فہرست مضامین
- ریاضِ دانش
- انتساب
- اے مرے مالک ترے جود و سخا کی دھوم ہے
- ہم نے لوگوں کے دل جیتے
- اگرچہ تخمِ وفا بکھیرا
- اگرچہ نہیں اچھے حالات میرے
- ادب میں بہت ہم نے قربانیاں دیں
- کسی سے نہیں ہے ہنر اپنا کم بھی
- نہ سمجھے یہاں کوئی میرے مسائل
- خوشی کی دنیا بسانا چاہوں
- من میں برپا ہے اک ہلچل
- آنسو بہا کے دیکھا
- تری جب یاد آتی ہے مرا دل جھوم جاتا ہے
- شب بیداری کرتا ہوں
- صلہ ہم نے چاہا سزا مل گئی ہے
- آیا تمہیں نہ ہرگز اب تک خیال میرا
- نہ پاس بھٹکی کبھی ہزیمت
- عجب زندگی کی ادا ہو گئی ہے
- تمہاری یاد آتی ہے
- زندگی اپنی ہے گویا اک ادھوری داستاں
- جبر بن کے رہ گئی ہے زندگی
- نوچ ڈالا ہے اندھیروں نے سحر کے نور کو
- کوئی ہمارے حال کا پرساں نہیں
- ہائے تو نے کیا کیا؟
- پیار ہے پر کیف سی اک آرزو
- عشق ٹھہرا ہے ہمارا پیشوا
- بے کیف سے ہیں زندگی کے رنگ بھی
- شب و روز فن کی ریاضت ہے جاری
- ترے ساتھ میری رہیں گی دعائیں
- سدا میں نے سیکھی کفایت شعاری
- کسی خوابیدہ چہرے کی اداؤں کا میں شیدا ہوں
- شدید جوشِ جنوں نہیں ہے
- کوئی اپنا مہرباں ہو
- نہیں معتبر کوئی اپنی نظر میں
- زندگی اک درد ہے اور درد کی تصویر بھی
- کون کہتا ہے کہ میں ہوں بے وفا؟
- لوگ میرے معترف ہیں با وفا مشہور ہوں
- میں حریصِ حسن ہوں اور حسن ہے منزل مری
- کیا کسی کو دوش دوں ویرانیاں قسمت میں ہیں
- کوئی نہیں ہے دلربا بے کیف سی ہے زندگی
- نئے لفظ کو قافیہ جب بنائیں
- وار قاتل تری اداؤں کے
- میرا رہا معاون میرا دماغ ہے
- عشق سچا ہو تو پھر ہے عاشقی کا لطف بھی
- اذیتوں میں قرار کیسا؟
- جیون جنوں نہیں ہے
- خدا نے تجھے اچھی صورت عطا کی
- جہاں کے رویوں سے خائف رہا ہوں
- مرے چار سو نفرتیں خیمہ زن ہیں
- مرے پاس دولت ہے فکر و نظر کی
- رہی ہے مجھے تیری قربت کی حسرت
- عشق مرغوب ہے
- زندگی کے پیچ و خم سمجھے نہیں
- زندگی تنہا سفر ہے ہم نفس
- عشق میں رسوا ہوئے
- دل کی دنیا تو مری ویران ہے
- زندگی مشکل بھی ہے آساں بھی ہے
- کون کرتا ہے وفائیں عمر بھر؟
- اک انوکھی داستاں ہے پیار کی
- زندگی کس درد کی تفسیر ہے؟
- حسیں زندگی ہے بتائی سدا
- پاس میرے بے قراری دم بہ دم
- کب ہماری آپ کو پروا رہی
- مجھے مال و دولت سے الفت نہیں ہے
- کروں کیسے میں چاہتوں کا احاطہ؟
- کوئی کیا کسی کا بنے گا سہارا؟
- نہیں زندگی نام سکھ اور سکوں کا
- مرے پاس ہیں کچھ فسانے الم کے
- نہ کی شاعری زلف کے پیچ و خم کی
- میں اکیلا ہوں اک زمانے سے
- دشمن جاں کیوں زمانہ ہو گیا؟
- مجھے ہر کسی سے وفا چاہیے
- مری زندگی اس لیے اک سزا ہے
- عمر بھر کی ہیں وفائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
- جمال ہے لاجواب تیرا
- جو خواب تھے وہ ہیں خواب ٹھہرے
- عجیب سا کچھ سماں ہے جیون
- ہم نے سب کچھ تج دیا اک بے وفا کے پیار میں
- تلخیاں زندگی کا مقدر بنیں
- کیا کریں دہر میں بے حسی ہے جواں؟
- اس لیے زندہ رہنے کی عادت ہوئی
- زندگی صرف غم سے عبارت نہیں
- سدا مصلحت کے تقاضے نبھائے
- جو تجھ سے مری آشنائی نہ ہوتی
- میں کسی کے ہجر میں رسوا نہیں
- لینا دینا ہے کیا زمانے سے
- ہم نے تم سے کی وفا ہر گام پر
- ہیں سبھی اہلِ خرد کوئی بھی اہلِ دل نہیں
- یہاں مرا کون راز داں ہے؟
- کی محبت میں نے تم سے تم نے نفرت دان کی
- مری وفا پر نہ حرف آئے
- محبتوں کی بقا ہے ہم سے
- وہ افسانہ ہم نے جہاں کو سنایا
- ہمیں کسی نے نہ پیار بخشا
- سکوں میرے وہم و گماں میں نہیں ہے
- اذیتیں کیوں جواں ہیں میری؟
- محبتوں کو زوال کیوں ہے؟
- ملے ہو تم تو سکوں ملا ہے
- عمر بھر ہم شاعری کرتے رہے
- فسانے لکھے ہیں سدا چاہتوں کے
- رقم کر رہا ہوں ستم کی کہانی
- نہیں زندگانی میں تسکین و راحت
- ملا کیجئے ہم سے خلوت میں جاناں
- مجھے اس جہاں سے نہیں کوئی رغبت
- رہی وفا کی تلاش جاری
- کسی کی الفت نہ راس آئی
- سدا ہم نے کھائے اداؤں سے دھوکے
- وفاؤں کے نغمات گاتے رہے ہیں
- مری بے سہاروں سے الفت رہی ہے
- بیاں کبھی نہ ہو سکی اذیتوں کی داستاں
- جو قربتوں میں سکوں تلاشیں تو فرقتوں کی ملے اذیت
- وہ جس نے ہم کو کیا ہے رسوا اسی سے ہم نے وفا نبھائی
- وصال رت کی حسین یادیں ہیں میری دولت
- خرد کی دولت جو پاس آئی
- رہی رتجگوں کو سدا مجھ سے نسبت
- عمر بھر پڑھتے رہے ہیں ہم نصابِ زندگی
- ہر گھڑی اک فکر ہے محوِ ستم
- ہر ڈگر بدنام سے ہیں
- کی کچھ مجھ کو پروا نہیں ہے مرے پاس دولت ہے فکر و نظر کی
- یہ عشق ہے مشکل سفر
- حیات میری اذیتوں کی ہے راجدھانی
- مری آگہی کیوں اثر سے ہے عاری؟
ریاضِ دانش
شبیر ناقدؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
اُن اربابِ قلم کے نام
جنہوں نے شعر و ادب کو وقار و اعتبار بخشا
اے مرے مالک ترے جود و سخا کی دھوم ہے
اے مرے منعم تری ہی ہر عطا کی دھوم ہے
ماں سے بھی بڑھ کر ہے تیرا پیار اور لطف و کرم
اے رحیم و مہرباں تیری وفا کی دھوم ہے
دان تیری ہے یہ میرا زندگانی کا شعور
ساری دنیا میں ترے حسنِ جزا کی دھوم ہے
تو مرا خالق مرا رازق مرا پروردگار
تیری صنعت کی ترے حسن و ادا کی دھوم ہے
ذکر جاری ہے مرے مولا ترا شام و سحر
اہلِ دانش میں تری حمد و ثنا کی دھوم ہے
تو ہے اول تو ہے آخر قادرِ مطلق ہے تو
ابتدائے کار کی بھی انتہا کی دھوم ہے
قول کا پکا ہے تو پیمان ہیں سچے ترے
ربِ ناقِدؔ تیرے فیضِ بے بہا کی دھوم ہے
ہم نے لوگوں کے دل جیتے
اب مسدود نہیں ہیں رستے
ہم شاید آکاش پہ ہوتے
تیرے ساتھ اگر نہ ہوتے
وہ تو اپنی ذات میں گم تھے
کیسے ساتھ ہمارے چلتے
موت سے ہم آغوش نہ ہوتے
جیتے جی ہم کاش نہ مرتے
وقت کی دولت جو کھو بیٹھے
رہ گئے ناداں ہاتھ ہی ملتے
کون بھلا پائے گا ہم کو؟
ہم ہیں سب کے دل میں بستے
سب ٹھہراتے ہم کو جھوٹا
ہم جو سچی بات نہ لکھتے
وقت نے ہم کو ٹھکرایا تھا
کیسے اپنے بھاگ سنبھلتے
ہم باغی ہر عہد کے ناقِدؔ
ہم کیسے حاکم سے ڈرتے؟
اگرچہ تخمِ وفا بکھیرا
رہا ہے پھر بھی یہاں اندھیرا
محبتیں کیا فروغ پائیں؟
ہے وحشتوں کا یہاں بسیرا
جو چار سو تیرگی ہے چھائی
کہاں مقدر میں ہے سویرا؟
جہاں میں جتنے ستم ہوئے ہیں
ہے دوش میرا ہے دوش تیرا
گلہ کروں کیا کسی کا ناقِدؔ؟
یہاں تو کوئی نہیں ہے میرا
اگرچہ نہیں اچھے حالات میرے
نہیں باغیانہ خیالات میرے
کسی کی سمجھ میں نہ آئیں گے ہرگز
ہیں کچھ ایسے طرفہ سوالات میرے
گراں طبع نازک پہ گزریں نہ شاید
ذرا تلخ رہتے ہیں جذبات میرے
میں کیسے سخن کی بلندی پہ پہنچا؟
مجھے لے گئے ہیں خیالات میرے
تو اعراض کر پائے گا کیسے مجھ سے
مسلّم ہیں ناقِدؔ کمالات میرے
ادب میں بہت ہم نے قربانیاں دیں
زمانے نے کب ہم کو آسانیاں دیں
نہیں لکھتے لکھتے کبھی بھی تھکے ہم
طبیعت نے ہم کو وہ جولانیاں دیں
سدا ہم مصائب میں الجھے رہے ہیں
کہ طوفاں نے ہم کو ہیں طغیانیاں دیں
ہمیں اس نے بخشی ہے فہم و فراست
مگر تم کو اُس نے ہیں نادانیاں دیں
سدا ہم نے تم کو ہے مسرور دیکھا
مگر تم نے ہم کو پریشانیاں دیں
غلط کام جس نے بھی ناقِدؔ کیے ہیں
مشیت نے اس کو پشیمانیاں دیں
کسی سے نہیں ہے ہنر اپنا کم بھی
کہ دیوانے شعر و ادب کے ہیں ہم بھی
سدا مسکراتے ملیں گے جہاں کو
ہیں سینے میں پنہاں اگرچہ الم بھی
زمانہ بہت خوف کھاتا ہے ہم سے
کہ ہے مثل خنجر ہمارا قلم بھی
پرانے ہوئے عشق و الفت کے قصے
فسانے نئے ہو گئے ہیں رقم بھی
زباں پر تری ورد ہے لا الہ کا
تری آستیں میں چھپے ہیں صنم بھی
ملے گی تمہیں پھر پذیرائی ناقِدؔ
کرو پہلے اپنے دل و جاں بہم بھی
نہ سمجھے یہاں کوئی میرے مسائل
کیا ہے اسی سوچ نے مجھ کو گھائل
یہ دشوار ہے تو مری بات مانے
کروں چاہے جتنا بھی میں تجھ کو قائل
کروں جس قدر میں محبت کے دعوے
نہ ہو گا وہ بے درد الفت پہ مائل
بتا کیسے ان کی ملاقات ہو گی؟
وہ مابین جن کے ہو دیوار حائل
ترے عہد پر اب بھروسہ نہیں ہے
مجھے چاہے جتنے بھی دے تو دلائل
کہانی محبت کی ہے جزوِ اعظم
زمانے میں دیکھے ہیں جتنے رسائل
یہ دنیا ہوس کا ٹھکانہ ہے ناقِدؔ
اسی کے ہی باعث لڑے ہیں قبائل
خوشی کی دنیا بسانا چاہوں
میں غم کو اپنے بھلانا چاہوں
نہ کوئی مجھ سے رہے گریزاں
میں سب کو اپنا بنانا چاہوں
جو تیری فرقت میں وقت گزرا
سنو اگر تو سنانا چاہوں
ہو جس کا عنوان عشق و الفت
میں گیت ایسا ہی گانا چاہوں
وفا نہیں ہے جہاں میں ناقِدؔ
میں ایسی دنیا سے جانا چاہوں
من میں برپا ہے اک ہلچل
پیار کی ہے یہ منزل اول
بے چینی ہے بے تابی ہے
جس کا نہیں ہے دنیا میں حل
دل کیا ہے معلوم تمہیں ہو
دل ہے دلبر دل ہے راول
تجھ کو میری فکر نہیں ہے
میں ہوں تیرے عشق میں بے کل
دنیا ٹھیک ہی کہتی ہو گی
ناقِدؔ ہے سودائی پاگل
آنسو بہا کے دیکھا
غم آزما کے دیکھا
آیا نہ رحم تم کو
دل کو جلا کے دیکھا
آیا نہ کوئی ملنے
آنگن سجا کے دیکھا
آئے نہ تم پلٹ کر
ہر دم بلا کے دیکھا
تم بھولنے نہ پائے
تم کو بھلا کے دیکھا
مانا نہیں وہ ناقِدؔ
خود کو رلا کے دیکھا
تری جب یاد آتی ہے مرا دل جھوم جاتا ہے
تری یادیں ہیں سرمایا سو دل تسکین پاتا ہے
وہ اوروں کا ہے دیوانہ مگر مجھ سے ہے بیگانہ
کرم ہے اس کا غیروں پر مجھے پھینگا دکھاتا ہے
کوئی اس کو نہیں سمجھا وہ اک طرفہ طبیعت ہے
انوکھے شعر لکھتا ہے نرالے گیت گاتا ہے
ہمیں برسات کے دلدار موسم میں جو ملنا تھا
چلے آؤ مرے ہم دم تمہیں ساون بلاتا ہے
ہے میرا تجربہ ناقِدؔ سو میرا تم یقیں کر لو
جو غم سے چور ہوتا ہے وہی محفل سجاتا ہے
شب بیداری کرتا ہوں
شب بھر آہیں بھرتا ہوں
پائی ہے اس طور حیات
جیتا ہوں نہ مرتا ہوں
گرچہ لوگ بھیانک ہیں
میں اللہ سے ڈرتا ہوں
باتیں چاہیں جتنی ہوں
سب پہ کان میں دھرتا ہوں
جتنا گہرا ساگر ہو
ناقِدؔ پار اُترتا ہوں
صلہ ہم نے چاہا سزا مل گئی ہے
وفاؤں کے بدلے جفا مل گئی ہے
مسرت ملی ہے سدا جس سے مجھ کو
وہی مجھ کو دلکش ادا مل گئی ہے
سدا زندہ رہنے کے تھے خواب دیکھے
بقا کی بجائے فنا مل گئی ہے
سماعت میں رس گھولتا ہے تکلم
مجھے ایسی اک خوش نوا مل گئی ہے
اگر تو ملا ہے تو سب کچھ ملا ہے
مجھے جانِ ناقِدؔ وفا مل گئی ہے
آیا تمہیں نہ ہرگز اب تک خیال میرا
جانا کبھی نہیں ہے تم نے ملال میرا
سب کو کرے پریشاں سب فکر میں ہیں غلطاں
سب کے لیے ہے مشکل طرفہ سوال میرا
صد شکر میں نہیں ہوں شرمندۂ ہزیمت
میں سرخرو رہا ہوں ہے یہ کمال میرا
میری متاعِ ہستی میرا بھرم اثاثہ
میرا رہا معاون پیہم جلال میرا
راغب نہ کرنے پائی کوئی خوشی جہاں کی
غم سے رہا ہے ناقِدؔ رنگین حال میرا
نہ پاس بھٹکی کبھی ہزیمت
کہ مجھ پہ راضی رہی مشیت
کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
خلوص مجھ کو ہوا ودیعت
رہِ وفا پر تھا گامزن میں
نہ تھی نصیحت کی بھی ضرورت
مروتوں کا تھا پاس مجھ کو
کدورتوں سے مجھے تھی نفرت
مجھے تمہاری طلب تھی ناقِدؔ
ملے نہ تم تو ہوئی اذیت
عجب زندگی کی ادا ہو گئی ہے
کہ ہستی بھی اپنی سزا ہو گئی ہے
مجھے مرگ نے جاوداں کر دیا ہے
قضا میری خاطر بقا ہو گئی ہے
اگرچہ جفا کا سزاوار تھا تو
جفاؤں کے بدلے وفا ہو گئی ہے
کسی سے میں ناراض کیسے رہوں گا
مجھے نرم خوئی عطا ہو گئی ہے
وہ دنیا جسے تو نے سینچا لہو سے
ترے ساتھ وہ بھی فنا ہو گئی ہے
کرم کیا کیا مجھ کو رسوا کیا ہے
سو از راہِ الفت جفا ہو گئی ہے
میں جس کے سبب ایسا بے کل ہوں ناقِدؔ
کوئی ایسی لغزش روا ہو گئی ہے
تمہاری یاد آتی ہے
نئے سپنے دکھاتی ہے
تمہاری ہر جفا جاناں
ہمیں پیہم رلاتی ہے
تمہاری بے وفائی کا
صبا سندیس لاتی ہے
تمہاری فکر ہے ہم کو
ہمیں کب نیند آتی ہے
وہ خود روتی ہے راتوں کو
ہمیں بھی وہ جگاتی ہے
جنہیں ہم بھولنا چاہیں
وہی قصے سناتی ہے
نہ آتی ہے وہ خود چل کر
نہ ہم کو وہ بلاتی ہے
ادھورا ہوں بنا اس کے
وہ میرا گھر سجاتی ہے
سمجھ سے ماورا ہے وہ
نرالے گیت گاتی ہے
وفا ناقِدؔ ہے فطرت میں
وفا پہ جان جاتی ہے
زندگی اپنی ہے گویا اک ادھوری داستاں
مہرباں کوئی نہیں ہے سب ہوئے نامہرباں
دو گھڑی بھی رہ نہ پائے ہم یہاں آرام سے
اپنے مسکن میں رہا بے چینیوں کا اک سماں
دین و دنیا سے رہے ہیں ہم ہمیشہ بے نیاز
راس ہم اہلِ مروت کو نہ آیا کچھ یہاں
پاس اپنے درد و غم ہیں اور کوئی شئے نہیں
ہیں مصائب پاس اتنے جن کا مشکل ہے بیاں
کب خوشی مرغوب ہے اور کب سکوں مطلوب ہے
راس آئی ہیں مجھے ناقِدؔ سدا بے چینیاں
جبر بن کے رہ گئی ہے زندگی
کرب کا حاصل فقط ہے آگہی
ظلمتوں کا راج ہے ہر پل یہاں
ہر طرف چھانے لگی ہے تیرگی
ارتقا کے راز کو سمجھے نہیں
جیسے ہو بے کیف سی یہ روشنی
ہو گیا ابلاغِ حکمت شعر میں
درس کی صورت ہے اپنی شاعری
اور تو کوئی نہیں ہے ہم نوا
میں ہوں ناقِدؔ اور ہے میری خودی
نوچ ڈالا ہے اندھیروں نے سحر کے نور کو
ہم بھلا مانیں گے کیونکر ظلم کے دستور کو
ہیں اسی کے دم قدم سے دہر کی رعنائیاں
معتبر سمجھا کرو تم دوستو مزدور کو
کون کہتا ہے وفا ناپید ہے اس دور میں
ہے مگر یہ لازمی نزدیک جانو دور کو
جو وفا سے منحرف ہے وہ وفا سے دور ہے
تم کبھی مخلص نہ سمجھو بندۂ مغرور کو
ذات کے جو خول سے باہر کبھی نکلا نہیں
تم نہ جانو معتبر اس بندۂ مذکور کو
ہر خوشی ہے پاس ناقِدؔ ہر مسرت ہے بہم
تم کبھی سمجھے نہیں ہو بے بس و مجبور کو
کوئی ہمارے حال کا پرساں نہیں
گویا رہا اب درد کا درماں نہیں
یوں لٹ رہی ہے قوم کی جاگیر بھی
کوئی رہا تدمیر پر حیراں نہیں
اب زندگی سے تو نہیں کوئی گلہ
کوئی رہا دل میں مرے ارماں نہیں
دل میں کوئی حسرت نہیں ہے پیار کی
میں اب کسی کے ہجر میں غلطاں نہیں
تنہا بھی ہے غم گیر بھی ہے زندگی
ناقِدؔ ہمارا حلقۂ یاراں نہیں
ہائے تو نے کیا کیا؟
بین کرتی ہے وفا
میں کہ تیرا ہو گیا
تو نہ میرا ہو سکا
کب ہوئے ناراض ہم؟
ہیں ستم تیرے روا
ہجر میں بے کل رہے
پیار کی پائی سزا
کچھ گلہ تم سے نہیں
تم تو ٹھہرے پر جفا
کون ہے مخلص یہاں؟
کون اپنا ہم نوا؟
ہم ہیں ناقِدؔ ملتمس
پیار ہو ہم کو عطا
پیار ہے پر کیف سی اک آرزو
جو لیے پھرتی ہے مجھ کو کُو بہ کُو
چار دن کی زندگی ہے ہم سفر
آؤ مل بیٹھیں کریں کچھ گفت گو
اس جہاں میں کوئی بھی تجھ سا نہیں
کون ہے تجھ سا جہاں میں خوبرو؟
اک نظر تجھ کو تھا دیکھا شوق سے
ہے تری صورت نظر میں چار سو
اب کسی کی بھی طلب ناقِدؔ نہیں
تم ہی رہتے ہو مرے بس روبرو
عشق ٹھہرا ہے ہمارا پیشوا
ہر عمل کی ہے اسی سے ابتدا
تو نے رکھی ہے روا مجھ پر جفا
میں نے کر دی ہے وفا کی انتہا
تیرے میرے درمیاں یہ فرق ہے
تو ہے محرومِ وفا میں با وفا
میں تمہیں دوں گا سبق اخلاص کا
مجھ سے ملیے میں ہوں الفت آشنا
بھول کر نہ آئے گا ناقِدؔ کبھی
شہر تیرا ہے بہت ہی پر جفا
بے کیف سے ہیں زندگی کے رنگ بھی
راحت کہاں خوشیاں ہیں گرچہ سنگ بھی
تو نے وفا کے نام کو رسوا کیا
صلح بھی کی تو نے مجھ سے جنگ بھی
ابلاغِ حکمت ہو رہا ہے شعر میں
نغمہ مرا ہے بے رباب و چنگ بھی
جیون میں آیا کیا مرے وہ شوخ ہے
ڈالی اس نے رنگ میں ہے بھنگ بھی
اتنے ستم اس دلربا نے ہیں کیے
ناقِدؔ ہماری عقل ہے اب دنگ بھی
شب و روز فن کی ریاضت ہے جاری
کہ شعر و ادب سے محبت ہے جاری
کسی چیز کے میں تو لائق نہیں ہوں
رہی مجھ پہ رب کی عنایت ہے جاری
میں شکوہ کروں مجھ کو زیبا نہیں ہے
مرے ساتھ اس کی حمایت ہے جاری
میں کیسے کہوں وہ مجھے چھوڑ دے گا
ابھی تک تو اس کی رفاقت ہے جاری
کسی نے مرا دل دکھایا نہیں ہے
کہ مجھ سے جہاں کی مروت ہے جاری
کسی سے کہاں خوش ہوا کوئی حاسد
مرے ساتھ اس کی عداوت ہے جاری
نہ جانے کہاں ختم یہ سلسلہ ہو؟
ابھی تیری ناقِدؔ سے نفرت ہے جاری
ترے ساتھ میری رہیں گی دعائیں
بڑھیں جس قدر چاہے تیری جفائیں
ستم جس قدر تیرا بڑھتا رہے گا
مگر میری بڑھتی رہیں گی وفائیں
کسی غم سے ہرگز پریشاں نہیں ہوں
کہ خوش باش رکھتی ہیں تیری ادائیں
ہیں عقبیٰ میں ہم جا کے نردوش ٹھہرے
ملیں اس جہاں میں فزوں تر سزائیں
ہمیں چین کیسے میسر ہو ناقِدؔ
مخالف ہوئی ہیں چمن کی ہوائیں
سدا میں نے سیکھی کفایت شعاری
اسی طور ہے زندگی بھی سنواری
سدا زندہ رہنے کا دعویٰ ہو کیسے؟
یہاں سب کی سانسیں بھی تو ہیں ادھاری
سبھی ہاتھ خالی گئے ہیں جہاں سے
نہیں چیز کوئی ہماری تمہاری
نہیں کوئی چھوٹا بڑا اس جہاں میں
ہے قائم اسی کی فقط تاجداری
مجھے راس آیا سدا شکر کرنا
اسی رنگ میں زندگی ہے گزاری
مجھے دوسروں سے محبت ہے ناقِدؔ
ہے تفریق سے ماورا غم گساری
کسی خوابیدہ چہرے کی اداؤں کا میں شیدا ہوں
یہی ہے اک خطا میری اسی باعث ہی رسوا ہوں
مری دنیا مرے غم ہیں مرا مسکن مری خلوت
مجھے دنیا کہے ناداں مگر میں سب سمجھتا ہوں
کسی نے ساتھ کیا دینا کسی میں اب مروت ہے
کوئی مونس نہیں میرا میں اک عرصے سے تنہا ہوں
تجھے محفل میسر ہے تجھے خوشیاں بھی حاصل ہیں
تجھے ہے کیا غرض اس سے کہ میں بے بس اکیلا ہوں
انوکھی ہے مری ہستی سخن میں میرے ندرت ہے
جدا ہے طرز اوروں سے کہ میں ناقِدؔ نرالا ہوں
شدید جوشِ جنوں نہیں ہے
حیات میں بھی سکوں نہیں ہے
وہ اس لیے ہے بہت پریشاں
کہ حال میرا زبوں نہیں ہے
اسی لیے ہے خوشی میسر
کہ ہجر کا اب فسوں نہیں ہے
مجھے تشکر ہے راس آیا
سو غم بھی میرا فزوں نہیں ہے
جو درد بخشا ہے اس نے ناقِدؔ
وہ درد کچھ بے چگوں نہیں ہے
کوئی اپنا مہرباں ہو
جو غموں میں پاسباں ہو
اور کچھ ہو یا نہ ہو کچھ
صرف تیرا آستاں ہو
دکھ جہاں عنقا ہوں سارے
وہ زمیں وہ آسماں ہو
درس ہوں جس میں وفا کے
ایسی اپنی داستاں ہو
برق ہو جس سے گریزاں
ناقِدؔ ایسا آشیاں ہو
نہیں معتبر کوئی اپنی نظر میں
ہے سیکھا یہی زندگی کے سفر میں
سکوں سے بھلا کیسے جیون بتاؤں؟
مسلسل ہے میرا سفینہ بھنور میں
حقیقت ہے ہستی سے الفت ہے لازم
ملا کچھ نہیں زندگی سے مفر میں
میں کس کس کرم کی سناؤں کہانی؟
وفائیں بہت ہیں مرے چارہ گر میں
نظر سے مری اب چھپا کچھ نہیں ہے
جہاں سارا رہتا ہے میری نظر میں
شکایت ہو کیا مجھ سے اہلِ جہاں کو
میں چپ چاپ رہتا ہوں تیرے نگر میں
ہیں اشعار میرے بہت خوب ناقِدؔ
کہ اک دوسرے سے ہیں بڑھ کر اثر میں
زندگی اک درد ہے اور درد کی تصویر بھی
شاعری اپنی ہوئی ہے حزن کی تفسیر بھی
تم کبھی بھی میرے ہو سکتے نہیں ہے یہ یقیں
کوششیں گر لاکھ میں کرتا رہوں تدبیر بھی
دلربا اس کا کوئی کیسے بنے اس دور میں
جو ہے خود رانجھا بھی اپنا اور ہے خود ہیر بھی
چاہتا ہے جو وہی ہوتا وہی ہے ہم نفس
فیصلے بھی ہیں اسی کے اور ہے تقدیر بھی
عقل ناقِدؔ رہنما ہے اور جنوں ہے ہم سفر
اصل میں سپنا بھی ہے یہ خواب کی تعبیر بھی
کون کہتا ہے کہ میں ہوں بے وفا؟
میں نہیں رکھتا سلوکِ ناروا
شکر لازم ہے فقط اس ذات کا
جس کی رہتی ہے سدا مجھ پر عطا
ہونا تھا جتنا امر ہم ہو چکے
اور کیا مطلوب ہو ہم کو جزا؟
با وفا لوگوں کا یہ شیوہ نہیں
مان بھی جایا کرو تم التجا
ہم جہاں میں بے بس و مجبور ہیں
کون بنتا ہے ہمارا ہم نوا؟
زندگی زنداں بنی ہے دم بہ دم
ہم نے پائی عاشقی کی ہے سزا
میں ہوں ناقِدؔ اور میری شاعری
اور کوئی بھی نہیں ہے دل ربا
لوگ میرے معترف ہیں با وفا مشہور ہوں
شکر ہے میں انجمن در انجمن مذکور ہوں
ارتقائے بزمِ ہستی صرف میرے دم سے ہے
گو بظاہر بے بضاعت بے نوا مزدور ہوں
کون سنتا ہے کسی کی نفسا نفسی ہے یہاں
تم سمجھ سکتے نہیں میں کس قدر مجبور ہوں؟
جس کا فردا ہے فقط نابود کرنے کے لیے
یوں سمجھ لو دوستو میں ایسا اک دستور ہوں
زندگی غم سے عبارت ہے سراپا غم نہیں
دوستو یہ مت سمجھنا تم کہ میں مغرور ہوں
زندگی نے مجھ کو ناقِدؔ غم دیے ہیں بے شمار
بھاگتا ہوں زندگی سے اس لیے مفرور ہوں
میں حریصِ حسن ہوں اور حسن ہے منزل مری
اس لیے رنگین رہتی ہے سدا محفل مری
مشکلوں سے تو مجھے رغبت رہی ہے عمر بھر
اب کے لگتی ہے بہت آساں مجھے مشکل مری
کوئی مارے گا مجھے اتنا کسی میں دم نہیں
اک نگاہِ ناز ہی تو ہے فقط قاتل مری
بھول جائے وہ مجھے ممکن نہیں لگتا مجھے
یاد رکھتی ہے مجھے وہ دم بہ دم بسمل مری
ہیں من و تو لازم و ملزوم اے جانِ جہاں
میں ہوں ناقِدؔ تیرا قائل اور تو قائل مری
کیا کسی کو دوش دوں ویرانیاں قسمت میں ہیں
میں مفر جتنا کروں ناکامیاں قسمت میں ہیں
زندگی نے معجزے پل پل دکھائے ہیں مجھے
ہے حقیقت کیا کروں حیرانیاں قسمت میں ہیں
میرے جیون کا اثاثہ تو فراست ہے مری
میرا اس میں دوش کیا نادانیاں قسمت میں ہیں
ہر پری چہرہ نے مجھ کو دکھ دیے ہیں بے حساب
حسن کمزوری جنوں سامانیاں قسمت میں ہیں
سکھ مجھے سارے جہاں کے ہیں میسر غم نہیں
ہوں مقدر کا دھنی آسانیاں قسمت میں ہیں
بعد میں ناقِدؔ کسی کی سرد مہری آئے گی
اب کسی کے پیار کی جولانیاں قسمت میں ہیں
کوئی نہیں ہے دلربا بے کیف سی ہے زندگی
ہے مطلبی سا یہ جہاں کب راس ہم کو دوستی
اب نسل نو کی فکر بھی اک روگ بن کے رہ گئی
افسوس اب کے عام ہے اس دور میں بے راہروی
اس قدر ہے تنگ دستی پاس کچھ بھی تو نہیں
ہے اصل میں دولت مری میرے خرد کی روشنی
ہر سانس میرا کرب ہے پل پل عذابِ دید ہے
خود غرض ہر فرد ہے بے سود اب ہے آگہی
اک بے حسی کا عہد ہے کوئی معاون ہی نہیں
ناقِدؔ سبب اک ہے یہی ہے ساتھ پیہم بے کلی
نئے لفظ کو قافیہ جب بنائیں
تو بہتر ہے مضموں نیا لے کے آئیں
مسلسل ہمیں شوق رہتا ہے ہم دم
غزل میرؔ کی ہم سنیں اور سنائیں
نہ ہے روئے زیبا نہ میں نازنیں ہوں
مری کون لیتا ہے پل پل بلائیں
کسی نے کبھی بھی سنی تک نہ ہوں گی
ملی ہیں ہمیں عشق میں وہ سزائیں
ہمیں زیب ناقِدؔ جفا کب ہے دیتی؟
تمہیں زیب دیتی ہیں پیہم جفائیں
وار قاتل تری اداؤں کے
ہم بھی ہیں مستحق سزاؤں کے
تو جو خوش باش ہے سدا جاناں
ہیں اثر یہ مری دعاؤں کے
کوئی برکھا یہاں نہیں برسی
منتظر ہم رہے گھٹاؤں کے
ہم کو خاطر میں تو نہیں لایا
ہم نے پائے صلے وفاؤں کے
معتبر کیا کوئی نوا ٹھہرے
ہوں تصادم جہاں نواؤں کے
اب یہاں سے بھی کوچ کرنا ہے
لوگ ظالم ہیں تیرے گاؤں کے
جشن میں زندگی گزاری ہے
دیکھنے ہیں ستم ہواؤں کے
شعر میرے ہیں بے ثمر ناقِدؔ
جیسے نالے ہوں نارساؤں کے
میرا رہا معاون میرا دماغ ہے
میرے لیے تو جیسے روشن چراغ ہے
تم جو مجھے ملے ہو خوشیاں مجھے ملیں
من میں مرے مسرت دل باغ باغ ہے
تو نے ستم ہیں جاناں مجھ پر بہت کیے
زخمی ہے میری روح جگر داغ داغ ہے
جیون بھی اک نشہ ہے اے ہم نشیں یہ سن لے
میرے خیال میں یہ لبالب ایاغ ہے
ڈھونڈا بہت ہے ناقِدؔ مجھ کو نہ مل سکا
اس کی خبر نہ کوئی نہ کوئی سراغ ہے
عشق سچا ہو تو پھر ہے عاشقی کا لطف بھی
زندگی روشن بھی ہو گی زندگی کا لطف بھی
آگہی ہو گر سخن میں اور خرد کا پاس ہو
شاعری پھر شاعری ہے شاعری کا لطف بھی
ہیں مسائل پاس اتنے جن کا احصا ہی نہیں
پاس اپنے بے کلی ہے بے کلی کا لطف بھی
پیار تیرے نے مجھے عالم سے بیگانہ کیا
بے خودی مجھ کو میسر بے خودی کا لطف بھی
ہے جنوں بھی پاس اپنے اور خرد ہے رہنما
پیار کا اپنا مزہ ہے آگہی کا لطف بھی
اذیتوں میں قرار کیسا؟
ہے بے کلی پھر تو پیار کیسا؟
ہے زندگی غم کی راجدھانی
ہو بعد رحلت مزار کیسا؟
اسے جو دیکھا تو سوچتا ہوں
کہ حسن لایا نکھار کیسا؟
ترے ملن کی ہے رت سہانی
سماں بنا پُر بہار کیسا؟
مصیبتوں میں گھرا ہوں ناقِدؔ
ہو جب یہ عالم فرار کیسا؟
جیون جنوں نہیں ہے
چاہت فسوں نہیں ہے
تیرے ستم سلامت
فکرِ سکوں نہیں ہے
ہے شعر بے اثر جب
سوزِ دروں نہیں ہے
غم ہے مری حقیقت
غم بے چگوں نہیں ہے
رب کا ہے شکر ناقِدؔ
اذیت فزوں نہیں ہے
خدا نے تجھے اچھی صورت عطا کی
نہ پائی مگر تو نے فطرت وفا کی
بہت سے خصائل تری ذات میں ہیں
مگر ہے نمایاں یہ طینت حیات کی
کوئی مجھ سے جتنی بھی کر لے جفائیں
نہیں ہے مگر میری عادت جفا کی
میں اپنے مسائل پہ حاوی رہا ہوں
عطا کی ہے مالک نے قوت بلا کی
کسی کو ہے مرغوب شیطاں کی طاعت
کوئی کر رہا ہے عبادت خدا کی
کسی اور کو کیا وہ تکلیف دے گا؟
نہیں پاتا خود میں جو طاقت سزا کی
اگرچہ نہیں تھا محبت کے لائق
مگر میں نے تجھ سے محبت سوا کی
لگا ہے تمہیں سہل دنیا سے جانا
کہ دیکھی نہیں تم نے شدت قضا کی
اگر موت ہی ہے تقاضا قضا کا
تو کرتا نہیں میں حمایت دوا کی
جو چاہوں وہی رونما ہو جہاں میں
نہیں مجھ میں ایسی کرامت وِلا کی
کسی غم سے ناقِدؔ نہیں مار کھاتا
کہ دیکھی ہے اس نے قیامت ادا کی
جہاں کے رویوں سے خائف رہا ہوں
اسی خوف سے ہی اکیلا ہوا ہوں
مرا تیری دنیا سے جی بھر گیا ہے
رہوں خوش مجھے وہ وظائف عطا ہوں
رہے کیسے نالاں مری ذات سے تو؟
ستم تیرے جب میرے اوپر روا ہوں
کسی نے نہیں کی مری غم گساری
اسی کسمپرسی سے تنہا ہوا ہوں
یہ تفریق مجھ سے روا کیوں رہی ہے؟
کہ میں واسطے سب کے یکساں رہا ہوں
کوئی کیسے دے گا سزا مجھ کو ناقِدؔ؟
کہ میں اپنی ہستی میں خود اک سزا ہوں
مرے چار سو نفرتیں خیمہ زن ہیں
زمانے کے سارے سماں پُر فتن ہیں
کسی شخص کو دوش ہم دیں بھلا کیوں؟
ہمارے مخالف زمیں و زمن ہیں
چمن سے خزاں کب کی رخصت ہوئی ہے
عنادل کے نغمے ہیں سرو و سمن ہیں
بھٹکتا رہا ہوں سدا دشت و بن میں
مقدر میں میرے بھلا کب چمن ہیں
نہیں اس کی قسمت میں خوشیوں کے میلے
نصیبوں میں ناقِدؔ کے رنج و محن ہیں
مرے پاس دولت ہے فکر و نظر کی
سمجھتا ہوں میں قدر و قیمت بشر کی
مصائب سے مشکل ہوئی رستگاری
نہیں کارگر کوئی کاوش مفر کی
کرے کاش پورے وہ ارمان میرے
یہ توفیق ہو میرے لختِ جگر کی
یہاں میری خوشیوں کا خوں ہو رہا ہے
نہیں راس مجھ کو فضا اس نگر کی
یہ دنیا موافق نہیں اہلِ دل کے
ضرورت ہے ناقِدؔ جہاں سے حذر کی
رہی ہے مجھے تیری قربت کی حسرت
اسی میں ہی پنہاں ہے میری مسرت
شب و روز کا میرے مصرف یہی ہے
سدا کی ہے شعر و سخن کی ریاضت
کسی پہ دل و جان اپنے لٹا دوں
نہیں دیتی مجھ کو اجازت فراست
محبت سے میں اس لیے ہوں گریزاں
کہ اس عمر میں ہے محبت حماقت
تقرب سے میرے نہ تم خوف کھاؤ
نہیں میرے ہم راہ کوئی بھی وحشت
ہے تشکیک سے ماورا تیرا ناقِدؔ
کہ ہے جزوِ ذات اس کا شرم و شرافت
عشق مرغوب ہے
حسن مطلوب ہے
بے وفا ہی سہی
میرا محبوب ہے
شاعری تو مری
سعی مندوب ہے
میرا ہر اک ستم
تجھ سے منسوب ہے
تیرا ناقِدؔ فقط
جگ میں معتوب ہے
زندگی کے پیچ و خم سمجھے نہیں
آج تک دنیا کو ہم سمجھے نہیں
تجھ کو نسبت ہے فقط آرام سے
تو نے اب تک میرے غم سمجھے نہیں
کیا وہ سمجھیں گے زبانِ شعر کو؟
جو مرا فن اور قلم سمجھے نہیں
جسم و روح کے درمیاں ہیں فاصلے
ان کو ہم بھی تو بہم سمجھے نہیں
زندگی ہے اک مسافت دور کی
اس لیے ہم دو قدم سمجھے نہیں
مادیت میں ہیں بہت سے مسئلے
لوگ ناقِدؔ اس کے غم سمجھے نہیں
زندگی تنہا سفر ہے ہم نفس
کون ہوتا چارہ گر ہے ہم نفس؟
نفرتیں عنقا وفا کا راج ہو
کیا کوئی ایسا نگر ہے ہم نفس؟
کون ہے لائق وفا کے اب یہاں؟
سارے عالم پر نظر ہے ہم نفس
جو سہارا بن سکے ہر حال میں
غیرتِ نورِ نظر ہے ہم نفس
جو وفا کے نام پر مر مٹ گیا
آج بھی وہ در بدر ہے ہم نفس
پاس جس کے چھاؤں کا تحفہ نہیں
وہ شجر تو بے ثمر ہے ہم نفس
پھر تو کوئی دکھ مجھے لاحق نہیں
تو جو میرا ہم سفر ہے ہم نفس
بے بسی میں کون ہے مخلص یہاں
مطلبی ہر اک بشر ہے ہم نفس
اس پہ ناقِدؔ کب سکوں سے رہ سکا
یہ جو چاہت کی ڈگر ہے ہم نفس
عشق میں رسوا ہوئے
عمر بھر تنہا ہوئے
جو نہ اپنا ہو سکا
اس کے ہم شیدا ہوئے
جگ پہ ہے جس کی عطا
اس کے ہیں منگتا ہوئے
جن کا قائل ہے جہاں
وہ مرے داتا ہوئے
جو ہیں ناقِدِؔ بے وفا
وہ مرے متوا ہوئے
دل کی دنیا تو مری ویران ہے
پر بحالی کا بھی کچھ امکان ہے
تجھ کو پاؤں زندگی میں ایک دن
آج کل دل میں یہی ارمان ہے
خود کو تو ادنیٰ سمجھ بہتر ہے یہ
کون سا تو وقت کا لقمان ہے؟
تو نے مجھ سے بے وفائی کی سدا
اس لیے دنیا مری سنسان ہے
پاس میرے اور کچھ ناقِدؔ نہیں
میری پونجی تو مرا ایمان ہے
زندگی مشکل بھی ہے آساں بھی ہے
ہر کوئی اس بات پر حیراں بھی ہے
ہے مرے محبوب میں فہم و ذکا
وہ مگر تھوڑا بہت ناداں بھی ہے
زندگی میں ہیں بہت محرومیاں
وجہِ رنجش کاکل پیچاں بھی ہے
تم نے اس کو دکھ دیے ہیں بے حساب
اس میں اس کے کرب کا امکاں بھی ہے
جس پہ ناقِدؔ تم رہے ہو طعنہ زن
وہ تمہارے عشق میں غلطاں بھی ہے
کون کرتا ہے وفائیں عمر بھر؟
میں نے تجھ کو دی دعائیں عمر بھر
خندہ پیشانی سے میں سہتا رہا
کون سہتا ہے سزائیں عمر بھر؟
ہم وفاؤں کے سدا رسیا رہے
تو نے تو کی ہیں جفائیں عمر بھر
آزمایا ہم نے تیرے پیار کو
کیوں تجھے ہم آزمائیں عمر بھر؟
راستے اس کے ہمارے ہیں الگ
کیسے اس کو دیکھ پائیں عمر بھر؟
ہم نہ سرمد ہیں نہ ہم منصور ہیں
کیسے پھر مقتل سجائیں عمر بھر؟
تیرے حق میں ہے یہ ناقِدؔ کی دعا
دور ہوں تیری بلائیں عمر بھر
اک انوکھی داستاں ہے پیار کی
میں نے پائی ہے سزا اظہار کی
اک انوکھا شخص تھا وہ دلربا
جس نے ایسی جرأتِ انکار کی
پاسداری اس سے ممکن ہی نہ تھی
اپنے قول و فعل کی اقرار کی
میں نے روکا ہے رکا وہ تو نہیں
خواہ مخواہ کی زحمتِ اصرار کی
میرے بس میں اب رہا کچھ بھی نہیں
بات سمجھو تم ذرا لاچار کی
اس لیے ناقِدؔ میں اس پر مر مٹا
دل نشیں تھی ہر ادا دلدار کی
زندگی کس درد کی تفسیر ہے؟
آج کل یہ لائق تحریر ہے
شاعری گر سوز سے ہے ماورا
یوں سمجھ پھر بے اثر تقریر ہے
اپنا جیون تو کٹا ہے رنج میں
خواب ہے نہ خواب کی تعبیر ہے
جس نے عصیاں میں گزاری ہے حیات
پر خطا وہ بندۂ تقصیر ہے
کیا توقع ہو مجھے اس شخص سے
ہاتھ میں جس کے سدا شمشیر ہے
آگہی ہے خود سزا میرے لیے
درد ہے اور نہ کوئی تعزیر ہے
ہر خوشی سے دور ہے ناقِدؔ ترا
اس لیے تو حزن کی تصویر ہے
حسیں زندگی ہے بتائی سدا
کیا کام جو بھی ہے ڈھب سے کیا
مقدر نے کب ساتھ میرا دیا؟
کوئی بھی نہیں میرا مخلص بنا
اگرچہ میں کرتا رہا ہوں وفا
مگر ساتھ میرے ہوئی ہے جفا
یہاں کوئی مجھ سا نہیں بے نوا
کہ پیسے نہیں پاس بہرِ دوا
خدا کی رہی مجھ پہ ناقِدؔ عطا
مگر شکر مجھ سے ہوا کم ادا
پاس میرے بے قراری دم بہ دم
کر رہا ہوں آہ و زاری دم بہ دم
تم نے جب سے ہے مجھے ٹھکرا دیا
اشک آنکھوں سے ہیں جاری دم بہ دم
ہم ہوئے خوشحال ایسے تو نہیں
ہم نے ہستی ہے سنواری دم بہ دم
چھوڑ دی غمگین رہنے کی ادا
کون کرتا غم گساری دم بہ دم
پاس اپنے اب رہا کچھ بھی نہیں
سانس لیتا ہوں ادھاری دم بہ دم
کب ہماری آپ کو پروا رہی
اس لیے ہے دوستی رسوا رہی
ہجر میں گزرے شب و روزِ حیات
زندگی اس رنج میں تنہا رہی
میں رہا اس سے سدا محوِ کلام
وہ کبھی مجھ سے نہیں گویا رہی
جس کی خاطر دیں بہت قربانیاں
وہ پری ہے اب ہمیں تڑپا رہی
پیار ناقِدؔ تیری قسمت میں نہیں
بات یہ کب سے ہے وہ فرما رہی
مجھے مال و دولت سے الفت نہیں ہے
رہی دنیا داری سے رغبت نہیں ہے
فقط پیار ہی میں نے تم سے کیا ہے
ہوئی اور کوئی حماقت نہیں ہے
کروں میں زمانے میں رسوا تمہیں کیوں؟
مجھے خوش یہ طرزِ شرارت نہیں ہے
کرو ساری مخلوق سے خیر خواہی
کوئی اس سے بڑھ کر عبادت نہیں ہے
سدا فکر و فن کی ہے کی سیوا میں نے
بھلی اس سے کوئی ریاضت نہیں ہے
جہاں ٹھہریں کمزور طاقت کا مظہر
مرے ملک میں وہ قیادت نہیں ہے
تری بات سمجھیں سدا اہلِ دنیا
تری ایسی ناقِدؔ فراست نہیں ہے
کروں کیسے میں چاہتوں کا احاطہ؟
ہے ممکن کہاں الفتوں کا احاطہ؟
ہماری نظر میں یہ خامی بڑی ہے
کرے کوئی بس نفرتوں کا احاطہ
مجھے قربتیں راس آئی ہیں ایسی
نہ میں کر سکا قربتوں کا احاطہ
مرے پاس ہیں جراتوں کے فسانے
کوئی کیا کرے جراتوں کا احاطہ
تمہاری ہیں وہ نسبتیں ہم سے ناقِدؔ
نہ ہو گا کبھی نسبتوں کا احاطہ
کوئی کیا کسی کا بنے گا سہارا؟
نہ ہم ہیں کسی کے نہ کوئی ہمارا
نہیں ہے ستم اور سہنے کا یارا
سو مجھ پہ ذرا رحم کھاؤ خدارا
مری قربتوں سے نہ تم خوف کھاؤ
کہ اک ہم نوا ہوں فقط میں تمہارا
مرے صبر کا امتحاں اور کیا ہو؟
کہ کی ہیں تری سب جفائیں گوارا
خدا نے دیا ہے سدا ساتھ ناقِدؔ
اسے وقتِ مشکل ہے جونہی پکارا
نہیں زندگی نام سکھ اور سکوں کا
کہ ہے یہ فسانہ مسلسل دکھوں کا
مجھے فکر کب اپنی لاحق رہی ہے
رہا ہے مجھے غم فقط دوسروں کا
مری ہے یہ رائے حسینوں کی بابت
کہ یہ تو ہے اک طائفہ خود سروں کا
نہیں مال داروں سے مجھ کو محبت
میں حامی رہا ہوں سدا مفلسوں کا
مری شاعری پڑھ کے احساس ہو گا
بیاں جیسے ہو میرے حالِ زبوں کا
سخن میرا ہے آگہی سے عبارت
ہے غم اس میں ناقِدؔ فقط بے بسوں کا
مرے پاس ہیں کچھ فسانے الم کے
کہ گزرے ہیں مجھ پر زمانے الم کے
فقط ان سے ہی مجھ کو رغبت رہی ہے
کہ سنتا ہوں میں گیت گانے الم کے
نہیں ہے نئے رنج و غم کی کہانی
یہ قصے ہیں سارے پرانے الم کے
خوشی سے ہمیں اب سروکار کیوں ہو؟
کہ ٹھہرے ہیں ہم تو دیوانے الم کے
میں کیسے اسے راہ پر لاؤں ناقِدؔ
کہ دل ڈھونڈتا ہے بہانے الم کے
نہ کی شاعری زلف کے پیچ و خم کی
نہ ہے داستاں پاس باغِ ارم کی
مجھے دوستوں نے ہی گھیرا ہوا تھا
پناہ اس لیے میں نے لی ہے حرم کی
ترا کام ہے جھوٹے پیمان کرنا
نہیں لاج رکھتا کسی بھی قسم کی
زمانہ ہمیں یوں سمجھتا رہا ہے
کہانی ہوں ہم جیسے کوئے عدم کی
لیا ہم نے اس عہد میں سانس ناقِدؔ
نہیں جس میں تقدیس دیر و حرم کی
میں اکیلا ہوں اک زمانے سے
پاس آؤ کسی بہانے سے
مجھ کو مشقِ ستم بناتے ہو
باز آ جاؤ آزمانے سے
میرے غم کا علاج اس میں ہے
بچ سکوں گا تمہارے آنے سے
بعد اس کے نہ رہ سکوں گا میں
اور یاد آئے گا بھلانے سے
وہ جو ٹھہرے ہیں جان کے دشمن
دوست میرے ہیں وہ پرانے سے
اذن ہو تو یہ پوچھ لوں ناقِدؔ
کیا ملے گا مجھے ستانے سے
دشمن جاں کیوں زمانہ ہو گیا؟
مشتہر میرا فسانہ ہو گیا
اس نے غم اتنے کبھی دیکھے نہ تھے
جو ترے غم کا نشانہ ہو گیا
ہو رہی ہیں کو بہ کو رسوائیاں
پیار کرنا تو بہانہ ہو گیا
جو مخالف ایک عرصے سے رہا
اب اسی سے دوستانہ ہو گیا
تو جو آیا ہے تو ناقِدؔ یوں ہوا
آج موسم عاشقانہ ہو گیا
مجھے ہر کسی سے وفا چاہیے
کوئی خوبصورت ادا چاہیے
اگر تیری خواہش کوئی جرم ہے
تو اس جرم کی پھر سزا چاہیے
مجھے پیار تیرا اگر مل گیا
مرے ہم نشیں اور کیا چاہیے؟
نہیں حور و غلماں مقاصد مرے
مجھے تو مرا بس خدا چاہیے
مجھے بے غرض ہے طبیعت ملی
جزا چاہیے نہ عطا چاہیے
جو ناقِدؔ وفا دار دلدار ہو
مجھے ایسا اک دلربا چاہیے
مری زندگی اس لیے اک سزا ہے
کہ جرمِ طلب مجھ سے سرزد ہوا ہے
سدا اس لیے میں ہوں معتوب ٹھہرا
کہ سچ جس کو جانا کہا برملا ہے
میں ہوں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر
روا مجھ پہ تیری وفا یا جفا ہے
مری زندگی مجھ سے کیا کھیل کھیلے؟
مری فہم سے بالاتر یہ ادا ہے
بہت کچھ ملا ہے مجھے تجھ سے ناقِدؔ
مرا غم تری دوستی کی عطا ہے
عمر بھر کی ہیں وفائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
روز ہم نے کیں عطائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
کیا صلہ تو نے دیا ہے مجھ کو میرے پیار کا
حاصل جاں ہیں جفائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
ہم نے تیری خیر چاہی ہے سدا اے دلربا
تجھ کو پیہم دیں دعائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
خواہشِ دیدار ہے اور لن ترانی ہے جواب
تو نے دیں ہر دم سزائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
بس کسی کے پیار میں ناقِدؔ گزاری زندگی
ہم رہے لیتے بلائیں اور صلہ کچھ بھی نہیں
جمال ہے لاجواب تیرا
کہ ہے صباحت نصاب تیرا
ہوئے سرِ طور موسیٰ بے خود
اُٹھا ذرا سا حجاب تیرا
مجھے ڈراتا ہے روزِ محشر
بہت کڑا ہے حساب تیرا
عجیب تقسیم ہے مری جاں
گناہ میرے ثواب تیرا
نہیں ہے تیرے کرم کا احصا
ہے سخت بے حد عذاب تیرا
مجھے نہیں اور غم کوئی بھی
اگر نہ اترے عتاب تیرا
ہیں چار سو نور کے جھماکے
اُٹھا جو رخ سے نقاب تیرا
نہ تو سمجھ پایا مجھ کو ناقِدؔ
کہ میں ہوں مخلص جناب تیرا
جو خواب تھے وہ ہیں خواب ٹھہرے
مرے مخالف جناب ٹھہرے
رہی ہے میری یہی تمنا
کہ ہاتھ میں بس کتاب ٹھہرے
مرا مقدر سعادتیں ہیں
نصیب میں ہیں ثواب ٹھہرے
نہ غم کبھی بھی ہے پاس بھٹکا
ہیں آپ جو ہم رکاب ٹھہرے
ہمارے نغمات گیت ناقِدؔ
بشارتِ انقلاب ٹھہرے
عجیب سا کچھ سماں ہے جیون
مہیب دہشت دھواں ہے جیون
مجھے تو یہ مرگ سا لگا ہے
سمجھ نہ آئے کہاں ہے جیون؟
کبھی بڑھاپے کی داستاں ہے
کبھی مسلسل جواں ہے جیون
کبھی عبارت ہے بے حسی سے
کبھی تو عبرت نشاں ہے جیون
تمام خوشیاں ہیں تیرے دم سے
جہاں جہاں تو وہاں ہے جیون
وہاں خوشی کے ہیں شادیانے
مسرتیں ہیں جہاں ہے جیون
وہاں خوشی ہے یہاں ہے ماتم
وہاں ہے جیون یہاں ہے جیون
کوئی بھی ناقِدؔ سمجھ نہ پایا
اگرچہ پل پل رواں ہے جیون
ہم نے سب کچھ تج دیا اک بے وفا کے پیار میں
ہم نے اس کا قرب کھویا جرأتِ اظہار میں
ہم تمہاری ہر ادا کو پیار ہی سمجھا کیے
نفرتیں مضمر نہیں پائیں کبھی انکار میں
بات یہ ہے وہ مجھے اپنا سمجھتا ہی نہیں
خوبیاں یوں تو بہت ہیں بے وفا دلدار میں
دور کوسوں تم رہے ہو لذتِ ایثار سے
اور ہم رسوا ہوئے ہیں برملا اقرار میں
پھر بھی ناقِدؔ کو ترے تجھ سے کوئی شکوہ نہیں
گو رہا پل بھر نہیں ہے زلفِ نکہت بار میں
تلخیاں زندگی کا مقدر بنیں
اپنی محرومیاں ہیں ستم گر بنیں
جن کے دم سے تھے زندہ خلوص و وفا
ہستیاں ایسی پھر کیوں ہیں پتھر بنیں؟
سوچ آئی ہے مشکل میں اکثر یہی
سختیاں میری خاطر ہیں کیوں کر بنیں؟
جن کو خاطر میں لایا نہیں میں کبھی
اب وہ شخصیتیں میری رہبر بنیں
وقت کی قدر کرنا جنہیں آ گیا
ہستیاں ہیں وہ دارا سکندر بنیں
جانِ ناقِدؔ مجھ کیوں پسند آ گئیں؟
صورتیں جو ستم کی ہیں خوگر بنیں
کیا کریں دہر میں بے حسی ہے جواں؟
ہو گیا ہے جہاں ظلمتوں کا نشاں
زندگی بھر ہے کی میں نے آوارگی
کب میسر ہوا مستقل اک مکاں؟
ایک بیگانگی میری قسمت میں تھی
نہ کوئی ہم نفس نہ کوئی ہم زباں
جب سے تیرہ شبی ہے مقدر بنی
نہ ہے مونس کوئی نہ کوئی مہرباں
کچھ بھی ناقِدؔ نہیں میرے حق میں رہا
سب مخالف ہوئے ہیں زمین و آسماں
اس لیے زندہ رہنے کی عادت ہوئی
زندہ رہنا تو ہے اک روایت ہوئی
ہے غزل پر غزل میں نے اس دم کہی
جونہی موزوں مری ہے طبیعت ہوئی
پاس اس وقت میں کچھ بھی رکھتا نہ تھا
میری جس وقت دنیا سے رحلت ہوئی
شعر کہنا مرا ایک فن ہی تو ہے
کون کہتا ہے مجھ کو محبت ہوئی؟
میرے اشعار نے مجھ کو رسوا کیا
ورنہ مجھ کو کسی سے نہ چاہت ہوئی
تنگ دستی نے ناقِدؔ ہے تنہا کیا
میری غم خوار میری فلاکت ہوئی
زندگی صرف غم سے عبارت نہیں
صرف غم زندگی کی حقیقت نہیں
ہم جنوں کیش ہیں ہم وفادار ہیں
ہم نے رکھی روا کچھ حقارت نہیں
اجنبی شہر ہے اجنبی لوگ ہیں
ہم سے کوئی بھی کرتا محبت نہیں
آج کے دور میں کوئی مخلص کہاں
نفسا نفسی ہے کوئی مروت نہیں
بے حیائی کا ہے دور دورہ ہوا
آج مقبول شرم و شرافت نہیں
کیوں مشقت کی ہر اک اذیت سہوں؟
مجھ کو درپیش جبرِ ضرورت نہیں
جانے کیوں اتنے بے حس ہیں اہلِ جہاں؟
تو بتا خود ہی ناقِدؔ قیامت نہیں
سدا مصلحت کے تقاضے نبھائے
مگر اپنے حالات بہتر بنائے
وہ خوش حال جیون میں ہوتے بھلا کیا؟
ہیں اوقات اپنے جنہوں نے گنوائے
غرض نفرتوں سے ہمیں کب رہی؟
کہ نغمے وفا کے سدا ہم نے گائے
زمانہ مری قدر کرتا رہے گا
کہ اوصاف مجھ میں ہیں ایسے سمائے
مری جراتیں میری دم ساز ٹھہریں
وہ اپنے ہوئے ہیں کہ جو تھے پرائے
ہمارا تعلق ہے اس موڑ پر اب
نہ میں اس کو بھولوں نہ مجھ کو بھلائے
ہوئے چاک سارے رفو تیرے ناقِدؔ
مقدر نے تجھ کو یہ دن ہیں دکھائے
جو تجھ سے مری آشنائی نہ ہوتی
تو مجھ سے تری بے وفائی نہ ہوتی
اگر تم نہ میرا تمسخر اڑاتے
تو ایسے مری جگ ہنسائی نہ ہوتی
خدا اپنا محبوب گر نہ بناتا
محبت کی جگ میں خدائی نہ ہوتی
شرافت بھی ناپید ہوتی جہاں سے
اگر اس جہاں میں بھلائی نہ ہوتی
اگر مجھ سے نفرت ہی کرنی تھی تم نے
تو پھر میری دولت اڑائی نہ ہوتی
تری عقل مندی کے ہو جاتے قائل
یہ تجھ میں اگر خود ستائی نہ ہوتی
اگر زعم تھا پارسائی کا تجھ کو
تو کی پھر کسی سے برائی نہ ہوتی
یہ لازم نہیں تھا کہ تم ترس کھاتے
جو غم کی کہانی سنائی نہ ہوتی
اگر تجھ کو شکوہ ہے اہلِ جہاں سے
تو پھر ایسی دنیا بنائی نہ ہوتی
تری بات پھر معتبر ہوتی جگ میں
اگر خوئے ہرزہ سرائی نہ ہوتی
طرف داری کوئی تیری کیسے کرتا؟
اگر تجھ میں ناقِدؔ سچائی نہ ہوتی
میں کسی کے ہجر میں رسوا نہیں
غم بہت ہیں اور میں تنہا نہیں
کس طرح گزرے ہیں میرے رات دن؟
تم نے میرا حال تک پوچھا نہیں
اجنبی سا میں تری دنیا میں ہوں
تیری محفل میں مرا چرچا نہیں
کیوں رہوں غلطیدہ اس کے پیار میں
وہ ستم گر جو بنا میرا نہیں
اس نے ناقِدؔ زندگی برباد کی
مہرباں اس کو کبھی پایا نہیں
لینا دینا ہے کیا زمانے سے
ہم جڑے ہیں ترے فسانے سے
کوئی ان کو برا نہیں کہتا
وہ مرے دوست ہیں پرانے سے
بات سچی ہے لوگ کہتے ہیں
پیار بڑھتا ہے آزمانے سے
میں انہیں کس طرح بھلاؤں گا
بھولتے وہ نہیں بھلانے سے
میں تمہارا ہوں منتظر کب سے
آ بھی جاؤ کسی بہانے سے
غم تو ناقِدؔ پوتر جذبہ ہے
اور بڑھتا ہے یہ بڑھانے سے
ہم نے تم سے کی وفا ہر گام پر
مر مٹے ہیں ہم تمہارے نام پر
ہم نے سر آنکھوں پہ رکھا ہر ستم
کیوں خفا ہوتے کسی الزام پر؟
ان کی خاطر ہی کیا جو کچھ کیا
معترض کیوں ہیں وہ میرے کام پر؟
میں ترے احسان کا ممنون ہوں
ساتھ کچھ حیرت بھی ہے اکرام پر
ہر جفا تیری سمجھ سے ماورا
ہر سزا کی ہے روا بے نام پر
بالاتر ہے فہم سے اس کا سبب
لوگ امڈے ہیں کسی کہرام پر
کیوں نہ جانے لوگ بے حس ہو گئے؟
ترس کچھ آتا نہیں آلام پر
بردباری ایک جزوِ ذات ہے
میں خفا ہوتا نہیں دشنام پر
کام سارے میں نے پورے کر دیے
پھر بھی نالاں ہو مرے آرام پر
سب کا مالک ہے وہ سنتا سب کی ہے
رحم کھاتا ہے وہ خاص و عام پر
کیسے ہو سکتا ہے ناقِدؔ بے اثر
شعر کی بنیاد ہے الہام پر
ہیں سبھی اہلِ خرد کوئی بھی اہلِ دل نہیں
سب قافلے بے سمت ہیں جن کی کوئی منزل نہیں
بڑھ رہی ہے بے کلی اور بے قراری رات دن
دل جہاں مسرور ہوں ایسی کوئی محفل نہیں
وہ رہا ہے زندگی کے لطف سے گویا پرے
جو رہا اب تک تمہارے پیار میں بسمل نہیں
ناخداؤں کے کرم پر ہے سفینہ اب مرا
ایسا لگتا ہے مری قسمت میں اب ساحل نہیں
اور بھی کچھ لوگ ہیں رہتے پسِ پردہ ہیں جو
میرے ارمانوں کا تو ہی جانِ من قاتل نہیں
اس کو پانے کے لیے ہیں کاوشیں کیں بیشمار
آہ میرے پیار کا وہ سنگ دل قائل نہیں
اس لیے بے چینیاں اس کا مقدر بن گئیں
تیرے ناقِدؔ کو تقرب جو ترا حاصل نہیں
یہاں مرا کون راز داں ہے؟
کہاں کوئی مجھ پہ مہرباں ہے؟
بیان میرا نہ کوئی جانے
نہ ہم نفس ہے نہ ہم زباں ہے
میں ایک طائر ہوں لامکاں کا
نہ کوئی مسکن نہ آشیاں ہے
جہاں مرادیں ہوں میری پوری
بس ایک ہی ایسا آستاں ہے
ہمارے من کی ہے دھرتی ایسی
کہ بے مکیں سا یہ اک مکاں ہے
جہاں سکون و قرار ملتا
نہ وہ زمیں ہے نہ آسماں ہے
تمہیں وفا کی طلب ہے شاید
کہ نفرتوں سے بھرا جہاں ہے
وطن کی خدمت کو فرض جانے
مرے وطن کا جو پاسباں ہے
جسے کوئی اہلِ دل پڑھے گا
وہ ایسی دل چسپ داستاں ہے
تلاش اس کی بہت ہے مشکل
نہ با مکاں ہے نہ لامکاں ہے
بڑھا ہے کچھ اور خوف ناقِدؔ
کہ تیری دہشت ہوئی جواں ہے
کی محبت میں نے تم سے تم نے نفرت دان کی
دھجیاں تم نے اڑائی ہیں مرے ایقان کی
آج کا انسان بے حس ہو گیا ہے اس قدر
بے اثر ہیں اس کے دل پر تابشیں قرآن کی
تو نے مجھ کو غم دیے صدمے دیے دھوکے دیے
لاج رکھی ہی نہیں میرے کسی ارمان کی
میں کہ تھا رسیاں وفا کا سو وفا کرتا رہا
تج دیا اپنا سکوں اور جان بھی قربان کی
مادیت نے پنجے گاڑے ہیں ہمارے عہد میں
کچھ نہیں ہے قدر و قیمت اب یہاں انسان کی
اور کچھ بھی کر نہیں پایا کبھی میں آج تک
میں نے تو بس قدر کی ہے تیرے ہر فرمان کی
خود بنائے راستے اپنے لیے ان پر چلا
ایک جدت یہ بھی ہے یارو مرے وجدان کی
زندگی بھر ہم رواجوں سے رہے ہیں منحرف
ہم نے بدلی ہے روش احباب کے اذہان کی
میرے من میں ہے خدا کا پیار اس کا خوف بھی
میں طلب رکھتا نہیں ہوں حور کی غلمان کی
یہ تو ممکن ہی نہیں میں بن تمہارے جی سکوں
ہے قسم ناقِدؔ وفا کی اور تیری جان کی
مری وفا پر نہ حرف آئے
تری ادا پر نہ حرف آئے
میں ہر سزا کو گوارا کر لوں
کہیں سزا پر نہ حرف آئے
مروتوں کو فروغ دے تو
تری عطا پر نہ حرف آئے
جفائیں تیری شباب پر ہوں
تری جفا پر نہ حرف آئے
مری یہ خواہش رہی ہے ناقِدؔ
مری نوا پر نہ حرف آئے
محبتوں کی بقا ہے ہم سے
فروغِ جنسِ وفا ہے ہم سے
شرافتوں کے امین ہیں ہم
شیوعِ شرم و حیا ہے ہم سے
اداؤں کے سچے قدر داں ہیں
وقارِ حسنِ ادا ہے ہم سے
تم ایک دن ہم کو چھوڑ دو گے
یہ تم نے اکثر سنا ہے ہم سے
تلاش جس کی رہی ہے برسوں
کہاں وہ اک دن ملا ہے ہم سے؟
کسی نے ناقِدؔ نہ کی مروت
خلوص کی بس عطا ہے ہم سے
وہ افسانہ ہم نے جہاں کو سنایا
کوئی ایسا اب تک سنانے نہ پایا
مجھے برتھ ڈے یاد اپنا نہیں تھا
ترا شکریہ یاد تو نے دلایا
انوکھی ہماری ہے جیون کہانی
فقیرانہ ہے زندگی کو بِتایا
تری عمر گزری فقط کشمکش میں
تجھے آج تک پیار کرنا نہ آیا
اسی دن سے ناقِدؔ ہوں میں محوِ حیرت
کہ ہے میت جس دن سے تجھ کو بنایا
ہمیں کسی نے نہ پیار بخشا
کبھی نہ دل کا قرار بخشا
ہوئے جو مقبول اس جہاں میں
خدا نے ان کو مزار بخشا
تری صباحت ہے معجزہ اک
تجھے ہے رب نے نکھار بخشا
وہ کیسے رسوا جہاں میں ہو گا؟
جسے ہے تو نے وقار بخشا
نہیں اترنے کا نام لیتا
ہمیں وہ تو نے خمار بخشا
ہے آپ اپنی مثال ناقِدؔ
سخن کو ایسا معیار بخشا
سکوں میرے وہم و گماں میں نہیں ہے
کوئی مجھ سا رسوا جہاں میں نہیں ہے
سنے گا کوئی کیسے فریاد میری؟
اثر میری شاید فغاں میں نہیں ہے
مری بات کیوں ہیں سمجھنے سے قاصر
کہ لکنت تو میری زباں میں نہیں ہے
کریں وہ ذرا پاسداری وفا کی
یہ جذبہ تو پیر و جواں میں نہیں ہے
ہوئی میکدے کی ہے ویران دنیا
کہ اخلاص پیرِ مغاں میں نہیں ہے
وہ محبوب ناقِدؔ نرالا ہے میرا
چنیں میں نہیں ہے چُناں میں نہیں ہے
اذیتیں کیوں جواں ہیں میری؟
مسرتیں اب کہاں ہیں میری؟
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
متاعِ آہ و فغاں ہیں میری
جنہیں میں کب کا بھل اچکا ہوں
وہ صورتیں راز داں ہیں میری
جو زندگی میں کبھی ملے تھے
سناتے وہ داستاں ہیں میری
نہ پیری آئے گی مجھ پہ ناقِدؔ
کہ آرزوئیں جواں ہیں میری
محبتوں کو زوال کیوں ہے؟
حقارتوں کو کمال کیوں ہے؟
ہیں میری قسمت میں سختیاں کیوں؟
مرا مقدر ملال کیوں ہے؟
اگر اسے تم بھل اچکے ہو
سدا اسی کا خیال کیوں ہے؟
رہا ہے جو پاسدارِ الفت
نصیب اس کا وبال کیوں ہے؟
ہوں میں توقع پہ پورا اترا
وہ پھر سراپا سوال کیوں ہے؟
اگر غرض ہے اسے جفا سے
تو میرے دکھ میں نڈھال کیوں ہے؟
اگر نہ تھی مجھ سے کوئی نسبت
رہی محبت بحال کیوں ہے؟
بھلا نہیں پایا کیوں اسے تو؟
یہ کام تجھ پر محال کیوں ہے؟
وہ سچا ہمدرد ہے مرا تو
زیاں پہ میرے دھمال کیوں ہے؟
اگر مری بات ہے گوارا
تو رخ پہ ناقِدؔ جلال کیوں ہے؟
ملے ہو تم تو سکوں ملا ہے
سکوں فزوں سے فزوں ملا ہے
تری محبت ہے روح افزا
کہ جوش جذبہ جنوں ملا ہے
تمہیں صباحت اگر ملی ہے
مجھے بھی سوزِ دروں ملا ہے
جو وقت کی قدر کر نہ پایا
مجھے بحالِ زبوں ملا ہے
میں غم سے نالاں ہوں اس لیے اب
مجھے غمِ بے چگوں ملا ہے
ہوا ہوں میں صاحبِ کرشمہ
مجھے جنوں کا فسوں ملا ہے
ہے زندگی صرف پیار ناقِدؔ
پیامِ اخلاص یوں ملا ہے
یہ زندگی تیرے نام کی ہے
تری محبت بھی عام کی ہے
تمہاری چاہت ہے اس کا جیون
یہی حقیقت غلام کی ہے
کبھی بھی غافل نہیں رہا میں
کسی سے الفت مدام کی ہے
نہیں اگر قتل کا ارادہ
تو تیغ کیوں بے نیام کی ہے؟
قبول کیوں ہو تری عبادت؟
کہ تیری روزی حرام کی ہے
سحر ہوئی تیرے تذکروں میں
تو یاد میں تیری شام کی ہے
رہے سدا دل میں خوف رب کا
یہ بات ناقِدؔ کی کام کی ہے
عمر بھر ہم شاعری کرتے رہے
ظلمتوں میں روشنی کرتے رہے
شرک و بدعت سے رہے کوسوں پرے
اک خدا کی بندگی کرتے رہے
جرم کی دنیا میں جو داخل ہوئے
وہ جہاں میں تیرگی کرتے رہے
اور کوئی کام بس میں تھا نہیں
اس لیے ہم عاشقی کرتے رہے
تھی ہمیں درپیش تیری جستجو
ہم سدا آوارگی کرتے رہے
پست ہمت لوگ تھے ہو نابکار
جو جہاں میں خود کشی کرتے رہے
تم جفا کرتے رہے ہو دم بہ دم
ہم وفائیں ہر گھڑی کرتے رہے
ہم کہیں گے جب خدا لے گا حساب
ہم علاجِ بے کلی کرتے رہے
زندگی نے کچھ نہیں گرچہ دیا
پھر بھی ناقِدؔ زندگی کرتے رہے
فسانے لکھے ہیں سدا چاہتوں کے
اجاگر کیے جن میں غم فرقتوں کے
نہ پورا ہوا کوئی بھی میرا سپنا
بہت خواب دیکھے تری قربتوں کے
شب و روز میں منتظر ہی رہا ہوں
نہیں آئے لمحے ملن کی رتوں کے
سدا یہ خوشی کو ترستے رہے ہیں
نہ بدلے مقدر کبھی مفلسوں کے
انہیں تم کبھی شاعری نہ سمجھنا
فسانے ہیں یہ تو مرے رتجگوں کے
رہے عشق سے اس لیے ہم گریزاں
برے حال پائے سدا عاشقوں کے
میں اپنے غموں سے نبرد آزما تھا
مگر کھا گئے دکھ مجھے دوسروں کے
مرے شعر ناقِدؔ مری داستاں ہیں
ہیں در اصل نوحے غمِ بے چگوں کے
رقم کر رہا ہوں ستم کی کہانی
ہوئی اس لیے مجھ پہ طاری گرانی
کوئی اور تو اس میں خامی نہیں ہے
اسے کھا گئی ہے فقط بد گمانی
سخن میرا سارا ہے فطرت کا مظہر
ہے موجوں کی صورت قلم کی روانی
ستم پہ ستم تم نے ڈھائے ہیں پیہم
تمہاری یہ عادت رہی ہے پرانی
میں ناقِدؔ نہیں بھول پایا ابھی تک
مجھے یاد ہیں درس تیرے زبانی
نہیں زندگانی میں تسکین و راحت
کہ جھیلی ہے میں نے مسلسل اذیت
مری بات پر پھر بھی لگتے ہو نالاں
اگرچہ نہیں اس میں کوئی قباحت
تجارب کیے ہیں بڑے تلخ میں نے
نہیں اس لیے کی کسی سے محبت
اسی کے سبب اہلِ دنیا ہیں مخلص
تری کامیابی ہے تیری صباحت
رہی ہے جو مانع انا میری ناقِدؔ
نہیں کی کسی کی بھی منت سماجت
ملا کیجئے ہم سے خلوت میں جاناں
ہو روحِ رواں تم ہی جلوت میں جاناں
تری آرزو میں ہے کیا کیا نہ کھویا
لٹائے دل و جاں محبت میں جاناں
ترا معتقد میں رہا ہوں ہمیشہ
ہے تسکین تیری عقیدت میں جاناں
ہوں جیسے بھی چاہے شب و روز میرے
نہ ہو گی کمی تیری چاہت میں جاناں
کرم تیرا کیا کیا بھلا پاؤں گا میں
بہت کچھ ملا تیری الفت میں جاناں
ہو خلوت کہ جلوت خدا کو پکارو
ہے راحت سکوں بھی عبادت میں جاناں
رہا تیرے ناقِدؔ پہ افلاس پیہم
سہے دکھ ہیں اس نے فلاکت میں جاناں
مجھے اس جہاں سے نہیں کوئی رغبت
فقط اس سے پائی ہے میں نے کدورت
کوئی ہم سفر میرا کیسے بنے گا؟
کہ رکھتا ہوں میں ایک طرفہ طبیعت
مری کامیابی کا باعث یہی ہے
ہے وافر مرے پاس جنسِ فراست
کوئی کس طرح مجھ سے نالاں رہے گا
مشیت نے بخشی فزوں تر مروت
عدو بھی ہمارا رہے ہم سے خائف
ہو ناقِدؔ ہمیں کاش پاسِ حمیت
رہی وفا کی تلاش جاری
اسی میں ہے زندگی ہماری
جہاں میں کچھ بھی نہ تھا ہمارا
ہماری سانسیں بھی تھیں ادھاری
زمانے والے تھے محوِ حیرت
حیات ہم نے ہے یوں سنواری
نہ کوئی غم اپنے پاس بھٹکا
کہ ہم نے پایا ہے دل بہاری
نہیں تھا قسمت میں تیرا درشن
تھی زندگی راحتوں سے عاری
یہ کیسی تہذیب ہے کہ ناقِدؔ
روا ہوئی جس میں کارو کاری
کسی کی الفت نہ راس آئی
ہمیں مسرت نہ راس آئی
اسی کے باعث ہوئے ہیں رسوا
کسی کی چاہت نہ راس آئی
کہیں جو سچ ہو زمانہ دشمن
ہمیں صداقت نہ راس آئی
وفا کے بدلے جفا ملی ہے
کبھی مروت نہ راس آئی
لطیف جذبوں کا خوں ہوا ہے
تری حکومت نہ راس آئی
ہوئے ہیں اپنے پرائے ناقِدؔ
تمہیں جسارت نہ راس آئی
سدا ہم نے کھائے اداؤں سے دھوکے
بہت خوبرو دلرباؤں سے دھوکے
ریاضت مری بے اثر ہی رہی ہے
ملے مجھ کو میری دعاؤں سے دھوکے
میں کس آس پر اپنا جیون بِتاتا؟
کہ کھائے ہیں میں نے عطاؤں سے دھوکے
سفینہ مرا کیسے طوفاں سے بچتا؟
ملے ہم سفر ناخداؤں سے دھوکے
رہا اس لیے مضطرب تیرا ناقِدؔ
ہوئے اس کو حاصل وفاؤں سے دھوکے
وفاؤں کے نغمات گاتے رہے ہیں
مروت کا بربط بجاتے رہے ہیں
نہ بگڑی کوئی ہم سے بن پائی جس دم
تو جی اپنا ہر دم جلاتے رہے ہیں
کوئی اور تو جرم اپنا نہیں تھا
سزا ہم وفاؤں کی پاتے رہے ہیں
تھا جیون ہمارا فقط ان کی خاطر
نہ جانے ہمیں کیوں ستاتے رہے ہیں؟
وہ جن کے تبسم کا رسیا تھا ناقِدؔ
اسے بے سبب وہ رلاتے رہے ہیں
مری بے سہاروں سے الفت رہی ہے
بہت ان کی خاطر مروت رہی ہے
مرا کام ہمت سے مربوط ٹھہرا
معاون مری استقامت رہی ہے
مجھے تو نے رکھا ہے بیم و رجا میں
مرے ساتھ کیسی سیاست رہی ہے
میں اس کو سمجھنے سے قاصر رہا ہوں
جفا خیز تیری عنایت رہی ہے
جہاں نے ہے ٹھکرایا ان کو سو ہم کو
بہت دل گرفتوں سے چاہت رہی ہے
اگرچہ نہیں عشق سے کوئی نسبت
مگر مہ وشوں سے محبت رہی ہے
کوئی اور ناقِدؔ نہیں خوف دل میں
جفا تیری بن کے قیامت رہی ہے
بیاں کبھی نہ ہو سکی اذیتوں کی داستاں
عجیب تھی عجب رہی محبتوں کی داستاں
رہا جو سنگ سنگ تو خوشی بھی ہم رکاب تھی
حسین سے حسین تر ہے قربتوں کی داستاں
ترے بغیر ایک پل بھی ہم کہیں نہ رہ سکے
ہے اس قدر قوی ہماری نسبتوں کی داستاں
کسی کے ہجر میں رہے ہیں درد مند و جاں بلب
کسی کو ہم سنا سکے نہ فرقتوں کی داستاں
لکھی ہے ناقِدِؔ حزیں نے خونِ دل سے روز و شب
مگر نہ ہو سکی تمام چاہتوں کی داستاں
جو قربتوں میں سکوں تلاشیں تو فرقتوں کی ملے اذیت
ملے نہ راحت کا ایک لمحہ رہے مکدر سدا طبیعت
رہا ہوں میں بن کے نیک طینت مری معاون رہی مشیت
عدو کو تم اپنا میت کر لو کسی نے کی تھی مجھے نصیحت
میں ہر کسی کی ہی خیر چاہوں نہ ہو کسی سے مجھے کدورت
وفا کا ہوں ایک استعارہ خلوص مجھ کو ہوا ودیعت
وہ ناز کرتے ہیں اپنی قسمت پہ کتنے ہردلعزیز ہیں وہ
انہیں میسر ہے بالادستی انہیں مہیا ہے اکثریت
ہماری نسلوں کا خوں ہوا ہے رہے ہیں ناقِدؔ رہین مقتل
قصور اس میں ہے سب ہمارا کہ پاس اپنے نہ تھی حمیت
وہ جس نے ہم کو کیا ہے رسوا اسی سے ہم نے وفا نبھائی
اگرچہ اس نے جفائیں کی ہیں مگر سدا اس سے کی بھلائی
کسی میں اتنی مجال کب ہے وہ کام تیرے میں دخل ڈالے
فقط ہے جگ میں تری حکومت جہاں میں تیری ہے کبریائی
ہیں لوگ سارے یہاں کے بے حس کوئی ہے ظالم کوئی ہے جابر
سنی کسی نے نہ میری فریاد جتنی دیتا رہا دہائی
جہاں سے جانا ہے ہاتھ خالی یہی حقیقت ہے دوستو اک
دھرا رہے گا یہ مال سارا یہاں کی ہر چیز ہے پرائی
رہا ہوں دن رات دکھ میں ناقِدؔ مرے مسائل بڑھے مسلسل
سکوں کی خاطر فقط جیا تھا سکوں کی دولت نہ ہاتھ آئی
وصال رت کی حسین یادیں ہیں میری دولت
کہ جن کے باعث ہے میرے جیون میں ایک فرحت
اسے کبھی میں بھلا نہ پایا حیات ساری
کہ ذکر اس کا رہا ہے میرے لبوں کی زینت
نہ کرتے الفت نہ ہوتے رسوا سمجھ یہ آیا
کہ ہجرِ جاناں سے ہم نے پائی بہت اذیت
ترے خیالوں میں محو رہ کر جہاں بھلایا
ہے تیری یادِ حسین در اصل مثل جنت
کبھی نہ آنے دیا تکبر کو پاس ناقِدؔ
حقیقتاً پائی عاجزی سے ہی میں نے عظمت
خرد کی دولت جو پاس آئی
سکوں کی پونجی ہے ساتھ لائی
جفائیں تم نے ہیں کی ہمیشہ
مگر ہے میں نے وفا نبھائی
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
یہ میرے جیون کی ہیں کمائی
وہ شخص اتنا ہی معتبر ہے
کہ جس میں جتنی ہے پارسائی
زمانے پھر سے وفائیں کی ہیں
مگر جہاں سے جفا ہی پائی
جو بات نکلی تمہارے منہ سے
وہ بات ناقِدؔ ہوئی پرائی
رہی رتجگوں کو سدا مجھ سے نسبت
کہ ہیں میری بیداریاں میری راحت
کوئی اور تو کام دھندا نہیں تھا
میں کرتا رہا ہوں ادب میں ریاضت
وہ ادنیٰ سے اعلیٰ بنا ہے جہاں میں
خدا نے جسے بخشنا چاہی عظمت
وہ کردار میرے پہ کیوں معترض ہیں؟
کہ میری صداقت ہے میری ضمانت
ادا شکر اس پر کروں جتنا کم ہے
بھٹکنے نہ دی پاس اپنے حماقت
کوئی ایسی خوبی نہیں اور مجھ میں
مری وجہِ شہرت ہے میری فراست
جو سچ ہے اسے دہر میں عام کر دے
ودیعت ہے ناقِدؔ کو اتنی جسارت
عمر بھر پڑھتے رہے ہیں ہم نصابِ زندگی
ہم سمجھ پائے نہیں پھر بھی کتابِ زندگی
روز و شب گزرے ہمارے بے کلی میں دم بہ دم
ماورائے فہم ہے اب تک عذابِ زندگی
کوئی بھی سمجھا نہیں ہے زندگی کے پیچ و خم
اس لیے ہم رکھ نہ پائے کچھ حسابِ زندگی
ایک پل بھی رہ نہ پایا میں کبھی آرام سے
میری بے چینی کا باعث ہے عتابِ زندگی
زندگی اوروں کی خاطر تو ہے اک احسن عمل
اس میں ہے پنہاں رہا ناقِدؔ ثوابِ زندگی
ہر گھڑی اک فکر ہے محوِ ستم
جو ہے میرے واسطے موجِ الم
یاد سے تیری کہاں غافل ہوں میں
ذکر تیرا ہے زباں پر دم بہ دم
غم سے میری اس قدر ہے دوستی
غم کا میں رسیا ہوں اور ہوں جانِ غم
کب مدد مانگی ہے تم سے دوستو؟
کب کہا مجھ پر کرو کوئی کرم؟
فاصلہ کچھ اور ناقِدؔ بڑھ گیا
راہِ الفت میں اُٹھے ہیں جب قدم
ہر ڈگر بدنام سے ہیں
ہم سفر بدنام سے ہیں
اٹھ گئی چاہت جہاں سے
وہ نگر بدنام سے ہیں
خود غرض جو بن گئے پھر
وہ بشر بدنام سے ہیں
پیار میں تیرے سدا ہم
در بدر بدنام سے ہیں
پیار تو نے پا لیا ہے
ہم مگر بدنام سے ہیں
مر گیا ناقِدؔ بے چارہ
چارہ گر بدنام سے ہیں
کی کچھ مجھ کو پروا نہیں ہے مرے پاس دولت ہے فکر و نظر کی
مری وجہِ نازش ہے میرا اثاثہ کہ میری فراست ہے فکر و نظر کی
کوئی دکھ مجھے کیا پریشاں کرے گا شب و روز کیا مجھ کو گرداں کرے گا
کسی بھی قیادت سے گھبراؤں کیا میں کہ میری حکومت ہے فکر و نظر کی
کریں گے سدا اس حقیقت کو تسلیم اہلِ خرد اور اہلِ جنوں بھی
جو ہیں اہلِ دانش وہی معتبر ہیں کہ جگ میں امامت ہے فکر و نظر کی
کسی سے بھلا کیوں کروں میں محبت نہیں ہے مجھے اس سے کوئی بھی نسبت
یہ ادراک مجھ کو ہے میں جانتا ہوں کہ چاہت اذیت ہے فکر و نظر کی
وہ ہو علم و عرفاں یا شوق و وجدان ہر شہر میں گھوم آیا ہوں ناقِدؔ
وہ کوئی ہو وادی وہ کوئی ہو صحرا بہ ہرسو سیاحت ہے فکر و نظر کی
یہ عشق ہے مشکل سفر
غمگین جس کی ہر ڈگر
رکھتا نہیں جو چھاؤں بھی
ایسا شجر ہے بے ثمر
ہے کور چشمی ہر طرف
ملتا نہیں ہے دیدہ ور
یہ دور مادیت کا ہے
سو ہے تصوف بے اثر
جس جس نے بھی دیکھا تجھے
مائل ہوئی اس کی نظر
ناقِدؔ ہے کب کا جا چکا
ڈھونڈو نہ اس کی دربدر
حیات میری اذیتوں کی ہے راجدھانی
یہی سبب ہے سوار سر پر ہے سر گرانی
میں خود میں اتنا بٹا ہوا ہوں کہ ہے تعجب
مرے تحیر پہ کیوں نہ طاری ہو بے کرانی
تجھے کروں میں تلاش کیسے کہاں ملے گا؟
ترا تصور ہے میرے معبود لامکانی
مجھے تماشا جہاں میں تو نے بنا دیا ہے
عجیب تر ہے مہیب تر ہے مری کہانی
ہزاروں اشعار تیری دھن میں رقم ہوئے ہیں
کمال کیا ہے مرے قلم کی ہے یہ روانی
سمجھ نہ آئے یہ لوگ ناقِدؔ ہیں کیسے بے حس؟
کسی پہ کرتے ہیں شاذ ہی کوئی مہربانی
مری آگہی کیوں اثر سے ہے عاری؟
شب اہلِ دنیا سحر سے ہے عاری
نہیں سائباں بن سکا جو کسی کا
یہ سمجھو شجر وہ ثمر سے ہے عاری
نہ ہو جس کو احساس اہلِ الم کا
وہ انسان فکر و نظر سے ہے عاری
نہیں پائی عزت زمانے سے اس نے
وہ بندہ جو علم و ہنر سے ہے عاری
طلب ہے تری دید کی اس کے دل میں
مگر تیرا ناقِدؔ سفر سے ہے عاری
تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں