فہرست مضامین
یہ زندگی ہے ہماری
حصہ سوم : چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
عبید اللہ علیمؔ
کمپوزنگ اور پیشکش: آصف محمود ڈار
تعارف
عبید اللہ علیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر ہیں جنہیں شاعری کے مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں” پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ 1969ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر حکام بالا سے اختلافات کی وجہ سے 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ عبیداللہ علیم کا شمار موجودہ دور کے غزل کے بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں ” 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں "ویران سرائے کا دیا” اور "نگارِ صبح کی امید” شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کی کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دو نثری تصانیف "کھلی ہوئی ایک سچائی” اور "میں جو بولا” کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ 18 مئی 1998ء کو عبید اللہ علیم کراچی پاکستان میں وفات پا گئے اور کراچی میں اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ۔
آزاددائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نگارِصبح کیاُمید میں، 2000ء، مارچ
ویران سرائے کا دیا، 1986، جولائی
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، 1974، جنوری
انتساب
نگار کے نام
آئینہ
میرے آنگن میں گلاب کھل رہا ہے، میں اس کا رنگ بتا سکتا ہوں مگرخوشبو کو صرف محسوس کر سکتا ہوں بتا نہیں سکتا۔ مختلف تمثیلات وتشبیہات کے سہارے ممکن ہے آپ کو اپنے احساس میں شریک کر لوں مگر حقیقتاً خوشبو کی کیفیتاور ذائقے تک پہچانا میرے بس میں نہیں۔
گلاب کس مٹی میں کھلتا ہے اس کے لیے کون ساموسم اور فضا درکار ہے اس پر بہت گفتگو ہو سکتی ہے مگر اس کی خوشبو کا تعین ممکن نہیں۔ شاعری کا بھی کچھ یہی احوال ہے یہ بھی انسانی وجود کی ایک ایسی خوشبو ہے جسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاعر کی زندگی وذات کے بارے میں اس کے معاشرے اور کلچر کے بارے میں حساب لگایاجا سکتا ہے، مگر شعر کی کیفیتاور ذائقہ منتقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ وہ محسوس کرایا جا سکتا ہے جو محسوس کیا جاتا ہے۔ محسوس کرانے کا عمل در اصل ایک دوسری تخلیق ہے جس کا پہلی تخلیق سے اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ اس کے حوالے سے وجود میں آئی۔ کیا میں ان باتوں سے ابلاغ کی شرط اٹھا رہا ہوں۔ قطعی نہیں۔ صرف اتنی سی بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے شعر کی صورت میں لکھا ہے میرا ابلاغ ہے اور آپ جس طرح اسے سمجھیں گے وہ آپ کا ابلاغ ہو گا۔ میں نے اپنی ذات کی اضافت سے لکھا آپ نے اپنی ذات کی اضافت سے محسوس کیا۔ بہت سے لوگ اس پر مجھ سے الجھنا چاہیں گے اور وہ بات کہیں گے جو کہی جاتی ہے مگر میں ہارنے کے لیے تیار ہوں جھوٹ بولنے کے لیے تیار نہیں۔
تخلیق انکشاف ذات ہے تو تنقید اُس انکشاف کی خبر ہے۔
تخلیق اپنے اندر ایک زبردست نمو کی طاقت رکھتی ہے اور خودبخودبڑھتیاور پھیلتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے اکیلا گلاب خوشبو کا ایک ہجوم اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خوشبو فضاؤں میں گھلتی رہتی ہے آپ چاہیں تو اس کے شریک ہو جائیں لیکن خوشبوآپ کی محتاج نہیں۔ گلاب کی خوشبو آپ کی نیازمند نہیں۔ مگر گلاب کا پودا فطرت کا اور آپ کا نیاز مند ہے کہ اسے اگنے کے زمین پانیاور روشنی بہرحال چاہئیں۔
شاعری میری دانست میں انسانی وجود کی خوش آہنگ اور مترنم بے اختیاری کا نام ہے۔ میں اب تک شاعری کے بارے میں اتنا ہی جان سکا ہوں۔ اپنی شاعری کے لیے بھیمیرا یہی خیال ہے۔ شعر لکھنا میں نے کسی نظریے کے سہارے شروع نہیں کیا تھا اور اب تک کوئی نظریہ نہیں تراش پایا۔ ہر چند کے یہ ہمارے شاعروں اور شاعری کی کچھ دن سے روایت ہے۔ بس میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں شاعر ہوں۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شعر میری ذات کا ایک ایسا اذیت ناک جبر ہے جس سے گزر کر مجھے خوشی ہوتی ہے یا میرے حواس کا وہ آئینہ ہے جو مجھے خود اپنے جاننے کی ایک عجیب سی لذت اور سرشاری سے گزارتا ہے۔ سب کچھ باہر ہے مگر وہ نہیں ہے جو میرے اندر آ کر ہو جاتا ہے جن پر آپ کو سرابوں کا گمان گزرتا ہے میں نے ان چشموں سے پانی پیا ہے جنھیں آپ فریب جانتے ہیں میں نے اُن میں منزلوں کے نشان دیکھے ہیں۔ یہاں کوئی عمل اور کوئی بات طے شدہ نہیں۔ انسانی نفس کو جاننے کا دعویٰ کون کر سکتا ہے۔ بس اپنا اپنا وہم ہے اور اپنی اپنی قیاس آرائیاں۔
ان کمبخت لفظوں پر بھروسا نہ کیا جائے تو پھر کیا کیا جائے۔ میں ان کو تسخیر کر رہا ہوں یہ میری تعمیر کر رہے ہیں۔ یہ میرے وفادار ہیں لیکن کبھی کبھی میں ان کا وفادار نہیں رہتا کہ ان کی حقیقی صورت میں کوئیاور صورت دیکھنا چاہتا ہوں مگر ان کا ظرف کشادہ ہے یہ مجھ سے سمجھوتہ کرتے ہیںاور میرے نطق سے بولتے رہتے ہیں جہاں کہیں بھی مجبوری ہے میری ہے ان میںاور مجھ میں ایک دوستانہ جنگ بھی جاری ہے ان کی خواہش ہے کہ میں ان کی طرح بولوں مگر میں انھیں اپنی طرح بولنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔ یہ میرے بچے ہیں میں ان کی اولاد ہوں مجھے دیکھنا ہے کہ یہ جب آپ کے پاس پہنچتے ہیں تو کیا ہو جاتے ہیں۔
مجھے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جنھوں نے حرف لکھے اور جو حرف لکھتے ہیں۔ میرے آئینے میں وہ چہرے ضرور بولیں گے جنھیں میں نے اپنا چہرہ سمجھ کر دیکھا ہے میں ان کی تکریمو تعظیم میں محض اپنا چہرہ پیش کر سکتا ہوں اور یہ میری شاعری ہے۔
٭٭٭
مرے خدا مجھے وہ تاب نے نوائی دے
میں چپ رہوں تو بھی نغمہ مرا سنائی دے
گدائے کوئے سخن اور تجھ سے کیا مانگے
یہی کہ مملکتِ شعر کی خدائی دے
نگاہِ دہر میں اہلِ کمال ہم بھی ہوں
جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے
چھلک نہ جاؤں کہیں میں وجود سے اپنے
ہنر دیا ہے تو پھر ظرفِ کبریائی دے
مجھے کمال سخن سے نوازنے والے
سماعتوں کو بھی اب ذوقِ آشنائی دے
نمو، پذیر ہے یہ شعلۂ نوا تو اسے
ہر آنے والے زمانے کی پیشوائی دے
کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی
کہ ایک زخم بھرے دوسرا دُہائی دے
میں ایک سے کسی موسم میں نہیں رہ سکتا
کبھی وصال سے کبھی ہجر سے رہائی دے
جو ایک خواب کا نشّہ ہو کم تو آنکھوں کو
ہزار خواب دے اور جرأتِ رسائی دے
1971ء
٭٭٭
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیںیہ وحشتیں کیسی
نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کومہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھچی ہوئی ہیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی
ہَوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بُجھ گئے تو ہَوا سے شکایتیں کیسی
جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی
نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی
نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہلِ کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی
جو اَبر ہے سو وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضایہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی
یہ دورِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی
1964ء
٭٭٭
خورشید بکف کوئی کہاں ہے
سب اپنی ہی روشنیِ جاں ہے
میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں
مجھ کو بھی تلاش رفتگاں ہے
پھر دیکھنا خوابِ عہد رفتہ
مل لو ابھی وقت مہرباں ہے
سودا بھی کروں تو کیا کہ دنیا
باہر سے سجی ہوئی دُکاں ہے
شعلےکو خبر ہی کیا نمو میں
اپنے ہی وجود کا زیاں ہے
ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا
ہر پَل کوئی خوابِ رائے گاں ہے
لیتا ہی نہیں کہیں پڑاؤ
یادوں کا عجیب کارواں ہے
مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم
پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے
اے ابرِ بہارِ نو برس بھی
پھر تازہ ہجوم تشنگاں ہے
اے موجِ فنا گزر بھی سر سے
ہونے کا مجھے بہت گماں ہے
1965ء
٭٭٭
محبت
میں جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہوں
نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے
نہ خال و خد کا جمال اُس میں، نہ زندگی کمال کوئی
جو کوئی اُس میں ہنر بھی ہو گا
تو مجھ کو اس کی خبر نہیں ہے
نہ جانے پھر کیوں !
میں وقت کے دائروں سے باہر کسی تصور میں اڑ رہا ہوں
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز
مرا لہو اپنی گردشوں میں اُسی کی تسبیح پڑھ رہا ہے
جو میری چاہت سے بے خبر ہے
کبھی کبھی وہ نظر چرا کر قریب سے میرےیوں بھی گزرا
کہ جیسے وہ با خبر ہے
میری محبتوں سے
دل و نظر کی حکایتیں سن رکھی ہیں اس نے
مری ہی صورت
وہ وقت کے دائروں سے باہر کسیتصور میں اڑ رہا ہے
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز
وہ جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہے
مگر نہیں جانتا یہ وہ بھی
کہ ایسا کیوں ہے
میں سوچتا ہوں، وہ سوچتا ہے
کبھی ملے ہم تو آئینوں کے تمام باطن عیاں کریں گے
حقیقتوں کا سفر کریں گے
1964ء
٭٭٭
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
ملے ہیںیوں تو بہت آؤ اب ملیںیوں بھی
کہ روح گرمیِ انفاس سے پگھل جائے
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغ سرِ رہ گزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
1966ء
٭٭٭
کوئی دھن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں
درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں
خواب بن کر تُو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اِسی موسم میں نہائے جاؤں
تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکّھوں تری تصویر بنائے جاؤں
جس کو ملنا نہیں پھر اُس سے محبت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں
تو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں
یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں
جان تو چیز ہے کیا رشتۂ جاں سے آگے
کوئی آواز دیے جائے میں آئے جاؤں
شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھُوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں
اہلِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں
1972ء
٭٭٭
یہاور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں ہوں
ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کِس اثر میں ہوں
پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفلِ ہنر میں ہوں
جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں
جو سایہ ہو تو ڈرو اور دھُوپ ہو تو جلوں
کہ ایک نخلِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں
کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں
بچھڑ گئی ہے وہ خوشبواُجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر میں ہوں
قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دُعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں
1966ء
٭٭٭
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
مِرے خدایا !میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
جنہوں نے پیماں کیے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے
جہاں بھی جائے گا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے
بنیں گے راتوں میں چاندنی ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
وہ اپنے پیماں رفاقتوں کہ محبتوں کے
شکست کر کے
نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارۂ روشنی ہوئے ہیں
مگر مسافر کو کیا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گیا ہے
ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں
وہ زلفیں بے سایہ ہو گئی ہیں
وہ روشنیاور وہ سارے مری عطا تھے
سو میری راہوں میں آج بھی ہیں
کہ میں مسافر رہ وفا کا
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں کا ایک سیلاب تند لے کر
مرے تعاقب میں آ رہے ہیں
ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں
مہرباں سایہ دار زلفیں
میں کس کو چاہوں، میں کس کو چوموں
میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں
کہ میرا چہرہ، نہ میری آنکھیں
مرےخدایا! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
1966ء
٭٭٭
اے دل وہ شاید خواب ہی تھا کب گھر کوئی میں نے بسایا تھا
کوئی رنگ تھا اور نہ خوشبو تھی سناٹا بولنے آیا تھا
٭٭
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
تمام رنگ میرےاور سارے خواب میرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص
میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر ایک سو بچھا گیا اِک شخص
پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھےیہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص
محبتیں بھی عجب اس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک شخص
محبتوں نے کسی کی بھلا رکھا تھا اسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آ گیا اِک شخص
وہ ماہتاب تھا مرہم بدست آیا تھا
مگر کچھ اور سوا دل دُکھا گیا اک شخص
کھلایہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص
1968ء
٭٭٭
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی
کوئی عزیز نہیں ماسوائے ذات ہمیں
اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی
نہ ہو گی خشک کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر
یہ کِشت گزرے ہوئے اَبر کی نشانی ہوئی
تم اپنے رنگ نہاؤ میں اپنی موج اڑوں
وہ بات بھول بھی جاؤجو آنی جانی ہوئی
میں اس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا
تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی
کہاں تک اور بھلا جاں کا ہم زیاں کرتے
بچھڑ گیا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہوئی
1969ء
٭٭٭
اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا
ٹھہرے ترے گھر کوئیمسافر تو مجھے کیا
ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی
چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا
وہ شمع میرے گھر میں تو بے نور ہی ٹھہری
بازار میں وہ جنس ہو نادر تو مجھے کیا
وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ
دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا
میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا میں
چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا
دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا
اِک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی
اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا
1969ء
٭٭٭
الفاظ
یہ لفظ سقراط، لفظ عیسیٰ
میں ان کا خالق، یہ میرے خالق
یہی ازل ہیں،یہی ابد ہیں،یہی زماں ہیںیہی مکاں ہیں
یہ ذہن تا ذہن رہ گزر ہیںیہ رُوح تا رُوح اک سفر ہیں
صداقتِ عصر بھی یہی ہیں کراہتِ جبر بھی یہی ہیں
علامتِ درد بھی یہی ہیں کرامتِ صبر بھی یہی ہیں
بغیر تفریقِ رنگ و مذہب زمیں زمیں ان کی بادشاہی
کھنچے ہوئے ہیں لہو لہو میں بچھے ہوئے ہیں زباں زباں پر
یہ جھوٹ بھی ہیںیہ لوٹ بھی ہیںیہ جنگ بھی ہیںیہ خون بھی ہیں
مگریہ مجبوریاں ہیں ان کی
بغیر ان کے حیات ساری توہماتی
ہر ایک حرکت سکوت ٹھہرے
نہ کہہ سکیں کچھ، نہ سن سکیں کچھ
ہر ایک آئینہ اپنیعکّاسیوں پہ حیراںہو اورچپ ہو
نگاہِ نظارہ بیں تماشا ہو وحشتوں کا
اجازتِ جلوہ دے کہ جیسے زباں سے گویائی چھین لی جائے
نہ حسن کچھ ہو، نہ عشق کچھ ہو
تمام احساس کی ہوائیں تمام عرفان کے جزیرے تمام یہ علم کے سمندر
سراب ہوں، وہم ہوں، گماں ہو
یہ لفظ تیشہ ہیں جن سے افکار اپنی صورت تراشتے ہیں
مسیح دست و قلم سے نکلیں تو پھر یہ الفاظ بولتے ہیں
یہی مصور، یہی ہیں بت گر، یہی ہیں شاعر
یہی مغنّی،یہی نوا ہیں
یہی پیمبر،یہی خدا ہیں
میں کیمیا ہوں، یہ کیمیا گر
یہ میرا کلیان چاہتے ہیں
میں ان کی تسخیر کر رہا ہوں
یہ میری تعمیر کر رہے ہیں
1965ء
٭٭٭
میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے
یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے
جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ
میرے لہو میں ایسی بھی اک روشن ہوئی تو ہے
جس میں بھی ڈھل گئی اُسے مہتاب کر گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اِک روشنی تو ہے
پرچھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر عمر
اور پھر بچا نہ پاؤں یہ بیچارگی تو ہے
تُو بُوئے گل ہے اور پریشاںہَوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتۂ آوارگی تو ہے
اے خواب خواب عمرِ گریزاں کی ساعتو
تم سن سکو تو بات میری گفتنی تو ہے
1966ء
٭٭٭
ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیںیاں قہر بہت
کُوچہکُوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جاں سے گزرے جاتے ہیں
پھریہ ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی
دن نکلا تو جبر کی دھُوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت
ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا ہے وہ نکلا ہے بے مہر بہت
1965ء
٭٭٭
دل گزارو کہ جاں نثار کرو
دور صدیوں کا یہ غبار کرو
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مُژدۂ بہار کرو
زندگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
زُلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ
زندگی ہو جہاں قرار کرو
جو ابھی قرض ہیں دل و جاں پر
ان شکستوں کا بھی شمار کرو
رات کہتی ہے سو رہو چُپ چاپ
دلیہ کہتا ہے انتظار کرو
اور کیا ہے تمہارے پاس علیم
تحفۂ شعر نذرِ یار کرو
1962ء
٭٭٭
لہو لہو زنجیر
صفحۂ دہر پر کرب کی خونچکاں آیتیں ثبت ہیں
اور میں پڑھ رہا ہوں انھیں
میں پیمبر، نہ میں فلسفیاور نہ میں دیوتا
ان کی تعظیم کرتا ہوں جو زندگی کی امر روشنی کے لیے مر گئے
اور مر جائیں گے
میرے احساس کی آنکھ پتھرا چلی زندہ الفاظ کے ورد میں
اس سے پہلے کہ سارا لہو کھینچ لے
مرگ آثار، سفّاک، ظالم ہوا
اے خدا، اے خدا
آمرے دکھ میں کچھ تو بھی حصہ بٹا
1965ء
٭٭٭
کچھ دُکھتے ہوئے خواب کچھ چبھتی یادیں بسائے ہوئے
میں ریزہ ریزہ بکھر گیاکوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
٭٭٭
پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ
محفلِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ
دوش پر بارِ شبِ غم لئے گل کے مانند
کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
خوب پایا ہے صلہ تیری پرستاری کا
دیکھ اے صبحِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
اِک متاع دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائےیہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ
نکہتِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو
ہم بھی کہتے تھے کہ آسودۂ جاں ہیں ہم لوگ
کوئی بتلائے کہ کیسےیہ خبر عام کریں
ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ
قسمتِ شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم
جرسِ قافلۂ خوش خبراں ہیں ہم لوگ
1963ء
٭٭٭
صاحبِ مہر و وفا ارض وسما کیوں چپ ہے
ہم پہ تو وقت کہ پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہے
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نواں کیوں چپ ہے
پھول تو سہم گئے دستِ کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلۂ اہل وفا
سوچ اے داور مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
مجھ پہ طاری ہے رہِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
جاننے والے تو سب جان گئے ہوں گے علیم
ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چپ ہے
1961ء
٭٭٭
ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی ہے
کوچۂیار سے دارو رسن تک ایک سی ہی ویرانی ہے
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہیں
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی ہے
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذّت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ
عقلیہ کہتی ہے کہ توہم پر جینا نادانی ہے
تیرے پیار سے پہلے کب تھا دل میں ایسا سوز و گداز
تجھ سے پیار کیا تو ہم نے اپنی قیمت جانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آ کر شاعر کہلائے ہیں علیم
درد جہاں کم یاب بہت ہے نغموں کی ارزانی ہے
1963ء
٭٭٭
دکھے دلوں کو سلام میرا
دکھے ہوئے دل ہیں میرا مذہب میرا عقیدہ
دکھے ہوئے دل
مرا حرم ہیں، مرے کلیسا، مرے شوالے
دکھے ہوئے دل
چراغ میرے، گلاب میرے
دکھے ہوئے دل
کہ روشنی بھی ہیںاور خوشبو بھی زندگی کی،
دکھے ہوئے دل
کہ زندگی کا عظیم سچ ہیں
دکھے ہوئے دل جہاں کہیں ہیں
دکھے ہوئے دل مرا ہی دل ہیں
دکھے دلوں کو سلام میرا
1967ء
٭٭٭
ایک ایسی بھی ہوا آئے گی
جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی
یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج
کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی
پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو
نور ہے نور ہی برسائے گی
اور یہ عشق و ہوس کی دنیا
تشنگی کے سوا کیا پائے گی
پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے
شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی
ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا
اُٹھیہ دیوار بھی گر جائے گی
کوئی احساس اگر ہے تو کہو
بات لفظوں سے نہ بن پائے گی
1964ء
٭٭٭
اب نہ اُس سمت نظر جائے گی
جیسے گزرے گی گزر جائے گی
صُورت زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی
اس بدلتی ہوئی رفتار کے ساتھ
زندگی جانے کدھر جائے گی
اور کچھ دنوں میں جنوں کی اپنے
شہر در شہر خبر جائے گی
لمحہ لمحہ جو سمیٹی ہے عمر
ایک لمحے میں بکھر جائے گی
1964ء
٭٭٭
چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز
ورنہ کیا نغمہ ساز و نغمہ نواز
سننے والو اسے بھی سن لینا
صُورت زخم بھی ہے اِک آواز
جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے
کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز
قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوؤں ہی میں پرواز
جس نے بخشے ہیں غم اُسی کے لیے
کر رہا ہوں دعائے عمرِ دراز
1962ء ٭٭٭
گیت
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں
ہونٹ پر جب کرن ہونٹ رکھ دے مسکرائیں تو واپس نہ آئیں
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی
سچّے سر کی سچائی میں جھول رہے ہیں بدن
لہروں لہروں گاتی جائے جیسے مست پون
دیکھو ساون گاتا آیا
اپنے آنگن گاتا آیا
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی
آؤ مل کہ موج میں اپنی کھیلیں ہواؤں کے سنگ
ہولے ہولے بادل چھو لیں جیسے فضاؤں کے رنگ
دیکھو ساون گاتا آیا
اپنے آنگن گاتا آیا
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں
ہونٹ پر جب کرن ہونٹ رکھ دے مسکرائیں تو واپس نہ آئیں
1972ء
٭٭٭
کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا
کوئی رنگ تو دو میرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر تو شرماؤ تو کیا
تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا
دنیا بھی وہیاور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ توکیا
میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا
جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا
اک وہم ہے یہ دنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیااور پاؤ تو کیا
ہےیوں بھی زیاںاور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا
1970ء
٭٭٭
محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں
جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں
ابھی تو وعدہ و پیماں ہیںاور یہ حال اپنا
وصال ہو تو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں
یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے
ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں
جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا
آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں
پکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برسنے والے یہ بادل گزر نہ جائیں کہیں
نڈھال اہل طرب ہیں کہ اہل گلشن کے
بجھے بجھے سے یہ چہرے سنور نہ جائیں کہیں
فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر
نکل کے گھر سے اب اہل نظر نہ جائیں کہیں
1970ء
٭٭٭
کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا
کس کی تلاش ہے تمہیںاور کون کھو گیا
آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں
اِک چاند ساتھ ساتھ ہے اِک چاند گہہ گیا
تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز
مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا
تم ہی کہو کہ ہو بھی سکے گا مرا علاج
اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا
جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگارِ جاں
کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا
وہاور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں
گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ
اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے
اے مری روشنی تو مجھے راستا دکھا
اب آ بھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں
اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا
یارب عطا ہو زخم کوئی شعر آفریں
اِک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا
وہ دور آ گیا ہے کہ اب صاحبان درد
جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا
دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور
موجِ ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گزیر پا
لکّھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوالِ دل نہیں
چیخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا
آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاکِ رہ گزر
سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا
پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم
سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا
1970ء
٭٭٭
نیا عشق
اے میرے لہو کی لہرِ تازہ!
تو موسم ابر و باد و بادہ
چہرہ وہی خواب سا دکھا جا
باتیں وہ شراب سی سنا جا
مل کر نہ بچھڑ سکیں کبھی ہم
اک بار تُو اس طرح ملا جا
جو میرےاور اُس کے درمیاں ہے
ڈھا جا وہ فصیلِ ہجر ڈھا جا
اے میرے لہو کی لہرِ تازہ!
تو موسم ابر و باد و بادہ
موج کی جگہ لہر کے استعمال پر معذرت
٭٭٭
سچا جھوٹ
میں بھی جھوٹا تم بھی جھوٹے
آؤ چلو تنہا ہو جائیں
کون مریضاور کون مسیحا
اس دکھ سے چھٹکارا پائیں
آنکھیں اپنی خواب بھی اپنے
اپنے خواب کسے دکھلائیں
اپنی اپنی روحوں میں سب
اپنے اپنے لوڑھ سجائیں
اپنے اپنے کاندھوں پر سب
اپنی اپنی لاش اٹھائیں
بیٹھ کے اپنے اپنے گھر میں
اپنا اپنا جشن منائیں
شاید لمحہ آئندہ میں
لوگ ہمیں سچا ٹھہرائیں
1966ء
٭٭٭
عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے
وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے گئے
بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینایہی
کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے
ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی
کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے
کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام
اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے
یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں
کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے
مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں
مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے
جو زخم، زخم زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے
تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے
1969ء
٭٭٭
میں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بِکھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں
وہی طائروں کے جھُرمٹ جو ہوا میں جھُولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں
بڑی آرزو تھی ہم کو، نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
کوئیاور تو نہیں ہے، پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں
1971ء
٭٭٭
خوشا وہ دَور کہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی
سکون کُفر نہ تھا زندگی گناہ نہ تھی
نفس نفس پہ اُبھرتی ہوں سولیاں جیسے
حیات اتنی تو پہلے کبھی تباہ نہ تھی
بہ فیضِ حسرتِ دیدارخسروانِ جنوں
اُدھر بھی دیکھ گئے جس طرف نگاہ نہ تھی
خود اپنیروشنیء طبع کے ستائے ہوئے
وہ ہم تھے دہر میں جن کو کہیں پناہ نہ تھی
وہ اک نگاہ کہ سب کچھ سمجھ لیا تھا جسے
تباہیِ دل و جاں پر وہی گواہ نہ تھی
1960ء
٭٭٭
مرثیہ
اداسیادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا
کہ میری آنکھوں میں اب لہو ہے نہ خواب کوئی
میں سب دیے طاقِ آرزو کے بجھا چکا ہوں
تُو ہی بتا اب
کہ مرگ مہتاب و خونِ انجم پہ نظر کیا دوں
نہ میرا ماضی نہ میرا فردا
بکھر گئی تھی جو زلف کب کی سنور چکی ہے
اور آنے والی سحر بھی آ کر گزر چکی ہے
اداسیادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا!
1968ء
٭٭٭
تین شعر
بوٹا بوٹا دھوپ جلا دے شجر شجر بے سایا ہے
گھر اپنا صحرا تو نہیں ہے لیکن صحرا جیسا ہے
کچھ نہیں سیکھا ہم نے جنوں سے ہاں اتنا سیکھا ہے
اتنی اس کی عزت کی جو عشق میں جتنا رسوا ہے
ترکِ تعلق ایک قیامت پرسشِ یاراںاور عذاب
کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے
1966ء
٭٭٭
لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور
کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں اور
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھاور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
1967ء
٭٭٭
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں
اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گل ہوئی
ابیہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں
ہو دیدۂ ہنر دلِ درد آشنا کی خیر!
کب لذتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں
تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے ناشناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں سایہ نہیں ہوں میں
جو کچھ بھی ہوں، میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ
غالبؔ نہیں ہوں، میرؔ و یگانہ نہیں ہوں میں
1965ء
٭٭٭
عشوۂ و غمزۂ و رم بھُول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکا تھا کہ ہم بھول گئے
جن کو دعوی تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے
جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کون سا غم بھول گئے
اب تو جینے دو زمانے والو
اب تو اس زلف کے خم بھول گئے
زندگی نے جو سکھایا تھا علیم
زندگی کے لیے ہم بھول گئے
1961ء
٭٭٭
وقت
کوہکن وقت تیشہ چلاتا ہوا صبح سے دوپہر تک تو آ ہی گیا
ہر قدم ڈھونڈتا اک نیا راستہ راہ شمس و قمر تک تو آ ہی گیا
صبح آغاز سے مہر رفتار ہے جو بھی ہے فرق وہ عمر کا فرق ہے
تیرگی روشنی کی گراں جنگ سے اب قویٰ اس کے سب مضمحل ہو چکے
ڈھل چکا نشۂ طاقت و عزم بھی آب تیشہ جو تھی سنگ نے چاٹ لی
ایک مزدور نے چاہ میں مُزد کی جس طرح کٹ سکی زندگی کاٹ دی
اور آوارہ طائر کی مانند اب جھانکتا ہے پیاسی نظر سے کوئی
س کو چشمہ ملے یا کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر اونگھ لے دو گھڑی
دور تک ہیں سرابوں ہی کے سلسلے پیڑ عنقا ہیںاور گرد کی چھاؤں ہے
کشتۂ خواب کو اجرت و مُزد میں آس کا ایک اُجڑا ہو اگاؤں ہے
مہرباں کوئی قاصد سنا کے اسے مژدۂ مرگِ شیریں گزر جائے گا
اور یہ سنگِ منزل سے پھوڑ کر یا پھر اپنے ہی تیشے سے مر جائے گا
1960ء
٭٭٭
دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت
جو ہو گئے ہو فسانہ تو یاد آؤ مت
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ مت
زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں
خدا بھی ہو تو اُسے درمیان لاؤ مت
تمھارا سر نہیں طفلانِ رہ گزر کے لئے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہماور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت
ہمارے عہد میںیہ رسمِ عاشقی ٹھہری
فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت
وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے
سُخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ مت
سُپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر
تمام خاک ہی ہو جاؤ کُچھ بچاؤ مت
1965ء
٭٭٭
شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِ فن کیا کیا
عذاب کھینچ رہا ہے مرا بدن کیا کیا
نہ کوئی ہجر کا دن ہے نہ کوئی وصل کی رات
مگر وہ شخص کہ ہے جانِ انجمن کیا کیا
ادا ہوئی ہے کئی بار ترکِ عشق کی رسم
مگر ہے سر پہ وہی قرضِ جان و تن کیا کیا
نگاہِ بو الہوساں ہائے کیا قیامت ہے
بدل رہے ہیں گل و لالہ پیرہن کیا کیا
گزر گئے تو گزرتے رہے بہت خورشید
جو رنگ لائی تو لائی ہے اک کرن کیا کیا
قریب تھا کہ میں کارِ جنوں سے باز آؤں
کھنچی خیال میں تصویر کوہ کن کیا کیا
1964ء
٭٭٭
نیند آنکھوں سے اُڑی پھول سے خوشبو کی طرح
جی بہل جائے گا شب سے تیرے گیسو کی طرح
دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے
پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح
میری آشفتگیء شوق میں اک حسن بھی ہے
تیرے عارض پہ مچلتے ہوئے گیسو کی طرح
اب تیرے ہجر میں لذت نہ تیرے وصل میں لطف
ان دِنوں زیست ہے ٹھہرے ہوے آنسو کی طرح
زندگی کی یہی قیمت ہے کہ ارزاں ہو جاؤ
نغمۂ درد کے لیے موجۂ خوشبو کی طرح
کس کو معلوم نہیں کون تھا وہ شخص علیم
جس کی خاطر رہے آوارہ ہم آہو کی طرح
1963ء
٭٭٭
نمو
میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنےاور شاخوں پہ جھولنے کی ہزار جسموں کو آرزو تھی
زمیں کی آنکھیں دراز یِ عمر کی دعاؤں میں رو رہی تھیں
اور سورج کے ہاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں
کہ میں اک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا
کہ اُس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھےاور پھر نہ اٹھے
جو میری شاخوں میں آ کے جھُولے تو سارا موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنے سارے
جو توڑ آیا تھا کتنی شاخیں
مگر لگا یوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ہے
وہ میرے خوابوں کا ہمسفر ہے
سو میں نے سائے بچھا دیے تھے
تمام جھولے ہلا دیے تھے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نمو اور بے ثمر تھا
مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر1 تھا
عجب شجر تھا
عجب شجر ہوں
کہ آنے والے سے کہہ رہا ہوں
اے میرے دل میں اترنے والے
اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مری روشنی مبارک
تجھے مری زندگی مبارک
1۔ میرا عجز سمجھ لیجئے
1969ء
٭٭٭
ایک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک
اک تماشا ہوں میں شعلے سے شر ر ہونے تک
تُو ہے وہ رنگ کہ آنکھوں سے نہ اوجھل ہو گا
میں ہوں وہ خواب کہ گزروں گا سحر ہونے تک
لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے
نغمہ اندوہِ سماعت ہے اثر ہونے تک
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میرے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہونے تک
1968ء
٭٭٭
جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے
مگر دنیا کی رونق کم نہیں ہے
میں روتا ہوں کہ زخم آرزو کو
دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے
نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے
مجھےیہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے
ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج دہر تو برہم نہیں ہے
ہوا کہ دوش پہ جلتا دیا ہوں
جو بجھ جاؤں تو کوئی غم نہیں ہے
تو پھر میں کیا مری عرض ہنر کیا
صداقت ہی اگر پرچم نہیں ہے
مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے
1965ء
٭٭٭
پاؤ گے کہاں پناہ لوٹ آؤ
گھر ہو گیا ہے تباہ لوٹ آؤ
میری نہیں گر تو اپنی خاطر
لوٹ آؤ دل و نگاہ لوٹ آؤ
تم چاہ میں جس کی مر رہے ہو
اس میں تو نہیں ہے چاہ لوٹ آؤ
تم جب سے گئے ہو چاند میرے
راتیں ہوئیں ہیں سیاہ لوٹ آؤ
تم مل کے بچھڑ گئے ہو جس سے
تکتا ہے تمہاری راہ لوٹ آؤ
کیا ہو گئی زندگی تمہاری
اب اے مرے کج کلاہ لوٹ آؤ
بچھڑے ہوؤں کا پھر سے ملنا
ایسا بھی نہیں ہے گناہ لوٹ آؤ
1969ء
٭٭٭
دوستو! خونِ شہیداں کا اثر تو دیکھو
کاسۂ سر لیے آئی ہے سحر تو دیکھو
درد کی دولتِ کمیاب مرے پاس بہت
ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو
منزلِ شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم کردہ مسافر کا سفر تو دیکھو
کون بے وجہ اڑاتا ہے بہاروں کا مذاق
مجھ کو الزام نہ دو اپنی نظر تو دیکھو
چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا
پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو
فخر ہم پیشگیِ دیدہ وراں جانے دو
داغِ ہم پیشگیِ ننگ ہنر تو دیکھو
1961ء
٭٭٭
تیرا اندازِ سخن یاد آیا
اپنے چپ رہنے کا فن یاد آیا
جس کی خوشبو سے معطر تھا دماغ
پھر وہ شاداب چمن یاد آیا
ہم جسے جیت کے بھی ہار گئے
پھر وہی وعدہ شکن یاد آیا
یاد آئے ہیں مسیحا اپنے
جب کوئی زخمِ کہن یاد آیا
موجِ خوں تھی کہ محبت اپنی
جب بھی آیا وہ بدن یاد آیا
ہم کو جنت بھی جہنم ہو گی
گر یہی رنج و محن یاد آیا
سوچتا ہوں کبھی اس کو بھی علیم
مری غزلیں مرا فن یاد آیا
1959ء
٭٭٭
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
کہتے تھے ہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہُوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
رُسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پریہ ہُوا کہ خُود سے ندامت نہیں رہی
کھنچتی تھی جس سے حرف میں اِک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج
کیا صبر آ گیا کہ شکایت نہیں رہی
کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمّت نہیں رہی
جس سمت جائیے وہی ملتے ہیں اپنے لوگ
اُس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی
1972ء
٭٭٭
آشنا اجنبی کے نام
کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی
تمھیں راہ پہ اک دن آنا ہے، تم راہ پہ آ ہی جاؤ گی
کیوں چہرہ اُترا اُترا ہے کیوں بجھی بجھی سی ہیں آنکھیں
سُنو عشق تو ایک حقیقت ہے، اسے کب تک تم جھُٹلاؤ گی
سب رنگ تمہارے جانتا ہوں، میں خوب تمہیں پہچانتا ہوں
کہو کب تک پاس نہ آؤ گی کہو کب تک آنکھ چُراؤ گی
بھلا کب تک ہم اک دوسرے کو چھُپ چھُپ کر دیکھیںاور ترسیں
ہمیںیار ستائیں گے کب تک، تم سکھیوں میں شرماؤ گی
یہ سرو تنی، محشر بدَنی، گُل پیرہنی، گوہر سُخَنی
سب حسن تمہارا بے قیمت، گر ہم سے داد نہ پاؤ گی
جب کھیل ہی کھیلا شعلوں کا پھر آؤ کوئی تدبیر کریں
ہم زخم کہاں تک کھائیں گے تم غم کب تک اپناؤ گی
چلو آؤ بھی ہم تم مل بیٹھیںاور نئے سفر کا عہد کریں
ہم کب تک عمر گنوائیں گے، تم کب تک بات بڑھاؤ گی
میں شاعر ہوں، مرا شعر مجھے کسی تاج محل سے کم تو نہیں
میں شاہ جہانِ شعر تو تم ممتاز محل کہلاؤ گی
نہیں پاس کیا گر عشق کا کچھ اور ڈریں نہ ظالم دنیا سے
شاعر پہ بھی الزام آئیں گے، تم بھی رسوا ہو جاؤ گی
1964ء
٭٭٭
تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیںیہ جانے پہچانے لوگ
ہر لمحہ احساس کی صہبا روح میں ڈھلتی جاتی ہے
زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ
جیسے تمھیں ہم نے چاہا ہے، کون بھلا یوں چاہے گا
مانااور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ
یوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں
جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ
آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں
دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے، ہم ہی نہیں دیوانے لوگ
کیسے دُکھوں کے موسِم آئے کیسی آگ لگی یارو
اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ
کل ماتم بے قیمت ہو گا، آج اِن کی توقیر ہو گا
دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ
1964ء
٭٭٭
باعثِ ننگ نہیں صرفِ غمِ جاں ہونا
میری قیمت ہے ترے شہر میں ارزاں ہونا
یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست
یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا
تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا
کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا
مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا
نہ رہا شکوۂ بے مہریِ ایّام کہ اب
اپنی حالت پہ مجھے آ گیا حیراں ہونا
کوئی بتلائے یہ تکمیلِ وفا ہے کہ نہیں
اشک بن کر کسی مژگاں پہ نمایاں ہونا
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ
اے غمِ عشق ذرا اور فروزاں ہونا
1959ء
٭٭٭
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں
چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم
اب ستارے پلک پلک دیکھوں
جانے تو کس کا ہم سفر ہو گا
میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں
بند کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں
صبح میں دیر ہے تو پھر اِک بار،
شب کے رُخسار سے ڈھلک دیکھوں
اُن کے قدموں تلے فلک اور میں
صرف پہنائی فلک دیکھوں
1972ء
٭٭٭
ہنی مون
رات مہتاب اور صُبح گُلاب
دھُل رہے ہیں وہ جسم و جاں کے عذاب
چھُو کے سب دیکھتا ہوں اپنے خواب
رات مہتاب اور صُبح گُلاب
1970ء
٭٭٭
کتھارسس
مجھے خبر ہے
تمھاری آنکھوں میں جو چھُپا ہے
تمھارے چہرے پہ جو لکھا ہے
لہو جو ہر آن بولتا ہے
مجھے بتا دو،
اور اپنے دکھ سے نجات پا لو
1973ء
٭٭٭
وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی
عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں آئی
جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی
وہ موجِ گرمیِ رخسار و لب نہیں آئی
تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے
پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی
عجب تھے حرف کی لذت میں جلنے والے لوگ
کہ خاک ہو گئے خوئے ادب نہیں آئی
جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر
بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی
صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں
یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی
کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت
یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی
1972ء
٭٭٭
وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے
ایک دنیا ہے اکیلی تُو ہی تنہا کیا ہے
داد دے ظرفِ سماعت تو کرم ہے ورنہ
تشنگی ہے مری آواز کی نغمہ کیا ہے
بولتا ہے کوئی ہر آن لہو میں میرے
پر دکھائی نہیں دیتایہ تماشا کیا ہے
جس تمنّا میں گزرتی ہے جوانی میری
میں نے اب تک نہیں جانا وہ تمنّا کیا ہے
یہ مری روح کا احساس ہے آنکھیں کیا ہیں
یہ مری ذات کا آئینہ ہے چہرہ کیا ہے
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے
زندگی کی اے کڑی دھوپ بچا لے مجھ کو
پیچھے پیچھےیہ مرے موت کا سایہ کیا ہے
1972ء
٭٭٭
آؤ تم ہی کرو مسیحائی
اب بہلتی نہیں ہے تنہائی
تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
ابیہ کس کام کی ہے بینائی
ہم کہ تھے لذّتِ حیات میں گم
جاں سے اِک موج تشنگی آئی
ہم سفر خوش نہ ہو محبّت سے
جانے ہم کس کے ہوں تمنّائی
کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی یہ نہیں مرے بھائی
اوّلِ عشق میں خبر بھی نہ تھی،
عزّتیں بخشتی ہے رسوائی
کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح ساحل سے میری گہرائی
جن میں ہم کھیل کر جوان ہوئے
وہی گلیاں ہوئیں تماشائی
1972ء
٭٭٭
آئیڈیل
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
وہ مرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی
ایسا موسم، جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی
یا کوئی ہے خواب
جو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے
یاد کرنے پر بھی یاد آیا نہ تھا
دلیہ کہتا ہے وہی ہو بہو
اور سامنے پایا نہ تھا
گفتگو اُس سے ہے اور ہے روبرو
خواب ہو جائے نہ لیکن گفتگو
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو
1969ء
٭٭٭
محسوس یہ ہوتا ہے کوئی ہر لمحہ خلوت و جلوت میں
ہے ساتھ مرے اور پوچھتا ہے اب حال تمھارا کیسا ہے
٭٭
گیت
گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہل محبت کے نام
کتنی حسین میری زمین میرے لہو کا سلام
میری وفا کا شعلہ جلتا رہے صبح و شام
میرے بدن کی مٹی آئے سدا تیرے کام
گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کا نور
اس کی فضاؤں میں ہے موج بہاراں سرور
گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام
میرے شہیدوں کا خوں ارضِ وطن کا نکھار
گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام
کتنی حسین میری زمین میرے لہو کا سلام
گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام
1971ء
٭٭٭
جی جان سے اے ارض وطن مان گئے ہم
جب تو نے پکارا تیرے قربان گئے ہم
جو دوست ہوا اُس پہ محبت کی نظر کی
دشمن پہ تیرے صورت طوفان گئے ہم
ہم ایسے وفادار و پرستار ہیں تیرے
جو تُو نے کہا تیرا کہا مان گئے ہم
مرہم ہیں تیرے ہونٹ مسیحا ہے تیری زلف
ہم موجۂ گل تھے کہ پریشان گئے ہم
افسوں کوئی چلنے نہ دیا حیلہ گراں کا
ہر شکل عدو کی تیرے پہچان گئے ہم
خاک شہداء نے تیرے پرچم کو دعا دی
لہرا کے جو پرچم نے کہا جان گئے ہم
1965ء
٭٭٭
ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے مری روشنیِ طبع مجھ کو اور سنوار
نشاط رنج ہو رنج نشاط ہو کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار
اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اُتار
میں اعتراف شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف عنبر یار
رہ وفا میں چلو پھر سے اجنبی بن جائیں
کہ ڈھل رہا ہے پرانی محبتوں کا خمار
اس ایک قطرہ خوں کا ہے نام شعر علیم
جو دل میں ہو تو خزاں اور ٹپک پڑے تو بہار
1965ء
٭٭٭
حادثہ گراں گزرا آپ سے تصادم کا
زندگی پہ ہوتا ہے اب گماں جہنم 1کا
روپ موسمِ گل نے اور خزاں نے دھارے ہیں
ایک میری آہوں کا اک ترے تبسم کا
لوگ اپنے دل کی بات ڈھونڈتے ہیں نغموں میں
صرف اک بہانہ ہے ساز کا ترنم کا
ہم سے سادہ لوگ اکثر آ گئے ہیں دھوکے میں
کتنا دل نشیں لہجہ ہے ترے تکلم کا
تیری یاد تیرا غم اور شب کا سناٹا
زخمِ دل کی صورت ہے روپ ماہ و انجم کا
کیوں علیم ہر لمحہ کھوئے کھوئے رہتے ہو
کس سے دل ہی دل میں ہے سلسلہ تکلم کا
1959ء
٭٭٭
ساتھی سے
میں خود ہی اپنی بہاروں سے روٹھنے لگوں گر
تو تم مجھے روٹھنے نہ دینا
جو وار لمحے کا ہو وہ سہنا
یہ سوچ لینا
کہ ایک لمحہ گریز کا
کیسے
محبتوں کی اک عمر پامال کر کے گزر رہا ہے
٭٭٭
اے مسیحا کہو کہ کب تک آخر
اپنے بیمار کے گھر آؤ گے
٭٭
اب تک وہی خواب ہیں وہی میں
وہی میرے گلاب ہیں وہی میں
آنکھوں میں وہی ستارہ آنکھیں
وہی دل میں گلاب ہیں وہی میں
یہ جسم کہ جاں کی تشنگی ہے
وہی تازہ سراب ہیں وہی میں
زندہ ہوں ابھی تو مات کیسی
وہی جاں کے عذاب ہیں وہی میں
کہتی ہے زباں خموشیوں کی
وہی درد کے باب ہیں وہی میں
پڑھتے ہوئے جن کو عمر گزری
وہی چہرے کتاب ہیں وہی میں
لکھتے ہوئے جن کو جان جائے
وہی حرف نصاب ہیں وہی میں
وہی رنجشیں اپنے دوستوں سے
وہی دل کے حساب ہیں وہی میں
آتے ہیں مگر نہیں برستے
وہی تشنہ سحاب ہیں وہی میں
دنیا کے سوال اور دنیا
وہی میرے جواب ہیں وہی میں
1973ء
٭٭٭
میں زندہ ہوں
آخری رات تھی وہ
میں نے دل سے یہ کہا
حرف جو لکھے گئے
اور جو زباں بولی گئی
سبھی بیکار گئے
میں بھی اب ہار گیا یار بھی سب ہار گئے
کوئی چارہ نہیں جز ترکِ تعلق اے دل
اک صدا اور سہی آخری بار
جسم سے چھیڑاُسے روح سے چھو لے اُسے
آخری بار بہے سازِ بدن سے کوئی نغمہ کوئی لَے
آخری رات ہے یہ
آخری بار ہے یہ ذائقۂ بوسہ و لمس
آخری بار چھلک جائے لہو
گرمئ جاں سے مہک جائے نفس کی خوشبو
خواب میں خواب کے مانند اُتر جا اے دل
آخری رات تھی وہ
پھر گزر کوئے ندامت سے ہوا تو دیکھا
بام روشن ہے جو تھا
اور دروازے پہ دستک ہے وہی
میرا قاتل در و دیوار پہ کچھ نقش بناتا ہے ابھی
انگلیاں خون سے تر، دلِ کم ظرف کو ہے واہمۂ عرض ہنر
دن کی ہر بات ہوئی بے توقیر
رات ہے اور بے ضمیر
چشم ہے منتظرِ خواب دگر
خواب آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں
اور قاتل کی سزا یہ بھی کہ میں زندہ ہوں
1970ء
٭٭٭
سچ
میں بھی اک جھوٹ ہوں
تم بھی اک جھوٹ ہو
اور سچ!
اپنے ہی درمیاں ہے
جسے
میں نہیں جانتا
تم نہیں جانتے
1966ء
٭٭٭
سایۂ دیوار و در میں آ گئے
گھر کے سارے لوگ گھر میں آ گئے
مرتے تھے ہم جن گلابوں پر بہت
زخم کی صورت جگر میں آ گئے
٭٭
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیںیاد بہت آئے گا
خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو
زندگی بھر کوئی اب خواب ہی دوہرائے گا
ٹوٹ جائیں نہ کہیں پیار کے نازک رشتے
وقت ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا
عشق کو جرم سمجھتے ہیں زمانے والے
جویہاں پیار کرے گا وہ سزا پائے گا
1964ء
٭٭٭
جاگنے والوں کو کیا معلوم
جاگنے والوں کو کیا معلوم
اب کے سوئیں گے
تو کون سے خواب آئیں گے
اور کون سے سیلاب میں بہہ جائیں گے
٭٭٭
دیوی
دکھ سکھ تجھے سنانے والے
اپنی مرادیں پانے والے
دیئے جلانے، پھول چڑھانے آنے والے
دیوی ہائے زمانے والے
اِن کی محبت، اِن کی عقیدت میں اِنہی کو کستی جا
زخم پہ مرہم رکھنے والی زخم پہ مرہم رکھتی جا
باہر باہر چپ سادھے رکھ اندر اندر ہنستی جا
دکھ کہنے والوں سے دکھ سہنے والے لوگ بڑے ہوتے ہیں
جب تک چپ ہے ساتھ ہیں تیرے
جس دن بول اٹھے گی اُس دن
تُو تنہا رہ جائے گی
اِن جیسی ہو جائے گی
1973ء
٭٭٭
وجود اپنا مجھے دے دو
تمھارے ہیں کہو اک دن
کہو اک دن
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمھارا ہے
کہو اک دن
جسے تم چاند سا کہتے ہو وہ چہرہ تمھارا ہے
ستارہ سی جنھیں کہتے ہو وہ آنکھیں تمھاری ہیں
جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو وہ بانہیں تمھاری ہیں
کبوتر تولتے ہیں پر تو پروازیں تمھاری ہیں
جنھیں تم پھول سی کہتے ہو وہ باتیں تمھاری ہیں
قیامت سی جنھیں کہتے ہو رفتاریں تمھاری ہیں
کہو اک دن
کہو اک دن
کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمھارا ہے
اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو سب کچھ بخش دو اک دن
وجود اپنا مجھے دے دو محبت بخش دو اک دن
مرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کر روح میری کھینچ لو اک دن
1973ء
٭٭٭
نیلے رنگ کی چادر
آدمی خارش زدہ کتے کی طرح
اپنے پنجوں سے کھجاتا ہے زمیں کی کھال کو،
بھوک بھی لگتی نہیں اور شہوتیں بھی مر گئیں
کاش ایسا ہو کہ پھر سے
کوئی نیلے رنگ کی چادر زمیں پر پھینک دے
1972ء
٭٭٭
میں گہری نیند سونا چاہتا ہوں
بس اب خاموش ہونا چاہتا ہوں
جو بچھڑے ہیں کہ روٹھے ہیں میں اُن سے
گلے مل مل کے رونا چاہتا ہوں
٭٭
کاش ہم بچہ ہی رہتے
فلسفی بولے
زمیں کے ہاتھ میں اک شاخ ہے زیتون کی
بجھ گئی تو بجھ گئیاور کھِل اٹھی تو کھِل اٹھی
ہم ہی مر جائیں گے اک دن وقت تو مرتا نہیں
کاش ہم بچہ ہی رہتے
اور کبھی نہ ٹوٹنے والے کھلونے کھیلتے
1972ء
٭٭٭
کوئی ہوا ہو کوئی فضا ہو دیکھنے والی آنکھوں کے
اشک کہاں تھمنے ہائے ہیں زخم کہاں بھرنے پائے ہیں
جب نہیں لکھیں تب بھی لکھیں جب نہیں سوچیں تب بھی سوچیں
ہم وہ لاگ تھے جو اک پل آرام نہ کرنے پائے
پوچھو تو بتلا نہ سکیں کیا بات تھی اس میں ایسی
چاہیں تو سمجھا نہ سکیں جو رنگ نظر نے پائے
اس لمحے تو دھڑکن دھڑکن دل سے دعا نکلتی ہے
وقت تو گزرے لیکن یہ موسم نہ گزرنے پائے
(آہنگ میں لکھی گئی)
٭٭٭
ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کاروؤ تو چشمِ نم میں ہوں
تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں
چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں
اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں
لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی
ایک شعاعِ آوارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں
اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں
میں کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں
جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں
جواب تک نہیں لکھ پایا میں اُن خوابوں کے غم میں ہوں
(آہنگ میں لکھی گئی)
1973ء
٭٭٭
اب تو فراقِ صبح میں بجھنے لگی حیات
بارِ الٰہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات
جاگے کوئی ستارۂ صبحِ یقیں کہ پھر
سر سے بلند ہو گیا سیلِ توہّمات
ہر تیرگی میں تُو نے اُتاری ہے روشنی
اب خود اُتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات
کچھ آئینے سے رکھے ہوئے ہیں سرِ وجود
اور اِن میں اپنا جشن مناتی ہے میری ذات
بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
اے گردشِ زمیں مجھے آنکھوں میں اپنی دیکھ
میں ہوں، مگر یہ خواب نہیں میرے بے ثبات
1973ء
٭٭٭
ایک مصرع
بھیجتے رہیئے سلام بے نشاں پرچم کے نام
٭٭٭
تشکر: آصف محمد ڈار جنہوں نے مکمل کلیات ’یہ زندگی ہے ہماری‘ کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید