آتشِ صلیب
حصہ سوم
ڈاکٹر سلیم خان
۲۷
نیویارک شہر کے جس گیسٹ ہاوس میں وہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے اس میں کل ملا کر آٹھ کمرے تھے۔ ان میں سے ایک بڑا دیوان خانہ تھا جس میں وہ لوگ صبح سے محوِ گفتگو تھے۔ اس کے علاوہ سات خوابگاہیں تھیں جن میں سے ہر خوابگاہ کے ساتھ ایک اسٹڈی روم لگا ہوا تھا اور اس میں کھانے پینے کے سارے لوازمات فراہم کر دئیے گئے تھے۔ نوکر چاکر دوسری منزل پر رہائش پذیر تھے۔ ہر کوئی اپنے وقت پر آتا اور چپ چاپ اپنا کام کر کے چلا جاتا۔ انھیں حسب ضرورت بلانے کی بھی سہولت مہیا تھی۔
ان سارے کمروں کے دروازے باہر کے ہال میں کھلتے تھے نیز اندر سے بھی اپنے متصل کمروں میں آمدورفت کی سہولت تھی۔ مہمانوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے تھی سب سے پہلا کمرہ جان کا تھا اس کے بعد لیری گومس، گریگ اسمتھ اور تھامس کوک۔ ان چار کمروں کے بعد ایک کو خالی چھوڑ دیا گیا تھا اور چھٹے میں ہاروے کو ٹھہرایا گیا تھا۔ ہاروے کے بعد والا آخری کمرہ بھی خالی تھا۔ یہ ترتیب اتفاقیہ تھی یا کسی حکمت کے پیش نظر رکھی گئی تھی اس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ ممکن ہے عمر کا تفاوت یا فکر کا فرق اس کی وجہ رہا ہو خیر وجہ جو بھی تھی حقیقت یہی تھی۔
اپنے کمرے میں آنے کے بعد ہاروے نے سب سے پہلے ڈائنا کو فون لگایا۔ گزشتہ دو دنوں سے وہ ذہنی طور پر اس قدر پراگندہ تھا کہ اس کو فون کرنے کی سوجھی ہی نہیں۔ آج کی پیش رفت سے وہ کسی قدر مطمئن تھا۔ مونیکا کی رہائی پر اتفاق رائے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
ڈائنا فون اٹھاتے ہی اس پر برس پڑی۔ ہاروے، ہاروے ہاروے تم کس مصیبت کا نام ہو میں نہیں جانتی۔ پرسوں صبح تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہر تین دن گھنٹے بعد فون کرو گے اور آج تیسرا دن ہے۔ تمھارا ایک فون بھی نہیں آیا۔ میں تمھارا کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کاش کے تم میرے سامنے ہوتے تو میں تمہیں بتاتی۔
ہاروے بولا میری ماں اب کچھ سنو گی بھی یا بس یونہی بولتی رہو گی۔
میں کچھ نہیں سنوں گی۔
اچھا تو کیا صرف یہ جلی کٹی سنانے کی خاطر فون کا انتظار کر رہی تھیں۔
جی نہیں اگر تم وقفہ وقفہ سے فون کرتے رہتے تو یہ سننے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اس لیے تم خود ذمہ دار ہو کیا سمجھے؟
جی ہاں میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ پرسوں سے آج تک تین دن کیسے ہو گئے۔ پرسوں صبح میں نے فون کیا آج شام کو پھر کر رہا ہوں۔ بیچ میں صرف ایک دن ایسا گزرا کہ میں اپنی مصروفیت کے باعث فون نہ کر سکا۔ اس کے لیے میں تین بار معافی مانگتا ہوں میری بڑی اماں۔
ڈائنا بولی دیکھو ہاروے پہلے تم یونہی ہفتوں غائب رہتے تھے ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی تھی لیکن پھر پاپا کا حادثہ اور ایک ہفتے قبل تمھارے پراسرار طریقے پر زیر زمین چلے جانے کے واقعات نے ہمیں بہت چوکنا کر دیا ہے۔ اب کوئی آہٹ ہو تب بھی دل ڈر جاتا ہے اور جانتے ہو کل رات میں نے تنگ آ کر تمھارے پاگل دوست کو فون کر دیا۔
کون پاگل دوست؟ ہاروے نے پوچھا ……
ایک ہی تو دوست ہے تمھارا اور وہ بھی اتفاق سے پاگل ہو گیا ہے۔
یہ تم کس کی بات کر رہی ہو ڈائنا۔ لگتا ہے اس کے ساتھ تمھارا بھی دماغ چل گیا ہے۔
میں تمھارے عزیز دوست مائیکل کی بات کر رہی تھی۔
مائیکل ….کیا مائیکل نے تمہیں فون کیا تھا۔
جی نہیں ! وہ مجھے فون کیا کرتا؟ اسے فون کرنے کی غلطی مجھ سے سرزدہوئی تھی۔
لیکن تمہیں اس کو فون کرنے کی کیا سوجھی؟
در اصل جب کل رات تک تمھارا فون نہیں آیا تو میں پریشان ہو گئی۔ امی اور دادی نے بار بار مجھے تمھارے بارے میں پوچھنا جو شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد میں نے تمھاری سکریٹری سے بات کی جب اس نے بھی مایوس کیا تو میں نے سوچا کہ شاید مائیکل کو کچھ پتہ ہو لیکن اس کو فون کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا تو دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔
ہاروے نے سوچا کہیں مائیکل بھی تو اس کی طرح کسی آزمائش میں نہیں پڑ گیا؟ اور پھر کیتھی کا کیا حال ہے؟ اس لیے کہ اس تین پہیوں کی سواری کا ایک پہیہ تو پہلے ہی پنچر ہو چکا تھا اگر بقیہ دو میں سے ایک کی بھی ہوا نکل جائے تو گاڑی کا چلنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر پوچھا اچھا میری اچھی بہن یہ بتاؤ کہ تمہیں یہ کس نے بتایا کہ مائیکل پاگل ہو گیا ہے؟
کس نے کیا مطلب؟ مجھے خود مائیکل نے بتایا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔
اس نے بتایا اور تم نے مان لیا؟
میں کیوں نہیں مانوں۔ ویسے جس انداز میں وہ بات کر رہا تھا اسی سے میں سمجھ گئی کہ دماغ درست نہیں ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ تمھاری یہ چھوٹی بہن کس قدر سمجھدار ہے؟
جی ہاں میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم سے زیادہ ذہین و فطین فی الحال اس کائنات میں کوئی اور نہیں ہے لیکن یہ بتاؤ کہ تمہیں ایسا کیوں لگا اور اس نے یہ بات کیوں بتائی کیونکہ عام طور پر دیوانے اعتراف کرنے کہ بجائے تمھاری طرح اپنے آپ کو سب سے بڑا سیانا سمجھتے ہیں۔
ڈائنا سمجھ گئی کہ ہاروے کیا کہہ رہا وہ چیخ کر بولی۔ تم نے مجھے پاگل کہا۔ ہاروے تم گھر آؤ میں تمہیں دیکھ لوں گی۔ میں تمہیں بتا دوں گی کہ پاگل کیسے ہوتے ہیں؟
تمہیں بتانے کی کیا ضرورت میں تم کو دیکھ لوں گا تو مجھے خود ہی پتہ چلا جائے گا۔
اگر تمہیں یہ معلوم کرنا ہے کہ پاگل کیسے ہوتے ہیں تو مجھ سے نہیں اپنے دوست مائیکل سے ملاقات کر لینا کیا سمجھے؟
ہاں، ہاں اس سے بھی ملوں گا لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ اسے یہ انکشاف کیسے ہوا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے؟ کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ……..۔
ڈائنا نے بات کاٹ دی اور بولی جی ہاں عام پاگل ایسا نہیں کرتے ہوں گے لیکن وہ تو مجھے بہت ہی خاص قسم کا پاگل لگتا ہے۔ پہلے اس نے میری آواز کو نہیں پہچانا۔ پھر میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ بولا میں کسی ڈائنا کو نہیں جانتا اور جب میں نے پوچھا تو کیا تم کسی ہاروے کو بھی نہیں جانتے؟ وہ بولا ہاں میں کسی ہاروے کو نہیں جانتا۔ میں نے پوچھا تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو تو وہ جواباً بولا جی ہاں میں پاگل ہوں ……. پاگل۔
ا چھا ڈائنا ایک بات بتاؤ تمہیں مائیکل کا نمبر کہاں سے مل گیا؟
ڈائنا بولی کیوں؟ تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟
اس لیے کہ مجھے یقین ہے کہ جس شخص سے تم نے مائیکل سمجھ کر بات کی وہ مائیکل نہیں کوئی اور تھا۔ وہ نہ تمہیں جانتا تھا اور نہ مجھ سے واقف تھا۔ تمھارے سوالات کی بوچھار سن کر وہ پاگل ہو گیا اور اعتراف کر لیا۔
تم کیسی باتیں کرتے ہو ہاروے۔ تمھارا دوست مائیکل پاگل ہو گیا تو کیا؟ تمھاری بہن ڈائنا تو ابھی پاگل نہیں ہوئی۔ مائیکل نے مجھے نہیں پہچانا تو کیا ہوا میں تو اس کی آواز پہچانتی ہوں۔ وہ مائیکل تھا اور مائیکل ہی تھا۔ میں دھوکہ نہیں کھاسکتی ہاروے۔ اگر میں خواب میں بھی اس کی آواز سن لوں تو پہچان لوں گی۔ وہ مائیکل تھا مائیکل لیکن افسوس کہ وہ پاگل ہو چکا تھا۔
ہاروے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ڈائناسے کیا کہے؟ میری بہن ڈائنا ممی اور نانی کو سلام بولو اور اپنا خیال رکھو میں خیریت سے ہوں اور بہت جلد آپ لوگوں کے پاس آ جاؤں گا۔ تم چرچ میں جا کر میرے لیے دعا کرنا۔
بھیا میں تو ہر صبح اور شام چرچ میں جا کر تمھارے لیے موم بتی جلاتی ہوں اور جہاں تک دعا کا سوال ہے اس کے لیے کوئی وقت یا مقام کی قید نہیں ہے۔ میں ہر وقت تمھارے لیے دعا کرتی ہوں۔
میں جانتا ہوں ڈائنا تم جیسی اچھی بہن نہ کسی کی تھی اور نہ ہو گی۔ ہاروے نے محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر کہا۔
پا پا کے چلے جانے کے بعد تم ہی تو ہمارا سہارا ہو۔ ہم سب تمھارے لیے دعا کرتے ہیں۔ خداوند عالم جلد از جلد تمہیں صحیح سلامت ہمارے پاس لے آئے۔
آمین کہہ کر ہاروے نے فون بند کر دیا۔
ہاروے اپنی بہن ڈائنا کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ اس قدر جذباتی لڑکی تھی کہ جو بات اس کے ذہن پر سوار ہو جاتی تووہ کسی صورت نہ نکلتی تھی۔ اپنی عزت و وقار کا اسے بے حد خیال تھا۔ مائیکل کی بابت اس کے خیالات کا ہاروے کو اندازہ تھا لیکن مائیکل کو نہیں تھا۔ مائیکل سے اس کا اظہار نہ ڈائنا کے بس میں تھا اور نہ ہاروے کے۔ امید کی صرف ایک کرن تھی کہ خود مائیکل اپنی جانب سے پیش قدمی کرے اور رشتہ مانگے۔ ہاروے جانتا تھا کہ اگر مائیکل نے ایسا نہیں کیا تو اس کی یہ پاگل بہن واقعی پاگل ہو جائے گی اور وہ دیکھتا رہ جائے گا کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔
………………..
اپنے کمرے میں آنے کے بعد گومس نے اسمتھ کو فون کیا اور پوچھا یار ایک بات بتاؤ اس نشست میں تمہیں ویٹو کا حق کس نے دے دیا؟
کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہیں؟ اسمتھ نے سوال کے جواب میں سوال کیا۔
تم نے اچانک فیصلہ کر دیا کہ آج کا کام ختم اب میٹنگ کل تک کے لیے ملتوی۔
نہیں بھائی اسمتھ بولا ایسی بات نہیں۔ میں نے تو ایک ادنیٰ سی تجویز آپ حضرات کی خدمت میں پیش کی جسے آپ لوگ رد بھی کر سکتے تھے لیکن یہ آپ کی کرم فرمائی ہے کہ اسے شرف قبولیت سے نواز دیا۔ اس میں ویٹو کا کیا سوال ہے؟
گومس بولا یار اس قدر مدافعت کی ضرورت نہیں میں تو یونہی دل لگی کر رہا تھا۔ لیکن تم جیسا گدھے کی مانند کام کرنے والا آدمی اگر جلدی فارغ ہو جائے تو ہمیں سوچنا پڑتا ہے۔
کیا سوچنا پڑتا ہے؟
یہی کہ آج ضرور کوئی خاص ملاقات ہے ورنہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ بتاؤ کہ کیا ارادے ہیں
اسمتھ جھینپ کر بولا چھوڑو یار اس عمر میں ایسی باتیں ہمیں زیب نہیں دیتیں۔
اس میں عمر کا کیا قصور؟ اگر ایسا ہی ہوتا تو مونیکا کا معاملہ آج قومی مسئلہ نہیں بنتا۔ اچھا یہ بتا و کہ یہیں بیٹھ کر عمر کے گنوانے کا سوگ مناتے رہو گے یا باہر بھی نکلو گے؟
گریگ اسمتھ بولا نہیں یار کہاں باہر؟ میں تو تم دونوں سے بھی درخواست کرنے والا تھا کہ اگر آج کی شام آپ لوگ قربان کر دیں تو ہم لوگ آپس میں سرجوڑ کر بیٹھیں تاکہ ہاروے اور جان کے غیر موجودگی میں اس مسئلہ پر کھل کر غور و خوض کیا جا سکے۔ اس لیے کہ معاملہ خاصہ پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جی ہاں ہاروے اس قدر اڑیل ہو گا اس کا اندازہ مجھے نہیں تھا۔ خیر آنجناب کا حکم سر آنکھوں پر آپ جب بھی یاد فرمائیں بندہ پانچ منٹ کے اندر حاضرِ خدمت ہو جائے گا۔
شکریہ۔ فون بند ہو گیا۔
اسمتھ نے فون کیا رکھا کہ پھر سے گھنٹی بجنے لگی۔ اس بار تھامس کوک کا فون تھا۔ بولو کوک کیسے ہو؟
تھامس کوک نے سوال کر دیا۔ بھابی سے ڈانٹ کھا رہے تھے کیا؟….
کیوں؟ ….اس قدر طویل فون تو ان کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا اور پھر یہ ان کا حق بھی بنتا ہے کہ تمہیں ڈانٹے۔
اسمتھ بولا کیوں ایسی کون سی حق تلفی کر دی ہم نے؟
کیا یہ ظلم کم ہے کہ انھیں چھوڑ کر تنہا یہاں چلے آئے؟
یار تنہا کیا صرف میں آیا ہوں؟ تم، گومس اور جان بھی تو اپنی بیویوں کے بغیر آئے ہو پھر صرف مجھ ہی کو موردِ الزام ٹھہرانا کیا معنی؟
یار دیکھو بات صاف ہے اگر جان کے اپنی بیوی کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہوتے تو وہ مونیکا کے چکر میں کیوں پڑتا؟ اور جیسے بھی تھے اب اس سانحہ کے بعد رہی سہی بات بھی بگڑ گئی ہو گی۔ جان کی عاشقی ہی اس نشست کا سبب بنی ورنہ نہ یہ میٹنگ ہوتی اور نہ ہمیں اپنے اہلِ خانہ سے دور ہونا پڑتا۔
یہ میرے بلکہ تمھارے سوال کا جواب نہیں ہے۔ جان کو چھوڑو وہ تو بگڑا ہوا کیس ہے لیکن گومس اور تمھارا کیا مسئلہ ہے؟
گومس کی بیوی اسی کی طرح جھگڑالو ہے اس لیے وہ کسی بھی پارٹی میٹنگ میں اسے اپنے ساتھ لے کر نہیں جاتا ورنہ خدا نخواستہ جان اور مونیکا کے بجائے گومس اور اس کی بیوی کی لڑائی ہماری میٹنگ کا موضوع بحث بن جائے۔
اچھا اب سب ہو چکے تم اپنا مسئلہ بھی بتا دو۔
بھئی میرا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ شرما کر بولا میں نے سوچا کہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان میں اکیلا اپنی اہلیہ کے ساتھ آؤں گا تو لوگ کیا کہیں گے؟ یہی نا کہ بیوی سے ڈرتا ہے۔
اگر ڈرتے بھی ہو اس میں عجیب کیا ہے، سبھی خاوند اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں۔
کوک بولا مگر میں تو کچھ زیادہ ہی ڈرتا ہوں۔
کیوں اسمتھ نے سوال کیا۔
اس لیے کہ میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اگر وہ ناراض ہو جائے تو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ میں کسی بات پر توجہ نہیں دے پاتا۔ بس کھویا کھویا سا رہتا ہوں۔ اس کیفیت سے مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔
لیکن اس میں برا کیا ہے؟ اسمتھ نے پھر سوال کیا اپنی بیوی سے ڈرنا یا محبت کرنا کوئی بری بات تو نہیں ہے؟ بلکہ میرے خیال میں تو یہ اچھی بات ہے۔
اسمتھ نے کوک کی دلجوئی کی تو وہ بولا تم صحیح کہتے ہو لیکن لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ لوگ ایسے آدمی کو بزدل بلکہ نامرد تک کہہ دیتے ہیں حالانکہ نامرد کی نہ بیوی ہوتی ہے اور نہ اسے محبت یا ڈر ہوتا ہے۔ یہ سب تو مردوں والے کام ہیں لیکن لوگ نہیں سمجھتے کوک نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا۔
اسمتھ بولا بے وقوف لوگ نہیں سمجھتے تو نا سمجھیں۔
اچھا اگر لوگ بے وقوف ہیں تو میرے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟
میں بھی تمہیں پہلے بے وقوف ہی سمجھتا تھا لیکن اب میری رائے بدل گئی ہے۔
میں تمہاری تازہ رائے جاننا چاہتا ہوں۔
اسمتھ بولا میرے خیال میں تم ایک حقیقت پسند انسان ہو۔ حق کو حق سمجھتے ہو اور اسے تسلیم کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے۔
اچھا ایسا ہے؟ کوک نے کہا لیکن وہ تو ایسا نہیں کہتی۔
اسمتھ بولا اس کو گولی مارو اور یہ بتاؤ کہ تم نے فون کیوں کیا تھا۔
کوک بولا گولی ماریں میرے دشمن۔
ہاں بھئی گولی تو دشمن ہی ماریں گے دوست کیوں کر گولی مارنے لگے۔
اسمتھ نے تائید کی تو کوک نے جواب دیا فون کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کام تو تم نے جلدی ختم کروا دیا اب کریں تو کیا کریں؟
کیوں تمھارے کمرے میں ٹیلی ویژن نہیں ہے یا اس پر خبریں نہیں آتیں؟
کوک نے قہقہہ لگا کر جواب دیا اسمتھ تم بھی کبھی کبھار بہت اونچا مذاق کر لیتے ہو۔ یہ خبریں تو ان لوگوں کی دل لگی کا سامان ہیں جو حقائق سے نابلد ہیں۔ انہیں اس بدھو بکسے کے ذریعہ بہلایا اور ٹہلایا جاتا ہے۔ ہم لوگ جو خبریں بناتے ہیں ان کے لیے اس کی کیا اہمیت؟
اچھا تو تم ٹیلی ویژن کی خبروں کو کیا سمجھتے ہو؟
جھوٹ کا پلندہ اور افواہوں کی مشین۔
اسمتھ بولا یار کیا بات ہے آج تو تم پر حقیقت پسندی کا بخار کچھ زیادہ ہی چڑھا ہوا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ آپس میں ہم تینوں کی ایک نشست ہو جائے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
کوک نے کہا اوہو یہی تو میں بھی سوچ رہا تھا کہ گریک اسمتھ نام کا گھوڑا اتنی جلدی کیسے تھک کر بیٹھ گیا؟
گولی مارنے کی تو نہیں سوچ رہے تھے اس لیے کہ گھوڑا اگر بیٹھ جائے تو …….
کوک نے جملہ کاٹ دیا اور بولا بار بار گولی مارنے کی بات نہ کیا کرو مجھے ڈر لگتا ہے ویسے بھی میرا دل کمزور ہے۔
اسمتھ نے بولا تمھارا دل کمزور نہیں نرم ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں وہ تو دل کی سختی ہے جو معیوب ہے۔
شکریہ اسمتھ لیکن تم بھی بیٹھے کب ہو؟ خیر ملنا کس وقت ہے؟
ایک گھنٹہ بعد اگر آپ دونوں مناسب سمجھو؟
ہاں بے شک تب تک سستا لیتے ہیں۔
کوک نے اسمتھ کا فون رکھا اور اپنی پیاری بیوی کا فون ملانے لگا۔
٭٭٭
۲۸
ایک گھنٹے کے بعد امریکی سیاست کے تین جانور گھوڑا، گدھا اور ہاتھی تھامس کوک کے اصطبل میں بندھے ہوئے تھے۔ ان میں سے گریگ اسمتھ بغیر تھکے اس عمر میں بھی بے تکان دوڑتا رہتا تھا۔ لیری گومس گدھے کی مانند وفادار تھا کسی بات کو سمجھتا تو نہیں تھا مگر جب آپے سے باہر ہوتا یہ دیکھے بغیر کہ اس کے پیچھے کون ہے دولتی جھاڑ دیتا تھا؟ تھامس کوک ہاتھی کی مانند اپنے آپ میں مست جھومتا ڈولتا چلتا رہتا تھا۔ اس کا جسم گو کہ بہت بڑا تھا مگر آنکھیں نہایت چھوٹی اس لئے وہ بیچارہ وسعت النظری سے محروم تھا۔ بھولا بھالا ہاتھی ہر کسی کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتا تھا۔ کبھی قوم کی، کبھی پارٹی کی تو کبھی بیوی کی خدمت میں مصروف رہتا تھا۔
کوک فی الحال اسمتھ اور گومس کی خدمت پر مامور تھا۔ وہ دونوں اسی کی خوابگاہ سے متصل اسٹڈی روم میں براجمان تھے۔ کوک نے میز پر تین گلاس رکھے اور پوچھا کیا پیو گے؟
لیری گومس فوراً بولا میرے لیے لال پری میرا مطلب ہے سرٖخ وہسکی۔
اور میرے لیے لیمو کا رس اسمتھ نے کہا۔
کیا مذاق کرتے ہو اسمتھ؟ گومس بولا یہ تو عورتوں اور بچوں والی مشروب ہے۔ کچھ مردوں والی بات ہو جائے۔
اسمتھ بولا جی نہیں شکریہ میں اس کے بغیر ہی ٹھیک ہوں۔ میرا مطلب ہے مرد ہوں۔
میں سمجھا نہیں؟ گومس نے پوچھا۔
اسمتھ نے جواب دیا مطلب صاف ہے میری مردانگی اس کی محتاج نہیں ہے۔
لیری گومس بولا یا تو وجہ بتاؤ یا نوش فرماؤ ورنہ یہ لال پری ناراض ہو جائے گی۔
وجہ کوئی خاص نہیں ہے۔ اسمتھ نے کہا۔
گومس نے کہا اگر کوئی خاص وجہ نہیں ہے تو ایک آدھ پیگ سہی۔
اسمتھ بولا گومس تم تو جانتے ہی ہو کہ بے جا اصرار اکثر ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے۔
ہاں مگر تمھاری یہ بات کہ کوئی خاص وجہ نہیں ہے میرے حلق سے نہیں اتری۔
اسمتھ نے جواب دیا تب تو حساب برابر ہو گیا میری بات تمھارے گلے سے نہیں اترتی اور تمھاری شراب میرے حلق سے نیچے نہیں اترتی۔ چلو اس طرح مصالحت ہو گئی۔
گومس نے اصرار جاری رکھا اور بولا تمھاری بات چونکہ غلط ہے اس لیے ……
اسمتھ کا جواب تھا اور تمھاری شراب غلط ہے اس لیے میرے ……….
تھامس کوک نے مداخلت کی اور بولا یار ہم لوگ آپس میں الجھے رہیں گے تو دوسروں کا تنازع کیسے سلجھائیں گے؟ اگر کسی کو شراب پسند نہیں توزبردستی کیوں اس کے منھ میں ٹھونستے ہو۔
اسمتھ بولا میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ اپنی رائے کسی پر تھوپنے کے بجائے دوسروں کی رائے کا احترام کرنا اگر ہم سیکھ جائیں تو بہت سارے مسائل آپ سے آپ حل ہو جائیں گے۔
لیری گومس نے کہا لیکن اس کی رائے کا حق بجانب ہونا بھی تو ضروری ہے؟
اسمتھ نے جواب دیا لیکن اس کے حق بجانب ہونے کا فیصلہ کون کرے وہ خود یا ہم لوگ؟ اگر وہ خود کرے گا تو بات نہیں بگڑے گی لیکن اگر ہم کریں گے تو جھگڑا ہو جائے گا۔
تھامس کوک بولا کہ مجھے ایسا لگتا ہے آپ دونوں کی بحث نادانستہ طور پر جان اور ہاروے کے قضیہ میں تبدیل ہو گئی ہے۔
اسمتھ نے کہا کوک تم صحیح کہتے ہو ہمیں اس تنازع میں بھی اپنی رائے کو تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہئے ورنہ کام خراب ہو جائے گا۔
وہ تو ٹھیک ہے گومس بولا لیکن ہاروے جو اپنی رائے ہم پر تھوپ رہا ہے اس کا کیا؟
اسمتھ نے کہا میرے خیال میں ہاروے اپنی رائے نہیں تھوپ رہا ہے بلکہ وہ تو اپنا دفاع کر رہا ہے۔ وہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے رہا ہے کہ ہم زبردستی اس پر اپنی من مانی چلا سکیں۔ چونکہ ہم اس کے عادی نہیں ہیں اس لیے اس کا نقطۂ نظر ہضم نہیں کرپا رہے ہیں۔
گومس بولا یار اسمتھ میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ یا تو تم خاموش رہتے ہو یا ہاروے کی تائید کرتے ہو۔ کہیں تم لوگوں کے درمیان کوئی معاملہ تو نہیں طے ہو گیا ہے؟
کیا واقعی تمہیں ایسا لگتا ہے؟ اسمتھ کے ماتھے پر شکن تھی۔
نہیں یار میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔
یہ میرا بھی مشاہدہ ہے تھامس کوک بولا چلو اچھا ہوا تصدیق ہو گئی۔
اسمتھ نے کہا کیا تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ اسی سبب سے بات یہاں تک پہنچی ہے ورنہ صبح ہی میں ٹوٹ گئی ہوتی۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دلائل کو دیکھتا ہوں اور لیری گومس جذبات سے کام لیتے ہیں۔
کوک بولا میرے بارے میں کیا خیال ہے۔
تم پر کبھی جذبات غالب آ جاتے ہیں اور کبھی تم دلائل سے مرعوب ہو جاتے ہو۔
گومس بولا تمھاری منطق میری سمجھ سے پرے ہے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ایک فریق کی ساری باتیں مان لی جائیں تاکہ معاملہ نمٹ جائے۔
اسمتھ نے کہا جی نہیں ! ہمیں فریقین کی جانب سے پیش کیے جانے والے دلائل کو دیکھنا چاہئے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ کسی ایک فریق کے دونوں دلائل صحیح اور دوسرے کے دونوں غلط ہوتے ہیں۔ ایسے میں انصاف کا تقاضہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ دونوں کی ایک ایک بات تسلیم کر لی جائے۔ اس طرح ایک غلط اور ایک صحیح بات کو مان لینا مساوات تو ہو سکتا ہے انصاف نہیں۔
تھامس کوک نے کہا لیکن عدالت کے باہر تو قضیہ اسی طرح کچھ لے دے کر چکایا جاتا ہے ورنہ تو پھر سب کچھ عدلیہ پر ہی چھوڑ دیا جائے۔
اسمتھ بولا تمھاری بات درست ہے کوک لیکن اس لین دین پر دونوں فریقوں کا اتفاق ضروری ہے ورنہ بات گھوم کر پھر عدالت میں چلی جاتی ہے۔
لیری گومس بولا میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ آخر ہاروے چاہتا کیا ہے؟ جب مونیکا کی رہائی کا راستہ صاف ہوا تو اس نے جان کو اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے سے منع کیا۔ جب وہ اس پر بھی راضی ہو گیا تو اب وہ اسے سزا دلانے پر تل گیا۔ میرے خیال میں یہ زیادتی ہے۔
ایسا تمہیں لگتا ہے اسمتھ بولا لیکن اسے نہیں لگتا۔
اس بے وقوف کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تمہیں کیا لگتا ہے۔ گومس نے سوال کیا۔
مجھے …….اسمتھ بولا مجھے کچھ نہیں لگتا۔ در اصل جس وقت تم لوگ اس سے بحث کر رہے تھے میں چپ چاپ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کے تاثرات سے مجھے ایسا لگا کہ یہ شخص رتی بھر مصالحت پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اسے پتہ ہے کہ انصاف کیا ہے۔ اگر وہ یہاں مل جائے تو یہاں سے لے جائے گا ورنہ عدالت میں جا کر قسمت آزمائی کرے گا لیکن خاموش نہیں بیٹھے گا۔ وہ اپنے فلاح و خسران سے بے نیاز ہو چکا ہے اور یہی بے نیازی ہے جس نے اس کو حد درجہ جری بنا دیا ہے۔
تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اس کے ساتھ ہو جائیں اور جان ڈیو پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس کے آگے جھک جائے۔ گومس بولا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ جان کس قدر بارسوخ آدمی ہے؟ یہ تو اس کی شرافت ہے کہ اس نے دو شرائط تسلیم کر لیں۔
شرافت نہیں، یہ اس کی مصلحت کوشی ہے۔ تھامس کوک بولا جان ڈیو کا غرور رفتہ رفتہ ٹوٹ رہا ہے۔ جان ڈیو کو اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس کے منھ لگے گا لیکن مونیکا نے اس کا منھ نوچ لیا۔ جان نے مونیکا کے چہرے پر کالک پوت کر اسے جیل بھیج دیا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا ہاروے اس کی حمایت میں اس طرح کھڑا ہو جائے گا کہ وہ کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ جان اب بری طرح پھنس چکا ہے سب سے منھ چھپاتا پھر رہا ہے۔
اسمتھ بولا کوک تمھاری بات بالکل درست ہے جان نے جس غلطی کا ارتکاب کیا ہے ہاروے اسی کی سزا دلانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ کہہ دیں گے تو جس طرح ہاروے نے ہمارے پہلے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اسی طرح جان دوسرے سے مکر جائے گا اور ہماری ساری کوشش بے سود ہو جائے گی۔ اس لیے میں اس معاملے میں آگے بڑھنے سے قبل ان شواہد کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو عدالت میں جمع کرائے گئے ہیں۔ ہاروے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اسی پر ہے اس لیے کہ اگر وہ مضبوط ہوئے تو جان پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہ ہو گا اور اگر وہ کمزور ہوئے تو ہاروے کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے۔
گومس نے کہا لیکن عدالت میں جمع شواہد تک ہماری رسائی کیوں کر ممکن ہے؟
اسمتھ نے جواب دیا ہم نہ سہی مگر جج صاحب تو دیکھ سکتے ہیں اور اپنی رائے سے ہمیں واقف کر سکتے ہیں۔
گومس بولا یار اسمتھ تم تو ایسے بات کر رہے ہو جیسے کہ قوم کی عنانِ حکومت تمھارے ہاتھوں میں ہے۔ ارے بھئی ہم کون ہوتے ہیں کہ جج صاحب ہمیں یہ معلومات فراہم کر دیں؟
اسمتھ نے مسکرا کر کہا تمھارے سوال میں جواب پوشیدہ ہے۔ ہمیں نہیں تو اسے بتا دیں جس کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے۔ جب صدر دفتر سے فون جاتا ہے تو مردہ بولنے لگتا ہے۔ جج صاحب ہم سے نہیں ان سے کہیں گے اور ہم بھی اسے سنیں گے مسئلہ حل ہو جائے گا۔
کہیں وہ جج بھی ہاروے کی طرح بد دماغ نکل گیا تو کیا ہو گا؟ کوک بولا
اس طرح کے سرپھرے کم ہی پائے جاتے ہیں اور وہ بیچارے جج کے اہم عہدے پر نہیں پہنچ پاتے درمیان ہی میں کہیں نہ کہیں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔
گومس نے پوچھا کوک تمھارا کیا خیال ہے جان جیسے لوگ کتنے ہوتے ہیں؟
کوک نے جواب دیا اس طرح کے لوگ بھی کم ہی پائے جاتے ہیں۔
اسمتھ بولا زیادہ تر لوگ ہماری طرح کے ہوتے ہیں۔ نہ اِدھر نہ اُدھر۔
تھامس کوک بولا دیکھو اسمتھ یہ تمھاری تجویز ہے اس لیے صدر دفتر سے تمہیں رابطہ کرو اور کانفرنس کال کا اہتمام کرواؤ۔ ان تینوں کے گلاس پھر سے بھر دئیے گئے تھے۔
صدر مملکت کے دفتر نے اسمتھ کو آگاہ کیا ٹھیک نصف گھنٹے بعد صدر محترم اول تو آپ سے بات کریں گے اس کے بعد ہی اگر ضروری ہوا تو کانفرنس کال کا انعقاد ہو گا۔ اپنے بستر پر دراز اسمتھ سوچ رہا تھا کہ صدر صاحب کو جان ڈیو کی حقیقت سے کس طرح آگاہ کرایا جائے اس لیے کہ وہ ان کا منظورِ نظر اور معتمدِ خاص ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس مسئلہ پر بلا تکلف اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔
آدھے گھنٹے بعد جب فون کی گھنٹی بجی تو کھنکار کر اپنا گلا صاف کرنے کے بعد اسمتھ نے فون اٹھایا اور دعا سلام کے بعد مختصراً دن بھر کی پیش رفت سے آگاہ کر دیا۔ اس نے دبے لفظوں میں یہ بھی بتلا دیا کہ جان کا سیاسی گوشوارہ فی الحال خسارہ دکھلا رہا ہے اور یہ خسارہ آگے چل کر پارٹی اور حکومت دونوں کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔
صدر نے پوچھا کہ کیا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے؟
اسمتھ نے تائید کی اور بولا یہ میرا گمان ہے اور اس کی تصدیق وہ جج کر سکتا ہے جس کے پاس شواہد موجود ہیں۔ اس لیے آپ برائے کرم اس جج کو ان کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھ سے رابطہ کرنے کا حکم دیں تاکہ میں اس سے بات کر سکوں۔
صدر محترم نے اسمتھ کی بات سے اتفاق کیا اور بولے چونکہ جان کا معاملہ ہے اس لیے میں بھی اس میں شریک ہونا چا ہوں گا۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ پولس پر ہاروے کو حاضر کرنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی والے بہت زیادہ شور مچا رہے ہیں اس لیے اسے اب زیادہ دنوں تک نظر بند رکھا نہیں جا سکتا۔
اسمتھ نے تائید کی اور فون بند ہو گیا۔ پانچ منٹ بعد صدارتی دفتر سے فون آیا جج نے مطالعہ کے لیے دو گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔ تین گھنٹے ویڈیوکانفرنس کا انعقاد ہو گا جس میں صدر مملکت اپنے مشیرانِ خاص کے ساتھ شریک ہوں گے۔ اسمتھ نے شکریہ ادا کر کے کوک اور گومس کو آگاہ کر دیا۔ اس دوران یہ تینوں کھانا کھانے کے لیے باہر نکل گئے تاکہ ماحول میں تبدیلی آئے اور وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے لیے تازہ دم ہو سکیں۔
باہر جاتے ہوئے ان تینوں نے مرکزی ہال میں دیکھا کہ جان ڈیو شراب کے نشے میں دھت پڑا ہوا ہے۔ کوک نے اسے جگا نے کوشش کی لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ کوک نے ملازمین سے کہا کہ وہ جان کو اٹھا کر اس کی خوابگاہ تک پہنچا دیں۔ نوکروں کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ڈیڑھ سوکیلو کی لاش کے لیے ہلکی کرین منگوائی جاتی لیکن اسے کمرے کے اندر لانا دشوار تھا۔
ملازمین نے جان کو اٹھانے کی کوشش کی تو مدہوشی کے عالم میں وہ اول فول بکنے لگا۔
اے کون ہے؟ کون ہے یہ؟
ہاروے، ہاروے تم یہ کیا کر رہے ہو؟ تم مجھے کیوں اٹھا رہے ہو؟
تم مجھے اٹھا نہیں سکتے میں بہت بڑا آدمی ہوں۔ میں بہت بھاری آدمی ہوں۔
ارے یہ کیا؟ تم نے مجھے اٹھا لیا۔ یہ گومس، کوک اور اسمتھ بھی تمھاری مدد کو آ گئے۔
تم مجھے ان کی مدد سے اٹھا کر کہاں لے جا رہے ہو؟ کہاں … کہاں؟ ؟
مونیکا کے پاس۔ مجھے نہیں جانا اس کتیا کے پاس۔ مجھے وہ منحوس لڑکی نہیں چاہئے۔
تم اسے اپنے ساتھ لے جاؤ۔ جہاں چا ہو لے جاؤ۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
تم مجھے چھوڑ دو۔ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ خدا کے لیے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔
جان نے جس وقت یہ جملہ ادا کیا تو نوکر اسے بستر پر لٹا چکے تھے۔ نوکر آپس میں بات کر رہے تھے۔ اس کی ٹائی کا کیا کریں؟ کہیں یہ اس کے گلے کا پھندا نہ بن جائے۔
دوسرے نے کہا اسے ڈھیلا کرو، ورنہ یہ بھینسا اسی میں لٹک کر مر جائے گا۔
مرنے دو اسے ایسے لوگوں کو موت اسی طرح آتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے پھندے کستے ہیں خود بھی ایک دن اسی میں لٹک کر مر جاتے ہیں۔
یہ نوکر در اصل سی آئی اے کے مخبر تھے۔ ان لوگوں کو اسمتھ اور کوک کی گفتگو کا علم تھا۔ صدر کی کال بھی وہ سن چکے تھے۔ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے؟ جب ایک نوکر جان کی ٹائی ڈھیلی کرنے لگا تو وہ گالیاں بکنے لگا۔
اے کون ہے۔ کون ہے یہ سور کا بچہ جس کا ہاتھ میری گردن تک پہنچ گیا۔
یہ میری گردن کون ناپ رہا ہے؟ گومس نہیں۔ کوک نہیں نہیں یہ تو اسمتھ کا ہاتھ لگتا ہے
نہیں وہ اس قدر سخت نہیں ہو سکتا۔
ارے یہ نوکیلے ناخون اس کی اجازت تو صرف صدرِ محترم کو ہے۔
اوہو معاف کیجیے صاحب میں آپ کو پہچان نہیں سکا غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دیجیے۔
جان بولے جا رہا تھا۔ میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ ہاروے ہے۔
حرامزادہ کہیں کا، ولیم کا بچہ۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
میں اسے ہر گز نہیں چھوڑوں گا لیکن آپ مجھے چھوڑ دیجیے۔ مجھ پر رحم کیجیے۔
میں ایسا نہیں کروں گا کبھی نہیں کروں گا۔
اس کمینی مونیکا کی طرف کبھی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھوں گا۔ کبھی نہیں …….
کبھی نہیں ……. کبھی بھی نہیں …….
اور اسی کے ساتھ جان کی آواز ڈوب گئی۔
اس کی گردن ایک جانب لڑھک گئی، وہ گہری نیند میں سو گیا۔
٭٭٭
۲۹
ویڈیو کانفرنس کا اہتمام اوپری منزل پر تھا۔ جدید ترین الکٹرانک سہولیات سے لیس اس کمرے کی دیواریں ایل سی ڈی پردے میں تبدیل ہو گئی تھیں۔ سامنے والی دیوار پر جج صاحب اپنے نائب کے ساتھ بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ اور دائیں بائیں کی دیواروں پر صدرِ محترم کا کمرہ مختلف زاویوں سے دکھلایا جا رہا تھا۔ ایک کیمرہ صدارتی مہمان خانے کی منظر نگاری کر رہا تھا جس میں وہ اس وقت براجمان تھے اور دوسرا صرف ان کے چہرے پر مرکوز تھا تاکہ ان کے احساسات و جذبات کی عکاسی کر سکے۔
اس کانفرنس کے شرکاء صدر محترم کو اس قدر قریب سے دیکھ سکتے تھے کہ، ان کے روبرو بیٹھ کر بھی ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس فلم کو دو بارہ دیکھنے کی سہولت بھی تھی اسے دھیمی رفتار سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
نشست کا آغاز صدر محترم کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ انھوں نے شرکاء سے درخواست کی کہ اس سنجیدہ مسئلہ پر ہر قسم کے جذبات سے عاری ہو کر معروضی گفتگو کی جائے۔ کسی کی شخصیت یا حیثیت ہماری رائے پر اثر انداز نہ ہو۔ خود میری اپنی بھی نہیں۔ ہمیں پارٹی اور حکومت کے مفاد میں ایک اہم فیصلہ کرنا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ انھوں نے جج صاحب کو اپنے تاثرات پیش کرنے کا حکم دیا۔
جج صاحب نے بتایا کہ جو شواہد عدالت میں جمع کیے گئے ہیں وہ نہایت واضح ہیں۔ آواز بالکل صاف ہے۔ اس کے ساتھ مواصلاتی تفصیل منسلک ہے۔ اس ٹیپ میں جان ڈیو نے جن ارادوں کا اظہار کیا ہے وہ پولس میں درج شکایت سے مختلف ہیں۔ جج صاحب نے اندیشے کا اظہار کیا کہ اس کی نقل مدعا الیہ کے پاس ہو سکتی ہے اور اگر وہ اسے ذرائع ابلاغ کے حوالے کر دے تو عدالت کے لیے جان ڈیو کی مدد کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
جج صاحب خاموش ہوئے تو سارے شرکاء کوسانپ سونگھ گیا۔ مشیرانِ صدر میں سے ایک چک ڈینی نے کہا اس معاملے کو عدالت میں جانے سے پہلے رفع دفع کر دینا لازمی ہے۔ ورنہ یہ ہماری شدید رسوائی کا سبب بنے گا اور انتخابات کے دوران ہمارے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔
اسمتھ نے اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے سوال کیا مگر اس کام کو کیسے کیا جائے؟
میری رائے میں اس کی بھاری قیمت چکانے سے بہتر ہے ہاروے کو خرید لیا جائے۔
لیری گومس نے کہا ہاروے کو خریدنا ناممکن ہے۔
اسے ڈرا دھمکا کر دہشت زدہ کر دیا جائے۔
تھامس کوک بولا اسے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مٹ توسکتا ہے دب نہیں سکتا۔
صدر نے مداخلت کی اور بولے فی الحال ہاروے ذرائع ابلاغ کی نظر میں ہے اس لیے اس کی ایذارسانی بے حد مہنگی پڑے گی۔
گریگ نے کہا بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کا ہاروے کا باہر آ کر یہ کہہ دینا کہ اسے سی آئی اے نے اغوا کر کے غیر قانونی حراست میں رکھا تھا ہماری بربادی کے لیے کافی ہے۔
صدر محترم بولے فی الحال اس کا بال بیکا نہ ہو گا بعد میں اسے دیکھ لیا جائے گا۔
اسمتھ نے کہا ہاروے کو ہماری کمزوری کا احساس ہے اس لیے وہ مطمئن ہے۔
لیری گومس نے اعتراض کیا تو کیا وہ ہمیں بلیک میل کر رہا ہے؟
تھامس کوک بولا وہ کیا کر رہا ہے؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جج صاحب بولے فی الحال ہمارے پاس ہاروے کی شرائط مان لینے کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے۔
لیکن آخر وہ چاہتا کیا ہے؟ چک ڈینی نے پوچھا۔
وہ چاہتا ہے کہ جان کو سزا ملے۔
وہ کیا سزا دلانا چاہتا ہے؟
یہ ہم نے نہیں پوچھا اس لیے کہ اس متبادل پر ہم نے غور ہی نہیں کیا۔
ہاروے کے خیال میں ممکنہ سزا کیا ہو سکتی ہے؟ یہ صدر صاحب کا سوال تھا۔
تھامس بولا مثلاً وہ پارٹی کے عہدے سے دستبردار ہو جائے یا سیاست چھوڑ دے۔
گومس بولا وہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ اسے بھی مونیکا کی طرح جیل بھیج دیا جائے۔
ہم اس احمقانہ مطالبے کو قبول نہیں کر سکتے۔ جان ہمارا وفادار ساتھی رہا ہے لیکن پہلی شرائط پر غور ہو سکتا ہے۔ اسمتھ تم کوشش کرو کہ پہلی دو تجاویز میں سے کسی ایک پر راضی ہو جائے۔ صدر صاحب اپنی حتمی رائے دے دی۔
جی جناب میں پوری کوشش کروں گا۔
اسی کے ساتھ دیواریں تاریک ہو گئیں اور نشست برخواست ہو گئی۔ ایک گہری تاریکی نے تینوں شرکاء کو نگل لیا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ ایک ملازم نے آ کر قمقمے روشن کیے تو وہ تینوں خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے کمروں کی جانب چل دئیے۔ کسی نے ایک لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالا۔ انھیں پتہ تھا کہ جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے وہ کس قدر مشکل ہے۔
نہ تو اس بات کا امکان تھا کہ اس فیصلے کو جان تسلیم کر لے اور نہ یہ ممکن تھا کہ ہاروے اس پر راضی ہو جائے۔ اس کے باوجود اس اہم ترین ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک دن کی مہلتِ عمل تھی۔ ان تینوں حضرات کے سامنے سب سے مشکل مرحلہ جان ڈیو کو اس گفتگو سے آگاہ کرنے کا تھا۔ اسی کے ساتھ اس کو ہاروے سے پوشیدہ رکھنا بھی ضروری تھا۔ اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار بتانے اور چھپانے کی مہارت پر تھا۔
اسمتھ تقریباً ایک گھنٹے تک اپنے بستر پر دراز ہو کر اس سوال پر غور کرتا رہا لیکن اسے کوئی سرا نہیں ملا۔ نیند کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ بالآخر اس نے اپنے پڑوسی تھامس کوک کو فون لگایا۔ اگر میں تمھاری نیند میں خلل انداز ہوا ہوں تو اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ اسمتھ ملتجیانہ انداز میں بولا۔
نیند کیسی نیند؟ میں ابھی ابھی گومس کے کمرے سے لوٹا ہوں۔ ہم لوگ تمہیں بھی بلانا چاہتے تھے لیکن سوچا تم سادھو آدمی ہو سو چکے ہو گے۔ اگر موڈ ہو تو میرے کمرے میں آؤ میں اسے بھی بلا لیتا ہوں مجھے یقین ہے کہ وہ جاگ رہا ہو گا۔
اسمتھ بولا ٹھیک ہے میں ابھی حاضر ہوا اور کوک کے کمرے کی جانب چل پڑا جہاں گومس پہنچ چکا تھا۔ اسمتھ نے کہا ہاں تو دوستو آپ لوگ کیا سوچتے ہیں؟
لیری گومس بولا یہ تمھارا دردِسر ہے کہ تم ہاروے کو پہلی دو شرائط میں سے کسی ایک پر راضی کرنے کی کوشش کرو۔ ہم اس بکھیڑے میں کیوں پڑیں؟
اچھا ……
نہیں یار یہ تو مذاق کر رہا ہے۔ در اصل یہ خود نہیں بلکہ وہ لال پری بول رہی ہے جو اس کے رگ و پے میں دوڑ رہی ہے۔ تھامس کوک نے اپنے دوست گومس کی صفائی پیش کی۔
لیری گومس بولا نہیں، ایسی بات نہیں در اصل حالات نے جس طرح پلٹا کھایا ہے اس نے میرے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ یہاں آنے سے قبل یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ پورا کا پورا وزن ہاروے کے پلڑے میں آگرے گا اور صدر محترم بھی اس کے ہمنوا بن جائیں گے۔ جان ڈیو اس قدر بے وزن ہو جائے گا یہ بات بھی میرے خواب و خیال میں نہیں تھی۔
کوک نے تائید کی جان ڈیو کی یکے بعد دیگرے کی جانے والی حماقتوں نے اس کی ہوا اکھاڑ دی اور میزان کا تو اصول یہی ہے کہ ایک پلڑا ہلکا ہو کر اوپر کو اٹھ جائے تو دوسرآپ سے آپ بھاری لگنے لگتا ہے۔
اسمتھ نے کہا سوال صرف لگنے کا نہیں ہے۔ بلکہ ہونے کا ہے۔ اب ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ جو پلڑا نیچے کی جانب جھکا ہوا ہے وہی بھاری بھی ہے۔
ہم لوگوں کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا جس قدر آسان ہے جان کے لیے اتنا ہی مشکل ہے۔ سوال یہ ہے اس فیصلے سے اسے کیسے آگاہ کیا جائے؟ گومس نے پوچھا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ اسے سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ جائے گا اور ہم سب کے لیے اس کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس صورتحال سے ہاروے کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔
اسمتھ بولا میرے ذہن میں جو حل ہے اس پر میں آپ لوگوں کی رائے چاہتا ہوں۔
تھامس نے کہا لیکن بولو گے بھی یا یونہی پہیلیاں بجھواؤ گے۔ میرا خیال ہے کہ ہم جان کو یہ فیصلہ ہی نہ بتلائیں۔
یہ تو واقعی پہیلی ہے۔ گومس بولا اس فیصلے پر جان ڈیو کو راضی کرنے کے لیے اسے فیصلے سے واقف کرنا ناگزیر ہے۔
اسمتھ نے کہا جی ہاں میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کیوں نہ اس کانفرنس کی ویڈیو اس کے حوالے کر دی جائے۔ جب وہ اپنے کمپیوٹر پر اسے تنہائی میں دیکھ لے گا تو سب کچھ سمجھ جائے گا۔
گومس بولا یہ زبردست تجویز ہے اس سے جان ڈیو کو تمام شرکاء کی رائے کا پتہ چلا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ اسے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے گا۔
کوک بولا ایسا کرتے ہیں کہ کل علی الصبح اسے یہ ڈی وی ڈی تھما دیتے ہیں اور نشست تاخیر سے رکھتے ہیں۔ ویسے بھی اس شب بیداری کے بعد سونے کے لیے صبح کا وقت ہے۔
لیکن اس احمق کا کیا کیا جائے جس نے سارا ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے؟ گومس نے پوچھا۔
کوک بولا کیا تم اب بھی ہاروے کو احمق سمجھتے ہو؟
گومس بولا ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑے گا کہ اسے اس کی بھنک نہ لگنے پائے ورنہ وہ اور اکڑ جائے گا۔
جی ہاں اسمتھ نے کہا اور اس سے یہ بھی تو پتہ چلانا ہے کہ وہ کس سزا پر راضی ہو گا۔ اگر جیل پر اصرار کرے تواس کو سمجھانا ایک بڑا دردِ سربن جائے گا۔
تھامس کوک بولا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہاروے ایک سیاستداں کا بیٹا ہے۔ اس کی پرورش سیاسی ماحول میں ہوئی ہے اس لیے اسے یہ سمجھنے میں مشکل نہیں پیش آنی چاہئے کہ عہدے سے دستبرداری جیل سے بڑی سزا ہے بلکہ سیاست کی دنیا میں جیل یاترا نے کئی لوگوں کو زیرو سے ہیرو بنا دیا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ خود ہاروے کی غیر قانونی گرفتاری ہی ہے آج کی تاریخ میں اس کی قوت کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔
گومس بولا اسمتھ آج چونکہ تم ہاروے کی حمایت کر کے اس کا دل جیت چکے ہو اس لیے کل تمہیں کو اس سے بات کرنی چاہئے۔
اسمتھ نے اپنی صفائی پیش کی میں نے نہ تو حمایت کی ہے اور نہ سیاست۔ وہ میرا ا دوست ہے نہ رشتہ دار، میں نے تو ان عقلی دلائل کو تسلیم کیا جو اتفاق سے ہاروے نے پیش کیے۔
کوک بولا یہ اچھا ہوا کہ کل کی حکمت عملی طے ہو گئی میرا خیال ہے کہ اب ہم اطمینان سے سو سکیں گے۔
ہمارا بھی یہی خیال ہے اسمتھ اور گومس نے ایک ساتھ تائید کی اور اپنے اپنے کمروں کی جانب چل پڑے۔
جان ڈیو کی آنکھ علی الصبح کھل گئی۔ شراب کا نشہ اتر چکا تھا اور اسے زوردار بھوک لگ رہی تھی۔ رات پینے چکر میں وہ کھانا بھول گیا تھا۔ اس نے گھنٹی بجا کر خادم کو بلایا۔ اس سے فوراً خوب بھاری ناشتہ لگانے کے لیے کہا اور خود حمام میں گھس گیا۔ باہر آنے کے بعد اس نے دیکھا کہ میز پر ڈبل روٹی، انڈے، شہد، جام، مکھن، دودھ، پاپکارن، چائے، کافی اور نہ جانے کیا کیا چنا ہوا ہے۔ جان ڈیو ان پر ٹوٹ پڑا۔
کچھ دیر بعد جب ملازم میز کو صاف کرنے کے لیے آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک ڈی وی ڈی تھی۔ اسی کے ساتھ اسمتھ کا پیغام تھا ہماری نشست ۱۱ بجے ہے۔ آپ برائے کرم اس سے قبل یہ ڈی وی ڈی دیکھنے کی زحمت گوارہ فرمائیں۔
ناشتے سے فارغ ہو کر جان ڈیو کچھ دیر گزشتہ کل کی گفتگو پر غور کرتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جان نے سوچا ممکن ہے یہ ڈی وی ڈی اس بابت کوئی رہنمائی کرے؟ ڈی وی ڈی کو کمپیوٹر نے نگلا اور اپنے بطن سے چلتی پھرتی تصاویر مانیٹر پر اگلنے لگی۔ اس کے اندر بند آواز جان کے کمرے میں گونج رہی تھی۔ اس کا ہر ہر لفظ بمباری کر رہا تھا۔
افسوس کی بات یہ تھی کہ اس تباہی و بربادی میں اس کے اپنے رفیق و دمساز ہاتھ بٹا رہے تھے۔ سب نے اس کی جانب سے نظریں پھیر لی تھیں لیکن یہ جان کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اسی سیاسی شجر کی آبیاری تو اس نے برسوں تک کی تھی۔ جس کی شاخیں ساری دنیا پر لہلہاتی تھیں۔ وہ خود کئی مرتبہ اپنے دوستوں کی قبر اسی طرح کھود چکا تھا۔
جان ڈیو اپنے وسیع و عریض تجربے کی روشنی میں اپنا انجام صاف دیکھ رہا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ سیاست کے بازار جس شے کی افادیت ہوتی تھی اسے پلکوں پہ سجایا جاتا ہے اور جوں ہی ضرورت ختم ہو جاتی تھی اسے قدموں تلے روند دیا جاتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کی نظروں سے گر چکا تھا اور اپنی نظر میں گر رہا تھا۔ اب اس کا روندا جانا باقی تھا۔ اور وہ اس کا منتظر تھا۔
جان اپنے جوتوں میں لگی کیلوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ جوتے جو برسوں سے اس نے پہن رکھے تھے۔ جن کے ذریعہ سے نہ جانے کتنوں کے سر بے رحمی سے کچل دیئے تھا۔ ان کیلوں کی چبھن کا احساس اسے اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب اس کرب کو وہ پیشگی محسوس کرنے لگا تھا۔ چشم تصور میں چہار جانب سے اس پر ہتھوڑوں کی برسات ہو رہی تھی۔ وہ چیخ رہا تھا۔ چلا رہا تھا۔ خون میں لت پت اس کی لاش تڑپ رہی تھی۔
مونیکا اس کے زخموں پر مرہم لگا رہی تھی اور ہاروے پٹی باندھ رہا تھا۔ ارے یہ کیا؟ انھیں تو اس کے زخموں پر نمک چھڑکنا چاہئے تھا لیکن ان دونوں کو یہ کیا ہو گیا؟ ہاروے اور مونیکا یہ کیا کر رہے ہیں جبکہ اس کے اپنے اسے لہو لہان کر رہے ہیں۔
یہ غیر…….اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا؟ شاید اس دنیا میں کوئی بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔ وہ خود بھی نہیں۔
ہاروے کو بھی نشست کی اطلاع دی جا چکی تھی۔ اسے تاخیر پر حیرت تھی۔ لیکن حراست کے اندر کیا جلدی اور کیا دیری سب یکساں تھا۔ وقت گزاری کے علاوہ کام ہی کیا تھا؟ ہاروے نے سوچا اگر یہ سلسلہ کل سے بند ہو جائے گا تو وقت کیسے گزرے گا؟
ہاروے پر عجیب و غریب قسم کے انکشافات ہو رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا عام طور پر لوگ کام کی زیادتی کو زحمت سمجھتے ہیں اور اس کی شکایت بھی کرتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ یہ کام ایک رحمت ہے۔ اس کے سبب بڑی تیزی کے ساتھ صبح کی افق شام کی شفق میں بدل جاتی ہے اور کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔
مشغولیت اگر نہ ہو تو زندگی ایک بے لذت بوجھ میں تبدیل ہو جائے۔ ایک ایسا بوجھ جو اٹھائے نہ اٹھے۔ سنگِ حیات اپنی جگہ ٹھہر جائے اور چلائے نہ چلے بلکہ ہلائے نہیں ہلے۔ ہاروے کے لیے گھڑی کے کانٹے بے حد سست رفتار ہو چکے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ ڈھکیل کر انھیں تیز کر دے لیکن بے بس تھا۔ ان کانٹوں کی رفتار پر کسی کو اختیار حاصل نہیں تھا۔ یہ اپنی مرضی سے تیز چلنے لگتے تھے نبض سے زیادہ تیز اور اپنے طور پر دھیمے ہو جاتے تھے سانس سے زیادہ سبک خرام۔
انسان کا اختیار نہ اپنی سانس پر تھا اور نہ نبض پر لیکن وہ نادان چاہتا تھا کہ ساری کائنات کو اپنے بس میں کر لے اور مختارِ کل بن جائے۔
٭٭٭
۳۰
جان ڈیو جب کرب کے دریا میں ڈوب کر باہر آیا تو وہ اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا۔ ساڑھے دس بجے اس نے اسمتھ کو فون کر کے پوچھا کہ کیا یہ ڈی وی ڈی ہاروے کو بھی دی گئی تھی؟جواب نفی میں ملا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے پوچھا کیا آپ لوگ آئندہ نشست میں اسے ہاروے کو دکھلانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ پھر ایک بار جواب نا میں ملا اس نے شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔
اب وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ رہا تھا۔ جو نقصان ہو چکا تھا اس کا اندازہ اسے تھا اب وہ اس کے اثرات کو کم سے کم کرنا چاہتا تھا۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کی سیاسی کشتی غرقاب ہو چکی ہے۔ اب وہ کسی طرح تیر کر اپنے آپ کو صحیح سلامت ساحل تک لانے کے لیے فکر مند تھا۔ ایسا کرنے کے لیے حوصلہ سمیٹ کر ہاروے کی لہروں کا جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرنا ضروری تھا۔ جان ڈیو سنجیدگی سے ہاروے پر دباؤ ڈالنے کی ترکیب سوچ رہا تھا تاکہ طوفان کا زور توڑا جا سکے۔
گیارہ بجے جب پانچوں حضرات ہال کے اندر جمع ہو گئے تو اسمتھ نے سب کا استقبال کیا اور بولا ہم گفتگو کا نصف حصہ پورا کر چکے ہیں۔ انصاف کی بحالی کے پیشِ نظر مونیکا کی رہائی پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ اب چونکہ صرف کا سزا کا مرحلہ باقی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں ہاروے اس بابت اپنی توقعات سب کے سامنے رکھے۔
ہاروے نے کہا جان ڈیو چونکہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں پہلے وہ اپنا نقطۂ نظر پیش فرمائیں۔
جان نے موقع غنیمت جان کر جذباتی حملہ کر دیا۔ وہ بولا سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے عزیز دوست ولیم کنگسلے کے چشم و چراغ ہاروے کی عدل و انصاف کے تئیں سنجیدگی نے بے حد متاثر کیا ہے۔ اب اگر وہ چاہتا ہے کہ اس گناہ کی پاداش میں مجھے تختۂ دار سے لٹکا دیا جائے تو اس کے لیے بھی میں تیار ہوں۔ جان کی اس پیش کش نے بشمول ہاروے سارے لوگوں کو سکتہ میں ڈال دیا۔ یہ بالکل ہی خلافِ توقع بات تھی ہر کوئی حیرت زدہ تھا۔
اسمتھ نے ہاروے سے کہا بیٹے گیند پھر گھوم کر تمھارے پالے میں آ گئی ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ تم بھی جان کی طرح کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسی تجویز پیش کرو گے جو ملک و قوم کے لیے مفید اور فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو۔
ہاروے نے کل سے جن متوقع سوالات کے جوابات تیار کر کے رکھے ہوئے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سارا منظر دھندلا گیا تھا۔ ایک ایسا شخص جو سوال کے مکمل ہونے کا انتظار نہ کرتا تھا لاجواب ہو گیا۔ اس کی زبان پہلی مرتبہ گنگ ہوئی تھی۔ اس کا دماغ شل ہو گیا تھا اور دل پسیج گیا تھا۔
وہ جان ڈیو کو جانتا تھا۔ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ مختلف صورتوں میں وہ کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرتا ہے اسے پتہ تھا لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ ہکا بکا ہاروے جان ڈیو کی جانب دیکھ کر بولا نہیں نہیں۔ میں بھلا یہ کیوں چا ہوں کے آپ پھانسی چڑھ جائیں۔ آپ نے کوئی قتل تھوڑے ہی کیا ہے جو آپ کو ایسی سزا ملے۔ میں ہرگز اسے پسند نہیں کروں گا کہ انصاف کے نام پر انصاف کا خون کر دیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں اس بارے میں بہترین فیصلہ ہمارے بزرگ اسمتھ کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مبنی بر انصاف فیصلے کو قبول کرنے میں کسی کو تردد نہیں ہو گا۔
اسمتھ نے دیکھا لوہا گرم ہے تو اس نے فوراً ہتھوڑا مار دیا۔ وہ بولا مختلف لوگوں کے لیے مختلف سزائیں مختلف اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی طالبعلم کو کلاس سے باہر نکال دیا جانا اوراستاد کے لیے ملازمت سے سبکدوش کر دیا جانا مختلف ہونے کے باوجود یکساں سزائیں ہیں۔ اسی طرح کسی سیاستداں کے لیے اپنے عہدے سے دستبردار کر دیا جانا سب سے بڑی سزا ہے۔ چونکہ اس قضیہ کی بنیاد کا پتھر سیاسی اثرو رسوخ ہے اس لیے اگر جان ڈیو اپنے عہدے سے استعفی دے کر پارٹی سے کنارہ کش ہو جائیں تو ان کے لیے اس سے بڑھ کر سزا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔
ہاروے بولا میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کیا یہ تجویز جناب جان ڈیو کے لیے قابلِ قبول ہے۔ ہاروے نے جان بوجھ کر سزا کی اصطلاح سے گریز کیا تھا۔
جان ڈیو نے کہا کہ میں اس پر بھی رضامند ہو سکتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے۔ چونکہ اب تک ہاروے کی ساری باتوں کو مان لیا گیا ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ میری اس بات کو تسلیم کر لیا جائے گا۔
اسمتھ نے کہا جان آپ بلا تکلف اپنی بات رکھیں۔ آپ نے اب تک جس معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا ہے ہم ہاروے سے بھی اسی طرح کے جواب کی امید رکھتے ہیں۔
ہاروے نے کہا میں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔
جان بولا میں سکریٹری شپ سے اپنا استعفیٰ دے دوں گا اور پارٹی کی رکنیت بھی چھوڑ دوں گا لیکن ہاروے سے بھی یہی امید کرتا ہوں کے وہ اس کے عوض اپنے والد کی خالی نشست پر ہماری پارٹی کا امیدوار نہ بنے بلکہ پارٹی کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہو جائے۔
لیری گومس اس تجویز پر مچل گیا۔ یہ کون سی بات ہوئی۔ ہاروے نے کون سا جرم کیا ہے جو اسے سزا دی جائے۔ یہ تو نہایت غیر عقلی مطالبہ ہے۔
اسمتھ بولا آپ اس قدر بدحواس کیوں ہو رہے ہیں۔ مصالحت نام ہی لین دین کا ہے۔
جان نے تائید کی اور بولا جی ہاں کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ قربان بھی تو کرنا پڑتا ہے۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ عدل و قسط کے قیام میں ہاروے اپنی جیب سے بھی کچھ خیرات کرنے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہے یا صرف دوسروں کے خرچ پر اس عظیم مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تھامس کوک بولا سوال اپنے یا کسی اور کے جیب کا نہیں ہے۔
ہاروے نے ٹوکا سوال آپ سے نہیں ہے۔ مجھے یہ تجویز منظور ہے مگر ایک شرط کے ساتھ کہ اس نشست کے امیدوار کا تعین میں کروں گا۔
ہاروے کی زبان سے یہ جملہ سن کر جان ڈیو اچھل پڑا۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور اس نے ہاروے سے مصافحہ کیا۔ جان بولا میں تمہیں سیاست میں نووارد سمجھتا تھا لیکن تم نے میری غلط فہمی دور کر دی۔ سیاست تمھارے خون میں شامل ہے مجھے یقین ہے کہ اگر تمھاری جگہ تمھارے مرحوم والد ولیم کنگسلے بھی ہوتے تو یہ شرط نہ لگا پاتے۔ تم نے غیر معمولی حاضر دماغی کا مظاہرہ کیا ہے اور میں اس کے لیے تمہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تم بہت آگے جاؤ گے۔ سیاسی بساط بچھی ہوئی تھی۔ جس پر اسمتھ، گومس اور کوک گھوڑا، ہاتھی اور اونٹ کی مانند اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے مگر جان اور ہاروے اپنے سروں پر تاج سجائے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔
جان بولا میں اس شرط کو بھی تسلیم کر لوں گا لیکن امیدوار کا نام جانے بغیر نہیں۔ اس لیے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی کمزور امیدوار اس نشست پر ہماری ناکامی کا سبب بن جائے۔
ہاروے بولا اب چونکہ آپ نے کولاریڈو کا ذکر از خود چھیڑ دیا تو میں وہاں کی سیاست سے قبل ایک انسانی حقوق کے معاملے کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
اوہو تو کیا کوئی مونیکا وہاں بھی ہے؟ جان ڈیو نے چٹکی لی۔
جی ہاں ایک کے بجائے چار مونیکائیں وہاں ہمارے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
میں تمھاری بات نہیں سمجھا ہاروے تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
ہاروے بولا در اصل میرے والد ولیم کنگسلے کے قتل کے الزام میں وہاں چارمسلم نوجوانوں کو ہوم لینڈ سیکیورٹی نے گرفتار کر رکھا ہے اور وہ سارے کے سارے مونیکا کی طرح بے قصور ہیں۔ اگر آپ کو کولاریڈو میں اپنی جماعت کی فکر ہے تو ان کا فوراً رہا ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کو شاید پتہ ہو کہ میرے والد کو مسلمانوں بلکہ تمام افریقی و ایشیائی لوگوں کی زبردست حمایت حاصل رہی ہے اوراس حماقت کے سبب ہم ان سب کی ہمدردیاں تیزی کے ساتھ گنوا رہے ہیں۔
جان ڈیو نے کہا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ تمہیں اپنے رائے دہندگان کا بھی خیال ہے بلکہ جمہوریت کے اندر کامیاب سیاستداں کے اندر یہ صفت ناگزیر ہے۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ میں ان کی حقیقت سے واقف ہوں۔ اس نشست کے فوراً بعد چک ڈینی سے فون پر بات کروں گا اور آج شام تک وہ سب اپنے اپنے گھروں میں ہوں گے۔ تم ان کی جانب سے پوری طرح بے فکر ہو جاؤ۔
ہاروے بولا شکریہ۔
جان اور ہاروے کی تسلیم و رضا نے ثالث حضرات کو حاشیہ پر ڈال دیا تھا۔ فریقین خود ہی شرائط پیش کر رہے تھے اور انھیں قبول بھی کر رہے تھے۔ ہاروے نے بات آگے بڑھائی جہاں تک کولاریڈو کی نشست کے لیے امیدوار کا سوال ہے میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ جو نام میں بتاؤں گا اسے آپ مسترد نہیں کر سکتے۔ ہر کوئی ہاروے کی خوداعتمادی کا قائل ہو گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جان اس کے آگے بونا لگنے لگا تھا۔
جان بولا ہو سکتا ہے لیکن پہلے میں نام تو سنوں؟
ہاروے بولا وہ نام ہے ٹام۔ میں اس حلقۂ انتخاب کے لیے ٹام کا نام تجویز کرتا ہوں۔
ٹام کا نام سنتے ہی جان اسی طرح سکتہ میں آ گیا جیسا کہ کچھ دیر قبل ہاروے حیرت زدہ تھا۔ اس نے پوچھا کیا ٹام ! ٹام فوبرگ؟
جی ہاں ٹام فوبرگ آپ اسے جانتے ہیں۔ اسی لیے میں کہہ رہا تھا کہ آپ کواس کا نام بصد شوق قبول کریں گے۔
ہاروے اور جان ایک دوسرے کے حریف تھے اس کے باوجود یہ حسنِ اتفاق تھا کہ وہ دونوں ایک نام پر رضامند ہو گئے تھے۔ جان بولا ٹام فوبرگ سے زیادہ مناسب امیدوار کولاریڈو کے لیے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ہاروے میں تمھارے حسنِ انتخاب کی داد دیتا ہوں۔ ہال میں موجود بقیہ تینوں لوگ نہ تو ٹام فوبرگ کا نام جانتے تھے اور نہ کام وہ بس خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
لیری گومس منھ ہی منھ میں بڑبڑایا ٹام فوبرگ یہ کون ہے؟
اسمتھ نے کہا دوستو مجھے خوشی ہے کہ ہم نے تمام اختلافی معاملات میں اتفاق کا راستہ نکال لیا ہے اور یہ سب بغیر کسی تلخی کے نہایت خوشگوار ماحول میں ہو گیا۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کہ اس میں آپ دونوں حضرات کی سمجھداری اور ایثار و قربانی نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اب ایک وقفہ لیں اور جس میں دوپہر کا کھانا نوش فرمایا جائے اور اس کے بعد ہم ان فیصلوں پر عمل درآمد کی تفصیل طے کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری آخری نشست میں بھی یہی خوشگوار ماحول برقرار رہے گا۔
کھانے بعد کی نشست میں اسمتھ نے بتلایا کہ میں نے آپ لوگوں کی رضامندی سے صدرِ محترم کو آگاہ کر دیا ہے۔ وہ آپ دونوں سے بے حد خوش ہیں اور قضیہ کے بخیر و خوبی نمٹ جانے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ انھوں نے آپ دونوں کو اپنے اہل خانہ و قریبی دوست و احباب کے ساتھ صدارتی محل میں کل شام ایک خاص دعوت پر مدعو کیا ہے۔ ہاروے اور جان نے اسمتھ کے توسط سے صدر محترم تک اپنا شکریہ پہنچا دیا اور دعوت کو اپنے لیے اعزاز و تکریم سے تعبیر کیا۔
اسمتھ بولا آئیے اب تفصیل طے کرتے ہیں۔ اس میں ترتیب کے لحاظ سے سب سے پہلے مونیکا کی رہائی، جان کا استعفیٰ اور پھر ٹام کی نامزدگی پر گفتگو ہو گی۔ ٹھیک ہے۔
سب نے تائید کی۔
لیری گومس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ گفتگو کو آگے بڑھائیں میں سب سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں۔ سب اس کا منھ دیکھنے لگے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی میں چاہتا ہوں کہ سوائے اس معلومات کے کہ جس پر ہم اتفاق کر لیں گزشتہ دو دنوں میں یہاں ہونے والی گفتگو کی کوئی تفصیل ذرائع ابلاغ میں نہ جائے۔
سبھی نے اس سے اتفاق کیا لیکن تھامس کوک بولا یہ پابندی میڈیا کی حد تک نہیں ہونی چاہئے اس لیے اگر ہم کسی اور کو ان تفصیلات میں شریک کریں گے اور وہ احتیاط نہیں برتے گا تو بات میڈیا میں چلی جائے گی۔ اس لیے ان باتوں کو اسی کمرے میں دفن کر دینے میں بھلائی ہے۔
اس عہد کی پابندی کا بھی سبھی نے وعدہ کیا۔
مونیکا کی رہائی کے سلسلے میں اسمتھ نے کہا کہ اسے فوراً ضمانت پر رہائی مل جائے اور اس کے کیس کو کمزور کر دیا جائے لیکن فی الفور مقدمہ خارج کرنے کے بجائے کچھ تاریخیں پڑیں معاملہ طول پکڑے یہاں تک کہ لوگ اسے بھول جائیں اور پھر یہ مقدمہ خاموشی سے لپیٹ دیا جائے۔ لیکن اس مدت کے دوران مونیکا گمنامی کی زندگی گزارے۔
ہاروے نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جان کے استعفیٰ کے سلسلے میں لیری گومس کی تجویز یہ تھی کہ اس کی فوری تشہیر نہ کی جائے۔ پہلے تو ذرائع ابلاغ میں رد و بدل کی خبروں کو گرم کیا جائے۔ مختلف لوگوں کی امکانی تبدیلی پر بحث چھیڑ دی جائے۔ ایک آدھ ہفتے کے اندر کچھ لوگوں کے شعبے تبدیل کیے جائیں۔ کچھ نئے نام شامل ہوں کچھ پرانے کم ہوں اور ان میں سے ایک نام جان کا بھی ہو تاکہ سیاسی حلقوں میں یہ پیغام نہ جائے کہ جان کو اس مقدمہ کے سبب ہٹایا گیا ہے۔
جان بولا یہ معقول تجویز ہے۔
ٹام فوبرگ کی نامزدگی کے تعلق سے تھامس کوک نے کہا کہ کولاریڈو کی نشست ہمارے لیے بے حد اہم ہے۔ وہاں پر ولیم اور ہاروے کا زبردست سیاسی اثرورسوخ ہے۔ اس لیے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ کولاریڈو میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا جائے جس کی صدارت ہاروے کنگسلے کرے اور وہ خود ٹام فوبرگ کے نامزدگی کا اعلان کر دے۔ اس کے بعد خاموشی کے ساتھ وہ پارٹی سے مستعفی ہو جائے۔
ہاروے اور جان دونوں نے تھامس کوک کی اس تجویز کو سراہا۔ سبھی نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا نشست برخواست ہو گئی۔
دو گھنٹے بعد انھیں واشنگٹن لے جانے کے لیے خصوصی طیارے کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ سارے لوگ آرام کرنے کی غرض سے اپنے اپنے کمروں کی جانب چل پڑے تھے۔ ہاروے اور جان کی زندگی میں یہ دو دن سب سے زیادہ فیصلہ کن ثابت ہوئے تھے۔ زندگی کے اندر ایسے بھی نشیب و فراز ہوتے ہیں اس کا اندازہ انھیں پہلی بار ہوا تھا۔
ہاروے اپنے کمرے میں آتے ہوئے سوچ رہا تھا کولاریڈو میں ہرانے کے لیے اسے ٹام فوبرگ سے کمزور امیدوار تو مل ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اپنے کمزور حریف کے تعین کا موقع اسے جان ڈیو کی مہربانی سے میسر آ گیا تھا۔
ہاروے کو یقین تھا کہ حزب اختلاف اسے کولاریڈو سے اپنا امیدوار بصد شوق بنائے گا۔ ٹام اس کی مخالفت زور و شور کے ساتھ نہیں کر پائے گا اور اگر کرے گا تو احسان فراموش کہلائے گا۔ ولیم کی موت کے باعث پیدا ہونے والی ساری ہمدردیاں بالآخر ہاروے کے حصے میں آئیں گی۔ ایک مسلمان ووٹ ٹام فوبرگ کو نہیں ملے گا اوراس طرح بڑی آسانی سے وہ ٹام فوبرگ سمیت جان کو شکست فاش سے دوچار کر کے سینٹ کا رکن بن جائے گا۔
٭٭٭
باب ہفتم
۳۱
واشنگٹن میں ماحولیات کے حوالے سے ایک زبردست احتجاج کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لیے دور دراز سے ہزاروں لوگ قصر ابیض کے قریب باغ میں اس مقام پر جمع تھے جہاں سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ کیتھی وہاں پر مائیکل کو بلا کر خود اپنے کیمرہ مین و دیگر عملے کے ساتھ وقت مقررہ پر پہنچ گئی۔ احتجاج میں کچھ دیر کے بعد اپنا کام نائب کو سونپ کر کیتھی مائیکل کے پاس ایک بنچ پر آ کر بیٹھ گئی۔ اسے یقین تھا کہ خفیہ ایجنسی کے لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ مائیکل مظاہرے کی کسی شریک کے ساتھ محوِ گفتگو ہے۔
کیتھی اور مائیکل کی گفتگو کا موضوع ہاروے کی گمشدگی تھا۔ کیتھی نے اپنے تعلقات کا استعمال کر کے امریکی سینٹ کے ایک رکن سے رابطہ قائم کیا اور اس شخص نے معلومات حاصل کرنے کے لیے دو دن کا وقت مانگا تھا۔ مائیکل نے ڈیوڈ کے متبادل وکیل کا بندوبست کر لیا تھا اور وہ اس کی تفصیل بتا نے ہی جا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
مائیکل نے جیسے ہی ہیلو کہا اس کے تاثرات بدل گئے۔ اوہو ……اچھا اچھا…….ہاں ہاں اچھا اچھا ……….ہم لوگ انتظار کریں گے …….سب ٹھیک تو ہے نا……..جی ہاں سب ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ………جی ہاں وہ بھی اچھی ہے ……..وہ ابھی میرے ساتھ ہی ہے …….ہم لوگ ایک ساتھ ہیں …….بہت اچھے کہہ دوں گا ……بہت اچھے تو ہماری ملاقات ہو رہی ہے ……..تب بات ہو گی ……..جی ہاں بہت خوب۔ خدا حافظ۔
جیسے ہی فون بند ہوا کیتھی نے کہا کون ہاروے؟ مائیکل بولا جی ہاں ہاروے ہی کا فون تھا۔ تم کو سلام کہا ہے۔
اور کیا کہا؟ کیسا ہے وہ اور کہاں ہے؟
یہ تو نہیں بتایا کہ کہاں ہے لیکن آج رات یہاں آ رہا ہے اور اب ہمیں کل رات تک یہیں رہنا ہے۔ ہم لوگ پرسوں کی صبح واپس کولاریڈو جائیں گے۔
کیتھی بولی ارے آنے جانے کی بات چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ وہ کیسا ہے؟
بھئی تم نے سنا نہیں۔ اس نے بتایا کہ سارے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ تفصیل ملاقات کرنے پر ہی بتلا سکے گا۔
کیتھی کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ خوشی اس طرح دبے پاؤں آ سکتی ہے یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ کیتھی خوشی سے پھولی نہیں سمارہی تھی وہ بولی میں ایسا کرتی ہوں کے اپنی ٹیم سے اجازت لے کر دو منٹ میں آتی ہوں اور پھر ہم لوگ ساتھ چلتے ہیں۔
مائک نے پوچھا چلتے ہیں؟ کہاں چلتے ہیں؟
کیتھی بولی تمھارے پسندیدہ اسٹار بک کافی ہاوس میں اور کہاں؟ اس خوشی کا حق ہے کہ اسے دھوم دھام سے منایا جائے۔
اگر ایسا ہے تو چلو بو لنجو کافی ہاؤس میں۔ فرانسیسی ویٹریس کے ہاتھ سے کافی پینے کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
دیکھو اب تم جو چاہے کر لو آج میں نہیں بگڑوں گی۔ میں بے حد خوش ہوں۔
بولنجو کافی ہاوس کی شان ہی نرالی تھی۔ کیوں نہ ہوتی اس میں کافی کی قیمت اسٹار بک سے پانچ گنا زیادہ بھی تو ہے۔ وہاں پہنچنے تک کیتھی اپنے آپ کو سنبھال چکی تھی وہ بولی مائیکل جو فون تم نے لیا تھا وہ ہاروے ہی کا تھا یا کوئی ہم سے دل لگی کر رہا تھا۔
میں تمھاری بات کا مطلب نہیں سمجھا۔
میں چینی زبان میں تو نہیں بول رہی ہوں بلکہ میرا خیال ہے تمہیں تھوڑی بہت چینی بھی آتی ہی ہو گی۔
مجھے لگتا ہے کیتھی وہ فون کرنے والا تو نہیں مگر تم ضرور دل لگی کر رہی ہو۔
میں مذاق نہیں کر رہی۔ تمھارے مطابق ہاروے نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا حالانکہ مجھے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں لگتا۔ مونیکا حراست میں ہے۔ مقدمہ عدالت میں ہے۔
مائیکل زور سے قہقہہ لگا کر بولا وہ تو اچھا ہوا یہ دو جملے میں نے ادا نہیں کر دئیے ورنہ اس روز کی طرح پھر سے قیامت برپا ہو جاتی۔ خیر تمہیں مونیکا کے اوراس کے مقدمہ سے کیا مطلب؟ ہاروے خیریت سے ہے یہی کیا کم ہے اور آج رات اس سے ملاقات ہو رہی ہے اس سے خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟
مجھے اب بھی اس پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ تم نے اتنی جلدی کیوں فون بند کر دیا۔ تمہیں اس سے تھوڑی بہت تفصیل پوچھنی چاہئے تھی۔
بھئی تمہیں یقین نہ ہو رہا ہو تو نہ سہی لیکن مجھے تو یقین ہے اس لیے کہ آج شام سے میرا تعاقب نہیں کیا جا رہا ہے یعنی میری نگرانی کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔
اگر ایسا ہے کہ تمھاری نگرانی بند ہو گئی اور ہاروے کے مسائل حل ہو گئے تو کہیں اس کے لیے مونیکا کو تو بلی کا بکرا نہیں بنا دیا گیا؟
پھر مونیکا؟ مائیکل بولا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آج تمھارے اعصاب پر مونیکا کا آسیب کیوں سوار ہو گیا ہے؟
کیسی باتیں کرتے ہو مائیکل۔ گو کہ مونیکا سے ہم کبھی نہیں ملے لیکن حقیقت یہی ہے کہ مونیکا نے ہی تو ہمیں ایک دوسرے سے ملایا ہے اور اسی کی رہائی کی خاطر ہم یہاں آئے ہیں۔ اب اگر مونیکا کے بارے میں نہ سوچیں تو کیا سوچیں؟
دیکھو کیتھی میں اپنے دوست ہاروے کو برسوں سے جانتا ہوں۔ وہ اس قدر خود غرض نہیں ہو سکتا کہ مونیکا کے عوض اپنی جان بچا لے۔
موت کا خوف کسے کہتے ہیں شاید تم نہیں جانتے مائیکل۔ جان پر بن آئے تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے اور جان ڈیو کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔
یہ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں کیتھی کہ انسان کو اپنی جان سے زیادہ کوئی شے عزیز نہیں ہوتی لیکن تم بھی تو اپنی جان پر کھیل کر مونیکا کی جان بچا نے کے کھیل میں شامل ہو گئی ہو۔
کیتھی نے خلاؤں میں دیکھ کر کہا یہ صحیح ہے مائیکل لیکن یہ کھیل میں مونیکا کے لیے نہیں کھیل رہی ہوں۔
اچھا ……..تو کس کے لیے ہو رہی یہ ساری مشقت؟ ابھی ابھی تو تم خود کہہ رہی تھیں کہ ہم مونیکا ہی کی خاطر یہاں آئے ہیں۔
کیتھی کا جی چاہا کہ بول دے یہ سارا کھیل میں تمھارے لیے کھیل رہی ہوں لیکن اس کی نسوانیت نے اسے روک دیا۔ وہ بولی وقت آنے پر سب پتہ چل جائے گا۔
مائیکل نے تائید کی یہی تو میں کہہ رہا ہوں رات میں ہاروے سے سب پتہ چل جائے گا۔
کیتھی بیزار ہو کر بولی تمہیں کبھی بھی کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا۔
اس کے بعد وہ دونوں کچھ دیر یونہی خلاؤں میں دیکھتے رہے۔ ان دونوں کے درمیان کافی کا بل پڑا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ مائیکل نے پچاس ڈالر کے بل پر سو ڈالر کی ٹپ لکھ کر ویٹر کو کریڈٹ کارڈ کے ساتھ دے دیا۔ ویٹر نے بل کو غور سے دیکھنے کے بعد پوچھا جناب کہیں غلطی سے ایک صفر زیادہ تو نہیں لکھا گیا۔
مائیکل بولا جی نہیں اگر تم چا ہو تو ایک صفر اور بڑھا سکتے ہو۔
ویٹر بولا جی نہیں جناب آپ کا بہت شکریہ۔ چند منٹوں کے بعد ویٹر کو واپس آتا ہوا دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ ویٹر نے کریڈٹ کارڈ واپس کیا اور ان کے ساتھ ساتھ دروازے تک آیا اور بڑے احترام سے دروازہ کھول کر زوردار سلامی دی۔ مائیکل اور کیتھی نے اسی گرمجوشی سے جواب دیا وہ مسکرا کر واپس چلا گیا۔
باہر آنے کے بعد کیتھی بولی آج کی شام ہمارے لیے ایک یادگار شام ہو گی ہم اس کا انتظار کریں گے۔
جی ہاں اور یہ انتظار خاصہ طویل ہو گا۔
یہی کیوں ہر انتظار طویل ہوتا ہے اسی لیے کوئی بھی انتظار کا منتظر نہیں ہوتا۔
ایسا لگتا ہے تمہیں مونیکا نے فلسفی بنا دیا ہے؟
مونیکا نے نہیں۔ ……
تو کیا ہاروے نے؟ ……
جی نہیں ہاروے نے بھی نہیں۔ جاؤ تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور ہوٹل میں جا کر آرام کرو۔ گڈ بائی۔
کیتھی نے ابھی ہوٹل کی لابی میں قدم رکھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
یہ ہاروے کا نمبر تھا۔ کیتھی نے کہا خوش آمدید آپ اتنی جلدی پہنچ گئے۔
پہنچنا تو درکنار ہم لوگ ابھی یہاں سے چلے بھی نہیں ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ نو بجے تک پہلے نکل سکوں گا اس لیے آپ لوگ اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے کھا پی کر سوجائیں۔ ویسے بھی کل کوئی خاص کام نہیں ہے۔ صبح ناشتہ ہوٹل ہلٹن میں میرے ساتھ کرنا۔
جی بہت خوب کیتھی بولی لیکن وقت۔ میرا مطلب ناشتہ کس وقت ہو گا۔
وہی صبح دس بجے۔
دس بجے؟ کیتھی نے حیرت سے پوچھا۔
ہاروے بولا جی ہاں دس ٹھیک ہے۔ میں بہت تھکا ہوا بھی ہوں اور ویسے بھی دن بھر کوئی کام تو ہے نہیں۔ شام میں قصرِ ابیض میں صدرِ محترم کی جانب سے ہمارے لیے عشائیہ کا اہتمام ہے۔ تم ایسا کرو کہ اس کی اطلاع مائیکل کو بھی دے دو۔ ہماری ملاقات کل صبح دس بجے ہو گی۔ فون بند کرنے کے بعد کیتھی پھر سے سوچ میں پڑ گئی۔
قصر ابیض میں ….. خاص دعوت ………..صدر محترم کی جانب سے …………ہاروے کوئی ایسی اہم شخصیت بھی نہیں ہے۔ وہ ایک سابق سینٹرکا بیٹا ہے۔ اس کا یہ اعزازو اکرام پھر ایک بار وسوسوں کو جنم دے رہا تھا۔ کیتھی نے سارے خیالات کو اپنے دماغ سے نکالا اور مائیکل کو فون لگانے لگی تاکہ ہاروے کا پیغام اسے دیا جا سکے۔
واشنگٹن پہنچ کر ہلٹن کی آرام دہ خواب گاہ میں اپنے بستر پر لیٹنے کے بعد ہاروے نے ڈائنا کو فون لگا یا تو سامنے سے جواب ملا زہے نصیب اس بار جلدی یاد فرمانے کا شکریہ۔
اس میں شکریہ کی کیا بات ہے؟ یہ تو میرا فرض منصبی ہے کہ ہر دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی بڑی بہن کی خدمت میں سلامی دوں۔
ڈائنا بولی لگتا ہے میرا تنکو بھائی آج خلاف توقع اچھے موڈ میں ہے۔ کوئی خاص بات ہے کیا؟ کہیں مونیکا سے ملاقات تو نہیں ہو گئی؟
ہاروے نے ڈائنا کو ڈانٹ کر کہا ویسے تو کوئی خاص بات نہیں بس یہ بتانا تھا کہ کل شام وائٹ ہاؤس کے اندر صدر محترم کی جانب سے ایک خاص دعوت ہے جس میں تمہیں، ممی اور نانی کے ساتھ شرکت کرنی ہے۔
کیا وائٹ ہاؤس میں دعوت؟ بھیا کہیں تم مذاق تو نہیں کر رہے ہو۔ کہاں صدرِ محترم اور کہاں ہم۔ وہ بھلا ہمیں دعوت کیوں دینے لگے؟
یہی تو مسئلہ ہے کہ تم اپنے بھائی کو جانتی ہی نہیں؟ مجھے معمولی سمجھ کر ڈانٹتی رہتی ہو۔
اوہو اب میں سمجھی ڈائنا بولی میرا احمق بھائی تو بڑا آدمی ہو گیا ہے۔ اسے صدر مملکت اپنے گھر پر دعوت میں بلا رہے ہیں۔ اب تو لگتا ہے ہمیں بھی ملاقات کے لیے وقت لینا پڑے گا۔
ہاروے نے کہا چپ کر میری ماں اور یہاں آنے کی تیاری کر یہ کوئی معمولی دعوت نہیں ہے۔ میں واشنگٹن میں ہوں اور آپ تینوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ فلائیٹ کا نمبر اور وقت بتلا دینا ہوائی اڈے پہنچ جاؤں گا۔ ٹھیک ہے کل ملتے ہیں۔ فون بند ہو گیا۔
ڈائنا نے مونیکا کا ذکر کر کے ہاروے کی توجہ دوسری جانب مبذول کروا دی تھی۔ وہ سوچنے لگا تھا کہ مونیکا کا نام اس نے اپنے مہمانوں کی فہرست میں کیوں نہیں شامل کر دیا؟ لیکن مونیکا تو جیل میں ہے وہ کیسے آ سکتی ہے؟ کیوں نہیں آ سکتی اگر صدر صاحب چاہیں تو مونیکا کے ساتھ ویرونیکا بھی آ سکتی ہے۔
ارے ہاں ویرونیکا کو تو وہ بھول ہی گیا تھا۔ نہیں لیکن جس دعوت میں جان ڈیو آ رہا ہے اس میں مونیکا کا آنا ایک نیا فتنہ برپا کر سکتا ہے۔ لیکن اب جان ڈیو وہ جان ڈیو نہیں ہے۔ اس کے رعونت کا طلسم ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ وہ مونیکا کے معاملے میں شکست کھا چکا ہے۔ لیکن پھر بھی جلی ہوئی رسی کے بل کہاں جاتے ہیں؟
ہاروے بہت دور نکل گیا تھا۔ اسے یہ سب سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی ذمہ داری تو صرف مائیکل اور کیتھی کے ساتھ مونیکا کا نام لکھ دینے کی تھی۔ آگے صد رکے دفتر کا کام تھا کہ کسے دعوت دے اور کسے نہیں؟
ویسے بھی ابھی تک کسی کے نام کی توثیق تو آئی نہیں ہے اور اس نے ڈائنا کو بلا ہی لیا ہے۔ لیکن کہاں مونیکا اور کہاں ڈائنا صدر صاحب اس کا نام کیوں کر خارج کر سکتے ہیں۔
اگر انھوں نے ایسی غلطی کی تو وہ خود بھی دعوت میں نہیں جائے گا۔
تو کیا وہ صدر صاحب کی دعوت کو ٹھکرا دے گا؟ یہ مشکل سوال تھا اور اگر وہ اس دعوت کو ڈائنا کے لیے ٹھکرا سکتا ہے تو مونیکا کے لیے کیوں نہیں؟ لیکن کہاں ڈائنا اور کہاں مونیکا۔
یہ سوال دوسری مرتبہ اس کے دماغ میں آیا تھا۔ ہاروے نے سوچا شاید سوالات کا خزانہ ختم ہو چکا ہے اس لیے اعادہ ہونے لگا ہے اب سونا چاہئے۔ ویسے بھی وہ کافی تھکا ہوا ہے اور رات کافی ہو چکی ہے۔ خوابگاہ کا نرم بستراس کو اپنی آغوش میں بھر لینے کے لیے بے چین تھا۔ آنکھوں میں، دل میں، دماغ میں ہر طرف خواب ہی خواب تھے
…………………..
وقت کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ ہاروے، مائیکل اور کیتھی کے ساتھ سٹار بک کافی ہاوس میں بیٹھا ہوا ہے کیتھی نے پوچھا اور کیا ہوا؟
اور کچھ نہیں ….
اب کیا ہو گا؟
یہ میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں؟
بہت خوب مائیکل بولا۔ ہاروے نے بات آگے بڑھائی جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا اب اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اہم تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے لیے صدر محترم نے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا ہے۔
کیا؟ کیتھی نے کہا ہم لوگوں کے لیے؟
جی ہاں انھوں نے مجھ سے اور جان ڈیو سے کہا ہے ہم دونوں اپنے اہل خانہ اور اپنے قریبی دوستوں کے نام سے ان کے دفتر کو واقف کروا دیں تاکہ دعوت نامہ جاری کیا جا سکے۔
مائک نے سوال کیا بہت خوب تو کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آنجناب نے ہم حقیر فقیر بندوں کو اپنی فہرست میں شامل فرمایا یا نہیں؟
کیسی باتیں کرتے ہو۔
سب سے اوپر تمھارا نام ہے مائیکل اور……..
کیتھی کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور اس کے برابر میں کیتھی جانسن کا نامِ نامی۔ میری فہرست میں ان کے سوا اور ہو بھی کون سکتا تھا؟
مائیکل نے مایوس ہو کر پوچھا بس ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں؟
ہاروے بولا ویسے تو میں نے ایک اور نام کی سفارش کی ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ اس کی توثیق ہو گی یا نہیں۔
کیتھی بولی کون ہے وہ بدنصیب؟
مائیکل بولا بدقسمت نہیں خوش قسمت؟
کیتھی نے کہا بدنصیب اس لیے کہ اس کی آمد یقینی نہیں ہے۔
مائیکل بولا خوش نصیب اس لیے کہ اس کی آمد کا فیصلہ خود صدرِ محترم کی مرضی سے ہو گا۔
کیتھی نے کہا بشرطیکہ ہو جائے۔
مائیکل بولا یقیناً ہو گا۔
ہاروے نے کہا تم لوگ یہ جانے بغیر ہی آپس میں لڑ پڑے کہ وہ کون ہے، کس کا نام میں نے تجویز کیا ہے؟
ہم اسے جانتے ہیں دونوں یک زبان ہو کر بولے وہ ہستی صرف اور صرف مونیکا ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
مائیکل نے خوش ہو کر کہا تو اس کا مطلب آج شام کی دعوت میں مونیکا بھی آ رہی ہے۔
کیتھی بولی جی ہاں اگر صدر صاحب کی جانب سے ہری جھنڈی مل جائے۔
لیکن اگر وہ آ جاتی ہے تو واپس کہاں جائے گی؟ مائیکل نے از راہ تجسس دریافت کیا۔
کیتھی بولی یہ بھی کوئی سوال ہے؟ اگر کسی ملزم کو پیرول پر وقتی طور سے باہر لایا جاتا ہے تو رخصت کی مدت کے خاتمے پر اسے دوبارہ جیل روانہ کر دیا جاتا ہے۔
ہاروے نے کہا جی نہیں اب وہ کبھی بھی جیل میں نہیں جائے گی۔ کبھی نہیں
کیا مطلب؟ اگر وہ مائیکل کا قتل کر دے تب بھی نہیں؟
تم کیسی باتیں کرتی ہو کیتھی وہ بھلا مائیکل کو کیوں مارنے لگی اگر اسے کسی کو قتل کرنے کا شوق ہے تو اس کے لیے جان ڈیو موجود ہی ہے اور میں تو کہتا ہوں کہ اگر وہ جان کے ساتھ مائیکل کو بھی مار ڈالے تب بھی وہ جیل نہیں جائے گی ہاروے بولا۔
مائیکل نے کہا میں کچھ سمجھا نہیں۔
شام تک صبر کرو سب کچھ تمھاری سمجھ میں آپ سے آپ آ جائے گا۔
کیتھی نے اب کی بار نہایت معنی خیز انداز میں کہا اوہو ایسی بات ہے؟ اب میں سمجھی ورنہ تو میرا خیال تھا کہ مائیکل نے کام سے بیاہ رچا لیا ہے اور یہ کنوارا ہی اس دنیا سے جائے گا۔
مائیکل نے کہا لیکن ابھی ابھی تو تم کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔
جی ہاں میں اب بھی کچھ اور ہی کہہ رہی ہوں۔
ہاروے نے پوچھا کیتھی جو کچھ کہہ رہی ہے اس بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟
مائیکل بولا میں تو اس بابت خاموش رہنے کو ترجیح دوں گا اس لیے کہ ابھی تک مونیکا کا دعوت میں آنا ہی غیر یقینی ہے۔
میں سمجھ گیا ہاروے نے چہک کر کہا۔ تمھاری خاموشی در اصل نیم رضا مندی ہے۔
کیتھی بولی نیم نہیں میم رضامندی ہے۔
یہ میم رضامندی کیا ہوتی ہے؟
مکمل رضامندی اور کیا؟
ہاروے بولا اگر ایسا ہے تو شام ہم صدارتی محل سے سیدھے چرچ میں جائیں گے۔
کیتھی بولی ایسی بھی کیا جلدی ہے پہلے مونیکا کی رائے تو معلوم کر لو ممکن ہے وہ اس آدھے تیتر آدھے بٹیر کے ساتھ بیاہ رچانے سے انکار کر دے۔
جی نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا مائیکل جیسے خوبرو اور خوشحال جوان کے ساتھ شادی کرنے سے بھلا کوئی لڑکی انکار کر سکتی ہے۔
جی ہاں ہاروے تمھاری اس بات سے تو میں بھی اتفاق کرتی ہوں۔
مائیکل بولا زہے نصیب۔
ہاروے کو جب پتہ چلا کہ مائیکل اور کیتھی کے ساتھ ساتھ مونیکا کے نام کا بھی دعوت نامہ جاری ہو چکا ہے تو اس نے صدر محترم کے سکریٹری سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو مونیکا کو جیل سے کسی بیوٹی پارلر میں روانہ کیا جائے اور وہاں سے دلہن کا لباس پہنا کر محل میں لایا جائے۔
یہ سن کر سکریٹری بولا جناب یہاں کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر ہے۔ محل کے اندر موجود چرچ کے اندر نکاح کے سارے انتظامات کر دئیے جائیں گے۔ وہ بیچارہ سمجھ رہا تھا کہ ہاروے خود مونیکا کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔
صدر دفتر کی جانب سے نوبیاہتا جوڑے کے لیے بے شمار تحفے تحائف اور ہنی مون کے سفر کا اہتمام بھی کیا گیا۔ ہاروے نے ایک بیش قیمت ہیروں کی انگوٹھی کے ساتھ قیمتی سوٹ خرید کر مائیکل کو بھیجا اسی کے ساتھ کیتھی کے لیے بھی نیا جوڑا خرید کر اس کی قیام گاہ میں پہنچا دیا۔ شام کو جب وہ تینوں قصرِ ابیض پہنچے تو مونیکا اپنی بہن ویرونیکا کے ساتھ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ مونیکا کے لیے مائیکل کے حق میں ہاروے کی سفارش کافی تھی وہ بنا کسی پس و پیش کے نکاح کے لیے راضی ہو گئی۔ ہاروے نے سکریٹری کی غلط فہمی دور کر دی اور مائیکل کے بارے میں بتا دیا۔
قصرِ ابیض کے پارٹی ہال میں خاصی گہما گہمی تھی۔ گومس، اسمتھ اور کوک اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ جان ڈیو بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آ گیا تھا اور اب انتظار صرف صدر محترم کا تھا وہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ تشریف لائے اور وہ سب کا استقبال کرنے کے بعد بولے آپ سب نے اپنے اپنے مہمانوں کو دعوت دی تو میں نے سوچا اس مخصوص ساعت میں میرا بھی کوئی خاص مہمان ہونا چاہئے۔
میں نے جب اس سوال پر غور کیا میرے ذہن میں صرف ایک نام آیا اور وہ تھا ویرونیکا۔ اس لیے کہ اس ساری کہانی کو روح رواں ویرونیکا کی ذاتِ با برکات ہے اگر وہ نہ ہوتی تو یہ پارٹی نہیں ہوتی اور ہم سب یہاں ایک ساتھ نہیں ہوتے اس لیے میں نے اسے بھی بلا لیا
خاتونِ اول نے کہا تو گویا ہماری آج کی مہمانِ خصوصی ویرونیکا ہے۔
حاضرین مجلس نے تالیاں بجا کر ویرونیکا کی پذیرائی کی۔
اس کے بعد کیتھی نے آہستگی سے مائیکل کے کان میں کہا لگتا تم نے انتخاب میں جلدی کر دی۔ اس ویرونیکا کو دیکھو بالکل تمھاری طرح……..
آدھی تیتر آدھی بٹیر مائیکل نے جملہ پورا کیا لیکن اس میں نقصان یہ تھا کہ ہمارے بچے بھی ہو تے ………..
کیتھی بولی آدھے تیتر آدھے بٹیر
مائیکل بولا مجھے لگتا ہے اس میں مجھے تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میرے عزیز دوست ہاروے کا یہ فیصلہ میرے لیے بہتر ثابت ہو گا۔
کیتھی بولی جی ہاں میری نیک خواہشات تمھارے ساتھ ہیں۔
اس دوران گرجا گھر کا پادری بھی وہاں آ پہنچا اس نے سارے لوگوں کو چرچ میں آنے کی دعوت دی۔ یہ مختصر سی بارات شاہی گرجا گھر میں پہنچ گئی اور نکاح کو رسومات ادا ہو گئیں۔ مائیکل نے جیسے ہی انگوٹھی کو مونیکا کی انگلی میں ڈالاسارے لوگوں نے تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا اورسب سے پہلے جان ڈیو نے آگے بڑھ کر مونیکا کو مبارکباد دی۔ اس کے بعد سبھی نے باری باری نوبیاہتا جوڑے کو بدھائی دی۔
خاتونِ اول نے مونیکا سے معانقہ کیا اور صدر محترم نے مائیکل کو سینے سے لگا کر دعا دیتے ہوئے کہا تمھاری واپسی کا ٹکٹ تین مہینے بعد کا ہے تم چا ہو تو اس میں تاخیر کر سکتے ہو لیکن تعجیل ممکن نہیں ہے۔
پارٹی کے بعد مائیکل اور مونیکا کی رہائش کا اہتمام قصِر ابیض ہی میں تھا۔ اس لیے کہ دوسری صبح ان دونوں کو ہنی مون کے لیے عالمی دورے پر نکل جانا تھا۔ باقی لوگ اپنی اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
ہاروے نے یہ خوشخبری سنانے کے لیے دوسرے دن صبح ڈائنا کو فون لگایا تو اسے پتہ چلا ڈائنا نے خودکشی کر لی ہے۔ ڈائنا کو نہ جانے کس نے مونیکا کے ساتھ مائیکل کے نکاح کی خبر دے دی تھی۔
چشم تصور میں جب ہاروے نے اپنی معصوم بہن کی لاش کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا اور آنکھ کھل گئی۔ یہ ایک بھیانک خواب تھا جو ہاروے نے ابھی ابھی دیکھا تھا۔ ہاروے کا سار اجسم پسینے سے شرابور تھا۔
٭٭٭
۳۲
اس سے پہلے کہ ہاروے کے ہوش ٹھکانے آتے فون کی گھنٹی نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ ہوٹل کے استقبالیہ سے اسے اطلاع دی کہ دو مہمان اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس نے چونک کر دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا اور حیرت زدہ رہ گیا۔ صبح دس بج کر دس منٹ ہو چکے تھے۔ ہاروے نے مائیکل سے بات کر کے معذرت چاہی اور نصف گھنٹے میں آنے کا وعدہ کر کے حمام کی جانب چل پڑا۔
کیتھی بولی اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ مونیکا رہا ہو جائے گی اورسب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
مائیکل نے کہا مجھے تو پہلے ہی یقین تھا لیکن تم خود ہی شکوک و شبہات میں مبتلا تھیں۔ خیر اب ایسا کیا ہو گیا جو تمھاری یقین دہانی کا سبب بنا۔
کوئی شخص کسی اور کو بلی کا بکرا بنا کر اس طرح چین کی نیند نہیں سوسکتا
یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ میرا دوست ایسا نہیں کر سکتا
جی ہاں عورت ذات ہوں اس لیے سوچتی زیادہ ہوں خیر اب ہمارا کیا ہو گا؟
ہمارا کیا ہونا ہے؟ ہم پر نہ کوئی الزام ہے اور نہ کوئی مقدمہ۔ ہمیں کس بات کی چنتا؟
نہیں میں یہ کہہ رہی تھی کہ جس کام کے لیے ہم یکجا ہوئے تھے وہ تو ختم ہو گیا
اس میں پریشانی کس بات کی؟ ہم صدر صاحب کے خرچ پر جشن منائیں گے۔
اور اس کے بعد ہم کیا کریں گے؟ ۔ کیتھی نے متفکر ہو کر پوچھا۔
اس کے بعد کیا؟ اس کے بعد ہم ان باتوں کو بھلا کر پرانی ڈگر پر لوٹ جائیں گے
کیتھی بولی کیا یہ اتنا آسان ہے؟ مائیکل
اس میں مشکل کیا ہے؟ انسان کی یادداشت محدود ہے اگر وہ پرانی یادوں کو اپنے دل میں بسائے رکھے تو اس کا دماغ بھی کمپیوٹر کی مانند بوجھل ہو کر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔
لیکن اب میں اپنی پرانی ڈگر پر واپس جانا نہیں چاہتی؟
مائک نے پوچھا کون سی پرانی ڈگر؟
وہی مخبری اور نامہ نگاری؟ مجھے اب اس پیشے سے نفرت ہو گئی ہے۔
اچھا تو کس سے محبت ہو گئی ہے؟ مائیکل نے ظرافت کے ساتھ پوچھا۔
وہ میں بعد میں بتلاؤں گی فی الحال تمھارے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ میں واقعی استعفیٰ دینے جا رہی ہوں۔
اچھا؟ لیکن گدھا اگر گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا۔
کیتھی نے چڑ کر کہا دیکھو تمھاری مثال غلط ہے یہاں نہ کوئی گدھا ہے اور نہ گھاس اور بات محبت کی نہیں نفرت کی ہو رہی ہے۔
غلطی ہو گئی لیکن مثال تو بس ایک تمثیل ہو تی ہے حقیقت نہیں ہوتی۔
لیکن پھر بھی اس کامناسب اور برمحل ہو نا ضروری ہے۔ خیر اپنے مستقبل کے منصوبے پر رات بھر میں غور و خوض کے سمندر میں غوطہ زن رہی۔
اوہو بہت خوب مائیکل بولا۔ ہمیں بھی تو پتہ چلا کہ کون سے لعل و صدف اس مشق کے نتیجے میں تمھارے ہاتھ لگے۔
میں نے سوچا ہے کہ ایک فلم سازی کا ادارہ قائم کیا جائے۔
اور مونیکا کو لے کر فلم بنائی جائے
مائیکل بولا قسم خدا کی تمھاری فلم تہلکہ مچا دے گی۔
تم نے پہلی بار ایک صحیح بات کہی ہے لیکن اس کا ہیرو مائیکل نہیں ہو گا۔
ارے بھئی مجھے پتہ ہے اس کا ہیرو ہاروے اور ولن جان ڈیو ہو گا اس میں ہمارا کیا کام؟
کیتھی بولی یہ بھی درست ہے آج کیا بات ہے تمھاری عقل بالکل ٹھیک چل رہی ہے لیکن وہ ایک دستاویزی میرا مطلب ہے ڈاکیومنٹری فلم ہو گی جو ہالی ووڈ کے لیے نہیں بلکہ ٹیلی ویژن چینلس کے لیے بنائی جائے گی۔
بہت خوب اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ تم مجھے بتا دینا کہ کب نشر ہونے والی ہے میں اسے دیکھ لوں گا اور جہاں تک اس کی تعریف کا سوال ہے ابھی پیشگی کیے دیتا ہوں۔
کیتھی نے حیرت سے کہا کیا؟
جی ہاں کیا زبردست فلم ہے مزہ آ گیا۔ مائیکل نے ایسے کہا گویا فلم دیکھ چکا ہو۔
شکریہ۔ مزہ آیا نہیں بلکہ آئے گا لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے؟
اب کیا مسئلہ ہے۔ فلم بن گئی نشر ہو گئی لوگوں کو پسند آ گئی اور کیا چاہئے بلکہ ایوارڈ بھی ۰۰
میری طرف سے کیتھی بولی بولو رک کیوں گئے۔ مجھے تمھارا ایوارڈ نہیں چاہئے۔
مائک نے سوال کیا اچھا تو کیا چاہئے؟
یہ میں بعد میں بتاؤں گی۔ در اصل فلم کا بننا، نشر ہونا، مقبول ہونا اور ایوارڈ ملنا یہی سب کافی نہیں ہے؟
اچھا؟؟؟۔
اس کا بکنا بھی تو ضروری ہے تاکہ اس پر جو سرمایہ خرچ ہوا ہے وہ واپس آ سکے۔ جس نے اسے بنایا اس کا چولہا جل سکے اور اگلی فلم کے لیے قرض مل سکے؟
بھئی کیتھی اب تو تم بالکل تاجرانہ لہجے میں بات کر رہی ہو اور اس فن کی بھی استاد لگتی ہو۔
مجھے پتہ ہے مائیکل تم یہی زبان سمجھتے ہو خیر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں فلم بنا تو سکتی ہوں لیکن بیچ نہیں سکتی۔
اس میں کون سی بڑی بات ہے مائیکل نے کہا ہم بیچ دیں گے۔ ہاروے کے لیے نہ جانے کیا کیا خرید فروخت کرتے رہتے ہیں اسی کے ساتھ تمھاری ایک آدھ فلم بھی بیچ دیں گے۔
مائیکل تم نے میرے دل کی بات کہہ دی یہی تو میں چاہتی ہوں کہ تم بھی میری طرح استعفیٰ دے دو۔
میں بھی استعفیٰ دے دوں۔ تم تو استعفیٰ دے کر فلمیں بناؤ گی لیکن میں کیا کروں گا؟
تم ان فلموں کو فروخت کرو گے۔ ہماری یہ گاڑی دو پہیوں پر چلے گی آگے آگے تم اور پیچھے پیچھے میں۔
مائیکل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا کیتھی ترتیب غلط ہو گئی۔ اگر تم فلم بناؤ گی ہی نہیں تو میں بیچوں گا کیا؟ اس لیے ہونا یہ چاہئے کہ آگے آگے تم اور پیچھے پیچھے میں۔
یہی تو میں نے کہا کیتھی بولی۔
جی نہیں تم نے یہ نہیں کہا ……….
میں نے یہی کہا ………
تم نے یہ نہیں کہا …..
میں نے …….۔
یہ کیا کہنے سننے کا چکر چل رہا ہے؟ ہاروے کی دخل اندازی نے بحث کا خاتمہ کر دیا۔
مائیکل بولا کچھ نہیں در اصل یہ کیتھی ہے نا کل سے بہت خوش ہے۔ نہ جانے کیا بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ لگتا ہے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
جی نہیں ہاروے میرا نہیں بلکہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
ہاروے کو ڈائنا کی بات یاد آ گئی اس نے بھی کہا تھا مائیکل کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔
ہاروے بولا مائیکل ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے۔ لگتا ہے تمھارا دماغ درست کرنا پڑے گا۔
مائیکل نے پوچھا ہر کوئی ! کیا مطلب؟
ہاروے بولا یہ میں بعد میں بتاؤں گا۔
مائک نے تعجب سے پوچھا ہر بات بعد میں بتائی جائے گی تو اب کیا بتایا جائے گا؟
ہاروے نے جواب دیا میں بتاتا ہوں پہلے ریسٹورنٹ میں چل کر ناشتہ کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ بات چیت بھی ہوتی رہے گی۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔ وہ تینوں ہلٹن کے شاندار بوفے ناشتے کی جانب چل پڑے۔ یہ ناشتہ کیا تھا کہ پورا کھانا تھا۔ کون سی ایسی چیز تھی جو یہاں موجود نہیں تھی۔ یہ امریکی ناشتہ جانتے ہی نہیں تھے۔ بلکہ شاید صبح کے وقت جو کھایا جاتا تھا وہ ناشتہ کہلاتا تھا بس اس کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں تھا۔
مائیکل نے بھنی ہوئی ڈبل روٹی چباتے ہوئے کہا اب کچھ کام کی بات بھی ہو جائے؟
جی ہاں کیوں نہیں ہاروے نے تائید کی اور پوچھا بولو کیا جاننا چاہتے ہو تم لوگ؟
کیتھی نے پیشہ ور صحافی کے انداز میں پوچھا ہم لوگ کل سے یہ جاننے کے لیے پریشان ہیں کہ یہ سب کیا ہو گیا اور کیسے ہو گیا؟ کیا کوئی جادو کی چھڑی تمھارے ہاتھ آ گئی جس کے گھمانے سے سب کچھ بدل گیا یا کوئی علاؤالدین کا چراغ تمہیں مل گیا جس کے اندر سے نمودار ہونے والے جن نے جان کا چراغ گل کر کے مونیکا کو اس میں جلنے سے بچا لیا؟
ہاروے حیرت سے کیتھی کی شکل دیکھ رہا تھا۔ مائیکل بولا کچھ نہیں کیتھی نے صحافت کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اب وہ ٹی وی کی نامہ نگاری چھوڑ کر فلم کی منظر نگاری کرنے لگی ہے۔ یہ اس کا نمونہ یا یوں سمجھ لو کہ فلم کی ابتداء میرا مطلب ٹائٹل ہے۔
ہاروے بولا اب تم لوگوں کی بحث میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ تمہارے الزامات درست ہیں۔ تم دونوں الّا ماشا اللہ پاگل ہو گئے ہو اس لیے مجھے تم دونوں کو صدارتی محل کے بجائے پاگل خانہ بھجوانے کا انتظام کرنا چاہیے۔
کیتھی بولی میں معافی چاہتی ہوں یہ بتاؤ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟
ہاروے نے کہا فی الحال میں تم لوگوں کو یہ تو بتا سکتا ہوں کہ کیا ہوا لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ کیسے ہوا؟ میری یہ استدعا ہے کہ جو کچھ بتاؤں اسی پر اکتفا کر لو زیادہ تفصیل پر اصرار نہ کرو اس لیے کہ وہ بدعہدی کے مترادف ہو گا اوراس معلومات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔ کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد ہاروے نے ضروری معلومات سے آگاہ کیا اور کہا شام کو ہمیں دعوت پر جانا آپ لوگ مناسب سمجھیں تو یہیں آ جائیں ساتھ چلیں گے یا پھر اپنے طور سے سات بجے وہاں پہنچ جائیں آپ کی مرضی۔
دونوں نے ایک زبان ہو کر کہا ہم وہیں پہنچ جائیں گے۔
ہاروے کے لیے یہ ہم آہنگی تشویشناک تھی۔ اس نے کہا بہت بہتر تو شام سات بجے ہماری ملاقات قصر ابیض کی انتظار گاہ میں ہو گی۔
ہاروے ہوائی اڈے سے اپنی ممی، نانی اور ڈائنا کے ساتھ ہوٹل ہلٹن آیا۔ دعوت کے لیے دو گھنٹے کا وقفہ تھا اس لیے ان لوگوں نے آرام کیا اور وقت مقرر پر یہ قافلہ قصر ابیض میں داخل ہو گیا۔ وہاں پر کیتھی اور مائیکل کے علاوہ جان ڈیو بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ موجود تھا۔ جان نے اپنے کسی دوست کو دعوت نہیں دی تھی۔
جان ڈیو نے کیتھی جانسن کو فوراً پہچان گیا۔ جان کو ہاروے کی سیاسی بصیرت کا احساس تو میٹنگ کے دوران ہو گیا تھا کہ لیکن جب اس نے کیتھی کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ ہاروے عملاً سیاست کے میدان میں مصروف عمل ہو گیا ہے اور اس نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کیتھی جیسی ذہین صحافیہ کی خدمات حاصل کرنے کا نہایت دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ جان اس بات سے خوش تھا کہ اڑان بھرنے سے قبل ہی اس نے ہاروے کے پر کتر دئیے تھے۔ اس بیوقوف کو اپنے نقصان سے زیادہ ہاروے کے خسارے کی خوشی تھی۔
دعوت نہایت خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ بظاہر جان اور ہاروے نے سارے گلے شکوے مٹا دئیے تھے لیکن شیشے کے اندر جو بال پڑ گیا تھا اس کا نکلنا ناممکن تھا۔ صدر محترم ان دونوں سے بے حد خوش تھے اور خاتونِ اول کو ڈائنا بہت اچھی لگی تھی۔ ڈائنا تھی ہی ایسی کہ جس سے ملتی اس کے دل میں اپنے لیے جگہ بنا لیتی تھی۔
کیتھی اور مائیکل اسی رات کولاریڈو لوٹ گئے۔ دوسرے دن علی الصبح ہاروے بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ واپس آ گیا اور دوپہر کو دفتر بھی پہنچ گیا۔ دفتر میں سب سے پہلے تو اس نے ضروری کاغذات پر دستخط کیے اور پھر اپنے میل دیکھنے لگا۔ اسے سب سے زیادہ خوشی ان خطوط سے ہوئی تھی جو مسلمانوں نے اپنے لوگوں کی رہائی پر لکھے تھے۔ کس قدر محبت اور عقیدت کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کی سکریٹری نے بتایا کہ ڈاکٹر فیاض دو مرتبہ فون بھی کر چکے ہیں اور انھوں نے خاص طور پر ہاروے کی کوششوں کو سراہا ہے۔
ہاروے ان خطوط کو دیکھ ہی رہا تھا کہ مائیکل اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ دعا سلام کے بعد ہاروے نے پوچھا کوئی خاص بات؟ تو مائیکل نے ایک کاغذ ہاروے کی جانب بڑھا دیا۔
ہاروے بولا یہ کیا ہے؟
مائیکل نے کہا یہ میرا استعفیٰ ہے۔
یہ جملہ ہاروے پر بم کی مانند گرا۔ استعفیٰ کیوں خیریت؟
جی ہاں بالکل خیریت ہے۔
تب پھر اس کی ضرورت کیوں آن پڑی؟
مائیکل بولابس یونہی میں سوچتا ہوں کہ اب کچھ اور کرنا چاہئے۔
کچھ اور؟ میں سمجھا نہیں؟ کیا تم اپنے دوست کو یہ بتانا مناسب سمجھتے ہو یا فی الحال اسے پوشیدہ رکھنا ضروری ہے۔
جی نہیں ہاروے اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اب میں نے ملازمت کے بجائے اپنا نجی کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنا کاروبار میں سمجھا نہیں؟
در اصل تم تو جانتے ہی ہو کہ میں زیادہ تر سیلز کا کام دیکھتا ہوں اوراس شعبہ میں کام کرنے والا آدمی عملاً تجارت کرتا ہے۔ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے لیکن اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں خود اپنے لیے وہی کروں گا۔
بہت خوب مبارک ہو۔ میری نیک خواہشات تمھارے ساتھ ہیں۔
ویسے ضابطے کے مطابق ایک ماہ کے بعد ہی مجھے سبکدوش کیا جائے گا۔
اوہو اگر تم چا ہو تو میں اس معاملے میں مداخلت کروں؟ ہاروے نے پوچھا۔
جی نہیں اس بیچ میں ان باقی ماندہ کاموں سے نمٹ لوں گا جو میرے ہاتھ میں ہیں۔
یہ اچھا ہے لیکن اگر کوئی تعاون درکار ہو تو آدھی رات میں مجھے یاد کر سکتے ہو۔
شکریہ، مجھے تم سے یہی امید تھی۔ ہم پہلے بھی دوست تھے اور آئندہ بھی رہیں گے۔
جی ہاں مائیکل لیکن کیا تم یہ بتانا پسندکرو گے تم کس چیز کی تجارت کرنا چاہتے ہو۔
کیوں نہیں۔ در اصل میں نے کیتھی کے ساتھ مل کر ایک میڈیا کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں دستاویزی فلمیں بنائی جائیں گی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ مجھے اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فلم بنانے کا کام تو کیتھی کرے گی۔ میں انہیں فروخت کر کے بقایا جات کی وصولی کروں گا۔
بھئی مان گئے۔ تم لوگوں کی تقسیم کار نہایت معقول ہے۔ جو کام تم نہیں کر سکتے کیتھی کرے گی اور جو وہ نہیں کر سکتی تم کرو گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کمپنی بہت جلد کامیابیوں کی عظیم بلندیاں طے کرے گی اور کیتھی کے ارادے کیا ہیں؟
اس نے بھی دونوں سابقہ مشغولیات کو خیرباد کر کے یکسوئی کے ساتھ اس نئے کام کو کرنے کا عزم کیا ہے اور سچ تو یہ ہے یہ اسی کا خواب ہے جسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر میں اس کے ساتھ ہو گیا ہوں۔
جی ہاں تم نے بہت صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا۔ میری جانب سے کیتھی تک میری نیک خواہشات پہنچا دینا ویسے میں خود فون کر کے اس کو نئی مہم کی مبارکباد دوں گا۔ اس کے بعد مائیکل اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا ہاروے نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور دونوں دوست ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
مائیکل کے چلے جانے کے بعد ہاروے سوچنے لگا کہ
یہ چنگاری جو اب اٹھی ہے اس کی لپٹیں کہاں تک جائیں گی؟
کیتھی اور مائیکل کا ساتھ کیا گل کھلائے گا؟
یہ لوگ کیسی فلمیں بنائیں گے؟
ہلٹن ہوٹل کی نوک جھونک اسے یاد آ گئی اور قصر ابیض میں ایک ساتھ آنے کا برجستہ فیصلہ ہاروے کی نظروں میں گھوم گیا۔
اسے کیتھی کے ایک دن پرانے مکالمے یاد آنے لگے اور پھر مائیکل کا یہ کہنا کہ یہ اس کی منظر نگاری ہے۔ کہیں یہ دو دیوانے مونیکا اور ویرونیکا پر فلم بنانے کی کوشش تو نہیں کریں گے۔
اگر انھوں نے ایسا کیا تو غضب ہو جائے گا۔
سارے لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہاروے نے یہ تفصیل انھیں بتلائی ہے اور بدعہدی کا مرتکب ہوا ہے حالانکہ ہاروے نے انھیں اس میٹنگ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا لیکن دیگر باتیں بھی ایسی تھیں کہ جن کا علم ہاروے کے علاوہ کسی اور کو نہیں تھا خاص طور پر وہ شواہد جو عدالت میں جمع کیے گئے تھے اور جن کی نقل ان دونوں کے پاس موجود تھی۔
اگر کل کو وہ لوگ اسے افشاء کر دیتے ہیں تو ایک بہت بڑا ہنگامہ ہو جائے گا۔
ہاروے نے سوچا کہ اس معاملے میں وہ مائیکل سے بات کر کے اسے منع کرے گا اس لیے کہ ان شواہد کا ا صل مقصد مونیکا کی رہائی تھا جو ہو جائے گی اور جان کو اس کے کیے کی سزا بھی مل جائے گی لیکن اگر ان لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا تو کیا ہو گا؟
اس خیال کے ساتھ ہی ہاروے کی آنکھوں میں اس کا خواب اتر آیا۔
وہ سوچنے لگا اس کی معصوم بہن ڈائنا کا کیا ہو گا؟
وہ تو واقعی خودکشی کر لے گی اور ایک بھیانک خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔
اس خیال سے ہاروے کانپ اٹھا۔ وہ پھر ایک بارپسینے سے شرابور ہو گیا۔
ہاروے نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا کمپیوٹر بند کیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی کی جانب چل پڑا۔ گھر پہنچا تو سامنے ڈائنا موجود تھی۔ اس نے ہاروے کو دیکھتے ہی کہا کیوں بھائی طبیعت تو ٹھیک ہے؟
ہاں بالکل ٹھیک ہے کیوں؟ تم یہ سوال کیوں کر رہی ہو؟
دیکھو بھائی یا تو تمھارا چہرہ جھوٹ بول رہا ہے یا پھر تمھاری زبان سچ نہیں بول رہی۔ اس لیے کہ ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں کس کی مانوں؟
تم نہ تو چہرے کی مانو اور نہ زبان کی بلکہ اپنے بھائی ہاروے کے دل کی مانو۔
اچھا مجھے پتہ تو چلے کہ میرے بھائی کے دل میں کیا ہے؟ یہ نہ کہہ دینا کہ مونیکا ہے۔
لگتا ہے مونیکا میرے دل میں نہیں بلکہ تمھارے اعصاب پر سوار ہے۔ میرے دل میں تو بس یہ ایک گلاس ٹھنڈا پانی اور گرم گرم کافی ہے۔
اوہو بہت خوب بیک وقت ٹھنڈا اور گرم دونوں تو میں ایسا کرتی ہوں کہ پہلے ٹھنڈا پانی پلاتی ہوں اور پھر گرم کافی لاتی ہوں۔
جی ہاں بالکل ٹھیک۔
ہاروے کے لیے کافی لاتے ہوئے ڈائنا اپنے لیے چائے بھی لیتی آئی۔
ڈائنا بولی بھائی کیا بات ہے کہ جب تم باہر ہوتے ہو تو بہت خوش رہتے ہو اور جب گھر میں آتے ہو تو اداس ہو جاتے ہو؟
یہ تم سے کس نے کہا ہاروے نے سوال کیا۔
کسی کو کہنے کیا ضرورت ہے۔ کل میں تمھارے ساتھ واشنگٹن میں تھی۔ میں نے دیکھا تم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور آج دیکھا تو چہرہ اترا ہوا ہے۔
ہاروے نے اپنے حواس مجتمع کر لیے تھے وہ بولا کل صدرِ محترم نے ہمارے لیے خصوصی دعوت کا اہتمام کیا تھا اب تم کیا چاہتی ہو کہ میں اس میں چہرہ لٹکائے ہوئے جاتا۔
یہ تم سے کس نے کہا میں یہ ایسا چاہتی ہوں۔ میری تو بس یہ خواہش ہے کہ جس طرح کل پرمسرت تھے اسی طرح آج بھی بلکہ ہمیشہ خوش و خرم رہو۔
ہاروے بولا تم کیا ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہے۔ اس کے اہل خانہ دوست و احباب سبھی شاد باد رہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا سے غم و اندوہ کا نام و نشان مٹ جائے۔ لیکن دن اور رات کی طرح خوشی اور غم بھی انسان کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ انسان کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔
ہاروے کی تقریر نے ڈائنا کو سنجیدہ کر دیا وہ بولی تم تو کرسمس کے سوا کبھی بھی گرجا گھر نہیں جاتے اس کے باوجود آج تم نے وہی بات کہہ دی جو فادر جوزف کہتے ہیں۔
بہن یہ زندگی کی آفاقی حقیقت ہے۔ اس کی نشانیاں آفاق و انفس میں ہر سو پھیلی ہوئی ہیں۔ انھیں جاننے کے لیے گرجا گھر میں جانا ضروری نہیں ہے۔
ڈائنا نے تائید کی اور بولی جی ہاں بھیا فادر نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ صحیفوں میں لکھا ہے وہی سب کائنات کے ذرے ذرے پر کندہ ہے لیکن افسوس کہ لوگ نہ تو کائنات پر لکھی تحریر کو پڑھتے ہیں اور نہ صحیفوں کا مطالعہ کرتے ہیں دن رات ننانوے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔
یہ ننانوے کا چکر کیا ہے؟ ہاروے نے پوچھا۔
وہی ننانوے کو سو بنانے کا چکر جو کبھی پورا ہی نہیں ہوتا یہاں تک کہ انسان کی مدت عمل ختم ہو جاتی ہے۔
بھئی مان گئے استاد تمھارے فادر جوزف نے تو بڑی زبردست بات کہہ دی۔
میرے ہی کیوں وہ تو تمھارے بھی ہیں لیکن تم مانو تو تب نا وہ تمہیں بہت مانتے ہیں۔
ہاروے نے چونک کر پوچھا یہ تمہیں کیسے پتہ؟
وہ تمھارے بارے میں پوچھتے ہیں تمھارے لیے دعا کرتے ہیں اورسلام بھیجتے ہیں۔
لیکن تم نے کبھی مجھ تک ان کا سلام نہیں پہنچایا؟
ڈائنا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولی پہنچا کر بھی کیا فائدہ تم بھی تو اسی ننانوے کے چکر میں بلکہ نو سو ننانوے کے چکر میں لگے رہتے ہو۔
ابھی تو تم ننانوے کا چکر بتلا رہی تھیں اب اس میں نو سو کا اضافہ ہو گیا؟یہ تمھارے فادر جوزف کی کوئی نئی ایجاد ہے کیا؟
ڈائنا شرما کر بولی یہ فادر کی نہیں میری اپنی افتراء ہے۔
اوہو بہت خوب ہمیں بھی تو اپنی بہن کی افترا پردازی کا پتہ چلے؟
تم فادر سے تو نہیں کہو گے؟
ارے میں کیوں کہنے لگا ان سے؟ کرسمس کے دن ویسے بھی چرچ میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ کچھ کہنے سننے کا ماحول نہیں بنتا۔
اسی لیے تو کہتی ہوں کہ اس کے علاوہ بھی چرچ جایا کرو کم از کم ہفتے میں ایک بار لیکن میری کوئی سنتا کب ہے؟ ڈائنا نے منھ بسور کر بولی۔
ارے بھئی تم جو ہر روز دو بارجاتی ہو یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ ویسے اگر میں کرسمس کے دن بھی نہ جاؤں تب بھی میرا بیڑہ پار ہو جائے گا۔ خیر تم مجھے نوسوننانوے کا چکر بتلا رہی تھیں۔
ڈائنا بولی ہاں میرے خیال میں جو لوگ صرف دولت کے چکر میں پڑے رہتے ہیں جیسے تمھارا دوست مائیکل تو وہ نناوے کے مریض ہیں اور جو دولت کے ساتھ سیاست کی بھی مصیبت پالتے ہیں تو ان کا مرض بڑھ کر کئی گنا سنگین ہو جاتا ہے اور وہ ننانوے کے بجائے نوسو ننانوے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔
اوہو اب تو مجھے کہنا پڑے گا کہ میری یہ ننھی سی بہن اپنے استاد سے بھی دو قدم آگے جا چکی ہے جو بات فادر جوزف نے کہی ہے اس سے تو سبھی واقف ہیں اور انھوں نے بھی کسی سے سن کر کہی ہو گی لیکن تمھاری بات بالکل نئی اور اچھوتی ہے جسے شاید میرے علاوہ کسی نے نہیں سنا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ اس کا سب سے پہلا سامع ہوں۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن فادر جوزف یہ بھی کہہ رہے تھے کہ دنیا میں کوئی شے بلا مقصد نہیں ہوتی۔ انسان خوش ہوتا ہے تو اس کے پسِ پشت بھی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں مثلاً تم نے کہا تھا قصر ابیض کی دعوت اور اداس ہوتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کو ئی سبب ضرور ہوتا ہے۔
جی ہاں ڈائنا یہ بھی صحیح بات ہے۔ کبھی کبھار انسان اپنے غم کی وجہ نہیں جان پاتا تو وہ اسے بلاوجہ کہہ کر ٹال دیتا ہے۔
جی ہاں بھائی اور فادر یہ بھی کہہ رہے تھے خوشی کو تقسیم کرنے پر اس میں اضافہ ہوتا لیکن اگر غم کو بانٹا جائے تو اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
کیا بات ہے تم تو آج فادر جوزف کے پیچھے ہی پڑ گئیں یہ بھی کہہ رہے تھے وہ بھی کہہ رہے تھے کیا تمھارے فادر کو کہنے سننے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے؟
کیوں نہیں، ان کے پاس بے شمار کام ہیں لیکن کسی کا دکھ درد سننا اور اس کے مداوا کی سعی کرنا کوئی چھوٹا کام ہے۔ میں تو کہتی ہوں یہی سب سے بڑا کام ہے۔
ہاں ! مدر ڈائنا مان گئے۔ اب جاؤ اور دنیا کے دکھ درد بانٹو اور مجھے تنہا چھوڑ دو۔
جی نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ فادر کہتے ہیں بلکہ دنیا کہتی ہے خیر کی ابتداء اپنے گھر سے ہونی چاہئے۔ تو میں بھی یہی کرتی ہوں اور اپنے بھائی سے پوچھتی ہوں کہ آج دفتر سے آتے ہوئے وہ اس قدر غمزدہ کیوں تھا؟
ہاروے پھر پھنس گیا۔ وہ بولا بتانا ضروری ہے؟
جی ہاں بہت ضروری ہے …….
ورنہ ہاروے نے پوچھا …..
ڈائنا بولی ورنہ میں تمہیں بتاؤں گی کہ فادر کیا کہتے ہیں؟
نہیں بابا بہت سن لیا میں نے اب تم سنو در اصل آج مائیکل نے استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے میں اداس ہو گیا تھا۔
مائیکل تو تمھارا خاص دوست تھا اس نے کیوں استعفیٰ دے دیا؟
ارے بھئی دوست تھا کیا مطلب؟ وہ اب بھی میرا دوست ہے۔ اب کیا یہ ضروری ہے کہ دو دوست ایک ساتھ کام بھی کریں۔ میرے کئی دوست میرے ساتھ کام نہیں کرتے ان میں سے ایک مائیکل بھی ہو گا۔
وہ تو ٹھیک ہے۔ خیر اب وہ کیا کرے گا؟
وہ اپنا کاروبار کرے گا۔ میرا مطلب ہے ننانوے کے چکر میں پڑ جائے گا۔
ڈائنا بولی وہ بھی ٹھیک ہے۔ انسان ملازمت کرے یا کاروبار لیکن اسے کلیسا میں ضرور آنا چاہئے لیکن نہ تم آتے ہو جو تجارت کرتے ہو اور نہ وہ آتا تھا جو ملازمت کرتا تھا۔ اس معاملے میں تم دونوں ایک جیسے ہی ہو۔ اچھا اب میں چلتی ہوں سورج غروب ہونے والا ہے مجھے چرچ کی طرف جانا چاہئے۔
ہاروے بولا ٹھیک ہے چرچ میں جا کر میرے اور میرے دوست کے لیے دعا کرنا۔
او کے میں تم دونوں کے لیے دعا کروں گی۔
ہاروے کو لگا کہ جیسے اس سے غلطی ہو گئی۔
اسے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ میرے دوست کے لیے دعا کرنا۔
٭٭٭
۳۳
کولاریڈو کے ہولی کراس چوک پر عظیم الشان جلسۂ عام کی تیاری زوروں پر تھی۔ پارٹی کے دفتر میں پھر ایک بار پھر ہاروے ہیرو بنا ہوا تھا۔ ٹام فوبرگ اس تبدیلی سے پریشان تھا۔ اس کے اور ہاروے کے ستارے مخالف سمت میں گھومتے تھے۔ جب ہاروے زیرو ہوتا تو ٹام ہیرو ہو جاتا تھا اور جب ہاروے زیرو ہو جاتا تو اپنے آپ ٹام ہیرو بن جاتا تھا۔ ایسا اس سے پہلے دو بار ہو چکا تھا۔ ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ ٹام کا تہنیتی جلسہ اچانک ہاروے کی رسمِ تاجپوشی میں تبدیل ہو گیا اور دوسری بار ایسا ہوا کہ دیکھتے دیکھتے ہاروے کا جشنِ استقبال اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں بدل گیا۔ اب حالت یہ تھی کہ جو لوگ ہاروے کے خلاف نعرے لگانے میں پیش پیش تھے وہ سب کچھ بھول بھال کراس کے آگے آنکھیں بچھائے ہوئے تھے۔
اس دوران کئی بار ٹام کے دل میں آیا تھا کہ اس منحوس سیاست کو چھوڑ کر سکون کی زندگی گزارے لیکن ہاروے کے خلاف احتجاج کے دوران اس کی جو پذیرائی ہوئی تھی اس کی وجہ سے امید لگی رہتی تھی کہ پھر سے ہوا کا ایک جھونکا کسی نہ کسی سمت سے اچانک آئے گا اور اس کی خزاں رسیدہ زندگی کو سدا بہار کر دے گا۔ ہاروے چونکہ ٹام کی نامزدگی کے فیصلے کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے عہد کا پابند تھا اس لئے اس نے مائیکل اور کیتھی سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔
کولاریڈو میں جس روز جلسہ تھا اسی روز صدارتی اعلامیہ جاری ہوا جس کے مطابق وزارتوں میں اور پارٹی کے عہدیداروں کی ذمہ داریوں میں بہت ساری تبدیلیوں کا اعلان ہوا۔ ہاروے نے اس خبر کو بہت غور سے پڑھا اور حسبِ توقع جان ڈیو کا ذکر اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا اس کو نہ صرف سکریٹری کے عہدے ہٹا دیا گیا تھا بلکہ پارٹی میں اس کی جگہ تھامس کوک دے دی گئی تھی۔ ٹام فوبرگ کے لیے یہ ایک اور بری خبر تھی۔
صدر دفتر میں ٹام فوبرگ کا سب سے بڑا کرم فرما جان ڈیو ہی تھا۔ اسے یقین تھا کہ ہر برے وقت میں جان ڈیو اس کے کام آ سکتا ہے لیکن اب وہ سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا۔ اب تو ہاروے نامی سورج سوا نیزے کی دوری سے سر پر آگ برسا رہا تھا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں جلسہ گاہ کی جانب جوق در جوق آ رہے تھے بلکہ لائے جا رہے تھے۔ اس جلسے کے ذریعہ گویا انتخاب کا بگل بجا دیا گیا تھا۔ لاکھوں لوگوں کے جلسے کا اہتمام کرنے والے سیکڑوں پارٹی کارکنان میں سے ایک ٹام فوبرگ بھی انتظامات میں لگا ہوا تھا کہ اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی۔
ٹام نے فون لیا تو دوسری جانب سے چارلس کا جانا پہچانا قہقہہ گونجا۔ چارلس برسوں سے پارٹی کا وفادار سپاہی تھا۔ ولیم کنگسلے کے زمانے میں وہ اس کا سکریٹری ہوا کرتا تھا اور اکثر جلسوں کی نظامت اسی کے ذمہ ہوتی تھی۔ چارلس نے ٹام کو بتایا کہ آج جن لوگوں کو اسٹیج پر بیٹھنا ہے ان میں اس کا بھی نام ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ اسے خطاب کرنے کا بھی موقع دیا جائے اس لیے جلسے کے آغاز سے قبل وہ ڈائس پر چلا آئے۔
ٹام نے پوچھا یہ کس کا فیصلہ ہے تو جواب ملا ہاروے کا اس لیے کہ آج کے جلسے کا کرتا دھرتا وہی ہے۔ ہاروے نے یہ فیصلہ کیا ! ٹام نے حیرت سے اس جملے کو دوہرایا اور شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔ ٹام سوچ رہا تھا کہ آخر ہاروے نے اسے اسٹیج پر بلانے کا فیصلہ کیوں کیا؟مسابقت کی قدیم آگ پھر سے روشن ہو گئی حسد کا الاؤ دوبارہ جل اٹھا۔ ہاروے نے ضرور اسے رسوا کرنے کی کوئی نئی سازش رچی ہے۔
ٹام اس کے مزاج سے واقف تھا۔ ہار وے تاش کے سارے پتے ہمیشہ اپنے سینے سے اس قدر قریب رکھتا کہ کسی کواس کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ راز داری اس کی عادتِ ثانیہ تھی۔ اپنے وقت سے پہلے اس کی کوئی بات دشمن تو کجا قریب ترین دوست بھی نہیں جان پاتے تھے۔ غیر ضروری تفصیل بتانے کا وہ قائل نہیں تھا۔ خیر ٹام کے پاس تمام تر بد گمانیوں کے باوجود چونکہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا اس لیے اس نے حمام میں جا کر آئینے میں اپنی شکل و صورت کو دیکھا تو اسے دکھ ہوا۔ اس روز وہ ٹی وی کیمرے کے ساتھ نظر ملانے کی تیاری سے نہیں آیا تھا۔ لیکن محض اسٹیج پر بیٹھنے کے معنیٰ ٹی وی پر آنے کے بھی نہیں تھے۔ کیمرے کی آنکھ تو صرف اہم لوگوں کو دیکھتی تھی، ٹام کی طرح کے غیر اہم لوگوں سے کیمرہ بھی آنکھیں چراتا تھا۔
ٹام نے منھ پر پانی مارنے کے بعد ٹائی کو ٹھیک کیا۔ کوٹ کو جھٹکا اور بالوں میں کنگھی پھیر کر پھر ایک بار آئینے کو دیکھ کر مسکرایا۔ خود اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور اسٹیج کی جانب شاداں و فرحاں چل پڑا۔ اسٹیج پر پہنچنے کے بعد اس نے دوسری قطار کی کرسیوں پر اپنا نام تلاش کیا اور اسے موجود نہ پاکر مایوس ہو گیا۔ کہیں غائب دماغ چارلس نے کسی اور کے بدلے اسے تو نہیں بلا لیا یا کہیں ہاروے نے آخری وقت میں اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا۔ ٹام سوچ رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی وقت چارلس کا وزنی ہاتھ اس کے کندھے پر آ گرا۔
اُدھر نہیں اِدھر کے الفاظ ٹام کے کانوں سے ٹکرائے۔
چارلس کا اشارہ پہلی صف کی جانب تھا۔ ٹام کو یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ پہلی قطار کے بالکل درمیان میں ہاروے کے بائیں جانب والی کرسی پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس نے پھر ایک بار غور سے دیکھا نام صاف تھا ٹام فوبرگ۔ ابھی پہلی نشست کا کوئی آدمی نہیں آیا تھا اس لیے وہ پیچھے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
ہاروے جیسے ہی اسٹیج پر آیا ٹام نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور شکریہ بھی ادا کیا۔
ہاروے بولا کس بات کا شکریہ آج تمھارا دن ہے۔
ہاروے کا یہ جملہ بھی ٹام کی سمجھ میں نہیں آیا۔ خیر جب سب لوگ بیٹھ گئے تو جلسے کی کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ حسبِ معمول چارلس کی چرب زبانی سے لوگ لطف اندوز ہونے لگے لیکن اس بھیڑ بھاڑ میں تنہا ٹام فوبرگ نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا۔ وہ اپنے پراگندہ خیالات کے گھنے جنگل میں سر گرمِ سفر تھا۔ یہ ایسی وادیاں تھیں جہاں کوئی ہم سفر نہ تھا۔ یہ ایسے راستے تھے جن کی کوئی منزل نہ تھی۔ یہ ایسی منزل تھی جس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ لیکن اپنے انجام سے بے خبر ٹام فوبرگ ان پر پیچ راستوں پر بے وجہ چلا جا رہا تھا۔ یکا و تنہا ٹام فوبرگ۔
ہاروے نے اس شام ایک غیر معمولی تقریر کی۔ اس کے اندر بلا کا جوش اور ولولہ تھا۔ اس کے ہر ہر جملے پر تالیاں بجتی تھیں اور سارا میدان گونج اٹھتا تھا۔ ٹام فو برگ بھی اس کی خطابت سے حیران تھا۔ اس روز ہاروے نے اپنی تقریر کا آغاز اپنے والد کنگسلے سے کیا ان کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوا قومی مسائل کی جانب نکل گیا اور پھر نہ جانے کب وہ قومی مسائل عالمی حا لات میں بدل گئے۔ پھر وہ گھوم کر اپنے حلقۂ انتخاب میں آیا۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرافسوس کا اظہار کیا اور بلا تفریق مذہب و ملت سارے لوگوں کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کے بعد آئندہ کے ضمنی انتخاب کا ذکر چھیڑ دیا۔
مجمع اس بات کا منتظر تھا وہ اپنی نامزدگی کا اعلان کرے گا اور وہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس فیصلے کو سراہیں گے لیکن ہاروے نے ٹام فوبرگ کے نام کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان سنتے ہی حاضرین مجلس کو سانپ سونگھ گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہاروے کا یہ پہلا جملہ تھا جس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ایک تالی بھی نہیں بجی خود ٹام بھی مبہوت تھا۔
ہاروے نے ٹام کو مبارکباد دی اور اسے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی۔ ٹام اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس نے سب سے پہلے ولیم کنگسلے کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پارٹی کی اعلیٰ کمان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہاروے کی خدمت میں اظہارِ تشکر کے ساتھ اپنی نشست پر واپس آ کر بیٹھ گیا۔ واپس آنے سے قبل ٹام فوبرگ نے کہا کہ ہاروے کا یہ احسان وہ کبھی نہیں بھولے گا اور ہمیشہ اس کا وفادار بنا رہے گا۔
ہاروے اسٹیج سے نیچے اتر آیا تھا لوگ جوق در جوق اس سے ملاقات کر رہے تھے اور اوپر اسٹیج پر یکا و تنہا ٹام فوبرگ حیرت و استعجاب کے عالم میں اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اسے اب بھی ہاروے کی اعلان پر صد فیصد یقین نہیں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی تصدیق یا تردید کس سے کروائی جائے۔ اس کا محسن و مربی جان ڈیو فی الحال مصیبت میں تھا اور اس سے رابطہ مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف ہو سکتا تھا۔
ہاروے نے اپنے ایک عہد کی پاسداری کر دی تھی اب اسے دوسرا وعدہ نبھانا تھا۔ جلسے کے بعد جب وہ دوسرے دن دفتر میں آیا تو اس نے سب سے پہلے پارٹی کی رکنیت سے بلا تاریخ استعفیٰ لکھا۔ پرنٹ نکال کر اس پر اپنے دستخط ثبت کیے اس کو اس کین کر کے عکس اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں اس نے اپنے ذاتی ای میل بکس سے صدرِ محترم کے نام ایک ای میل لکھ کر دعوت کے لیے شکریہ ادا کیا اور استعفیٰ منسلک کر کے روانہ کر دیا۔ اس کے بعد اپنی سکریٹری کو ایک لفافہ لانے کے لیے کہا۔ اس کے اندر استعفیٰ کا پرنٹ اوراس قلم کو رکھ دیا جس سے دستخط کیے گئے تھے تاکہ اسی سے بوقتِ ضرورت تاریخ لکھی جا سکے۔ مہر بند لفافہ صدر مملکت کے دفتر روانہ کر دیا گیا۔
ہاروے کو پارٹی چھوڑنے کا ذرہ برابر افسوس نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ اس کے خوش آئند نتائج سے واقف تھا۔ جلسے کی شاندار کامیابی سے ہاروے نے اپنی غیر معمولی مقبولیت کا لوہا منوا لیا تھا۔ سارے اخبار اسی کی تعریف و توصیف سے اٹے پڑے تھے۔ ٹام فوبرگ کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ جب ہاروے کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا تو حزب اختلاف کے کچھ لوگوں نے اس کی جانب پینگیں بڑھانے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت ہاروے کی نگاہیں مونیکا کی رہائی پر مرکوز تھیں اس لیے اس جانب متوجہ نہیں ہوا تھا لیکن اب صورتحال مختلف تھی۔
ہاروے کو یقین تھا کہ جیسے ہی اس کا استعفیٰ منظرِ عام پر آئے گا پھر ایک بار ان کوششوں کا اعادہ کیا جائے گا اور راتوں رات سیاسی مخالفین معاونین میں بدل جائیں گے۔ اس لیے کہ سیاست کی بساط پر نہ کوئی کسی کا مخالف ہوتا ہے اور نہ معاون۔ مہروں کو اپنا رنگ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دیکھتے دیکھتے منظر بدل جاتا ہے سیاہی کو سفیدی نگل جاتی ہے یا سفیدی پر سیاہی چھا جاتی ہے۔
اس دن ہاروے کے لیے ایک اور خوشخبری بھی تھی ’’ مونیکا کی ضمانت‘‘ اور سچ تو یہ ہے کہ اس سے بڑی کوئی اور خبر اس کے لیے نہیں تھی۔ اچانک سرکاری وکیل کی جانب سے عدالت میں ضمانت کی درخواست پیش کی گئی اور جج صاحب نے چند شرائط کے ساتھ کہ وہ اپنا پاسپورٹ عدالت میں جمع کرا دے اور مہینے میں ایک مرتبہ مقامی پولس تھانے میں حاضری لگائے اسے منظور کر لیا۔ مونیکا نے خود فون کر کے یہ مژدہ سنایا اور ہاروے نے اسے مبارکباد دینے کے بعد نصیحت کی کہ فی الحال کچھ عرصے تک وہ گمنامی کی زندگی گزارے۔ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا جیسے ضمانت ہوئی ہے اسی طرح مقدمہ بھی خاموشی کے ساتھ خارج کر دیا جائے گا۔
مونیکا چونکہ اپنی رہائی سے مایوس ہو چکی تھی اس لیے ہاروے کی بے حد ممنون تھی۔ پردے کے پیچھے طے شدہ منصوبہ جستہ جستہ رو بہ عمل تھا۔ سیاسی مبصرین کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ کو مختلف مسائل میں الجھا دیا گیا تھا۔ واشنگٹن والے ماحولیات سے نبرد آزما تھے اور کولاریڈو میں سیاسی جلسے کی دھوم تھی۔ لوگ جان ڈیو کے ساتھ مونیکا کو بھی بھولنے لگے تھے۔
شام کو گھر لوٹنے سے قبل ہاروے نے مائیکل اور کیتھی کا مشترکہ پیغام دیکھا جس میں ان کی نئی کمپنی (V2ویٹو پروڈکشن )کے دفتر کے افتتاح کی خوشخبری تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت اسے شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ان لوگوں نے لکھا تھا کہ وہ چاہتے ہیں اس دفتر کا افتتاح اسی کے دست مبارک سے ہو اور اگر مذکورہ تاریخ اور وقت مناسب نہ ہو تو وہ اپنی سہولت اور فرصت کے مطابق تاریخ اور وقت تجویز کر دے۔
ہاروے نے میل کو پڑھنے کے فوراً بعد مائیکل کو فون لگا کر مبارکباد دی اور کہا کہ وہ افتتاح کی تقریب میں اپنی ساری مصروفیات کو رد کر کے شرکت کرے گا۔ اسی کے ساتھ اس نے مائیکل کو بتایا کہ مونیکا کی ضمانت ہو گئی ہے لیکن فی الحال وہ اس خبر کو اپنی ذات اور کیتھی تک محدود رکھے۔ جلد ہی مقدمہ بھی خارج ہو جائے گا اور اس کے بعد ہی یہ بات ذرائع ابلاغ میں آئے گی۔
مائیکل نے اسے بتایا کہ کیتھی اس کے ساتھ ہی ہے اور سلام کہتی ہے۔ ہاروے نے کیتھی سے بھی بات کی اور اسے بھی نئی کمپنی کے لیے مبارکباد دی۔ کیتھی نے اس کی خدمت میں مونیکا کو رہا کرانے کی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ مائیکل تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔
مائیکل نے دوبارہ فون لے لیا اور بولا کہ میں تمہیں بتانا بھول گیا۔ اس افتتاح کی تقریب میں تمہیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ آنا ہے اس لیے کہ اسی روز ہم لوگ اپنی سگائی کا اعلان بھی کرنے والے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اقتصادی اشتراک کا آغاز ازدواجی زندگی کی ابتدا بھی بن جائے۔ اس لیے کہ ہم نے ویسے ہی بہت دیر کر دی ہے اور اب زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔
ہاروے پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ اس کو پھر سے ٹھنڈا پسینہ آنے لگا لیکن اپنے آپ کو سنبھال کروہ بولا بہت خوب۔ بہت مبارک۔ زندگی کے اس خوشگوار موڑ پر میری نیک خواہشات تم دونوں کے ساتھ ہیں۔
مائیکل بولا یار میری تم سے بھی یہی گزارش ہے کہ اب اس جانب توجہ دو مزید تاخیر درست نہیں ہے۔
جی ہاں لیکن میں چاہتا ہوں کہ پہلے ڈائنا کا رشتہ طے ہو جائے۔
جی ہاں جی ہاں ڈائنا مائیکل بولا ڈائنا جیسی نیک سیرت اور خوبصورت لڑکی کے لیے رشتوں کی کیا کمی ہے۔ مسئلہ تمھارا ہے تمہیں مقدمہ کے خارج ہو جانے کا انتظار کرنا ہی پڑے گا؟
مقدمہ؟ ……..کیسا مقدمہ؟
مائیکل بولا ارے ابھی سے بھول گئے وہی مونیکا کا مقدمہ۔
ہاروے نے کہا یار تم مذاق بہت اچھا کرتے ہو۔ خیر ہم ملیں گے افتتاح کے دن، ویسے بھی اس میں مہینے بھرکا وقفہ ہے۔
مائیکل نے چٹکی لی ہو سکتا ہے اس وقت تک مقدمہ خارج ہو جائے۔
ہاروے بولا اب چھوڑو بھی یہ مقدمہ بازی ……….فون بند ہو گیا۔
مائیکل نے ہاروے کے اندیشوں کو درست ثابت کر دیا تھا۔ اب وہ ڈائنا کے حوالے سے بے حد فکر مند ہو گیا تھا۔ اسے مائیکل کا جملہ یاد آ رہا تھا۔
ڈائنا جیسی…….اگر ایسی ہی بات تھی تو کیتھی جیسی عمر دراز عورت کے چکر میں پڑنے کے بجائے وہ خود رشتہ بھیج دیتا ہے اور سارے مسائل بخیر و خوبی حل ہو جاتے۔ ہاروے نے سوچا وہ آج شام اپنی والدہ سے اس مسئلہ پر بات کرے گا تاکہ وہ اس معاملے کو سلجھایا جا سکے۔
ہاروے نے جب اپنی ممی سے بات کی تو اس کے اندیشوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس کی ممی نے بتایا کہ فادر جوزف نے بھی اس کے لیے کوشش کر چکے ہیں مگر ڈائنا کئی معزز گھرانوں کے رشتے مسترد کر چکی ہے۔
ہاروے نے پوچھا اس کی نظر میں کوئی خاص فرد تو نہیں جس کے سبب یہ ہو رہا ہے۔
ممی بولیں میں وثوق کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتی لیکن میرا گمان ہے کہ اس کا رجحان تمھارے دوست مائیکل کی جانب ہو سکتا ہے۔
مائیکل کا نام سن کر ہاروے پریشان ہو گیا وہ بولا ممی میرا خیال ہے ڈائنا اگر مائیکل کو بھول جائے تو بہتر ہے۔
ممی نے پوچھا کیوں؟
اس نے ہماری ملازمت چھوڑ دی ہے۔
تو کیا ہوا؟ ہمارا داماد ملازم بھی ہو یہ ضروری تو نہیں؟ بلکہ اس کا ملازم نہ ہونا بہتر ہے۔
نہیں ممی نہیں تم نہیں جانتیں آپ ڈائنا کے لیے کوئی اور رشتہ دیکھیں اور فادر جوزف سے بھی اس بارے میں بات کریں۔
ممی بولی بیٹے میرا خیال ہے کہ تمہیں بذاتِ خود فادر سے ڈائنا کی بات کرنا چاہئے۔ اس لیے کہ وہ دونوں اور تم دونوں ایک دوسرے سے خاصے بے تکلف ہو۔
ہاروے فادر جوزف سے ملنے کے لیے گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے ملاقات کا مقصد دریافت کیا تو ہاروے نے ڈائنا کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔
فادر بولے ہاروے سچ تو یہ ہے کہ تمھارے والد ولیم میرے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے اور اس حوالے سے ڈائنا میری بیٹی جیسی ہے۔ اس نے اپنے شوخ مزاج اور نیک کردار سے گرجا گھر میں سب کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ ہر کوئی بشمول میرے اس کا عقیدتمند ہے لیکن اسی کے ساتھ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ بے حد حساس اور جذباتی طبیعت کی حامل ہے۔ اسی لیے ہم بڑے احتیاط سے اس کے ساتھ پیش آتے ہیں۔
سو تو ہے لیکن میں ڈائنا کی شادی کے بارے میں آپ کی رائے لینے کے لیے حاضر ہوا تھا
فادر جوزف نے جواب دیا نکاح کے حوالے سے جو رشتے میں نے اس کے سامنے رکھے تھے انھیں اس نے بلا توقف رد کر دیا۔
کیا اس نے کوئی خاص وجہ بھی پیش کی؟
جی نہیں بلکہ میں وجہ پوچھنے کی جرأت نہ کر سکا۔ تم اس کے بھائی ہو اس کے مزاج سے واقف ہو۔ اس لئے کھل کر اس سے بات کر سکتے ہو۔
آپ درست فرماتے ہیں۔ میں کوشش کروں گا۔
فادر جوزف نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہاویسے اب بھی میں نا امید نہیں ہوا ہوں۔ڈائنا کے لیے شایانِ شان رشتے کی تلاش میں لگا رہوں گا اور جیسے ہی کوئی کامیابی ملے گی پھر سے ڈائنا کو راضی کرنے کی بھرپور سعی کروں گا۔
ہاروے نے رسماً شکریہ ادا کیا تو فادر بولے اطمینان رکھو جیسے وہ میرے مرحوم دوست ولیم کی بیٹی ہے ویسے ہی میری بیٹی بھی ہے۔ ہاروے اجازت لے کر گھر آ گیا۔
٭٭٭
باب ہشتم
۳۴
ہاروے اپنے بستر پر دراز تھا اس کے کانوں میں فادر جوزف کے الفاظ ’’ وہ بے حد حساس اور جذباتی طبیعت کی حامل ہے ‘‘ گونج رہے تھے۔ ہاروے کے لیے یہ کوئی نیا انکشاف نہیں تھا۔ یہ حقیقت اس پر بچپن سے آشکار تھی۔ فادر جوزف نے تو بس اس کی تصدیق کر دی تھی۔ ہاروے کو یقین ہو گیا کہ اگر مائیکل کسی اور کے ساتھ بیاہ رچا لے گا تو ڈائنا کو بہت صدمہ ہو گا۔ والد کی موت کے بعد اس کی جو حالت ہوئی تھی اس سے سب واقف تھے۔ ہاروے کو ڈر تھا اس خبر کو سننے کے بعد اس پر دل کا دورہ نہ پڑ جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو خودکشی کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔
ہاروے جب بھی اس مسئلہ پر غور کرتا تھا نہ جانے کیوں اسے چشم تصور میں ڈائنا کی لاش نظر آنے لگتی تھی اور وہ گھبرا جاتا تھا۔ اب وہ سنجیدگی سے اس سوال پر غور کرنے لگا تھا کہ اسے اپنی بہن کو موت کے چنگل سے نکالنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟ ہاروے رات بھر سوچتا رہا۔ اسے کوئی راستہ سجھائی نہ دیا۔ صبح منھ اندھیرے اس کی آنکھ لگی اوراس نے دیکھا……….۔
وہ ایک دو ہزار سال پرانے گرجا گھر کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ چاروں طرف ویرانی ہے۔ ہواؤں کے تیز جھکڑ اسے لے جا کر کہیں دور پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اپنے وجود کو قائم رکھنے کی خاطراس نے گرجا کے اندر قدم رکھا تو اپنے سامنے فادر جوزف کو کھڑا پایا۔
فادر نے مسکرا کر کہا اوئے ہوئے ہاروے تم تو یہاں بھی پہنچ گئے۔
ہاروے بولا اگر آپ پہنچ سکتے ہو تو میں کیوں نہیں؟
تو گویا تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے؟
جی نہیں فادر ایسی بات نہیں کہاں آپ اور کہاں میں؟ میں تو آپ کے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوں۔
اچھا بہت باتیں بنانا سیکھ گئے ہو خیر بولو کیا چاہتے ہو؟
میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟ میں فیصلہ کرنا چاہتا ہوں لیکن قوتِ ارادی کی کمی محسوس کرتا ہوں۔ حوصلہ چاہتا ہوں۔
عزم و حوصلہ تو بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ با آسانی یہ قیمتی متاع ہاتھ نہیں آتی اس کے لیے تمہیں قربانی دینی ہو گی۔
کس چیز کی قربانی؟ میرے پاس تو قربان کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے؟
نہیں ہے تو کیا ہوا؟ خداوند کی زمین بہت وسیع ہے جاؤ باہر تلاش کرو قربانی کا جانور خود چل کر تمھارے پاس آ جائے گا۔ ہاروے نے حامی بھری اور گرجا گھر سے باہر نکل کھڑا ہوا۔
ہوا کی تیزی میں کمی واقع ہو چکی تھی ہاروے اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا اور اس طرح نہ جانے کتنی صدیاں گزر گئیں۔ ایک راستہ ملا بھی تو ایسا کہ جو شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اب وہ تھکنے لگا تھا کہ اس نے دیکھا راستے میں ایک بہت بڑا پیڑ جڑ سے اکھڑ کر لیٹا ہوا ہے۔
یہ دیو قامت درخت تھا جس کا تنا ہاروے کے قد سے کئی گنا موٹا تھا اور اس کی لمبائی دونوں جانب تا حد نظر پھیلی ہوئی تھی۔ ہاروے نے سوچا یہ پیڑ ہے یا آسیب۔ خیر اسے پھلانگنے کے لیے اس نے اس کے تنے پر چڑھنے کی کوشش کی تو بار بار اس کا ہاتھ پھسل جاتا تھا۔ بالآخرسوچا کچھ دیر سستا لیا جائے اور پھر تازہ دم ہو کر کوشش کی جائے۔
ہاروے تنے سے ٹیک لگا کر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے ایک نہایت فربہ بھیڑ اور ایک بہت ہی خوبصورت بکری اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ اس نے ان دونوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کی من مراد پوری ہو گئی تھی۔ اب آگے جانے کا خیال دل سے نکال کر ہاروے ان مویشیوں کو لے کر گرجا گھر کی جانب پلٹا۔ اس نے انھیں پچکارا تو وہ دونوں اس کے ساتھ ہولیے۔
ایک نئے سفر کا آغاز ہو گیا۔ وہ تینوں اس طرح نہ جانے کتنی صدیاں چلتے رہے اس بیچ ہاروے کو ان دونوں سے کافی انسیت ہو گئی تھی۔ وہ مقصدِ سفر بھول گیا تھا اوراسے یہ بھی یاد نہیں تھا کہ یہ مویشی اس کوکس لئے عطا کئے گئے ہیں۔ وہ تو بس ان کے ساتھ کھیلتے کودتے اپنا سفر طے کر رہا تھا کہ اچانک سامنے گرجا گھر نمودار ہو گیا۔ گرجا کو دیکھتے ہی اسے سارا فسانہ یاد آ گیا۔
ہاروے اپنے مویشیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا تو فادر جوزف مسکرا رہے تھے۔ اوہو ایک کے بجائے دو لے آئے خیر اب بتاؤ ٔ کہ ان میں سے کسے قربان کرو گے؟
قربان؟ ؟آپ کس قربانی کی بات کر رہے ہیں فادر؟
کیا تم اپنا مسئلہ بھول گئے؟
جی نہیں مجھے یاد ہے۔
فادر نے سوال کیا تو پھر تم اس کا حل بھول گئے؟
جی نہیں مجھے حل بھی یاد ہے۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟
ہاروے بولا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان میں سے کسی کو بھی قربان نہیں کر سکتا؟
کیوں؟ یہ تو کفران نعمت ہے بلکہ بدعہدی کہ انسان آسمانی خیرو برکت کا مستحق ہو جانے کے بعد اپنے وعدے سے مکر جائے۔
فادر جوزف میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ یہ دونوں مجھے کس قدر عزیز ہیں۔
فادر کا سوال تھا اور قربانی تمہیں عزیز نہیں ہے۔
جی ہاں وہ بھی عزیز ہے۔
خداوند عالم نے تمھاری فریاد سن کر تمہیں ایک کے بجائے دو سے نواز دیا اب احسانمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک کو اس کی خوشنودی کے لیے قربان کر دیا جائے۔
یہ میں نہیں کر سکتا۔ اس قدر پیارے مویشیوں کو میں ذبح نہیں کر سکتا۔
دیکھو ہاروے بہر صورت تمہیں ان میں سے ایک کو قربان کرنا ہی ہو گا۔ یہ دونوں ایک ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یا بکری یا بھیڑ؟ فیصلہ تمھارے ہاتھ ہے۔
اور اگر میں نے ان میں سے کسی کو بھی قربان نہیں کیا تو؟
تو تم خود قہر خداوندی کا شکار ہو جاؤ گے۔
کیا ……….؟
فادر نے اپنا جملہ دوہرایا ہاں تم خود قہر خداوندی کا شکار ہو جاؤ گے اب بچنے کی ایک یہی صورت ہے۔ بکری یا بھیڑ؟
یہ دونوں ……۔
ان میں سے ایک کو قربان ہونا ہی پڑے گا۔ …. بکری یا بھیڑ۔ یہ دونوں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان میں سے ایک قربان ہونا ہی پڑے گا۔ ……. بکری یا بھیڑ۔ یہ دونوں …….۔ ان میں سے ایک کو قربان ہونا ہی پڑے گا۔ ……. بکری یا بھیڑ۔ یہ دونوں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان میں سے ایک قربان ہونا ہی پڑے گا۔ ہاروے کے کانوں میں یہ الفاظ بار بار گونجتے رہے یہاں تک کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ دوپہر ہو چکی تھی۔
ہاروے کئی روز اپنے خواب کی تعبیر کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ ایک بار اس کے دل میں آیا کہ فادر جوزف سے رجوع کرے لیکن پھر اس کی ہمت نہیں ہوئی۔ بالآخر ہاروے نے اپنے تئیں فیصلہ کر لیا کہ بکری کو بچانے کے لیے بھیڑ کو قربان کر دیا جائے لیکن اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے؟ یہ سوال سب سے اہم تھا۔ خواب میں اس بابت کوئی رہنمائی نہیں تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس کے ذہن میں ایک نام آیا ٹام فوبرگ۔
ٹام اس کا پرانا دوست تھا۔ ٹام اس کا احسانمند تھا۔ اور پھر ٹام نے فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ عراق سے ہو کر آیا تھا اس لیے اسلحہ چلانا جانتا تھا۔ ہاروے کو قربانی کے لیے قصائی مل گیا تھا۔ اب صرف منصوبہ بندی درکار تھی تاکہ ٹام اپنی ذمہ داری ادا کر سکے۔ ہاروے نے اس کام کودو مراحل میں طے کرنے کا منصوبہ بنایا اول تو ٹام کو اس کے لیے آمادہ کرنا اور دوسرے اسے منصوبہ سمجھانا۔ پہلے مرحلے کے لیے اس نے ٹام کو ایک ویران کافی ہاؤس ڈریگن کافیہ میں آنے کی دعوت دی جو شہر سے باہر تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
ٹام نے سوچا کہ پارٹی کے سلسلے کی کوئی بات ہے لیکن اس کے لیے اس قدر فاصلے پر ملاقات کی غایت اس کی سمجھ میں نہیں آئی اس کے باوجود وہ وقتِ مقررہ پر ڈریگن کافیہ پہنچ گیا۔
ہاروے نے ٹام سے پوچھا کیوں ٹام انتخاب کی تیاری کیسے چل رہی ہے؟
ہاروے سچ تو یہ ہے کہ مجھے اب تک تمھارے اعلان پر یقین ہی نہیں ہو رہا ہے۔
تمہیں کیا لگتا ہے اس قدر بڑے مجمع کے اندر میں دھڑ لے سے جھوٹ بولوں گا؟
جی نہیں بات ایسی نہیں ہے۔ پارٹی ہائی کمان خاموش ہے، ابھی تک کسی اور ذریعہ سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی اور پھر تمھارے ہوتے ہوئے کولاریڈو میں کون انتخاب جیت سکتا ہے؟
بھئی انتخاب تو وہی لڑ سکتا جسے پارٹی ٹکٹ دے۔ چونکہ میں نے پارٹی سے معذرت چاہ لی تو انھوں نے متبادل کا نام پوچھا۔
اچھا تو تم نے کیا کیا؟ٹام نے سوال کیا
میں نے بلا جھجک تمھارا نام بتا دیا۔ اور انھوں نے اسے بلا توقف منظوری دے دی۔ جہاں تک توثیق کا سوال ہے وہ بھی ہو جائے گی۔ اس لیے تم سنجیدگی سے انتخاب کی تیاری کرو۔
ٹام بولا بہت بہت شکریہ تم نے تو اپنی دوستی کا حق ادا کر دیا لیکن یہ بات چیت تو ہم تمھارے دفتر میں بھی کر سکتے تھے یہاں بلانے کی کوئی خاص وجہ؟
جی ہاں ٹام یہاں میں نے تمہیں اپنے ایک ذاتی کام کے لیے بلایا ہے۔ یہ کہہ کر ہاروے نے اسے مائیکل اور ڈائنا کی ساری تفصیل بتلا دی۔ ٹام نے سوچا یہ اس کے حق میں بہت ہی نیک شگون ہے۔ اگر مائیکل کا کانٹا نکل جائے تو اس کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ ٹام اس کام کو کرنے کے لیے فوراً تیار ہو گیا۔
ہاروے نے کہا دیکھو اس طرح کے فیصلے جلدی بازی میں نہیں کیے جاتے۔ اس بابت تمہیں مکمل آزادی ہے اور تمھارے انکار سے ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ٹام نے یقین دلایا کہ وہ فکر نہ کرے یہ تو اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ بڑی آسانی سے مائیکل چاؤ کو ٹھکانے لگا دے گا۔
ہاروے نے اسے سمجھایا دیکھو یہ بڑی ہوشیاری سے کرنے کا کام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ میں تمھارے روشن سیاسی مستقبل کو تاریکی کی نذر نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے دو دن اس پر غور کرو اور پھر مجھ سے ملو۔ آگے کا منصوبہ میں بتاؤں گا۔
ٹام نے کہا ٹھیک ہے۔ پہلے ہاروے نے اپنی گاڑی نکالی اور ٹام سے کہا کہ وہ پانچ منٹ بعد نکلے ابھی سے احتیاط ضروری ہے۔ تقریباً دس کلومیٹر کے بعد ایک ویران موڑ پر ہاروے نے گاڑی روک دی۔ پانچ منٹ بعد ٹام پیچھے سے آیا تو اس نے بھی گاڑی روک دی۔
ہاروے بولا اس موڑ کو یاد رکھنا۔ وہاں کولاریڈو کے دو راستے نکلتے تھے۔ وہ دونوں مختلف راستوں سے کولاریڈو کی جانب روانہ ہو گئے۔ ٹام اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا اس کے ایک ہاتھ میں ڈائنا تھی اور دوسرے ہاتھ میں اقتدار تھا۔ اچانک اس کا ستارہ بلند ہو گیا تھا۔
ہاروے کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹام اس کام کے لیے تیار ہے پھر بھی اس نے دو دن کے بعد فون کر کے پوچھا کیا سوچاہے تم نے؟
ٹام نے جواب دیا میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا لیکن تمھارے اصرار پر کام دو دن کے لیے ٹل گیا ورنہ ہو سکتا ہے کہ آج کے اخباروں میں خبر چھپ جاتی۔
ٹام کا جوش و خروش ہاروے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن اسے خوف تھا کہ کہیں یہ احمق جلد بازی میں کام بگاڑ نہ دے۔ خود بھی ڈوبے اور اپنے ساتھ اس کی بھی لٹیا ڈبو دے۔ ہاروے بولا دھیرج رکھو جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔
ٹام نے جواب دیا ویسے بھی ہم لوگ کون سا فرشتوں والا کام کرنے جا رہے ہیں؟
کیوں حضرت عزرائیل ؑ کو تم فرشتہ نہیں سمجھتے؟
ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ بہت نیک کام ہے لیکن نیک کام میں بھی دیر نہیں کرتے۔
اچھا ایسا کرو کہ آج شام تم میرے گھر آ جانا میں تمہیں تفصیل سے منصوبہ سمجھا دوں گا۔
ٹام نے رات آٹھ بجے آنے کا وعدہ کر کے فون بند کر دیا۔
ہاروے نے اسے بتایا کہ وہ پرسوں شام پانچ بجے ایک گاہک کو ملنے کے بہانے مائیکل کو ڈراگون کافیہ بھیجے گا۔ یہ ایک ایسا گاہک ہے جس کے پاس بہت پرانی رقم بقایا ہے اور اس کے ملنے کا امکان معدوم ہو چکا ہے۔ مائیکل چونکہ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ ممکنہ رقم وصول کر سکتا ہے۔ یہی کہہ کر میں اسے وہاں روانہ کروں گا۔
کافیہ میں تمھاری اس سے ملاقات ہو جائے گی۔ تم مائیکل کے ساتھ کافی پینا اور جب وہ اس موڑ پر پہنچے کہ جو میں نے تمہیں دکھایا تھا تو وہاں راستے میں ایک پیڑ ٹوٹ کر اس طرح گرا ہوا ہو گا کہ مائیکل کے لیے آگے جانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ ناگہانی صورتحال اسے گاڑی سے باہر لے آئے گی۔ تم پیچھے سے پہنچ کر اس کا کام تمام کر دینا۔ دوسرے دن اخبار میں یہ خبر آئے گی کہ لٹیروں نے پیڑ گرا کر مائیکل کو روکا اور ان کے درمیان جھڑپ ہو گئی جس میں مائیکل مارا گیا۔
ٹام اور ہاروے کی گفتگو جاری تھی کہ ڈائنا چرچ سے واپس آ گئی۔ اس نے ہاروے کے کمرے کی بتی کھلی دیکھی تو چوکیدار سے پوچھا ہاروے آج جلدی واپس آ گیا؟
چوکیدار نے بتایا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ ہے۔
ڈائنا سمجھ گئی یہ دوست مائیکل کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لیکن جب وہ کمرے کے پاس پہنچی تو بڑے بڑے جوتے دیکھ کر چونک پڑی یہ مائیکل نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی چینی کے جوتے نہیں ہو سکتے۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا تو ہاروے اور ٹام نہایت دھیمے لہجے میں محوِ گفتگو تھے۔ باہر سے صاف سنائی نہیں دیتا تھا پھر بھی ڈائنا نے ان کے منھ سے مائیکل کا نام سن لیا۔
ڈائنا کے اندر تجسس کی لو روشن ہو گئی۔ اس نے سوچا یہ دونوں مائیکل اور اس کے متعلق کوئی رائے مشورہ کر رہے ہیں۔ ڈائنا کے ایک کاغذ پر لکھا مجھ سے کل شام پانچ بجے چرچ میں ملو اور وہ کاغذ چوکیدار کو یہ کہہ کر تھما دیا کہ ٹام واپس جانے لگے تو اسے یہ دے دینا۔
ڈائنا جاننا چاہتی تھی کہ مائیکل کے بارے میں کیا بات ہو رہی تھی اس لیے کہ مائیکل اس کی توجہات کا مرکز تھا۔ ٹام کو واپس ہوتے ہوئے جب چوکیدار نے ڈائنا کا خط دیا تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ قسمت کی دیوی اس پر اس قدر مہربان کیوں ہے؟
دوسرے دن چرچ میں ٹام نے ڈائنا کو صاف بتا دیا کہ ہاروے نے اس کے ذمہ کیا کام کیا ہے؟ ٹام در اصل ڈائنا کی نظر میں اپنی مرتبہ بلند کرنا چاہتا تھا۔ ٹام کی بات سن کر ڈائنا کا دماغ چکرا گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا مائیکل کا قتل ٹام نہیں بلکہ وہ خود کر رہی ہے۔ اس لیے کہ قتل کی اصل وجہ تو وہی ہے۔
ڈائنا نے ٹام سے وعدہ لیا کہ وہ مائیکل کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
ٹام نے پوچھا کہ تو کیا وہ ہاروے سے معذوری ظاہر کر دے؟
ڈائنا بولی نہیں اگر اس نے ایسا کیا تو ہاروے کسی اور کو اس کام پر لگا دے گا۔ اس لیے وہ پہلے تو ہاروے کو کچھ نہ بتائے لیکن بعد میں کوئی بہانہ بنا دے۔ اس طرح معاملہ کچھ دنوں کے لیے ٹل جائے گا۔ اس دوران وہ ہاروے کو سمجھا دے گی۔
ٹام نے ڈائنا سے بھی وعدہ کر دیا۔
ڈائنا بولی دیکھو ٹام اتنا یاد رکھو کہ اگر مائیکل کو کچھ ہو گیا تو میں نہ صرف پولس کو تمھارے بارے میں بتا دوں گی بلکہ پھر کبھی تمھارا منھ نہیں دیکھوں گی۔
ٹام بولا اطمینان رکھو ڈائنا مائیکل کا بال بیکا نہیں ہو گا۔
ڈائنا شکریہ ادا کر کے گھر آ گئی۔
٭٭٭
۳۵
ڈائنا نے ٹام کو ایک بہت بڑے دھرم سنکٹ میں ڈال دیا تھا۔ اب وہ دو متضاد وعدوں کے درمیان جھول رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا وہ ہوا میں معلق ایک رسی پر چل ہے۔ جس کے ایک سرے پر ہاروے روشن سیاسی مستقبل کا سبز پرچم لیے کھڑا ہے لیکن دوسرے سرے پر ڈائنا اپنے ہاتھوں میں سرخ نشان لیے ہوئے کھڑی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ڈائنا کے بغیر اس کا مستقبل روشن کیوں کر ہو سکتا ہے؟ اور ایسی سیاست کا کیا فائدہ جس کی ابتداء ہی خون خرابے سے ہو؟
سیاست کے اندر خون خرابہ تو لازم تھا۔ ٹام خود کلامی میں مبتلاء تھا۔ وہ سیاست ہی تو تھی جو اسے معصوم لوگوں کا خون بہانے کے لیے عراق لے گئی تھی۔ اس کو بھیجنے والے بھی اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ خود بھی اپنے سیاسی ارمان نکالنا چاہتا تھا۔ عراق جانے کے بعد اس نے کیا نہیں کیا تھا۔ سنی بن کر نہ جانے کتنے شیعوں کو بم کا دھماکہ کر کے ہلاک کر دیا اور شیعہ بن کر نہ جانے کتنے سنیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ بھی سیاست ہی کا حصہ تھا۔
یہ سب ماضی کی باتیں تھیں۔ اس تاریک ماضی کے اندر بھی ڈائنا نامی امید کا ننھا سا چراغ ہمیشہ روشن رہا تھا اور اب جبکہ روشنیوں کا سفر شروع ہوا چاہتا تھا ایسے میں اس مقدس چراغ کو بجھا دینا کوئی دانشمندی نہیں تھی۔ لیکن اچانک ٹام کے ذہن میں ایک عجیب سے اندیشے نے سر ابھارا۔ اگر مائیکل بچ جائے تو ہو سکتا ہے ڈائنا مائیکل کے ساتھ اپنا گھر بسا لے اور وہ ہاتھ ملتا رہ جائے۔ لیکن اگر مائیکل اس کے ہاتھوں ہلاک ہو جائے تب تو ڈائنا نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اس کا منھ تک نہیں دیکھے گی۔
یہ اگر ہاروے کی دھمکی ہوتی تو ٹام اس کا مطلق خیال نہ کرتا؟ لیکن یہ ڈائنا کی کا قول تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ ڈائنا اپنی بات بدل دے۔ ٹام عجیب تذبذب کا شکار تھا۔ ٹام چونکہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا اس لئے اس نے سوچا ڈراگون کافیہ جانے کے بعد جو اس کی چھٹی حس کہے گی وہ کر گزرے گا اور نتائج کو قسمت پر چھوڑ دے۔
وقت مقررہ پر ٹام ڈراگون کافیہ کے لیے وہ نکل کھڑا ہوا۔ مائیکل کو ہاروے نے جھانسہ دے کر ایک ایسے گاہک سے ملنے کے لیے تیار کر لیا تھا جس پر مذکورہ رقم کافی مدت سے ادھار تھی اور وہ کچھ دے دلا کر اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔ ہاروے نے اس کو اختیار دے دیا تھا کہ جس قدر رقم وہ نکال سکتا ہے اپنے قبضے میں لے کر بقیہ قرض معاف کر دے۔
مائیکل بیچارہ نہیں جانتا تھا کہ جس شخص سے ملاقات کے لیے اسے بھیجا جا رہا ہے وہ اس وقت ملک سے باہر ہے۔ مائیکل وہاں اپنے ساتھ رقم لانے کے لئے نہیں بلکہ اپنی جان گنوانے کے لیے جا رہا ہے۔ ڈراگون کافیہ سے آگے پانچ کلومیٹر پر ایک پٹرول پمپ تھا۔ ہاروے حفظِ ماتقدم کے طور پر اس گیس اسٹیشن کے سپر مارکٹ میں پہنچ گیا تھا تاکہ اگر کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہو جائے تو فوراً مدد کے لئے پہنچا جا سکے۔
ڈراگون کافیہ میں مائیکل جب انتظار کرتے کرتے بور ہو گیا تو اس نے گاہک کو فون لگایا لیکن اس کا فون بند تھا۔ اس کے بعد مائیکل نے ہاروے سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ گاہک نہیں آیا شاید اس کی نیت بدل گئی اس لیے وہ واپس جا رہا ہے۔
مائیکل اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹام بھی اس کے پیچھے چل پڑتا لیکن اس کے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے۔ ڈائنا کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہمت وہ نہیں جٹا پا رہا تھا اسے ڈر تھا کہ اگر ڈائنا جیسی مذہبی لڑکی نے بددعا کر دی تو وہ تباہ ہو جائے گا اور اگر وہ گواہی دینے عدالت میں پہنچ جائے تووہ برباد ہو جائے گا۔ اس بیچ ہاروے کا فون آیا۔ اس نے فوراً سوال کیا کیوں؟ تم گاڑی میں نہیں ہو؟
ٹام سمجھ گیا گاڑی کے شور کی عدم موجودگی نے ہاروے کو مشکوک کر دیا ہے وہ بولا نہیں۔
لیکن مائیکل تو نکل گیا؟
ٹام نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا پھر بھی وہ بولا یہ تم سے کس نے کہا۔ وہ تو ایک اور کافی منگوا رہا ہے۔
اچھا لیکن اس نے مجھ سے تو کہا تھا کہ …..
ٹام بولا میں یہ نہیں جانتا کہ اس نے تم سے کیا کہا؟ ہو سکتا ہے اس کا ارادہ بدل گیا ہو؟
اس کا ارادہ بدل جائے ایسا نہیں ہو سکتا۔
کیوں نہیں ہو سکتا جب میرا ارادہ بدل سکتا ہے تو اس کا کیوں نہیں بدل سکتا؟
ہاروے نے حیرت سے سوال کیا تمھارا ارادہ بدل گیا؟ میں سمجھا نہیں؟
اس میں نہ سمجھنے کی کیا بات ہے۔ مطلب صاف ہے۔ میں مائیکل کو نہیں …..
لیکن یہ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔
ارادہ میں نے ابھی ابھی تبدیل کیا ہے۔
اچھا تو تم اس وقت کہاں ہو؟
ٹام بولا میں ڈراگون کافیہ میں ہوں؟
اور مائیکل کہاں ہے؟
ٹام نے جھوٹ کہا وہ بھی یہاں اپنی کافی کا انتظار کر رہا ہے۔
ہاروے نے فون بند کر دیا اسے سب پہلے تو ٹام پر غصہ آیا پھر اپنے آپ پر کہ اس نے ٹام پر ایسا اندھا اعتماد کیوں کیا؟ اسے اس بات پر بھی افسوس تھا کہ وہ اپنی بندوق اپنے ساتھ لے کر کیوں نہیں آیا؟ لیکن پھر ایک اور خیال آیا کہ اگر ٹام نے اپنا ارادہ ابھی ابھی بدلا ہے تو وہ یقیناً پستول سے لیس ہو گا۔ ویسے بھی پچھلی دونوں ملاقاتوں میں وہ اسلحہ سے لیس تھا غالباً عراق سے واپسی کے بعد وہ پستول اپنے ساتھ رکھنے کا عادی ہو گیا تھا۔
ہاروے نے ٹام کو دوبارہ فون لگایا اور اس سے کہا تم ایک کام کرو۔ مائیکل سے مل کر اس کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھو۔ میں ابھی دس منٹ کے اندر تمھارے پاس آ رہا ہوں۔
ٹام کی سمجھ میں نہیں آیا دس منٹ میں تو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بھی کولاریڈو سے وہاں پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے اس نے کہا دیکھو ہاروے تم تو جانتے ہو میں لمبی بات نہیں کر سکتا پھر بھی دس منٹ اسے روکنے کی کوشش کروں گا لیکن اس سے زیادہ مشکل ہو گی اس لیے کہ ہم لوگوں میں ایسی دوستی بھی نہیں ہے کہ بہت سارے مشترک موضوعات ہوں۔
صرف دس منٹ ٹام صرف دس منٹ پلیز برائے مہربانی میرے لیے تم یہ کام کرو۔
کوئی بات نہیں لیکن دس منٹ کے بعد میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔ تم جلدی آؤ۔
ٹام کو یقین تھا کہ ہاروے نہیں آ سکے گا لیکن وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا کہ ہاروے کی گاڑی چل چکی ہے اور ہوا سے باتیں کر رہی ہے دس منٹ اس کے لیے زیادہ ہیں۔ پانچ منٹ بعد ہاروے ڈراگون کافیہ کے اندر داخل ہوا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے ایک کونے میں ٹام بیٹھا ہوا نظر آ گیا لیکن مائیکل کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔
ہاروے لپک کر ٹام کے پاس پہنچا اور پوچھا وہ کہاں ہے؟
ٹام گھبرا کر بولا کون؟
وہی ہمارا شکار اور کون؟
وہ ……وہ ابھی ابھی نکل گیا۔
نکل گیا؟اتنی جلدی کیسے نکل گیا؟
تم نے آنے میں تاخیر کی ہاروے۔
کیا بکتے ہو ٹام میں پانچ منٹ کے اندر یہاں پہنچ گیا ہوں۔ تم جھوٹ بول رہے ہو تم نے مجھے ڈبل کراس کیا ہے خیر میرے پاس وقت نہیں ہے۔ تم ایسا کرو کہ اپنی پستول مجھے دو۔ میں اسے جا لوں گا۔
ٹام گھبرا گیا اس نے سوچا کہ اگر ہاروے اس کی بندوق سے مائیکل کو مارکر بندوق وہیں چھوڑ دے تو قتل کے الزام میں وہ پکڑا جائے گا۔ ڈائنا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور وہ خود بھی اپنی جان سے جائے گا۔ اس نے کہا نہیں ہاروے میں نہیں دے سکتا۔
نہیں دے سکتے؟ ہاروے کا دماغ چکرا گیا۔ تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ تم مائیکل سے مل گئے ہو۔ میں اسے نہیں چھوڑوں گا اور تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گا۔ لاؤ پستول مجھے دو یہ کہہ کر ہاروے نے ٹام کے جیب کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ ٹام فوراً پیچھے ہٹا لیکن اس درمیان ہاروے نے ٹام کی جیب سے پستول نکال لی۔
ٹام اس کے ہاتھ سے اپنی پستول واپس لینے کی کوشش کرنے لگا۔ اس چھینا جھپٹی میں پستول چل گئی اور دو گولیاں ہاروے کے سینے سے پار ہو گئیں۔ کافی ہاوس میں بیٹھے ہوئے گاہک اور عملہ وہاں جمع ہو گیا۔ ہاروے زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا اور ٹام کانپ رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ کسی نے پولس کو فون کر دیا۔ کوئی ایمبولنس کو بلانے لگا۔
اتفاق سے پانچ منٹ کے اندر ہائی وے پر تعینات پولس کا دستہ ایمبولنس سمیت وہاں پہنچ گیا اور اس میں موجود تربیت یافتہ افراد نے ہاروے کو دیکھ کر اعلان کر دیا یہ شخص مر چکا ہے۔ ان لوگوں نے ہاروے کے لیے لاش گاڑی بلوائی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا نیز ٹام فوبرگ کو پولس اپنے ساتھ تھانے لے گئی۔ یہ خبر جیسے ہی ہاروے کے گھر پہنچی ڈائنا پر دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ آئی سی یو میں داخل کر دی گئی۔
………………………..
ٹام جیل کی کوٹھری میں اپنے مستقبل کے سلسلے میں سوچ رہا تھا۔ یہ عجیب اتفاق تھا پہلی بار جب اس کی تقدیر کا ستارہ چمکا تو ولیم کنگسلے کی موت نے اسے ماند کر دیا اور دوسری مرتبہ جب اس کی نیا پار ہونے لگی تو ہاروے کی موت نے لبِ ساحل کشتی ڈبو دی۔ ان باپ بیٹوں کو اس سے نہ جانے کون سی دشمنی تھی کہ وہ خود مر کے اسے بے موت مار دیتے تھے۔
ٹام بہت غور و خوض کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ جس طرح کھلے عام اس کے ہاتھوں یہ قتل ہوا ہے اسے اتفاقی حادثہ قرار دینا ناممکن ہے۔ اس بات کا کوئی گواہ نہیں تھا کہ ہاروے نے اسے قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ڈائنا اپنے بھائی کے خلاف اس کی حمایت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ ڈائنا جو مائیکل کے قتل کی روادار نہیں تھی اپنے بھائی کے قاتل کو کیسے معاف کر سکتی تھی؟ نہتے ہاروے کے بالمقابل ٹام کا اسلحہ سے لیس ہونا اس کے خلاف چغلی کھاتا تھا۔ مائیکل اور ہاروے بہترین دوست تھے اس لیے ہاروے کا اسے قتل کروانا بھی قابل تسلیم نہیں تھا۔
ان تمام سوالات و امکانات نے ٹام کو مایوسی کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ حقیقت بیان بھی کر دے تو عدالت بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اسے تسلیم نہیں کرے گی اور بالآخر اسے عمداً قتل کی سزا کاٹنی ہی پڑے گی۔ اس کی حقیقت بیانی سے ہاروے کا تو کوئی نقصان نہیں ہو گا اس لیے کہ وہ مر چکا ہے ہاں کنگسلے خاندان بہت بدنام ہو جائے گا۔ یعنی ڈائنا کو باپ اور بھائی کی موت کے بعد ایک اور صدمہ سہنا پڑے گا۔ اس کے باوجود ٹام کی سزا میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اس خیال سے ٹام نے اپنے تئیں اقرارِ جرم کر کے سزا کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہاروے کے قاتل کی حیثیت سے ٹام کا سیاسی مستقبل گھٹا ٹوپ اندھیرے کی نذر ہو چکا تھا۔ اسے یقین تھا اب کولاریڈو سے کوئی نومولود پارٹی بھی اسے ٹکٹ دینے کی حماقت نہیں کرے گی۔ ہاروے کنگسلے کے قتل کی خبر نے سارے کولاریڈو میں حزن و ملال کی لہر دوڑا دی تھی۔ پہلے باپ ولیم کنگسلے اور پھر بیٹے ہاروے کی اس طرح غیر فطری اور حادثاتی موت نے ہر کس و ناکس کوسوگوار کر دیا تھا۔ دوست تو دوست دشمن بھی اس افتاد پر غمگین تھے۔
واشنگٹن میں اس خبر نے ان تمام لوگوں کو غمزدہ کر دیا تھا جو ولیم اور ہاروے کو جانتے تھے۔ خاص طور پر صدرِ محترم اور تھامس کوک بے حد اداس تھے۔ اس کے برعکس جان ڈیو کو جب پتہ چلا کہ ہاروے کا قتل ہو گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کے دل میں ہاروے کے خلاف جو بغض و عناد کی آگ تھی اس پر کچھ شبنم افشانی ہوئی۔
جان ابھی ہاروے کی موت کا جشن منا ہی رہا تھا کہ اسے ایک اور خوشخبری سے سابقہ پیش آیا اور وہ مونیکا کی خودکشی کی خبر تھی۔ پہلے تو جان نے سوچا اچھا ہی ہوا جو دونوں رومیو جولیٹ اپنے انجام کو پہنچے لیکن بعد میں اس کے دل میں ایک اندیشے نے سر ابھارا۔ مونیکا ضمانت پر رہا تو ہو گئی تھی لیکن اس کا مقدمہ ابھی خارج نہیں ہوا تھا۔ جان کو ڈر تھا کہ کہیں مونیکا کی خودکشی کو ذرائع ابلاغ اس سے نہ جوڑ دے۔ ہاروے کے ذریعہ جان کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اس کے نتیجے میں وہ اپنے سایہ سے بھی خوف کھانے لگا تھا۔
جان کو جب معلوم ہوا کہ ہاروے کا قاتل ٹام فوبرگ ہے تو وہ بہت بے چین ہو گیا۔ جان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک ایسے وقت میں ٹام کو یہ حماقت کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس کی اپنی زبردست چال کے ذریعہ پارٹی کا ٹکٹ حاصل ہو گیا تھا۔ ٹام کے ساتھ جان کے تعلقات کا پتہ نہ صرف اسمتھ، گومس اور کوک کو ہو گیا تھا بلکہ صدر دفتر بھی اس سے آگاہ تھا۔
عہدوں کی تبدیلی نے تھامس کوک کو پارٹی کے اندر اوراسمتھ کو حکومت میں خاصہ طاقتور بنا دیا تھا۔ جان کو خوف لاحق ہوا کہ اگر ٹام نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اسے ملوث کر لیا اور یہ کہہ دیا کہ ہاروے کا قتل جان کے ایماء پر ہوا ہے تو ہر کوئی اس مفروضے پر ایمان لے آئے گا اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچانا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
اس اندیشے کے پیش نظر جان نے حفظ ماتقدم کے طور پر ایک مضبوط وکیل کی خدمات حاصل کر کے ٹام کا مقدمہ کولاریڈو سے واشنگٹن منتقل کروا لیا۔ وکیل کی دلیل یہ تھی کہ کولاریڈو میں کنگسلے خاندان کا سیاسی رسوخ بہت زیادہ ہے۔ ٹام پر اس کے سبب دباؤ پڑسکتا ہے اور انتظامیہ اس سے کوئی بھی بیان لکھوا سکتا ہے۔ اس لیے مقدمہ واشنگٹن یا کسی اور شہر میں منتقل کر دیا جائے تاکہ ملزم کے دفاع کا حق محفوظ رہے۔
ہاروے کی موت اور ڈائنا کی بیماری کے سبب کنگسلے خاندان اس قدر سوگوار تھا کہ انھوں نے اپنا کوئی وکیل تک متعین نہیں کیا۔ سرکاری وکیل نے اس درخواست کی مخالفت ضروری نہیں سمجھی اور نہ صرف ٹام کا مقدمہ واشنگٹن چلا گیا بلکہ ٹام کو بھی واشنگٹن کی سینٹرل جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اس فیصلے سے جان ڈیو کی جان میں جان آئی۔
واشنگٹن کے اندر ٹام فوبرگ کی نگرانی کرنا اور اس کے بیانات پر نظر رکھ کر اس پر دباؤ ڈالنا جان ڈیو کے لیے جس قدرآسان تھا کولاریڈو میں نہیں تھا۔ جان گو کہ حکومت اور پارٹی میں سارے اہم عہدوں سے سبکدوش کر دیا گیا تھا اس کے باوجود پرانے تعلقات کے سبب اس کا اثرو رسوخ ابھی باقی تھا۔
جان ڈیو یہ بھی سوچتا تھا کہ ہاروے اور مونیکا کے پردے سے ہٹ جانے کے بعد ممکن ہے پارٹی میں اس کے تئیں پھر سے نرم گوشہ پیدا ہو جائے۔ اگر پارٹی اس کی ضرورت دوبارہ محسوس کرے تو اب اعتراض کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہاروے کے ساتھ ہی باہم طے شدہ معاہدہ بھی دفن ہو چکا تھا۔ وہ اقتدار کے گلیارے تک پھر ایک بار رسائی کے حوالے سے پر امید ہو گیا تھا۔ جان یہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ ٹام فوربرگ اس راستے کی روڑا بنے۔
٭٭٭
باب نہم
۳۶
جیل کے اندر مونیکا کے موت کی خبر سے ویرونیکا کا سر چکرا گیا۔ اس کے لیے مونیکا بہن بھی تھی اور ماں بلکہ کنبہ قبیلہ سب کچھ تھی۔ رہائی کی امید کا واحد چراغ بجھ گیا تھا۔ مونیکا جیسی دلیر لڑکی کا خودکشی کر لینا ویرونیکا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن اس حقیقت کے انکار کی کوئی معقول وجہ ویرونیکا کے پاس نہیں تھی۔ جیل کے حکام اور اخبارات دونوں نے اس کی تصدیق کر دی تھی۔ مونیکا نے جیلر سے گزارش کی کہ اسے پیرول پر اپنی بہن کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت دی جائے۔
ویرونیکا کی درخواست منظور ہو گئی اور اسے عارضی طور پر رہا کر دیا گیا۔ ویرونیکا کو تین کی چھٹی ملی اور جیل کے حکام نے اسے انسانی بنیاد پر کچھ رقم جیب خرچ کے لیے بھی دی۔ ویرونیکا کو جیل سے اس اسپتال بھجوایا گیا جہاں پر مونیکا کی لاش تھی۔ وہاں پر مونیکا کے کچھ قریبی دوست و احباب منتظر تھے جن میں سے ایک شیری کارلو بھی تھی جو کبھی کبھار مونیکا کے ساتھ ویرونیکا سے ملاقات کرنے کے لیے جیل میں آ جاتی تھی۔
شیری سے مل کر ویرونیکا بہت روئی اور اپنا دل ہلکا کیا۔ مونیکا کی آخری رسومات اس کے والد نے ادا کیے لیکن اس موقع پر بھی ان کے دل میں ویرونیکا کے لیے رحم کا جذبہ نہیں امڈا۔ اس کی سوتیلی ماں نے بہر حال اسے اپنے سینے سے لگا کر ہمدردی کا اظہار کیا لیکن ان کی اصلی ماں نہ جانے کیوں اس موقع پر بھی نہیں آئی۔ اپنے خاوند کے تئیں پائی جانے والی نفرت نے غالباً اس کو مونیکا سے بھی برگشتہ کر دیا تھا۔
ویرونیکاکوشیریقبرستان سے اپنے گھر لے گئی جہاں وہ تنہا ئی کی زندگی گزار تی تھی۔ یہ امریکی سماج کا عجیب و غریب المیہ تھا کہ وہاں شناسائی اور تنہائی بیک وقت پائی جاتی تھی۔ شام کی شناسائیاں رات گئے تنہائیوں میں بدل جاتی تھیں۔ اکثر و بیشتر جوڑے اجنبیوں کی مانند اپنے بستر سے بیدار ہو کر مشین بن جاتے تھے۔ ویرونیکا نے شیری کو بتایا کہ ویسے تو اسے جیل سے تین دن کی رخصت ملی ہے لیکن وہ سوچتی ہے کہ اگلے دن واپس جیل چلی جائے اس لیے کہ ان چھٹی کے دنوں کا شمار اس کی مدتِ قید میں نہیں ہو گا اور رہائی اسی قدر طویل ہو جائے گی۔
کم از کم عمر قید کی منتظر ویرونیکا کو رہائی کی امید کم تھی پھر بھی شیری کے پرائے گھر کی بہ نسبت اسے جیل کی کوٹھری اپنی لگتی تھی۔ شیری نے ویرونیکا کو جلد لوٹنے سے منع کیا اور کہا کم از کم تین دن اس کے ساتھ گزارے تاکہ دونوں کا غم غلط ہو جائے۔ عراق جانے سے قبل وہ اپنی کشتی جلا کر گئی تھی اور اپنے ان بدمعاش دوستوں سے ملنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سچ تو یہ کہ انہیں سے پیچھا چھڑانے کی خاطر اس نے محاذِ جنگ کو پسند کیا تھا۔ لیکن جیل واپس جانے سے پہلے وہ اس بات کا پتہ ضرور لگانا چاہتی تھی کہ آخر مونیکا نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا؟
ویرونیکا دن بھر اس سوال پر مختلف زاویوں سے غور کرتی رہی مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ شام میں جب شیری لوٹ کر آئی تو اس نے رات کا کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔ شیری تم اور مونیکا تو ایک جان دو قالب تھے یہ بتاؤ کہ میری بہادر بہن مونیکا نے یہ بزدلانہ اقدام کیوں کیا؟
شیری نے بتایا یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتی مگر شاید ہاروے کی موت کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر سکی تھی۔
ہاروے؟ یہ نام سنا ہوا لگتا ہے؟ ویرونیکا نے اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔
ہاروے در اصل کالج کے زمانے سے اس کا قریبی دوست تھا۔ بعد میں وہ اپنے شہر کولاریڈو واپس چلا گیا اور ان کے تعلقات منقطع ہو گئے لیکن پھر اچانک مونیکا کی ہاروے سے ملاقات ہو گئی اور ہاروے نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ تمہیں چھڑانے میں اس کی مدد کرے گا لیکن اس سے پہلے کہ اس بابت کوئی پیش رفت ہوتی مونیکا خود پھنس گئی۔
جی ہاں مجھے یاد پڑتا ہے اس نے مجھے فون پر بتلایا تھا ویرونیکا نے کہا۔
شیری نے اپنی بات جاری رکھی جان ڈیو کی شکایت پر جب پولس مونیکا کو تلاش کر رہی تھی تو اس دوران وہ اپنے گھر جانے کے بجائے یہیں ٹھہر گئی تھی۔ اس وقت مونیکا نے مجھے ہاروے کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔ ہم سب یہ سمجھ رہے تھے کہ جان نے اس پر چوری کا الزام لگایا ہو گا جسے عدالت میں بڑی آسانی سے غلط ثابت کر دیا جائے گا لیکن جب اس پر دہشت گردی اور جاسوسی کا الزام لگا تو ہاروے کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے۔
ویرونیکا نے تائید کی اور بولی ان الزامات سے بھلا کون بچ سکتا ہے؟
شیری بولی لیکن مونیکا بتلا رہی تھی کہ ہاروے کے پاس جان کے خلاف بہت ٹھوس شواہد موجود ہیں اور اسے یقین تھا کہ ہاروے نہ صرف اسے رہا کروانے کامیاب ہو جائے گا بلکہ تمھاری رہائی کے لیے بھی اپنا سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرے گا۔
یہ گرفتاری سے پہلے کی صورتحال تھی۔ یہ بتاؤ کہ رہائی کے بعد کیا ہوا؟
ضمانت کے بعد بھی مونیکا یہیں چلی آئی اور اس نے بتایا تھا کہ ہاروے نے اسے یقین دلایا ہے بہت جلداس کا مقدمہ خارج ہو جائے گا۔ ہاروے کی یقین دہانی کے بعد مونیکا کی کیفیت بدل گئی تھی۔ اس کی زندگی میں گویا بہار آ گئی تھی۔ وہ اپنے مستقبل کے سپنے سجانے لگی تھی۔ میں اپنی سہیلی کی اس حالت پر بہت خوش تھی لیکن پھر ہاروے کے قتل کی خبر آ گئی۔ مونیکا کو نہ جانے کیوں یقین ہو گیا کہ جان ڈیو نے ہاروے کو قتل کروا دیا ہے۔
اچھا تو پھر کیا ہوا؟ ویرونیکا کا اضطراب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
مونیکا پھر ایک بار مایوسی کیا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئی۔ وہ سمجھنے لگی کہ اب اس کی ضمانت منسوخ ہو جائے گی اور اسے پھر ایک بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا جائے گا۔ اس خیال سے وہ بالکل ٹوٹ سی گئی تھی۔ مونیکا یہ بھی کہتی تھی کہ جو جان ڈیو ایک سابق سنیٹر کے بیٹے ہاروے جیسے بارسوخ آدمی کا قتل کرواسکتا ہے اس کے نزدیک مونیکا کی کیا حیثیت ہے؟ وہ کسی بھی وقت اس کو ٹھکانے لگا دے گا۔
ویرونیکا نے سوال کیا تو گویا جان ڈیو کا خوف ہی مونیکا کی خودکشی کا سبب بنا؟
نہ صرف خوف بلکہ ہاروے کے قتل کا صدمہ خودکشی کے بنیادی اسباب تھے۔
ویرونیکا نے پوچھا لیکن میری بہن کی ان قیاس آرائیوں کی کوئی حقیقت بھی ہے یا بس یہ سب گمان کی باتیں ہیں۔
شیری بولی میں یہ نہیں جانتی؟ مجھے تو وہی پتہ ہے جو وہ بتلاتی تھی لیکن ذاتی طور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ پوری عمارت وہم و گمان کی ریت پر کھڑی ہے۔ میں نے مونیکا سے بھی کہا تھا جان ڈیو نے ہاروے کا قتل کیا ہو ایسا الزام نہ کنگسلے خاندان کے کسی فرد نے لگایا اور نہ یہ اندیشہ ذرائع ابلاغ میں ظاہر کیا گیا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک مشہور آدمی کے قتل میں کوئی دوسرا معروف شخص ملوث ہو اور اس کا کوئی چرچا نہ ہو؟ لیکن مونیکا میری کسی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ مجھے لگتا ہے خوف کے مارے وہ حواس باختہ ہو گئی تھی۔
ویرونیکا نے پوچھا اس حقیقت کا پتہ کیسے چل سکتا ہے کہ مونیکا کا اندیشے صحیح تھے یا غلط؟
تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو ویرونیکا؟ جو ہونا تھا سو ہو چکا اب یہ سوال بے معنیٰ ہے۔
ویرونیکا بولی نہیں شیری میں اپنی بہن کا بدلہ لوں گی اگر یہ قتل جان ڈیو کے ایماء پر ہوا ہے تو میں اسے موت کے گھاٹ اتار دوں گی اس لیے کہ ویسے بھی مجھے موت یا عمر قید کی سزا تو ہونی ہی ہے لیکن اگر میں اپنی بہن کے قاتل کو مار کر مرتی ہوں تو مجھے اس کا افسوس کم ہو گا بلکہ نہیں ہو گا۔
شیری کو ویرونیکا کی باتوں سے خوف محسوس ہونے لگا وہ بولی ویرونیکا میرے خیال میں جو ہو گیا اسے تم بھول جاؤ تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔
نہیں شیری میں ایسا نہیں کر سکتی۔ میں مونیکا کے قاتل میرا مطلب ہے ہاروے کے قاتل کو ضرور کیفرِ کردار تک پہنچاؤں گی۔ یہ میرا فیصلہ ہے لیکن میں چاہتی ہوں کے یہ سزا کسی غیر متعلق فرد کو نہ ملے۔
مجھے تو لگتا ہے حقیقت تک رسائی کی واحد صورت یہ ہے کہ ہاروے کے قاتل سے کسی طرح رابطہ کیا جائے۔ اگر وہ اس راز پر سے پردہ اٹھا دے کہ اس نے ہاروے کا قتل کیوں کیا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
مجھے یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ جو ہاروے کا قاتل ہے وہی مونیکا کا قاتل بھی ہے اس لیے اس سے ملاقات کر کے یہ بتانا چاہئے کہ اس نے ایک نہیں بلکہ دو افراد کو قتل کیا ہے حالانکہ قتل ایک ہو یا دو اس کی سزا یکساں ہوتی ہے لیکن اگر مجرم کو یہ پتہ چل جائے اس کا جرم کس قدر سنگین ہے تو اس کا احساس یقیناً مختلف ہو گا۔
شیری بولی ویرونیکا تم صحیح کہتی ہو انسان خود اپنے آپ کی جس قدر تعذیب کرتا ہے ویسی ایذا رسانی تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ اور اسی سے بچنے کے لیے مونیکا جیسے لوگ خودکشی تک کر لیتے ہیں۔
ویرونیکا نے ارادہ کر لیا کہ وہ جیل واپس جانے سے قبل ہاروے کے قاتل سے ملاقات کرنے کی کوشش کرے گی اور اگر اس کے لیے پیرول کی مدت میں اضافہ کی ضرورت پڑی ہے تو اس کی بھی درخواست دے گی۔ شیری نے اگلے دن ٹام فوبرگ کے بارے میں گوگل کی مدد سے معلومات حاصل کرنی شروع کی تو کولاریڈو کی عدالت میں ہونے والا فیصلہ اس کی نظروں سے گزرا۔ شیری نے ویرونیکا کو بتایا کہ ہاروے کے قاتل کو واشنگٹن اسی سینٹرل جیل میں منتقل کیا جا رہا ہے جہاں وہ مقید ہے۔
ویرونیکا یہ جان کر بہت خوش ہوئی۔ اس کا شکار خود اس کے نرغے میں چل کر آ رہا تھا۔
ویرونیکا نے اخبارات و جرائد میں ٹام فوبرگ کے بارے میں پڑھا تو پتہ چلا کہ ان دونوں کے درمیان عراق کی ایک اور مشترک قدر ہے۔ ویرونیکا نے سوچا کہ وہ پہلے مرحلے میں ٹام کو یہ نہیں بتلائے گی کہ مونیکا سے اس کا کیا رشتہ ہے۔ قتل کا راز اگلوا لینے کے بعد وہ اسے اپنا اصلی تعارف کرائے گی۔
ویرونیکا نے اپنے دل میں یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ اگر ٹام نے کوئی معقول وجہ نہیں بتائی یا اس کے اندر ہاروے کے قتل کا کوئی افسوس نہ پایا گیا تب بھی وہ اسے قتل کر دے گی۔ اس لئے کہ اس کے خیال میں ایسا کرنے سے اس کی بہن کی روح کو سکون پہنچے گا۔ ویسے بھی کئی سارے ناحق قتل تو ویرونیکا کر ہی چکی تھی اب کم از کم ایک ایسے آدمی کا قتل بھی وہ کرنا چاہتی تھی جو صحیح معنیٰ میں اس کا حقدار تھا۔
واشنگٹن کی سینڑ ل جیل میں قیدیوں کو حاصل دیگر سہولیات میں سے ایک عبادت گاہوں کا اہتمام بھی تھا۔ عیسائیوں کے لیے کلیسہ، یہودیوں کا کنیسہ، مسلمانوں کی مسجد اور اب توسکھوں کا ایک گردوارہ بھی بن گیا تھا۔ عام مسلمان قیدیوں کو جمعہ کی نماز کے لیے اپنے بیرک سے مسجد میں جانے کی اجازت تھی اور وہ بڑے اہتمام سے نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ اس سے ماحول بدل جاتا تھا اور دیگر بیرکس میں مقید اپنے لوگوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ سا تھ ہی دین و نصیحت کے کلمات خیر بھی کانوں میں پڑ جاتے تھے۔
عبادت گاہوں کے اندر مجرم پیشہ لوگوں کو بھی ایک روحانی سکون ملتا تھا۔ عیسائی قیدی جنھیں اپنے مذہب میں بہت کم دلچسپی تھی وہ بھی اتوار کو چرچ میں آنے کا اہتمام کرتے تھے۔ کیتھولک لوگوں کے لیے صبح کا وقت مختص تھا اور پروٹسٹنٹ شام میں آتے تھے۔ آرتھوڈوکس اور نیوکون چونکہ کم تھے اس لیے ان کے لیے بدھ اور ہفتہ کے دن اجتماعی عبادت کا اہتمام ہوتا تھا۔
ویرونیکا نے ٹام سے ملاقات کے لیے چرچ کا انتخاب کیا۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے سامنے کئی سوال کھڑے ہو گئے۔ سب سے اول تو ٹام چرچ میں آتا ہے یا نہیں؟ اور اگر آتا ہے تو کس دن؟ اور کس وقت؟ ویرونیکا نے اخبارات سے ٹام کے بارے جو معلومات حاصل کی تھی ان میں وہ کہاں پیدا ہوا؟کیا تعلیم حاصل کی ہے؟ اس کا پسندیدہ مشغلہ کیا ہے؟ بلکہ اس کی پسندیدہ شراب کون سی ہے؟ اس کا بھی ذکر موجود تھا مگراس کے عقیدے سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھی۔ عام لوگوں کے لیے اس کی کوئی اہمیت کا نہیں تھی لیکن ویرونیکا کے لیے یہ علم ضروری ہو گیا تھا۔
ویرونیکا جب سے جیل میں تھی اس نے کبھی چرچ کا رخ نہیں کیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کے دل میں چرچ جانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا اور اب بھی نہ آتا اگر ٹام سے ملنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ ویرونیکا کے ذہن میں ٹام کے تعلق سے جو سوالات جواب طلب تھے انہیں سوالات کا جواب خود اس کے اپنے بارے میں بھی ندارد تھا۔ وہ بیچاری نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہے؟ کیتھولک، پروٹسٹنٹ یا آرتھوڈوکس وغیرہ؟
ویرونیکا کو یاد پڑتا تھا کہ اس کے پاسپورٹ پر مذہب کے کالم میں پروٹسٹنٹ لکھا ہوا ہے۔ شاید اس کی ماں کا یہی مذہب رہا ہو لیکن اس کا عملی اظہار کبھی نہیں ہوا تھا۔ ویرونیکا کو اس بات پر حیرت تھی کہ ایک صلیبی جنگ لڑنے کے لیے وہ عراق تو پہنچ گئی تھی لیکن کبھی بھولے سے بھی گرجا گھر میں جانے کی زحمت اس نے گوارہ نہیں کی۔ ویرونیکا کے لیے اپنے عقیدے سے زیادہ اہمیت اس بات کی تھی کہ ٹام کا عقیدہ کیا ہے تاکہ وہ پتہ چلا سکے کہ اگر وہ چرچ آتا ہے تو کس وقت؟
اس دوران گڈ فرائیڈے کا تہوار آ گیا ویرونیکا نے سوچا اس دن تو ایسے لوگ بھی چرچ میں آ جاتے ہیں جو عام طور پر نہیں آتے۔ اس دن چونکہ سارے ہی مذاہب کے عیسائیوں کو گرجا گھر میں آنا تھا اس لیے صبح سے شام تک کے الگ الگ اوقات ہر ایک کے لیے مختص کر دئیے گئے تھے۔ ویرونیکا نے طے کیا کہ وہ صبح سے شام تک کا وقت چرچ میں گزارے گی تاکہ ٹام جب بھی آئے اس سے ملاقات ہو جائے۔
اخبارات میں چھپنے والی ٹام کی تصاویر ویرونیکا کے ذہن نشین تھیں۔ اسی کی مدد سے وہ ٹام کو پہچان سکتی تھی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ صبح نو بجے کے ماس (جماعت)میں ہی اسے ٹام فوبرگ آتا ہوا دکھلائی دے گیا۔ وہ سائے کی طرح اس کے پیچھے لگ گئی۔ ماس کے بعد جیل انتظامیہ کی جانب سے ہلکی پھلکی ضیافت کا اہتمام بھی تھا۔ ویرونیکا نے سوچایہ ٹام سے متعارف ہونے کا بہترین موقع ہے۔ وہ ٹام کے قریب آئی۔ اسے دیکھ کر مسکرانے کے بعد ’’ ہائی‘‘ کہا۔
ٹام نے بھی از راہِ تکلف مسکرا کر جواب دیا۔
ویرونیکا بولی میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے؟
ممکن ہے ویسے انسان کسی ملتی جلتی شکل و شباہت کے حامل انسان کو بھی دیکھ لے تو اسے ایسا گمان گزرتا ہے۔ ہم سیاہ فام لوگ تو ایک جیسے ہوتے ہی ہیں۔
جی نہیں میری یادداشت مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی میں نے یقیناً آپ کو دیکھا ہے لیکن یاد نہیں آ رہا ہے۔
یاد آنا ضروری نہیں ہے۔ ابھی ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں یہ کافی ہے۔ چلو کچھ کھاتے پیتے ہیں۔
یہ اچھا ہے۔ ممکن ہے اس بیچ یاد آ جائے۔
میں نے کہا نا کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ خیر تمھارا نام کیا ہے۔
ویرونیکا بولی مجھے لوگ کونیکا کے نام سے بلاتے ہیں۔
کونیکا؟ یہ نام تو میں نے پہلی مرتبہ سنا ہے لیکن بالکل تمھاری طرح خوبصورت نام ہے کونیکا۔ اب ٹام کھلنے لگا تھا۔
اچھا تو میں خوبصورت بھی ہوں؟ ویرونیکا نے خوش ہو کر پوچھا۔
ٹام کا حوصلہ بڑھا اس نے کہا کونیکا اگر تم سچ پوچھو تو اس مجمع میں تم سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں ہے ….بلکہ اس جیل میں تم سے زیادہ خوبصورت ……بلکہ اس شہر میں ……بلکہ اس ملک…..بلکہ اس دنیا میں ……
اب بس بھی کرو میں سمجھ گئی کہ ملکۂ کائنات میں ہی ہوں۔
جی ہاں میرے لیے تم ہی ملکۂ کائنات ہو۔
ویرونیکا سوچ رہی تھی یہ مرد کس قدر چرب زبان ہوتے ہیں اور کس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں؟ لیکن چونکہ اس کا کام ہو رہا تھا اس لئے اس نے اعتراض کیا نہ اختلاف اور پھر کس عورت کو اپنی تعریف پسند نہیں آتی۔
ٹام نے کہا کونیکا مجھے خوشی ہے آج تم سے ملاقات ہو گئی لیکن میں نے تمہیں اتوار کے دن چرچ میں کبھی نہیں دیکھا۔
ویرونیکا نے سوچا اب ہوئی کام کی بات اس نے جواب دینے کے بجائے جھٹ پوچھ لیا تو کیا تم ہر اتوار کو چرچ آتے ہو؟
جی ہاں ویسے تو ماس کا وقت شام چھے بجے ہے لیکن چونکہ ایک گھنٹہ پہلے چھٹی مل جاتی ہے اس لئے میں پانچ بجے ہی یہاں پہنچ جاتا ہوں۔ مجھے یہ ماحول بہت اچھا لگتا ہے۔
اب مجھے بھی اچھا لگنے لگا ہے اس لیے میں بھی آ جایا کروں گی۔
گڈ فرائی ڈے کا دن ویسے تو ہر سال میں ایک بار آتا ہے اور چلا جاتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ آج کا دن میرے لیے بڑی بشارتیں لے کر آیا ہے۔ میرا دل کہہ رہا ہے کہ یہ فرائیڈے میرے لئے حقیقی معنیٰ میں گڈ فرائی ڈے بن گیا ہے۔
اگر میں بھی یہی کہوں تو تم کہو گے کہ میں تمہیں بہلا رہی ہوں؟
جی نہیں میں یہ نہیں کہوں گا اس لیے آج کے دن کی اچھائی مشترک ہے بلکہ یہ اشتراک ہی آج کے دن کا خیر ہے۔
آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں لیکن پھر بھی اچھی لگتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ ایک اچھے آدمی ہیں۔
ٹام نے ہنس کر کہا محترمہ آپ شاید یہ بھول گئی ہیں کہ یہ جیل ہے۔ اچھے لوگوں کو یہاں نہیں بھیجا جاتا ہے بلکہ سنا ہے کہ ہم جیسے برے لوگوں کو اصلاح کے لیے یہاں روانہ کیا جاتا ہے۔
تب تو ہم خوش قسمت ہیں۔
ٹام نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟
بھئی ہماری اصلاح کا کوئی انتظام تو ہے ورنہ برے لوگ تو اس جیل سے باہر کی دنیا میں بھی بے شمار ہیں لیکن وہاں انھیں سدھارنے کی کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔ وہ بیچارے تو بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔
تمھاری منطق بالکل درست ہے کونیکا
ایک بات اور ہے وہاں چونکہ ان کی نگرانی نہیں ہوتی اس لئے ان کے شر سے عامۃ الناس کو بھی آئے دن مصیبتوں کا سامنا ہوتا رہتا ہے جبکہ ہم لوگ مجبوری سے سہی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ کیا خیال ہے؟
ٹام نے ہنس کر کہا کونیکا ایک بات بولوں۔
ضرور بولو میں تو پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ تمھاری باتیں مجھے اچھی لگتی ہیں۔
جی ہاں اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ میری باتیں تمھاری سمجھ میں نہیں آتیں۔
ویرونیکا نے تائید کی جی ہاں یہ بھی سچ ہے
اگر ایسا ہے تو تمھاری یہ جیل کے اندر اور باہر کی اصلاح والی بات بھی میرے سر کے اوپر سے نکل گئی۔
کوئی بات نہیں اسے سمجھنے کے لیے تمھارے پاس ایک ہفتے کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے ہفتے جب ہم لوگ یہاں ملیں گے تو اس وقت تک یہ بات تم سمجھ چکے ہو گے۔
محترمہ آج جمعہ ہے اور اتوار کا دن ایک ہفتہ بعد نہیں بلکہ صرف دو دن بعد آ جائے گا۔
اوہو میں تو بھول ہی گئی تھی۔
جیل کی زندگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہاں سب دن برابر ہوتے ہیں اس لئے کہ چھٹی کا دن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنوں کا شمار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
لیکن اتوار کا دن؟ ویرونیکا نے سوال کیا
جی ہاں اب وہ مختلف ہو گیا ہے۔
اسی کے ساتھ وہ دونوں پھر سے ملاقات کا وعدہ کر کے جدا ہو گئے۔
ویرونیکا اس دن بہت خوش تھی ایک تو اسے یقین نہیں تھا کہ ٹام سے ملاقات ہو جائے گی بھی کہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر آسانی سے دام میں آ جائے گا اور ایسے خوشگوار ماحول میں گفتگو ہو گی یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ ٹام مزاجاً خوش باش اور شریف لگتا تھا اس کے باوجود اس نے اپنے دوست کا قتل کیوں کر دیا؟ یہ سوال ویرونیکا کے ذہن میں خلش پیدا کر رہا تھا۔ وہ اس کا جواب جاننے میں کوئی جلد بازی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس پہلی ملاقات میں ویرونیکا نے ٹام سے اس کا نام بھی نہیں پوچھا تھا حالانکہ وہ ٹام کی بہت سارتفصیلات سے واقف تھی خیر ویرونیکا کا وہ تجربہ خاصہ حوصلہ افزاء تھا۔ نہ جانے کتنے سالوں کے بعد چرچ کا روحانی ماحول، پادری کا نرم و گداز لب و لہجہ، صحائف کے دلپذیر پند و نصائح اور ٹام سے ملاقات۔ یہ سب اس کے لیے نیا ہونے کے ساتھ ساتھ خوشگوار بھی تھا۔
ویرونیکا کو اپنا ایک جملہ بار بار یاد آ رہا تھا جسے ٹام نے دوہرایا بھی تھا ’’تمھاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں مگر اچھی لگتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم ایک اچھے آدمی ہو‘‘۔ ویرونیکا کو پہلی مرتبہ کوئی اچھا لگا تھا لیکن یہ عجیب اتفاق تھا کہ جو شخص اسے اچھا لگا تھا وہ اس کی پیاری بہن مونیکا کا بلاواسطہ قاتل تھا۔
ویرونیکا اتوار کے دن دوپہر کو جب سو کر اٹھی تو اس کے کانوں میں ٹام کے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’’ کونیکا اگر تم سچ پوچھو تو اس مجمع میں تم سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں ….بلکہ اس جیل میں تم سے زیادہ خوبصورت ……بلکہ اس شہر میں ……بلکہ اس ملک…..بلکہ اس دنیا میں ……‘‘
ویرونیکا نے آئینہ میں دیکھ کر اپنے آپ سے سوال کیا ….سچ؟ اس کے اندر سے آواز آئی بالکل سچ۔ اس لیے کہ یہ ٹام کی کہی ہوئی بات ہے اور ٹام جھوٹ نہیں بول سکتا۔
ویرونیکا چرچ جانے کی تیاری کرنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیوں جا رہی ہے؟ مونیکا کے قاتل کو سزا دینے کے لیے؟ یا ہاروے کے قتل کی وجہ معلوم کرنے لئے؟ یا ٹام سے ملنے کی خاطر یا؟ عبادت و ریاضت کی غرض سے؟ ویرونیکا نے ایک تلوار سے سارے سولات کا سر قلم کر دیا۔ اس کا جواب تھا ان سب کاموں کے لیے۔
ویرونیکا جانتی تھی کہ یہ جواب غلط ہے پھر بھی وہ اس پر یقین کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے کہتی تھی کیا انسان کئی مقاصد کے پیش نظر کوئی سفر نہیں کر سکتا؟ ضرور کر سکتا ہے۔ بیچاری ویرونیکا نہیں جانتی تھی کہ اگرانسان ایسے متعدد مقاصد کے حصول کی خاطر کوئی سفر کرے جو ایک دوسرے سے متصادم ہوں تو اس کے اپنے اندر تصادم برپا ہو جاتا ہے۔
اس صورت میں مسافر کی اپنی ذات ایک میدانِ کارزار میں تبدیل ہو جاتی ہے جہاں وہ خود اپنے آپ سے لڑتا ہے۔ اپنی ذات کو نہ صرف زخمی کرتا ہے بلکہ ہلاک بھی کر دیتا ہے۔ جیسا کہ مونیکا نے کیا بلکہ ہاروے سے بھی یہی غلطی سرزد ہوئی تھی۔ ویرونیکا کنفیوز ہو گئی اس نے سوچا یہ دنیا بھی عجیب گورکھ دھندہ ہے کہ یہاں غلطی کوئی اور کرتا ہے اور سزا کسی اور کو ملتی ہے۔
ویرونیکا کو یاد آیا گڈ فرائیڈے کے وعظ میں پادری نے اخلاص نیت کی بابت بہت کچھ کہا تھا۔ اس وقت وہ باتیں ویرونیکا کی سمجھ میں نہیں آئی تھیں لیکن ٹام سے ملاقات کے بعد وہ پوشیدہ حقیقت اپنے آپ بے نقاب ہونے لگی تھی۔ جب ویرونیکا پادری کے ان الفاظ پر غور کرتی کہ ایک ایسا دن آنے والا جب ہر نفس کو اپنے کیے کی پو ری سزا ملے گی۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا تو ویرونیکا کی قلبی کیفیت بدلنے لگتی تھی وہ نرم ہونے لگتا تھا۔
ویرونیکا اور ٹام کے درمیان ہر اتوار کو ملاقات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور رفتہ رفتہ ان کی زندگی کی کتاب ایک دوسرے پر کھلتی چلی گئی۔ سبک خرامی کے ساتھ یہ سفر کئی ماہ تک چلتا رہا۔ دن ہفتوں اور ماہ وسال میں بدلتے رہے۔ ویرونیکا اب اس حسین سفر اور اپنے ہم سفر کی رفاقت سے محظوظ ہونے لگی تھی۔ اسے کوئی جلدی نہیں تھی۔
جب ٹام نے اپنی زندگی کا آخری باب ویرونیکا کے سامنے رکھا تو اس کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس نے سوال کیا لیکن ٹام اپنے دفاع کا حق تو ہر کسی کو حاصل ہے؟ اور ایسا کرتے ہوئے اگر کسی کے ہاتھوں حملہ آور ہلاک بھی ہو جائے تب بھی اس کو کوئی سزا نہیں ہوتی۔
کونیکا تمہاری بات درست ہے لیکن مجھ پر حملہ ہوا ہی کب تھا۔ ہاروے تو مجھ سے پستول مانگ رہا تھا وہ مجھے مارنا نہیں چاہتا تھا۔
ویرونیکا نے کہا لیکن اگر اپنے بچاؤ میں کسی کو ہلاک کر دینا مباح ہے تو کسی اور بچانے کے لیے ایسا کرنا جرم کیوں کر ہو سکتا ہے؟
جی ہاں لیکن عدالت میں یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ ہاروے کسی کو ہلاک کرنے جا رہا تھا اور میں اسے روک رہا تھا۔ اس لیے کہ مائیکل کو بھی اس حقیقت کا علم نہیں ہے اور ہاروے تومر چکا ہے۔ عدالت تو یہ جانتی ہے کہ میں نے بھرے مجمع میں ہاروے کو قتل کر دیا؟ اور اس واقعہ کے بے شمار چشم دید گواہ موجود ہیں
لیکن اس قتل کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہئے؟
عدالت کو وجہ سے کیا سروکار؟ اس کے سامنے اگر ملزم ہو جس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوں تو اس کا کام سزا دینا ہے بس۔ نیت کی بنیاد پر فیصلے اس دنیا میں نہیں کسی اور جہان میں ہوتے ہیں۔
ویرونیکا کو چرچ کے فادر کی بات یاد آئی۔ وہ بولی تو پھر انسان اس دنیا میں کیا کرے؟ کسی اور کی سزا کا خود کو مستحق بنا لے؟
اگر کسی کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو تو صبر ضبط اس کا انتخاب نہیں مجبوری بن جاتی ہے۔
ٹام کا دفاع کرتے کرتے ویرونیکا ہار گئی اور اداس ہو کر بیٹھ گئی۔
ٹام نے کہا کونیکا یہ زندگی ہے اس میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ تم نے گزشتہ ہفتے وعظ میں نہیں سنا کہ موت بھی زندگی کا ایک طویل اور خوشگوار حصہ ہے جسے اپنے وقت پر آنا ہے اس لیے ہمیں اداس ہونے کے بجائے پر امید رہنا چاہئے۔
ویرونیکا بولی ٹام تمہیں عراق جانے کے بجائے ویٹیکان جانا چاہئے تھا۔
ٹام نے ہنس کر کہا اگر ایسا ہوتا تب بھی میں اس وقت جیل ہی میں ہوتا۔
کیوں؟ ویرونیکا نے سوال کیا ………….۔
اس لئے کہ جو مقدر میں لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔
ویرونیکا بولی اچھا؟؟؟
ارے بھئی جیل میں ہونا کوئی بری بات تھوڑے ہی ہے۔ ہمارے فادر بھی تو جیل ہی میں رہتے ہیں اور وہی کرتے جو باہر کیا کرتے تھے۔ اس لئے میں بھی اگر پادری بن گیا ہوتا تو کسی جیل میں مجھے تعینات کر دیا جاتا اور جیل کی زندگی میرا مقدر بن جاتی۔
ٹام ! ٹام!! ٹام !!! تم بہت اچھی باتیں کرتے ہو۔ فادر سے بھی اچھی، سچ تو یہ کہ ویٹیکان جانا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے۔ تم تو اس کے بغیر ہی کارڈینل بنائے جانے کے حقدار ہو۔
لیکن تمہاری اس تجویز میں ایک بہت بڑا خسارہ ہے
ویرونیکا نے چونک کر سوال کیا وہ کیا؟
اگر میں ویٹیکان چلا جاتا اور وہاں سے راہب بن کر لوٹتا تو میرے لئے تمہارے ساتھ اس طرح باغ میں بیٹھ کر باتیں کرنا ممکن نہ ہوتا تھا۔
تب تو اچھا ہی ہوا جو تم وہاں نہیں گئے۔
یہی تو میں کہتا ہوں جو کچھ بھی ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو چلو چرچ کے اندر چلتے ہیں
جی ہاں ہفتہ وار عبادت کا وقت ہو گیا ہے۔
اور فی الحال سب سے مقدس کام یہی ہے۔
دونوں اٹھ کر چرچ میں آ گئے۔
اس روز ویرونیکا کی سمجھ میں پادری کوئی نصیحت نہیں آئی۔
اس لیے کہ وہ سارا وقت ٹام کے بارے میں سوچتی رہی۔
٭٭٭
۳۷
مائیکل اور کیتھی کے منصوبوں پر ایک کے بعد ایک آفات کی برسات ہو رہی تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ ہاروے کو بلا کر دفتر کا شاندار افتتاح کروائیں گے۔ ہاروے کی آمد سے تمام ہی ذرائع ابلاغ میں زبردست تشہیر ہو جائے گی اور متوقع گاہکوں کو اپنے آپ پتہ چل جائے گا کہ دستاویزی فلموں کو حاصل کرنے کا ایک اور مرکز کھل گیا ہے۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہکسی خاص موضوع پر ڈاکومینٹری بنوانے کے خواہشمند ٹی وی چینلس ان سے رابطہ کرتے اور ان کا کاروبار چل پڑتا
کیتھی چونکہ اپنی صحافیانہ زندگی میں عوامی دلچسپی کے موضوعات اٹھانے کے لیے مشہور و معروف تھی۔ انہیں توقع تھی مختلف تازہ وارداتوں کی گہرائی میں جا کر تحقیق و تفتیش کرنے کا اور انھیں دلچسپ اور عام فہم بنا کر پیش کرنے کا کام بھی ان کو ملنے لگے گا۔ لیکن ہاروے کی موت سے یہ سارا معاملہ التواء میں پڑ گیا۔ الغرض وی ٹو نامی کمپنی کا اولین پروجکٹ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
کیتھی اور مائیکل کے لیے ہاروے کے متبادل کی تلاش خاصی مشکل تھی اس لیے کہ اس طرح کی مقبول و معروف شخصیت تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ دائیں بازو کے دانشور کیتھی سے اس کے ماضی کے سبب فاصلہ رکھتے تھے۔ فکری طور پر کیتھی بھی ان کو پکا منافق سمجھتی تھی اس لیے کہ اس کے خیال میں وہ لوگ جس فکر کے حامل تھے اس کے عین خلاف زندگی بسر کرتے تھے۔ اس کے برعکس سرمایہ داری کے حامی رجعت پسندوں کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ وہ جو کچھ کہتے تھے وہی کرتے بھی تھے۔
کیتھی اور مائیکل چونکہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے اس لئے ان کا بنک بیلنس دن بدن کم ہوتا جا رہا تھا۔ مایوسی کے عالم میں ایک دن مائیکل نے کیتھی سے کہا میرا خیال ہے ہمیں اب اس پروجکٹ کا خیال دل سے نکال کر کوئی اور کام کرنا چاہئے۔
کیتھی بولی کوئی پروجکٹ سے تمھاری مراد کوئی نیا پیشہ تو نہیں ہے؟
جی نہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تمھیں ہاروے اور مونیکا کی فلم بنانے پر اصرار کیوں ہے؟ کیا ہم کسی اور موضوع کا انتخاب نہیں کر سکتے؟
دیکھو مائیکل کسی کامیاب ڈاکومینٹری کے لیے زندہ کردار بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے میں نے مونیکا اور ہاروے پرمنحصردستاویزی فلم بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ ہاروے ویسے بھی کولاریڈو کی حد تک معروف شخصیت یعنی سیلیبریٹی تھا لیکن مونیکا کے مقدمہ نے اسے قومی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مشہور کر دیا تھا۔
تمھاری یہ منطق درست ہے لیکن ہاروے کے علاوہ بھی تو مشہور لوگ موجود ہیں؟
جی ہاں لیکن عوام کے اندر ان کے تعلق سے تجسس بھی اہم ہوتا ہے۔ مونیکا کے حوالے سے جو افواہوں کا بازار گرم کیا گیا تھا اس کے سبب لوگوں میں اس کے متعلق پسِ پردہ حقائق جاننے کا اشتیاق پیدا ہو گیا تھا۔ اور چونکہ ہمیں ان حقائق سے براہِ راست واقفیت ہے اس لئے انہیں نہایت موثر اور دلنشین انداز میں پیش کرنا ہمارے قبضۂ قدرت میں ہے۔
مائیکل بولا یہ درست ہے مگر یہ بھی تو ایک تلخ حقیقت ہے ہاروے اپنے ساتھ مونیکا کی رہائی کا راز بھی سینے میں دبا کر دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ اس لیے کئی اسرار ہنوز صیغۂ راز میں ہیں اور ان کا فاش کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔
سو تو ہے لیکن تم یہ نہ بھولو مائیکل کہ ہاروے کا قتل اور اس کے بعد مونیکا کی خودکشی نے ان کی اس کہانی کو رومیو جولیٹ کی داستان میں بدل دیا تھا۔ یہ ایک ہمہ پہلو کہانی ہے جس میں ہر عمر کے لوگوں کی دلچسپی کا سامان ہے۔ اس کی ابتداء کالج سے ہوتی ہے مگر وہ آگے چل کر عدالت تک پہنچ جاتی تھی۔ اس میں سیاست کے پیچ و خم اور انتظامیہ کے نشیب و فراز سے لے کر ذرائع ابلاغ کی ریشہ دوانیاں تک شامل ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں زیر بحث لوگ نہایت خوبرو اور دلنواز شخصیت کے حامل ہیں ور ان کا تعاون حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔
مائیکل بولا مجھے پتہ ہے کیتھی میں سب جانتا ہوں بلکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ تھا ہاروے کی زندگی پر مبنی فلم میں اس کو سرمایہ کاری پر راضی کر لینا نہایت سہل تھا۔ اس طرح کسی نئی کمپنی کے لیے ابتدائی مرحلے میں راس المال کی فراہمی کا مشکل مسئلہ اپنے آپ حل ہو سکتا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ تمھیں چاہئے کہ جلد از جلد اپنے آپ کو اس سحر سے آزاد کر لو ورنہ ہم دونوں بہت جلد ملازمت تلاش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ سارے خواب بکھر جائیں گے۔
حزن و یاس کا شکار کیتھی بولی مائیکل تم سچ کہتے ہو مجھے تو لگتا ہے کہ ہماری سڑک اب ایک ایسے اندھے کنوئیں میں تبدیل ہو گئی ہے جس میں اترنا غرقاب ہونے کے مترادف ہے اس لیے اسلئے شاید اپنی اس سواری کو کسی نئی سڑک پر ڈال دینا چاہئے۔
مائیکل نے جب اس کنوئیں میں جھانک کر دیکھا تو اسے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ ویرونیکا…..ویرونیکا جو ہاروے اور مونیکا کی طرح ابھی مری نہیں تھی۔ ویرونیکا جو حیات تھی۔
کیتھی نے تائید میں کہا جی ہاں مائیکل اس کہانی کی اصل ہیروئن مونیکا نہیں بلکہ ویرونیکا ہے۔ اس لیے کہ ساری مصیبتوں کی جڑ وہی ہے۔ اسی کے لیے مونیکا جان ڈیو کے چکر میں پھنسی اور وہیں سے سارا ڈرامہ شروع ہوا۔ اگر ویرونیکا نہیں ہوتی تو مونیکا اپنی ملازمت کو خیر باد نہ کہتی اور جان سے اس کا سابقہ پیش نہیں آتا۔
مائیکل بولا مجھے خوشی ہے کہ تم نے اس تجویز کو قابلِ توجہ سمجھامیرے خیال میں ویرونیکا کے کردار میں گہرائی زیادہ ہے۔ اس کی مدد سے ڈاکیومینٹری میں عراق کی فوج کشی کو زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے۔ امریکی معاشرت کا انتشار اور نوجوانوں کی آوارگی پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے۔
ٹھیک ہے مائیکل۔ اب میں اپنی منظر نگاری کا از سرِ نو آغاز کرتی ہوں تم دیگر انتظامات کی سعی شروع کر دو۔
مائیکل بولا ویسے یہ موضوع بالکل نیا بھی نہیں ہے ہاں زاویۂ نگاہ ضرور مختلف ہے۔
میں اسے معمولی فرق نہیں سمجھتی اس لئے کہ اگر کسی کہانی کا مرکزی کردار بدل جائے تو وہ کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے نیز مونیکا اور ویرونیکا ایک دوسرے کے متضاد کردار کی حامل بھی تو ہیں۔
کیتھی تم تو جانتی ہی ہو کہ میں تمھاری اونچی باتوں کو نہیں سمجھ پاتا اس لیے ذرا آسان کر کے بتاؤ۔
دیکھو مائیکل یہ مجبوری اب زیادہ دن تمھارے کام نہیں آ سکے گی۔ اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو اونچا اڑنا پڑے گا۔
لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم میرے سنگ نیچے نیچے اڑنے لگو۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ جو ایک بار بلندیوں کی سیر کر لیتا ہے اسے پھر پست فضاؤں میں لطف نہیں آتا۔
لیکن اس بیچارے کا کیا جو اونچی اڑان بھر ہی نہ سکتا ہو؟
کیتھی ناصحانہ انداز میں بولی یاد رکھو ہر کوئی بلندی پر جا سکتا ہے بشرطیکہ ارادہ کرے۔
ٹھیک ہے بابا میں نے عزم کر لیا ہے بس مائیکل نے زچ ہو کر کہا۔
لیکن صرف عزم و ارادہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے جد و جہد بھی لازم ہے۔
مائک بولا اس میں بھی کوئی مشکل نہیں ہے میں جد و جہد کرنے کی بھی کوشش کروں گا لیکن تم یہ تو بتاؤ کہ مرکزی کردار کے بدل جانے سے کون سا بڑا فرق پڑے گا؟
میرے خیال میں اگر فلم داخلی سیاست کے بجائے خارجہ پالیسی پر منحصر ہو تو اس کے کئی فوائد ہیں ایک تو یہ کہ بیرون ممالک چینلس بھی اس میں دلچسپی لیں گے۔ مختلف زبانوں میں اس کا سب ٹائٹل اس فلم کوساری دنیا تک لے جائے گا۔ میں تو اسے عربی میں ڈب کراؤں گی اس لیے کہ عراق کے مسائل پر بننے والی اس فلم میں عربوں کو یقیناً دلچسپی ہو گی۔
تو کیا اس فلم سے مونیکا اور ہاروے بالکل غائب ہو جائیں گے۔
کیتھی نے کہا نہیں وہ بھی ہوں گے لیکن ان کا کردار ثانوی درجہ کا ہو گا۔ مرکزی رول میں ویرونیکا ہو گی۔
مائیکل نے کہا سب ٹھیک ہے مگر ایک بات یاد رکھنا بغیر ہیروئن کے تو فلم کسی طرح چل بھی سکتی ہے لیکن بغیر ہیرو کوئی فلم بن ہی نہیں سکتی۔
کیتھی سوچ میں پڑ گئی اور پھر کچھ دیر بعد بولی میں اس فلم میں تمہیں ہیرو بناؤں گی۔
مائیکل نے ہنس کر پوچھا مائی ڈئیر کیتھی کہیں تم اس بات کو تو نہیں بھول گئیں کہ ہم دستاویزی فلم بنا رہے جسے مبنی بر حقیقت ہونا چاہئے۔
میں جانتی ہوں مائیکل اس کے باوجود یہ میرا ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے کے تم اس فلم میں ہیرو کا کردار نبھاؤ گے۔ کیتھی نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا۔
کیتھی تم نے مجھے کوئی اداکار سمجھ رکھا ہے؟
جی نہیں اس میں اداکاری کی کیا بات ہے؟ کیا حقیقت میں یہ نہیں ہو سکتا؟ اگر تمھارا دوست ہاروے، مونیکا سے عشق کر سکتا ہے تو تم ویرونیکا سے کیوں نہیں کر سکتے؟
اول تو یہ بات غلط ہے کہ ہاروے مونیکا سے عشق کرتا تھا۔
اچھا تو کیا اس نے بلاوجہ جان ڈیو کے ساتھ لڑائی مول لے لی تھی؟
مائیکل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس بے وقوف کیتھی کو کیسے سمجھائے وہ بولا دیکھو کیتھی تم ساری حقیقت جاننے کے باوجود تم یہ کہہ رہی ہو؟
جی ہاں مائیکل پہلے میں بھی اسی طرح سے سوچتی تھی جیسا کہ تم اب سوچ رہے ہو لیکن مونیکا کی خودکشی کے بعد میرا نظریہ بدل گیا ہے۔ اس دنیا میں کوئی کسی پر مرتا نہیں ہے لیکن اس نے ہاروے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ کس بات کا علامت ہے؟
دیکھو کیتھی جب تک حتمی طور سے یہ پتہ نہ چل جائے کہ مونیکا نے کیوں خودکشی کی اس بابت وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا اور اگر تمھاری بات صحیح نکل جائے تب بھی یہی ثابت ہو گا کہ مونیکا ہاروے پر جان چھڑکتی تھی مگر ہاروے کا ایسا کوئی چکر تھا یہ میں نہیں مانتا۔
مائیکل کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ تم اپنے دوست کی کچھ زیادہ ہی حمایت کر رہے ہو۔
جی نہیں ایسی بات نہیں۔ ہاروے مجھ سے اس قدر قریب تھا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو مجھے ضرور بتاتا لیکن اس نے کبھی اس کا اشارہ تک نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے تمھاری یہ پراگندہ خیالی لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں اس لئے ذرا آسان کر کے بتاؤ تو بڑی مہربانی۔
کیتھی بولی اتنی بیزاری کے ساتھ کی جانے والی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں اس کے لیے ذوق و شوق درکار ہوتا ہے۔
مائیکل منھ لٹکا کر بولا جانے بھی دو یار تمھارے لوازمات کا سلسلہ تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے کچھ نہ بتاؤ میں اس کے بغیر ہی خوش ہوں۔
کیتھی نے شوخی سے پچکار کر کہا اوہو میرے راجہ ایسے ناراض نہیں ہوتے۔
تو پھر کیا ہوتے ہیں۔ تم کبھی کچھ کہتی ہو تو کبھی کچھ، تمھاری باتوں کا نہ سر ہے نہ پیر۔ تم نے پہلے تو مونیکا کے بجائے ویرونیکا کو ہیروئن بنا دیا اور پھر مجھے ہیرو۔ یہ بھی کوئی بات ہے۔
کیتھی بولی ویرونیکا ابھی جیل میں ہے کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اسے رہا کرانے کی کوشش کریں اور اس درمیان تمہیں اس سے عشق ہو جائے اور اس طرح ہمیں اپنی فلم کا ہیرو مل جائے۔
کیتھی ولسن سے ملاقات سے قبل تو شاید یہ ممکن تھا لیکن اب ناممکن ہے۔
میں سچ مچ کے عشق کی بات نہیں کر رہی یونہی جھوٹ موٹ۔
دیکھو کیتھی میں اداکار تو ہوں نہیں لیکن اگر تمہیں اسی طرز پر کام کرنا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ سب پہلے ہمیں وی ٹو پروڈکشن کے اغراض و مقاصد میں تبدیلی کر کے اسے دستاویزی فلموں کے بجائے تفریحی فلموں کا پروڈکشن ہاوس بنانا ہو گا۔
کیتھی بولی مجھے یہ گوارہ ہے۔
مائیکل نے حیرت سے کہا اچھا تو تم اپنا منظر نامہ لکھو میں ہالی ووڈ سے ایک بڑے سرمایہ کار اور مشہور اداکار کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر ہیروئن نئی ہو مثلاً ویرونیکا اور ہیرو بھی نیا ہو مثلاً مائیکل چاؤ تو اس فلم کو فلاپ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس فلم کے لیے ہمیں کوئی مشہور ہیرو پکڑنا پڑے گا۔
تمھارا آئیڈیا برا نہیں ہے۔
مائیکل بولا لیکن ابھی یہ آئیڈیا نامکمل ہے۔
اوہو تو تم اسے پورا کر دو۔
اپنی اگلی فلم میں تم کوئی مشہور ہیروئن کو سائن کر لینا اس کے مقابلے میں ہیرو بن جاؤں گا۔ اس وقت تک ہماری شادی ہو چکی ہو گی اس لیے کوئی خطرہ بھی نہیں ہو گا۔
اچھا مجھ سے شادی کرنے کے بعد تم مشہور ہیروئن کے ساتھ گل چھرے اڑاؤ گے؟ کیا تم ایسی توقع کرتے ہو کہ میں اس کی اجازت دے دوں گی؟
مائیکل بولا کیوں نہیں شادی کے بعد بالی ووڈ کی فلمی اداکارہ تو کبھی کبھار فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیتی ہے لیکن اداکار کے ساتھ تو وہاں بھی ایسا نہیں ہوتا اگر ہم ہالی ووڈ کے لوگ ہیں تو ہمارے لئے شادی وادی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہونا چاہئے۔
ہالی ووڈ میں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا اس سے مجھے کوئی غرض نہیں لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ ہر گز نہیں ہو گا۔
ٹھیک ہے سرکار آپ جو بولیں گی وہی ہو گا لیکن پہلے یہ بتائیں کہ اب اگلا قدم کیا ہو گا؟
کیتھی بولی جیل …….۔
جیل! خیریت توہے۔
کیتھی ہنس کر بولی اوہو تم اتنے ڈر کیوں گئے؟ ویرونیکا جیل میں ہے تو اس سے معلومات حاصل کرنے کے لیے جیل ہی میں تو جانا پڑے گا۔
تو کیا میں بھی؟ مائیکل نے پوچھا۔
جی نہیں کیتھی بولی ہر گز نہیں۔
کیوں …………..؟
اس لئے کہ تمھارا کام فلم کے لیے سرمایہ کاری کروانا ہے۔
کیا بس اتنا ہی کام ہے میرا؟
جی نہیں فلم کو بیچ کر ڈالر جمع کرنا بھی تمھارا ہی کام ہے کیا سمجھے۔
مائیکل نے تائید کی سمجھ گیا سرکار سب سمجھ گیا اور ہیرو گیری کا کیا؟
اب وہ خیال تم اپنے ذہن سے نکال دو ورنہ؟
ورنہ کیا ہو گا؟
ورنہ ہمارے پروڈکشن ہاوس کا نام وی ٹو کے بجائے آئی ون ہو جائے گا۔
اسی کے ساتھ ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا اور گفتگو ختم ہو گئی۔
٭٭٭
۳۸
ویرونیکا سے ملاقات کے بعد کیتھی کے سامنے حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔ ویرونیکا نے اسے بتایا جس ہاروے کو وہ فرشتہ سمجھتی ہے اسی نے ٹام کو مائیکل کا قتل کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا اور جس ٹام کو وہ شیطان مانتی ہے وہ پوری طرح بے قصور ہے۔ اس نے نہ صرف مائیکل کو قتل کرنے سے منع کر دیا تھا بلکہ جب ہاروے نے اس سے مائیکل کا قتل کرنے کے لیے پستول مانگا تو اپنا پستول دینے سے بھی انکار کر دیا۔ جہاں تک ہاروے کی موت کا سوال ہے وہ ایک حادثاتی عمل تھا جس میں ٹام کا نہ ہی ارادہ شامل تھا اور نہ اس نے اس کے لیے کوئی اقدام ہی کیا گیا تھا۔
ویرونیکا نے ٹام سے اپنی گزشتہ ملاقاتوں میں جو معلومات حاصل کی تھیں ان سب سے کیتھی کو واقف کرا دیا۔ در اصل وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح ساری دنیا کو پتہ چل جائے کہ ٹام بے قصور ہے۔ ویرونیکا نے کیتھی سے کہا ٹام تو ہاروے سے اپنی پستول واپس چھیننے کی کوشش کر رہا تھا اور ہاروے اس کو لے جا کر مائیکل پر خالی کرنا چاہتا تھا لیکن اس چھینا جھپٹی میں غلطی سے گولی چل گئی۔ اس روز گولی چلنے سے ٹام فوبرگ یا کوئی اور بھی ہلاک ہو سکتا تھا لیکن خیر سے ایسا نہیں ہوا۔
ویرونیکا نے کیتھی سے گزارش کی کہ اگر فلم بنانا ہی ہے تو اس کے بجائے ٹام کی زندگی پر بنائے۔ اس لیے کہ اس کی زندگی میں بہت سارے رنگ ہیں۔ وہ عراق جا چکا ہے اور وہ قومی سیاست میں بھی سر گرمِ عمل رہا ہے۔ ویرونیکا کی باتوں نے کیتھی کو کافی کنفیوز کر دیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کیتھی نے ویرونیکا سے اجازت لی اور پھر سے ملنے کا وعدہ کر کے لوٹ آئی۔ اب وہ اس مسئلے پر مائیکل سے بات کرنا چاہتی تھی۔
کیتھی نے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مائیکل کو دفتر میں بلایا تو مائیکل نے مایوس ہو کر کہا کہ ایسا لگتا ہے ہماری اس مہم کے ساتھ کوئی نحوست وابستہ ہو گئی ہے اس لیے ہمیں یہ خیال ہی اپنے دل سے نکال دینا چاہئے۔ اس سے وابستہ ہر کوئی تباہ و برباد ہے ہاروے، مونیکا، ویرونیکا، جان ڈیو، ٹام فوبرگ وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ مجھے خوف ہے کہ بہت جلد ہم بھی اس فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔
کیتھی بولی لیکن میں نے ویرونیکا سے جو معلومات حاصل کی ہیں اگر تم اسے جان جاؤ گے تو تمہیں اپنے شاد باد ہونے پر تعجب ہو گا۔
ویرونیکا سے ملاقات کے بعد ایسا کیا ہو گیا؟ مائیکل نے پوچھا۔
مائیکل یہ سمجھ لو کہ روشنی تاریکی میں بدل گئی اور اندھیرا اپنا چولا بدل کر اجالا بن گیا۔
مائک بولا میں تمھاری بات نہیں سمجھا۔
بس یہ سمجھ لو کہ ہماری کہانی کا ہیرو ولن بن گیا اور ولن اب ہیرو بنا ہوا ہے۔
کیتھی کے زبان سے ہاروے کے قتل کی تفصیل سن کر مائیکل نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اسے ایسا لگا کہ اس اتھل پتھل میں اس کی بے حسی نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر وہ ڈائنا کا اشارہ سمجھ جاتا تو شاید یہ سب نہیں ہوتا۔ خیر جو ہونا تھا سو ہو چکا تھا۔ پہلی بار اسے ڈائنا کا خیال آیا تھا نہ جانے اب وہ کس حال میں ہے اسپتال سے گھر واپس آئی یا نہیں۔ مائیکل نے اس کا پتہ لگانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ مائیکل کو اپنی سنگدلی پر شدید ندامت کا احساس ہو رہا تھا۔
اپنے قریب ترین دوست کی موت کے بعد اس کی بیمار بہن کی مزاج پرسی تک کا خیال اگر کسی کو نہ آئے۔ ایک مرتبہ بھولے سے جا کر جو اپنے دوست کی والدہ اور نانی کی خبر گیری تک نہ کرے۔ جن کا کوئی سہارا نہیں ہو ان کے لیے ہمدردی و غمخواری کے دو بول جس کے پاس نہ ہوں تووہ انسان نہیں حیوان ہے۔ مائیکل اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔ کیتھی سمجھ رہی تھی کہ وہ ہاروے پر غضبناک ہو رہا ہے۔
کیتھی نے کہا خیر جو ہونا تھا سو ہو چکا اب تم کیا سوچ رہے ہو؟
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ انسان کو ایسا پتھر دل بھی نہیں ہونا چاہئے۔
کیتھی بولی یہ سنگدلی نہیں درندگی ہے۔ تمھارا دوست انسان نہیں خونخوار وحشی تھا۔
میں ہاروے کے بارے میں نہیں اپنے حوالے سے سوچ رہا تھا۔
اچھا تو تمہیں ہاروے کے رویے پر حیرت نہیں ہے؟ کیتھی نے سوال کیا۔
جی نہیں، جو شخص مونیکا کو بچانے کے لیے اپنے جان کی بازی لگا سکتا ہے اگر وہ اپنی بہن کی جان بچانے کی خاطرکسی کی جان کا دشمن ہو جائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔
کیتھی نے حیران ہو کر پوچھا مائیکل تمھاری یہ الٹی منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔ تم ایک ……
مائیکل نے درمیان میں ٹوک دیا اور بولا کیتھی یہ یاد رکھو کہ ہاروے میرا دوست تھا اور ہے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے اور میں اس کے تعلق سے وہ الفاظ پھر کبھی سننا نہیں پسند کروں گا جو تم نے ابھی استعمال کیے تھے یا کرنے جا رہی تھیں۔
لیکن وہ تمہیں …….
مائیکل نے پھر سے اس کی بات کاٹ دی وہ کیا کرنا چاہتا تھا؟ کیوں کرنا چاہتا تھا؟ اور کیا ہوا؟ یہ تمام سوالات اب بے معنی ہو چکے ہیں۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ میرا دوست ہاروے ٹام کے ہاتھوں اس کی بندوق کی گولی سے دسیوں لوگوں کے سامنے ہلاک ہوا ہے۔ عدالت کے لیے یہی شواہد کافی ہیں باقی جہاں تک ارادوں اور نیتوں کا سوال ہے اس کا نہ کوئی ثبوت موجود ہے اور نہ ہی کوئی جواز۔ اس لیے میرا خیال ہے اب ان مفروضات کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کی کردار کشی کرنا جو اپنا دفاع نہیں کر سکتاغیر اخلاقی فعل ہے۔
مائیکل کو اس قدر جذباتی حالت میں دیکھ کر کیتھی کی زبان گنگ ہو گئی۔ ہاروے اور مائیکل کے درمیان جو تعلق تھا اس کی گہرائی کا اسے اندازہ ہو رہا تھا۔
مائیکل کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے جذبات کو قابو میں کر کے بولا معاف کرنا کیتھی کچھ رشتے بہت نازک ہوتے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں مائیکل۔ مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا میں معذرت چاہتی ہوں تو کیا اس پروجکٹ کو واقعی بند کر دیا جائے۔
مائیکل ہنس کر بولا نہیں۔ اب تو تمہیں اس کا ہیرو اور اور ہیروئن دونوں مل گئے ہیں تمہیں اس فیچر فلم کا منظر نامہ لکھنا چاہئے اس کے لیے سرمایہ کاری کی سعی میں کروں گا۔
ہیرو اور ہیروئن میں سمجھی نہیں؟ یہ بات کیتھی کے سر کے اوپر سے نکل گئی تھی۔ وہ بولی لگتا ہے مائیکل اب تم بہت اوپر خلاؤں میں نکل گئے ہو۔ میں ایسی اونچی اڑان نہیں بھر سکتی۔
زہے نصیب۔ میرا خیال ہے تمھاری کہانی کا ہیرو ٹام فوبرگ ہے اور ہیروئن ویرونیکا۔ اس فلم کے پہلے سین میں ان دونوں کی شادی ہوتی ہے اور پھر فلیش بیک میں ان کی زندگی جس میں امریکہ سے لے کر عراق تک واقعات اور کولاریڈو سے لے واشنگٹن تک کے حادثات دکھلائے جاتے ہیں۔ بالآخر اپنے پہلے منظر پر آ کر فلم ختم ہو جاتی ہے۔
کیتھی بولی لیکن کیا وہ دونوں اس کے لیے تیار ہو جائیں گے؟
کس کے لیے؟
یہ جو تم نے پہلے اور آخری منظر کے بارے میں کہا……
کون نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی پر فلم بنے اور وہ اس میں مرکزی کردار نبھائے۔
کیتھی نے کہا نہیں میں یہ نہیں کہہ رہی۔
پھر تم کیا کہہ رہی ہو؟
میں یہ کہہ رہی تھی کہ کیا وہ دونوں شادی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
مائیکل نے اپنی عادت کے خلاف ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولا اری بے وقوف ان کو اصلی شادی کرنے کے لیے کون کہہ رہا ہے۔ انھیں تو صرف اداکاری کرنی ہے۔ تم شاید بھول گئیں کہ یہ دستاویزی فلم نہیں بلکہ تفریحی فلم ہے۔
کیتھی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ میں سمجھ گئی تم مجھے اتنا بے وقوف بھی نہ سمجھو۔
پہلے تو نہیں سمجھتا تھا لیکن اب میری رائے بدل رہی ہے۔
کیتھی بولی تم ہو نا؟
مائک نے پوچھا میں کیا؟
کیتھی نے کہا تم بڑے وہ ہو۔
مائیکل نے پھر سوال کیا وہ !وہ کیا ہوتا ہے؟
کیتھی نے کہا وہی جو ہو۔
اور دونوں ہنسنے لگے۔
کیتھی نے پوچھا مائیکل تمہارے خیال میں اس فیچر فلم کے لیے ضروری وسائل مہیا کرنے میں کتنی مدت درکار ہے۔
چونکہ میں اس میدان میں نیا ہوں اس لئے ایک سے دوسال۔
یہ معقول مدت کار ہے۔
مائیکل نے پوچھا کیوں؟
اس لیے کہ میں بھی پہلی مرتبہ کسی فیچر فلم کا منظر نامہ لکھوں گی اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ دوسال سے کم میں مکمل ہو سکے گا۔ اس طرح جب تک میری تیاری تکمیل کے مراحل میں داخل ہو گی میرا خیال تم بھی اپنا کام پورا کر لو گے۔
جی ہاں تم اپنا منظر نامہ مکمل کرنے میں چاہے جتنا وقت لو لیکن اس کا مختصر خلاصہ لکھ کر میرے حوالے کر دینا تاکہ میں اس کی مدد سے اپنا کام کر سکوں۔
کیتھی نے کہا اس کی فکر نہ کرو میں دو ہفتوں کے اندر خلاصہ کا مسودہ تمہارے حوالے کر دوں گی۔
مائیکل بولا بہت شکریہ
……………………………….
وقت کا پہیہ گھومتا رہا کیتھی وقفہ وقفہ سے ویرونیکا اور ٹام سے مل کر اپنا کام آگے بڑھاتی رہی۔ مائیکل بھی ہالی ووڈ کے فلمسازوں اور سرمایہ کاروں کے پیچھے لگا رہا۔ عدالت کی تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی یہاں تک کہ تقریباً ڈھائی سال بعد نہ صرف منظر نامہ مکمل ہو گیا بلکہ ہالی ووڈ کے ایک بڑے ادارے کو مائیکل اپنی فلم میں سرمایہ کاری کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وی ٹو پروڈکشن کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔
اس تیاری کے بعد اب ویرونیکا اور ٹام کو اپنی فلم میں کام کرنے کے لیے تیار کرنے کا مرحلہ تھا۔ کیتھی نے اپنی کہانی کا خلاصہ سنانے کے لیے اتوار کی شام پانچ بجے کا وقت طے کیا اور واشنگٹن جیل کے گرجا گھر سے متصل باغ میں پہنچ گئی۔ کیتھی چاہتی تھی کہ اس منظر نامے کو ویرونیکا کے ساتھ ٹام بھی سنے اور ان دونوں کی رضامندی ایک ساتھ حاصل ہو جائے۔ ڈاکیومنٹری کے بجائے فیچر فلم کے پیش نظر حقیقت کو فسانے کا تڑکا لگا کر مزے دار بنایا گیا تھا۔
ٹام اور ویرونیکا کے لیے یہ ایک منفرد احساس تھا کہ اپنی ہی کہانی کسی غیر کی زبانی سن رہے تھے۔ ان کی اپنی زندگی میں کس قدر پیچ و خم ہیں اس کا احساس انھیں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا اس لیے کہ کبھی اس طرح مرتب انداز میں اپنی زندگی پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں آیا تھا۔ انسان عام طور پر منفرد واقعات پر اپنی توجہات کو مرکوز رکھتا ہے اور دیگر حالات سے کاٹ کر اسے دیکھتا ہے اس لیے ان کے درمیان کا ربط نہیں سمجھ پاتا۔
لوگوں کو عمر رفتہ کی دھندلی تصاویر کے درمیان کو ربط ضبط نظر نہیں آتا۔ خود اپنی زندگی بھی انہیں ایک ادھوری کہانی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب اس طرح کا مکمل خاکہ سامنے آ جائے تو پتہ چلتا ہے حیات ذات کا ہر ہر لمحہ باہم مربوط ہے۔ ہر ذرے میں ایک داستان ہے۔ ہر واقعہ کا ایک پس منظر ہے اور ایک خاص مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ رونما ہوا تھا۔ ہر حادثہ اپنے اندر عبرت و نصیحت کی بے شمار نشانیاں لیے ہوئے تھا جن کو نظر انداز کر کے انسان آگے بڑھ جاتا ہے۔
ٹام اور ویرونیکا نے منظر نامہ کو سنتے ہوئے محسوس کیا کہ ان دونوں کے وہ خواب جو شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے تھے، وہ ارمان جو پورے ہونے سے رہ گئے تھے انھیں تخیل کی مدد سے اس فلم میں شامل کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں نے بلا تکلف اعتراف کر لیا کہ کیتھی کی دروغ گوئی یا مبالغہ آرائی نے کہانی کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن آخری منظر کچھ ایسا تھا کہ اس سے دونوں چونک گئے۔ ان لوگوں نے کہا یہ کیا؟ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ جی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ دونوں اپنے آپ سے کہہ رہے تھے۔
کیتھی نے جب اپنی بات ختم کر کے انھیں رضامندی کے حوالے سے پوچھا تو ویرونیکا فوراً تیار ہو گئی لیکن ٹام نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔ اس نے کیتھی سے کہا آپ نے کہانی تو بڑی دلچسپ لکھی اور یہ ہماری زندگی سے قریب بھی ہے لیکن اس میں ہمارا اداکاری کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیا بہتر نہیں ہے کہ اس پر آپ اگر ہالی ووڈ کے مشہورو معروف اداکاروں کو لے کر فلم بنائیں؟
کیتھی بولی جو لوگ مشہور ہو جاتے ہیں ان کی اپنی ایک شناخت بن جاتی ہے اور وہ کہانی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ایسا ہو۔
ٹام بولا لیکن شائقین کے اندر مشہور اداکاروں کی تئیں ایک زبردست کشش پائی جاتی ہے اس لئے وہ بہ آسانی فلم کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔
کیتھی نے تائید کی اور بولی مگر شائقین بھی معروف اداکاروں کو ان کے مخصوص انداز میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور میں ان چیزوں کا خیال کر کے اپنے منظر نامے کو بدلنا نہیں چاہتی۔ اس صورتحال سے بچنے کی ایک اور صورت یہ ہے کہ نئے اداکاروں کو لیا جائے لیکن چونکہ کہانی آپ لوگوں کی ہے اس لیے آپ کو اداکاری کرنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی اور سب کچھ بڑی آسانی سے ہو جائے گا نیز فطری معلوم ہو گا۔
ٹام نے کہا بظاہر آپ کی بات معقول ہے پھر بھی میں غور کر کے فیصلہ کروں گا۔ وہ جلدی میں کوئی اقدام کر کے بعد میں پچھتانا نہیں چاہتا تھا لیکن ویرونیکا اس سے بے نیاز تھی۔
چرچ کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں کیتھی اجازت لے کر باہر کی جانب بڑھی اور وہ دونوں کلیسا میں داخل ہو گئے۔ ویرونیکا کے لیے ٹام کا رویہ حیرت انگیز تھا۔ اس میں ایسی سوچنے والی کیا بات تھی۔ اب ہونا ہی کیا ہے۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ یہی سب سوچتے ہوئے جب وہ فلم کے آخری منظر پر پہنچی تو سنجیدہ ہو گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ خیال کیتھی کے ذہن میں کہاں سے آ گیا؟ لیکن کچھ دیر کے بعد وہ سوچ رہی تھی کہ یہ خیال اس کے اپنے ذہن میں کیوں نہیں آیا؟
ویرونیکا نے اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہا وہ کیتھی کی مانند ذہین نہیں ہے۔ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ جو بات کیتھی کے ذہن میں آئے اس تک خود ویرونیکا کی رسائی ہو جائے۔ لیکن ٹام! وہ تو اس کی طرح بے وقوف نہیں ہے؟ کیا یہ خیال اس کے ذہن میں بھی نہیں آیا؟ اور اگر آیا ہو تو اس نے ویرونیکا کو اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ اس طرح کے بے شمار سوالات میں کھوئی ہوئی ویرونیکا پادری کے پند و نصائح سے بے نیاز اپنے آپ میں مست تھی۔
ایک ہفتے کے بعد جب وہ دونوں ملے تو ویرونیکا نے سوال کیوں ٹام تم نے کیتھی کی فلم کے بارے میں کچھ سوچا؟
جی ہاں سوچا تو بہت ہے۔
یہ تم نے اچھا کیا ورنہ مجھے تو اندیشہ تھا کہیں تم اس تجویز کو مستردنہ کر دو۔ اس لئے کہ اگر کیتھی تمھارے بجائے کسی اورکو اس کہانی میں شامل کر لے تو میرے لئے مشکل ہو جائے گی۔
تم نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی تھی اس لئے تمھارے لئے کیا مشکل ہے۔
وہ تو ہے لیکن بعد میں نے سوچا کہ میں بھی منع کر دوں۔
تم….تم کیوں منع کرو گی؟ ٹام نے پوچھا۔ یہ تو بدعہدی ہے کہ انسان کسی سے پہلے ہاں کہے اور پھر مکر جائے۔
ا چھا اور یہ کیا ہے کہ انسان کوئی فیصلہ ہی نہ کر پائے؟
یہ تو بس قوتِ فیصلہ کی کمی ہے جو بہت عام ہے۔
ہو سکتا ہے کہ عام ہو لیکن کوئی اچھی بات تو نہیں ہے؟
جی ہاں لیکن وعدہ خلافی جیسی بری بھی نہیں اور ہاں جلد بازی سے اچھی ہی ہے۔
ویرونیکا نے اپنے مطلب کا سوال کیا خیر یہ بتاؤ کہ تم اب بھی کسی نتیجے پر پہنچے یا نہیں؟
نہیں میں نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔
تمھاری مرضی لیکن یہ بتاؤ کہ اس کے کلائمکس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟
جب میں نے اس فلم کی بابت کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا تو ابتدا کیا اور کیا خاتمہ۔
لیکن اس کے آخری منظر کا تعلق اس فلم سے زیادہ ہماری زندگی سے ہے۔
ٹام بولا ہماری زندگی سے؟ وہ تو اک خیال ہے۔
ویرونیکا نے پوچھا لیکن کیا وہ خیال حقیقت نہیں بن سکتا؟
ٹام سوچ میں پڑ گیا۔ اور بولا وہ حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟
اگر ہم دونوں چاہیں تو؟ ؟؟ ویرونیکا کے واضح سوالات میں کوئی ابہام نہیں تھا۔
لیکن ہم لوگ جس حالت میں ہیں …..
اگر ہم وہ فیصلہ نہ کریں تب بھی اسی حالت میں رہیں گے۔ اور ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہونے والا اس پر وہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہو گا۔
ٹام نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا جی ہاں ویرونیکا تم نہایت حقیقت پسند خاتون ہو اس لیے تمھاری بات صد فیصد درست ہے۔
ویرونیکا نے پھر سوال کیا میری اس تجویز پر سوچنے کے لیے تمہیں کتنا وقت چاہئے۔
مجھے کوئی وقت نہیں چاہئے؟
ویرونیکا نے سوال کیا تمھارا کیا فیصلہ ہے؟
وہی جو تمھارا فیصلہ ہے۔
ویرونیکا نے پوچھا تم میرا فیصلہ جانتے ہو؟
ٹام بولا جی ہاں میں جانتا ہوں۔
ویرونیکا کا چہرہ سرخ ہو گیا اس کی نظریں زمین میں گڑ گئیں دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے کہا ٹام مجھے یہ بتاؤ کہ کیتھی کی اُس فلم کے بارے میں تم کب تک فیصلہ کرو گے؟
میں نے اُس کے بارے میں فیصلہ کر لیا ہے کونیکا۔
اچھا ویرونیکا نے خوش ہو کر کہا۔ تمھارا کیا فیصلہ ہے؟
وہی جو تمھارا فیصلہ ہے۔
ویرونیکا نے جانتے بوجھتے سوال کیا تم میرا فیصلہ جانتے ہو؟
جی ہاں میں جانتا ہوں۔
تم نے اچانک یہ فیصلہ کر لیا؟
جی ہاں اب ہمارے فیصلے مشترکہ جو ہوا کریں گے۔
گرجا گھر کی نقرئی گھنٹیاں چہار جانب گونج رہی تھیں۔
ویرونیکا کے قدم ہواؤں میں تھے فضاؤں میں تھے۔
وہ نہ جانے کس جہاں کی سیر کر رہی تھی۔
وہ ایک ایسے جہان میں پہنچ گئی تھی جہاں وہ تھی اور اس کے ساتھ ٹام تھا
ان دونوں کے سوا وہاں کوئی نہیں تھا، کوئی بھی نہیں۔
………………………..
کیتھی اس روز بے حد خوش تھی اس نے مائیکل سے کہا کیا تمہیں پتہ ہے کہ ویرونیکا اور ٹام اپنی فلم میں کام کرنے پر راضی ہو گئے ہیں؟
مجھے کیسے پتہ چل سکتا ہے جبکہ تم نے مجھے یہ بتایا ہی نہیں۔
لیکن ابھی تو بتا دیا نا۔
ابھی بھی بتایا کہاں ہے؟ تم نے توبس سوال کیا ہے۔
کیتھی نے بگڑ کر کہا مائیکل تمہیں اس اطلاع سے کوئی خوشی نہیں ہوئی؟
یہ تم سے کس نے کہا کہ مجھے خوشی نہیں ہوئی؟
نہ تمھارا چہرہ مہرہ اور نہ تمھارا لب و لہجہ۔ کوئی اس بات کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ تم کو اس خبر نے خوش کر دیا ہے۔
کیتھی چونکہ اس بات نے تم خوش ہواس لیے میں بھی خوش ہوں۔ میری سب سے بڑی خوشی تمھاری خوشی ہے۔
سچ مائیکل؟
اس میں کیا شک ہے۔
خوشی سے سرشار کیتھی بولی اس میں کوئی شک نہیں تمھاری یہی باتیں مجھے خوش رکھتی ہیں۔
کیتھی منظر نامہ تو مکمل ہو گیا لیکن تم نے مجھے اس فلم کا نام ابھی تک نہیں بتایا۔
نام……..نام…….؟کیتھی اس سوال پر رک کر سوچنے لگی۔ جی ہاں میں اپنے کام میں اس طرح منہمک ہوئی کہ نام پر غور ہی نہیں کیا۔
تو کیا بے نام فلم بنانے کا ارادہ ہے۔
نہیں بے نام کیوں؟ ہم کوئی اچھا سا نام رکھ دیں گے ہمارے سے پاس وقت ہے۔
ایسا نہیں ہے کیتھی فلمی دنیا نمود و نمائش کا جہاں بے کراں ہے۔ یہاں نام پہلے اور کام بعد میں آتا ہے اس لئے تمھیں چاہئے کہ فوراً کوئی اچھا سا نام تجویز کر کے بتاؤ اس کے بغیر میرے کام میں دقت ہو رہی ہے۔ لوگ وی ٹو کا نام تو جان گئے ہیں لیکن فلم کا نام پوچھ رہے ہیں۔
کیتھی پھر ایک بار سوچ میں پڑ گئی۔ نام ………نام کچھ بھی ہو سکتا ہے مثلاً………وہ پھر رک گئی
مائیکل نے پوچھا مثلاً کیا؟
مثلاً ’’صلیبی سیاست‘‘۔
مائیکل نے بیزاری سے کہا میری جان کیتھی مجھے یہ کتنی بار یاد دلانا پڑے گا کہ یہ دستاویزی نہیں تفریحی فلم ہے۔ سیاسی کھیل تو لوگوں کو ٹیلی ویژن کے پردے پر مفت میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لوگ ڈالر خرچ کر کے یہ سب دیکھنے کے لیے سنیما ہال میں کیوں آئیں گے؟
کیتھی چڑھ کر بولی مائیکل تم کیوں میری حوصلہ شکنی کرنے پر تلے ہوئے ہو پہلے تو نام کے پیچھے پڑ گئے اور پھر جو نام میں نے تجویز کیا اس کا پوسٹ مارٹم کرنے لگے۔
مائیکل کو احساس ہوا کہ بات پھر سے بگڑ رہی ہے وہ بولا دیکھو کیتھی سوال حوصلہ شکنی کا نہیں ضرورت کا ہے۔ ایک کامیاب فلم کے لیے آسان اور پر کشش نام ضروری ہوتا ہے تاکہ شائقین کو نام سے ہی اندازہ ہو جائے کہ اس فلم میں کیا ہے۔
جی ہاں میں جانتی ہوں لیکن تم مجھے سوچنے کا موقع بھی تو نہیں دیتے۔ بس لاٹھی ڈنڈا لے کر ایک دم سے پیچھے پڑ جاتے ہو۔
سوچو بے شک سوچو لیکن جلدی سوچو ویسے اگر اجازت ہو تو میں ایک نام تجویز کروں؟
کیوں نہیں وی ٹو میں ’’ایک میں اور ایک تم ‘‘برابر کے حقدار ہیں۔
شکریہ زہے نصیب، میرے خیال میں اس فلم کا نام ’’آتش صلیب‘‘ ہونا چاہئے۔
آتش صلیب؟ میں کچھ سمجھی نہیں؟
میرا مطلب ہے وہ آگ جو کنگسلے خاندان کو بھسم کر گئی۔
کیتھی یہ سن کر اچھل پڑی۔ بھئی خوب ……….کیا خوب نام تجویز کیا ہے۔ یہی تووہ آگ ہے جو مونیکا کو بھی نگل گئی۔
مائیکل نے تائید کی جی ہاں کیتھی مونیکا ہی کیوں ویرونیکا اور ٹام بھی تو اسی آگ کا شکار ہوئے ہیں۔
کیتھی کی سوچ کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا۔ وہ بولی ٹام ہی کیوں میں تو کہتی ہوں جان ڈیو بھی اسی میں جل رہا ہے بلکہ ہماری پوری قوم اس سے جھلس رہی ہے۔
تو کیا ہم اور تم بھی اس میں شامل ہیں؟
اس میں کیا شک ہے۔ وی ٹو پروڈکشن اسی کے شعلوں سے وجود میں آیا ہے۔ لیکن مجھے تم سے ایک شکایت ہے۔
اچھا ! وہ کیا؟
تم…….یہ نام پہلے ہی بتا دیتے تواس لایعنی بحث میں وقت خراب نہ ہوتا۔
مائیکل بولا پہلے کیسے بتاتا۔ بحث و تکرار نے ہی تو اس نام کو جنم دیا ہے۔
کیتھی بولی چلو اچھا ہوا نام کی رسم بھی ادا ہو گئی لیکن میں تمھیں ایک اہم بات تو بتانا بھول ہی گئی کہ ٹام اور ویرونیکا کی رضامندی مشروط ہے۔
اچھا تو کیا شرط لگا دی اس لیلیٰ مجنوں کی جوڑی نے؟
وہ چاہتے ہیں آخری منظر کو سب سے پہلے فلمایا جائے۔
تو تم نے کیا کہا؟
میری سمجھ میں ان کی شرط نہیں آئی لیکن میں نے سوچا چونکہ فلمبندی میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس منظر کی شوٹنگ پہلے ہو اور کس کی بعد میں۔ اس لیے میں نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ ویسے بھی اصلی کام تو ایڈٹنگ کی میز پر ہو گا۔
مبارک ہو کیتھی جانسن۔ تمھارا یہ فیصلہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ تم منظر نگاری کے علاوہ ہدایتکاری کا شعبہ بھی سنبھال سکتی ہو۔
کیتھی بولی یہ چکنی چپڑی باتیں تم سرمایہ کاروں کے لیے رکھا کرو مجھے ان سے نہ بہلاؤ۔
ٹھیک ہے کوئی بات نہیں لیکن ان کے اصرار کی وجہ میری سمجھ میں آ گئی۔
کیتھی نے کہا بھئی بہت خوب آج کل تم مجھ سے زیادہ سمجھدار ہو گئے ہو۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس حقیقت کا اعتراف تم پہلے بھی کر چکی ہو۔
ہاں ہاں تو مجھے کب انکار ہے لیکن جو کچھ تمھاری سمجھ میں آیا ہے مجھے بھی بتا دو۔
کیتھی تم ایک صحافیہ ہو اور ہمیشہ صحافی ہی رہو گی کبھی افسانہ نویس نہیں بن سکتیں۔ میں نے تمہیں جو جو مشورہ دیا تھا اگر تم اس پر عمل کرتیں تو انھیں یہ شرط لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
تم ان کے بارے میں بتاتے بتاتے میرے اور اپنے بارے میں بتانے لگے۔
جی ہاں معذرت چاہتا ہوں در اصل کہانی میں جو فسانہ ہے اسے وہ حقیقت میں بدل دینا چاہتے ہیں۔
کیتھی نے کچھ دیر سوچا اور بولی سمجھ گئی ……سمجھ گئی لیکن ایسی بھی کیا جلدی ہے؟
میرا خیال ہے کہ وہ ہماری طرح بے وقوف نہیں ہیں بلکہ سمجھدار لوگ ہیں جو اپنا قیمتی وقت برباد کرنا نہیں کرنا چاہتے۔
ان کی سمجھداری تو میری سمجھ میں آ گئی لیکن ہماری بے وقوفی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟
بات صاف ہے کیتھی جو وقت ضائع نہیں کرتا ہے اگر وہ عقلمند ہے تو جو وقت ضائع کرے وہ بیوقوف نہیں تو اور کیا ہے؟
اوہو میں ابھی سمجھی لیکن پھر بھی میں وہی کہوں گی…..
کیا کہو گی؟
ایسی بھی کیا جلدی ہے؟
اس کے جواب میں میں بھی ………
کیتھی نے جملہ کاٹ دیا تم کچھ نہیں کہو گے۔
مائیکل بولاگستاخی معاف۔
کیتھی مسکرا کر بولی کوئی بات نہیں۔
٭٭٭
۳۹
کولاریڈو میں واقع قدیم کلیسا کسی زمانے میں مقامی باشندوں یعنی ریڈ انڈینس کا قلعہ تھا۔ جب ان کا پوری طرح قلع قمع ہو گیا تواس عمارت کو چرچ بنا دیا گیا۔ اس قلعہ کا وسطی حصہ ایک کھلا میدان تھا جو دائرہ نما پتھر کی دو منزلہ عمارت سے گھرا ہوا تھا۔ اس کے ایک بڑے سے ہال کو عبادت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا باقی کمروں میں سے کچھ انتظامی دفاتر اور گرجا گھر میں کام کرنے والے پادریوں اور راہباؤں کی رہائش گاہیں تھیں۔
عمارت کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی کہ باہر کی جانب کوئی کھڑکی تھی نہ جھروکا تھا۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا کہ گویا ایک پہاڑی ٹیلہ ہے لیکن اندر میدان کی طرف ہر کمرے سے کم از ایک کھڑکی اور ایک گیلری کھلتی تھی جس میں کھڑے ہو میدان کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ فادر جوزف اسی گرجا گھر میں کارڈینل کے فرائض انجام دیتے تھے۔
مائیکل نے فادر جوزف سے ملاقات کر کے ان کے سامنے ایک منفرد تجویز رکھی۔ اس نے بتایا کہ وہ اس گرجا گھر میں شادی کی ایک تقریب کا انعقاد کر کے اس کی شوٹنگ کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے اپنی فلم میں شامل کر سکے۔
فادر جوزف نے اسے سمجھایا کہ یہ عبادت گاہ ہے کوئی کھیل تماشے کی جگہ نہیں ہے۔ اس کا اپنا تقدس ہے اور ہم اسے پامال نہیں کر سکتے۔ انھوں نے مائیکل کو مشورہ دیا کہ تم ہالی ووڈ کے کسی اسٹوڈیو میں سیٹ لگا کر اپنی فلم کی شوٹنگ کرو میری نیک خواہشات تمھارے ساتھ ہیں۔
فادر گستاخی معاف کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟
ایک نہیں تم چا ہو تودس سوال کر سکتے ہو۔ مجھے تمھارے استفسار کا کوئی شکوہ ہے نا گلہ تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو بلا تکلف پوچھو؟
کیا چرچ میں نکاح کی رسم نہیں ادا کی جاتی؟
کیوں نہیں، چرچ کے اندر نکاح ہوتے ہیں۔
تو کیا چرچ میں جو نکاح ہوتے ان کی ویڈیو شوٹنگ نہیں ہوتی؟
کیوں نہیں ہوتی؟ بالکل ہوتی ہے آج کل تو یہ وبا اس قدر عام ہو گئی ہے کہ ہر خوشی اور غم کے موقع پر کچھ اور ہو یا نہ ہو ویڈیو شوٹنگ ضرور ہوتی ہے۔
کیا اس سے عبادتگاہ کا تقدس پامال ہو جاتا ہے؟
تم سے یہ کس نے کہا کہ ویڈیو شوٹنگ سے یہاں کا تقدس پامال ہوتا ہے اگر ایسا ہوتا تو ہم کسی کو اجازت ہی نہ دیتے لیکن تم تو دیکھتے ہی ہو گے کہ یہ ہماری توثیق سے ہوتا ہے۔
مائیکل نے کہا اگر ایسا ہے تو آپ نے میری تجویز کو کیوں مسترد کر دیا میں نے بھی صرف نکاح کی ایک تقریب منعقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی جس کی فلمبندی ہو گی۔
فا در جوزف نے کہا بیٹے مائیکل اعتراض نہ ہی نکاح پر ہے اور نہ جھگڑا شوٹنگ سے ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ خدا کے اس گھر میں سب کچھ اصلی ہوتا ہے ڈرامہ بازی نہیں ہوتی۔ یہاں لوگ خداوند کو گواہ بنا کر ایک دوسرے سے حقیقی رشتۂ ازدواج قائم کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا حصہ ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں۔ یہ رشتے تو جنت میں بنتے ہیں یہاں تو صرف رسمی ایجاب و قبول ہوتی ہے لیکن یہی عہد کی پابندی زن و شو کو جنت کا مستحق بناتی ہے نسلِ انسانی کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ دو اجنبی روحوں کو لازوال محبت کی شراب سے ایک جان دو قالب بنا دیتی ہے۔ موقع غنیمت جان کر فادر جوزف نے مائیکل کو پوری تقریر سنا دی۔
مائیکل ان کی نصیحت کو سننے کے بعد نہایت سعادتمندی سے بولا لیکن فادر آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ شادی نقلی ہے؟
اس میں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ فلمی پردے پر جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کا سب خیالی ہی تو ہوتا ہے۔ جب تم نے کہا اسے تم اپنی فلم میں شامل کرو گے تو میں نے اپنے آپ یہ سمجھ لیا۔
جی ہاں آپ کا گمان درست ہے لیکن جو لوگ فلموں میں کام کرتے ہیں وہ مشینی روبوٹ نہیں ہوتے وہ حقیقی انسان ہوتے ہیں۔ ہم آپ جیسے گوشت پوست والی ذی روح مخلوق۔ ان کی اپنی زندگی ہوتی ہے، جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ رشتے ناطے ہوتے ہیں۔ وہ سب ہوتا جو کسی عام انسان کے پاس ہوتا ہے۔
جی ہاں ہوتا ہے فادر نے تائید کی لیکن وہ سب پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔ کیمرے کے سامنے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ جب وہ کیمرے کے سامنے کسی کردار کی شکل میں آتے ہیں تو وہ نہیں ہوتے جو اپنی اصلی زندگی میں ہوتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو کہانی میں ہوتے ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے فادر؟
جی ہاں یہی ہوتا ہے۔ اداکاروں کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے ایک پردے کے پیچھے اور دوسری کیمرے کے آگے۔ جو کیمرے کے پیچھے ہے اس کا گرجا گھر میں تہہ دل سے استقبال ہے اور جو پردے کے اوپر ہے اس کے لیے اس عبادت گاہ کے دروازے بند ہیں۔
اس تفریق و امتیاز کی کوئی ٹھوس وجہ ہے یا بس یونہی؟
اس کاسبب یہ ہے کیمرے کے سامنے وہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ محض ایک خیال ہوتا ہے جسے کچھ لوگ اپنی جیب بھرنے کے لیے اور دوسروں کی جیب خالی کرنے کے لیے گھڑتے ہیں۔
مائیکل کو فادر کی باتوں میں مزہ آ رہا تھا وہ بولا لیکن فادر کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جن کی جیب خالی کرنا مقصود ہو وہ بھری رہے اور جو خالی کرنا چاہتا ہو اس کی اپنی جیب خالی ہو جائے۔
کیوں نہیں ہوتا ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ہوتا ہے لیکن نیت تو یہ نہیں ہوتی۔ تم تو جانتے ہی ہو اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
لیکن ہماری نیت تو صاف ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس شادی کے دولہا دولہن ادا کاری نہیں کریں گے بلکہ یہ ان کی اصلی شادی ہو گی۔ اور وہ جس کہانی پر کام کریں گے وہ ان کی اپنی زندگی کی کہانی ہے۔ جو کردار نبھائیں گے وہ ان کا اپنا کردار ہے یہ سب خیالی نہیں حقیقی ہے۔
اچھا تو کیا تمھارے ہیرو اور ہیروئن میاں بیوی ہیں؟
مائیکل ہنس کر بولا اگر ایسا ہو تو یہ فلمبندی ایک ڈرامہ بن جائے اس لیے کہ جن کی شادی ہو چکی ہے ان کو دوبارہ شادی کرتے ہوئے دکھانا ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے اور جیسا کے آپ نے کہا ایسا کرنے کے لیے ہمیں گرجا گھر میں آنے کے بجائے کسی اسٹوڈیو میں جانا چاہئے۔ اس بار مائیکل نے فادر جوزف کو اپنی منطق کے دام میں گرفتار کر لیا تھا۔
میں تمھاری بات نہیں سمجھا یہ کہانی نہیں حقیقت ہے وہ دونوں افراد اصلی ہیں اور ان کے درمیان رشتۂ ازدواج بھی نہیں ہے۔ یہ سب کنفیوژ کرنے والی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
جی نہیں میرا مطلب ہے ہر فرد نکاح سے پہلے ایک دوسرے کا نامحرم ہوتا ہے اور فی الحال ان کے درمیان یہی تعلق ہے لیکن جب آپ ان کا نکاح پڑھا دیں گے تو وہ ایک دوسرے کی زوج بلکہ وہ سب ہو جائیں گے جس کا ذکر آپ نے ابھی کچھ دیر پہلے کیا تھا۔
فادر جوزف کے سارے دلائل دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ وہ بولے اگر واقعی ایسا ہے ہمیں بڑی خوشی ہو گی۔ تمھاری گفتگو سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ تمہارا اپنا نکاح ہے میں تمہیں اس کی پیشگی مبارکباد دیتا ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تمھاری ہونے والی بیوی کو بھی یہ منظور ہے کہ اس کے نکاح کی شوٹنگ ہو اور کسی تفریحی فلم میں اسے شامل کیا جائے یا تم اسے اندھیرے میں رکھ کر یہ سب کر رہے ہو؟
فادر جوزف کی قیاس آرائی سے مائیکل سٹپٹا گیا۔ جی نہیں فادر آپ کو پھر غلط فہمی ہو گئی۔
اس بار فادر چونک پڑے۔ وہ بولے تم کہنا کیا چاہتے ہو یہ ساری بحث فضول تھی وہ سارے دلائل بے بنیاد تھے جو تم نے ابھی دئیے تھے اگر ایسا ہے تو تم جاؤ ہالی ووڈ میں اپنا کام کرو میرا وقت خراب نہ کرو میرے پاس اور بھی کام ہیں۔
جی ہاں فادر مجھے پتہ ہے کہ آپ کے پاس بہت سارے کام ہیں لیکن میں نے آپ سے یہ کب کہا کہ یہ میری اپنی شادی کی بات ہے۔ میں نے تو صرف یہ کہا کہ ……..
فادر جوزف بیچ میں بول پڑے جی ہاں تم گھما پھرا کر وہی بات کہتے ہو اب میں اس سے بیزار ہو گیا ہوں اب مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر تمہیں اصرار ہی ہے تو کسی اور گرجا گھر میں جا کر اپنی قسمت آزماؤ ہو سکتا ہے کوئی سیدھا سادہ بشپ تمھارے جھانسے میں آ جائے لیکن مجھے اس گناہ سے معاف رکھو۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
اپنی ساری کوشش پر یکلخت پانی پھرتا دیکھ کر مائیکل گھبرا گیا۔ وہ بولا فادر آپ دو منٹ میری بات سکون کے ساتھ سنیں اور اس کے بعد جو بھی فیصلہ فرمائیں وہ میرے سر آنکھوں پر ہو گا میں دو منٹ سے زیادہ آپ کا وقت نہیں لوں گا پلیز۔
فادر پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ آخری بات ہے، اس کے بعد کوئی بحث و مباحثہ نہیں۔
جی ہاں سر در اصل ہم لوگ ٹام اور ویرونیکا نامی دو لوگوں کی زندگی پر ایک فلم بنانے جا رہے ہیں۔ جو شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ان کی تقریبِ نکاح کو شوٹ کر کے اپنی فلم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا اس پر آپ کو کوئی اعتراض ہے۔
فادر جوزف کی سمجھ میں سارا معاملہ آ گیا انھوں نے مسکرا کر کہا کہیں یہ دھوکہ تو نہیں ہے کہ پہلے دن شادی اور دوسرے دن طلاق ویسے بھی فلمی لوگوں کا کیا اعتبار؟
مائیکل نے بتایا کہ وہ اس طرح کی پیشہ ور فلمی ہستیاں نہیں ہیں جیسا کہ آپ سمجھتے ہیں۔ اس عیسائی جوڑے نے جو پہلی مرتبہ کسی فلمی پردے پر آئے گا از خود بیاہ رچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم تو صرف شوٹنگ کر کے اسے اپنی فلم میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری خواہش یہ ہے کہ تقریب اندر ہال کے بجائے باہر میدان میں ہو۔
فادر بولے اندر باہر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ویسے یہ میدان گرجا گھر کے احاطے میں ہی تو ہے۔ لیکن پھر بھی میں ایک بار اس جوڑے سے ملاقات کر کے اطمینان کرنا چاہتا ہوں۔
اس میں کوئی دقت نہیں سوائے اس کے کہ آپ کو جیل جانا پڑے گا؟
فادر جوزف ہنس کر بولے مجھے یقین تھا کہ اگر میں تمھارے چکر میں پڑ گیا تو تم مجھے جیل کی ہوا کھلا کر رہو گے۔
جی نہیں، ایسی بات نہیں در اصل وہ دونوں فی الحال واشنگٹن کی سینٹرل جیل میں ہیں۔ ہم انھیں پیرول پر یہاں لائیں گے اور ان کی شادی ہو گی۔
فادر نے کہا تو کیا تم کو واشنگٹن میں اس کام کے لیے کوئی چرچ نہیں ملا؟
مائیکل نے ہنس کر کہا جناب واشنگٹن میں چرچ تو بہت ہیں لیکن ان میں سے کسی میں فادر جوزف نہیں ہے۔ اس لئے ……
فادر نے کہا مائیکل تم بہت چرب زبان اور ضدی انسان ہو۔ تم ایسا کرو کہ ان دونوں کے نام اور قیدی نمبر مجھے لکھ کر دے دو میں واشنگٹن جیل کے اندر موجود گرجا گھر کے پادری سے تحقیق کروا کے اطمینان کر لوں گا۔
ویرونیکا اور ٹام فوبرگ کی تفصیل فادر جوزف کو دیتے ہوئے مائیکل بولا فادر اب بھی آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔
جی نہیں ایسی بات نہیں در اصل فلمی لوگوں سے احتیاط ضروری ہوتا ہے بس اتنی سی بات ہے ورنہ تم مجھے نیک دل انسان لگتے ہو۔ مائیکل سمجھ گیا وہ سبھی سے یہی کہتے ہوں گے۔ ان کو سبھی لوگ نیک لگتے ہوں گے اور کوئی بد نہیں لگتا ہو گا۔ لیکن پھر بھی شکریہ ادا کر کے جانے لگا تو فادر نے نام پڑھتے ہوئے کہا یہ کون؟؟؟ ٹام فوبرگ جس نے ہاروے ….
جی ہاں وہی ٹام۔ مائیکل نے سوچا اب ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی اس تیز مزاج فادر کو سمجھانا کہ ٹام قاتل نہیں ہے تقریباً ناممکن ہے۔
میں تو اسے جانتا ہوں۔
جی ہاں وہ بھی آپ کو جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کا نکاح آپ کے دستِ مبارک سے ہو بلکہ یہاں نکاح کرنے پر اسی کا اصرار ہے۔ وہ آپ کا بہت بڑا عقیدتمند ہے اس لئے اسے آپ کی موجودگی سے بہت خوشی ہو گی۔ مائیکل بے تکان جھوٹ بول رہا تھا۔
مجھے بھی خوشی ہو گی۔ ٹام فوبرگ مجھے نیک لگتا ہے۔ مائیکل کو اپنے متعلق ان کی رائے یاد آ گئی۔ فادر جوزف کا بیان جاری تھا وہ ڈرامہ باز نوجوان نہیں ہے اور میرے ساتھ ایسا بھونڈا مذاق نہیں کر سکتا۔ تم اگر پہلے ہی اس کا نام بتا دیتے تو اس بحث کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
کنگسلے خاندان سے فادر جوزف کی قربت کا مائیکل کو علم تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ اگر فادر جوزف کو پتہ چل جائے کہ نوشہ ہاروے کا قاتل ہے تو وہ صاف انکار کر دیں گے لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ فادر جوزف ٹام کے گرویدہ نکل آئے۔
مائیکل کو اپنے فلمی پیشے کی مشکلات کا اندازہ ہونے لگا تھا اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا تھا کہ فلمی لوگوں پر نہ اندر والے اعتبار کرتے ہیں نہ باہر والے۔ اس کی وجہ بھی مائیکل کو سمجھ میں آ گئی تھی۔ جس ڈھٹائی اور اعتماد کے ساتھ اس نے فادر جوزف کو ٹام فوبرگ کے بارے میں جھوٹ بولا تھا ایسا اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا اور شاید یہ بھی اس کی نئی پیشہ ورانہ ضرورت تھی۔
مائیکل نے جب کیتھی کو اپنا کارنامہ سنایا تو اس نے کہا مجھے یہ فادر جوزف کچھ احمق قسم کے انسان لگتے ہیں۔
کیا غضب کرتی ہو کیتھی کولاریڈو کے معزز ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
جی ہاں میرا بھی ان کے بارے میں یہی خیال تھا لیکن تم نے ابھی جس گفتگو کا ذکر کیا اس سے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گئی ہوں۔
کیوں ایسی کون سی بات کہہ دی اس فادر جوزف نے؟ ویسے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جس سادہ لوحی کو تم حماقت پر قیاس کر رہی ہو وہ ہمارے لیے مفید ہے۔ تم نے دیکھا انھوں نے ٹام فوبرگ کو پہچاننے کے باوجود…….
کیتھی نے کہا جی ہاں لیکن مجھے تعجب ہے کہ انھوں یہ سمجھ لیا کہ یہ ہمارا اپنا نکاح ہے۔ اب بھلا کوئی اپنی شادی کی شوٹنگ کر کے اسے اپنی ہی فلم میں شامل کر سکتا ہے؟
مائیکل بولا لیکن اس میں کیا حرج ہے؟ جیسے کسی اور شادی ویسے اپنی۔ اگر ٹام اور ویرونیکا کی تقریبِ نکاح ہماری فلم کا حصہ بن سکتی ہے تو ہماری اپنی کیوں نہیں؟
کیتھی بولی کیسی باتیں کر رہے ہو مائیکل وہ تو ہماری فلم کے ہیرو ہیروئن ہیں۔
جی ہاں لیکن ہم نے فادر کو کب بتایا کہ ہماری فلم کے اداکار کون لوگ ہیں؟ انھوں نے سوچا ہو گا ممکن ہے ہم خود اس میں اداکاری کر رہے ہوں؟
کیتھی نے قہقہہ لگا کر کہا ہم خود! اب تو میں یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ فادر جوزف کے دماغ میں فتور ہے۔ اگر ہم لوگ کام کریں گے تو اس فلم کو دیکھے گا کون؟
ارے بھئی کیتھی تم ہالی ووڈ کے بارے میں نہیں جانتیں۔ وہاں کئی ایسی فلمیں بھی کامیاب ہو جاتی ہیں جس کا اہم ترین کردار نہایت بدصورت ہوتا ہے۔
کیتھی کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ بولی مائیکل تم نے مجھے بد صورت کہا؟
مائیکل کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا تمہیں …. جی نہیں کیتھی میں بھلا یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں میں تو اپنے بارے میں کہہ رہا تھا اس لیے کہ میری اور تمھاری میرا مطلب ہم دونوں کی شادی کی بات ہو رہی تھی اور فادر کے سامنے تو میں تھا تم کہاں تھیں؟
ہاں ہاں میں جانتی ہوں فلم میں مرد کا خوبرو ہونا ضروری نہیں ہے در اصل تم نے مجھے بدصورت کہا ہے اور میں ابھی سے میرا مطلب ہے شادی سے پہلے ہی تمہیں بدصورت لگنے لگی ہوں تو آگے کیا ہو گا؟ بتاؤ آگے کیا ہو گا؟
مائیکل نے سوچا اب ایک اور مصیبت کھڑی ہو گئی اگر کیتھی کے خیال میں فادر احمق ہے تو اس کے خیال میں کیتھی مہا بے وقوف ہے خیر اس نے کہا کیتھی در اصل وہ فادر کی ایک غلط فہمی تھی لیکن اس سے میرے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا آیا ہے۔
کیتھی بولی وہ کیا؟ فلم کے ہیرو ہیروئن بدل دیئے جائیں؟
جی نہیں چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اس فلم کو دیکھیں اس لیے ہم ایسا نہیں کر سکتے۔
کیتھی اکھڑ کر بولی مائیکل تم پھر سے وہی بات کہہ رہے ہو۔
جی نہیں کیتھی یہ تو تمھارا جواب تھا جو میں دوہرا رہا ہوں لیکن میری تجویز کچھ اور ہے۔
کیتھی نے پوچھا اچھا تو وہ کیا ہے؟
مائیکل بولا دیکھو اس شادی میں دولہا دلہن اصلی ہیں۔ گرجا گھر اور فادر بھی حقیقی ہیں لیکن مہمان نقلی کچھ مزہ نہیں آئے گا۔
کیتھی نے کہا لیکن ہمارے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے ویرونیکا کو یہاں کوئی جانتا نہیں ہے اور ٹام فوبرگ کو لوگ ہاروے کے قاتل کی حیثیت سے جانتے ہیں اس لیے اس تقریب میں تو لوگ آنے سے رہے؟
درست !ان کی نہیں مگر ہماری شادی میں تو آ سکتے ہیں۔
کیتھی نے سوال کیا؟؟؟تمھارا مطلب میں نہیں سمجھی؟
مطلب یہ کہ ہم اگر اسی موقع پر اپنا بھی نکاح کر لیں تب تو سارے مہمان بھی اصلی ہو جائیں گے اور تقریب بالکل فطری ہو جائے گی۔ ویسے بھی سارے انتظامات اپنے ہی خرچ سے ہو رہے۔ دوسری بار کا خرچ بچ جائے گا۔
کیتھی بولی تو کیا اپنی شادی کو بھی فلمایا جائے گا؟
کیوں نہیں لیکن اسے فلم میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
یہ کیوں کر ممکن ہے؟
اگر دو علحٰدہ اسٹیج بنائے جائیں اور دونوں کی الگ الگ شوٹنگ ہو۔ ایک اپنی فلم کے لیے اور ایک اپنے لیے۔ تو یہ ممکن ہے اور پھر جیسا کہ تم نے کہا اصلی کام تو ایڈٹنگ ٹیبل….
کیتھی بولی ہاروے نے صحیح کہا تھا تم واقعی بہت کنجوس آدمی ہو۔
مائیکل نے پوچھا کیوں؟
اس لیے تم اپنی شادی بھی کمپنی کے خرچ پر کر رہے ہو اور بارات میں آنے والوں کا استعمال اکسٹرا کے طور پر کر کے اپنے پیسے بچا رہے ہو۔
مائیکل بولا یہ تو اندر کی بات ہے لیکن یقین کرو جب وہ لوگ فلمی پردے پر اپنے آپ کو دیکھیں گے تو ہمارا شکریہ ادا کریں گے۔ یقین جانو یہ فلم اور یہ شادی دونوں یادگار ہوں گی اور فلم چلے نہ چلے شادی تو سپر ہٹ ہو گی ہی ہو گی۔
کیتھی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ بولی اب بس بھی کرو اپنی کنجوسی کی تعریف و توصیف۔
٭٭٭
۴۰
شادی اور شوٹنگ کے لیے قدیم کلیسا کی آرائش اور زیبائش کا کام زوروں پر تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا چرچ کو دلہن بنا دیا جائے گا۔ اس بیچ ایک اور خبر سے گرجا گھر کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ کوئی عارضی مسرت نہیں بلکہ پائیدار خوشخبری تھی۔ ڈائنا کنگسلے روم کے ویٹیکن شہر سے راہبہ کی تعلیم و تربیت کا کورس مکمل کر کے کولاریڈو کے مرکزی چرچ میں تشریف لے آئی تھیں۔
ایک طویل عرصے کے بعد یہ ہوا تھا کہ امریکہ کی کسی خوشحال اور بارسوخ خاندان کی معزز خاتون کا اس ذمہ داری پر تقرر ہوا تھا ورنہ تو یہ ہوتا کہ جنوبی افریقہ کی غریب خواتین یا ہندوستان و مشرق بعید کا مسکین طبقہ ہی اس مقدس فرض منصبی کی جانب راغب ہوتا تھا۔
ڈائنا کنگسلے کا تعلق کولاریڈو کے سب معزز خانوادے سے تھا۔ ڈائنا جب اپنے بھائی ہاروے کی موت کے بعد بیمار ہوئی تو فادر جوزف اس سے ملاقات کی غرض سے اسپتال گئے۔ حزن و ملال کا پیکر ڈائنا ایک قلیل عرصے میں شفیق باپ، عزیز بھائی اور خلیق دوست سے محروم ہو گئی تھی۔ ڈائنا کی حالت زار دیکھ کر فادر جوزف کو یقین ہو گیا کہ اب یہ لڑکی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پائے گی۔
فادر جوزف کی حیثیت ڈائنا کے سرپرست کی سی تھی۔ وہ بچپن سے اسے دیکھتے آئے تھے۔ ڈائنا جیسی فرشتہ صفت دوشیزہ ان کی نظروں سے نہیں گزری تھی۔ فادر جوزف کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب اس کی پیدائش کے بعد ولیم کنگسلے نے چرچ میں خصوصی عبادت کا اہتمام کروایا تھا۔ شہر کی ساری جانی مانی ہستیاں اس موقع پر موجود تھیں۔ تقریب کے آخر میں ولیم کنگسلے نے سارے مجمع کو گواہ بنا کر کہا تھا فادر یہ بیٹی جیسی میری ہے ویسے ہی آپ کی بھی ہے۔ میری غیر موجودگی میں اس کے سرپرست آپ ہی ہیں۔
فادر نے جواب دیا تھا کہ ولیم تم تو عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہو۔ اس ننھی سی گڑیا کے سر پر تمھارا سایہ صدا بہار رہے۔ میں تم دونوں کے لیے دعا کرتا ہوں۔
ولیم نے جواب دیا تھا فادر موت کا فرشتہ عمر دیکھ کر نہیں آتا وہ تو وقت دیکھ کر آتا ہے۔
ولیم کے الفاظ فادر کو اس وقت بھی یاد آئے تھے جب اسے واشنگٹن میں قتل کر دیا گیا اور اس وقت بھی جب ہاروے کا یہیں کولاریڈو میں قتل ہو گیا۔ بہت کچھ سوچ بچار کے بعد جب فادر کو محسوس ہوا کہ ڈائنا اپنے آپ کو سنبھال نہیں پائے گی۔ وہ ٹوٹ جائے گی تو انھوں نے اسے روم کے سب سے بڑے معبد میں جا کر دین کی خاطر زندگی وقف کر دینے کا مشورہ دیا۔
ڈائنا کا دل اس دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا اس نے فادر جوزف کی رائے سے اتفاق کر لیا اور ویٹیکن روانہ ہو گئی۔ وہاں پر تیزی کے ساتھ اپنے تعلیمی سلسلے کو مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے شہر میں جا کر چرچ کی خدمت کرنے کی خواہش کا ا ظہار کیا۔ روم کے ارباب حل و عقد نے ڈائنا کی تجویز کا احترام کرتے ہوئے اسے راہبہ کے درجے پر فائز کر کے کولاریڈو روانہ کر دیا۔
ڈائنا کی آمد نے کولاریڈو گرجا گھر میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی تھی۔ اس قدیم گرجا گھر سے ڈائنا کی بے شمار یادیں وابستہ تھیں۔ آج ایک راہبہ کی حیثیت یہ اس کا دوسرا دن تھا۔ ڈائنا اپنے کمرے کے جھروکے سے میدان کی گہما گہمی کا نظارہ کر رہی تھی۔ چہار جانب خوشی اور انبساط کا دور دورہ تھا۔
ڈائنا نے اپنے بائیں جانب اسٹیج پر دیکھا تو مائیکل اپنی بیگم کیتھی کے ہمراہ کھڑا تھا اور دائیں جانب ٹام اپنی دلہن ویرونیکا کے ساتھ تھا۔ درمیان میں شہر کے جانے پہچانے معززین موجود تھے لیکن ڈائنا کے لئے یہ سارے اجنبی چہرے تھے۔
سب سے الگ تھلگ راہبہ کے لیے نہ صرف چہرے بلکہ مناظر بھی اجنبی ہو گئے تھے۔ اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے دنیا سے اور دنیا والوں اپنا رشتہ توڑ لیا تھا۔
ڈائنا کی کیفیت یوں تھی کہ گویا وہ نہیں جانتی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
اس کے سامنے یہ کون لوگ ہیں؟ وہ کسی کو نہیں جانتی؟ نہ مائیکل کو اور نہ ٹام کو۔
ویسے مائیکل اور ٹام بھی نہیں جانتے تھے ڈائنا انھیں دیکھ رہی ہے۔
سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور کوئی کسی کو نہیں دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭
دنیا
میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں
اس لیے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوش گوار، تر و تازہ و شاداب ہے
نفسانی خواہشیں اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی جلد میسر آ جانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور
اپنی تھوڑی سی (آرائشوں ) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔
وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی۔
اور دھوکے اور فریب سے نبی سنوری ہوئی ہے۔
نہ اس کی مسرتیں دیر پا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے۔
وہ دھوکے باز، نقصان رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے،
ختم ہونے والی، اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔
جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور
خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوؤں تک پہنچ جاتی ہے۔
تو بس وہی ہوتا ہے، جو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے بیان کیا ہے
(اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے )
"جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا،
تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا
اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا
جسے ہوائیں (ادھر سے ادھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(نہج البلاغہ)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں ے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید