فہرست مضامین
- آٹھ رکعت تراویح
- عرضِ مترجم
- قال البیہقی بعد مااخرج ’’و ثعلبہ ابن ابی مالک قد راء ی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مازعم اہل العلم باالتواریخ انتھی۔وقال الذھبی فی تجرید اسماء الصحابۃ ’’ثعلبۃ بن ابی مالک ابو الحئی القرظی امام بن قریظہ ولہ فی عھدا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم ولہ رؤیۃ و طال عمرہ انتھیٰ‘‘ وقال فی التھذیب لہ رؤیۃ رویٰ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘الخ۔
- اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔ (النجم:28)
آٹھ رکعت تراویح
تالیف : شیخ العرب و العجم ابو محمد سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ
مترجم : الشیخ عبد الواحد سیال آبادی۔ (مدرس جامعہ دار الحدیث رحمانیہ کراچی)
تصحیح و نظر ثانی : الشیخ عبد اللطیف اختر۔(مدرس جامعہ دار الحدیث رحمانیہ کراچی)
عرضِ مترجم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد!
فاعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم
اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی بات مانو اور اپنے عملوں کو برباد نہ کرو۔
زیر نظر کتاب ’’الوسیق فی جواب الوثیق‘‘ شیخ العرب و العجم ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اﷲ علیہ کی تصنیف ہے۔ شاہ صاحب رحمہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے دینی علم میں مہارت عطا فرمائی تھی۔ شاہ صاحب کو قرآن و حدیث، فقہ، فلسفہ، منطق اور بلاغت پر عبور حاصل تھا۔ خصوصاً موصوف علم اسماء الرجال کے حافظ تھے۔ آپ نے سالہا سال حرم میں درسِ قرآن دیا۔ بڑے بڑے شیوخ کا آپ کے تلامذہ میں شمارہ ہوتا ہے۔ آپ نے بیشمار کتابیں لکھیں جن میں سے آپ کی اہم ترین تصنیف کلام مقدس کی تفسیر بنام بدیع التفاسیر قابل ذکر ہے۔ سندھی زبان سے واقفیت رکھنے والے صاحب علم لوگ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ آج تک ایسی تفسیر نہیں لکھی گئی۔
آپ ہر دور میں باطل کے خلاف برسرپیکار رہے، باطل کا قلم اور زبان کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو فن خطابت سے بھی نوازا ہوا تھا، آپ بے مثال خطیب تھے۔
زیرِ نظر کتاب جو مولوی میر محمد کوری کے رسالہ ’’الوثیق للاحناف‘‘ جس میں اس نے بیس رکعات تراویح کو مسنون اور صحابہ و تابعین کا معمول ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کا جواب ہے شاہ صاحب مرحوم نے جس احسن انداز اور عمدہ ترتیب اور مدلل طریقے سے جواب تحریر کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے جس کے پڑھنے سے قارئین کو آٹھ اور بیس کے مسئلے کے بارے میں صحیح فیصلے تک پہنچنے میں آسانی رہے گی کتاب انتہائی مفید اور ایک عظیم علمی ذخیرہ ہے لیکن سندھی زبان میں لکھے جانے کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد اس سے استفادہ سے محروم تھی اس لئے عام لوگوں کے استفادہ کی خاطر کتاب کا اردو زبان میں آسان اور عام فہم ترجمہ کر دیا گیا ہے تاکہ عام لوگ شیخ العرب و العجم کے علمی استفادہ سے فیض یاب ہوسکیں اور یہ کتاب زیادہ سے زیادہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ بن سکے۔
کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے ترجمہ کو آسان اور عام فہم بنانے کی انتہائی کوشش کی گئی تاہم اگر کہیں کوئی خامی رہ گئی ہو تو قارئین سے توجہ دلانے کی درخواست ہے۔
قارئین سے التماس ہے کہ مؤلف کی مغفرت کے لئے دعا گو رہیں کہ اﷲ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو نیکی کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور قارئین سے درخواست ہے کہ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس نیک کام میں ہمیں ثابت قدمی عطا فرمائے۔
بھائی عمر فاروق ہنگورو جو کہ شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے اس نیک کام میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس دینی بھائی کی اشاعتی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے آخرت کا ذخیرہ بنا دے آمین۔
و صلی اﷲ علی محمد و آلہ واصحابہ اجمعین
والسلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
کتبہ العبد الفقیر
عبد الواحد سیال آبادی
مدرس جامعہ دار الحدیث رحمانیہ سولجر بازار کراچی
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اﷲ لقد جاء ت رسل ربنا بالحق و نشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ و نشھد ان سیدنا محمدا ًعبدہ ورسولہ ۔اللہم صل علی محمد وآلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔ اما بعد:
مسلمانوں میں تراویح کی رکعات میں اختلاف کو دیکھتے ہوئے ایک اشتہار کی شکل میں ایک پرچہ بنام ’’آٹھ رکعات تراویح‘‘ شائع کیا گیا جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین احادیث اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا ایک اثر ترجمے کے ساتھ ذکر کیا گیا وہ اشتہار ھالا کے ایک مولوی میر محمد کوری صاحب کے ہاتھ لگا جس نے اس کے جواب میں ’’توثیق الاحناف‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں راہ ِ انصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سراسر اعتساف اور حق کی مخالفت کی گئی۔ جس کو دیکھنے سے احناف کی توثیق کے بجائے ان کی تضعیف اور توہین نظر آتی ہے چونکہ مولانا موصوف نے جگہ جگہ مختلف مغالطوں سے کام لیا ہے اس لئے اس کی تردید کے لئے چند اوراق کی تسوید کو ضروری سمجھا۔یہ رسالہ بنام ’’الوسیق فی جواب الوثیق ‘‘ بلقب آٹھ تراویح لکھا جا رہا ہے اور اہلِ بصیرت سے انصاف طلب کیا جاتا ہے۔
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: معلوم ہونا چاہیئے کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ:
’’ ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین ملۃ کلہم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا ما ھی قال ما انا علیہ و اصحابی‘‘
1- ترمذی:2643۔ کتاب الایمان۔ باب ما جاء فی افتراق ھذہ الایۃ۔
ابی داؤد:4596۔ کتاب السنۃ باب شرح السنۃ۔
مسند احمد:1024۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہی حدیث علمائے اہل حدیث کی بھی دلیل ہے کہ فرقہ بندی ناجائز اور بری چیز ہے اور نجات پانے والی صرف ایک جماعت ہے اسی طرح حق بھی ایک طرف ہے نہ کہ چار (فرقوں )میں تقسیم ہے۔مولانا صاحب نے خود جو حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میری امت 73فرقوں میں تقسیم ہوگی جن میں سے حق پر ناجی جماعت صرف ایک ہو گی صحابہ کے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طریقے پر میں اور میرے صحابہ ہیں وہ جماعت حق پر ہے۔ اب قارئین خود انصاف کریں کہ جب حق والی جماعت صرف ایک ہی ہے تو پھر چار جماعتیں کہاں سے آئیں نیز زیر بحث مسئلہ کے متعلق جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف آٹھ رکعات ثابت ہیں جیسا کہ عنقریب آپ کو معلوم ہوگا تو پھر یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی آٹھ ہی ثابت ہونی چاہئیں کیونکہ بیس ہونے سے دو طریقے ثابت ہوں گے ان میں سے ایک حق اور دوسرا باطل ہوگا حالانکہ حدیث تو ایک ہی جماعت بتا رہی ہے مولانا صاحب کو چاہئے کہ وہ کوئی تو ایسی روایت ثابت کریں جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا مستقل طریقہ ذکر ہو۔ ولیس لہ الی ذالک سبیل۔
بلکہ اس حدیث سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کے نزدیک تو وہی طریقہ قابل اعتبار ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو کیونکہ جماعت کا ایک ہونا ضروری ہے بصورت دیگر راستہ ایک نہیں رہے گا۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: قرآن مقدس میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
قل انما انا علی بصیرۃ ومن ابتغی ۔ (یوسف)
اقول ؛ میں کہتا ہوں: سبحان اﷲ کیا ہی کہنے ! مولانا صاحب یہ کون سے قرآن کی آیت ہے؟ موجودہ قرآن میں تو اس کا وجود نہیں شاید اہل تشیع والے دس پاروں میں ہو۔ کیا آپ نے خود قرآن کھول کر دیکھا؟یاکسی حافظ سے سنا یا کشف اور الہام ہوا۔ چنانچہ سورۃ یوسف کے بارھویں رکوع میں ارشاد باری تعالیٰ یوں ہے کہ :
قُلْ ھٰذِہِ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَۃ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ سُبْحَانَ اﷲِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ (یوسف:108)
یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں بصیرت کے ساتھ اور میرے پیروکار بھی۔ اللہ پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
چاہیئے تھا کہ اوپر والا جملہ کسی طریقے سے کسی سے پوچھ کر اور مشورہ کے ساتھ لکھتے ۔مولانا صاحب آیت مذکورہ بھی ایک ہی طریقہ بیان کر رہی ہے لفظ ’’ھٰذِہِ سَبِیْلِیْ ‘‘پر غور کیجئے اس کے علاوہ ’’وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘ کے جملے کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص کرنے میں بھی آپ نے غلطی سے کام لیا ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعین (پیروکار) آج تک موجود ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گے اور لفظ ’’بَصِیْرَۃ‘‘ بھی آپ کو بھاری پڑے گا کیونکہ تقلید میں کوئی بصیرت نہیں کیونکہ اہل بصیرت آنکھوں سے دیکھ بھال کر قدم اٹھاتے ہیں اور اہل تقلید دوسروں کے سہارے پر ہوتے ہیں ۔ فاین ھذا من ھذا۔آپ نے بصیرۃ کا معنی حق کا کیا ہے حالانکہ حق بھی تو ایک ہوتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہے الغرض یہ دلیل صحابہ کے مستقل طریقے کی نفی کرتی ہے بلکہ ا س کے لئے امام الطریق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید ضروری ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: ہمارا مذہب قرآن مقدس کے ساتھ ساتھ سنت نبوی اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال کی حوالگی سے وابستہ ہے ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: مولانا صاحب آپ اپنے ہی اصول سے واقف نہیں چنانچہ آپ کے قبلہ و کعبہ علامہ ابن الھمام حنفی فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں کہ
’’الصحابی حجۃ عندنا مالم ینفہ شئی آخر من السنۃ ‘‘
یعنی کسی بھی صحابی کا قول یا فعل اس وقت تک ہمارے نزدیک حجت اور قابل اعتبار ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث اس کے مخالف یا منافی نہ ہو۔ اب مولانا صاحب نے بیس رکعات تراویح سے متعلق جو اشارے لکھے ہیں وہ اگرچہ صحیح نہیں ہیں لیکن اگر انھیں صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ وہ مرفوع حدیث کے معارض ہیں اس لئے آپ کے اپنے مذہب کے مطابق حجت نہیں رہیں گے۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ میرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہِ کنعان کا
قولہ: ان کا کہنا ہے:اس حدیث میں نہ تو تراویح کا لفظ ہے اور نہ ہی یہ حدیث تراویح پر مشتمل ہے۔الخ
اقول: میں کہتا ہوں: مولانا صاحب کسی ایسی روایت کے چکر میں ہیں جس میں لفظ ’’تراویح‘‘استعمال ہو۔ بلکہ روایات میں تو قیام اللیل اور قیام رمضان کے نام سے یہ نما ز مذکور ہے اور تراویح کا نام تو بعد میں استعمال کیا گیا۔آپ نے تہجد اور تراویح میں جو فرق لکھا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ دلائل تو اس کے خلاف ہیں ۔ مثلاً سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ والی حدیث اس کے خلاف دلیل ہے جس کے یہ الفاظ کہ ’’ما کان یزید‘‘ آپ کی اس تفریق کے منافی ہیں کیونکہ زیادتی اور عدم زیادتی ایک دوسرے کی ضد ہیں فارتفا عہما ممنوع کاجتماعھما۔
نیز سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ والا اثر جو کہ اشتہار میں ذکر کیا گیا ہے اس میں راوی کے یہ بھی الفاظ ہیں کہ :
وما کنا ننصرف الا فی فروع الفجر‘‘ (رواہ مالک فی الموطا)۔
یعنی ہم فجر کے وقت قیام رمضان سے فارغ ہوتے تھے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ساری رات انہی گیارہ رکعت کے علاوہ کوئی اور نماز نہ تھی بلکہ مولانا صاحب کو تا حیات چیلنج ہے کہ کوئی ایک روایت پیش کریں جس میں صراحت کے ساتھ یہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی ہو اور اس کے بعد تہجد بھی پڑھی ہو۔
ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔
اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔
مولانا صاحب افسوس ہے کہ آپ کے تعصب نے آپ کو اپنے ہی گھر کو ٹٹولنے کا موقع نہیں دیا ذرا اپنی ہی کتب کوتو کھول کر دیکھیں ابن نجم کی بحرالرائق، ابن الھمام کی فتح القدیر اور زیلعی کی نصب الرایہ کو دیکھیں انھوں نے اس حدیث سے تراویح ہی مراد لی ہے بلکہ علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن میں اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ ’’باب التراویح بثمان رکعات ‘‘ جب محدّثین اور فقہاء سب اس حدیث سے تراویح مراد لیتے ہیں تو آپ کی اس تفریق کا کیا وزن ہوگا؟
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: مقصد یہ کہ بخاری اور مروزی کی حدیث کے درمیان الفاظ اور معنی میں بہت فرق ہے۔الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں:ان روایتوں میں کوئی بھی فرق نہیں اگرچہ بخاری شریف کی حدیث میں تعداد کا ذکر نہیں مگر مروزی کی جابر رضی اﷲ عنہ والی روایت میں تو ذکر ہے فرق تو تب ہوگا کہ بخاری کی روایت میں ایک عدد ہو اور مروزی کی روایت میں دوسرا عدد ہو بلکہ ان میں سے ایک عدد کے ذکر سے خاموش ہے اور دوسری میں اس کا ذکر ہے ان میں سے ایک مجمل اور دوسری مفصل ہے یہ دونوں حدیثیں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ایسی روایات کو متعارض قرار دینا قلۃ الفہم پر مبنی ہے۔
وکم من عائب قولا صحیحا
واٰفتہ من الفہم السقیم
آپ کے اپنے پیر مغاں علامہ عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں جابر رضی اﷲ عنہ والی روایت کو بخاری والی حدیث کے اجمال کی تفصیل کے لئے ذکر کیا اور اسی طرح وقت کا آگے پیچھے ہونا بھی تعدد واقعات پر محمول ہوسکتا ہے انتہائی بات یہ کہ ان روایات سے معاملے میں وسعت معلوم ہوتی ہے کہ رات کے پہلے حصے میں یا درمیان میں یا آخر میں کسی وقت بھی قیام اللیل ہوسکتا ہے اور اسی طرح وتر اور رات کی نماز کی فرضیت کا ذکر بھی اختلاف اور تعارض کا باعث نہیں کیونکہ ایک روایت میں وتر کی فرضیت کا انکار ہے اوردوسری میں قیام اللیل کی فرضیت کا دونوں حدیثیں سچی ہیں اگر آپ وتر کو واجب کہتے ہیں تو یہ اس حدیث کے خلاف ہے اور اسی طرح سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے پوچھا گیا کہ وتر واجب ہے یا نہیں تو انھوں نے واجب نہیں کہا بلکہ فرمایا کہ
اوتر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم و اوتر المسلمون ۔ (موطاء 1/124 کتاب صلاۃ الیل باب الامر بالوتر)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے وتر پڑھا ہے۔
نیز عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ:
الوتر لیس بحتم کصلواتکم المکتوبۃ ولکن سنۃ سنھا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (جامع ترمذی: 453 کتاب الصلاۃ۔ باب ما جاء ان الوتر لیس بحتم ۔، ابی داؤد: 1416۔ کتاب الصلاۃ۔ باب ما جاء استحباب الوتر ، نسائی۔ کتاب قیام اللیل۔ باب الامر بالوتر۔)
یعنی وتر تمہاری فرضی نمازوں کی طرح فرض نہیں ہے بلکہ یہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت قرار دیا۔
اور مشہور احادیث میں ذکر ہے کہ وتر کو سواری پر ادا کیا گیا حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک نفلی نمازوں کے علاوہ باقی نمازوں کو سواری پر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے الغرض ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی مروزی والی حدیث صحاح ستہ کی احادیث کے خلاف ہے بلکہ یہ روایت ان کی تفصیل اور عدد کی تعیین اور تحدید ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: علاوہ اس کے یہ بھی تو نماز تہجد ہی ہے۔الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہ وہی روایت ہے جو صحاح ستہ میں بغیر تعیین عدد کے مروی ہے اس بات کا تو آپ بھی اعتراف کرتے ہیں اسی لئے تو آپ نے تعارض کا دعویٰ کیا ہے پھر اگر بقول شما یہ روایت بھی تہجد کے ساتھ خاص ہے اور تہجد تراویح سے پہلے الگ نماز ہے تو پھر تراویح کے ثبوت کے لئے کون سی حدیث پیش کرو گے آپ کی ذکر کردہ حدیث ’’ من قام ایمانا‘‘(الحدیث) میں تراویح کے نام کا تو ذکر نہیں ہے بلکہ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تہجد تھی ۔ فما ھو جوابکم فھو جوابنا۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: بیہقی اور ابو شعبہ نے بھی ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیس رکعات والا عمل بیان کیا ہے کہ:
’’کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی غیر جماعۃ عشرین رکعۃ والوتر‘‘
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر جماعت کے بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہ حدیث باتفاق محدّثین اور فقہاء ساقط اور غیر معتبر ہے اگر مولانا صاحب اپنے گھر کی کتب دیکھ لیتے تو ہوسکتا ہے ایسی روایت بیان کرنے کی ہمت ہی نہ ہوتی لیکن کیا کیا جائے کہ اس کے مذہبی تعصب نے اسے اپنے گریبان میں جھانکنے نہ دیا۔اﷲ کے لئے حنفی مذہب کے بڑوں کی کتب تو کھول کر دیکھو مثلاً نصب الرایۃ للزیلعی، البحراالرائق کنز الدقائق، شاملی ، فتح القدیر شرح ھدایہ اور عینی شرح بخاری ان سب نے صراحت کی ہے کہ یہ روایت بالکل ضعیف ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ ان صحیح احادیث کی بھی مخالف ہے جو بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ’’ماکان یزید‘‘ا لخ کے الفاظ سے مروی ہیں۔ جبکہ آپ کے بڑے اسی روایت کو غیر معتبر اور معتبر روایت کے خلاف قرار دیتے ہیں تو پھر ایسی روایت کے پیش کرتے ہوئے آپ نے اپنے بڑوں کی مخالفت کیوں کی؟نیز مولانا صاحب آپ نے جو ابو شعبہ کا نام لیا ہے دراصل اس نام کی حدیث کی کتاب ہے ہی نہیں بلکہ ابن ابی شیبہ کے نام سے ایک کتاب ہے شاید آپ نے خود یہ کتب نہیں دیکھیں بلکہ ’’لکیر کا فقیر‘‘ بن کرکسی دوسرے کی تحریر یا سنی ہوئی بات پر اعتبار کرتے ہوئے حوالہ دیدیا۔اور یہی حال تقلید (بلا دلیل قول کو ماننے) والوں کا ہوتا ہے امام رازی نے تفسیر کبیر میں سچ کہا ہے کہ
’’لا فرق بین بہیمۃ تقاد و انسان یقلد‘‘
(ترجمہ) اس جانور کا، جس کو ہانکا جائے اور مقلد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اس حدیث میں ابن شیبہ جو ایک راوی ہے الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: ہاں وہ ابو شیبہ نام کا راوی عثمان کے نام سے مشہور ہے جس کے بارے میں امام نووی نے شرح المہذب میں لکھا ہے کہ وہ ضعیف باتفاق المحدّثین یعنی وہ تمام محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے بلکہ حنفی مسلک کے چوہدری علامہ عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں اس کے بارے میں سخت جرح نقل کی ہے مثلاً کذاب ، متروک وغیرہ اسی طرح ابن ھمام حنفی اور مولوی عبد الحئی لکھنوی نے التعلیق الممجد میں ابو شیبہ کے متعلق جرح نقل کی ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: لیکن مولانا لکھنوی نے فتاویٰ 1/7پر صراحت کی ہے کہ
’’جد ابن ابی شیبۃ آن قدر ضعیف ندارد کہ متروکہ شود‘‘۔
ابن ابی شیبہ کا دادا اتنا ضعیف نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں:
اولاً : دوسرے کبار علمائے احناف خود مولوی عبد الحئی کے خلاف ہیں ۔
ثانیاً : ان کے دور کے قریب قریب کے علماء احناف بھی اس کے خلاف ہیں مثلاً علامہ نیموی نے آثار السنن اور تعلیق میں، انور شاہ کشمیری نے فیض الباری اور عرف الشذی میں شاہ صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس بات کو تسلیم کئے بغیر فرار کا کوئی اور راستہ نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح صرف آٹھ رکعات ہی ثابت ہے اور بیس رکعات والی روایت ضعیف ہے۔
ثالثاً: مولوی عبد الحئی نے خود موطا محمد کے حاشیہ التعلیق الممجد میں بالکل صاف اور واضح لکھا ہے کہ ابو شیبہ والی روایت ضعیف ہے ۔
رابعاً : وہ ابو شیبہ کیسے متروک نہیں کہلائے گا جبکہ علامہ عینی جو مولوی عبد الحئی سمیت سب کے بڑے ہیں انھوں نے بخاری کی شرح میں ابو شیبہ کے متعلق متقدمین سے نقل کیا ہے کہ وہ متروک ہے اور خود انھوں نے اس کی تردید بھی نہیں کی تو جسے پہلے ہی متروک قرار دیا جا چکا ہے تو اسے مولوی عبد الحئی کے قول کے مطابق متروک نہ کہنا کتنا صحیح ہوگا؟بلکہ مولوی عبد الحئی نے خود تعلیق میں نقل کیا ہے کہ اسے (ابو شیبہ کو)متروک کہا گیا ہے اس حالت میں مولوی عبد الحئی صاحب کے دونوں قول متعارض ہوئے اس لئے اس صورت میں اگر چاہو تو
’’اذا تعارضتا تساقطتا‘‘ (نور الانوار)
یعنی جب وہ متعارض ہو ں تو ساقط ہو جاتے ہیں۔
والے اصول پر عمل کرتے ہوئے اس کے دونوں قول ساقط سمجھ کر متقدمین کے قول کو قبول کر لو جو انھوں نے ابو شیبہ کا متروک ہونا تسلیم کیا ہے مثلاً امام زیلعی اور علامہ عینی وغیرہما۔
اور اگر چاہو تو ترجیح کا راستہ اختیار کر لو اور اس صورت میں تعلیق الممجد والا قول راجح ہوگا کیونکہ کثیر محدّثین اور فقہاء کے اقوال اس کے مؤید ہیں بخلاف دوسرے قول کے کہ اس کا کوئی مؤید نہیں اس لئے وہ مرجوح کہلائے گا۔
خامساً: یہ بھی کہنا درست نہیں کہ ابو شیبہ کا ضعف خفیف ہے بلکہ اس کا ضعف سخت سے سخت ہے مثلاً: کذاب ، متروک ، لیس بشئی اور لا یکتب حدیثہ وغیرہ جیسے الفاظ نقاد نے ان کے حق میں استعمال کئے ہیں میزان الاعتدال اور آپ اپنے احناف کی دیگر کتب کھول کر دیکھیں یہ قاعدہ ہے کہ کذاب اور متروک راوی کی روایت نہ تو مستقل دلیل بن سکتی ہے اور نہ ہی گواہی اور تائید کا فائدہ دے سکتی ہے کما تقرر فی الاصول۔
سادساً : امام بیہقی جسکا آپ نے حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے یہ روایت سنن کبریٰ میں نقل کرنے کے بعد اس پر جرح کرنے کے بعد اسے ضعیف قرار دیا ہے تو یہ آپ نے صرف زبانی جمع خرچ کی خاطر بیہقی کا حوالہ دیا ہے ۔اور صرف ان کی روایت نقل کر دی ہے اور بیہقی کی ان پر کی گئی جرح کو کیوں ذکر نہیں کیا یہ بہت بڑی خیانت نہیں ہے؟ جو کہ مومنین کی علامات سے بعید ہے اور اگر آپ نے بیہقی نہیں دیکھی تو پھر یہ غلطی آپ کی تقلید کی عادت کے سبب ہوئی ہے ۔ الغرض مذکورہ روایت کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے بلکہ ضعیف ہونے کے ساتھ منکر بھی ہے جس طرح کہ امام ذہبی نے میزان میں صراحت کی ہے و علی سبیل التنزل اس روایت میں دلالت علی المطلوب بھی نہیں ہے کیونکہ اسی روایت میں ’’فی غیر جماعۃ‘‘ کے الفاظ بھی موجود ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کے بغیر تنہائی کی حالت میں بیس رکعتیں پڑھیں تو پھر جماعت کے ساتھ بیس رکعات پڑھنے کے متعلق کوئی دوسری حدیث تلاش کر کے پیش کیجئے ۔
گرز عشقت خبرے ہست بگو اے واعظ
ورنہ خاموشی کہ امین شور و فغان چیزے نیست
اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی روایت میں جس کو مولوی عبد الحئی مرحوم نے صحیح قرار دیا ہے اور عینی حنفی نے اسے استدلالاً ذکر کیا ہے اس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کھڑے ہو کر جماعت آٹھ رکعات نماز پڑھائی ہے ۔ مولانا صاحب اگر آپ صرف حدیث کے الفاظ پر ہی غور کر لیتے تو بھی اتنی جرات نہ کرسکتے استدلال کے میدان میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا کرو۔
سنبھل کے رکھنا قدم دشتِ خار میں مجنون
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: فصلی ھذا دربودن بست رکعات سنت مؤکدہ شکے نیست ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: جس روایت کو احناف اور محدّثین بیک زبان ضعیف کہیں اس سے سنت مؤکدہ ثابت کرنا آج کے مجتہدین کی نئی ایجاد ہے ۔
نہ پہنچا ہے نہ پہنچے گا تمہاری ستم کیش کو
بہت سے ہو چکے ہیں گرچہ تم سے فتنہ گر پہلے
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: یہ تیسری دلیل ہے اور یہ بھی مروزی سے مروی ہے کہ ابی بن کعب الی قولہ ہاں بے شک یہ نماز چاہے اسے تراویح کہا جائے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور نمونہ کے اس کے متعلق اپنی رضا کا اظہار فرمایا ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: پھر اگر اس سے آٹھ تراویح ثابت ہے تو پھر آپ اسے نیا طریقہ یا اہلسنت والجماعت کے خلاف کیسے قرار دیتے ہیں معاذ اﷲ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اہل سنت سے خارج تھا حاشا و کلا۔ نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث بھی تو حجت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام پر سکوت اختیار کر لینا بھی قابل اعتبار ہے جس کی آپ نے اپنے اس کتابچے کے صفحہ تین پر صراحت کر دی ہے ۔ گویا کہ آپ اپنی گفتگو میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات کے ثابت ہونے کا اقرار کر چکے ہو۔ واہ !واہ! کیا خوب!!!
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
الغرض یہ روایت بھی صحیح ہے اسی وجہ سے تو آپ نے ا س پر کوئی جرح نہیں کی آپ کے اپنے حنفی بھائی علامہ نیموی نے آثار السنن میں ھیثمی سے نقل کیا ہے کہ ’’ اسنادہ حسن‘‘ یعنی اس حدیث کی سند اچھی اور جرح سے پاک ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوا کہ مثلاً اگر آٹھ رکعات سے زیادہ پڑھی جاتیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے ۔
اقول: میں کہتا ہوں:مولانا صاحب یہ کہاں ہے کہ اگر زیادہ رکعات ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہم نے تو اس کے (آٹھ رکعات) کے متعلق رضا مندی کا ثبوت دے دیا ہے اب آپ پر لازم ہے کہ آپ آٹھ سے زائد یا بیس رکعات پر رضا مندی کا ثبوت دیں ۔
آئے ہیں میدان میں اب جلد آئیے
دعویٰ اگر کیا ہے تو کچھ کر دکھائیے
قولہ ؛ ان کا کہنا ہے: اور جو تشریح میں کہا گیا الی قولہ بغیر دلیل اپنا قیاس بے کار ہے ۔
اقول ؛ میں کہتا ہوں: مولانا صاحب ! نہ آفتاب آمد دلیل آفتاب خود۔ یہ روایت اس کے لئے ثبوت ہے کیونکہ اگر ابتداء ہی سے بیویوں کو پڑھانے کا رواج ہوتا تو پھر اس کے متعلق استفتاء اور استفسار کی کیا ضرورت تھی بلکہ چونکہ اس نے یہ کام پہلی دفعہ کیا تھا اس لئے اس کے درست یا غیر درست ہونے کے متعلق دریافت کیا ایسی صاف ستھری بات بھی آپ کو سمجھ میں نہیں آئی تو پھر آپ اپنے فہم کو قصور وار سمجھیں۔
لے گر نہ بیند بروز شب پرہ چشم
چشمہ آفتاب را چہ گناہ
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: تشریح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی آٹھ رکعات ہی پڑھی جاتی تھیں اس لئے اوپر واضح ہو چکا کہ یہ نماز تہجد تھی۔
اقول ؛ میں کہتا ہوں: اوپر ثابت ہو چکا کہ آپ کے قدماء حنفی علماء خود اسی روایت سے تراویح مراد لیتے ہیں بلکہ آپ کے امام محمد جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’لولا محمد لماراح ابو حنیفہ ‘‘ بھی اپنی مؤطا میں یہ روایت ’’ماکان یزید ‘‘ تراویح کے باب میں لائے ہیں تو پھر آپ نے ابھی کوئی نیا اجتہاد نکالا ہے کیا؟ نیز تشریح میں ہم نے جو مروزی والی روایت نقل کی ہے کہ ’’اصابوا و نعم ماصنعوا‘‘ ا س میں یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو آگے کھڑے ہو کر جماعت کراتے دیکھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا جس سے ثابت ہوا کہ یہی قیام رمضان تھا کیوں تہجد کی نماز اس طرح معتاد نہ تھی نیز آپ کے مذہب کے مطابق تو تراویح کے علاوہ کوئی دوسری نفلی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تہجد کی نماز تھی حالانکہ آپ کے نزدیک تہجد اور تراویح الگ الگ نمازیں ہیں۔ذراسوچیں کہ آپ کے دماغ سے کیا نکل رہا ہے؟؟؟
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: بلکہ بخاری شریف میں 7۔ 9۔ 13۔ رکعات کا بھی ذکر ہے الخ ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہاں مولانا صاحب نے دو روایتیں تحریر کی ہیں پہلی روایت میں ہے کہ ’’سبع و تسع واحدی عشرۃ سواء رکعتی الفجر‘‘ (یعنی سات، نو اور گیارہ رکعات وتر کے علاوہ) حالانکہ ادنیٰ سے ادنیٰ صاحب علم بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ روایت اس روایت کے ہرگز مخالف نہیں ہے کیونکہ اس میں ’’ ماکان یرید‘‘ کے الفاظ ہیں اور لا ینقص کے الفاظ نہیں یعنی زیادہ کرنے کا انکار ہے نہ کہ کم کرنے کا ۔اللہ کا خوف کرو۔ اﷲ کی مخلوق کو مغالطوں میں مت ڈالو۔ اس کے علاوہ کچھ احادیث دوسری احادیث کی تفسیر ہیں چنانچہ دیگر روایات کے ملانے سے ظاہر ہوا کہ یہ سات ، نو اور گیارہ وتر کی رکعات ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر ایک رکعت سے تیرہ رکعات تک باری باری پڑھتے تھے ۔ کما لا یخفی من طالع کتب الاحادیث ۔ (جیسا کہ کتب احادیث کے مطالعہ کرنے والے پر مخفی نہیں ہے)۔
لیکن اگر تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے مراد ’’صلوٰۃ اللیل‘‘ ہے تو بھی انتہائی بات یہی ثابت ہوگی کہ آٹھ رکعات سے کم چھ رکعات بھی ثابت ہیں لیکن یہ بتائیں کہ آٹھ سے زیادہ کے لئے آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟نو میں بھی ایک رکعت وتر کی ہوگی نیز بخاری میں اسی باب میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ:
’’ان رجلا قال یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کیف صلوۃ اللیل قال مثنی و مثنی فاذا خفت الصبح فاوتر بواحدۃ‘‘
ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رات کی نماز کس طرح ہے تو آپ نے فرمایا: دو دو رکعات ہے اور جب تجھے صبح کی نماز کا ڈر ہو تو ایک وتر پڑھ لے۔
اس کے علاوہ آپ کا اپنا مذہب بھی اس حدیث کے خلاف ہے کیونکہ آپ کے نزدیک ایک ساتھ نو یا سات رکعات پڑھنے کی اجازت نہیں اور اگر آپ کہیں گے کہ دو دو رکعتیں کر کے پڑھی جائیں تو بھی آخر میں ایک ہی رکعت نویں یا ساتویں بچے گی حالانکہ آپ تو ایک رکعت کو نماز ہی نہیں مانتے اور اگر آپ کہیں گے کہ ان سے مراد تین رکعات وتر کی ہیں تو پھر بھی باقی چار یا چھ رکعات بچیں گی جس کے ’’ماکان یزید‘‘ والی روایت خلاف ہے جس سے آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا کیونکہ آپ کو تو آٹھ سے زیادہ کے لئے ثبوت درکار ہے اور وہ معدوم ہے اور ایک دوسری روایت جو تیرہ رکعات والی ہے جو آپ نے لکھی ہے اس کے نقل کرنے میں بھی آپ نے خیانت کی ہے کیونکہ بخاری شریف میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں کہ
عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت ’’ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ منہا الوتر ورکعتا الفجر
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعات پڑھتے تھے ان میں وتر اور فجر کی سنت کی دو رکعتیں بھی تھیں۔ اب فجر کی دو سنتوں کے علاوہ باقی وہی گیارہ رکعتیں رہیں ۔
” بخاری ۔کتاب التجہد کیف صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
مسلم: 736 کتاب صلاۃ المسافرین ۔ باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
ابی داؤد:1334۔ کتاب الصلاۃ ۔ باب صلاۃ اللیل۔
ترمذی:439 ۔کتاب الصلاۃ ۔ باب ما جاء فی وصف صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
نسائی۔ کتاب قیام اللیل۔ باب وقت الوتر۔
مؤطا امام مالک۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الوتر۔”
مولانا صاحب اللہ کا خوف کریں اللہ کے سامنے آپ کو کھڑا ہونا ہے آپ نے اپنے مطلب کی خاطر ایک حدیث لکھ دی اور دوسری جس میں منھا الوتر ورکعتا الفجر کے الفاظ ہیں اسے ہضم کرتے ہوئے لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ حدیث میں تیرہ رکعات کا ذکر ہے۔
اور یہ نہیں بتا رہے ہو کہ ان میں فجر کی دوسنتیں بھی شمار ہیں کیا ایک حدیث دوسری کی تفسیر نہیں ہے مولانا صاحب اس طرح خیانت کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرناسخت گناہ ہے اور یاد رکھو کہ آپ حق کو کبھی بھی چھپا نہیں سکیں گے۔
و یحق اﷲ الحق بکلماتہ ولو کرہ المجرمون
اور اللہ تعالیٰ اپنے کلمات کے ساتھ حق کو ثابت کرتا ہے چاہے یہ بات مجرموں کو اچھی نہ لگے۔
قولہ ؛ ان کا کہنا ہے: یہ تو بخاری کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ الخ
اقول : میں کہتا ہوں: اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اﷲ عنہا والی روایت ’’ماکان یزید‘‘ میں آٹھ رکعات کی تحدید کی گئی ہے اور ان میں سے تین رکعات وتر کی مراد ہیں باقی دوسری روایات جن کے متعلق بحث ہو چکی ہے وہ وتر کی تعداد کی کمی بیشی پر مشتمل ہیں نہ کہ اصل نماز پر جیسا کہ ان کے متعلق امام زرقانی نے موطا کی شرح میں گفتگو کی ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اسی طرح صحابہ بھی الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے متعلق کوئی بھی ثبوت صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں اور جس روایت کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو ذکر ہی نہیں جیسا کہ اس کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اور کتابچے میں دوسری حدیث کی تشریح جو کچھ کہا گیا ہے الی قولہ وہ حدیث ضعیف ہے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہ بالکل غلط ہے نیموی حنفی آثار السنن میں ثعلبۃ بن ابی مالک القرطبی سے یہی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
رواہ البیہقی فی المعرفۃ و اسنادہ جید ولہ شاھد دون حسن عند ابی داؤد من حدیث ابی ھریرۃ
یعنی اس حدیث کی سند بہت اچھی ہے اور اس کا شاہد ابو داؤد میں ابو ھریرۃ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔
(یعنی یہ اشتہار میں ذکر کر دہ مروزی والی روایت)جس کا درجہ حسن اور صحیح سے کم ہے یعنی متوسط درجے کی ہے اب آپ کا اسے ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے بلکہ ثعلبہ والی روایت جس کی سند بھی جید ہے وہ اسے اور بھی تقویت پہنچاتی ہے اور نیموی نے آثار السنن کی تعلیق میں ثعلبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ
قال البیہقی بعد مااخرج ’’و ثعلبہ ابن ابی مالک قد راء ی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مازعم اہل العلم باالتواریخ انتھی۔وقال الذھبی فی تجرید اسماء الصحابۃ ’’ثعلبۃ بن ابی مالک ابو الحئی القرظی امام بن قریظہ ولہ فی عھدا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم ولہ رؤیۃ و طال عمرہ انتھیٰ‘‘ وقال فی التھذیب لہ رؤیۃ رویٰ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘الخ۔
یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ثعلبہ بن ابی مالک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ اور اہلِ علم کا تاریخ کے حوالے سے یہی نظریہ ہے۔ اور امام ذہبی ’’تجرید اسماء الصحابۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ثعلبہ بن ابی مالک ابو الحئ القرظی ہے جو کہ بنو قریظہ کا امام تھا اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ہے اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور اس نے لمبی عمر پائی۔
اور تھذیب میں بھی ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ انتہٰی۔
یہ آپ کا حنفی بھائی کہہ رہا ہے کہ امام بیہقی ، امام ذھبی ابن حجر،یہ تمام ثعلبہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوا تھا اور اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں ۔
الغرض یہ روایت ثابت اور متصل ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: حسب کے متعلق تعلیق الممجد میں لکھا گیا ہے کہ:
و قال ابن حجر فیہ مسلم بن خالد الزنجی وھو ضعیف۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں خالد زنجی ہے جو کہ ضعیف ہے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: حافظ ابن حجر کی طرف یہ نسبت کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ حافظ صاحب مرحوم تقریب التہذیب میں مسلم بن خالد الزنجی کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’فقیہ ، صدوق کثیر الاوھام‘‘
یعنی فقیہ، سچا اور بہت زیادہ وہم والا ہے۔
مولانا صاحب آپ کے نزدیک تو فقیہ کی روایت زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہے ۔نیز صدوق (سچے) راوی کی حدیث کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے باقی رہا وہم تو وہ کسی راوی کی عدالت کے لئے قادح نہیں بن سکتا ۔ نیز اس روایت میں تو اس پر وہم کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا اس کے علاوہ ثعلبۃ والی روایت میں اس راوی کا درمیان میں بالکل واسطہ ہی نہیں اس لئے اس کی تائید سے اس راوی کے وہم کا شبہ بھی دور ہو گیا نیز آپ کے بڑے فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کے استاد حماد بن ابی سلیمان کے متعلق بھی ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں ’’ اوھام‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں حالانکہ آپ کے علماء اس لفظ کی وجہ سے اسے ضعیف نہیں مانتے نیز اس راوی کے بارے میں جرح مفسر موجود نہیں بلکہ جرح مبہم موجود ہے جو کہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ۔ حالانکہ اسے ابن عدی نے ’’حسن الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔
خلاصہ: ابن عدی جرح و تعدیل میں معتدل اور منصف شمار ہوتے ہیں جیسا کہ مولوی عبد الحئی لکھنوی نے ’’الرفع والتکمیل‘‘ میں ذکر کیا ہے نیز امام ابن معین جو کہ جرح میں بہت متشدد ہیں انھوں نے بھی اسے’’ ثقۃ‘‘قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ متشدد کی توثیق راوی کے قابل اعتبار ہونے کی زبردست دلیل ہوتی ہے الغرض اس روایت کو ضعیف قرار دینا مولانا صاحب کی کم علمی بلکہ بے علمی کی وجہ سے ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اس کے علاوہ اس حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ سیدنا اُبی رضی اﷲ عنہ نے جماعت کے ساتھ ان لوگوں کو نماز پڑھائی جنھیں قرآن بالکل نہیں آتا تھا الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: پھر کیا ہوا؟کسی نہ کسی طرح جماعت کا ثبوت تو مل گیا فحسب نیز ایسا تو نہیں تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بالکل قرآن نہیں آتا تھا بلکہ سیدنا اُبی رضی اﷲ عنہ چونکہ احفظ الصحابۃ تھے اس لئے وہ آگے کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے تھے اور حکم بھی یہی ہے کہ جو زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو وہ ہی امامت کرائے جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں اس کے متعلق روایات موجود ہیں۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: چوتھی دلیل ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ الی قولہ اس کے لئے احناف کے ہاں کوئی اعتراض نہیں۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: تو پھر اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: لیکن یہ تو امیر عمر رضی اللہ عنہ کا پہلا حکم تھا جسے انھوں نے خود تبدیل کر کے آخر میں بیس رکعات مقرر کیں جس کی دلیل آگے آرہی ہے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: اس کی بھی حقیقت ظاہر کر دی جائے گی ان شاء اﷲ ۔
پڑا افلاک کو کبھی دل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں
مولانا صاحب اتنا تو مانیں گے کہ عہد فاروقی کی ابتداء میں آٹھ رکعات پر ہی عمل تھا اور اسی طرح عہد صدیقی میں اور اس سے پہلے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اسی طرح عمل رہا تو پھر اسے اہل السنۃ والجماعت کے طریقے کے خلاف کیوں قرار دیتے ہو؟ایمانداری سے بتاؤ کہ آپ کی ذکر کردہ حدیث ’’ما انا علیہ و اصحابی ‘‘ (یعنی جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں)۔ اسی طریقے پر صادق آتی ہے یا کسی اور پر ؟کیا وہ حکم جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاری رہا ہو تو عمر رضی اﷲ عنہ کو اس کے بدلنے کا اختیار اور حق ہے؟ہرگز نہیں۔سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف اس کی نسبت کے غلط ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی ۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: الغرض کہ صحاح ستہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آٹھ رکعات تہجد بلکہ وتر سمیت سات ، نو سے تیرہ رکعات تک تھا تو رمضان میں بھی اسی طرح عمل تھا ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: الحمد ﷲ یہاں تو مولانا صاحب نے مان لیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آٹھ رکعات پر ہی تھا۔ ذالک ماکنا نبغی۔
کون کہتا ہے ہم تم میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اور رمضان میں زیادہ عبادت کرنے سے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد رغبت دلائے الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: ترغیب تو غیر رواتب نوافل کے لئے ہے اور رواتب نمازوں میں کمی بیشی کا کسی کو حق نہیں ہے اسی طرح صلوٰۃ اللیل، قیام رمضان رواتب نمازوں میں سے ہیں جس کا عدد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ تک مقرر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو زیادتی کرنے کا حق نہیں ہے اس کے علاوہ اگر اس میں زیادتی کی گنجائش ہے تو پھر آپ نے بیس تک کیوں کیا ہے ؟اس سے زیادہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟بلکہ آپ کے مذہب میں تو بیس سے اوپر پڑھنا مکروہ ہے جیسا کہ آپ کی مشہور کتاب عالمگیری میں لکھا ہوا ہے ۔کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور آگے بڑھنا ہے؟اور جو اس (آگے بڑھنے) سے انکار کرے وہ تو اہلسنت والجماعت سے خارج ہو اور آپ کے مقرر کردہ اصول سے بڑھنا مکروہ ہو۔ تلک اذا قسمۃ ضیریٰ۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اگر کبھی آٹھ اور کبھی بارہ الخ۔
اقول: میں کہتا ہوں: آٹھ رکعات کے متعلق تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہت سے اثر موجود ہیں اور بارہ یا اس سے زیادہ رکعات کے متعلق کوئی بھی صحیح اور صریح اثر موجود نہیں نیز اوپر آپ ص3پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی متابعت لازمی اور راہ نجات قرار دے کر آئے ہو اور ص 4پر آپ نے صراحت کی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع ہمارا مذہب ہے اور یہاں کہتے ہو کہ کبھی آٹھ اور کبھی بارہ پڑھتے تھے۔تب بھی آپ کے ذمے لازم آتا ہے کہ کبھی آٹھ پڑھ کر بھی صحابہ کرام کی متابعت کرو ۔مولانا صاحب! ’’دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘۔اوپر ذکر کردہ اصول کو کیوں نظر انداز کرتے ہو جب بقول آپ کے صحابہ کے دونوں عمل ہیں تو پھر ایک سے محبت اور اور ایک سے عداوت این چہ معنی دارد۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: امیر عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے ابتدائی دور میں منفرداً اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں پہلے آٹھ اور پھر بعد میں بیس رکعات میں نماز قائم کی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے ساتھ قائم کی گئی ۔
اقول: میں کہتا ہوں: سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے بیس رکعات نماز قائم کرنے کی بحث آ رہی ہے کہ یہ کس قدر صحیح ہے باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کا دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ:
اولاً : تو مولانا صاحب نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ کما سیاتی۔
ثانیاً: مولانا صاحب نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے آخری دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع کا ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلے لازماً اختلاف تھا جیسا کہ مولانا صاحب نے اپنی عبارت کبھی آٹھ اور کبھی بارہ رکعات تراویح پڑھتے رہے کا ذکر کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایسا اجماع احناف کے ہاں بھی قابل اعتبار نہیں ۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:
’’والاجماع المؤخر لا یرفع الا ختلاف المتقدم ‘‘
یعنی جس مسئلے میں پہلے اختلاف کیا گیا ہو اور بعد میں چاہے وہ اجماعی صورت بھی اختیار کر لے تو یہ بعد والا اجماع پہلے اختلاف کو دفع نہیں کرسکتا۔
ثالثاً : سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے اپنے زمانے میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس مسئلے میں اختلاف تھا اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے بعد بھی صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف موجود تھا اس کے متعلق ’’قیام اللیل للمروزی‘‘ میں آثار دیکھنے چاہئیں۔
رابعاً: آپ کے نزدیک تین اجماع معروف ہیں (1) مجموعی (2) اکثری (3) سکوتی۔ا ن تینوں میں یہاں کسی ایک کو ثابت کرنے کی آپ کو مجال نہیں کیونکہ آپ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے تفصیلاً یا نصف سے زیادہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بیس رکعات کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں اور اسی طرح اگر بعض سے آپ نقل بھی کریں گے تو وہ سنداً صحیح نہیں ہوگا۔ کما سندکرہ۔بلکہ ان سے بھی آٹھ ثابت ہیں اس لئے اجماع کا تو نام نہ لو۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اجماع کے دعویٰ کرنے کو ’’جھوٹا‘‘ قرار دیا ہے۔ (اعلام الموقعین لابن القیم والاحکام لابن الحزم )۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح قائم رہی۔ الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: یہ نسبت بھی غلط ہے بلکہ اس سے متعلق جو اثر ذکر کئے گئے ہیں وہ بھی غیر صحیح ہیں: کما سیاتی تحقیقہ فی موقعہ ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: جس کی متابعت آج تک ساری دنیا میں ہوتی آ رہی ہے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: ساری دنیا کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے یا اس کا آپ کو الہام ہوا ہے؟ مگر ارے مولانا صاحب آپ کو شاباش ہو کہ جب آپ صفحہ 6اور 1پر قبول بھی کر چکے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات بھی ثابت ہیں اس کے باوجود بھی آپ کو دنیا کے دوسرے لوگ یاد آرہے ہیں ہم مولانا صاحب کو مشورہ دیں گے کہ ساری دنیا تو کجا صرف پاکستان میں ہی گھوم کر تو دیکھو کتنے ہی اﷲ کے بندے آٹھ رکعات پڑھنے والے نظر آئیں گے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: ہم اہلسنت والجماعت والوں کے اس مسئلے کے متعلق یہ دلائل و استدلال حجت ہیں الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: اہلسنت والجماعت والوں کی تعریف میں تو آپ نے حدیث ما انا علیہ و اصحابی پیش کی ہے اور اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وہ مذہب ہے جس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم متفق ہوں اور اوپر آپ خود لکھ چکے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی دور تک آٹھ رکعات ہی تھیں پھر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے آخری دورِ خلافت میں بیس رکعات کا رواج ہوا ۔ثابت ہو گیا کہ اہلسنت والجماعت کا مذہب ہی آٹھ رکعات ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہے بخلاف بیس رکعات کے جو آپ کے خیال کے مطابق بغیر تائید نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ہیں اس کے بعد اب مولانا صاحب کے دلائل پر بحث کی جاتی ہے۔
دلیل اوّل
اولاً: سیدنا ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت جو مشکوٰۃ کے حوالے سے ذکر کی گئی اس میں کسی بھی عدد کا ذکر نہیں نہ آٹھ کا اور نہ بیس کا اور نہ ہی کوئی اور عدد کا ۔ بلکہ اس میں تو صرف قیام رمضان کی فضیلت اور اس پر ترغیب کا ذکر ہے مولانا صاحب نے روایت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’جس میں تعداد رکعات کا ذکر نہیں ‘‘ تو پھر ایسی روایت کو معرض استدلال میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہاں تو وہ روایت چاہئے جس میں بیس رکعات کا ذکر ہو نیز مولانا صاحب کا یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی دور خلافت تک کوئی بھی عدد مقرر کیا ہوا نہ تھا سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے یہ عدد لا کر مقرر کیا اس کے غلط اور باطل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے معین اور محدود نہیں فرمایا اس کو بعد میں معین اور محدود کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ۔
ثانیاً: ’’ ثمان رکعات ‘‘ یعنی آٹھ رکعات کی تعیین کے بارے میں خود احادیث موجود ہیں اور حدیث ’’ ماکان یزید‘‘ میں تو زیادتی کا انکار موجود ہے تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں عمر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت سے پہلے عدد کی تعیین نہیں تھی سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے عدد کی تعیین کی بلکہ یہ تو تبدیلی ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو حق نہیں ۔
دلیل ثانی
اعرج راوی کا اثر جو کہ مشکوٰۃ کے حوالہ سے ہے بلکہ اس میں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا وہ نماز پڑھانے والا قاری کون تھا صحابی تھا کہ تابعی اس کے علاوہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے یا تابعین اس کی بھی وضاحت موجود نہیں اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہ ہوگی اس لئے کہ تابعین کے آثار آپ کے نزدیک بھی معتبر نہیں جیسا کہ ’’ میزان شہرانی‘‘ وغیرہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ سے مروی ہے کہ ’’اذا جاء عن التابعین راحمناہم‘‘ نیز سیوطی’’رسالۃ المصابیح فی صلوٰۃ التراویح‘‘ میں علامہ سبکی سے نقل کرتے ہیں :
’’ورایت فی کتاب سعید بن منصور آثارا فی صلوۃ عشرین رکعۃ و ست و ثلاثین رکعۃ لکنہا بعد زمان عمر بن الخطاب ‘‘۔
یعنی میں نے سنن سعید بن منصور میں بیس اور چھتیس رکعات کے متعلق کچھ آثار دیکھے ہیں لیکن ان تمام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے بعد کا ذکر ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ بیس رکعات کے رواج کی نسبت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف کرنا یہ ان پر بے بنیاد الزام ہے ۔مولانا صاحب اس دلیل کے بعد لکھتے ہیں کہ اس سے واضح ہو گیا کہ ابتدائی دور میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا صرف آٹھ رکعات پر عمل نہ تھا بلکہ وہ بارہ رکعات بھی پڑھتے تھے مولانا صاحب آٹھ اور بارہ کو چھوڑیں آپ صرف بیس کی فکر کریں اس کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کریں اس کے علاوہ اس روایت میں تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا نام تک ہی نہیں تو پھر کس لئے ’’رجما بالغیب‘‘ ان کی طرف نسبت جوڑتے ہو۔
دلیل ثالث
جس میں نہ کوئی آیت ہے اور نہ کوئی حدیث ہے اور نہ صحابی کا کوئی اثر ہے اور نہ ہی کسی تابعی کا کوئی قول ہے بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ مشکوٰۃ کے حاشیہ مرقاۃ میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی رکعات کے لئے عدد مقرر نہیں فرمایا۔جب اوپر احادیث سے آٹھ کے عدد کی تعیین معلوم ہو چکی ہے تو پھر ایسی واضح احادیث کی موجودگی میں اس حاشیے کے انکار کا کیا وزن ہوگا جب مولانا صاحب خود یہ لکھ چکا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات ثابت ہیں تو پھر اس نے اپنے ضمیر کے خلاف ایسی عبارت کا کیسے اعتبار کر لیا۔
پائے استدلالیان چوبین بود
پائے چوبین سخت بے تمکین بود
بلکہ مولانا صاحب اگر اصل مرقاۃ کی طرف رجوع کر لیتے تو بھی اتنی غلطی کا شکار نہ ہوتے کیونکہ مرقاۃ میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ
’’لعلہم فی بعض اللیالی قصدوا التشبیہ بہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ صح عنہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بہم ثمان رکعات والوتر‘‘۔
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے آٹھ رکعات تراویح اور وتر پڑھایا۔
بس مولانا صاحب جس علامہ علی القاری کے در پر استغاثہ لے کر (مدد مانگنے) گئے تھے انھوں نے بھی فیصلہ آپ کے خلاف دیدیا ہے آپ کے علم پر افسوس!
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
حیف ہے کہ وہ بھی تیرا چاہنے والا نکلا
دلیل رابع
اولاً۔ اس دلیل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص یہ گمان کرے گا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا عدد مقرر ہے وہ غلطی اور بھول کا شکار ہے یاد رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف یہ نسبت کرنا بھی غلط ہے۔کیونکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فتویٰ میں صراحت موجود ہے کہ
’’و قد جاء مصرحا فی السنن انہ کما صلی بہم قیام رمضان صلی بعد العشاء و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامہ باللیل ھو وترہ یصلی باللیل فی رمضان وغیر رمضان احد عشر رکعۃ اوثلث عشر رکعۃ ‘‘۔
یعنی سنن میں صراحت کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ رضی اللہ عنہم کو رمضان میں نماز پڑھاتے تو عشاء کے بعد نماز پڑھاتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کا قیام آپ کا وتر ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھتے تھے۔
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام رمضان (تراویح) وہی صلوٰۃ اللیل تھی جس کی تعداد گیارہ سے تیرہ تک تھی ۔
ثانیاً: امام ابن تیمیہ صحیح احادیث کی موجودگی میں عد د معین کا کیسے انکار کرسکتے ہیں ۔
ثالثاً: امام ابن تیمیہ کا قول امت کے لئے سند نہیں سند تو صرف قرآن و حدیث ہے۔
رابعاً: آپ کے احناف تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ کے عدد کی تعیین کے قائل ہیں تو پھر آپ نے ان کو چھوڑ کر ابن تیمیہ کاسہارا کیوں لیا ؟اور حنفی گھر چھوڑ کر حنبلی جنگل میں کیوں چھپ رہے ہو؟بلکہ گمراہی یہی ہے کہ کسی کتاب یا عالم کی طرف غلط نسبت کی جائے۔
دلیل خامس
اس دلیل میں مشکوٰۃ سے عبدالرحمن بن عبد القاری کے طریق سے جو کچھ نقل کیا گیا ہے اس میں بھی تعداد کا ذکر نہیں توپھر بیس رکعات کے ثبوت کے لئے اس کو پیش کرنے کا کیا مطلب ؟مولانا صاحب اس دلیل کے بعد لکھتے ہیں کہ اس سے اظہر ہے کہ الی قولہ رکعات کی تعداد کی تعیین کے بغیر پڑھتے تھے ۔ مولانا صاحب کی اس روایت میں تعداد کا ذکر نہیں تو دوسری میں تو ہے مثلاً موطا والی روایت (جو کہ اشتہار میں لائی گئی ہے)۔
’’امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب الخ اور یہ روایت ساکت ہے اور موطا والی روایت ناطق ہے اور یہ روایت مجمل ہے اور موطا والی روایت مفصل ہے نیز آپ خود اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اپنے ابتدائی دور میں آٹھ رکعات پڑھائی ہیں پھر یہ کیسے کہتے ہو کہ عدد کی تعیین کا ذکر نہیں ایک بات لکھ کر پھر اس سے اعراض کیوں کرتے ہو؟
دلیل سادس
ا س دلیل میں بیہقی کی روایت سائب بن یزید سے لائی گئی ہے کہ ’’ہم سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں بیس رکعات پڑھتے تھے‘‘۔لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں بیہقی کے استاد ابو عبداﷲ الحسن بن محمد بن الحسن ابن دستویہ الدنیوری کی کہیں سے توثیق معلوم نہیں ہوئی اس لئے وہ مجہول الحال کہلائے گا اور موطا کی گیارہ والی روایت بالکل صحیح ہے جس کی سند میں کوئی شک و شبہ نہیں آپ نے خود صفحہ 8میں لکھا ہے کہ
’’ اس پر احناف کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ‘‘
اب یہ موطا کی روایت مقدم کہلائے گی۔
اولاً: اس لئے کہ اس کی سند میں کوئی شک نہیں اور بیہقی والی روایت میں شک ہے ۔
’’فدع مایریبک الی مالایریبک‘‘۔(الحدیث رواہ الترمذی وغیرہ)۔
ثانیاً: اس لئے کہ اصل حدیث مؤطا میں ہے اس لئے اسی کو ترجیح دی جائے گی ۔
ثالثاً : اس لئے کہ سنن سعید بن منصور میں بھی یہ حدیث سائب بن یزید سے مروی ہے کہ ہم سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں گیارہ رکعات پڑھتے تھے سیوطی رسالہ المصابیح میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ
’’اسنادہ فی عنایۃ الصحۃ‘‘ یعنی اس کی سند انتہائی صحت کو پہنچی ہوئی ہے۔
اور انھوں نے اس کو بیہقی والی روایت پر ترجیح دی ہے تو پھر جو روایت انتہائی صحت کو پہنچی ہوئی ہو اس کا مقابلہ مشکوک روایت کے ساتھ کیسے ہوسکتا ہے اور اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ کوئی روایت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی صراحت موجود ہے کہ بیس رکعات پڑھنے کا سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کو علم تھا اور اس کے مقابلے میں موطا والی روایت میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اس کا حکم دیا تھا اس لئے مؤطا والی یہ روایت قوی نص ہونے کی وجہ سے مقدم کہلائے گی۔ نیز اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کو علم بھی تھا ’’وان لم یکن کذالک‘‘ یعنی اگرچہ ایسا نہیں تھا۔
اس کے باوجود بھی انتہائی طور اجازت با تقریر ثابت ہوگی حالانکہ قولی روایت فعلی اور تقریری (دونوں)روایت پر مقدم ہوتی ہے اور یہ اجازت سے اولیٰ اور ارجح ہے اگر آپ کہیں کہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ:
’’کان الناس یقومون فی رمضان مع عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی رمضان ثلاث و عشرین رکعۃ ‘‘۔
یعنی رمضان میں لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تیرہ رکعات نماز پڑھتے تھے
تو میں عرض کروں گا کہ اس میں بھی وہی سابقہ شکوک موجود ہیں کیونکہ اس میں بھی سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے علم کا ذکر نہیں۔اور یہ بھی کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ یزید بن رومان نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا زمانہ نہیں پایا چنانچہ احناف کے مایہ ناز عالم علامہ زیلعی نصب الرایۃ میں لکھتے ہیں کہ
’’یزید بن رومان لم یشرک عمر رضی اﷲ عنہ ‘‘
اور نیموی حنفی نے بھی یہی بات قبول کی ہے اور محدّثین کی منقطع ضعیف روایات میں سے ایک قسم ہے اور سائب والی روایت معتبر کہلائے گی کیونکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہے اور اس میں صراحت بھی موجود ہے۔ فیقدم علیہ من کل الوجوہ مولانا صاحب نے اگرچہ نوری سے تصحیح نقل کی ہے مگر اس نے سیوطی اور اسوالی روایت کو ترجیح دی ہے اور تحقیق کا بھی یہی تقاضا ہے کما معنیٰ اور ان روایات میں مولانا صاحب نے تطبیق بھی ذکر کی ہے کہ پہلے آٹھ رکعات تھیں پھر بعد میں بیس رکعات ہو گئیں اور یہ تطبیق تو تب صحیح ہوگی جب وہ بیس رکعات والی روایت کو صحیح اور سالم ثابت کرے اور تمام شکوک سے اسے پاک کرے اس کے بعد تطبیق کی بات کرے کیونکہ ناسخ کا منسوخ سے قوی ہونا ضروری ہے جیسا کہ زیلعی حنفی نے نصب الرایۃ ص 292ج اول میں لکھا ہے کہ
ومن شرط الناسخ ان یکون اقوی من المنسوخ
یعنی ناسخ کی شرط یہ ہے کہ وہ منسوخ سے قوی ہو۔
اور فی ما نحن فیہ معاملہ اس کے برعکس ہے نیز ناسخ کا منسوخ سے زیادہ موثر ہونا بھی لازم ہے اب مولانا صاحب کے ذمے ہے کہ وہ اولاً تو تاریخ سے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ والی بیس رکعات والی روایت کا زمانے کے اعتبار سے گیارہ رکعات والی روایت سے تاخر ثابت کرے کیونکہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں آٹھ کا اقرار تو مولانا صاحب نے بھی اپنے کتابچے کے ص8 اور 7پر کیا ہے اب چاہیئے کہ مولانا صاحب وہ تاریخ ، دن ، مہینہ اور سال بتائیں جب سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے یہ تبدیلی کی۔وھذا ما لیس لہ الی ذالک من سبیل (ترجمہ) اور یہ اس کے بس میں نہیں کیونکہ ایسا اہم جماعتی کام عہد نبوی اور عہد صدیقی میں ایک حال پر ہو اور اس کے کچھ عرصے بعد سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اپنے دور خلافت میں اس میں تبدیلی کریں اس کے لئے یقینی اور حتمی ثبوت چاہیئے محض شکوک سے کام نہیں چلے گا نیز محض دعوے سے نسخ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ہم بھی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ گیارہ رکعات والی روایت متاخر ہے۔فما ھو جوابکم فھو جوابنا اگر فرضاً و تقدیراً بیس والی روایت سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے ثابت ہے تو پھر ہوسکتا ہے کہ انھوں نے ابتدا میں یہ کام کیا ہو اور بعد میں جب انھیں حدیث پہنچ گئی ہو تو پھر انھوں نے مسنون عدد کا حکم دے دیا ہو جیسا کہ امام زرقانی شرح موطا میں گیارہ والی روایت کی شرح لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’قال الباجی لعل عمر رضی اﷲ عنہ اخذ ذالک من صلواۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ففی حدیث عائشۃ انہا سئلت عن صلواتہ فی رمضان فقالت ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ ‘‘۔
یعنی سیدناعمر رضی اﷲ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو جو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا شاید وہ حکم انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی نماز سے اخذ کیا تھا کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں ’’ماکان یزید‘‘ الخ۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے نیز ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ زیادہ رکعات سے کم رکعات (نماز نبوی پر اکتفا کرتے ہوئے) زیادہ افضل ہوں اگر ان میں قرات لمبی کی جائے کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو طول القنوت بہت پسند تھی جیسا کہ حدیث
’’افضل الصلوٰۃ طول القنوت‘‘ (المشکوۃ 5/351)
یعنی لمبے قیام والی نماز افضل ہے۔
بھی اسی پر شاہد ہے اس میں انھوں نے حکم دیا ہے کہ زیادہ رکعات کی بجائے نبوی رکعات پر اکتفا کرو جس میں لمبی قرات ہو چنانچہ موطا کی روایت (اشتہار میں مذکور )اسی کے بارے میں ہے کہ
وقد کان القاری یقراء بالمئتین حتی کنا نعتمد علی العصی من طول القیام الخ۔
یعنی قاری ایک رکعت میں تقریباً دو سو آیات پڑھتا تھا یہاں تک کہ قیام کی طوالت کے سبب ہم لاٹھیوں پر سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے یہ تمام قرائن بتاتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے اگربیس رکعات پڑھائی بھی تھیں تو آخر میں آ کر دوبارہ اس حکم کو تبدیل کر کے گیارہ رکعات مقرر کی تھیں تاکہ سنت کے مطابق ہو جائے جیسا کہ باجی کی گفتگو سے معلوم ہو چکا اور تاکہ نماز میں طول القیام بھی حاصل ہو ۔فتفکر۔ پھر مولانا صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ
ثم استقرالامر علی العشرین الخ
یعنی پھر بیس پڑھی معاملہ برقرار رہا۔
لیکن یہ بھی محض دعویٰ ہے جسے صراحت کے ساتھ باطل کیا جا چکا ہے اور اگر احناف کے مذہب کے مطابق مان بھی لیا جائے تو بعد میں وجود میں آنے والا اجماع سابقہ اختلاف کو ختم نہیں کرسکتا کما تقدم۔ اس کے بعد مولانا صاحب لکھتے ہیں کہ ’’بیہقی ، نووی ، اور بخاری کے حاشیہ پر ابن الہمام الخ‘‘ لیکن واجب الاداء تو تب ہو جب سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت پایہ ثبوت کو پہنچی ہو ولیس کذالک و علی التقدیر۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بارے میں حکم دیا ہو مولانا صاحب کو اجازت ہے کہ وہ ساری دنیا کا چکر لگا کر (وادعوا من استطعتم من دون اﷲ) یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ جسے چاہے بلا لو کوئی ایک روایت ثابت کرے جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو یا کسی قاری کو بیس رکعات پڑھنے کا حکم دیا ہو فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا۔اگر نہ کر سکے تو پھر کبھی نہ کر سکیں گے۔
دلیل سابع
مولانا صاحب نے بیہقی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ’’سیدناعمر رضی اﷲ عنہ ، سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ اور سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ یعنی خلفاء کے زمانے میں بیس رکعات نماز تراویح تھی مگر یہ روایت بیہقی میں ہے ہی نہیں پتہ نہیں آپ کہاں سے لائے ہیں مولانا صاحب اﷲ کا خوف کرو ایسا جھوٹ!!!
بیہقی کو کھول کر تو دیکھو کہ اس میں یہ روایت ہے ؟محض جھوٹ کا سہارا لے کر لوگوں کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر اپنا مذہب ثابت کرنا ایمانداری کے خلاف ہے خلفاء پر اتنا بڑا بہتان اﷲ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے؟جب یہ خلفاء قیامت کے دن آپ کے خلاف فریاد کریں گے۔
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں و خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
مولانا صاحب کے پاس اگر بیہقی نہ ہو تو ہمارے پاس آئیں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بیہقی کے قلمی اور طبعی دونوں نسخے ہمارے پاس موجود ہیں اور دیگر علماء کو بھی اپنے ساتھ لائیں اور پھر غور سے دیکھیں کہ یہ روایت جن الفاظ کے ساتھ آپ نے دلیل نمبر سات میں ذکر کی ہے اس کتاب میں موجود ہے ؟ہر گز نہیں !ہرگز نہیں !!!۔
دلیل ثامن
بیہقی کے حوالے سے شبرۃ کی روایت بیان کی گئی ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ جو کہ چار خلفاء میں سے تھے وہ رمضان میں امام بن کر لوگوں کو پانچ ترویحات یعنی بیس رکعات پڑھاتے تھے اور مولانا صاحب نے عربی الفاظ یوں نقل کئے ہیں ۔
اخرج بیہقی عن شبرۃ و کان من اصحاب علی ان کان یؤمہم فی رمضان فیصلی خمس ترویحات‘‘۔
لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہیبیہقی میں موجود نہیں بلکہ الفاظ اس طرح ہیں
’’وروینا عن شتیر بن شکیل و کان من اصحاب علی رضی اﷲ عنہ انہ کان یومہم فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ و یوتر بثلاث‘‘۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھ شتیر بن شکیل سے ہمیں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو بیس رکعات پڑھاتا تھا اور تین وتر۔
لیکن یہ روایت بھی کسی کام کی نہیں کیونکہ بیہقی نے اسے بلا سند نقل کیا ہے اور اصول کے مطابق سند کے بغیر روایت مردود ہوتی ہے ذرا اصول حدیث کی کتب کا مطالعہ کر کے پھر روایات نقل کیا کریں اس کے علاوہ شتیر بن شکیل کوئی صحابی بھی نہیں بلکہ تابعی ہے اور تابعی کا قول یا فعل آپ کے مذہب کے مطابق بھی قابل اعتبار نہیں نیز اس روایت میں یہ بھی وضاحت نہیں کہ یہ کام سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے حکم یا اجازت کے ساتھ کیا گیا اور نہ ہی یہ ذکر ہے کہ اس کام کا سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کو علم تھا ایسے ثبوت کے لئے مولانا صاحب کو کوئی دوسری روایات ڈھونڈنی چاہئیں اور جو روایات اس قسم کے شکوک سے محفوظ نہ ہوں ان کو صحیح احادیث اور قوی آثار کے مقابلے میں پیش کرنا صرف آپ مجتہدین کا ہی کام ہے کیسے مولانا صاحب بات سمجھ میں آئی ۔
دلیل تاسع
اس دلیل میں عرفجہ کی روایت بیہقی کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے لیکن اس میں بیس کا ذکر ہی نہیں مولانا صاحب یہ کیسی دلیل ہے ؟اعداد و شمار بڑھانا آسان ہے لیکن دلائل کے لئے صحیح اور صریح روایات کی ضرورت ہے ۔و دون خرد القتاد۔
دلیل عاشر
اس دلیل میں بیہقی کے حوالے سے ابو عبدالرحمان کے طریق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ عمدہ قرآن پڑھنے والوں کو رمضان میں بلاتے اور پھر ان میں سے کسی ایک کو امام مقرر کرتے اور اسے جماعت کو بیس رکعات پڑھانے کا حکم فرماتے تھے الخ۔حالانکہ یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ اس کی سند میں حماد بن شعیب مشہور ضعیف راوی ہے اسے امام یحییٰ ابن حصین ، امام نسائی ، اور دیگر کئی ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے امام ابن حصین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس کی نقل کردہ روایت لکھنے کے ہی قابل نہیں اور ابن عدی کا کہنا ہے کہ اس کی اکثر روایات تمام راویوں کے خلاف ہوتی ہیں اور امام بخاری نے کہا ہے کہ فیہ نظر تو پھرجس راوی کو آپکے اپنے بزرگ خود ضعیف قرار دیں تو آپ اس کی روایت کیسے پیش کر رہے ہو؟ نیز حماد کا استاد عطاء بن السائب بھی متغیر الحفظ ہے (تقریب التھذیب) اور اس قسم کے راوی کی حدیث بھی معتبر نہیں ہوگی۔ کما تقرر فی الاصول۔یہ تھے مولانا صاحب کے دلائل جن کی حقیقت آپ کے سامنے پیش کی گئی اس کے بعد مناسب ہے کہ ہم کچھ مزید دلائل ذکر کریں۔
دم میں جب تک دم ہے دامانِ وفا چھوٹے نہیں
رشتہء الفت جہاں تک ہوسکے ٹوٹے نہیں
دلائل ذکر کرنے سے پہلے یہ بات معلوم ہونا چاہیئے کہ جب تینوں خلفاء سے بیس رکعات سے متعلق کوئی بھی صحیح اور صریح روایت موجود نہیں اور ادھر مولانا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ ابوبکر کے مکمل دور خلافت میں اور عمر رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی دور تک آٹھ رکعات ہی تھیں اور ظاہر ہے کہ اس وقت تینوں خلفاء عمر، عثمان، اور علی رضی اﷲ عنہم موجود تھے تو پھر لازماً ان کا بھی یہی عمل تھا کیونکہ بقول مولانا صاحب کہ بیس کا عمل بعد میں شروع ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ تینوں خلفاء کا عمل یہی آٹھ والا ہی تھا ۔ کیونکہ اس کے بارے میں خود اپنا اقرار موجود ہے ۔ اس کے علاوہ بعد میں تبدیلی کے متعلق وہ کوئی صحیح روایت پیش نہیں کرسکا اس لئے اس کا کیا ہوا اپنا اقرار مقدم رہے گا ایسی وضاحت کے بعد کسی دوسری دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی تاہم پھر بھی چند دلائل ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ مولانا صاحب یہ نہ سمجھ لے کہ ان چار دلائل (جو اشتہار میں مذکور ہیں )کے علاوہ اور کوئی دلیل موجود نہیں ۔
مٹا نہ رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی
رکے رہے ہاتھ اب ہے رگ گلو باقی
علماء احناف
معزز قارئین : دلیل کے طور پر ہم یہاں صرف علماء احناف کی عبارات نقل کریں گے جن میں صراحۃً اوراشارۃً روایات بھی آ جاتی ہیں اسلئے کہ احادیث کے ساتھ ساتھ بقول ’’شھد شاھد من اھلہا‘‘ مولانا صاحب کے مذہب کی صفائی اس کے اپنے ہی گھر سے ہو جائے اور مولانا صاحب حسرت کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
1۔ حنفی مسلک کے مایہ ناز علامہ القاری ’’مرقاۃ شرح مشکوۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’وفی صحیحی ابن خزیمۃ وابن حبان انہ صلی بہم ثمان رکعات والوتر‘‘ (مرقاۃ ص 175ج2)
یعنی صحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان میں حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو آٹھ رکعات تراویح اور وتر پڑھائے ۔
2۔ حنفی مذہب کے گریجویٹ اور مجتہد فی المذہب شیخ ابن ھمام فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھتے ہیں کہ
’’ان قیام رمضان سنۃ احدی عشرۃ رکعۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ السلام‘‘ (فتح القدیر ص205ج2)
یعنی رمضان میں وتر سمیت گیارہ رکعات تراویح سنت ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل تھا۔
مولانا صاحب جس عمل کو ابن ھمام سنت قرار دے رہے ہیں آپ اسے اہلسنت والجماعت کے مذہب کے خلاف کیسے قرار دیتے ہو؟
3۔ ابن ھمام حنفی اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
’’واما ما روی ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ والطبرانی عنہ والبیہقی من حدیث ابن عباس انہ علیہ السلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سوای الوتر فضعیف بابی شیبۃ بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبۃ متفق علی ضعفہ مع مخالفہا الصحیح ‘‘۔
یعنی بیس رکعات والی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ مصنف ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی میں موجود ہے وہ ضعیف ہے اور ابو شیبہ راوی(جس کا اوپر ذکر گزر چکا ہے) اس کے ضعف پر تمام محدّثین کا اتفاق ہے بلکہ یہ روایت اس صحیح روایت کے خلاف ہے جس میں گیارہ رکعات کا ذکر ہے ۔
قارئین: آپ انصاف فرمائیں کہ ابن ھمام جس کی حیثیت احناف کے ہاں وہ ہے جو کہ محدّثین کے نزدیک نووی، ذھبی ، ابن حجر، ابن جوزی اور خطیب بغدادی رحمہم اللہ وغیرہ کی ہے۔ وہ صاف لکھتے ہیں کہ بیس والی روایت ضعیف ہے اور اس کے راوی کے ضعیف اور ناکارہ ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا والی روایت جس میں گیارہ کا ذکر ہے (اشتہار میں ص 1پر ذکر کردہ حدیث ماکان یزید الخ) صحیح ہے اور یہ حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف بھی ہے لہٰذا یہ منکر کہلائے گی ایسی وضاحت اور صراحت کے باوجود مولانا صاحب نہ سمجھے تو پھر اس کے پیروکاروں کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
گر ہمیں مکتب است وہمیں ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
4۔ فخر علماء احناف ھند علامہ عبد الحئی لکھنوی التعلیق الممجد علی مؤطا امام محمد میں لکھتے ہیں کہ :
’’لاشک فی صحۃ حدیث عائشہ و ضعف حدیث ابن عباس‘‘
یعنی عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث کے صحیح ہونے اور ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی حدیث کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اب مولانا صاحب کو بھی شک میں نہیں رہنا چاہیئے بلکہ ضعیف کو چھوڑ کر صحیح پر عمل کرنا چاہیئے۔
کذالک یفعل الرجل البصیر
5۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی عمدۃ القاری شرح بخاری میں لکھتے ہیں :
’’ فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورہ عدد ھذہ الصلوۃ التی صلاہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت روی ابن خزیمہ و ابن حبان من حدیث جابر قال صلی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر (عمدۃ القاری ص 598ج3)
اگر کوئی اعتراض کرنے والا کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح والی راتوں میں رکعات کی تعداد کا ذکر نہیں تو اس کے جواب میں میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان میں جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات پڑھائیں اور پھر وتر پڑھایا۔
علامہ عینی حنفی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں ’’الفوائد الہیہ فی تراجم الحنفیۃ‘‘ کے ص 208پر مولانا عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں کہ
’’ ولولم یکن فیہ رائحۃ التعصب المذہبی لکان اجود وا جود‘‘
یعنی اگر علامہ عینی میں مذہبی تعصب کی بُونہ ہوتی تو بہت اچھا ہوتا
اسی مذہبی حامی کی ایسی عبارت بھی زبردست شہادت ہے اولاً اس لئے کہ یہ جابر کی آٹھ کے عدد والی روایت (جو کہ اشتہار میں مذکور ہے) وہ ثابت ہے ثانیاً یہ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات ثابت ہیں : ثالثاً یہ کہ مولانا صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہو گیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد مقرر نہیں ۔ الغرض اس عبارت سے مولانا صاحب کی ساری کی ساری تقریر ھبآء منثورا ہو گئی۔ والحمد ﷲ علٰی ذالک۔
6۔ حافظ جمال الدین زیلعی حنفی جس کی تحقیق اور حدیث میں مہارت پر احناف بڑا ناز ہے کتاب نصب الرایۃ میں لکھتے ہیں کہ
’’وھو معلول بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبۃ وھو متفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ سئل عائشۃ کیف کانت صلاۃ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان قالت ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ‘‘
(نصب الرایۃ 2/153)
یعنی بیس رکعات والی روایت معلول ہے اس لئے کہ اس کی سند میں ابو شیبہ نامی راوی ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے اس کے علاوہ یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا والی بخاری کی روایت کے بھی مخالف ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ رکعات نہیں پڑھتے تھے۔
7۔ شیخ عبد الحق دہلوی جس کی تحقیق احناف کے لئے سند ہے وہ کتاب ’’ماثبت باالسنۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’روی انہ کان بعض السلف فی عہد عمر بن عبدالعزیز یصلون احدی عشر رکعۃ قصدا للتشبہ برسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں بعض سلف صالحین گیارہ رکعات تراویح پڑھتے تھے خصوصاً اس نیت کے ساتھ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت کا شرف حاصل ہو۔
اس عبارت سے چند لطیف باتیں معلوم ہوئیں۔
۱۔ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھتے تھے۔
۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اور مطابق کا شرف صرف اور صرف گیارہ رکعات پڑھنے میں ہے۔
۳۔ جبکہ مولانا صاحب کا یہ گمان بھی ختم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے بیس مقرر کی تھیں اور آخر تک یہی بیس ہی رہیں ۔بلکہ اس کے برعکس ثابت ہوا کہ عمر رضی اﷲ عنہ کے بعد سلف صالحین نے گیارہ رکعات پڑھی ہیں کیونکہ عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ عمر بن خطاب کے بہت بعد کا ہے۔
تنبیہ: یہ اعتراض کرنا غلط ہوگا کہ اس بات کا امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کو علم تھا یا نہیں کیونکہ یہ ہمارا دعویٰ ہی نہیں ہے بلکہ ہم صرف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے بعد سلف صالحین بھی آٹھ رکعات ہی پڑھتے تھے نیز امام المغازی محمد بن اسحق جو کہ تبع تابعین میں سے ہیں انھوں نے بھی فجر کی سنتوں کے ساتھ تیرہ رکعات کو اختیار کیا ہے۔ (قیام اللیل للمروزی ص 91)
ثانیاً: یہ کہ آپ کی ذکر کردہ روایات ’’کان الناس یقومون فی زمان عمر‘‘ جس کو آپ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے بیس رکعات کے ثبوت کے لئے پیش کر رہے ہیں اس میں تو ان سے عمر بن عبدالعزیز کی دلیل کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ دونوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں ۔
8۔ علامہ شرنبلاقی حنفی نور الایضاح کے مصنف اس کی شرح مراقی الفلاح میں لکھتے ہیں کہ:
ثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالجماعۃ احدی عشرۃ رکعۃ بالوتر
(مراقی الفلاح ص 69)
9۔ علامہ زرکشی حنفی لکھتے ہیں کہ
’’ دعوی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی فی اللیلتبن اللتبن خرج فیہا عشرین رکعۃ فھو منکر لم یصح بل الثابت فی الصحیح الصلوۃ من غیر ذکر العدد و جاء فی روایۃ جابر انہ صلی بہم ثمان رکعات الوتر ثم انتظروہ فی القابلۃ فلم یخرج الیہم ۔رواہ ابن خزیمۃ و ابن حبان فی صحیحہما (الحاوی للفتاوی للسیوطی ص 35ج1)
یعنی یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو راتوں میں بیس رکعات تراویح پڑھائیں کیونکہ اس کے متعلق بیان کردہ روایت منکر اور غیر صحیح ہے صحیح بخاری والی روایت میں عدد کا ذکر نہیں ہے بلکہ صحیح ابن خزیمۃ اور صحیح ابن حبان کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات تراویح اور وتر پڑھاتے تھے۔
10۔ موجودہ علماء احناف کے مرجع و ماویٰ اور علماء دیوبند کے قائم شدہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی مولوی محمد بن قاسم نانوتوی کی کتاب لطائف قاسمیہ (جلد 3ص8)پر لکھا ہوا ہے کہ:
’’وزیادۃ از فعل سرور مالم صلی اللہ علیہ وسلم اکد از بست‘‘
یعنی وتر سمیت گیارہ کا عدد جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت وہ بیس رکعات کے مقابلے میں زیادہ مؤکد ہے
نیز اسی طرح مولانا محمد زکریا کاندھلوی حنفی نے اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک ص 397ج1پر ، طحطاوی نے شرح درمختار ص 296پر اور علامہ ابو سعود حنفی نے شرح کنز میں صراحت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات ثابت نہیں ہیں آخر میں احناف کے سرتاج سید انور شاہ کشمیری کا قول نقل کرنا کافی سمجھتا ہوں شاہ صاحب موصوف العرف الشنلی علی جامع الترمذی ج3ص229پر لکھتے ہیں کہ:
’’ ولا منا ص من تسلیم انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی التراویح ثمان رکعۃ ……واما حدیث العشرین فمنہ ضعیف ‘‘۔
یعنی اس بات کو قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی کوئی فرار کاراستہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح پڑھی ہے اس کے علاوہ بیس والی روایت ضعیف ہے
اور ملا علی قاری کا قول جو کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ تابعین نے کچھ راتوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مطابقت کی غرض سے گیارہ رکعات پڑھی ہیں۔
الحاصل فقہاء کی ذکر کردہ عبارات سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے آٹھ رکعات تراویح کا ثبوت مل گیا ہے وھو المطلوب اس کے بعد بھی کچھ اور ثبوت پیش خدمت ہیں۔
شوافع کا مذہب
1۔ علامہ جلال الدین سیوطی جو کہ احناف اور شوافع کے نزدیک قابل اعتبار شخصیت ہیں انھوں نے اپنے ایک مستقل رسالے بنام ’’المصابیح فی صلوٰۃ التراویح‘‘ میں ثابت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات ہی پڑھی ہیں اور انھوں نے سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی گیارہ رکعات والی روایت کو ترجیح دی ہے اور اس بیس رکعات والی روایت پر سخت جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ ضعیف جدا……لا یحل الاحتجاج بحدیثہ ‘‘
یعنی یہ حدیث سخت ضعیف اور اس کا راوی ابو شیبہ ایسا ضعیف ہے کہ اس کی روایت سے دلیل لینا ہی حرام ہے اور اس کو منکر بھی قرار دیا ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ:
’’ فالحاصل ان العشرین رکعۃ لم تثبت من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم وما نقلہ عن صحیح ابن حبان غایۃ فی ما ذھبنا الیہ من تمسکنا بما فی البخاری عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا ’’ماکان یزید فی رمضان ولافی غیرہ علی احدی عشرۃ فانہ ھو موافق من حیث انہ صلی التراویح ثمانیا ثم اوتر بثلاث فتلک احدی عشرۃ ومما یدل علی ذالک ایضاًانہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا عمل عملا واظب علیہ کما واظب علی الرکعتین اللتین قضاھما بعدالعصر مع کونہ الصلوۃ فی ذالک الوقت منہیا عنہا ولو فعل العشرین ولو مرۃ لم یترکہا ابدا ولو وقع ذالک لم یخف علی عائشۃ حیث قالت ماتقدم واﷲ اعلم
(الحاوی للفتاوی ص 349ج1)
حاصل کلام یہ کہ بیس رکعات پڑھنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ رکعات نہیں پڑھیں اس سے ہمارا دلیل پکڑنا بالکل درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کی نماز آٹھ رکعات پڑھتے تھے کیونکہ صحیح ابن حبان کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر پڑھے جو کہ مجموعی طور پر گیارہ رکعات ہوئیں نیز آپ کوئی بھی عمل شروع کرتے تو پھر اس پر ہمیشگی کرتے تھے جیساکہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر نماز کی دو سنتیں چھوٹ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عصر نماز کے بعد پڑھا اور پھر ان پر ہمیشگی کی حالانکہ نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے تو پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک مرتبہ بیس رکعات پڑھتے تو اپنی عادت کے مطابق لازماً اس پر ہمیشگی کرتے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے بھی نہ چھپاتے جبکہ وہ خود فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
2۔ علامہ حموی شافعی شرح الاشباھـ والنظائر میں لکھتے ہیں کہ:
’’ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یصلہا عشرین بل ثمانیا ‘‘
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح میں بیس رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات پڑھی ہیں۔
3۔ امام بیہقی جو کہ مذہب کے مجتہد کا درجہ رکھتے ہیں اپنی کتاب (سنن کبریٰ ص 495ج2) میں باب’’ ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ‘‘
میں پہلے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی گیارہ والی روایت نقل کر کے اس کی تصحیح بیان کرتے ہیں کہ ’’رواہ البخاری فی صحیحہ ‘‘ یعنی یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے ۔اور پھر اس کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بیس رکعات والی روایت نقل کر کے اس کے ضعیف قرار دیتے ہیں اس سے ثابت ہوا کہ شافعی مذہب کے اس چوٹی کے عالم کے نزدیک بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات ہی ثابت ہیں نہ کہ بیس۔
حنابلہ کا مذہب
1۔ پیچھے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ذکر ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات ہی مروی ہیں فلیراجعہ۔
2۔ امام ابن القیم ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
وکان قیامہ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل احدی عشرۃ رکعۃ او ثلاث عشرۃ رکعۃ قالہ ابن عباس و عائشۃ ففی الصحیحین عنہا کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لایزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ والرکعتان فرق الاحدی عشرۃ برکعتی الفجر (ذکرہ مسلم فی صحیحہ ص87ج اول)
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز گیارہ یا تیرہ رکعات ہیں جیسا کہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما اور عائشۃ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے اور بخاری والی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ رکعات نہیں پڑھتے تھے اور تیرہ رکعات فجر کی سنتوں کے ساتھ ہیں جیساکہ صحیح مسلم کی حدیث میں مذکور ہے۔
3۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ علیہ نے بھی گیارہ رکعات کی اجازت دی ہے (المسوی شرح الموطا للشاہ ولی اﷲ دھلوی ص 174جلد اول)اور (الاختیارات العلمیۃ لابن تیمیہ ص 38)
مالکیہ کا مذہب
1۔ امام مالک رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ :
’’ الذی جمع علیہ الناس عمر ابن الخطاب احب الی وھو احدی عشرۃ رکعۃ بالوتر وھی صلوۃ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قیل لہ احدی عشرۃ رکعۃ بالوتر قال نعم و ثلاث عشرۃ رکعۃ قریب قال لا ادری من این حدیث ھذا الرکوک الکثیر‘‘(الحاوی للفتاویٰ ص 350جلد اول)
یعنی عمر رضی اﷲ عنہ نے تراویح کے جس عدد پر لوگوں کا اجماع کرایا اور اس پر انھیں جمع کیا وہ عدد مجھے محبوب اور پسند ہے اور وہ عدد گیارہ رکعات والا ہے اور یہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی ان سے پوچھا گیا کہ گیارہ رکعات وتر کے ساتھ مراد ہیں ؟تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں اور تیرہ رکعات بھی ان کے قریب ہیں (کہ ان میں فجر کی سنت والی دو رکعتیں بھی داخل ہیں )یا تو پھر وتر کی رکعات پانچ تھیں کما مضی ۔امام مالک رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پتہ نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول عدد یعنی گیارہ رکعات سے زیادہ رکعات لوگوں نے کہاں سے بنا لی ہیں امام مالک کی اس عبارت سے بڑی اہم باتیں معلوم ہوئی ہیں ۔
1۔ یہ کہ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو گیارہ رکعات ہی پڑھنے پر جمع کیا تھا۔
2۔ یہ کہ موطا میں سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ سے دو قسم کی گیارہ اور بیس والی جو روایات ملتی ہیں ان میں سے صحیح اور راجح گیارہ رکعات والی ہی ہے اسی لئے تو اس روایت کو ترجیح دیتے ہوئے اسی عدد کو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں کیونکہ صاحب البیت ادری بما فیہ۔
تصنیف را مصنف نکو کند بیان
3۔ یہ کہ یہی عدد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔
4۔ یہی ’’ما انا علیہ و اصحابی ‘‘ والا طریقہ ہے ۔ کیونکہ یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا متفق علیہ عمل ہے ۔
5۔ یہ کہ امام مالک رحمہ اﷲ کے نزدیک بھی یہی عدد مختار ہے اور مالکیہ کے مذہب میں بھی یہی صحیح ہے۔
6۔ یہ کہ اس عدد کے علاوہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد فاروقی اور عہد صدیقی میں کوئی اور عدد ثابت نہیں۔
7۔ یہ کہ اس عدد سے زیادہ کا اختیار کرنا احداث فی الدین (دین میں نئے کام کا ایجاد کرنا)ہے۔
8۔ یہ کہ اہل مدینہ کا بھی یہی عمل تھا کیونکہ امام مالک رحمہ اﷲ علیہ کا یہی اصول تھا کہ وہ زیادہ تر مسائل میں اہل مدینہ کے عمل کو ترجیح دیتے تھے اور اسی کو اختیار کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن القیم نے بدایع الفوائد ص 32جلد 4 میں لکھا ہے کہ:
’’و من اصول مالک اتباع اہل المدینۃ و ان خالف الحدیث‘‘ الخ ۔
1۔ چہ جائیکہ وہ حدیث کے عین موافق ہو پھرتو سونے پر سہاگہ کی مثال ہوگی امام مالک کی اس گفتگو نے تو مولانا صاحب کا بالکل صفایا کر دیا ہے۔
2۔ اوپر زرقانی سے شرح موطا کے حوالے سے علامہ باجی کی گفتگو گذر چکی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ رکعات نہیں پڑھیں سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے گیارہ رکعات کا جو حکم د یا تھا وہ بھی عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حدیث سے لیا گیا تھا۔
3۔ علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں کہ:
’’ وما رواہ ابن ابی شیبۃ عن ابن عباس کان صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر فاسنادہ ضعیف و قد عارضہ ھذا الحدیث الصحیح مع کون عائشۃ اعلم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلا‘‘۔
زرقانی شرح موطا (ص 246جلد اول) میں تحریر ہے ابن ابی شیبہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما والی بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعات والی صحیح روایت (ماکان یزید الخ) کے مخالف بھی ہے حالانکہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی تمام حالتوں کے بارے میں سب سے زیادہ واقف تھیں۔
4۔ علامہ عینی حنفی بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
و قیل احدی عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ و اختارہ ابوبکر ابن العربی (عمدۃ القاری شرح البخاری (ص 357جلد سوم)
اور امام مالک نے اپنے لئے گیارہ رکعات پڑھنے کو پسند کیا ہے اور امام ابن عربی (مالکیہ مذہب کی قابل فخر ہستی ) کے نزدیک بھی یہی عدد مختار تھا ۔
الحاصل: چاروں مذاہب کے علماء اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات تراویح ثابت ہے نہ کہ بیس ۔ کیا ابھی بھی مولانا کو انکار کی گنجائش باقی رہ سکتی ہے؟
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: ان تمام صحیح احادیث الخ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: احادیث و آثار کا سب نے حال دیکھ لیا بلکہ عہد صدیقی میں گیارہ پر عمل رہا اور یہی عمل خلفاء ثلاثہ کا کہا جائے گا علاوہ ازیں مولانا صاحب کسی سے بھی صحیح سند کے ساتھ بیس کا عدد ثابت نہیں کرسکے صرف شکوک و اوہام سے مقصد حاصل نہ ہوگا۔
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا۔ (النجم:28)
وہ صرف ظن پر چلتے ہیں اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔
اور اسی طرح اجماع کا دعویٰ بھی مردود ثابت ہوا بلکہ چاروں ائمہ کا بھی اس پر اتفاق نہیں ہے چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کی اپنی تحریر کردہ کتاب کوئی نہیں بلکہ ان کی طرف بیس رکعات کے قائل ہونے کی نسبت کی گئی ہے اور امام مالک وتر کے ساتھ گیارہ رکعات کے قائل ہیں جیسا کہ اوپر ان کا قول گذر چکا، اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے پڑھنے والے کو اختیار دیا ہے وہ چاہے تو گیارہ پڑھ لے اور چاہے تو تیئس پڑھ لے جیسا کہ شاہ ولی اﷲ اور ابن تیمیہ رحمہما اللہ کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے اور امام شافعی کا قول ہے کہ
لیس فی شئی من ھذا ضیق ولاحد ینتھی الیہ لانہ نافلۃ فان اطالوا القیام واقلوا السجود فحسن وھو احب الی و ان اکثروا الرکوع والسجود فحسن ‘‘(قیام اللیل للمروزی ص 92)
یعنی یہ نفلی نماز ہے اس میں کوئی تنگی نہیں ہے اگر پڑھنے والے نے قیام لمبا کیا اور رکعات کم کیں (مثلاً گیارہ) تو بھی بہت اچھا اور یہ طریقہ مجھے زیادہ محبوب ہے اور اگر اس نے قیام ہلکا کیا اور رکعات کی تعداد زیادہ کر لی مثلاً (بیس یااس سے زیادہ) تو بھی اچھا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ امام شافعی کا مکمل مذہب بیس رکعات نہیں ہے کما زعم ۔ بلکہ ان کے نزدیک تمام طریقے اچھے ہیں البتہ گیارہ والا طریقہ ان کے نزدیک زیادہ راجح اور محبوب ہے اسلئے کہ اسے انھوں نے ’’احب‘‘ قرار دیا ہے الغرض کہ بیس رکعات پر چاروں مذاہب کا اجماع نہیں بالکل نہیں ہے اور ایسے اختلاف کی موجودگی میں اچھا طریقہ یہ ہے کہ
فَاِنْ تَنَازَعَتُمْ فِی شَیئٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اﷲِ وَالرَّسُوْل اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باِﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَالِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاوِیْلاً‘‘۔ (النساء:59)
اگر کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بہتر اور ثواب کے اعتبار سے عمدہ ہے۔
یعنی جس مسئلے میں بھی اولی الامر کاآپس میں اختلاف ہو جائے تو اسے فیصلے کے لئے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے اور اﷲ تعالیٰ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ
وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا (الحشر:7)
رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ
اور فرمایا کہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:21)
تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔
اور فرمایا کہ
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲ َ (النسائ:80)
جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی تو تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یعنی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ آپ لوگوں کے لئے اطاعت کا بہترین نمونہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔
اور اوپر احادیث و آثار اور چاروں مذاہب کی عبارات سے ظاہر ہوا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ آٹھ رکعات ہی تھیں اسلئے یہی ہم اہلسنت والجماعت کا مسلک کہا جائے گا اور یہی ’’ ما انا علیہ و اصحابی ‘‘ کا مجسم عمل ہے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: صحیح حدیث علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین الخ۔
اقول: میں کہتا ہوں: یہاں بھی وہی مطلب ہے جو ’’ ما انا علیہ و اصحابی ‘‘کا ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کا متفق علیہ طریقہ ورنہ بصورتِ دیگر حق ایک طرف نہ ہوگا بلکہ ’’ تعدد الطرق‘‘ لازم آئیگا کما سبق علاوہ ازیں خود مولانا صاحب نے قبول کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں آٹھ رکعات تھیں کیا یہ خلفاء راشدین میں سے نہ تھے ؟اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی زمانے میں بھی بقول آپ کے آٹھ رکعت تھیں تو کیا نعوذ باﷲ وہ آٹھ رکعت پڑھتے وقت خلیفہ راشد نہ تھے ؟ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت ہی نبوی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت ہیں نیز آپ کسی صحیح سند کے ساتھ کسی بھی ایک خلیفہ راشد سے بیس رکعات ثابت نہیں کرسکے۔ اور اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے تو بھی اوپر ذکر کردہ آپ حضرات والی حدیث کے مطابق وہی طریقہ صحیح کہلائے گا جس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا متفقہ عمل ہو نہ کہ وہ جس پر کسی ایک خلیفہ کا عمل ہو اس طرح حق کی ایک حالت نہیں رہے گی اور قرآن کریم میں ہے کہ
وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنِ سَبِیْلِہ‘‘ (الانعام:153)
یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اسی کی پیروی کرو اور مختلف راستوں کی پیروی نہ کرو وہ تمہیں سیدھی راہ سے بہکا دیں گے۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واجب الاطاعت حدیث کی تعمیل ہے۔
اقول: میں کہتا ہوں تو پھر ص 13پر آپ نے بیس رکعات کو واجب الاداء کیوں قرار دیا ہے؟ بلکہ آٹھ رکعات کو واجب الاداء کہا جائے گا جو کہ صحیح احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور آپ کے ہاں بھی مسلم ہیں ۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہیں ۔
اقول: میں کہتا ہوں: اوپر امام سیوطی کے قول سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک دفعہ بھی بیس رکعات نہیں پڑھیں اور محدّثین اور فقہاء نے یک رائے ہو کر متفقہ فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات ثابت نہیں ہیں تو پھر یہ کس کی سنت قرار دے رہے ہو؟ذرا سوچ سمجھ کر لکھا کرو؟نیز سنت مؤکدہ تو آپ کے نزدیک وہ عمل ہوتا ہے جس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوام اور ہمیشگی کی ہو لیکن آپ کے ذمے ہے کہ بیس کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایک بار تو ثابت کر کے دکھاؤ۔ اثبت العرش ثم افقش۔
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: آٹھ رکعات تراویح اہلسنت والجماعت کے مذہب کے خلاف عمل ہے۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: اس کا مطلب یہ کہ یوں کہا جائے کہ آج سے پہلے اہلسنت والجماعت کا مذہب آٹھ رکعات تھیں ۔
مولانا صاحب کیااہلسنت والجماعت کا مذہب مختلف موسم میں بدلتا رہتا ہے ؟مذہب ہوا کہ ساون کا گرگٹ جو مختلف رنگ بدلتا رہتا ہے اگر اہلسنت والجماعت سے مراد نبوی مذہب ہے تو پھر یہ کبھی بھی نہیں بدلے گا اور اگر اس سے مراد اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے تو وہ آپ کو مبارک ہو نیز یہ تو ذرا بتائیے کہ اہلسنت والجماعت کا مذہب کب سے بدلنا شروع ہوا اور آٹھ سے بیس کس تاریخ اور کس سال سے شروع ہوئیں؟سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کے بعد بھی تو لوگ آٹھ ہی پڑھا کرتے تھے۔
قارئین : آپ کو اوپر معلوم ہو چکا کہ آٹھ رکعات تراویح معمول نبوی تھی پھر اسے مولانا صاحب کا اہلسنت والجماعت کے خلاف کہنا ان کی عظیم جرات ہے نیز جب مولانا صاحب نے خود یہ بات قبول کی ہے تو پھر ایسی جرات کیسے کر رہے ہیں بلکہ دراصل آٹھ ہی اہلسنت والجماعت کا صحیح مذہب ہے کما ثبت۔ اور اس کے برعکس چلنا ہی اہلسنت والجماعت کے خلاف ہوسکتا ہے۔
وَمَنْ یَّکْسِبْ خَطَیْئَۃً اَوْ اِثْمًَا ثُمَّ یَرْمِ بِہ بَرِیْئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَاناً وَّ اِثْمًا مُبِیْنًا۔(النساء:112)
اور جو شخص کوئی قصور یا گناہ تو خود کر لے لیکن اس سے کسی بے گناہ کو متہم کر دے تو اس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔
مولانا صاحب!
مجھے الزام دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: دلائل بہت ہیں ۔
اقول؛ میں کہتا ہوں: تو پھر آپ نے انھیں کیوں چھپایا ہے؟وہ بھی تو ایسے ہی ہوں گے جیسے یہ آپ نے لکھے ہیں ۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
اور اگر ان سے زیادہ صحیح ہوتے یا زیادہ صریح ہوتے تو ایسے اہم ترین معرض میں ان کے پیش کرنے سے آپ ہرگز دریغ نہ کرتے۔
کوئی بھی کام مسیحا تیرا پورا نہ ہوا
نامرادی میں ہوا ہے تیرا آنا جانا
قولہ؛ ان کا کہنا ہے: طالب حق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔
اقول: میں کہتا ہوں: حق کے متلاشیوں نے حق پا لیا اور آپ کے دلائل کا حال بھی دیکھ لیا ۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا
آپ کے دلائل پر اب بھی آپ کے وہی معتقد کفایت کریں گے جن کی کسی شاعر نے یوں ترجمانی کی ہے کہ
این کرامت ولی ماچہ عجیب
گربہ شاشید گفت باراں شد
اب اہل بصیرت لوگ آپ کے معتقدین سے آپ کی کتنی بھی عقیدت سنیں لیکن آپ کا یہ کتابچہ دیکھنے کے بعد بے اختیار یہ شعر ان کی زبان پر ضرور آئے گا۔
ہم شیخ کی سنتے تھے مریدوں سے بزرگی
جا کرکے جو دیکھا تو عمامہ کے سوا ہیچ
قارئین ! یہ تھی مولانا کی علمی تحقیق جسے انھوں نے اپنے احناف کے لئے وثیق سمجھا مگر اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے وہ تدقیق کی گئی جو کہ حق تھا جھوٹ اور باطل مکان سحیق جا پہنچا۔
فصدق سبحانہ تعالیٰ حیث قال:
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ۔ (الانبیائ:18)
(نہیں) بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے اور جو باتیں تم بتاتے ہو ان سے تمہاری خرابی ہے۔
سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد ﷲ رب العلمین ۔
کتبہ العبد ابو محمد بدیع الدین الشاہ الراشدی المحمدی السندھی عفی عنہ۔
٭٭٭
ماخذ: اردو مجلس ڈاٹ نیٹ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید