقبال نے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان کو پیش کیا تو نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اقبال کی دنیا ہی الگ تھی۔ جب سب شفا خانۂ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلے تو وہ ریگستانِ حجاز میں موت ڈھونڈتا تھا۔ جب مرمریں سلوں اور برقی قمقموں نے حرم کو جگمگا دیا تو اس نے چڑ کر کہا

؎ میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

اور بے لوث صداقت کا اعجاز دیکھو کہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی، ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اقبال کی یہ سادگی ہم کو بھی دیوانہ بنا لیتی ہے اور باوجود یہ کہ بغیر عقل و منطق کو ساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگر جب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جو ان سے دلیل مانگے، شاید یہ بات سچ ہے کہ

سچائی اگر سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کے لیے منطق کی محتاج نہیں۔

اقبال اور ان کی شاعری سے قوم کی جو خدمتیں انجام پائی ہیں ان پر غور کرنا مؤرخ کا کام ہے۔ ہم صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو صرف اقبال ہی نے کیا اور وہی کر سکتے تھے۔

اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقیناً ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہو گئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان تہہ بر تہہ پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روح شعر اس کائنات کے اندر کارفرما ہے اس وقت تک انشاء اللہ ان میں درد کی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔

جب مایوسیاں گھیر لیتی تھیں، ہم اقبال کے شعروں میں ایک نشانِ امید دیکھتے تھے جب تاریکیاں چھا لیتی تھیں اقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کر چمکتے تھے۔ وہ روحوں کو گرما دیتے تھے، دلوں تڑپا دیتے تھے۔ ان کی زبان سے ہم مشرق کے ضمیر کی صدائیں سنتے تھے، ان کی ہندی نغموں میں حجاز کی لے مضطرب تھی۔ وہ زمین کے تھے مگر ان کی پرواز آسمان تک تھی۔ وہ شاعر تھے مگر ان کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرما تھی۔

وہ دنیا داروں کے بھیس میں قلندر اور دیوانوں کے رنگ میں دانائے راز تھے۔ خداوند! ہمارا یہ شاعر کہاں گیا! اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!!

(رسالہ الاصلاح، اعظم گڑھ، مئی 1938)

٭٭٭

ادبی نقاد اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک گفتگو: سونل شاہ (ترجمہ: شفتین نصیر)

انڈیا کے ادبی حلقوں میں حال ہی میں منظر عام پر آنے والے انگریزی ناول The Mirror of Beauty نے ہلچل مچا دی ہے جو دراصل نو سو چوراسی صفحات میں اردو کے مشہور شاعر داغ دہلوی کی والدہ وزیر خانم کی حیات اور ان کے زمانے پر مبنی ایک افسانوی داستان پر مشتمل ہے۔ نیز زیادہ تر انیسویں صدی سے تعلق رکھنے والے دلی شہر اور اس کے مضافاتی ماحول پر مبنی ہے۔ وزیر خانم ایک خوبصورت اور پُر جوش عورت ہے جو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مغل دربار سے وابستہ نواب زادوں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز افسران، معاصر شعراء اور دیگر بہت سے ناقابل فراموش کرداروں سے میل جول رکھتی ہے۔ مذکورہ ناول دراصل، 2006ء میں شائع ہونے والے شمس الرحمن فاروقی کے اردو ناول بعنوان ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ (جولائی 2013ء میں دیے جانے والے اس انٹرویو کے موقع پر) اٹھہتر برس کے فاروقی صاحب جو بھارتی پوسٹل سروس سے ایک اعلیٰ بیوروکریٹ کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، اردو کے ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی ایک نہایت سرکردہ شخصیت ہیں۔ انھوں نے دہلی میں انڈیا انک (India Ink) کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی کہ اس ناول کے واسطے انیسویں صدی کے دلی پر مبنی ایک دنیا کیسے تخلیق ہوئی نیز انھیں نوجوان قارئین سے کیا توقع ہے کہ وہ اس کتاب سے کیا کچھ حاصل کر پائیں گے۔

سوال: آپ الٰہ آباد میں رہائش پذیر ہیں، جو کہ نسبتاً ایک چھوٹا شہر ہے، اور آپ کی تحاریر کے قارئین زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اردو بولنے والوں میں سے ہیں یا علمی دنیا سے۔ حال ہی میں اورحان پاموک (Orhan Pamuk) جیسے نامور مصنف نے بھی آپ کی کتاب کو ’’ایک معتبر اور حیرت انگیز تاریخی ناول‘‘ کہا ہے۔ آپ کے لیے عالمی سطح پر ادبی توجہ حاصل کرنے کا تجربہ کیسا رہا ہے؟

شمس الرحمن فاروقی : میں اس تمام معاملے سے متعلق بے یقینی محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو اس تمام تر توجہ اور بڑائی کا مستحق نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنے مدیر سے کہا کہ اس امر کو جاننے کے باوجود کہ آپ لوگ مجھے ایک دیو قامت شخص کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں، میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ان چیزوں کو پیچھے چھوڑے ہوئے عرصہ دراز بیت چکا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں، اپنے ہی لوگوں کی جانب سے ہونے والی بے پناہ تنقید کا سامنا کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ستائش، محبت اور شاباشی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا، خواہ عالمی ماحول ہو یا الٰہ آباد جیسی دور افتاد جگہ ہو۔ اگر اورحان پاموک میری تعریف میں لکھتے ہیں تو مجھے خوشی ہے؛ اگر وہ نہ لکھیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

سوال: انگریزی زبان میں لکھاری حضرات عالمی سطح پہ قارئین کو بالعموم فرض کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ڈیڑھ سو برس پہلے، اردو زبان کم از کم ہندوستان کی حد تک ایک مشترکہ زبان (یا باہمی رابطے کی زبان یعنی لینگوا فرینکا) تھی، معاصر ادب میں اردو قارئین کی تعداد ایک مخصوص حلقے تک ہی محدود ہے۔ قارئین کے حوالے سے آنے والی یہ تبدیلی، آپ کے ترجمے پر کیسے اثر انداز ہوئی؟

شمس الرحمن فاروقی : اردو مسودے کی بہ نسبت، انگریزی زبان میں مترجمہ ناول کی طوالت قدرے زیادہ ہے، کیونکہ مجھے چند خاص چیزوں کی وضاحت کرنا تھی۔ اور یہ بات قدرے یقینی ہے کہ اردو زبان کے دو مصرعوں کے انگریزی ترجمہ کی خاطر چار پانچ سطریں درکار ہوں۔ ایک نظریۂ ترجمہ کے مطابق، ترجمہ اس وقت تک بے کار ہے تاوقتیکہ ترجمے کی مانند دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ جب آپ ایک خاص قسم کے ثقافتی ضابطے اور علامتیت کو ایک یکسر اجنبی زبان میں منتقل کرتے ہیں، تو قاری کو ہر لحظہ اس بات کا احساس دلانا زیادتی ہے کہ ’’ہاں، میں ایک اعلیٰ درجہ کی اردو تحریر کو انگریزی زبان میں پڑھ رہا ہوں‘‘۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی انگریز خاتون نے ہندوستانی کپڑے زیب تن کیے ہوں۔

سوال: آپ کو انیسویں صدی کے دلی کی دنیا یعنی قالین بافی کی تفصیل سے لے کر درباری آداب تک، تحقیق کرنے اور ا س کی تشکیل ِ نو پر کس چیز نے آمادہ کیا؟

شمس الرحمان فاروقی : میں نے کسی طرح کی منظم اور باقاعدہ تحقیق نہیں کی۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میں نے چند کتابوں سے مدد لی جب مجھے کچھ خاص تفصیلات، اور وہ بھی زیادہ تر تاریخوں کی تصدیق کرنے کی ضرورت پڑی۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ ناول بے ہنگم اور بے شناخت وجود کی حیثیت سے میرے ذہن میں ہمیشہ ہی موجود تھا۔ حقائق، یا د داشتوں، تاثرات اور یقینی طور پر ناول کو کسی قسم کی شکل دینے سے قبل میرا مطالعہ، یہ سب کچھ ایک بکھری ہوئی صورت میں موجود تھا خصوصاً اس لیے کیونکہ میرے پاس وزیر خانم جیسے اہم کردار کو لکھنے کے واسطے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ بلاشبہ، ماقبل جدید عہد کی فارسی اور اردو شاعری سے اپنی محبت کی دولت کے سبب، میں بے حد و حساب چیزوں سے مالا مال تھا۔ بعد ازاں، میرے گمان سے بھی زیادہ، میرے لاشعور میں اترنے والی شے داستان امیر حمزہ کا مطالعہ تھا۔ جو کہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیا ن ہونے والا زبانی عشق کا ایک تسلسل ہے جس کی 46 جلدوں، بیالیس ہزار سے زائد صفحات، اور دو کروڑ (بیس ملین) الفاظ کو میں نے پڑھا اور بعض صورتوں میں با رہا پڑھا، تقریباً 1980ء تک۔ میں ہمیشہ کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس فرانسز پریچٹ (Frances Pritchett) کا احسان مند رہوں گا جنہوں نے داستان کو میری توجہ کا مرکز بنایا۔

سوال: اردو اور انگریزی زبان میں موجود دونوں ناولوں کے لیے آپ نے خود کو انیسویں صدی کی لغت تک پابند رکھا۔ ’’دی مرر اوف بیوٹی‘‘ بہت آسان کتاب ہے، لیکن کیا اردو زبان میں لکھا جانے والا اصل ناول، دیسی اردو بولنے والوں کو چیلنج دیتا ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : لوگ اس کی وسعت اور پھیلاؤ کی بدولت سراہ رہے ہیں، لیکن سبھی اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ : آپ نے حاشیہ نہیں دیا، آپ کو ترجمے میں فارسی متن کو شامل کرنا چاہیے تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی لوگوں نے شکایت کی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مقبول عام کتاب نہیں تھی، چار سالوں میں وہ دو مرتبہ شائع ہوئی، جو کہ ایک اردو ناول کے لیے قدرے غیر معمولی بات ہے۔ میں نے شعوری طور پر اس ناول کو ایسے انداز میں تیار کیا، ایک ایسی لفظیات میں لکھتے ہوئے جو آج کل استعمال نہیں ہوتی یعنی قدیم اردو زبان جس سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں۔ میں نے بالکل پرواہ نہیں کی۔ میں اپنا کام کر رہا تھا۔ مجھے اپنے تصور سے وفاداری نبھانی تھی۔

سوال: ہندوستان اور پاکستان کے انگریزی میں لکھنے والے مصنفین کے مابین ایک مضبوط رابطہ موجود ہے۔ وہ ایک دوسرے کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کو جاتے ہیں، انعامات کی ایک جیسی فہرست تیار کرتے ہیں۔ اردو زبان میں لکھنے والے پاکستانی اور ہندوستانی مصنفین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

شمس الرحمان فاروقی: ذاتی سطح پر بہت دوستی ہے۔ بہت حد تک آنا جانا، لکھنا اور تبصرہ نگاری بھی ہے، لیکن بھرپور حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ میں بھرپور انداز میں پاکستانی کتاب یا مصنف کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہوں لیکن پاکستان کے ادباء ہندوستانی مصنفین کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے سے کتراتے ہیں۔ تقریباً ہر ایک اہم لکھاری جس کی وفات پاکستان میں ہوئی یا جسے اب پاکستانی کہا جاتا ہے مثلاً فیض احمد فیض، ن م راشد، سعادت حسن منٹو، ہندوستان میں ان کے بارے میں سبھی نے لکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کو پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ بجز اس کے، وہ محبت سے بھرپور ہیں؛ وہ آپ کو کھلائیں پلائیں گے، آپ کی خاطر تواضع کریں گے۔

سوال: آپ نے دیگر چیزوں کے علاوہ انتونیا سوزن بائٹ (Antonia Susan Byatt) اور پیٹر آکرائڈ (Peter Auckroyd) کے تاریخی افسانوں میں اپنی دلچسپی کا ذکر کیا ہے۔ کیا ہندوستان سے متعلق ایسی افسانہ نگاری موجود ہے بالخصوص اس کی مغل تاریخ سے متعلق، جس پر آپ نے نگاہ ڈالی ہے؟

شمس الرحمان فاروقی : انگریزی میں امیتاو گوش (Amitav Gosh) کے ناول ہیں جنھیں میں نے پڑھا اور سراہا: مثلاً بحر گل ہائے لالہ (Sea of Poppies) کے بعد دھوئیں کا دریا (River of Smoke)۔ ان کے اندر بے شمار تاریخ موجود ہے اگرچہ ایک بے حد محدود علاقہ کی تاریخ ہے، جس کا تعلق انیسویں صدی کے اوائل یا اٹھارویں صدی کے آخری دہائیوں کے بنگال سے ہے، بالخصوص افیم کی تجارت کے ساتھ۔ امیتاو گوش کو بلا شبہ اپنے ناول کے مواد پر پوری گرفت حاصل ہے۔

سوال: آپ نے کہا ہے کہ آپ نے ’’The Mirror of Beauty‘‘ کو صرف زمانی اعتبار سے ماضی کا سفر کرنے کے حوالے سے نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اس بات کی مزید وضاحت کریں گے؟

شمس الرحمان فاروقی: میں اس بات کی توقع کر رہا تھا کہ نوجوان لوگ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی بدولت خود اپنی ذات سے واقفیت حاصل کریں گے یعنی وہ کہاں سے آئے، ان کی تشکیل کیسے ہوئی، 1857ء سے پہلے کی دنیا سے جدائی اور کٹ جانے کا درد کے بارے میں۔ اگرچہ یہ پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو رہی تھی، ان کے پاس وہ دنیا تھی جو خود شعوری کی حامل تھی، جسے اپنی قدرو قیمت پر یقین تھا، جس کا موازنہ کسی دوسری ثقافت یا کسی بھی معاشرے سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ان کے استعماری آقا کی جانب سے فراہم کردہ ناموافق معلومات اور پروپیگنڈے کی بدولت ہمیں تھما دی گئی۔ بہرصورت، ہر قسم کے ماضی کی بازیافت سزاوار ہے خواہ ممکنہ طور پر بھدا ترین ماضی ہو۔ لیکن (اس ناول میں پیش کردہ) ہمارا ماضی بھدا نہیں ہے۔ یہ قابل ِ تعریف ماضی ہے۔ اور ہمارا ماضی معاصر عہد کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پڑھا لکھا، تہذیب یافتہ اور نفیس ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ناول کو پڑھنے کی تکلیف اٹھانے والے لوگ، اس کتاب کو اس طور سے آسان محسوس کریں گے کہ کہانی ساتھ چلتی ہے اور قاری کی توجہ کو جذب کرتی ہے اور بالآخر وہ یہ جان لیں گے کہ وہ کہاں سے آئے اور کیا تھے۔

٭٭٭

یاد رفتگاں

نکتہ گو ۔۔۔ محمد طارق غازی

دیباچہ

گزشتہ دنوں یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کبھی کبھی آپ لوگوں سے نُکتَگوٗ رہا کرے۔

در اصل یہ مخفف بنایا ہے نکتہ اور گفتگو سے، یعنی کسی علمی، دینی، ادبی، سماجی، اخباری نکتہ پر مختصر گفتگو، تھوڑے سے الفاظ میں اظہار خیال، رائے زنی، یا کسی پرانی یاد کا تذکرہ۔ میں نے بس اسی کو نکتگو قرار دیا ہے۔

اقبال اکیڈیمی حیدرآباد کے ششماہی مجلہ اقبال ریویو کا تازہ شمارہ آیا تو اس میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مضامین میں ایسے کئی نکات سامنے آئے جن پر گفتگو نہ سہی خود کلامی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ایسا زندگی میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لڑکپن سے بعض تحریروں پر تحسین اور تعریف، تنقید اور تعریض، تصدیق اور تردید کرنے کی عادت ہے۔ کسی کتاب یا مضمون کا مطالعے کر کے یا کرتے ہوئے اس پر فوراً کچھ لکھ ڈالا، کبھی کسی کاپی میں، کبھی بے شیرازہ اوراق پریشاں پر، کبھی کسی پرزے پر۔ کبھی ان پر اصل مضمون یا کتاب کا حوالہ ہوتا تھا، کبھی نہیں ؛ کبھی ارتجالاً محض اپنی رائے کا اظہار خود اپنے لئے۔ چنانچہ ایسی تحریروں پر کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایک عرصہ کے بعد ایسا کوئی پرزہ یا کاپی دوبارہ سامنے آئی تو اکثر یہ طے کرنا بھی دشوار ہوا کہ وہ تحریر اور رائے میری ہے یا کسی اور کی بات بلا حوالہ یادداشت کے طور پر لکھ چھوڑی تھی۔ ایسی اکثر تحریریں آج نہ جانے کہاں کہاں لاپتہ ہیں۔ بہت سی زندگی بھر کی خانہ بدوشی اور لا مرکزی حیات کر دن کے سبب سے ضائع ہو گئیں۔

تجزیہ نگاری میری زندگی کا عرف رہی ہے۔ علی گڑھ سے باہر آئے تو پہلا قدم کوچۂ صحافت میں پڑا۔ پھر وہی کوچہ میرے لئے میدانِ تیہ بن گیا جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ حقائق کی دنیا میں رہنے والے خود کو بڑا خوش نصیب گردانتے ہیں۔ ہمارا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوا جن کے دل و جگر کو حقائق کے کانٹوں نے چھلنی کر رکھا ہے، اور دل و جگر ہی کیا خارزار صحافت میں سیاست کے کانٹوں کی نوکیں اکثر روح تک میں اتر گئی ہیں۔ کتنے حقائق ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ انہی کے لئے کنایہ اور ایہام کی نثر اور رمز و استعارہ کی شاعری ایجاد ہوئی۔ کچھ ہمارے ملکوں کی غیر اخلاقی اخلاقیات کا بھی بھرم رکھنا ہوتا تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ تھا یہ شعر

لکھتے ہوئے قلم پہ مسلط ہے ایسا خوف

مفہوم اپنی با ت کا زیر سطر گیا

عرض صرف یہ کرنا ہے کہ نکتگو کے تحت خوش مقالی بھی ہو گی اور خود کلامی بھی۔ اس میں ماضی، حال اور مستقبل کے چہرے تو دکھائی دیں گے ہی، بقول اقبال عشق کی تقویم کے کچھ ان زمانوں کے احوال بھی زیر سطر ہی سہی آ سکتے ہیں جن کا نہیں کوئی نام۔

اقبال ریویو میں محسن عثمانی اور معین الدین عقیل کے مقالوں کے علاوہ دسمبر کے آغاز میں کچھ اور کتابیں بھی جستہ جستہ مطالعے میں رہیں اور ان کے بعض مندرجات کے بارے میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی۔ مگر کچھ لکھا یوں نہیں کہ دیار مغرب میں دسمبر کا مہینہ اہل تجارت کے لئے اضافی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ پھر علی گڑھ اردو کلب کی عمّالہ عزیزہ رضیہ مشکور سلمہا نے سفر ہند پر روانگی سے نصف گھنٹہ پہلے فون کیا اور نہایت سعادت مندی کے ساتھ علی گڑھ اردو کلب کی کچھ انتظامی ذمہ داری میرے سر ڈال کر بابل کے دیس کی راہ لی۔ ادھر خود علی گڑھ اردو کلب میں بعض ایسی دلچسپ باتیں اٹھیں کہ دن بھر چکی کی مشقت کے بعد رات کا بیشتر حصہ ان موضوعات پر (مفروضہ – یعنی کمپیوٹر پر) خامہ فرسائی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس لئے وہ ساری باتیں جو کسی مطالعہ کا حاصل تھیں چولھے سے ہٹا کر اُولے پر دھر دیں کہ وقت ملے گا اور بات یاد رہی تو کبھی لکھ دیں گے۔ بس اسی کبھی کے گوشۂ امکان سے نکتگو کا خیال برآمد ہوا۔

٭٭٭

شاعری کی زبان

نکتہ

میں ڈاکٹر سموئل جانسن کے اس قول میں یقین رکھتا ہوں کہ ادب کے تمام اسالیب اور اصناف میں شاعری ہی در اصل زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔۔۔۔ شاعری کے مفاہیم صرف اپنی تعمیر میں صرف ہونے والے لفظوں کے یا زبان کے پابند نہیں ہوتے۔ بحر و وزن، آہنگ و اصوات، متعلقہ زبان اور متعلقہ شاعر کے مخصوص ذخیرۂ الفاظ، اس کے علامتی اور استعاراتی نظام میں بھی معنیٰ کے بہت مضمرات چھپے ہوتے ہیں۔

– پروفیسر شمیم حنفی

جاوید نامہ، اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ؛ اقبال ریویو، حیدرآباد، اپریل ۲۰۰۸ / ص ۴۳

گفتہ

بہت اہم ہے یہ دعویٰ کہ شاعری زبان کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ درد و کرب کا اظہار، رنج و خوشی کا بیان، عصری حسّیات کی نگارش، حالات حاضرہ پر تبصرہ یقیناً شاعری کو ایک طاقتور صورت ابلاغ بناتے ہیں مگر میری دانست میں شاعری ہر زبان کے لئے مقننہ کا کام کرتی ہے اور یہی اس کا اصل منصب اور مقصد ہے۔ انسانی کیفیات کا اظہار و بیان و تذکرہ و تبصرہ سب اسی مقصد کے لئے ایک زبان کے ہتھیار اور اوزار ہوتے ہیں۔ میر کو یونہی تو لوگوں نے خدائے سخن نہیں مان لیا تھا۔ انہوں نے جب کہا تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا، تو وہ جانتے تھے کہ وہ اردو زبان کے فقیہ و مفتی ہیں۔ آج کا شاعر و ادیب جب مطالبہ کرتا ہے کہ بطور سند قدیم اساتذہ میں سے کسی کا شعر پیش کرو تو وہ وجدانی طور پر شاعری ہی کو زبان کے در و بست، نظم و ترتیب، الفاظ کی نشست و ترکیب کا پیمانہ تسلیم کرتا ہے۔ کسی لفظ، محاور ے یا روزمرہ کی سند تو محمد حسین آزاد اور رتن ناتھ سرشار سے بھی لائی جا سکتی ہے مگر قول فیصل تو شیخ ابراہیم ذوق اور غلام ہمدانی مصحفی کا شعر ہی ہوتا ہے۔

ایک بات اور، کوئی تو وجہ ہے کہ زبان کے سلسلے میں ترقی پسند اور جدید شاعر سند نہ مانے گئے۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ان لوگوں نے وہ زبان اختیار کر لی تھی جس کے بارے میں لکھنو کے سفر کے دوران میر نے پہلوان کی بک بک کے جواب میں کہا تھا کہ کیا ضرور تم سے گفتگو کر کے میں اپنی زبان خراب کروں۔ یہ وہی میر تھا جو یہ بھی کہتا تھا گفتگو مجھ کو پر عوام سے ہے۔ یعنی عوام کی باتیں بھی تھیں اور ان کی لسانی تربیت بھی ساتھ ہی مقصود تھی، اپنی زبان بگاڑے بغیر۔ اسی لئے ان کی زبان خواص و عوام میں آج تک سند ہے۔

انسانیت کے بچپن پر نظر کریں تو رنج، خوشی، محبت، کلفت کے بہتر اظہار کے لئے ابتدائی دور کا انسان مکالمے نہیں بولتا تھا، بلکہ گانے لگتا تھا۔ وہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ شادی کا سہرا اور رخصتی، مرثیہ اور نوحہ، تہنیت اور ہجو، واسوخت اور شہر آشوب سب منظوم ہوتے ہیں، ان پر مقالے نہیں لکھے جاتے۔ مقالے فلسفہ ہوتے ہیں، جذبات نہیں۔ بات بس اتنی ہے کہ شعری پیرائے میں کہی ہوئی بات نسل در نسل یاد رہ جاتی ہے۔ حالی کے مرثیۂ دلی کے بہت سے اشعار آج بھی لوگوں کو نوک زبان ہوں گے ؛ اسی موضوع پر خطوط غالب کے کتنے جملے اور فقرے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی حفظ ہیں؟ بس یہی رمز ہے شاعری کی لسانی اور پھر اس ذیل میں قانونی اور عمرانی اہمیت کا۔

کچھ لوگ باور کرتے ہیں کہ شعر میں اپنا ذاتی یا عصری کوئی کرب بیان کر دیا تو حق شاعری ادا ہو گیا۔ وہ لوگ غلطی پر ہیں۔ جس مثبت یا منفی جذبے کا اظہار شاعری میں ہوتا ہے اس کا اصل مقصد زبان کو نازک باتیں سلیقے سے بیان کر نے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ شاعر اس اعتبار سے مستقبل کی تہذیب کا معمار ہوتا ہے، محض نوحہ گر اور سہرا نویس نہیں۔ وہ زبان ساز ا نسان ہوتا ہے اور الفاظ کے درست استعمال، محاور ے اور روزمرہ کے چست اور بر محل ہونے کی نگرانی کرتا ہے، جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں زبان کو نئے الفاظ مہیا کے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ پھر ان لفظوں سے ادا ہونے والے معانی اور ان معانی کی نیرنگی کا تعین کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بہت اچھی بات کہی ہے کہ شاعری میں اصل شے لفظ ہے۔ میں اضافہ کروں گا کہ نثر میں اصل شے جملہ ہے : جس کے الفاظ و معنیٰ شاعر متعین اور مہیا کرتا ہے۔

چنانچہ جب لفظ کا خزانہ زبان کی امارت، شکوہ و قوت، شوکت و وسعت کا ثبوت بن جاتا ہے تو نثر کے بال و پر آتے ہیں۔ نثر راست شاعری سے متاثر ہوتی ہے۔ قدم قدم پر شعر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر زبان میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ نثر لکھتے ہوئے کسی نکتے کی زیادہ خوبصورت وضاحت کے لئے درمیان میں ایک شعر یا مصرعہ لکھ دو تو تحریر کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی شاعر نے اپنی نظم کے درمیان حسن بیان کی خاطر کوئی نثری فقرہ درج کیا ہو۔ یہ بجائے خود ثبوت ہے اس بات کہ نہ صرف شاعری کے ذریعہ بولی کو زبان کا مرتبہ ملتا ہے، بلکہ زبان اپنے ارتقا کے ہر دور میں شاعری کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ جب شاعری کی زبان کمزور پڑنے لگے تو اس میں لسانی زوال کا سبب دیکھا جا سکتا ہے۔ شاعر پست و بے روح الفاظ استعمال کرنے لگے، ان کے شجروں سے ناواقف، معنیٰ کی تہوں سے بے خبر ہو اور غیر ثقہ مفاہیم نظم کرنے لگے تو زبان نیم جاں ہو جاتی ہے اور کسی علمی کام کا بوجھ اٹھا نے کے قابل نہیں رہتی۔

میں نے پہلی نکتگو میں شعر و علم کا موازنہ پیش کیا تھا۔ اسے آج کی نکتگو کا پیش لفظ سمجھ لیجئے۔ وہ یوں کہ مغربی زبانوں میں جب علوم (انگریزی میں سائنسوں) کا عروج ہوا تو شاعری فطری طور پر کمزور ہوئی۔ انگریزی میں رومانوی تحریک کے بعد اُس بلندی کا شعری ادب تخلیق نہیں ہوا جس معیار کی نثر، بالخصوص علمی نثر، لکھی گئی۔ اس نثر کو بھی لسانی رہنمائی تو بہر حال درکار تھی۔ خاص طور سائنسداں قلم کار زبان کے در و بست پر وہ نظر نہیں رکھتے جو تخلیقی زبان لکھنے والے کا امتیاز ہوتی ہے۔ چونکہ شاعری کی صنف صنعتی انقلاب کے ساتھ کمزور پڑنے لگی تھی تو مغرب، خصوصاً انگلستان، میں صحافت کو عروج ہوا اور صحافی نے وہ کر دار ادا کرنا شروع کیا جو رومانوی تحریک تک شاعر ادا کرتا رہا تھا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر انگریزی شاعری رومانوی دور سے نہ گزری ہوتی تو صنعتی انقلاب کی سائنسی تحریروں کو زبان میسر نہ آتی اور خود صنعتی انقلاب ہی نہ آتا۔ فلسفۂ انقلاب کے بغیر انقلاب کب آتا ہے؟ اور فلسفہ تو صرف تونگر زبان میں لکھا جاتا ہے۔

اردو میں ہم اس دور میں داخل ہوئے ہی تھے کہ نکالے گئے۔ میر و غالب، سودا و ذوق، نصرتی و ولی، نصیر و مومن، درد و داغ، حاتم و حالی، آتش و انشا شاعری کی راہ سے اردو کو اس مقام تک لے آئے تھے کہ ایک طرف عود ہندی کی نثر لکھی جا سکی اور دوسری طرف قول فیصل اور غبار خاطر کی۔ ابو الکلام آزاد، محمد علی جوہر، حامد الانصاری غازی، ظفر علی خان، عبد المجید سالک، شائق عثمانی، نصر اﷲ خان عزیز، چراغ حسن حسرت، حیات اﷲ انصاری، عبد الرزاق ملیح آبادی، شورش کاشمیری، وغیرہ کو غالباً یہ احساس تھا کہ اردو اعلیٰ علمی وقار کی زبان بننے کے مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں شاعری کی روایت کمزور پڑے گی۔ چنانچہ صف اول کے ان تمام صحافیوں نے اپنے اخبارات – الہلال، البلاغ، ہمدرد، مدینہ، جمہوریت، زمیندار، انقلاب، عصر جدید، ایشیا،، قومی آواز، آزاد ہند، چٹان – کے توسط سے اردو زبان کی صحت و معیار کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد میں دار الترجمہ کو علوم دنیا کے تراجم اور اصطلاح سازی کے لئے بلند پایہ زبان داں افراد اور ایک توانا زبان کا رفیع الشان ذخیرۂ الفاظ مل گیا۔

پھر اس ذخیرۂ الفاظ ہی پر ضرب پڑی۔ اس سے پہلے خود زبان پر ضرب پڑ چکی تھی۔ پاکستان میں بنگالی کے ساتھ نزاع پیدا ہوا اور ہندستان میں ہندی کے ساتھ۔ اب حال یہ ہے کہ اردو صحافت خود بہت کمزور ہے، اور شاعری کے ذریعہ زبان کی اصلاح اور توانائی بخش مہم بھی سرد پڑ ے دیر ہو چکی ہے۔ اردو کا المیہ یہ ہے کہ آج اس کے تحفظ کی ضامن اس کی شاعری رہی اور نہ صحافت۔ آج یہ بے مایہ زبان خود کو امیر خسرو (۱۳۲۵-۱۲۵۳) اور ولی دکنی (۱۷۰۷-۱۶۶۷) کے درمیانی عبوری زمانہ میں پاتی ہے۔ یعنی بات پھر وہیں سے شروع کیجئے جہاں سے ولی، سراج اور نگ آبادی اور میر و سودا نے اٹھائی تھی۔ اور یہ بھی مشروط ہے اس دعوے کے ساتھ کہ اردو کو ایک علمی زبان بنایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ سے بھی صنعتی انقلاب قسم کی کوئی زبردست فکری، علمی، عملی اور عمرانی، تبدیلی اس دنیا میں آ سکتی ہے۔

اور یہ سب کچھ ممکن نہ ہو یا کسی کو اس قسم کی لغویات سے دلچسپی نہ ہو تو بھائی نہ تو اردو ہمارے پیر پڑ رہی ہے نہ ہمارے پیروں کی بیڑی ہے۔ جس زبان، جس قوم، جس انسانی گروہ میں صلاحیت ہو گی وہ وہ سب کچھ کر گزرے گا جو دو سو سال پہلے انگریز نے کیا تھا، اور اس سے نو سو سال پہلے جسے مسلمان نامی ایک قوم نے عربی کے راستے سے کیا تھا۔

۔۔۔۔

پس تحریر: اور بھئی یہ ڈاکٹر جانسن کون ہیں؟ یہ وہی تو نہیں جو جانسن اینڈ جانسن کے نام سے بے بی پاؤڈر بنا کر بیچتے ہیں؟ اردو تو کیا جانتے ہوں گے۔ اچھا اچھا یہ وہی ہیں، انگریزی کے محمد حسین آزاد! تو بات کرنے کے لئے آزاد ہی کیا برے ہیں؟ اردو زبان یعنی لسانیات پر ہمارے لوگوں نے بھی تو کبھی کچھ کہا ہو گا۔ آب حیات میں نہ سہی نکات سخن میں سہی، نکات الشعرا میں نہیں تو شعر الہند میں، مقدمہ شعر و شاعری میں نہیں تو شعر شور انگیز میں، کہیں ہمارے کسی آدمی نے بھی تو زبان و ادب و شعر پر کوئی ایسی عقل کی بات کسی جگہ لکھی ہو گی جس پر ہم شرمندہ ہوئے بغیر اپنے یقین کا اظہار کر سکیں۔ اور ایسا نہیں ہے تو بھائی اردو داخل ایمان تو ہے نہیں کہ یقین کے لئے ضروری ٹھہرے، نہ اس سے مفاد دنیا وابستہ کہ ولایتی صاحب کا نام بیچ میں آئے بغیر یہ زبان ہی مستند نہ ہو۔ ہاں بے بی پاؤڈر کی بات الگ ہے۔

٭٭٭

جدیدیت

نکتہ

وہ نسل جو جدیدیت کا تجربہ کر رہی تھی وہ ترقی پسند اصولیت سے مایوس ہو چکی تھی، وہ فرقہ پرست جارحیت سے خائف تھی۔ اس نے زندگی کے امکانات کے دروازے اپنے منہ پر بند ہوتے دیکھے تھے۔ جنونی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سب کچھ لٹتے، نذر آتش ہوتے، بے گناہ عزیزوں کو خاک و خوں میں تڑپتے، آگ میں جلتے، درندوں کی رانوں کے نیچے بے عصمت ہوتے دیکھا تھا۔ عدم تحفظ، بے امانی، اور بے روزگاری ان کی بہت بڑی آزمائشیں تھیں۔ وہ داد فریا د کس سے کرتے، وہاں تو ان کی زبان بھی قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی تھی۔ بے زبان ہو کر وہ داد طلب کرتے بھی تو کس سے؟ یہ نفسیاتِ خوف یا بے امانی جدیدیت کی علم بردار نسل کا بہت بڑا المیہ تھی۔ اس المیہ کا غماز ان کا گنگ افسانوی سرمایہ ہے۔ ان سے شکوہ نہ کیجئے۔ ان پر بہت الزامات عا ئد نہ کیجیے۔ ان پر جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری اور فیوڈل طبقہ وغیرہ کے لیبل نہ لگایئے۔ یہ بہت سے مسائل میں الجھے ہوئے، بہت سے ناوکوں کے نخچیر، ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں۔۔۔۔

– ابن فرید

نئی نسلیں – ایک لمحۂ فکریہ۔ دیدہ ور، سہ ماہی انٹرنیٹ میگزین، شمارہ ۴، جنوری تا مارچ ۲۰۰۹۔ مقالہ گوشۂ ابن فرید / ص ۵۱

گفتہ

یہ قصہ صرف ہندستان کے مسلمان اردو جدیدیت پسندوں کاہے۔ باقی دنیا اور باقی ہندستان ادب میں جدیدیت کی اس تعریف سے خارج ہے۔ ہندی میں بھی جدید ادب لکھا گیا، مگر اس زبان کے قلم کاروں میں سے شاذ و نادر ہی کسی کا یہ المیہ تھا یا ہے۔ جدید ادب پاکستان میں بھی لکھا گیا اور پنجابیوں نے بھی لکھا جن پر الزام ہے کہ قومی وسائل کے بڑے حصہ پر تو وہی متصرف ہیں۔ وہاں ان مذکورہ مسائل میں سے بہت کا وجود کل تھانہ آج ہے۔ جدید ادب عربی میں بھی لکھا گیا۔ وہاں جدیدیت پسندوں کو حَدّاثِین کہا جاتا ہے۔ ان عرب اہل ادب کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں ہو رہا تھا جو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ جدید ادب فارسی میں بھی لکھا جا رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور تاجکستان میں جنونی فرقہ پرست نہیں ہوتے اور نہ وہاں زبان قساوت کے ساتھ ختم کی جا رہی ہے۔ مگر جدیدیت کی ان سب عمل بردار نسلوں کا مایۂ مشترک تھا ان کا ’’گنگ افسانوی سرمایہ، ان کی جمال پرستی، نرگسیت، رومان پروری‘‘۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ دنیا بھر کے یہ سب اہل ادب ایک انتشار کے مارے ہوئے ہیں – تہذیبی، عمرانی انتشار کے۔ مگر ہر ایک کی زنبیلِ انتشار بھی الگ ہے اور اس میں رکھا نسخۂ انتشار بھی۔

اس موضوع پر خاصی تفصیل سے گفتگو میں اپنے طویل مقالے، سرد جنگ کی سیاست کا ادب (ماہنامہ شاعر، ممبئی، اگست ۲۰۰۸) میں کر چکا ہوں۔ جنہوں نے اسے نہیں پڑھا وہ افتخار امام سلمہٗ کو خط لکھ کر اس شمارے کی ایک کاپی منگوا لیں۔ یہاں بات اس موضوع کے دیگر دو پہلوؤں پر کرنی ہے۔

اردو میں ایلیٹی جدید ادب کا گل بوٹا ادب اسلامی کے گملے میں اُگا تھا بعد میں اسے گملہ سے نکال کر زمین میں بویا گیا تھا۔ شمس الرحمٰن فاروقی شروع میں ’’تعمیر پسند‘‘ ادب سے قریب تھے۔ ان کی ابتدائی تخلیقات حفیظ میرٹھی کے ماہنامہ معیار، میرٹھ، میں شائع ہوئی تھیں۔ حفیظ میرٹھی ہندستان میں ادب اسلامی کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ادب اسلامی اس زمانے میں ترقی پسندی کے جواب میں تعمیر پسندی کے نام سے سکہ بنا تھا۔ اس سے اس تعلق خاطر کا سبب میرا ذہنی سفر میں فاروقی اشارتاً خود یہ بتاتے ہیں کہ ’’مجھ پر ترقی پسندی یا کمیونزم کا جادو نہ چل سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنی تہذیب اور روایت کا بہت گہرا احساس شروع سے تھا، اور مجھے یہ بات معلوم تھی کہ ترقی پسند نظام ادب اور اشتراکی نظام حکومت میں اسلامی (یا مسلم) تہذیب اور روایات کی کوئی جگہ نہ ہو گی۔‘‘

بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروقی دو وجہوں سے ادب اسلامی سے دور اور مغرب نژاد جدید ادب کے میر کارواں ہوئے۔ اسلام پسند یا تعمیر پسند ادبی تحریک اپنی انتظامی ہیئت میں ترقی پسند تحریک کا چربہ تھی۔ دونوں کے پیچھے ایک طاقتور سیاسی جماعت اور اس کا فلسفہ تھا۔ دونوں معاشرہ میں ایک خاص سیاسی اور اقتصادی نظام قائم کرنے کے مدعی تھے۔ دونوں نظریوں کی بنیادی تحریکات کا سیاست اور اقتصاد کے فلسفوں پر اتنا تکیہ یا اصرار تھا کہ زندگی کے کسی دوسرے گوشے پر توجہ تھی نہ اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی، یہاں تک کہ دونوں تحریکات نے اپنے اپنے فلسفہ کی بنیاد پر سیاسی مفکر اور معاشیاتی ماہرین کی بڑی تعداد پیدا کی۔ دونوں تحریکات یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ میں اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنے کے لئے کوشاں اور کامیاب رہیں۔ اس مقصد کے لئے دونوں تحریکوں نے ادب کو استعمال کیا۔ دونوں نے ابتدا ہی سے اپنے فکری نہج کے مجلے شائع کرنے پر زور دیا اور اپنے جداگانہ ادبی ناقدین پیدا کئے۔ دونوں کو زبان سادہ اور سہل رکھنے پر شدید اصرار تھا۔ دونوں کے ہاں یہ گنجائش تھی کہ پارٹی کے رکن نہ بھی ہوں تو اس کی ادبی شاخ سے وابستگی ممکن ہی نہیں پسندیدہ تھی۔ دونوں طرف جماعت حرف آخر تھی اور اہل ادب کو پارٹی کی ہدایات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

ہندوستان کی حد تک ادب اسلامی کو جدید ادب کا نقطۂ آغاز بنانا منطقی تھا۔ اردو ادب میں مار کس کا جواب اصغر گونڈوی نہیں تھے۔ لادینیت کے مقابل قلم کی دینیت پر اصرار ضروری تھا۔ مگر ادب اسلامی میں اسلام کو چھوڑ کر باقی سب کچھ تو نقل ہی تھی ترقی پسندی کی۔ نقالی وقتی تفریح کا باعث ہو سکتی ہے، دیرپا نہیں ہو تی۔ اس کے عَلاوہ جوابی اسلامی ادب کا وجود اغلباً دنیا میں کہیں اور نہیں تھا۔ شائد مصر وغیرہ میں اخوانیوں نے اس سمت میں کچھ کام کیا تھا، مگر رفتہ رفتہ خود عالم عرب کو بھی جدیدیت کی جانب ہی جھکنا پڑا۔ عرب تو ویسے بھی یورپ امریکہ سے آنے والی ہر شے کو حلال، بلکہ مطابق بہ شریعت قرار دینے میں بے مثال تفقہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف مغرب کی تقلید کو جائز سمجھتے ہیں۔ باقی ہر قسم کی تقلید سے انہیں بوئے کفر آتی ہے۔

لہٰذا پہلی بدیہی وجہ یہ تھی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کی عبقری شخصیت زیادہ دنوں یہ ذہنی پابندیاں برداشت نہیں کر سکتی تھی، ورنہ ممکن ہے وہ کمیونزم کا تو نہیں ترقی پسندی کا جادو اپنے اوپر چلنے دیتے۔ وہاں برگ و بار لانے کے امکانات پھر بھی زیادہ تھے کہ وہ باغ بہر حال یک جہانی بھی تھا اور پرانا بھی تھا؛ ادب اسلامی کو دنیا میں تعارف ہی حاصل نہ تھا۔ وہاں حفیظ میرٹھی جیسا شاعر ضائع ہو گیا۔

دوسری امکانی وجہ یہ کہ جدید ادب کو بہرحال عروج حاصل ہونا تھا اور معاملہ وہاں بھی یک جہانی، یعنی عالمی تھا، اس لئے جدیدیت میں تخلیقی تجربات کے امکانات زیادہ وسیع تھے۔ ان تجربات کے ذریعہ کچھ نسلوں کی ذہنی تربیت اور فکری رہنمائی کا میدان بھی ترقی پسندی کے مقابلہ میں زیادہ کھلا ہوا تھا اور اس نوعیت کی کارروائی وہاں زیادہ موثر ہو سکتی تھی۔ یوں بھی ترقی پسندی کو جو کرنا تھا وہ کر چکی تھی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ وہ بحر اسود سے کالے جوہڑ میں تبدیل ہو رہی تھی، اس میں اب کاغذ کی ناؤ نہیں چل سکتی تھی۔ نئے دریا میں پہاڑی جھرنے کی جولانی اور روانی بھی تھی اور اسے پرانے پہاڑ سے برفشاروں (glaciers) کا مقطر پانی بھی حاصل تھا۔ ترقی پسندی سیاسی تسلط کے سبب جمود کا شکار ہو چکی تھی، جبکہ جدید ادب کو ایسے جمود کا شکار ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔

جس طرح اردو میں جدیدیت کا پودا مذہب کے گملے میں اگا تھا اسی طرح امریکی جدیدیت کا بیج بھی کلیسا کے گملے ہی میں بویا گیا تھا، نیز بڑے دیس کی بڑی سیاست کی زمین میں اسے بونے کے بعد اس میں دین کے دودھ کے کچھ قطرے بھی ٹپکائے گئے تھے۔ یہ مجبوری بھی تھی۔ مگر یہ دودھ کئی دُدَھاری مویشیوں کا تھا۔ عمیق حنفی نے وحی کی گھنٹیوں کی بازگشت سنائی تو ستیہ پال آنند نے بن دھرتی پر رام کے پگ آکار کا بھجن سنایا۔ ہندستان میں تو اللہ ایشور تیرو نام کا نغمہ چل گیا، باقی دنیا سب کی بانی اپنی بانی تھی۔

ہندوستان کے اہل جدیدیت کے سامنے جو مسائل تھے یا وہاں کے مسلمان اہل ادب کے سامنے آج بھی ہیں اور وہ باقی ساری دنیا کے مسائل سے بہت، بہت مختلف ہیں۔ اسی زاویئے سے ہندستانی اردو جدید ادب کا کوئی جائزہ اسے ہماری روایت سے مربوط کر سکتا ہے، باوجودیکہ جدید ادب اساسی طور پر قنوطیت اور شکوہ کا ادب تھا؛ اور اس کے باوجود کہ ہر قنوطی میر اور ہر شکوہ نویس اقبال نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتہ یہ ابھرتا ہے کہ جدید ادب کا سیاسی فکری پس منظر چونکہ غیر واضح تھا اس لئے یکجہانیت میں قدرے تنوع کا امکان موجود تھا۔ جن مسائل سے ہندستان کا جدید اہل قلم نبرد آزما تھا – اور ہے – وہ مسائل صرف ہندستانی ادیب و شاعر کے ہیں۔ سعودی مملکت کا حدّاث شاعر اور ادیب قطعی مختلف دنیا میں رہتا ہے۔ وہ سیاسی اور معاشرتی گھٹن کا شکار ہے، کھل کر بول اور لکھ نہیں سکتا۔ اکثر اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ کسی اہم مسئلہ پر انفرادی رائے ہی قائم کر لے، اظہار تو بہت بڑی بات ہے۔ وہاں ایسے اہل قلم موجود ہیں جن پر ایک نظم لکھنے پاداش میں سال چھ ماہ تک کسی بھی سعودی جریدہ یا مجلہ میں اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تھی، یا اعلیٰ سرکاری ملازمت یا یونیورسٹی کی تدریسی خدمات سے برطرف کر دیا گیا تھا، یا وکالت کا لائسنس معطل کر دیا گیا تھا۔ ایک امریکی، کنیڈائی جدید ادیب اس کیفیت کا تجربہ تو درکنار تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر پھر امریکہ میں یہ ممکن ہے کہ ناشر اس کی کتاب یا تخلیق کو چھاپنے سے انکار کر دے۔ ایسا ہندستان میں بھی ممکن ہے۔ مگر ہندستان میں امتیازی سلوک کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہو سکتا ہے اور کوئی زکی انور اس میں قتل ہو سکتا ہے، کسی احسان جعفری کو زندہ جلایا جا سکتا ہے اور کسی ہارون رشید کا گھر نذر آتش کیا جا سکتا ہے۔ جارج بش کے امریکہ میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اگرچہ زیریں نسلی سطح پر وہاں مضطرب رہنے کی اجازت تھی۔ فرانس میں فساد و آتش زنی ممکن ہے مگر ایسے کسی واقعہ کے نتیجہ میں انتہا پسند نسلیت زدہ لوگ الیکشن جیت سکتے ہیں اور پھر زندگی کو اجیرن کر سکتے ہیں۔ مگر وہاں کی اُس اجیرن زندگی اور ہندستان کی اجیرن زندگی میں فرق ہے۔

یہ سارا بیان سطحی اور اخباری سا ہے۔ تاہم ایک ملک یا منطقہ کے حالات کے اسباب و علل، اثرات و نتائج، معاشرتی پیش منظر اور نفسیاتی پس منظر کا مکمل ادراک و احسا س کسی دوسری جگہ بسنے والوں کو ہر گز ممکن نہیں۔ مگر چلئے، ممکن ہے ہم رنگ سیاسی نظریات رکھنے والے دو افراد دنیا کے دو کونوں پر رہنے کے باوجود کسی ایک معاملہ میں ایک ہی طرح کا رد عمل تحریر میں ظاہر کر دیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر یمن اور ارجنٹینا میں بسنے والے عربوں کے تاثرات یکساں ہوں گے اور اسی مسئلہ پر دوسرے رخ سے رباط اور نیو یارک میں رہنے والے یہودیوں کی سوچ ایک جیسی ہو گی۔ تو ڈھونڈنے والے یمن اور ارجنٹینا کے عرب جدید ادب میں اور رباط اور نیو یارک کے یہودی جدید ادب میں یکساں فکری اور تجزیاتی لہریں گن لیں گے۔ مگر یہ کیفیت افقی ہے۔ عمودی نہیں ہو سکتی۔ اسی کو ایک نقطہ پر سمیٹ دیا جائے تو بات دو عربوں اور دو یہودیوں کے مابین بھی بدل جائے گی۔

یہ بات انفرادی اعتبار سے زیادہ قابل فہم ہو گی۔ سنا ہے شمس الرحمٰن فاروقی کے گھر میں کئی طرح کے پرندے پلے ہوئے ہیں اور وہ خود ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے پرندوں کے بارے میں ان کی معلومات بھی بہت ہوں گی۔ ان سے کسی پرندے پر نظم لکھنے کی درخواست کی جائے تو جو کچھ وہ لکھیں گے وہ اس سے بہت مختلف ہو گا جو ولی عالم شاہین یا شہر یار کسی ایسی ہی درخواست پر اسی پرندہ پر لکھیں گے اور یہ بھی طے ہے کہ خود شاہین اور شہریار کی تخلیقات میں بھی پرندہ کے علاوہ کوئی اور قدر مشترک نہیں ہو گی۔ یعنی ایک موضوع پر بھی انفرادی تجربہ، معلومات اور دلچسپی کا معیار اتنا مختلف بلکہ متضاد ہو سکتا ہے کہ معلومات کی فراوانی یا کمی کی بنیاد پر تو بہتر کمتر کا فیصلہ کیا جا سکے گا مگر جذبات نگاری اور بیان کی تفاصیل کو رد و قبول کا معیار نہیں بنایا جا سکے گا، پلہ تو اسی کا بھاری رہے گا جو پرندوں کے جذبات کی موثر ترجمانی کرے گا، یا ان کا عمدہ تعارف کروائے کا۔

ویسے میرے نزدیک اس قسم کی مقابلہ آرائی اور امتحان ہی غلط ہے۔ میر و سودا، غالب و ذوق، مصحفی اور انشاء، سائل و بے خود میں باہمی چشمک یا طرح آرائی اور شے تھی، ایک پورے قبیلے کو کسی ایک فکری رنگ میں میں رنگنا دوسری بات ہے۔

مگر پھر کہا جا سکتا ہے کہ یکجہانی کے باوجود انفرادی سطح پر ابلاغ کا تنوع کافی ہے۔ پھر شکوہ کیا۔ اس سے ہر شخص کی انفرادیت کو تقویت تو ملتی ہے، یہ ترقی پسندوں کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹری نہیں ہے۔ مگر ہے۔ پٹری ہی تو ہے۔ ابن فرید نے اور کس بات کے اشارے دئے ہیں۔ بجا کہ جن معاشرتی عوارض کا ذکر کیا گیا ہے ان پر خامہ فرسائی ویسی ہی یکساں اور اتنی ہی مختلف ہے جیسا میر درد اور اقبال کا تصوف تھا۔ درست۔ مگر وہ اختیاری تھا، اِجباری نہیں۔ ترقی پسندی اور جدیدیت پسندی میں جبر کا عنصر موثر تھا۔ کم سے کم یہ کہ ترقی پسند کے لئے پیالہ کو آدھا بھرا ہوا کہنا لازم تھا اور جدیدیت پسند کو آدھا خالی سمجھنا عین صواب۔ قنوط و رجا کی کیا بس یہی پہچان رہ گئی ہے؟ اس سے مجھے تو ویسی ہی بے چینی ہوتی جیسے کوئی میری بند آنکھ کے پپوٹے پر مسور کا دانہ رکھ دے۔

ادیب کی سوچ آزاد نہ ہوتی تو بھلا انقلاب فرانس کیوں آتا۔ اور ۱۹۳۶ سے اب تک دنیا میں کون سا انقلاب آ گیا؟

٭٭٭

مطالعات ۔۔۔ محمد طارق غازی

اس ذات کریم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی 23 سالہ جد و جہد کے طویل دور میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ اے میری قوم کے لوگو تم متحد ہو جاؤ کیونکہ اتحاد ہی قوت ہے۔ یا یہ کہ اے میری قوم کے لوگو تم ٹولیوں، ٹکڑیوں اور قبیلوں میں بٹے رہنے کے بجائے اپنے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرو، قومیت کا شعور بیدار کرو اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا کی متمدن و ترقی یافتہ قوموں (ایران و روم) کی صف میں شامل ہو جاؤ۔ … بلکہ جو کچھ کہا وہ صرف یہ تھا … کہ تم سب آدم کی اولاد ہو۔

مولانا محمد فیاض قاسمی

ہندستانی مسلمانوں کے مابین اتحاد کیسے ممکن ہے

ماہنامہ دار العلوم، دیوبند، جولائی 2010، ص 33

محمد طارق غازی

لفظ کو نعرہ بنا دو تو اکثر وہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اتحاد، ترقی، جذباتی ہم آہنگی، قومیت، سب بہت با معنی الفاظ تھے اور اپنی اصل میں اب بھی عزت مند الفاظ ہیں۔ مگر گزشتہ چند عشروں، بلکہ لگ بھگ ایک صدی سے یہ لفظ نہیں رہے، بے مغز لوگوں کی زبانوں پر مہمل نعرے بن گئے جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اور نہ ان سے کوئی مطلب مراد ہوتا ہے۔ بس عام لوگوں کو باندھے رکھنے کے لئے ان کھونٹوں کا سہارا لیا جاتا رہتا ہے۔

سادہ لوح لوگ ڈھول کے پول پر ناچنے لگیں تو حیرت کی جا نہیں۔ مگر جب بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی ان آوازوں پر تھرکنے لگیں تو قیامت کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

دنیوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی ایک قوم تھی اور وہ ان کی اپنی ہی قوم تھی۔ ان کے سامنے بھی ترقی، سیاسی قوت، عالمی سیادت، معاشی سرداری کی مثالیں موجود تھیں اور ان کے تماشے وہ اپنی کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے۔ انؐ جیسے منفرد ذہین شخص کے لئے اس صورت حال کا ویسا تجزیہ کرنا چنداں مشکل نہ تھا جیسا عام دانشور، مفکر، مصلح کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ کے فرستادہ نبیؑ اور دنیوی عقل و تجربہ تک محدود دانشور، مفکر اور مصلح میں یہی فرق ہے . اور یہ فرق ان کے الفاظ اور اعلانات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نبیؑ کے پیش نظر ہنگامی مفادات نہیں، انسانیت کی دائمی فلاح کا منصوبہ ہوتا ہے۔ وہ نعروں کے بجائے زندگی کے حقائق پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

قومی اتحاد، جذباتی ہم آہنگی، قومیت کے شعور کی بیداری وغیرہ سطحی مطالبات ہیں جن کے پیچھے نہ تو روحانی عقل ہوتی ہے اور نہ تاریخی شعور۔ یہ نعرے ہنگامی نوعیت کے عمرانی شعور کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جو کسی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالنے کے لئے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح قسم کے لوگ لگاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس قسم کے سیاسی لیڈر یا سماجی مصلح نہیں تھے البتہ ان کی پشت پر ایک خاص نوع کی معاشرتی تاریخ تھی اور اس تاریخ کا کامل شعور تھا۔ یہ تاریخی شعور قرآن حکیم نے پیدا کیا تھا اور اس کی اہمیت پر ’ملت ابراہیم‘ کے عنوان سے بار بار توجہ دلائی جا رہی تھی۔ اس تاریخی شعور کی تفسیر خود رسولؐ اللہ کی زبان مبارک سے بھی بار بار بیان ہو رہی تھی۔

ملت ابراہیم اصل میں توحید اساس معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کا نام تھا۔ دوسرے الفاظ میں انسانی اتحاد کا رمز قبائلی، قومی، جغرافیائی، نسلی جذباتی قومیت یا ہم آہنگی اور معاشرتی شعور نہیں تھا بلکہ ایک اللہ کی حکم برداری کے راستے سے انسانوں کو ایک مقصد عطا کرنا اور اس مقصد کے لئے ایک عالم انسانیت کے قیام تصور تھا۔ اس بات کو بہت، بہت ہی سادہ زبان میں عرض کیا جائے تو حاصل کلام یہ کہ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، ہنگامی اور وقتی ہو یا دائمی اور دور رس ہو، اس کی پہلی شرط نعرہ نہیں مقصد ہوتی ہے۔ میں نے اس بات کو اکثر اس طرح بیان کیا ہے کہ آپ دہلی سے آٹوا کا سفر کرنے والے ہیں اور آپ کا ایک دوست دہلی سے ٹوکیو جانے والا ہے، تو آپ دونوں کے درمیان اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں کا مقصدِ سفر اور منزل مقصود مختلف ہے۔ البتہ جو لوگ ایک ہی طیارہ سے ٹوکیو جا رہے ہیں اور جو لوگ ایک ہی کے جہاز سے آٹوا آ رہے ہیں ان کے درمیان، اگر مشترکہ خواہش اور ہم آہنگ مقصد ہو، تو اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔

قرآنی شعور کی اساس پر رسولؐ اللہ نے اس معاملہ میں ملت ابراہیم سے ایک مرحلہ اور آگے آ کر ساری دنیا کے انسانوں کو ایک بھولا ہوا نکتہ یاد دلایا: تم سب تو آدم کی اولاد ہو!

یعنی اتحاد کے معاملہ کو اور بھی سہل کر دیا، کہ ملت ابراہیم بجائے خود بنی آدم کا اتحاد کا ایک قابل عمل نمونہ تھی۔

معاشرتی سطح پر خالی خولی اتحاد سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اتحاد کسی بھی نوعیت کا ہو، بے شمار نئی ذمہ داریوں کا بوجھ افراد کے کاندھوں پر رکھ دیتا ہے۔ اتحاد معاشرہ بناتا ہے اور معاشرہ فرائض اور حقوق کے تعین کا نام ہے۔ جب تک مشترکہ مقصد حیات کے ماتحت ان فرائض اور حقوق کی ادائیگی اور حفاظت ہوتی رہے گی، اتحاد برقرار رہے گا اور معاشرہ کی تہذیب و ترقی کی ضمانت ہو گا۔ مگر جب فرائض کے مقابلہ میں حقوق پر اصرار ہونے لگے گا تو معاشرہ میں فساد رونما ہو گا اور فرائض و حقوق دونوں کو نظر انداز کرنے والے گروہ ابھر کر آئیں گے اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر کے تباہی پھیلا دیں گے جس کی مثال درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر اسی شاخ کو آری سے کاٹنے والے فرد کے عمل سے دی جاتی ہے۔ یہ انحطاط، زوال اور بربادی کی سمت پہلا قدم ہوتا ہے۔ اگرچہ ساری قوم کا اتحاد لوٹ کھسوٹ پر ہو جاتا ہے۔

یہ نکتہ ذہن میں تازہ ہو جائے تو دانشوروں کے مسائل اور مدبروں کی مشکلیں بھی حل ہو جاتی ہیں۔ عام آدمی کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتحاد کے نعروں کے باوجود انسانی گروہوں میں اتحاد کا فقدان کیوں نظر آتا ہے؟ امن کی چیخ پکار کے ساتھ جنگوں کی وحشت اور دہشت روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے؟ معاشی خوشحالی کے وعدوں اور دعووں کے ساتھ دنیا میں غربت، نکبت اور افلاس میں روز افزوں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

ایک زمانہ میں برصغیر جنوبی ایشیا کے عوام و خواص کا مقصد حیات قومی آزادی تھا تو سارا برصغیر اس پر متحد ہو گیا۔ آزادی کی ہیئت کے معاملہ میں اختلاف رائے ایک فطری اور صحت مند عمل تھا لیکن مقصد ایک ہی تھا تو مسلمان شیخ الہند محمود الحسن، ہندو راجہ مہندر پرتاپ، پارسی داد بھائی نورو جی، اہنسا وادی گاندھی، نفرتوں کا نقیب ساورکر، کرچھا بردوش عنایت اللہ مشرقی، مسلم شناخت کے لئے فکر مند لیاقت علی خاں اور ہندتوا کا وکیل بال گنگا دھر تلک سب اس معاملہ میں ایک رائے تھے ان میں سے کسی کا عزم مکمل آزادی کے لئے تھا، کسی کے لئے داخلی خودمختاری اور سوراج سب کچھ تھا، کسی کے لئے انگریز کی سرپرستی ضروری تھی، کسی اور کے لئے انگریز کی منصفی ناقابل اعتماد تھی۔ مگر سب چاہتے تھے کہ ملک پر اس ملک کے باشندوں کا فکر حکومت کرے۔ معاشرتی اصطلاح میں اسی کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ پھر دیکھا کہ جونہی آزادی حاصل ہوئی، یہ ساری مختلف قوتیں تتر بتر ہو گئیں اور اس خطۂ ارض میں فکر و عمل کا اتحاد مفقود ہو گیا۔ پھر بھی کچھ اہل فکر و عمل اس کشتی کو شیطانی سیاست کی طوفانی موجوں میں سنبھال کر لئے جا رہے ہیں، اگرچہ یہ اتحاد بہت مختصر اور منحنی ہے۔

ایک جملہ میں بات کریں تو اتحاد مقصد سے پیدا ہوتا ہے۔ مقصد جس قدر بڑا اور سچا اور دیر پاہو گا، اتحاد بھی اتنا ہی مضبوط ہو گا، مقصد جتنا بودا یا اس کی عمر جتنی کم ہو گی اتحاد بھی اتنی ہی جلد ختم ہو جائے گا۔

باقی رہے جذباتی ہم آہنگی اور قومیت کا شعور وغیرہ تو یہ اس متذکرہ اتحاد کے نتائج ہوتے ہیں، خود مقصد نہیں ہو سکتے۔ عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ زیادہ سے زیادہ شاعری ہوتے ہیں کہ بات کو خوبصورت بنانے کے لئے ان فقروں کا سہارا لے لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے کھوکھلے نعرے دینے کے بجائے انسانیت کو ایک عظیم، ابدی اور دائمی مقصد دیا۔ جن معاشرتی گروہوں نے اسے اپنا مقصد حیات بنایا انہوں نے اس دنیا کو شعور و فکر اور علم و عمل کی جنت بنا دیا تھا، جنہوں نے اس سے صرفِ نظر کیا ان کے معاشروں کا حال سب کی نظروں کے سامنے ہے۔

٭٭٭

لفظ نما ۔۔۔ طارق غازی

طناز

طَن ۰ نَا ۰ ز (ن مشدد ۰ ز ساکن)

عربی

۱۔ صفت ذاتی ۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر ثلاثی مجرد ط ۰ن ۰ز سے مشتق اسم مبالغہ۔ عربی سے ماخوذ اسی ساخت اور کئی مرادی معنیٰ کے ساتھ اردو میں مستعمل ہے۔

اردو میں پہلی بار ۱۶۲۵ میں قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال میں استعمال ہوا۔ (اردو لغت)

تعریف : امام ابن منظور نے لسان العرب (ج ۸، ص ۲۰۷) میں عربی کے ماہر لسانیات الجوہری کا قول دیا ہے کہ یہ لفظ باہر سے عربی میں داخل ہوا ہے یا بنایا گیا ہے۔ عام عربی افعال کے برعکس اس کی گردان طویل نہیں ہے۔ عربی میں مصدر طنز تمسخر، استہزا اور مضحکہ خیزی کے معنیٰ میں آتا ہے۔ اردو میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں جبکہ طناز کے لئے اصل عربی سے مختلف کئی مرادی معنی بھی رائج ہیں۔

۱۔ صفت ذاتی – مذکر و مؤنث – واحد

۱۔ بہت طنز کرنے والا ۰ تمسخر کرنے والا ۰ مذاق اڑانے والا ۰ رمز و کنایہ میں بات کرنے والا ۰ ہجو گو

پڑ گئے سوراخ دل میں گفتگوئے یار سے

بے کنایہ کے نہیں اک قول اس طناز کا

خواجہ حیدر علی آتش / کلیات / ۱۸۴۶، اردو لغت

۲۔ چلنے میں نازو انداز دکھانے والی ۰ اٹھلا کر چلنے والی ۰ اترا کر چلنے والی۰ اٹکھیلیاں کرنے والی

۳۔ عشوہ گر ۰ شوخ ۰ بے باک

بس شرم کر اے ملکۂ طناز باز آ

مثنوی قہر عشق / ۱۸۸۴ / اردو لغت

۴۔ (کنایتاً) معشوق

۵۔ طنز نگار (جدید اردو ۰ شاذ)

اکبر الہ آبادی ایک شاعر طناز اور مزاح نگار کی حیثیت میں ابھرے۔

اردو ادب کی تحریکیں / ۱۹۸۳

۲۔ اسم فاعل ۰ مذکر ۰ واحد

۶۔ ناز و انداز

نپٹ دلربائی، کے طناز سوں

لٹکتی اپس میں اپیں ناز سوں۔

سیف الملوک و بدیع الجمال / ص ۱۱۵ / ۱۶۲۵ / اردو لغت

مترادفات : پر فن۰چالاک۰ چلبلا/چلبلی ۰چنچل۰ شاطر۰ شریر ۰ شوخ ۰ شوخو شنگ ۰ شوخ نویس ۰ طرار۰ طعن باز۰ عیار۰ غماز۰ فتنہ انگیز۰ فتنہ گر ۰ کٹنی ۰گستاخ

متضادات : باتمیز ۰ برد بار ۰ تمیز دار۰ حلیم۰ حلیم الطبع۰سنجیدہ ۰ شائستہ۰ متأمل۰ متوازن ۰ متین ۰معتدل ۰ مہذب

قوافی : آز۰آغاز۰آواز۰ اعجاز ۰ انداز ۰ ایجاز ۰ باز ۰ تگو تاز ۰ جاں باز ۰ جواز ۰ چالباز ۰ حجاز ۰ دراز ۰ راز ۰ ساز ۰ سنگ ساز ۰ شیراز ۰ شہباز ۰ طراز ۰ غماز ۰ فراز ۰ فواز ۰ قاز ۰ ارتکاز ۰ گاز ۰ مجاز ۰ ناز ۰ نماز ۰ نواز ۰ نیاز

انگریزی مترادفات :

Derider. Facetious. Jocose. Ludicrous. Mocker. One who ridicules. Scoffer.

درنگ

دَ ۰ رَ ۰ ں ۰ گ (ن غنہ، ساکن، گ ساکن)

فارسی

اسم کیفیت ۰ مؤنث ۰ واحد

۱۔ دیر ۰ تاخیر ۰ توقف ۰ تعویق ۰ التوا ء

۲۔ تأمل ۰ تساہل ۰ سستی ۰ آلکسی

۳۔ وقفہ ۰ رکاوٹ ۰ تعطل ۰ ڈھیل ۰ حصر

مترادفات : بے پروائی ۰ جمود ۰ سہل انگاری ۰ غفلت

متضادات : پھرتی ۰ تیزی ۰ شتابی ۰ طراری ۰ عجلت

قوافی : ارژنگ ۰ امنگ ۰ انگ ۰ اورنگ ۰ بے رنگ ۰ پاسنگ ۰ پتنگ ۰ تنگ ۰ ترنگ ۰ جنگ ۰ چنگ ۰ خدنگ ۰ دبنگ ۰ دنگ ۰ رنگ ۰ زنگ ۰ سرنگ ۰ سنگ ۰ شنگ ۰ فرسنگ ۰ لنگ ۰ ملنگ ۰ ننگ

انگریزی مترادفات :

Delay. Procrastination. Tardiness.

کیکر

کِی ۰ کَر

ہندی

اسم معرفہ ۰ مذکر

۱۔ ببول ۰ مغیلاں

۲۔ ریگزار یا سنگستان یا بیابان میں پیدا ہونے والا ایک کانٹے دار درخت۔ عام طور سے تقریباً ۴۰ ہاتھ تک بلند ہوتا ہے۔ اس کے تنے کا قطر چار پانچ قدم ہوتا ہے۔ پتے باریک، کانٹے سخت اور لمبے، پھول زرد خوشبودار ہوتے ہیں۔ تنے کی چھال پتلی، صاف، سبزی مائل ہوتی ہے۔ اس کی چھال سے چمڑے کی دباغت کی جاتی ہے۔ اس سے پان میں کھایا جانے والا کتھا بھی بنایا جاتا ہے۔ اس کا گوند طب مشرق میں بطور دوا مستعمل ہے۔

۳۔ بھوتوں کے رہنے کا ٹھکانہ (قدیم ضعیف الاعتقادی)

قوافی : اجگر ۰ احمر۰ اژدر ۰ افسر ۰ بازیگر ۰ بھیتر ۰ تیتر ۰ دیگر ۰ کھدر ۰ گوہر ۰ محور ۰ مگدر ۰ مہتر ۰ نشتر ۰

انگریزی مترادفات :

Mimosa Arabica.

ڈھنڈار

ڈھ ۰ ں ۰ ڈَا ۰ ر (ن غنہ)

سنسکرت / ہندی

صفت ذاتی

متغیرات : ڈھنڈھار (ن غنہ)

۱۔ بڑا اور ویران مکان ۰ ویران حویلی ۰ بڑی اور کشادہ مگر بے رونق عمارت

۲۔ متروکہ عمارت ۰ کھنڈر

۳۔ سنسان مقام ۰ سونی عمارت ۰ غیر آباد عمارت ۰ اجاڑ مکان

۴۔ خوفناک عمارت ۰ ڈراؤنا کھنڈر ۰ ویران مکان

متضادات : آباد ۰ آبادی ۰ بھرا پرا ۰ پر رونق ۰ رجا بجا ۰ رونق دار

قوافی : آر پار ۰ اچار ۰ اُتار ۰ ادبار ۰ ادھار ۰ اصرار ۰ افطار ۰ اقرار ۰ انار ۰ انبار ۰ انکار ۰ بار ۰ بجار ۰ بچار ۰ بخار ۰ بہار ۰ بگھار ۰ بیزار ۰ بیمار ۰ بھار ۰ پار ۰ پندار ۰ پیار ۰ پیزار ۰ تار ۰ جوار ۰ چار ۰ چہار ۰ حمار ۰ خار ۰ خمار ۰ دار ۰ دھار ۰ دیار ۰ ڈار ۰ زار ۰ ستار ۰ سنوار ۰ شمار ۰ طومار ۰ عار ۰ عیار ۰ غار ۰ غبار ۰ کار ۰ کہار ۰ کھار ۰ گنوار ۰ مار ۰ نار ۰ نکھار ۰ وار ۰ ہزار ۰ یار

انگریزی مترادفات :

Abandoned. Creepy. Deserted. Desolate. Eerie. Empty. Forsaken. Frightening. Ghostly. Haunted. Isolated. Scary. Unoccupied.

چمن

چَ ۰ مَن

فارسی

اسم نکرہ ۰ مذکر ۰ واحد

مصدر چمیدن کے صیغہ امر ’چم‘ کے ساتھ ’ن‘ بطور لاحقۂ ظرف لگا کر اسم بنایا گیا۔

اردو میں پہلی بار دکن میں ۱۵۱۸ میں استعمال ہوا (اردو لغت بحوالہ دکھنی ادب کی تاریخ)

جمع غیر ندائی: چمنوں (و مجہول،ن غنہ)

۱۔ پھلواری ۰ سبزہ زار ۰ گلزار ۰ باغیچہ ۰ بگیا ۰ بگیِن ۰ تختۂ گل

۲۔ پائیں باغ ۰ مکان کے سامنے کے رخ کا باغیچہ

۳۔ درختوں سے گھرا ہوا قطعۂ سبزہو گل ۰ باغ کا ایک قطعہ ۰ گوشۂ باغ ۰ گوشۂ گلشن

۴۔ بستان ۰ بوستان ۰ گلستان ۰ گیاہستان

۵۔ سدا بہار پودوں کا باغیچہ

۶۔ روش ۰ خیاباں

۷۔ بازاروں اور کوچوں کے ناکوں پر اگائے ہوئے پودے اور پھول

۸۔ معرفت ۰ محبت (تصوف)

۹۔ آباد جگہ (مجازاً)

۱۰۔ چھوٹا کھیت

۱۱۔ کسی کپڑے، چادر، تکئے کے غلاف، دوپٹے، میز پوش، خوان پوش پر کاڑھے ہوئے بیل بوٹے

۱۲۔ ریشم کا کنکوا ۰ پتنگ جس کے کناروں پر بادلے اور موتیوں کی جھالر ہو

۱۳۔ خوبصورتی ۰ حسن ۰ شادابی ۰ تروتازگی (کنایتاً)

متراد فات : باغ ۰ بہارستان ۰ چمنستان ۰ حدیقہ ۰ روضہ ۰ کنج ۰ گلشن

استعارات: سیر گاہ ۰ گلگشت کی جگہ ۰ عیش گاہ ۰ نشاط گاہ

ترکیبات: چمن آرا ۰ چمن آرائی ۰ چمن بندی ۰ چمن پیرا ۰ چمن پیرائی ۰ چمن چمن ۰ چمن در چمن ۰ چمنِ دہر ۰ چمنِ حسن ۰ رشک چمن ۰ زمینِ چمن۰ سیرِ چمن ۰ صحنِ چمن

قوافی: ان بن ۰ بدن ۰ بھولپن ۰ پھبن ۰ تھکن ۰ جلن ۰ (گنگ و) جمن ۰ چبھن ۰ چلن ۰ ختن ۰ دامن ۰ دمن ۰ رن ۰ زن ۰ زمن ۰ سخن ۰ سمن ۰ ظن ۰ عدن ۰ فن ۰ کوہکن ۰ محن ۰ نعرہ زن ۰ وطن ۰ یاسمن ۰ یمن

انگریزی مترادفات:

Dale. Flower-bed. Garden. Greenward. Grove. Lawn. Lea. Meadow. Park.

اساطیر

اَ۰سَا ۰ طِی ۰ ر

عربی ۰ اسم نکرہ ۰

مذکر۰واحد

ثلاثی مجرد س۰ط۰ر سے ماخوذ ہے

واحد: اُسطورہ

متبادل: اُسطور

۱۔ دیو کتھا ۰ دیومالا ۰ قدیم مذہبوں میں دیوی دیوتاؤں اور خداؤں کے قصے کہانیاں

۲۔ افسانے ۰ من گھڑنت، پرانی خیالی داستانیں

۳۔ فرضی، بے اصل باتیں

۴۔ قرآن کریم کی دس سورتوں میں اساطیر الاولین (اگلے لوگوں کی دیوکتھاؤں) کا ذکر آتا ہے۔ دیکھئے سورتیں: الانعام (آیت۲۵)، الانفال (۳۱)، النحل (۲۴)، المؤمنون (۸۳)، الفرقان (۵)، النمل (۶۸)، الاحقاف (۱۷)، القلم (۱۵)۔ المطففین (۱۳)

قوافی: اجیر، اسیر، امیر، پیر، تصویر، تعمیر، توقیر، تیر، حقیر۔ دبیر، سفیر۔ شیر، ضمیر، عبیر، عناں گیر، میر، نذیر، نظیر، وزیر، ہیر، یسیر

مہ وش ۰۰ مہوش ۰۰ ماہ وش

مَ۰ہ۰وَش / مَا۰ہ۰وَش

فارسی – صفت ذاتی

یہ ترکیب اردو میں سب سے پہلے ۱۸۷۴ میں مراثی انیس میں تحریراً استعمال ہوئی۔

مہ/ماہ=چاند

وَش=جیسا / سا – جیسی/ سی

چاند جیسا۔ مجازاً خوب صورت۔ حسین۔ محبوب۔ معشوق

انتباہ: پاکستانیوں میں اس ترکیب کا غلط تلفظ رائج ہے۔ لفظ وَش (شَش کے وزن پر) واؤ پر زبر کے بجائے زیر کے ساتھ وِش (مالش کے طریقہ پر) بولا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ایسا ہو تو نکارت کے ساتھ ایک درجہ میں قابل فہم تھا کہ وہاں ترقی پسندوں کے بعد جدید ادبا اور شعرا خود فارسی سے لاعلم اور عموماً عربی فارسی کے الفاظ کے ترک کے حامی ہیں۔ تاہم آدھے پاکستان میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کے باوجود وہاں اور غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں میں یہ ترکیب غلط تلفظ کے ساتھ گوارا کر لی گئی ہے۔

بداوت

بَ ۰د ا۰وَت

عربی

بادیہ سے متعلق۔

بادیہ کی زندگی۔ قبل تمدن کی حالت۔ صحرائیت۔ دشت کی زندگی۔

دیہاتیت۔ بے تمدنی۔ خانہ بدوشی کی حالت۔

سادہ مزاجی۔ سادہ انسانی زندگی۔

تمدنی آلائشوں سے پاک سماجی کیفیت

تکلفات سے خالی زندگی۔ بے تکلف زندگی کی کیفیت

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ محمد طارق غازی

تنہائی تھی ہوا تھی ساکت تھی پورن ماسی

بس دل سے آ رہی تھی موہوم اک صدا سی

وصل و فراق دونوں اک کیفیت کے پہلو

اک عارضی خوشی سی اک دائمی اداسی

ٹیسو کے پھول سا تھا چہرہ سواد شب میں

گل آفتاب نکلا تو رنگ تھا کپاسی

اس کو پتا نہیں ہے کیا شے ہے سرد مہری

چھائی ہوئی ہے دل پر گھنگھور اک گھٹا سی

اک ہم نشیں کا چہرہ بدلا ہوا سا دیکھا

چہرہ پہ شرم سی تھی آنکھوں میں تھی دغا سی

وہ جسم کے علاوہ کچھ اور بھی تو ہوتی

بنگلہ کی پریم داسی مندر کی دیو داسی

فلموں نے چشم دل کو ویران کر دیا ہے

آنکھوں میں کاش اترتی طارقؔ ذرا حیا سی

٭٭٭

کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر

ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں

کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر

میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ

تو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر

یہ دنیا ہو کہ عقبیٰ امتحاں ہے

کوئی گوشہ پکڑ خود کو پڑھا کر

نہ حاصل کا نہ غم لا حاصلی کا

اٹھا ہاتھ اپنے اور خالی دعا کر

میں اشرف بھی یہاں برباد بھی ہوں

وہ بے شک خوش ہے یہ دنیا بسا کر

شکستہ دل کا جس دم ناز ٹوٹا

تپش سی رہ گئی شمعیں بجھا کر

میں پھینک آیا ہوں دل دشت نہی میں

اب اک قصہ ہے چاہے تو سنا کر

گلہ کیا کیجئے اس زندگی سے

ملی حسرت تمنائیں سجا کر

کبھی ہوتا تھا آقا بحر و بر کا

مگر اب وہ ہے صنعت گر کا چاکر

پکارا تھا اسے آباد کر دے

وہ جاتا ہے ہمارے دل کو ڈھا کر

ہے انصاری تو پھر یہ مانگنا کیا

اکیلے میں کہیں تنہا صدا کر

٭٭٭

قلم کو مستعد حب جاہ لکھ لیجے

مرے گناہوں میں اور اک گناہ لکھ لیجے

مرا خیال تھا ہم کوہ روح سر کرتے

بدل کے ہجے اسے آپ کاہ لکھ لیجے

بلند عمارتوں میں بس گئی ہے ویرانی

دلوں میں چاہیں تو شہر تباہ لکھ لیجے

اس آنکھ میں کوئی منظر رہا نہ خواب رہا

اب اس کے بعد بھی اس کو نگاہ لکھ لیجے

کتاب حق میں زمیں ملکیت ہے اللہ کی

عرب میں ملکیت بادشاہ لکھ لیجے

دبائے بیٹھے ہیں ہونٹوں میں جس کو منبر پر

قلم کے لب پہ اسے سرد آہ لکھ لیجے

بڑا عذاب تو ہر قوم پر ضروری نہیں

اک آہ کو نفس انتباہ لکھ لیجے

یہ خشک پتیاں آنچل ہیں کہکشاں کا میاں

ہری زمیں پہ ہے اس کو گیاہ لکھ لیجے

کسی بھی صنف میں ذہن آپ کا چلے نہ چلے

قلم ہے ہاتھ میں بس خوا مخواہ لکھ لیجے

انہیں تو گفتگو کرنے میں بھی تکلف ہے

مگر مصر ہیں اسے رسم و راہ لکھ لیجے

دکھوں کی گنتی سے کالی ہے زندگی کی کتاب

تو جنتری میں انہیں سال و ماہ لکھ لیجے

٭٭٭

اک باغ تو لگاؤ ذرا شہر ذہن میں

کچھ پھول پھل اگاؤ ذرا شہر ذہن میں

افکار پھر غروب ہوئے سمت جہل میں

روشن کرو الاؤ ذرا شہر ذہن میں

بھٹکو گے کب تلک بھلا صحرائے نجد میں

اک روز ادھر تو آؤ ذرا شہر ذہن میں

ہم بھی امیدوار ہیں اے شہریار دل

ہم کو بھی تو بلاؤ ذرا شہر ذہن میں

لگتا ہے جیسے باب کرامت ہی بند ہے

پھر چشم ناز اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

اے اہل خانقاہ جگاؤ دماغ کو

صوت اذاں اٹھاؤ ذرا شہر ذہن میں

آؤ تمہیں تماشا دکھائیں شعور کا

آ جاؤ رہنماؤ ذرا شہر ذہن میں

کب تک بتوں کے پیروں میں خود کو گراؤ‌ گے

اب تو انہیں گراؤ ذرا شہر ذہن میں

زنار بند دیر نشیں سجدہ ریز ہوں

یوں اپنی چھب دکھاؤ ذرا شہر ذہن میں

٭٭٭

سوچ کے نیم وا دریچے سے ۔۔۔ طارق غازی

بند گلیاں دکھائی دیتی ہیں

زرد کلیاں دکھائی دیتی ہیں

رنگ رلیاں دکھائی دیتی ہیں

ہاں وہ شب جس میں خواب ٹوٹے تھے

عشق روٹھا تھا، ساتھ چھوٹے تھے

جتنے سچے تھے سارے جھوٹے تھے

کروٹیں نیم جاں ارادوں کی

آہٹیں کچھ ہیولیٰ سازوں کی

پیچکیں سب الجھتے دھاگوں کی

تقویٰ روئے وہاں ریا روئے

تیرگی روئے یا دیا روئے

تم نے جو چاہا وہ کیا، روئے

ستم نابکار کا غم کیوں

دشت میں شاخسار کا غم کیوں

دل ویراں بہار کا غم کیوں

غلطی کیسی، کیا پشیمانی

شہر غفلت میں کیسی حیرانی

جوئے خوں میں وہی ہے طغیانی

بے سند لفظِ مختصر بھی وہی

خوف اب بھی وہی، خطر بھی وہی

درد اِدھر بھی ہے، درد اُدھر بھی وہی

پوچھتی ہیں الم زدہ نسلیں

اب کہو قافلے کہاں بس لیں؟

پھر بھٹک جائیں؟ پھر کمر کس لیں؟

رنج خوردہ زمیں سے کیا شکوہ

سجدۂ بے جبیں سے کیا شکوہ

مار کا آستیں سے کیا شکوہ

کشتگان فریب، لے آؤ

لاؤ، دامان و جیب لے آؤ

پھر اک اورنگ زیب لے آؤ

سوچ کے نیم وا دریچے سے

٭٭٭

ڈاکٹر فریاد آزر ایک مزاحیہ تعارف ۔۔۔ اسد رضا

ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر فریاد آزر کی پیدائش ۱۰؍ جولائی ۱۹۵۶کو بنارس ضلع میں ہوئی۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ۱۰؍ جولائی کو ہی ان کی پیدائش ہوئی ہو مگر اتنا تو طے ہے کہ ان کی پیدائش ضرور ہوئی ورنہ آج مسلسل ادبی رسالوں میں ان کی اتنی غزلیں شائع نہیں ہوتیں۔ انٹر میڈئٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ۱۹۷۲ میں دہلی تشریف لائے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ دہلی کی تینوں سنٹرل یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت دنوں تک اس خوش فہمی میں شادی نہیں کی کہ لکچرر شپ ملنے کے بعد ہی شادی کریں گے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ فریاد صاحب قول کے پکے نہیں تھے ورنہ آج تک کنوارے ہی بیٹھے ہوتے۔ کیونکہ لکچرر شپ انہیں آج تک نہیں ملی اور اب تو وہ امید کا دامن بھی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید نے ان کا دامن بہت پہلے سے ہی چھوڑ رکھا ہے۔ ہاں، جامعہ میں اگر ذرا عقلمندی سے کام لیتے تو آج فریاد صاحب لکچرر ہی نہیں بلکہ پروفیسر ہو گئے ہوتے مگر موصوف عقل سے کم اور خود داری سے زیادہ کام لینے کے عادی ہیں لہٰذا آج بھی ہر میدان میں اپنے احباب سے پیچھے ہیں ورنہ ایک زمانہ میں موصوف کا ایک مزاحیہ شعر جامعہ میں بہت مقبول ہوا تھا ؎

جو یونیورسٹی والوں کا رشتہ دار ہو جاتا

کم از کم لکچرر شپ کا تو میں حقدار ہو جاتا

مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولانا حالی کا یہ شعر ایک عرصہ تک شادی کے سلسلہ میں ان کی رہنمائی کرتا رہا ؎

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں !

یعنی وہ ایک عرصہ تک گھروں میں گھس کر خوب سے خوب تر حسن کی تلاش میں سرگرداں رہے مگر نتیجہ انہی کے شعر میں ملاحظہ فرمائیں ؎

تلاش خوب تر میں خوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

ہم اپنے بے وفا محبوب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے

بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے یعنی موصوف دولہا بنے مگر سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے اور دوبارہ بال اگ آنے کے باوجود آج تک اولے پڑنا جاری ہیں اور اب انہیں سر منڈانے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی کیوں کہ اب ان کے سر پر بچا ہی کیا ہے !

اس طویل اور مسلسل اولہ باری میں فریاد آزر کو اب تک جم جانا چاہیے تھا۔ مگر جان ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے۔ لہٰذا مکمل طور پر جمنے سے پہلے تھوڑا بہت ہاتھ پاؤں ہلا کر خود کو گرم کر لیتے ہیں۔ گرم کرنے سے مراد یہ ہے کہ کسی اور مشغلہ میں سرگرم ہو جاتے ہیں، کبھی کسی ادبی رسالے کی ادارت شروع کر دیتے ہیں کبھی انٹرنیٹ پر اردو کا ویب سائٹ شروع کر دیتے ہیں، کبھی کسی اخبار میں نئی نسل کے ادیبوں اور شاعروں کا انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں کبھی شناخت نامی تنظیم کے ذریعہ نئی نسل کے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کبھی فرصت کے لمحات میسر ہونے پر کچھ اشعار بھی کہہ لیتے ہیں۔

اب تک موصوف کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں مگر نقاد حضرات کی نگاہ ان تک نہیں پہنچی ورنہ اب تک سچ مچ اردو کے اہم شعرا کی فہرست میں ان کے نام کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ اس سلسلہ میں فریاد صاحب خود فرماتے ہیں ؎

ہاں ابھی مجھ کو نہ تسلیم کرے گا وہ بھی

وقت آئے گا تو تعظیم کرے گا وہ بھی

فریاد صاحب ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ غریبوں اور لاچاروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آج سے تقریباً بیس پچیس سال قبل جب کہ موبائل فون صرف رئیسوں کے پاس ہوا کرتا تھا، ایک بھکاری پر جب انہیں رحم آ گیا تو کیا ہوا آپ خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ؎

میں رحم کھا کے جو سائل سے بات کرنے لگا

وہ دور ہٹ کے موبائل سے بات کرنے لگا

آج اس عمر میں اتنا سنجیدہ نظر آنے والا شخص نوجوانی میں کس قدر شوخ تھا، یقین نہیں آتا۔ موصوف نے جامعہ میں طالب علمی کے دوران ایک شوخ رسالہ نکالا تھا اور اس سے پہلے کہ خود انہیں ہی جامعہ سے نکال دیا جاتا انہوں نے دوسرا شمارہ نکالا ہی نہیں۔ رسالہ کا نام تھا دل پھینک اور موصوف اس کے مدیر ادنی تھے۔ لیکن اس کے دوسرے شمارہ کی اشاعت نہ ہو پانے کی وجہ موصوف خود فرماتے ہیں ؎

خود اپنا پرچہ نکالا مدیر ہو بیٹھے

مہینہ بھر میں مکمل فقیر ہو بیٹھے

تخلص شاعر کی پہچان ہے۔ فریاد صاحب تخلص کے معاملے میں بڑے دریا دل رہے ہیں۔ شروع شروع میں شہزادہ فریاد کے نام سے لکھتے رہے، پھر اچانک نئے تخلص کی طرف راغب ہوئے اور یکے بعد دیگرے درجنوں تخلصوں کو اپناتے رہے۔ کبھی فریاد رومی تو کبھی فریاد راوی۔ کبھی صنم بنارسی تو کبھی کچھ۔ اس دور میں اکثر احباب ان سے ان کی نئی غزل کم سنتے، نیا تخلص زیادہ۔ آخر کار فریاد صاحب آزر پر آ کر رک گئے لیکن کچھ بھروسہ نہیں کہ کب کوئی اور تخلص اختیار کر لیں۔

فریاد صاحب کو بچپن سے ہی شعر و شاعری اور ریڈیو پر بچوں کی پروگراموں میں حصہ لینے اور اخبارات و رسائل میں چھپنے چھپانے کا شوق تھا۔ آپ کی پہلی نظم اس وقت بنارس کے مشہور ہندی روزنامہ آج کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی جب آپ نے چھٹی جماعت میں داخل ہوئے ہی تھے۔ پھر تقریباً ہر سنڈے ایڈیشن میں آپ کی نظمیں اور ٹوٹی پھوٹی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات میں سیاسی مضامین لکھنے لگے۔ انٹر میڈئٹ کے بعد جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے دہلی آئے تو دہلی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد اچانک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ایم اے اردو میں داخلہ لینے کی کوشش کی۔ مگر ڈاکٹر عنوان چشتی مرحوم، پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر حنیف کیفی اور دیگر اساتذہ نے فریاد آزر کے داخلے کی مخالفت کی کیوں کہ فریاد آزر کے پاس پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کسی کلاس میں اردو بحیثیت مضمون بھی نہیں تھی۔ ایسے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے فریاد آزر کو یہ کہہ کر شعبہ میں داخلہ دے دیا کہ ایک نوجوان ہندی سے اردو کی طرف مائل ہو رہا ہے ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن سیمیناروں میں فریاد آزر پڑھے گئے مقالات پر جس انداز سے بحث کرتے تھے اس سے مرحوم عنوان چشتی اور شمیم حنفی اور دیگر اساتذہ فریاد آزر کے داخلے سے نہ صرف مطمئن ہو گئے بلکہ عنوان چشتی مرحوم نے فریاد آزر کو اپنی شاعرانہ شاگردی میں بھی لے لیا اور ایم اے کے بعد شمیم حنفی صاحب فریاد آزر کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ عنوان صاحب کی شاگردی میں فریاد آزر غزل کی طرف مائل ہو گئے اور صحیح معنوں میں ان کی شاعری کا آغاز بھی جامعہ ملیہ سے ہی ۱۹۷۸ء سے ہوا۔

اب فریاد صاحب پی ایچ ڈی کے مقالہ میں کم اور شعر و شاعری میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ پانچ سال تک مسلسل جامعہ اسٹور کے ارشاد ٹی اسٹال پر صبح صبح بیٹھ کر سامعین کا انتظار کرتے اور انہیں چائے پلوا کر غزلیں سناتے۔ سامعین ایک چائے اور غزل کے بعد چلے جاتے مگر فریاد صاحب دوسرے سامعین کے منتظر رہتے۔ اسی طرح سامعین بدلتے رہتے چائے چلتی رہتی اور شام ہو جاتی اور فریاد صاحب اگلے دن پھر آنے کے لیے گھر چلے جاتے۔ طالب علمی کے دور میں اتنا پیسا خرچ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے کہ فریاد آزر کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے ایک ترکیب نکال رکھی تھی کہ سبھی کو آدھی یعنی ایک بٹے دو چائے پلوایا کرتے تھے۔ مگر اس کے لیے انہوں نے ارشاد بھائی اور ان کے ملازمین کو ایک کوڈ ورڈ بتا رکھا تھا۔ یعنی اگر چار لوگ موجود ہوں اور آدھی آدھی چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’ہو جائے ‘ لیکن اگر سب کو پوری پوری چائے پلوانی مقصود ہو تو یہ کہا جائے گا کہ ’چار چائے ‘۔ اس سے کسی کو پتہ نہیں چل پاتا تھا کیوں کہ چائے تو اتنی ہی ہوتی تھی بس کوالٹی میں تھوڑا فرق ہوتا تھا۔

لیکن یہ راز اس وقت کھل گیا جب ایک دن باذل عباسی مرحوم بحیثیت سامع اس چائے خانہ میں تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی چائے خانہ کا ملازم فریاد صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ ’’دو چائے یا ہو جائے ؟‘‘پھر بھی کب تک ادھار چلتی! ایک دن ارشاد بھائی نے رقم کا تقاضا کر ہی دیا۔ فریاد صاحب ان کی مذہب پسندی سے واقف تھے۔ انہوں نے ارشاد بھائی سے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ کو روز حساب پر یقین ہے ؟ ارشاد بھائی نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ الحمد للہ! فریاد صاحب فوراً بولے کہ پھر میرا اور آپ کا حساب وہیں ہو گا۔

پانچ سال گزر گئے اور پی ایچ ڈی کا کام برائے نام ہو پایا تھا۔ فریاد آزر اور شاہ رخ خان کو ایک ساتھ جامعہ سے نکال دیا گیا۔ شاہ رخ ٹی وی سیریل میں کام کرنے لگا اور آج ہندوستانی فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ ہے۔ فریاد صاحب اپنے دل سے جامعہ کی محبت نہیں نکال پائے لہٰذا انہیں ایک سال کی مزید مہلت دے دی گئی اور اسی سال موصوف نے واقعی دن رات محنت کر کے پی ایچ ڈی کا مقالہ پورا کر ہی لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد لکچرر بننے کی دل سے قطعی کوشش نہیں کی کیونکہ لکچرر شپ کے تمام اوصاف ہونے کے باوجود ایک وصف اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے۔ وہ یہ کہ پروفیسروں کے گھروں کے چکر اس دور میں بھی نہیں لگا سکے جب کہ ایسا کرنا نہایت ضروری تھا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ شعر و شاعری کے جنون کے دوران ہی ایک دوست کے مشورے پر جامعہ سے ہی بی ایڈ کر لیا تھا لہٰذا دال روٹی چل رہی ہے ورنہ شاید دوسروں کی طرح پروفیسروں کے گھروں کے چکر لگا لگا کر لکچرر شپ حاصل کر ہی لیتے اور دال روٹی کے بجائے مرغ مسلم کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ دال اور مرغ کی قیمت میں آج کوئی فرق نہیں رہا۔

بی ایڈ کے دوران ہی فریاد آزر نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا جسے آج بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں بہت سے شعرا اپنے اپنے نام سے مشاعروں میں سنا دیتے ہیں اور پکڑے جانے پر معافی مانگ لیتے ہیں۔ وہ شعر یہ تھا ؎

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

آپ کا پہلا شعری مجموعہ خزاں میرا موسم ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ اسکول میں پڑھاتے ہوئے بچوں کو املا کے طور پر فی البدیہہ نظمیں لکھواتے تھے جسے اردو اکادمی نے ۱۹۹۸ء میں بچوں کا مشاعرہ کے نام سے خود شائع کیا۔ ۲۰۰۵ء میں تیسرا شعری مجموعہ قسطوں میں گزرتی زندگی شائع ہوا اور چوتھا شعری مجموعہ کچھ دن گلوبل گاؤں میں ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا جسے اردو اکادمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کی شاعری کے معیار کو دیکھتے ہوئے ان کے پہلے اور دوسرے مجموعوں کو بھی ایوارڈ سے یقیناً نوازا جاتا لیکن جس ادارے کے مالی تعاون سے دونوں کتابیں شائع ہوئی تھیں، وہی ادارہ قانوناً ان کتابوں پر ایوارڈ نہیں دے سکتا تھا۔ خیر یہ تو اپنے اپنے مقدر کی بات ہے۔

بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ ایوارڈ جیسی چیز خود ہی دوڑ بھاگ کر کے حاصل کر لیتے ہیں مگر آزر صاحب اس انتظار میں ہیں کہ شاید ایمانداری سے ان کو ان کی شاعری پر ایوارڈ آج نہیں تو کل مل ہی جائے گا۔ یہ میں کیا آپ سبھی اسے خوش فہمی محض مانتے ہوں گے۔ خود فریاد صاحب فرماتے ہیں ؎

ورنہ مرا مزاج مجھے مار ڈالتا

شامل مرے وجود میں خوش فہمیاں بھی تھیں

ڈاکٹروں کے مطابق کینسر کا کوئی علاج نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خوش فہمی کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ خوش فہمی اور امید کا چولی اور دامن کا ساتھ ہے یہ بات تو ڈاکٹر صاحب بھی جانتے ہیں مگر وہ اتنے بھی سادہ لوح نہیں ہیں۔ ہمیشہ ’امید‘ سے رہیں۔ انہیں زندگی اور حالات کا زبر دست تجربہ ہے ورنہ یہ شعر نہ کہتے ؎

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا کرب کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سنجیدگی فریاد آزر کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن کوٹنے اور چھاننے کے دوران طنز و مزاح کے عناصر بھی اس میں شامل ہو گئے اور کبھی کبھی یہ طنز و مزاح اردو کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا بہترین سرمایہ بن جاتا ہے۔

ان کی ایک مزاحیہ غزل (جو کہ احمد فراز کی مشہور غزل کی پیروڈی ہے) کے چند اشعار حاضر ملاحظہ فرمائیں ؎

’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘

سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں

ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا

سو ہم بھی چار چھ مِس کال کر کے دیکھتے ہیں

جن عاشقوں کو بڑھاپے کی پونچھ اگنے لگی

سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں

بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے

لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے

تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی

وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے

سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں

وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے

رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں

سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے

کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

مجھے بھی آج کسی پارلر میں لے چلئے

اسے رقیب بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہماری بات ہوئی تھی نہ دیکھنے کی اسے

ہم اپنی بات سے پھر بھی مکر کے دیکھتے ہیں

مشاعروں کے لئے چاہئے غزل اس کو

یہی ہے مانگ تو پھر مانگ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے شوق ہے تیمار داریوں کا اسے

سو اپنے آپ کو بیمار کر کے دیکھتے ہیں

سنا گیا ہے کہ مردہ پرست ہے وہ بھی

تو جھوٹ موٹ کا پھر ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے لی ’جوڈو‘ کی تربیت اس نے

رقیب دور سے ہی اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

مکان اس کا ہے سرحد کے اس طرف لیکن

ادھر کے لوگ بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

’فرازؔ تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی‘

سو اس گلی سے اب آزرؔ گزر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح احمد فراز کی ایک اور غزل کی زمین میں فریاد آزر کا کمال دیکھیں:

یہ ہے عشق دورِ جدید کا، یہ معاشقہ کوئی اور ہے

میں زکام ہوں کسی اور کا، مجھے چھینکتا کوئی اور ہے

مری زندگی بھی عجیب ہے، مرا کتنا گھٹیا نصیب ہے

میں سہاگ ہوں کسی اور کا، مجھے پیٹتا کوئی اور ہے

کوئی شاعروں کو بلائے کیوں، کوئی اچھا شعر سنائے کیوں؟

ہے یہاں گویّوں کا جمگھٹا، یہ مشاعرہ کوئی اور ہے

کوئی سوکھتا ہے چھوارے سا، کوئی پھولتا ہے غبارے سا

میں کما کے لاتا ہوں دم بہ دم پہ ڈکارتا کوئی اور ہے

جو زمین ہم نے خرید لی، کہیں جا کے تب یہ خبر ہوئی

وہ زمین تھی کسی اور کی، اسے بیچتا کوئی اور ہے

مجھے کس نے الّو بنا دیا، مرے سر پہ سہرا سجا دیا

میں نے ان کا گھونگٹ اٹھا دیا تو پتہ چلا کوئی اور ہے

یہ سیاستوں کے معاملے، انھیں ہم کبھی نہ سمجھ سکے

یہاں بھونکتا کوئی اور ہے، ہمیں کاٹتا کوئی اور ہے

جو میں اک مشاعرے میں گیا، مجھے سن کے سب نے یہی کہا

جہاں بلبلیں ہوں غزل سرا وہیں رینکتا کوئی اور ہے

جو ہوا کہیں کوئی حادثہ، مجھے سیدھا آ کے دھرا گیا

کئی سال بعد پتہ چلا پسِ حادثہ کوئی اور ہے

٭٭٭

منفرد لہجہ کا شاعر: فریاد آزرؔ ۔۔۔ احسن امام احسن

دورِ جدید میں چند مختلف اور منفرد شعرا ہیں جو اپنے کلام کے مخصوص انداز کی وجہ سے منفرد کہلاتے ہیں۔ ان ہی منفرد شعرا میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹر فریاد آزرؔ کا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انھیں پڑھتا آ رہا ہوں۔ وہ واقعی متاثر کرنے والی شاعری کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر جو میرے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں :

وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں

خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں

ہم اپنے بچوں کو اردو سے رکھ کے ناواقف

مٹا رہے ہیں خود اپنی زبان قسطوں میں

یہ دو شعر میرے ذہن و دل پر چسپاں ہو گئے۔ اس کے بعد فریاد ا ٓزر کا بغور مطالعہ کرنے لگا۔ ان کے مضمون باندھنے کا انداز عمدہ ہے۔ کس طرح کی باتوں کو کس انداز میں پیش کیا جائے، یہ ان کے تخیل کی پرواز سے اندازہ ہوتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آج کے دور کے شعرا سے بالکل الگ ہٹ کر کہنے کا انداز موصوف کا نرالا ہے۔ ان کی شاعری میں جا بجا اسلامی فکر نظر اتی ہے۔ ادبی محاذ کے مدیر جناب سعید رحمانی فرماتے ہیں :

’’اس حقیقت سے انکار نہیں جا سکتا کہ ڈاکٹر فریاد آزر کی شاعری کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ جس میں جدید معاشرہ کے جملہ مسائل اپنی تمام تر سنگینیوں کے ساتھ واضح نظر آتے ہیں تاہم ان کی شاعری کا ایک خوش گوار پہلو ایسا بھی ہے جو ان سب پر حاوی نظر آتا ہے اور وہ پہلو ہے اسلامی فکر جسے ان کی شاعری میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

فریاد آزر منفرد طریقہ سے اپنے جذبات، محسوسات، اور مشاہدات کو شعری پیکر میں عطا کرنا خوب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، اس آئینے میں آپ بھی زندگی کی تصویر دیکھیں :

عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی

بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا

جو مکا اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی

اس مکاں میں ہم کرائے دار ہو کر رہ گئے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا

رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

بدلے میں اس کی موت مرا میں میں تمام عمر

وہ شخص جی گیا مرے حصے کی زندگی

آج کے عہد میں یہ کھیل چل رہا ہے کہ بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے، کیا کہتے ہیں آزر صاحب، دیکھئے :

دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم

رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید

دوسری طرف والدین لڑکیوں کی شادی کے لئے پریشان رہتے ہیں، شاید اسی پریشانی کی وجہ سے اسے رحم میں مار دیتے ہیں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں جو پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہے شاید اسی کا اثر ہو کیوں کہ جدید دور میں مانگ اتنی بڑھ گئی ہے کہ والدین کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ آج ہمارا مزاج ایسا ہو گیا ہے کہ ہم خوب صورت لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ آج نیک سیرت لڑکیاں گھر میں بیٹھی ہیں۔ اس جدید دور میں لوگ سیرت لے کر کیا کیا کریں گے، صورت ہی سب کچھ ہے۔ ایک پیارا سا شعر جو یہ سارے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے :

ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں

خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

فریاد آزر کا شعور بالغ ہے، ان کے منفرد ہونے پر مشہور و معروف شاعر، و ادیب رفیق شاہین صاحب لکھتے ہیں :

’’نئے لب و لہجہ میں شعر کہنے والے اور بھی ہیں، لیکن فریاد آزر کی بات ہی نرالی ہے، ان کی آواز کے سر میں جو انوکھی دلکشی اور نغمگی کا پر تو ہے وہ کسی بھی شاعر میں موجود نہیں ہے۔ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے جو اپنی مخصوص کھنک اور تیکھے پن کی وجہ سے ان کی ایک الگ پہچان بن گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر ہم انہیں ایک بے مثال اور صاحبِ طرز شاعر کے خطاب سے پکاریں تو اس میں کسی کو اعتراض نہ ہو گا‘‘

رفیق شاہین کی بات میں پختگی لگتی ہے کیوں کہ جس انداز سے فریاد آزر شعر کہتے ہیں وہ دیگر لوگوں سے جدا اور نئے طرز کا ہوتا ہے۔ چند شعر پڑھ کر آپ بھی لطف اندوز ہوں :

کیوں نہیں یکبارگی کی موت مرتی زندگی

اے مری جاں کاہ قسطوں میں گزرتی زندگی

کن کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا مجھے

اس زندگی میں بارہا مرنا پڑا مجھے

یہ بلائیں سر سے کچھ ٹلتی نظر آتی نہیں

اب انہیں ہی زندگی کا استعارہ مان لو

یہ کیسے جرم کی پاداش ہے یہ زندگی جس سے

رہائی مل تو جاتی ہے سزا پوری نہیں ہوتی

ننھے بچپن میں بزرگوں سا تھ جس کا رکھ رکھاؤ

زندگی کی دوڑ میں وہ آدمی بچہ لگا

فریاد آزر نے کس کس نظر سے زندگی کو دیکھا ہے، زندگی کے نشیب و فراز کا Analysis خوب صورت انداز میں کیا ہے، زندگی کو استعارہ بنا کر بات کہنے کا انداز بھی ان کا مختلف ہے۔ عمران عظیم کہتے ہیں :

’’شکست و ریخت کے نوحوں کے علاوہ ان کی شاعری میں درد مندی کا احساس بھی ہے۔ فریاد آزر جس زمانی اور مکانی حدود میں رہتے ہیں، ان میں در پیش مسائل کو اپنی شاعری میں بڑی مہارت اور سلیقہ کے ساتھ اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں۔‘‘

واقعی فریاد آزر کی شاعری عمدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بلند خیال رکھنے والے معیاری شاعر ہیں، فریاد آزر پر اسرار کیفیات کو رمز و کنایہ کے ذریعہ پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موصوف عام روش سے ہٹ کر بھی معنوی و صوری اعتبار سے منفرد ثابت ہوتے ہیں، موضوعات اور مضامین کے خیال کا خاص آداب رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ فریاد آزر ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔

٭٭٭

غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

صحرا سے العطش کی صدا آ رہی ہے پھر

تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر

پھر بیعتِ یزید سے منکر ہوئے حسین

اور ظالموں کی فوج ستم ڈھا رہی ہے پھر

دوبارہ چکھ لیا نہ ہو ممنوعہ پھل کہیں

وہ بے لباسیوں میں گھری جا رہی ہے پھر

ہیں لوگ اپنے اپنے ہی خیموں کی فکر میں

اور سازشوں میں قوم بٹی جا رہی ہے پھر

اس نے تو جڑ سے کاٹ دیا تھا روایتاً

یہ سبز گھاس ہے کہ اُگی آ رہی ہے پھر

***

بے کراں شہرِ طلسمات سے آزادی دے

مجھ کو خوابوں کی حوالات سے آزادی دے

ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے

سطحِ ’اوزون‘ کو فضلات سے آزادی دے

تھک گیا ہوں تری شطرنج کی بازی سے بہت

زندگی مجھ کو شہ و مات سے آزادی دے

یہ بدل دیں نہ جہنم میں زمیں کی جنت

اس پرستان کو جنّات سے آزادی دے

ایک مدت ہوئی محبوب وطن سے نکلے

اب سکندر کو فتوحات سے آزادی دے

میں بھی کچھ زینتِ آفاق بڑھاؤں شاید

تو اگر مجھ کو غمِ ذات سے آزادی دے

اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے کی سیاہی کو ہٹا

دن دکھا مجھ کو بھی اب رات سے آزادی دے

***

تخیلات میں پھر تاج و تخت اُگنے لگے

زمیں ہٹی تو خلا میں درخت اُگنے لگے

جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے

اُسی زمین سے ہم لخت لخت اُگنے لگے

پھر انتخاب کا موسم گزر گیا شاید

پھر اُس کے ہونٹوں پہ لہجے کرخت اُگنے لگے

کچھ اِس طرح انھیں بے رحمیوں سے کاٹا گیا

نحیف پودوں کے پتے بھی سخت اُگنے لگے

خزاں نصیبی کا بوڑھا شجر بھی خوش ہے بہت

کہ برگ شاخوں پہ کچھ نیک بخت اُگنے لگے

تو کیا ہمیں بھی سفر کا پیا م آنے کو ہے

خیال و خواب میں کیوں سبز رخت اُگنے لگے

***

یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا ہوا

آتشِ نمرود میں سارا جہاں جلتا ہوا

پاؤں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر

اور سر پر بارِ سقفِ آسماں جلتا ہوا

نوحؑ کی امت ہے کاغذ کی سبک کشتی میں اور

خواہشوں کا ایک بحرِ بیکراں جلتا ہوا

ایک جانب یاس کی سرحد سے لپٹا شہرِ کفر

دوسری جانب امیدوں کا جہاں جلتا ہوا

سارے منظر ایک پس منظر میں گم ہوتے ہوئے

سبز لمحوں کا سنہرا کارواں جلتا ہوا

جسم سے باہر سنہرے موسموں کا سبز لمس

روح کے اندر کوئی آتش فشاں جلتا ہوا

٭٭٭

کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہجے میں

مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں

زمین پھر اسی مرکز پہ جلد آ جائے

ندائے ’’کُن‘‘ میں سنوں ابتدا کے لہجے میں

پرندے لوہے کے، کنکر بموں کے پھینکتے ہیں

عذاب ہم پہ ہے کیوں ابرہہ کے لہجے میں

قدم ادھر ہی اٹھے جا رہے ہیں جس جانب

سموم بول رہی ہے صبا کے لہجے میں

کشش تو چاند سے کچھ کم نہیں ہے اس میں بھی

مگر وہ ملتا ہے اکثر خلا کے لہجے میں

نئی ہواؤں کی یلغار سے نمٹنے کو۔!

میں زہر پینے لگا ہوں دوا کے لہجے میں

٭٭٭

حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھا

میں وہ زمین جس کا کوئی آسماں نہ تھا

سب میں کرائے داروں کے پائے گیے نشاں

جسموں کے شہر میں کوئی خالی مکاں نہ تھا

بچپن کے ساتھ ہو گیے بوڑھے تمام ذہن

ہم مفلسوں کے گھر میں کوئی نوجواں نہ تھا

چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر

خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا

لذت نہ مل سکی مری تخئیل کو کبھی

ورنہ مرے گناہ کا موسم کہاں نہ تھا

سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا مگر

تھا کون جسم جس کی اداؤں میں ہاں نہ تھا

ہر زاویے سے بول چکے تھے مرے بزرگ

باقی مرے لیے کوئی طرزِ بیاں نہ تھا

ان خواہشوں کی چھاؤں میں گزری تمام عمر

جن خواہشوں کے سر پہ کوئی سائباں نہ تھا

٭٭٭

پکار ۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزرؔ

(۱۷ اگست ۲۰۲۳ء کو فیس بک میں علالت کی تصویر کے ساتھ پوسٹ کی گئی آخری بلا عنوان نظم، اس کا عنوان مدیر کا دیا ہوا ہے)

یہ میں ہی ہوں

یہ میں ہی ہوں جسے سب لوگ بیماروں کی دنیا میں

اچانک چھوڑ آئے تھے

میرے اعضا کو اکثر منتشر لمحوں نے جانچا تھا

لہو میرے بدن کا کچھ مشینوں کو پلا کر مجھ کو پرکھا تھا

پھر اس کے بعد مردہ خانے کی تاریک گلیوں میں مجھے بھی چھوڑ آئے تھے

فرشتوں نے کہا آزر تمھاری زندگی باقی ہے صدیوں کی

ابھی تم کو اسی دنیا میں رہنا ہے

تمھارا وقت آئے گا تو ہم تم کو پکاریں گے!!!

٭٭٭

OOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل