فہرست مضامین [show]
ستارہ یا آسمان
شعری مجموعہ
مصحف اقبال توصیفی
پیش لفظ
’’ستارہ یا آسمان ‘‘ میرا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔
میں نے اپنے پہلے مجموعے ’فائزا ‘ کے پیش لفظ میں ایک FOSSIL ’فائزا‘ (PHYSA) کی علامت کو زماں و مکاں کے طویل و عریض صحرا میں اپنی ROOTS تلاش کرنے کی خواہش سے تعبیر کیا تھا۔ ’فائزا‘ کی علامت میں ،مَیں نے زندگی کو زیادہ با معنی بنانے کی آرزو کی تھی۔ وقت کا دوران (DURATION) آرزو کو جستجو سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ ’فائزا‘ جو ایک سنگوارے کی صورت زمین میں دَبا پڑا ہے اب مجھے آسمان پر ایک ستارے کی طرح دکھائی دیتا ہے اور کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے اِس ستارے نے پَل بھر کے لیے آنسو کی طرح میری پلکوں پر چمک کر سارا آسمان روشن کر دیا ہو۔
پھر یہ پَل ، یہ لمحہ گزر جاتا ہے۔ میری بڑی خواہش رہی کہ وقت اگر پیچھے کی طرف نہ لوٹے تب بھی کسی صورت جہاں ہے وہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے ۔ ہم سب جوان، بوڑھے ، بچّے ، جیسے بھی ہیں جو بھی ہیں ہمیشہ ایسے ہی رہیں ۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ کھنڈر ہو کر رہ جائے اس دنیا سے ظلم، بربریت، ناانصافی، بھوک، بیماری ، آفاقی سماوات سب رخصت ہو جائیں ۔ اور جوں ہی یہ سب رخصت ہوں کسی مشین پر ’اسٹاپ‘ کا ایسا بٹن ہو جسے دباتے ہی وقت ٹھہر جائے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے اور چونکہ یہ سب ممکن نہیں اس لیے مجھے اس بات سے بڑا دُکھ محسوس ہوتا ہے۔ میں اس دُکھ کے امرت کے منتھن سے زندگی کے عرفان کی چند بوندیں حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ کبھی وقت کی راہ میں کانٹے بچھا کر اس کے پاؤں لہو لہان کر دیتا ہوں تاکہ وہ چل ہی نہ پائے ۔ کبھی ایک پل کو رَبڑ کی طرح کھینچ کر اسے دِنوں ، مہینوں ، برسوں صدیوں میں تبدیل کرتا ہوں پھر ان صدیوں کو لفظوں کے پھولوں سے ڈھک دیتا ہوں ۔ یہ پھول کانٹے ، دُکھ، خوشی، مایوسی کے، امید بھرے آنسوؤں کے، اِن میں کیسے کیسے رنگ ہیں ، کیسی کیسی خوشبوئیں ، میں حیران رہ جاتا ہوں ۔
ممکن ہے میری اس ذہنی رویئے کا تعلق میرے پیشے سے ہو ۔ میں جیالوجی کا طالب علم رہا ہوں ۔ ہم جنگلوں میں کسی چھوٹی سی چٹان کو مُحدَّب عدسے سے دیکھتے ہوئے ایک پتھر کے ٹکڑے میں قدرت کے بنائے ہوئے نقوش(TEXTURE) کی مدد سے ایک وسیع خطۂ ارض کے STRUCTURE کی باز یافت کر لیتے تھے۔ اس کلّیے کے مطابق ہر بڑی چیز چھوٹی اور ہر چھوٹی چیز بڑی ہوتی ہے۔ ان کی ماہیت ایک جیسی ہوتی ہے، ان کے سرے آپس میں کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے میرے لاشعور نے اِسی نکتے کو شعوری کیفیت میں ڈھالتے ہوئے مجھے اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی اشیاء کو محُدّب عدسے سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر اُکسایا ہو اور میں نے ایک پَل، ایک ذرّے کو اس طرح دیکھنے کی آرزو کی ہو کہ مجھے اس میں کئی صدیوں کئی صحراؤں کی جھلک مل سکے۔ بعض اوقات خیال کی رَو اور بعض بہت معمولی روز مرہ کے واقعات ، مشاہدات جیسے گھر ، دفتر ، پلنگ، میز، ٹریفک کا شور، بیتے ہوئے دنوں کی مہک، آتے ہوئے لمحے کی آہٹ مجھے ایسے مسحور کر دیتے ہیں ، مجبور کرتے ہیں کہ میں اُنہیں اپنے وجود کا حصّہ ، اور اپنے ’اندر ‘ اور ’باہر‘ کئی اَن دیکھے جہانوں کے سفر میں اپنا رفیقِ سفر بنا لوں ۔
ایک پَل کا صدیوں میں ڈھل جانا ، ہمارے اِرد گرد پھیلی بے جان اشیاء کا ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا تو کبھی خود میرا وقت کی راہ میں دیوار بن جانا۔ میں ایسی کئی کیفیتوں سے گزرا ہوں جو میرے احساس کا حصہ بن گئی ہیں ۔ اس کی پرچھائیاں آپ کو جا بجا میری نظموں غزلوں مین نظر آئیں گی ۔ لیکن کیا میں ان کے تخلیقی اظہار میں کامیاب ہو سکا ہوں ، میں یہ نہیں جانتا ۔ میرے لیے تو شاعری ایک پُر اسرار کرب کو آسودہ کرنے کی ایک داخلی مجبوری ہے ، سامانِ عیش نہیں ۔، ’مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ‘ ۔
٭٭٭
میں جنا بِ شکیل الرحمٰن ، جنابِ بلراج کومل اور جنابِ شمیم حنفی کا سِپاس گزار ہوں کہ انہوں نے میری شاعری کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور کتاب کے فلیپ پر اِن آراء کی اشاعت کی اجازت دی ۔ مغنی تبسم، وزیر آغا اور شفیق فاطمہ شعریٰ اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن مختلف موقعوں پر انہوں نے میری شاعری کے بارے میں جو لکھا اس سے چند اقتباسات میں نے یہاں شامل کر لیے تاکہ میرے لیے اُن کی با وقار، محبت آمیز موجودگی کا احساس قائم رہے اور اِس کتاب کو ان ناموں کی خوشبو حاصل ہوسکے۔
میں اپنے نہایت محترم دوست اور نامور افسانہ نگار جنابِ عابد سہیل کا تہہِ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپی لی اور جنابِ اظہار احمد ندیم سے مجھے متعارف کروایا۔ جنابِ اظہار احمد ندیم کا کہ انہوں نے اس کتاب کو عرشیہ پبلی کیشنز کے زیرِ اہتمام شائع کیا۔ اس مجموعے کی صورت گری کے مختلف مراحل میں مجھے اپنے چند احباب۔ جنابِ اعجاز عبید ، پروفیسر سید خالد قادری اور پروفیسر رحمت یوسف زئی کا تعاون حاصل رہا ، میں ان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں ۔
مصحف اقبال توصیفی
فلیٹ نمبر:101 ، گولڈن کریسٹ اپارٹمنٹ ، 12-2-823/B/55
انکم ٹیکس کالونی ، مہدی پٹنم، حیدرآباد۔ 500028 ، انڈیا۔
Mob:(91) 9394800366,
Email:mushaf27@gmail.com
اپنے آپ سے
یہ سچ ہے … جو سچ لگ رہا ہے
وہی سچ تو سب سے بڑا جھوٹ ہے
مجھے دیکھتے ہو … یہ تصویر دیکھو
یہ تصویر میری بہت ہی پرانی ،کئی سال پہلے کی ہو گی
تو اس میں جو سچ ہے … وہ اب سچ کہاں
جھوٹ ہے
اور سوچو اگر
یہ بازار … دفتر … وہ میرا مکاں
یہ دنیا جو اک کیمرے میں مقید ہے
( دنیا جو اتنی پرانی ہے
اور یہ آج کا کیمرا)
کوئی اپنی انگلی گھما دے ذرا
بس اِدھر سے اُدھر
تو پھر تم کہاں … میں کہاں
یہاں ہم نہیں بس ہماری کئی
چلتی پھرتی ہوئی مووی (MOVIE)تصویریں ہیں
یہی بات تو میں تمہیں کب سے سمجھا رہا ہوں !!
٭٭٭
وہ
ایک حرفِ سادہ مَیں
ایک لفظِ بے معنی
سب حکایتیں اُس کی
سب کہانیاں اُس کی
سب نشانیاں اُس کی
میں نے جو سُنا دیکھا
اور جو نہیں دیکھا
اور میں نے جو سوچا
یہ سراب … وہ دریا
پیڑ پر پرندوں کا
وہ جو اک ٹھکانا ہے
وہ جو میرے باہر ہے
جو دَرونِ خانہ ہے
اک پلنگ… اک ٹوٹی
میز، بید کی کرسی
وقت کے سمندر میں
تیرتی ہوئی کشتی
ڈوبتی ہوئی کشتی
سب کہانیاں اُس کی
سب نشانیاں اُس کی
میرے سارے روز و شب
تیرگی … اُجالے سب
میری نیند میرے خواب
خواب … خواب کی تعبیر
شاخِ گل کہ کاغذ پر
پھول … پھول کی تصویر
سب میں رنگ ہیں اس کے
سب میں خوشبوئیں اس کی
٭٭٭
کہی … اَن کہی
کچھ نہ کہنا بھی بہت کہنا ہے
لفظ سینے میں ہی رُک جائیں تو پھر بات کہاں ہوتی ہے
لیکن الفاظ کے اطراف جو … وہ
ایک چشمِ نگراں ہوتی ہے
اُسی چشمِ نگراں کے صدقے
آنکھ اگر خشک نظر آئے بہت روتی ہے
زندگی خواب ہے … تصویر تری سوتی ہے
خواب تھا … عالم بیداری تھا
تیری تصویر تھی یا تُو … تجھے کب دیکھا تھا
اب تو کچھ یاد نہیں آتا ہے صدیاں گزریں
ہاں … مگر یہ کہ تیرا نام لیے
خشک آنکھوں کے کنارے کئی ندیاں گزریں !!
٭٭٭
اک خواب تھی زندگی ہماری
پھر آنکھ نہیں کھلی ہماری
دنیا سے بھی پھر نہیں ملے ہم
وہ بھی تو کبھی نہ تھی ہماری
دن ڈھل گیا خواب دیکھنے میں
کٹ جائے گی رات بھی ہماری
پلکوں پہ یہ پھول آنسوؤں کے
صحرا کی یہ ریت بھی ہماری
اک دھیان کی لہر نے ڈبویا
اک یاد نہ ہوسکی ہماری
ٹاپوں کی صدا سی اُس کے غم کی
بے تیغ سپاہ تھی ہماری
کب ہو گئی میرے قد سے اونچی
دیوار یہ بیچ کی ہماری
دیکھا تو ہر آئینے میں ہم تھے
خود سے ہوئی بات بھی ہماری
آئے ہو تو یہ غزل بھی سُن لو
بے وقت کی راگنی ہماری
٭٭٭
رات خوابوں نے پریشاں کر دیا
صبح … آئینے نے حیراں کر دیا
بولے ’’بیٹھو‘‘ اور چہرے پر مرے
ایک چہرہ اور چسپاں کر دیا
میرے آگے کھینچ دی کیسی لکیر
اک درِ بے در کا درباں کر دیا
آپ پھولوں، تتلیوں میں چھپ گئے
ہم کو صحرا کا نگہباں کر دیا
ایسے دیکھا … جیسے دیکھا ہی نہیں
آج ہم نے اس کو حیراں کر دیا
٭٭٭
بے کار کتابیں
نہ جانے ایسی کتنی کتابیں ہوں گی
جو کسی میوزیم
کسی لائبریری میں
کسی ہارڈ ڈسک پر محفوظ نہیں
ایسی ہی ایک کتاب میں لکھ رہا ہوں
رات … دن
بے تکان …
لکھتے لکھتے سوجاتا ہوں
کچی نیند سے بیدار ہو کر
پھر لکھنے لگتا ہوں
اِس مصروف زندگی میں
کسی کے پاس اتنا وقت نہیں
کہ اس کتاب کو پڑھے
مجھ سے ملے
(خود میرے پاس
اتنا وقت کہاں )
حیران ہوں
جس کتاب کے اوراق پر
میرے آنسوؤں کے دھبّے تازہ ہوں
اور روشنائی
ابھی گیلی
اُس کتاب کو دیمک کیسے لگ گئی
لفظ ، کاغذ پر اترنے سے پہلے
کیوں زرد ہو کر فضا میں تحلیل ہو رہے ہیں
میرے اندر … باہر
ہر طرف چیونٹیاں سی رینگ رہی ہیں
میں اور تیز لکھنے لگتا ہوں
میں ہانپ رہا ہوں
جیسے میں کوئی قبر کھود رہا ہوں
لیکن میں تو کتاب لکھ رہا ہوں
ایک ایسی کتاب
جسے پڑھنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں
جسے رکھنے کے لیے
قبر کے سِوا
کوئی جگہ نہیں …!!
٭٭٭
ابنِ انشا کی طرح
(بسترِ مرگ پہ)
ابنِ انشاء کی طرح
میں بھی یہی سوچتا ہوں
کاش میں پھرسے جنم لیتا
(ایک بستی کے اُسی کوچے میں )
اور یوں کرتا … تو …یوں ہوتا .. ذرا
کوئی دیکھے …
یہ مرے خواب
میری ناکام تمنائیں اُدھر
ایک کونے میں کھڑی ہیں چُپ چاپ
یہ ہے دریا … وہ سراب
اپنے ایک ایک نفس کا مجھ کو
آج لینا ہے حساب
رات نے پاؤں رکھا ہے نیچے
خواب کے ٹوٹے ہوئے زینے پر
میری پلکوں پہ … مرے سینے پر
ابنِ انشا کی طرح
ہم نفس کوئی نہیں ہو جس کا
(ابنِ انشا بھی نہیں
قدرت اللہ شہاب … ؟
نہیں کوئی نہیں … )
سرِ بالیں …
پھر وہی خواب
نہیں … کوئی نہیں …!!
٭٭٭
میرا دُکھ
زمیں کی اک حد…
آسماں کی اک حد ہے
مگر میرے دُکھ کی کوئی حد نہیں ہے
تم کہو گے … زمیں
چاند، سورج، ستارے
یہ اک کہکشاں ..
یہ سب اپنے ہی حجم میں
دم بہ دم پھیلتے جا رہے ہیں
یہ مانا … مگر ان کے پھیلاؤ کی بھی
کوئی آخری حد تو ہو گی ..
میں یہ مانتا ہوں
(میں سب جانتا ہوں )
مگر میرے دُکھ کی کوئی حد نہیں ہے ..!! ٭٭٭
تجھ سا کوئی اور لاؤں … دیکھوں
آئینہ تجھے دکھاؤں … دیکھوں
کچھ بات تو ہے ضرور تجھ میں
کچھ اور قریب آؤں … دیکھوں
تُو کچھ نہ کہے تو تیری جانب
اک اور قدم بڑھاؤں دیکھوں
ملنے میں ہے دُکھ تو اب بچھڑ کر
آرام ذرا اٹھاؤں دیکھوں
قدموں کے ترے نشان ڈھونڈوں
اک ریت کا گھر بناؤں دیکھوں
دل نے کہا نقدِ جاں اُٹھا کر
بازار لگا ہے… جاؤں ؟ ..دیکھوں ..
٭٭٭
ہوئی شام اک ٹھکانا چاہتا تھا
ترا دَر کھٹکھٹانا چاہتا تھا
کہاں سوزوگدازِ عشق اور مَیں
میں جینے کا بہانہ چاہتا تھا
مجھے دیکھو نہ اپنا بن سکا مَیں
اُسے اپنا بنانا چاہتا تھا
یہ حسرت کاٹ دوں عمر اُس گلی میں
میں اپنے گھر بھی جانا چاہتا تھا
مجھے ایسی نظر سے اُس نے دیکھا
بچھڑ کر یاد آنا چاہتا تھا
تو کیا صحرا میں بھی کچھ خوش نہیں ۔وہ؟
نہ جانے کیا دِوانا چاہتا تھا
اک آنسو رک گیا عارض پہ آ کر
جو پلکوں میں چھپانا چاہتا تھا
میں اپنی عمر اُن ہونٹوں پہ رکھ کر
بس اک لمحہ چُرانا چاہتا تھا
مجھے اُس کی اَدا اچّھی لگی یہ
وہ میرا دل دُکھانا چاہتا تھا
تو کیا ترکش میں جتنے تیر تھے سب
مجھی پر آزمانا چاہتا تھا
تو کیا سب کھیل تھا ہنسنا … یہ رونا ..
میں اب پردہ گرانا چاہتا تھا
٭٭٭
ڈپریشن
ہرموسم اچھا ہوتا ہے
آج تو موسم کل سے بھی بہتر تھا
فون پہ جب ننھی نشو بولی ’’ننّو…ننّو… ہم کو ممی سے بھی اونچی
ہِیل کی چپل لے دو
وہ بولی ’’ہاں … ہاں گڑیا، میری گڑیا … ،پیاری گڑیا
میں آؤں گی تو لاؤں گی … ‘‘
آج وہ کتنی خوش ہے
باہر ہلکی دھوپ نکل آئی ہے
ہم دونوں اک اے۔ سی ریستوراں میں بیٹھے
اپنے بچوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں
وہ ہنستی ہے … اس کی خاطر میں بھی ہنستا ہوں
اور اچانک وہ میرے چہرے کے بدلے بدلے رنگوں کو پڑھ لیتی ہے
کہتی ہے’’ کیا … ٹھیک تو ہو، نا …؟‘‘
اور مجھے ایسا لگتا ہے
جیسے اک انجانی رسّی سے کوئی اندر ہی اندر
مجھ کو باندھ رہا ہو
یہ کم بخت مرے اندر کا موسم
جانے کب اچھّا ہو … !!
٭٭٭
سگِ آوارہ
مرے دل میں ہَوس کی آگ ٹھنڈی ہو نہیں سکتی
سگِ آوارہ کے مانند
اچانک ہی مرے نتھنے پھڑکتے ہیں
تعفّن کا جہاں بھی ڈھیر پاتا ہوں
نمازوں میں …
حریفوں کو شکستِ فاش دینے
افسرِ اعلیٰ کو خوش رکھنے …
کسی حیلے سے اُس سے فون پر ہی بات ہو جائے
نہ جانے دل میں کیسے کیسے منصوبے بناتا ہوں
دعائیں مانگتا ہوں اور کیا کیا … خیر جانے دو
اگر ہر خواب جھوٹا
اور حقیقت خواب جیسی ہو
تومیں بھی کیا کروں …
کبھی بازار جاتا ہوں
دوکانیں سونگھ کر
… وہ جوہر حال میں خوش ہے
… اسے کچھ اور خوش رکھنے کی خاطر
(کریڈٹ کارڈ لے کر)
جو کل دیکھا تھا… اُس نے آ ج وہ سونے کا زیور لے کے آتا ہوں
مرے دل میں ہَوس کی آگ ٹھنڈی ہو نہیں سکتی !!
٭٭٭
کس دشتِ طلب میں کھو گئے ہم
سایہ جو ملا تو سوگئے ہم
لو… آج بھلا دیا تمہیں بھی
لو آج تمہارے ہو گئے ہم
اے شمعِ فراق! بجھ چکی شب
اے ساعتِ وصل سو گئے ہم
پھر اپنا نشاں کہیں نہ پایا
اُٹھ کر ترے ساتھ تو گئے ہم
یوں صبح کے بھولے اپنے گھرکو
لوٹے ہیں کہ اور کھو گئے ہم
جب آنکھ کھُلی تو ہم نہیں تھے
جاگے ہیں کہ خواب ہو گئے ہم
اشکوں نے عجیب گُل کھلائے
کیا نقش و نگار بو گئے ہم
کھویا ہے اُسے تو خود کو پایا
پایا ہے اُسے تو کھو گئے ہم
٭٭٭
وہ آئے گا یہ پہلے ہی پتہ تھا
مجھے کیا خواب میں اِلقا ہوا تھا
میں کن خوابوں کے ٹکڑے چُن رہا تھا
سرہانے صبح کا لشکر کھڑا تھا
بہت بیتاب تھے مل آئے اُس سے
میں اپنے آپ سے بے حد خفا تھا
وہ میلوں دور اور پہلو میں بیٹھا
نہ جانے کان میں کیا کہہ رہا تھا
سُنا تم روتے روتے سوگئے تھے
تمھارے گھر کا دروازہ کھلا تھا
میں پتھر تھا مگر پتھر کی تہہ میں
تپش ایسی… عجب لاوا بھرا تھا
مَیں خود کو جوڑتا رہتا تھا پَل پَل
میں اندر ہی سے کچھ ٹوٹا ہوا تھا
میں خود کو دور سے تکتا رہا بس
میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا تھا
مرے دونوں کنارے بہہ رہے تھے
میں دریا تھا مگر ٹھہرا ہوا تھا
جو تم کہتے تھے آخر سچ ہی نکلا
مجھے بھی شک تھا میں ہی بے وفا تھا
٭٭٭
دوسرا کنارہ
وہ قلابازیاں کھاتا ہوا جو کر … وہ پلک جھپکاتی
رقص کرتی ہوئی گڑیا … وہ کرین اور جہاز
اک بڑے دائرے میں گھومتی
گول پٹری پہ وہ چلتی ہوئی ریل
یہ تو چابی کے کھلونے ہیں سبھی
ہاں … یہ چابی کے کھلونے ہیں … مگر
میں اسی ریل کے اک ڈبّے میں کیوں بیٹھا ہوں
اور مجھے یہ بھی تو معلوم نہیں
کون سی ریل ہے یہ اور کہاں جائے گی
شب کے سنّاٹے کو کیوں چیر رہی ہے
یہ کسی کھائی میں گر جائے گی
دور ہوتے ہوئے ہر منظر کو
اور بھی دور یہ لے جائے گی
’’گھرسے کب نکلا تھا؟ … کیوں ؟… اور میں اس ریل میں کیسے آیا؟’‘
میں یہی سوچ رہا ہوں کہ یہی میرا مقدّر ٹھہرا
اب اسی سوچ میں غلطاں اور اسی برتھ پہ لیٹے لیٹے
مجھ کو نیند آئے گی … سوجاؤں گا!!
٭٭٭
دھیان کی لہریں
سورج اک بادل کے پیچھے اُگتا ہے
شہر کی سب سے اونچی عمارت پر چڑھ کر
اک تالاب میں گرتا ہے
وہی عمارت میں جس کی سب سے نچلی منزل میں رہتا ہوں
میں کیا جانوں
وہ بادل … اُس بادل کے پیچھے کیا ہے
اس تالاب کے آگے کیا ہے ؟
لیکن میری اپنی اک سوچ ہے
میں پتھر کی اک بنچ پہ بیٹھا
… میں اپنے ہی دھیان میں ڈوبا
اس تالاب میں کنکر پھینک رہا ہوں
اپنے موٹے شیشوں والی عینک سے
اُس بادل کو دیکھ رہا ہوں …!!
٭٭٭
کٹی عمر اک دَر پہ رہتے ہوئے
بڑی شرم آتی ہے کہتے ہوئے
زمین پر گرا مَیں ، ہوا میں اُڑا
بس اک خواب کا وار سہتے ہوئے
چلا تھا جہاں سے کھڑا ہوں وہیں
سمندر کو دیکھا ہے بہتے ہوئے؟
یہ قصرِ امَل اس کی بنیاد کیا
اسے میں نے دیکھا ہے ڈھہتے ہوئے
سنو میری جاں ! بیر اچھا نہیں
مگرمچھ سے … دریا میں رہتے ہوئے
٭٭٭
زہر دیتے ہو … دوا کہتے ہو
سچ کہا تم نے … بجا کہتے ہو
اک بُت … ناک تراشی اس کی
اب اسی بُت کو خدا کہتے ہو؟
عقل کا ہوش سے ناتا ٹوٹا
نکتہ سائنس کا تھا کہتے ہو
تم ذرا دور ہی بیٹھو مجھ سے
تم تکبّر کو اَنا کہتے ہو
ایک ہی نقش ہے لوحِ دل پر
ایک ہی لفظ سدا کہتے ہو
میں نے بھی اپنی زباں کو روکا
اس نے سمجھایا … یہ کیا کہتے ہو…
٭٭٭
(اوم پرکاش نرملؔ کے نام)
خود سے ملنے ہم نکلے
جان کے سَو جوکھم نکلے
وہ کیا کرتا… اپنی ہی
جان کے دشمن ہم نکلے
ایسے گھاؤ نہیں بھرتے
زخم ہی جب مرہم نکلے
دُنیا ہم کو بھول گئی
ہم بھی گھر سے کَم نکلے
میرا آنگن روشن ہو
میری مٹّی نَم نکلے
٭٭٭
ایک نظم
(اک ہم ہیں بے معنی لفظوں کے آگے پیچھے پھرتے ہیں
اتنی موٹی موٹی کتابیں ہاتھوں میں تھامے …)
اور اک وہ ہیں …
خاموشی کی چادر اوڑھے
اک کونے میں بیٹھے
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنستے ہیں
اک ہم ایسے مورکھ …
اُن کا چہرہ یاد نہ آئے … لیکن
اُن کی یاد میں رہنا
اور ہمارے ہی گھر کے آنگن میں ، ہر کمرے میں وہ
ہر روزن … دیوار و دَر
پھولوں … پتّوں ، پیڑوں
ہر آئینے میں
صبح و شام سنورتے ہیں
وہ من موجی… ایسے گیانی
ان کا ملنا … ایسا ملنا
جیسے خواب میں خواب کا ملنا
جیسے برف میں پھول کا کھلنا
اور اگر ملتے ہیں …
اک کونے میں بیٹھے
خاموشی کی چادر اوڑھے
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنستے ہیں !!
٭٭٭
ہنسی کی خوشبو
تو جب آئے
تیرے آدھے اَدھورے جملوں
تیری ہنسی کی خوشبو سے
میرا کمرہ بھر جائے
تیری ہنسی کی خوشبو
میرے بالوں سے کھیل رہی ہے
میری انگلی کی پوروں سے
میرے باہر پھیل رہی ہے
اس کمرے سے
اب نہ کہیں میں باہر جاؤں
میں نہ کسی سے ہاتھ ملاؤں !!
٭٭٭
میری دنیا
میں کہتا ہوں دنیا بے وقعت بے مایہ ہے
اور یہ میرا دُکھ سُکھ بھی کیا
یہ تو بس اک دھوپ کا ٹکڑا … بادل کا سایہ ہے
میں نے یہ کہنے سے پہلے
گیتا یا قرآن پہ ہاتھ نہیں رکھا
لیکن سچ کہتا ہوں
اور اگر میں سچ کہتا ہوں تو مجھ کو
یہ دنیا کیوں اتنی بھاتی ہے
کیوں میں اچانک سوتے سوتے آنکھیں مَلتے اُٹھ جاتا ہوں
اور مجھے پھر نیند نہیں آتی ہے
اور مرے بستر پہ گزرتے وقت کے سائے
(میرے قد کے برابر سائے)
قبر کی تاریکی سے بھی گہرے ہو جاتے ہیں
میرے خواب لپٹ کر مجھ سے
روتے روتے سو جاتے ہیں !!
٭٭٭
دھوپ کیوں نہیں آتی
جانے میرے کمرے میں
دھوپ کیوں نہیں آتی
دِن تو دِن ہے راتوں کو
جب بھی اُس کے کمرے میں
میں نے جھانک کر دیکھا
جتنے روزنِ در ہیں
کیسے اُن سے چھَن چھَن کر
چاندنی اُترتی ہے
اُس کے فرش پر دیکھے
میں نے لاکھ سیّارے
کہکشاں سی آبِ جو
روشنی کے فواّرے
اُس کا چاند سا ماتھا
اُس کی مانگ میں تارے
صبح ہوتے ہی سورج
اُس کے دَر پہ آتا ہے
ایک تھال میں لے کر
طائروں کی چہکاریں
ایک تھال میں کلیاں
اک تھال میں سونا
یوں بکھیر دیتا ہے
جگمگانے لگتا ہے
اس کے گھر کا ہر کونا
اور یہاں یہ عالم ہے
صبح ہو گئی دل میں
رات کا بسیرا ہے
چار سو اندھیرا ہے
جانے کیوں اِن آنکھوں کو
روشنی نہیں بھاتی
جانے میرے کمرے میں
دھوپ کیوں نہیں آتی
٭٭٭
ان آنسوؤں کو تو پینا پڑے گا ویسے بھی
تو دیکھ لیں اُسے دل تو دُکھے گا ویسے بھی
ہتھیلیوں پہ ہواؤں کو روکنے والے
چراغِ آخرِ شب ہے بجھے گا ویسے بھی
سمٹ کے بیٹھو اور آنکھوں پہ ہاتھ بھی رکھ لو
لگی ہے آگ دھواں تو اُٹھے گا ویسے بھی
وبالِ دوش نہ ہو جائے یہ متاعِ جاں
یہ کاروانِ نفس ہے لُٹے گا ویسے بھی
ابھی تو آیا ہے اتنے سوال مت پوچھو
وہ تھک گیا ہے بہت، کیا کہے گا ویسے بھی
٭٭٭
ایک شام
میں ایک پَب (PUB) میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں
جب کہ میں شراب نہیں پیتا
( اور تمہیں شراب سے سخت نفرت ہے)
یہی حقیقت ہے
کہ میں جی رہا ہوں
اس دنیا میں
حقیقتوں سے دور…
حقیقت اور خواب
زیست کی کشتی کے ٹوٹے ہوئے بازو ہیں
(سرا سر بے معنی )
وقت کے دھارے پر بہتے ہوئے
اب یہی دیکھو …
مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا
اور میں دیکھ رہا ہوں
دور … بہت … دور …
تم باتیں کر رہی ہو، ہنس رہی ہو
اور اِس ہنسی میں
اداسی کی ہلکی سی لہر تک نہیں …!!
٭٭٭
ایک رات
لمحہ لمحہ پگھل رہی ہے رات
نیم ویران دل کی سڑکوں پر
اِکّا دُکّا گزر رہے ہیں لوگ
سرخ بتّی دبا رہی ہے رات
سبز بتّی دکھا رہی ہے رات
اِکّا دُکّا گزر رہے ہیں لوگ
نیم ویران دل کی سڑکوں پر
یاد کی بھیگی بھیگی سڑکوں پر
٭٭٭
شعلہ تھا میں اور ہوا دی
میرے لہو میں کس نے صدا دی
ہجر کی لمبی راتیں دے کر
تم نے میری عمر بڑھا دی
مجھ کو دنیا سے کیا لینا
تم نے ناحق بات بڑھا دی
اس کو میرے قرب کی خواہش
میں بھی اسی نشّے کا عادی
وہ بولی… ’’جاتی ہوں …’‘ میں نے
سر پر رکھا ہاتھ… دُعا دی
جینے کی رسمیں ہوتی ہیں
تم نے تو ہر رسم اٹھا دی
میں نے اپنا دامن جھاڑا
ساری بات اسے سمجھا دی
کیسا شہر… کہاں کا صحرا
کیا ویرانہ، کیا آبادی
میری ناک دبا کر… ہنس کر
جوہی بولی… ’’دیکھو…دادی!’‘
یہ بھی گڑیا، وہ بھی گڑیا
اک جوہی، اک اس کی دادی
٭٭٭
خواب ہوں میں تو مری ذات سے پہلے کیا تھا
ابھی جاگا ہوں تو اِس رات سے پہلے کیا تھا
اپنے ہونے کا اب احساس ہوا ہے کچھ کچھ
تجھ سے اس تشنہ ملاقات سے پہلے کیا تھا
میں اگر چُپ ہوں یہ بہتا ہوا دریا کیا ہے
لب کُشا ہوں تو مری بات سے پہلے کیا تھا
گردشِ شام و سحر اک نگہِ مہر تری
تیرے اس لطف و عنایات سے پہلے کیا تھا
خوشبوئیں کس کی ہیں ، یہ رنگ بھرے ہیں کس نے
میرے ان خاک کے ذرّات سے پہلے کیا تھا
تجھ سے کیا پوچھ رہے تھے یہ مہ و مہر و نجوم
میں نہ تھا میرے سوالات سے پہلے کیا تھا
٭٭٭
زمین… آئینہ
(وادیِ کشمیر میں ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو سرحد کی دونوں جانب مہیب زلزلے کے متاثرین کی یاد میں )
زمین شَق ہوئی
زمین رو پڑی
زمیں کی گود میں
مکاں ، دوکان، مدرسے
اُدھر فلک کی سمت ہاتھ اٹھائے درس گاہیں … مسجدیں
اِدھر ہمارے بُت کدے
ہزار مرد عورتیں
وہ اُن کے لہلہاتے کھیت …
ہلکی دھوپ میں نہائے گھر
لہو میں تر بتر …
وہ طفل ہنستے کھیلتے جو مدرسوں میں آئے تھے
وہ بے گناہ تھے (ضرور بے گناہ تھے ) تو کس لیے
زمیں میں دفن…
خاک و خون میں نہائے تھے
نہیں ہمارے ہی گناہ تھے … یہ سب
زمیں پہ جن کے سائے تھے
وہ ہم … کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ اپنے ہی گھروں کو لُوٹ کر
اپنے بھائیوں کو قتل کر کے
اپنے تیل کے کنویں جلا کے
ہم ابھی ابھی تو آئے تھے
ہمارے مسخ خال و خد کی ضرب سے
زمین… آئینہ تھی
(آئینے میں بال پڑ گیا)
زمین میں شگاف پڑ گیا!!
٭٭٭
(احمد مشتاق کے لیے)
جو بیتی ہے، جو بیتے گی، سب افسانے لگے ہم کو
اُسے دیکھا تو اپنے خواب ہی سچّے لگے ہم کو
اُنہیں دیکھا تو جیسے پَر شکستہ کوئی طائر ہو
وہ اپنی ڈار سے بچھڑے، تھکے ہارے لگے ہم کو
بہت ناراض تھے خود سے، کسی سے کچھ نہیں بولے
وہ اک کونے میں یوں بیٹھے ہوئے اچھّے لگے ہم کو
سمجھتے ہی نہ تھے، سمجھایا ان کو راستہ دل کا
کئی نقشوں کو پھیلایا کئی گھنٹے لگے ہم کو
وہی افسانے دنیا کے (اب اُن سے ہم کو کیا لینا)
کبھی اُکتا گئے ان سے کبھی اچھّے لگے ہم کو
ذرا ہٹ کر جو اپنے آپ کو کچھ دور سے دیکھا
تو جن باتوں پہ اتنا روئے تھے، قصّے لگے ہم کو
انہیں دنیا کا ایسا موہ، سوچو تو ہنسی آئے
وہ ستّر سال کے ہوں گے مگر بچّے لگے ہم کو
بچا کر لائے اس تنہائی کو ہم بھیڑ سے مصحفؔ
پھر اک رکشا میں بیٹھے اور بڑے دھکیّ لگے ہم کو
٭٭٭
وہ مجھے دیکھ رہا ہے
خوف و امید سے میں کانپ رہا ہوں
میں جو کہیں نہیں ہوں
اور وہ دریا بھی جو کہیں نہیں ہے
میں اس کے پانی سے اپنی آنکھیں دھو رہا ہوں
وہ مجھے دیکھ رہا ہے
میں بھاگ رہا ہوں
میں ہانپ رہا ہوں
میں جو کہیں نہیں ہوں …!!
٭٭٭
ہوا کہہ رہی ہے
بہت دور چل کر میں پہنچا یہاں …
(بہت دیر میں …)
بند آنکھوں سے
ایک اک شئے کو حیرت سے تکتا ہوا
تھکے پاؤں آیا یہاں
جہاں میں نہیں
نہ میرا پتہ
نہ نام و نشاں …
(ہوا بہہ رہی ہے) ہوا کہہ رہی ہے
بتا … آ تجھے لے چلوں
کہاں … ؟
کس بگولے کے ہمراہ
خاک تیری اڑاؤں کہاں …
تری روح کے تار و پود
ترے جسم کی دھجیّاں …
سمندر کی کس لہر کی
ہتھیلی پہ رکھوں
ترے نام کی استھیاں …!!
٭٭٭
پانی کا کھیل
پانی پر اک تصویر ہماری اُبھری تھی
اک تصویر زمانے کی
اور کبھی یہ تصویریں آپس میں گڈ مڈ ہو جاتیں
اک دوجے میں گھل مل جاتیں
پھر سے جدا ہو جاتی تھیں
پانی کے اک قطرے نے اِن آنکھوں میں
دیکھو … کیسا کھیل رچایا
جانے کیسا پانی تھا … اُس پانی پر بہتے
کیسے کیسے بازار لگے تھے
کیسی کیسی تصویریں ..
جانے کون تھا
ہم اپنے کُرتے کے دامن سے
کس کے آنسو پونچھ رہے تھے
پھر اک لہر اٹھی … سارا بازار… اس بازار میں ہم دونوں
گہرے پانی میں ڈوب رہے تھے !!
٭٭٭
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مرے مولا
میں منٹو کا کردار نہیں
کسی زینت کا عاشق ،شیدا
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مرے پاس تو اتنا دھن بھی نہیں … بس کچھ سانسوں کے سکے ہیں
کچھ سجدے ہیں
کسی ناز و ادا کے نُکڑّ پر … کسی کوٹھے پر
کسی پیر فقیر کے تکیے پر
اب ان کو لُٹا کر کیسے ننگا ہو جاؤں …
وہ جو پاس یہاں اک مسجد ہے … میں اس مسجد کی سیڑھی پر بیٹھا
ہاتھ اٹھاؤں دعا کو مولا…
میر ے مولا… وہ لوگ
جو اپنے تاریک بدن کو تَج کر
اپنی اُجلی روحوں کی روشنیوں میں
تیرے در تک پہنچے ہیں
مجھے (اپنے قدموں میں جگہ دے) اُن لوگوں کے پاس بٹھا دے
اور وہاں کہیں منٹو، بابو گوپی ناتھ اگر ہوں
مجھے ان سے ملا دے !!
٭٭٭
اپنی سانسوں کے جال میں رہنا
جسم و جاں کے وبال میں رہنا
جیسے مکڑی خود اپنے جال میں ہو
ہم کو اپنے کمال میں رہنا
اک گلی جو کہیں نہیں جاتی
اُس گلی کے خیال میں رہنا
ہم کسی سے جواب کیوں مانگیں
ہم کو اپنے سوال میں رہنا
ذکر کیا بود و باشِ مصحفؔ کا
کیا دکن کیا شمال میں رہنا
٭٭٭
فاصلہ بڑھتا نگاہ و دل میں
کون ناقے پہ چلا محمل میں
ایک بار آنے دیا خلوت میں
اب جہاں جاؤں وہ ہر محفل میں …
ہم نے چاہا تھا مگر یہ تو نہیں
وہ ملا عمر کی کس منزل میں
کہہ دیا ہم کو نہیں رہنا ہے
اپنے گھر میں نہ کسی کے دل میں
بے اماں شیر… پرندے… انساں
چوہے محفوظ ہیں اپنے بِل میں
٭٭٭
سمندر اے سمندر
سمندر … اے سمندر
جزیرے تیرے میرے خواب ہیں
لیکن میں صدیوں سے نہیں سویا
زمیں قدموں میں … سر پر آسماں
مری راتوں کے کمرے میں … مری پلکوں پہ لرزاں … صبح کا تارا
مرے گالوں پہ یہ شبنم کا انگارہ
مرے سورج
مرے چاند اور تارے
یہ سب… سارے کے سارے
یہ کب کے بجھ گئے … سب سوگئے
اک میں نہیں سویا
سمندر … اے سمندر
یہ مرے روز و شب
انہیں اب اپنی لہروں پر بہا دے
یہ تیرے پاؤں کے نیچے ہزاروں ریت کے ٹیلے
انہیں اپنی ہتھیلی پر اُٹھا کر
میرے سینے سے لگا دے
مرا تکیہ بنا دے
تو بھی سوجا
مجھے بھی نیند کی کالی رِدا دے !!
٭٭٭
جیون بھر ہم
جیون بھر ہم
کن لوگوں سے ملتے آئے
کہتے ہوئے دُکھ بھی ہوتا ہے
لاج بھی آئے
دو روٹی … اور
تن کے کپڑوں کی خاطر
اُن لوگوں کے بیچ میں رہنا
جو ہم کو اک آنکھ نہ بھائے
دن بھر… پھرتے ہیں
تنہا تنہا… پیدل
اپنی سانسوں کا بوجھ اُٹھائے
جن لوگوں کو چاہا اُن کی تصویریں
آنکھ کی دیواروں پہ سجائے
اور کبھی دیکھا ہے راتوں کو
چاند ستاروں کے بستر پر کروٹ لیتے بابا … میرے بابا
بابا کی کھانسی کی آواز جگائے ..
بابا … آج بہت یاد آئے !!
٭٭٭
ہار جیت
میں نے ریس میں ایک گھوڑے پر ہزار روپے لگائے
اور ہار گیا
میں نے اپنے بیٹے کو وہ سب کچھ دیا … جو دے سکتا تھا
ساری آسائشیں ترک کر کے …
لیکن بھول گیا
اُسے اپنی زندگی جینا ہے
منظر بدلتے رہے
پھر وہ آ گئی
اور بھی لوگ آئے
لیکن ہر شخص کے ساتھ اس کے اپنے سائے تھے
اور جب سارے سائے رخصت ہوئے
تو میں نے مصلّٰیٰ بچھایا
یا اللہ…
یہ میری آخری بازی …!!
٭٭٭
ایک نظم
یہ مجھ میں کیسی جوالا بھڑکتی رہتی ہے
میں کیا سوچتا رہتا ہوں
راتوں کو جاگتا ہوں
اور اُسے جو دکھ دیتا ہوں … وہ الگ
لیکن مجھے تو شعر کہنا ہے
اور اچھی شاعری کا ریسی پی (RECIPE) تو بس یہی ہے
میں جو اسے اتنا چاہتا ہوں
نہیں … مجھے نہیں چاہیے یہ فضول شاعری
جو خواہ مخواہ حیران کرتی ہے
اُسے …
اور مجھے بھی …!!
٭٭٭
اپنی ہی آوارگی سے ڈر گئے
بَس میں بیٹھے اور اپنے گھر گئے
ساری بستی رات بھر سوئی نہیں
آسماں کی سمت کچھ پتھّر گئے
سب تماشا، ساری دنیا دیکھ لی
اُس گلی سے ہو کے اپنے گھر گئے
بیچ میں جب آ گئی دیوارِ جسم
اپنے سائے سے بھی ہم بچ کر گئے
اور کیا لو گے ہمارا امتحاں
زندگی دی تھی سو وہ بھی کر گئے
آپ نے رکھا مری پلکوں پہ ہاتھ
میرا سینہ موتیوں سے بھر گئے
کچھ خریدا ہم نے… دیکھو کچھ نہیں …
ہم بھی اس بازار سے ہو کر گئے
مصحفؔ اس کو بے وفا کہتے ہو تم
اور جو الزام اس کے سَر گئے…
٭٭٭
تمنا کے رنگ
میری ہی مِٹّی سے وہ
ایسے اٹھی اور مجھے اپنے سنگ
لے کے چلی … بولی ’’ دکھاؤں تجھے
تیری تمنا کے رنگ
آ … میں دکھاؤں تجھے
ایسا جہاں … وہ زمیں
جو ترے اندر ہے مگر تو نے ہی دیکھی نہیں ‘‘
اُس نے مری آنکھ کے پردے پہ عجب کھینچ دیں
دل کی کئی وادیاں
دشت اور آبادیاں
اور کئی باغ بھی …
جن میں کئی پیڑ … پھلوں سے لدے
اس نے کسی شاخ کو کیا چھو دیا
پھل وہ مرے ہونٹوں سے خود آ لگے
پھول ہواؤں میں لگے تیرنے
آنکھ تھی حیراں ، دنگ…
میری تمنا کے رنگ …!!
٭٭٭
آمریت
تُو وہ بہتا لاوا ہے
ایسا آتش فشاں
جو زندہ ہے
اور تیرے دامن میں پھیلی ہوئی زندگی مَر رہی ہے
وہ لاوا … جو بغداد، کابل ، فلسطین کے آسماں پر
آدم کی سفّاکیت کا نشاں
ایسا کالا دھواں ہے
جسے وقت مُڑ مُڑ کے تکتا ہوا
اپنی گپُھا کی طرف
نوحہ خواں …
اُلٹے قدموں رواں ہے …!!
٭٭٭
کس نے دیا ہے کس کا ساتھ
جانے بھی دو … چھوڑو ہاتھ
میں نے دن میں بھی دیکھی
دیواروں پر چسپاں رات
بھیگ گیا … میں ڈوب گیا
اک آنسو… ایسی برسات
دیکھو … اُس سے مت کرنا
کوئی ایسی ویسی بات
اب کیوں اس کا نام لیا
لو … اب جاگو ساری رات
دنیا سے جھگڑا کیا تھا
دنیا سے بھی کھائی مات …؟
کمرہ ہے اندر سے بند
کمرے میں لیٹی ہے رات
٭٭٭
عجیب نور سا چھنتا دکھائی دیتا ہے
ترے جمال کا پردہ دکھائی دیتا ہے
حصارِ خواب سے نکلوں تو آئینہ دیکھوں
یہ میں ہوں یا کوئی مجھ سا دکھائی دیتا ہے
یہ میرے ٹوٹتے بازو، یہ ڈوبتی کشتی
یہ ریگ زار تو دریا دکھائی دیتا ہے
یہ خواب کہتا ہے سوجاؤ کل پھر آئیں گے
تو دیکھ لیں ترا وعدہ دکھائی دیتا ہے
کوئی مرض تو نہیں ہے یہ میری آنکھوں کا
مجھے بس ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے
یہ کون کہتا ہے بس ایک ہی دوا ہے … زہر
یہ چارہ گر تو مسیحا دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
ملاقات
(ایک نظم عوض سعید کے لیے)
تم مرے دیدۂ حیران کو دیکھو گے تو حیران سے رہ جاؤ گے
مجھ کو معلوم ہے پہچان نہیں پاؤ گے
میں دکھاؤں گا تمہیں جب وہی گلیاں ، وہی سڑکیں ، وہی گھر
تم نے اک عمر گزاری جس میں
تم کہو گے یہ مرا گھر … یہ مرا شہر نہیں
میں کہوں گا یہ وہی شہر ہے، دیکھو … دیکھو …
یہ سڑک جس پہ کئی گھر تھے بہت پیڑ ہوا کرتے تھے
اب اگر ان کی جگہ صرف دو کانیں ہیں تو کیا
پہلے انساں تھے مگر ساتھ میں سائے بھی تو تھے
اب اگر صرف نقابیں ہیں تو کیا
اپنے معیار سے اس شہر کو اب مت آنکو
(اور تم پہلے بھی اس شہر کے باسی کب تھے)
آؤ … دیکھو مرے دل میں جھانکو
وہی گھر ہے وہی رستہ وہی دوکانیں ہیں
غور سے دیکھو وہ مسجد … وہ سڑک
اور وہ شاذؔ کا گھر
ہم جہاں روز ملا کرتے تھے
پھر میں کچھ سوچکے یکبارگی پلٹوں گا … کہوں گا … لیکن
تم ..مگر…، تم یہاں کیسے آئے …؟
تم سے ملنے تو مجھے آنا تھا …
(سچ ہے … تم پہلے بھی اس شہر کے باسی کب تھے)
… آسمانوں کے ہٹا کر پردے
جب میں پہنچوں گا وہاں
تم عجب نور کے پیکر میں مرے سامنے جب آؤ گے
میں کہوں گا کہ یہ روشن چہرہ ۔
تم نے دیکھا نہیں اپنا چہرہ ۔
اتنے آئینے میں لایا ہوں کہ حیران سے رہ جاؤ گے … !!
٭٭٭
فلسطین
(ایک اسرائیلی فوجی کا خط خدا کے نام)٭
خدائے لَم یزل
ہمارے ہاتھ میں تری کتاب ہے
(ترا عتاب ہے ..)
کہ ہم نے آج تک اسے پڑھا نہیں
تو کیا ہوا …
تو کیا ہوا
اگر ہمارے ان مزائلوں ،بَموں سے بستیاں ، مکاں ، دوکاں
اَن گنت جوان ، پیر، مرد و زَن
جو خاک و خون میں نہا گئے
اگر ہمارے ظلم سے زمین آسماں دونیم ہو گئے
وہ شیرخوار جو یتیم ہو گئے
تو کیا ہوا
تو کیا اُن ہی کا اب خدا ہے تُو
ہمارا تو خدا نہیں
نہیں ..نہیں …
خدائے لَم یزل .. نہیں … نہیں …
مجھے تو خوف ڈس رہا ہے اب
یہ کیسے لوگ ہیں جو قتل ہو چکے تھے
کیسے …کیسے ان کے ایک اک لہو کی بوندسے
کئی جوان اُٹھ کھڑے ہوئے
عجب پہاڑ آسمان اٹھ کھڑے ہوئے
یہ کیسی آگ ہے جو اُن کے ساتھ آئی ہے
میں ڈر رہا ہوں یہ ہماری روح، جسم و جان، زَر، زمین، عمارتیں سبھی لپیٹ لے،
یہ آگ بڑھتے بڑھتے ہم کو اپنی بانہہ میں سمیٹ لے
خدائے لَم یزل .. یہ جنگ ہم نے کیسی چھیڑ دی ہے …کیا کریں …
میں جس کو اپنی فتح کہہ رہا ہوں … یہ ترے عتاب کا سبب نہ ہو
یہ تیرا آخری غضب نہ ہو …!!
٭٭٭
٭ انگریزی روزنامہ ’’ہندو’‘ کی 17 دسمبر 2008ء کی اشاعت کے مطابق یروشلم کے اسرائیل پوسٹ میں کئی خطوط خدا کے نام “To God-Jerusalem” اِس پتے پر موصول ہوتے ہیں جو سال میں ایک بار کرسمس کے موقع پر کھولے جاتے ہیں … اُس سال (2008ء میں ) دو ہزار (2000) سے زیادہ خط آئے … ان خطوں کو (دیوارِ گریہ) "WAILING WALL” … ہیکل سلیمانی کا بچا ہوا حصہ جسے یہودی Kortelکہتے ہیں اور جہاں یہودی جمع ہو کر روتے ہیں ) اس دیوار کے رخنوں (Cracks) میں رکھ دیا جاتا ہے …
ممبئی۔۲۰۰۸
(دہشت گرد حملوں کے دن لکھی گئی نظم)
میں چائے پی رہا ہوں
بچوں سے کہتا ہوں خاموش رہو، مجھے لائیوLIVE) (کرکٹ دیکھنا ہے
لیکن میچ نہیں ہو رہا ہے …کیوں ؟
ارے … یہ تاج اوبرائے ہوٹل، اے کے رائفل گرینیڈ
یہ سب کیا ہے؟
یہ کیسی دلخراش چیخیں ہیں
اور یہ ارانَو بھٹاچاریہ ۱؎ ، یہ سہیل۲؎، راج دیپ سردیسائی ۳؎.. یہ کون ہیں
(کیا کہہ رہے ہیں … کیا سچ بولنا اتنا ہی ضروری ہے)
یہ کمانڈوز کہاں جا رہے ہیں … تینتالیس گھنٹے گزر گئے …
خود کو ایک کمرے میں بند کر کے وہ کیسے جیا
اور … وہ جو مرگیا
پاگل ہے … نارمان ہاؤس میں کیا کر رہا تھا
یہاں میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتا …
میں چینل بدلتا ہوں
سلمان خان ۴؎ ناچ رہا ہے
رانی مکرجی ۵؎ اپنی کھنکھناتی ہوئی آواز میں ہنس رہی ہے
ہاں … یہ ٹھیک ہے
لیکن میرے ہاتھ میں یہ ریموٹ
ارے … پھر وہی چینل
میں ٹی وی بند کرتا ہوں
تاکہ سب کچھ اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے
میں کتنا خوش ہوں
ہم سب مر چکے ہیں
میں ، ارانو، راج دیپ، سنجنا، سہیل، سلمان، رانی مکرجی
لیکن یہ کیا ..
ٹی وی سے پھر کچھ آوازیں نکل کر باہر آ گئی ہیں
کچھ چہرے، کچھ نام
جیسے کَرکرے۶؎ ، کامٹے۷؎ ، اُنی کرشنن ۸؎
اور ان کے پیچھے بھی ایک ہجوم ہے
(یہ لوگ مرتے کیوں نہیں )
اور مَیں … لیکن ہم سب تو مر چکے تھے
تو کیا ہم دوبارہ زندہ ہو گئے
یہ بہت بُرا ہوا
ممبئی، حیدرآباد .. اور اس سے بھی آگے .. بہت آگے
ایک چٹیل میدان ہے
تو کیا یہ عرفات کا میدان ہے
تو کیا اب ہمیں اپنا حساب دینا ہو گا … !!
٭٭٭
۱ …۲ …۳ …ARANAV BHATTACHARYA. SUHAIL. RAJDEEP SARDESAI. SANJANA (T.V.ANCHORS))
۴ …۵ …SALMAN KHAN. RANI MUKERJEE (CINE ACTORS))
۶ …۷ …۸ …HEMANT KARKARE. ATS CHIEF, NSG MAJOR SANDEEP UNNI KRISHNAN, ASHOK KAMTE . ADDL. COMMISSIONER OF POLICE, MUMBAI
سفر
اگر سفر میں ہوں
تو کس سفر میں ہوں
اگر یہی قیام ہے مرا
تو کس کی آنکھ میں ہوں …کس نظر میں ہوں
نہ جانے میرا رنگ روپ کیا ہے
جانے کیسے موسموں میں قید ہوں
ابھی تو میں لہو کی طرح سرخ تھا … رواں دواں
تو کیوں ٹھہر گیا … یہ خاک مجھ کو لائی ہے کہاں
اگر میں خاک ہوں
تو اپنے پاؤں سے ہی کیوں لپٹ گیا
اگر میں پیڑ تھا
تو میرے سارے برگ و بار … سرخ پھول … ہاتھ پاؤں ، گال …
زرد کیوں ہوئے
میں بجھ رہا ہوں
مری سانس کے الاؤ سرد کیوں ہوئے
وہ کون ہے … ؟
کس امتحاں میں مجھ کو ڈال کر چلا گیا
میں کس زمیں پہ ہوں
زمین گھومتی ہے.. گھومتی رہے گی.. اور میں ..مگر…
یہ میرے بال و پر …
میں کن خلاؤں سے کس آسمان میں گرا ..
مجھے اُٹھا رہا ہے وہ …
میں آ گیا…میں آ گیا…!!
٭٭٭
دو لہریں
تم جانے کیا سوچ رہی ہو
میں جانے کیا سوچ رہا ہوں
ہم دونوں اتنے پاس ہیں اور ہماری دنیائیں
کتنی الگ الگ ہیں
جیسے دریا کی دو موجیں
ملتی ہیں ، ٹکراتی ہیں ، کھو جاتی ہیں
لیکن اس وقت تو مجھ کو
تم بالکل ویسی ہی لگتی ہو
جیسی کل تھیں
(کل … ؟ تم ہنسنے لگتی ہو..)
اب تم تھوڑی سی موٹی ہو تو کیا ہے
(’’تھوڑی سی…’‘ تم پھر ہنسنے لگتی ہو..)
لیکن میرے بال بھی پہلے جیسے کالے کب ہیں
اور صفا چٹ داڑھی… ہلکی ہلکی مونچھیں
ارے … وہی تصویر تمہارے ہاتھ میں کیسے …؟
(بیتے دن لوٹ گئے ہوں جیسے …)
پھر بادل چھا جاتے ہیں اور بارش کی ننھی ننھی بوندیں
ان لہروں کو اپنی چادر سے ڈھک لیتی ہیں …لو …یہ کوٹ پہن لو
تم تو سرسے پاؤں تک اِس بارش میں بھیگ گئی ہو
لیکن تم تو اس صوفے پر … میرے پاس ہی بیٹھی ہو
میں کیا جانوں … اب ہم جو ہیں
میں کیا جانوں … تم کیا سوچ رہی ہو
میں کیا جانوں سچ کیا ہے
’کل‘ بھی ’آج‘ تھا ’آج‘ بھی ’کل‘ ہے
اور جو میں نے دیکھا… وہ بھی سچ ہے
ہم اتنے پاس ہیں جیسے دریا کی دو لہریں
مانا … اک لمحے کو لیکن آپس میں ملتی تو ہیں !!
٭٭٭
تھکن
مجھے اپنی تنہائی تو اچھی لگتی ہے … لیکن عجب خوف سابھی …
کبھی میر اجی چاہتا ہے کہ پہروں
شہر کی سب سے اونچی عمارت کی چھت پر
اکیلا ہی بیٹھا رہوں …
یہ دنیا کہ اک قید خانہ ہے اور شور اس میں بہت ہے
میں اس روح سے، جسم سے، اپنے کپڑوں سے باہر نکل آؤں
پیدل چلوں …
رات ہو… شہر ہو … شہر کی تیرہ سنسان سڑکیں ہوں … مَیں …
اور دیکھوں …
اس کرۂ ارض سے
آسماں تک
ترے آستاں تک
اپنے قدموں کے تنہا نشاں …
مگر اب بہت تھک گیا ہوں … بہت خوف آنے لگا ہے
خدایا …
مری روح کے تیرہ حیرت کدے میں
کوئی جگنو تو روشن ہو اب
بھلا اور کب تک
یہ بنجر زمیں …ان ستاروں کی سڑکوں پہ پیدل چلوں
چھت پہ بیٹھا رہوں
کیا کروں …؟!!
٭٭٭
جتنا پاتا نہیں ہوں ، کھوتا ہوں
عقل کی بے بسی پہ روتا ہوں
رات بھر رات ڈھونڈتی ہے مجھے
خواب کے آس پاس سوتا ہوں
تو مجھے ڈھونڈے اور تھک جائے
اس قدر تیرے پاس ہوتا ہوں
پہلے راتوں سے ہار جاتا تھا
اب تو دن میں بھی خود کو کھوتا ہوں
بیج لاتا ہوں آسمانوں سے
اور مِٹّی بچھا کے بوتا ہوں
دن ڈھلے اپنی یاد آتی ہے
رات آتی ہے اور روتا ہوں ٭٭٭
دُکھ کی آنکھیں نیلی ہیں
وہ ایسے روٹھی ہے مجھ سے
مجھے پاس نہیں آنے دے گی
کہتی ہے دور ہٹو… لیکن
مجھے دور نہیں جانے دے گی
جب اُس کے پاس میں آتا ہوں
کیا کہتا ہوں کچھ یاد نہیں
بس یاد اگر ہے … اتنا ہے
اِن آنکھوں میں … اُس تکیے پر
کچھ آنسو ہیں … کچھ موتی ہیں
یا اُن آنکھوں کی جھیلوں میں
اک کشتی ہے … کچھ تارے ہیں
یہ تارے ہیں یا جگنو ہیں
جس صوفے پر میں بیٹھا تھا
یہ اس کمرے کی کھڑکی سے
کیسے اُڑ اُڑ کر آئے ہیں
… … … … …
یہ بادل کیسے چھائے ہیں
جب اس کے پاس میں آتا ہوں
کچھ بوندیں میرے کاندھے پر
ٹَپ ٹَپ گرنے لگتی ہیں
کیا کہتا ہوں مَیں … یہ یاد نہیں
بس یاد اگر ہے اتنا ہے
جو بادل گھِر گھِر آئے تھے
سب بادل چَھٹنے لگتے ہیں
اُن اچھی آنکھوں میں روشن
روشن، روشن، رِم جھم، روشن
آنسو ہنسنے لگتے ہیں
٭٭٭
غروب
سورج غروب ہو رہا تھا
لفظ اور معنی …
سدا کے دشمن
ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا تھا
میری آواز لفظوں سے بھیگی ہوئی تھی
میں کچھ کہنا چاہتا تھا
مگر کیا کہہ رہا تھا
وہ کچھ سمجھی نہیں
بولی نہیں …
وہ کہتی بھی تو کیا کہتی
وہ تو …
جا رہی تھی !!
٭٭٭
کبھی وہ مہرباں ہوا تو ایسے مہرباں ہوا
ذرا ذرا سی بات پر ہمارا امتحاں ہوا
یہ جبر تھا وجود کا کہ عیشِ آگہی کہوں
کوئی بتائے تُو اگر نہ تھا تو میں کہاں ہوا
عجب ہوا چلی کہ میں وَرق وَرق بکھر گیا
جسے نہ پڑھ سکے کوئی اک ایسی داستاں ہوا
ملیں تو اس سے کیوں ملیں کہیں تو اس سے کیا کہیں
وہی تو دل میں رہ گیا نظر سے جو نہاں ہوا
زمیں …، فلک… سب اپنی ذات کی نشانیاں ملیں
میں جب سے بے اماں ہوا، میں جب سے بے نشاں ہوا
مجھے خبر نہ تھی کہ اک ہجوم میرے ساتھ ہے
میں اپنی راہ کیا چلا کہ میرِ کارواں ہوا
ہوا نے بڑھ کے تھام لیں مرے قدم کی لغزشیں
فرازِ کوہ سے گرا تو دشت میں رواں ہوا
٭٭٭
بدلتے موسم
میں خود کو اتنا پیچھے چھوڑ آیا ہوں
کہ میرے آنے والے صبح و شام کا نشان تک
کہیں نہیں …
مرا خیال بھی
عجیب ہمسفر تھا میرا
اتنا تیز رَو …
وہ میرا ہاتھ تھام کر
ہوا کے دوش پر اُڑا
کچھ اس طرح مُڑا … بڑھا
کہ میری منزلیں
راستے کی گرد ہو گئیں …
میں اپنی اس زمیں کی طرح بے سبب ہی گھومتا رہا
سفر کی خواہشیں … عجیب خواہشیں تھیں
میرے تن بدن میں آگ سی لگا کے سرد ہو گئیں
ذرا ہوا چلی کہ ہر چراغ بجھ گیا
سیاہ ابر … سبز خوشبوئیں
بدلتے موسموں کے ساتھ زرد ہو گئیں !!
٭٭٭
عجیب شخص ہے
عجیب شخص ہے
ذرا بھی سوچتا نہیں
کبھی پلٹ کے دیکھتا نہیں
اسے بس اپنے ہی سفر سے کام ہے
نَپے تُلے قدم
شجر حجر
وہ کوہسار ہوں کہ وادیاں
وہ بَس کا کیو ہو کار ہو جہاز ہو
ٹرین
پٹریاں
اسے کوئی غرض نہیں .. کوئی مکان ہو
کسی کی گود میں
کوئی ننھی جان ہو ..
کسی کی قبر کا نشان ہو …
عجیب شخص ہے
اُسے کوئی غرض نہیں … میں کون ہوں ؟
اُسے کوئی غرض نہیں ، وہ لوگ کیا ہوئے
ابھی ابھی جو میری آنکھ کے گھروں میں آئے تھے
وہ طاق …جس میں
میں نے اُن کے خال و خدسجائے تھے
وہ مدرسہ …
گلی کے موڑ پر جو اک دوکان تھی …
کئی مکان تھے
اور ان میں راج کرتی رانیاں
اذان کی صدا پہ کروٹیں بدلتی سوتی جاگتی جوانیاں
کواڑ پر ٹنگی ہوئی
وہ اونچی اونچی شیروانیاں …
وہ کون ہے ؟
میں جس کے ساتھ اس طرح چلا
کہ اب نہ میرے ساتھ کوئی آئے گا
نہ اب کسی کو یاد آؤں میں
اُسے کوئی غرض نہیں
یہ میرے روز و شب کے سرخ پھول
زرد پتیّاں
انھیں اٹھاؤ ں میں …؟
یہ حسرتوں کی ڈسٹ بِن
یہیں پہ چھوڑ جاؤں میں … !!
٭٭٭
حکایتِ دلِ محزوں نہ قصۂ مجنوں
کسی کی بات سنوں میں ، نہ اپنی بات کہوں
تو میں وہی ہوں جسے وہ عزیز رکھتا تھا
میں خود کو سوچ تو لوں … آئینے میں دیکھ تو لوں
تو جس لباس میں کل اُس نے مجھ کو دیکھا تھا
وہی قمیص پہن کر اُدھر سے پھر گزروں
وہ ایک لمحہ… اَزل تا اَبد وہی لمحہ
وہ مجھ سے کچھ نہ کہے، میں بھی اُس سے کچھ نہ کہوں
وہ بھول جائے مجھے، اُس کو بھول جاؤں میں
چراغِ جاں اسے نسیاں کے طاق پر رکھ دوں
٭٭٭
تماشائی
تم اپنی اِننگ (Inning) کھیل چکے
ٹی – وی پر
کچھ دیر کمنٹری باکس ((Commentary Box میں رہو گے
کیوں کہ تم کھیل کے بارے میں بہتر جانتے ہو
اور تمہیں بولنا جو آتا ہے
کپڑے پہننے کا سلیقہ بھی …
لیکن تم بھی
اپنے سائے میں مدغم ہو کر
کہیں کھو جاؤ گے
اور ہم …
محض تماشائی
ہم نہیں جانتے
کبھی کیمرے کی اُچٹتی نگاہ
ہم پر پڑی بھی یا نہیں
ہم نے کبھی مائک (MIKE) نہیں تھاما ،
ہم تو بس خاموش آئے تھے
اور خاموش گزر جائیں گے !!
٭٭٭
بُتوں کو دیکھ کے
…۱؎
خدایا …
تری پاکیزگی کا
ابھی احساس ہونا مجھ کو باقی ہے
کھُلی چھت اور نیلا آسماں
چاند تاروں کا سماں …
ابھی دیکھا نہیں میں نے
شکستہ زینہ اس چھت کا
یہ کچھ ٹوٹی ہوئی اینٹیں
یہ میری پہلی سیڑھی ہے
اِسی سیڑھی پہ بیٹھا
ابھی میں پڑھ رہا ہوں
(ایک اِک لفظ پر رُک کر)
اوہان پامک کو بیدی اور منٹو
میرؔ،میرؔا جی کو، مومنؔ اور غالبؔ کو
تری پاکیزگی کا
ابھی احسا س ہونا مجھ کو باقی ہے !!
٭٭٭
۱؎ بتوں کو دیکھ کے سب نے خُدا کو پہچانا
خُدا کے گھر تو کوئی بندۂ خُدا نہ گیا
(یگانہؔ)
ستارہ یا آسمان
میں بہت دور چلا جاؤں گا
اس ستارے کی طرح (تیرہ خلاؤں میں کہیں ) ..میں نے جسے
اپنی آنکھوں کے اندھیرے میں چھپا رکھا ہے
اب تمہیں یاد مری آئے نہ آئے
(یا مجھے یاد نہ آئے اپنی)
ایسی باتوں میں بھی رکھا ہے
لیکن اس وقت تو یہ قطرۂ خوں جو مری آنکھوں مرے سینے میں ہے باقی
… اِس نے
آسماں سرپہ اٹھا رکھا ہے
کیا کروں تم ہی اگر زینہ بہ زینہ مرے ہمراہ چلو
میری سانسوں پہ اگر پاؤں رکھو
اپنی نظروں سے کہو
اک قدم اور اُٹھائیں مری پلکوں پہ مری آنکھو ں پر
خوں کی گردش کا نظارہ دیکھیں
ایک آنسو میں ہے کیا کیا دیکھیں
آسماں ہے کہ ستارہ دیکھیں …!!
٭٭٭
بوڑھی بدصورت عورتیں
مجھے بوڑھی بدصورت عورتیں اچھی لگتی ہیں
خزاں کے سارے رنگ
صحراؤں کی خاک
اُنہوں نے اپنے دامن میں سمیٹ لی ہے
اُن کی بے ہنگم چال
بے ڈول جسموں اور بھدے نقوش نے
آسمان میں نئے رنگ بھر دیئے ہیں
گلشن کے سارے پھول
بادل، تتلیاں
افق کی بالکنی سے اترتی ہوئی سورج کی کرنیں
سب انہیں پرنام کرتے ہیں
اُن کے چرنوں کو چھوکر
اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں
لو… سورج بھی ڈوب گیا
اور وہ ابھی تک پارک میں ایک بنچ پر بیٹھی باتیں کر رہی ہیں
بچّے … ہنستے ، مسکراتے شریر بچّوں نے
اُن کے گرد ہالہ بنا لیا ہے
سمجھ میں نہیں آتا … یہ چاند ہے یا اس کا داغ
جس نے آسمان کو روشن کر رکھا ہے !!
٭٭٭
میں تھا تو کیوں مرا کوئی نام و نشاں نہ تھا
میری کوئی زمین نہ تھی، آسماں نہ تھا
اُس کی طلب میں ہاتھ اُسی سے چھڑا لیا
اب اُس کو کیا بتاؤں کہاں تھا کہاں نہ تھا
ساحل پہ اک ریت کا گھر تھا وہ اب کہاں
اک لہر ایسی آئی کہ ساحل وہاں نہ تھا
اچھا بھلا میں لیٹا تھا اب اتنی رات کو
اتنا وہ یاد آئے گا ایسا گماں نہ تھا
اس عشق میں تو اور بھی مشکل یہ آ پڑی
دل کا اگر زیاں تھا تو جاں کا زیاں نہ تھا
مجھ پر بس اک نگاہ کی اور ہنس کے رہ گیا
میں وہ سُبک کہ طبع پہ اس کی گراں نہ تھا
بچّے تو تھے مرے ہی بڑے ہو گئے تھے اب
آیا میں لوٹ کر تو یہ میرا مکاں نہ تھا
٭٭٭
بچھڑ کر بھی اُس کے اثر میں رہا
فلک سے جو ٹوٹا شجر میں رہا
مری آنکھ کیا اس کا آئینہ تھی
وہ میری میں اس کی نظر میں رہا
میں آزاد ہر قیدسے وقت کی
عجب لمحۂ مختصر میں رہا
میں سویا کہ جاگا اُسے کیا خبر
وہ اپنے ہی شام و سحر میں رہا
مری منزلیں گرد، آنکھیں تھیں نَم
عجب حلقۂ بحر و بَر میں رہا
یہ دنیا نہ میری نہ دنیا کا میں
تو کیا کرتا اپنے ہی گھر میں رہا
مری قبر ردّی کی دوکان میں
ہر اخبار میں ہر خبر میں رہا
رہی اک ستارے پہ میری نظر
مگر اپنے ہی بال و پَر میں رہا
کھُلی آنکھ صبحِ قیامت مری
تومیں رات بھر کس کے گھر میں رہا ..
٭٭٭
دوسرا پتّھر
دوسراپتّھر جیسے ہی میری جانب آیا
میں نے سب کے ہاتھوں میں پتّھر دیکھے
(اُن کے نشانے کوئی ایسے ویسے…)
اب میں خود کو دیکھوں ؟ … میرے آگے پیچھے
دریا، بادل، میداں ، ریت کے ٹیلے
میرے لہو میں اُبھرے… ڈوبے
یہ تو اک دن ہونا ہی تھا
میں کیا کرتا…
وہ بھی آخر کیا کرتی
پہلا پتھر اس نے پھینکا
دوسرا پتھر …
(جب میں خود سے بھاگ رہا تھا)
میں نے خود پر پھینکا تھا… !!
٭٭٭
جب میں اپنے اندر جھانک رہا تھا
جب میں اپنے اندر جھانک رہا تھا
ایک کنواں تھا
ڈول میں اس میں ڈال رہا تھا
اک رسّی سانسوں کی
میرے اشکوں میں بھیگی
اوپر نیچے آتی جاتی…
میں ا س کو باہر
وہ مجھ کو اندر کھینچ رہا تھا… !!
٭٭٭
صحرا صحرا
میں کیوں اک کمرے میں … اک کرسی پر بیٹھا
اپنے اندر چلتے چلتے تھک جاتا ہوں
بچپن کی تصویریں … یادیں
گھٹنے میں جو چوٹ لگی تھی
ہاتھ سے مِٹّی چھان کے بہتے خون کو کیسے روک لیا تھا
وہ مکتب، کالج، دفتر، گھر…
اوبڑ کھابڑ رستے …
گرتے پڑتے کیا بتلاؤں
کیسے اپنے گھر آیا ہوں
کن بازاروں سے گزرا ہوں
ہر چہرہ تھا، پتھر کا
ہر دوکان تھی شیشے کی
ہر دیوار سے ٹکرایا ہوں
اب اپنے زخموں کو گنتا ہوں
اور وہ چوٹیں کہاں چھپی بیٹھی ہیں
جن کا لہو
اندر ہی اندر بہتا ہے
اک کرسی پر بیٹھا
دیوار و در کو تکتے
اک کاغذ پر..صحرا ..صحرا ..لکھتے
میں اپنے ہی اندر
چلتے چلتے تھک جاتا ہوں ..!!
٭٭٭
سوانح عمری
میں نے اپنی عمر کا سرکش گھوڑا
یادوں کے اک پیڑ سے باندھا
میرا لنگڑاتا بڑھاپا
ستّر… اُس کے سائے سائے پچپن
میرا گھر…میرا دفتر
میری جوانی …میرا بچپن
تئیس …بائیس اُن کے پیچھے تیرہ، بارہ
میرے گاؤں کا چوبارہ ….
مجھ کو تو یہ سارا منظر
پَل پَل اپنا روپ بدلتا منظر
دھندلا دھندلا سالگتا ہے
میری میز پہ معنی کا اک بُت تھا
میں نے اس کی پتھر آنکھوں …پتھر ہونٹوں پر
تھوڑا سالفظوں کا پانی … تھوڑی سی وہسکی چھڑکی
اب دیکھوں تو میرا آئینہ ُدھلادُھلاسا
اب سارا منظر اچھا لگتا ہے !!
٭٭٭
خواب دیکھے تھے جس کے دیکھو تو
یہی چہرہ ہے ہُو بَہُو وہ تو
میں نے یہ کس کا ہاتھ تھام لیا
منزلوں کا غبار دیکھو تو
ساتھ دینا ہے اس کو دنیا کا
زیست کرنی ہے اس کو سمجھو تو
بار بار اس کا دل دکھاتے ہو
وہ بھی پتھر نہیں ہے سوچو تو
کیسی آہٹ لہو میں تیر گئی
کون باہر کھڑا ہے دیکھو تو
میں ابھی خود کو لے کے آتا ہوں
تم اِدھر میرے پاس بیٹھو تو
کل سُنا پہلی بار مصحفؔ کو
شاعر اچھا لگا ہمیں وہ تو
٭٭٭
تو کیا اُس خواب ہی میں سوگئے ہم
اُسی کے تھے اُسی کے ہو گئے ہم
شجر اک ریت کا صحرائے جاں میں
یہ کیسا بیج تھا کیا بو گئے ہم
وہ مل جائے تو جائیں خود کو ڈھونڈیں
اُسے ڈھونڈا ہے اتنا کھو گئے ہم
اک آنسو وقت کی پلکوں پہ لرزاں
ابھی آئے نہیں .. دیکھو.. گئے ہم
قسم لے لو…کبھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے اس گلی میں کھو گئے ہم
پھر آنکھیں ہم نے اپنی بند کر لیں
پھر اُن راتوں سے رخصت ہو گئے ہم ٭٭٭
اپنے گھر میں ہی رہے، گھر سے جو باہر نکلے
ہم تری یاد کی خوشبو سے معطّر نکلے
آئینہ خانہ ہوئی آنکھ جو دل بھر آیا
تیری محفل میں تجھے، تجھ سے چھپا کر نکلے
عقل کے کہنے پہ جس موڑ پہ ہم آ پہنچے
کاش منزل نہ ہو یہ راہ کا پتھر نکلے
روح گھائل ہے بہت جسم لہو سے تَر ہے
بارشِ سنگ میں ہم آج کھُلے سَرنکلے
کس ستارے کی نِدا آئی کہو آخر شب
مصحفؔ اِس وقت کہاں باندھ کے بستر نکلے
٭٭٭
٭٭٭
تشکر: مصحف اقبال توصیفی جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید