FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

پشاور کی کہانیاں

 

 

نذیر فتحپوری

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

انتساب

 

پشاور کے مایہ ناز سپوت

شہنشاہِ جذبات

دلیپ کمار کے نام

 

 

 

 

 

 

 

 

دلیپ کمار نے کہا

 

میں پشاور میں اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہتا ہوں۔

جو طالبان والوں نے بچوں کے ساتھ کیا ہے وہ معافی کے قابل نہیں ہے اور بہت گناہ کا کام ہے۔

اس حادثے سے مجھے اتنا درد ہوا کہ میں لفظوں  میں بیان نہیں  کر سکتا۔ میرے دل میں ان بچوں  کے والدین کے لیے ہمدردی ہے جنہوں  نے اپنے بچوں  کو اس دردناک حادثے میں کھو دیا۔

میں خدا سے دعا کرتا ہوں  کہ وہ ان ماں باپ کو اتنی طاقت دے کہ وہ اس صدمے سے باہر آ سکیں۔

اب وقت آ گیا ہے ان شیطانوں کو ختم کرنے کا۔

دلیپ کمار

 

 

وضاحت

 

زیر مطالعہ کتاب میں شامل کچھ کہانیوں  میں حقیقی کردار ہی رکھے گئے ہیں اور کچھ کرداروں  کو کہانی کا روپ دینے کے لیے ان کے گھر یلو پس منظروں کو اجاگر کر کے کہانی کا روپ دیا گیا ہے۔

اس کتاب کی پہلی تحریر۱۹؍دسمبر۲۰۱۴ء کو سپرد قرطاس ہوئی اور آخری کہانی۲۵؍دسمبر۲۰۱۴ء کو رات میں مکمل ہوئی۔ اس طرح صرف آٹھ دنوں میں لکھی گئی یہ کتاب آپ کے سامنے ہے۔

زیر مطالعہ کتاب لکھتے وقت روز نامہ اُردو انقلاب ممبئی کی خبروں  سے استفادہ کیا گیا۔ چند تصاویر بھی انقلاب ہی سے لی گئی ہیں۔

میرے پوتے نعمان اقبال جوڈ نے انٹرنیٹ سے بھی کئی چیزیں فراہم کر کے کتاب میں  حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔

رحمانی پبلی کیشنز کے رحمانی سلیم سے پہلی تحریر لکھنے کے بعد رابطہ کیا اور انہیں کتاب سے متعلق بتایا تو انھوں  نے ایک منٹ کی تاخیر نہ کرتے ہوئے کتاب کی اشاعت کا یقین دلا دیا اس طرح پہلی فرصت میں  مسودہ تیار ہوا۔  میں ان تمام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

نذیر فتح پوری، (۲۶؍دسمبر۲۰۱۴ء بروز جمعہ صبح ساڑھے سات بجے )

 

بچّوں سے بات چیت

 

پیارے بچّو! زندگی انمول چیز ہے۔ چاہے اپنی ہو یا دوسروں کی، ہمیں  ہر حال میں زندگیوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ زندگی گلاب کا پھول ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس پھول کی خوشبو سے اپنے ذہن کو مہکائیں اور اس کے رنگوں سے اپنی زندگی کو رنگین بنائیں۔ زندگی ایک چراغ کی مانند ہے۔ ہر حال میں ظالم ہواؤں سے اس کی حفاظت کرنا چاہیے۔ بچّوں کی زندگی ایک ادھ کھلی کلی کی طرح ہے۔ ابھی اسے پھول بن کر دنیا کو مہکانا ہے۔ دنیا کو رنگین بنانا ہے۔ دنیا میں خوشی پھیلانا ہے۔ خود ہنسنا ہے، دوسروں  کو بھی ہنسانا ہے۔

ہر زمانے میں زندگیوں کے دشمن پیدا ہوتے رہے ہیں کسی زمانے میں دو ملکوں  کے درمیان جب جنگ ہوتی تھی تو بہت سی زندگیاں ختم ہو جاتی تھیں، بہت سی کلیاں  مسل دی جاتی تھیں، بہت سے پھول شاخ سے توڑ دیے جاتے تھے۔ شہروں  کو جنگل بنا دیا جاتا تھا۔

آج زندگی کی سب سے بڑی دشمن دہشت گردی ہے۔ جو بھی دہشت گرد ہے وہ سب سے بڑا جانور ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ ایک تازہ مثال ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کے دن پاکستان کے شہر پشاور میں  دیکھنے کو ملی جب دہشت گردوں نے ملٹری کے ایک اسکول پر حملہ کر کے ۱۳۲؍معصومبچّوںکوگولیوں  سے بھون دیا۔ یہ لوگ اسلامی لباس میں تھے۔ لیکن ان کا مذہب صرف دہشت گردی تھا۔ اسلام سے ان کا کوئی رشتہ نہیں  ہو سکتا۔ یہ لوگ دو اسلامی ملکوں  میں  پیدا ہوتے ہیں۔ ایک پاکستان اور دوسرا افغانستان لیکن سب سے زیادہ نقصان یہ اپنے ہی ملکوں  کا کرتے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں  کو مارتے ہیں۔ اسلام تو کہتا ہے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون حرام ہے۔ انسانیت کہتی ہے ایک انسان پر دوسرے انسان کا خون حرام ہے۔ جب آپ کسی کو زندگی نہیں  دے سکتے تو اس کی جان لینے کا آپ کو کیا حق ہے۔

پشاور میں۱۳۲بچّوں کی جان چلی گئی۔ ۱۳۲ گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ان گھروں میں اندھیرا ہو گیا۔ ۱۳۲بچّوں کی ماؤں  کی گود اجڑ گئیں۔ آنے والے دنوں  اور زمانوں  میں ان چراغوں  سے اور نہ جانے کتنے چراغ جلنے والے تھے۔ یہ اندھیرا کہاں تک جائے گا۔ یہ رات کتنی لمبی ہو گی۔ کس کو خبر؟

آؤ! ہم دعاؤں کے چراغ روشن کریں اور ان اندھیروں سے مقابلہ کریں۔

اے خدا!

دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے سے دہشت گردوں  کا صفایا کر دے۔ اے خدا !ان کلیوں  کی حفاظت کر جو ابھی پوری طرح کھلی نہیں ہیں۔ اے خدا! ان پھولوں کی حفاظت کر جو اپنی مہک اور رنگوں  سے دنیا کو خوبصورت بنا نے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

اے خدا! اس دنیا کو امن اور شانتی کی ضرورت ہے۔ سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ محبت اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔ یہ ساری دولت اس دنیا کو لوٹا دے، یہ دنیا تیرا لگایا ہوا باغ ہے۔ یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں اس باغ کو اجاڑنے والے۔ اے خدا! اس باغ کی حفاظت کر اور ان بے درد جانوروں  کے جیسے لوگوں کا خاتمہ کر جو تیرے کھلائے ہوئے پھول اور کلیوں  کو نوچ رہے ہیں۔

تیرے رسولﷺ نے جو مذہب ہمیں  دیا ہے اس کا نام اسلام ہے۔ یہ سراسر سلامتی کا مذہب ہے۔ یہ دہشت گرد اسی مذہب کا جھنڈا اٹھا کر دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ تو ان دہشت گردوں  سے اپنے باغ کی حفاظت کر۔ تاکہ پھر کوئی باغ نہ اجڑے۔ کوئی کلی کوئی پھول برباد نہ ہو۔ ہم مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی بچّے اپنے معصوم ہاتھ پھیلا کر دعا مانگ رہے ہیں۔ ہمارے اسکولوں  کو آباد رکھ، ہماری کتابوں  اور کاپیوں  کو دہشت گردی کی آگ سے بچا، اور ہمیں ہمت دے، حوصلہ دے، ہم ہر حال میں ان دہشت گردوں  سے مقابلہ کریں۔ ہم ہتھیار نہیں اٹھا سکتے لیکن کتاب اور قلم سے دہشت گردوں  کو شکست دے سکتے ہیں۔ آمین

پشاور کے اس دہشت گردانہ حملوں میں۱۳۲معصوم بچّوں کے علاوہ کچھ اور بھی لوگ شہید ہوئے ہیں۔ جو ان بچّوں کے استاد تھے۔ اسکول کے انتظامیہ کا حصہ تھے۔ ان کی اپنی کہانیاں ہیں۔ آئیے ان کہانیوں  میں سے کچھ کرداروں  سے آپ کو ملائیں۔ تاکہ آپ کو علم ہو کہ یہ کردار کیسے تھے۔ یہ لوگ کیسے تھے۔ یہ بچے کیسے تھے۔ ان کے والدین کیسے تھے۔ ان کے خاندان کیسے تھے۔ ان کی محبتیں کیسی تھیں۔ ان کی ماؤں کی ممتا کیسی تھی۔ ان کے مستقبل کے خواب کیسے تھے۔

نذیرؔ فتح پوری

۱۹؍دسمبر۲۰۱۴ء

 

 

میں کتاب ہوں

 

میں کتاب ہوں۔

کاغذ میری تقدیر ہے۔

قلم میری جاگیر ہے۔

حرف میرے موتی ہیں۔

تحریر میری روشنی ہے۔

کسی زمانے میں میرا تعلق نبیوں  اور رسولو ں سے رہا ہے۔ خدا جب دنیا کی ہدایت کے لیے اپنا نبی دنیا میں اتارتا تھا تو اس کے ہاتھ میں ایک کتاب ہوتی تھی۔ یہ کتاب چھوٹی بھی ہوتی اور بڑی بھی، ان کتابوں  میں اچھی اچھی باتیں ہوتی تھیں۔ نیکی کا راستہ دکھانے والی باتیں، برائی سے روکنے والی باتیں۔

میرے بغیر یہ دنیا اندھی ہے۔

میرے بغیریہ دنیا بہری ہے۔

میرے بغیر یہ دنیا لنگڑی لولی ہے۔

شاعر مجھے لکھتا ہے۔

ادیب مجھے زندہ کرتا ہے۔

مصور مجھے رنگین بناتا ہے۔

میں عورت اور مرد سب کے کام آتی ہوں۔

سب مجھ سے پیار کرتے ہیں۔

میں بھی سب سے پیار کرتی ہوں۔

چھوٹے چھوٹے معصوم بچّے مجھے گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں۔

ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔

یہ بچے جب اپنے چھوٹے چھوٹے موم کی انگلیوں جیسے ہاتھوں  سے کھول کر مجھے پڑھتے ہیں تو مجھے گدگداہٹ ہوتی ہے۔

یہ جب اپنی توتلی زبان سے مجھے پڑھتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میرے دل میں آتا ہے کہ میں ان کے منہ میں برفی کا ٹکڑا رکھ دوں۔

لیکن اب میری زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کچھ دنوں  سے کچھ لوگ میرے دشمن بن چکے ہیں۔ یہ دنیا میں میرے وجود کو پسند نہیں  کرتے۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے آپ کو کتاب والے کا اُمتی بتاتے ہیں۔ لیکن انھیں کتاب سے بڑی نفرت ہے۔ یہ دنیا سے میرا نام مٹانا چاہتے ہیں۔ یہی سوچ کر انہوں  نے ملالہ یوسف زئی پر حملہ کیا تھا۔ اور یہی سوچ کر اب انھوں  نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر خونی حملہ کیا۔ جو بچے مجھ سے پیار کرتے تھے انھیں موت کی نیند سلا دیا۔ جب کلاس روم میں ان معصوم سینوں  پر گولیاں چلائی جا رہی تھیں، میں ان کے بستوں  میں دبکی پڑی تھی۔ کچھ بچوں  نے اپنے ہاتھوں  میں مجھے تھام رکھا تھا۔ یہ مجھے پڑھ رہے تھے۔ مجھ سے روشنی حاصل کر رہے تھے۔ جب امجد کو گولی لگی تو میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ میرے گرتے ہی باری کی لاش مجھ پر آ گری اور میں  باری کے خون میں نہا گئی۔ باری کا خون میرے سینے میں جذب ہو گیا۔ کتاب کے دشمن خوش ہیں کہ انھوں  نے باری کو مار دیا لیکن باری مرا نہیں۔ اس کا خون مجھ میں  سما گیا۔ آنے والے دنوں  میں یہ خون رنگ لائے گا۔ ان بے گناہ بچوں  کے خون کے ہر قطرے سے ایک باری پیدا ہو گا اور وہ میری حفاظت کرے گا۔ مجھ سے پیار کرے گا۔ مجھے دنیا کے چپے چپے سے کروڑوں باریوں کا انتظار ہے۔ یہ سب کتاب کے بیٹے بن کر پیدا ہوں گے اور میری ممتا کی حفاظت کریں گے۔

’’میں کتاب ہوں۔ ‘‘

’’میں کبھی مایوس نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’کسی زمانے میں میرا تعلق نبیوں اور رسولوں  سے رہا ہے۔ ‘‘

’’اب میرا تعلق امجد اور باری سے ہے۔ رام اور رمیش سے ہے۔ بیدی اور بھجن سنگھ سے ہے۔ ڈیوڈ اور جوزف سے ہے۔ ‘‘

مجھ کو مٹانے والوں  کو یہ بتا دو کہ ساری دنیا میرا گھر ہے۔ سارے گھروں  میں میرا بسیرا ہے۔ سارے دلوں  میں میری طلب ہے۔ ساری دنیا کو میری ضرورت ہے۔ اس لیے ایک دن میرے دشمن مٹ جائیں گے لیکن میں قیامت تک زندہ رہوں  گی۔

کیوں  کہ میں  کتاب ہوں۔

میں کبھی مایوس نہیں ہوتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

پاکستانی صحافی سے چند سوالات

 

 

٭پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں  کا حملہ ہونے کے بعد آپ کب اسکول پہنچے ؟

میں آج اپنی بیوی کی بیماری کی وجہ سے گھر پر ہی تھا۔ مجھے اسکول کی پرنسپل صاحبہ نے فون پر اس حملے کی خبر دی تو میں اپنی بیمار بیوی کو اسی حال میں چھوڑ کر چلا آیا۔

٭یہاں آ کرسب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا؟

میں دو آنکھوں  سے کیا کیا دیکھتا۔ اسکول کے میدان میں  کچھ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ سب حواس کھو چکے تھے۔ چند بندوق برداروں  نے اسکول کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

٭اس کے بعد کیا ہوا؟

میرے آنے کے بعد دھیرے دھیرے بچوں  کے والدین اسکول کے میدان میں  جمع ہونے لگے۔ موٹر گاڑیوں کی قطار لگ گئی میدان میں۔ ہر کوئی گاڑی پارک کرنے کے بعد ان کمروں  کی طرف دوڑ رہا تھا جہاں جہاں  ان کے بچّے بیٹھتے تھے۔ کچھ لوگ اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے کہ اپنی گاڑیوں سے اسکول کے کلاس روم تک جاتے جاتے بار بار ٹھوکریں کھا رہے تھے۔

٭یہ سب دیکھ کر آپ کیا محسوس کر رہے تھے ؟

میں خود پریشان تھا۔ میں  اپنا کیمرہ بھی ٹھیک سے نہیں چلا پا رہا تھا۔ میرا گلا سوکھ رہا تھا۔ مجھے دو گھونٹ پانی کی تلاش تھی۔ میں نے کہیں سے تھوڑا پانی پیا۔ اور ایک کلاس روم میں گھس گیا۔ اندر کا منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کمرے میں سارے کم عمر بچّے تھے اور بہت سی لاشیں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں۔ کمرے کا فرش خون سے لال ہو گیا تھا۔ بلیک بورڈ کے نیچے دیوار سے لگ کر خاتون ٹیچر کی لاش پڑی تھی۔ سفید رنگ کی دیوار پر خون سے لکیریں کھینچی ہوئی تھیں۔ یہ شاید ٹیچر کی خون بھری انگلیوں کا نشان تھا۔ جس نے گرنے سے پہلے دیوار کا سہارا لینے کی کوشش کی تھی۔ کمرے کا فرنیچر ٹوٹا ہوا تھا۔ دیواروں  پر لگی قومی رہنماؤں کی تصویروں پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ بس علامہ اقبال کی تصویر محفوظ تھی۔ دہشت گردوں  نے بچوں  کے ساتھ ہی کلاس روم کی ہر چیز کو تباہ کر دیا تھا۔ حملہ آوروں کو ہر اس چیز سے نفرت ہے جو تعلیم کے لیے کام آتی ہے۔ یہاں تک کہ بلیک بورڈ پر بھی گولیوں  کے نشان نظر آ رہے تھے۔

٭کیا تب تک پولس یا فوج کے جوان نہیں  پہنچے تھے ؟

پہنچ چکے تھے، سب اپنی اپنی کاروائیوں  میں لگے تھے۔ سب سے پہلے ان بچّوں  کو اسپتال لے جایا جا رہا تھا جن کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ دو تین بڑے لوگ بھی زخمی ہوئے تھے ان کو بھی فوراً علاج کے لیے لے جایا گیا تھا۔

٭کیا آپ نے دوسرے کمرے نہیں  دیکھے ؟

اس کے بعد میں وہاں  گیا جہاں آڈیٹوریم تھا۔ یہاں بڑے بچّوں کی لاشیں پڑی تھیں اور فرش پر دور تک خون جم گیا تھا۔ آڈیٹوریم کی ساری کرسیاں، پردے اور دیگرسامان تہس نہس کر دیا گیا تھا۔ کچھ دوسرے میڈیا والے وہاں  معائنہ کر رہے تھے۔ فوج کے کچھ آفیسر بھی وہاں موجود تھے۔

٭اور منظروں کی نشان دہی کریں ؟

ایک کمرے میں گیا تو وہاں سے لاشیں اٹھا لی گئی تھیں۔ لیکن خون کا ایک تالاب یہاں موجود تھا۔ کچھ بستے، کتابیں، کاپیاں خون میں بھرے پڑے تھے۔ میز کرسیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کھڑکیوں کے شیشے بکھرے ہوئے تھے۔ کمرے کا دروازہ پوری طرح اکھڑا ہوا تھا۔

باہر بچوں  کے وارثین کی آہ و زاری کانوں کو زخمی کر رہی تھی۔ میری آنکھوں  سے بے تحاشہ آنسو بہہ رہے تھے۔ میں کیا میری جگہ کوئی پتھر بھی ہوتا تو رو دیتا۔ کلاس روم کے درو دیوار رو رہے تھے۔ میز اور کرسیوں کو شاید اپنی بربادی کا اتنا دکھ نہیں تھا۔ جتنا دکھ انھیں بچوں  کی موت کا تھا۔ ٹوٹی میز اور بکھری کرسی پھر سے جڑ سکتی ہیں لیکن مسلے ہوئے معصوم پھولوں کو دو بارا کون کھلا سکتا ہے۔

٭اس سلسلے میں آپ نے اسکول کے ذمہ داروں سے ملاقات نہیں کی؟

میں کس سے ملتا۔ میں پرنسپل صاحبہ سے واقف تھا جب ان کے آفس کے کمرے میں  گیا تو ان کی میز پر خون کے دھبے نظر آئے۔ ان کی کرسی بھی خون آلودہ تھی۔ دہشت گردوں نے ان کو بھی ختم کر دیا تھا۔ ان کے کمرے کی دیوار پر صرف قائدِ اعظم کی بڑی سی تصویر محفوظ تھی۔ گویا قائدِ اعظم کی موجودگی میں  پرنسپل صاحبہ کا قتل ہوا۔ کیا اسی دن کے لیے قائدِ اعظم نے مسلم حکومت پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔

٭آپ بہت دکھی لگ رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ کو گہرا صدمہ ہوا ہے ؟

میں سکھی کب تھا۔ جب سے میں پاکستانی میڈیا سے وابستہ ہوں تب سے کوئی اچھی خبرپاکستان کے تعلق سے میں نے نہیں  سنی۔ یہاں سے وہاں تک خون اور خوف کی ایک زنجیر نے سارے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے۔ کون محفوظ ہے پاکستان میں۔ نہ ہم نہ ہماری عورتیں۔ رہا سوال ہمارے بچّوں کا تو ان کا حشر سامنے ہے۔ تعلیم کے ان معصوم غنچوں نے کسی صیاد کا کیا بگاڑا تھا۔ جو اس باغ کو اجاڑ دیا گیا۔

٭کیا دہشت گرد جو طالبان کے نام سے مشہور ہیں۔ تعلیم کے خلاف ہیں ؟

خود طالبان نہیں جانتے کہ وہ کس چیز کے خلاف ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ کس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کیوں لڑ رہے ہیں۔ وہ طالبان ضرور ہیں  لیکن ان کی طلب کیا ہے کسی کو نہیں  معلوم۔

٭اب آپ کہاں  جائیں گے ؟

میں اس اسپتال میں  جاؤں  گا جہاں زخمیوں  کو علاج کے لیے لے گئے ہیں جہاں لاشوں  کو رکھا گیا ہے۔ یہاں  سے بڑھ کر چیخ و پکار اور ماتم وہاں دکھائی دے گا۔ روتی اور بلکتی ماؤں کا وہاں  جم غفیر ہو گا۔ ایک کربلا کا منظر ہو گا۔ سینہ کوبی کرتی خواتین ہوں گی۔ روتے اور بال نوچتے مرد ہوں گے۔ دوڑتے بھاگتے ڈاکٹر ہوں گے۔ حواس باختہ نرسیں ہوں گی۔ پولس کی کثرت ہو گی فوج کے نوجوانوں  کی ٹکڑی ہو گی۔ چھوٹے بڑے اخبارات کے نمائندے ہوں گے۔ میڈیا والوں  کا جتھہ موجود ہو گا۔ اسپتال کے باہر پشاور کے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو گا۔ اس حادثے نے پورے پاکستانی عوام کو دکھی کر دیا ہے۔ اب مجھے جانا ہے میں  آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔

٭٭٭

 

 

 

شہید پرنسپل طاہرہ قاضی

 

میں پرنسپل طاہرہ قاضی کا بیٹا ہوں اور شاگرد بھی۔ مجھے فخر ہے کہ مجھے ایک ایسی استانی نے تعلیم دی ہے جو ایثار قربانی کا بہترین نمونہ تھیں۔ یہاں تک کہ انھوں  نے اپنے طلبہ اور طالبات کی حفاظت کے لیے خود کو قربان کر دیا۔ اور دہشت گردوں  کے ہاتھوں  شہید ہو گئیں۔

 

بہادر ماں کا صابر بیٹا

 

مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسی ماں  کا بیٹا ہوں  جو اپنے طلباء اور طالبات سے ٹوٹ کر پیار کرتی تھیں دہشت گردو ں کے حملے میں وہ اپنے بچّوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئیں۔ اور اپنی قوم اپنے پیشے اورانسانیت کا نام بلند کر دیا۔ جس پر دیش جتنے ناز کرے کم ہے اور دنیا بھی۔

 

میں اپنی استانی کی کہانی سناتا ہوں۔ میں ان کا شاگرد ہوں۔ میں اپنا نام اس لیے نہیں بتا سکتا کہ ان کے بے شمار شاگردوں  میں میں  کوئی بھی ایک ہو سکتا ہوں۔ لیکن میں جو بھی ہوں  پرنسپل طاہرہ قاضی کا ہونہار شاگرد ہوں۔ کیوں کہ پرنسپل طاہرہ قاضی کے سارے شاگرد ہونہار ہی تھے۔ جس طرح پرنسپل طاہرہ قاضی کو اپنے تمام شاگردوں  پر ناز تھا اسی طرح شاگردوں  کو بھی اپنی استانی پر بے حد فخر تھا۔

میری استانی نے ایک ٹیچر کی حیثیت سے ۱۹۹۴ء میں اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ ان کے شوہر ظفر قاضی فوج میں لیفٹینٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ طاہرہ قاضی نے تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے آرمی پبلک اسکول کا انتخاب کیا۔ انھیں بچپن ہی سے پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا۔ کتاب ان کی پہلی پسند تھی۔ جو لوگ کتابوں کے مطالعہ سے اپنی زندگی سنوارتے ہیں۔ وہ آخر تک کتابوں  سے محبت کرتے ہیں اور کتاب پڑھنے والے بچوں  سے بھی انہیں بے حد پیار ہوتا ہے۔ پرنسپل طاہرہ قاضی کی زندگی اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔

میری استانی طاہرہ قاضی تین بچّوں کی ماں  تھیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ ان کے چھوٹے بیٹے احمد قاضی ہمارے ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ گویا ان کو دو طرح کا فخر حاصل ہے وہ پرنسپل طاہرہ قاضی کے بیٹے بھی ہیں اور شاگرد بھی۔

میں اپنی شفیق و مہربان استانی کے بارے میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ ایک ٹیچر کے عہدے سے ترقی کر کے پرنسپل کے عہدے تک کیسے پہنچیں۔

در اصل ان کی انتظامی صلاحیتوں اور شفیق کردار سے متاثر ہو کر اسکول کے ذمہ داروں نے انھیں۲۰۰۰ء میں اسکول اور کالج کے نائب پرنسپل کے عہدے پر فائز کر دیا۔ یہ ترقی ان کی ہمت اور حوصلے میں اضافے کا سبب بنی۔ ان کی ذمہ داری بڑھی تو احساسِ ذمہ داری میں اضافہ ہوا۔ چھ برسوں تک مسلسل نائب پرنسپل کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد اسکول کے ذمہ داران نے ۲۰۰۶ء میں انھیں  ترقی دے کر پرنسپل کے عہدے پر پہنچا دیا۔ عہدہ بلند ہوا تو ذمہ داری بھی بڑھ گئی لیکن میری استانی کسی بھی ذمہ داری سے گھبرانے والی نہ تھیں۔ جب شدت پسندوں نے اسکول پر حملہ کیا اور بے تحاشہ بچّوں پر گولیاں برسانی شروع کیں  تو وہ اپنے آفس میں مصروف تھیں خطرے کا اندازہ ہوتے ہی انہوں  نے فوراً بچّوں کے والدین کو فون کر کے بچوں کو لے جانے کے لیے کہا۔ ظاہر ہے وقت بہت کم تھا اور سارا اسکول گولیوں  کی آواز سے لرز اٹھا تھا۔ اس لیے وہ تمام بچوں کے والدین کو اطلاع نہ کر سکیں۔ اسی دوران انھوں  نے آفس سے نکل کر بہت سے بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچایا۔ اتنے میں ایک وحشی ان کے سامنے آ گیا اور اس نے اپنے آپ کو بم سے اڑا لیا۔ طاہرہ قاضی بھی اسی حملے کا شکار ہو گئیں۔ ان کا وجود جھلس گیا۔ اپنی جان قربان کرنے سے پہلے انہوں نے کتنے بچوں کی جان بچائی کسی کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ طلبہ اور طالبات نے انہیں ’’اپنا ہیرو‘‘ تسلیم کیا۔ کسی نے انھیں شہید قرار دیا۔ ان کے چھوٹے بیٹے احمد قاضی نے بتایا کہ وہ صبح اسکول جانے سے پہلے میرے ساتھ ناشتہ کرتی تھیں۔ منگل کی صبح بھی وہ حسب معمول میرے ساتھ ناشتہ کر کے اسکول کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ لیکن معلوم نہ تھا کہ یہ ہمارا آخری ناشتہ ہے جو ہم اپنی والدہ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ خوشی خوشی روزانہ کے مطابق ہم سے رخصت ہوئی تھیں لیکن واپس آئیں  تو کفن میں  لپٹی ہوئی۔ وہ چاہتیں تو آسانی سے اپنی جان بچا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں  نے فرض نبھایا اور جان کی فکر نہ کی۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ انھوں  نے اپنی جان پر کھیل کر ہمارا سر بلند کر دیا۔ ہمارے خاندان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔

ان کی اکلوتی بیٹی عارفہ نے بتایا کہ میری ماں واقعی بہادر تھیں۔ انہوں  نے جو کارنامہ انجام دیا ہے کم لوگ ایسی بہادری کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ میری ماں میری چھوٹی سی معصوم سی بیٹی کے ساتھ خوب کھیلا کرتی تھیں۔ وہ اپنی نواسی سے بہت بات کرتی تھیں۔ بچّے انھیں بہت پسند تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں  نے اسکول کے بچوں  کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔

بچّوں کی جان بچانے کی کوشش میں اور بھی کئی خواتین نے اپنی جان قربان کی لیکن طاہرہ قاضی کا نام سب سے اہم ہے جو اسکول کی پرنسپل تھیں اور ہم سب کے لیے محترم بھی۔ وہ استاد بھی تھیں اور ہماری ماں  بھی۔ وہ صرف استاد ہوتیں تو طلبہ کے لیے جان نہ دیتیں۔ ماں بھی تھیں اس لیے بچّوں  پر قربان ہو گئیں۔

جب ان کے آنگن سے ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں سب سوگوار تھے۔ سب کی آنکھوں  سے آنسوؤں کی برسات ہو رہی تھی۔ ہر کسی کو یوں  لگا جیسے ان کا اپنا کوئی عزیز ان کو چھوڑ کر جا رہا تھا۔ سارے ماحول پر ماتم چھایا ہوا تھا۔ یہ کون ماں ہے۔ یہ کس کا جنازہ ہے۔ یہ کون استانی ہے یہ کس کا جنازہ ہے یہ کون شہید ہے یہ کس کا جنازہ ہے۔ چاروں  طرف رحمت برس رہی تھی۔ جنازے پر پھولوں  کی برسات ہو رہی تھی۔ پھولوں کے شہر پشاور کے سارے پھول بھی اگر ان کے جنازے پر نچھاور ہو جاتے تو بھی یہ خراج عقیدت میری استانی کے لیے کم تھا۔ میں  ان کا شاگرد ہوں۔ ان کے بے شمار شاگردوں  میں سے ایک شاگرد، میں بھی جنازے کے ساتھ قبرستان کی جانب چل رہا ہوں۔ سردی کا موسم ہے۔ دوپہر کے بعد جنازہ اٹھا ہے۔ کندھا بدلنے والوں کی قطار لگی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے پشاور شہر کے سارے لوگ جنازے میں شریک ہوں۔ اتنے کندھے قسمت والوں ہی کو نصیب ہوتے ہیں۔ شہید پرنسپل طاہرہ قاضی واقعی خوش نصیب تھیں جن کا جنازہ بے شمار کاندھے بدل کر اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچا۔ جنازے میں  شریک لوگ کلمۂ شہادت کا ورد کر رہے تھے۔ کچھ زبانوں  پر درود شریف کا ورد تھا۔ جب لوگ کندھا لگا رہے تھے تب یوں  محسوس کر رہے تھے جیسے ڈولی میں  کسی کی میت نہ ہو پھولوں  کا انبار ہو۔ جنازہ بہت ہلکا لگ رہا تھا۔

واقعی نیکوں  کے جنازے ہلکے کر دیے جاتے ہیں۔ پھولوں کے برابر۔

اور پھر پھولوں کے اس انبار کو سپرد قبر کر دیا گیا۔ بقول شاعر ؎

شہیدوں کے مزاروں پر لگیں گے ہر برس میلے

وطن پر مرنے والوں  کا یونہی نام و نشاں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

ایک ٹیچر کی قربانی

 

ریحانہ سلطان احمد ایک تعلیمیافتہ خاتون تھیں۔ بہت ہی شریف اور مہذب خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ برسوں  پہلے ان کا خاندان کہیں اور سے آ کر پاکستان کے شہر پشاور میں بس گیا تھا۔ یہاں اس خاندان نے اپنی رہائش کے لیے ایک نئی طرز کا خوبصورت بنگلہ تعمیر کر لیا تھا۔ ریحانہ سلطان احمد کو علم وا دب سے گہری دلچسپیتھی۔ غالب کا دیوان، منٹو کے افسانے اور علامہ اقبال کی کلیات ان کی الماری کی زینت تھی۔ جب آرمی پبلک اسکول پشاور میں ملازمت کے لیے اشتہار شائع ہوا تو ریحانہ سلطان احمد کو پہلے ہی انٹرویو میں  منتخب کر لیا گیا۔ ملازمت کے پہلے دن وہ بہت خوش تھیں  کہ انھیں اپنی پسند کا کام مل گیا تھا۔ دھیرے دھیرے اسکول کے دوسرے استادوں سے ان کی ملاقات ہوئی تو سب لوگ ان سے مل کر بہت خوشی محسوس کرنے لگے۔ ریحانہ سلطان احمد ایک ذمہ دار بیوی، ایک ذمہ دار ماں کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار ٹیچر کے طور پر بھی مشہور تھیں۔ ان کے شوہر سلطان احمد ایک بیرونی کمپنی میں ملازم تھے اور اچھی خاصی تنخواہ پاتے تھے۔ ریحانہ سلطان احمد کے دو اولادیں تھیں اور دونوں  بیٹیاں تھیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دونوں بیٹیاں بھی پشاور ہی میں الگ الگ کمپنیوں  میں ملازمت کر رہی تھیں۔ پچھلے ایک سال سے دونوں  میاں  بیوی بیٹیوں کے رشتے تلاش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں  کچھ لوگوں سے ان کا رابطہ بھی ہوا تھا جو رشتے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ آج صبح جب ریحانہ سلطان احمد تیار ہو کر اسکول جانے لگیں تو ان کے فون کی گھنٹی بجی۔

’’ہلو، کون، ‘‘

جواب ملا۔ ’’ہم نے چند اچھے رشتے تلاش کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’اس وقت میں ڈیوٹی پر جا رہی ہوں۔ میرے شوہر بھی چلے گئے ہیں۔ آپ شام میں آ جائیں۔ ہم انتظار کریں  گے۔ ‘‘

انھوں  نے فون بند کیا اور گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی حسب معمول خیریت و عافیت کی دعا پڑھی اور گاڑی میں بیٹھ کر اسکول کی طرف چل پڑیں۔ جاتے جاتے اپنے شوہر کو بھی فون کر دیا کہ شام جلدی سے گھر آ جائیں۔ دونوں بیٹیوں  کے رشتے کی بات ہو جائے۔

ریحانہ سلطان کو بچوں  سے بہت پیار تھا۔ وہ بچوں  کی زندگیوں  کو کامیاب بنانے کے لیے ہر وقت پلان بناتی رہتی تھیں۔ اسکول میں سب سے پہلے ۱۵؍سالہ عرفان مُلّاسےان کی ملاقات ہوئی۔ عرفان نے ادب سے ان کو سلام کیا۔ انہوں نے عرفان کو دعاؤں  سے نوازا۔

کلاس روم میں جیسے ہی انہوں  نے قدم رکھا ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ حالانکہ بظاہر کوئی ایسی بات نہ تھی جو ڈر کا سبب بنتی۔ انھوں نے قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر اپنے سینے پر دم کیا۔ تو انھیں ذرا سکون ملا۔ کلاس روم میں  سارے ہی بچے ان کے منہ لگے ہوئے تھے۔ اس لیے انھیں سنجیدہ دیکھ کر بچے بھی پریشان ہو گئے۔

نمّی ان کے قریب آ کر پوچھنے لگی۔ ’’ میڈم کیا بات ہے آپ کچھ پریشان ہیں۔ ‘‘

انھوں نے سر کو جھٹک دیا۔ ’’ ارے پگلی کچھ نہیں۔ بس یونہی۔ کبھی کبھی اداس ہو جاتی ہوں۔ آج اسکول میں بڑے بڑے ڈاکٹر آنے والے ہیں۔ بچّوں  کی صحت کا معائنہ کرنا ہے۔ خدا کرے سب نارمل ہو۔ میں نہیں  چاہتی کہ میرے اسکول کا کوئی بچہ کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو۔ ‘‘

ریحانہ میڈم کی کرسی جہاں تھی وہاں سے کلاس روم کے باہر کا منظر اچھی طرح نظر آتا تھا۔ اچانک ریحانہ میڈم نے دیکھا کہ آٹھ دس نوجوان ہاتھوں میں بندوقیں لیے ان کے کمرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پل بھر میں سارا منظر نامہ ان کی سمجھ میں آ گیا۔ وہ فوراً کمرے سے باہر نکل کر دروازے کے باہر آ کر کھڑی ہو گئیں۔ اتنے میں دہشت گرد بھی دروازے تک آ پہنچے۔ وہ دہشت گردوں  کے مقابلے میں چٹان بن کر کھڑی ہو گئیں اور بچوں  کو پکارتے ہوئے کہا کہ وہ دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں اور بلند آواز میں  دہشت گردوں  کو للکارا۔

’’تم لوگ میری لاش پر سے گزر کر میرے طلبہ کو مار سکتے ہو۔ ‘‘

ایک دہشت گرد نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں ہٹ جانے کے لیے کہا۔ انہوں  نے جواب دیا۔ ’’ میں اپنے شاگردوں کو خون میں لت پت فرش پر گرا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ تم کو مارنا ہو تو پہلے مجھے مارو۔ ‘‘

ایک دہشت گرد جو عمر میں سب سے کم تھا لیکن اس کا قد سب سے اونچا تھا۔ اس کی داڑھی بھی سب سے بڑی تھی۔ رنگ بھی گورا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ریحانہ میڈم پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ اس کے باوجود ریحانہ میڈم نے دروازہ نہیں چھوڑا اور کچھ لمحوں  کے لیے دہشت گردوں  کو کمرے میں گھسنے سے باز رکھا۔ اسی دوران بہت سے بچے کمرے سے نکل چکے تھے۔ بچوں  میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔ جو پیچھے رہ گئے ظالم دہشت گردوں  نے انہیں بھون کر رکھ دیا۔ دروازے پر ریحانہ میڈم بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور اندر بہت سے بچوں  کی لاشیں گر گئیں۔ کمرے کے فرش پر خون کے دھارے بہنے لگے۔ اپنے وعدے کے مطابق ریحانہ میڈم نے اپنے بچوں  کی فرش پر تڑپتی ہوئی لاشوں  کو نہیں  دیکھا اور دم توڑ دیا۔

زندہ بچ جانے والے بچوں  میں عرفان ملّا اور نمّی کا برا حال تھا۔ وہ بلک بلک کر رو  رہے تھے۔ ویسے دوسرے بچے بھی رو رہے تھے۔ لیکن عرفان ملّا اور نمّی کو بہت زیادہ دکھ تھا۔ جیسے ان کی اپنی ماں مر گئی ہو۔ اور یہ سچ بھی تھا۔ ریحانہ میڈم کسی ماں  سے بڑھ کر ہی تھیں جنہوں  نے اپنی جان پر کھیل کر اپنے شاگردوں  کی زندگی بچائی۔

جب بھی پشاور میں ان دہشت گردوں  کے خلاف بہادری کی داستان قلم بند ہو گی ریحانہ سلطان احمد کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

سحر افشاں کی بہادری

(شہید ہونے والی پہلی خاتون ٹیچر)

 

سحرافشاں ایک چھوٹے خاندان کی بڑے دل گردے والی ٹیچر تھی۔ وہ جوان بھی تھی خدا نے اسے حسین بھی بنایا تھا۔ پشاور میں سحر افشاں کا گھر گل بہار کے علاقے حکیم بخاری اسٹریٹ میں تھا۔ سحر افشاں کی ابھی شادی نہیں  ہوئی تھی۔ اس کے گھر میں کل ملا کر صرف تین لوگ تھے۔ ایک اس کی بوڑھی ماں تھی جو کافی کمزور ہو چکی تھی ایک اس کا بڑا بھائی تھا۔ اس کی ابھی شادی نہیں  ہوئی تھی۔ بہت دن ہوئے سحر افشا ں کے والد دنیا سے رخصت ہو چکے تھے والد کے گزر نے کے بعد سحر افشاں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اپنے پلان کے مطابق وہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں استانی کے فرائض انجام دینے لگی۔

سحر افشاں  ایک ذمہ دار خاتون ٹیچر تھی۔ بچے اس سے بہت خوش تھے۔ وہ بھی بچوں  کو بہت چاہتی تھی۔ بچّوں کو پڑھانے اور آگے بڑھانے میں سحر افشاں نے اہم کام کیا تھا۔

وہ بلا کی ذہین تھی، انتظامی کاموں  کا اچھا خاصہ تجربہ رکھتی تھی۔ اسکول میں  جب بھی کوئی جلسہ یا مقابلے ہوتے سحر افشاں  کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ انھیں  ہر حال میں  کامیاب بنائے۔ اور وہ انھیں  کامیاب کر کے دکھاتی تھی۔

سحر افشاں  کے سینے میں ایک شاعرانہ دل بھی تھا۔ بہت سے اچھے اور منتخب شعر سحر افشاں  کو یاد تھے۔ وہ اکثر کلاس روم میں  یا جلسہ گاہ میں وقت کی مناسبت سے اشعار پیش کرتی تھی۔

علامہ اقبال کی کچھ نظمیں بھی سحر افشاں  کو یاد تھیں۔

۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کی صبح دس ساڑھے دس بجے وہ بچوں  کے ساتھ اسکول کے آڈیٹوریم میں  موجود تھی کہ اچانک اس کی نظر باہر کی جانب اٹھ گئی اس نے دیکھا کہ سات آٹھ لوگ آڈیٹوریم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اسے لگا کہ یہ کوئی آرمی یا اسکول کے عملے کے لوگ نہیں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آڈیٹوریم میں داخل ہونے والے شدت پسندوں  کو روکنے کی کوشش کی۔ وہ ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ راستے سے نہیں  ہٹی تو ایک شدت پسند نے اس کے سر میں گولی مار دی۔ وہ لڑکھڑائی تو دوسری گولی اُس کے کندھے پر ماری گئی۔ اور وہ زخموں  کی تاب نہ لا کر زمین پر گر گئی۔ شدت پسند اس کی لاش کو روندتے ہوئے آڈیٹوریم میں گھس گئے اور وہاں  موجود بچوں  پر اندھا دھند گولیاں برسانے لگے۔ آڈیٹوریم میں  موجود بچوں  کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد شدت پسندوں نے وہاں  موجود سارا فرنیچر بھی تہس نہس کر دیا۔ آڈیٹوریم میں لگی کرسیوں  کو لہو لہان کر دیا۔ جن کو گولیاں لگیں  وہ تمام بچے دم توڑ چکے تھے۔ باہر ان کی جان بچانے کے لیے اپنی جان داؤ پر لگانے والی ان کی مہربان ٹیچر نے بھی دم توڑ دیا تھا۔

سحر افشاں  کے بھائی نے جب اس کی لاش دیکھی تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ ایسی مہربان اور ہر ایک سے محبت کرنے والی اس کی بہن اس طرح شہید بھی ہو سکتی ہے۔ سحر افشاں  کا بے جان جسم خون میں لت پت جب اس کے گھر لایا گیا تو اس کی بوڑھی ماں اسے دیکھتے ہی بے ہوش ہو گئی۔ شوہر کے گزرنے کے بعد کتنی مشکل سے اس نے دونوں  بھائی بہن کو پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ یہ بیٹی کے مرنے کے دن تھوڑے ہی ہے۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں میں مہندی رچنی باقی تھی۔ ابھی تو اس کو نکاح کے بول پڑھنے تھے۔ اتنی مہنگی زندگی اتنے سستے میں چھوٹ جائے گی کسی کو یقین نہیں آیا تھا۔ اس کی ماں  کو جب ہوش آیا تو اس نے کفن میں لپٹی سجی سنوری بیٹی کا چہرہ دیکھا اس کی ڈولی سے آتی کافور کی مہک اور کفن سے اٹھتی ہوئی عطر کی خوشبو ماں کے دماغ میں اتر گئی۔ ماں  نے بیٹی کو خدا کے حوالے کیا۔ جب تمام عورتیں میت کا چہرہ دیکھ چکیں تو ایک عورت نے کفن سے میت کا چہرہ ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد جنازہ مردوں  کے حوالے کر دیا گیا۔ تمام مرد کلمۂ شہادت کا ورد کر رہے تھے۔ شدت پسند بھی یہی کلمہ پڑھ رہے تھے۔ گولی چلانے سے پہلے کسی کسی کو وہ یہی کلمہ پڑھنے کی تلقین بھی کر رہے تھے۔ ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں  میں کوئی قاتل تھا اور کوئی مقتول۔

اس کا بھائی بھی بہن کے جنازے کو بدل بدل کر کندھا دے رہا تھا۔ آج اسے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔ اس سے لڑنے جھگڑنے والی ضد کرنے والی اور اس سے پیار کرنے والی اس کی بہن تھوڑی دیر میں مٹی کے حوالے کر دی جائے گی۔ مٹی جو انسان کی آخری آرام گاہ ہے۔ انسان مٹی کا پتلا اسے ایک دن مٹی کے حوالے ہونا ہی ہے۔ لیکن اس طرح جوانی میں  کوئی تھوڑے ہی جاتا ہے۔ لیکن اس کی بہن تو چلی گئی۔ مگراسے بہن پر ناز ہے۔ وہ مری نہیں شہید ہوئی ہے۔ شہادت ہر کسی کو نہیں ملتی۔ میری بہن چاہتی تو اپنی جان بچا سکتی تھی۔ مرنے والے بچے اس کے رشتہ دار تو نہیں تھے۔ لیکن اس نے اپنا فرض نبھایا۔ جہاں  تک ہو سکا بچوں  کو بچانے کی کوشش کی۔ اس کو کیا معلوم کہ کتنے بچے بچ گئے اور کتنے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

جب نماز جنازہ پڑھنے کے بعد جاں باز اور بہادر سحر افشاں  کو مٹی کے حوالے کیا جا رہا تھا تب پڑوس کی مسجد میں اذان ہو رہی تھی۔

اللہ اکبر، اللہ اکبر

اللہ بہت بڑا ہے

آؤ بھلائی کی طرف

آؤ کامیابی کی طرف

قبرستان میں  موجود تمام لوگوں کو یوں  لگا جیسے انھوں نے سحر افشاں  کو بھلائی اور کامیابی کے راستے پر روانہ کر دیا۔

٭٭٭

 

 

 

تین سالہ بہادر بچّی ایمان کی باتیں

 

ایمان کی باتیں سن کر بڑے بڑوں کے ایمان ٹھکانے آ گئے۔

ایمان ایک تین سال کی معصوم بچی تھی۔ اس کے والد شاہد خان ایک اچھے کھاتے پیتے گھر کے مالک تھے۔ ایمان سے دو سال بڑا ایک بیٹا تھا جس کا نام عمرو تھا۔ دونوں  بھائی بہن ایک ہی اسکول میں  تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ ملٹری اسکول تھا۔ جس میں  زیادہ تر فوجیوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایمان کے ماں باپ کی بڑی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بچے ملٹری اسکول میں  تعلیم حاصل کر کے بڑے ہو جائیں تو اپنے دیش کی خدمت کریں۔ یہی سوچ کر انھوں  نے بچوں  کو ملٹری اسکول میں داخل کیا تھا۔

۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو جب ملٹری اسکول پر اچانک دہشت گردوں  نے حملہ کیا تو ایمان اپنے ساتھی بچوں  کے ساتھ پڑھائی میں مصروف تھی۔ اس کا چھوٹا سا ذہن ایک ایک لفظ کو یاد کر رہا تھا۔ ویسے بھی اپنی کلاس میں وہ سب سے تیز طالبہ تھی۔ بہت ہی ذہین۔ اسکول کی پڑھائی کے بعد ہوم ورک کرنے میں بھی اس کا پہلا نمبر تھا۔ کلاس ٹیچر بھی اسے بہت پیار کرتی تھی۔ اس کا نام بھی اس کے ماں باپ نے بہت نیا رکھا تھا۔ ’’ایمان‘‘ عام طور پر ایسے نام کم رکھے جاتے ہیں۔ لیکن ایمان کو یہ نام بہت راس آیا۔ شاہد خان کو جب کوئی کہتا کہ یہ ایمان کے والد ہیں تو انھیں دلی خوشی ملتی۔ ایمان کی ماں کا بھی یہی حال تھا۔ جب بھی ان کا تعارف کرایا جاتا۔ یہ ’’ایمان کی ماں ہیں  تو ان کے چہرے کا نور بڑھ جاتا دونوں  ماں  باپ کو خوشی ہوتی کہ ایمان کے نام کی وجہ سے ان کا نام بلند ہوا ہے۔ تو بڑی ہو کر بھی ایمان ان کا اور اپنے خاندان کا نام اونچا کرے گی۔

دہشت گردوں  نے جب ہتھیاروں  کے ساتھ اسکول پر حملہ کیا تو ایمان کی ٹیچر بچوں  کو سبق سمجھانے میں مصروف تھی۔ سارے بچوں  کا دھیان بلیک بورڈ کی طرف تھا۔ جس پر انگریزی میں سوال لکھا ہوا تھا۔

’’دنیا میں سب سے سلامتی والا مذہب کون سا ہے ؟‘‘

سب سے پہلے ایمان نے کھڑے ہو کر جواب دیا تھا۔

’’اسلام مذہب!‘‘

اسی دوران کلاس روم کے باہر گولیوں  کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ ٹیچر چوکنا ہو گئی۔ وہ سمجھ گئی کہ اسکول پر دہشت گردوں  نے حملہ کر دیا ہے۔ ٹیچر جس کا نام حفصہ تھا۔ حالات سے واقف ہوتے ہی سب سے پہلے اس نے ایمان کو ایک میز کے پیچھے چھپا دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرے بچوں  کی حفاظت کے لیے سوچتی گن مشینوں کے ساتھ کچھ لوگ کلاس روم میں  گھس آئے۔

وہ عجیب عجیب زبانوں  میں چلّا رہے تھے۔ بچے ان کو دیکھ کر سہم گئے۔ ٹیچر کو بھی پسینہ آ گیا۔ موت ان کے سر پر کھڑی تھی۔ جیسے ہی ٹیچر نے حرکت کرنے کی کوشش کی بندوقوں  کے منہ کھل گئے۔ پہلی گولی ٹیچر حفصہ کو لگی وہ فرش پر ڈھیر ہو گئی اس کے بعد معصوم بچوں  پر دھڑا دھڑ گولیاں چلنے لگیں اور کلاس روم میں خون کے چشمے ابل پڑے۔

ایمان سے جب یہ خونی منظر نہیں  دیکھا گیا تو اس نے آنکھیں  موند لیں اور دونوں کانوں  پر ہاتھ رکھ دیے۔ اس کا معصوم دل اس کے چھوٹے سے سینے میں اُچھل رہا تھا۔ کلاس روم میں  چیخ و پکار آسمان کو چھو رہی تھی۔

کچھ دیر بعد دہشت گردو کا خونی ٹولہ چلا گیا تو کچھ دوسرے لوگ کمرے میں داخل ہوئے تو انھوں  نے معصوم بچوں  کی لاشیں اٹھوانے کا کام شروع کیا۔ کسی ایک کی نظر ایمان پر پڑی تو اس نے ایمان کو میز کے نیچے سے باہر آنے کے لیے کہا۔

ایمان پہلے تو ڈر گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ اسے باہر بلانے والا نیک آدمی ہے تو وہ باہر آ گئی۔ وہ زندہ اور سلامت تھی۔ لیکن بُری طرح ڈری ہوئی تھی۔ اتنے سارے قتل اور اتنی لاشیں کوئی بڑا بھی ایک ساتھ دیکھ لے تو پاگل ہو جائے۔ ایمان تو صرف تین سال کی ایک معصوم پری تھی۔ ایک دم پریوں  جیسی، ملائم اور نرم و نازک۔

باہر آنے کے بعد میڈیا والوں  نے اسے گھیر لیا۔ اور اس سے سوال جواب ہونے لگے۔ ایمان کی ہمت اب لوٹ آئی تھی۔ وہ کیمروں  کی روشنی سے آنکھیں  ملا کر سوال کرنے والوں  کے جواب دینے لگی۔

س۔تمہارا نام کیا ہے ؟

ج۔ایمان شاہد خان۔

س۔تمہاری جان کیسے بچ گئی؟

ج۔ میری جان میری ٹیچر نے بچائی۔ جب باہر گولی چلنے کی آواز آئی تو سب سے پہلے ٹیچر نے مجھے میز کے نیچے چھپا دیا۔

س۔پھر؟

ج۔پھر وہ لوگ کمرے میں گھس کر بندوق چلانے لگے۔ سب سے پہلے میری ٹیچر کو مارا جس نے میری جان بچائی تھی۔

س۔وہ لوگ کیسے تھے ؟

ج۔وہ بہت بُرے لوگ تھے۔ انھوں  نے میرے کلاس روم کے دوستوں  کو مار دیا۔ میری ٹیچر کو مار دیا۔

س۔ان کی بندوقوں  کی آواز کیسی تھی؟

ج۔ایسی آوازیں ہم فلموں  میں  سنتے ہیں۔ جب گولیاں چلتی ہیں۔

س۔پھر کیا ہوا؟

ج۔پھر کچھ اچھے لوگ آ گئے۔ انھوں  نے کہا۔ اب تم باہر آ جاؤ سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

س۔کیا اس حادثے کے بعد تم پھر سے اسکول جانا چاہو گی؟

ج۔ ہاں ! میں اسکول جاؤں  گی۔

س۔ کیا تمہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں ؟

ج۔میں آئندہ اسی اسکول میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں  کسی سے نہیں ڈرتی۔ میں  واپس جا کر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہوں۔

س۔تم پڑھ کر کیا بننا چاہتی ہو؟

ج۔میں پڑھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ تاکہ یہ بُرے لوگ دوبارہ کچھ کریں تو میں اپنے بھائی بہنوں  کا علاج کر سکوں۔ میں  ان بھائی بہنوں کی طرح بہادر ہوں جو اسپتال میں ہیں۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میں انھیں  دیکھنا چاہتی ہوں۔

س۔ اور تمہاری کیا تمنا ہے ؟

ج۔ میں اپنی ٹیچر کی یاد گار بنانا چاہتی ہوں۔ جس نے میری جان بچائی اور اپنی جان دیدی۔ میری ٹیچر مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔ اب ایسی ٹیچر کہا ں ملے گی۔

پھر اچانک ایمان کی نظر اپنے والد پر پڑی۔ وہ دوڑ کر والد سے لپٹ گئی۔ پھر پوچھا ’’میرا بھائی کہاں  ہے ؟ وہ کیسا ہے ؟

’’وہ اچھا ہے اسپتال میں ہے۔ اس کو تھوڑے زخم لگے ہیں۔ وہ تجھے یاد کر رہا ہے۔ ‘‘

’’میں اس کے پاس ضرور جاؤں  گی۔ مجھے اس کے پاس لے چلو۔ ‘‘

میڈیا کے لوگ حیران تھے۔ پریشان تھے۔ ایک معصوم بچی کا ایمان دیکھ کر وہ اپنے آپ سے شرمندہ تھے۔ وہ خود بھی اندر سے بہت خوف زدہ تھے لیکن ایمان کی دلیری دیکھ کر ان کی ہمت لوٹ آئی تھی۔ ایمان کی باتوں  نے ان کے اندر کا ایمان جگا دیا تھا۔

ایمان اپنے والد شاہد خان کے ساتھ فوجی گاڑی میں بیٹھ کر اس اسپتال کی طرف روانہ ہو چکی تھی جہاں  اس کا بھائی عمرو زیر علاج تھا۔ اور میڈیا والے اپنے کیمرے اٹھا کر دوسرے بچوں  کی جانب چل پڑے تھے۔

اور پیچھے وہ کلاس روم خون میں لت پت پڑا تھا جہاں  کچھ دیر پہلے ٹیچر نے بلیک بورڈ پر ایک سوال لکھ کر بچوں  سے جواب طلب کیا تھا۔

سوال تھا۔

’’دنیا میں  سب سے سلامتی والا مذہب کون سا ہے ؟‘‘

اور ایمان نے سب سے پہلے جواب دیا تھا۔

’’اسلام مذہب۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

صابرہ کے بیٹے کی موت

صابرہ ایک بیوہ تھی۔ شادی کے پانچ سال بعد ایک بم دھماکے میں اس کے غریب شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ تب صابرہ کے بیٹے رضا کی عمر تین سال کی تھی۔ صابرہ کا ایک بھائی تھا۔ جب صابرہ کی ساس نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد صابرہ اور اس کے بچے کو گھر سے نکال دیا تو صابرہ کے بھائی اور بھابھی دونوں  ماں بیٹے کو اپنے گھر لے آئے۔ صابرہ کپڑے سینے کا ہنر جانتی تھی اس لیے بھائی نے اس کے کہنے پر اسے ایک سلائی مشین خرید کر دے دی۔ بستی میں  کوئی درزی نہیں تھا اس لیے بستی کی ساری عورتیں اپنے اور اپنے بچوں  کے کپڑے صابرہ کے پاس ہی سینے کے لیے دیتے تھے۔ صابرہ کا مزاج نرم تھا۔ سب سے ہنس کھیل کر ملتی، اس لیے اس کے گاہک بھی بڑھنے لگے۔ بھائی صابرہ پر مہربان تھا۔ اس نے صابرہ کی جمع شدہ پونجی میں تھوڑی رقم ڈال کر اپنے مکان کی چھت پر صابرہ کے لیے ایک کمرہ بنا دیا۔ صابرہ کا بیٹا چونکہ بڑا ہو رہا تھا اس لیے ایک فوجی کی سفارش پر صابرہ نے اپنے بیٹے رضا کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں داخل کرا دیا۔ جس فوجی نے رضا کے لیے کوشش کی تھی اس کی بیوی صابرہ سے اپنے کپڑے بنواتی تھی اس لیے یہ تعلق کام آیا اور رضا آرمی اسکول میں  تعلیم حاصل کرنے لگا۔

۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو جب پشاور کے آرمی اسکول پر دہشت گردوں  نے حملہ کیا اس کے ایک دن پہلے رضا کی زندگی کے چار سال پورے ہوئے تھے۔ صابرہ نے اس کی سالگرہ کے موقعہ پر اسے نیا فوجی یونی فارم بنوا کر دیا تھا۔ سالگرہ اس نے دھوم دھام سے نہیں منائی تھی صرف تین چار ایسی خواتین کو بلایا تھا جو اس سے کپڑے سلایا کرتی تھیں۔ ان میں  فوجی کی عورت بھی تھی۔ فوجی کی عورت بھی صابرہ کی طرح بہت نرم مزاج رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صابرہ سے اس کی دوستی ہو گئی تھی۔ وہ رضا کی سالگرہ پر بہت خوبصورت تحفے لائی تھی۔ جن میں ایک مہنگا بستہ بھی تھا۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے دیکھ لیا تھا کہ رضا کا بستہ جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے اور اسے کتابیں  رکھنے میں  تکلیف ہو رہی ہے۔

رضا کو یہ تحفہ بہت پسند آیا تھا۔ ایک بچے کے لیے اس سے بڑی دولت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی کتابیں  رکھنے کے لیے اسے ایک اچھا سا بستہ مل جائے۔ رضا بستہ لے کر بہت خوش ہوا تھا۔ کل صبح وہ نئے آرمی سوٹ کے ساتھ جب نیا بستہ لے کر اسکول جائے گا تو سب کی نظر اس پر ہی ہو گی۔

صبح ماں  نے خوشی خوشی اسے یونیفارم پہنایا تو ماں  کو ایسا لگا جیسے اس کا لخت جگر یونیفارم پہن کر اسکول میں نہیں بلکہ محاذ جنگ پر جا رہا ہے۔ کپڑے پہن کر جب رضا نے ماں  کو سلوٹ کیا تو صابرہ کی آنکھوں  میں آنسو آ گئے اور اس کی پلکیں بھیک گئیں۔ رضا نے انگلی سے ماں  کی پلکوں کے آنسو صاف کیے تو صابرہ کے ہونٹوں  پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ باہر اسکول کی وین کا الارم بجا تو صابرہ نے جلدی جلدی رضا کے لیے بستے میں  کتابیں  رکھیں اور اسے وین تک چھوڑنے آئی۔ وین کا ڈرائیور ایک پنجابی تھا وہ صابرہ کو ہمیشہ بہن جی کہہ کر پکارتا تھا۔ رضا کا نیا رنگ روپ دیکھ کر اس نے صابرہ سے کہا۔ ’’بہن جی بیٹے کی نظر اُتاری کہ نہیں۔ آج تو یہ شہزادوں  سا لگ رہا ہے۔ ‘‘

صابرہ نے مسکرا کر ڈرائیور کی طرف دیکھا اور پھر وین چل پڑی۔ رضا نے بس کی کھڑکی سے ماں  کو بائی بائی کہا اور وین نظروں  سے اوجھل ہو گئی۔

اچانک صابرہ کو لگا جیسے اس کے دل میں  کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ ایسا پہلے تو کبھی نہیں  ہوا تھا۔ اس نے بُرے خیال کو جھٹک دیا۔ اور خدا کو یاد کرتے ہوئے کمرے میں آ کر مشین پر کپڑے سینے بیٹھ گئی۔ پہلے ہی جھٹکے میں  مشین کا دھاگا ٹوٹ گیا۔ پھر اس کا دل دھڑکا۔ یا اللہ آج یہ کیا ہو رہا ہے ڈرائیور کی بات اسے یاد آ گئی۔

’’بہن جی بیٹے کی نظر اتاری کہ نہیں، آج تووہ شہزادوں سا لگ رہا ہے۔ ‘‘

اس نے ٹوٹا ہوا دھاگا پھر سے پرونا چاہا لیکن اس کی انگلیاں  کانپ گئیں وہ مشین چھوڑ کر اٹھ گئی۔ پھر موری میں  جا کر وضو کیا اور یاسین شریف پڑھنے بیٹھ گئی۔

اسکول میں رضا کو دیکھ کر سب نے داد دی اور ٹیچر نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اس نے ماں  کا دیا ہوا مٹھائی کا ڈبہ کھول کر پہلے ٹیچر کا منہ میٹھا کرایا پھر سارے بچوں  کو تھوڑی تھوڑی مٹھائی تقسیم کی۔ سب نے مل کر اسے سال گرہ کی مبارکباد پیش کی۔ یہ پہلی سالگرہ تھی جب اس نے اسکول کے بچوں  میں  مٹھائی تقسیم کی تھی۔ ٹیچر نے سبق شروع کیا تو سب بچے متوجہ ہو گئے۔ ٹیچر نے بلیک بورڈ پر لکھا۔

دنیا میں سب سے خوبصورت چیز کیا۔

ایک بچے نے کہا۔ زندگی۔

دوسرے بچے نے کہا۔ اسکول۔

تیسرے بچے نے کہا۔ کتاب

رضا نے کہا۔ ماں۔

ٹیچر نے سوال کے سامنے جواب کے طور پر ماں  لکھ دیا۔ رضا بہت خوش تھا کہ اس کا جواب درست نکلا۔

اچانک اسکول میں  گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی۔ ٹیچر گھبرا کر دروازے کی طرف دوڑی۔ دیکھے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی بندوق برداروں  نے کلاس روم پر حملہ کر دیا۔ سب سے پہلے ٹیچر پر گولی چلائی گئی۔ گولی اتنی شدت سے چلی تھی کہ ٹیچر کے سر کے پرخچے اُڑ گئے۔ دوسرے ہی پل ایک گولی رضا کے معصوم وجود کو چھیدتے ہوئے گزر گئی۔ رضا کا وجود اس کے نئے بستے پر بکھر گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کے زخموں  سے خون بہتے ہوئے اس کے بستے میں اتر گیا اور کتاب کاپیوں  میں جذب ہونے لگا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں  کو جان بچا کر بھاگنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے دہشت گردوں نے تمام بچوں  کا صفایا کر دیا۔ اتنے پر بھی جب ان کو سکون نہ ملا تو وہ دروازوں، کھڑکیوں، الماریوں اور دیواروں  پر لگی بڑے لوگو ں کی تصاویر پر فائرنگ کرنے لگے۔

صابرہ کو جب اس دہشت گردانہ حملے کی خبر ملی تو وہ کانپ گئی۔ وہ فوری طور پر آٹو کے ذریعہ اسکول پہنچی۔ اسکول میں اسے بتایا کہ تمام بچوں  کو اسپتال لے جایا گیا ہے تو کسی سے لفٹ لے کر وہ اسپتال پہنچی۔ اسپتال کے وارڈ میں یہاں  سے وہاں تک لاشیں بچھی تھیں اور تمام لاشیں  سفید کپڑوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ صابرہ کی دیوانگی کا اور بدحواسی کا عالم دیکھنے کے قابل تھا۔ دوچار لاشوں  سے کپڑا ہٹانے کے بعد ایک بستر پر اسے رضا کی لاش ملی۔ صابرہ کی تو جیسے دنیا ہی لٹ گئی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اکلوتے بیٹے کے مردہ جسم کو تاکنے لگی۔ رضا کا سفید سوٹ پوری طرح خون سے لال ہو گیا تھا۔ گولی اس کے سینے پر لگی تھی جہاں  گولی لگی تھی وہاں  سے سوٹ کا کپڑا بھی ادھڑ گیا تھا۔

صابرہ نے بہت ضبط کیا۔ دونرسوں  نے آ کر اسے تھام لیا اس نے رضا کے چہرے پر سفید کپڑا ڈال دیا اور بیڈ کے پاس بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

اس کا نورِ نظر اور لختِ جگر یونیفارم پہن کر گیا تھا مگر کفن پہن کر واپس آیا۔

٭ ٭ ٭

 

 

 

کیا یہ خون رنگ لائے گا؟

 

یہ خون ضرور رنگ لائے گا۔

پشاور کے آرمی اسکول میں  ہوئے دہشت ناک حملوں کے پیچھے بہت سی کہانیاں موجود ہیں۔ برسوں  تک یہ کہانیاں دہرائی جائیں گی۔ جب بھی پاکستان میں  دہشت گردی پر بات چیت ہو گی پشاور کا ذکر ضرور آئے گا۔ ان میں  ایک ذکر دو دوستوں  کا بھی ہو گا۔ جو چھ سات سال سے پشاور کے اس آرمی اسکول میں زیر تعلیم تھے جس پر ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ دو دوستوں  کی یہ جوڑی اسکول کے بعد کالج میں بھی ایک ساتھ تھی۔ ایک لڑکے کا نام عامر امین تھا اور دوسرے کا ایمل خان۔ ایمل خان کے مقابلے میں عامر امین ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لیے عامر امین کی پڑھائی کا بہت سا خرچ ایمل خان ہی اٹھاتا تھا۔ در اصل ایمل خان کے والد بھی بہت نیک دل انسان تھے وہ عامر امین کو بھی اپنے بیٹے کی طرح ہی مانتے تھے۔ دونوں  دوست جب بھی کالج آتے ایک جیسے لباس میں آتے۔ ان کے جوتے بھی ایک جیسے ہی ہوتے تھے۔ ان کے بالوں  کا انداز بھی ملتا جلتا تھا۔ البتہ عینک دونوں  کی الگ الگ تھی۔ عامر امین کی بینائی کمزور تھی اس لیے وہ نمبروں کے سفید شیشوں  والی عینک لگاتا تھا اور ایمل خان کی عینک محض نمائشی تھی جس کے شیشے سیاہ تھے۔

پڑھائی میں بھی دونوں دوست آگے پیچھے ہی چلتے تھے۔ کبھی ایمل خان پہلے نمبر پر آ گیا تو کبھی عامر امین نے پہلا نمبر مار لیا۔ کسی تیسرے طلب علم کی ہمت نہیں  ہوتی تھی کہ ان کے درمیان آ جائے۔

عامر امین کی چھوٹی بہن لاڈو بہت خوبصورت تھی۔ ایمل خان کے والدین نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ لاڈو کی اور ایمل خان کی جوڑی خوب سجے گی۔ اور وقت آنے پر دونوں  کو شادی کے بندھن سے باندھ دیں گے۔

ایمل خان نے ایک دن یہ بات عامر امین کو بتا  دی تھی۔ اس لیے کہ آگے چل کر اچانک معاملہ سامنے آئے تو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

دونوں  لڑکے اپنے اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے۔ پہلے اسکول اور اب کالج میں وہ ہمیشہ دوسرے طالب علموں  کے ساتھ بھی محبت سے پیش آتے۔ کالج میں آنے کے بعد بھی ان میں جوانی کی شوخیاں اور چنچلتا نہیں آئی تھی۔ کالج کی تمام لڑکیوں کے لیے بھی ان دونوں کے دلوں  میں بھائیوں جیسا جذبہ تھا۔ لڑکیاں ان کے گروپ میں رہ کر اپنے لیے سکون محسوس کرتی تھیں۔

دونوں نماز کے پابند تھے۔ ہر حال میں وقت پر نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ جس دن پشاور کے آرمی پبلک اسکول اینڈ ڈگری کالج پر دہشت گردوں  نے حملہ کیا، دونوں  دوست انٹر کے ایک پرچے کے بعد کالج کی راہ داری میں بیٹھے بات چیت کر رہے تھے کہ انھوں  نے دہشت گردوں  کے دوڑنے کی آواز فائرنگ کی آواز ایک ساتھ سنی۔ سب گھبرا کر اِدھر اُدھر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ایمل خان اور کچھ بچے قریب ہی کیمسٹری لیبارٹری میں جا کر چھپ گئے۔ عامر امین دوسری طرف نکل گیا۔ دہشت گردوں  کا جتھہ لیبارٹری میں گھس گیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ پوری تجربہ گاہ کو تہس نہس کر دیا اور جتنے لڑکے وہاں  چھپے ہوئے تھے سب کی لاشیں گرا دیں۔ ایمل خان بھی اس حملے میں کام آیا۔ فرش پر لاشیں بچھ گئیں۔ شیشوں کے ٹکڑوں کے ساتھ فرش خون کی جھیل بن گیا۔ اتنے نوجوانوں کا گرم گرم خون فرش پر پھیل گیا تو فرش آگ کی طرح سلگ اٹھا۔

عامر امین نے یہ سارا منظر کمرے کے پیچھے کی کھڑکی سے چھپ کر دیکھ لیا تھا لیکن دہشت گردوں  کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ اس لیے اس طرف جتنے نوجوان چھپے تھے سارے بچ گئے۔

جب دہشت گرد اپنا ظالمانہ عمل کر گزرے تو عامر امین اور دوسرے نوجوان لیباریٹری میں آ گئے۔ ایمل خان کی لاش جب باہر لائی گئی تو عامر امین نے اس کا سر اپنی گود میں  رکھ لیا اور بے تحاشہ رونے لگا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو۔ کوئی گذشتہ چھ سات سال سے کلاس میں آپ کے برابر بیٹھ رہا ہو اور پھر ایک دن آپ کی گود میں دم توڑ دے۔

عامر امین بہت خوف زدہ تھا۔ جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ اس کی آواز لرز رہی تھی۔ اس کے سارے کپڑے خون میں لت پت ہو چکے تھے۔ دونوں  ہاتھ خون میں تر بہ تر تھے۔ یہ خون اس کا نہیں تھا۔ اس کے جان سے پیارے دوست کا تھا۔ اس کے ہمدرد کا تھا۔ اس کے محسن کا تھا۔ اس کی بہن کے ہونے والے شوہر کا تھا۔ کتنے رشتے تھے ایمل خان سے اس کے، کتنے بندھنوں میں بندھے تھے دونوں۔ لیکن آج ایمل خان سارے رشتے توڑ کر چلا گیا تھا اور عامر امین اکیلا رہ گیا تھا۔ ایمل کے والدین کو وہ کیا منہ دکھائے گا۔ شام کو وہ ایمل خان کا مردہ جسم لے کر کیسے گھر جائے گا۔ جب لاڈو  ایمل کی لاش دیکھے گی تو اس کے دل پر کیا گزرے گی۔

اتنے میں  اسپتال کی گاڑی والے آئے اور تمام لاشوں کے ساتھ ایمل خان کی لاش بھی اٹھا کر لے گئے۔ پوسٹ مارٹم کے لیے۔ عامر امین خون میں لت پت بیٹھا رہ گیا۔ اتنے میں  قریب کی مسجد سے مؤذن نے اللہ  اکبر کی صدا بلند کی۔ عامر امین نے سوچا، وہ خون سے لت پت کپڑوں  کے ساتھ مسجد جائے گا، خون میں بھرے دونوں  ہاتھ اٹھا کر خدا سے فریاد کرے گا۔

’’یہ کیا ہو گیا پاکستان کو؟ یہ کیا ہو گیا پشاور کو؟ یہ کیسے مسلمان ہیں  جو بے گناہوں پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ اسکول میں پڑھنے والے ان معصوم بچوں  نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔ پاکستان کے بچے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں  تو ان کو کیوں  روکا جا رہا ہے۔ ان کے قلم اور کتابوں  کا دشمن کون ہے۔ مرنے والے بچوں  کے خون کے ایک ایک قطرے سے ایک ایک ملالہ یوسف زئی پیدا ہو گی اور تعلیم کے قافلے کو آگے بڑھائے گی۔ عامر امین اٹھا۔ اپنے کپڑوں  کو درست کیا اور اس کے قدم مسجد کی جانب اٹھنے لگے۔ کالج کے صحن سے مسجد کے صدر دروازے تک عامر امین کے کپڑوں  سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔

کیا یہ خون رنگ لائے گا؟

٭٭٭

 

 

 

ایک دن کی زندگی

 

اس کا نام خولہ الطاف تھا۔ اس کی عمر چھ سال کی تھی۔ وہ بہت چنچل اور خوبصورت بچی تھی۔ اس کے والدین ایک عرصے سے اسے قریب کی بستی کے کسی اسکول میں پڑھانا چاہتے تھے۔ لیکن اس کی معصوم سی ضد نے اس کی تعلیم کے سلسلے کو روک رکھا تھا۔ اس کی ضد تھی وہ اسی اسکول میں  جائے گی جس اسکول میں اس کے دو بھائی ثمر اور شعیب پڑھ رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے دونوں  بھائیوں سے قریب رہنا چاہتی تھی۔ والدین نے اسے پیار سے سمجھایا اور کہا کہ ملٹری کے جس اسکول میں  تیرے بھائی پڑھ رہے ہیں وہ ہمارے گھر سے بہت دور ہے۔ اس نے کہا۔

’’اسکول کی جو وین میرے بھائیوں  کو لے کر جاتی ہے میں بھی اسی میں  جایا کروں  گی۔ ‘‘

اور پھر والدین نے اس کی معصوم ضد کے آگے ہار مان لی اور اسے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں داخلہ مل گیا۔ ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو اس نے اسکول کی پوری تیاری کی۔ نیا یونیفارم بنایا۔ بستہ خریدا، کتاب اور کاپیاں اور دیگر چیزیں خرید لائی۔ یہ سب سامان خریدتے وقت اس کی ماں  اس کے ساتھ تھی۔ ماں  نے کہا اب تم تینوں  بھائی بہن دن بھر ہم سے دور رہا کرو گے۔ تمہارے والد نوکری پر چلے جائیں گے اور میں  گھر میں اکیلی رہوں  گی۔ میرا دل کیسے لگے گا۔ تو ہماری بات مان کر قریب کے اسکول میں پڑھ لیتی تو زیادہ وقت میرے ساتھ رہنے کو مل جاتا۔ بچی نے ماں کی باتوں  کا جواب نہیں  دیا اور مسکرانے لگی۔

وہ خوشی خوشی شام میں اسکول کا سامان لے کر گھر لوٹی۔ رات میں  جب اس کے والد گھر آئے تو اس نے بڑے چاؤ سے ایک ایک چیز اپنے والد کو دکھائی اور اسکول کے کپڑے بھی پہن کر دکھائے۔ بیٹی کو خوش دیکھ کر ماں  باپ بھی خوش تھے۔ دونوں بھائی اسکول سے آ چکے تھے وہ بھی خوش تھے کہ کل ان کی بہن وین میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ہی اسکول جائے گی۔

ثمر نے کہا۔ خولہ میرے ساتھ بیٹھے گی۔

شعیب نے کہا۔ نہیں  وین میں خولہ میرے پاس والی سیٹ پر بیٹھے گی۔

دونوں  بھائیوں  میں  تکرار ہونے لگی تو خولہ نے کہا۔ ’’میں تم دونوں کے بیچ میں بیٹھوں گی۔ ‘‘

اسی دوران کھانے کا وقت ہو گیا۔ ماں  نے دسترخوان بچھا دیا اور سب نے مل کر ہنسی خوشی کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد والد نے ٹی وی چلا دیا۔ والد کو روزانہ خبریں سننے کی عادت تھی۔ وہ جب تک خبریں نہیں سنتے انہیں نیند نہیں  آتی۔

آج کی خبروں  میں  بتایا گیا کہ خفیہ طریقوں  سے خبر ملی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں  کی طرف سے کوئی بڑا حملہ ہونے والا ہے۔ وہ فکر مند ہو گئے ان کا دل اندر سے کہیں دھک سے ہو گیا۔

انھوں  نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ’’اے خدا! ملک سے دہشت گردی کب ختم ہو گی؟‘‘پھر انہوں  نے ٹی وی بند کر کے بستر کی راہ لی اور بہت جلد نیند کی آغوش میں  چلے گئے۔

رات میں تین چار بجے کے آس پاس وہ اچانک بیدار ہو گئے اور لائٹ جلا کر بستر پر بیٹھ گئے۔ لائٹ جلنے سے بیوی کی آنکھیں کھل گئیں۔

’’کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟‘‘

ہاں  طبیعت تو ٹھیک ہے۔ لیکن پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایک طرف سیاسی لیڈروں نے ہنگامے مچا رکھے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں  کا خوف ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔ نہ جانے کب کس جگہ حملہ کر دیں۔ حیرت ہے مسجد میں نمازیوں  پر حملہ کرتے وقت بھی ان کو رحم نہیں آتا۔ ارے بھئی شیعہ ہوں، سنی ہوں، ہیں تو سارے مسلمان، انسان اور پاکستانی۔ سب کو جینے کا حق ہے۔ پاکستان سب کا ہے۔ سب نے مل کر اسے ترقی دی ہے۔ ہندو اگرچہ یہاں  کم ہیں لیکن یہ بھی پاکستان کی ترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم کسی کو کیوں  مارتے ہیں۔ ہم نے جب کسی کو زندگی نہیں دی ہے تو پھر کسی کی زندگی لینے کا ہمیں  کیا حق ہے۔ ‘‘

بیوی نے کہا۔ ’’آپ کی باتیں سچ ہیں لیکن سنے گا کون؟ اگر آپ کا بیان کسی اخبار میں  چھپ گیا یا ٹی وی پر آ گیا تو دوسرے دن ہمارے گھر پر حملہ ہو جائے گا۔ ہمیں  اپنے تین بچوں  کی فکر کرنی چاہیے۔ ان کی پرورش کرنا ہے۔ پڑھا لکھا کر انھیں  بڑا کرنا ہے۔ ‘‘

’’یہ پڑھائی لکھائی بھی تو دہشت گردوں  کی نظروں  میں کھلتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی کہانی ہمارے سامنے ہے۔ باہر کے ملکوں  نے اسے سہارا دیا اس لیے وہ بچ گئی اور اب تو اسے نوبل انعام بھی مل گیا۔ لیکن ہمارے اور دوسرے پاکستانی بچوں  کے نصیب ایسے کہاں۔ ‘‘

’’خدا کا نام لے کر سونے کی کوشش کریں۔ مجھے صبح جلدی اٹھنا ہے۔ اب میری ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ صبح مجھے دونوں بھائیوں کے ساتھ خولہ کو بھی تیار کر کے اسکول بھیجنا ہے۔ کل اس کا پہلا دن ہے۔ وین والا بھی زیادہ انتظار نہیں  کرتا بس ایک آواز لگاتا ہے اور چلتا بنتا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد کمرے کی روشنی بند کر دی گئی اور کمرے میں سناٹا طاری ہو گیا۔

صبح وین آنے سے پہلے خولہ کی ماں  نے تینوں  بچوں  کو تیار کر دیا۔ اور وین والا بچوں  کو لے کر روانہ ہو گیا۔ خولہ دونوں بھائیوں  کے بیچ میں بیٹھ گئی تو دونوں  بھائی خوش ہو گئے۔ شہر کی کشادہ سڑکوں  سے چلتے ہوئے وین آرمی پبلک اسکول کے میں گیٹ کے باہر رک گئی۔ تمام بچے اپنے اپنے کمروں  کی جانب چلے گئے۔ خولہ کو اس کے بھائیوں  نے اس کی ٹیچر کے حوالے کیا اور اسی کمرے کے پیچھے والے کمرے میں  چلے گئے جو ان کا کلاس روم تھا۔ خولہ کو عجیب سی خوشی محسوس ہو   رہی تھی۔ کبھی وہ ٹیچر کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے بچوں  پر نظر ڈالتی۔ آج اسکول میں اس کا پہلا دن تھا۔ ٹیچر نے جب سبق شروع کیا تو خولہ نے بھی کاپی کتاب نکال کر سامنے رکھ لی۔ ابھی وہ ایک حرف بھی نہیں پڑھ پائی تھی کہ دہشت گردوں  نے کلاس روم پر حملہ کر دیا۔ تڑ تڑ گولیوں کی آواز سے سارا کمرہ گونج اٹھا اور پھر بچوں  کی چیخ و پکار کمرے میں گونجنے لگی۔ ایک گولی کلاس ٹیچر کے سر میں اتار دی گئی تھی وہ جگہ پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ دوسرے بچوں  کے ساتھ خولہ بھی گولیوں  کا شکار ہو گئی۔ اس کی تعلیمی زندگی کا ایک دن بھی پورا نہیں  ہوا اور وہ ختم کر دی گئی۔

کیا خولہ کی موت کے بعد دہشت گرد اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

گیند چپ ہے اور بلّا خاموش

 

بتول کی ماں

جی ہاں ! میں بتول کی ماں  ہوں۔

میں  پاکستان کے شہر پشاور، میں ایک کالونی میں رہتی ہوں۔

میرے فلیٹ کا نمبر۲۱ ہے۔ سنتے آئے ہیں کہ اکیس نمبر لکی ہوتے ہیں۔

ہماری کالونی آرمی پبلک اسکول سے بہت قریب ہے۔

میری آٹھ سال کی معصوم بیٹی بتول اسی اسکول میں پڑھ رہی ہے۔

یہ اسکول میرے اور بتول کے لیے ایک یاد گار اسکول ہے اس لیے کہ میرے شوہر خان اشفاق بھی اس اسکول کے طالب علم رہ چکے تھے۔ یہ بات اس لیے لکھ رہی ہوں  کہ دو سال قبل میرے شوہر کا اچانک انتقال ہو گیا تھا۔ وہ رات کو عشا کی نماز پڑھ کر سوئے اور فجر کی نماز کے لیے جب انھیں اٹھایا گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے سوچکے تھے۔

انھیں نیند ہی میں دل کا دورہ پڑا تھا۔ دورہ اتنا شدید تھا کہ اُن کی جان لے کر ہی گیا۔ ان کی یاد گار بتول کے علاوہ ایک بیٹا بھی ہے جس کی عمر پانچ سال ہے۔ وہ بھی اپنی بہن کے ساتھ آرمی پبلک اسکول میں پڑھ رہا ہے۔

بتول درجہ چہارم میں ہے اور اس کے بھائی عارف کا یہ پہلا سال ہے۔ میرے شوہر خان اشفاق اسکول ٹیچر تھے ان کی ملازمت ایک سرکاری اسکول میں تھی۔ ان کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد ان کی تنخواہ کا آدھا حصہ مجھے ملنے لگا تھا۔ یہ رقم اتنی تھی کہ ہم تینوں کا خرچ آسانی سے چل جاتا ہے۔

بتول بہت ہوشیار بچی ہے۔ اسے احساس ہو چکا ہے کہ اس کے والد عرصہ ہوا اس دنیا میں نہیں ہیں۔ وہ ماں  کی مجبوری بھی سمجھنے لگی ہے۔ اس لیے وہ کسی بات کی ضد نہیں  کرتی۔ جو کھلاتی ہوں  کھا لیتی ہے۔ جو پہناتی ہوں  خوشی سے پہن لیتی ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے حصے کی چاکلیٹ یا مٹھائی عارف کو دے کر اسے خوش کر دیتی ہے۔ چھٹی کے دن وہ گھر کے کاموں  میں میرا ہاتھ بٹانے لگی ہے۔ کبھی برتنوں  کی صفائی کر دیتی ہے کبھی فرش پر جھاڑو لگا دیتی ہے۔ عارف کو کھلونوں سے کھیلنے کا بڑا شوق ہے۔ بتول وقت نکال کر اس کے ساتھ بھی کھیل لیتی ہے۔

میں صبح تیار کر کے دونوں  بھائی بہن کو اسکول چھوڑ آتی ہوں۔ اور شام میں  چھٹی سے پہلے انھیں لینے کے لیے چلی جاتی ہوں میں  بچوں  کے ساتھ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر پیدل ہی آتی جاتی ہوں۔ چونکہ گھر اور اسکول کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں  کسی قسم کی تکلیف نہیں  ہوتی۔

یہ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کا دن ہے۔ رات میں عارف کو شدید بخار تھا۔ ڈاکٹر نے دو تین دن کا آرام بتایا تھا اور میری درخواست پر پرنسپل صاحبہ کے نام لیٹر بھی لکھ دیا تھا۔ میں  نے صبح اکیلی بتول کو اسکول کے لیے تیار کیا۔ عارف نیند میں تھا۔ میں نے فلیٹ کے باہر تالا لگا دیا اور بتول کی انگلی تھام کر اسکول کی طرف چل پڑی۔

راستہ کراس کرتے وقت ایک اسکوٹر والا ہم دونوں  ماں  بیٹی کے درمیان آ گیا تو بتول کی انگلی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ بتول رستے ہی پر کھڑی رہ گئی اور میں دوسری طرف کنارے پر پہنچ گئی۔ اسکوٹر والا ہمارے درمیان سے گزر گیا۔ کچھ پل کے لیے میرا دل دھک سے رہ گیا۔ ایک برا خیال میرے دل سے ہو کر گزر گیا۔ میں نے دل ہی دل میں خدا کو یاد کیا درود شریف پڑھنے لگی۔ اتنے میں بتول نے آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

پانچ منٹ بعد ہی میں اسکول کے صدر دروازے پر بتول کو چھوڑ کر لوٹ آئی۔ مجھے عارف کی فکر تھی۔ وہ اکیلا ہے۔ بخار میں مبتلا ہے کمرہ باہر سے بند ہے اس کی آنکھ کھل گئی تو وہ ڈر جائے گا۔

ہمیشہ جو فاصلہ تیس منٹ میں طے کرتی تھی وہ بیس منٹ میں ہی طے کر لیا۔ میں نے جب کمرے کا تالا کھولا تو میری سانس بہت تیز چل رہی تھی۔ اندر آ کر دیکھا تو عارف ابھی تک سویا ہوا تھا۔ میں  نے چادر ہٹا کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو اس کا بخار کم ہو چکا تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اسے اٹھا کر چائے اور بسکٹ سے ناشتہ کرایا اور دوا کی ایک خوراک دے کر واپس سلا دیا۔ پھر چادر اس کے بدن پر ڈال دی عارف پھر سو گیا۔ میں کچن میں  جا کر اپنے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ اس دوران ایک چینی کی پلیٹ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل دھک سے رہ گیا۔

میں نے پلیٹ کے ٹکڑے اٹھا کر باہر ڈبّے میں ڈالے اور ناشتہ کر کے عارف کی چار پائی کے برابر کرسی پر بیٹھ گئی۔

داخلہ ہونے کے بعد آج پہلی بار عارف کی اسکول سے غیر حاضری ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ بتول نے ڈاکٹر کی پرچی عارف کی اسکول ٹیچر کو پہنچا دی ہو گی۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے اطمینان سا ہو گیا۔ لیکن مجھے اپنے دل میں بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے وقت میں میں قرآن کا سہارا لیتی ہوں۔ دنیا میں یہی ایسی کتاب ہے جسے پڑھنے سے سکون ملتا ہے۔ مجھے اس وقت سکون کی ضرورت تھی۔ جب میں باتھ روم سے وضو کر کے نکلی تو فون کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا۔ میں  نے جلدی سے موبائل آن کیا۔ دوسری طرف سے پرنسپل صاحبہ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ جیسے کہیں بندوق کی گولیاں چل رہی ہوں۔ ’’اسکول پر دہشت گردو ں نے حملہ کر دیا ہے۔ جلدی سے آ کر اپنی بیٹی کو لے جاؤ۔ ‘‘

میری سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔ اور پھر میں بغیر تالا لگائے ہی گھر سے نکل گئی اور دوڑتے ہوئے پندرہ منٹ میں اسکول پہنچ گئی۔ لیکن صدر دروازہ بند تھا۔ آرمی کے دو جوان بندوق تانے پہرے پر کھڑے تھے۔ باہر بچوں  کے والدین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ سب اندر جانے کے لیے بے تاب تھے۔

اندر سے گولیوں  کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی بچوں  کے رونے کی اور چلانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔

باہر کھڑے ہوئے سارے لوگ حواس کھو چکے تھے اور عجیب بے یقینی کی حالت میں مبتلا تھے۔ میرا دل چاہا کہ صدر دروازہ توڑ کر اندر گھس جاؤں اور اپنی بتول کو صحیح سلامت لے آؤں۔

صبح دس بجے یہ جنگ شروع ہوئی تو شام کو چھ بجے تک چلتی رہی۔ آرمی کے جوانوں  نے آٹھوں دہشت گردوں  کو مار گرایا تو گولیوں  کا تبادلہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد صدر دروازہ کھول دیا گیا اور ایک کے بعد ایک ایمبولینس اسکول میدان میں داخل ہونے لگی۔ سب سے پہلے زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا۔ پھر ان بچوں  کو اٹھایا جانے لگا جن کے جسم مردہ ہو چکے تھے۔ میں فوراً بتول کے کلاس روم میں پہنچی۔ دیکھا تو پورا فرش معصوم بچیوں کی لاشوں  سے بھرا پڑا تھا۔ یہ خونی منظر دیکھ کر میں بے ہوش ہو گئی۔

٭٭

 

آج۱۷؍دسمبر۲۰۱۴ء کا دن ہے۔ بتول کی ڈولی سو سائٹی کے صحن میں  رکھی ہے۔ بہت سے مرد اور عورتیں موجود ہیں۔ غسل دینے والی بی بی نے میری آٹھ سالہ معصوم بیٹی کو غسل دے کر دلہن کی طرح سنوار دیا ہے۔ اس کی آنکھوں  میں سرمہ لگایا ہے۔ اس کے کپڑوں  پر عطر مل دیا گیا ہے۔ ایک قطار سے ساری خواتین اس کا آخری دیدار کر رہی ہیں۔ سب کی آنکھوں  میں آنسو ہیں۔ عارف بخار کی حالت میں اپنی آپا کو رخصت کرنے کے لیے گھر سے باہر آیا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ اس کی آپا کو کیا ہو گیا ہے۔ میں  نے دل پر پتھر رکھ کر اپنی لاڈلی کا آخری دیدار کر لیا ہے۔ اب اس کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے۔ جس آنگن سے اس کی شادی کی ڈولی اٹھنے والی تھی اس آنگن سے اس کی میت کا ڈولا اٹھایا جا رہا ہے۔ سب لوگ کلمۂ شہادت کا ورد کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ دہشت گردوں نے بچوں سے کلمہ پڑھا کر ان کو گولی ماری تھی۔

میری معصوم اور بے گناہ لاڈلی چلی گئی۔ اس کا ڈولا اٹھ گیا۔ سارے لوگ جنازے کے ساتھ چلے گئے۔ سب عورتیں اپنے اپنے گھروں  کو چلی گئیں۔ میں  اکیلی رہ گئی عارف کے ساتھ۔ جب میں نے روتی آنکھوں  سے عارف کی طرف دیکھا تو عارف مجھ سے لپٹ گیا میں  نے جب اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ بخار میں تپ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا جیسےیہ بخار نہیں تھا۔ اس کی زندگی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

گلاب کی موت

 

پھول ہر جگہ نہیں کھلتے۔ باغ ہر جگہ نہیں لگتے۔ پاکستان میں پشاور ایک ایسا شہر ہے جہاں پھول کثرت سے کھلتے ہیں۔ یہاں  جگہ جگہ پھولوں کے باغ ہیں۔ یہاں پھولوں کی بڑی تجارت ہوتی ہے۔ یہاں چمپا، چمیلی، موگرا اور گلاب ہر طرح کے پھول دستیاب ہیں۔ ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کے دن اس شہر کے ملٹری اسکول پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا اس اسکول کے بچے بھی پھولوں کی طرح نرم و نازک، کو ملتا سے بھر پور، معصوم اور خوبصورت تھے۔ شیخ، سید، مغل، پٹھا۔ ہر قبیلے کے بچے یہاں زیر تعلیم تھے۔ دہشت گردوں  نے سارے باغ کو اجاڑ دیا۔ کسی پر رحم نہیں کھایا۔

میرا نام رحیم دین ہے۔ میں  پچھلے بیس بائیس برسوں  سے یہاں باغبانی کا کام کرتا ہوں۔ میں نے اسکول اور کالج کے لان کو ہمیشہ اپنے خون سے پسینے سے سینچا ہے۔ یہاں کی کیاریوں میں جتنے پھول کھلتے ہیں  ان میں میرے پسینے کی مہک شامل ہے۔

مجھے میرے لگائے ہوئے پودوں میں اور اسکول کے معصوم بچوں  میں  کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا۔ جس طرح میں ان پودوں  کو سینچتا ہوں۔ اسی طرح ان بچوں  کے والدین اپنے بچوں  کو سینچتے ہیں۔ جس طرح میں دھوپ اور تیز ہواؤں سے پھولوں  کی حفاظت کرتا ہوں اسی طرح بچوں کے والدین دنیا کے سرد و گرم سے اپنے بچوں  کی حفاظت کرتے ہیں۔

میری شادی کو بیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا۔ مجھے کوئی بچہ نہیں ہے۔ اسی لیے یہ بچے مجھے اور بھی اچھے لگتے ہیں۔

ان بچوں میں  ایک بچہ دلاور بھی ہے اس کی عمر سات آٹھ سال کی ہے دو سال پہلے ایک سڑک حادثے میں دلاور کے ماں باپ خدا کو پیارے ہو گئے میں نے بہت چاہا کہ میں دلاور کو گود لے لوں۔ میں اس کا پورا خرچ اٹھاؤں میں اسے اپنے گھر لے آؤں تاکہ میرے گھر میں روشنی آ جائے۔ دلاور جیسے پھول کے آنے سے میرے گھر میں بہار آ جائے۔ میری گھر والی کی سونی کوکھ کا تھوڑا بہت درد دور ہو جائے۔ میں نے یہ تجویز دلاور کے ماما کے سامنے رکھی جو اس کا سر پرست تھا۔ وہ اچھا آدمی تھا۔ اس نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا کہا کہ دلاور کو میں خود سنبھالوں  گا۔ میں اس کی پڑھائی لکھائی کا خرچ اٹھاؤں گا۔ مجھے کوئی بیٹا نہیں ہے۔ ایک بیٹی ہے جو دلاور سے تین سال بعد میں پیدا ہوئی تھی بڑا ہونے کے بعد میں اپنی بیٹی اس کو بیاہ دوں  گا اور وہ میرے گھر ہی میں  رہ جائے گا۔

میں اپنے آنسو پی کر رہ گیا۔ لیکن اس کے بعد میں دلاور کو پیار کرنے لگا تھا۔ دلاور کو گلاب کا پھول پسند تھا۔ اس لیے جب وہ صبح اسکول آتا تو میں اسے گلاب کا پھول تھما دیتا۔ گلاب دیکھ کر اس کا چہرہ بھی گلاب کی طرح کھل اٹھتا۔ جب میں اسے گلاب دیتا تو وہ اسے سونگھ کر ایک لمبی سانس لیتا اور پھر قمیص کی اوپر کی جیب میں سجا لیتا۔

میں نے پرنسپل صاحبہ سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ دلاور کے لیے میں  پھول بازار سے خرید کر لاتا ہوں۔ اسکول کی کیاریوں  سے نہیں توڑتا۔ کیوں  کہ اسکول میں اپنے خلاف کان بھرنے والوں  کو بھی میں خوب جانتا تھا۔ اس لیے یہ ضروری بھی تھا۔

۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کی صبح اسکول آتے وقت ایک پولس والے نے مجھے پکڑ لیا۔ میرے پاس لائسنس تو تھا لیکن میں گھر بھول آیا تھا۔ پولیس والے نے میری باتوں  پر یقین نہیں  کیا اور میری اسکوٹر ضبط کر لی۔ میں آٹو پکڑ کر گھر گیا اور لائسنس لا کر پولیس والے کو دکھایا تب اس نے میری اسکوٹر واپس کی۔ اس بھاگ دوڑ میں ایک گھنٹہ تاخیر ہو گئی۔ میں ایک گھنٹے بعد اسکول پہنچا تو تمام بچے اپنے اپنے کلاس روم میں  جا چکے تھے۔ گلاب کا پھول میرے ہاتھ ہی میں  رہ گیا۔ میں نے سوچادوپہر کی تعطیل میں دلاور کو پھول دیدوں گا۔ لیکن اسی وقت اسکول پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔ میں  چونکہ پیچھے والے باغ میں پودوں  کو پانی دے رہا تھا اس لیے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا ہوا اور کس نے حملہ کیا۔ چاروں  طرف سے گولیوں  کی تڑاتڑ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کلاس روم سے بچوں  کی چیخ و پکار کا شور بلند ہو رہا تھا۔ ایک گولی کلاس روم کے پیچھے والی کھڑکی سے سنسناتی ہوئی آئی اور میرے سر سے گزر گئی۔ میں فوراً دبک کر بیٹھ گیا۔ ایک گھنٹہ اسکول کے کمروں  میں  موت ناچتی رہی۔ معصوم بچوں  کی لاشیں ایک دوسرے پر گرتی رہیں۔ بستے، کتابیں اور کاپیاں خون میں تیرتی رہیں۔ ایک گھنٹے بعد آرمی کے جوان ہتھیاروں سے لیس اسکول میں داخل ہوئے، چھ سات گھنٹے تک آپریشن چلتا رہا اور آخر کار جوانوں  نے سارے حملہ آوروں کو مار گرایا تب کہیں گولیوں  کی آوازیں بند ہوئیں۔ اسی دوران اسکول کا صحن بچوں کے والدین اور وارثوں  سے بھر چکا تھا۔ اس بھیڑ میں مجھے دلاور کا ماما بھی نظر آیا۔ اس کی آنکھوں  میں آنسو دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔ جب میں اس کے قریب گیا تو اس نے ایک چیخ ماری اور کہنے لگا۔

’’رحیم دین! اب دلاور اس دنیا میں نہیں  رہا۔ میں اس کے کلاس روم میں اس کی لاش دیکھ آیا ہوں۔ کس بے دردی سے مارا میرے دلاور کو۔ اس معصوم جان کے سینے اور پیروں  پر گولیاں ماری گئیں ہیں۔ میں نے کبھی دلاور کے پیر میں  کانٹا نہیں چبھنے دیا۔ میں  نے اس کے بدن پر کبھی خراش نہیں  لگنے دی اور آج ظالموں  نے اسے گولیوں  سے چھلنی کر دیا۔ ‘‘

پھر وہ میرے گلے لگ کر بے ہوش ہو گیا۔

آج۱۷ تاریخ ہے۔ دوپہر کی نماز کے بعد معصوم دلاور کو کفن میں لپٹا کر قبر میں اتار دیا گیا۔ پشاور کا یہ سب سے بڑا قبرستان ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر اور بھی لاشیں قبروں میں اتاری جا رہی ہیں۔ بے شمار آنکھیں اشکبار ہیں۔ ہر طرف ایک روح فرسامنظر ہے۔ ہم دلاور کو مٹی دے رہے ہیں اور مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے آج پشاور کے سارے گلابوں کو اس قبرستان میں دفنا دیا۔ سب لوگ چلے گئے۔ میں تنہا کھڑا رہ گیا۔ کچھ دیر بعد میں دلاور کی قبر کی داہنی طرف بیٹھ گیا اور اپنی جیب سے گلاب کا ایک پھول نکال کر دلاور کی قبر پر رکھ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

وقت کی دیوار پر لکھی ایک تحریر

دی اینڈ(ختم ہوا)

 

 

رجّو یعنی رمضان تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔ اس کی کلاس میں اس کی انگریزی سب سے اچھی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے والد جان محمد پاکستان آرمی میں ملازم تھے۔ اس لیے وہ گھر میں آنے کے بعد بچوں  کے ساتھ بھی انگریزی ہی میں گفتگو کرتے تھے۔ حالانکہ ان کی بیگم ان سے اکثر کہا کرتی کہ گھر میں اردو میں  گفتگو کرنے کی عادت ڈالو۔ اردو ہماری اپنی زبان ہے۔ اس کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے۔ ورنہ بچے اردو بھول جائیں گے۔

جان محمد مونچھوں  کو تاؤ دیتے ہوئے کہتے۔ ’’ ہم لکھنؤ میں تھوڑے ہیں۔ ہم تو پشاور میں ہیں جہاں پشتو اور پنجابی بولی جاتی ہے۔ ‘‘

’’لیکن ہمارے آباء و اجداد کا تعلق تو لکھنؤ ہی سے رہا ہے۔ وہ جب پاکستان بننے کے بعد یہاں آئے تھے تو لکھنؤ کی تہذیب اپنے ساتھ لائے تھے ہماری رگوں  میں وہی خون ہے۔ ‘‘

بھئی ہم میدانِ جنگ میں  دشمن سے مقابلہ کر سکتے ہیں  لیکن آپ سے مقابلہ کرنے میں ہمیشہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ آپ گھر میں بچوں  کے ساتھ اُردو ضرور بولا کریں۔ ہمیں  کیا اعتراض ہے۔ بس ہم پر رحم کیا کریں۔ ہم فوجی آدمی ہیں اور فوج کے افسروں  میں انگریزی کے علاوہ دوسری زبان بولنا عیب سمجھا جاتا ہے۔

جان محمد اپنے اکلوتے بیٹے رجو سے ہمیشہ انگریزی ہی میں بات کرتے تھے اور جب بھی انھیں فرصت ملتی وہ رجو کی انگریزی کی لکھائی سنوارنے کی پوری کوشش کرتے۔ رجو بھی والد کی صحبت سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا تھا۔ کلاس میں بھی وہ ٹیچر کے سامنے اور اپنے ساتھی بچوں  کے ساتھ فر فر انگریزی بولتا رہتا تھا۔

گھر میں وہ صرف اپنی بڑی بہن کے ساتھ اردو بولنے کی کوشش کرتا تھا اس کی بہن افشاں اردو اسکول میں پڑھ رہی تھی اس لیے وہ گھر میں بھائی اور والدین کے ساتھ اردو میں  گفتگو کرتی تھی۔

۱۵؍دسمبر۲۰۱۴ء کو جب رجو نے ہوم ورک کیا تو اپنی انگریزی کی کاپی کا سبق پورا کر کے اس کے نیچے ’’دی اینڈ‘‘ لکھ دیا۔ اور دوسرے دن ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو جب وہ کلاس روم میں ساتھی بچوں کے ساتھ پڑھائی میں مصروف تھا۔ ٹیچر نے اس کی انگریزی کی کاپی جانچ کر اسے واپس دیتے ہوئے پوچھا تھا۔

تم نے سبق کے اخیر میں ’’دی اینڈ‘‘ کیوں  لکھا۔ اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔

’’بس اپنے آپ ہی لکھا گیا۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔ ایسا لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے لکھوا لیا ہو۔ ‘‘

’’دی اینڈ‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ختم ہو جانا۔ ‘‘

ہاں مجھے معلوم ہے۔ رات میں  گھر میں بات کرتے کرتے ڈیڈی کہتے ہیں۔ دی اینڈ یعنی بات ختم کرو۔ رات ہو گئی سو جاؤ۔ اور پھر ہم سو جاتے ہیں۔

اسی دوران کلاس روم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ ٹیچر نے چیخ کر بچوں   سے کہا۔ ’’بھاگو! بھاگ جاؤ!‘‘

لیکن بھاگنے کے لیے راستہ کہاں  تھا۔ دوسرے بچوں  کے ساتھ رجّو جب جان بچانے کے لیے بھاگنے لگا تو اس نے بستہ وہیں چھوڑ دیا اور انگریزی والی کاپی جو ٹیچر نے جانچ کر اسے واپس کی تھی۔ بھاگتے وقت وہ اس کے ہاتھ میں تھی۔ اتنے میں  ایک گولی اس کی کمر میں لگی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اور اس نے دم توڑ دیا۔ اور بھی کئی معصوم بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ کمرے کے فرش پر چھوٹی چھوٹی لاشوں کی چادر بچھ گئی تھی۔ ایک بچہ رجّو کے مردہ جسم پر گر کر دم توڑ چکا تھا۔ ٹیچر پہلے ہی کام آ چکی تھی۔ کچھ دیر بعد جب دہشت گرد معصوم بچو ں کو موت کی نیند سلا کر فرار ہو گئے تو فوج کے جوانوں  نے اسکول کو چاروں  طرف سے گھیر لیا۔ لیکن دہشت گرد فرار ہونے کے لیے نہیں آئے تھے۔ وہ آرمی کے نوجوانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ گھنٹوں کی مسلسل مقابلہ آرائی کے بعد آرمی کے جوانوں نے دہشت گردوں  کو مار گرایا لیکن اس دوران کافی نقصان ہو چکا تھا۔

اسی دوران بہت سے بچوں کے والدین خبر ملتے ہی اسکول میں جمع ہو چکے تھے۔ رجو کے والد جان محمد بھی اپنی بیگم کے ساتھ آ چکے تھے۔ جب انھوں  نے رجو کے کلاس روم میں جھانک کر دیکھا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ کلاس روم کے فرش پر معصوم بچوں  کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ دوسرے لوگ بھی اپنے اپنے بچوں  کی تلاش میں کلاس روم میں آ گئے تھے اور اوندھے منہ پڑے ہوئے بچوں  کی لاشیں سیدھی کر کے دیکھ رہے تھے۔ ہر ایک کو اپنے بچے کی فکر تھی جان محمد نے ساری لاشوں  کو دیکھ لیا تھا یہاں رجو انھیں کہیں نظر نہیں آیا۔ پھر انہوں نے ان لاشوں  کی طرف قدم بڑھائے جو ایک دوسرے پر پڑی ہوئی تھیں۔ جان محمد نے کانپتے ہاتھوں سے اوپر پڑی ہوئی لاش کو ہٹایا اس کے بعد نیچے والی لاش کو سیدھا کیا تو ان کے ہوش اُڑ گئے۔ یہ ان کے اکلوتے بیٹے رمضان کی لاش تھی۔ رمضان کے ہاتھ میں انگریزی کے ہوم ورک کی کاپی تھی جس کے سبق کی آخری لائن کے بعد لکھا ہوا تھا۔ دی اینڈ۔

٭٭٭

 

 

 

کلاس روم نمبر نو۹

 

 

ہاں بچّو! میں کلاس نمبر۹ ہوں۔ میری پیدائش بھی اسی سال کی ہے جس سال آرمی پبلک اسکول پشاور بن کر تیار ہوا تھا۔ میرا کام یہ ہے کہ میں پہلی کلاس سے بچوں  کو لیتی تھی اور ایک سال اپنی آغوش میں ان کی پرورش کر کے ان کو اپنے سے آگے والی کلاس کو سونپ دیتی تھی۔ اور دوسرے بچّوں کو اپنی آغوش میں لے لیا کرتی تھی۔ اس طرح بے شمار بچوں نے میری آغوش میں اپنی اپنی زندگی کا بہترین ایک سال گزارا۔ میرے درو دیوار، میری کھڑکیاں اور دروازے میری میز اور کرسیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ میں نے کس شفقت اور ممتائی جذبے سے لبریز ہو کر ان بچوں  کو سنبھالا ہے۔ ہر موسم سے ان کی حفاظت کی ہے۔ سردی، گرمی اور برسات کے موسموں میں ان کو اپنی آغوش میں چھپائے رکھا۔ یہ بچے کوئی معصوم بچے نہیں تھے سب کی عمریں تیرا چودہ سال کے آس پاس تھیں۔ جاتا بچپن اور آتی نوجوانی۔ درمیان میں  جھولتے یہ لڑکے ہاں میں انہیں لڑکے ہی کہوں  گی۔ لڑکے اور لڑکیاں سب کے سب ہم عمر۔ ہم خیال اور پڑھ لکھ کر ایک اچھا شہری بننے کی تمنا ہر ایک کے دل میں تھی۔ اتنے برسوں  میں کتنے ہی لڑکوں نے ترقی کر لی۔ کوئی انجینئر بنا، کوئی فوج اور آرمی میں بڑے عہدے پر فائز ہوا۔ کچھ لڑکے ٹیچر بن کر میرے پاس میرے لڑکے اور لڑکیوں  کو پڑھانے کے لیے آئے۔ تب وہ اپنے طالب علمی کے دنوں  کو بھی یاد کرتے تھے۔ اور پڑھاتے وقت فخر سے لڑکوں اور لڑکیوں  کو بتاتے تھے کہ ہم بھی کسی زمانے میں ان بینچوں پر بیٹھ کرسبق یاد کر چکے ہیں جہاں آج تم بیٹھے ہو۔ میں نے کتنی نسلوں  کی آبیاری کی ہے۔ خود زمانے کے سرد و گرم سہے لیکن اپنے لڑکوں  اور لڑکیوں  کو کبھی تکلیف نہیں ہونے دی۔

لیکن آج ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کی صبح میری زندگی کی سب سے بھیانک اور کالی صبح تھی سورج چمک رہا تھا   لیکن یہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اچانک شدت پسندوں  نے ہمارے اسکول پر قاتلانہ حملہ کر دیا تھا۔ مجھ پر بھی حملہ ہوا۔ کچھ مسلمان قسم کے جوان آرمی کے لباس میں گن مشینوں کے ساتھ میرے بچوں  کو نشانہ بنانے لگے۔ چند منٹوں  میں سارے کہ سارے لڑکے اور لڑکیوں  کو بھون دیا۔ جو ٹیچر بلیک بورڈ پر سبق لکھ کر بچوں  کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اس کے سر اور سینے میں گولیاں اتار دی گئیں۔ وہ اپنی جگہ پر ہی ڈھیر ہو گیا۔

میں بے بسی کی آنکھوں سے سارا منظر دیکھتی رہی۔ میں کچھ نہ کر سکی۔ میرے لڑکے اور لڑکیوں  کو ختم کر دیا گیا۔ میں  کسی کو بھی بچا نہ سکی۔ میں غیرت اور احساس ندامت سے اپنی دیواروں میں سمٹتی جا رہی تھی۔ اے خدا! میں کل حشر کے دن کیا منہ دکھاؤں گی۔ میں اپنے آپ کو کیسے بے گناہ ثابت کرو ں گی۔ گر تو مجھے اختیار دیتا تو میں ان دہشت گردوں  کے گلے دبا دیتی۔ ایک ایک کو موت کے گھٹ اتار دیتی۔ لیکن یہ سب مجھ سے ممکن نہ ہو سکا۔ میں  دل مسوس کر رہ گئی۔

میرا فرش خون میں نہا گیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں  کی کتابیں، کاپیاں۔ ان کے بستے، گملے، قلم سب تتر بتر ہو گیا۔ سب چیزیں خون میں ڈوب گئیں۔ کئی بچوں  کے جسم سے تازہ خون کے فوارے پھوٹ کر دیواروں  پر پھیل گئے۔

دہشت گردوں  کے ظلم کی انتہا تو دیکھیے۔ میری دیواروں  کو بھی نہیں بخشا۔ گولیوں سے پلستر اکھاڑ دیا۔ کھڑکیوں  کے شیشے اور دروازوں کے کواڑوں کو بھی نہیں بخشا۔ دیواروں  پر لگی تصاویر میں صرف قائد اعظم کی تصویر محفوظ تھی۔ باقی ساری تصویریں ٹوٹ کر فرش پر بکھر گئیں اور ان کے شیشوں کے ٹکڑے خون میں ڈوب گئے۔

ہائے کیسی کربلا تھی۔ کیسے ظالم لوگ تھے۔ ذرا بھی رحم نہ کیا۔ کیسی کیسی اذیتوں سے ان لڑکوں، لڑکیوں کی ان کے ماں  باپ نے پرورش کی تھی۔ کیسے کیسے خوابوں  کے ساتھ ان کو تعلیم دلائی جا رہی تھی۔ ایک ڈاکٹر بننے والا تھا۔ ایک کے ماں باپ اسے فوجی لباس میں  دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک انجینئر بن کر اپنا اور اپنے گھر والوں کا مستقبل سنوار نے والا تھا۔ لیکن سب کو سفید کپڑا میسر آیا اور وہ تھا کفن۔ پورے ۲۷ بچے تھے۔۲۶ مارے گئے ایک اس لیے بچ گیا کہ وہ اسکول سے غیر حاضر رہا۔ اس کا نام داؤد ہے۔ داؤد کی تصویر دیکھو! کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ کیسا ناک نقشہ ہے۔ کیسی بڑی ناک ہے کیسی خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھیں ہیں۔ ایسے ہی سارے لڑکے اور لڑکیاں تھیں۔ سارے چراغ بجھا دیے۔ ہر طرف اندھیرا ہو گیا۔ میں خود اندھیرے میں ڈوب گئی۔ ہائے میں کیا کروں، کہاں  جاؤں ؟ کوئی مجھے راستہ سجھائے۔ کسی کا ایک بچہ گیا ہے کسی کے دو، میں ایسی ابھاگن ماں ہوں جس کے پورے ۲۶ لاڈلے چلے گئے۔ ۲۶ جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے۔

٭٭٭

 

 

 

امام کا اعلانِ جنگ

 

وہ پاکستان کی سب سے بڑی مسجد کے امام تھے۔ بہت ہی نیک اور صلح پسند طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے مذہبی عقائد کی جنگ سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ وہ مذہبی عقائد پر الجھنے والے لوگوں  کو بڑی حکمت سے سمجھا بجھا کر بھیج دیا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ سارے اچھے برے مسائل کے فرق کو بخوبی جانتے تھے لیکن فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ کیوں  کہ کسی ایک عقیدے کی طرف ہو جانے سے دوسرے عقیدے کے لوگ اُن سے ناراض ہو سکتے تھے اور وہ کسی کی ناراضگی اپنے سرنہیں لینا چاہتے تھے۔

امام صاحب کی عمر لگ بھگ چالیس سال کے لپیٹے میں تھی۔ بہت کم گو تھے۔ بس جمعہ کی نماز کے دن عربی میں  جمعہ کا خطبہ یہ کہہ کر پڑھتے کہ عربی میں خطبہ پڑھنا سنت ہے۔ سنت کے نام پر سارے عقیدے کے لوگ خاموش ہو کر سر جھکا دیتے اور امام تنازعے سے بچ جاتے۔ اس طرح ہر عقیدے کے لوگ ان کو چاہتے بھی تھے اور ہر طرح سے ان کی معاونت بھی کرتے تھے وہ ہر طرح سے ایک خوش حال امام تھے۔ قرآن بہت عمدہ انداز میں پڑھتے تھے۔ ان کی خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ اکثر لوگ اُن کی تلاوت سننے کے لیے دور دور سے نماز کے لیے آتے تھے۔

انھوں  نے دھیرے دھیرے امامت کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی موٹی تجارت کا کام بھی شروع کر رکھا تھا۔ دو تین دکانیں  کرائے پر اٹھا رکھی تھیں۔ گھر کے اخراجات مسجد سے پورے ہو جاتے تھے۔ ایک موٹر سائیکل بھی انھوں  نے خرید رکھی تھی۔ جہاں بھی جاتے اپنی گاڑی پر آسانی سے پہنچ جاتے۔ وہ ایک خوش حال زندگی جینے والے امام تھے۔ گھر میں  بچوں  کے پاس ٹی وی تھا کمپیوٹر تھا۔ مہنگے قسم کا موبائل ایک چاہنے والے نے دے دیا تھا۔

جب۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو صبح ساڑھے دس بجے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت پسندوں  نے جان لیوا حملہ کر کے ۱۴۱افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تو ان میں  ۱۳۲تعداد بچوں کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں  کی شہادت پر پورے پاکستان میں  دہشت پسندوں  کے خلاف احتجاج ہوا۔ ہر مسجد کے امام نے آواز بلند کی۔ اسے اسلام کے خلاف عمل قرار دیا اور دہشت پسندوں  کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی سفارش کی۔ لیکن بڑی مسجد کے امام خاموش رہے انھوں  نے اس حادثے پر اک لفظ تک نہیں  کہا۔ یہاں  تک کہ لوگوں  کے سوالوں کے جواب پر بھی وہ خاموش ہی رہے ان کی خاموشی کا لوگوں نے بہت برا مانا۔ دھیرے دھیرے لوگوں  کی رائے امام صاحب کے خلاف ہموار ہونے لگی۔ اور ان کے خلاف احتجاج کا نعرہ بلند ہونے لگا۔ لوگوں نے کہا یا تو دہشت پسندوں کے خلاف احتجاج کرو یا امامت سے ہٹ جاؤ۔

امام صاحب لوگوں  کے فیصلے کی بات سن کر سہم گئے۔ نہ وہ امامت چھوڑ سکتے تھے نہ دہشت گردو ں کے خلاف احتجاج کر سکتے تھے در اصل یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ دہشت گردوں  کی جاب سے امام کو خاموش رہنے کی دھمکی مل چکی ہے۔ امام کا تعلق چونکہ بڑی مسجد سے تھا اس لیے ان کی بات کی بڑی اہمیت تھی۔ ایک طرف امام کو اپنا مفاد عزیز تھا تو دوسری طرف دہشت گردوں  کی دھمکی موت کا خوف بن کر ان کے سر پر منڈلا رہی تھی اور وہ مشکل میں پھنس گئے تھے۔

عشا کی نماز ادا کر کے وہ گھر آئے۔ بیوی نے کھانے کے لیے کہا۔ لیکن انہوں  نے انکار کر دیا۔ بیوی نے پریشانی کی وجہ جاننی چاہی۔ لیکن امام صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور ٹی وی آن کر کے خبریں سننے لگے۔ پرنسپل طاہرہ قاضی کی زندگی کی جھلکیاں بتائی جا رہی تھیں۔ پھر اچانک پرنسپل پر دہشت گردانہ حملہ ہوا اور وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ اس کے بعد جب پرنسپل صاحبہ کا جنازہ اٹھا تو آدھا پشاور جنازے میں شامل تھا۔ ایک خاتون کے جنازے کا ایسا وقار اور ایسی شان دیکھ کر امام صاحب حیران رہ گئے۔ انہوں  نے اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھ کر جب پرنسپل طاہرہ قاضی کی زندگی اور موت کا جائزہ لیا تو انہیں  پرنسپل صاحبہ ایک شہید کے روپ میں نظر آئیں۔ ایک خاتون ہو کر انھوں نے کس جواں مردی سے ظالموں  کا مقابلہ کیا۔ امام کو حیرت ہوئی اور وہ بہت اداس ہو گئے۔

دوسرے دن جمعہ تھا۔ وہ غسل کر کے۔ عطر لگا کر اور آنکھوں  میں سرمہ سجا کر عمامہ سر پر باندھ کر وقت سے پہلے مسجد پہنچ گئے۔ عربی میں جمعہ کا خطبہ پڑھنے سے پہلے اردو میں  تقریر شروع کر دی۔

تقریر کیا تھی شعلہ بیانی تھی۔ لوگوں  نے ایسا جلال اور ایسا غصہ امام صاحب کی زبانی کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔

’’جو کچھ آرمی پبلک اسکول میں  ہوا وہ ایک وحشیانہ کھیل تھا۔ ‘‘

’’معصوم بچوں  کی زندگی پھول کی مانند ہوتی ہے۔ ان پھولوں  کو مسلنے والے انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’دہشت گرد زہریلے سانپوں  سے بھی زیادہ زہریلے ہیں حکومت کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں  ان سانپوں  کا سر کچل دے۔ ‘‘

ہم سب حکومت کے ساتھ ہیں، فوج کے ساتھ ہیں۔ فوج ہی منصوبہ بند طریقوں  سے دہشت کے اڈوں کو ختم کر سکتی ہے۔

ہم پر بچوں  کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ یہ بچے ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ یہ لوگ جو بچوں  کے اور کتابوں  کے دشمن ہیں۔ اسکول اور تعلیمی اداروں  سے ان کو شدید نفرت ہے یہ ہمارے ملک اور قوم کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت، فوج اور عوام سب مل کر ان کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ ‘‘

امام صاحب کے لہجے سے واقعی شعلے برس رہے تھے۔ گذشتہ دس سال میں  لوگوں  نے امام صاحب کا یہ روپ پہلی بار دیکھا۔ در اصل پرنسپل طاہرہ قاضی کی بہادری اور شہادت نے امام صاحب کے ایمانی جوش کو جگا دیا تھا اور وہ سچائی کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ دوسرے دن تمام اخبارات اور ٹی وی کی خبروں  میں امام صاحب کی جوشیلی تقریر کے ہی چرچے تھے تقریر کے جملے فوج کے بیرکوں  تک اور حکومت کے ایوانوں  تک پہنچ چکے تھے اور دہشت گردوں  کے خلاف حکومت کی کار روائی میں تیزی آ گئی تھی۔

جس رات خبر پھیلی اس کے دوسرے دن امام صاحب کے موبائل پر کسی نے انھیں دھمکی دی۔ ان کے خاندان کو بم سے اڑانے کی بات کہی۔ لیکن امام صاحب کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا۔ انھوں  نے بلند آواز میں ایک شعر پڑھا اور موبائل بند کر دیا۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ایک دعا یہ بھی

 

یہ کراچی کا چرچ ہے۔ اس چرچ کے پادری کا نام ڈی سوزا ہے۔ یہ ایک عمر رسیدہ شخص ہے۔ جو برسوں  سے اس چرچ میں عبادت کرانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اسے چرچ سے باہر کی دنیا سے زیادہ لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستان میں عیسائیوں کی کوئی بڑی تعداد نہیں ہے اس لیے وہ پاکستان کی سیاست پر بھی اثر انداز نہیں  ہوتے۔

ڈی سوزا ایساپادری ہے جو دنیا میں اکیلا ہے۔ خود اسے معلوم نہیں کہ وہ کون ہے اور کہاں  سے آیا ہے۔ جب اس کو ذرا سوجھ بوجھ پیدا ہوئی تو وہ ایک مشن اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اسی اسکول کے ہوسٹل میں  وہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ وہ تمام لڑکے اسی کی عمر کے تھے۔ ان میں  سے کوئی بھی نہیں  جانتا تھا کہ وہ کس خاندان سے ہیں اور ان کے ماں  باپ کون ہیں۔

ڈی سوزا بچپن ہی سے خاموش طبیعت کا مالک تھا۔ اس کے مزاج میں  سنجیدگی تھی اور اس کی نیک لوگوں  جیسی عادت تھی۔ اس لیے عیسائی دھرم کے مطابق اسے شروع ہی میں بتا دیا گیا تھا کہ وہ دنیا داری سے دور رہے۔ اسے عیسائی دھرم کی تبلیغ کا کام کرنا ہے۔ اس نے فیصلہ کرنے والوں  کے فیصلے پر سر جھکا دیا۔ اور پھر اسے ایک دن پادری بنا کر کراچی کے سب سے پرانے چرچ میں بھیج دیا گیا۔ یہاں عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اس کا احترام کرتے تھے۔ ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر قاتلوں نے حملہ کر کے معصوم بچوں  کو موت کی نیند سلا دیا تو وہ ٹی وی میں یہ خونی منظر دیکھ کر تڑپ اٹھا۔ پچھلے ساٹھ برسوں میں پاکستان پر بے شمار دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے لیکن پادری ڈی سوزا کے دل پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ عیسیٰ مسیح کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر دنیا کی شانتی کے لیے دعا کر لیتا اور اس کے بعد اپنے دن بھر کے کاموں  میں مصروف ہو جاتا لیکن ٹی وی کے پردے پر جب آج اس نے معصوم بچوں کا قتل عام دیکھا تو وہ تڑپ اٹھا۔ رات بھر اسے نیند نہ آئی۔ صبح اٹھنے کے ساتھ ہی اسنے چرچ میں مخصوص دعائیہ تقریب کا اعلان کر دیا۔

کچھ دیر بعد پورا چرچ بھر گیا۔ روزانہ عبادت کے وقت اتنے لوگ کبھی نہیں آئے۔ لیکن آج عیسائی عورتوں  ، مردوں  اور بچوں  کا تانتا بندھ گیا۔ سب نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔

ایک مشن اسکول کے بچے اسکول سے پیدل چل کر چرچ تک آئے تھے۔ ان کے ہاتھوں  میں پلے کارڈ تھے۔ جن پر اردو اور انگریزی میں جو نعرے لکھے تھے وہ اس طرح تھے۔

’’ہم سب ایک ہیں۔ ‘‘

’’ہم سب پاکستانی ہیں۔ ‘‘

’’ہم اپنے بھائیوں  کے ساتھ ہیں۔ ‘‘

’’ہم اسکولوں کو نہیں اجڑنے دیں گے۔ ‘‘

’’بچے ہمارے کل کی بنیاد ہیں۔ ‘‘

’’ہم اپنے دیش کی بنیاد کی حفاظت کریں گے۔ ‘‘

’’ہم بچے خدا کی امانت ہیں۔ ‘‘

’’ہم بچے جنت کے پھول ہیں۔ ‘‘

بچوں کا ولولہ اور جوش دیکھ کر پادری ڈی سوزا بہت خوش ہوا تھا۔ آج اسے محسوس ہوا کہ وہ پاکستانی ہے۔ پاکستان اس کا دیش ہے اور جو بچے اسکول میں شہید ہوئے تھے وہ اس کے اپنے بچے تھے۔ اُن عیسائی بچوں  کی صورت میں پادری کو ان بچوں کی صورت نظر آئی جو کل اسکول تو آئے مگر گھر واپس نہ جا سکے۔

ملٹری اسکول پر ہونے والا حملہ مشن اسکولوں  پر بھی ہو سکتا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی پادری کانپ گیا۔ اور اس کے دل سے دعاؤں  کے پھول جھڑنے لگے۔

’’یا خداوندا۔ ‘‘

’’اپنے بچوں  کی حفاظت کر۔ ‘‘

’’ہم سب تیرے بیٹے ہیں۔ ‘‘

’’یہ ملک ہمارا ہے۔ ‘‘

’’تو اس کو تباہی سے بچا لے۔ ‘‘

’’ہم سکون چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے بچے کتاب چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’تو قلم اور کتاب کے دشمنوں سے ہمیں بچائے رکھ۔ ‘‘

’’ہم تیری دھرتی پر سُکھ شانتی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

’’تو نیکی کے لیے سولی پر لٹکا دیا گیا۔ اس نیکی میں  ہمارا حصہ بھی رکھ۔ ‘‘

پادری کی دعا پر سارے حاضرین کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہنے لگا۔ اور آج زندگی میں پہلی بار پادری کی آنکھوں  میں بھی آنسو آئے۔ کچھ دیر بعد حاضرین کو یوں  لگا جیسے ان کی دعا قبول کر لی گئی ہو۔ سب نے سر اٹھا کر پادری کی طرف دیکھا۔ پادری کے دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اٹھے ہوئے تھے اور اس کی دونوں  آنکھوں  سے آنسوؤں کے دھارے بہہ رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

میں روہت شرما ہوں

 

’’میں روہت شرما ہوں۔ ‘‘

’’میں ہندو ہوں۔ ‘‘

’’میں ہندوستان میں  رہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں ہندی اسکول میں پڑھتا ہوں۔ ‘‘

’’گجرات میں بڑودہ میرا گاؤں  ہے۔ ‘‘

میرے پتاجی جوتشی ہیں، وہ ہاتھ دیکھ کر لوگوں  کی قسمت کا حال بتاتے ہیں۔

میری عمر دس سال ہے۔

آج۱۷؍دسمبر۲۰۱۴ء کا دن ہے۔ آج میں بہت دکھی ہوں۔ کل ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کے پشاور شہر کے ایک اسکول میں آتنک وادیوں نے حملہ کر کے بہت سے چھوٹے چھوٹے بچوں  کو مار دیا۔ اس سے مجھے بہت افسوس ہوا۔

میرے اسکول کے تمام ٹیچر ہندو ہیں۔ ہم تمام بچے بھی ہندو ہیں، لیکن تمام لوگ پشاور کے بچوں  کی موت پر بہت دکھی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے ہمارے جیسے جن چھوٹے چھوٹے بچوں کو مار دیا گیا وہ ہمارے بھائی تھے۔

ہم نے اسکول کی طرف سے ایک ریلی نکالی ہے۔ ہر بچے کے ہاتھ میں پلے کارڈ ہے۔ ان پر ہندی میں  لکھا ہے۔

’’بچوں کے قتل عام سے ہم بچے دکھی ہیں۔ ‘‘

’’ہمیں مت مارو! ہمیں پڑھنے دو۔ ‘‘

’’معصوموں کو شردھانجلی۔ ‘‘

’’ہم جینا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ہم پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’ہم آتنک وادیوں  سے نفرت کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ہماری پوتر دھرتی کو آتنک وادیوں  سے پاک کر دو۔ ‘‘

’’پھر کسی اسکول پر ایسا حملہ نہ ہو۔ ‘‘

’’دنیا کا ہر بچہ ہمارے جیسا ہے۔ ‘‘

’’دنیا کا ہر بچہ ہمارا بھائی ہے۔ ‘‘

’’دنیا کا ہر بچہ جینے کا ادھیکار رکھتا ہے۔ ‘‘

’’پڑھائی کا ادھیکار رکھتا ہے۔ ‘‘

’’ہماری کتابوں  اور کاپیوں  سے نفرت مت کرو۔ ‘‘

ہماری ریلی بڑودہ شہر کی گلیوں  سے گزر رہی ہے۔ سارے گجراتی رک رک کر ہمارے پلے کارڈ پڑھ رہے ہیں۔

سب کے دلوں میں مرنے والے معصوم بچوں  کے لیے دکھ ہے۔

سب کے دلوں  میں آتنک وادیوں کے لیے نفرت ہے۔

کچھ گجراتی بوڑھی عورتوں  کی آنکھوں  میں آنسو ہیں۔

آج سب لوگ بھول گئے کہ ہم ہندوستانی ہیں۔ وہ پاکستانی ہیں، آج سب انسان ہیں انسانوں  کے معصوم بچے ہیں۔ بچوں  کا دھرم صرف بچپن ہوتا ہے۔

ریلی میں  روہت شرما سب سے آگے ہے۔ بازار میں  ریلی گزرتے وقت ایک لمبی داڑھی اور ٹوپی والے انکل نے میرے گلے میں پھولوں  کا ہار ڈال دیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بھی دکھی تھے۔

دو دن پہلے میرے پتاجی نے میرا ہاتھ دیکھ کر بتایا تھا کہ تجھے کوئی بڑا انعام ملنے والا ہے۔

آج مجھے یہ بڑا انعام مل گیا کہ میں  ریلی میں سب سے پہلے چل رہا ہوں  اور ایک مسلمان انکل نے میرے گلے میں  پھولوں  کی مالا پہنائی ہے۔

ہم پریم کا جھنڈا لے کر نکلے ہیں۔ ہمیں آتنک وادیوں کو بتانا ہے کہ دنیا کا کوئی بچہ اکیلا نہیں ہے۔ ہم سب مل کر آتنک واد کا مقابلہ کریں  گے۔ آتنک وادیوں کے خلاف میرا دیش ہندوستان سب سے آگے ہے۔ ہم ہندوستانی بچے بھی سب سے آگے ہیں۔

’’میرا نام روہت شرما ہے۔ ‘‘

’’میں ہندو ہوں۔ ‘‘

’’میں ہندوستان میں  رہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں ہندی اسکول میں پڑھتا ہوں۔ ‘‘

’’گجرات میں بڑودہ میرا گاؤں ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

میرا نام گُربچن سنگھ ہے

 

’’میرا نام گربچن سنگھ ہے۔ ‘‘

’’میرے والد کا نام ہر دیال سنگھ ہے۔ ‘‘

’’میں گرو نانک جی کا ماننے والا ہوں۔ ‘‘

’’میرے والد پنجاب کے ایک شہر میں کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے پاس بہت سی گائے اور بھینس ہیں۔ ‘‘

’’گھر میں دودھ، دہی اور مٹھّے کا کاروبار بھی ہے۔ ‘‘

’’ہم لوگ گھرمیں پنجابی بولتے ہیں۔ ‘‘

’’کسی زمانے میں میرے داداجی اردو بولتے، لکھتے اور پڑھتے تھے۔ ‘‘

’’میرے والد بھی تھوڑی بہت اردو پڑھ لیتے ہیں۔ ‘‘

’’میرے والد کے دل میں  پاکستان کا بڑا درد ہے، کہتے ہیں کہ لاہور میں آج بھی ان کے پرکھوں کی حویلی موجود ہے۔ جس میں  کوئی مسلمان کا خاندان آباد ہے۔ ‘‘

’’میری عمر یہی کوئی۱۲؍سال کی ہے۔ ‘‘

’’میں گرو نانک کالونی میں  رہتا ہوں۔ ‘‘

’’مہاراجہ رنجیت سنگھ اسکول میں پڑھتا ہوں۔ ‘‘

’’ہمارے اسکول میں  کوئی مسلمان بچہ نہیں ہے۔ ‘‘

’’ہماری بستی میں بھی کوئی مسلمان نہیں ہے۔ ‘‘

’’ہماری بستی سے بہت دور ایک چھوٹی پرانی مسجد ہے۔ وہاں  کوئی نماز پڑھنے والا نہیں ہے۔ ‘‘

’’ہمارے کھیت میں جانے کا راستہ اسی مسجد کے سامنے سے ہے۔ ‘‘

’’ایک دن کچھ لوگوں  نے اس مسجد کو توڑنے کی کوشش کی تو میرے والد نے ان کو روک دیا تھا۔ میرے والد جب مسجد کے راستے سے گزرتے ہیں  تو ایک نظر مسجد پر ضرور ڈالتے ہیں۔ معلوم نہیں وہ مسجد کو دیکھ کر کیا سوچتے ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے گھر میں اردو کا اخبار ہندسماچار آتا ہے۔ میرے والد اسے بہت کم پڑھتے ہیں لیکن اخبار دیکھتے ضرور ہیں۔ ‘‘

کل رات یعنی۱۶؍دسمبرکوہمارےگاؤں میں بجلی نہیں تھی تو ہم لوگ ٹی وی پر رات کی خبریں نہیں سن سکے تھے، صبح جب پنجابی اخبار کے ساتھ اردو کا اخبار آیا تو میرے والد نے میری ماں کو آواز دی۔

’’ارے کلدیپ کور سنتی ہو۔ ‘‘

’’کیا ہوا جی! کیا اخبار آ گیا۔ ‘‘

’’ہاں اخبار تو آیا ہے لیکن خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ ‘‘

’’کیا اخبار لانے والے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ‘‘

’’نہیں جی! پشاور میں بڑا ہنگامہ پڑ گیا۔ ‘‘

’’تو پڑنے دو! ہمارا کیا بگڑے گا۔ پاکستان ہمارا کون سا خیال رکھتا ہے جو ہم پاکستان کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’نہ سہی لیکن جو پشاور میں  ہوا وہ بہت برا ہوا۔ تم عورت ہو۔ تین بچوں  کی ماں ہو، سنو گی تو تمہارا دل پھٹ جائے گا۔ ‘‘

’’ایسا کیا ہوا جی! میں بھی تو سنوں۔ ‘‘

’’پشاور کے اسکول میں آتنگ وادیوں  نے حملہ کر دیا۔ ‘‘

’’وائے گرو! یہ کیا ہوا۔ ‘‘

میری ماں  میرے والد کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ وہ بہت فکرمند لگ رہی تھی۔ والد نے ماں کو اخبار دکھاتے ہوئے کہا۔

’’یہ دیکھو! معصوم بچوں  کو کس بے دردی سے مارا گیا ہے۔ پورا اسکول قتل خانہ بنا دیا۔ کسی کو رحم نہ آیا۔ یہ تو ان بچوں  کے کھیلنے کھانے کے دن تھے۔ ان معصوم بچوں  کو مار کر ان ظالموں  کو کیا ملا۔ ‘‘

’’جی! یہ تو سراسرغلط ہے جی ! بچے ہندوستان کے ہوں یا پاکستان کے۔ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘

ماں بھی والد صاحب کی ہاں  میں  ہاں  ملانے لگی۔ میں نے ان سے اجازت لے کر سائیکل اٹھائی اور اسکول کی طرف چل پڑا۔

میں ذرا لیٹ پہنچا۔ اسکول میں پرارتھنا شروع ہو چکی تھی۔ میں سائیکل ایک طرف لگا کر آخری لائن میں کھڑا ہو گیا۔

لاؤڈ اسپیکر پر اناؤنس ہوا۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں آتنگ وادیوں کے حملے میں جو معصوم بچے شہید ہوئے۔ ان کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے۔ گراونڈ میں موجود تمام بچوں، ٹیچروں اور اسٹاف کے لوگوں  نے سرجھکا کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ہم سارے بچوں  نے لال رنگ کی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں اور ساری لڑکیوں کے سروں  پر سفید کپڑے کے رو مال بندھے تھے۔

’’سرجھکا تو میری آنکھوں  میں آنسو بھر آئے۔ مجھے میرے والد کا خیال آ گیا جو ہمیشہ پاکستان کو بر ابھلا کہتے آئے ہیں۔ آج وہ بہت دکھی تھے۔ ماں  کو بھی انھوں نے اپنے دکھ میں شریک کر لیا تھا۔ یہ کیسا رشتہ تھا میں سمجھ نہ سکا۔ ہم سرحدوں  کے نام پر لڑتے ہیں۔ لیکن آج پڑوسی ملک کے معصوم بچوں  کی موت نے ساری دیوار توڑ دی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پشاور ہمارے پڑوس میں ہو۔ ہمارے پنجاب کاہی ایک حصہ ہو۔

اگر بچے چاہیں  تو دنیاسے ہر نفرت مٹا سکتے ہیں۔

اس کے بعد سارے بچے سرجھکائے اپنے اپنے کلاس روم کی جانب چلے گئے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہ گیا۔ پرارتھنا پڑھانے والے ٹیچر نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مجھے کلاس روم کی جانب چلے جانے کا اشارہ کیا۔ جاتے جاتے مجھے یاد آیا کہ

’’میرا نام گربچن سنگھ ہے۔ ‘‘

’’میرے والد کا نام ہردیال سنگھ ہے۔ ‘‘

’’میں گرو نانک جی کا ماننے والا ہوں۔ جو بابا فرید کے عاشق تھے۔ اس کا مطلب ہے یہ ساری دنیا ایک ہے۔ سارے انسان ایک ہیں۔ سارے بچے ایک ہیں۔ کوئی رشتہ پرایا نہیں۔ ہم تمام بچے ایک زنجیر بنا کر ایک دن ساری دنیاسے آتنک واد مٹانے کی کوشش کریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سانحہ پشاور، ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء

 

بچوں کے ایک اسکول پر دہشت پسندوں کا حملہ ایک ایسا درد ناک واقعہ ہے، ایسا سانحہ ہے جس نے پوری انسانیت کو غم زدہ کر دیا۔ آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں اور پوری دنیا میں اس وحشیانہ حملے کی برائی اور مذمّت کی گئی۔ اسے غیر انسانی اور وحشیوں کا سیاہ کالا فعل اور ظلم و قتل و غارت گری کہا گیا۔ اس حادثے میں  ۱۳۲ معصوم اور بےگناہ بچے شہید ہوئے۔ ان کے علاوہ پرنسپل سمیت نو بڑی عمر کے استاد وغیرہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ذرا اس چھوٹی سی بچی کا سو چو جو پہلے روز اسکول میں اپنا نام لکھوانے گئی تھی۔ وہ بچہ بھی جو لیٹ نہ ہونے کے خیال سے گھر سے بغیر ناشتہ کیے چلا گیا تھا۔ ان ننھے بچوں  کے دلوں  میں ابھی ابھی لکھنے پڑھنے کی محبت جاگی تھی۔ وہ بھی ایک کہانی بن گئے۔

اس حادثے نے سگے ماں  باپ اور بہن بھائیوں کے کلیجے پھاڑ دیے۔ خون کے آنسو رلائے۔ پوری دنیا میں، مذہب یا قوم کے دائرے سے نکل کر ہر کسی نے درد اور پیڑ محسوس کی اور یوں  سوگ منایا جیسے ان کے اپنے گھر میں ماتم ہوا ہے۔ رہتی دنیا تک اس کالے دن کو یاد کر کے درندہ صفت حملہ کرنے والوں  پر لعنت بھیجی جائے گی۔

ہمارے جانے مانے شاعر اور ادیب صوفی صفت نذیر فتحپوری صاحب کو یہ اچھا سا خیال آیا کہ وہ بچوں  کی دنیا اور اسکول جانے والے بچوں  کے دلوں  میں جھانک کر پتہ چلائیں کہ بچے اس درد ناک حادثے کے بارے میں کیا سوچتے اور کیا جذبات رکھتے ہیں۔ انہوں  نے بڑی اچھی کہانیاں  لکھی ہیں یہ ایک مشکل کام تھا مگر نذیر بھائی نے بڑے دکھ بھرے دل سے ایسی کہانیاں لکھیں ہیں  جو ہر عمر کے پڑھنے والے کو تڑپا دیتی ہیں۔ ان کہانیوں  میں انسانیت پرستی کا سبق ہے۔

مجھے تین کہانیاں  بہت پسند آئیں ہیں۔ انصاف تو کہتا ہے نذیر فتح پوری صاحب کی ہر کہانی کی جی بھر کر تعریف کی جائے کہ سبھی بہت اچھی ہیں اور پراثر ہیں مگر مجھے تین کہانیاں بہت اچھی لگی ہیں۔

’’میں کتاب ہوں ‘‘

’’میں روہت شرما ہوں ‘‘

’’میرا نام گربچن سنگھ ہے ‘‘

روہت اور گربچن سنگھ کے ناموں  سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ہندو اور سکھ بچے ہیں۔ ہندوستانی ہیں  مگر پاکستان کے ایک شہر پشاور میں اسکول پر دہشت پسندوں کے حملے نے ان کو وہ سوچ دی اور انہوں  نے وہ کچھ محسوس کیا کہ پوری دنیا ان کی مثال پکڑے۔ انہوں  نے پوری دنیا کے بچوں  کو ایک قطار میں برابر برابر کھڑا کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ پڑھ لکھ کر اچھے بچے دنیا میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے کھیل کود اور کھانا پینا چھوڑنا پڑے اس وقت بھی اسکول جاتے ہیں تاکہ کچھ سیکھیں اور ملک و قوم بلکہ انسانیت کی خدمت کریں۔

تیسری میری پسندیدہ کہانی ہے ’’میں کتاب ہوں ‘‘

کتاب بولتی نہیں  مگر کتاب ہمیں  ہماری زبان میں اچھی باتیں سکھاتی ہے۔ وہ سوچ اور شعور دیتی ہے، اچھے اور برے میں، دوست اور دشمن میں، روشنی اور اندھیرے میں انسانیت اور وحشی پن میں  فرق کرنا سکھاتی ہے۔

جھوٹ نہ بولو، مار دھاڑ نہ کرو۔ کسی کی جان نہ لو۔ اپنوں اور غیروں سبھوں کی سیوا اور خدمت کرو۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے نذیر بھائی بچوں  کے احساسات آسان زبان میں قلمبند کر سکے ہیں۔ مجھے امید ہے جس مقصد سے یہ کتاب لکھی گئی ہے وہ پورا ہو گا اور بچے بڑے سب اس سے نصیحت پکڑیں گے اور سبق سیکھیں گے۔

 

ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ، بریڈ فورڈ، برطانیہ

 

 

 

٭٭

 

نذیر فتح پوری کہنہ مشق قلم کار ہیں شاعری ہو یا نثر نگاری، نذیر فتح پوری ایک پُر گو تخلیق کار دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۶؍دسمبر۲۰۱۴ء کو پشاور، پاکستان کے ایک اسکول میں طالبان دہشت گردوں کا ہولناک حملہ ہوا تو دنیا بھر میں اس انسانیت سوز وحشیانہ کاروائی کی ہولناکی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اس سانحہ کی کوریج کی اور طالبان دہشت گردوں  کی پُر زور مذمت بھی کی۔

انڈیا اور پاکستان کے تعلقات ایک طویل عرصہ سے لاگ اور لگاؤ کے درمیان جھول رہے ہیں۔ تاہم ان دِنوں میں دونوں طرف تناؤ میں شدت آئی ہوئی تھی تناؤ کے اس عالم میں بھی سانحۂ پشاور کے بارے میں انڈین میڈیا نے اپنے دکھ کا برملا اظہار کیا۔ ہندوستانی معاشرہ کے ہر طبقہ نے اپنے رنج و غم اور ہمدردی کا اظہار کیا۔

نذیر فتح پوری چونکہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب ہیں، اس لیے انہوں  نے یک ہندوستانی ادیب ہونے کے ناطے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی کاوش کی ہے۔ اس مختصر سے مجموعہ میں انہوں نے چند کہانیوں کو واقعات کی صورت میں سانحہ پشاور کے بارے میں اپنا دکھ بیان کرنے کی مخلصانہ کاوش کی ہے۔ اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک حد تک ہندوستان کے مختلف سماجی گروہوں  کے دکھ کی ترجمانی بھی کی ہے۔ ان تمام کہانیوں کے لیے بنیادی مواد سانحہ پشاور کی خبروں سے لیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہانیاں خبروں کے تناظر میں بھی اور ہنگامی رد عمل کیصورت میں بھی مثبت صحافیانہ اقدار کی ترجمانی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ادب و صحافت کے حوالے سے نذیر فتح پوری کی اس مخلصانہ کاوش کو سراہا جائے گا اور پشاور اسکول میں معصوم بچوں  کے ساتھ ہونے والی طالبان دہشت گردوں  کی بربریت کی ہر سطح پر مذمت کی جاتی رہے گی۔ یہی نذیر فتح پوری کی اس کاوش کی کامیابی ہو گی۔

 

حیدر قریشی، جرمنی

 

 

 

٭٭

 

 

نذیر فتح پوری کا شمار عہدِ حاضر کے معروف ادبا و شعرا میں ہوتا ہے۔ موجودہ عہد میں نذیر فتح پوری جیسے قلم کار خال خال ہی ملیں گے۔ آپ نے ادب کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی مختلف اصناف کی تحاریرسے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جا تا ہے کہ وہ کس صنف میں زیادہ کامیاب ہیں اور کس میں کم۔ ویسے بنیادی طور پر نذیر فتح پوری شاعر اور صحافی ہیں۔

ادبِ اطفال پر ہمارے موجودہ ادبا و شعرا نے کم توجہ دی ہے۔ نذیر فتح پوری اس میدان میں بھی پیچھے نہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی خاصا لکھا ہے۔ پشاور کے ملٹری اسکول پر دہشت گردانہ حملے پر پوری انسانیت کراہ اُٹھی ہے۔ نذیر فتح پوری نے اس واقعے پر بچوں کے لئے ایک ساتھ کئی کہانیاں رقم کی ہیں۔ یہ کہانیاں پشاور سانحے کے خلاف اپنے انداز میں احتجاج ہے۔ جہاں ان کہانیوں کا انداز منفرد ہے وہیں یہ کہانیاں بچوں کو اسلام کی اصل تصویر دکھاتی ہیں۔ دہشت گردی کے تعلق سے اسلام کے نظریے کی وضاحت کرتی ہیں اور بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی اسلام کی تعلیم دیتی ہیں۔ ان کہانیوں میں پشاور اسکول کے زیرِ تعلیم بچے، اساتذہ، والدین اور صحافیوں کے زندہ کر دار موجود ہیں۔

نذیر فتح پوری کچھ نہ کچھ نیا کرنے کے لئے ہمیشہ مضطرب رہتے ہیں۔ اس بار انہوں نے پشاور سانحے کے درد و کرب کو بچوں کی زبانی، کہانی میں اس طور ڈھالا ہے کہ کہانیاں بچوں کو اسلام کی تعلیم بھی دیتی ہیں اور پوری دنیا کو سانحے کی عبرتناکی سے روشناس بھی کراتی ہیں۔

مجھے اُمید ہی نہیں یقین ہے کہ نذیر فتح پوری کی یہ کتاب عوام و خواص دونوں، خصوصاً ً بچوں کو بہت پسند آئے گی۔

 

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

صدر، شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

 

فائل کے لیے تشکر: حیدر قریشی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید