فہرست مضامین
- گُل فشانی
- انتساب
- حرفے چند
- توحید دِل میں ہو تو لبوں پر رَہے خدا
- مِرے دِل کی دنیا سجا کر گئے تم
- دونوں ہی تو سفر میں تھے رُکتے بھلا کہاں
- ہزار تجربے جھیلے تو یہ کِیا ہم نے
- کب تک کاٹوں تنہا تنہا
- پی کر وہ اپنی آنکھ کے آنسو چلے گئے
- بات جو سچّی تھی اکثر اَن کہی محسوس کی
- ہر نئے رُوپ میں ڈھل جاؤں گا میرا کیا ہے
- دِل جس میں بہل جائے وہ بستی بھی کہیں ہے
- دریا پہ کبھی زور کسی کا نہیں چلتا
- مجھے فکر ہے تری قربتیں کوئی شخص میرے سِوا نہ لے
- مزہ نہ التفات میں نہ لطف ہے عتاب میں
- مِرے دروں میں جگا رہا ہے عجب سی چاہت تمہیں خبر کیا
- مہک سانسوں میں، چہرے کو گُلِ تر دیکھنا چاہا
- عقبیٰ پر ایمان رکھوں
- چھُپے جذبے نہ ظاہر ہوں کچھ ایسی ابتدا کرنا
- پھر مجھے رات تری یاد دِلانے آیا
- صنم، پھول، چندا، ستارا نہیں
- یہ بستی، یہ صحرائے ویراں بھی میرا
- دنیا میں دِکھاوے کی قرابت نہیں اچھی
- یا رَب قرار دے، دِلِ خستہ نہ دے مجھے
- کبھی پاؤں میں ہوں، کبھی سر میں کم
- بہت ہیں ان میں شک والے، بہت سے ہیں گُماں والے
- محبت وفا کی نشانی میں ہے
- کیسے، کب ہو گیا تبدیل زمانہ کتنا
- اسے یوں تو مجھ سے محبت بھی ہے
- جب دِلی قربتیں نہیں ہوتیں
- اس عشقِ نا مُراد میں جو کچھ سہا، بتا
- آنکھیں مِری اپنی سہی، آنسو نہیں میرا
- سوچتے تھے خوف بڑھ کر حوصلہ بَن جائے گا
- میرے اشکوں کی نمی بھی نہیں رہنے والی
- تُو سبزہ، کلی، پھول، غنچہ بھی دیکھ
- سب کچھ گیا جہاں سے، برائی نہیں گئی
- حالات سے ہم صرفِ نظر کر نہیں سکتے
- اب نہ یہ تفصیل پوچھو، اور کیا آساں ہُوا
- جنوں کی آگ میں تھوڑی بہت اُلفت بھی شامل ہے
- کیسے کہہ دوں خدا نہیں مِلتا
- سِلوٹ بھی کوئی چیز ہے بستر کو خبر کیا
- ایک سچ چہرے کا اَن دیکھا بھی ہے
- زباں سے غلط استعارہ نہ کہہ
- گھر سے اس کے واپسی کا راستہ بھی سوچیے
- شکستِ یقیں پر اُداسی غلط
- ہوَس نہ دِل میں نہ ہونٹوں پہ مدّعا رکھنا
- نفع کے معنیٰ سُنے، حرفِ ضرر بھی سیکھئے
- سادہ لَوحی سے الگ بھی سلسلے کچھ اور ہیں
- تِرے خیال کی خوشبو بکھر گئی ہمدم
- قتل چاہت کا اپنی کر نکلا
- معیار کے معنیٰ جنھیں سمجھائے تھے مَیں نے
- جس کا یہ سمجھتے تھے کہ معیار نہیں ہے
- حیراں ہے، پریشان ہے، لاچار نہیں ہے
- اب کیسی بھی سَر پر مِرے دستار نہیں ہے
- آسائشِ دنیا کا طلب گار نہیں ہے
- بِک جائیں جہاں جا کے وہ بازار نہیں ہے
- کہ تیرے بعد جتنا علم ہے، انسان رکھتے ہیں
- ہماری ہو نہ ہو اجداد کی ہم شان رکھتے ہیں
- یہاں اہلِ جنوں کچھ یہ سرو سامان رکھتے ہیں
- ٭٭٭
- یہ جتنے اہلِ ایماں ہیں سبھی قرآن رکھتے ہیں
- آدابِ تکلّم بھی تو گفتار میں لائیں
- اک عزمِ مصمّم رہِ دشوار میں لائیں
- وہ بادشاہ ملک جَلا کر ہُوا تو کیا
- ماحول اس طرح سے جو بہتر ہُوا تو کیا
- بے قراری چھوڑ جا، کچھ سر گرانی چھوڑ جا
- لے، وفا بھی تجھے بازار سے لا دی ہم نے
- اب وہاں دَرس میں نفرت بھی مِلا دی ہم نے
- اپنے کمرے سے وہ تصویر ہٹا دی ہم نے
- جھیل اشکوں کی بھی آنکھوں میں سُکھا دی ہم نے
- ہر مخالف تری، آواز دبا دی ہم نے
- کہ دِل اب کسی کو بھی اپنا نہ سمجھے
- مسیحا کو یوں ہم مسیحا نہ سمجھے
- مگر سوزِ دِل کو ترانا نہ سمجھے
- تماشا یہ ہم لمحہ لمحہ نہ سمجھے
- اُس کو قریب اپنے نہ پایا تو کیا ہُوا
- جو چلن میں اب نہیں ہے، وہ زمانہ چھوڑئیے
- اب یہ شورِ بے کراں بھی تو بھَلا لگنے لگا
- دُور ہے ہم سے ابھی اور اُجالا کتنا
- یہ تو نہیں کسی سے محبت نہیں ہوئی
- گیا وقت ساتھ اپنے کیا لے گیا
- بے گانگی کے طور ہیں جاری نئے نئے
- زمینوں پہ آدم کا پُتلا بہت
- ہر اک سانس جب سرگرانی کرے
- دریا جدا ہُوا نہ سفینہ جدا ہُوا
- اک بحرِ بے کراں کے ثمر جانیے انھیں
- دِل میں اب تک بھی اس کے گھر نہ کِیا
- وہ رُوٹھے تو ان کی گلی چھوڑ دی
- یہاں موت کو ناگہانی بتا
- مہک، چاند، ندیا کی دھارا سمجھ
- اب تماشا، کوئی وعدہ، نہیں رہنے والا
- ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا
- دِلکشی تو ہے یہاں آسُودگی تُو بھی تو ہو
گُل فشانی
بچھڑ جائے تو بھول جائے مجھے
مِلے تو بہت گُل فشانی کرے
اطہر شکیلؔ نگینوی
بسایا ہم نے صحرا کو تو کچھ مجبوریاں ہوں گی
بتاؤ ہم نے کس دِن خود کو بے گھر دیکھنا چاہا
انتساب
خون کے ان رشتوں کے نام، جن کا ٹوٹنا تو درکنار جدائی کا تصوّر بھی میرے لیے ایک وقت میں کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں اسی زمانے میں کہا گیا یہ شعر ؎
کچھ پڑوسی بہت خوش ہیں بھائی مِرے
گھر میں دیوار اٹھانے کی ضِد چھوڑ دے
جو کہ آمد کا شعر تھا با الفاظِ دیگر لاشعوری طور پر غزل کہتے ہوئے ہو گیا تھا۔ مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کرتا تھا کہ خدا نہ کرے ایسے تو حالات نہیں ہیں۔ پھر یہ شعر کیوں کر رکھا جائے، مگر وائے قسمت یہی شعر میرے لیے میری ہی ایسی پیش گوئی بن کر میرے سامنے آیا جس نے میری زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا اور میں ان رشتوں سے نہ صرف عاجز آ گیا بلکہ گھبرا کر دعائیں کرنے لگا کہ اللہ تو مجھے اتنا تو نواز دے کہ میں الگ کہیں جا کر اپنی چھوٹی سی دنیا آباد کر لوں، جہاں یہ لوگ میرے رابطے میں نہ رہیں۔
اطہر شکیلؔ
مخمورسعیدی
حرفے چند
اطہر شکیل سے میرا تعارف مجھے یاد آتا ہے اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعرے جشنِ آزادی کی پچاسویں سالگرہ(گولڈن جوبلی) کے موقع پر گاندھی میموریل ہال پیارے لال بھون بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں ہوا تھا۔ میں اس وقت اردو اکادمی دہلی میں سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا۔ مشاعرے میں اطہر شکیل کو مدعو کیا گیا اور وہیں ان سے یہ پہلی ملاقات ہوئی۔ مشاعرے میں جہاں ہندوستان کے مشاہیر شعراء نے شرکت کی وہیں اس مشاعرے کی نظامت ماجد دیوبندی نے کی۔ مشاعرے کے آغاز کے لیے ہمارے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ کس شاعر کے کلام سے مشاعرے کی ابتدائ کی جائے۔ میں اور ماجد دیوبندی اس تعلق سے بات کر رہے تھے کہ تبھی ہلال سیوہاروی صاحب نے اپنے تجربات کی بنائ پر مشورہ دیا کہ اطہر شکیل نو عمر ہیں اور اچھا پڑھتے ہیں لہٰذا ان سے مشاعرے کا آغاز کرائیں تو ٹھیک رہے گا۔ وہ میرے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں اور میں انھیں اچھے سے جانتا ہوں، سو ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اطہر شکیل کو دعوت دی گئی، حالانکہ جاوید اختر جو ان دنوں مشاعروں میں آنے لگے تھے، وہ چاہتے تھے کہ انھیں جلدی پڑھوا دیں کیونکہ ان کی فلائٹ کا وقت ہو رہا تھا۔ لیکن ہم نے ان سے معذرت کے ساتھ وقت لیا اور وہ راضی ہو گئے۔ مشاعرے میں اطہر شکیل نے سامعین کی فرمائش پر اپنے خوبصورت ترنّم اور دلکش آواز کے سبب اپنی سہلِ ممتنع میں کہی گئی غزلوں پر کافی داد و تحسین حاصل کی۔ اس پذیرائی نے اطہر شکیل کو مشاعرے میں ایک پہچان عطا کی، اور ہلال سیوہاروی صاحب کے مشورے پر ہم ان کے ممنون ہوئے۔ اس کے بعد اطہر شکیل سے کبھی کوئی باقاعدہ ملاقات نہ ہو سکی۔ وہ دہلی اکادمی کے مشاعروں و دہلی کے دیگر مشاعروں میں شرکت کرتے رہے لیکن اسٹیج پر جس طرح اور بہت سے شعرا ایک دوسرے کو سرسری طور پر سلام وغیرہ کر لیتے ہیں نظر ملنے پر باکل اسی طرح ئ میں تال کٹورا اِنڈو اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والے اردو اکادمی دہلی سرکار کے جشنِ جمہوریہ کے مشاعرے میں جو کہ لال قلعہ پر دہشت گردانہ حملے کے بعد سکیوروٹی کے مدّ نظر وہاں رکھا گیا تھا۔ اس میں بھی بس رسماً سا ہی اشارتاً سلام وغیرہ ہوا۔ پھر اس کے بعد ئ میں جشنِ جمہوریہ ہی کے مشاعرے میں جو دہلی اکادمی پھرسے لال قلعہ میں منعقد کرنے میں کامیاب ہوئی اس میں بھی اطہر شکیل کو اسٹیج پر دور ہی سے دیکھا۔ اس مشاعرے میں اطہر شکیل نے اپنے معیاری کلام سے سامعین کے ساتھ شعراء پر بھی ایک اچھا تاثّر چھوڑا تھا۔ اس مشاعرے کے بعد اطہر شکیل کو میں نے ای۔ ٹی۔ وی اردو کے مشاعرے، دور درشن دہلی کے بزم پروگرام میں کئی مرتبہ دیکھا اور سنا۔ لیکن ملاقات نہ ہو سکی، نہ جانے کیوں اطہر شکیل نے بھی قریب آنے کی کوشش نہیں کی اور میں بھی ان سے بات نہ کر سکا۔ اطہر شکیل محتاط مزاج کے لگتے ہیں۔ ایک دن اطہر شکیل ایوانِ غالب میں منعقدہ ہونے والے کسی مشاعرے میں دہلی آئے تو مجھے فون کیا کہ میں اطہر شکیل عرض کر رہا ہوں، میں نے مذاقاً کہا، کہاں سے ؟ انھوں بھی برجستہ کہا نگینہ سے ہوں، ایک شاعر ہوں، جسے آپ نے ئ میں جب آپ دہلی اردو اکادمی میں سکریٹری تھے تو جشنِ آزادی کے مشاعرے میں بلایا تھا، آج میں دہلی میں ہوں اور آپ سے ملاقات چاہتا تھا۔ میں نے کہا، آج میں مصروف ہوں، کل اگر آپ تشریف لا سکیں تو میں انتظار کروں گا۔ غرض وہ اگلے روز اپنی کچھ چھپی ہوئی کتابیں اور دو مسوّدے، جن کو وہ شائع کرانے کا ارادہ رکھتے تھے لے کر تشریف لائے، کہنے لگے کہ یہ میری کچھ کتابیں فخر الدین میموریل سوسائٹی حکومت اتر پردیش اور اردو اکادمی اتر پردیش لکھنؤ کے تعاون سے چھپی ہیں اور اس میں ایک کتاب کو اردو اکادمی اتر پردیش نے اپنے انعام سے بھی نوازا ہے، ساتھ ہی یہ دو کتابوں کے مسوّدے ہیں جن کو یکے بعد دیگر چھپوانا چاہتا ہوں۔ آپ ان کو دیکھ لیں اور جس مسوّدے کو بھی اپنے قیمتی تاثّرات سے نوازیں تو میرے لیے فخر کی بات ہو گی۔ میں پہلے تو ان کتابوں اور مسوّدوں دیکھتا رہا پھر میں نے کہا کہ آج اچانک آپ کو یہ خیال کیوں آ گیا کہ میرے جیسے غیر اہم آدمی کے تاثّرات آپ کے لیے اہم ہو سکتے ہیں۔ غالباً ۱۱؍ سال بعد کم و بیش آپ کو میرے اندر کون سی ایسی بات لگی کہ میں بھی کچھ لکھ سکتا ہوں، اس وقت اطہر شکیل کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا، میں نے فوراً ہی بات کو موڑتے ہوئے کہا خیر آپ ان کتابوں اور مسوّدوں کو میرے پاس چھوڑ دیں۔ میں ان کو پڑھوں گا اور کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں گا۔
اطہر شکیل صاحب کی شخصیت میں تصنّع اور تکلّف نہیں ملتا دل کی بات سادگی سے زبان پر لے آتے ہیں۔ شاعری شاعر کی شخصیت کا آئینہ ہوا کرتی ہے، چنانچہ اطہر صاحب کے کلام میں بھی وہی عدم تصنّع، وہی بے تکلّفی اور سادگی ہے۔ جس سے ان کی شخصیت عبارت ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اطہر صاحب کا کلام فنّی رکھ رکھاؤ سے عاری ہے۔ لیکن یہ رکھ رکھاؤ آورد کا نتیجہ نہیں، فن اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی مخلصانہ لگن کی دین ہے۔
ُ اطہر شکیل صاحب نے شاعری کی کئی صنف میں طبع آزمائی کی ہے جیسے حمد پاک، نعتِ پاک، منقبت، غزل، نظم، رباعیات، قطعات، مسدّس، گیت، دوہے اور ہندی مزاج کی غزلیں وغیرہ جو ان کے گزشتہ مجموعوں میں شامل ہیں۔ یہاں ان تمام اصناف کا تذکرہ طولِ کلام سے بچنے کے لیے چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ غزل ان کی محبوب صنف ہے سو ہم بھی غزل کے حوالے سے کچھ گفتگو کریں گے۔ جیسا کہ بارہا کہا گیا ہے کہ غزل بڑی کافر صنف سخن ہے مشکل ہی سے رام ہوتی ہے۔ کیا عجب میر تقی میرؔ نے یہ شعر غزل ہی کے حوالے سے کہا ہو ؎
ایسے وحشی رَم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
لیکن اطہر شکیل صاحب نے یہ جادو کر دکھایا ہے۔ اطہر صاحب کے ہاں غزل میں دل اور دنیا دونوں کے معاملات کی کامیاب ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں نے اطہر صاحب کی کتابیں اور مسوّدے دیکھنے کے بعد صرف "گل فشانی” کے عنوان سے آنے والی پانچویں کتاب کو اپنے تاثّر کے لیے منتخب کیا اور صرف اسی کتاب سے کچھ اشعار اپنی پسند کے لیے ہوئے یہ چند شعر دیکھئے جو دو غزلوں سے ماخوذ ہیں اور ان کے داخلی کردار کا بھرپور تعارف کراتے ہیں:
توحید دل میں ہو تو لبوں پر رَہے خدا
ہم یوں جیے تو کیا جیے، بے دین، بے خدا
لَو یوں تو ہو گئی ہے بہت کم ضمیر کی
اس آخری چراغ کو بجھنے نہ دے خدا
یہ بستی، یہ صحرائے ویراں بھی میرا
یہ وحشت میں قلبِ پریشاں بھی میرا
قبا کو میں اپنے مطابق بناؤں
یہ گردن مِری ہے، گریباں بھی میرا
اگرچہ ہے بندش مِرے داخلے پر
بتانے کو شہرِ نگاراں بھی میرا
سبھی خوب و ناخوب میرے ہیں اطہرؔ
خزاں میری، عہدِ بہاراں بھی میرا
زندگی کی لا حاصلی اور اس لا حاصلی سے ابنائے زمانہ کی بے خبری اور اپنی آگاہی کا کیسا پُر اثر اظہار ہے، اسی تاثّر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:
کبھی پاؤں میں ہوں کبھی سر میں کم
ہُوا ہوں میں خود اپنی چادر میں کم
جو سمجھو تو امکان کا سلسلہ
عمل میں بہت ہے، مقدر میں کم
کوئی اور راحت مجھے چاہیے
اگر چہ مسرّت نہیں گھر میں کم
تمہارے ہی تیشے میں طاقت نہیں
شرر کب ہوئے دوست پتھر میں کم
کوئی غوطہ خوری کا سیکھے ہنر
کہ موتی نہیں ہیں سمندر میں کم
نہیں لگ رہا ہے بیاباں میں جی
ابھی جوشِ وحشت ہے اطہر ؔ میں کم
۸ وہی وقت کے تسلسل میں انسان کی بے مائے گی اور بے بضاعتی کا احساس، ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک لمحۂ گزاراں کی طرح اس کا حقیر وجود جو دوسرے لمحے میں بے نمود ہو جا نے کو ہے، زندگی کی یہ بے اساسی اطہر شکیل صاحب کو رہ رہ کے کچوکے لگاتی ہے:
شکستِ یقیں پر اداسی غلط
توقع غلط، خوش قیاسی غلط
جو سمجھو گے اس کو تو پچھتا ؤ گے
محبت میں مردم شناسی غلط
زندگی اِک آگ ہے اس کا سفر بھی سیکھئے
نفع کے معنی سُنے، حرفِ ضرر بھی سیکھئے
ضرب سے شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھرے تو کیا
سنگ پاروں سے کبھی رقصِ شرر بھی سیکھئے
بے قراری چھوڑ جا، کچھ سر گرانی چھوڑ جا
رنجشوں ہی کی سہی لیکن نشانی چھوڑ جا
میں کہ تجھ بِن سخت محمل ہو گیا اطہر شکیلؔ
مجھ کو کچھ مفہوم دے، مجھے میں معانی چھوڑ جا
( انسان کا وجود بہتے پانی پر کچی مٹی کی طرح ہے لیکن پانی کے بہاؤ اور اس کی گہرائیوں کے اسرار کا محرم بھی وہی ہے۔ اور یہی اس کا وہ شرف ہے جو کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں۔ اس بات کو اطہر شکیلؔ صاحب نے الگ الگ انداز میں مگر کس خوبی سے ادا کیا ہے:
ایک سچ چہرے کا اَن دیکھا بھی ہے
آنکھ سے محروم آئینہ بھی ہے
خود اپنے ہی وجود کو باقی نہ رکھ سکا
پتھر سے ٹوٹ کر جو شرارا جدا ہُو
کیسے کب ہو گیا تبدیل زمانہ کتنا
چھا گیا ذہن میں لوگوں کے اندھیرا کتنا
یہ شرر سنگ میں ہے، سنگ کے باہر کیا ہے
رقص کرتا ہے ہَواؤں میں شرارا کتنا
بجھ گیا میں جو ترے سامنے حیرت کیسی
چاند کے پاس چمکتا ہے ستارہ کتنا
لفظ شیریں سہی، دیتے نہیں تسکیں اطہرؔ
دیکھنا ہے کوئی کرتا ہے مداوا کتنا
یارب قرار دے، دلِ خستہ نہ دے مجھے
پوری نہ ہو سکے تو تمنّا نہ دے مجھے
محمل اشارتوں کو سمجھنا محال ہے
معنی نہ جس کے ہوں وہ اشارہ نہ دے مجھے
جھوٹی امید سے مجھے گرنا عزیز ہے
کمزور ہو عصا توسہارا نہ دے مجھے
لفظوں کی آبرو کا بھی کچھ تو خیال رکھ
جی چاہتا نہ ہو تو دلاسا نہ دے مجھے
اطہر ؔکو دردِ عشق سے حاصل ہو اب نجات
تُو ایسی بد دعا تو خدارا نہ دے مجھے
حالات سے ہم صرفِ نظر کر نہیں سکتے
اس عمر کو یوں بھی تو بسر کر نہیں سکتے
کل دشت و بیاباں سے گزرنے میں نہ تھا ڈر
اب شہر میں بے خوف سفر کر نہیں سکتے
جیسے بھی ہو روشن کرو اب اپنے دِلوں کو
یہ بجھتے ہوئے دیپ سحر کر نہیں سکتے
اک ترکِ طلب وجہِ سکوں ہے یہاں اطہرؔ
گو سہل ہے یہ کام مگر کر نہیں سکتے
لپک اٹھتا ہوں صحرا کی طرف اکتا کے بستی سے
خرد مندی میں میری کچھ نہ کچھ وحشت بھی شامل ہے
آدمی زندگی کے بحرِ بے کراں میں ایک بلبلے کی مانند ہے حقیر اور نا پائیدار، مگر اس کے سارے بھیدوں کا محرم بھی وہی ہے۔ اطہر شکیلؔ صاحب یہ جانتے ہیں کہ زندگی کو گوارا بنائے رکھنا ہے تو اس کی کچھ سچائیوں کو پردۂ خفا ہی میں رہنے دیا جائے، یہی بہتر ہے:
بہت ہیں ان میں شک والے، بہت سے ہیں گماں والے
ہمیشہ سچ نہیں ہوتا جو کہتے ہیں جہاں والے
کبھی اس سمت جاتے ہیں، کبھی اس سمت جاتے ہیں
پتا منزل کا کھو بیٹھے ہیں شاید کارواں والے
خزاں کی رُت میں اب کی بار صیّادوں کی بَن آئی
ہوئے محروم پتوں سے شجر سب آشیاں والے
ہر اک دَر پر یہاں تو اجنبی ناموں کی تختی ہے
نہ جانے اب کہاں ہوں گے وہ پہلے کے مکاں والے
بھلا دیں کل کے غفلت خیز موسم میں تو حیرت کیا
ابھی تک تو تمہیں سب یاد کرتے ہیں یہاں والے
محبت ہو، وفا ہو، وضعداری ہو، مروّت ہو
یہ سودے دل کے ہیں اطہرؔ مگر سب ہیں زیاں والے
گیا وقت ساتھ اپنے کیا لے گیا
زمانے سے قدرِ وفا لے گیا
اس عہد میں اعلانیہ سچ بولنے والے
کیا تیرا جہاں میں کوئی گھر بار نہیں ہے
‘ اطہر شکیلؔ صاحب کو مصلحت اندیشیوں کی روِش پسند نہیں کہ اس سے ان کی شخصیت مسخ ہو جانے کا پورا پورا امکان ہے، اسی لیے کہتے ہیں:
دنیا میں دِکھاوے کی قرابت نہیں اچھی
قائم ہو غرض پر تو محبت نہیں اچھی
حق ماہیِ بے مایہ کا خطرے میں پڑے گا
دریا پہ مگر مچھ کی حکومت نہیں اچھی
یوں بھی تو نکلتی ہے بخیلی کی روایت
جب تک نہ ضرورت ہو کفایت نہیں اچھی
کیوں ظاہر و باطن میں تفاوت کا چلن ہے
سچ اپنا چھپا لینے کی عادت نہیں اچھی
کس وقت کی کیا مانگ ہے یہ دیکھئے اطہرؔ
جدّت نہیں اچھی ہے، روایت نہیں اچھی
گویا اپنا چہرہ، اپنی پہچان کھو کر کوئی کچھ بھی پا لے وہ حقیقتاً گھاٹے میں ہے، ایک ایسا گھاٹا جو ڈرا دینے والا ہے۔ اسی لیے وہ ان اشعار میں مختلف موضوعاتِ زندگی کو لے کر مشورہ بھی دیتے ہیں۔
اطہر شکیلؔ صاحب نے مادّی آسائشوں کی تلاش میں وطنِ عزیز کو چھوڑ کر دوسرے شہروں کا رُخ بھی کیا، ان کی یہ تلاش غالباً بار آور بھی ہوئی لیکن ایک عمر کی آوارہ گردی نے ان کے اندر ایک اَنمٹ کسک بھی پیدا کر دی اور بار بار گھر واپسی کا جذبہ دل میں سر اٹھا تا رہا:
بسایا ہم نے صحرا کو تو کچھ مجبوریاں ہوں گی
بتاؤ ہم نے کس دن خود کو بے گھر دیکھنا چاہا
لیے پھر رہی ہے مجھے کھوج اپنی
مجھے مجھ سے آخر جدا کر گئے تم
میں ہر بار اس کا تجسس کروں
وہ ہر بار نقلِ مکانی کرے
بتاتے ہوئے راستے، رہ نما
مسافر نے کیا گمرہی چھوڑ دی
اک شورِ بے کراں ہے تہہِ آسماں ابھی
جانے بھٹک رہی ہو مِری التجا کہاں
برپا ہے انتشار وہ چاروں طرف شکیلؔ
ہونا پڑے گا ان سے نہ جانے جدا کہاں
بِکا ہے بے دام یوں تو اطہرؔ مگر وہ اک دُرِّ بے بہا ہے
کسی بھی اہلِ نظر سے پوچھو تم اس کی قیمت تمہیں خبر کیا
وہ دِل کے حال سے واقف ہے بے خبر تو نہیں
یہ سوچ کر کبھی مانگی نہیں دعا ہم نے
اطہر شکیلؔ صاحب کا کلام بیشتر ان کے داخلی احساسات کا ترجمان ہے لیکن خارجی دنیا کی عکاسی بھی ان کے کلام میں بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ملتی ہے۔ غرض زندگی کے تمام شعبوں مثلاً معاشیات، معاملات، سیاست کی ریشہ دوانیاں، اخلاق و کردار، شرافت وسخافت، اتفاق و ہم آہنگی، اخوت و بھائی چارگی، غیرت و خود داری، دشمنوں سے بھی پیار کا جذبہ سب سے بھلائی کرنے کی امنگ وغیرہ اطہر شکیل صاحب کی شاعری میں یہ چیزیں مختلف پیرایوں میں پائی جاتی ہیں:
سوچتے تھے خوف بڑھ کر حوصلہ بَن جائے گا
کیا خبر تھی زندگی کرنا سزا بَن جائے گا
خالقِ بر حق نے بھی شاید کبھی سوچا نہ ہو
آدمی عرضِ خدا پر مسئلہ بَن جائے گا
عام ہے کردار پر پالش کا فن اب دیکھنا
آج کا بدنام رہزن رہ نما بَن جائے گا
اس بدلتی زندگی کو دیکھتے جاؤ شکیلؔ
جو عمل ہے نا رَوا کل وہ رَوا بَن جائے گا
اطہر شکیل صاحب کے کلام کا ایک اور رنگ جو معاملاتِ عشق کے تعلق سے ہے اس کو بھی ان کے قاری کے لیے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اطہر شکیلؔ صاحب نے عشق کے حوالے سے اپنے اشعار میں جو پہلو اجاگر کیے ہیں وہ بھی منفرد ہیں:
چھپے جذبے نہ ظاہر ہوں کچھ ایسی ابتدا کرنا
ذرا بچ بچ کے لوگوں سے تمہارا تذکرہ کرنا
وفا موقوف ہے ہم سب کی طینت پر، مزاجوں پر
سکھا سکتا نہیں کوئی کسی کو بھی وفا کرنا
بچھڑ جائے تو بھول جائے مجھے
مِلے تو بہت گل فشانی کرے
تمہیں نامرادی کا الزام کیوں دوں
ہتھیلی کا لکّھا بتا کر گئے تم
خبر نہ تھی کہ اسی کی گلی میں پہنچے گا
کس احتیاط سے بدلا تھا راستہ ہم نے
اب خاک اڑ رہی ہے بیابانِ عشق میں
رونق تھے جو یہاں کی وہ آہوٗ نہیں رَہے
گیا وقت ساتھ اپنے کیا لے گیا
زمانے سے قدرِ وفا لے گیا
وہ آیا تو اس کی نظر کا طلسم
لبوں سے مِرے مدعا لے گیا
تمام رنگ تیرے تھے، تمام خوشبوئیں تری
الائچی کے باغ سے گزر تھا میرا خواب میں
یہ سنتیں بنی رَہیں شکیل اہلِ درد کی
جنون و غم کا ہرسبق لکھو مِرے حساب میں
یہ تو سچ ہے تیرا سایہ بھی نہیں تھا دُور تک
دھیان نے لیکن تری موجودگی محسوس کی
ہر مہک یہ کہہ رہی ہے ان سے مِل کر آئی ہے
خوشبوؤں میں مَیں نے اک آواز بھی محسوس کی
پھول سا چہرہ وضو سے اور پاکیزہ ہُوا
میں نے اس میں اک عجب پاکیزگی محسوس کی
مِلتے ہوئے بھی ان سے تکلّف بنا رَہا
قربت کے باوجود بھی قربت نہیں ہوئی
ان کو نہیں ہے یاد مِرے گھر کا راستہ
سچ جانیے یہ جان کے حیرت نہیں ہوئی
کاش اس پل تم بھی ہوتے میرے ساتھ
چودھویں کا چاند ہے، دریا بھی ہے
کس طرح سے ربط ہو تینوں کے بیچ
تم بھی ہو، یہ دِل بھی ہے، دریا بھی ہے
سِلوٹ بھی کوئی چیز ہے بستر کو خبر کیا
کیوں گھر میں مَیں رہتا نہیں یہ گھر کو خبر کیا
کب چاند کو احساس ہے خود اپنی کشش کا
خوشبو کسے کہتے ہیں گلِ تر کو خبر کیا
موجود ہے اک دعوتِ نظارہ بھی اس میں
وہ پھول ہے، اس پھول سے پیکر کو خبر کیا
جنوں کی آگ میں تھوڑی بہت الفت بھی شامل ہے
خلل سمجھے ہو جس کو اس میں اک راحت بھی شامل ہے
اب نہ یہ تفصیل پوچھو، اور کیا آساں ہوا
ہم سفر تم ہو گئے تو راستہ آساں ہوا
رفتہ رفتہ آرزوئے وصل بھی جاتی رہی
آخر آخر ہجر کا بھی مرحلہ آساں ہوا
طنزیہ لہجے میں تم بھی اس کو لکھ بھیجو شکیلؔ
ہجر کی رُت کٹ گئی ہے غم ترا آساں ہوا
محبت وفا کی نشانی میں ہے
عبارت تو اپنے معانی میں ہے
وہ جس کی توقع کسی کو نہیں
وہ اک موڑ میری کہانی میں ہے
حکایت کو اتنا نہ الجھائیے
بہت لطف سادہ بیانی میں ہے
توجہ کے لمحے میں شاید نہ ہو
ترا دھیان تو بے دھیانی میں ہے
ابھی قحط آنکھوں پہ ٹوٹا نہیں
ابھی تو یہ دریا روانی میں ہے
زباں سے غلط استعارہ نہ کہہ
یہ آنسوہے اس کو ستارا نہ کہہ
کہاں تلخیِ مَے، کہاں زہرِ غم
سبھی تلخیوں کو گوارا نہ کہہ
تجلّی تو ہے، اس میں سوزش نہیں
یہ جگنو ہے اس کو شرارا نہ کہہ
اطہر شکیلؔ صاحب کے نزدیک شعر کی عظمت اور بانکپن کے لیے خونِ جگر درکار ہوتا ہے اس کے بغیر معجز ۂ فن کی نمود نہیں ہوتی اور نہ وہ شاہکار کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ کہتے ہیں:
سحر تک آگ یہ فکرو سخن کی اور تم اطہرؔ
چراغوں کا مقدر ہے اندھیرے میں جلا کرنا
مخمور سعیدی، دہلی
توحید دِل میں ہو تو لبوں پر رَہے خدا
ہم یوں جیے تو کیا جیے، بے دین، بے خدا
لَو یوں تو ہو گئی ہے بہت کم ضمیر کی
اس آخری چراغ کو بجھنے نہ دے خدا
تو راہِ راست اپنے کرم سے دِکھا مجھے
رستے غلط ہزار ہیں دنیا میں اے خدا
طالب ہیں برتری کے مگر ہیں عمل سے دُور
ہم کو جو کام کرنا ہے وہ کیوں کرے خدا
گرزانیوں کو مِلتی نہیں ہے سزا یہاں
حوّا کی بیٹیوں سے کشش چھین لے خدا
اب تو سکون بخش کہ اطہر شکیلؔ نے
اس عمرِ مختصر میں بہت دُکھ سَہے خدا
مِرے دِل کی دنیا سجا کر گئے تم
گلابوں کی فصلیں اُگا کر گئے تم
لیے پھر رہی ہے مجھے کھوج اپنی
مجھے مجھ سے آخر جدا کر گئے تم
تمہیں نامُرادی کا الزام کیوں دوں
ہتھیلی کا لکھا بتا کر گئے تم
کرم ہے تمہارا، عنایت تمہاری
ہر اک زخم دِل کا ہرا کر گئے تم
نہ ہم سے ہی پوچھی توقع ہماری
نہ اپنا ہی منشا بتا کر گئے تم
سوال ایک ہی ہے سب اپنے سے پوچھیں
کہ دنیا میں آئے تو کیا کر گئے تم
یہاں آنے والا ہے طوفان اطہرؔ
کہاں اپنا دیپک جلا کر گئے تم
دونوں ہی تو سفر میں تھے رُکتے بھلا کہاں
مِلتے بھی تجھ سے دوست تو مِلتے بتا کہاں
بِکھرے تھے اس کی سیج پہ گُلہائے رنگ رنگ
کس کس مہک کو لائی تھی بادِ صبا کہاں
اک شورِ بے کراں ہے تہہِ آسماں ابھی
جانے بھٹک رہی ہو مِری التجا کہاں
پہچان بھی دِشاؤں کی باقی نہیں رہی
بھٹکا ہے راستے میں مِرا رہ نما کہاں
سب موسموں کی مار سے کَس بَل نکل گئے
ہارے تھکے سے جسم میں اب وہ جِلا کہاں
برپا ہے انتشار وہ چاروں طرف شکیلؔ
ہونا پڑے گا ان سے نہ جانے جدا کہاں
رہ نمائی کر سکیں جو سَر پھرے، کب آئیں گے
جن سے منزل مِل سکے وہ راستے کب آئیں گے
دے کے آنسو جو سِدھارے تھے تمہارے ساتھ ساتھ
لَوٹ کر ہونٹوں پہ اب وہ قہقہے کب آئیں گے
دھجّیاں اب جیب و داماں کی نظر آتی نہیں
دشت کی رونق جو تھے وہ دِل جلے کب آئیں گے
عشق میں ناموس کی یا جان کی پَروا نہ تھی
دوستو! اب دِل میں ایسے ولولے کب آئیں گے
جو تھے ہمراہِ محبت، ڈھونڈتا رہتا ہے دِل
زندگی میں وہ پلٹ کر مشغلے کب آئیں گے
جب سے وہ بِچھڑے ہیں اکثر سوچتا ہوں مَیں شکیلؔ
آئیں گے لیکن وہ میرے واسطے کب آئیں گے
ہزار تجربے جھیلے تو یہ کِیا ہم نے
تمام کر دیا وعدوں کا سلسلہ ہم نے
جسے امید کی اک آخری کرن سمجھو
وہ اک چراغ بھی آخر بجھا دیا ہم نے
وہ دِل کے حال سے واقف ہے بے خبر تو نہیں
یہ سوچ کر کبھی مانگی نہیں دعا ہم نے
لبوں پہ آئے بھی شِکوے تو رُک گئے آ کر
تری نظر کا اشارہ سمجھ لیا ہم نے
خبر نہ تھی کہ اسی کی گلی میں پہنچے گا
کس احتیاط سے بدلا تھا راستہ ہم نے
حقیقتوں کے جہاں میں نہ جب اَمان مِلی
شکیلؔ خوابوں کا عالم سجا لیا ہم نے
کب تک کاٹوں تنہا تنہا
اک دِن تو ہی آ جا تنہا
اپنا بھی احساس نہیں ہے
کوئی نہ ہو گا مجھ سا تنہا
تم سے مِل کر یاد نہ آیا
ہم نے جھیلا کیا کیا تنہا
پَل دو پَل کا ساتھ غنیمت
ہم ہیں تنہا، دنیا تنہا
اب کیوں خواہش ہمراہی کی
سارا رستہ کاٹا تنہا
مِل کر بھی تو میل نہیں ہے
کشتی تنہا، دریا تنہا
کل دِن اپنی پیدائش کا
ہم نے یار منایا تنہا
اس کی گلی میں اطہرؔ کیسے
گھُوما آج اکیلا، تنہا
پی کر وہ اپنی آنکھ کے آنسو چلے گئے
جتنے بھی تھے سکون کے پہلو چلے گئے
اب دھُول اُڑ رہی ہے بیابانِ عشق میں
رونق تھے جو یہاں کی وہ آہُو چلے گئے
بس یہ ہُوا کہ پاس امیدیں نہیں رہیٖں
آہیں چلی گئی ہیں نہ آنسو چلے گئے
پتھر ہوئے ہیں لوگ وگرنہ جو تم میں تھے
افسوں چلے گئے نہ وہ جادو چلے گئے
موسم کے ساتھ گُم ہوئیٖں اس کی نشانیاں
برسات کیا گئی ہے کہ جگنو چلے گئے
تم کو خبر نہیں ہے کہ جھونکے ہَواؤں کے
لے کر تمہارے جسم کی خوشبو چلے گئے
اطہرؔ یہ اتفاق تھا کتنا حسیں، مِرے
بازو میں ان کے کس طرح بازو چلے گئے
بات جو سچّی تھی اکثر اَن کہی محسوس کی
جب بھی اس دنیا کو سوچا کھوکھلی محسوس کی
چوٹ پڑنی تھی کہ اٹھنے لگ گئیں چنگاریاں
یعنی پتھر میں بھی ہم نے زندگی محسوس کی
یہ تو سچ ہے تیرا سایہ بھی نہیں تھا دُور تک
دھیان نے لیکن تری موجودگی محسوس کی
ہر مہک یہ کہہ رہی ہے اس کو چھُو کر آئی ہے
خوشبوؤں میں، مَیں نے اک آواز بھی محسوس کی
ان سے مِل کر گھر جو لَوٹا ہوں تو مَیں نے رات بھر
اپنے اندر اک عجب سی روشنی محسوس کی
پھول سا چہرہ وضو سے اور پاکیزہ ہُوا
ہم نے اس میں اک عجب پاکیزگی محسوس کی
ہر نئے رُوپ میں ڈھل جاؤں گا میرا کیا ہے
جب کہو گے مَیں بدل جاؤں گا میرا کیا ہے
تو بتا کیسے کٹیں گی یہ برستی راتیں
مَیں تو رو رو کے بہل جاؤں گا میرا کیا ہے
تو بتا تیرے لیے سخت ہے دنیا کی روِش
مَیں کہ ہر غم سے بہل جاؤں گا میرا کیا ہے
اپنے مہندی رچے تلوؤں کی حفاظت کرنا
مَیں تو کانٹا ہوں نکل جاؤں گا میرا کیا ہے
شمع کی طرح کبھی آ کے جلانا مجھ کو
موم کی طرح پِگھل جاؤں گا میرا کیا ہے
خشک ٹہنی کی طرح کب سے سلگتا ہوں شکیلؔ
تم ہَوا دو گے تو جل جاؤں گا میرا کیا ہے
دِل جس میں بہل جائے وہ بستی بھی کہیں ہے
ہم دَرد کے ماروں کی تسلّی بھی کہیں ہے ؟
سنّاٹا نکلتا ہے دَر و بام سے اب تو
جیسی ہے مِرے گھر وہ اُداسی بھی کہیں ہے ؟
ہم اہلِ جنوں کے لیے صحرا بھی نہیں اب
بستی کوئی دھرتی پہ ہماری بھی کہیں ہے ؟
کچھ بندشیں اِس پار ہیں، کچھ بندشیں اُس پار
زنجیر کسی آنکھ کو دِکھتی بھی کہیں ہے ؟
ایسا تو نہیں چھوڑ گیا ہو وہ رہائش
ہے گھر تو وہی، نام کی تختی بھی کہیں ہے ؟
بنیاد ہے رشتوں کی ضرورت پہ دھری اب
کہتے ہیں جسے چاہ، وہ سچّی بھی کہیں ہے ؟
یادوں کی یہ مہکار ہے، مت پوچھیے اطہرؔ
خوشبو ہے مگر رات کی، رانی بھی کہیں ہے ؟
دریا پہ کبھی زور کسی کا نہیں چلتا
مانجھی جو نہیں ہو تو سفینہ نہیں چلتا
بیٹھے ہوئے راہی کو، کوئی اتنا بتا دے
رہ گیٖر چلا کرتے ہیں، رستہ نہیں چلتا
اس عہد میں کچھ اور ہیں دنیا کے تقاضے
اب گھر میں بزرگوں کا طریقہ نہیں چلتا
بازار میں تم جنسِ وفا لے تو چلے ہو
منسوخ جو ہو جائے وہ سِکّہ نہیں چلتا
بننا ہی تھا اک روز مجھے بھیٖڑ کا حصّہ
اب شہر میں مَیں بھی تو اکیلا نہیں چلتا
یہ کیسی عدالت ہے شکیلؔ اس کے نگر کی
عرضی نہیں چلتی، جہاں دعویٰ نہیں چلتا
مجھے فکر ہے تری قربتیں کوئی شخص میرے سِوا نہ لے
مَیں اُٹھا تو ہوں ترے پاس سے کوئی اور میری جگہ نہ لے
کوئی آ کے مجھ کو بتائے تو کہاں جا کے پائے وہ آسرا
جسے زندگی میں صنم نہ لے، جسے مُردنی میں خدا نہ لے
مِرے بس میں اور تو کچھ نہیں، مَیں خود اپنے کان میں گونج لوں
ہے لبوں پہ آہ رُکی ہوئی، اسے کون لے جو خدا نہ لے
نہیں جس کے نیچے زمیں تری، نہیں جس کے سَر پہ فلک تِرا
وہ غریب خوابوں کی بستیاں کہیں اور جا کے بسا نہ لے
یہاں مانگیے بھی کسی سے کیا، سبھی اپنے آپ میں مست ہیں
ترا شہر شہرِ عجیب ہے، کوئی بھی کسی کی دعا نہ لے
تو گلی گلی میں شکیلؔ کیوں ہے بگولہ پا سَرِ شام یوں
وہ چراغ جو ہے بجھا ہُوا اسے جا کے گھر میں جلا نہ لے
مزہ نہ التفات میں نہ لطف ہے عتاب میں
گزر رہی ہے زندگی نہ جانے کس عذاب میں
تمام رنگ تیرے تھے، تمام خوشبوئیں تِری
الائچی کے باغ سے گزر تھا میرا خواب میں
مجھے خبر ہے دونوں کا اگرچہ ماحصل ہے ایک
تری جفا کہ اپنے دُکھ لکھوں مَیں کس حساب میں
کئی کئی کہانیاں لکھی ہوئی ہیں عشق کی
جُڑے ہمارا باب بھی کبھی تو اس کتاب میں
نہیں ہُوا ہے کچھ بھی کم، بجز تمہاری ذات کے
نہ وہ کشش ہے رقص میں نہ وہ مزہ شراب میں
تمہارے روز و شب جدا، تمہارے مشغلے الگ
یقیں ہے اب نہ آئے گا تمہارا خط جواب میں
یہ سُنّتیں بنی رہیں شکیلؔ اہلِ دَرد کی
جنون و غم کا ہر سبق لکھو مِرے نصاب میں
مِرے دروں میں جگا رہا ہے عجب سی چاہت تمہیں خبر کیا
تمہارا چہرہ تمام دعوت، تمام دعوت تمہیں خبر کیا
نہ صبح میری نہ شام میری نہ نیند میری نہ خواب میرے
حدوں سے آگے گزر گئی ہے مِری محبت تمہیں خبر کیا
وضو میں چہرہ دھُلا دھُلا سا، دعا میں آنکھیں جھکی جھکی سی
عجب ہے معصومیت بھی اس کی، عجب طہارت تمہیں خبر کیا
کہیں نہیں ہے، کہیں نہیں ہے، کہیں نہیں ہے تمہاری جیسی
کوئی ملاحت، کوئی صباحت، کوئی لطافت تمہیں خبر کیا
تمہیں خبر کیا، تمہاری خفگی سے چھِن گیا ہے سکوں کسی کا
کسی کے سر سے گزر رہی ہے جو اک قیامت تمہیں خبر کیا
بِکا ہے بے دام یوں تو اطہرؔ مگر وہ اک دُرِّ بے بہا ہے
کسی بھی اہلِ نظر سے پوچھو، تم اس کی قیمت تمہیں خبر کیا
مہک سانسوں میں، چہرے کو گُلِ تر دیکھنا چاہا
ابھی تک جو نہیں اُبھرا وہ منظر دیکھنا چاہا
اسی اک جُرم میں کاٹی ہیں ہم نے ہجر کی صدیاں
اندھیری شب میں کیوں ماہِ منوّر دیکھنا چاہا
تمہاری راہ تکتے تکتے جو پتھرا گئیں آخر
کبھی کیا تم نے ان آنکھوں کا ساگر دیکھنا چاہا
ہماری خیریت با الواسطہ لینے سے کیا حاصل
کبھی تم نے ہمارا حال آ کر دیکھنا چاہا
بسایا ہم نے صحرا کو تو کچھ مجبوریاں ہوں گی
بتاؤ ہم نے کس دِن خود کو بے گھر دیکھنا چاہا
بڑھی ہے زندگی میں بے قراری اور بھی اطہرؔ
سکوں ہم نے جو اپنے گھر سے باہر دیکھنا چاہا
عقبیٰ پر ایمان رکھوں
شک نہ رکھوں، ایقان رکھوں
دنیا دِل پر دستک دے
کب تک تیرا دھیان رکھوں
تابع ہیں حالات کے سب
زندہ سچ ہے جان رکھوں
چاروں طرف سوداگر ہیں
باقی کیا ایمان رکھوں
بستی ہے قزّاقوں کی
تھوڑا ہی سامان رکھوں
نکلوں شہر میں لے کے کفن
ہاتھ پہ اپنی جان رکھوں
جب بھی گھر سے نکلوں شکیلؔ
ساتھ میں کچھ پہچان رکھوں
چھُپے جذبے نہ ظاہر ہوں کچھ ایسی ابتدا کرنا
ذرا بچ بچ کے لوگوں سے تمہارا تذکرہ کرنا
تم آنکھوں سے جدا ہو تو گئے مجبوریاں ہوں گی
نہیں ممکن تمہاری یاد کو دِل سے جدا کرنا
وفا موقوف ہے ہم سب کی طینت پر، مزاجوں پر
سِکھاسکتا نہیں کوئی کسی کو بھی وفا کرنا
ہمیں معلوم ہے الزام الٹا ہم پہ آنا ہے
روِش اس کی یہ دیکھی ہے تو چھوڑا ہے گِلہ کرنا
سحر تک آگ یہ فکرو سخن کی اور تم اطہرؔ
چراغوں کا مقدّر ہے اندھیرے میں جَلا کرنا
پھر مجھے رات تری یاد دِلانے آیا
پاس کی جھیل میں پھر چاند نہانے آیا
پھول پھر کھِلنے لگے، پھر یہ ہَوا کا جھونکا
تیری خوشبو مِری سانسوں میں بسانے آیا
پھر یہ احساس ہوا مَیں نے خریدا تھا یہ غم
پھر ترا درد مجھے آج ہنسانے آیا
دستِ وحشت نے مِرے پھر سے مَلی جسم پہ گرد
دشت پھر گھر سے مِرے مجھ کو بلانے آیا
پھر سے پُروا نے مِرے زخمِ دروں تازہ کیے
اَبر پھر چھت پہ مِری نٖیر بہانے آیا
کشتیاں اپنی بچانے پہ لگے تھے سب لوگ
کون نیّا کو مِری پار لگانے آیا
اُف یہ آوارہ مزاجی کہ مَیں اطہرؔ اکثر
ڈھل گئی رات تو گھر شمع جَلانے آیا
صنم، پھول، چندا، ستارا نہیں
تمہارا کوئی استعارہ نہیں
دھڑکتے ہوئے دِل جُدا ہو گئے
کسی نے کسی کو پکارا نہیں
کہیں چاند آنگن کا گہنا گیا
کسی گھر کے آنگن کا تارا نہیں
ہَوا نے بکھیرے بہت آشیاں
جو کَل تک تھا اب وہ سہارا نہیں
یہ اندوہِ ہجراں، یہ دردِ فراق
خدا! اے خدا اب دوبارہ نہیں
بہت حشر جھیلے، بہت دکھ سہے
مگر آدمی ہے کہ ہارا نہیں
سفینہ ابھی اپنا کھیتے چلو
ابھی پاس اطہرؔ کنارا نہیں
یہ بستی، یہ صحرائے ویراں بھی میرا
یہ وحشت میں قلبِ پریشاں بھی میرا
قبا کو میں اپنے مطابق بناؤں
یہ گردن مِری ہے، گریباں بھی میرا
مِری حکمرانی ہے کوہ و زمیں پر
یہ دریا بھی میرے، بیاباں بھی میرا
اگرچہ ہے بندش مِرے داخلے پر
بتانے کو شہرِ نگاراں بھی میرا
نہ غنچے مِرے ہیں نہ خوشبوئیں میری
خیاباں ہیں میرے، گلستاں بھی میرا
سبھی خوب و ناخوب میرے ہیں اطہرؔ
خزاں میری، عہدِ بہاراں بھی میرا
دنیا میں دِکھاوے کی قرابت نہیں اچھی
قائم ہو غرض پر تو محبت نہیں اچھی
کیوں ظاہر و باطن میں تفاوُت کا چلن ہے
سچ اپنا چھپا لینے کی عادت نہیں اچھی
یوں بھی تو نکلتی ہے بخیلی کی روایت
جب تک نہ ضرورت ہو کفایت نہیں اچھی
حق ماہیِ بے مایہ کا خطرے میں پڑے گا
دریا پہ مگر مچھ کی حکومت نہیں اچھی
جیسے بھی ہو محدود رکھو اپنی طلب کو
بڑھ جائے جو حد سے وہ ضرورت نہیں اچھی
کس وقت کی کیا مانگ ہے یہ سوچیے اطہرؔ
جدّت نہیں اچھی ہے، روایت نہیں اچھی
یا رَب قرار دے، دِلِ خستہ نہ دے مجھے
پوری نہ ہو سکے تو تمنّا نہ دے مجھے
لفظوں کی آبرو کا بھی کچھ تو لحاظ رکھ
جی چاہتا نہ ہو تو دِلاسا نہ دے مجھے
اے عصرِ نو کے تند تقاضے ذرا ٹھہر
دِل مجھ سے میرا چھین کے دنیا نہ دے مجھے
جھوٹی امید سے مجھے گِرنا عزیز ہے
کمزور ہو عصا تو سہارا نہ دے مجھے
مہمل اشارتوں کو سمجھنا محال ہے
معنیٰ نہ جس کے ہوں وہ اشارہ نہ دے مجھے
اطہرؔ کو دردِ عشق سے حاصل ہو اب نجات
تو ایسی بددعا تو خدارا نہ دے مجھے
کبھی پاؤں میں ہوں، کبھی سر میں کم
ہُوا ہوں میں خود اپنی چادر میں کم
کوئی اور راحت مجھے چاہیے
اگر چہ مسرّت نہیں گھر میں کم
تمہارے ہی تیشے میں طاقت نہیں
شرر کب ہوئے دوست، پتھر میں کم
جو سمجھو تو امکان کا سلسلہ
عمل میں بہت ہے، مقدّر میں کم
کوئی غوطہ خوری کا سیکھے ہنر
کہ موتی نہیں ہیں سمندر میں کم
نہیں لگ رہا ہے بیاباں میں جی
ابھی جوشِ وحشت ہے اطہرؔ میں کم
بہت ہیں ان میں شک والے، بہت سے ہیں گُماں والے
ہمیشہ سچ نہیں ہوتا جو کہتے ہیں جہاں والے
محبت میں مجھے کیوں تو نے ناکامی مقدّر کی
بتا اے آسماں والے، بتا اے آسماں والے !
کبھی اِس سمت جاتے ہیں کبھی اُس سمت جاتے ہیں
پتا منزل کا کھو بیٹھے ہیں شاید کارواں والے
خزاں کی رُت میں اب کی بار صیّادوں کی بَن آئی
ہوئے محروم پتّوں سے شجر سب آشیاں والے
ہر اک دَر پر یہاں تو اجنبی ناموں کی تختی ہے
نہ جانے اب کہاں ہوں گے وہ پہلے کے مکاں والے
بھُلا دیں کَل کے غفلت خیز موسم میں تو حیرت کیا
ابھی تک تو تمہیں سب یاد کرتے ہیں یہاں والے
محبت ہو، وفا ہو، وضعداری ہو، مروّت ہو
یہ سودے دِل کے ہیں اطہرؔ مگر سب ہیں زیاں والے
محبت وفا کی نشانی میں ہے
عبارت تو اپنے معانی میں ہے
وہ جس کی توقع کسی کو نہیں
وہ اک موڑ میری کہانی میں ہے
حکایت کو اتنا نہ اُلجھائیے
بہت لطف سادہ بیانی میں ہے
توجّہ کے لمحوں میں شاید نہ ہو
تِرا دھیان تو بے دھیانی میں ہے
ابھی قحط آنکھوں پہ ٹوٹا نہیں
ابھی تو یہ دریا روانی میں ہے
سکوں میں وہ آرام اطہر ؔ کہاں
جو لذّت مجھے خستہ جانی میں ہے
کیسے، کب ہو گیا تبدیل زمانہ کتنا
چھا گیا ذہن میں لوگوں کے اندھیرا کتنا
عشق کیا شئے ہے مِرے دوست خبر یہ بھی نہیں
آپ اپنا مَیں کہاں تک ہُوں، تمہارا کتنا
ہیں تخیّل میں خدوخال بھی دھُندلے دھُندلے
اس کو دیکھے ہوئے گزرا ہے زمانہ کتنا
بجھ گیا مَیں جو تِرے سامنے حیرت کیسی
چاند کے پاس چمکتا ہے ستارہ کتنا
یہ شرر سنگ میں ہے، سنگ کے باہر کیا ہے
رقص کرتا ہے ہواؤں میں شرارا کتنا
لفظ شیریں سہی دیتے نہیں تسکیں اطہرؔ
دیکھنا ہے کوئی کرتا ہے مداوا کتنا
اسے یوں تو مجھ سے محبت بھی ہے
طبیعت میں لیکن ظرافت بھی ہے
فقط ہجر میں تلخیاں ہی نہیں
محبت کے غم میں حلاوت بھی ہے
قیامت بھی ہو گی یقیناً حسیں
وہ قامت میں اپنی قیامت بھی ہے
توجہ، مسرّت، تغافل ہے قہر
تِرا عشق رحمت بھی، زحمت بھی ہے
وہ اک شخص جس نے مٹایا مجھے
مِری زندگی کی ضمانت بھی ہے
کروں کیسے قائد پہ اطہر ؔ یقیں
بھروسے کے لائق قیادت بھی ہے ؟
جب دِلی قربتیں نہیں ہوتیں
زیست میں راحتیں نہیں ہوتیں
زخم کیسا ہی ہو محبت کا
زخم میں لذّتیں نہیں ہوتیں
بھٖیڑ کو ہانکتے ہیں رہبر لوگ
بھٖیڑ کی قسمتیں نہیں ہوتیں
بام ہیں دوسروں کے شہر میں اب
گھر میں اپنی چھتیں نہیں ہوتیں
ہوٹلوں کا چلن بھی عام ہُوا
گھر میں اب دعوتیں نہیں ہوتیں
پہلے ہوتیں تھیں دوست لیکن اب
قرب میں قربتیں نہیں ہوتیں
باہمی رنجشیں جو ہیں اطہرؔ
یوں بھی اب برکتیں نہیں ہوتیں
اس عشقِ نا مُراد میں جو کچھ سہا، بتا
حالِ دلِ خراب بتا، سانحہ بتا
خود غرض رہبروں پہ نہ کر اعتبار اب
گُم راہ جو ہُوئے ہوں انھیں راستہ بتا
اخلاق کی روایتیں دِل سے لگا کے رکھ
اپنے سکوں کی تہہ میں کسی کی دعا بتا
انسان کو خدا کی ضرورت سدا سے ہے
یہ قول سچ نہیں ہے تو مَردِ خدا بتا
دیتے نہیں ہیں اہلِ خدا مانگنے سے کچھ
خواہش بتا نہ اپنی، کوئی مدّعا بتا
اطہرؔ یہاں ہے کب سے یزیدوں کا اقتدار
ہر دشتِ بے حُسین کو اب کربلا بتا
آنکھیں مِری اپنی سہی، آنسو نہیں میرا
اپنے ہی خیالات پہ قابو نہیں میرا
جا چمکے گا اک پَل میں کسی اور شجر پر
یہ رات فقط میری ہے، جگنو نہیں میرا
گردن میں حمائل تھا تری دوست ابھی تک
لگتا ہے مجھے اب مِرا بازو نہیں میرا
یہ پھول پہنچ میں ہے نہ وہ پھول پہنچ میں
اس زیست میں شاید کوئی گُل رُو نہیں میرا
دریا ہے مگر مجھ کو میسّر نہیں پانی
گیسو ہے مگر سایۂ گیسو نہیں میرا
مَیں روٹھنا چاہوں بھی تو کہتا ہے وہ اطہرؔ
مِٹ جائے اثر جس کا وہ جادو نہیں میرا
سوچتے تھے خوف بڑھ کر حوصلہ بَن جائے گا
کیا خبر تھی زندگی کرنا سزا بَن جائے گا
رہ نور دو، یہ نہ سمجھو دشت میں راہیں نہیں
قافلے چلتے رہے تو راستہ بَن جائے گا
شہر سے لَوٹا تھا جو اک مختصر وقفے کے بعد
کس کو یہ معلوم تھا وہ غیر سا بَن جائے گا
عام ہے کردار پر پالِش کا فن اب دیکھنا
آج کا بدنام رہزن، رہ نما بَن جائے گا
خالقِ بَرحق نے بھی شاید کبھی سوچا نہ ہو
آدمی ارضِ خدا پر مسئلہ بَن جائے گا
اس بدلتی زندگی کو دیکھتے جاؤ شکیلؔ
جو عمل ہے ناروا کل وہ روا بَن جائے گا
میرے اشکوں کی نمی بھی نہیں رہنے والی
سُوکھ ہی جائے گی یہ جھیل بھی بہنے والی
ہم میں اس ترکِ تعلق کا خطا وار تھا کون
چھوڑیئے اب یہ کہانی نہیں کہنے والی
دِل میں اک فقرہ اُتر جاتا ہے خنجر کی طرح
دوست ہر بات تو ہوتی نہیں سہنے والی
اُف یہ شدّت کا کرم، دوست مجھے لگتا ہے
چودھویں چاند کی یہ وضع ہے گہنے والی
جس کو جذبات کی یورش سے بچا رکھا تھا
اب تو وہ صبر کی دیوار ہے ڈہنے والی
بولتے بولتے خاموش ہُوا کیوں اطہرؔ
بات شاید نہیں سُوجھی کوئی کہنے والی
تُو سبزہ، کلی، پھول، غنچہ بھی دیکھ
خزاں میں بہاروں کا سپنا بھی دیکھ
زمانے سے کر صلح بھی، جنگ بھی
مگر روز و شب کا تقاضہ بھی دیکھ
ہے پانی ابھی تیرنے کو بہت
کنارے سے آگے کا دریا بھی دیکھ
کہاں کیا ہے دونوں میں موزونیت
عطا اس کی، اپنی تمنّا بھی دیکھ
بکھرتے ہوئے گُل پہ گریہ نہ کر
کھِلے گا جو کل تک وہ غنچہ بھی دیکھ
پڑاؤ کو اطہر ؔ نہ منزل سمجھ
سفر کا کوئی اور جادہ بھی دیکھ
سب کچھ گیا جہاں سے، برائی نہیں گئی
بھڑکی ہے آگ وہ جو لگائی نہیں گئی
ٹوٹے تھے جس سے خواب، پریشاں ہوا تھا دِل
مجھ سے کبھی وہ بات بتائی نہیں گئی
رہ رہ کے لاکھ برسی ہیں اشکوں کی بارشیں
مجھ میں جو آگ ہے وہ بجھائی نہیں گئی
آنکھوں میں تھی نہاں جو تِرے پیار کی طلب
کوشش تو ہم نے کی پہ چھپائی نہیں گئی
تم کو خبر نہیں مِرے ہونٹوں پہ نقش ہے
اک ایسی داستاں جو سُنائی نہیں گئی
اک دھیان تھا جو ساتھ رَہا عمر بھر شکیلؔ
اک یاد تھی جو ہم سے بھلائی نہیں گئی
حالات سے ہم صرفِ نظر کر نہیں سکتے
اس عمر کو یوں بھی تو بسر کر نہیں سکتے
کل دشت و بیاباں سے گزرنے میں نہ تھا ڈر
اب شہر میں بے خوف سفر کر نہیں سکتے
جیسے بھی ہو روشن کرو اب اپنے دِلوں کو
یہ بجھتے ہوئے دیپ سحر کر نہیں سکتے
قاصد کی ضرورت ہے نہ پیغام رساں کی
ہم اس کو مگر اپنی خبر کر نہیں سکتے
اب دیدۂ نمناک کی وقعت نہیں باقی
ہم اشکوں کے قطروں کو گہر کر نہیں سکتے
اک ترکِ طلب وجہہِ سکوں ہے یہاں اطہرؔ
گو سہل ہے یہ کام مگر کر نہیں سکتے
اب نہ یہ تفصیل پوچھو، اور کیا آساں ہُوا
ہم سفر تم ہو گئے تو راستہ آساں ہُوا
عزم کو پہلے عمل میں ڈھال لینا سیکھئے
سوچ ہی لینے سے کب ہر مسئلہ آساں ہُوا
رفتہ رفتہ آرزوئے وصل بھی جاتی رہی
آخر آخر ہجر کا بھی مرحلہ آساں ہُوا
اس کی رنجش کا یہ عقدہ اے مِرے نادان دِل
دھیان کو اک پَل ہٹا لینے سے کیا آساں ہُوا
طنزیہ لہجے میں تم بھی اس کو لکھ بھیجو شکیلؔ
ہجر کی رُت کٹ گئی ہے، غم ترا آساں ہُوا
جنوں کی آگ میں تھوڑی بہت اُلفت بھی شامل ہے
خلل سمجھے ہو جس کو اس میں اک راحت بھی شامل ہے
تمہاری دِل نوازی کا بہ دِل ممنون ہوں لیکن
مِرے اس شکریہ میں دِل کی اک حسرت بھی شامل ہے
تم اپنے حسن میں یوں تو یگانہ ہو مگر دیکھو
تمہاری دلکشی میں کچھ مِری چاہت بھی شامل ہے
لپک اٹھتا ہوں صحرا کی طرف اُکتا کے بستی سے
خرد مندی میں میری کچھ نہ کچھ وحشت بھی شامل ہے
نظر میں ناگواری ہے تو ہونٹوں پر تبسّم بھی
تمہاری بے رخی میں کیا کوئی دعوت بھی شامل ہے
مَیں کیوں الزام دوں اطہرؔ عزیزوں کے رویّے کو
مِرے آفات میں شاید مِری قسمت بھی شامل ہے
کیسے کہہ دوں خدا نہیں مِلتا
دِل سے چاہیں تو کیا نہیں مِلتا
عیش کے سب شریک مِلتے ہیں
دَرد کا آشنا نہیں مِلتا
طالبانِ وفا تو ہیں لیکن
پاسدارِ وفا نہیں مِلتا
ختم ہیں دِل ربائیاں اس پر
اب کوئی دِل ربا نہیں مِلتا
تیرے چہرے میں نِت نئی چھب ہے
چاند میں کچھ نیا نہیں مِلتا
خوف کا شہر میں یہ عالم ہے
اب کوئی دَر کھُلا نہیں مِلتا
گُم کہاں ہو گئے ہیں اطہرؔ جی
کچھ پتا آپ کا نہیں مِلتا
سِلوٹ بھی کوئی چیز ہے بستر کو خبر کیا
کیوں گھر میں مَیں رہتا نہیں یہ گھر کو خبر کیا
کب چاند کو احساس ہے خود اپنی کشش کا
خوشبو کسے کہتے ہیں گُلِ تر کو خبر کیا
ہر مَوج میں رُو پوش ہیں طغیانیاں کتنی
بیتی جو سفینے پہ سمندر کو خبر کیا
موجود ہے اک دعوتِ نظّارہ بھی اس میں
وہ پھول ہے، اس پھول سے پیکر کو خبر کیا
چٹّان کو سوزش نہیں دیتے ہیں شرارے
کیا سوزِ دروں ہے کسی پتھر کو خبر کیا
ہونٹوں پہ جو الفاظ ہیں، معلوم ہیں لیکن
کیا دِل میں کسی کے ہے یہ اطہرؔ کو خبر کیا
ایک سچ چہرے کا اَن دیکھا بھی ہے
آنکھ سے محروم آئینہ بھی ہے
بستیوں میں جی رہا ہے اک ہجوم
ڈھونڈیے ان میں کوئی اپنا بھی ہے
کاش اس پَل تم بھی ہوتے میرے ساتھ
چودھویں کا چاند ہے، دریا بھی ہے
کس طرح سے ربط ہو تینوں کے بیچ
تم بھی ہو، یہ دِل بھی ہے، دنیا بھی ہے
یوں تو چہرے ہیں شناسا سب یہاں
شہر میں لیکن کوئی اپنا بھی ہے
چاہتے ہو مِلنے والوں سے وفا
جیب میں اطہرؔ میاں پیسہ بھی ہے
زباں سے غلط استعارہ نہ کہہ
یہ آنسو ہے اس کو ستارا نہ کہہ
کوئی چیز ہے عزّتِ نفس بھی
غرض کو کسی سے دوبارہ نہ کہہ
تجلّی تو ہے، اس میں سوزش نہیں
یہ جگنو ہے اس کو شرارا نہ کہہ
کہاں تلخیِ مَے، کہاں زہرِ غم
سبھی تلخیوں کو گوارا نہ کہہ
نظر میں کہیں کچھ بُلاوا بھی ہو
خموشی کو اس کی اشارہ نہ کہہ
ابھی امتحاں اور بھی ہیں یہاں
ابھی دِل کو آفت کا مارا نہ کہہ
خدا کا بھروسا بہت ہے شکیلؔ
کبھی خود کو تو بے سہارا نہ کہہ
گھر سے اس کے واپسی کا راستہ بھی سوچیے
ابتدا کرنے سے پہلے، انتہا بھی سوچیے
دیکھیئے اچھی نہیں ہر بات میں یکسانیت
سب کے جیسا سوچیے، سب سے جدا بھی سوچیے
بے وفائی کا گِلہ بھی کیجیے تو کب تلک
کیوں نہیں باقی زمانے میں وفا بھی سوچیے
مت مکمل کیجیے ترکِ تعلق کا خیال
رابطہ باقی رہے وہ سلسلہ بھی سوچیے
جسم کی حد سے نکل کر سانس بھی لی تھی کبھی
یاد آ جائے تو ایسا واقعہ بھی سوچیے
ایک ہی پہلو تو سکّے کا نہیں ہوتا شکیلؔ
اس کی رنجش سوچیے، اپنی خطا بھی سوچیے
شکستِ یقیں پر اُداسی غلط
توقع غلط، خوش قیاسی غلط
جو سمجھو گے اس کو تو پچھتاؤ گے
محبت میں مردُم شناسی غلط
دِکھاوے میں مطلب براری نہ ہو
تعلق کی صورت سیاسی غلط
محبت میں ہنسنا، چہکنا بھی سیکھ
یہ پژ مُردگی بارہ ماسی غلط
شبِ ہجر میں یوں نہ آنسو بہا
لہوٗ کی یہ ہر دَم نکاسی غلط
چلے تو ہو تم اس سے مِلنے شکیلؔ
مگر دوست یہ بدحواسی غلط
ہوَس نہ دِل میں نہ ہونٹوں پہ مدّعا رکھنا
غرض سے پاک دِلوں کا معاملہ رکھنا
دَروں کو گھر کے جو موندو تو کوئی بات نہیں
دریچہ دِل کا ہمیشہ کھُلا ہُوا رکھنا
سحر سے پہلے بھڑکنے لگیں چراغ اگر
لہوٗ کے دیپ جَلانے کا حوصلہ رکھنا
وفا مزاج میں باقی نہیں رہی ہے یہاں
چلن سے شہر کے اپنی روِش جدا رکھنا
کوئی ہو رشتہ میانہ رَوِی ضروری ہے
بہت نہ قربتیں رکھنا نہ فاصلہ رکھنا
ہزار گوشہ نشینی تم اختیار کرو
شکیلؔ مِلنے مِلانے کا سلسلہ رکھنا
نفع کے معنیٰ سُنے، حرفِ ضرر بھی سیکھئے
زندگی اک آگ ہے اس کا سفر بھی سیکھئے
دھار پر خنجر کی سَر رکھنا ہی تو کافی نہیں
قاتلوں کے بیچ جینے کا ہنر بھی سیکھئے
ضرب سے، شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھرے تو کیا
سنگ پاروں سے کبھی رقصِ شرر بھی سیکھئے
سر بکَف بیٹھے رہے تو بچ نہ پائے گا کوئی
بڑھ گیا ہے شر بہت اب ردِّ شر بھی سیکھئے
سیکھنے کو کم نہیں ہے، بَن ہو یا ہوں بستیاں
مدرسے میں سب کہاں ہے کچھ تو گھر بھی سیکھئے
آنکھوں میں آنسو رہیں گے کب تلک اطہر شکیلؔ
دُکھ میں رہنا ہی نہیں، دُکھ سے مَفَر بھی سیکھئے
سادہ لَوحی سے الگ بھی سلسلے کچھ اور ہیں
کامیابی چاہیے تو راستے کچھ اور ہیں
کون ہے جو دِل کے اندر جھانک کر یہ دیکھ لے
وہ جو تلووں میں نہیں وہ آبلے کچھ اور ہیں
دیکھ کر حیران ہُوں دو رنگیاں احباب کی
لب پہ شکوے اور ہیں، دِل میں گِلے کچھ اور ہیں
ولولے دِل کے جگا اور چاندنی راتوں میں آ
آ مِرے ہونٹوں پہ نغمے پیار کے کچھ اور ہیں
یہ زمیں ہم عشق کے ماروں سے کب خالی ہوئی
شہر میں اپنے سِوا بھی دِل جلے کچھ اور ہیں
اس کو نظروں کی، مجھے دِل کی تسلّی چاہیے
سچ ہے اطہرؔ اس کے میرے راستے کچھ اور ہیں
تِرے خیال کی خوشبو بکھر گئی ہمدم
پھر ایک بار یہ ہستی نکھر گئی ہمدم
ہے تیری یاد سے اک رشتۂ وفا اپنا
جہاں جہاں میں رُکا یہ ٹھہر گئی ہمدم
نہیں تھا فاصلہ دونوں کے درمیاں اتنا
قدم نہ میرے بڑھے، تو بھی ڈر گئی ہمدم
خدا نہیں ہُوں مَیں، آدم ہُوں، زندگی یوں بھی
سمٹ گئی تو کہیں پر بکھر گئی ہمدم
گرفت ایسی تھی چاہت کی تیری دِل پہ مِرے
وہاں وہاں میں گیا تو جدھر گئی ہمدم
جو مدّتوں میں بنی تھی کسی کی شخصیّت
مِری نگاہ سے وہ بھی اُتر گئی ہمدم
قتل چاہت کا اپنی کر نکلا
مَیں بھی سفّاک کس قدر نکلا
تھا جنازہ بس ایک رشتوں کا
جو اِدھر تو کبھی اُدھر نکلا
تیرا بندہ ہر ایک، میرے خدا
اک نظریہ کو اوڑھ کر نکلا
راہ میں بھانپ کر ذرا خطرہ
چھوڑ لوگوں کو راہ بر نکلا
دُور اپنوں سے ہو گئے اپنے
کون رشتوں کو بانٹ کر نکلا
کچھ نہیں جب تِری رضا کے بغیر
کیوں گنہگار پھر بشر نکلا
معیار کے معنیٰ جنھیں سمجھائے تھے مَیں نے
اب ان کی نظر میں مِرا معیار نہیں ہے
آدابِ محبت اسے معلوم ہیں اے دِل
ناراض تو ہے تجھ سے وہ بے زار نہیں ہے
مصلوب کرے تجھ کو زمانہ یہ الگ بات
سچ بولنے والے تو گنہگار نہیں ہے
میری بھی یہاں جہدِ مسلسل میں کٹی عمر
کیوں دِل مِرا خوشیوں کا سزاوار نہیں ہے
اس بزمِ طرب میں نہ تھی اطہرؔ کی ضرورت
ہے کون یہاں ایسا جو سرشار نہیں ہے
٭٭٭
جاں دے کے بچایا ہے بھرے شہر کو اس نے
جس کا یہ سمجھتے تھے کہ معیار نہیں ہے
کہنے کو تو اس دِل میں بچا کچھ بھی نہیں تھا
کیا غم ہے جو اب قوّتِ گفتار نہیں ہے
کیوں زیست کو وارا ہے مِرے پیار پہ ہمدم
اتنی بھی محبت کا یہ حقدار نہیں ہے
بدلاؤ طبیعت میں کہیں آیا ہے ان کی
نغمات ہیں ہونٹوں پہ، وہ تکرار نہیں ہے
کیا خوف ہے، چاہت جو تذبذب میں ہے تیری
کیوں تجھ میں بتا، جرأتِ اظہار نہیں ہے
جس نے تجھے چاہا نہیں، پوجا بھی ہے، کیوں کر
اب تک تِری چاہت کا سزاوار نہیں ہے
اب کون سی شئے ہے جو نہیں ہے تجھے حاصل
اے دِل مِرے اب تک بھی تو سرشار نہیں ہے
ہم ظلم گنِاتے ہیں تو بَن جاتے ہیں مجرم
وہ جورو ستم کر کے گنہگار نہیں ہے
لے آیا اندھیرے سے اُجالے کی طرف دِل
اسرارِ جہاں اب مجھے اسرار نہیں ہے
سب خیر تو ہے، شہر میں خاموشی ہے کیوں کر
ٹیبل پہ بھی میرے کوئی اخبار نہیں ہے
اب آ گئے اچھے سے شب و روز کہ تم بھی
آ جاؤ کہ اب زندگی دشوار نہیں ہے
دیوار دِلوں کی ہو کہ ہو صحن کی لوگو!
رکھ دے نہ اگر بانٹ کے دیوار نہیں ہے
وہ کس کا ہے یہ چھوڑیے، اس کا ہے ہر اک شخص
اس جیسا یہاں کوئی بھی ہشیار نہیں ہے
تنقید کرے مجھ پہ کوئی، روکے یا ٹوکے
کیا کوئی یہاں صاحبِ کردار نہیں ہے
یہ جان لے فرعونِ زماں، اُمّتِ لَو لاک
حیراں ہے، پریشان ہے، لاچار نہیں ہے
اس عہد کے آئینے میں اک مَیں ہی نہیں ہُوں
ہے کون جو دنیا کا طلب گار نہیں ہے
یہ کیا، نظر انداز کرے ہے تو مسلسل
نفرت کا بھی دِل اب تِری حقدار نہیں ہے
کج بحثی طبیعت میں نہیں اب مِری باقی
اس میں بھی وہ اب عادتِ تکرار نہیں ہے
ششدر سے ہیں دونوں ہی مِلے ہیں جو یکایک
ہونٹوں میں بھی اب قوّتِ گفتار نہیں ہے
آتا ہے سرِ بام جو اک چاند کی صورت
سنگار کا جادو ہے، طرح دار نہیں ہے
کھا کر بھی فریب ان سے، اُنہی کا ہے ہمیشہ
دِل اب بھی مِرا ہونے کو تیّار نہیں ہے
توہین کا ڈر اپنی نہ رُسوائی کا گھر کی
اب کیسی بھی سَر پر مِرے دستار نہیں ہے
غزلیں تو بہت تم نے کہیں، ان میں مگر ہم
شہکار جسے کہہ دیں وہ شہکار نہیں ہے
رُوٹھے ہوئے لوگوں کو مِلاؤ تو بنے بات
رشتوں کا یہاں توڑنا دشوار نہیں ہے
اخلاص و وفا، انس و مروّت کی ضرورت ؟
اس عہد میں ان سب کا خریدار نہیں ہے
کرنی ہے پرستش تو ہر اک چیز کو پوجیں
جب اِتنے بتوں سے ہمیں انکار نہیں ہے
منکر ہوں میں اس عہد کی تہذیب کا دِل سے
انکار میں پنہاں مِرے اقرار نہیں ہے
ہے کل کی مسرّت پہ تو اس واسطے خنداں
ہاتھوں میں تِرے آج کا اخبار نہیں ہے
دانا ہے، قلندر ہے، دِوانہ ہے وہ، کیوں کر
آسائشِ دنیا کا طلب گار نہیں ہے
توہینِ مسافت ہے مدد لینا کہ راہی
دَم لینے کو ٹھہرا ہے یہ لاچار نہیں ہے
کھایا نہ کوئی زخم نہ میدان میں اُترا
یوں دادِ شجاعت کا وہ حقدار نہیں ہے
اب چھوڑتا جاتا ہے یہ دِل خواہشِ دنیا
اب کوئی مسرّت، کوئی آزار نہیں ہے
اقرار کبھی اس کا نہیں ہوتا ہے اقرار
انکار بھی جس شوخ کا انکار نہیں ہے
یہ بات الگ ہے کہ سمجھ آئے نہ ہم کو
دنیا میں کوئی چیز بھی بیکار نہیں ہے
اس عہد میں اعلانیہ سچ بولنے والے
کیا تیرا جہاں میں کوئی گھربار نہیں ہے
٭٭٭
بِک جائیں جہاں جا کے وہ بازار نہیں ہے
اپنا کوئی دنیا میں خریدار نہیں ہے
سچّا ہے وہ بے باک ہے، بے لَوث ہے لیکن
بس ایک کمی ہے کہ وفادار نہیں ہے
سَر کٹنے سے پہلے یہ اُتر جائے گی کیسے
مانگی ہوئی سر پر مِرے دستار نہیں ہے
نغموں میں کشش تیرے نہ آواز میں وہ لوچ
پازیب میں بھی پہلی سی جھنکار نہیں ہے
ہر چیز پہ نظریں ہیں تو ہر شئے کا طلب گار
یہ جب ہے کہ اس کا کوئی گھر بار نہیں ہے
بنایا ہے انھیں نائب تو نازاں بھی ہیں یہ اس پر
کہ تیرے بعد جتنا علم ہے، انسان رکھتے ہیں
اصولِ جنگ سے واقف ہیں جو وہ جانتے ہیں یہ
ہتھیلی پر تو جاں اپنی یہاں نادان رکھتے ہیں
ہے مذہب عشق، جینا عشق، مَرنا بھی ہے جن کا عشق
ہے کچھ ایسے یہاں جو عشق کا وَردان رکھتے ہیں
وہ باتیں ہوں محبت کی، غمِ دنیا ہو یا کچھ اور
جہاں تک ہو سکے ہم سے زباں آسان رکھتے ہیں
یہ آفاقی المیہ دیکھئے، اب حکمراں سارے
جو ہیں معصوم ان کے واسطے زندان رکھتے ہیں
کبھی فرصت نہیں مِلتی انھیں اب شہر سے اطہر ؔ
بزرگوں کی حویلی وہ سدا ویران رکھتے ہیں
٭٭٭
بھرم آخر بھرم ہے وہ بزرگوں کا ہو یا گھر کا
ہماری ہو نہ ہو اجداد کی ہم شان رکھتے ہیں
ہماری حیثیت تُلتی ہے ان کے بھی ترازو پر
کہ آنے جانے والوں پر نظر دَربان رکھتے ہیں
نہیں شاعر تو کیا، چھا جاتے ہیں محفل میں شعرا پر
اور اب تو شاعری کا ہم بھی اک دیوان رکھتے ہیں
عجب عشّاق ہیں اس عہد کے، فیشن ہے یہ ان کا
کسی کے دِل میں دِل، جاں میں کسی کی جان رکھتے ہیں
ہُوئے محتاط اتنے شہر میں، ہم چہل قدمی کو
کہ اب کالونیوں کے بیچ ہی میدان رکھتے ہیں
تلاوت سے، نمازوں سے نہیں رشتہ کوئی ان کا
گھروں کو اس طرح اپنے وہ قبرستان رکھتے ہیں
کہاں کس سے مراسم تھے، گِلہ تھا ہم کو کیا کس سے
جو یادوں کے جزیرے ہیں انھیں ویران رکھتے ہیں
قبا میلی، گریباں چاک اور وحشت اثر چہرہ
یہاں اہلِ جنوں کچھ یہ سرو سامان رکھتے ہیں
وہی کچھ بول دیتے ہیں، مخالف چاہتے ہیں جو
ہمارے راہ بر خود کا بہت انجان رکھتے ہیں
لیے پھرتے ہیں یوں تہذیبِ کہنہ بھی مِرے بچے
سِرہانے میرؔ و غالبؔ کے ابھی دیوان رکھتے ہیں
بھٹکتے پھرتے ہیں وہ دَر بدر جو ہیں تذبذب میں
نہیں جھکتے کسی دَر پر بھی جو ایمان رکھتے ہیں
خدایا رحم، برپا کشمکش ہے کفر و ایماں میں
کبھی اشکال دِل میں، ہم کبھی ایقان رکھتے ہیں
مبارک ہو تمہیں دنیا اور اس کی رونقیں ساری
رہیں لوگوں کے دِل میں ہم تو یہ ارمان رکھتے ہیں
نہیں کوئی غرض اس سے تقاضے بھی ہیں کچھ ان کے
کبھی ہم نام ‘عبداللہ’ کبھی ‘رحمان’ رکھتے ہیں
٭٭٭
یہ جتنے اہلِ ایماں ہیں سبھی قرآن رکھتے ہیں
ہیں پھر بھی پارہ پارہ کیوں الگ پہچان رکھتے ہیں
وہ نازاں ہیں کہ ہر اک حر بۂ شیطان رکھتے ہیں
ہلاکت کا یہاں لوگوں کی سب سامان رکھتے ہیں
نہیں کرتے ہیں آخر شکر کیوں اس نسل کا ورنہ
یہ اپنی پر اگر آئیں تو کس کا مان رکھتے ہیں
مدد کم ظرف لوگوں سے ذرا سی بھی نہ لے کوئی
جتاتے ہی نہیں، اکثر بڑا احسان رکھتے ہیں
کلی، غنچہ نہ گُل دیکھے، مسل ڈالے ہے یہ انساں
کہاں حیوانیت ایسی یہاں حیوان رکھتے ہیں
بے باک لب و لہجہ بھی اچھا ہے مگر آپ
آدابِ تکلّم بھی تو گفتار میں لائیں
تکرار و مسائل، کہیں تصویرِ تباہی
یہ کیا ہے، امنگیں بھی تو اخبار میں لائیں
بس اتنی ہی خواہش ہے، لبوں پر وہ مِرا نام
بے خوف و خطر محفلِ اغیار میں لائیں
اخلاص و مرّوت ہوں کہ ہوں زیست کے آداب
وقعت نہ سہی پھر بھی وہ گھر بار میں لائیں
ہر دن نئی تکنیک وہ کر لیتے ہیں ایجاد
پھر اس کی ضرورت بھی خریدار میں لائیں
یکتا ہیں اگر سنگ تراشی میں وہ اطہر ؔ
اس دعوے کو اپنے کسی شہکار میں لائیں
٭٭٭
اک عزمِ مصمّم رہِ دشوار میں لائیں
تھوڑی سی مسرّت دِلِ آزار میں لائیں
اک سوچ لیے آتا ہے ہر تاجرِ ساماں
بِک جائے جو آتے ہی وہ بازار میں لائیں
چہرے پہ ملمّع نہیں دِل کا ہو تاثّر
اتنی تو عزا داری عزا دار میں لائیں
بازارِ جہاں میں کہیں مِلتی ہی نہیں ہے
مِل جائے صداقت تو وہ گفتار میں لائیں
مجرم تو ہمٖیں کو وہ بنائیں گے کسی طور
اب جُرم کہیں سے بھی خطا کار میں لائیں
لوگوں پہ جیتے جی تو حکومت نہ کر سکا
وہ بادشاہ ملک جَلا کر ہُوا تو کیا
ہے بات جب کہ کوئی دِکھاوا نہ ہو غرض
احسان بھی کسی پہ جتا کر ہُوا تو کیا
پھر خواہشات آئٖیں نئے ولولوں کے ساتھ
خوابوں کا قتل آج بھی دن بھر ہُوا تو کیا
وہ جا بسا محل میں لڑا کر عوام کو
اب راکھ راکھ شہر یہ جل کر ہُوا تو کیا
سازش سے ہی شہا کی جَلا ہے تمام شہر
تھوڑا بہت اثر بھی جو اس پر ہُوا تو کیا
راتیں سجی مِلٖیں نئے خوابوں سے پھر مجھے
اک معرکہ بھی مجھ میں جو دن بھر ہُوا تو کیا
کر کے تباہ زندگی کتنوں کی اے شکیلؔ
شرمندہ تھوڑی دیر وہ رہبر ہُوا تو کیا
٭٭٭
ماحول اس طرح سے جو بہتر ہُوا تو کیا
لاشیں زمیں پہ اتنی بچھا کر ہُوا تو کیا
منظر لہوٗ لہوٗ ہے ہر اک سمت یہ بھی دیکھ
تو یوں بلند، لاشوں پہ چڑھ کر ہُوا تو کیا
اَوجِ ادب کا ہو تو گیا ہے وہ آفتاب
کتنے ہی سورجوں کو بجھا کر ہُوا تو کیا
وہ بھی نہیں ہے ساتھ نہ خواہش نہ کوئی خواب
پھولوں کی سیج اب مِرا بستر ہُوا تو کیا
پہلے ستم گروں کی بنائی ہے ایک فوج
بعد اس کے وہ ہمارا ثنا گر ہُوا توا کیا
بے قراری چھوڑ جا، کچھ سر گرانی چھوڑ جا
رنجشوں ہی کی سہی لیکن نشانی چھوڑ جا
یہ بھی کیا رخصت ہوئے تو لوگ گُم سُم ہو گئے
اہلِ دنیا کے لیے اپنی کہانی چھوڑ جا
کم سے کم خوشبو تری زلفوں کی تو لاتے رہیں
مست جھونکوں میں ہَواؤں کے روانی چھوڑ جا
یاد کرنے کے لیے کچھ تو وسیلہ چاہیے
نقش اپنے چھوڑ جا، اپنی نشانی چھوڑ جا
اک ترے جانے سے ویراں ہو نہ جائے سبزہ زار
تازگی پتّوں میں، پھولوں میں جوانی چھوڑ جا
مَیں کہ تجھ بِن سخت مہمل ہو گیا اطہر شکیلؔ
مجھ کو کچھ مفہوم دے، مجھ میں معانی چھوڑا جا
کیا عجب چیز ہے دولت بھی جہاں میں اے دوست
لے، وفا بھی تجھے بازار سے لا دی ہم نے
ایک اک کر کے سبھی خواب ہوئے تھے رخصت
شمعِ امید تھی اک وہ بھی بجھا دی ہم نے
دِل میں رہ رہ کے بھڑکتی تھی جو محرومی سے
آگ وہ لفظوں کے جنگل میں چھپا دی ہم نے
سارے کردار خفا ہو گئے رفتہ رفتہ
سچ کی جانب یہ کہانی جو گھما دی ہم نے
آج ہے اور ہی کچھ امن و اماں کو دَرکار
اک محبت تھی سو حد درجہ لُٹا دی ہم نے
جب خریدارِ وفا کوئی نہ آیا اطہر ؔ
ہوکے مایوس دُکاں اپنی بڑھا دی ہم نے
٭٭٭
جس جگہ جلتے تھے اخلاص و مروّت کے چراغ
اب وہاں دَرس میں نفرت بھی مِلا دی ہم نے
کس پہ احسان کیا ہم نے جہاں میں رہ کر
کس کی توقیر یہاں آ کے بڑھا دی ہم نے
بال آنے نہ دیا شیشۂ دِل میں اُن کے
درمیاں صحن کے دیوار اُٹھا دی ہم نے
یہ الگ بات، ہے اب اس کی ضرورت کس کو
پاس اپنے تھی وفا، سب کو وفا دی ہم نے
ہم کو اپنے ہی کئے فیصلے لے کر ڈوبے
آخرش اپنی ہی اوقات گھٹا دی ہم نے
اب محبت کے اصولوں سے سجائیں دنیا
بات یہ ذہنوں میں لوگوں کے بٹھا دی ہم نے
جس کی سچّائی کی طاقت سے تھی لرزاں دنیا
اب وہ تاریخ بھی بچوں کو بتا دی ہم نے
اُس کی یادوں کا سبب تھی جو بظاہر اب تک
اپنے کمرے سے وہ تصویر ہٹا دی ہم نے
اور کچھ بَن نہ سکا جب تو کھِلونا لے کر
ایک معصوم کو مسکان دِلا دی ہم نے
یاد آتا ہے وہ بچپن کہ سمے سے پہلے
اپنے اسکول کی جب گھنٹی بجا دی ہم نے
باتوں باتوں میں ہوئے آگ بگولہ ایسے
جیسے دُکھتی کوئی رَگ اُن کی دبا دی ہم نے
آج کے دَور کا لیڈر نہ سمجھ لے دنیا
بس یہی سوچ کے پہنی نہیں کھادی ہم نے
کس طرح پیار کا اظہار کریں ان سے، یہی
سوچتے سوچتے اک عمر بِتا دی ہم نے
کاش ہم یہ بھی بتاتے کہ وفا بھی کچھ ہے
کوچے کوچے میں محبت تو بچھا دی ہم نے
شدّتِ غم کو ندامت ہوئی اس وقت کہ جب
جھیل اشکوں کی بھی آنکھوں میں سُکھا دی ہم نے
جس کا ہر لفظ فقط تیرے لیے تھا اے دوست
وہ غزل بھی تو زمانے کو سُنا دی ہم نے
اب نہ ہو گی کبھی ویراں یہ نئے دیوانو!
وادیِ عشق لہو دے کے سجا دی ہم نے
اُن کی نفرت کے اندھیرے کو مٹایا ایسے
لَو محبت کے چراغوں کی بڑھا دی ہم نے
اپنی اس شعلہ نوائی پہ بہت ہیں نازاں
کب یہ سوچا کہ کہاں آگ لگا دی ہم نے
دے کے نفرت ہی سے کچھ لوگوں کی نفرت کا جواب
آتشِ ظلم کو، سوچو تو! ہَوا دی ہم نے
امتحاں عدل کے دعوے کا بھی ہونا ہے شہا!
تیرے انصاف کی زنجیر ہِلا دی ہم نے
ہر مخالف تری، آواز دبا دی ہم نے
سونپ دی تجھ کو یہ ملّت، نئے ہادی ہم نے
لو یہ سرسوں بھی ہتھیلی پہ جما دی ہم نے
چاند تاروں پہ بھی اک بستی بسا دی ہم نے
لہر سوئی ہوئی اُس دِل میں جگا دی ہم نے
اُس کو جب ماضی کی تصویر دِکھا دی ہم نے
اک بساط ایسی محبت کی بچھا دی ہم نے
دشمنوں کو بھی یہاں دِل سے دعا دی ہم نے
آج بکھری ہے نئے دَور کی چاہت ہر سوٗ
اک وفا دہر سے کا ہے کو اٹھا دی ہم نے
پھر ترے چھوڑ کے جانے کا ہُوا ہم سے سوال
پھر بھرم رکھنے کو اک بات بنا دی ہم نے
ترے بعد بس یہ تبدّل ہُوا ہے
کہ دِل اب کسی کو بھی اپنا نہ سمجھے
ترا بے سبب ہی ہمیں چھوڑ دینا
یکایک ہی پھر پاس آنا نہ سمجھے
دِکھائے بہت رُوپ پہلو بہ پہلو
مگر ہم کوئی رنگ تیرا نہ سمجھے
تری دفعتاً دوستی تو بجا تھی
ترا ناگہاں چھوڑ جانا نہ سمجھے
مجھے رُوبرو پا کے اکثر ہی ان کے
دوپٹّے کا سَر سے سَرکنا نہ سمجھے
مِرے دِل کسی ایک چہرے کو لے کر
ترا بے توازن دھڑکنا نہ سمجھے
نہیں ہیں اگر ایسے ویسے وہ اطہرؔ
ہمیں بھی کوئی ایسا ویسا نہ سمجھے
یہاں قاتلوں کے ہیں چہروں پہ چہرے
مسیحا کو یوں ہم مسیحا نہ سمجھے
ہُوا عشق میں مبتلا تازہ تازہ
کوئی عذر بھی دِل ہمارا نہ سمجھے
مِلے تھے تو دو جسم اک جان جیسے
تعلق میں ہم تیرا، میرا نہ سمجھے
اُسی سے تکلّم، اسی سے شکایت
کہ جو گفتگو کا قرینہ نہ سمجھے
سمجھتے تھے ہم، ہو گئے جان اُن کی
انھیں تھا کوئی جاں سے پیارا نہ سمجھے
کبھی بے کراں مہر ہم پر تری اور
کبھی بے سبب ہی بھڑکنا نہ سمجھے
شبِ غم ہی کو مان بیٹھے مقدّر
کہاں کب ہُوا ہے سویرا نہ سمجھے
نہ دے وہ تسلّی کسی درد و غم میں
مگر سوزِ دِل کو ترانا نہ سمجھے
بالآخر تباہی ہے انجام اس کا
کہ جو وقت کا کوئی دھارا نہ سمجھے
وہ الّھڑ ہے، کم سِن ہے، نادان بھی ہے
ابھی وہ اشارہ، کنایہ نہ سمجھے
تلاطم میں موجوں کا سَر کو پٹکنا
جو گزرے ہے اُن پر کنارہ نہ سمجھے
عبث ہیں مداوائے دِل کے یہ دعوے
ابھی دَرد دِل کا مسیحا نہ سمجھے
حقیقت کسی اور کو کیا بتاتے
کہ ہم بھی جہاں کو بسیرا نہ سمجھے
تِرا رنج ہی بَن گیا راحتِ دِل
یہ غم ہو گیا کب گوارا نہ سمجھے
٭٭٭
چھُپا کیا ہے، کیا آشکارا، نہ سمجھے
تماشا یہ ہم لمحہ لمحہ نہ سمجھے
اب اتنی ذہانت بھی بے کیف ہے جو
کسی بات کو وہ دوبارہ نہ سمجھے
بہ ضد ہے اُسی کو سنانے پہ یہ دِل
سمجھ کر بھی جو حال، اس کا نہ سمجھے
ابھی کم نگاہی ہے محدود اتنی
ابھی یہ اندھیرا، اُجالا نہ سمجھے
کِیا وقت رہتے خبردار ہم کو
مگر وقت کا ہم اشارہ نہ سمجھے
اُس کو قریب اپنے نہ پایا تو کیا ہُوا
چمکا نہیں جو پھر سے وہ چہرہ تو کیا ہُوا
ہم نے بھی اس کی دید کی اُمید چھوڑ دی
کھُلتا نہیں جو اس کا دریچہ تو کیا ہُوا
جگنو بھی کم نہیں ہیں، ستارے بھی کم نہیں
چھایا ہُوا ہے پھر بھی اندھیرا تو کیا ہُوا
آنسو وہی ہیں آنکھوں میں، دِل میں خلش وہی
تم دے گئے ہو مجھ کو دِلاسا تو کیا ہُوا
کہتے ہیں ساتھ چھوڑنا دشوار ہے مگر
ٹوٹا ہے جب بھی شاخ سے پتّا تو کیا ہُوا
اس کا وجود ہے مِری ہستی سے اے شکیلؔ
مجھ سے جو بڑھ گیا مِرا سایہ تو کیا ہُوا
جو چلن میں اب نہیں ہے، وہ زمانہ چھوڑئیے
دِل لگانا چھوڑیئے، آنسو بہانا چھوڑیئے
اس بھری دنیا میں کل کوئی نہ ہو گا ہم سفر
دوستوں کو مشکلوں میں آزمانا چھوڑیئے
مِلنے والے ہیں غنیمت، ان سے مِلنا ٹھیک ہے
مِلنے والوں پر مگر وِشواس لانا چھوڑیئے
یہ تو مانا ہر طرف کہرام ہی کہرام ہے
ساز کو مت توڑئیے، مت گیت گانا چھوڑیئے
ساتھ میں عزّت کے بے نان و نمک رہیے مگر
آبرو جس میں نہ ہو وہ آب و دانہ چھوڑیئے
آپ بھی اب خون کے دیپک جَلا لیجے شکیلؔ
کل کے بے روغن چراغوں کو جَلانا چھوڑیئے
اب یہ شورِ بے کراں بھی تو بھَلا لگنے لگا
شہر آنے سے تمہارے خوش نما لگنے لگا
سادگی اچھی ہے لیکن اس قدر اچھی نہیں
جو ہمیں ہنس کر مِلا وہ دوست سا لگنے لگا
زندگی میں آ گیا کیسا تغیّر دیکھئے
جو بھی کل تک نارَوا تھا وہ رَوا لگنے لگا
مِلنے والا کس کا تھا، اپنی غرض کا دوست تھا
جو کبھی تھا آشنا، نا آشنا لگنے لگا
کس جگہ لے آئی مجھ کو کس مپُرسی کی فضا
مَیں بھی اپنے آپ سے آخر جدا لگنے لگا
چھوڑ کر جو جا چکا ہے اس کو لکھ بھیجو شکیلؔ
لمحہ لمحہ زندگی کا خوش نما لگنے لگا
دُور ہے ہم سے ابھی اور اُجالا کتنا
کاٹنا ہے ابھی اے دوست اندھیرا کتنا
میری آواز پلٹ آئی مِرے کانوں میں
مَیں نے اس شخص کو رہ رہ کے پکارا کتنا
ہو چکے ہم تو دِل و جاں سے سراسر اس کے
دیکھتے ہیں کہ وہ ہوتا ہے ہمارا کتنا
یہ بھی معلوم نہیں مجھ کو کہ دِل میں میرے
عشقِ محبوب ہے کتنا، غمِ دنیا کتنا
تم کو دیکھا تھا مگر پوری طرح یاد نہیں
آخر اس خواب میں ہم نے تمہیں دیکھا کتنا
اب کڑی دھوپ بھی اطہرؔ نہیں ہوتی ہے گراں
اس کی یادوں کا ہے سایہ ابھی گہرا کتنا
یہ تو نہیں کسی سے محبت نہیں ہوئی
کارِ جہاں سے ہم کو فراغت نہیں ہوئی
مِل کر بچھڑ گئے تو سبھی کچھ بھلا دیا
اک مشغلہ ہُوا، یہ محبت نہیں ہوئی
مِلتے ہوئے بھی ان سے تکلّف بنا رہا
قربت کے باوجود بھی قربت نہیں ہوئی
ان کو نہیں ہے یاد مِرے گھر کا راستہ
سچ جانیے یہ جان کے حیرت نہیں ہوئی
برسوں کی سجدہ ریزی کے با وصف یہ لگا
عادت سی ہو گئی ہے عبادت نہیں ہوئی
مجبور ہوکے سَر کو کٹایا تو کیا شکیلؔ
یہ قتل ہو گیا ہے، شہادت نہیں ہوئی
گیا وقت ساتھ اپنے کیا لے گیا
زمانے سے قدرِ وفا لے گیا
یہ موسم نیا، میرے دِل کی تڑپ
تمہاری نظر سے حیا لے گیا
تسلّی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا
بہت خود کو مَیں جا بجا لے گیا
وہ آیا تو اس کی نظر کا طلسم
لبوں سے مِرے مدعا لے گیا
سلگتی ہوئی دوپہر رہ گئی
وہ زلفوں میں اپنی گھٹا لے گیا
ہر اک چیز جیسے ادھوری سی ہے
مَیں کیسے بتاؤں وہ کیا لے گیا
جہاں مجھ کو جانا تھا اطہر شکیلؔ
وہاں کب مجھے رہ نما لے گیا
بے گانگی کے طور ہیں جاری نئے نئے
مندر نئے نئے ہیں، پجاری نئے نئے
ایمان کو سنبھالیے، عزّت بچائیے
پھرتے ہیں ہر گلی میں شکاری نئے نئے
اس کھیل میں کشش ہے وہ، برباد ہو کے بھی
بازی لگا رہے ہیں جُواری نئے نئے
یہ اپنی اُنگلیوں پہ ہمیں بھی نچائیں گے
میلے میں آ گئے ہیں مداری نئے نئے
چُپ دَر پہ ہیں کھڑے ہوئے کچھ مانگتے نہیں
لگتا ہے یہ بَنے ہیں بھکاری نئے نئے
بارش کی ایک بوند بھی ٹپکی نہیں شکیلؔ
چھت پر رُکے تو ابرِ بہاری نئے نئے
زمینوں پہ آدم کا پُتلا بہت
نہ دنیا میں بننا فرشتہ بہت
گہر، مَیں نہ ترشا ہوا بَن سکا
زمانے نے یوں تو تراشا بہت
عمل کچھ بھی ہو پر تسلّی ہے یہ
زباں کا ہے وہ شخص میٹھا بہت
حوادث میں تھا یک جہت جو کبھی
بکھر بھی چکا وہ قبیلہ بہت
ہمیں ڈوب جانے کا ڈر یوں نہیں
ہمارے لیے اک سفینہ بہت
یہ مشکل معمّہ نہ سلجھا کبھی
وہ ہے دوست میرا کہ اس کا بہت
نئی وضع میں زندگی کی شکیلؔ
حقیقت تو کم ہے، دِکھاوا بہت
ہر اک سانس جب سرگرانی کرے
کوئی کیسے تب زندگانی کرے
اگر محنتوں کا بدل کچھ نہ ہو
کہاں تک کوئی جاں فشانی کرے
مَیں ہر بار اس کا تجسّس کروں
وہ ہر بار نقلِ مکانی کرے
محبت میں اب کون ایسا رَہا
لہو کو جو دِن رات پانی کرے
بچھڑ جائے تو بھول جائے مجھے
مِلے تو بہت گُل فشانی کرے
خدا! مجھ کو وہ دِن دِکھانا نہیں
مجھے جب وہ قصّہ، کہانی کرے
گئی دوپہر تو جھلستے ہوئے
خدا رات اطہرؔ سہانی کرے
دریا جدا ہُوا نہ سفینہ جدا ہُوا
بد قسمتی کہ ہم سے کنارا جدا ہُوا
اب پھر خزاں میں ٹہنیاں کنگال ہو گئیں
اب کے برس بھی پیڑ سے سایہ جدا ہُوا
آرام و اعتماد سبھی ساتھ لے گیا
یہ مت کہو وہ مجھ سے اکیلا جدا ہُوا
خود اپنے ہی وجود کو باقی نہ رکھ سکا
پتھر سے ٹوٹ کر جو شرارہ جدا ہُوا
پھیلی ہوئی ہے مسند و بستر پہ چاندنی
تم آ گئے تو گھر سے اندھیرا جدا ہُوا
وہ رحمتیں رہی ہیں نہ وہ برکتیں رہیں
شاید زمیں سے حق کا وہ بندہ جدا ہُوا
بس قدر کم ہوئی ہے بدلنے سے وقت کے
اطہرؔ نہ دوست اور نہ شناسا جدا ہُوا
اک بحرِ بے کراں کے ثمر جانیے انھیں
آنسو نہیں ہیں دوست، گہر جانیے انھیں
باہر سے منجمد ہیں تو اندر چھپی ہے آگ
پتھر بھی ہیں تو گنجِ شرر جانیے انھیں
ہے شہرِ غیر پھر بھی تعارف ضرور ہے
سب چہرے اجنبی ہیں مگر جانیے انھیں
رسمی سی گفتگو نہیں یارانِ بزم کی
یہ شعر ہیں ہمارے اَمَر جانیے انھیں
یہ سوچیئے کہ کھیت میں کیا فصل بوئی تھی
پتھر جو اُگ رہے ہیں خطر جانیے انھیں
سمٹے ہوئے ہیں لوگ یہاں نان و نسل پر
کیا جانیے شکیلؔ اگر جانیے انھیں
دِل میں اب تک بھی اس کے گھر نہ کِیا
ہم نے اک دن بھی یوں بسر نہ کِیا
بیٹھے بیٹھے ہی دیکھ لی دنیا
گھر سے نکلے نہیں، سفر نہ کِیا
آ کے دنیا میں کیا کِیا اس نے
جس نے دامن بھی اپنا تر نہ کِیا
ایسے نکلے تھے اس گلی سے ہم
دوسری بار پھر گزر نہ کِیا
کہتے کہتے گزر گئی اک عمر
دِل کا قصّہ تھا مختصر نہ کِیا
وہ بھی ہوتا فریفتہ ہم پر
ہم نے ایسا کوئی ہنر نہ کِیا
ہم نے مانگی تھی بے حسی اطہرؔ
اس دعا نے بھی تو اثر نہ کِیا
وہ رُوٹھے تو ان کی گلی چھوڑ دی
یقیں کی جگہ بد ظنی چھوڑ دی
تغافل سے ان کے اذیّت نہیں
کہ ہم نے تو اُمّید بھی چھوڑ دی
بتاتے ہوئے راستے، رہ نما
مسافر نے کیا گمرہی چھوڑ دی
گھٹا اب کے کھُل کر جو برسی نہیں
تو دریا نے، دریا دِلی چھوڑ دی
پتنگوں نے شمعوں کو چھوڑا نہیں
دِوانوں نے اس کی گلی چھوڑ دی
وہ پہلے سے شہرو بیاباں نہیں
تبھی ہم نے آوارگی چھوڑ دی
بناوٹ کو مِلنے لگی اہمیت
تو اطہرؔ نے بھی سادگی چھوڑ دی
یہاں موت کو ناگہانی بتا
حوادث میں ہے زندگانی بتا
تسلّی زمیں پر نہیں ہے کہیں
تسلّی کو اب آنجہانی بتا
ہنسی لے کے ہونٹوں پہ رخصت نہ ہو
تبسّم کے مجھ کو معانی بتا
جراحت کو بِکسے ہوئے پھول کہہ
لہو رنگ اشکوں کو پانی بتا
مجھے بھی فراموش گاری میں رکھ
حقیقت کو میری کہانی بتا
نظر سے نہ خفگی کا اظہار کر
گِلہ جو بھی ہو وہ زبانی بتا
توقع کی بنیاد کیا ہے شکیلؔ
اُمیدوں کو اب خوش گُمانی بتا
مہک، چاند، ندیا کی دھارا سمجھ
مِرے دوست میرا اشارہ سمجھ
جو لفظوں میں کہنا ہے مشکل مجھے
نظر سے مِری آشکارا سمجھ
ترے کام آ جائے جو جس گھڑی
اُسی کو جہاں میں سہارا سمجھ
اِسے روشنی دے، یہ انسان ہے
اِسے بھی زمیں کا ستارہ سمجھ
نہاں آب میں بھی ہے سوزش بہت
یہ آنسو ہے اس کو شرارا سمجھ
سخن کو نہ لے سرسری ڈھنگ سے
مِری بات اب کے دوبارہ سمجھ
مئے زندگی دیکھ اطہر شکیلؔ
بہت تلخ ہے پر گوارا سمجھ
اب تماشا، کوئی وعدہ، نہیں رہنے والا
شام گزری تو بھروسا نہیں رہنے والا
آج بازار کی زَد میں ہے رہِ رسم و وفا
اب محبت میں سلیقہ نہیں رہنے والا
اور تیکھی ہوئی طوفاں کی کٹیلی دھارا
اب یہ پہلے کا کنارا نہیں رہنے والا
سانحہ ان سے بچھڑنے کا بڑا ہے لیکن
دیر تک یہ بھی تو صدمہ نہیں رہنے والا
قادرِ کُل اسے دنیا میں ذرا بھیج کے دیکھ
یہ فرشتہ بھی فرشتہ نہیں رہنے والا
مجھ کو اتنا تو بتا روٹھ کے جانے والے
کیا مِرا کوئی بھروسا نہیں رہنے والا
اس کے خط، اس کی محبت ہے مِرے ساتھ شکیلؔ
ہو کے تنہا بھی مَیں تنہا نہیں رہنے والا
ہونے کو تو اس شہر میں کیا کیا نہیں ہوتا
اک تجھ سے وفا! لوگوں کا رشتہ نہیں ہوتا
اس زیست کی پہچان ہی رفتار ہے یارو
دِن رات جو بہتا نہیں دریا نہیں ہوتا
جو شخص شب و روز مِرے ساتھ تھا اب تک
اب اس سے سرِ راہ بھی مِلنا نہیں ہوتا
ہم خود ہی تو غیروں کو بناتے نہیں اپنا
سچ یہ ہے کوئی شخص پرایا نہیں ہوتا
قدموں کے نشانات سے بَن جاتی ہیں راہیں
جنگل میں تو راہی بِنا رستہ نہیں ہوتا
ہوتا ہے تو آنکھوں کو کھُلی رکھنے سے اطہرؔ
سورج سے ہی ہستی میں سویرا نہیں ہوتا
دِلکشی تو ہے یہاں آسُودگی تُو بھی تو ہو
درمیاں پھولوں کے ٹہنی پر کلی تُو بھی تو ہو
چاندنی سے کام چل جاتا تو کیوں کہتا یہ دِل
مَیں اگر ہوں رات تو پھر روشنی تُو بھی تو ہو
دَرد ہے کوئی تو ہے اس کا مداوا بھی یہاں
مضطرب ہوں مَیں اگر، دِل بستگی تُو بھی تو ہو
گیت کا لہرا بنے تو آ مِرے ہونٹوں سے مِل
سانس ہوں گر بے صدا مَیں، بانسری تُو بھی تو ہو
مَیں ہَوا کی طرح تجھ کو گُدگُدانے آؤں گا
شاخِ دِل پر اک کلی خوشبو بھری تُو بھی تو ہو
چاند ہے، تنہائی ہے، اک پیکرِ محبوب ہے
ایسی دِلکش رات میں اطہرؔ کبھی تُو بھی تو ہو
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی، محمد عظیم الدین جنہوں نے ان پیج سے تبدیل کر کے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید